البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313902 / ڈاؤنلوڈ: 9311
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

متقدمین اور متاخرین میں اہل تحقیق کا صحیح نظریہ یہی ہے۔ اسی کی امام حافظ ابوعمرو عثمان بن سعید دانی نے تصریح کی ہے۔ امام ابو محمد مکی بن ابی طالب نے متعدد مقامات پر اور امام ابو العباس احمد بن عمار المھدوی نے صاف الفاظ میں اسی نظریہ کو بیان کیا ہے۔ امام حافظ ابو القاسم عبد الرحمن بن اسماعیل المعروف ابی شامہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پر گذشتہ علماء کا اتفاق ہے اور اس کا کوئی مخالف دیکھنے میں نہیں آتا۔

۲۔ ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد الوجیز،، میں لکھتے ہیں:

''کبھی بھی ہر اس قراءت جو ان سات قاریوں میں سے کسی ایک کی طرف منسوب ہو، سے فریب نہ کھائیں اور اس پر مہر صحت ثبت نہ کریں اور نہ ہی یہ سمجھیں کہ قرآن اسی قراءت کے مطابق نازل ہوا ہے مگر یہ کہ صحت قراءت کے قواعد و ضوابط اس پر منطبق ہوں اور یہ شرائط صحت پر مشتمل ہو تو پھر اس کا ناقل تنہاایک مصنف نہیں ہوگا بلکہ یہ قراءت اجماعی ہوگی۔ کیونکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ صحت کی شرائط موجود ہیں یا نہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ قراءت کس قاری سے منسوب ہے۔ جتنی قراءتیں بھی ان سات قاریوں یا کسی اور قاری سے منسوب ہیں وہ دو قسم کی ہیں۔

i ) متفق علیہ۔

ii ) شاذ۔

لیکن چونکہ ان سات قاریوں کی شہرت ہے اور ان کی قراءتوں میں صحیح و اجماعی قراءتوں کی کثرت ہے اس لیے دوسروں کی نسبت ان کی قراءتوں پر انسان زیادہ مطمئن ہوتا ہے۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر، ج ۱، ص ۹۔

۲۰۱

۳۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''بعض متاخری نے قراءت کی صحت سند پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس میں تواتر کو شرط قرار دیا ہے۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ قرآن خبر متواتر ہی ثابت ہوتا ہے خبر واحد سے نہیں۔ مخفی نہ رہے کہ یہ قول خالی از اشکال نہیں ہے۔ اس لی ےکہ جب کوئی قراءت تواتر سے ثابت ہو تو پھر باقی دو شرطوں لغت عرب اور عثمانی قرآن سے مطابقت کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ جو اختلافی قراءت بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہوگی اس کو تسلیم کرنا لازمی ہوگا اور اس کے قراّ ہونے کا یقین حاصل ہوگا چاہے باقی شرائط اس میں موجود ہوں یا نہ ہوں اور اگر ہر اختلافی قراءت میں تواتر شرط ہو تو بہت ساری اختلافی قراءتیں جو سات مشہور قاریوں سے منقول ہیں باطل ثابت ہوں گی۔ پہلے میں اس نظریئے کی طرف رحجان اور جھکاؤ رکھتا تھا۔ بعد میں میرے نزدیک اس کا بطلان ثابت ہوا اور میں نے ان موجودہ اور گذشتہ علماء کرام کی رائے کو اپنایا جو تواتر شرط نہیں سمجھتے۔،،

۴۔ امام ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد،، میں فرماتے ہیں:

''متاخرین میں سے بعض اساتذہئ قراءت اور ان کے تابعین میں یہ مشہور ہے کہ قرااءات ہفتگانہ (سات قراءتیں) سب کی سب متواتر ہیں یعنی ان سات قاریوں میں سے ہر ایک کی ہر قراءت متواتر ہے۔ متاخرین مزید کہتے ہیں: اس بات کا یقین رکھنا بھی لازمی ہے کہ یہ قراءتیں اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ ہم بھی اسی کے قائل ہیں لیکن صرف ان قراءتوں میں جن کی سند نقل میں سب متفق ہوں، تمام فرقوں کا ان پر اتفاق ہو اور ان کا کوئی منکر نہ ہو، جبکہ ان قراءتوں میں اختلافات کثرت سے ہیں اور ان کے منکرین بھی بہت سے ہیں۔ بنابرایں اگر کوئی قراءت تواتر سے ثابت نہیں ہوت تو کم از کم اسے مختلف فیہ بھی نہیں ہونا چاہیے اور اس کا انکار کرنے والے بھی موجود نہیں ہونے چاہیں۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر،ج ۱، ص ۱۳۔

۲۰۲

۵۔ سیوطی فرماتے ہیں:

''قراءت کے موضوع پر سب سے عمدہ کلام اپنے دور کے امام القراء اور استاذ الاساتید ابوالخیر ابن جزری کا ہے۔ وہ اپنی کتاب ''النشر فی القراءات العشر،، میں فرماتے ہیں: ہر وہ قراءت جو لغت عرب اور عثمانی قرآنوں کے کسی نسخے کے مطابق ہو اور اس کی سند صحیح ہو وہ قراءت صحیح سمجھی جائے گی۔،،

اس کے بعد سیوطی فرماتے ہیں:

''میں تو یہ کہوں گا، ابن جزری نے اس باب میں نہایت مضبوط اور مستحکم بات کہی ہے۔،،(۱)

۶۔ ابو شامہ''کتاب البسملة،، میں فرماتے ہیں:

''ہم ان کلمات میں تواتر کے قائل نہیں جن کے بارے میں قاریوں میں اختلاف ہے کہ بلکہ تمام قراءتوں میں بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر اوریہ بات اہل انصاف و معرفت اور مختلف قراءتوں پر عبور رکھنے والوں کے لیے واضح ہے۔،،(۲)

۷۔ بعض علماء فرماتے ہیں:

''آج تک اصولیین میں سے کسی نے بھی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں البتہ بعضوں نے کہا ہے کہ قراءتیں سات مشہور قاریوں سے بطور تواتر ثابت ہیں لیکن کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر ثابت ہونااشکال سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ ان قاریوں نے خبر واحد کے ذریعے قراءتوں کو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منسوب کیا ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) الاتقان النوع ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۲۹۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۲۔

(۳) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۳

۸۔ علماء حدیث میں سے بعض متاءخرین کا کہنا ہے:

''کچھ اصولی حضرت قرااءات ہفتگانہ اور بعض حضرات دس قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی علمی دلیل نہی ںہے۔ اس کے علاوہ قاریوں ہی کی ایک جماعت نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ انہی سات قراءتوں میں سے بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر (آحاد) ہیں۔ ان قاریوں میں سے کسی نے بھی سات کی سات قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا چہ جائیکہ دس کی دس قراءتیں متواتر ہوں۔ البتہ بعض علماء اصول تمام قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اہل فن ہی اپنے فن کے بارے میں دوسروں سے زیادہ آگاہ اور آشنا ہوا کرتے ہیں۔(۱)

۹۔ قراءتوں کے بارے میں مکّی کہتے ہیں:

''بعض حضرات صرف ان قراءتوں کو معتبر اور قابل عمل سمجھتے ہیں جن پر نافع اور عاصم متفق ہوں، کیونکہ باقی قراءتوں میں سے ان کی قراءت افضل، سند کے اعتبار سے صحیح اور عربی لغت کے اعتبار سے زیادہ فصیح ہے۔،،(۲)

۱۰۔ جن حضرات نے قرائتوں حتی کہ قرااءات ہفتگانہ کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے ان میں شیخ محمد سعید العریان بھی شامل ہے۔ اس نے اپنی ''تعلیقات،، میں اس کا ذکر کیا ہے، یہ فرماتے ہیں:

''تمام کی تمام قراءتیں، حتی کہ قراءات ہفتگانہ بھی شاذ اور نامشہور قراءتوں سے خالی نہیں ہےں۔،،

یہ مزید فرماتے ہیں:

''علماء کرام کے نزدیک موثق سندکے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح قراءت نافع اور عاصم کی ہے اور فصاحت کے دیگر پہلوؤں کے اعتبار سے ابوعمرو اور کسائی کی ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) ایضاً، ص ۱۰۶۔

(۲) ایضاً، ص ۹۰۔

(۳) اعجاز القرآن، رافعی، طبع چہارم، ص ۵۲۔۵۳۔

۲۰۴

اقوال علماء میں قراءتوں کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے کو نقل کرنے میں اب تک ہم نے اختصار سے کام لیا ہے۔ اس کے بعد بھی ہم مزید علماء کرام کے اعترافات نقل کریں گے۔

خدا را ذرا غور فرمائیے! کیا اتنے علماء کرام کی تصریحات کے باوجود بھی قراءتوں کے متواتر ہونے کے دعویٰ کی کوئی وقعت و ارزش باقی رہتی ہے؟

کیا یہ ممکن ہے کہ بغیر کسی دلیل کے صرف تقلید اور بعض افراد کے دعویٰ بلا دلیل کی بنیاد پر تواتر قراءت کو ثابت کیا جائے خصوصاً جب انسان کا وجدان بھی اس قسم کے دعویٰ کی تکذیب کرے؟

مجھے اس سے زیادہ تعجب اندلس کے مفتی پر ہو رہا ہے جس نے ان لوگوں کے کفر کا فتویٰ صادر کردیا جو تواتر قراءت کے منکر ہیں!!!۔

بفرض تسلیم، اگر قراءتیں بالاتفاق متواتر بھی ہوں تب بھی جب تک یہ ضروریات دین میں سے نہ ہوں، ان کا منکر کافر نہیںگردانا جاسکتا۔

فرض کیجئے! اس خیالی تواتر کی وجہ سے قراءت ضروریات دین میں سے قرار پائے تو کیا اس کے انکار سے وہ آدمی بھی کافر ہو جاتا ہے جس کے نزدیک ان کا متواتر ہونا ثابت نہیں ہے؟

اے اللہ! یہ تیری بارگاہ میں جراءت، جسارت، تیری حدود سے تجاوز اور مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں!!!

۲۰۵

تواتر قراءت کے دلائل

جو حضرات قراءت ہفتگانہ کے قائل ہیں انہوں نے اپنے دعویٰ پر چند دلائل پیش کئے ہیں:

۱۔ ان حضرات نے تواتر قراءت پر موجودہ اورگذشتہ علماء کرام کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

ہمارے گذشتہ بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دعویٰ باطل اور بے بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے اتفاق سے اجماع وجود میں نہیں آتا جبکہ دوسروں کے مخالفت بھی موجود ہےں۔ انشاء اللہ آئندہ کسی مناسب موقع پر ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے۔

۲۔ صحابہ کرام اور ان کے تابعین، قرآن کو جس اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن کی قراءت متواتر ہو اور یہ ہر مصنف مزاج اور حقیقت طلب انسان کے لیے ایک واضح حقیقت ہے۔

جواب:

اس دلیل سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود قرآن متواتر ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قراءتوں کی کیفیتیں بھی متواتر ہیں۔ خصوصیاً جب اکثر علمائے قراءت کی قراءتیں ان کے ذاتی اجتہاد یا ایک دو آدمیوں کی نقل پر مبنی ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ مباحث میں آپ نے ملاحظہ فرمایا۔

اگر اس دلیل میں یہ قسم موجود نہ ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہیں، صرف سات یا دس قراءتوں کے متواتر ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

جیسا کہ ہم بعد میں وضاحت کریں گے کہ قراءتوں کو سات میں منحصر کرنے کا عمل تیسری صدی ہجری میں انجام دیا گیا اور اس سے پہلے اس کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ بنابرایں یا تو تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر ہونا چاہیے یا پھر کسی بھی قراءت کو متواتر نہیں ہونا چاہیے۔

۲۰۶

پہلا احتمال تو مسلماً باطل ہے اس لیے لامحالہ ماننا پڑے گا کہ دوسرا احتمال و نظریہ صحیح اور قابل قبول ہے۔

۳۔ اگر قرااءات ہفتگانہ متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن مجید بھی متواتر نہ ہو اور قرآن کا متواتر نہ ہونا یقیناً باطل ہے جو محتاج بیان نہیں۔ لہذا قراءتوں کا متواتر نہ ہونا بھی باطل ہے۔ قراءتوں کے متواتر نہ ہونے سے قرآن کا متواتر نہ ہونا لازم آتا ہے۔ چونکہ قرآن ہم تک حافظان قرآن اور مشہور و معروف قاریوں کے ذریعے پہنچا ہے اس لیے اگر ان قاریوں کی قراءتیں متواتر ہونگی تو قرآن بھی متواتر ہوگا ورنہ قران بھی متواتر نہیں ہوگا، لہذا لامحالہ ماننا پڑے گا کہ قراءتیں متواتر ہیں۔

جواب:

اولاً:تواتر قرآن کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قراءتیں بھی متواتر ہیں۔ کیونکہ کسی کلمہ کی کیفیت اور ادائیگی میں اختلاف اصل کلمہ پر اتفاق ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے ہم دیکتے ہیں کہ ''متنبی،، کے قصیدوں کے الفاظ میں بعض راویوں کا احتلاف کرنا اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اصل قصیدہ بھی اس سے متواتراً ثابت نہ ہو۔ اسی طرح ہجرت رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خصوصیات میں راویوں کا اختلاف اصل ہجرت کے متواتر ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔

ثانیاً: قاریوں کے ذریعے جو چیز ہم تک پہنچی ہے وہ ان کی قراءتوں کی خصوصیات ہیں اور جہاں تک اصل قرآن کا تعلق ہے وہ مسلمانوں میں تواتر کے ذریعے ہم تک پہنچا اور گذشتہ مسلمانوں سے آنے والے مسلمانوں میں منتقل ہونے سے ثابت ہوا جو کہ ان کے سینوں اور تحریروں میں محفوظ تھھا۔ اصل قران کی نقل میں قاری حضرات کا کوئی دخل نہیں ہے، اسی لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ سات یا دس قاری موجود نہ ہوتے تب بھی قرآن کریم بطور تواتر موجود ہوتا اور کلام مجید کی عظمت و شرف اس سے بالاتر ہے کہ چند گنے چنے افراد کی نقل پر یہ موقوف و منحصر ہو۔

۲۰۷

۴۔ اگر قراءتیں متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن کے بعض حصے متواتر نہیں ہیں جس طرح ''ملک یوم الدین،، اور ''مالک یوم الدین،، ہے۔ کیونکہ اگر ان میں سے صرف ایک کو متواتر سمجھیں گے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہوگا، جو باطل ہے۔ اس دلیل کو ابن حاجب اور پھر علماء کی ایک جماعت نے اسی کی پیروی میں ذکر کیا ہے۔

جواب:

اولاً: اس دلیل کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہوں اور صرف سات قراءتوں کو متواتر قرار دینا دعویٰ بلادلیل ہے جو باطل ہے۔ خصوصاً جب دوسرے قاریوں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ان سات قاریوں سے زیادہ باعظمت اور زیادہ موثق ہیں جس کا بعض حضرات نے اعتراف بھی کی ہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سات مشہور قاری دوسروں سے زیادہ باوثوق اور جہاتِ قراءت کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی قراءتیں متواتر ہیں اور دوسرے قاریوں کی قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔

ہاں، یہ بات قابل قبول ہے کہ عمل کے مقام پر ان کی قراءت کو ترجیح دی جائے گی۔ لیکن کسی قراءت کا مقدم سمجھا جانا اور بات ہے اور اس جا متواتر ہونا دوسری بات ہے بلکہ ان دونوں میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہے اور تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر قرار دینا مسلماً باطل ہے۔

ثانیاً: قراءتوں میں اختلاف اس چیز کا باعث بنتا ہے کہ قرآن کو غیر قرآن سے تمیز نہ دی جاسکے۔ البتہ یہ ابہام الفاظ قرآن کی ہیئت (شکل و صورت) اور اعراب قرآن کے اعتبار سے پایا جائے گا، یعنی یہ معلوم نہ ہوگا کہ کون سی ہیئت اور اعراب قرآن ہیں اور کون سے نہیں اور یہ اصل قرآن کے متواتر ہوے کے منافی نہیں ہے۔

۲۰۸

بنابرایں مادہئ قرآن (مفردات قرآن) متواتر ہے اور صرف اس کی مخصوص شکل و صورت اور اعراب (زبر زیر پیش) مختلف فیہ ہیں اور ان دو یا دو سے زیادہ کیفیتوں اور حالتوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور قرآن ہے اگرچہ ہم اس کیفیت و حالت کوخصوصیت سے نہ جائیں۔

تتمہ

حق یہ ہے کہ قرآن کے متواتر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قراءتیں بھی متواتر ہوں۔ چنانچہ اس حقیقت کا ''زرقانی،، نے اعتراف کیا ہے وہ فرماتے ہیں:

''بعض علماء نے سا ت قراءتوں کی تائید و تقویت میں مبالغہ سے کام لیا ہے اور کہا کہ قراءتوں میں تواتر کو ضروری نہ سمجھنا کفر ہے کیونکہ قراءتوں میں تواتر کا انکار قرآن کے متواتر نہ ہونے پر منتج ہوتا ہے (یعنی قراءتوں کے تواتر میں انکار کا نتیجہ تواتر قرآن کا انکار ہے) یہ رائے مفتیئ اندلس استاد ابی سعید فرج بن لب کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ اس نے اپنا نظریہ پیش کرنے کی کافی کوشش کی ہے اور اپنے نظریئے کی تائید میں ایک بڑا سا رسالہ بھی لکھا ہے اور اپنے نظریئے پر ہونے پر والے اشکالات کا جواب دیا ہے۔ مگر اس کی دلیل اس کے مدعا کو ثابت نہیں کرتی، کیونکہ قرااءات ہفتگانہ کے عدم تواتر کے قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قرآن بھی متواتر نہ ہو۔ اس لیے کہ اصل قرآن اور قرآن کی قراءتوں میں بہت فرق ہے اور عین ممکن ہے کہ قرآن ان سات قراءتوں کے بغیر بھی متواتر ہو یا ان الفاظ میں متواتر ہو جن پر تمام قاریوں کا اتفاق ہے یا اس مقدار میں متواتر ہو کہ جس پر اتنے افراد متفق ہیں جن کے کذب پر متفق ہونے کا خدشہ نہیں ہے۔ چاہے یہ لوگ قاری ہوں یا نہ ہوں۔،،(۱)

بعض علمائے کرام نے فرمایا ہے: ''تواتر قرآن سے قراءتوں کا متواتر ہونا لازم نہیں آتا اور علمائے اصول میں سے کسی نے آج تک اس بات کی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں اور یہ کہ قرآن کا متواتر ہونا قراءتوں کے متواتر ہونے پر موقوف ہے، البتہ ابن حاجب نے یہ بات کہیں ہے۔،،(۲)

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۲۸۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۹

زرکشی ''برہان،، میں لکھتے ہیں:

''قرآن اور قراءتیں دو مختلف حقائق ہیں، قرآن وہ وحی الہٰی ہے جو محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بیان احکام اور اعجاز کی غرض سے نازل ہوا اور قراءتیں وحی کے مختلف تلفظ، لہجہ، لفظی کیفیت مثلاً شد اور جزم وغیرہ سے عبارت ہیں، اکثر علماء کے نزدیک سات قراءتیں متواتر ہیں اور بعض کے نزدیک یہ متواتر نہیں بلکہ مشہور ہیں۔،،

آگے چل کر زرکشی کہتے ہیں:

''بتحقیق یہ قراءتیں سات قاریوں سے متواتر منقول ہیں لیکن ان کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے متواتر منقول ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے کیونکہ جس سلسلہ سند سے یہ روائتیں نقل کی گئی ہیں وہ قراءت کی کتب میں مذکور ہے اور اس میں صرف ایک راوی نے ایک راوی سے نق لکی ہے۔،،(۱)

قراءتیں اور سات اسلوب

کبھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس کے بعد اس بات کے ثبوت میں کہ یہ سات قراءتیں قرآن میں داخل ہیں، ان احادیث و روایات سے تمسک کیا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

اس غلط فہمی کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا لازمی ہے کہ علماء کرام اور محققین میں سے کوئی بھی اس توہم کا شکار نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ہم ان روایات کو تسلیم نہیں کرتے۔ ابھی ہم ان روایات کا ذکر نہیں کرتے آئندہ تفصیل سے بات ان کا ذکرکیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

____________________

(۱) الاتقان النوع، ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

۲۱۰

اس سلسلے میں ہم شروع میں جزائری کا کلام پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:

''سات قراءتوں کو باقی قراءتوں پر کوئی امتیاز حاصل نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد نے تیسری صدی کے آغاز میں بغداد میں بیٹھ کر مکّہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور شام کے علماء قراءت میں سے سات قاریوں نافع، عبد اللہ بن کثیر، ابو عمرو بن علائ، عبد اللہ بن عامر، عاصم، حمزہ اور کسائی کا انتخاب کیا۔ اس سے لوگوں کو یہ وہم ہونے لگا کہ یہ سات قراءتیں وہی سات حروف ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بعض علماء نے ان سات عدد قراءتوں کے انتخاب کیا ہے انتہائی نامناسب عمل انجام دیا ہے۔ کیونکہ کم فکر افراد اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ روایات میں موجود سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس لیے بہتر یہ تھا کہ سات سے کم یا زیادہ کا

انتخاب کیا جاتا تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوتے۔،،

استاد اسماعیل بن ابراہیم بن محمد قراب کتاب شافی میں لکھتے ہیں:

''صرف سات قراءتوں کے انتخاب ان کی تائید کرنے اور دوسری قراءتوں کو باطل قرار دینے کی کوئی دلیل نہی ںہے یہ تو بعض متاخرین کا کارنامہ ہے جن کو سات سے زیادہ قراءتوں کا علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ''کتاب السبعہ،، رکھ دیا اس کتاب کی لوگوں میں تشہیر کی گئی اور یہ سات مشہور قراءتوں کی بنیاد و دلیل قرار پائی۔،،

امام ابو محمد مکّی فرماتے ہیں:

''ائمہ قراءت نے اپنی کتاب میں ستر سے زیادہ ایسے افراد کا ذکر کیا ہے جن کا مرتبہ ان سات مشہور قاریوں سے بلند ہے۔ اس کے باوجود یہ احتمال کیسے دیا جاسکتا ہے کہ ان سات قاریوں کی قراءتیں وہی سات حروف ہیں جن کا ذکر روایات میں ہوا ہے۔ یہ تو حق وحقیقت سے انحراف ہے۔

۲۱۱

کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے کسی روایت میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں؟! اگر نہیں تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے اور جبکہ کسائی ابھی کل یعنی مامون رشید کے دور میں ان سات قاریوں میں شامل کیا گیا ہے اور اس سے پہلے ساتواں قاری یعقوب حضرمی تھا اور ۳۰۰ھ میں ابن مجاہد نے یعقوب حضرمی کی جگہ کسائی کو ان قاریوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔،،(۱)

شرف مرسی کہتے ہیں:

''اکثر عوام کا خیال یہ ہے کہ روایات میں سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں اور یہ فاش غلطی و جہالت ہے۔،،(۲)

قرطبی کا کہنا ہے:

''داؤدی، ابن ابی سفرۃ اور دیگر ہمارے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ سات مشہور قاریوں سے منسوب یہ سات قراءتیں، وہ سات حروف نہیں ہیں جن میں سے کسی کے مطابق بھی قرآن پڑھنے کا اختیار صحابہ کرام کو دیا گیا تھا۔ ابن نحاس اور دیگر علماء کی رائے کے مطابق ان سات قراءتوں کی برگشت تو ایک حرف ہے جس کے مطابق حضرت عثمان نے قرآن جمع کیا تھا اور یہ مشہور قراءتیں علماء قراءت کا اپنا انتحاب ہے۔،،(۳)

ابن جزری اس نظریئے کو با ط ل قرار دیتے ہیں جس کے مطابق جن سات حروف پر قرآن نازل ہوا تھا وہ آج تک برقرار ہیں، وہ فرماتے ہیں:

____________________

(۱) التبیان، ص ۸۲۔

(۲) ایضاً، ص ۶۱۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

۲۱۲

''اس نظریہ کی کمزوری و بے مائیگی کسی سے پوشیدہ نہیں، کیونکہ سات دس اور تیرہ قراءتیں جو آج کل مشہور ہیں وہ ان قراءتوں کے مقابلے میں سمندر کے سامنے قطرہ کی مانند ہیں جو پہلی صدی میں مشہور تھیں۔ کیونکہ ان سات اور ان کے علاوہ دیگر قاریوں نے جن سے قراءتیں اخذ کی ہیں وہ ان گنت ہیں حتی کہ جب تیسری صدی آئی علماء کی مصروفیات زیادہ اور حافظے کم ہوگئے اور کتاب و سنت کے علم کا رواج عام ہوگیا تو بعض علمائے قراءت نے ان قراءتوں کی تدوین شروع کردی جو انہو ںنے گذشتہ علماء قراءت سے حاصل کی تھیں۔ سب سے پہلا بااعتماد امام قراءت جس نے تمام قراءتوں کو ایک کتاب میں جمع کیا وہ ابو عبید القاسم بن سلام تھے۔ میری معلومات کے مطابق انہوں نے سات مشہور قراءتوں سمیت کل پچیس قراءتیں قرار دیں۔ ان کا انتقال ۲۲۴ھ میں ہوا۔ اس کے بعد انطاکیہ کے رہنے والے احمد بن جبیربن محمد کوفی پانچ قراءتوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جو ہر شہر سے ایک قاری پر مشتمل تھی۔ ان کا انتقال ۲۵۸ھ میں ہوا۔ ان کے بعد قالون کے ہم عصر قاضی اسماعل بن اسحاق مالکی نے قراءت پر ایک کتاب لکھی جس میں بیس ائمہ قراءت کی قراءتیں موجود ہیں۔ ان میں سات مشہور قراءتیں بھی شامل ہیں۔ ان کا انتقال ۲۸۲ھ میں ہوا۔ اس کے بعد امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری نے ایک مفصل کتاب ''الجامع،، لکھی جو بیس یا اس سے زیادہ ائمہ قراءت کی قراءتوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے ۳۱۰ھ میں وفات پائی۔ طبری کے کچھ ہی عرصہ بعد ابو بکر محمد بن احمد بن عمرو اجونی نے قراءت کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے ابوجعفر، جو دس قاریوں میں سے ایک ہے، کو بھی شامل کردیا۔ ان کی وفات ۳۲۴ھ میں ہوئی۔ اس کے بعد ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد وہ پہلا قاری ہے، جس نے صرف سات قراءتوں پر اکتفا کیا اور داجونی اور ابن جریر سے بھی اس نے قراءت نقل کی ان کا انتقال ۳۲۴ھ میں ہوا۔،،

۲۱۳

ابن جزری نے ان کے علاوہ بھی قراءت کے موضوع پر کتاب لکھنے والوں کا نام لیا ہے اور پھر فرمایا ہے:

''اس باب کو طول دینے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں بعض جاہلوں کے بارے میں یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ صحیح قراءتیں صرف ان سات قراءتوں میں منحصر سمجھتے ہیں اور اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سات حروف جن کی طرف رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اشارہ فرمایا تھا یہی سات قراءتیں ہیں بلکہ ان جاہلوں میں سے بعض کا تو غالب خیال یہ ہے کہ صحیح قراءتیں وہی ہیں جو کتب ''الشاطبیہ اور التیسیر،، میں ہیں اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث:

''انزل القرآن علیٰ سبعة أحرف،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا۔،،

کا اشارہ انہی دو کتب میں موجود قراءتوں کی طر فہے حتی کہ ان میں سے بعض نے ہر اس قراءت کو شاذ و نادر قرار دیا ہے جو ان دونوں کتابوں میں موجود نہ ہو جبکہ حق تو یہ ہے کہ بہت سی ایسی قراءتیں جو ان کتب ''الشاطیبہ اور التیسیر،، اور ان سات قراءتوں میں شامل نہیں ہیں وہ ان کتب میں موجود قراءتوں سے زیادہ صحیح ہیں۔ لوگوں کے اس غلط فہمی کاشکار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہے ان لوگوں نے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث: ''انزل القرآن علی سبعۃ اءحرف،، سن رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سات قراءتوں کا نام بھی سن لیا۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ سات قراءتیں وہی ہیں جن کا حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ اسی لیے گذشتہ ائمہ قراءت نے ابن مجاہد کی اس رائے کو پسند نہیں کیا اور اسے غلط قرار دیا جس کے مطابق قراءتوں کو سات میں منحصر کردیا گیا۔ اسے چاہیے تھا کہ یا تو وہ قراءتوں کو سات سے زیادہ یا ان سے کم بیان کرتایا پھر اپنے مقصد کی صحیح وضاحت کرتا تا کہ عوام غلط فہی کا شکار نہ ہوتے۔،،

۲۱۴

اس کے بعد ابن جزری نے ابن عمار مہدوی اور ابو محمد مکی کی عبارتیں نقل کی ہیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔(۱)

ابوشامہ فرماتے ہیں:

''ایک قوم کا گمان ہے کہ موجودہ مروج سات قراءتوں کا ہی حدیث میں ذکر ہے۔ یہ گمان تمام اہل علم کے اجماع کے خلاف ہے اور صرف جاہل ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔،،(۲)

ہمارے ان بیانات سے قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جانی چاہیے کہ یہ سات قراءتیں نہ رسول اسلامؐ سے اور نہ قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں بفرض تسلیم اگر یہ قراءتیں قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں تو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے یقیناً بطور تواتر منقول نہیں بلکہ خبر واحد کے ذریعے منقول ہیں یا قاریوں کا اپنااجتہاد ہے۔

قراءت سے متعلق دو مقامات پر بحث کی جائے گی:

۱۔ حجیت قراءت

علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ قراءتیں حجت اور سند ہیں اور ان کے ذریعے حکم شرعی پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح حیض والی عورت سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے ہمبستری حرام ہونے پر حفص کے علاوہ باقی کوفی قاریوں کی قراءت:''ولا تقربوا هن حتیٰ یطهرن،، میں ط مشدد سے استدلال کیا گیا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے: ''جب تک (تمہاری عورتیں) اپنے آپ کو (غسل کے ذریعے) پاک نہ کرلیں ان کے نزدیک نہ جاؤ۔،،(۳)

___________________

(۱) النشر فی القرات العشر، ج۱، ص ۳۳۔۳۷۔

(۲) الاتقان النوع۔ ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

(۳) ''حفص،، کے علاوہ کوفی قاری اسے ''یطھرن،، پڑھتے ہیں جو باب تفعل ہے اور باب تفعل میں ایک معنی ''اتخاذ،، یعنی مبداء کو اپنانا اور حاصل کرنا ہے۔ اس کی رو سے آیہ شریفہ کا ترجمہ یہی ہوگا کہ جب تک عورت غسل کے ذریعے اپنے آپ کو پاک نہ کرے اس سے ہمبستری جائز نہیں۔ دوسرے قول کے مطابق ''یطھرن،، پڑھا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے: ''اپنی عورتوں کے پاس نہ جاؤ جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں،، ظاہر ہے خودبخود تو صرف خون بند ہو جانے سے پی پاک ہوا جاسکتا ہے۔ اس قراءت کی رو سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے بھی اس سے ہمبستری کی جاسکتی ہے۔ (مترجم)

۲۱۵

جواب:

لیکن حق یہی ہے کہ قراءتیں حجت نہیں ہیں اور ان کے ذریعے کسی حک شرعی کو ثابت نہیں کیاجاسکتا۔ کیونکہ ہر قاری اشتباہ و غلطی کرسکتا ہے او رمتعدد قاریوں میں سے کسی خاص کی اتباع و پیروی پر ہمارے پاس نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی دلیل اور اس بات پر عقلی و شرعی دلیل قائم ہے کہ غیر علم کی اتباع کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ کی جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

ہوسکتا ہے ہمارے اس جواب پریہ اعتراض کیا جائے کہ اگرچہ قراءتیں خود متواتر نہیں ہیں لیکن خبر واحد کے ذریعے رسول اسلامؐ سے ضرور منقول ہیں، اس بناء پر وہ دلائل قطعیہ و یقینیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں گے جو خبر واحد کے حجت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ جب یہ دلائل یقینیہ و قطعیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں تو پھر ان قراءتوں پر عمل کرنا ورود یا حکومت یا تخصیص(۱) کی بنیاد پر عمل بالظن سے خارج ہو جائے گا (یعنی عمل بالظن نہیں کہلائے گا)۔

جواب:

اولاً: یہ ثابت نہیں کہ یہ قراءتیں روایت کے ذریعے منقول ہیں کہ خبر واحد کی حجیت کے دلائل ان کو بھی شامل ہوں۔ اس لئے یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ یہ قراءتیں ہر قاری کا اپنا اجتہاد ہوں۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید بعض علمائے کرام کے کلام سے بھی ہوتی ہے بلکہ جب قاریوں کے اختلاف کی وجہ و منشاء کو دیکھتے ہیں تو اس احتمال کو مزید تقویت ملتی ہے کیوں کہ اس وقت (حضرت عثمان کے دور حکومت میں) مرکز سے دیگر علاقوں میں بھیجے جانے والے قرآنی نسخوں پر نقطے اور اعراب نہیں ہوتے تھے۔

____________________

(۱) ان معانی اور اصلاحات کی وضاحت ہم اپنے اصول فقہ کے درس کے دوران ''تعادل و ترجیح،، کی بحث میں کرچکے ہیں جو طبع ہوچکا ہے۔

۲۱۶

ابن ابی ہاشم کہتے ہیں:

''سات قراءتوں میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ جن علاقوں میں قرآنی نسخے مرکز سے بھیجے جاتے تھے ان علاقوں میں موجود صحابہ کرام سے لوگ قرآن سیکھتے تھے اور یہ نسخے نقطوں اور اعراب سے خالی ہوا کرتے تھے۔ یہ آگے چل کر فرماتے ہیں:

''ان علاقوں کے لوگوں نے اسی قراءت کو اخذ کیا جو انہوں نے اپنے علاقے کے اصحاب سے سیکھی تھی اور اس میں وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ قرآن کے خط کے موافق ہے یا نہیں۔ اگر یہ قرآنی خط کے مخالف ہوتی تو اسے چھوڑ دیتے تھے۔

پس یہیں سے مختلف شہروں کے لوگوں کی قراءتوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔،،(۱)

زرقانی کہتے ہیں:

''صدر اول کے علمائے کرام قرآن کو نقطے اور حرکات دینا صحیح نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اس سے قرآن میں تغیر و تبدل

ہونے کا اندیشہ تھا، ان حرکات اور نقطے دینے کے نتیجے میں قرآن کی اصلی شکل و صورت تبدیل ہوسکتی تھی۔ مگر زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ جس مقصد کے لیے حرکات اور نقطے نہیں دیئے گئے اب اسی مقصد کے لیے حرکات اور نقطے دینا لازمی ہوگیا تاکہ کہیں کوئی شخص اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کوئی حرکت اور نقطہ دے کر قرآن کو تبدیل نہ کرسکے۔،،(۲)

ثانیاً: ان قراءتوں کے راویوں کا باوثوق ہونا ثابت نہیں ہے اور جب تک ان کا باوثوق ہونا ثابت نہ ہو، خبر واحد کی حجیت کی دلیل ان قراءتوں کو شامل نہ ہوگی۔ چنانچہ قاریوں اور ان کے رایوں کی سوانح حیات سے یہ بات ظاہر ہوچکی ہے۔

____________________

(۲) التبیان، ص ۸۶۔

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۰۲، طبع دوم۔

۲۱۷

ثالثاً: اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ان قراءتوں کا مسند اور مدرک وہ روایات ہیں اور یہ بھی مان لیا جائے کہ ان روایات کے راوی موثق ہیں پھر بھی ایک سقم باقی رہ جاتا ہے یہ کہ ہم اجمالی طور پر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ان روایات میں سے بعض یقیناً رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے صادر نہیں ہوئیں اور یہ اجمالی علم روایات کے باہمی تعارض اور ٹکراؤ کا باعث بنتا ہے اور بعض روایات سے بعض روایات کی تکذیب ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ روایات حجت نہیں بنتیں۔

اس کے علاوہ بعض مخصوص روایات کو حجت اور معتبر سمجھنا ترجیح بلا مرجع(۱) ہے جو کہ قبیح ہے۔ لامحالہ کسی نہ کسی مرجح(۲) کو تلاش کرنا پڑے گا، جو روایات کے تعارض اور ٹکراؤ کی صورت میں لازمی ہے او رمرجح کے بغیر ان روایات میں سے کسی روایت کو کسی حکم شرعی کی دلیل قرار دینا جائز نہیں ہے۔

اگر ہم ان روایات کو متواتر سمجھیں تب بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کیوکہ جب دو مختلف قراءتیں رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر منقول ہوں تو اس سے یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ دونوں قراءتیں قرآن ہیں جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں اور ان میں سند کے اعتبار سے کوئی تعارض و ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ صرف دلالت اور مفہوم کے اعتبار سے ان میں ٹکراؤ ہوگا۔

جب ہمیں اجمالی طور پر یہ علم ہے کہ دنوں ظاہری معنوںمیں سے ایک معنی کا فی الواقع ارادہ نہیں کیا گیا تو اس صورت میں دونوں معانی ساقط اور ناقابل عمل ہو جائیں گے اور کسی اور دلیل لفظی یا عملی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ کیو نکہ دونوں دلیلوں کے سند ظنی ہو، یقینی اور قطعی نہ ہو۔ ترجیح اور تخییر کی دلیلیں ان دلائل کو شامل نہیں جن کی سند قطعی ہو۔ اس کی تفصیل علم اصول کی تعادل و ترجیح کی بحث میں مذکور ہے۔

____________________

(۱) بلا وجہ کسی روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دینا۔ (مترجم)

(۲) ترجیح دینے کی وجہ (مترجم)۔

۲۱۸

۲۔ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے

اکثر شیعہ و سنی علمائے کرام کی رائے یہی ہے کہ نماز میں ان سات قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے بلکہ ان علماء میں سے بہت سوں کے کلام میں اس مسئلہ پر اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

بعض کی رائے ہے کہ دس قراءتوں میں سے کوئی بھی نماز میں پڑھی جاسکتی ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ نماز میں ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جس کے لغت عرب اور عثمانی قرآنوں میں سے کسی کے مطابق ہونے کا احتمال ہو۔ البتہ سند صحیح ہو لیکن ان قراءتوں کی تعداد معین نہیں کی گئی۔

حق تو یہ ہے کہ قاعدہ اولیہ کی رو سے ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز نہیں جس کے بارے میں یہ ثابت نہ ہو کہ اسے رسول اسلامؐ یا کسی امام معصوم نے پڑھا ہے۔ کیونکہ نماز میں قرآن کا پڑھنا واجب ہے۔ بنابرایں ایسی چیز کا پڑھنا کافی نہ ہوگا، جس کا قرآن ہونا ثابت نہ ہو اور عقل کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک چیز کے واجب ہونے کا یقین ہو تو اس کی ادائیگی کا یقین کرنا لازمی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ یا تو اتنی نمازیں پڑھی جایں جتنی قراءتیں ہیں یا ایک ہی مقام میں اس اختلافی مقام کو مکرر پڑھا جائے تاکہ امتثال یقینی حاصل ہو۔ مثلاً سورۃ فاتحہ میں دونوں اختلافی قراءتیں ''مالک،، اور ''ملک،، کو پڑھے اور باقی ایک سورہ جو حمد کے پڑھنا چاہیے اس میں یا تو ایسا سورہ پڑھیں جس میں کوئی اختلاف نہ ہو یا سورہ فاتحہ کی طرح اختلافی الفاظ کو مکرر پڑھیں۔

۲۱۹

(یہ وہ احکام تھے جن کا قاعدہئ اولیہ متقاضی ہے) لیکن جہاں تک ائمہ کے زمانے میں مشہور قراءتوں کے بارے میں شیعوں کے لیے معصومین کی قطعی تقریر(۱) کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ایسی قراءت پر اکتفاء کیا جاسکتا ہے جو معصومین(ع) کے زمانے میں مشہور تھی اور معصومین(ع) نے اسے پڑھنے سے روکا بھی نہیں۔ اس لیے کہ اگر کسی امام(علیہ السلام) نے روکا ہوتا تو اس کی خبر بطور تواتر ہم تک پہنچتی یا کم از کم خبر واحد کے ذریعے ہی پہنچتی۔ بلکہ روایات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ائمہ ھدیٰ نے ان قراءتوں کی تصدیق و تائید فرمائی ہے۔ چنانچہ معصوم کا فرمان ہے۔

''اقرأ کما یقرأ الناس،، ۔۔۔''جس طرح دوسرے پڑھتے ہیں تم بھی اسی طرح پڑھو۔،،

''اقروا کما علمتم،، ۔۔۔''جس طرح تمہیں سکھایا جاے اسی طرح پڑھو۔،،(۲)

ان روایات کی موجودگی میں صرف سات یا دس قراءتوں پر اکتفاء کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ہاں! ایسی قراءت پر اکتفاء نہیں کیا جاسکتا جو شاذ و نادر ہو، اہلسنت کے نزدیک موثق راویوں کے ذریعے ثابت نہ ہو اور من گھڑت ہو۔

مثال کے طور پر ''ملک یوم الدین،، میں ''ملک،، کے لیے صیغہ ماضی کا ہو اور یوم منصوب ہو۔ یہ شاذ و غیر معروف ہے اور جعلی قراءت کی مثال یہ ہے ۔''انما یخشی الله من عباده العلمائ،، میں لفظ ''اللہ،، پر پیش اور لفظ ''العلمائ،، پر زبر دیا گیا ہے۔ یہ خزاعی کی قراءت ہے جو ابو حنیفہ سے منقول ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز مںی ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جو اہل بیت اطہار (علیہم السلام) کے زمانے میں مشہور تھی۔

____________________

(۱) یعنی کوئی فعل امام(علیہ السلام) کے سامنے انجام دیا جائے اور امام(علیہ السلام) اس سے نہ روکیں۔(مترجم)

(۲) الکافی: باب النو ادر کتاب فضل القرآن۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

جواب:

پورے قرآن میں بعض عمومات کی تخصیص اور بعض مطلقات کی تقیید کے اجمالی علم سے ظواہر قرآن پر عمل کرنا تب جائز نہ ہوتا جب ہم مخصص و مقید کی تلاش کے بغیر ہی قرآن کے ظاہری معنی کاارادہ کرنا چاہیں لیکن اگر مکلف کو تحقیق و تلاش کے نتیجے میں وہ مخصصات اور مقیدات مل جائیں جن کا اسے اجمالی علم تھاتو لامحالہ اس کا اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگایعنی وہ غیر معین اور پورے قرآن میں گم گشتہ مخصصات اور مقیدات معین اور محدود ہو جائیں گے اجمالی علم بے اثرہو جائے گا اور باقی آیات میں ظاہر قرآن پر عمل کرنا جائز ہو گا۔

یہ قاعدہ ، سنت (روایات) میں بھی جاری ہو گا کیونکہ روایات کے بارے میں بھی ہم اجمالی طور پر یہ جانتے ہیں کہ بعض کی تخصیص وتقیید ہوئی ہے جب تحقیق کے بعد بعض مخصصات اور مقیدات دستیاب ہو جائیں تو یہ اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگا اور باقی روایات کے ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہوگ ا اگر اجمالی علم کے تفصیلی علم میں تبدیل ہو جانے کے بعد بھی ظواہر قرآن پر عمل کرنا نہ ہوتا تو سنت (روایات) پر عمل کرنا بھی جائز نہ ہوتا بلکہ شبہات(۱) حکمیہ (وجوبیہ ہوں یا تحریمیہ) میں اصالتہ البراتہ کا جاری کرنا جائز نہ ہوتا کیونکہ ہر مکالف یقینی طور پر یہ جانتا ہے کہ شریعت مقدسہ میں الزامی احکام (واجب و حرام افعال) موجود ہیںاس علم اجمالی کا لازمہ یہ ہے کہ ہر شبہہ وجوبیہ اور تحریمیہ میں احتیاط برتی جائے ، حالانکہ ان مقامات میں احتیاط کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا۔

____________________

(۱) اگر کسی علم کے بارے میں شروع میں یہ شک ہو کہ یہ واجب ہے یا نہیں یا یہ حرام ہے یا نہیں تو اسے شبہہ حکمیہ کہتے ہیں ایسے مسائل میں اصالۃ البراتہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ احتیاطاً عمل کو انجام دینا اور دوسری صورت میں احتیاطاً عمل کو ترک کرنا ضروری نہیں بلکہ پہلے عمل کوترک اور دوسرے عمل کو انجام دے سکتے ہیں اور اس احتمال کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ شریعت اسلام میں کچھ واجبات تو یقیناً موجود ہیں ہو سکتا ہے یہ مشکوک عمل ان واجبات یا محرمات میں سے ہو۔ (مترجم)

۳۴۱

ہاں ! محدثین کی ایک جماعت نے شبہہ تحریمہ میں احتیاط کو واجب قرار دیا ہے لیکن اس قول کا مدرک و منبع یہ نہیں کہ شریعت مقدسہ میں کچھ تکالیف (فرائض) الزامی موجود ہیں جن کا اجمالی علم ہے اس لئے وہ شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کو واجب سمجھتے ہوں بلکہ اس قول کا مدرک یہ ہے کہ یہ حضرت ان روایات سے وجوب کو سمجھتے ہیں جن میں اس قسم کے شبہات احتیاط یا توقف کا حکم دیا گیا ہے اگر اس شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کرنے کی وجہ وہ اجمالی علم ہوتا جو احکام الزامی کے بارے میں موجود ہے تو ان حضرات کو شبہہ وجوبیہ میں بھی احتیاط کرنی چاہئے تھی حالانکہ جہاں تک ہم جانتے ہیں شبہہ و جوبیہ میں احتیاط کو کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا ان تمام مسائل میں احتیاط واجب نہ ہونے کی ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ وہ اجمالی علم جو بعض واجبات اور محرمات کے بارے میں رکھتے تھے ، بعض معین و مشخص و اجبات اور محرمات کی وجہ سے تفصیلی علم میںتبدیل ہو گیا اور اجمالی علم بے اثرہو کر رہ گیاہے۔

اس مسئلے کی مزید وضاحت کیلئے ہماری کتاب ''اجود التقریرات،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

۵۔ متشابہ پر عمل کی ممانعت

قرآن کی متعدد آیات میں متشابہ آیات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ) ۳:۷

'' اس میں کی بعض آیتیں تو محکم (بہت صریح) ہیں وہی (عمل کرنے کیلئے) اصل (وبنیاد) کتاب ہیں اور کچھ (آیتیں) متشابہ (گول مول جس کے معنی میں سے پہلو نکل سکتے ہیں) پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ انہی آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں۔

متشابہ آیات میں ظواہر قرآن بھی شامل ہیں اگر ظواہر قرآن یقینی طورپر متشابہ نہ ہوں تو کم از کم یہ احتمال ضرور موجود ہے کہ یہ متشابہ کے ذیل میں آتے ہوں گے جس کے بعد وہ حجت اور قابل عمل نہیں رہتے کیونکہ آیہ کریمہ میں متشابہات پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

۳۴۲

جواب

متشابہ ایسا الفاظ ہے جس کا معنی سب کو معلوم ہے اورا س میں کسی قسم کا اجمال اور مشابہت نہیں اور وہ (متشابہ) یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کے دو یا دو سے زیادہ معانی کا احتمال ہو بایں معنی کہ ان تمام معانی کی نسبت لفظ کی طرف یکساں ہو جتنے فیصد ایک معنی کا احتمال ہوا اتنے فیصد دوسرے معنی کااحمتال بھی ہو یعنی جب لفظ بولا جائے توہر معنی کے بارے میں یہ احتمال برابر کا دیا جائے کہ یہی مراد ہو گا اس لئے جب تک کوئی دوسرا قرینہ کسی ایک معنی کی تعیین پر دلالت نہ کرے لفظ سے کسی معنی کا ارادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ توقف کیا جائے گا متشابہ کے اس معنی کی روشنی میں لفظ ''ظاہر،، متشابہ کے مصادیق میں سے نہ ہو گا جس پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

بفرض تسلیم ، اگر لفظ متشابہ ہو اور یہ احتمال باقی ہو کر معنی ''ظاہر،، بھی متشابہ ہے پھر بھی ظاہر پر عمل کرنے سے نہیں روکا جا سکتا اس لئے کہ عقلاء کی یہ سیرت و روش رہی ہے کہ کلام سے جو معنی ظاہر ہو اس پر عمل کرتے ہیں اور صرف یہ احتمال کہ شاید ظاہر بھی متشابہ کے مصادیق میں سے ہو اس سیرت عقلاء کو ترک کرنے کا باعث نیں بن سکتا بلکہ اس عمل کے جائز نہ ہونے پر ایک مستقل اور قطعی دلیل درکار ہو گی اور جب تک ایسی مستقل اور قطعی دلیل نہ ملے بلا شبہ ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہو گا ۔

یہی وجہ ہے کہ اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل نہ کرے اور اس کی مخالفت کرے تو مالک احتجاج کا حق رکھتا ہے اور اپنے غلام کا مواخذہ کر سکتا ہے اسی طرح اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل کرے مگر بعد میں معلوم ہو کہ مالک کا مقصد ظاہر کلام کیخلاف تھا تو غلام ، مالک کیخلاف احتجاج کر سکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ جب تک کوئی قطعی دلیل ممانعت نہ کرے ظاہر کلام پر عمل کرنے کی سیرت پر عمل ہوتا رہیگا۔

۳۴۳

۶۔قرآن میں تحریف

قرآن میں تحریف ہونا ظواہر قرآن پر عمل کرنے سے مانع اور اہم رکاوٹ ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ انہی ظواہر قرآن کے ساتھبعض قرائن ملے ہوئے ہوں جو معنی مراد پر دلالت کرتے تھے مگر اب تحریف کے نتیجے میں ساقط اور مفقود ہو گئے ہوں (جس کے نتیجے میں لفظ ایسے معنی میں ظہور رکھتا ہے جو معنی مراد کیخلاف ہے)

جواب:

اولاً : ہم اس بات کو نہیں مانتے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے چنانچہ اس سلسلے میں سیر حاصل بحث اس سے قبل کر چکے ہیں وہ روایات جو قرآن کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتی ہیں ، خود اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔

ثانیاً : بفرض تسلیم اگر قرآن میں تحریف ہوئی ہے پھر بھی ان روایات کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن پر عمل کیا جائے گزشتہ مباحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ ظاہر قرآن پر عمل ضروری ہے اوریہ کہ ظاہر قرآن پر عمل کرنا ہی شریعت کی اساس اور بنیاد ہے اگر سنت (احادیث نبوی (ص) اور روایات (آئمہ(ع) ) مخالف قرآن ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

۳۴۴

قرآن میں نسخ

٭نسخ کا لغوی معنی

٭نسخ کا اصطلاحی معنی

٭ نسخ کا امکان

٭ تورات میں نسخ

٭ شریعت اسلام میں نسخ

٭ تلاوت نسخ ہو ۔ حکم باقی رہے

٭تلاوت اور نسخ دونوں منسوخ ہوں

٭ حکم منسوخ ہو ۔ تلاوت باقی رہے

٭ان آیات کا تنقیدی جائزہ جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا

٭مسئلے کی وضاحت

٭ متعہ کی سزا ۔ سنگساری

٭متعہ کے بارے میں چند بے بنیاد شبہات

٭مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

٭آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

٭آیت نجومی پر عمل کی احادیث

٭ مسئلے کی تحقیق

٭ اس صدقے کے نسخ ہونے کے اسباب

٭ حکم صدقہ کی حکمت

٭ کھلم کھلا تعصب

۳۴۵

کتب تفسیر وغیرہ میں عموماً کچھ ایسی آیات ذکر کی جاتی ہیں جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ منسوخ ہو گئی ہیں چنانچہ ابوبکر نحاس نے اپنی کتاب ''الناسخ و المنسوخ،، میں ان آیات کو جمع کیا ہے اور ان کی تعداد ۱۳۸ ہے ہم نے اپنی اس کتاب میں اس بحث کو بھی شامل کیا ہے تاکہ ان آیات جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے کے بارے میں تحقیقی بحث کریں اور یہ ثابت کریں کہ جن آیات میں نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے ان میںسے ایک آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی چہ جائیکہ سب منسوخ ہوئی ہوں۔

البتہ ہم نے ان آیات میں سے صرف ۳۶ آیات کا انتخاب کیا ہے اور یہی آیات بحث و تمحیص اور وضاحت کی محتاج ہیں اور انہی پر بحث سے حق آشکار ہو جائےگا باقی آیات کا نسخ نہ ہونا اتنا واضح ہے کہ محتاج بیان و قابل استدلال نہیں۔

نسخ کا لغوی معنی

لغت میں نسخ ایک جگہ لکھی ہوئی بات کو نقل کر کے دوسری جگہ لکھنے اور اتارنے کو کہا جاتا ہے چنانچہ ''استنساخ،، اور ''انتساخ،، بھی اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں اس کے علاوہ یہ نقل و انتقال اور تبدیلی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ''تناسخ المواریث و الدھور،، (یعنی) ''ثروت و دولت اور زمانہ تبدیل ہوئے،،۔

نسخ کاایک معنی ازالہ اور برطرف کرنابھی ہے ''نسخت الشمس اظل ،، ''(یعنی،، سورج نے سائے کو زائل کر دیا،، میں ''نسخت،، اسی معنی میں استعمال ہوا ہے صحابہ کرام اور تابعین نے نسخ کو اس معنی میں کثرت سے ا ستعمال کیا ہے چنانچہ صحابہ اور تابعین مخصص و مقید کوناسخ ہی کہتے تھے(۱)

____________________

(۱) ابن عباس کی طرف منسوب تفسیر میں تحصیص پر کثرت سے نسخ کا اطلاق ہوا ہے۔

۳۴۶

نسخ کا اصطلاحی معنی

اصطلاح میں نسخ کسی ثابت امرشرعی کو اس کی مدت ختم ہونے کی وجہ سے اٹھانے کو کہتے ہیںچاہے وہ برطرف حکم کوئی حکم تکلیفی ہو جیسے وجوب ، حرمت وغیرہ میں یا حکم وضعی ہو جیسے صحیح ہوناباطل ہونا وغیرہ ہے اور چاہے وہ برطرف شدہ امر ، الٰہی منصب اور عہدوں میںسے ہو یا کوئی اور چیز ہو ، جس کی بازگشت بہ حیثیت شارع اللہ تعالیٰ کی طرف ہو ، جس کی مثال نسخ فی التلاوۃ ہے۔

ہم نے نسخ کی تعریف میں امر کے ساتھ ثابت کی قید کا اضافہ اس لئے کیا ہے تاکہ نسخ کی یہ تعریف اس حکم کے برطرف ہونے کو شامل نہ ہو جو خارج میں اپنے موضوع کے ختم ہو جانے کے باعث زائل ہو جائے جیسے ماہ رمضان ختم ہونے کے ساتھ ہی روزے کاوجوب بھی ختم ہو جاتا ہے اسی طرح نماز کا وقت نکلنے کے بعد نماز کاوجوب بھی ختم ہو جاتاہے اور کسی مال کامالک مر جانے سے اس کی مالکیت (مال کا مالک ہونا) بھی ختم ہو جاتی ہے ان تمام مثالوں میں حکم زائل تو ہو جاتا ہے مگر نسخ نہیں کہلاتا کیونکہ ان تمام مثالوں میں حکم نہیں بلکہ موضوع حکم برطرف ہو گیاہے موضوع کے ختم ہو جانے کی وجہ سے حکم برطرف ہوناممکن ہے ایسا ع ملی طورپر بھی ہوا ہے اور اس میں کسی کو کوئی اعتراض و اشکال نہیں ہے۔

ہم ذیل میں نسخ واقعی کی وضاحت کرتے ہیں:

(۱) پہلا مرحلہ تشریع اور قانون سازی کا ہوتا ہے اس مرحلے میں حکم بطور قضیہ حقیقیہ ثابت ہوتا ہے یعنی اس مرحلہ میں حکم ثابت ہو جاتا ہے چاہے خارج میں فی الحال کوئی موضوع (جس کیلئے حکم ثابت ہو) موجودہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کا دار و مدار ایک فرضی موضوع ہوا کرتا ہے۔

۳۴۷

مثلاً جب شارع مقدس فرمائے : ''شرب الخمر حرام،، (یعنی) مے نوشی حرام ہے،، اس حکم کا مطلب یہ نہیں کہ ابھی اسی وقت خارج میں (ہمارے سامنے) کوئی شراب موجود ہے جس پر حرمت کا حکم لگایا گیا ہے بلکہ اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی خارج (دنیا) میں کوئی شراب ہو گی شریعت میں اس کیلئے حکم ، حرام ہونے کا ہے چاہے فی الحال خارج میں کوئی شراب موجود ہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کو صرف نسخ کے ذریعے برطرف کیا جا سکتا ہے۔

(۲) دوسرا مرحلہ اس حکم کا خارج میں موجود ہوتا ہے بایں معنی کہ موضوع حکم فی الحال خارج میں موجود ہے اور حکم بھی متحقق ہے۔

مثال کے طورپر خارج میں (سامن) شراب موجود ہے اور شریعت میں مقرر شدہ حکم حرمت اس شراب کیلئے ثابت ہے جب تک موضوع موجود رہں گا حکم بھی رہے گا اگر کسی وقت شراب سرکہ میں تبدیل ہو جائے تو بلا شک شراب ہونے کی حالت میں موجود حکم اب برطرف ہو جائے گا مگر یہ نسخ نہیں کہلائے گا اس کے جواز بلکہ خارج میں واقع ہونے میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں اختلاف صرف پہلے مرحلے کے بارے میں ہے کہ آیا عالم تشریع (قانون سازی کے مرحلے) میں کسی حکم کو برطرف کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟

نسخ کاامکان

عقلاء مسلمین میں مشہور یہی ہے کہ زیر بحث نسخ (عالم تشریع میں کسی حکم کو برطرف کرنا) جائز ہے یہود و نصاریٰ نے اس کی مخالفت کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ نسخ محال ہے ان کا مسند و مدرک ایک شبہ (غلط فہمی) ہے جو تارعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور اور ضعیف ہے۔

۳۴۸

خلاصہ شبہ:

احکام کو نسخ کرنے سے یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کے کام حکمت و مصلحت پر مبنی نہ ہوں یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کسی بھی حکم کی حکمت اور مصلحت سے آگاہ نہ ہو یہ دونوں امور محال ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ جو حکیم مطلق ہے ، جو حکم بھی مقرر فرمائے کسی نہ کسی مصلحت کی بناء پر مقرر ہوتا ہے جو اس حکم کی متقاضی ہوتی ہے کیونکہ بے مصلحت حکم اس کے بنانے والے کی حکمت سے سازگار نہیں۔

ایسے فرض میں حکم کو اٹھاتے وقت یا تو اس حکم کی مصلحت و حکمت باقی ہو گی اور نسخ کرنے والا اس کا علم رکھتا ہو گا تو یہ حکم بنانے والے ، جو حکیم مطلق ہے، کی حکمت کیخلاف ہے ، یا بعد میں انکشاف ہوا ہوگا کہ یہ حکم شروع سے مصلحت پر مبنی نہ تھا ، جیسے عام عرفی قوانین کے بارے میں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس میں مصلحت نہیںتھی اس سے جہل خدالازم آتا ہے ، جو محال ہے معلوم ہوا نسخ محال ہے اس لئے کہ اس سے محال لازم آتا ہے (مستلزم المحال محال،، (یعنی) ''جس چیز سے محال لازم آئے وہ چیز محال ہوتی ہے،،۔

جواب:

بعض اوقات اللہ تعالیٰ کچھ کاموں کا حکم دیتا ہے اور بعض کاموں سے منع فرماتا ہے لیکن خالق کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جس کا حکم دیا ہے وہ ضرور انجام پائے اور جس کام سے منع کیا ہے وہ ضرور ترک ہو جائے بلکہ اس امرونہی کا مقصد بندوں کا امتحان ہوتا ہے اس قسم کے اوامرو نواہی شریعت میں موجود ہیںایسے احکامات صادر کئے جانے کے بعد دوبارہ برطرف کئے جا سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

۳۴۹

اس قسم کے احکام صادر ہونے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اور پھر انہیں واپس لینے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اس قسم کے نسخ اور ازالہ حکم سے نہ کوئی خلاف حکمت بات لازم آتی ہے اور نہ اس کا منشاء بداء (پہلے معلوم نہ ہو اور بعد میں انکشاف ہو ) ہے جو خدا کے لئے محال ہے۔

اور کبھی شارع کی طرف سے مقرر کردہ حکم حقیقی ہوتا ہے (بایں معنی کہ جس کام کو حکم دیا جائے اس کا بجا لانا اور جس کام سے روکا جائے اس کا ترک کرنا ضروری ہوتا ہے) اس کے باوجود ایک مدت کے بعد اس حقیقی حکم کو برطرف کیا جاتا ہے لیکن اس معنی میں نہیں کہ ایک حکم ، واقع اور علم خدا میں دائمی طور پر ثابت ہو مگر کسی خاص مصلحت یا اس حکم میں کسی خامی کے انکشاف کی بناء پر اسے نسخ اور برطرف کیا گیا ہو جس سے حکیم اور واقعیات و حقائق کی عالم ذات کے حق میں محال لازم آئے۔

بلکہ نسخ کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ یہ مقرر کردہ حکم ، عنداللہ کسی خاص مدت اور زمانے تک محدود ہوتا ہے اور عام لوگوں کو اس محدود وقت کا علم نہیں ہوتا اور جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو حکم بھی خود بخود زائل ہو جاتا ہے۔

اس معنی میں نسخ یقیناً ممکن ہے اور اس پر کسی قسم کا اشکال لازم نہیں آتا کیونکہ زمانہ اور وقت کی خصوصیات ، جن پر حکم کا دار و مدار ہو ، احکام میں دخیل ہوا کرتی ہیں جس میں کسی عاقل کوشک نہیں۔

مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں ہفتہ کا دن خصوصیت رکھتا تھا جس کی وجہ سے روز ہفتہ اس شریعت کے ماننے والوں کیلئے عید قرار پایا اور باقی ایمام ہفتہ میں کسی یوم میں ایسی خصوصیت نہیں تھی یہی حیثیت اسلام میں جمعتہ المبارک کو حاصل ہے اسی طرح نماز ، روزے اور حج کے مخصوص اوقات کی بھی کچھ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے مقررہ اوقات میں یہ فرض قرار دیئے گئے ہیں۔

۳۵۰

جب شریعت کے کسی حکم (قانون) کے بنانے اور نہ بنانے میں زمانہ اور وقت کا دخل قابل تصور ہے تو کسی حکم کے دائمی رہنے اور نہ رہنے میں بھی وقت کا دخل قابل تصور ہونا چاہئے ! بنا برایں عین ممکن ہے کہ ایک حکم ، ایک معین مدت کیلئے مصلحت پر مشتمل ہو لیکن اس مدت کے گزر جانے کے بعد وہ مصلحت ختم ہو جائے اسی طرح اسی کے برعکس بھی ممکن ہے یعنی ممکن ہے کہ ایک محدود زمانے میں مصلحت نہ ہو اس محدود مدت کے گزرنے کے بعد مصلحت پیدا ہو جائے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب کوئی مخصوص گھڑی ، دن ہفتہ اور مہینہ کسی فعل کے بامصلحت اور نقصان دہ ہونے میں اثر انداز ہو سکتا ہے تو سال اور برس بھی اثر انداز اور دخیل ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک حکم چند محدود برس تک باصلحت رہے گا اور ان برسوں کے گزر جانے کے بعد اس فعل اور حکم میں وہ مصلحت نہ رہے گی جس طرح کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے علاوہ کسی دوسری جداگانہ دلیل کے ذریعے مقید کیا جا سکتا ہے اسی طرح عین ممکن ہے کہ کسی جداگانہ دلیل کے ذریعے زمانے کے اعتبار سے بھی کسی مطلق حکم کو مقید کیا جائے کیونکہ بعض اوقات مصلحت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ حکم کو ظاہری طور پر عام اور مطلق چھوڑا جائے (ظاہراً کسی لفظ کے ذریعے عام کی تخصیص اور مطلق کی تقیید نہ کی جائے) جبکہ درحقیقت خاص اور مقید ہی مراد ہوتے ہیں اور مخصص و مقید کو کسی جداگانہ دلیل کی صورت میں بعد میں بیان کیا جاتا ہے۔

معلوم ہوا اور حقیقت نسخ ، کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے اعتبار سے مقید کرنے کا نام ہے جس سے حکمت کی مخالفت لازم آتی ہے اور نہ بداء لازم آتا ہے جو خدا کیلئے محال ہیں۔

یہ تمام بحث اس مذہب کی بنیادپر ہوئی جس کے مطابق قانون سازی ، اعمال میں مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتی ہے لیکن اگر اس مذہب کی رو سے دیکھا جائے جس کے مطابق احکام ، اپنے اندر موجود مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتے ہیں تو پھر تمام احکام ان احکام کی مانند ہوں گے جو درحقیقت امر حقیقی (جن کا امتشال مطلوب ہو) نہیں ہوتے بلکہ صرف امتحان کیلئے صادر ہوتے ہیں ان کا صادر ہونا مصلحت سے خالی نہیں اور ان کا نسخ ہونابھی مصلحت سے خالی نہیں۔

۳۵۱

تورات میں نسخ

یہود و نصاریٰ شریعت میں نسخ کو محال قرار دے کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شریعت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام احکام آج تک باقی اور ثابت ہیں اور منسوخ نہیں ہوئے لیکن گزشتہ مباحث سے یہ ثابت ہو گیا کہ نسخ محال نہیں ہے نیز تورات اور انجیل میں بھی کئی مقامات پر نسخ واقع ہوا ہے ہم ذیل میں نمونہ کے طورپر عہد نامہ قدیم و جدیدسے نسخ کے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جن سے اندازہ ہو جائے گا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے مذہب کی حقانیت پر جو دلیل پیش کی ہے وہ کتنی کمزور ہے۔

۱۔ کتاب مقدس ، عہد نامہ قدیم و جدید ، سفر گنتی کے باب : ۴ شمارہ ۲۔۳ میں ہے:

''اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا : بنی لاوی میں سے قہانیوں کو ان کے گھرانوں اور آبائی خاندانوں کے مطابق تیس برس سے لے کرپچاس برس تک جتنے خیمہ اجتماع میں کام کرنے کیلئے مقدس کی خدمت میں شامل ہیں ان سب کو گنو،،

یہ حکم نسخ کر دیا گیا اور قبول خدمت کی عمر پچیس سال قرار دی گئی چنانچہ اسی سفر کے باب: ۸ ، شمارہ :۲۳ اور ۲۴ میں ہے:

''پھر خدا نے موسیٰ سے کہا : لاویوں کے متعلق جو بات ہے وہ یہ ہے کہ پچیس برس سے لے کر اس سے اوپر اوپر کی عمر میں وہ خیمہ اجتماع کی خدمت کے کام کیلئے اندر حاضر ہوا کریں،،۔

اس کے بعد یہ حکم بھی نسخ ہو گیا اور قبول خدمت کی عمر گھٹا کر بیس سال کر دی گئی چنانچہ تاب مقدس کے (عنوان) تواریخ ایک کے شمار ۲۳۔۲۴ میں ہے:

''لاوی کے بیٹے یہی تھے جو اپنے اپنے آبائی خاندان کے مطابق تھے ان کے آبائی خاندان کے سردار جیسا وہ نام بنام ایک ایک کر کے گنے گئے یہی ہیں وہ بیس برس اور اس سے اوپر کی عمر سے خداوند کے گھر کی خدمت کا کام کرتے تھے اور خدا کے گھر کی خدمت کو انجام دینے کیلئے خیمہ اجتماع کی حفاظت اور مقدس کی نگرانی اور اپنے بھائی نبی ہارون کی اطاعت کریں،،

۳۵۲

۲۔ سفر گنتی کے باب: ۲۸ شمارہ : ۳ اور ۷ میں ہے:

''تو ان سے کہہ دے جو آتشین قربانی تم کو خدا کے حضور پیش کرنا ہے کہ دو بے عیب یکسالہ برے (بھیڑیں) ہر روز دائمی سوختی قربانی کیلئے چڑھایا کرو۔ ایک برہ (بھیڑ) صبح اور دوسرا برہ (بھیڑ) شام کو چڑھانا اور ساتھ ہی ایک ایفہ کے دسویں حصہ کے برابر میدہ جس میں کوٹ کر نکالا ہوا تیل چوتھائی ھین کے برابر ملا ہو ، نذر کی قربانی کے طور پر گزراننا اور ھین کی چوتھائی کے برابر مے فی برہ تپاون کیلئے لانا،،

یہ حکم منسوخ ہو گیا اور ہر صبح کی آتشین قربانی روزانہ ایک سالہ بھیڑ قرار دی گئی اور ایفہ کے چھٹے حصہ کے برابر میدہ اور ایک تہائی ھین کے برابر تیل پیش کرنا ضروری قرار دیا گیا چنانچہ حزقیل کے باب ۴۶ شمارہ ۱۳۔۵ۃ میں ہے:

''تو ہر روز خداوند کے حضور پہلے سال کاا یک بے عیب برہ (بھیڑ)سوختنی قربانی کیلئے ہر صبح کو چڑھائے گا اور تو اس کے ساتھ ہر صبح نذر کی ربانی گزرانے گا یعنی ایفہ کا چھٹہ حصہ اور میدہ کے ساتھ ملانے کو تیل کے ھین کی ایک تہائی دائمی حکم کے مطابق ہمیشہ کیلئے خداوند کے حضور یہ نذر کی قربانی ہو گی اسی طرح وہ برے (بھیڑیں) اور نذر کی قربانی اور تیل ہر صبح ہمیشہ کی سوختنی قربانی کیلئے چڑھائیں گے،،۔

۳۔ سفر گنتی کے باب ۲۸: شمارہ :۹ اور ۱۰ میں ہے:

''اور شنبہ کے روز دو بے عیب نر بھیڑ اور نذر کی قربانی کے طورپر ایفہ کے پانچویں حصے کے برابر میدہ جس میں تیل ملا ہوا ہو تپاون کے ساتھ گزراننا دائمی سوختنی قربانی اور اس کے تپاون کے علاوہ یہ ہر شنبہ کی سوختنی قربانی ہے،،۔

یہ حکم نسوخ ہو گیا چنانچہ حزقیل باب : ۴۶ شمارہ : ۴۔۵ میں نسخ کے بعد کا حکم یوں مذکور ہے: ''اور سوختنی قربانی جو فرمانروا شنبہ کے دن گزراننے گا یہ ہے : چھ بے عیب بھیڑ اور ایک بے عیب مینڈھا اور نذر کی قربانی مینڈھے کیلئے ایک ایفہ اور بھیڑوں کیلئے نذر کی قربانی اس کی توفیق کے مطابق اور ایک ایفہ کیلئے ایک ھین تیل،،

۳۵۳

۴۔ کتاب مقدس سفر گنتی کے باب : ۳۰ شمارہ ۲ میں ہے:

''جب کوئی مرد خدا کی منت مانے یا قسم کھا کر اپنے اوپر کوئی خاص فرض ٹھہرا دے تو وہ اپنے عہد کو نہ توڑے بلکہ جو کچھ اس کے منہ سے نکلا ہے اسے پورا کرے،،۔

تورات میں ثابت یہی حکم (قسم کا جواز) منسوخ ہو گیا چنانچہ متیٰ کی انجیل باب : ۵ شمارہ : ۳۳۔۳۴ میں ہے: ''نیز تم نے یہ سنا ہے کہ گزشتوں سے کہا گیا تھا قسم کی مخالفت نہ کرو بلکہ اپنے رب کی قسم پورا کرو۔ لیکن میں یہ کہوں گا قسم ہرگز نہ کھاؤ،،۔

۵۔ کتاب مقدس کے سفر خروج باب : ۲۱ شمارہ : ۲۳۔۲۵ میں ہے:

''لیکن اگر نقصان ہو جائے تو جان کے بدلے جان لے او رآنکھ کے بدلے آنکھ دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ پاؤں کے بدلے پاؤں جلانے کے بدلے جلانا زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ،،

یہ حکم قصاص شریعت حضرت عیسیٰ (ع) میں منسوخ ہو گیا چنانچہ انجیل متیٰ کے باب : ۵ شمارہ ۳۸ میں ہے:

''تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے میں آنکھ دانت کے بدلے میں دانت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جوتیرے دائیں رخسارپر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے،،۔

۶۔ کتاب مقدس سفر پیدائش باب : ۱۷ شمارہ ۱۰ میں حضرت ابراہیم (ع) سے خدا کا خطاب ہے: '' اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزمذ نرینہ ختنہ کیا جائے،،

حضرت موسیٰ (ع) کی شریعت نے بھی اس حکم کی تائید کر دی۔ چنانچہ سفر خروج کے باب ۱۲ کے شمارہ : ۴۸۔۴۹ میں ہے:

۳۵۴

''اور اگر کوئی اجنبی تیرے ساتھ مقیم ہو اورخداوند کی فسح کو ماننا چاہتا ہو تو اس کے ہاں کے سب مرد اپنا ختنہ کرائیں تب وہ پاس آ کر فسح کرے یوں وہ ایسا سمجھا جائے گا گویا اسی ملک کی اس کی پیدائش ہے پر کوئی نامختون آدمی اسے کھانے نہ پائے وطنی اور اس اجنبی کیلئے جو تمہارے درمیان موجود ہو ایک ہی شریعت ہو گی،،۔

نیز کتاب مقدس کے سفر اخبار کے باب : ۱۲ شمارہ ۲ اور ۳ میں موجود ہے:

''خداوند نے موسیٰ سے کہا: بنی اسرائیل سے کہو اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو وہ سات دن ناپاک رہے گی جیسے حیض کے ایام میں رہتی ہے آٹھویں دن لڑکے کا ختنہ کیا جائے،،۔

یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا اور حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت عیسیٰ (ع) کی امت سے ختنہ کا فریضہ اٹھا لیا گیا چنانچہ کتاب مقدس ، عہد نامہ جدید کے عنوان ''رسولوں کے اعمال،، کے باب : ۱۵ شمارہ : ۲۴۔۳۰ اور پولس کے بعض خطوط میں نسخ کا یہ حکم موجود ہے۔

۷۔ کتاب مقدس کے سفر استثنا باب : ۲۴ شمارہ:۱۔۳ میں ہے:

''اگر کوئی مرد کسی عورت سے بیاہ کرے اور بعد میں اس میں کوئی ایسی بیہودہ بات پائے جس سے اس عورت کی طرف اس کی التفات نہ رہے تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کراس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے اور جب اس کے گھر سے نکل جائے تو وہ دوسرے مرد کی ہو سکتی ہے لیکن اگر دوسراشوہر بھی اس سے ناخوش رہے اور اس کا طلاق نامہ لکھ کر اس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے یا وہ دوسرا شوہر جس نے اس سے بیاہ کیا ہو مر جائے تو اس کا پہلا شوہر جس نے اسے نکال دیا تھا اس عورت کے ناپاک ہونے کے بعد یہ مرد اس سے بیاہ نہ کرنے پائے،،۔

۳۵۵

انجیل نے اس حکم کو منسوخ کر دیا اور طلاق کو حرام قرار دیا ہے چنانچہ انجیل متیٰ کے باب: ۵۰ شمارہ : ۳۱۔۳۲ میں لکھا ہے:

''یہ بھی کہاگیا تھا کہ جو کوئی بیوی کو چھوڑے اسے طلاق نامہ لکھ دے لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے وہ اس سے زنا کراتا ہے اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے،،(۱)

مرقس کے باب : ۱۰ شمارہ : ۱۱۔۱۲ اور لوقا کے باب : ۱۶ شمارہ :۱۸ میں بھی اس قسم کا حکم موجود ہے۔ عہد نامہ قدیم و جدید سے نسخ کے جو موارد بیان کئے گئے وہ اہل انصاف اور حقیقت بین حضرات کیلئے کافی ہیں ۔ جو حضرات نسخ کے مزید مقامات سے آگاہ ہونا چاہیں وہ کتاب ''اظہار الحق،، (۲) اور ''الہدیٰ الیٰ دین المصطفےٰ (۳)،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

____________________

(۱) کتاب مقدس کے اقتباسات کا اردوترجمہ ، پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور کے شائع کردہ اردو ترجمہ سے لیا گیا ہے (مترجم)

(۲) مولف کتاب: شیخ رحمتہ اللہ ابن خلیل الرحمن الہندی ، یہ انتہائی مفید اور جلیل کتاب ہے۔

(۳) مولف : امام البلاغی ۔

۳۵۶

شریعت اسلام میں نسخ

نسخ کے واقع ہونے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کیونکہ گزشتہ شریعتوں کے بہت سے احکام ، شریعت اسلام کے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے اور شریعت اسلام ہی کے کچھ احکام شریعت اسلام کے چند دوسرے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے ہیں چنانچہ قرآن مجید اس بات کی تصریح کر رہا ہے کہ نماز میں قبلہ اول (بیت المقدس) کی طرف رخ کرنے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا قربان کے کچھ احکام ، قرآن یا سنت قطعیہ (خبر متواترہ وغیرہ)یا اجماع یا عقل کی وجہ سے نسخ ہو سکتے ہیں؟

بہتر ہے اس پہلو سے نسخ کی بحث شروع کرنے سے پہلے ہم نسخ کی قسمیں بیان کر دیں۔ علماء کرام نے نسخ قرآن کی تین قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔ تلاوت نسخ ہو حکم باقی رہے(۱)

علمائے کرام نے اس ضمن میں مثال کے لئے آیت رحم کو پیش کیا ہے اور فرمایا ہے کہ آیت رحم فی الحال قرآن میں موجود نہیں (نسخ ہو گئی ہے) لیکن اس آیت میں موجود حکم باقی ہے۔

ہم تحریف کی بحث میں ثابت کر چکے ہیں کہ نسخ تلاوت کا قائل ہونا بعینہ تحریف کا قائل ہونے کے مترادف ہے اور جو روایات نسخ تلاوت پر دلالت کرتی ہیں وہ سب کی سب احادہیں اس قسم کی مباحث میں خبر واحد کے ذریعے مدعا ثابت نہیں ہو سکتا۔

____________________

(۱) یعنی حکم باقی رہے اور صرف تلاوت منسوخ ہو۔

۳۵۷

تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جس طرح خبر واحد سے قرآن ثابت نہیں ہو سکتا اسی طرح خبر واحد سے نسخ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ اجتماع کے ساتھ ساتھ ایک عہدہ اور اہم دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی اہم واقعہ جو رونما ہونے کے بعد (اگر درحقیقت ثابت ہو) عام طور پر لوگوں میں شائع اور مشہور ہو جاتا ہے وہ خبر واحد کے ذریعے ثابت نہیں ہوتا اس قسم کے واقعہ کو بعض راویوں کا نقل کرنا اور بعض راویوں کا نقل نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے نقل کیا ہے اس نے یا تو جھوٹ بولا ہے یا اسے غلط فہمی ہوئی ہے بنا برایں خبر واحد کے ذریعے یہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے کہ آیت رجم قرآن کا حصہ ہو اور پھر منسوخ ہو گئی ہو اور یہ کہ اس کی صرف تلاوت نسخ ہوئی ہو اور اس کا حکم باقی رہے۔

ہاں! گزشتہ مباحث میں یہ بات ضرور نقل کی گئی ہے کہ جمع قرآن کے موقع پر حضرت عمرآیت رجم لے کر آئے اور انہوںنے یہ دعویٰ کیا کہ یہ بھی قرآن کا حصہ ہے لیکن مسلمانوں نے ان کے اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس آیت کو نقل کرنے والے صرف حضرت عمر تھے چنانچہ مسلمانوں نے آیت رجم کو قرآن میں شامل نہیں کیا یہاں سے متاخرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آیہ رجم کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے لیکن اس کا حکم باقی ہے۔

۲۔ تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوں

تلاوت اور حکم دونوں میں نسخ کی مثال کیلئے تحریف کی بحث میں مذکور دسویں روایت کو پیش کیا گیا ہے جس کو حضرت عائشہ نے نقل کیا ہے:

اس دلیل کا جواب وہی ہے جو نسخ تلاوت کی دلیل کا تھا۔

۳۵۸

۳۔ حکم منسوخ ہو۔ تلاوت باقی رہے۔

نسخ کی یہی قسم علماء اور مفسرین میں مشہور ہے اس کے بارے میں ئی علمائے کرام نے مستقل کتب لکھی ہیں اور ان میں ناسخ اور منسوخ کو ذکر کیا ہے ان علماء میں ممتاز عالم ابو جعفر نحاس اورحافظ المظفر الفارسی قابل ذکر ہیں۔

بعض محققین اس رائے کے مخالف ہیں اور انہوں نے قرآن میں کسی منسوخ آیت کے موجود ہونے کا انکار کیا ہے البتہ اس نسخ کے امکان پر سب کا اتفاق ہے اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ قرآن میں کچھ آیات ایسی ہیں جو گزشتہ شریعتوں کے احکام کی ناسخ ہیں اور بعض آیات کے ذریعے صدر اسلام کے کچھ احکام منسوخ ہو گئے ہیں ہم ذیل میں اس مسئلے میں صحیح رائے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں موجود حکم تین طریقوں سے نسخ ہو سکتا ہے۔

۱۔ قرآن میں موجود حکم سنت متواترہ یا اس اجماع قطعی کے ذریعے نسخ کیا جائے جو اس بات کا انکشاف کرے کہ نسخ معصوم (ع) کی طرف سے ہوا ہے نسخ کی اس قسم پر عقلاً اور نقلاً کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اگر کسی آیت کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ اجماع یا سنت متواترہ کے ذریعے یہ نسخ ہو گئی ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا ورنہ نسخ کا التزام نہیں کیا جائے گاکیونکہ یہ مسلم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

۲۔ قرآن میں کوئی ثابت حکم قرآن ہی کی دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو جس کی نظر اس آیہ منسوخہ پر نہ ہو اور اس کے حکم کے برطرف ہونے کو بیان نہ کرتی ہو بلکہ صرف اس بنیدپر نسخ سمجھا جائے کہ ان دونوں آئتوں میں حکم کے اعتبار سے منافات پائی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا جائے کہ بعد والی آیت پہلی آیت کی ناسخ ہے۔

۳۵۹

تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن میں یہ نسخ و اقع نہیں ہوا اور کیسے اس قسم کے نسخ کو مانا جا سکتا ہے جبکہ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ) ۴:۸۲

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے اور (یہ نہیں خیال کرتے کہ) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا) ہوتا تو ضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے،،۔

مگر بہت سے مفسرین نے آیات قرآنی کے مفاہیم میں کما حقہ ، غور و خوض نہیں کیا اور یہ خیال کیا کہ قرآن کی بہت سی آیات میں منافات پائی جاتی ہے اور اسی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان دونوں (باہم منافی) آیات میں سے پہلی منسوخ اور دوسری ناسخ ہے بلکہ بعض حضرات نے ان دونوں آئتوں کو بھی ایک دوسرے کے منافی قرار دیا ہے جہاں دوسری آیت پہلی آیت کیلئے قرینہ عرفیہ بن رہی ہو(۱) جس طرح خاص عام کا اور مقید مطلق کا مقصد و مراد بیان کرتا ہے اس قسم کے شبہات یا نظریات کا منشا و سرچشمہ ، فکر و تدبر کا فقدان ہے یا نسخ کے لغوی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد و مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے سے پہلے ایسے معانی کو عام طور پر نسخ کہا جاتا ہے لیکن اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے کے بعداس کو نسخ کہنا یقیناً مجاز ہو گا جو چشم پوشی پر مبنی ہے۔

____________________

(۱) دوسری آیت پہلی آیت کا صحیح مقصد بیان کر رہی ہو(مترجم)

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689