البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314062 / ڈاؤنلوڈ: 9316
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

جواب:

پورے قرآن میں بعض عمومات کی تخصیص اور بعض مطلقات کی تقیید کے اجمالی علم سے ظواہر قرآن پر عمل کرنا تب جائز نہ ہوتا جب ہم مخصص و مقید کی تلاش کے بغیر ہی قرآن کے ظاہری معنی کاارادہ کرنا چاہیں لیکن اگر مکلف کو تحقیق و تلاش کے نتیجے میں وہ مخصصات اور مقیدات مل جائیں جن کا اسے اجمالی علم تھاتو لامحالہ اس کا اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگایعنی وہ غیر معین اور پورے قرآن میں گم گشتہ مخصصات اور مقیدات معین اور محدود ہو جائیں گے اجمالی علم بے اثرہو جائے گا اور باقی آیات میں ظاہر قرآن پر عمل کرنا جائز ہو گا۔

یہ قاعدہ ، سنت (روایات) میں بھی جاری ہو گا کیونکہ روایات کے بارے میں بھی ہم اجمالی طور پر یہ جانتے ہیں کہ بعض کی تخصیص وتقیید ہوئی ہے جب تحقیق کے بعد بعض مخصصات اور مقیدات دستیاب ہو جائیں تو یہ اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگا اور باقی روایات کے ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہوگ ا اگر اجمالی علم کے تفصیلی علم میں تبدیل ہو جانے کے بعد بھی ظواہر قرآن پر عمل کرنا نہ ہوتا تو سنت (روایات) پر عمل کرنا بھی جائز نہ ہوتا بلکہ شبہات(۱) حکمیہ (وجوبیہ ہوں یا تحریمیہ) میں اصالتہ البراتہ کا جاری کرنا جائز نہ ہوتا کیونکہ ہر مکالف یقینی طور پر یہ جانتا ہے کہ شریعت مقدسہ میں الزامی احکام (واجب و حرام افعال) موجود ہیںاس علم اجمالی کا لازمہ یہ ہے کہ ہر شبہہ وجوبیہ اور تحریمیہ میں احتیاط برتی جائے ، حالانکہ ان مقامات میں احتیاط کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا۔

____________________

(۱) اگر کسی علم کے بارے میں شروع میں یہ شک ہو کہ یہ واجب ہے یا نہیں یا یہ حرام ہے یا نہیں تو اسے شبہہ حکمیہ کہتے ہیں ایسے مسائل میں اصالۃ البراتہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ احتیاطاً عمل کو انجام دینا اور دوسری صورت میں احتیاطاً عمل کو ترک کرنا ضروری نہیں بلکہ پہلے عمل کوترک اور دوسرے عمل کو انجام دے سکتے ہیں اور اس احتمال کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ شریعت اسلام میں کچھ واجبات تو یقیناً موجود ہیں ہو سکتا ہے یہ مشکوک عمل ان واجبات یا محرمات میں سے ہو۔ (مترجم)

۳۴۱

ہاں ! محدثین کی ایک جماعت نے شبہہ تحریمہ میں احتیاط کو واجب قرار دیا ہے لیکن اس قول کا مدرک و منبع یہ نہیں کہ شریعت مقدسہ میں کچھ تکالیف (فرائض) الزامی موجود ہیں جن کا اجمالی علم ہے اس لئے وہ شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کو واجب سمجھتے ہوں بلکہ اس قول کا مدرک یہ ہے کہ یہ حضرت ان روایات سے وجوب کو سمجھتے ہیں جن میں اس قسم کے شبہات احتیاط یا توقف کا حکم دیا گیا ہے اگر اس شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کرنے کی وجہ وہ اجمالی علم ہوتا جو احکام الزامی کے بارے میں موجود ہے تو ان حضرات کو شبہہ وجوبیہ میں بھی احتیاط کرنی چاہئے تھی حالانکہ جہاں تک ہم جانتے ہیں شبہہ و جوبیہ میں احتیاط کو کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا ان تمام مسائل میں احتیاط واجب نہ ہونے کی ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ وہ اجمالی علم جو بعض واجبات اور محرمات کے بارے میں رکھتے تھے ، بعض معین و مشخص و اجبات اور محرمات کی وجہ سے تفصیلی علم میںتبدیل ہو گیا اور اجمالی علم بے اثرہو کر رہ گیاہے۔

اس مسئلے کی مزید وضاحت کیلئے ہماری کتاب ''اجود التقریرات،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

۵۔ متشابہ پر عمل کی ممانعت

قرآن کی متعدد آیات میں متشابہ آیات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ) ۳:۷

'' اس میں کی بعض آیتیں تو محکم (بہت صریح) ہیں وہی (عمل کرنے کیلئے) اصل (وبنیاد) کتاب ہیں اور کچھ (آیتیں) متشابہ (گول مول جس کے معنی میں سے پہلو نکل سکتے ہیں) پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ انہی آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں۔

متشابہ آیات میں ظواہر قرآن بھی شامل ہیں اگر ظواہر قرآن یقینی طورپر متشابہ نہ ہوں تو کم از کم یہ احتمال ضرور موجود ہے کہ یہ متشابہ کے ذیل میں آتے ہوں گے جس کے بعد وہ حجت اور قابل عمل نہیں رہتے کیونکہ آیہ کریمہ میں متشابہات پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

۳۴۲

جواب

متشابہ ایسا الفاظ ہے جس کا معنی سب کو معلوم ہے اورا س میں کسی قسم کا اجمال اور مشابہت نہیں اور وہ (متشابہ) یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کے دو یا دو سے زیادہ معانی کا احتمال ہو بایں معنی کہ ان تمام معانی کی نسبت لفظ کی طرف یکساں ہو جتنے فیصد ایک معنی کا احتمال ہوا اتنے فیصد دوسرے معنی کااحمتال بھی ہو یعنی جب لفظ بولا جائے توہر معنی کے بارے میں یہ احتمال برابر کا دیا جائے کہ یہی مراد ہو گا اس لئے جب تک کوئی دوسرا قرینہ کسی ایک معنی کی تعیین پر دلالت نہ کرے لفظ سے کسی معنی کا ارادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ توقف کیا جائے گا متشابہ کے اس معنی کی روشنی میں لفظ ''ظاہر،، متشابہ کے مصادیق میں سے نہ ہو گا جس پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

بفرض تسلیم ، اگر لفظ متشابہ ہو اور یہ احتمال باقی ہو کر معنی ''ظاہر،، بھی متشابہ ہے پھر بھی ظاہر پر عمل کرنے سے نہیں روکا جا سکتا اس لئے کہ عقلاء کی یہ سیرت و روش رہی ہے کہ کلام سے جو معنی ظاہر ہو اس پر عمل کرتے ہیں اور صرف یہ احتمال کہ شاید ظاہر بھی متشابہ کے مصادیق میں سے ہو اس سیرت عقلاء کو ترک کرنے کا باعث نیں بن سکتا بلکہ اس عمل کے جائز نہ ہونے پر ایک مستقل اور قطعی دلیل درکار ہو گی اور جب تک ایسی مستقل اور قطعی دلیل نہ ملے بلا شبہ ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہو گا ۔

یہی وجہ ہے کہ اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل نہ کرے اور اس کی مخالفت کرے تو مالک احتجاج کا حق رکھتا ہے اور اپنے غلام کا مواخذہ کر سکتا ہے اسی طرح اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل کرے مگر بعد میں معلوم ہو کہ مالک کا مقصد ظاہر کلام کیخلاف تھا تو غلام ، مالک کیخلاف احتجاج کر سکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ جب تک کوئی قطعی دلیل ممانعت نہ کرے ظاہر کلام پر عمل کرنے کی سیرت پر عمل ہوتا رہیگا۔

۳۴۳

۶۔قرآن میں تحریف

قرآن میں تحریف ہونا ظواہر قرآن پر عمل کرنے سے مانع اور اہم رکاوٹ ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ انہی ظواہر قرآن کے ساتھبعض قرائن ملے ہوئے ہوں جو معنی مراد پر دلالت کرتے تھے مگر اب تحریف کے نتیجے میں ساقط اور مفقود ہو گئے ہوں (جس کے نتیجے میں لفظ ایسے معنی میں ظہور رکھتا ہے جو معنی مراد کیخلاف ہے)

جواب:

اولاً : ہم اس بات کو نہیں مانتے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے چنانچہ اس سلسلے میں سیر حاصل بحث اس سے قبل کر چکے ہیں وہ روایات جو قرآن کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتی ہیں ، خود اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔

ثانیاً : بفرض تسلیم اگر قرآن میں تحریف ہوئی ہے پھر بھی ان روایات کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن پر عمل کیا جائے گزشتہ مباحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ ظاہر قرآن پر عمل ضروری ہے اوریہ کہ ظاہر قرآن پر عمل کرنا ہی شریعت کی اساس اور بنیاد ہے اگر سنت (احادیث نبوی (ص) اور روایات (آئمہ(ع) ) مخالف قرآن ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

۳۴۴

قرآن میں نسخ

٭نسخ کا لغوی معنی

٭نسخ کا اصطلاحی معنی

٭ نسخ کا امکان

٭ تورات میں نسخ

٭ شریعت اسلام میں نسخ

٭ تلاوت نسخ ہو ۔ حکم باقی رہے

٭تلاوت اور نسخ دونوں منسوخ ہوں

٭ حکم منسوخ ہو ۔ تلاوت باقی رہے

٭ان آیات کا تنقیدی جائزہ جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا

٭مسئلے کی وضاحت

٭ متعہ کی سزا ۔ سنگساری

٭متعہ کے بارے میں چند بے بنیاد شبہات

٭مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

٭آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

٭آیت نجومی پر عمل کی احادیث

٭ مسئلے کی تحقیق

٭ اس صدقے کے نسخ ہونے کے اسباب

٭ حکم صدقہ کی حکمت

٭ کھلم کھلا تعصب

۳۴۵

کتب تفسیر وغیرہ میں عموماً کچھ ایسی آیات ذکر کی جاتی ہیں جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ منسوخ ہو گئی ہیں چنانچہ ابوبکر نحاس نے اپنی کتاب ''الناسخ و المنسوخ،، میں ان آیات کو جمع کیا ہے اور ان کی تعداد ۱۳۸ ہے ہم نے اپنی اس کتاب میں اس بحث کو بھی شامل کیا ہے تاکہ ان آیات جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے کے بارے میں تحقیقی بحث کریں اور یہ ثابت کریں کہ جن آیات میں نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے ان میںسے ایک آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی چہ جائیکہ سب منسوخ ہوئی ہوں۔

البتہ ہم نے ان آیات میں سے صرف ۳۶ آیات کا انتخاب کیا ہے اور یہی آیات بحث و تمحیص اور وضاحت کی محتاج ہیں اور انہی پر بحث سے حق آشکار ہو جائےگا باقی آیات کا نسخ نہ ہونا اتنا واضح ہے کہ محتاج بیان و قابل استدلال نہیں۔

نسخ کا لغوی معنی

لغت میں نسخ ایک جگہ لکھی ہوئی بات کو نقل کر کے دوسری جگہ لکھنے اور اتارنے کو کہا جاتا ہے چنانچہ ''استنساخ،، اور ''انتساخ،، بھی اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں اس کے علاوہ یہ نقل و انتقال اور تبدیلی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ''تناسخ المواریث و الدھور،، (یعنی) ''ثروت و دولت اور زمانہ تبدیل ہوئے،،۔

نسخ کاایک معنی ازالہ اور برطرف کرنابھی ہے ''نسخت الشمس اظل ،، ''(یعنی،، سورج نے سائے کو زائل کر دیا،، میں ''نسخت،، اسی معنی میں استعمال ہوا ہے صحابہ کرام اور تابعین نے نسخ کو اس معنی میں کثرت سے ا ستعمال کیا ہے چنانچہ صحابہ اور تابعین مخصص و مقید کوناسخ ہی کہتے تھے(۱)

____________________

(۱) ابن عباس کی طرف منسوب تفسیر میں تحصیص پر کثرت سے نسخ کا اطلاق ہوا ہے۔

۳۴۶

نسخ کا اصطلاحی معنی

اصطلاح میں نسخ کسی ثابت امرشرعی کو اس کی مدت ختم ہونے کی وجہ سے اٹھانے کو کہتے ہیںچاہے وہ برطرف حکم کوئی حکم تکلیفی ہو جیسے وجوب ، حرمت وغیرہ میں یا حکم وضعی ہو جیسے صحیح ہوناباطل ہونا وغیرہ ہے اور چاہے وہ برطرف شدہ امر ، الٰہی منصب اور عہدوں میںسے ہو یا کوئی اور چیز ہو ، جس کی بازگشت بہ حیثیت شارع اللہ تعالیٰ کی طرف ہو ، جس کی مثال نسخ فی التلاوۃ ہے۔

ہم نے نسخ کی تعریف میں امر کے ساتھ ثابت کی قید کا اضافہ اس لئے کیا ہے تاکہ نسخ کی یہ تعریف اس حکم کے برطرف ہونے کو شامل نہ ہو جو خارج میں اپنے موضوع کے ختم ہو جانے کے باعث زائل ہو جائے جیسے ماہ رمضان ختم ہونے کے ساتھ ہی روزے کاوجوب بھی ختم ہو جاتا ہے اسی طرح نماز کا وقت نکلنے کے بعد نماز کاوجوب بھی ختم ہو جاتاہے اور کسی مال کامالک مر جانے سے اس کی مالکیت (مال کا مالک ہونا) بھی ختم ہو جاتی ہے ان تمام مثالوں میں حکم زائل تو ہو جاتا ہے مگر نسخ نہیں کہلاتا کیونکہ ان تمام مثالوں میں حکم نہیں بلکہ موضوع حکم برطرف ہو گیاہے موضوع کے ختم ہو جانے کی وجہ سے حکم برطرف ہوناممکن ہے ایسا ع ملی طورپر بھی ہوا ہے اور اس میں کسی کو کوئی اعتراض و اشکال نہیں ہے۔

ہم ذیل میں نسخ واقعی کی وضاحت کرتے ہیں:

(۱) پہلا مرحلہ تشریع اور قانون سازی کا ہوتا ہے اس مرحلے میں حکم بطور قضیہ حقیقیہ ثابت ہوتا ہے یعنی اس مرحلہ میں حکم ثابت ہو جاتا ہے چاہے خارج میں فی الحال کوئی موضوع (جس کیلئے حکم ثابت ہو) موجودہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کا دار و مدار ایک فرضی موضوع ہوا کرتا ہے۔

۳۴۷

مثلاً جب شارع مقدس فرمائے : ''شرب الخمر حرام،، (یعنی) مے نوشی حرام ہے،، اس حکم کا مطلب یہ نہیں کہ ابھی اسی وقت خارج میں (ہمارے سامنے) کوئی شراب موجود ہے جس پر حرمت کا حکم لگایا گیا ہے بلکہ اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی خارج (دنیا) میں کوئی شراب ہو گی شریعت میں اس کیلئے حکم ، حرام ہونے کا ہے چاہے فی الحال خارج میں کوئی شراب موجود ہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کو صرف نسخ کے ذریعے برطرف کیا جا سکتا ہے۔

(۲) دوسرا مرحلہ اس حکم کا خارج میں موجود ہوتا ہے بایں معنی کہ موضوع حکم فی الحال خارج میں موجود ہے اور حکم بھی متحقق ہے۔

مثال کے طورپر خارج میں (سامن) شراب موجود ہے اور شریعت میں مقرر شدہ حکم حرمت اس شراب کیلئے ثابت ہے جب تک موضوع موجود رہں گا حکم بھی رہے گا اگر کسی وقت شراب سرکہ میں تبدیل ہو جائے تو بلا شک شراب ہونے کی حالت میں موجود حکم اب برطرف ہو جائے گا مگر یہ نسخ نہیں کہلائے گا اس کے جواز بلکہ خارج میں واقع ہونے میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں اختلاف صرف پہلے مرحلے کے بارے میں ہے کہ آیا عالم تشریع (قانون سازی کے مرحلے) میں کسی حکم کو برطرف کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟

نسخ کاامکان

عقلاء مسلمین میں مشہور یہی ہے کہ زیر بحث نسخ (عالم تشریع میں کسی حکم کو برطرف کرنا) جائز ہے یہود و نصاریٰ نے اس کی مخالفت کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ نسخ محال ہے ان کا مسند و مدرک ایک شبہ (غلط فہمی) ہے جو تارعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور اور ضعیف ہے۔

۳۴۸

خلاصہ شبہ:

احکام کو نسخ کرنے سے یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کے کام حکمت و مصلحت پر مبنی نہ ہوں یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کسی بھی حکم کی حکمت اور مصلحت سے آگاہ نہ ہو یہ دونوں امور محال ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ جو حکیم مطلق ہے ، جو حکم بھی مقرر فرمائے کسی نہ کسی مصلحت کی بناء پر مقرر ہوتا ہے جو اس حکم کی متقاضی ہوتی ہے کیونکہ بے مصلحت حکم اس کے بنانے والے کی حکمت سے سازگار نہیں۔

ایسے فرض میں حکم کو اٹھاتے وقت یا تو اس حکم کی مصلحت و حکمت باقی ہو گی اور نسخ کرنے والا اس کا علم رکھتا ہو گا تو یہ حکم بنانے والے ، جو حکیم مطلق ہے، کی حکمت کیخلاف ہے ، یا بعد میں انکشاف ہوا ہوگا کہ یہ حکم شروع سے مصلحت پر مبنی نہ تھا ، جیسے عام عرفی قوانین کے بارے میں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس میں مصلحت نہیںتھی اس سے جہل خدالازم آتا ہے ، جو محال ہے معلوم ہوا نسخ محال ہے اس لئے کہ اس سے محال لازم آتا ہے (مستلزم المحال محال،، (یعنی) ''جس چیز سے محال لازم آئے وہ چیز محال ہوتی ہے،،۔

جواب:

بعض اوقات اللہ تعالیٰ کچھ کاموں کا حکم دیتا ہے اور بعض کاموں سے منع فرماتا ہے لیکن خالق کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جس کا حکم دیا ہے وہ ضرور انجام پائے اور جس کام سے منع کیا ہے وہ ضرور ترک ہو جائے بلکہ اس امرونہی کا مقصد بندوں کا امتحان ہوتا ہے اس قسم کے اوامرو نواہی شریعت میں موجود ہیںایسے احکامات صادر کئے جانے کے بعد دوبارہ برطرف کئے جا سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

۳۴۹

اس قسم کے احکام صادر ہونے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اور پھر انہیں واپس لینے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اس قسم کے نسخ اور ازالہ حکم سے نہ کوئی خلاف حکمت بات لازم آتی ہے اور نہ اس کا منشاء بداء (پہلے معلوم نہ ہو اور بعد میں انکشاف ہو ) ہے جو خدا کے لئے محال ہے۔

اور کبھی شارع کی طرف سے مقرر کردہ حکم حقیقی ہوتا ہے (بایں معنی کہ جس کام کو حکم دیا جائے اس کا بجا لانا اور جس کام سے روکا جائے اس کا ترک کرنا ضروری ہوتا ہے) اس کے باوجود ایک مدت کے بعد اس حقیقی حکم کو برطرف کیا جاتا ہے لیکن اس معنی میں نہیں کہ ایک حکم ، واقع اور علم خدا میں دائمی طور پر ثابت ہو مگر کسی خاص مصلحت یا اس حکم میں کسی خامی کے انکشاف کی بناء پر اسے نسخ اور برطرف کیا گیا ہو جس سے حکیم اور واقعیات و حقائق کی عالم ذات کے حق میں محال لازم آئے۔

بلکہ نسخ کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ یہ مقرر کردہ حکم ، عنداللہ کسی خاص مدت اور زمانے تک محدود ہوتا ہے اور عام لوگوں کو اس محدود وقت کا علم نہیں ہوتا اور جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو حکم بھی خود بخود زائل ہو جاتا ہے۔

اس معنی میں نسخ یقیناً ممکن ہے اور اس پر کسی قسم کا اشکال لازم نہیں آتا کیونکہ زمانہ اور وقت کی خصوصیات ، جن پر حکم کا دار و مدار ہو ، احکام میں دخیل ہوا کرتی ہیں جس میں کسی عاقل کوشک نہیں۔

مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں ہفتہ کا دن خصوصیت رکھتا تھا جس کی وجہ سے روز ہفتہ اس شریعت کے ماننے والوں کیلئے عید قرار پایا اور باقی ایمام ہفتہ میں کسی یوم میں ایسی خصوصیت نہیں تھی یہی حیثیت اسلام میں جمعتہ المبارک کو حاصل ہے اسی طرح نماز ، روزے اور حج کے مخصوص اوقات کی بھی کچھ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے مقررہ اوقات میں یہ فرض قرار دیئے گئے ہیں۔

۳۵۰

جب شریعت کے کسی حکم (قانون) کے بنانے اور نہ بنانے میں زمانہ اور وقت کا دخل قابل تصور ہے تو کسی حکم کے دائمی رہنے اور نہ رہنے میں بھی وقت کا دخل قابل تصور ہونا چاہئے ! بنا برایں عین ممکن ہے کہ ایک حکم ، ایک معین مدت کیلئے مصلحت پر مشتمل ہو لیکن اس مدت کے گزر جانے کے بعد وہ مصلحت ختم ہو جائے اسی طرح اسی کے برعکس بھی ممکن ہے یعنی ممکن ہے کہ ایک محدود زمانے میں مصلحت نہ ہو اس محدود مدت کے گزرنے کے بعد مصلحت پیدا ہو جائے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب کوئی مخصوص گھڑی ، دن ہفتہ اور مہینہ کسی فعل کے بامصلحت اور نقصان دہ ہونے میں اثر انداز ہو سکتا ہے تو سال اور برس بھی اثر انداز اور دخیل ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک حکم چند محدود برس تک باصلحت رہے گا اور ان برسوں کے گزر جانے کے بعد اس فعل اور حکم میں وہ مصلحت نہ رہے گی جس طرح کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے علاوہ کسی دوسری جداگانہ دلیل کے ذریعے مقید کیا جا سکتا ہے اسی طرح عین ممکن ہے کہ کسی جداگانہ دلیل کے ذریعے زمانے کے اعتبار سے بھی کسی مطلق حکم کو مقید کیا جائے کیونکہ بعض اوقات مصلحت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ حکم کو ظاہری طور پر عام اور مطلق چھوڑا جائے (ظاہراً کسی لفظ کے ذریعے عام کی تخصیص اور مطلق کی تقیید نہ کی جائے) جبکہ درحقیقت خاص اور مقید ہی مراد ہوتے ہیں اور مخصص و مقید کو کسی جداگانہ دلیل کی صورت میں بعد میں بیان کیا جاتا ہے۔

معلوم ہوا اور حقیقت نسخ ، کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے اعتبار سے مقید کرنے کا نام ہے جس سے حکمت کی مخالفت لازم آتی ہے اور نہ بداء لازم آتا ہے جو خدا کیلئے محال ہیں۔

یہ تمام بحث اس مذہب کی بنیادپر ہوئی جس کے مطابق قانون سازی ، اعمال میں مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتی ہے لیکن اگر اس مذہب کی رو سے دیکھا جائے جس کے مطابق احکام ، اپنے اندر موجود مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتے ہیں تو پھر تمام احکام ان احکام کی مانند ہوں گے جو درحقیقت امر حقیقی (جن کا امتشال مطلوب ہو) نہیں ہوتے بلکہ صرف امتحان کیلئے صادر ہوتے ہیں ان کا صادر ہونا مصلحت سے خالی نہیں اور ان کا نسخ ہونابھی مصلحت سے خالی نہیں۔

۳۵۱

تورات میں نسخ

یہود و نصاریٰ شریعت میں نسخ کو محال قرار دے کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شریعت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام احکام آج تک باقی اور ثابت ہیں اور منسوخ نہیں ہوئے لیکن گزشتہ مباحث سے یہ ثابت ہو گیا کہ نسخ محال نہیں ہے نیز تورات اور انجیل میں بھی کئی مقامات پر نسخ واقع ہوا ہے ہم ذیل میں نمونہ کے طورپر عہد نامہ قدیم و جدیدسے نسخ کے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جن سے اندازہ ہو جائے گا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے مذہب کی حقانیت پر جو دلیل پیش کی ہے وہ کتنی کمزور ہے۔

۱۔ کتاب مقدس ، عہد نامہ قدیم و جدید ، سفر گنتی کے باب : ۴ شمارہ ۲۔۳ میں ہے:

''اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا : بنی لاوی میں سے قہانیوں کو ان کے گھرانوں اور آبائی خاندانوں کے مطابق تیس برس سے لے کرپچاس برس تک جتنے خیمہ اجتماع میں کام کرنے کیلئے مقدس کی خدمت میں شامل ہیں ان سب کو گنو،،

یہ حکم نسخ کر دیا گیا اور قبول خدمت کی عمر پچیس سال قرار دی گئی چنانچہ اسی سفر کے باب: ۸ ، شمارہ :۲۳ اور ۲۴ میں ہے:

''پھر خدا نے موسیٰ سے کہا : لاویوں کے متعلق جو بات ہے وہ یہ ہے کہ پچیس برس سے لے کر اس سے اوپر اوپر کی عمر میں وہ خیمہ اجتماع کی خدمت کے کام کیلئے اندر حاضر ہوا کریں،،۔

اس کے بعد یہ حکم بھی نسخ ہو گیا اور قبول خدمت کی عمر گھٹا کر بیس سال کر دی گئی چنانچہ تاب مقدس کے (عنوان) تواریخ ایک کے شمار ۲۳۔۲۴ میں ہے:

''لاوی کے بیٹے یہی تھے جو اپنے اپنے آبائی خاندان کے مطابق تھے ان کے آبائی خاندان کے سردار جیسا وہ نام بنام ایک ایک کر کے گنے گئے یہی ہیں وہ بیس برس اور اس سے اوپر کی عمر سے خداوند کے گھر کی خدمت کا کام کرتے تھے اور خدا کے گھر کی خدمت کو انجام دینے کیلئے خیمہ اجتماع کی حفاظت اور مقدس کی نگرانی اور اپنے بھائی نبی ہارون کی اطاعت کریں،،

۳۵۲

۲۔ سفر گنتی کے باب: ۲۸ شمارہ : ۳ اور ۷ میں ہے:

''تو ان سے کہہ دے جو آتشین قربانی تم کو خدا کے حضور پیش کرنا ہے کہ دو بے عیب یکسالہ برے (بھیڑیں) ہر روز دائمی سوختی قربانی کیلئے چڑھایا کرو۔ ایک برہ (بھیڑ) صبح اور دوسرا برہ (بھیڑ) شام کو چڑھانا اور ساتھ ہی ایک ایفہ کے دسویں حصہ کے برابر میدہ جس میں کوٹ کر نکالا ہوا تیل چوتھائی ھین کے برابر ملا ہو ، نذر کی قربانی کے طور پر گزراننا اور ھین کی چوتھائی کے برابر مے فی برہ تپاون کیلئے لانا،،

یہ حکم منسوخ ہو گیا اور ہر صبح کی آتشین قربانی روزانہ ایک سالہ بھیڑ قرار دی گئی اور ایفہ کے چھٹے حصہ کے برابر میدہ اور ایک تہائی ھین کے برابر تیل پیش کرنا ضروری قرار دیا گیا چنانچہ حزقیل کے باب ۴۶ شمارہ ۱۳۔۵ۃ میں ہے:

''تو ہر روز خداوند کے حضور پہلے سال کاا یک بے عیب برہ (بھیڑ)سوختنی قربانی کیلئے ہر صبح کو چڑھائے گا اور تو اس کے ساتھ ہر صبح نذر کی ربانی گزرانے گا یعنی ایفہ کا چھٹہ حصہ اور میدہ کے ساتھ ملانے کو تیل کے ھین کی ایک تہائی دائمی حکم کے مطابق ہمیشہ کیلئے خداوند کے حضور یہ نذر کی قربانی ہو گی اسی طرح وہ برے (بھیڑیں) اور نذر کی قربانی اور تیل ہر صبح ہمیشہ کی سوختنی قربانی کیلئے چڑھائیں گے،،۔

۳۔ سفر گنتی کے باب ۲۸: شمارہ :۹ اور ۱۰ میں ہے:

''اور شنبہ کے روز دو بے عیب نر بھیڑ اور نذر کی قربانی کے طورپر ایفہ کے پانچویں حصے کے برابر میدہ جس میں تیل ملا ہوا ہو تپاون کے ساتھ گزراننا دائمی سوختنی قربانی اور اس کے تپاون کے علاوہ یہ ہر شنبہ کی سوختنی قربانی ہے،،۔

یہ حکم نسوخ ہو گیا چنانچہ حزقیل باب : ۴۶ شمارہ : ۴۔۵ میں نسخ کے بعد کا حکم یوں مذکور ہے: ''اور سوختنی قربانی جو فرمانروا شنبہ کے دن گزراننے گا یہ ہے : چھ بے عیب بھیڑ اور ایک بے عیب مینڈھا اور نذر کی قربانی مینڈھے کیلئے ایک ایفہ اور بھیڑوں کیلئے نذر کی قربانی اس کی توفیق کے مطابق اور ایک ایفہ کیلئے ایک ھین تیل،،

۳۵۳

۴۔ کتاب مقدس سفر گنتی کے باب : ۳۰ شمارہ ۲ میں ہے:

''جب کوئی مرد خدا کی منت مانے یا قسم کھا کر اپنے اوپر کوئی خاص فرض ٹھہرا دے تو وہ اپنے عہد کو نہ توڑے بلکہ جو کچھ اس کے منہ سے نکلا ہے اسے پورا کرے،،۔

تورات میں ثابت یہی حکم (قسم کا جواز) منسوخ ہو گیا چنانچہ متیٰ کی انجیل باب : ۵ شمارہ : ۳۳۔۳۴ میں ہے: ''نیز تم نے یہ سنا ہے کہ گزشتوں سے کہا گیا تھا قسم کی مخالفت نہ کرو بلکہ اپنے رب کی قسم پورا کرو۔ لیکن میں یہ کہوں گا قسم ہرگز نہ کھاؤ،،۔

۵۔ کتاب مقدس کے سفر خروج باب : ۲۱ شمارہ : ۲۳۔۲۵ میں ہے:

''لیکن اگر نقصان ہو جائے تو جان کے بدلے جان لے او رآنکھ کے بدلے آنکھ دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ پاؤں کے بدلے پاؤں جلانے کے بدلے جلانا زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ،،

یہ حکم قصاص شریعت حضرت عیسیٰ (ع) میں منسوخ ہو گیا چنانچہ انجیل متیٰ کے باب : ۵ شمارہ ۳۸ میں ہے:

''تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے میں آنکھ دانت کے بدلے میں دانت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جوتیرے دائیں رخسارپر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے،،۔

۶۔ کتاب مقدس سفر پیدائش باب : ۱۷ شمارہ ۱۰ میں حضرت ابراہیم (ع) سے خدا کا خطاب ہے: '' اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزمذ نرینہ ختنہ کیا جائے،،

حضرت موسیٰ (ع) کی شریعت نے بھی اس حکم کی تائید کر دی۔ چنانچہ سفر خروج کے باب ۱۲ کے شمارہ : ۴۸۔۴۹ میں ہے:

۳۵۴

''اور اگر کوئی اجنبی تیرے ساتھ مقیم ہو اورخداوند کی فسح کو ماننا چاہتا ہو تو اس کے ہاں کے سب مرد اپنا ختنہ کرائیں تب وہ پاس آ کر فسح کرے یوں وہ ایسا سمجھا جائے گا گویا اسی ملک کی اس کی پیدائش ہے پر کوئی نامختون آدمی اسے کھانے نہ پائے وطنی اور اس اجنبی کیلئے جو تمہارے درمیان موجود ہو ایک ہی شریعت ہو گی،،۔

نیز کتاب مقدس کے سفر اخبار کے باب : ۱۲ شمارہ ۲ اور ۳ میں موجود ہے:

''خداوند نے موسیٰ سے کہا: بنی اسرائیل سے کہو اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو وہ سات دن ناپاک رہے گی جیسے حیض کے ایام میں رہتی ہے آٹھویں دن لڑکے کا ختنہ کیا جائے،،۔

یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا اور حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت عیسیٰ (ع) کی امت سے ختنہ کا فریضہ اٹھا لیا گیا چنانچہ کتاب مقدس ، عہد نامہ جدید کے عنوان ''رسولوں کے اعمال،، کے باب : ۱۵ شمارہ : ۲۴۔۳۰ اور پولس کے بعض خطوط میں نسخ کا یہ حکم موجود ہے۔

۷۔ کتاب مقدس کے سفر استثنا باب : ۲۴ شمارہ:۱۔۳ میں ہے:

''اگر کوئی مرد کسی عورت سے بیاہ کرے اور بعد میں اس میں کوئی ایسی بیہودہ بات پائے جس سے اس عورت کی طرف اس کی التفات نہ رہے تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کراس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے اور جب اس کے گھر سے نکل جائے تو وہ دوسرے مرد کی ہو سکتی ہے لیکن اگر دوسراشوہر بھی اس سے ناخوش رہے اور اس کا طلاق نامہ لکھ کر اس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے یا وہ دوسرا شوہر جس نے اس سے بیاہ کیا ہو مر جائے تو اس کا پہلا شوہر جس نے اسے نکال دیا تھا اس عورت کے ناپاک ہونے کے بعد یہ مرد اس سے بیاہ نہ کرنے پائے،،۔

۳۵۵

انجیل نے اس حکم کو منسوخ کر دیا اور طلاق کو حرام قرار دیا ہے چنانچہ انجیل متیٰ کے باب: ۵۰ شمارہ : ۳۱۔۳۲ میں لکھا ہے:

''یہ بھی کہاگیا تھا کہ جو کوئی بیوی کو چھوڑے اسے طلاق نامہ لکھ دے لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے وہ اس سے زنا کراتا ہے اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے،،(۱)

مرقس کے باب : ۱۰ شمارہ : ۱۱۔۱۲ اور لوقا کے باب : ۱۶ شمارہ :۱۸ میں بھی اس قسم کا حکم موجود ہے۔ عہد نامہ قدیم و جدید سے نسخ کے جو موارد بیان کئے گئے وہ اہل انصاف اور حقیقت بین حضرات کیلئے کافی ہیں ۔ جو حضرات نسخ کے مزید مقامات سے آگاہ ہونا چاہیں وہ کتاب ''اظہار الحق،، (۲) اور ''الہدیٰ الیٰ دین المصطفےٰ (۳)،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

____________________

(۱) کتاب مقدس کے اقتباسات کا اردوترجمہ ، پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور کے شائع کردہ اردو ترجمہ سے لیا گیا ہے (مترجم)

(۲) مولف کتاب: شیخ رحمتہ اللہ ابن خلیل الرحمن الہندی ، یہ انتہائی مفید اور جلیل کتاب ہے۔

(۳) مولف : امام البلاغی ۔

۳۵۶

شریعت اسلام میں نسخ

نسخ کے واقع ہونے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کیونکہ گزشتہ شریعتوں کے بہت سے احکام ، شریعت اسلام کے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے اور شریعت اسلام ہی کے کچھ احکام شریعت اسلام کے چند دوسرے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے ہیں چنانچہ قرآن مجید اس بات کی تصریح کر رہا ہے کہ نماز میں قبلہ اول (بیت المقدس) کی طرف رخ کرنے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا قربان کے کچھ احکام ، قرآن یا سنت قطعیہ (خبر متواترہ وغیرہ)یا اجماع یا عقل کی وجہ سے نسخ ہو سکتے ہیں؟

بہتر ہے اس پہلو سے نسخ کی بحث شروع کرنے سے پہلے ہم نسخ کی قسمیں بیان کر دیں۔ علماء کرام نے نسخ قرآن کی تین قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔ تلاوت نسخ ہو حکم باقی رہے(۱)

علمائے کرام نے اس ضمن میں مثال کے لئے آیت رحم کو پیش کیا ہے اور فرمایا ہے کہ آیت رحم فی الحال قرآن میں موجود نہیں (نسخ ہو گئی ہے) لیکن اس آیت میں موجود حکم باقی ہے۔

ہم تحریف کی بحث میں ثابت کر چکے ہیں کہ نسخ تلاوت کا قائل ہونا بعینہ تحریف کا قائل ہونے کے مترادف ہے اور جو روایات نسخ تلاوت پر دلالت کرتی ہیں وہ سب کی سب احادہیں اس قسم کی مباحث میں خبر واحد کے ذریعے مدعا ثابت نہیں ہو سکتا۔

____________________

(۱) یعنی حکم باقی رہے اور صرف تلاوت منسوخ ہو۔

۳۵۷

تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جس طرح خبر واحد سے قرآن ثابت نہیں ہو سکتا اسی طرح خبر واحد سے نسخ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ اجتماع کے ساتھ ساتھ ایک عہدہ اور اہم دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی اہم واقعہ جو رونما ہونے کے بعد (اگر درحقیقت ثابت ہو) عام طور پر لوگوں میں شائع اور مشہور ہو جاتا ہے وہ خبر واحد کے ذریعے ثابت نہیں ہوتا اس قسم کے واقعہ کو بعض راویوں کا نقل کرنا اور بعض راویوں کا نقل نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے نقل کیا ہے اس نے یا تو جھوٹ بولا ہے یا اسے غلط فہمی ہوئی ہے بنا برایں خبر واحد کے ذریعے یہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے کہ آیت رجم قرآن کا حصہ ہو اور پھر منسوخ ہو گئی ہو اور یہ کہ اس کی صرف تلاوت نسخ ہوئی ہو اور اس کا حکم باقی رہے۔

ہاں! گزشتہ مباحث میں یہ بات ضرور نقل کی گئی ہے کہ جمع قرآن کے موقع پر حضرت عمرآیت رجم لے کر آئے اور انہوںنے یہ دعویٰ کیا کہ یہ بھی قرآن کا حصہ ہے لیکن مسلمانوں نے ان کے اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس آیت کو نقل کرنے والے صرف حضرت عمر تھے چنانچہ مسلمانوں نے آیت رجم کو قرآن میں شامل نہیں کیا یہاں سے متاخرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آیہ رجم کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے لیکن اس کا حکم باقی ہے۔

۲۔ تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوں

تلاوت اور حکم دونوں میں نسخ کی مثال کیلئے تحریف کی بحث میں مذکور دسویں روایت کو پیش کیا گیا ہے جس کو حضرت عائشہ نے نقل کیا ہے:

اس دلیل کا جواب وہی ہے جو نسخ تلاوت کی دلیل کا تھا۔

۳۵۸

۳۔ حکم منسوخ ہو۔ تلاوت باقی رہے۔

نسخ کی یہی قسم علماء اور مفسرین میں مشہور ہے اس کے بارے میں ئی علمائے کرام نے مستقل کتب لکھی ہیں اور ان میں ناسخ اور منسوخ کو ذکر کیا ہے ان علماء میں ممتاز عالم ابو جعفر نحاس اورحافظ المظفر الفارسی قابل ذکر ہیں۔

بعض محققین اس رائے کے مخالف ہیں اور انہوں نے قرآن میں کسی منسوخ آیت کے موجود ہونے کا انکار کیا ہے البتہ اس نسخ کے امکان پر سب کا اتفاق ہے اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ قرآن میں کچھ آیات ایسی ہیں جو گزشتہ شریعتوں کے احکام کی ناسخ ہیں اور بعض آیات کے ذریعے صدر اسلام کے کچھ احکام منسوخ ہو گئے ہیں ہم ذیل میں اس مسئلے میں صحیح رائے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں موجود حکم تین طریقوں سے نسخ ہو سکتا ہے۔

۱۔ قرآن میں موجود حکم سنت متواترہ یا اس اجماع قطعی کے ذریعے نسخ کیا جائے جو اس بات کا انکشاف کرے کہ نسخ معصوم (ع) کی طرف سے ہوا ہے نسخ کی اس قسم پر عقلاً اور نقلاً کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اگر کسی آیت کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ اجماع یا سنت متواترہ کے ذریعے یہ نسخ ہو گئی ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا ورنہ نسخ کا التزام نہیں کیا جائے گاکیونکہ یہ مسلم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

۲۔ قرآن میں کوئی ثابت حکم قرآن ہی کی دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو جس کی نظر اس آیہ منسوخہ پر نہ ہو اور اس کے حکم کے برطرف ہونے کو بیان نہ کرتی ہو بلکہ صرف اس بنیدپر نسخ سمجھا جائے کہ ان دونوں آئتوں میں حکم کے اعتبار سے منافات پائی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا جائے کہ بعد والی آیت پہلی آیت کی ناسخ ہے۔

۳۵۹

تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن میں یہ نسخ و اقع نہیں ہوا اور کیسے اس قسم کے نسخ کو مانا جا سکتا ہے جبکہ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ) ۴:۸۲

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے اور (یہ نہیں خیال کرتے کہ) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا) ہوتا تو ضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے،،۔

مگر بہت سے مفسرین نے آیات قرآنی کے مفاہیم میں کما حقہ ، غور و خوض نہیں کیا اور یہ خیال کیا کہ قرآن کی بہت سی آیات میں منافات پائی جاتی ہے اور اسی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان دونوں (باہم منافی) آیات میں سے پہلی منسوخ اور دوسری ناسخ ہے بلکہ بعض حضرات نے ان دونوں آئتوں کو بھی ایک دوسرے کے منافی قرار دیا ہے جہاں دوسری آیت پہلی آیت کیلئے قرینہ عرفیہ بن رہی ہو(۱) جس طرح خاص عام کا اور مقید مطلق کا مقصد و مراد بیان کرتا ہے اس قسم کے شبہات یا نظریات کا منشا و سرچشمہ ، فکر و تدبر کا فقدان ہے یا نسخ کے لغوی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد و مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے سے پہلے ایسے معانی کو عام طور پر نسخ کہا جاتا ہے لیکن اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے کے بعداس کو نسخ کہنا یقیناً مجاز ہو گا جو چشم پوشی پر مبنی ہے۔

____________________

(۱) دوسری آیت پہلی آیت کا صحیح مقصد بیان کر رہی ہو(مترجم)

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

عبد: کبھی ''عبد،، انسان کو کہا جاتا ہے خواہ وہ آزاد ہی کیوں نہ ہو کیونکہ انسان اللہ کی مخلوق اور اس کا پروردہ ہے جو اپنے وجود اور تمام افعال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے خاضع اور نیاز مند ہے اگرچہ وہ اس کے اوامرونواہی کی مخالفت کرے اور کبھی ''عہد،، زرخرید غلام کو کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اپنے مالک کا مملوک اور اس کے زیر سلطنت ہوتا ہے کبھی لفظ ''عبد،، کے استعمال میں وسعت سے کام لیا جاتا ہے اور ہر اس شخص کو ''عبد،، کہا جاتا ہے جو کسی غیر معمولی چیز کو اہمیت دے اور اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز اسے دکھائی نہ دیتی ہو چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

الناس عبید الدنیا و الدین لعق علیٰ السنتهم یحوطونه مادرت معایشهم و اذا محصوبالبلاء قل الدیا نون،، (۱)

''لوگ دنیا پرست ہیں اور دین ان کی زبانوں تک محدود ہے جب تک یہ آسودہ حال رہیں دین کا طواف کرتے ہیں اور جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو متدین افراد بہت کم رہ جاتے ہیں،،۔

کبھی ''عبد،، متواضع اور عبادت گزار کو کہا جاتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ ) ۲۶:۲۲

''کہ آپ نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے،،۔

( عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ ) کا مطلب ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو اپنا اطاعت گزار بنا دیا ہے جو تیرے امرو نہی کی مخالفت نہیں کرتے۔

____________________

(۱) بحار ، ج ۱۰ ، ص ۱۸۹

۵۸۱

الاستعانتہ

استعانت مدد طلب کرنے کو کہتے ہیں یہ لفظ کبھی خود اور کبھی 'ب، کے ذریعے متعدی ہوتا ہے چنانچہ استعنتہ،، بھی کہا جاتا ہے اور''استعنت به ،، بھی کہا جاتا ہے یعنی میں نے اس سے مدد طلب کی۔

اعراب:

دونوں جملوں( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) میں ''ایاک،، کو جو مفعول ہے حصر کی خاطر مقدم کیا گیا ہے اور آیت میں غائب سے خطاب کی طرف التفات سے کام لیا گیا ہے(۱) اس میں دو راز ہو سکتے ہیں:

(۱) گزشتہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام موجدات کامالک اور مزتی ہے اور زندگی کا ہر کام اس کی قدرت سے انجام پاتا ہے یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ کائنات کی ہر شئی اللہ کے سامنے حاضر ہو اور اللہ ، انسان اور اس کے تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہو تاکہ روز قیامت اطاعت گزاروں اور معصیت کاروں کو جزاء و سزا دے سکے اس کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اللہ کے سامنے اپنی حاضری دے اور اس سے مخاطب ہو۔

(۲) عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق کے سامنے اسے اپنا رب سمجھ کر متواضع ہو اور ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ مربی ا پنے پروردہ کے سامنے ہو۔ یہی حکم استعانت کا بھی ہے کیونکہ انسان کا اپنے رب کا محتاج ہونا اور اس کا مستقل نہ ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ معبود ، عبد کے سامنے ہوتا کہ اس کی طرف سے مدد ہو سکے۔

ان دو نکتوں کے پیش نظر سورہ حمد میں غایب سے خطاب کی طرف رخ کیا گیا اور( إِيَّاكَ نَعْبُدُ ) کہا گیا ۔ پس بندہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہو اس سے غائب نہیں۔

____________________

(۱) علم معنی بیان میں کسی خاص مقصد کے تحت غائب کی ضمیرا ستعمال کرتے کرتے اچانک مخاطب کی ضمیر لانے یا مخاطب کے بعد غائب کی ضمیر لائے ، یعنی ایک ضمیر کو چھوڑ کر دوسری ضمیر سے استفادہ کرنے کو ''التفات،، کہا جاتا ہے۔ (مترجم)

۵۸۲

گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور بزرگی بیان فرمائی اس کے بعد اس آیت( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) کی تلاوت کی تلقین فرمائی اور یہ کہ اس آیت کے مدلول و مفہوم کا اعتراف کریں یعنی ہم سوائے خدا کے کسی اور کی عبادت و پرستش نہیں کرتے اور غیر اللہ سے مدد طلب نہیں کرتے اس خدا کے علاوہ تمام موجودات ذاتاً فقیر، محتاج اور عاجز ہیں بلکہ وہ لاشئی اور ہیچ ہیں مگر یہ کہ رحمت الٰہی انہیں شامل حال ہو۔

جس موجود و مخلوق کی یہ حالت ہو وہ اس قابل نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے یا اس سے مدد طلب کی جائے اور تمام ممکنات ، اگرچہ کمال و نقص کے اعتبار سے ان کے درجے مختلف ہیں صفت عجز میں مشترک ہیں جو ایک ممکن کا لازمہ ہے اور یہ کہ سب ممکنات اللہ کے حکم اور اس کے ارادے سے موجود ہیں۔

( أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ) ۷:۵۴

''دیکھو حکومت اور پیدا کرنا بس خاص اسی کیلئے ، وہ خدا جو سارے جہاں کا پروردگار ہے ، بڑا برکت والا ہے،،

( وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ ) ۲۴:۴۲

''اور سارے آسمان اور زمین کی سلطنت خاص خدا ہی کی ہے اور خدا ہی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے،،

اللہ کے ساتھ اس کی سلطنت میں کون ٹکر لے سکتا ہے اور اس کے امرو حکم کے سامنے کون آ سکتا ہے عطا کرنے والی ذات بھی وہی ہے اور روکنے والی ذات بھی وہی ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہے حکم فرماتا ہے پس مومن اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتا اور نہ اس کے غیر سے مدد مطلب کرتا ہے کیونکہ غیر خدا چاہے کوئی بھی ہو ہر کام اور ہر بات میں اللہ کا محتاج ہے معبود کوہر حالت میں مستغنی اور بے نیاز ہونا چاہئے اس لئے کہ فقیر اپنے جیسے فقیروں کی کیسے عبادت کرسکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ اللہ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرے اور اللہ کے علاوہ کسی کے پاس اپنی حاجت لے کر نہ جائے غمیر خدا پر بھروسہ نہ کرے اور صرف اللہ سے مانگے ورنہ شرک باللہ اور اس کی سلطنت میں کسی اور کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا۔

( وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ) ۱۷:۲۳

''اور تمہارے پروردگار نے تو حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا،،

۵۸۳

آیتہ ''الحمد،، کے بارے میں بحث دوم

٭ العبادۃ و التالہ

٭ عبادت اور اطاعت

٭ عبادت اور خشوع

٭ غیر اللہ کو سجدہ

٭ آدم (ع) کو سجدہ ۔۔۔۔۔۔ اقوال علمائ

٭ شرک باللہ کیا ہے ؟

٭ اسباب عبادت

٭ صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے

٭ شفاعت

٭ امامیہ کے نزدیک شفاعت کی احادیث

٭ اہلسنت کے نزدیک شفاعت کی احادیث

٭ تحلیل آیتہ ،اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ۔

٭ قرات

٭ لغت ، الہدایتہ ، الصراط ، الاستقامہ ، الانعام ، الغضب ، اضلال

٭ اعراب ، الضالین

٭ تفسیر----- ٭ ہدایت عامہ

٭ ہدایت خاصہ

۵۸۴

العبادۃ و التالہ

اس میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا کہ ''عبادت،، بمعنی ''پرستش،، صرف اللہ سے مختص ہے اور اس سے قبل یہ بتایا جا چکا ہے کہ جب بھی یہ لفظ (عبادت) بولا جائے اس کا معنی ''پرستش،، ہی ذہن میں آتا ہے اور یہی وہ توحید ہے جس کی تبلیغ کیلئے اللہ کی طرف سے انبیاء (ع) بھیجے گئے اور آسمان سے کتابیں نازل کی گئیں ارشادباری ہے:

( قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۚ ) ۳:۶۴

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان سے) کہو کہ اے اہل کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی) بات پر تو آؤ جو ہمارے اورتمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے،،

پس ایمان بخدا اور غیر خدا کی عبادت یہ دونوں جمع نہیں ہو سکتے غیر خدا کی عبادت حرام ہے چاہے یہ عبادت ، توحید فی الذات سے انکار اور متعدد خالقوں کے عقیدے کی بنیاد پر ہو یا اس عقیدے کی وجہ سے کی جائے کہ مخلوق اور اللہ میں فاصلہ بہت زیادہ ہے اور لوگوں کی دعا اللہ تک نہیں پہنچ سکتی لہٰذا اس خالق کائنات کے علاوہ ایک یا کئی دیگر خداؤں کے محتاج ہیں جو خالق اور لوگوں کے درمیان واسطہ بن سکیں اور ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کر سکیں خدا کے مقابلے میں ان خداؤں کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کے مقابلے میں اس کے حواریوں کی ہوتی ہے چونکہ بادشاہ اور عوام میں فاصلہ زیادہ ہوتا ہے اور عام لوگوں کی اس تک رسائی نہیں ہو سکتی اس لئے بادشاہ کے حواریوں کو واسطہ قرار دیتے ہیں اور انہی کے ذریعے اپنی حاجات اور ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں ان دونوں عقیدوں کو باطل قرار دیا ہے چنانچہ پہلے عقیدے کے ابطال میں خالق فرماتا ہے۔

( لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ ) ۲۱:۲۲

'' اگر (بفرض محال) زمین اور آسمان میں خدا کے سوا چند معبود ہوتے تو دونوں کب کے بربادہو گئے ہوتے،،

۵۸۵

( وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ ) ۲۳:۹۱

''اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے (اگر ایسا ہوتا تو) اس وقت ہر خدا اپنی اپنی مخلوق کو لئے پھرتا ہے اور یقیناً ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے (اور خوب جنگ ہوتی) جو جو باتیں یہ لوگ (خدا کی نسبت) بیان کرتے ہیں اس سے خدا پاک و پاکیزہ ہے،،۔

دوسرا عقیدہ جس کی رو سے لوگ واسطہ کے قائل ہیں اور الٰہی نظام کو بادشاہوں کے نظام سے قیاس کرتے ہیں اللہ نے مختلف بیانات کے ذریعے اس عقیدے کو باطل قرار دیا ہے بعض آیات میں اس غلط دعویٰ کی دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس عقیدے کی کوئی دلیل نہیں ہے ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ) ۲۷:۶۴

''تو کیا خدا کے سامنے کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان مشرکین سے) کہہ دو کہ اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل پیش کرو،،

( قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ ) ۲۶:۷۱

''وہ بوگے ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ان ہی کے مجاور بن جاتے ہیں،،

( أَوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ ) : ۷۳

''یا تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں،،

( قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ ) : ۷۴

''کہنے لگے ( کہ یہ سب کچھ تو نہیں) بلکہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایسا ہی کرتے پایا،،

۵۸۶

کبھی اللہ تعالیٰ ان (منکرین توحید) کو ان چیزوں کی طرف متوجہ فرماتا ہے جن کو وہ اپنے حواس کے ذریعے درک کر سکتے ہیں اور کہ یہ لوگ جن بتوں کی پوجا کرتے ہیں وہ کسی کو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان اور جو نفع ، نقصان ، لینے دینے ، مارنے اور زندہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا وہ ایک کمزور مخلوق ہی ہو سکتی ہے وہ اس قابل نہیں کہ اسے معبود بنایا جائے ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ) ۲۱:۶۶

''ابرہیم نے کہا تو کیا تم لوگ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع ہی پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہارا کچھ نقصان ہی کر سکتے ہیں،،

( أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) : ۶۷

''تف ہے تم پر اور اس چیز پر جسے تم خدا کے سوا پوجتے ہو تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے،،

( قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۚ ) ۵:۷۶

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) تم ) کہہ دو کہ کیا تم خدا (جیسے قادر وتوانا) کو چھوڑ کر ایسی (ذلیل) چیز کی عبادت کرتے ہو جس کو نہ تو نقصان ہی کا اختیار ہے اور نہ نفع کا،،۔

( أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ ) ۷:۱۴۸

''(افسوس ) کیا ان لوگوں نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ وہ نہ تو ان سے بات ہی کر سکتا ہے نہ کسی طرح کی ہدایت ہی کر سکتا ہے (خلاصہ) ان لوگو نے اسے اپنا معبود بنا لیا اور اپنے اوپر ظلم کرتے تھے،،

مخلوق کا عبادت و پرستش کے قابل نہ ہونا ا یک عقلی اور فطری قانون ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ ان آیات کے ذریعے متوجہ فرما رہا ہے اور اس قانون سے کوئی موجود ، ممکن اور محتاج مستثنیٰ نہیں اگرچہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔

۵۸۷

( وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ) ۵:۱۱۶

''اور وہ (وقت بھی یاد کرو) جب (قیامت میں عیسیٰ سے) خدا فرمائے گا کہ (کیوں) اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنالو ، عیسیٰ عرض کریں گے سبحان اللہ میری تو یہ مجال نہ تھی کہ میں منہ سے ایسی بات نکالوں جس کا مجھے کوئی حق نہ ہو (اچھا) اگر میں نے کہا ہو گا کہ تجھ کو تو ضرور معلوم ہو گا کیونکہ تو میرے دل کی (سب بات ) جانتا ہے ہاں البتہ میں تیرے دل کی بات نہیں انتا (کیونکہ) اس میں تو شک ہی نہیں کہ تو ہی غیب کی باتیں خوب جانتا ہے،،

( مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ ) ۵:۱۱۷

؟؟ تو نے مجھے جو کچھ حکم دیا اس کے سوا تو میں نے ان سے کچھ بھی نہیں کہا یہی کہ خدا ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پالنے والا ہے،،

کبھی اس اعتقاد کو اس دلیل سے باطل قرار دیا کہ اللہ اپنے بندوں کے نزدیک ہے ، ان کی سرگوشیوں کو سنتا اور ان کی پکار پر انہیں جواب دیتا ہے ان کی تربیت اور سرپرستی اسی کے ہاتھ میں ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ) ۵۰:۱۶

''اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں،،

( أَلَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ ) ۳۹:۳۶

''کیا خدا اپنے بندوں (کی مدد) کیلئے کافی نہیں ہے (ضرور ہے)،،

( ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ) ۴۰:۶۰

''تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا،،

۵۸۸

( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ ) ۶:۱۸

''وہی اپنے تمام بندوں پر غالب ہے اور وہ واقف کار حکیم ہے،،

( قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۳:۲۹

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان لوگوں سے) کہہ دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم خواہ اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو (بہرحال) خدا تو اسے جانتا ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ (سب کچھ) جانتا ہے اور خداہر چیز پر قادر ہے،،۔

( وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ ) ۱۰:۱۰۷

'' اور (یاد رکھو) اگر خدا کی طرف سے تمہیں کوئی برائی چھو بھی گئی تو اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نہ ہو گا۔ اور اگر تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو پھر اس کے فضل (وکرم) کا پلٹنے والا بھی کوئی نہیں،،

( وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ ----- فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۶:۱۷

''اور اگر تمہیں کچھ فائدہ پہنچائے تو بھی (کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ) وہ ہر چیز پر قادر ہے،،

( اللَّـهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ ) ۱۳:۲۶

''اور خدا ہی جس کیلئے چاہتا ہے روزی کو بڑھا دیتا ہے اور (جس کیلئے چاہتا ہے) تنگ کرتا ہے،،

ان اللہ ھو الرزاق دینے والا زور آور (اور) زبردست ہے،،

( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ) ۴۲:۱۱

''کوئی چیز اس کے مثل نہیں اوروہ ہر چیز کو سنتا دیکھتا ہے ،،

۵۸۹

( أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ ) ۴۱:۵۴

''سن رکھو وہ یقیناً ہر چیز پر حاوی ہے،،

بنا برایں خدا اپنےی مخلوق سے دور نہیں اس کے اور اس کی مخلوق کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں لوگوں کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں لوگ کسی ایسے واسطے کے محتاج نہیں جو ان کی حاجات اللہ تک پہنچائے تاکہ یہ واسطے عبادت میں شریک ہو جائیں بلکہ سب کے سب لوگ اس بات میں مشترک ہیں کہ اللہ ہی ان کا پروردگار ہے اور ان کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں۔

( مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ) ۵۸:۷

''جب تین (آدمیوں) کا خفیہ مشورہ ہوتا ہے تو وہ (خدا) ان کا ضرور چوتھا ہے اور جب پانچ کا (مشورہ) ہوتا ہے تو وہ ان کا چھٹا ہے اور اس سے کم ہوں یا زیادہ اور چاہے جہاں کہیں ہو وہ ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے،،

( كَذَٰلِكَ اللَّـهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ) ۳:۴۰

'' اسی طرح خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے،،

( إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ ) ۵ :۱

''بیشک خدا جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے،،

خلاصہ کلام یہ کہ توحید در عبادت کے بارے میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا اور یہ وہ امتیاز ہے جو موحد انسان کو حاصل ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرے اور اسے اپنا پروردگار بنائے وہ کافرو مشرک ہے:

۵۹۰

عبادت اور اطاعت

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری واجب اوراس کی مخالفت عقلاً مستوجب عذاب ہے قرآن مجید میں بار بار اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے عوض ثواب اور معصیت کی پاداش میں عذاب دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔

غیر اللہ کی اطاعت کئی قسم کی ہوتی ہے۔

اول: غیر اللہ کی ایک عبادت وہ ہے جو اللہ کے حکم اور اس کی اجازت سے ہو جس طرح رسول اکرم (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کی اطاعت ہے درحقیقت یہ اللہ ہی کی اطاعت ہے عقلی طورپر اطاعت خدا کی طرح یہ اطاعت بھی واجب ہے:

( مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ ۖ ) ۴:۸۰

''جس نے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اطاعت کی تو اس نے خدا کی اطاعت کی،،

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ ) ۴:۶۴

''اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں،،

یہی وجہ ہے کہ جہاں اللہ نے اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں ساتھ ساتھ رسول (ص) کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ) ۳۳:۷۱

''اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ تو اپنی مراد کو خوب اچھی طرح پہنچ گیا ہے،،

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ) ۴:۵۹

'' اے ایماندار و خدا کی اطاعت کرو اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اور جو تم میں سے صاحبان حکم ہوں ا ن کی اطاعت کرو،،

۵۹۱

ثانی: غیر اللہ کی دوسری عبادت وہ ہے جس سے منع کیا گیا ہے جس طرح شیان اور ہر اس شخص کی اطاعت ہے جو اللہ کی معصیت کا حکم دے اس اطاعت کے شرعی طور پر حرام اور عقلی طور پر قبیح ہونے میں بھی کوئی شک نہیں بلکہ بعض اوقات یہی اطاعت کفر اور شرک قرار پاتی ہے ، جب کفر یا شرک کا حکم دیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے:

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ ) ۳۳:۱

''اے نبی خدا ہی سے ڈرتے رہو اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو،،

( فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا ) ۷۶:۲۴

''تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو ، اور ان لوگوں میں سے گنہگار اور ناشکرے کی پیروی نہ کرو۔

( وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ ) ۳۱:۱۵

''اگر تیرے ماں باپ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرا شریک ایسی چیز کو قرار دے جس کا تجھے کچھ علم نہیں توتو (اس میں) ان کی اطاعت نہ کر۔

ثالث: تیسری اطاعت وہ ہے جس کا نہ حکم دیا گیا ہے اور نہ اس سے روکا گیا ہے یہ اطاعت واجب بھی نہیں اور حرام بھی نہیں بلکہ جائز ہے۔

عبادت اور خشوع

اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق کو اپنے خالق کے سامنے متواضع ہو کر پیش ہونا چاہئے اس بات کا عقل بھی حکم دیتی ہے اور شرع نے بھی اس کا حکم دیا ہے جہاں تک مخلوق کے سامنے تواضع سے پیش آنے کا تعلق ہے اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔

۵۹۲

(۱) ایسی مخلوق سے تواضع کی جائے جس کی اللہ سے کوئی خاص نسبت نہیں جس طرح شاگرد اپنے استاد، بیٹا اپنے والد اور خادم اپنے آقا سے تواضع کیساتھ پیش آتا ہے یا اس قسم کی اور تواضع جس کا عام لوگوں میں رواج ہے اس تواضع کے جواز میں بھی کوئی شک نہیں بشرطیکہ شارع نے اس سے منہ نہ فرمایا ہو پس غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں اس لئے کہ اس سجدہ سے منع کیا گیا ہے:

مخلوق کے ساتھ تواضع سے پیش آنے کا جائزہ ہونا ضرورت کا تقاضا ہے اور اس میں شرک کامعمولی سابھی شائبہ نہیں چنانچہ خ الق کا ارشاد ہے:

( وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ) ۱۷:۲۴

''اور ان کے سامنے نیاز سے خاکساری کاپہلو جھکائے رکھو اور (ان کے حق میں) دعا کرو کہ اے میرے پالنے والے جس طرح ان دونوں نے میرے چھٹپنے میں پرورش کی ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما،،

ملا خطہ فرمائیں کیا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے سامنے اظہار ذلت کرنے کا حکم دے کر ان کی عبادت کا حکم دیا ہے ؟ جبکہ اس سے قبل غیر اللہ کی عبادت سے منع فرمایا گیا ہے۔

( وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ ) ۱۷:۲۳

''اور تمہارے پروردگار نے تو ہی دا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے نیکی کرنا،،

نیز ملاخطہ ہو کہ شانہ ذلت کو جھکانا (جس طرح چھوٹے اور کمزور پرندے جھکایا کرتے ہیں) وہی احسان ہے جس کا آیت میں حکم دیا گیا ہے اور اسے عبادت کے مقابلے میں قرار دیا ہے معلوم ہوا ہر خشوع و خضوع اور اظہار ذلت شرک نہیں ہوتا ، تاکہ یہ حرام قرار پائے۔

۵۹۳

(۲) دوسرا خشوع و خضوع اور اظہار تواضح وہ ہے جو اس خیال سے کی مخلوق سے کیا جائے کہ اس مخلوق کو اللہ سے کوئی خاص نسبت ہے جس کی وجہ سے یہ مخلوق مستحق خشوع و خضوع ہے یہ عقیدہ درحقیقت باطل ہے اس خشوع و خضوع کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی جس طرح بعض باطل اور فاسد مذاہب کے پیروکار اپنے پیشوایان مذاہب کا کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بدعت ہے یعنی ایک ایسے عمل کو دین میں شامل کرنے کے مترادف ہے جو درواقع دین سے خارج ہے اور اس کی تشریع کہا جاتا ہے جو ادلہ اربعہ(۱) کی رو سے حرام اور ذات خدا پر بہتان ہے۔

( فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا ) ۱۸:۱۵

''اور جو شخص خدا پر جھوٹ بہتان باندھے اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو گا،،

(۳) تیسرا خشوع و خضوع وہ ہے جو اللہ کے حکم پر کسی مخلوق کے سامنے اختیار کیا جائے جس طرح رسول اللہ (ص) اور ائمہ ہدی (ع) اور دوسرے مومنین ہیں بلکہ بعض ایسی اشیاء ہیں جن کو اللہ سے کوئی خاص نسبت حاصل ہے جیسے مسجد ، قرآن اور حجراسود اور دوسرے شعائرالٰہی ہیں اس قسم کا تواضع اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔

( فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمومنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ ) ۵:۵۴

''عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو ظاہر کر دے گا جنہیں خدا دوست رکھتا ہو گا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے ایمانداروں کے ساتھ منسکر (متواضع ) (اور) کافروں کے ساتھ کڑے،،

____________________

(۱) قرآن سنت ، اجماع اور عقل

۵۹۴

خشوع کی یہ قسم درحقیقت اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع و خضوع اور اس کی عبادیت و بندگی اختیار کرنے کے مترادف ہے ظاہر ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی واحدنیت اور یگانگت کا معتقد ہو اس بات کااعتقاد رکھتا ہو کہ زندگی دینا ، مارنا ، خلق کرنا، رزق دینا ، بندوں کو کچھ عطا کرنا ، ان سے لے لینا ، لوگوں کوبخشنا اور عذاب کرنا اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اور یہ عقیدہ بھی رکھتا ہو کہ نبی اکرم (ص) اور آپ (ص) اللہ کے لائق عزت و تکریم بندے ہیں جو کسی بات میں اللہ سے سبقت نہیں لے جاتے اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

( عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ ﴿﴾ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ) (۲۱: ۲۶۔۲۷)

'' خدا کے معزز بندے ہیں یہ لوگ اس کے سامنے بڑھ کر بول نہیں سکتے اور یہ لوگ اسی کے حکم پر چلتے ہیں،،

ان ہستیوں (ع) کو اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ بنائے ، باذن اللہ ان (ع) کی شفاعت ، عظمت اور شان کا قائل ہو تو وہ دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس شخص نے غیر اللہ کی عبادت کی ہے اس لئے کہ ہر مسلمان بخوبی جانتا ہے کہ رسول اللہ (ص) حجراسود کو بوسہ دیا کرتے تھے اور اسے اپنے ہاتھ سے مس کر کے اس کی عزت و تکریم فرمایا کرتے تھے آپ (ع) مومنین ، شہداء اور دوسرے نیک بندوں کی قبروں کی زیارت فرماتے تھے انہیں سلام کرتے اور ان کیلئے دعا فرماتے تھے

آپ (ص) کے بعد صحابہ کرام اور تابعین بھی اس سنت پر عمل پیرا رہے یہ حضرت رسول اللہ (ص) کی قبر کی زیارت کرتے اور ا سے متبرک سمجھتے بوسہ دیتے اور رسول اللہ (ص) سے اسی طرح شفاعت طلب کرتے جس طرح زندگی میں کیا کرتے تھے اسی طرح ائمہ دین اور صالحین اولیائے کرام کی قبروں کی زیارت اور احترام کرتے تھے اس عمل کو کسی بھی صحابی نے برا اور حرام نہیں کہا اور نہ تابعین یا علمائے کرام میں سے کسی نے اس عمل کو ناجائز سمجھا یہاں تک کہ احمد بن عبدالجلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ حرانی ظاہر ہوا جس نے ان قبروں میں دفن ہستیوں سے شفاعت طلب کرنا حرام قرار دیا یہاں تک کہ اس نے ہر اس شخص کی سخت مذمت کی جس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مطہر کی زیارت کی ، بطرو تبرک اس کا بوسہ لیا یا اسے مس کیا بلکہ اس نے اس عمل کو بھی شرک اصغر اور کبھی شرک اکبر گردانا۔

۵۹۵

جب اس زمانے کے تمام علمائے کرام نے دیکھا کہ ابن تیمیہ اپنے اس عیقدے کے نتیجے میں دین اسلام کے مسلمات اور ضروریات مسلمین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ ان علمائے کرام نے آپ (ص) سے روایت نقل کی ہے جس میں آپ (ص) نے بالعموم تمام مومنین اور بالخصوص اپنی زیارت کی ترغیب و تشویق دلائی ہے اور فرمایا ہے۔

من زارنی بعد مماتی کان کمن زارنی فی حیاتی

''جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی،،۔

اس مضمون کی اور روایات بھی مروی ہیں(۱) جب علماء نے ابن تیمیہ کے اس خلاف اسلام عمل کو دیکھا(۱) تو انہوں نے اس سے برات اور نفرت کا اظہار کیا ، اس کی گمراہی کا فیصلہ دے دیا ، اس پر توبہ کو واجب قرار دیا اور اسے ہر حالت میں یا توبہ نہ کرنے کی صورت میں قید کرنے کا حکم صادر کر دیا۔

اگر ابن تیمیہ کے اس عمل کو مسلمانوں میں اختلاف وانتشار کا بیج بونے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ نہ کہا جائے توا س کی اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے خیال میں یہ اعمال (زیارات وغیرہ) شرک اور غیر اللہ کی عبادت شمار ہوتے ہیں ابن تیمیہ کو یہ معلوم نہیں کہ جو لوگ اس قسم کے اعمال بجا لاتے ہیں وہ اللہ کی توحید اور اس کی یگانگی کے معتقد ہیں اور یہ کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسراخالق و رازق نہیں خلق اور امر صرف اس کی ذات سے مختص ہے ان اعمال کا مقصد صرف اور صرف شعائر الٰہی کی تعظیم ہے اس قبل ہم بتا چکے ہیں کہ ان ہستیوں کی تعظیم و تکریم درحقیقت اللہ کی تعظیم و تکریم ہے اور اللہ کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے مترادف ہے۔

___________________

(۱) قبروں کی زیارت جائز ہونے کے متعلق روایات ضمیمہ نمبر ۱۷ میں ذکر کی گئی ہیں۔

۵۹۶

ان اعمال میں شرک کا معمولی سا شائبہ تک نہیں کیونکہ شرک غیر اللہ کی عبادت کا نام ہے اور کسی کی عبادت کا مطلب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کو قابل پرستش رب سمجھ کر اس کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کیا جائے اس معنی میں عبادت کجا اورنبی (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کو اللہ کے مکرم بندے مانتے ہوئے نبی کریم (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی تعظیم و تکریم کجا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی مسلمان کسی نبی یا اس کے وصی کی عبادت نہیں کرتا چہ جائیکہ ان کی قبروں کی عبادت کرے۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ قبروں کی زیارت کرنا اور ان کو بوسہ دینا یا اس قسم کی تعظیم کی دیگر صورتیں کسی بھی اعتبار اور سبب سے شرک نہیں کہلاتیں اگر یہ چیزیں شرک کہلاتیں تو زندہ انسانوں کی تعظیم و تکریم بھی شرک شمار ہوتی کیونکہ اس اعتبار (غیر اللہ کی تعظیم شرک ہونا) سے زندہ اور مردے میں کوئی فرق نہیں۔ حالانکہ ابن تیمیہ اور اس کے ہم مسلک ، زندہ انسانوں کی زیارت کو کبھی بھی شرک نہیں سمجھتے اس کے علاوہ اگر قبروں کی زیارت کرنا شرک ہوتا تو العیاذ باللہ حاشاوکلا رسول اللہ (ص) بھی مشرک کہلائیں گے اس لئے کہ آپ (ص) بھی قبروں کی زیارت فرمایا کرتے ، انہیں سلام کرتے تھے اور حجراسود کا بوسہ کا بوسہ لیتے تھے جیسا کہ اس سے قبل ہم بتا چکے ہیں۔

بنا برایں اس مقام پر دو میں سے ایک بات ضرور تسلیم کرنا پڑے گی۔

(۱) بعض شرک جائز ہیں اور بعض جائز نہیں۔

(۲)پرستش کی نیت کے بغیر کسی قبر کی تعظیم کرنا اور اس کا بوسہ لینا شرک نہیں کہلاتا۔

ظاہر ہے پہلی بات کا کوئی قائل نہیں ہو سکتا اس لئے کہ وہ سراسر باطل اور غلط ہے لامحالہ دوسری بات حق اور صحیح ہو گی اور یہ ثابت ہو گیا کہ انبیاء اوصیاء (علیہم السلام) کی قبروں کی زیارت اور تعظیم ، عبادت الہی اور تعظیم خدا شمار ہوتی ہے شرک نہیں کہلاتی

( وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ) ۲۲:۳۲

''اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیز گاری سے حاصل ہوتی ہے،،

اس قبل وہ روایات بیان کی جا چکی ہیں جن کی رو سے بنی (ع) اور صالحین اولیاء اللہ کی زیارت مستحب ہے۔

۵۹۷

غیر اللہ کو سجدہ

گزشتہ مباحث سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ کسی بھی مخلوق کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنا ( اگر شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہو تو) جائز نہیں اگرچہ یہ تواضع بطور پرستش نہ ہو غیر اللہ کو سجدہ کرنا بھی اسی قبیل سے ہے اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ غیر خدا کو سجدہ کرنا حرام ہے ارشاد ہوتا ہے:

( لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ) ۴۱:۳۷

''تم لوگ نہ سورج کو سجدہ کرنا اور نہ چاند کو اور اگر تم کو خدا ہی کی عبادت کرنی منظور ہے تو بس اسی کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے،،۔

اس آیت سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ سجدہ صرف خالق کائنات کیلئے مختص ہے اور کسی مخلوق کیلئے جائز نہیں۔

( وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ) ۷۲:۱۸

''اور یہ کہ مسجدیں خاص خدا کی ہیں تو تم لوگ خدا کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرنا،،

یہ آیت ہمارے مدعا پر صرف اس صورت میں دلالت کرتی ہے جب آیت میں ''مساجد،، سے مراد سات اعضاء (پٍیشانی ، دونوں ہا تھوں کی ہتھیلیاں ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے ) ہوں جن کا حالت سجدہ میں زمین سے لگنا ضروری ہے چنانچہ آیہ شریفہ سے یہی ظاہر ہو رہا ہے اور معصومین (ع) کی روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں(۱)

بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ اور تو اور کسی نبی یا اس کے وصی کو سجدہ کرنا بھی جائز نہیں شیعوں کی طرف یہ نسبت دینا

____________________

(۱) وسائل باب حدالقطع من ابواب حداسرقہ ، ج ۳ ، ص ۴۴۸

۵۹۸

کہ وہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کو سجدہ کرتے ہیں محض تہمت اور الزام ہے روز محشر شیعہ اور ان پر اس قسم کے الزامات لگانے والے درگاہ الٰہی میں پیش ہوں گے اور اللہ ہی فیصلہ کرنے والا ہے ان میں سے بعض تو الزام تراشی میں حد سے بڑھ گئے ہیں یہ الزام تو پہلے سے بھی زیادہ دل آزار اور تکلیف دہ ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کی مٹی لے کر اس کو سجدہ کرتے ہیں۔

بارالہا ! تو جانتا ہے کہ یہ کتنی بڑی تہمت ہے(۱) شیعوں کی قدیم و جدید مطبوعہ اور قلمی کتب دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان تمام کتب کا اتفاق ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے جس شخص نے شیعوں کی طرف یہ نسبت دی ہے وہ یا تو شیعوں پر عمداً الزام تراشی اور تہمت کا مرتکب ہوا ہے یا وہ غافل ہے اور کسی چیز کو سجدہ کرنے اور کسی چیز پر سجدہ کرنے میں موجود فرق کو نہیں سمجھتا۔

شیعوں کے نزیک نماز میں ہر اس چیز پر سجدہ ہو سکتا ہے جو زمین کا حصہ اور جزء شمار ہو جیسا کہ پتھر یا ڈھیلا یا ریت یا مٹی ہے ۔ ان نباتات پر بھی سجدہ ہو سکتا ہے جو کھائی یا پہنی نہ جائیں شیعہ نقطہ نگاہ سے مٹی پر سجدہ کرنا دوسری چیزوں کی نسبت افضل ہے ، اسی طرح خاک کربلا پر سجدہ کرنا باقی سب چیزوں پر سجدہ کرنے سے افضل ہے اور ان سب باتوں میں شیعہ اپنے ائمہ معصوم (ع) کی پیروی کرتے ہیں(۲) اس کے باوجود شیعوں کی طرف کیونکر شرک کی نسبت دی جاتی ہے کہ شیعہ غیر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں(۳)

خاک کربلا اللہ کی اس وسیع و عریض سرزمین ہی کاایک جزء ہے جسے اللہ نے اپنے نبی (ص) کیلئے سجدہ گاہ اور مطہر بنایا(۴)

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۸ میں روزوں کے بارے میں شیعوں پر آلوسی کے الزامات ملا خطہ فرمائیں۔

(۲) وسائل ، باب ۱۶۲ ، من ابواب مایسجد علیہ ، ص ۲۳۶

(۳) ضمیمہ نمبر ۱۹ میں تربت حسینیہ کے بارے میں ایک مباحثہ ملا خطہ فرمائیں جو م ولف اور ایک حجازی عالم کے درمیان ہوا

(۴) سنن البیہقی باب التیمم بالصعید الطیب ، ج ۱ ، ص۲۱۲ ۔ ۲۱۳

۵۹۹

ہاں ! خاک کربلا وہ خاک ہے جس کی عظمت اور قدرو منزلت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس سرزمین میں وہ نواسہ رسول (ص) اور جوانان جنت کے سردار دفن ہیں جنہوں نے اپنے نفس ، خاندان اور اصاب کو دین اسلام کی راہ اور شریعت سید المرسلین (ص) کے احیاء کی خاطر قربان کر دیا خاک کربلا کی فضیلت میں فریقین نے رسول اللہ (ص) سے روایات نقل کی ہیں(۱)

فرض کیجئے اس خاک کی فضیلت میں رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء کی کوئی روایت نہیں ہے لیکن کیا حق و انصاف کا یہ تقاضا نہیں کہ مسلمان اس مقدس خاک کو ہر وقت اپنے پاس رکھے اور جب بھی سجدہ کرنا ہو اس پر سجدہ کرے ؟ اس لئے کہ اس خاک پر سجدہ کرنا ، جو بذات خود ان چیزوں میں سے ہے جنپر سجدہ صحیح ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس مقدس خاک کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے والا شخص اس عظیم شخصیت کا پیروکار ہے جس کی طرف یہ خاک منسوب ہے اور جسے اللہ اور اصلاح مسلمین کی راہ میں شہید کر دیا گیا۔

آدم (ع) کوسجدہ ۔ اقوال علمائ

اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ حضرت آدم (ع) کو فرشتوں کا سجدہ کرنا کیوں جائز ہوا جبکہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں؟ علماء نے اس سوال کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔

(۱) حضرت آدم(ع) کوفرشتوں کا سجدہ ، خشوع و خضوع کے معنی میں تھا یہ وہ سجدہ نہیں تھا جس کا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔

__________________

(۱) وسائل ، ج ۱ ، ص ۲۳۶ ۔ باب استحباب السجود علی تربتہ الحسین (ع) نیز ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ۲۰

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689