البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314077 / ڈاؤنلوڈ: 9317
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

احادیث مہدی (عج) اہلسنّت کی کتابوں میں

فہیمی: ہوشیار صاحب احباب جانتے ہیں لیکن آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرا تعلق اہل سنّت سے ہے اور شیعوں کی احادیث کے بارے میں آپ کی طرح حسن ظن نہیں رکھتا ہوں میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جب کچھ اسباب کی بناپر شیعہ مہدویت کی داستان کے معتقد ہوگئے تھے اس وقت انہوں نے اپنے عقیدہ کے اثبات کے لئے کچھ حدیثیں گڑھی تھیں اور انھیں پیغمبر (ص) کی طرف منسوب کردیا تھا اور اس احتمال کا ثبوت یہ ہے کہ مہدی سے متعلق حدیثیں صرف شیعوں کی کتابوں میں مرقوم ہیں _ ہماری صحاح میں ان کا کہیں نام و نشان نہیں ہے _ ہاں ہماری غیر معتبر کتابوں میں مہدی سے متعلق چند حدیثیں مرقوم ہیں _(۱) ہوشیار: اگر چہ بنی امیہ و بنی عباس کے زمانہء حکومت میں عام طور پر ایک مارشل لانافذ تھا، حکومت کی طاقت و سیاست اور مذہبی تعصب کی نباپر اہل بیت کی امامت و ولایت سے متعلق احادیث نہ بیان ہوسکتی تھیں اور نہ کتابوں میں درج ہوسکتی تھیں _ لیکن اس کے باوجود آپ کی احادیث کی کتابوں میں مہدی سے متعلق حدیثیں درج ہیں _ اگر تھکے نہ ہوں تو ان میں سے چند حدیثیں آپ کے سامنے پیش کروں ؟

____________________

۱_ المہدیہ فی الاسلام تالیف سعد محمدحسن ، ط مصر سال ۱۳۷۳ ص ۶۹ _ مقدمہ ابن خلدون ط مصر مط محمد ص ۳۱۱_

۲۱

اینجنئر : ہوشیار صاحب آپ سلسلہ جاری رکھیں _

ہوشیار: فہیمی صاحب آپ کی صحاح میں مہدی کے نام سے ایک باب منعقد ہواہے اور اس میں پیغمبر(ص) کی حدیثیں نقل ہوئی ہیں ، بطور مثال:

عبداللہ نے پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: '' دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک عرب کا مالک میرے اہل بیت میں سے وہ شخص نہ ہوگا جس کا نام میرا نام ہے ''(۱)

اس حدیث کو ترمذی اپنی صحیح میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:'' یہ حدیث صحیح ہے اور مہدی کے بارے میں ابو سعید، ام سلمہ اور ابوہریرہ نے بھی روایت کی ہے_''

علی (ع) بن ابی طالب نے روایت کی ہے کہ رسول (ص) نے فرمایا: '' اگر دنیا کا ایک دن بھی باقی رہے گا تو بھی خداوند عالم اہل بیت میں سے اس شخص کو بھیجے گا جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی ''_(۲)

ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول (ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:'' مہدی میری عترت اور فاطمہ (ع) کی اولاد سے ہوگا ''(۳)

____________________

۱_ صحیح ترمذی ج ۴ باب ماجاء فی المہدی ص ۵۱۵ _ کتاب ینابیع المودة تالیف شیخ سلیمان ط سال ۱۳۰۸ ج۲ ص ۱۸۰_کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان تالیف محمد بن یوسف شافعی ط نجف ص ۵۷_ کتاب نور الابصار ص ۱۷۱ _ مشکوة المصابیح ص ۲۷۰_

۲_ صحیح ابی داود ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۷ _ البیان ص ۵۹_ کتاب نور الابصار تالیف شبلنجی ص ۱۵۶ _ الصواعق المحرقہ تالیف ابن حجر ط قاہرہ ص ۱۶۱ _ کتاب فصول المہمہ تالیف ابن صباغ ط نجف ص ۲۷۵ _ کتاب اسعاف الراغبین تالیف محمد الصبان _

۳_ صحیح ابی داؤد ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۷_ ابوداؤد در این باب ۱۱ حدیث نقل کردہ است _ صحیح ابن ماجہ باب خروج المہدی ج ۲ ص ۵۱۹_الصواعق ص ۱۶۱_ البیان ص ۶۴ _ مشکوة المصابیح تالیف محمد بن عبداللہ خطیب ط دہلی ص ۲۷۰_

۲۲

ابو سعید کہتے ہیں کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا: '' ہمارا کشادہ پیشانی اور اونچی ناک والا مہدی زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی اور سات سال حکومت کرے گا _'' (۱)

حضرت علی (ع) بن ابی طالب نے رسول (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:'' مہدی میرے اہل بیت سے ہے ، خداوند عالم ان کے انقلاب کے اسباب ایک رات میں فراہم کردے گا '' _(۲)

ابوسعید نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: ''جب زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی اس وقت میرے اہل بیت میں سے ایک شخص ظہور کرے گا اور ۷ یا ۹ سال حکومت کرے گا اور زمین کو عد ل و انصاف سے پر کرے گا ''_(۳)

ابوسعید نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:'' آخری زمانہ میں میری امت کے سرپر بادشاہ بلائیں اور مصیبتیں لائے گا _ ایسی بلائیں اور ظلم کو جو کبھی سنانہ گیا ہوگا _ میری امت پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوجائے گی اور ظلم وجور سے بھر جائے گی _ مسلمانوں کا کوئی فریاد رس و پناہ دینے والا نہ ہوگا _ اس وقت خداوند عالم میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو کہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی تھی _ زمین و آسمان کے مکین اس سے راضی ہوں گے _ اس کے لئے زمین اپنے خزانے اگل دے گی اور آسمان پے درپے بارش برسائے گا _ ۷ یا ۹ سال لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرے گا _ اور زمین والوں پر جو خدا کی رحمتیں اور لطف ہوگا اس کے

____________________

۱_ صحیح ابی داوؤد ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۸ _ فصول المہمہ ص ۲۷۵_ نور الابصار ط مصرص ۱۷۰ _ ینابیع المودة ج ، ص ۱۶۱

۲_ صحیح ابن ماجہ ج ۲ باب خروج المہدی ص ۵۱۹ _ اس باب میں ۷ حدیثیں ذکر ہوئی ہیں _ الصواعق المحرقہ ص ۱۶۱

۳_ مسند احمد ج ۳ ص ۲۸ باب مسند ات ابی سعید الخدری میں مہدی کے بارے ایک حدیث ذکر ہوئی ہے _ ینابع المودة ج ۲ ص ۲۲۷

۲۳

پیش نظر مرد ے زندگی کی آرزو کریں گے(۱)

ایسی ہی اور احادیث بھی کی کتابوں میں موجود ہیں لیکن اثبات مدعا کیلئے اتنی ہی کافی ہیں _

ایک صاحب قلم کا اعتراض

فھیمی : المہدیہ فی الاسلام کے مؤلف نے تحریر کیا ہے : محمد بن اسماعیل بخاری اور مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی صحاح میںمہدی سے متعلق احادیث درج نہیں کی ہیں جبکہ صحاح میں معتبر ترین ، نہایت احتیاط و تحقیق کے ساتھ ان میں احادیث جمع کی گئی ہیں ، ہاں سنن ابی داؤد ، ابن ماجہ ، ترمذی ، نسائی اور مسند احمد میں ایسی احادیث جن کے منقولات میں زیادہ احتیاط سے کام نہیں لیا گیا ہے _ چنانچہ منجملہ دوسرے علما کے ابن خلدون نے ان احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے ۲_

ابن خلدون اور احادیث مہدی (عج)

ہوشیار: موضوع کی وضاحت کے لئے بہتر ہے کہ میں آپ کے سامنے ابن خلدون کی عبارت کا خلاصہ پیش کروں _ ابن خلدون اپنے مقدمہ لکھتے ہیں:سارے مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی اور ہے کہ آخری زمانے میں پیغمبر اسلام کے اہل بیت میں سے ایک شخص ظہور

____________________

۱_ من خیرہ البیان ص ۷۲_ الصواعق المحرقہ ص ۱۶۱ _ ینابیع ج ۲ ص ۱۷۷_

۲_ کتاب المہدیہ فی الاسلام ص ۶۹_

۲۴

کرے گا ، دین کی حمایت کرے گا اور عدل و انصاف کو فروغ دیگا اور سارے اسلامی ممالک اس کے تسلّط آجائیں گے _ ان (مسلمانوں) کا مدرک وہ احادیث ہیں جو کہ علماء کی ایک جماعت ، جیسے ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، حاکم ، طبرانی اور ابویعلی موصلی کی کتابوں میں موجود ہیں _ لیکن مہدی (عج) کے منکروں نے ان احادیث کے صحیح ہونے میں شک کا اظہار کیا ہے پس ہمیں مہدی سے متعلق احادیث اور ان سے متعلق منکرین کے اعتراضات و طعن کو بیان کرنا چاہئے تا کہ حقیقت روشن ہوجائے_ لیکن اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ، اگر ان احادیث کے راویوں کے بارے میں کوئی جرح و قدح ہو تو اصل حدیث ہی غیر معتبر ہوجاتی لیکن ان کے راویوں کے بارے میں عدالت و وثاقت بھی وارد ہوئی ہے تو مشہور ہے کہ ان کا ضعیف ہونا اور ان کی بدگوئی عدالت پر مقدم ہے _ اگر کوئی شخص ہمارے اوپر یہ اعتراض کر ے کہ یہی عیب بعض ان لوگوں کے بارے میں بھی سامنے آتا ہے جن سے بخاری و مسلم میں روایات لی گئی ہیں وہ طعن و تضعیف سے سالم نہ رہ سکیں تو ان کے لئے ہمارا جواب یہ ہے کہ ان دو کتابوں کی احادیث پر عمل کرنے کے سلسلے میں علماء کا اجماع ہے اور یہ مقبولیت ان کے ضعف کاجبران کرتی ہے لیکن دوسری کتابیں ان کے پایہ کی نہیں ہیں '' (۱)

یہ تھا ابن خلدون کی عبارت کا خلاصہ ، اس کے بعد انہوں نے احادیث کے راویوں کی توثیق و تضعیف سے بحث کی ہے _

تواتر احادیث

ہمارا جواب : اول تو اہل سنّت کے بہت سے علما نے ، مہدی (عج) سے متعلق احادیث کو

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۱_

۲۵

متواتر جانا ہے _ یا ان کے تواتر کو دوسروں سے نقل کیا ہے اور ان پر اعتراض نہیں کیا ہے ، مثلاً : ابن حجر ہیثمی نے '' صواعق محرقہ میں'' شبلنجی نے '' نور الابصار '' میں ، ابن صباغ مالکی نے ''فصول المہمہ'' میں، محمد الصبان نے '' اسعاف الراغبین'' میں ،کجی شافعی نے '' البیان'' میں ، شیخ منصور علی نے '' غایة المامول'' میں ، سویدی نے '' سبائک الذہب'' میں ا ور دوسرے علماء نے اپنی کتابوں میں ان احادیث کو متواتر قرار دیا ہے اور یہی تواتر ان کی سند کے ضعف کا جبران کرتا ہے _

عسقلانی لکھتے ہیں:'' خبر متواتر سے یقین حاصل ہوجاتا ہے اور اس پر عمل کرنے کے سلسلے میں کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی ہے '' _(۱)

شافعی فرقہ کے مفتی سید احمد شیخ الاسلام لکھتے ہیں کہ : جو احادیث مہدی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ معتبر ہیں ، ان میں سے بعض احادیث صحیح ، بعض حسن اور کچھ ضعیف ہیں ،اگر چہ ان میں اکثر ضعیف ہیں لیکن چونکہ بہت زیادہ ہیں اور ان کے راوی اور لکھنے والے بھی زیادہ ہیں اس لئے بعض احادیث بعض کی تقویت کرتی ہیں اور انھیں مفید یقین بنادیتی ہیں _(۲)

مختصر یہ کہ عظیم صحابہ کی ایک جماعت ، عبدالرحمن بن عوف، ابو سعید خدری ، قیس بن صابر ، ابن عباس ، جابر ، ابن مسعود ، علی بن ابی طالب ، ابوہریرہ ، ثوبان ، سلمان فارسی ، ابوامامہ ، حذیفہ ، انس بن مالک اور ام سلمہ اور دوسرے گروہ نے بھی مہد ی سے

____________________

۱_ نزہتہ النظر مؤلفہ احمد بن حجر عسقلانی طبع کراچی ص ۱۲_

۲_ فتوحات الاسلامیہ طبع مکہ ج ۲ ص ۲۵۰_

۲۶

متعلق احادیث کو نقل کیا ہے اور ان حدیثوں کو علماء اہل سنّت نے لکھا ہے _

مثلاً ، ابوداؤد احمد بن حنبل ، ترمذی ، ابن ماجہ ، حاکم نسائی ، روبانی ، ابو نعیم ، جکرانی ، اصفہانی ، دیلمی، بیہقی ، ثعلبی ، حموینی ، منادی ، ابن مغازلی ، ابن جوزی ، محمد الصبان مارودی ، کنجی شافعی ، سمعانی ،خوارزمی ، شعرانی ،دار قطنی ، ابن صباغ مالکی ، شبلنجی ، محب الدین طبری ، ابن حجر ہیثمی ، شیخ منصور علی ناصف ، محمد بن طلحہ ، جلال الدین سیوطی ، سلیمان حنفی ، قرطبی ، بغوی اور دوسرے لوگوں نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے _(۱)

ہر جگہ تضعیف مقدم نہیں ہے _

دوسرے جن افراد کو ضعیف قرار دیا گیا ہے اور ابن خلدون نے ان کے نام تحریر کئے ہیں _ ان کے بارے میں بعض توثیقات بھی وارد ہوئی ہیں کہ جن سے بعض کو خود ابن خلدون نے نقل کیا ہے اور پھر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہر جگہ بطور مطلق تضعیف کو تعدیل پر مقدم کیا جائے ، ممکن ہے ضعیف قراردینے والے کے نزدیک کوئی مخصوص صفت ضعف کا سبب ہو لیکن دوسرے اس صفت کو ضعف کا سبب نہ سمجھتے ہوں _ پس کسی راوی کو ضعیف قراردینے والے کا قول اس وقت معتبر ہوگا جب اس کے ضعف کی وجہ بیان کرے _

عسقلانی اپنی کتاب ، لسان المیزان میں لکھتی ہیں :'' تضعیف تعدیل پر اسی صورت میں مقدم ہوسکتی ہے کہ جب اس کے ضعف کی علت معین ہو اس کے علاوہ ضعیف قراردینے

____________________

۱_ یہ تھے اہل سنّت کے ان علما کے نام جنہوں نے مہدی سے متعلق احادیث کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور ان کی کتابیں رائج تھیں لیکن ان سب کی کتابیں دست رس میں نہیں تھیں ، لہذا دوسری کتابوں سے نقل کیا ہے _ مہدی خراسانی نے کتاب البیان پر بہترین مقدمہ لکھا ہے اس میں علمائے اہل سنّت کے ۷۲ نام لکھے ہیں _

۲۷

والے کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے _

ابوبکر احمد بن علی بن ثابت بغدادی کہتے ہیں کہ:'' جن احادیث سے بخاری ، مسلم اور ابوداؤد نے تمسک کیا ہے _ باوجودیکہ اان میں سے بعض راویوں کو ضعیف اور مطعون قرار دیا گیا ہے ان کے بارے میں یہ کہنا چاہئے کہ ان حضرات کے نزدیک ان (راویوں کا ) ضعیف و مطعون ہونا ثابت نہیں تھا '' _(۱)

خطیب لکھتے ہیں کہ :'' اگر تضعیف و تعدیل دونوں برابر ہوں تو تضعیف مقدم ہے _ لیکن اگر تضعیف تعدیل سے کم ہو تو اس سلسلے میں کئی قول ہیں _ بہترین قول یہ ہے کہ تفصیل کے ساتھ یہ کہا جائے کہ اگر ضعف کا سبب بیان ہوا ہے تو ہماری نظر میں مؤثر ہے اور تعدیل پر مقدم ہے لیکن سبب بیان نہ ہونے کی صورت میں تعدیل مقدم ہے ''(۲)

مختصر یہ کہ ہر جگہ تعدیل کو بطور مطلق تضعیف پر مقدم نہیں کیا جا سکتا _ اگر یہ مسلم ہو کہ ہر قسم کی تضعیف موثر ہے تو طعن وقدح سے بہت ہی مختصر حدیثیں محفوظ رہیں گی _ اس سلسلے میں نہایت احتیاط اور کوشش و سعی کرنا چاہئے تا کہ حقیقت واضح ہوجائے _

شیعہ ہونا تضعیف کا سبب

راوی کے ضعیف ہونے کے اسباب میں سے ایک اس کا شیعہ ہونا بھی شمار کیا گیا ہے مثلاً ابن خلدون نے قطن بن خلیفہ جو کہ مہدی سے متعلق احادیث کا ایک راوی ہے ، کو شیعہ ہونے کے جرم میں غیر معتبر قراردیا ہے اور اس کے بارے میں تحریر کیا ہے :

____________________

۱_ لسان المیزان مؤلفہ احمد بن علی بن حجر عسقلانی طبع اول ج ۱ ص ۲۵_

۲_ لسان المیزان ج ۱ ص ۱۵_

۲۸

''عجلی کہتا ہے : قطن حدیث کے اعتبار سے بہت اچھا ہے لیکن تھوڑا سا شیعیت کی طرف نائل ہے '' _

احمد بن عبداللہ بن یونس لکھتا ہے :'' میں نے قطن کو دیکھا لیکن اسے کتّے کی طرح چھوڑکر نکل آیا ''_ ابوبکر بن عیاش لکھتا ہے : میں نے قطن کی احادیث کو صرف اس کے مذہب کے فاسد ہونے کی بناپر چھوڑدیا ہے''_

جبکہ احمد ، یحیی بن قطاف ، ابن معین ، نسائی اور دوسرے لوگوں نے اسکی توثیق کی ہے _(۱)

اس کے بعد ابن خلدن ان احادیث کے راوی ہارون کے بارے میں لکھتا ہے : ''ہاروں شیعہ اولاد سے تھا''_(۲) ایک گروہ نے ان احادیث کے راوی یزید بن ابی زیاد کو مجمل انداز میں ضعیف قراردیا ہے اور بعض نے ان کے ضعف کی وضاحت کی ہے چنانچہ محمد بن فضیل ان کے متعلق لکھتا ہے :'' وہ سربرآوردہ شیعوں میں سے ایک تھے اور ابن عدی کہتے ہیں :'' وہ کوفہ کے شیعوں میں سے تھے''(۲)

ابن خلدون عمار ذہبی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :'' اگر چہ احمد ، ابن معین ، ابوحاتم ، نسائی اور بعض دوسرے افراد نے عمار کی توثیق کی ہے لیکن بشر بن مروان نے شیعہ ہونے کی بناپر انھیں قبول نہیں کیا ہے''_(۴)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۳_

۲_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۴_

۳_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۸_

۴_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۹_

۲۹

عبدالرزاق بن ہمام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : '' انہوں نے فضائل اہل بیت میں حدیثیں نقل کی ہیں اور شیعہ مشہور ہیں '' _(۱)

عقیدہ کا اختلاف

ایک اور چیز جو اکثر راوی کی تضعیف کا سبب ہوتی ہے اور جس سے وہ نیک اور سچے کو بھی متہم کردیتے ہیں اور ان کی حدیثوں کو رد کردیتے ہیں وہ عقیدہ کا اختلاف ہے _ مثلاً اس زمانہ میں ایک حساس اور قابل تفتیش و متنازع موضوع خلق قرآن کا شاخسانہ تھا ایک گروہ کا عقیدہ تھا کہ قرآن مخلوق نہیں ہے بلکہ قدیم ہے دوسرا کہتا تھا قرآن مخلوق وحادث ہے _ ان دونوں گروہوں کی بحث و کشمکش اور جھگڑے اس حد تک پہنچ گئے کہ ایک نے دوسرے کو کافر تک کہنا شروع کردیا _ چنانچہ احادیث کے راویوں کی ایک بڑی جماعت کو قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدہ کے جرم میں ضعیف وکافر قراردیدیاگیا _

صاحب ''اضواء علی السنة المحمدیہ '' لکھتے ہیں : علما نے راویان احادیث کی ایک جماعت ،جیسے ابن الحصیعہ ، کو کافر قراردیدیا _ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ قران کو مخلوق کہتا تھا _ اس سے بھی بڑھ کر محاسبی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ :'' انہوں نے اپنے باپ کی میراث سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا: دو متفرق مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے ، مجھے والد کی میراث نہیں چاہئے _ میراث سے انکار کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد واقفی تھے یعنی قرآن کے مخلوق ہونے یا مخلوق نہ ہونے کے سلسلے میں متردد تھے _(۲)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۲۰_

۲_ اضواء علی سنة المحمدیہ طبع اول ص ۳۱۶_

۳۰

جیسا کہ شدید مذہبی تعصب اور عقیدوں کا اختلاف اس بات کا سبب ہوا کہ وہ لوگوں کی سچائی اور امانت داری کو نظر انداز کردیں اور ان کی احادیث کو مسترد کردیں _ اسی طرح مذہب و عقیدے کے اتحاد کی وجہ سے لوگ اپنے ہم مسلک افراد کے جرائم اور برائیوں سے چشم پوشی کرنے اور ان کی تعدیل و توثیق کا باعث ہوا مثلا عجلی ، عمر و بن سعد کے بارے میں کہتا ہے : وہ موثق تابعین میں سے تھے اور لوگ ان سے روایت کرتے تھے _ جبکہ عمرو بن سعد حسین بن علی یعنی جوانان جنت کے سردار رسول خدا کے پارہ دل کا قاتل تھا''_ (۱)

اسی طرح بسر بن ارطاة ایسے _ کہ جس نے معاویہ کے حکم سے ہزاروں بے گناہ شیعوں کو قتل کیا تھا اور جانشین رسول خدا حضرت علی بن ابی طالب کو کھلم کھلا برا بھلا کہتا تھا _ نجس انسان کو اس ننگ وعارکے باوجود مجتہد اور قابل درگزر قراردیتے ہی _(۲)

عتبہ بن سعید کے بارے میں یحیی بن معین کہتا ہے وہ ثقہ ہیں ،نسائی ، ابوداؤد اور دارقطنی نے بھی اسے ثقہ جانا ہے جبکہ عتبہ حجاج بن یوسف جیسے ظالم شخص کا مددگار تھا _ بخاری نے اپنی صحیح میں مروان بن حکم سے روایات نقل کی ہیں اور اس پر اعتماد کیا ہے _ حالانکہ جنگ جمل کے شعلے بھڑ کانے والوں میں سے ایک مروان بھی تھا اور حضرت علی(ع) سے جنگ کرنے کیلئے طلحہ کو برا نگیختہ کیا تھا _ اور پھر اثنائے جنگ میں انھیں قتل کرد یا تھا _(۳)

____________________

۱_ اضواء علی سنة ص ۳۱۹

۲_ اضواء علی سنة ص ۳۲۱

۳_ اضواء علی سنة ص ۳۱۷

۳۱

یہ باتیں مثال کے طور پر لکھی گئی ہیں تا کہ قارئین مصنفّین کے طرز فکر ، فیصلہ کے طریقے اور عقیدہ کے اظہار سے آگاہ ہو جائیں اور یہ جان لیا کہ محبت و بغض اور تعصب نے انھیں کس منزل تک پہنچادیا ہے _

اضواء کے مولف لکتھے ہیں کہع ذرا ان علما کے فیصلہ کو ملا حظہ فرمائیں اور غور کریں کہ اس نے اس شخص کی توثیق کردی جو علی(ع) کی شہادت پر راضی ، طلحہ کا قاتل اور حسین بن علی (ع) کی شہادت کاذمہ دارتھا _ لیکن اس کے بر خلاف بخاری اور مسلم جیسے لوگوں نے امت کے علماء و حافظوں جیسے حماد بن مسلمہ اور مکحول ایسے عابد وزاہد کورد کردیا ہے _(۱)

مختصر یہ کہ جو شخص اہل بیت اور حضرت علی(ع) کے فضائل میں یا شیعوں کے عقیدہ کے مطابق کوئی حدیث بیان کرتا تھا تو متعصب لوگ اس کی حدیث کی صحت کو مخدوش بنادتیے تھے اور سر کاری طور پر اس کی حدیثوں کے مردود ہونے کا اعلان کردیا جاتا تھا اور اگر کسی شخص کا شیعہ ہونا ثابت ہو جاتا تھا تو اس کے لئے بغض دعناد اور اس کی حدیث کو ٹھکرانے کیلئے اتنا ہی کافی ہوتا تھا _ اگر آپ جریر کے کلام میں غور کریں تو عامة المسلمین کے تعصب کا اندازہ ہوجائے گا ، جریر کہتے ہیں : میں نے جابر جعفی سے ملاقات کی لیکن ان سے حدیثیں نہیں لی ہیں کیونکہ وہ رجعت کا عقیدہ رکھتے تھے _(۲)

بے جا تعصّب

غرض مندی اور بے جا تعصب تحقیق کے منافی ہے _ جو شخص حقائق کی تحقیق کرنا

____________________

۱_ اضواء ص ۳۱۹_

۲_ صحیح مسلم ج ۱ ص ۱۰۱_

۳۲

چاہتا ہے اسے تحقیق سے پہلے خود کو بغض و عناد اور بے جا تعصب سے آزاد کرلینا چاہئے ، اور اس کے بعد غیر جانبدار ہو کر مطالعہ کرنا چاہئے _ اگر تحقیق کے دوران کوئی چیز حدیث کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے تو اس حدیث کے راویوں کی وثاقت سے بحث کرے ، اگر ثقہ ہیں تو ان کی روایتوں پر اعتماد کرے ، خواہ سنّی ہوں یا شیعہ ، یہ بات طریقہ تحقیق کے خلاف ہے کہ ثقہ راویوں کی احادیث کو شیعہ ہونے کے الزام میں رد کردیا جائے _ عامة المسلمین سے منصف مزاج حضرات اس بات کی طرف متوجہ رہے ہیں _

عسقلانی لکھتے ہیں : جن مقامات پر تضعیف کرنے والے قول پر توقف کرنا چاہئے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تضعیف کرنے والے اور جس کی تضعیف کی گئی ہے ان کے درمیان عقیدہ کا اختلاف اور عدالت و دشمنی ہو مثلاً ابو اسحاق جوزجانی ، ناصبی تھا اور کوفے والے شیعہ مشہور تھے _ اس لئے اس نے ان کی تضعیف میں توقف نہیں کیا اور سخت الفاظ میں انھیں ضعیف قراردیتا تھا _ یہاں تک کہ اعمش ، ابو نعیم اور عبیداللہ ایسے احادیث کے ارکان کو ضعیف قراردیدیا ہے _ قشیری کہتے ہیں :'' لوگوں کی اغراض و خواہشیں آگ کے گڑھے ہیں _ اگر ایسے موارد میں راوی کی توثیق وارد نہ ہوتی ہو تو تضعیف مقدم ہے '' _(۱)

ابان بن تغلب کے حالات لکھنے کے بعد محمد بن احمد بن عثمان ذہبی لکھتے ہیں اگر ہم سے یہ پوچھا جائے کہ بدعتی ہونے کے باوجود تم ابان کی توثیق کیوں کرتے ہو تو ہم جواب دیں گے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ، ایک چھوٹی بدعت ہے جیسے تشیع میں غلو ،

____________________

۱_ لسان المیزان ج ۱ ص ۱۶_

۳۳

یا تشیع بغیر انحراف _ البتہ تابعین اور تبع تابعین میں ایسی بدعت رہی ہے اس کے باوجود ان کی سچائی ، دیانت داری اور پرہیزگاری باقی رہی اگر ایسے افراد کی احادیث رد کرنا ہی مسلم ہے تو نبی (ص) کی بے شمار حدیثیں رد ہوجائیں گی اوراس بات میں قباحت ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے _ دوسری قسم بدعت کبری ہے یعنی مکمل رافضی _ رافضیت میں غلو اورابوبکر و عمر کی بدگوئی _ البتہ ایسے راویوں کی حدیثوں کو رد کردینا چاہئے اور ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے _ (۱)

مختصر یہ کہ ان تضعیفات پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے بلکہ بھر پور کوشش اور چھان بین سے راوی کی صلاحیت اور عدم صلاحیت کا سراغ لگانا چاہئے _

بخاری و مسلم اور احادیث مہدی (عج)

چوتھے یہ کہ اگر کوئی حدیث بخاری و مسلم میں نہ ہو تو یہ اس کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ بخاری و مسلم کے مؤلفوں کا مقصد تمام حدیثوں کو جمع کرنا نہیں تھا _

دار قطنی لکھتے ہیں ایسی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جنھیں بخاری و مسلم نے اپنی صحاح میں نقل نہیں کیا ہے جبکہ ان کی سند بالکل ایسی ہے جیسی ان احادیث کی ہے جو انھوں نے نقل کی ہیں _

بیہقی لکھتے ہیں : مسلم و بخاری کا ارادہ تمام حدیثوں کو جمع کرنے کا نہیں تھا _ اس بات کی دلیل وہ احادیث ہیں جو کہ بخاری میں موجود ہیں لیکن مسلم نہیں اور مسلم میں ہیں بخاری میں نہیں ہیں _(۲)

____________________

۱_ میزان الاعتدال ج ۱ ص ۵_

۲_ صحیح مسلم بشرح امام نووی ج ۱ ص ۲۴_

۳۴

اور جیسا کہ مسلم نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں صرف صحیح حدیثوں کو نقل کیا ہے تو ابوداؤد بھی اسی کے مدعی ہیں _

ابوبکر بن داسہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو داؤد کو کہتے ہوئے سنا کہ : میں نے اپنی کتاب میں چارہزار آٹھ سو حدیثیں لکھی ہیں جو کہ سب صحیح یا صحیح کے مشابہ ہیں _

ابوالصباح کہتے ہیں کہ ابوداؤد سے نقل ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے صرف صحیح یا صحیح سے مشابہ احادیث نقل کی ہیں اور اگر کوئی حدیث ضعیف تھی تو میں نے اس کے ضعف کا بھی ذکر کردیا ہے پس جس حدیث کے بارے میں ، میں نے خاموشی اختیار کی ہے اسے معتبر سمجھنا چاہئے _

خطابی کہتے ہیں : سنن ابی داؤد ایک گراں بہا کتا ب ہے ، اس جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جو کہ مسلمانوں میں مقبول ہو جسے عراق ، مصر ، مغرب اور دوسرے علاقے کے علما میں مقبولیت حاصل ہوئی ہو _(۱) مختصر یہ کہ بخاری اور مسلم اور دوسری کتابوں کی احادیث اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ ان کی صحت و ضعف سے باخبر ہونے کیلئے ان کے راویوں کی تحقیق کی جائے _

پانچویں یہ کہ بخاری و مسلم ، جن کی احادیث کی صحیح ہونے کا آپ کو اعتراف ہے ، میں بھی مہدی سے متعلق احادیث موجود ہیں اگر چہ ان میں لفظ مہدی نہیں آیا ہے ، منجملہ ان کے یہ حدیث ہے:

پیغمبر :(ص) نے ارشاد فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب عیسی بن مریم نازل ہوں گے

____________________

۱_ مقدمہ سنن ابی داؤد

۳۵

جبکہ تمہارا امام خود تم ہی سے ہوگا _

ضروری وضاحت

ابن خلدون کے بارے میں یہ بات کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ مہدی (ع) سے متعلق احادیث کو کلی طور پر قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ انھیں قابل رد سمجھتے ہیں کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ اس عالم نے یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی اور ہے کہ آخری زمانہ میں پیغمبر (ص) کے اہل بیت میں سے ایک شخص اٹھے گا اور عدل و انصاف قائم کرے گا _ اجمالی طور پر یہاں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مہدی (ع) موعود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مشہور تھا _ دوسرے یہ کہ راویوں کے بارے میں رد وقدح اور جرج و تعدیل کے بعد لکھتے ہیں :

''مہدی موعود کے بارے میں جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں اور کتابوں میں درج ہیں ان میں سے بعض کے علاوہ سب مخدوش ہیں '' _ یہاں بھی ابن خلدون نے کلی طور پر مہدی سے متعلق احادیث کو قابل رد ہیں جانا ہے بلکہ ان میں سے بعض کی صحت کا اعتراف کیا ہے _

تیسرے یہ کہ مہدی موعود سے متعلق احادیث انھیں روایتوں میں منحصر نہیں ہیں جن پر ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں جرح و تعدیل کی ہے بلکہ شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں اور بھی بہت سی متواتر و یقین آور احادیث موجود ہیں کہ جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ ابن خلدون کی دست رس میں ہوتیں تو وہ مہدی موعود کے عقیدہ جو کہ مذہبی بنیادوں پر استوار ہے ، جس کا سرچشمہ وحی ہے ، کے بارے میں کبھی شک نہ کرتے مذکورہ مطالب سے اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجاتا ہے کہ ابن خلدون نے مہدی سے متعلق احادیث

۳۶

کو قطعی قبول نہیں کیا ہے _ ایسا نظریہ رکھنے والے لوگوں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ''دیگ سے زیادہ چمچا گرم ہے _

ابن خلدون اس بحث کے خاتمہ پر لکھتے ہیں :'' ہم نے پہلے ہی یہ بات ثابت کردی ہے کہ جو شخص انقلاب لانا چاہتا ہے اور لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانا چاہتا ہے اور طاقت جمع کرکے حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے مقصد میں اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب اس کے قوم قبیلے والوں کی اکثریت ہو اور خلوص کے ساتھ اس کی حمایت کرتے ہوں اور مقصد کے حصول کے سلسلے میں اس کے مددگار ہوں دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ خاندانی تعصب کی بناپر اس سے دفاع کرتے ہیں _ اس کے علاوہ کامیابی ممکن نہیں ہے _ مہدی موعود کے عقیدہ کے سلسلے میں بھی یہ مشکل پیدا ہوتی ہے کیونکہ فاطمیین بلکہ طائفہ قریش ہی پراگندہ اور منتشر ہوگیا ہے اور اب ان میں خاندانی تعصب باقی نہیں رہا ہے بلکہ اس کی جگہ دوسرے تعصبات نے لے لی ہے ، ہاں حجاز و ینبع میں حسن (ع) و حسین(ع) کی اولاد میں سے کچھ لوگ آباد ہیں جن کے پاس طاقت ور سوخ ہے البتہ وہ بھی صحرا نشین ہیں جو کہ مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے ہیں، پھر ان کے درمیان اتحاد و اتفاق نہیں ہے _ لیکن اگر ہم مہدی موعود کے عقیدہ کو صحیح مان لیں تو ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ مہدی انھیں میں سے ظاہر ہوں گے اور ان لوگوں میں بھی اتفاق و اتحاد پیدا ہوجائے گا اور وہ قومی تعصب کی بناپر ان کی حمایت کریں گے اور مقصد کے حصول کی وجہ سے ان کی مدد کریں گے ، اس لحاظ سے تو ہم مہدی (ع) کے ظہور اور ان کے انقلاب و تحریک کا تصور کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ممکن نہیں ہے _(۱)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۲۷_

۳۷

جواب

اس بات کے جواب میں کہنا چاہئے کہ اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی انقلاب برپا کرنا چاہتاہے _ طاقت جمع کرنا چاہتا ہے ، حکومت تشکیل دینا چاہتا ہے تووہ اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے ایک گروہ سنجیدگی سے اس کی مدد وحمایت کرے ، مہدی موعود اور ان کے عالمی انقلاب کیلئے بھی یہی شرط ہے _ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ان کی حمایت کرنے والے صرف علوی سادات اور قریش ہوں گے _ کیونکہ اگر ان کی حکومت قوم و قبیلے کی حدتک محدود ہوتی تو ان کے طرف دار قوم و قبیلے کے لحاظ سے ان کی مدد کرتے جیسا کہ طوائف الملوکی کے زمانہ میں اسی نہج سے حکومتیں قائم ہوتی تھیں ، بلکہ یہ عام بات ہے کہ جو حکومت محدود اور خاص عنوان کے تحت قائم ہوتی ہے تو اس کے حمایت کرنے والے بھی محدود ہوتے ہیں خواہ وہ حکومت قومی ملکی ، اقلیمی یا مکتبی و مقصدی ناقص ہے _

لیکن اگر کوئی کسی خاص مقصد اور منصوبہ کے تحت حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو اس کے پاس اس منصوبہ اور مقصد کے ہمنواؤں کا ہونا ضروری ہے _ اس کی کا میابی اسی صورت میں ممکن ہے کہ ایک گروہ اس منصوبہ کو صحیح طریقہ سے جانتا ہو اور اسے عملی جامہ پہنا نے کیلئے سنجیدگی سے جدو جہد کرتا ہو اور مقصد کے حصول کے سلسے میں اپنے قائد کی حمایت کرتا ہو اور قربانی دینے سے دریغ نہ کرتا ہو _ مہدی موعود کی عالمی حکومت بھی ایسی ہی ہے _ ان کا منصوبہ بھی عالمی ہے وہ بشریت کو جو کہ تیزی کے ساتھ مادیت کی طرف بڑ ھ رہی ہے اور الہی قوانین سے رو گرداں ہے _ آپ اسے

۳۸

الہی احکام اور منصوبہ کی طرف متوجہ کریں گے اور اس دقیق منصوبہ کونا فذ کر کے اس کی مشکلیں حل کریں گے _ بشریت کے ذہن سے موہوم سرحدوں کو ، جو کہ اختلاف و کشمکش کا سر چشمہ ہیں باہر نکال کراسے توحید کے قومی پرچم کے نیچے جمع کریں گے _ آپ دین اسلام اور خدا پرستی کو عالمی بنائیں گے _ اسلام کے حقیقی قوانین نافذ کر کے ظلم و بیداد گری کا قلع قمع کریں گے _ اور پوری کائنات میں عدل و انصاف اور صلح و صفا پھیلائیں گے _

ایسی عظیم تحریک اور عالمی انقلاب کی کامیابی کیلئے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ حجاز اور مدینہ کے اطراف میں بکھر ے ہوئے علوی سادات کافی ہیں _ بلکہ اس کیلئے تو عالمی تیاری ضروری ہے _ مہدی موعود کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب غیبی تائید کے علاوہ ایک طاقت ور گروہ وجود میں آئے جو کہ خداکے قوانین اور منصوبہ کودرک کر ے _ اور دل و جان سے اس کے نفاذکی کوشش کرے _ ایسے عالمی انقلاب کے اسباب فراہم کرے اور انسانی مقاصدکی تکمیل میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے _اس صورت میں اگر انہیں معصوم اور قوی و جری قائد مل جائے ، کہ جس کے ہا تھ میں الہی قوانین و احکام ہوں اور تائید غیبی اس کے شامل حال ہو ، تو وہ لوگ اس کی حمایت کریں گے اور عدل و انصاف کی حکومت کی تشکیل میں فدا کاری کا ثبوت دیں گے _

عقیدہ مہدی مسلم تھا

مہدی موعود سے متعلق رسول(ع) خدا کی بہت سی حدیثیں شیعہ اور اہل سنت نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں _ ان میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مہدی اور قائم کا موضوع پیغمبر اسلام کے زمانہ میں مسلم تھا چنانچہ لوگ ایسے شخص کے

۳۹

منتظر تھے جو حق ، خدا پرستی کی ترویج ، اصلاح کائنات اور عدل کیلئے قیام کرے یہ عقیدہ لوگوں میں اتنا شہرت یافتہ تھا کہ وہ اس کی اصل کو مسلّم سمجھتے تھے اور اس کی فروع سے بحث کرتے تھے _ کبھی وہ یہ سوچتے تھے کہ مہدی موعود کس کی نسل سے ہوں گے ؟ کبھی آپ (ع) کی کنیت و نام کے بارے میں استفسار کرتے تھے ؟ کبھی یہ سوال کرتے تھے آپ (ع) کا نامہدی کیوں ہے ؟ کبھی آپ (ع) کے انقلاب اور ظہور کے زمانے اور اس کی علامتوں کے بارے میں سوال کرتے تھے _ کبھی غیبت کی وجہ اور غیبت کے زمانہ میں اپنے فرائض دریافت کرتے تھے کبھی پوچھتے تھے ، کیا مہدی قائم ایک ہی شخص ہے یا د و اشخاص ہیں؟ پیغمبر اسلام بھی گاہ بگاہ آپ (ع) کے متعلق خبردیا کرتے تھے ، فرماتے تھے: مہدی میری نسل اور فاطمہ (ع) کے فرزند حسین(ع) کی اولاد سے ہوگا _ کبھی آپ کے نام اور کنیت سے آگاہ کرتے تھے اور کبھی آپ کی علامتیں اور خصوصیات بیان فرماتے تھے_

صحابہ اور تابعین کی بحث و گفتگو

رسول اکرم کی وفات کے بعد بھی صحابہ اور تابعین کے درمیان مہدی موعود کا عقیدہ مسلّم تھا اور اس سلسلے میں وہ بحث و گفتگو کیا کرتے تھے_ اس گروہ کے چند افراد یہ ہیں:

ابوہریرہ کہتے ہیں : رکن و مقام کے درمیان مہدی کی بیعت ہوگی _(۱)

ابن عباس معاویہ سے کہا کرتے تھے: آخری زمانہ میں ہمارے خاندان میں سے ایک شخص چالیس سال خلیفہ رہے گا _(۲)

____________________

۱_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص ۴۶_

۲_ الملاحم و الفتن ص ۶۳_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

جواب:

پورے قرآن میں بعض عمومات کی تخصیص اور بعض مطلقات کی تقیید کے اجمالی علم سے ظواہر قرآن پر عمل کرنا تب جائز نہ ہوتا جب ہم مخصص و مقید کی تلاش کے بغیر ہی قرآن کے ظاہری معنی کاارادہ کرنا چاہیں لیکن اگر مکلف کو تحقیق و تلاش کے نتیجے میں وہ مخصصات اور مقیدات مل جائیں جن کا اسے اجمالی علم تھاتو لامحالہ اس کا اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگایعنی وہ غیر معین اور پورے قرآن میں گم گشتہ مخصصات اور مقیدات معین اور محدود ہو جائیں گے اجمالی علم بے اثرہو جائے گا اور باقی آیات میں ظاہر قرآن پر عمل کرنا جائز ہو گا۔

یہ قاعدہ ، سنت (روایات) میں بھی جاری ہو گا کیونکہ روایات کے بارے میں بھی ہم اجمالی طور پر یہ جانتے ہیں کہ بعض کی تخصیص وتقیید ہوئی ہے جب تحقیق کے بعد بعض مخصصات اور مقیدات دستیاب ہو جائیں تو یہ اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگا اور باقی روایات کے ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہوگ ا اگر اجمالی علم کے تفصیلی علم میں تبدیل ہو جانے کے بعد بھی ظواہر قرآن پر عمل کرنا نہ ہوتا تو سنت (روایات) پر عمل کرنا بھی جائز نہ ہوتا بلکہ شبہات(۱) حکمیہ (وجوبیہ ہوں یا تحریمیہ) میں اصالتہ البراتہ کا جاری کرنا جائز نہ ہوتا کیونکہ ہر مکالف یقینی طور پر یہ جانتا ہے کہ شریعت مقدسہ میں الزامی احکام (واجب و حرام افعال) موجود ہیںاس علم اجمالی کا لازمہ یہ ہے کہ ہر شبہہ وجوبیہ اور تحریمیہ میں احتیاط برتی جائے ، حالانکہ ان مقامات میں احتیاط کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا۔

____________________

(۱) اگر کسی علم کے بارے میں شروع میں یہ شک ہو کہ یہ واجب ہے یا نہیں یا یہ حرام ہے یا نہیں تو اسے شبہہ حکمیہ کہتے ہیں ایسے مسائل میں اصالۃ البراتہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ احتیاطاً عمل کو انجام دینا اور دوسری صورت میں احتیاطاً عمل کو ترک کرنا ضروری نہیں بلکہ پہلے عمل کوترک اور دوسرے عمل کو انجام دے سکتے ہیں اور اس احتمال کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ شریعت اسلام میں کچھ واجبات تو یقیناً موجود ہیں ہو سکتا ہے یہ مشکوک عمل ان واجبات یا محرمات میں سے ہو۔ (مترجم)

۳۴۱

ہاں ! محدثین کی ایک جماعت نے شبہہ تحریمہ میں احتیاط کو واجب قرار دیا ہے لیکن اس قول کا مدرک و منبع یہ نہیں کہ شریعت مقدسہ میں کچھ تکالیف (فرائض) الزامی موجود ہیں جن کا اجمالی علم ہے اس لئے وہ شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کو واجب سمجھتے ہوں بلکہ اس قول کا مدرک یہ ہے کہ یہ حضرت ان روایات سے وجوب کو سمجھتے ہیں جن میں اس قسم کے شبہات احتیاط یا توقف کا حکم دیا گیا ہے اگر اس شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کرنے کی وجہ وہ اجمالی علم ہوتا جو احکام الزامی کے بارے میں موجود ہے تو ان حضرات کو شبہہ وجوبیہ میں بھی احتیاط کرنی چاہئے تھی حالانکہ جہاں تک ہم جانتے ہیں شبہہ و جوبیہ میں احتیاط کو کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا ان تمام مسائل میں احتیاط واجب نہ ہونے کی ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ وہ اجمالی علم جو بعض واجبات اور محرمات کے بارے میں رکھتے تھے ، بعض معین و مشخص و اجبات اور محرمات کی وجہ سے تفصیلی علم میںتبدیل ہو گیا اور اجمالی علم بے اثرہو کر رہ گیاہے۔

اس مسئلے کی مزید وضاحت کیلئے ہماری کتاب ''اجود التقریرات،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

۵۔ متشابہ پر عمل کی ممانعت

قرآن کی متعدد آیات میں متشابہ آیات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ) ۳:۷

'' اس میں کی بعض آیتیں تو محکم (بہت صریح) ہیں وہی (عمل کرنے کیلئے) اصل (وبنیاد) کتاب ہیں اور کچھ (آیتیں) متشابہ (گول مول جس کے معنی میں سے پہلو نکل سکتے ہیں) پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ انہی آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں۔

متشابہ آیات میں ظواہر قرآن بھی شامل ہیں اگر ظواہر قرآن یقینی طورپر متشابہ نہ ہوں تو کم از کم یہ احتمال ضرور موجود ہے کہ یہ متشابہ کے ذیل میں آتے ہوں گے جس کے بعد وہ حجت اور قابل عمل نہیں رہتے کیونکہ آیہ کریمہ میں متشابہات پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

۳۴۲

جواب

متشابہ ایسا الفاظ ہے جس کا معنی سب کو معلوم ہے اورا س میں کسی قسم کا اجمال اور مشابہت نہیں اور وہ (متشابہ) یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کے دو یا دو سے زیادہ معانی کا احتمال ہو بایں معنی کہ ان تمام معانی کی نسبت لفظ کی طرف یکساں ہو جتنے فیصد ایک معنی کا احتمال ہوا اتنے فیصد دوسرے معنی کااحمتال بھی ہو یعنی جب لفظ بولا جائے توہر معنی کے بارے میں یہ احتمال برابر کا دیا جائے کہ یہی مراد ہو گا اس لئے جب تک کوئی دوسرا قرینہ کسی ایک معنی کی تعیین پر دلالت نہ کرے لفظ سے کسی معنی کا ارادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ توقف کیا جائے گا متشابہ کے اس معنی کی روشنی میں لفظ ''ظاہر،، متشابہ کے مصادیق میں سے نہ ہو گا جس پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

بفرض تسلیم ، اگر لفظ متشابہ ہو اور یہ احتمال باقی ہو کر معنی ''ظاہر،، بھی متشابہ ہے پھر بھی ظاہر پر عمل کرنے سے نہیں روکا جا سکتا اس لئے کہ عقلاء کی یہ سیرت و روش رہی ہے کہ کلام سے جو معنی ظاہر ہو اس پر عمل کرتے ہیں اور صرف یہ احتمال کہ شاید ظاہر بھی متشابہ کے مصادیق میں سے ہو اس سیرت عقلاء کو ترک کرنے کا باعث نیں بن سکتا بلکہ اس عمل کے جائز نہ ہونے پر ایک مستقل اور قطعی دلیل درکار ہو گی اور جب تک ایسی مستقل اور قطعی دلیل نہ ملے بلا شبہ ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہو گا ۔

یہی وجہ ہے کہ اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل نہ کرے اور اس کی مخالفت کرے تو مالک احتجاج کا حق رکھتا ہے اور اپنے غلام کا مواخذہ کر سکتا ہے اسی طرح اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل کرے مگر بعد میں معلوم ہو کہ مالک کا مقصد ظاہر کلام کیخلاف تھا تو غلام ، مالک کیخلاف احتجاج کر سکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ جب تک کوئی قطعی دلیل ممانعت نہ کرے ظاہر کلام پر عمل کرنے کی سیرت پر عمل ہوتا رہیگا۔

۳۴۳

۶۔قرآن میں تحریف

قرآن میں تحریف ہونا ظواہر قرآن پر عمل کرنے سے مانع اور اہم رکاوٹ ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ انہی ظواہر قرآن کے ساتھبعض قرائن ملے ہوئے ہوں جو معنی مراد پر دلالت کرتے تھے مگر اب تحریف کے نتیجے میں ساقط اور مفقود ہو گئے ہوں (جس کے نتیجے میں لفظ ایسے معنی میں ظہور رکھتا ہے جو معنی مراد کیخلاف ہے)

جواب:

اولاً : ہم اس بات کو نہیں مانتے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے چنانچہ اس سلسلے میں سیر حاصل بحث اس سے قبل کر چکے ہیں وہ روایات جو قرآن کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتی ہیں ، خود اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔

ثانیاً : بفرض تسلیم اگر قرآن میں تحریف ہوئی ہے پھر بھی ان روایات کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن پر عمل کیا جائے گزشتہ مباحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ ظاہر قرآن پر عمل ضروری ہے اوریہ کہ ظاہر قرآن پر عمل کرنا ہی شریعت کی اساس اور بنیاد ہے اگر سنت (احادیث نبوی (ص) اور روایات (آئمہ(ع) ) مخالف قرآن ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

۳۴۴

قرآن میں نسخ

٭نسخ کا لغوی معنی

٭نسخ کا اصطلاحی معنی

٭ نسخ کا امکان

٭ تورات میں نسخ

٭ شریعت اسلام میں نسخ

٭ تلاوت نسخ ہو ۔ حکم باقی رہے

٭تلاوت اور نسخ دونوں منسوخ ہوں

٭ حکم منسوخ ہو ۔ تلاوت باقی رہے

٭ان آیات کا تنقیدی جائزہ جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا

٭مسئلے کی وضاحت

٭ متعہ کی سزا ۔ سنگساری

٭متعہ کے بارے میں چند بے بنیاد شبہات

٭مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

٭آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

٭آیت نجومی پر عمل کی احادیث

٭ مسئلے کی تحقیق

٭ اس صدقے کے نسخ ہونے کے اسباب

٭ حکم صدقہ کی حکمت

٭ کھلم کھلا تعصب

۳۴۵

کتب تفسیر وغیرہ میں عموماً کچھ ایسی آیات ذکر کی جاتی ہیں جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ منسوخ ہو گئی ہیں چنانچہ ابوبکر نحاس نے اپنی کتاب ''الناسخ و المنسوخ،، میں ان آیات کو جمع کیا ہے اور ان کی تعداد ۱۳۸ ہے ہم نے اپنی اس کتاب میں اس بحث کو بھی شامل کیا ہے تاکہ ان آیات جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے کے بارے میں تحقیقی بحث کریں اور یہ ثابت کریں کہ جن آیات میں نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے ان میںسے ایک آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی چہ جائیکہ سب منسوخ ہوئی ہوں۔

البتہ ہم نے ان آیات میں سے صرف ۳۶ آیات کا انتخاب کیا ہے اور یہی آیات بحث و تمحیص اور وضاحت کی محتاج ہیں اور انہی پر بحث سے حق آشکار ہو جائےگا باقی آیات کا نسخ نہ ہونا اتنا واضح ہے کہ محتاج بیان و قابل استدلال نہیں۔

نسخ کا لغوی معنی

لغت میں نسخ ایک جگہ لکھی ہوئی بات کو نقل کر کے دوسری جگہ لکھنے اور اتارنے کو کہا جاتا ہے چنانچہ ''استنساخ،، اور ''انتساخ،، بھی اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں اس کے علاوہ یہ نقل و انتقال اور تبدیلی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ''تناسخ المواریث و الدھور،، (یعنی) ''ثروت و دولت اور زمانہ تبدیل ہوئے،،۔

نسخ کاایک معنی ازالہ اور برطرف کرنابھی ہے ''نسخت الشمس اظل ،، ''(یعنی،، سورج نے سائے کو زائل کر دیا،، میں ''نسخت،، اسی معنی میں استعمال ہوا ہے صحابہ کرام اور تابعین نے نسخ کو اس معنی میں کثرت سے ا ستعمال کیا ہے چنانچہ صحابہ اور تابعین مخصص و مقید کوناسخ ہی کہتے تھے(۱)

____________________

(۱) ابن عباس کی طرف منسوب تفسیر میں تحصیص پر کثرت سے نسخ کا اطلاق ہوا ہے۔

۳۴۶

نسخ کا اصطلاحی معنی

اصطلاح میں نسخ کسی ثابت امرشرعی کو اس کی مدت ختم ہونے کی وجہ سے اٹھانے کو کہتے ہیںچاہے وہ برطرف حکم کوئی حکم تکلیفی ہو جیسے وجوب ، حرمت وغیرہ میں یا حکم وضعی ہو جیسے صحیح ہوناباطل ہونا وغیرہ ہے اور چاہے وہ برطرف شدہ امر ، الٰہی منصب اور عہدوں میںسے ہو یا کوئی اور چیز ہو ، جس کی بازگشت بہ حیثیت شارع اللہ تعالیٰ کی طرف ہو ، جس کی مثال نسخ فی التلاوۃ ہے۔

ہم نے نسخ کی تعریف میں امر کے ساتھ ثابت کی قید کا اضافہ اس لئے کیا ہے تاکہ نسخ کی یہ تعریف اس حکم کے برطرف ہونے کو شامل نہ ہو جو خارج میں اپنے موضوع کے ختم ہو جانے کے باعث زائل ہو جائے جیسے ماہ رمضان ختم ہونے کے ساتھ ہی روزے کاوجوب بھی ختم ہو جاتا ہے اسی طرح نماز کا وقت نکلنے کے بعد نماز کاوجوب بھی ختم ہو جاتاہے اور کسی مال کامالک مر جانے سے اس کی مالکیت (مال کا مالک ہونا) بھی ختم ہو جاتی ہے ان تمام مثالوں میں حکم زائل تو ہو جاتا ہے مگر نسخ نہیں کہلاتا کیونکہ ان تمام مثالوں میں حکم نہیں بلکہ موضوع حکم برطرف ہو گیاہے موضوع کے ختم ہو جانے کی وجہ سے حکم برطرف ہوناممکن ہے ایسا ع ملی طورپر بھی ہوا ہے اور اس میں کسی کو کوئی اعتراض و اشکال نہیں ہے۔

ہم ذیل میں نسخ واقعی کی وضاحت کرتے ہیں:

(۱) پہلا مرحلہ تشریع اور قانون سازی کا ہوتا ہے اس مرحلے میں حکم بطور قضیہ حقیقیہ ثابت ہوتا ہے یعنی اس مرحلہ میں حکم ثابت ہو جاتا ہے چاہے خارج میں فی الحال کوئی موضوع (جس کیلئے حکم ثابت ہو) موجودہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کا دار و مدار ایک فرضی موضوع ہوا کرتا ہے۔

۳۴۷

مثلاً جب شارع مقدس فرمائے : ''شرب الخمر حرام،، (یعنی) مے نوشی حرام ہے،، اس حکم کا مطلب یہ نہیں کہ ابھی اسی وقت خارج میں (ہمارے سامنے) کوئی شراب موجود ہے جس پر حرمت کا حکم لگایا گیا ہے بلکہ اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی خارج (دنیا) میں کوئی شراب ہو گی شریعت میں اس کیلئے حکم ، حرام ہونے کا ہے چاہے فی الحال خارج میں کوئی شراب موجود ہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کو صرف نسخ کے ذریعے برطرف کیا جا سکتا ہے۔

(۲) دوسرا مرحلہ اس حکم کا خارج میں موجود ہوتا ہے بایں معنی کہ موضوع حکم فی الحال خارج میں موجود ہے اور حکم بھی متحقق ہے۔

مثال کے طورپر خارج میں (سامن) شراب موجود ہے اور شریعت میں مقرر شدہ حکم حرمت اس شراب کیلئے ثابت ہے جب تک موضوع موجود رہں گا حکم بھی رہے گا اگر کسی وقت شراب سرکہ میں تبدیل ہو جائے تو بلا شک شراب ہونے کی حالت میں موجود حکم اب برطرف ہو جائے گا مگر یہ نسخ نہیں کہلائے گا اس کے جواز بلکہ خارج میں واقع ہونے میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں اختلاف صرف پہلے مرحلے کے بارے میں ہے کہ آیا عالم تشریع (قانون سازی کے مرحلے) میں کسی حکم کو برطرف کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟

نسخ کاامکان

عقلاء مسلمین میں مشہور یہی ہے کہ زیر بحث نسخ (عالم تشریع میں کسی حکم کو برطرف کرنا) جائز ہے یہود و نصاریٰ نے اس کی مخالفت کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ نسخ محال ہے ان کا مسند و مدرک ایک شبہ (غلط فہمی) ہے جو تارعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور اور ضعیف ہے۔

۳۴۸

خلاصہ شبہ:

احکام کو نسخ کرنے سے یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کے کام حکمت و مصلحت پر مبنی نہ ہوں یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کسی بھی حکم کی حکمت اور مصلحت سے آگاہ نہ ہو یہ دونوں امور محال ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ جو حکیم مطلق ہے ، جو حکم بھی مقرر فرمائے کسی نہ کسی مصلحت کی بناء پر مقرر ہوتا ہے جو اس حکم کی متقاضی ہوتی ہے کیونکہ بے مصلحت حکم اس کے بنانے والے کی حکمت سے سازگار نہیں۔

ایسے فرض میں حکم کو اٹھاتے وقت یا تو اس حکم کی مصلحت و حکمت باقی ہو گی اور نسخ کرنے والا اس کا علم رکھتا ہو گا تو یہ حکم بنانے والے ، جو حکیم مطلق ہے، کی حکمت کیخلاف ہے ، یا بعد میں انکشاف ہوا ہوگا کہ یہ حکم شروع سے مصلحت پر مبنی نہ تھا ، جیسے عام عرفی قوانین کے بارے میں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس میں مصلحت نہیںتھی اس سے جہل خدالازم آتا ہے ، جو محال ہے معلوم ہوا نسخ محال ہے اس لئے کہ اس سے محال لازم آتا ہے (مستلزم المحال محال،، (یعنی) ''جس چیز سے محال لازم آئے وہ چیز محال ہوتی ہے،،۔

جواب:

بعض اوقات اللہ تعالیٰ کچھ کاموں کا حکم دیتا ہے اور بعض کاموں سے منع فرماتا ہے لیکن خالق کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جس کا حکم دیا ہے وہ ضرور انجام پائے اور جس کام سے منع کیا ہے وہ ضرور ترک ہو جائے بلکہ اس امرونہی کا مقصد بندوں کا امتحان ہوتا ہے اس قسم کے اوامرو نواہی شریعت میں موجود ہیںایسے احکامات صادر کئے جانے کے بعد دوبارہ برطرف کئے جا سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

۳۴۹

اس قسم کے احکام صادر ہونے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اور پھر انہیں واپس لینے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اس قسم کے نسخ اور ازالہ حکم سے نہ کوئی خلاف حکمت بات لازم آتی ہے اور نہ اس کا منشاء بداء (پہلے معلوم نہ ہو اور بعد میں انکشاف ہو ) ہے جو خدا کے لئے محال ہے۔

اور کبھی شارع کی طرف سے مقرر کردہ حکم حقیقی ہوتا ہے (بایں معنی کہ جس کام کو حکم دیا جائے اس کا بجا لانا اور جس کام سے روکا جائے اس کا ترک کرنا ضروری ہوتا ہے) اس کے باوجود ایک مدت کے بعد اس حقیقی حکم کو برطرف کیا جاتا ہے لیکن اس معنی میں نہیں کہ ایک حکم ، واقع اور علم خدا میں دائمی طور پر ثابت ہو مگر کسی خاص مصلحت یا اس حکم میں کسی خامی کے انکشاف کی بناء پر اسے نسخ اور برطرف کیا گیا ہو جس سے حکیم اور واقعیات و حقائق کی عالم ذات کے حق میں محال لازم آئے۔

بلکہ نسخ کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ یہ مقرر کردہ حکم ، عنداللہ کسی خاص مدت اور زمانے تک محدود ہوتا ہے اور عام لوگوں کو اس محدود وقت کا علم نہیں ہوتا اور جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو حکم بھی خود بخود زائل ہو جاتا ہے۔

اس معنی میں نسخ یقیناً ممکن ہے اور اس پر کسی قسم کا اشکال لازم نہیں آتا کیونکہ زمانہ اور وقت کی خصوصیات ، جن پر حکم کا دار و مدار ہو ، احکام میں دخیل ہوا کرتی ہیں جس میں کسی عاقل کوشک نہیں۔

مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں ہفتہ کا دن خصوصیت رکھتا تھا جس کی وجہ سے روز ہفتہ اس شریعت کے ماننے والوں کیلئے عید قرار پایا اور باقی ایمام ہفتہ میں کسی یوم میں ایسی خصوصیت نہیں تھی یہی حیثیت اسلام میں جمعتہ المبارک کو حاصل ہے اسی طرح نماز ، روزے اور حج کے مخصوص اوقات کی بھی کچھ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے مقررہ اوقات میں یہ فرض قرار دیئے گئے ہیں۔

۳۵۰

جب شریعت کے کسی حکم (قانون) کے بنانے اور نہ بنانے میں زمانہ اور وقت کا دخل قابل تصور ہے تو کسی حکم کے دائمی رہنے اور نہ رہنے میں بھی وقت کا دخل قابل تصور ہونا چاہئے ! بنا برایں عین ممکن ہے کہ ایک حکم ، ایک معین مدت کیلئے مصلحت پر مشتمل ہو لیکن اس مدت کے گزر جانے کے بعد وہ مصلحت ختم ہو جائے اسی طرح اسی کے برعکس بھی ممکن ہے یعنی ممکن ہے کہ ایک محدود زمانے میں مصلحت نہ ہو اس محدود مدت کے گزرنے کے بعد مصلحت پیدا ہو جائے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب کوئی مخصوص گھڑی ، دن ہفتہ اور مہینہ کسی فعل کے بامصلحت اور نقصان دہ ہونے میں اثر انداز ہو سکتا ہے تو سال اور برس بھی اثر انداز اور دخیل ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک حکم چند محدود برس تک باصلحت رہے گا اور ان برسوں کے گزر جانے کے بعد اس فعل اور حکم میں وہ مصلحت نہ رہے گی جس طرح کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے علاوہ کسی دوسری جداگانہ دلیل کے ذریعے مقید کیا جا سکتا ہے اسی طرح عین ممکن ہے کہ کسی جداگانہ دلیل کے ذریعے زمانے کے اعتبار سے بھی کسی مطلق حکم کو مقید کیا جائے کیونکہ بعض اوقات مصلحت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ حکم کو ظاہری طور پر عام اور مطلق چھوڑا جائے (ظاہراً کسی لفظ کے ذریعے عام کی تخصیص اور مطلق کی تقیید نہ کی جائے) جبکہ درحقیقت خاص اور مقید ہی مراد ہوتے ہیں اور مخصص و مقید کو کسی جداگانہ دلیل کی صورت میں بعد میں بیان کیا جاتا ہے۔

معلوم ہوا اور حقیقت نسخ ، کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے اعتبار سے مقید کرنے کا نام ہے جس سے حکمت کی مخالفت لازم آتی ہے اور نہ بداء لازم آتا ہے جو خدا کیلئے محال ہیں۔

یہ تمام بحث اس مذہب کی بنیادپر ہوئی جس کے مطابق قانون سازی ، اعمال میں مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتی ہے لیکن اگر اس مذہب کی رو سے دیکھا جائے جس کے مطابق احکام ، اپنے اندر موجود مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتے ہیں تو پھر تمام احکام ان احکام کی مانند ہوں گے جو درحقیقت امر حقیقی (جن کا امتشال مطلوب ہو) نہیں ہوتے بلکہ صرف امتحان کیلئے صادر ہوتے ہیں ان کا صادر ہونا مصلحت سے خالی نہیں اور ان کا نسخ ہونابھی مصلحت سے خالی نہیں۔

۳۵۱

تورات میں نسخ

یہود و نصاریٰ شریعت میں نسخ کو محال قرار دے کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شریعت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام احکام آج تک باقی اور ثابت ہیں اور منسوخ نہیں ہوئے لیکن گزشتہ مباحث سے یہ ثابت ہو گیا کہ نسخ محال نہیں ہے نیز تورات اور انجیل میں بھی کئی مقامات پر نسخ واقع ہوا ہے ہم ذیل میں نمونہ کے طورپر عہد نامہ قدیم و جدیدسے نسخ کے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جن سے اندازہ ہو جائے گا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے مذہب کی حقانیت پر جو دلیل پیش کی ہے وہ کتنی کمزور ہے۔

۱۔ کتاب مقدس ، عہد نامہ قدیم و جدید ، سفر گنتی کے باب : ۴ شمارہ ۲۔۳ میں ہے:

''اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا : بنی لاوی میں سے قہانیوں کو ان کے گھرانوں اور آبائی خاندانوں کے مطابق تیس برس سے لے کرپچاس برس تک جتنے خیمہ اجتماع میں کام کرنے کیلئے مقدس کی خدمت میں شامل ہیں ان سب کو گنو،،

یہ حکم نسخ کر دیا گیا اور قبول خدمت کی عمر پچیس سال قرار دی گئی چنانچہ اسی سفر کے باب: ۸ ، شمارہ :۲۳ اور ۲۴ میں ہے:

''پھر خدا نے موسیٰ سے کہا : لاویوں کے متعلق جو بات ہے وہ یہ ہے کہ پچیس برس سے لے کر اس سے اوپر اوپر کی عمر میں وہ خیمہ اجتماع کی خدمت کے کام کیلئے اندر حاضر ہوا کریں،،۔

اس کے بعد یہ حکم بھی نسخ ہو گیا اور قبول خدمت کی عمر گھٹا کر بیس سال کر دی گئی چنانچہ تاب مقدس کے (عنوان) تواریخ ایک کے شمار ۲۳۔۲۴ میں ہے:

''لاوی کے بیٹے یہی تھے جو اپنے اپنے آبائی خاندان کے مطابق تھے ان کے آبائی خاندان کے سردار جیسا وہ نام بنام ایک ایک کر کے گنے گئے یہی ہیں وہ بیس برس اور اس سے اوپر کی عمر سے خداوند کے گھر کی خدمت کا کام کرتے تھے اور خدا کے گھر کی خدمت کو انجام دینے کیلئے خیمہ اجتماع کی حفاظت اور مقدس کی نگرانی اور اپنے بھائی نبی ہارون کی اطاعت کریں،،

۳۵۲

۲۔ سفر گنتی کے باب: ۲۸ شمارہ : ۳ اور ۷ میں ہے:

''تو ان سے کہہ دے جو آتشین قربانی تم کو خدا کے حضور پیش کرنا ہے کہ دو بے عیب یکسالہ برے (بھیڑیں) ہر روز دائمی سوختی قربانی کیلئے چڑھایا کرو۔ ایک برہ (بھیڑ) صبح اور دوسرا برہ (بھیڑ) شام کو چڑھانا اور ساتھ ہی ایک ایفہ کے دسویں حصہ کے برابر میدہ جس میں کوٹ کر نکالا ہوا تیل چوتھائی ھین کے برابر ملا ہو ، نذر کی قربانی کے طور پر گزراننا اور ھین کی چوتھائی کے برابر مے فی برہ تپاون کیلئے لانا،،

یہ حکم منسوخ ہو گیا اور ہر صبح کی آتشین قربانی روزانہ ایک سالہ بھیڑ قرار دی گئی اور ایفہ کے چھٹے حصہ کے برابر میدہ اور ایک تہائی ھین کے برابر تیل پیش کرنا ضروری قرار دیا گیا چنانچہ حزقیل کے باب ۴۶ شمارہ ۱۳۔۵ۃ میں ہے:

''تو ہر روز خداوند کے حضور پہلے سال کاا یک بے عیب برہ (بھیڑ)سوختنی قربانی کیلئے ہر صبح کو چڑھائے گا اور تو اس کے ساتھ ہر صبح نذر کی ربانی گزرانے گا یعنی ایفہ کا چھٹہ حصہ اور میدہ کے ساتھ ملانے کو تیل کے ھین کی ایک تہائی دائمی حکم کے مطابق ہمیشہ کیلئے خداوند کے حضور یہ نذر کی قربانی ہو گی اسی طرح وہ برے (بھیڑیں) اور نذر کی قربانی اور تیل ہر صبح ہمیشہ کی سوختنی قربانی کیلئے چڑھائیں گے،،۔

۳۔ سفر گنتی کے باب ۲۸: شمارہ :۹ اور ۱۰ میں ہے:

''اور شنبہ کے روز دو بے عیب نر بھیڑ اور نذر کی قربانی کے طورپر ایفہ کے پانچویں حصے کے برابر میدہ جس میں تیل ملا ہوا ہو تپاون کے ساتھ گزراننا دائمی سوختنی قربانی اور اس کے تپاون کے علاوہ یہ ہر شنبہ کی سوختنی قربانی ہے،،۔

یہ حکم نسوخ ہو گیا چنانچہ حزقیل باب : ۴۶ شمارہ : ۴۔۵ میں نسخ کے بعد کا حکم یوں مذکور ہے: ''اور سوختنی قربانی جو فرمانروا شنبہ کے دن گزراننے گا یہ ہے : چھ بے عیب بھیڑ اور ایک بے عیب مینڈھا اور نذر کی قربانی مینڈھے کیلئے ایک ایفہ اور بھیڑوں کیلئے نذر کی قربانی اس کی توفیق کے مطابق اور ایک ایفہ کیلئے ایک ھین تیل،،

۳۵۳

۴۔ کتاب مقدس سفر گنتی کے باب : ۳۰ شمارہ ۲ میں ہے:

''جب کوئی مرد خدا کی منت مانے یا قسم کھا کر اپنے اوپر کوئی خاص فرض ٹھہرا دے تو وہ اپنے عہد کو نہ توڑے بلکہ جو کچھ اس کے منہ سے نکلا ہے اسے پورا کرے،،۔

تورات میں ثابت یہی حکم (قسم کا جواز) منسوخ ہو گیا چنانچہ متیٰ کی انجیل باب : ۵ شمارہ : ۳۳۔۳۴ میں ہے: ''نیز تم نے یہ سنا ہے کہ گزشتوں سے کہا گیا تھا قسم کی مخالفت نہ کرو بلکہ اپنے رب کی قسم پورا کرو۔ لیکن میں یہ کہوں گا قسم ہرگز نہ کھاؤ،،۔

۵۔ کتاب مقدس کے سفر خروج باب : ۲۱ شمارہ : ۲۳۔۲۵ میں ہے:

''لیکن اگر نقصان ہو جائے تو جان کے بدلے جان لے او رآنکھ کے بدلے آنکھ دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ پاؤں کے بدلے پاؤں جلانے کے بدلے جلانا زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ،،

یہ حکم قصاص شریعت حضرت عیسیٰ (ع) میں منسوخ ہو گیا چنانچہ انجیل متیٰ کے باب : ۵ شمارہ ۳۸ میں ہے:

''تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے میں آنکھ دانت کے بدلے میں دانت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جوتیرے دائیں رخسارپر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے،،۔

۶۔ کتاب مقدس سفر پیدائش باب : ۱۷ شمارہ ۱۰ میں حضرت ابراہیم (ع) سے خدا کا خطاب ہے: '' اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزمذ نرینہ ختنہ کیا جائے،،

حضرت موسیٰ (ع) کی شریعت نے بھی اس حکم کی تائید کر دی۔ چنانچہ سفر خروج کے باب ۱۲ کے شمارہ : ۴۸۔۴۹ میں ہے:

۳۵۴

''اور اگر کوئی اجنبی تیرے ساتھ مقیم ہو اورخداوند کی فسح کو ماننا چاہتا ہو تو اس کے ہاں کے سب مرد اپنا ختنہ کرائیں تب وہ پاس آ کر فسح کرے یوں وہ ایسا سمجھا جائے گا گویا اسی ملک کی اس کی پیدائش ہے پر کوئی نامختون آدمی اسے کھانے نہ پائے وطنی اور اس اجنبی کیلئے جو تمہارے درمیان موجود ہو ایک ہی شریعت ہو گی،،۔

نیز کتاب مقدس کے سفر اخبار کے باب : ۱۲ شمارہ ۲ اور ۳ میں موجود ہے:

''خداوند نے موسیٰ سے کہا: بنی اسرائیل سے کہو اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو وہ سات دن ناپاک رہے گی جیسے حیض کے ایام میں رہتی ہے آٹھویں دن لڑکے کا ختنہ کیا جائے،،۔

یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا اور حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت عیسیٰ (ع) کی امت سے ختنہ کا فریضہ اٹھا لیا گیا چنانچہ کتاب مقدس ، عہد نامہ جدید کے عنوان ''رسولوں کے اعمال،، کے باب : ۱۵ شمارہ : ۲۴۔۳۰ اور پولس کے بعض خطوط میں نسخ کا یہ حکم موجود ہے۔

۷۔ کتاب مقدس کے سفر استثنا باب : ۲۴ شمارہ:۱۔۳ میں ہے:

''اگر کوئی مرد کسی عورت سے بیاہ کرے اور بعد میں اس میں کوئی ایسی بیہودہ بات پائے جس سے اس عورت کی طرف اس کی التفات نہ رہے تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کراس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے اور جب اس کے گھر سے نکل جائے تو وہ دوسرے مرد کی ہو سکتی ہے لیکن اگر دوسراشوہر بھی اس سے ناخوش رہے اور اس کا طلاق نامہ لکھ کر اس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے یا وہ دوسرا شوہر جس نے اس سے بیاہ کیا ہو مر جائے تو اس کا پہلا شوہر جس نے اسے نکال دیا تھا اس عورت کے ناپاک ہونے کے بعد یہ مرد اس سے بیاہ نہ کرنے پائے،،۔

۳۵۵

انجیل نے اس حکم کو منسوخ کر دیا اور طلاق کو حرام قرار دیا ہے چنانچہ انجیل متیٰ کے باب: ۵۰ شمارہ : ۳۱۔۳۲ میں لکھا ہے:

''یہ بھی کہاگیا تھا کہ جو کوئی بیوی کو چھوڑے اسے طلاق نامہ لکھ دے لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے وہ اس سے زنا کراتا ہے اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے،،(۱)

مرقس کے باب : ۱۰ شمارہ : ۱۱۔۱۲ اور لوقا کے باب : ۱۶ شمارہ :۱۸ میں بھی اس قسم کا حکم موجود ہے۔ عہد نامہ قدیم و جدید سے نسخ کے جو موارد بیان کئے گئے وہ اہل انصاف اور حقیقت بین حضرات کیلئے کافی ہیں ۔ جو حضرات نسخ کے مزید مقامات سے آگاہ ہونا چاہیں وہ کتاب ''اظہار الحق،، (۲) اور ''الہدیٰ الیٰ دین المصطفےٰ (۳)،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

____________________

(۱) کتاب مقدس کے اقتباسات کا اردوترجمہ ، پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور کے شائع کردہ اردو ترجمہ سے لیا گیا ہے (مترجم)

(۲) مولف کتاب: شیخ رحمتہ اللہ ابن خلیل الرحمن الہندی ، یہ انتہائی مفید اور جلیل کتاب ہے۔

(۳) مولف : امام البلاغی ۔

۳۵۶

شریعت اسلام میں نسخ

نسخ کے واقع ہونے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کیونکہ گزشتہ شریعتوں کے بہت سے احکام ، شریعت اسلام کے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے اور شریعت اسلام ہی کے کچھ احکام شریعت اسلام کے چند دوسرے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے ہیں چنانچہ قرآن مجید اس بات کی تصریح کر رہا ہے کہ نماز میں قبلہ اول (بیت المقدس) کی طرف رخ کرنے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا قربان کے کچھ احکام ، قرآن یا سنت قطعیہ (خبر متواترہ وغیرہ)یا اجماع یا عقل کی وجہ سے نسخ ہو سکتے ہیں؟

بہتر ہے اس پہلو سے نسخ کی بحث شروع کرنے سے پہلے ہم نسخ کی قسمیں بیان کر دیں۔ علماء کرام نے نسخ قرآن کی تین قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔ تلاوت نسخ ہو حکم باقی رہے(۱)

علمائے کرام نے اس ضمن میں مثال کے لئے آیت رحم کو پیش کیا ہے اور فرمایا ہے کہ آیت رحم فی الحال قرآن میں موجود نہیں (نسخ ہو گئی ہے) لیکن اس آیت میں موجود حکم باقی ہے۔

ہم تحریف کی بحث میں ثابت کر چکے ہیں کہ نسخ تلاوت کا قائل ہونا بعینہ تحریف کا قائل ہونے کے مترادف ہے اور جو روایات نسخ تلاوت پر دلالت کرتی ہیں وہ سب کی سب احادہیں اس قسم کی مباحث میں خبر واحد کے ذریعے مدعا ثابت نہیں ہو سکتا۔

____________________

(۱) یعنی حکم باقی رہے اور صرف تلاوت منسوخ ہو۔

۳۵۷

تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جس طرح خبر واحد سے قرآن ثابت نہیں ہو سکتا اسی طرح خبر واحد سے نسخ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ اجتماع کے ساتھ ساتھ ایک عہدہ اور اہم دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی اہم واقعہ جو رونما ہونے کے بعد (اگر درحقیقت ثابت ہو) عام طور پر لوگوں میں شائع اور مشہور ہو جاتا ہے وہ خبر واحد کے ذریعے ثابت نہیں ہوتا اس قسم کے واقعہ کو بعض راویوں کا نقل کرنا اور بعض راویوں کا نقل نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے نقل کیا ہے اس نے یا تو جھوٹ بولا ہے یا اسے غلط فہمی ہوئی ہے بنا برایں خبر واحد کے ذریعے یہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے کہ آیت رجم قرآن کا حصہ ہو اور پھر منسوخ ہو گئی ہو اور یہ کہ اس کی صرف تلاوت نسخ ہوئی ہو اور اس کا حکم باقی رہے۔

ہاں! گزشتہ مباحث میں یہ بات ضرور نقل کی گئی ہے کہ جمع قرآن کے موقع پر حضرت عمرآیت رجم لے کر آئے اور انہوںنے یہ دعویٰ کیا کہ یہ بھی قرآن کا حصہ ہے لیکن مسلمانوں نے ان کے اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس آیت کو نقل کرنے والے صرف حضرت عمر تھے چنانچہ مسلمانوں نے آیت رجم کو قرآن میں شامل نہیں کیا یہاں سے متاخرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آیہ رجم کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے لیکن اس کا حکم باقی ہے۔

۲۔ تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوں

تلاوت اور حکم دونوں میں نسخ کی مثال کیلئے تحریف کی بحث میں مذکور دسویں روایت کو پیش کیا گیا ہے جس کو حضرت عائشہ نے نقل کیا ہے:

اس دلیل کا جواب وہی ہے جو نسخ تلاوت کی دلیل کا تھا۔

۳۵۸

۳۔ حکم منسوخ ہو۔ تلاوت باقی رہے۔

نسخ کی یہی قسم علماء اور مفسرین میں مشہور ہے اس کے بارے میں ئی علمائے کرام نے مستقل کتب لکھی ہیں اور ان میں ناسخ اور منسوخ کو ذکر کیا ہے ان علماء میں ممتاز عالم ابو جعفر نحاس اورحافظ المظفر الفارسی قابل ذکر ہیں۔

بعض محققین اس رائے کے مخالف ہیں اور انہوں نے قرآن میں کسی منسوخ آیت کے موجود ہونے کا انکار کیا ہے البتہ اس نسخ کے امکان پر سب کا اتفاق ہے اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ قرآن میں کچھ آیات ایسی ہیں جو گزشتہ شریعتوں کے احکام کی ناسخ ہیں اور بعض آیات کے ذریعے صدر اسلام کے کچھ احکام منسوخ ہو گئے ہیں ہم ذیل میں اس مسئلے میں صحیح رائے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں موجود حکم تین طریقوں سے نسخ ہو سکتا ہے۔

۱۔ قرآن میں موجود حکم سنت متواترہ یا اس اجماع قطعی کے ذریعے نسخ کیا جائے جو اس بات کا انکشاف کرے کہ نسخ معصوم (ع) کی طرف سے ہوا ہے نسخ کی اس قسم پر عقلاً اور نقلاً کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اگر کسی آیت کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ اجماع یا سنت متواترہ کے ذریعے یہ نسخ ہو گئی ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا ورنہ نسخ کا التزام نہیں کیا جائے گاکیونکہ یہ مسلم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

۲۔ قرآن میں کوئی ثابت حکم قرآن ہی کی دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو جس کی نظر اس آیہ منسوخہ پر نہ ہو اور اس کے حکم کے برطرف ہونے کو بیان نہ کرتی ہو بلکہ صرف اس بنیدپر نسخ سمجھا جائے کہ ان دونوں آئتوں میں حکم کے اعتبار سے منافات پائی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا جائے کہ بعد والی آیت پہلی آیت کی ناسخ ہے۔

۳۵۹

تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن میں یہ نسخ و اقع نہیں ہوا اور کیسے اس قسم کے نسخ کو مانا جا سکتا ہے جبکہ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ) ۴:۸۲

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے اور (یہ نہیں خیال کرتے کہ) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا) ہوتا تو ضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے،،۔

مگر بہت سے مفسرین نے آیات قرآنی کے مفاہیم میں کما حقہ ، غور و خوض نہیں کیا اور یہ خیال کیا کہ قرآن کی بہت سی آیات میں منافات پائی جاتی ہے اور اسی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان دونوں (باہم منافی) آیات میں سے پہلی منسوخ اور دوسری ناسخ ہے بلکہ بعض حضرات نے ان دونوں آئتوں کو بھی ایک دوسرے کے منافی قرار دیا ہے جہاں دوسری آیت پہلی آیت کیلئے قرینہ عرفیہ بن رہی ہو(۱) جس طرح خاص عام کا اور مقید مطلق کا مقصد و مراد بیان کرتا ہے اس قسم کے شبہات یا نظریات کا منشا و سرچشمہ ، فکر و تدبر کا فقدان ہے یا نسخ کے لغوی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد و مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے سے پہلے ایسے معانی کو عام طور پر نسخ کہا جاتا ہے لیکن اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے کے بعداس کو نسخ کہنا یقیناً مجاز ہو گا جو چشم پوشی پر مبنی ہے۔

____________________

(۱) دوسری آیت پہلی آیت کا صحیح مقصد بیان کر رہی ہو(مترجم)

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689