البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313946 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

جواب:

پورے قرآن میں بعض عمومات کی تخصیص اور بعض مطلقات کی تقیید کے اجمالی علم سے ظواہر قرآن پر عمل کرنا تب جائز نہ ہوتا جب ہم مخصص و مقید کی تلاش کے بغیر ہی قرآن کے ظاہری معنی کاارادہ کرنا چاہیں لیکن اگر مکلف کو تحقیق و تلاش کے نتیجے میں وہ مخصصات اور مقیدات مل جائیں جن کا اسے اجمالی علم تھاتو لامحالہ اس کا اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگایعنی وہ غیر معین اور پورے قرآن میں گم گشتہ مخصصات اور مقیدات معین اور محدود ہو جائیں گے اجمالی علم بے اثرہو جائے گا اور باقی آیات میں ظاہر قرآن پر عمل کرنا جائز ہو گا۔

یہ قاعدہ ، سنت (روایات) میں بھی جاری ہو گا کیونکہ روایات کے بارے میں بھی ہم اجمالی طور پر یہ جانتے ہیں کہ بعض کی تخصیص وتقیید ہوئی ہے جب تحقیق کے بعد بعض مخصصات اور مقیدات دستیاب ہو جائیں تو یہ اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگا اور باقی روایات کے ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہوگ ا اگر اجمالی علم کے تفصیلی علم میں تبدیل ہو جانے کے بعد بھی ظواہر قرآن پر عمل کرنا نہ ہوتا تو سنت (روایات) پر عمل کرنا بھی جائز نہ ہوتا بلکہ شبہات(۱) حکمیہ (وجوبیہ ہوں یا تحریمیہ) میں اصالتہ البراتہ کا جاری کرنا جائز نہ ہوتا کیونکہ ہر مکالف یقینی طور پر یہ جانتا ہے کہ شریعت مقدسہ میں الزامی احکام (واجب و حرام افعال) موجود ہیںاس علم اجمالی کا لازمہ یہ ہے کہ ہر شبہہ وجوبیہ اور تحریمیہ میں احتیاط برتی جائے ، حالانکہ ان مقامات میں احتیاط کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا۔

____________________

(۱) اگر کسی علم کے بارے میں شروع میں یہ شک ہو کہ یہ واجب ہے یا نہیں یا یہ حرام ہے یا نہیں تو اسے شبہہ حکمیہ کہتے ہیں ایسے مسائل میں اصالۃ البراتہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ احتیاطاً عمل کو انجام دینا اور دوسری صورت میں احتیاطاً عمل کو ترک کرنا ضروری نہیں بلکہ پہلے عمل کوترک اور دوسرے عمل کو انجام دے سکتے ہیں اور اس احتمال کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ شریعت اسلام میں کچھ واجبات تو یقیناً موجود ہیں ہو سکتا ہے یہ مشکوک عمل ان واجبات یا محرمات میں سے ہو۔ (مترجم)

۳۴۱

ہاں ! محدثین کی ایک جماعت نے شبہہ تحریمہ میں احتیاط کو واجب قرار دیا ہے لیکن اس قول کا مدرک و منبع یہ نہیں کہ شریعت مقدسہ میں کچھ تکالیف (فرائض) الزامی موجود ہیں جن کا اجمالی علم ہے اس لئے وہ شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کو واجب سمجھتے ہوں بلکہ اس قول کا مدرک یہ ہے کہ یہ حضرت ان روایات سے وجوب کو سمجھتے ہیں جن میں اس قسم کے شبہات احتیاط یا توقف کا حکم دیا گیا ہے اگر اس شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کرنے کی وجہ وہ اجمالی علم ہوتا جو احکام الزامی کے بارے میں موجود ہے تو ان حضرات کو شبہہ وجوبیہ میں بھی احتیاط کرنی چاہئے تھی حالانکہ جہاں تک ہم جانتے ہیں شبہہ و جوبیہ میں احتیاط کو کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا ان تمام مسائل میں احتیاط واجب نہ ہونے کی ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ وہ اجمالی علم جو بعض واجبات اور محرمات کے بارے میں رکھتے تھے ، بعض معین و مشخص و اجبات اور محرمات کی وجہ سے تفصیلی علم میںتبدیل ہو گیا اور اجمالی علم بے اثرہو کر رہ گیاہے۔

اس مسئلے کی مزید وضاحت کیلئے ہماری کتاب ''اجود التقریرات،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

۵۔ متشابہ پر عمل کی ممانعت

قرآن کی متعدد آیات میں متشابہ آیات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ) ۳:۷

'' اس میں کی بعض آیتیں تو محکم (بہت صریح) ہیں وہی (عمل کرنے کیلئے) اصل (وبنیاد) کتاب ہیں اور کچھ (آیتیں) متشابہ (گول مول جس کے معنی میں سے پہلو نکل سکتے ہیں) پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ انہی آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں۔

متشابہ آیات میں ظواہر قرآن بھی شامل ہیں اگر ظواہر قرآن یقینی طورپر متشابہ نہ ہوں تو کم از کم یہ احتمال ضرور موجود ہے کہ یہ متشابہ کے ذیل میں آتے ہوں گے جس کے بعد وہ حجت اور قابل عمل نہیں رہتے کیونکہ آیہ کریمہ میں متشابہات پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

۳۴۲

جواب

متشابہ ایسا الفاظ ہے جس کا معنی سب کو معلوم ہے اورا س میں کسی قسم کا اجمال اور مشابہت نہیں اور وہ (متشابہ) یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کے دو یا دو سے زیادہ معانی کا احتمال ہو بایں معنی کہ ان تمام معانی کی نسبت لفظ کی طرف یکساں ہو جتنے فیصد ایک معنی کا احتمال ہوا اتنے فیصد دوسرے معنی کااحمتال بھی ہو یعنی جب لفظ بولا جائے توہر معنی کے بارے میں یہ احتمال برابر کا دیا جائے کہ یہی مراد ہو گا اس لئے جب تک کوئی دوسرا قرینہ کسی ایک معنی کی تعیین پر دلالت نہ کرے لفظ سے کسی معنی کا ارادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ توقف کیا جائے گا متشابہ کے اس معنی کی روشنی میں لفظ ''ظاہر،، متشابہ کے مصادیق میں سے نہ ہو گا جس پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

بفرض تسلیم ، اگر لفظ متشابہ ہو اور یہ احتمال باقی ہو کر معنی ''ظاہر،، بھی متشابہ ہے پھر بھی ظاہر پر عمل کرنے سے نہیں روکا جا سکتا اس لئے کہ عقلاء کی یہ سیرت و روش رہی ہے کہ کلام سے جو معنی ظاہر ہو اس پر عمل کرتے ہیں اور صرف یہ احتمال کہ شاید ظاہر بھی متشابہ کے مصادیق میں سے ہو اس سیرت عقلاء کو ترک کرنے کا باعث نیں بن سکتا بلکہ اس عمل کے جائز نہ ہونے پر ایک مستقل اور قطعی دلیل درکار ہو گی اور جب تک ایسی مستقل اور قطعی دلیل نہ ملے بلا شبہ ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہو گا ۔

یہی وجہ ہے کہ اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل نہ کرے اور اس کی مخالفت کرے تو مالک احتجاج کا حق رکھتا ہے اور اپنے غلام کا مواخذہ کر سکتا ہے اسی طرح اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل کرے مگر بعد میں معلوم ہو کہ مالک کا مقصد ظاہر کلام کیخلاف تھا تو غلام ، مالک کیخلاف احتجاج کر سکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ جب تک کوئی قطعی دلیل ممانعت نہ کرے ظاہر کلام پر عمل کرنے کی سیرت پر عمل ہوتا رہیگا۔

۳۴۳

۶۔قرآن میں تحریف

قرآن میں تحریف ہونا ظواہر قرآن پر عمل کرنے سے مانع اور اہم رکاوٹ ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ انہی ظواہر قرآن کے ساتھبعض قرائن ملے ہوئے ہوں جو معنی مراد پر دلالت کرتے تھے مگر اب تحریف کے نتیجے میں ساقط اور مفقود ہو گئے ہوں (جس کے نتیجے میں لفظ ایسے معنی میں ظہور رکھتا ہے جو معنی مراد کیخلاف ہے)

جواب:

اولاً : ہم اس بات کو نہیں مانتے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے چنانچہ اس سلسلے میں سیر حاصل بحث اس سے قبل کر چکے ہیں وہ روایات جو قرآن کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتی ہیں ، خود اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔

ثانیاً : بفرض تسلیم اگر قرآن میں تحریف ہوئی ہے پھر بھی ان روایات کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن پر عمل کیا جائے گزشتہ مباحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ ظاہر قرآن پر عمل ضروری ہے اوریہ کہ ظاہر قرآن پر عمل کرنا ہی شریعت کی اساس اور بنیاد ہے اگر سنت (احادیث نبوی (ص) اور روایات (آئمہ(ع) ) مخالف قرآن ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

۳۴۴

قرآن میں نسخ

٭نسخ کا لغوی معنی

٭نسخ کا اصطلاحی معنی

٭ نسخ کا امکان

٭ تورات میں نسخ

٭ شریعت اسلام میں نسخ

٭ تلاوت نسخ ہو ۔ حکم باقی رہے

٭تلاوت اور نسخ دونوں منسوخ ہوں

٭ حکم منسوخ ہو ۔ تلاوت باقی رہے

٭ان آیات کا تنقیدی جائزہ جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا

٭مسئلے کی وضاحت

٭ متعہ کی سزا ۔ سنگساری

٭متعہ کے بارے میں چند بے بنیاد شبہات

٭مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

٭آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

٭آیت نجومی پر عمل کی احادیث

٭ مسئلے کی تحقیق

٭ اس صدقے کے نسخ ہونے کے اسباب

٭ حکم صدقہ کی حکمت

٭ کھلم کھلا تعصب

۳۴۵

کتب تفسیر وغیرہ میں عموماً کچھ ایسی آیات ذکر کی جاتی ہیں جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ منسوخ ہو گئی ہیں چنانچہ ابوبکر نحاس نے اپنی کتاب ''الناسخ و المنسوخ،، میں ان آیات کو جمع کیا ہے اور ان کی تعداد ۱۳۸ ہے ہم نے اپنی اس کتاب میں اس بحث کو بھی شامل کیا ہے تاکہ ان آیات جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے کے بارے میں تحقیقی بحث کریں اور یہ ثابت کریں کہ جن آیات میں نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے ان میںسے ایک آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی چہ جائیکہ سب منسوخ ہوئی ہوں۔

البتہ ہم نے ان آیات میں سے صرف ۳۶ آیات کا انتخاب کیا ہے اور یہی آیات بحث و تمحیص اور وضاحت کی محتاج ہیں اور انہی پر بحث سے حق آشکار ہو جائےگا باقی آیات کا نسخ نہ ہونا اتنا واضح ہے کہ محتاج بیان و قابل استدلال نہیں۔

نسخ کا لغوی معنی

لغت میں نسخ ایک جگہ لکھی ہوئی بات کو نقل کر کے دوسری جگہ لکھنے اور اتارنے کو کہا جاتا ہے چنانچہ ''استنساخ،، اور ''انتساخ،، بھی اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں اس کے علاوہ یہ نقل و انتقال اور تبدیلی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ''تناسخ المواریث و الدھور،، (یعنی) ''ثروت و دولت اور زمانہ تبدیل ہوئے،،۔

نسخ کاایک معنی ازالہ اور برطرف کرنابھی ہے ''نسخت الشمس اظل ،، ''(یعنی،، سورج نے سائے کو زائل کر دیا،، میں ''نسخت،، اسی معنی میں استعمال ہوا ہے صحابہ کرام اور تابعین نے نسخ کو اس معنی میں کثرت سے ا ستعمال کیا ہے چنانچہ صحابہ اور تابعین مخصص و مقید کوناسخ ہی کہتے تھے(۱)

____________________

(۱) ابن عباس کی طرف منسوب تفسیر میں تحصیص پر کثرت سے نسخ کا اطلاق ہوا ہے۔

۳۴۶

نسخ کا اصطلاحی معنی

اصطلاح میں نسخ کسی ثابت امرشرعی کو اس کی مدت ختم ہونے کی وجہ سے اٹھانے کو کہتے ہیںچاہے وہ برطرف حکم کوئی حکم تکلیفی ہو جیسے وجوب ، حرمت وغیرہ میں یا حکم وضعی ہو جیسے صحیح ہوناباطل ہونا وغیرہ ہے اور چاہے وہ برطرف شدہ امر ، الٰہی منصب اور عہدوں میںسے ہو یا کوئی اور چیز ہو ، جس کی بازگشت بہ حیثیت شارع اللہ تعالیٰ کی طرف ہو ، جس کی مثال نسخ فی التلاوۃ ہے۔

ہم نے نسخ کی تعریف میں امر کے ساتھ ثابت کی قید کا اضافہ اس لئے کیا ہے تاکہ نسخ کی یہ تعریف اس حکم کے برطرف ہونے کو شامل نہ ہو جو خارج میں اپنے موضوع کے ختم ہو جانے کے باعث زائل ہو جائے جیسے ماہ رمضان ختم ہونے کے ساتھ ہی روزے کاوجوب بھی ختم ہو جاتا ہے اسی طرح نماز کا وقت نکلنے کے بعد نماز کاوجوب بھی ختم ہو جاتاہے اور کسی مال کامالک مر جانے سے اس کی مالکیت (مال کا مالک ہونا) بھی ختم ہو جاتی ہے ان تمام مثالوں میں حکم زائل تو ہو جاتا ہے مگر نسخ نہیں کہلاتا کیونکہ ان تمام مثالوں میں حکم نہیں بلکہ موضوع حکم برطرف ہو گیاہے موضوع کے ختم ہو جانے کی وجہ سے حکم برطرف ہوناممکن ہے ایسا ع ملی طورپر بھی ہوا ہے اور اس میں کسی کو کوئی اعتراض و اشکال نہیں ہے۔

ہم ذیل میں نسخ واقعی کی وضاحت کرتے ہیں:

(۱) پہلا مرحلہ تشریع اور قانون سازی کا ہوتا ہے اس مرحلے میں حکم بطور قضیہ حقیقیہ ثابت ہوتا ہے یعنی اس مرحلہ میں حکم ثابت ہو جاتا ہے چاہے خارج میں فی الحال کوئی موضوع (جس کیلئے حکم ثابت ہو) موجودہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کا دار و مدار ایک فرضی موضوع ہوا کرتا ہے۔

۳۴۷

مثلاً جب شارع مقدس فرمائے : ''شرب الخمر حرام،، (یعنی) مے نوشی حرام ہے،، اس حکم کا مطلب یہ نہیں کہ ابھی اسی وقت خارج میں (ہمارے سامنے) کوئی شراب موجود ہے جس پر حرمت کا حکم لگایا گیا ہے بلکہ اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی خارج (دنیا) میں کوئی شراب ہو گی شریعت میں اس کیلئے حکم ، حرام ہونے کا ہے چاہے فی الحال خارج میں کوئی شراب موجود ہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کو صرف نسخ کے ذریعے برطرف کیا جا سکتا ہے۔

(۲) دوسرا مرحلہ اس حکم کا خارج میں موجود ہوتا ہے بایں معنی کہ موضوع حکم فی الحال خارج میں موجود ہے اور حکم بھی متحقق ہے۔

مثال کے طورپر خارج میں (سامن) شراب موجود ہے اور شریعت میں مقرر شدہ حکم حرمت اس شراب کیلئے ثابت ہے جب تک موضوع موجود رہں گا حکم بھی رہے گا اگر کسی وقت شراب سرکہ میں تبدیل ہو جائے تو بلا شک شراب ہونے کی حالت میں موجود حکم اب برطرف ہو جائے گا مگر یہ نسخ نہیں کہلائے گا اس کے جواز بلکہ خارج میں واقع ہونے میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں اختلاف صرف پہلے مرحلے کے بارے میں ہے کہ آیا عالم تشریع (قانون سازی کے مرحلے) میں کسی حکم کو برطرف کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟

نسخ کاامکان

عقلاء مسلمین میں مشہور یہی ہے کہ زیر بحث نسخ (عالم تشریع میں کسی حکم کو برطرف کرنا) جائز ہے یہود و نصاریٰ نے اس کی مخالفت کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ نسخ محال ہے ان کا مسند و مدرک ایک شبہ (غلط فہمی) ہے جو تارعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور اور ضعیف ہے۔

۳۴۸

خلاصہ شبہ:

احکام کو نسخ کرنے سے یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کے کام حکمت و مصلحت پر مبنی نہ ہوں یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کسی بھی حکم کی حکمت اور مصلحت سے آگاہ نہ ہو یہ دونوں امور محال ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ جو حکیم مطلق ہے ، جو حکم بھی مقرر فرمائے کسی نہ کسی مصلحت کی بناء پر مقرر ہوتا ہے جو اس حکم کی متقاضی ہوتی ہے کیونکہ بے مصلحت حکم اس کے بنانے والے کی حکمت سے سازگار نہیں۔

ایسے فرض میں حکم کو اٹھاتے وقت یا تو اس حکم کی مصلحت و حکمت باقی ہو گی اور نسخ کرنے والا اس کا علم رکھتا ہو گا تو یہ حکم بنانے والے ، جو حکیم مطلق ہے، کی حکمت کیخلاف ہے ، یا بعد میں انکشاف ہوا ہوگا کہ یہ حکم شروع سے مصلحت پر مبنی نہ تھا ، جیسے عام عرفی قوانین کے بارے میں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس میں مصلحت نہیںتھی اس سے جہل خدالازم آتا ہے ، جو محال ہے معلوم ہوا نسخ محال ہے اس لئے کہ اس سے محال لازم آتا ہے (مستلزم المحال محال،، (یعنی) ''جس چیز سے محال لازم آئے وہ چیز محال ہوتی ہے،،۔

جواب:

بعض اوقات اللہ تعالیٰ کچھ کاموں کا حکم دیتا ہے اور بعض کاموں سے منع فرماتا ہے لیکن خالق کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جس کا حکم دیا ہے وہ ضرور انجام پائے اور جس کام سے منع کیا ہے وہ ضرور ترک ہو جائے بلکہ اس امرونہی کا مقصد بندوں کا امتحان ہوتا ہے اس قسم کے اوامرو نواہی شریعت میں موجود ہیںایسے احکامات صادر کئے جانے کے بعد دوبارہ برطرف کئے جا سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

۳۴۹

اس قسم کے احکام صادر ہونے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اور پھر انہیں واپس لینے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اس قسم کے نسخ اور ازالہ حکم سے نہ کوئی خلاف حکمت بات لازم آتی ہے اور نہ اس کا منشاء بداء (پہلے معلوم نہ ہو اور بعد میں انکشاف ہو ) ہے جو خدا کے لئے محال ہے۔

اور کبھی شارع کی طرف سے مقرر کردہ حکم حقیقی ہوتا ہے (بایں معنی کہ جس کام کو حکم دیا جائے اس کا بجا لانا اور جس کام سے روکا جائے اس کا ترک کرنا ضروری ہوتا ہے) اس کے باوجود ایک مدت کے بعد اس حقیقی حکم کو برطرف کیا جاتا ہے لیکن اس معنی میں نہیں کہ ایک حکم ، واقع اور علم خدا میں دائمی طور پر ثابت ہو مگر کسی خاص مصلحت یا اس حکم میں کسی خامی کے انکشاف کی بناء پر اسے نسخ اور برطرف کیا گیا ہو جس سے حکیم اور واقعیات و حقائق کی عالم ذات کے حق میں محال لازم آئے۔

بلکہ نسخ کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ یہ مقرر کردہ حکم ، عنداللہ کسی خاص مدت اور زمانے تک محدود ہوتا ہے اور عام لوگوں کو اس محدود وقت کا علم نہیں ہوتا اور جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو حکم بھی خود بخود زائل ہو جاتا ہے۔

اس معنی میں نسخ یقیناً ممکن ہے اور اس پر کسی قسم کا اشکال لازم نہیں آتا کیونکہ زمانہ اور وقت کی خصوصیات ، جن پر حکم کا دار و مدار ہو ، احکام میں دخیل ہوا کرتی ہیں جس میں کسی عاقل کوشک نہیں۔

مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں ہفتہ کا دن خصوصیت رکھتا تھا جس کی وجہ سے روز ہفتہ اس شریعت کے ماننے والوں کیلئے عید قرار پایا اور باقی ایمام ہفتہ میں کسی یوم میں ایسی خصوصیت نہیں تھی یہی حیثیت اسلام میں جمعتہ المبارک کو حاصل ہے اسی طرح نماز ، روزے اور حج کے مخصوص اوقات کی بھی کچھ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے مقررہ اوقات میں یہ فرض قرار دیئے گئے ہیں۔

۳۵۰

جب شریعت کے کسی حکم (قانون) کے بنانے اور نہ بنانے میں زمانہ اور وقت کا دخل قابل تصور ہے تو کسی حکم کے دائمی رہنے اور نہ رہنے میں بھی وقت کا دخل قابل تصور ہونا چاہئے ! بنا برایں عین ممکن ہے کہ ایک حکم ، ایک معین مدت کیلئے مصلحت پر مشتمل ہو لیکن اس مدت کے گزر جانے کے بعد وہ مصلحت ختم ہو جائے اسی طرح اسی کے برعکس بھی ممکن ہے یعنی ممکن ہے کہ ایک محدود زمانے میں مصلحت نہ ہو اس محدود مدت کے گزرنے کے بعد مصلحت پیدا ہو جائے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب کوئی مخصوص گھڑی ، دن ہفتہ اور مہینہ کسی فعل کے بامصلحت اور نقصان دہ ہونے میں اثر انداز ہو سکتا ہے تو سال اور برس بھی اثر انداز اور دخیل ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک حکم چند محدود برس تک باصلحت رہے گا اور ان برسوں کے گزر جانے کے بعد اس فعل اور حکم میں وہ مصلحت نہ رہے گی جس طرح کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے علاوہ کسی دوسری جداگانہ دلیل کے ذریعے مقید کیا جا سکتا ہے اسی طرح عین ممکن ہے کہ کسی جداگانہ دلیل کے ذریعے زمانے کے اعتبار سے بھی کسی مطلق حکم کو مقید کیا جائے کیونکہ بعض اوقات مصلحت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ حکم کو ظاہری طور پر عام اور مطلق چھوڑا جائے (ظاہراً کسی لفظ کے ذریعے عام کی تخصیص اور مطلق کی تقیید نہ کی جائے) جبکہ درحقیقت خاص اور مقید ہی مراد ہوتے ہیں اور مخصص و مقید کو کسی جداگانہ دلیل کی صورت میں بعد میں بیان کیا جاتا ہے۔

معلوم ہوا اور حقیقت نسخ ، کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے اعتبار سے مقید کرنے کا نام ہے جس سے حکمت کی مخالفت لازم آتی ہے اور نہ بداء لازم آتا ہے جو خدا کیلئے محال ہیں۔

یہ تمام بحث اس مذہب کی بنیادپر ہوئی جس کے مطابق قانون سازی ، اعمال میں مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتی ہے لیکن اگر اس مذہب کی رو سے دیکھا جائے جس کے مطابق احکام ، اپنے اندر موجود مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتے ہیں تو پھر تمام احکام ان احکام کی مانند ہوں گے جو درحقیقت امر حقیقی (جن کا امتشال مطلوب ہو) نہیں ہوتے بلکہ صرف امتحان کیلئے صادر ہوتے ہیں ان کا صادر ہونا مصلحت سے خالی نہیں اور ان کا نسخ ہونابھی مصلحت سے خالی نہیں۔

۳۵۱

تورات میں نسخ

یہود و نصاریٰ شریعت میں نسخ کو محال قرار دے کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شریعت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام احکام آج تک باقی اور ثابت ہیں اور منسوخ نہیں ہوئے لیکن گزشتہ مباحث سے یہ ثابت ہو گیا کہ نسخ محال نہیں ہے نیز تورات اور انجیل میں بھی کئی مقامات پر نسخ واقع ہوا ہے ہم ذیل میں نمونہ کے طورپر عہد نامہ قدیم و جدیدسے نسخ کے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جن سے اندازہ ہو جائے گا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے مذہب کی حقانیت پر جو دلیل پیش کی ہے وہ کتنی کمزور ہے۔

۱۔ کتاب مقدس ، عہد نامہ قدیم و جدید ، سفر گنتی کے باب : ۴ شمارہ ۲۔۳ میں ہے:

''اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا : بنی لاوی میں سے قہانیوں کو ان کے گھرانوں اور آبائی خاندانوں کے مطابق تیس برس سے لے کرپچاس برس تک جتنے خیمہ اجتماع میں کام کرنے کیلئے مقدس کی خدمت میں شامل ہیں ان سب کو گنو،،

یہ حکم نسخ کر دیا گیا اور قبول خدمت کی عمر پچیس سال قرار دی گئی چنانچہ اسی سفر کے باب: ۸ ، شمارہ :۲۳ اور ۲۴ میں ہے:

''پھر خدا نے موسیٰ سے کہا : لاویوں کے متعلق جو بات ہے وہ یہ ہے کہ پچیس برس سے لے کر اس سے اوپر اوپر کی عمر میں وہ خیمہ اجتماع کی خدمت کے کام کیلئے اندر حاضر ہوا کریں،،۔

اس کے بعد یہ حکم بھی نسخ ہو گیا اور قبول خدمت کی عمر گھٹا کر بیس سال کر دی گئی چنانچہ تاب مقدس کے (عنوان) تواریخ ایک کے شمار ۲۳۔۲۴ میں ہے:

''لاوی کے بیٹے یہی تھے جو اپنے اپنے آبائی خاندان کے مطابق تھے ان کے آبائی خاندان کے سردار جیسا وہ نام بنام ایک ایک کر کے گنے گئے یہی ہیں وہ بیس برس اور اس سے اوپر کی عمر سے خداوند کے گھر کی خدمت کا کام کرتے تھے اور خدا کے گھر کی خدمت کو انجام دینے کیلئے خیمہ اجتماع کی حفاظت اور مقدس کی نگرانی اور اپنے بھائی نبی ہارون کی اطاعت کریں،،

۳۵۲

۲۔ سفر گنتی کے باب: ۲۸ شمارہ : ۳ اور ۷ میں ہے:

''تو ان سے کہہ دے جو آتشین قربانی تم کو خدا کے حضور پیش کرنا ہے کہ دو بے عیب یکسالہ برے (بھیڑیں) ہر روز دائمی سوختی قربانی کیلئے چڑھایا کرو۔ ایک برہ (بھیڑ) صبح اور دوسرا برہ (بھیڑ) شام کو چڑھانا اور ساتھ ہی ایک ایفہ کے دسویں حصہ کے برابر میدہ جس میں کوٹ کر نکالا ہوا تیل چوتھائی ھین کے برابر ملا ہو ، نذر کی قربانی کے طور پر گزراننا اور ھین کی چوتھائی کے برابر مے فی برہ تپاون کیلئے لانا،،

یہ حکم منسوخ ہو گیا اور ہر صبح کی آتشین قربانی روزانہ ایک سالہ بھیڑ قرار دی گئی اور ایفہ کے چھٹے حصہ کے برابر میدہ اور ایک تہائی ھین کے برابر تیل پیش کرنا ضروری قرار دیا گیا چنانچہ حزقیل کے باب ۴۶ شمارہ ۱۳۔۵ۃ میں ہے:

''تو ہر روز خداوند کے حضور پہلے سال کاا یک بے عیب برہ (بھیڑ)سوختنی قربانی کیلئے ہر صبح کو چڑھائے گا اور تو اس کے ساتھ ہر صبح نذر کی ربانی گزرانے گا یعنی ایفہ کا چھٹہ حصہ اور میدہ کے ساتھ ملانے کو تیل کے ھین کی ایک تہائی دائمی حکم کے مطابق ہمیشہ کیلئے خداوند کے حضور یہ نذر کی قربانی ہو گی اسی طرح وہ برے (بھیڑیں) اور نذر کی قربانی اور تیل ہر صبح ہمیشہ کی سوختنی قربانی کیلئے چڑھائیں گے،،۔

۳۔ سفر گنتی کے باب ۲۸: شمارہ :۹ اور ۱۰ میں ہے:

''اور شنبہ کے روز دو بے عیب نر بھیڑ اور نذر کی قربانی کے طورپر ایفہ کے پانچویں حصے کے برابر میدہ جس میں تیل ملا ہوا ہو تپاون کے ساتھ گزراننا دائمی سوختنی قربانی اور اس کے تپاون کے علاوہ یہ ہر شنبہ کی سوختنی قربانی ہے،،۔

یہ حکم نسوخ ہو گیا چنانچہ حزقیل باب : ۴۶ شمارہ : ۴۔۵ میں نسخ کے بعد کا حکم یوں مذکور ہے: ''اور سوختنی قربانی جو فرمانروا شنبہ کے دن گزراننے گا یہ ہے : چھ بے عیب بھیڑ اور ایک بے عیب مینڈھا اور نذر کی قربانی مینڈھے کیلئے ایک ایفہ اور بھیڑوں کیلئے نذر کی قربانی اس کی توفیق کے مطابق اور ایک ایفہ کیلئے ایک ھین تیل،،

۳۵۳

۴۔ کتاب مقدس سفر گنتی کے باب : ۳۰ شمارہ ۲ میں ہے:

''جب کوئی مرد خدا کی منت مانے یا قسم کھا کر اپنے اوپر کوئی خاص فرض ٹھہرا دے تو وہ اپنے عہد کو نہ توڑے بلکہ جو کچھ اس کے منہ سے نکلا ہے اسے پورا کرے،،۔

تورات میں ثابت یہی حکم (قسم کا جواز) منسوخ ہو گیا چنانچہ متیٰ کی انجیل باب : ۵ شمارہ : ۳۳۔۳۴ میں ہے: ''نیز تم نے یہ سنا ہے کہ گزشتوں سے کہا گیا تھا قسم کی مخالفت نہ کرو بلکہ اپنے رب کی قسم پورا کرو۔ لیکن میں یہ کہوں گا قسم ہرگز نہ کھاؤ،،۔

۵۔ کتاب مقدس کے سفر خروج باب : ۲۱ شمارہ : ۲۳۔۲۵ میں ہے:

''لیکن اگر نقصان ہو جائے تو جان کے بدلے جان لے او رآنکھ کے بدلے آنکھ دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ پاؤں کے بدلے پاؤں جلانے کے بدلے جلانا زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ،،

یہ حکم قصاص شریعت حضرت عیسیٰ (ع) میں منسوخ ہو گیا چنانچہ انجیل متیٰ کے باب : ۵ شمارہ ۳۸ میں ہے:

''تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے میں آنکھ دانت کے بدلے میں دانت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جوتیرے دائیں رخسارپر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے،،۔

۶۔ کتاب مقدس سفر پیدائش باب : ۱۷ شمارہ ۱۰ میں حضرت ابراہیم (ع) سے خدا کا خطاب ہے: '' اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزمذ نرینہ ختنہ کیا جائے،،

حضرت موسیٰ (ع) کی شریعت نے بھی اس حکم کی تائید کر دی۔ چنانچہ سفر خروج کے باب ۱۲ کے شمارہ : ۴۸۔۴۹ میں ہے:

۳۵۴

''اور اگر کوئی اجنبی تیرے ساتھ مقیم ہو اورخداوند کی فسح کو ماننا چاہتا ہو تو اس کے ہاں کے سب مرد اپنا ختنہ کرائیں تب وہ پاس آ کر فسح کرے یوں وہ ایسا سمجھا جائے گا گویا اسی ملک کی اس کی پیدائش ہے پر کوئی نامختون آدمی اسے کھانے نہ پائے وطنی اور اس اجنبی کیلئے جو تمہارے درمیان موجود ہو ایک ہی شریعت ہو گی،،۔

نیز کتاب مقدس کے سفر اخبار کے باب : ۱۲ شمارہ ۲ اور ۳ میں موجود ہے:

''خداوند نے موسیٰ سے کہا: بنی اسرائیل سے کہو اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو وہ سات دن ناپاک رہے گی جیسے حیض کے ایام میں رہتی ہے آٹھویں دن لڑکے کا ختنہ کیا جائے،،۔

یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا اور حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت عیسیٰ (ع) کی امت سے ختنہ کا فریضہ اٹھا لیا گیا چنانچہ کتاب مقدس ، عہد نامہ جدید کے عنوان ''رسولوں کے اعمال،، کے باب : ۱۵ شمارہ : ۲۴۔۳۰ اور پولس کے بعض خطوط میں نسخ کا یہ حکم موجود ہے۔

۷۔ کتاب مقدس کے سفر استثنا باب : ۲۴ شمارہ:۱۔۳ میں ہے:

''اگر کوئی مرد کسی عورت سے بیاہ کرے اور بعد میں اس میں کوئی ایسی بیہودہ بات پائے جس سے اس عورت کی طرف اس کی التفات نہ رہے تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کراس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے اور جب اس کے گھر سے نکل جائے تو وہ دوسرے مرد کی ہو سکتی ہے لیکن اگر دوسراشوہر بھی اس سے ناخوش رہے اور اس کا طلاق نامہ لکھ کر اس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے یا وہ دوسرا شوہر جس نے اس سے بیاہ کیا ہو مر جائے تو اس کا پہلا شوہر جس نے اسے نکال دیا تھا اس عورت کے ناپاک ہونے کے بعد یہ مرد اس سے بیاہ نہ کرنے پائے،،۔

۳۵۵

انجیل نے اس حکم کو منسوخ کر دیا اور طلاق کو حرام قرار دیا ہے چنانچہ انجیل متیٰ کے باب: ۵۰ شمارہ : ۳۱۔۳۲ میں لکھا ہے:

''یہ بھی کہاگیا تھا کہ جو کوئی بیوی کو چھوڑے اسے طلاق نامہ لکھ دے لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے وہ اس سے زنا کراتا ہے اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے،،(۱)

مرقس کے باب : ۱۰ شمارہ : ۱۱۔۱۲ اور لوقا کے باب : ۱۶ شمارہ :۱۸ میں بھی اس قسم کا حکم موجود ہے۔ عہد نامہ قدیم و جدید سے نسخ کے جو موارد بیان کئے گئے وہ اہل انصاف اور حقیقت بین حضرات کیلئے کافی ہیں ۔ جو حضرات نسخ کے مزید مقامات سے آگاہ ہونا چاہیں وہ کتاب ''اظہار الحق،، (۲) اور ''الہدیٰ الیٰ دین المصطفےٰ (۳)،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

____________________

(۱) کتاب مقدس کے اقتباسات کا اردوترجمہ ، پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور کے شائع کردہ اردو ترجمہ سے لیا گیا ہے (مترجم)

(۲) مولف کتاب: شیخ رحمتہ اللہ ابن خلیل الرحمن الہندی ، یہ انتہائی مفید اور جلیل کتاب ہے۔

(۳) مولف : امام البلاغی ۔

۳۵۶

شریعت اسلام میں نسخ

نسخ کے واقع ہونے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کیونکہ گزشتہ شریعتوں کے بہت سے احکام ، شریعت اسلام کے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے اور شریعت اسلام ہی کے کچھ احکام شریعت اسلام کے چند دوسرے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے ہیں چنانچہ قرآن مجید اس بات کی تصریح کر رہا ہے کہ نماز میں قبلہ اول (بیت المقدس) کی طرف رخ کرنے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا قربان کے کچھ احکام ، قرآن یا سنت قطعیہ (خبر متواترہ وغیرہ)یا اجماع یا عقل کی وجہ سے نسخ ہو سکتے ہیں؟

بہتر ہے اس پہلو سے نسخ کی بحث شروع کرنے سے پہلے ہم نسخ کی قسمیں بیان کر دیں۔ علماء کرام نے نسخ قرآن کی تین قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔ تلاوت نسخ ہو حکم باقی رہے(۱)

علمائے کرام نے اس ضمن میں مثال کے لئے آیت رحم کو پیش کیا ہے اور فرمایا ہے کہ آیت رحم فی الحال قرآن میں موجود نہیں (نسخ ہو گئی ہے) لیکن اس آیت میں موجود حکم باقی ہے۔

ہم تحریف کی بحث میں ثابت کر چکے ہیں کہ نسخ تلاوت کا قائل ہونا بعینہ تحریف کا قائل ہونے کے مترادف ہے اور جو روایات نسخ تلاوت پر دلالت کرتی ہیں وہ سب کی سب احادہیں اس قسم کی مباحث میں خبر واحد کے ذریعے مدعا ثابت نہیں ہو سکتا۔

____________________

(۱) یعنی حکم باقی رہے اور صرف تلاوت منسوخ ہو۔

۳۵۷

تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جس طرح خبر واحد سے قرآن ثابت نہیں ہو سکتا اسی طرح خبر واحد سے نسخ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ اجتماع کے ساتھ ساتھ ایک عہدہ اور اہم دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی اہم واقعہ جو رونما ہونے کے بعد (اگر درحقیقت ثابت ہو) عام طور پر لوگوں میں شائع اور مشہور ہو جاتا ہے وہ خبر واحد کے ذریعے ثابت نہیں ہوتا اس قسم کے واقعہ کو بعض راویوں کا نقل کرنا اور بعض راویوں کا نقل نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے نقل کیا ہے اس نے یا تو جھوٹ بولا ہے یا اسے غلط فہمی ہوئی ہے بنا برایں خبر واحد کے ذریعے یہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے کہ آیت رجم قرآن کا حصہ ہو اور پھر منسوخ ہو گئی ہو اور یہ کہ اس کی صرف تلاوت نسخ ہوئی ہو اور اس کا حکم باقی رہے۔

ہاں! گزشتہ مباحث میں یہ بات ضرور نقل کی گئی ہے کہ جمع قرآن کے موقع پر حضرت عمرآیت رجم لے کر آئے اور انہوںنے یہ دعویٰ کیا کہ یہ بھی قرآن کا حصہ ہے لیکن مسلمانوں نے ان کے اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس آیت کو نقل کرنے والے صرف حضرت عمر تھے چنانچہ مسلمانوں نے آیت رجم کو قرآن میں شامل نہیں کیا یہاں سے متاخرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آیہ رجم کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے لیکن اس کا حکم باقی ہے۔

۲۔ تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوں

تلاوت اور حکم دونوں میں نسخ کی مثال کیلئے تحریف کی بحث میں مذکور دسویں روایت کو پیش کیا گیا ہے جس کو حضرت عائشہ نے نقل کیا ہے:

اس دلیل کا جواب وہی ہے جو نسخ تلاوت کی دلیل کا تھا۔

۳۵۸

۳۔ حکم منسوخ ہو۔ تلاوت باقی رہے۔

نسخ کی یہی قسم علماء اور مفسرین میں مشہور ہے اس کے بارے میں ئی علمائے کرام نے مستقل کتب لکھی ہیں اور ان میں ناسخ اور منسوخ کو ذکر کیا ہے ان علماء میں ممتاز عالم ابو جعفر نحاس اورحافظ المظفر الفارسی قابل ذکر ہیں۔

بعض محققین اس رائے کے مخالف ہیں اور انہوں نے قرآن میں کسی منسوخ آیت کے موجود ہونے کا انکار کیا ہے البتہ اس نسخ کے امکان پر سب کا اتفاق ہے اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ قرآن میں کچھ آیات ایسی ہیں جو گزشتہ شریعتوں کے احکام کی ناسخ ہیں اور بعض آیات کے ذریعے صدر اسلام کے کچھ احکام منسوخ ہو گئے ہیں ہم ذیل میں اس مسئلے میں صحیح رائے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں موجود حکم تین طریقوں سے نسخ ہو سکتا ہے۔

۱۔ قرآن میں موجود حکم سنت متواترہ یا اس اجماع قطعی کے ذریعے نسخ کیا جائے جو اس بات کا انکشاف کرے کہ نسخ معصوم (ع) کی طرف سے ہوا ہے نسخ کی اس قسم پر عقلاً اور نقلاً کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اگر کسی آیت کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ اجماع یا سنت متواترہ کے ذریعے یہ نسخ ہو گئی ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا ورنہ نسخ کا التزام نہیں کیا جائے گاکیونکہ یہ مسلم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

۲۔ قرآن میں کوئی ثابت حکم قرآن ہی کی دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو جس کی نظر اس آیہ منسوخہ پر نہ ہو اور اس کے حکم کے برطرف ہونے کو بیان نہ کرتی ہو بلکہ صرف اس بنیدپر نسخ سمجھا جائے کہ ان دونوں آئتوں میں حکم کے اعتبار سے منافات پائی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا جائے کہ بعد والی آیت پہلی آیت کی ناسخ ہے۔

۳۵۹

تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن میں یہ نسخ و اقع نہیں ہوا اور کیسے اس قسم کے نسخ کو مانا جا سکتا ہے جبکہ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ) ۴:۸۲

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے اور (یہ نہیں خیال کرتے کہ) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا) ہوتا تو ضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے،،۔

مگر بہت سے مفسرین نے آیات قرآنی کے مفاہیم میں کما حقہ ، غور و خوض نہیں کیا اور یہ خیال کیا کہ قرآن کی بہت سی آیات میں منافات پائی جاتی ہے اور اسی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان دونوں (باہم منافی) آیات میں سے پہلی منسوخ اور دوسری ناسخ ہے بلکہ بعض حضرات نے ان دونوں آئتوں کو بھی ایک دوسرے کے منافی قرار دیا ہے جہاں دوسری آیت پہلی آیت کیلئے قرینہ عرفیہ بن رہی ہو(۱) جس طرح خاص عام کا اور مقید مطلق کا مقصد و مراد بیان کرتا ہے اس قسم کے شبہات یا نظریات کا منشا و سرچشمہ ، فکر و تدبر کا فقدان ہے یا نسخ کے لغوی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد و مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے سے پہلے ایسے معانی کو عام طور پر نسخ کہا جاتا ہے لیکن اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے کے بعداس کو نسخ کہنا یقیناً مجاز ہو گا جو چشم پوشی پر مبنی ہے۔

____________________

(۱) دوسری آیت پہلی آیت کا صحیح مقصد بیان کر رہی ہو(مترجم)

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ تینوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں کیونکہ ان آیات کی تصریح کے مطابق رسول اللہ (ص) کو اس صورت میں اجازت دینے سے روکا جا رہا ہے اور سرزنش کی جا رہی ہے جب سچے اور جھوٹے میں تمیز نہ کی جا سکے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہ فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن نہیں لائے ، وہ جنگ سے فرار ہونے کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور آپ (ص) سے جنگ میں نہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں نیز رسول اللہ (ص) کو حکم دیا ہے کہ اس وقت تک نہ جانے کی اجازت نہ دیں جب تک ان کی صحیح صورتحال معلوم نہ ہو جائے لیکناگر مسلمانوں کی صحیح صورتحال معلوم ہو جائے تو خدا نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے رسول اللہ (ص) سے اجازت لیں اور رسول اللہ (ص) کو بھی انہیں رخصت دینے کا مجاز قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا ان دونوں آیتوں میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کیلئے ناسخ بن سکے۔

۲۶۔( مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّـهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ) ۹:۱۲۰

''مدینہ کے رہنے والوں اور ان کے گردونواح کے دیہاتیوں کو یہ جائز نہ تھا کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا کا ساتھ چھوڑ دیں اور نہ یہ جائز تھا کہ رسول کی جان سے بے پرواہ ہو کر اپنی جانوں کے بچانے کی فکر کریں،،۔

ابن زید سے منقول ہے کہ یہ آیت اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱)

( وَمَا كَانَ الْمومنونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ ) ۹:۱۲۲

''اور یہ (بھی) مناسب نہیں کہ مومنین کل کے کل (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں،،۔

لیکن حق یہی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی کیونکہ دوسری آیت تک ایک قرینہ ہے جو آیہ اول سے متصل ہے اور یہ آیہ اول کا مطلب بیان کر رہی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۸۷ قرطبی نے اس قول کی نسبت مجاہد کی طرف بھی دی ہے ، ج ۸ ، ص ۳۹۲

۴۶۱

دونوں آیات کا مفہوم یہ ہے کہ بطور واجب کفائی صرف بعض مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ جنگ میں جائیں اس طرح دوسری آیت ، پہلی آیت کیلئے ناسخ نہیں بنے گی۔

ہاں ! اگر کسی خاص موقع پر کسی ضرورت کا یہ تقاضا ہو کہ تمام مسلمان جہاد کیلئے روانہ ہوں یا حاکم شرع سب کو جہاد پر جانے کا حکم دے یا کسی او وجہ سے سب کا جہاد پر جانا ضروری ہو جائے تو اس ضرورت کو پورا کریں یہ عمومی جہاد ، وہ جہاد نہیں جو اسلام میں بطور واجب کفائی مسلمانوں پر واجب ہے بلکہ یہ ایک جداگانہ حکم ہے جوب عض مخصوص حالات میں ثابت ہے یہ دونوں حکم اپنے طور پر مستقل ثابت ہیں اور ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے:

۲۷۔( وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ) ۱۰۔۱۰۹

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تمہارے پاس جو وحی بھیجی جاتی ہے تم بس اسی کی پیروی کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ خدا (تمہارے اور کافروں کے درمیان) فیصلہ فرمائے اور وہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے،،۔

ابن زید کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ جہاد (جس میں کفار پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱) گزشتہ آیات کے بارے میں ہمارے بیان سے اس آیت کے نسخ کا دعویٰ بھی باطل ثابت ہو جاتا ہے ان بیانات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آیت میں صبر سے مراد کفار کے مقابلے میں صبر ہو (یعنی ان سے جنگ نہ کی جائے) البتہ اس آیت میں مطلق صبر کا حکم دیا جا رہا ہے جو کفار کے مقابلے میں صبر کو بھی شامل ہے ۔

بنا برایں زیر بحث آیہ شریفہ میں نسخ کے دعویٰ کی کوئی وجہ نہیں۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۷۸

۴۶۲

۲۸۔( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ) ۱۵:۹۴

''اور قیامت یقیناً ضرور آنے والی ہے تو تم (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ان کافروں سے شائستہ عنوان کے ساتھ درگزر کرو،،۔

ابن عباس ، سعید اور قتادہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

لیکن یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ''صفح،، (چشم پوشی) سے مراد یہ ہے کہ آپ (ص) ان اذیتوں اور تکلیفوں سے درگزر کریں جو تبلیغ شریعت کی راہ میں مشرکین کی طرف سے دی جاتی تھیں اس آیت کا راہ خدا میں قتال وجہاد سے کوئی ربط و تعلق نہیں اس امر کی تائید بعد والی آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین) ۱۵:۹۴

پس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کر کے سنا دو اور مشرکین کی طر ف سے منہ پھیر لو،،۔

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ) : ۹۵

''جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کیلئے کافی ہیں،،۔

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں رسول اللہ (ص) کو اوامرالٰہی کی تبلیغ اور اسلام کے نشرو اشاعت کی تشویق و ترغیب دلائی ہے اور آپ (ص) کو تسلی دی ہے کہ اس سلسلے میں آپ (ص) مشرکین کی اذیت اور ان کے تمسخر کی پروا تک نہ کریں۔

یہ ایک جداگانہ حکم ہے اور اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ جب اسلام کی حجت مکمل ہو اور مسلمانوں کی کثرت سے تقویت حاصل ہو تو کفارسے جہاد کریں۔

۴۶۳

ہاں ! یہ بات مسلم ہے کہ رسول اللہ (ص) کو اسلام کے آغاز ہی میں قتال و جہاد کا حکم نہیں دیا گیا کیونکہ اس وقت معجزہ اور دوسرے غیر معمولی اقدامات کے علاوہ عام مادی وسائل و اسباب کے بل پر کفار سے جنگ کرنے کی قدرت حاصل نہ تھی لیکن جب قدرت حاصل ہوئی اور مسلمانوں میں اتنی طاقت اور کثرت آ گئی جس سے کفار کا مقابلہ کیا جا سکے تو آپ (ص) کو جہاد کا حکم دیا گیا۔ اس سے قبل بھی یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ احکام اسلام تدریجاً نافذ کئے گئے ہ یں جو نسخ نہیں کہلاتا۔

۲۹۔( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ ) ۱۶:۶۷

''اور اسی خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو ) شراب بنا لیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ)

قتادہ ، سعید بن جبیر ، شعبی ، مجاہد ، ابراہیم اور ابورزین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ باقی آیات کی طرح یہ آیت بھی محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

( i ) ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہو لیکن نسخ کے قائلین یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ آیت میں ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہے کیونکہ ''سکر،، کے معانی میں سے ایک معنی ''سرکہ،، بھی ہے چنانچہ مشہور مفسر علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں ''سکر،، کے اسی معنی (سرکہ) کا ذکر کیا ہے(۲) بنا برایں ''رزق حسن،، سے مراد سرکہ اور اس قسم کے دیگر لذیذ کھانے ہوں گے نشہ آور شراب نہیں تاکہ آیہ تحریم خمر کے ذریعے یہ آیت نسخ ہو جائے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۱۸۱

(۲) تفسیر برہان، ج ۱، ص ۵۷۷

۴۶۴

( ii ) آیہ کریمہ مسکر (نشہ آور چیز) کے مباح ہونے پر دلالت کرے تاکہ دوسری آیت ''مسکر،، کو حرام قرار دے اور پہلی آیت کیلئے ناسخ قرار پائے۔

لیکن نسخ کا قائل اس مطلب کو بھی ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ اس آیہ کریمہ میں ایسے کام اور واقعہ کی خبر دی جارہی ہے جسکو عام لوگ انجام دیتے تھے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس کام کی اجامت بھی دی ہو۔

یہ آیت، اس آیت کے بعد نازل ہوئی ہے جس میں کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی نشانیوں کے ذریعے خدائے واجب الوجود کو ثابت کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَاللَّـهُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ) ۱۶:۶۵

''اور خد ہی نے آسمان سے پانی برسایا تو اس کے ذریعہ سے زمین کو مردہ (پڑتی) ہونے کے بعد زندہ (شاداب) کیا کچھ شک نہیں کہ اس میں جو لوگ بستے، ان کے واسطے (قدرت خدا) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

( وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ ) : ۶۶

اور اس میں شک نہیں کہ چوپایوں میں بھی تمہارے لیے عبرت (کی بات) ہے کہ ان کے پیٹ میں (خاک ملا)گوبر اور خون (جو کچھ بھرا ہوا ہے) ا س میں سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔،،

( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) :۶۷

''اور اسی طرح خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو) شراب بنالیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ) اس میں شک نہیں کہ اس میں بھی سمجھ دار لوگوں کے لیے (قدرت خدا کی) بڑی نشانی ہے۔،،

۴۶۵

( وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ) :۶۸

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو اونچی اونچی ٹیٹاں (اور مکانات پاٹ کر) بناتے ہیں ان میں چھتّے بنا۔،،

( ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) : ۶۹

''پھر ہر طرح کے پھلوں (کے بورے سے) ان کا چوس پھر اپنے پروردگار کی راہوں میں تابعداری کے ساتھ چلی جا مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کی بیماریوں) کی شفا (بھی) ہے اس میں شک نہیں کہ اس میں غور و فکر کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

اس آیت میں منجملہ آثار قدثرت میں سے ایک یہ ہے کہ خدا نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کردیا۔ اس کے بعد حیوانات کی خلقت میں تدبیر خداوندی کا بیان ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور اور انگور میں وہ صلاحیت پیدا کی جس کے ذریعے لذیذ چیزوں سے نشہ آور اشیاء بنائی جاسکتی ہےں اور باقی پھلوں میں یہ امتیاز صرف کھجور اور انگور کو حاصل ہے۔

اس کے بعد شہد کی مکھی کے ان حیرت انگیز کارناموں کا ذکر فرمایاجنہیں سن اور دیکھ کر وہ صاحبان عقل دنگ رہ جاتے ہیں جو شہد بنانے کے طریقوں اور اس کی خصوصیات سے آگاہ ہوتے ہیں اور یہ کہ شہد کی مکھی یہ سب کچھ خدا کی وحی اور الہام کے ذریعے انجام دیتی ہے۔

۴۶۶

پس معلوم ہوا ہے کہ اس آیت میں مسکر کو مباح و حلال قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کے علاوہ اسی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ (بفرض تسلیم سکر سے مراد نشہ آور چیز بھی ہو تو) نشہ آور چیز کو پینا جائز نہیں اس لیے کہ نشہ آور چیز کو رزق حسن کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات ہوتا ہے کہ نشہ آور چیز کا شمار رزق حسن میں نہیں ہوتا اس لیے یہ مباح بھی نہیں ہوگا۔

اہل بیت اطہار (ع) کی روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ شراب نوشی کسی وقت اور زمانے میں حلال نہیں تھی۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی سند کے ذریعے محمد بن مسلم سے روایت کرتے ہیں:

''قال: سئل ابو عبد الله علیه السلام عن الخمر فقال: قال رسول الله ان اول ما نهانی عنه ربی عزوجل عبادة الاوثان و شرب الخمرٍ،،

''حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے شراب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: رسول اللہ نے فرمایا: پہلی چیز جس سے اللہ نے مجِھے منع فرمایا وہ بت پرستی اور شراب نوشی ہے۔۔۔،،

نیز ریان، امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا:

قال : ما بعث الله نبیّا الا بتحریم الخمر،، (۱)

''اللہ تعالٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اسے حرمت شراب کا حکم دے کر بھیجا۔،،

____________________

(۱)البحار، ج ۱۶، ص ۱۸۔۲۰، باب حرمۃ شرب الخمر۔ وافی، ج ۱۱، ص ۷۹ میں اس کے لیے ایک مستقل باب مخصوص کیا گیا ہے۔

۴۶۷

اعجاز کی بحث میں بھی گزر چکا ہے کہ شراب کو تورات میں بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔(۱) لیکن ایک حقیقت، جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ ہے کہ اسلام نے ایک عرصہ تک حرمت شراب کا اعلان نہیں کیا اور یہ بات صرف شراب سے مختص نہیں ہے، تمام احکامات پر اسی طریقے سے عمل کیا گیا ہے، ظاہر ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شراب پہلے حلال تھی اور بعد میں حرام قرار دی گئی۔

( الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمومنينَ ) ۲۴:۳

''زنا کرنے والا مرد تو زنا کرنے والی ہی عورت یا مشرکہ سے نکایح کرے گا اور زنیا کرنے والی عورت بھی بس زنیا کرنے والے ہی مرد یا مشرک سے نکاح کرے گی اور سچے ایمانداروں پر تو اس قسم کے تعلقات حرام ہیں۔،،

سعید بن مسیّب اور بہت سے دیگر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ ) ۲۴:۳۲

''اوراپنی (قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کردیا کرو۔،،

آیہ اوّل کے مطابق زانی عورت سے وہی نکاح کرسکتا ہے جو خود زانی یا مشرک ہو۔ جب کہ دوسری آیت کیمطابق مطلق بے ہمسر مسلمان سے نکاح جائز ہے چاہے وہ زانی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ ''ایامیٰ،، (بے ہمسر) دونوں کو شامل ہے۔ اس طرح دوسری آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ قرار پائے گی۔

لیکن حق یہی ہے کہ گذشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی نسخ نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو، اور کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں کہ اس آیت میں نکاح سے مراد شادی یا ازدواج ہے۔

____________________

) ۱) اسی کتاب کے صفحہ ۵۶ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۶۸

اس کے علاوہ اگر اس آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ زانی مسلمان کے لیے مشرک عورت سےشادی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازم آتا ہے کہ مسلمان زانی عورت کے لیے مشرک مرد سے شادی کرنا جائز ہے اور یہ بات ظاہر کتابِ الہی اور سیرتِ مسلمین کے خلاف ہے

بنابرایں آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح سے مراد مطلق ہمبستری ہے۔ چاہے جائز طریقے سے ہو یا زنا ہو۔ اس آیت میں جواز یا عدم جواز کا حکم بیان نہیں کیا جارہا بلکہ یہ ایک جملہ خبر یہ ہے۔ اس کے ذریعے حرمتِ زنا کی شدّت بیان کی جارہی ہے اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زانی مرد صرف زانی عورت یا اس سے بھی پست، مشرک عورت سے زنا کرتاہے اسی طرح زانی عورت بھی صرف کسی زانی مرد یا اس سے بھی پست مشرک مرد سے زنا کرتی ہے۔ مومن انسان کبھی بھی اس قسم کے گناہوں کا مرتکب نہیں ہوتا کیونکہ زنا ایک حرام فعل ہے اور وہ حرام فعل انجام نہیں دیتا۔

( قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّـهِ ) ۴۵:۱۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) مومنوں سے کہدو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو جزا کے لیے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں۔،،

بعض مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اس آیت کا شان نزول یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مکی ہے اور یہ اس وقت نازل ہوئی جب ہجرت سے قبل مکّہ میں حضرت عمر بن خطاب کو کسی مشرک نے گالی دی اور اور ان کی توہین کی اور حضرت عمر اسے سزا دینا چاہتے تھے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ ایت نازل فرمائی۔ لیکن بعد میں آیت، اس آیہ سیف کے ذریعے منسوخ ہوگئی:

( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامّل) قتل کردو۔،،

۴۶۹

یہ حضرات اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر اس روایت کو پیش کرتے ہیں جس کی روایت علیل بن احمد نے محمد بن ہاشم سے، اس نے عاصم بن سلیمان سے، اس نے جویبر سے اس نے ضحاک سے او ضحاک نے ابن عباس سے کی ہے۔(۱)

لیکن یہ روایت ہے بہت ضعیف ہے، اس کا سب سے معمولی اور کمزور پہلو یہ ہے کہ اس کے سلسلہئ سند میں عاصم بن سلیمان شامل ہے جو بہت بڑا جھوٹا اور جعل ساز راوی ہے۔(۲) اس کے علاوہ یہ روایت متن کے اعتبار سے

بھی کمزور اور ناقابل عمل ہے۔ کیونکہ ہجرت سے پہلے مسلمان کمزور تھے اورایسے حالات میں حضرت عمر کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس مشرک سے انتقال لیتے۔ نیز اس روایت میں لفظ ''غفران،، استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ایسے مقام ہر استعمال کیاجاتا ہے جہاں کوئی انتقال لینے پر قادر ہو لیکن چشم پوشی اور درگزر کرے اور یہ مسلّم ہے کہ ہجرت سے قبل حضرت عمر کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے کہ اگر حضرت عمر انتقام لیتے تو مشرک بھی جوابی کارروائی کرتا۔

پس حق یہی ہے کہ یہ آیت محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) آیہ شریفہ کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کی امید نہیں رکھتے ان کی طرف سے اگر تمہیں ذاتی طور پر کوئی اذیت پہنچے اور تمہاری توہین کی جائے تو تمہیں اسے درگزرکردینا چاہیے، اس حقیقت پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:

( لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ) ۴۵:۱۴

''تاکہ وہ لوگوں کے اعمال کا بدلہ دے۔،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۱۸

(۲) اس کے بارے میں ابن عدی کا کہنا ہے کہ یہ شخص من گھڑت احادیث وضع کرنے والوں میں سے ایک ہے، اور یہ کہ اس کی اکثر احادیث متن اور سند کے اعتبار سے متزلزل ہیں۔

۴۷۰

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۖ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ) : ۱۵

''جو شخص نیک کام کرتا ہے تو خاص اپنے لیے اور برا کام کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا پھر (آخر) تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹا ئے جاؤگے۔،،

پس اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو آدمی روز آخرت کا امیدوار نہیں، چاہے وہ مشرک، اہل کتاب یا مسلمان ہو، جو اپنے دین کا صحیح پابند نہی، اس کے بُرے اعمال اور زیادتیوں کی سزا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی ظالم، ظلم کرکے خدا سے بچ نہیں سکتا لہذا مسلمان اور مومن کو چاہےے کہ وہ ظالموں سے انتقام لینے میں جلد بازی نہ کرے، اس لیے کہ خدا کا انتقام، مظلوم کے انتقام سے زیادہ سخت ہے، یہ ایک اخلاقی اور تادیبی حکم ہے اور یہ دعوتِ اسلام یا کسی اور ضرورت کی خاطر کفار سے قتال و جہاد کے منافی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔

( فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً ) ۴۷:۴

'' تو جب تم کافروں سے بھڑو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں زحموں سے چور کر ڈالو تو ان کی مشکیں کس لو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا یا معاوضہ لے کر رہا کرنا۔

علماء کی ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اور بعض کا خیال ہے کہ آیہ سیف، اس آیت کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ آیت ناسخ ہے اور نہ منسوخ۔ البتہ اس مسئلے کی تحقیق مزید تفیصل کی متقاضی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۲۰۔

۴۷۱

مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

شیعہ امامیہ میں یہ حکم مشہور ہے کہ مسلمانوں سے برسرپیکار کفار جب تک اسلام نہ لے آئیں، مکمل شکست سے دوچار نہ ہوجائیں اور زیادہ تعداد میں مارے جانے کی وجہ سے عاجز نہ آجائیں، وہ واجب القتل ہیں۔ صرف اسیری کی وجہ سے کافر کا قتل ساقط نہیں ہوتا۔ اگر کافر مسلمان ہوجائے تو قتل کا موضوع ہی برطرف ہوجاتا ہے کیونکہ موضوع قتل، کفر ہے۔

اسی طرح کفار کی مکمل شکست کے بعد ان کا قتل ساقط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ آیت میں اس موقت تک کفار کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک انہیں شکست نہ ہوجائے البتہ قتل کے ساقط ہو نے کے بعد حاکم شرع کو اختیار ہے کہ چاہے تو پکڑے جانے والے کافروں کو اسیر بنائے یا ان سے فدیہ و تاوان وصول کرے یا ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں بلاعوض آزاد کردے اس حکم میں بت پرست ،مشرک اور اہل کتاب شریک ہیں۔

ان احکام پر علماء کے اجماع و اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے اور بہت شاذ و نادر افراد نے ان احکام کی مخالفت کی ہے ار ان کی رائے بھی قابل توجہ نہیں۔ چناچنہ آئندہ بحثوں میں اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

اگر ''شد الوثاق،، سے مراد غلام بنانا ہو تو آیہ کریمہ کے ظہور سے بھی یہی احکام سمجھے جاتے ہیں، جن کا ذکر کیا گیا ہے '' شد الوثاق،، سے غلام بنانے کا معنی اس لیے سمجھا گیا ہے کہ ''شدّ الوثاق،، کا معنی ہے: کسی کی آزادی کا سلب کرنا، جب تک اسے بلاعوض یا عوض لے کر آزاد نہ کیا جائے اور یہ معنی غلام بنانے سے زیادہ سازگار ہے۔

اگر ''شدّ الوثاق،، کا معنی غلام بنانا نہ ہو پھر بھی کافر سے فدیہ لینے اور اس پر احسان کرتے ہوئے اسے ازاد کرنے کے ساتھ، اسے غلام بنانے کا بھی حکم موجود ہے، کیونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ کافر کو غلام بناناجائز ہے۔ اس دلیل کے ذریعے آیت کے اطلاق کی تقیید ہوگی۔

۴۷۲

مذکورہ احکام اس روایت میں موجود ہیں جسے کلینی اور شیخ طوسی نے طلحہ بن زید سے اور اس نے حضرت ابو عبد اللہ الصادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے: امام (ع) فرماتے ہیں:

''میرے والد گرامی فرماتے تھے: جنگ کے دو حکم ہیں: ایک یہ کہ اگر کفار کے ساتھ جنگ جاری ہو اور ابھی کفار کو شکست نہ ہوئی تو کافر قیدیوں کے بارے میں امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو انہیں قتل کردے اور چاہے تو ان کا بایاں پاؤں کاٹے اور اسے بدن سے جدا نہ کرے تاکہ ان کا خون نکلتا رہے اور اس طرح وہ مرجائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۵:۳۳

'' جو لوگ خدا اور اس کے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے لڑتے بھڑتے اور (احکام کو نہیں مانتے) اور فساد پھیلانے کی غرض سے ملکوں (ملکوں) دوڑتے پھرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ (چن چن کر) یا تو مار ڈالے جائیں یا انہیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں ہیر پھیر کے (ایک طرف کا ہاتھ، دوسری طرف کا پاؤں) کاٹ ڈالے جائیں، یا انہیں اپنے وطن کی سرزمین سے شہر بدر کردیا جائے، یہ رسوائی تو ان کی دنیا میں ہوئی اور پر آخرت میں تو ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہی ہے۔،،

اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا:

''کیا تم دیکھتے نہیں اللہ تعالیٰ نے صرف کفر کی صورت میں امام (ع) کو یہ اختیار دیا ہے، ہر مقام پر نہیں طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے امام (ع) سے عرض کیا: آیہ کریمہ :''او ینفوا من الارض،، کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کفار کو منتشر کردیں اور انہیں بھگا دیں اور اگر مسلمان کفار کا تعاقب کریں اور انہیں گرفتار کرلیں تو ان پر وہ احکام لاگو ہوں گے۔

۴۷۳

دوسرا یہ کہ جب کفار سے جنگ بند ہوجائے اور انہیں شکست دے دی جائے، اس وقت جو بھی قیدی بنایا جائے اور وہ مسلمانوں کے قبضے میں ہو، اس کے لیے امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو اس پر احسان کرے اور اسے آزاد کر دے، چاہے تو اس سے فدیہ و تاوان وصول کرے اور اگر چاہے تو اسے غلام بنالے۔،،(۱)

کفار کی شکست کے بعد ان سے قتل کے ساقط ہونے پر ضحاک اور عطاء بھی ہم سے متفق ہےں اور حسن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس صورت میں امام (ع) کو آزاد کرنے، فدیہ لینے اور غلام بنانے میں اختیارحاصل ہے۔(۲)

گذشتہ بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیر بحث آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی یہ اور بات ہے کہ بعض مقامات سے قتل مختص ہے اور بعض مقامات پر عدم قتل۔ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیہ سیف زیر بحث آیت سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔

مقام تعجب ہے کہ شیخ طوسی نے اس مسئلے میں علمائے امامیہ کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے کہ جنگ بندی کے بعد اسیر کے بارے میں امام کو اسیر کے قتل، آزاد کرنے، اس سے تاوان وصول کرنے اور اسے غلام بنانے میں اختیار حاصل ہے۔ چنانچ شیخ طوسی فرماتے ہیں:

''ہمارے اصحاب نے یہ روایت کی ہے کہ اگر جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کو گرفتار کیا جائے تو امام کو اختیار ہے کہ چاہے اس قتل کردے، چاہے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے اور اس طرح چھوڑ دے کہ وہ مرجائے۔ وہ اسے بلاعوض آزاد نہیں کرسکتا اور نہ اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرسکتا ہے اور اگر جنگ بندی کے بعد کسی کافر کو قیدی بنایا جائے تو امام کو اسے بلاعوض آزاد کرنے، تاوان مالی یا جانی لے کر آزاد کرنے، غلام بنانے اور قت کرنے میں اختیار ہے۔،،

____________________

(۱) الوافی، ج ۹، ص۲۳

(۲) قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷، الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱۔

۴۷۴

طبرسی نے اپنی تفسیر میں بھی شیخ طوسی کی متابعت کی ہے۔(۱) جبکہ اس مضمون کی کوئی روایت وارد نہیں ہوئی، بلکہ خود شیخ طوسی اپنی کتاب ''مبسوط،،(۲) میں اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ جو قیدی جنگ بندی کے بعد گرفتار کیا جائے اس کے بارے میں امام کو اختیار ہے کہ اس پر احسان کرکے اسے بلا عوض آزاد کردے یا اسے غلام بنائے اور یا اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرے۔ اسے قتل نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ہمارے علماء کی روایات بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔

بلکہ چیخ طوسی نے اپنی کتاب ''خلاف،، کے باب ''فئی، اور ''غنائم،، میں اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے جن حضرات نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ان میں علاّمہ مرحوم بھی ہیں انہوں نے اپنی دونوں کتابوں ''المنتہیٰ،، اور ''التذکرہ،، کے باب جہاد میں، اسیروں کے احکام میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

میرے خیال میں شیخ طوسی کی کتاب ''التبیان،، میں لفظ ''ضرب الرقاب،، (اسیروں کو قتل کرنا) لغزشِ قلم کا نتیجہ ہوگا اور مرحوم طبرسی نے بغیر کسی تحقیق کے اس بات کو لے لیا ہے۔

یہاں تک اس مسئلے میں علمائے شیعہ امامیہ، ضحاک، عطاء اورحسن کے نظریات بیان کیے گئے۔

آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

اس مسئلے میں باقی علمائے اہل سنت کے مختلف اقوال نظر آتے ہیں:

۱۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی۔ یہ قول قتادہ، ضحاک، سدی، ابن جریح، ابن عباس اور بہت سے کوفی علماء کی طرف منسوب ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ مشرک قیدی کو قتل کرنا واجب ہے اسے بلا عوض یا تاوان وصول کرکے آزاد کرنا جائز نہیں۔(۳)

____________________

(۱) التبیان، ج ۹، ص ۲۹۱، طبع نجف۔

(۲) المبسوط، کتاب الجہاد، فصل فی اضاف الکفار و کیفیۃ قتالہم۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۵

جواب: اس قول کے رو سے آیت کے نسخ کی کو ئی وجہ او جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ یہ آیت مقید ہے اور آیہ سیف مطلق ہے، چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔ اس سے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ عامِ مؤخر خاصِ مقدم کا ناسخ نہیں بن سکتا تو مطلق متاخر مقید مقدم کے لیے بطریقِ اولیٰ ناسخ نہیں بن سکتا۔(۱)

۲۔ یہ عام کفار کے بارے میں نازل ہوئی لیکن صرف مشرکین کے سلسلے میں نسخ ہوگئی ہے۔ یہ قول قتادہ، مجاہد اور حکم کی طرف منسوبگ ہے۔ مذہب ابو حنیفہ میں بھی قول مشہور ہے۔(۲)

جواب: پہلے کی طرح یہ قول بھی باطل ہے۔ کیونکہ یہ قول اس صورت میں صحیح ہوسکتا ہے جب آیہ سیف، زیرِ بحث آیت کے بعد نازل ہوئی ہو اور نسخ کے قائل حضرات یہ بات ثابت نہیں کرسکتے یہ حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے صرف خبر واحد سے تمسک کرسکتے ہیں او علماء کا اجماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت ہو جاتا ہے پھر بھی آیہ سیف کے ناسخ ہونے کی دلیل نہیں بنتی تاکہ یہ قول ثابت ہو۔ بلکہ ثابت یہ ہوگا کہ زیر بحث آیت، آیہ سیف کے لیے مقید ہو۔ اس لیے کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مشرکین کو بھی شامل ہے یا اس سے صرف مشرکین ہی مراد ہیں۔ بنابرایں یہ آیت، آیہ سیف کے لیے ایک قرینہ ہوگی کیونکہ مطلق مقید کے لیے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر ان تمام باتوں سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ مسلّم ہے کہ زیربحث آیت اور آیہ سیف میں عموم اور حصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے۔ یعنی کہیں تو مشرک ہے لیکن جنگ بندی کے بعد قیدی نہیں۔ یہاں مشرک کے لیے حکم قتل ہی ثابت ہوگا اور کہیں جنگ بندی کے بعد قیدی ہوگا مشرک نہیں۔ یہاں اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔

____________________

(۱) ہم نے اپنی کتاب ''اجود التقریرات،، کی عموم و خصوص کی بحث میں اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۶

ایک مقام وہ ہوسکتا ہے جہاں کافر، مشرک ہو اور جنگ بندی کے بعد اسے اسیر بنالیا جائے۔ یہاں دو مختلف احکام میں ٹکراؤ ہوگا۔ ظاہرہے اس صورت میں دونوں آیتیں ایک دوسرے کے لیے ناسخ نہیں ہونگی بلکہ اس آیت کے مضمون پر عمل ہوگا جس کی تائید کوئی دوسری دلیل کرے۔

۳۔ زیر بحث آیت، آیہ سیف کی ناسخ ہے یہ قول ضحاک وغیرہ کی طرف منسوب ہے۔(۱)

جواب: یہ قول اس صورت میں صحیح ہوگا جب اس آیت کا آیہ سیف کے بعد نازل ہونا ثابت ہو۔ اس کو ضحاک وغیرہ ثابت نہیں کرسکتے۔اس کے علاوہ اس سے قبل اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے مقدم ہو یا مؤخر، اس کے نسخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

۴۔ ہر حالت میں قتل کرنے، غلام بنانے، فدیہ لے کر آزاد کرنے اور بلا عوض آزاد کرنے کا اختیار امام کو حاصل ہے۔ اس قول کو ابو طلحہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جسے بہت سے علمائے کرام نے اپنایا ہے۔ ان میں ابن عمر، حسن اور عطاء شامل ہیں۔ مالک، شافعی، ثوری، اوزاعی اور ابی عبید وغیرہ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اس قول کے مطابق آیہ کریمہ میں کسی قسم کا نسخ نہیں ہوا۔(۲) نحاس اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''یہ قول اس بنیاد پر قائم ہے کہ دونوں آیتیں، آیہ سیف اور آیہ عفو، محکم ہیں (نسخ نہیں ہوئیں) اور دونوں کے ظاہر پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ قول بالکل صحیح ہے کیونکہ نسخ کے لیے کسی قطعی اور مسلّم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں پر دونوں آیتوں پر عمل کرنا ممکن ہے وہاں نسخ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ قول اہل مدینہ، شافعی اور ابو عبید سے منقول ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۸

(۳) الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱

۴۷۷

جواب: اگرچہ اس قول سے آیہ شریفہ کا نسخ ہونا لاز م نہیں آتا لیکن پھر بھی یہ باطل ہے کیونکہ آیت میں اس امر کی تصریح ہے کہ کفار کی شکست اور جنگ بندی کے بعد ہی ان قیدیوں کو بلا عوض یا عوض لیکر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ بنابریں کفار کی شکست سے پہلے بلاعوض یا عوض لے کر اسیروں کی آزادی کا قائل ہونا سراسر قرآن کی خلاف ورزی ہے۔

اسی طرح آیہ کی رو سے قتل کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک کفار کو شکست نہیں ہوتی۔ لیکن کفار کی شکست کے بعد بھی ان کے قتل کا قائل ہونا، خلاف قرآن ہے۔

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ اس آیت کے ذریعے آیہ سیف کی تقیید کی گئی ہے۔

اس قول کی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے بعض قیدیوں کو قتل کیا، بعض کو ان پر احسان کرتے ہوئے آزاد کردیا اوربعض سے فدیہ و تاوان لے کر ان کو آزاد کردیا تھا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح ہو پھر بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قتل کرنے، فدیہ لینے اور بلاعوض آزاد کرنے میں امام کو اختیار حاصل ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اسیر کو جنگ بندی اور کفار کی شکست سے پہلے قتل کیا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے کفار کی شکست کے بعد اسیروں کو ان سے فدیہ لے کر اور بغیر فدیہ کے آزادکیا ہو۔

ممکن ہے یہ حضرات (جو ہر حالت میں قتل اور آزاد کرنے میں اختیار کے قائل ہیں) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے عمل سے استدلال کریں جس کے مطابق انہوں نے اسیروںکو قتل کیا تھا۔

۴۷۸

اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلاً یہ واقعہ تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ہے بفرض تسلیم اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہو پھر بھی مدعیٰ ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا عمل حجیّت نہیں رکھتا تاکہ اس کی بنیاد پر ظاہر قرآن سے دست بردار ہوا جائے۔

۳۳۔( وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۵۱:۱۹

''اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حصّہ تھا۔،،

۳۴۔( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ۷۰:۲۴

( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

ان دونوں آیات کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ نسخ ہوئی ہےں؟ کیونکہ ان آیات میں جس معلوم اور آشکار حق کا ذکر کیا گیا ہے ممکن ہے اس سے مراد واجب زکوٰۃ ہو جو ایک واجب حق ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد کوئی اور م الی حق ہو جو واجب ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ایک مالی حق ہو جو مستحب ہو۔

اگر اس حق سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا واجب حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں نسخ ہوں گی اس لیے کہ واجب زکوٰۃ کی وجہ سے قرآن میں موجود تمام دوسرے واجب صدقات نسخ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اس احتمال کو علماء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ اگر اس حق سے مردا واجب زکوٰۃ یا کوئی دوسرا مالی حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں محکم ہوں گی۔

تحقیق اس امر کی متقاضی ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حق سے مراد واجب زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس کی ادائیگی کی شارع نے ترغیب دی ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی روایات اس بات کی دلیل ہیں کہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ واجب نہیں ہے اور اہل بیت اطہار (ع) کی روایات میںیہ بیان موجود ہے کہ اس حق سے کیا مراد ہے۔

۴۷۹

شیخ کلینی نے ابو بصیر سے روایت کی ہے ابو بصیر کہتے ہیں:

''ہم امام صادقؑ کی خدمت میں بیٹھے تھے، ہمارے ساتھ کچھ دولت مند افراد بھی تھے انہوں زکوٰۃ کا ذکر کیا تو امام(ع) نے فرمایا: زکوٰۃ کوئی ایسی چیز نہیں کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے تعریف کی جائے۔

یہ تو ایک ظاہر ہے اور مسلّم چیز ہے اسی کی وجہ سے تو مسلمانوں کے خون کو تحفظ ملا ہے اور اسی کی بدولت انسان مسلمان کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر مسلمان زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ یہ دیکھو کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی تمہارے اموال میں لوگوں کے کچھ حقوق ہیں۔ میں (ابو بصیر) نے عرض کیا: مولا! زکوٰۃ کے علاوہ ہمارے اموال میں اور کون سے حقوق موجود ہیں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا: :( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۔ میں نے عرض کی: آحر وہ کون سا حق ہے۔ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! یہ وہی حق ہے جس کی طرف ہر شخص متوجہ ہے۔ اسے چاہیے کہ ہر روز یا جمعہ میںیا مہینے میں ایک مرتبہ کچھ نہ کچھ دیتا رہے۔،،

نیز کلینی نے اپنی سندسے اسماعیل بن جابر سے اور انہوں نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے:

''آپ سے آیہ کریمہ:( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا یہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق ہے؟ آپ نے فرمایا: اس حق کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو خدا مال و دولت دے اسے چاہیے کہ اس میں سے ایک ہزار، دو ہزار یا تین ہزار الگ کرلے اور اس کے ذریعے صلہ رحمی کرے اور قریبی رشتہ داروں کی مشکلات کو حل کرے۔،،

ان کے علاوہ بھی امام باقر اور امام صادق (علیھما السلام) سے اس مضمون کی روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) الوافی باب الحق المعلوم، ج ۶، ص ۵۲

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689