البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314344 / ڈاؤنلوڈ: 9336
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

جواب:

پورے قرآن میں بعض عمومات کی تخصیص اور بعض مطلقات کی تقیید کے اجمالی علم سے ظواہر قرآن پر عمل کرنا تب جائز نہ ہوتا جب ہم مخصص و مقید کی تلاش کے بغیر ہی قرآن کے ظاہری معنی کاارادہ کرنا چاہیں لیکن اگر مکلف کو تحقیق و تلاش کے نتیجے میں وہ مخصصات اور مقیدات مل جائیں جن کا اسے اجمالی علم تھاتو لامحالہ اس کا اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگایعنی وہ غیر معین اور پورے قرآن میں گم گشتہ مخصصات اور مقیدات معین اور محدود ہو جائیں گے اجمالی علم بے اثرہو جائے گا اور باقی آیات میں ظاہر قرآن پر عمل کرنا جائز ہو گا۔

یہ قاعدہ ، سنت (روایات) میں بھی جاری ہو گا کیونکہ روایات کے بارے میں بھی ہم اجمالی طور پر یہ جانتے ہیں کہ بعض کی تخصیص وتقیید ہوئی ہے جب تحقیق کے بعد بعض مخصصات اور مقیدات دستیاب ہو جائیں تو یہ اجمالی علم تفصیلی علم میں تبدیل ہو جائےگا اور باقی روایات کے ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہوگ ا اگر اجمالی علم کے تفصیلی علم میں تبدیل ہو جانے کے بعد بھی ظواہر قرآن پر عمل کرنا نہ ہوتا تو سنت (روایات) پر عمل کرنا بھی جائز نہ ہوتا بلکہ شبہات(۱) حکمیہ (وجوبیہ ہوں یا تحریمیہ) میں اصالتہ البراتہ کا جاری کرنا جائز نہ ہوتا کیونکہ ہر مکالف یقینی طور پر یہ جانتا ہے کہ شریعت مقدسہ میں الزامی احکام (واجب و حرام افعال) موجود ہیںاس علم اجمالی کا لازمہ یہ ہے کہ ہر شبہہ وجوبیہ اور تحریمیہ میں احتیاط برتی جائے ، حالانکہ ان مقامات میں احتیاط کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا۔

____________________

(۱) اگر کسی علم کے بارے میں شروع میں یہ شک ہو کہ یہ واجب ہے یا نہیں یا یہ حرام ہے یا نہیں تو اسے شبہہ حکمیہ کہتے ہیں ایسے مسائل میں اصالۃ البراتہ جاری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ احتیاطاً عمل کو انجام دینا اور دوسری صورت میں احتیاطاً عمل کو ترک کرنا ضروری نہیں بلکہ پہلے عمل کوترک اور دوسرے عمل کو انجام دے سکتے ہیں اور اس احتمال کو نظر انداز کیا جاتا ہے کہ شریعت اسلام میں کچھ واجبات تو یقیناً موجود ہیں ہو سکتا ہے یہ مشکوک عمل ان واجبات یا محرمات میں سے ہو۔ (مترجم)

۳۴۱

ہاں ! محدثین کی ایک جماعت نے شبہہ تحریمہ میں احتیاط کو واجب قرار دیا ہے لیکن اس قول کا مدرک و منبع یہ نہیں کہ شریعت مقدسہ میں کچھ تکالیف (فرائض) الزامی موجود ہیں جن کا اجمالی علم ہے اس لئے وہ شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کو واجب سمجھتے ہوں بلکہ اس قول کا مدرک یہ ہے کہ یہ حضرت ان روایات سے وجوب کو سمجھتے ہیں جن میں اس قسم کے شبہات احتیاط یا توقف کا حکم دیا گیا ہے اگر اس شبہہ تحریمیہ میں احتیاط کرنے کی وجہ وہ اجمالی علم ہوتا جو احکام الزامی کے بارے میں موجود ہے تو ان حضرات کو شبہہ وجوبیہ میں بھی احتیاط کرنی چاہئے تھی حالانکہ جہاں تک ہم جانتے ہیں شبہہ و جوبیہ میں احتیاط کو کوئی بھی واجب نہیں سمجھتا ان تمام مسائل میں احتیاط واجب نہ ہونے کی ایک ہی وجہ ہے وہ یہ کہ وہ اجمالی علم جو بعض واجبات اور محرمات کے بارے میں رکھتے تھے ، بعض معین و مشخص و اجبات اور محرمات کی وجہ سے تفصیلی علم میںتبدیل ہو گیا اور اجمالی علم بے اثرہو کر رہ گیاہے۔

اس مسئلے کی مزید وضاحت کیلئے ہماری کتاب ''اجود التقریرات،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

۵۔ متشابہ پر عمل کی ممانعت

قرآن کی متعدد آیات میں متشابہ آیات پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ) ۳:۷

'' اس میں کی بعض آیتیں تو محکم (بہت صریح) ہیں وہی (عمل کرنے کیلئے) اصل (وبنیاد) کتاب ہیں اور کچھ (آیتیں) متشابہ (گول مول جس کے معنی میں سے پہلو نکل سکتے ہیں) پس جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ انہی آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں۔

متشابہ آیات میں ظواہر قرآن بھی شامل ہیں اگر ظواہر قرآن یقینی طورپر متشابہ نہ ہوں تو کم از کم یہ احتمال ضرور موجود ہے کہ یہ متشابہ کے ذیل میں آتے ہوں گے جس کے بعد وہ حجت اور قابل عمل نہیں رہتے کیونکہ آیہ کریمہ میں متشابہات پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

۳۴۲

جواب

متشابہ ایسا الفاظ ہے جس کا معنی سب کو معلوم ہے اورا س میں کسی قسم کا اجمال اور مشابہت نہیں اور وہ (متشابہ) یہ ہے کہ ایک ہی لفظ کے دو یا دو سے زیادہ معانی کا احتمال ہو بایں معنی کہ ان تمام معانی کی نسبت لفظ کی طرف یکساں ہو جتنے فیصد ایک معنی کا احتمال ہوا اتنے فیصد دوسرے معنی کااحمتال بھی ہو یعنی جب لفظ بولا جائے توہر معنی کے بارے میں یہ احتمال برابر کا دیا جائے کہ یہی مراد ہو گا اس لئے جب تک کوئی دوسرا قرینہ کسی ایک معنی کی تعیین پر دلالت نہ کرے لفظ سے کسی معنی کا ارادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ توقف کیا جائے گا متشابہ کے اس معنی کی روشنی میں لفظ ''ظاہر،، متشابہ کے مصادیق میں سے نہ ہو گا جس پر عمل کرنے سے روکا گیا ہے۔

بفرض تسلیم ، اگر لفظ متشابہ ہو اور یہ احتمال باقی ہو کر معنی ''ظاہر،، بھی متشابہ ہے پھر بھی ظاہر پر عمل کرنے سے نہیں روکا جا سکتا اس لئے کہ عقلاء کی یہ سیرت و روش رہی ہے کہ کلام سے جو معنی ظاہر ہو اس پر عمل کرتے ہیں اور صرف یہ احتمال کہ شاید ظاہر بھی متشابہ کے مصادیق میں سے ہو اس سیرت عقلاء کو ترک کرنے کا باعث نیں بن سکتا بلکہ اس عمل کے جائز نہ ہونے پر ایک مستقل اور قطعی دلیل درکار ہو گی اور جب تک ایسی مستقل اور قطعی دلیل نہ ملے بلا شبہ ظاہری معنی پر عمل کرنا جائز ہو گا ۔

یہی وجہ ہے کہ اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل نہ کرے اور اس کی مخالفت کرے تو مالک احتجاج کا حق رکھتا ہے اور اپنے غلام کا مواخذہ کر سکتا ہے اسی طرح اگر غلام مالک کے ظاہر کلام پر عمل کرے مگر بعد میں معلوم ہو کہ مالک کا مقصد ظاہر کلام کیخلاف تھا تو غلام ، مالک کیخلاف احتجاج کر سکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ جب تک کوئی قطعی دلیل ممانعت نہ کرے ظاہر کلام پر عمل کرنے کی سیرت پر عمل ہوتا رہیگا۔

۳۴۳

۶۔قرآن میں تحریف

قرآن میں تحریف ہونا ظواہر قرآن پر عمل کرنے سے مانع اور اہم رکاوٹ ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ انہی ظواہر قرآن کے ساتھبعض قرائن ملے ہوئے ہوں جو معنی مراد پر دلالت کرتے تھے مگر اب تحریف کے نتیجے میں ساقط اور مفقود ہو گئے ہوں (جس کے نتیجے میں لفظ ایسے معنی میں ظہور رکھتا ہے جو معنی مراد کیخلاف ہے)

جواب:

اولاً : ہم اس بات کو نہیں مانتے کہ قرآن میں تحریف ہوئی ہے چنانچہ اس سلسلے میں سیر حاصل بحث اس سے قبل کر چکے ہیں وہ روایات جو قرآن کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتی ہیں ، خود اس بات کی دلیل ہیں کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی۔

ثانیاً : بفرض تسلیم اگر قرآن میں تحریف ہوئی ہے پھر بھی ان روایات کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن پر عمل کیا جائے گزشتہ مباحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ ظاہر قرآن پر عمل ضروری ہے اوریہ کہ ظاہر قرآن پر عمل کرنا ہی شریعت کی اساس اور بنیاد ہے اگر سنت (احادیث نبوی (ص) اور روایات (آئمہ(ع) ) مخالف قرآن ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

۳۴۴

قرآن میں نسخ

٭نسخ کا لغوی معنی

٭نسخ کا اصطلاحی معنی

٭ نسخ کا امکان

٭ تورات میں نسخ

٭ شریعت اسلام میں نسخ

٭ تلاوت نسخ ہو ۔ حکم باقی رہے

٭تلاوت اور نسخ دونوں منسوخ ہوں

٭ حکم منسوخ ہو ۔ تلاوت باقی رہے

٭ان آیات کا تنقیدی جائزہ جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا

٭مسئلے کی وضاحت

٭ متعہ کی سزا ۔ سنگساری

٭متعہ کے بارے میں چند بے بنیاد شبہات

٭مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

٭آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

٭آیت نجومی پر عمل کی احادیث

٭ مسئلے کی تحقیق

٭ اس صدقے کے نسخ ہونے کے اسباب

٭ حکم صدقہ کی حکمت

٭ کھلم کھلا تعصب

۳۴۵

کتب تفسیر وغیرہ میں عموماً کچھ ایسی آیات ذکر کی جاتی ہیں جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ منسوخ ہو گئی ہیں چنانچہ ابوبکر نحاس نے اپنی کتاب ''الناسخ و المنسوخ،، میں ان آیات کو جمع کیا ہے اور ان کی تعداد ۱۳۸ ہے ہم نے اپنی اس کتاب میں اس بحث کو بھی شامل کیا ہے تاکہ ان آیات جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے کے بارے میں تحقیقی بحث کریں اور یہ ثابت کریں کہ جن آیات میں نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے ان میںسے ایک آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی چہ جائیکہ سب منسوخ ہوئی ہوں۔

البتہ ہم نے ان آیات میں سے صرف ۳۶ آیات کا انتخاب کیا ہے اور یہی آیات بحث و تمحیص اور وضاحت کی محتاج ہیں اور انہی پر بحث سے حق آشکار ہو جائےگا باقی آیات کا نسخ نہ ہونا اتنا واضح ہے کہ محتاج بیان و قابل استدلال نہیں۔

نسخ کا لغوی معنی

لغت میں نسخ ایک جگہ لکھی ہوئی بات کو نقل کر کے دوسری جگہ لکھنے اور اتارنے کو کہا جاتا ہے چنانچہ ''استنساخ،، اور ''انتساخ،، بھی اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں اس کے علاوہ یہ نقل و انتقال اور تبدیلی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ''تناسخ المواریث و الدھور،، (یعنی) ''ثروت و دولت اور زمانہ تبدیل ہوئے،،۔

نسخ کاایک معنی ازالہ اور برطرف کرنابھی ہے ''نسخت الشمس اظل ،، ''(یعنی،، سورج نے سائے کو زائل کر دیا،، میں ''نسخت،، اسی معنی میں استعمال ہوا ہے صحابہ کرام اور تابعین نے نسخ کو اس معنی میں کثرت سے ا ستعمال کیا ہے چنانچہ صحابہ اور تابعین مخصص و مقید کوناسخ ہی کہتے تھے(۱)

____________________

(۱) ابن عباس کی طرف منسوب تفسیر میں تحصیص پر کثرت سے نسخ کا اطلاق ہوا ہے۔

۳۴۶

نسخ کا اصطلاحی معنی

اصطلاح میں نسخ کسی ثابت امرشرعی کو اس کی مدت ختم ہونے کی وجہ سے اٹھانے کو کہتے ہیںچاہے وہ برطرف حکم کوئی حکم تکلیفی ہو جیسے وجوب ، حرمت وغیرہ میں یا حکم وضعی ہو جیسے صحیح ہوناباطل ہونا وغیرہ ہے اور چاہے وہ برطرف شدہ امر ، الٰہی منصب اور عہدوں میںسے ہو یا کوئی اور چیز ہو ، جس کی بازگشت بہ حیثیت شارع اللہ تعالیٰ کی طرف ہو ، جس کی مثال نسخ فی التلاوۃ ہے۔

ہم نے نسخ کی تعریف میں امر کے ساتھ ثابت کی قید کا اضافہ اس لئے کیا ہے تاکہ نسخ کی یہ تعریف اس حکم کے برطرف ہونے کو شامل نہ ہو جو خارج میں اپنے موضوع کے ختم ہو جانے کے باعث زائل ہو جائے جیسے ماہ رمضان ختم ہونے کے ساتھ ہی روزے کاوجوب بھی ختم ہو جاتا ہے اسی طرح نماز کا وقت نکلنے کے بعد نماز کاوجوب بھی ختم ہو جاتاہے اور کسی مال کامالک مر جانے سے اس کی مالکیت (مال کا مالک ہونا) بھی ختم ہو جاتی ہے ان تمام مثالوں میں حکم زائل تو ہو جاتا ہے مگر نسخ نہیں کہلاتا کیونکہ ان تمام مثالوں میں حکم نہیں بلکہ موضوع حکم برطرف ہو گیاہے موضوع کے ختم ہو جانے کی وجہ سے حکم برطرف ہوناممکن ہے ایسا ع ملی طورپر بھی ہوا ہے اور اس میں کسی کو کوئی اعتراض و اشکال نہیں ہے۔

ہم ذیل میں نسخ واقعی کی وضاحت کرتے ہیں:

(۱) پہلا مرحلہ تشریع اور قانون سازی کا ہوتا ہے اس مرحلے میں حکم بطور قضیہ حقیقیہ ثابت ہوتا ہے یعنی اس مرحلہ میں حکم ثابت ہو جاتا ہے چاہے خارج میں فی الحال کوئی موضوع (جس کیلئے حکم ثابت ہو) موجودہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کا دار و مدار ایک فرضی موضوع ہوا کرتا ہے۔

۳۴۷

مثلاً جب شارع مقدس فرمائے : ''شرب الخمر حرام،، (یعنی) مے نوشی حرام ہے،، اس حکم کا مطلب یہ نہیں کہ ابھی اسی وقت خارج میں (ہمارے سامنے) کوئی شراب موجود ہے جس پر حرمت کا حکم لگایا گیا ہے بلکہ اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی خارج (دنیا) میں کوئی شراب ہو گی شریعت میں اس کیلئے حکم ، حرام ہونے کا ہے چاہے فی الحال خارج میں کوئی شراب موجود ہو یا نہ ہو اس مرحلے میں حکم کو صرف نسخ کے ذریعے برطرف کیا جا سکتا ہے۔

(۲) دوسرا مرحلہ اس حکم کا خارج میں موجود ہوتا ہے بایں معنی کہ موضوع حکم فی الحال خارج میں موجود ہے اور حکم بھی متحقق ہے۔

مثال کے طورپر خارج میں (سامن) شراب موجود ہے اور شریعت میں مقرر شدہ حکم حرمت اس شراب کیلئے ثابت ہے جب تک موضوع موجود رہں گا حکم بھی رہے گا اگر کسی وقت شراب سرکہ میں تبدیل ہو جائے تو بلا شک شراب ہونے کی حالت میں موجود حکم اب برطرف ہو جائے گا مگر یہ نسخ نہیں کہلائے گا اس کے جواز بلکہ خارج میں واقع ہونے میں بھی کسی کو کوئی اختلاف نہیں اختلاف صرف پہلے مرحلے کے بارے میں ہے کہ آیا عالم تشریع (قانون سازی کے مرحلے) میں کسی حکم کو برطرف کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟

نسخ کاامکان

عقلاء مسلمین میں مشہور یہی ہے کہ زیر بحث نسخ (عالم تشریع میں کسی حکم کو برطرف کرنا) جائز ہے یہود و نصاریٰ نے اس کی مخالفت کی ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ نسخ محال ہے ان کا مسند و مدرک ایک شبہ (غلط فہمی) ہے جو تارعنکبوت سے بھی زیادہ کمزور اور ضعیف ہے۔

۳۴۸

خلاصہ شبہ:

احکام کو نسخ کرنے سے یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کے کام حکمت و مصلحت پر مبنی نہ ہوں یا یہ لازم آتا ہے کہ خدا کسی بھی حکم کی حکمت اور مصلحت سے آگاہ نہ ہو یہ دونوں امور محال ہیں۔

توضیح : اللہ تعالیٰ جو حکیم مطلق ہے ، جو حکم بھی مقرر فرمائے کسی نہ کسی مصلحت کی بناء پر مقرر ہوتا ہے جو اس حکم کی متقاضی ہوتی ہے کیونکہ بے مصلحت حکم اس کے بنانے والے کی حکمت سے سازگار نہیں۔

ایسے فرض میں حکم کو اٹھاتے وقت یا تو اس حکم کی مصلحت و حکمت باقی ہو گی اور نسخ کرنے والا اس کا علم رکھتا ہو گا تو یہ حکم بنانے والے ، جو حکیم مطلق ہے، کی حکمت کیخلاف ہے ، یا بعد میں انکشاف ہوا ہوگا کہ یہ حکم شروع سے مصلحت پر مبنی نہ تھا ، جیسے عام عرفی قوانین کے بارے میں بعد میں پتہ چلتا ہے کہ اس میں مصلحت نہیںتھی اس سے جہل خدالازم آتا ہے ، جو محال ہے معلوم ہوا نسخ محال ہے اس لئے کہ اس سے محال لازم آتا ہے (مستلزم المحال محال،، (یعنی) ''جس چیز سے محال لازم آئے وہ چیز محال ہوتی ہے،،۔

جواب:

بعض اوقات اللہ تعالیٰ کچھ کاموں کا حکم دیتا ہے اور بعض کاموں سے منع فرماتا ہے لیکن خالق کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جس کا حکم دیا ہے وہ ضرور انجام پائے اور جس کام سے منع کیا ہے وہ ضرور ترک ہو جائے بلکہ اس امرونہی کا مقصد بندوں کا امتحان ہوتا ہے اس قسم کے اوامرو نواہی شریعت میں موجود ہیںایسے احکامات صادر کئے جانے کے بعد دوبارہ برطرف کئے جا سکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

۳۴۹

اس قسم کے احکام صادر ہونے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اور پھر انہیں واپس لینے میں بھی مصلحت ہوتی ہے اس قسم کے نسخ اور ازالہ حکم سے نہ کوئی خلاف حکمت بات لازم آتی ہے اور نہ اس کا منشاء بداء (پہلے معلوم نہ ہو اور بعد میں انکشاف ہو ) ہے جو خدا کے لئے محال ہے۔

اور کبھی شارع کی طرف سے مقرر کردہ حکم حقیقی ہوتا ہے (بایں معنی کہ جس کام کو حکم دیا جائے اس کا بجا لانا اور جس کام سے روکا جائے اس کا ترک کرنا ضروری ہوتا ہے) اس کے باوجود ایک مدت کے بعد اس حقیقی حکم کو برطرف کیا جاتا ہے لیکن اس معنی میں نہیں کہ ایک حکم ، واقع اور علم خدا میں دائمی طور پر ثابت ہو مگر کسی خاص مصلحت یا اس حکم میں کسی خامی کے انکشاف کی بناء پر اسے نسخ اور برطرف کیا گیا ہو جس سے حکیم اور واقعیات و حقائق کی عالم ذات کے حق میں محال لازم آئے۔

بلکہ نسخ کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ یہ مقرر کردہ حکم ، عنداللہ کسی خاص مدت اور زمانے تک محدود ہوتا ہے اور عام لوگوں کو اس محدود وقت کا علم نہیں ہوتا اور جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو حکم بھی خود بخود زائل ہو جاتا ہے۔

اس معنی میں نسخ یقیناً ممکن ہے اور اس پر کسی قسم کا اشکال لازم نہیں آتا کیونکہ زمانہ اور وقت کی خصوصیات ، جن پر حکم کا دار و مدار ہو ، احکام میں دخیل ہوا کرتی ہیں جس میں کسی عاقل کوشک نہیں۔

مثلاً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت میں ہفتہ کا دن خصوصیت رکھتا تھا جس کی وجہ سے روز ہفتہ اس شریعت کے ماننے والوں کیلئے عید قرار پایا اور باقی ایمام ہفتہ میں کسی یوم میں ایسی خصوصیت نہیں تھی یہی حیثیت اسلام میں جمعتہ المبارک کو حاصل ہے اسی طرح نماز ، روزے اور حج کے مخصوص اوقات کی بھی کچھ خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے مقررہ اوقات میں یہ فرض قرار دیئے گئے ہیں۔

۳۵۰

جب شریعت کے کسی حکم (قانون) کے بنانے اور نہ بنانے میں زمانہ اور وقت کا دخل قابل تصور ہے تو کسی حکم کے دائمی رہنے اور نہ رہنے میں بھی وقت کا دخل قابل تصور ہونا چاہئے ! بنا برایں عین ممکن ہے کہ ایک حکم ، ایک معین مدت کیلئے مصلحت پر مشتمل ہو لیکن اس مدت کے گزر جانے کے بعد وہ مصلحت ختم ہو جائے اسی طرح اسی کے برعکس بھی ممکن ہے یعنی ممکن ہے کہ ایک محدود زمانے میں مصلحت نہ ہو اس محدود مدت کے گزرنے کے بعد مصلحت پیدا ہو جائے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب کوئی مخصوص گھڑی ، دن ہفتہ اور مہینہ کسی فعل کے بامصلحت اور نقصان دہ ہونے میں اثر انداز ہو سکتا ہے تو سال اور برس بھی اثر انداز اور دخیل ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک حکم چند محدود برس تک باصلحت رہے گا اور ان برسوں کے گزر جانے کے بعد اس فعل اور حکم میں وہ مصلحت نہ رہے گی جس طرح کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے علاوہ کسی دوسری جداگانہ دلیل کے ذریعے مقید کیا جا سکتا ہے اسی طرح عین ممکن ہے کہ کسی جداگانہ دلیل کے ذریعے زمانے کے اعتبار سے بھی کسی مطلق حکم کو مقید کیا جائے کیونکہ بعض اوقات مصلحت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ حکم کو ظاہری طور پر عام اور مطلق چھوڑا جائے (ظاہراً کسی لفظ کے ذریعے عام کی تخصیص اور مطلق کی تقیید نہ کی جائے) جبکہ درحقیقت خاص اور مقید ہی مراد ہوتے ہیں اور مخصص و مقید کو کسی جداگانہ دلیل کی صورت میں بعد میں بیان کیا جاتا ہے۔

معلوم ہوا اور حقیقت نسخ ، کسی حکم کے اطلاق کو زمانہ کے اعتبار سے مقید کرنے کا نام ہے جس سے حکمت کی مخالفت لازم آتی ہے اور نہ بداء لازم آتا ہے جو خدا کیلئے محال ہیں۔

یہ تمام بحث اس مذہب کی بنیادپر ہوئی جس کے مطابق قانون سازی ، اعمال میں مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتی ہے لیکن اگر اس مذہب کی رو سے دیکھا جائے جس کے مطابق احکام ، اپنے اندر موجود مصلحت و مفسدہ کے تابع ہوتے ہیں تو پھر تمام احکام ان احکام کی مانند ہوں گے جو درحقیقت امر حقیقی (جن کا امتشال مطلوب ہو) نہیں ہوتے بلکہ صرف امتحان کیلئے صادر ہوتے ہیں ان کا صادر ہونا مصلحت سے خالی نہیں اور ان کا نسخ ہونابھی مصلحت سے خالی نہیں۔

۳۵۱

تورات میں نسخ

یہود و نصاریٰ شریعت میں نسخ کو محال قرار دے کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ شریعت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام احکام آج تک باقی اور ثابت ہیں اور منسوخ نہیں ہوئے لیکن گزشتہ مباحث سے یہ ثابت ہو گیا کہ نسخ محال نہیں ہے نیز تورات اور انجیل میں بھی کئی مقامات پر نسخ واقع ہوا ہے ہم ذیل میں نمونہ کے طورپر عہد نامہ قدیم و جدیدسے نسخ کے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جن سے اندازہ ہو جائے گا کہ یہود و نصاریٰ نے اپنے مذہب کی حقانیت پر جو دلیل پیش کی ہے وہ کتنی کمزور ہے۔

۱۔ کتاب مقدس ، عہد نامہ قدیم و جدید ، سفر گنتی کے باب : ۴ شمارہ ۲۔۳ میں ہے:

''اور خداوند نے موسیٰ اور ہارون سے کہا : بنی لاوی میں سے قہانیوں کو ان کے گھرانوں اور آبائی خاندانوں کے مطابق تیس برس سے لے کرپچاس برس تک جتنے خیمہ اجتماع میں کام کرنے کیلئے مقدس کی خدمت میں شامل ہیں ان سب کو گنو،،

یہ حکم نسخ کر دیا گیا اور قبول خدمت کی عمر پچیس سال قرار دی گئی چنانچہ اسی سفر کے باب: ۸ ، شمارہ :۲۳ اور ۲۴ میں ہے:

''پھر خدا نے موسیٰ سے کہا : لاویوں کے متعلق جو بات ہے وہ یہ ہے کہ پچیس برس سے لے کر اس سے اوپر اوپر کی عمر میں وہ خیمہ اجتماع کی خدمت کے کام کیلئے اندر حاضر ہوا کریں،،۔

اس کے بعد یہ حکم بھی نسخ ہو گیا اور قبول خدمت کی عمر گھٹا کر بیس سال کر دی گئی چنانچہ تاب مقدس کے (عنوان) تواریخ ایک کے شمار ۲۳۔۲۴ میں ہے:

''لاوی کے بیٹے یہی تھے جو اپنے اپنے آبائی خاندان کے مطابق تھے ان کے آبائی خاندان کے سردار جیسا وہ نام بنام ایک ایک کر کے گنے گئے یہی ہیں وہ بیس برس اور اس سے اوپر کی عمر سے خداوند کے گھر کی خدمت کا کام کرتے تھے اور خدا کے گھر کی خدمت کو انجام دینے کیلئے خیمہ اجتماع کی حفاظت اور مقدس کی نگرانی اور اپنے بھائی نبی ہارون کی اطاعت کریں،،

۳۵۲

۲۔ سفر گنتی کے باب: ۲۸ شمارہ : ۳ اور ۷ میں ہے:

''تو ان سے کہہ دے جو آتشین قربانی تم کو خدا کے حضور پیش کرنا ہے کہ دو بے عیب یکسالہ برے (بھیڑیں) ہر روز دائمی سوختی قربانی کیلئے چڑھایا کرو۔ ایک برہ (بھیڑ) صبح اور دوسرا برہ (بھیڑ) شام کو چڑھانا اور ساتھ ہی ایک ایفہ کے دسویں حصہ کے برابر میدہ جس میں کوٹ کر نکالا ہوا تیل چوتھائی ھین کے برابر ملا ہو ، نذر کی قربانی کے طور پر گزراننا اور ھین کی چوتھائی کے برابر مے فی برہ تپاون کیلئے لانا،،

یہ حکم منسوخ ہو گیا اور ہر صبح کی آتشین قربانی روزانہ ایک سالہ بھیڑ قرار دی گئی اور ایفہ کے چھٹے حصہ کے برابر میدہ اور ایک تہائی ھین کے برابر تیل پیش کرنا ضروری قرار دیا گیا چنانچہ حزقیل کے باب ۴۶ شمارہ ۱۳۔۵ۃ میں ہے:

''تو ہر روز خداوند کے حضور پہلے سال کاا یک بے عیب برہ (بھیڑ)سوختنی قربانی کیلئے ہر صبح کو چڑھائے گا اور تو اس کے ساتھ ہر صبح نذر کی ربانی گزرانے گا یعنی ایفہ کا چھٹہ حصہ اور میدہ کے ساتھ ملانے کو تیل کے ھین کی ایک تہائی دائمی حکم کے مطابق ہمیشہ کیلئے خداوند کے حضور یہ نذر کی قربانی ہو گی اسی طرح وہ برے (بھیڑیں) اور نذر کی قربانی اور تیل ہر صبح ہمیشہ کی سوختنی قربانی کیلئے چڑھائیں گے،،۔

۳۔ سفر گنتی کے باب ۲۸: شمارہ :۹ اور ۱۰ میں ہے:

''اور شنبہ کے روز دو بے عیب نر بھیڑ اور نذر کی قربانی کے طورپر ایفہ کے پانچویں حصے کے برابر میدہ جس میں تیل ملا ہوا ہو تپاون کے ساتھ گزراننا دائمی سوختنی قربانی اور اس کے تپاون کے علاوہ یہ ہر شنبہ کی سوختنی قربانی ہے،،۔

یہ حکم نسوخ ہو گیا چنانچہ حزقیل باب : ۴۶ شمارہ : ۴۔۵ میں نسخ کے بعد کا حکم یوں مذکور ہے: ''اور سوختنی قربانی جو فرمانروا شنبہ کے دن گزراننے گا یہ ہے : چھ بے عیب بھیڑ اور ایک بے عیب مینڈھا اور نذر کی قربانی مینڈھے کیلئے ایک ایفہ اور بھیڑوں کیلئے نذر کی قربانی اس کی توفیق کے مطابق اور ایک ایفہ کیلئے ایک ھین تیل،،

۳۵۳

۴۔ کتاب مقدس سفر گنتی کے باب : ۳۰ شمارہ ۲ میں ہے:

''جب کوئی مرد خدا کی منت مانے یا قسم کھا کر اپنے اوپر کوئی خاص فرض ٹھہرا دے تو وہ اپنے عہد کو نہ توڑے بلکہ جو کچھ اس کے منہ سے نکلا ہے اسے پورا کرے،،۔

تورات میں ثابت یہی حکم (قسم کا جواز) منسوخ ہو گیا چنانچہ متیٰ کی انجیل باب : ۵ شمارہ : ۳۳۔۳۴ میں ہے: ''نیز تم نے یہ سنا ہے کہ گزشتوں سے کہا گیا تھا قسم کی مخالفت نہ کرو بلکہ اپنے رب کی قسم پورا کرو۔ لیکن میں یہ کہوں گا قسم ہرگز نہ کھاؤ،،۔

۵۔ کتاب مقدس کے سفر خروج باب : ۲۱ شمارہ : ۲۳۔۲۵ میں ہے:

''لیکن اگر نقصان ہو جائے تو جان کے بدلے جان لے او رآنکھ کے بدلے آنکھ دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ پاؤں کے بدلے پاؤں جلانے کے بدلے جلانا زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ،،

یہ حکم قصاص شریعت حضرت عیسیٰ (ع) میں منسوخ ہو گیا چنانچہ انجیل متیٰ کے باب : ۵ شمارہ ۳۸ میں ہے:

''تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے میں آنکھ دانت کے بدلے میں دانت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جوتیرے دائیں رخسارپر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے،،۔

۶۔ کتاب مقدس سفر پیدائش باب : ۱۷ شمارہ ۱۰ میں حضرت ابراہیم (ع) سے خدا کا خطاب ہے: '' اور میرا عہد جو میرے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے اور جسے تم مانو گے سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزمذ نرینہ ختنہ کیا جائے،،

حضرت موسیٰ (ع) کی شریعت نے بھی اس حکم کی تائید کر دی۔ چنانچہ سفر خروج کے باب ۱۲ کے شمارہ : ۴۸۔۴۹ میں ہے:

۳۵۴

''اور اگر کوئی اجنبی تیرے ساتھ مقیم ہو اورخداوند کی فسح کو ماننا چاہتا ہو تو اس کے ہاں کے سب مرد اپنا ختنہ کرائیں تب وہ پاس آ کر فسح کرے یوں وہ ایسا سمجھا جائے گا گویا اسی ملک کی اس کی پیدائش ہے پر کوئی نامختون آدمی اسے کھانے نہ پائے وطنی اور اس اجنبی کیلئے جو تمہارے درمیان موجود ہو ایک ہی شریعت ہو گی،،۔

نیز کتاب مقدس کے سفر اخبار کے باب : ۱۲ شمارہ ۲ اور ۳ میں موجود ہے:

''خداوند نے موسیٰ سے کہا: بنی اسرائیل سے کہو اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور اس کے ہاں لڑکا پیدا ہو تو وہ سات دن ناپاک رہے گی جیسے حیض کے ایام میں رہتی ہے آٹھویں دن لڑکے کا ختنہ کیا جائے،،۔

یہ حکم بھی منسوخ ہو گیا اور حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت عیسیٰ (ع) کی امت سے ختنہ کا فریضہ اٹھا لیا گیا چنانچہ کتاب مقدس ، عہد نامہ جدید کے عنوان ''رسولوں کے اعمال،، کے باب : ۱۵ شمارہ : ۲۴۔۳۰ اور پولس کے بعض خطوط میں نسخ کا یہ حکم موجود ہے۔

۷۔ کتاب مقدس کے سفر استثنا باب : ۲۴ شمارہ:۱۔۳ میں ہے:

''اگر کوئی مرد کسی عورت سے بیاہ کرے اور بعد میں اس میں کوئی ایسی بیہودہ بات پائے جس سے اس عورت کی طرف اس کی التفات نہ رہے تو وہ اس کا طلاق نامہ لکھ کراس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے اور جب اس کے گھر سے نکل جائے تو وہ دوسرے مرد کی ہو سکتی ہے لیکن اگر دوسراشوہر بھی اس سے ناخوش رہے اور اس کا طلاق نامہ لکھ کر اس کے حوالے کرے اور اسے اپنے گھر سے نکال دے یا وہ دوسرا شوہر جس نے اس سے بیاہ کیا ہو مر جائے تو اس کا پہلا شوہر جس نے اسے نکال دیا تھا اس عورت کے ناپاک ہونے کے بعد یہ مرد اس سے بیاہ نہ کرنے پائے،،۔

۳۵۵

انجیل نے اس حکم کو منسوخ کر دیا اور طلاق کو حرام قرار دیا ہے چنانچہ انجیل متیٰ کے باب: ۵۰ شمارہ : ۳۱۔۳۲ میں لکھا ہے:

''یہ بھی کہاگیا تھا کہ جو کوئی بیوی کو چھوڑے اسے طلاق نامہ لکھ دے لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سوا کسی اور سبب سے چھوڑ دے وہ اس سے زنا کراتا ہے اور جو کوئی اس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے وہ زنا کرتا ہے،،(۱)

مرقس کے باب : ۱۰ شمارہ : ۱۱۔۱۲ اور لوقا کے باب : ۱۶ شمارہ :۱۸ میں بھی اس قسم کا حکم موجود ہے۔ عہد نامہ قدیم و جدید سے نسخ کے جو موارد بیان کئے گئے وہ اہل انصاف اور حقیقت بین حضرات کیلئے کافی ہیں ۔ جو حضرات نسخ کے مزید مقامات سے آگاہ ہونا چاہیں وہ کتاب ''اظہار الحق،، (۲) اور ''الہدیٰ الیٰ دین المصطفےٰ (۳)،، کی طرف رجوع فرمائیں۔

____________________

(۱) کتاب مقدس کے اقتباسات کا اردوترجمہ ، پاکستان بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور کے شائع کردہ اردو ترجمہ سے لیا گیا ہے (مترجم)

(۲) مولف کتاب: شیخ رحمتہ اللہ ابن خلیل الرحمن الہندی ، یہ انتہائی مفید اور جلیل کتاب ہے۔

(۳) مولف : امام البلاغی ۔

۳۵۶

شریعت اسلام میں نسخ

نسخ کے واقع ہونے میں مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کیونکہ گزشتہ شریعتوں کے بہت سے احکام ، شریعت اسلام کے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے اور شریعت اسلام ہی کے کچھ احکام شریعت اسلام کے چند دوسرے احکام کے ذریعے نسخ ہو گئے ہیں چنانچہ قرآن مجید اس بات کی تصریح کر رہا ہے کہ نماز میں قبلہ اول (بیت المقدس) کی طرف رخ کرنے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا قربان کے کچھ احکام ، قرآن یا سنت قطعیہ (خبر متواترہ وغیرہ)یا اجماع یا عقل کی وجہ سے نسخ ہو سکتے ہیں؟

بہتر ہے اس پہلو سے نسخ کی بحث شروع کرنے سے پہلے ہم نسخ کی قسمیں بیان کر دیں۔ علماء کرام نے نسخ قرآن کی تین قسمیں بیان کی ہیں:

۱۔ تلاوت نسخ ہو حکم باقی رہے(۱)

علمائے کرام نے اس ضمن میں مثال کے لئے آیت رحم کو پیش کیا ہے اور فرمایا ہے کہ آیت رحم فی الحال قرآن میں موجود نہیں (نسخ ہو گئی ہے) لیکن اس آیت میں موجود حکم باقی ہے۔

ہم تحریف کی بحث میں ثابت کر چکے ہیں کہ نسخ تلاوت کا قائل ہونا بعینہ تحریف کا قائل ہونے کے مترادف ہے اور جو روایات نسخ تلاوت پر دلالت کرتی ہیں وہ سب کی سب احادہیں اس قسم کی مباحث میں خبر واحد کے ذریعے مدعا ثابت نہیں ہو سکتا۔

____________________

(۱) یعنی حکم باقی رہے اور صرف تلاوت منسوخ ہو۔

۳۵۷

تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جس طرح خبر واحد سے قرآن ثابت نہیں ہو سکتا اسی طرح خبر واحد سے نسخ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔ اجتماع کے ساتھ ساتھ ایک عہدہ اور اہم دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی اہم واقعہ جو رونما ہونے کے بعد (اگر درحقیقت ثابت ہو) عام طور پر لوگوں میں شائع اور مشہور ہو جاتا ہے وہ خبر واحد کے ذریعے ثابت نہیں ہوتا اس قسم کے واقعہ کو بعض راویوں کا نقل کرنا اور بعض راویوں کا نقل نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے نقل کیا ہے اس نے یا تو جھوٹ بولا ہے یا اسے غلط فہمی ہوئی ہے بنا برایں خبر واحد کے ذریعے یہ کیسے ثابت ہو سکتا ہے کہ آیت رجم قرآن کا حصہ ہو اور پھر منسوخ ہو گئی ہو اور یہ کہ اس کی صرف تلاوت نسخ ہوئی ہو اور اس کا حکم باقی رہے۔

ہاں! گزشتہ مباحث میں یہ بات ضرور نقل کی گئی ہے کہ جمع قرآن کے موقع پر حضرت عمرآیت رجم لے کر آئے اور انہوںنے یہ دعویٰ کیا کہ یہ بھی قرآن کا حصہ ہے لیکن مسلمانوں نے ان کے اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کیا کیونکہ اس آیت کو نقل کرنے والے صرف حضرت عمر تھے چنانچہ مسلمانوں نے آیت رجم کو قرآن میں شامل نہیں کیا یہاں سے متاخرین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آیہ رجم کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے لیکن اس کا حکم باقی ہے۔

۲۔ تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوں

تلاوت اور حکم دونوں میں نسخ کی مثال کیلئے تحریف کی بحث میں مذکور دسویں روایت کو پیش کیا گیا ہے جس کو حضرت عائشہ نے نقل کیا ہے:

اس دلیل کا جواب وہی ہے جو نسخ تلاوت کی دلیل کا تھا۔

۳۵۸

۳۔ حکم منسوخ ہو۔ تلاوت باقی رہے۔

نسخ کی یہی قسم علماء اور مفسرین میں مشہور ہے اس کے بارے میں ئی علمائے کرام نے مستقل کتب لکھی ہیں اور ان میں ناسخ اور منسوخ کو ذکر کیا ہے ان علماء میں ممتاز عالم ابو جعفر نحاس اورحافظ المظفر الفارسی قابل ذکر ہیں۔

بعض محققین اس رائے کے مخالف ہیں اور انہوں نے قرآن میں کسی منسوخ آیت کے موجود ہونے کا انکار کیا ہے البتہ اس نسخ کے امکان پر سب کا اتفاق ہے اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ قرآن میں کچھ آیات ایسی ہیں جو گزشتہ شریعتوں کے احکام کی ناسخ ہیں اور بعض آیات کے ذریعے صدر اسلام کے کچھ احکام منسوخ ہو گئے ہیں ہم ذیل میں اس مسئلے میں صحیح رائے کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں موجود حکم تین طریقوں سے نسخ ہو سکتا ہے۔

۱۔ قرآن میں موجود حکم سنت متواترہ یا اس اجماع قطعی کے ذریعے نسخ کیا جائے جو اس بات کا انکشاف کرے کہ نسخ معصوم (ع) کی طرف سے ہوا ہے نسخ کی اس قسم پر عقلاً اور نقلاً کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ اگر کسی آیت کے بارے میں یہ ثابت ہو جائے کہ اجماع یا سنت متواترہ کے ذریعے یہ نسخ ہو گئی ہے تو اس پر عمل کیا جائے گا ورنہ نسخ کا التزام نہیں کیا جائے گاکیونکہ یہ مسلم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

۲۔ قرآن میں کوئی ثابت حکم قرآن ہی کی دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو جس کی نظر اس آیہ منسوخہ پر نہ ہو اور اس کے حکم کے برطرف ہونے کو بیان نہ کرتی ہو بلکہ صرف اس بنیدپر نسخ سمجھا جائے کہ ان دونوں آئتوں میں حکم کے اعتبار سے منافات پائی جاتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ اخذ کیا جائے کہ بعد والی آیت پہلی آیت کی ناسخ ہے۔

۳۵۹

تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن میں یہ نسخ و اقع نہیں ہوا اور کیسے اس قسم کے نسخ کو مانا جا سکتا ہے جبکہ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ) ۴:۸۲

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے اور (یہ نہیں خیال کرتے کہ) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا) ہوتا تو ضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے،،۔

مگر بہت سے مفسرین نے آیات قرآنی کے مفاہیم میں کما حقہ ، غور و خوض نہیں کیا اور یہ خیال کیا کہ قرآن کی بہت سی آیات میں منافات پائی جاتی ہے اور اسی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان دونوں (باہم منافی) آیات میں سے پہلی منسوخ اور دوسری ناسخ ہے بلکہ بعض حضرات نے ان دونوں آئتوں کو بھی ایک دوسرے کے منافی قرار دیا ہے جہاں دوسری آیت پہلی آیت کیلئے قرینہ عرفیہ بن رہی ہو(۱) جس طرح خاص عام کا اور مقید مطلق کا مقصد و مراد بیان کرتا ہے اس قسم کے شبہات یا نظریات کا منشا و سرچشمہ ، فکر و تدبر کا فقدان ہے یا نسخ کے لغوی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کی مناسبت سے اس قسم کے موارد و مقامات کو نسخ کہنے میں تسامح اور چشم پوشی سے کام لیا جانا ہے اگرچہ نسخ کے اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے سے پہلے ایسے معانی کو عام طور پر نسخ کہا جاتا ہے لیکن اصطلاحی معنی کے متحقق ہونے کے بعداس کو نسخ کہنا یقیناً مجاز ہو گا جو چشم پوشی پر مبنی ہے۔

____________________

(۱) دوسری آیت پہلی آیت کا صحیح مقصد بیان کر رہی ہو(مترجم)

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

۶۔ سعیدبن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''جب تک آیہبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ نازل نہ ہوئی مسلمانوں کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ پہلا سورہ ختم ہوا ہے یا نہیں لیکن جب آیتبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ نازل ہوئی تو انہیں معلوم ہو جاتا تھا کہ پہلا سورہ ختم ہو گیا ہے :نمبر۶

۷۔ سعید نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''جب بھی جبرئیل نازل ہوتے اور بسم اللہ الرحمن پڑھتے ، آپ (ص) سمجھ جاتے کہ کوئی سورہ نازل ہو رہا ہے نمبر۱:

۸۔ ابن جریحنے روایت کی ہے :

''میرے والد نے مجھے بتایا کہ سعید بن جبیر نے انہیں کہا : ولقد ایتنک سبعا من المثانی میں ، سبع مثانی سے مراد، ام القرآن (سورہ حمد) ہے نیز سعید بن جبیر نے کہا :بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سورہ حمد کی ساتویں آیت ہے۔ جس طرح میں (سعید بن جبیر) نے تمہارے سامنےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کو پڑھا ہے اسی طرح ابن عباس نے اسے میرے سامنے پڑھا تھا اس کے بعد سعید بن جبیر نے پھر کہا :بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سورہ حمد کی ساتویں آیت ہے ابن عباس نے کہا: اللہ نے صرف تمہارے لئےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کو نازل فرمایا ہے تم سے قبل کسی اور کیلئے ایسی آیت نازل نہیں ہوئی ،،(۲)

ان کے علاوہ اور بھی اس مضمون کی روایات موجود ہیں جو شخص ان سے آگاہ ہونا چاہئے وہ کتب احادیث کی طرف رجوع کرے۔

____________________

نمبر۶ مستدرک الحاکم ، ج ۱ ، ص ۲۳۲ ۔ حاکم نے کہا ہے یہ روایت شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔

(۱) مستدرک الحاکم ج ۱ ، ص ۲۳۱

(۲) ایضاً ص ۵۵۰

۵۶۱

معارض روایات

طرفین کی ان تمام روایات کے مقابلے میں صرف دو روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورہ کا جز نہیں ہے۔

(۱) قتادہ نے انس بن مالک سے روایت کی ہے۔

''میں (انس بن مالک)نے رسول اللہ (ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ساتھ نماز پڑھی اور ان میں سے کسی کو نماز میںبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ پڑھتے نہیں سنا،،(۱)

(۲) ابن عبداللہ بن مغفل یزید بن عبداللہ نے روایت کی ہے:

''میرے والد نے نماز میںبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ پڑھتے مجھے سنا تو کہا :بیٹا خبردار! آئندہ ایسا نہ کرنا میں نے اصحاب پیغمبر (ص) میں اس عمل سے بدتر کوئی بدعت نہیں دیکھی میں نے رسول اللہ (ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کےساتھ نماز پڑھی ہے اور کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے نہیںسنا تم بھی نہ پڑھا کرو جب الحمدپڑھنا چاہو تو الحمدللہ رب العالمین سے شروع کیا کرو(۲)

جواب:

پہلی روایت کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت اہل بیت اطہار (ع) کی روایات کے مخالف ہونے کے علاوہ بھی کئی اعتبار سے قابل عمل و اعتماد نہیں۔

___________________

(۳) مسند احمد ، ج ۳ ، ص ۱۷۷ ، ۲۷۳ ، ۲۷۸ ۔ صحیح مسلم ، ج ۲ ، ص ۱۲۔ سنن نسائی ، ج ۱ ، ص ۱۴۴ ، اس مضمون کی ایک روایت عبداللہ بن مغفل سے بھی روی ہے۔

(۴) مسند احمد بن حبنل ، ج ۴ ، ص ۸۵ صحیح ترمذی ، ج ۲ ، ص ۲۳

۵۶۲

(۱) یہ روایت اہل سنت کی کئی ایسی روایات کے معارض ہے جو تواتر معنوع رکھتی ہیں خصوصاً وہ روایات جن کی سند صحیح ہے بھلا اس روایت کی تصدیق کیسے ممکن ہے اس کے علاوہ ابن عباس ، ابوہریرہ اور اسم مسلمہ بھی یہ شہادت دیتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) سورہ فاتحہ میں بسم اللہ پڑھا کرتے اور اسے سورہ کا جزء سمجھتے تھے اوریہ کہ ابن عمر کہا کرتے تھے: اگر بسم اللہ کاسورہ فاتحہ میں پڑھنا صحیح نہیں توپھر اسے کیوں لکھا گیا ہے امیر المومنین (ع) فرمایا کرتے تھے جو شخص قرات میں بسم اللہ کو ترک کرتا ہے اس نے اپنی قرات کو ناقص چھوڑا ہے نیز آپ (ع) نے فرمایا:بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سبع مثانی میں شامل ہے(۱)

(۲) یہ روایت مسلمانوں میں پائی جانے والی اس شہرت کیخلاف ہے جس کے مطابق تمام مسلمان نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کرتے تھے حتیٰ کہ ایک مرتبہ معاویہ نے اپنے دور خلافت میں بسم اللہ کو ترک کیا تو مسلمانوں نے اس سے کہا : تم نے سورہ فاتحہ کی کویت آیت چرالی ہے یا اسے بھول گئے ہو؟(۲) ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے اس امر کی کیونکر تصدیق کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے بعد دوسرے حضرات نے سورہ فاتحہ میں بسم اللہ نہیں پڑھی ہو گی۔

(۳) یہ روایت ، اس روایت کی مخالف ہے جسے انس بن مالک نے ہی نقل کیا ہے(۳) پس معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔

دوسری روایت (جو ابن عبداللہ بن مغفل نے بیان کی ہے) کا جواب بھی پہلی روایت کے جواب سے معلوم ہو جاتا ہے اس کے علاوہ یہ روایت ایسے امر پر مشتمل ہے جو حضرات دین اسلام کیخلاف ہے اس لئے کہ کسی مسلمان کو اس میں شک نہیں کہ حمد و سورہ سے پہلےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کا پڑھنا مستجب ہے اگرچہ جزء کے طور پر نہیں بلکہ تبرک کے طور پر سہی اور ابن مغفل کی روایت میں بسم اللہ کو بدعت قرار دیاگیا ہے اور اسے پڑھنے سےمنع کیا گیا ہے۔

____________________

۱) اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر ۱۴ ملا خطہ فرمائیں۔

۲) اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر ۱۵ ملا خطہ فرمائیں۔

۳) اس ضمن میں ضمیمہ نمبر ۱۶ کی طرف رجوع کریں۔

۵۶۳

(۳) سیرت مسلمین

تمام مسلمانوں کی سیرت اس بات پر برقرار ہے کہ وہ سورہ برات کے علاوہ باقی تمام سوروں میں بسم اللہ پڑھتے ہیں اور یہ بھی تواترسے ثابت ہے کہ رسول اللہ (ص) بھی بھی ہر سورہ سے پہلے بسم اللہ پڑھتے تھے اگر بسم اللہ جز سورہ نہ ہوتی تو رسول اللہ (ص) کو اس کی تصریح کرنا چاہئے تھی کیونکہ احکام بیان کرنے کے موقع پر آپ کاقرات کو بیان کرنا ظاہر کرتا ہے کہ بسم اللہ ہر سورہ کا جزء ہے ۔ رسول اللہ (ص) جس سورہ کوبھی پڑھتے تھے اگر اس میں سے کچھ آیات اس سورہ کا جزء نہ ہوتیں اور اس کے باوجود آپ (ص) اس کی وضاحت نہ کرتے تو یہ آپ (ص) کی طرف سے جہالت اور تاریکی میں رکھنے کے مترادف ہوتا جو بذات خود قبیح ہے اور وحی الٰہی کے بارے میں تو بطریق اولیٰ قبیح ہوتا اور اگر رسول اللہ (ص) نے بسم اللہ کے جز سورہ نہ ہونے کی تصریح فرمائی ہوتی تو خبر متواتر کے ذریعے اسے نقل کیا جاتا جبکہ خبر متواتر تو کجا خبر واحد کے ذریعے بھی یہ بات نقل نہیں کی گئی۔

(۴) تابعین اور صحابہ کا قرآن

اس میں کوئی شک نہیں کہ (حضرت عثمان کے قرآن جمع کرنے سے پہلے اور بعد بھی) تابعین اور صحابہ کے پاس موجود قرآنی نسخے بسم اللہ الرحمن الرحیم پر مشتمل تھے اگر بسم اللہ سورہ کا جزء نہ ہوتی تو اسے تابعین اور صحابہ اپنے قرآنوں میں درج نہ کرتے کیونکہ صحابہ نے دوسروں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قرآن میں غیر قرآن کو شامل کیا جائے حتیٰ کہ بعض متقدمین نے تو قرآن کو نقطے ، حرکات اور اعراب دینے سے بھی منع فرمایا ہے اس کے باوجود اپنے قرآنوں میں بسم اللہ شامل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں موجود دوسری تکرار شدہ آیات کی طرح بسم اللہ بھی قرآن کا حصہ ہے۔

اس سے یہ احتمال بھی باطل ہو جاتا ہے کہ تابعین نے سوروں میں فاصلہ کی خاطر بسم اللہ کوقرآن میں درج کیا ہو یہ احتمال اور دعویٰ اس امر سے بھی باطل ہو جاتاہے کہ بسم اللہ کو سورہ حمد کے ساتھ توذکر کیاگیا ہے لیکن سورہ برات کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا اگر بسم اللہ کو دو سوروں کے درمیان فاصلے کی خاطر ذکر کیا جاتا تو سورہ الحمد کے شروع میں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہئے تھا اس لئے کہ الحمد سے پہلے تو کوئی سورہ نہیں ہے کہ اس کے اور الحمد کے درمیان فاصلے کی خاطر بسم اللہ کو ذکر کرتے اس کے برعکس سورہ برات کے شروع میں بسم اللہ کا ذکر ہوناچاہئے تھا تاکہ سورہ برات اور اس سے پہلے کہ سورہ میں فاصلہ ہو اس سے ہمیںیقین ہوتا ہے کہ بسم اللہ سورہ الحمد کا جزء ہے اور سورہ برات کا جزء نہیں ہے۔

۵۶۴

منکرین کے دلائل

بسم اللہ کے جز ہونے کے منکرین نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں تین دلائل پیش کئے ہیں:

۱۔ قرآن صرف خبر متواتر کے ذریعے ثابت ہو سکتا ہے اور جس آیت کے جزء سورہ ہونے میں اختلاف ہو وہ قرآن کا حصہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے میں اختلاف ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہب سم اللہ کا جزء قرآن ہوناثابت نہیں۔

جواب: اولاً ، بسم اللہ کا جزء قرآن ہونا اہل بیت (ع) کی متواتر روایات کے ذریعے ثابت ہے اور اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ خبر متواتر رسول اللہ (ص) سے منقول ہو یا اہل بیت اطہار (ع) ہے اس لئے کہ اطاعت رسول (ص) کی طرح اطاعت اہل بیت (ع) بھی واجب ہے۔

ثانیاً : یہ جب بہت سے صحابہ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور یہ متواتر روایات سے بھی ثابت ہے تو ایک چھوٹے سے ٹولے کا انکار ، جس کی بنیاد ایک غلط فہمی ہے، کیا ضرر پہنچا سکتا ہے۔

ثالثاً : یہ تواترسے ثابت ہے کہ رسول اللہ (ص) مقام بیان میں جب بھی قرآن کے کسی سورے کی تلاوت فرماتے پہلے بسم اللہ کی تلاوت فرماتے تھے آپ (ص) نے اس کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ بسم اللہ قرآن کا جزء نہیں ہے یہ امرقطعاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا جز ہے۔

ہاں !اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بسم اللہ سورہ کا بھی جزء ہے البتہ اس کے اثبات کیلئے فریقین کی روایات کثیرہ کے علاوہ وہ روایات کافی ہیں جن کاذکر اس سے پہلے ہو چکا ہے اور بسم اللہ کا جزء ہونا صحیح خبر واحد سے ثابت ہو جاتا ہے ضرور ینہیں کہ وہ خبر متواتر ہو۔

۵۶۵

۲۔ دوسری دلیل وہ روایت ہے جو مسلم نے حضرات ابوہریرہ سے نقل کی ہے حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں:

''میں نے رسول اللہ (ص) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تع الیٰ فرماتا ہے میں نے نماز کو اپنے اور بندوں کے درمیان تقسیم کر دیا ہے اور میرا بندہ جو سوال کرے گا میں اسے پورا کروں گا جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتے تو خالق فرماتا ہے : میرے بندے نے میری حمد و ثناء کی ہے اور جب بندہ کہے : الرحمن الرحیم خالق فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ستائش کی ہے اور جب بندہ کہے : مالک نعبد و ایاک نستعین تو خالق فرماتا ہے : یہ (ذکر) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرابندہ جو چاہے گا میں اسے دوں گا اور بندہ جب کہے : اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیرا لمغضوب علیھم والضالین۔ تو خالق فرماتا ہے: یہ صرف میرےب ندے کا ہے اور اسے میں وہ کچھ دوںگا جو وہ مانگے گا،،(۱)

اس روایت سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ اس روایت کے ظاہری مفہوم کی رو سے آیہ کریمہ ایاک نعبد و ایاک نستعین کاما بعد اس کے ماقبل کے برابر ہے لیکن اگر بسم اللہ کو سورہ فاتحہ کاجزء مان لیا جائے تو اس روایت کا معنی و مفہوم صحیح نہیں رہتا۔ اس لئے کہ سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل ہے (جیسا کہ اس سے قبل معلوم ہو چکا ہے) اگر بسم اللہ کو سورہ کا جزء مان لیا جائے تو یہ آیہ ایاک نعبد و ایاک نستعین سے آخر تک دو ہی آیتیں ہوں گی۔ اس

طرح اس آیت سے پہلے کی آیات اس کے مابعد کی دو گنی ہوں گی اور آیت ایاک نعبد تک سورہ فاتحہ دو برابر حصو میں تقسیم نہیں ہو گی جو اس روایت کے منافی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲ ، ص ۶ ، سنن ابوداؤد ، ج ۱ ، ص ۱۳۰ ، سنن نسائی ، ج ۱ ، ص ۱۴۴

۵۶۶

جواب: اولاً: اس روایت کا راوی علاء ہے جس کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے بعض نے اس کی توثیق کی ہے اور بعض نے اس کی تضعیف کی ہے اس کو کمزور اور اس کی روایت کو ناقابل عمل قرار دیا ہے۔

ثانیاً بفرض تسلیم اگر اس روایت کی دلالت درست ہو تو بھی یہ قابل قبول نہیں اس لئے کہ یہ ان گزشتہ روایات سے معارض ہے جن کے مطابق سورہ فاتحہ بسم اللہ سمیت سات آیات پر مشتمل ہے۔

ثالثاً : یہ روایت اس امرپر دلالت نہیں کرتی کہ سورہ فاتحہ الفاظ کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ معنی کے اعتبارسے دو برابر حصوں میں تقسیم ہوتی ہے بنا برایں روایت کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے مدلول کے اعتبار سے سورہ فاتحہ کابعض حصہ خداسے متعلق ہے اور بعض حصہ بندوں سے متعلق ہے۔

رابعاً: اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ سورہ فاتحہ کو الفاظ کے اعتبار سے تقسیم کیا گیا ہے تو اس امر پر کوئی دلیل نہیں کہ یہ تقسیم آیات کی تعداد کے اعتبار سے کی گئی ہو ۔ شاید یہ تقسیم کلمات (الفاظ) کے اعتبار سے کی گئی ہو اس لئے کہ مکرر الفاظ کو حذف کرنے کے بعد اور بسم اللہ کو شامل کر کے ایاک نعبد و ایاک نستعین سے پہلے بھی دس کلمے ہیں اور اس کے بعد بھی۔

۳۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے :

''سورہ کوثر تین آیات پر مشتمل ہے(۱) اور سورہ ملک تیس آیات پر(۲) ،،

اگر بسم اللہ سورہ کا جزء ہو تو یہ تعداد درست نہیں رہتی۔

جواب: سورہ کوثر کے بارے میں حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت صحیح السند مان لی جائے تو یہ انس کی اس گزشتہ روایت سے معارض ہے جو مقبولہ ہے جسے موطا کے علاوہ تمام صحاح نے روایت کیا ہے(۳)

____________________

(۱) کتب روایات میں یہ روایت مجھے نہیں ملی۔

(۲) مستدرک الحاکم ، ج ۱ ، ص ۵۶۵ ۔ صحیح ترمذی ، ج۱۱ ، ص ۳۰ ، کنز العمال ، ج۱ ، ص ۵۱۶ ، ۵۲۵

(۳) تیسیرالوصول ، ج۱ ، ص ۱۹۹

۵۶۷

بنا برایں یا تو حضرت ابوہریرہ کی روایت ترک ہونی چاہئے یااس کی تاویل یہ کی جائے کہ سورہ کی تین آیات سے مرادوہ آیات ہیں جو صرف اس سورہ سے مختص ہیں اور یہ دوسرے سوروں میں موجود نہیں بخلاف بسم اللہ کے جو تمام سوروں میں مشترک موجود ہے اور یہی جواب سورہ ملک کے بارے میں بھی دیا جاسکتا ہے۔

تحلیل آیتہ

الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾

''سب تعریف خدا ہی کیلئے (سزاوار) ہے جو سارے جہان کا پالنے والا بڑا مہربان رحم والا ہے ، روز جزا کا حاکم ہے،،۔

قرات

اکثر علمائے قرات ''الحمد،، کی دال کو پیش اور ''للہ،، کے لام کو زیر دیتے ہیں بعض علمائے قرآت نے الحمد کی دال کو للہ کے لام کے تابع قرار دیا ہے اور اسے زیر دیا ہے اور بعض دوسرے علمائے قرات للہ کے لام کو الحمد کی دال کاتابع بنا کر اسے پیش دیتے ہیں لیکن یہ دونوں قرابتں غیر مشہور اور شاذ ہیں ان کی طرف توجہ بھی نہیں کرنی چاہئے ۔

لفظ ''مالک،، کی قرات کے بارے میں بھی اختلاف ہے اس میں دو قول مشہور ہیں۔

۱) یہ فاعل کے وزن پر مالک پڑھا جائے۔

۲) کتف کے وزن پر ملک یوم الدین پڑھا جائے۔

بعض قاریوںنے فلس کے وزن پر ملک پڑھا ہے ان کے مقابلے میں بعض نے فعیل کے وزن پر ملیک اور حضرت ابو حنیفہ نے صیغہ ماضی کی صورت میں ملک پڑھا ہے لیکن پہلے دو اقوال کے علاوہ تین اقوال شاذ اور ناقابل عمل ہیں۔

۵۶۸

قراتوں کی ترجیحات

پہلی دو مشہور قراتوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان میں سے کونسی مقدم ہے:

(۱) بعض علمائے قرات کا کہنا ہے کہ ''مالک،، زیادہ بہتر ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ ''مالک،، کا مفہوم '' ملک،، کی نسبت عام ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ فلاںآدمی اپنی قوم کامالک ہے۔

اس جملے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ آدمی مملکیت اور مالکیت (جو اس لفظ کے اصلی اور لغوی معنی ہیں) کے علاوہ اپنی قوم پر حکومت اور سرپرستی کا حق بھی رکھتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں آدمی اپنی قوم کا''ملک،، (بادشاہ) ہے تو اس جملے سے یہ سمجھا جائے گا کہ یہ آدمی اپنی قوم پر حکومت و سلطنت کا حق رکھتا ہے مگر مالکیت و ملکیت کا مفہوم نہیں سمجھا جائے گا پس مالک پڑھنا ملک پر مقدم ہو گا۔

(۲) اس کے مقابلے میں بعض علمائے قرات ''ملک،، کو ترجیح دیتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ مالک زمانہ کی طرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ملک زمانہ کی طرف مضاف ہوتا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے :ملک العصر (بادشاہ زمان) نیز کہا جاتا ہے :ملوک العصار المتقدمة (گزشتہ زمانے کے بادشاہ) چونکہ سورہ حمد میں ''ملک،، زمانہ (یوم) کی طرف مضاف استعمال ہوا ہے اس لئے ''ملک،، پڑھا جانا چاہئے ''مالک،، نہیں۔

ترجیحات کابے فائدہ ہونا

یہ وہ دو دلیلیں تھیں جو ''مالک،، اور ''ملک،، کے قائل علمائے قرات نے پیش کی ہیں لیکن ہمارے خیال میں یہ بحث بے فائدہ ہے بلکہ بنیادی طورپر مشہور قراتوں میں سے کسی ایک کے انتخاب اور اسے اختیار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے کہاگر یہ قراتیں تمام کی تمام رسول اللہ (ص) سے بطور تواتر منقول ہوں توساری کی ساری قراتوں کو قرآن کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور اس اعتبار سے قرآن کی آیات اور اس کے کلمات (الفاظ) میں کوئی فرق نہیں اور اگر یہ قراتیں بطور تواتر ثابت نہ ہوں (چنانچہ حق بھی یہی ہے) اس صورت میں اگر ایک قرات کی ترجیح اور اس کے انتخاب سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا علم و یقین حاصل ہو جائے تو پھر اس بحث میں پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

۵۶۹

لیکن حقیقت یہ ہے کہ بحث و تحقیق سے ایک قرات کو ترجیح دینے اور اسے منتخب کرنے سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا یقین حاصل نہیں ہو سکتا اور جب تک ایک قرات کے انتخاب اورت رجیح سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا علم حاصل نہ ہو (اکثر اوقات دوسری قرات کے باطل ہونے کایقین حاصل نہیں ہوتا) یہ بحث بے نتیجہ اور بے فائدہ ہے۔ جبکہ یہ مسلم ہے کہ معروف و مشہور قراتوں میں سے کسی بھی قرات کوپڑھا جاسکتا ہے:

مشہور قراتوں میں سے ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کی بحث بے فائدہ ہے لفظ ''مالک،، اور ''ملک،، میں اس لئے کہ ''مالک،، ، ''ملک،، میں فرق و تفاوت اس جگہ ظاہر ہوتا ہے جہاں''ملک،، ایک اعتبار اورقرارددی حکومت و سلطنت کیلئے استعمال ہو جس میں سلطنت و حکومت کے مراتب بھی مختلف موارد اور مقامات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں کبھی حاکمیت اورسلطنت کے ساتھ ملکیت بھی حاصل ہوتی ہے اور کبھی ملکیت حاصل نہیں ہوتی لیکن اگر یہی لفظ (ملک) خدا کیلئے استعمال ہو جس کی حکومت حقیقی ہے اور اس کاسرچشمہ پوری کائنات پر اللہ کا احاطہ ہے تو اسی احاطہ کی وجہ سے اللہ پر ''مالک،، اور ''ملک،، دونوں صادق آتے ہیں۔

یہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور ملک کے زمانہ کی طرف اضافت جائز نہ ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ''مالک،، جب اللہ کیلئے استعمال ہو تب ہی یہ زمانہ کی طرف مضاف نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ جس طرح دیگر موجودات عالم کام الک ہے اسی طرح زمانہ کا بھی مالک ہے بنا برایں زمانہ کی طرف مضاف ہونے میں بھی ''مالک،، مثل ''ملک،، کے ہے اور اس اعتبار سے بھی ''ملک،، کو ''مالک،، پر کوئی ترجیح حاصل نہیں۔

بعض حضرت ''ملک،، کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ اگر یہ لفظ ''مالک،، ہو تو اس صورت میں ''یوم،، کی طرف اس کی اضافت ، اضافت لفظی ہو گی جو تعریف (معرفہ) کا فائدہ نہیں دیتی اور اضافت سے پہلے کی طرح یہ نکرہ رہے گا اس طرح لازم آئے گا کہ نکرہ ، معرفہ کی صفت واقع ہو ، جو جائز نہیں لیکن اگر یہ لفظ ''ملک،، ہو تو اس صورت میں ''ملک،، سلطان کے معنی میں ہو گا جو غیر مشتق کے حکم میں ہو گا اور اس طرح یوم کی طرف ملک کی اضافت ، اضافت معنویہ ہو گی اور یہ تعریف کافائدہ دے گی اس طرح یہ اعتراض لازم نہیں آئے گا کہ نکرہ ، معرفہ کی صفت واقع ہو۔

۵۷۰

دوسروں کا جواب:

تفسیر کثاف اور دیگر کتب میں اس اعتراض کا یہ جواب دیاگیا ہے کہ اسم فاعل کی اضافت اس صورت میں اضافت لفظی کہلاتی ہے جس وہ (اسم فاعل) حال یہ مستقبل کے معنی میں ہو لیکن اگر اسم فاعل ماضی یا دوام اور ہمیشگی کے معنی میں استعمال ہو تو ان دونوں صورتوں میں اسم فاعل کی اضافت ، اضافت معنوی ہوتی ہے اور اپنے مضاف الیہ سے کسب تعریف کرتی ہے جیسے اسم فاعل کے معنی ماضی ہونے کی مثال ہے:

( الْحَمْدُ لِلَّـهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ) ۳۵:۱

''ہر طرح کی تعریف خدا ہی کے لئے (مخصوص ) ہے جو سارے آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا فرشتوں کو (اپنا) قاصد بنانے والا ہے،،۔

اور اسم فاعل کے بمعنی دوام ہونے کی مثال ہے:

( تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّـهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ) ۴۰:۲

(اس ) کتاب (قرآن) کا نازل کرنا (خاص بارگاہ) خدا سے ہے جو (سب سے) غالب بڑا واقف کار ہے۔

( غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ ) ۴۰:۳

''گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والا سخت عذاب دینے والا صاحب فضل و کرم ہے،،۔

واضح ہے کہ پہلی آیت میں ''فاطر،، اور ''جاعل،، ماضی کے معنی میں اور دوسری آیت میں ''غافر الذنب،، اور ''قابل التوب،، دوام کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں اضافت کی وجہ سے معرفہ بن گئے ہیں اور اللہ کی صفت واقع ہوئے ہیں۔

سورہ فاتحہ میں ''مالک،، کی اضافت بھی ایسی ہی ہے کیونکہ لفظ ''مالک،، کا معنی ہے روز قیامت اللہ کی مالکیت دائمی اور ابدی ہے بنا برایں ''مالک،، کی اضافت ''یوم،، کی طرف ، اضافت معنی ہو گی اور کسب تعریف کے بعد لفظ اللہ کی صفت واقع ہو سکے گی۔

۵۷۱

اس اعتراض کا تحقیقی جواب یہ ہے کہ اضافت چاہے لفظی ہو یا معنوی ، نکرہ کو معرفہ نہیں بنا سکتی بلکہ اضافت صرف تخصیص کافائدہ دیتی ہے اور لفظ کے مفہوم اور اس کے مصادیق کے دائرے کوتنگ کر دیتی ہے تعریف و تعیین تو دوسرے قرائن و شواہد کے ذریعے سمجھی جائے گی۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ جم لہ ''غلام لزید،، اور ''غلام زید،، میں کوئی فرق نہیں جس طرح ''غلام لزید،، صرف تخصیص کا فائدہ دیتا ہے اسی طرح ''غلام زید،،بھی صرف تخصیص کا فائدہ دیتا ہے پس جس طرح اضافت معنوی کے نتیجے میں تخصیص حاصل ہوتی ہے اسی طرح اضافت لفظی میں بھی تخصیص حاصل ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اضافت لفظی کی تخصیص اضافت کی وجہ سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ اضافت کے بغیر حاصل ہوئی ہے اضافت لفظی سے صرف تخفیف حاصل ہوئی ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مضاف کسی معرفہ کی صفت واقع نہ ہو سکے اس لئے کہ اگر تخصیص کی وجہ سے معرفہ کی صفت قرار پانا صحیح ہو تو مانحن فیہ (اضافت لفظی) میں مضاف کی تخصیص حاصل ہو جاتی ہے اور اگر معرفہ کی صفت بننے کا مجوز وہ تعریف (معرفہ ہونا) ہو جو خارجی شواہد سے حاصل ہو تو اس میں دونوںا ضافتیں مشترک ہیں بنا برایں اضافت لفظی اور اضافت معنوی میں جتنا فرق بیان کیا جاتا ہے وہ سب بے نتیجہ ہے۔

اس مقام پر ایک بحث باقی رہتی ہے کہ جہاں تک مقام اثبات اور وقوع کا تعلق ہے اس بات پر اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر مصاف باضافت لفظیہ صفت مشبہ ہو تو معرفہ کی صفت واقع نہیں ہوس کتا ہے لیکناگر صفت مشبہ کے علاوہ کوئی اور مشتق مضاف واقع ہو تو اس صورت میں ''سیبویہ،، نے ''خلیل،، اور ''یونس،، سے یہ بات نقل کی ہے کہ اکثر کلام عرب(۱) میں ایسے مشتقات جو مضاف ہوں ، معرفہ کی صفت واقع ہوئے ہیں اور قرآن میں جہاں کہیں بھی مضاف

____________________

۱) تفسیر ابی حیان ، ج ۱ ص ۲۱

۵۷۲

باضافت لفظیہ معرفہ کی صفت قرار پایا ہے، اسی قبیل سے ہے۔ یعنی صفت مشبہ کے علاوہ کوئی مشتق ہے جو مضاف واقع ہوا ہے اور معرفہ کی صفت قرار پایا ہے۔

قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مضاف باضافت لفظی معرفہ کی صفت واقع ہوا ہے اسے اسی پر محمول کیا گیا ہے چنانچہ ''مانحن فیہ،، (مالک یوم الدین) میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

باقی رہا صاحب ''کشاف،، کا یہ کہنا کہ ''مالک یوم الدین،، میں اسم فاعل استمرار کے معنی میں استعمال ہواہے اور جب اسم فاعل استمرار کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی اضافت ، لفظی نہیں معنوی ہوتی ہے یہ قول واضح طور پر باطل ہے اس لئے کہ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام موجودات کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس کا یہ احاطہ اور مالکیت دائمی و ابدی ہے لیکن آیت میں ''مالک،، کو ''یوم الدین،، کی طرف مضاف کیا گیا ہے اور ''یوم الدین،، وجود کے اعتبارسے متاخر ہے بنا برایں لامحالہ اسم فاعل ، مستقبل کے معنی میں ہو گا اور اضافت ، اضافث لفظی ہو گی۔

اسم فاعل مضاف کےبارے میں یہ فرق بھی درست نہیں کہ اگر اسم فاعل بمعنی ماضی ہو تو معرفہ کی صفت بن سکتا ہے ورنہ نہیں کیونکہ کسی بھی چیز کے حدوث اور تحقق کا لازمہ یہ ہے کہ وہ متعین اور معلوم ہو یہ فرق اس لئے صحیح نہیں کہ کسی بھی شئی کا حدوث مستلزم علم نہیں ہوا کرتا عین ممکن ہے کہ ایک چیز درواقع متحقق ہو لیکن سب کو معلوم نہ ہو کسی چیز کے معرفہ بننے کا دارو مدار یہ ہے کہ وہ فی الحال متکلم و مخاطب کو معلوم ہو صرف بذات خود اس کامتحقق ہونا کافی نہیں ہے خلاصہ یہ کہ کلام عرب میں وہی قواعد قابل اتباع ہیں جو فصیح عربوں نے استعمال کئے ہوں اور بے معنی توجیہات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا جن کا ذکر نحوی حضرات کیا کرتے ہیں۔

۵۷۳

الحمد:

حمد وہ مفہوم ہےجو ملامت کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے اور حمد ہر اس اچھائی پر کی جاتی ہے جو انسان کے ارادہ و اختیار سے صادر ہو خواہ تعری فکرنے والے پر احسان ہو یا نہ ہو '' شکر،، کفران (ناشکری) کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے اور اسے نعمت و احسان کے بدلے میں ادا کیا جاتا ہے ''مدح،، مذمت کے مقابلے میں آتا ہے اس میں یہضروری نہیں ہے کہ یہ کسی اختیاری عمل کےب دلے میں انجام پائے چہ جائیکہ یہ احسان کے بدلے میں ہو لفظ ''الحمد،، میں الف لام جنس ہے اس لئے کوئی خاص اور معہود حمد پیش نظر نہیں اللہ ، رحمن اور رحیم کی وضاحت اس سے قبل ہو چکی ہے۔

الرب:

یہ لفظ ''ربب،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے مصلح ، مالک اور مزتی اور اسی سے ''ربیبہ،، (پروردہ) بنایا گیا ہے ۔ یہ لفظ جب اللہ کے علاوہ کسی کیلئے استعمال ہو تو اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے ''رب السفینتہ،، (کشتی کامالک) ''رب الدار،، (گھر کا مالک)

العالم:

یہ ایسی جمع ہے جس کا کوئی مفرد نہیں۔ جس طرح ''رھط،، اور ''قوم،، ہیں کبھی اس کا اطلاق ایک حقیقت کی متعدد اشیاء کے مجموعہ پر ہوتا ہے ۔ جیسے عالم جمادات ، عالم نباتات اور عالم حیوانات ہیں کبھی یہ ایسی چیزوں کے مجموعہ کیلئے بولا جاتا ہے جن کا زمانہ یا مکان کے اعتبار سے آپس میں کوئی ربط و تعلق ہو جیسا کہ عالم صبا (بچپن) عالم ذر ، عالم دنیا اور عالم آخرت ہے کبھی تمام موجودات عالم پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔اس کی جمع کبھی واؤ اور نون کے ساتھ آتی ہے، جیسے ''عالمون،، اور کبھی فواعل کے وزن پر جیسے ''عوالم،، ہے لغت عرب میں عالم کے علاوہ کوئی اور ایسا لفظ نہیں جس کا مفرد فاعل کے وزن پر ہو اور اس کی جمع واؤ اور نون کے ساتھ آئے۔

۵۷۴

الملک:

یہ لفظ احاطہ اور سلطنت کے معنی میں آتا ہے البتہ احاطہ ، سلطنت اور ملکیت کبھی تو حقیقی اور خارجی ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ موجودات عالم کا محیط و مالک ہے کیونکہ ہر موجود و مخلوق اپنے خالق اور موجد سے قائم اور وابستہ ہے اور اپنی علت موجدہ سے وابستگی کے علاوہ اس کا اپنا کوئی مستقل وجود نہیں ہے ہر ممکن اپنے حدوث و پیدائش اور بقاء میں اپنے موثر کا محتاج ہے اور احتیاج و نیاز اس سے کبھی بھی جدا نہیں ہوتی۔

( وَاللَّـهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ ) ۴۷:۳۸

''اور خدا تو بے نیاز ہے اور تم (اس کے) محتاج ہو،،

کبھی مالکیت و سلطنت ، اعتباری اور قراردادی ہوتی ہے جس طرح لوگوںکوچیزوں کی ملکیت حاصل ہوتی ہے زید اپنے پاس موجود چیزوں کا صرف اس معنی میں مالک ہے کہ ان چیزوں کی ملکیت اور اختیار فرض کیا جاتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب ملکیت کے اسباب میں سے کوئی سبب وجود میں آئے جس طرح عقد ، معاملہ ، ارث اور آزاد علاقوں سے لکڑیاں وغیرہ جمع کرنا ہے۔

فلاسفروں کے نزدیک ملکیت اس حالت اور کیفیت کو کہا جاتا ہے جو ایک چیز کے احاطہ کرنے سے حاصل ہو یہ نو اعراض میں سے ایک عرض ہے جسے مقولہ جدہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ عمامے کا سر کو اور انگوٹھی کا انگلی کو گھیر لینے سے ایک صورت حاصل ہوتی ہے۔

الدین:

یہ جزاء اور حساب کے معنی میں آتا ہے ۔ سورہ فاتحہ میں ان دونوں میں سے جس معنی کا بھی ارادہ کیا جائے مناسب ہے کیونکہ حساب ، جزاء کا مقدمہ اورپیش خیمہ ہوتا ہے اور روز حساب یوم جزاء ہی کا نام ہے۔

۵۷۵

تفسیر:

خالق کائنات نے یہ بیان فرمایا ہے کہ حمد و ثناء کی حقیقت صرف اللہ کی ذات سے مختص ہے اس لئے کہ :

(۱) کسی بھی فعل کے حُسن اور اس کے کمال کا منشاء فاعل کاحسن اور کمال ہوا کرتا ہے بایں معنی کہ اگر فاعل اچھا اور حسن ہے تو اس سے اچھے افعال صادر ہوتے ہیں اگر فاعل برا ہے تو اس سے برے افعال صادر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مل مطلق ہے اس میں کسی قسم کے عیب اور نقص کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا اس کا ہر فعل بھی ہر لحاظ سے کامل اور بے عیب ہے۔

( قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ ) ۱۷:۸۴

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تم کہہ دو کہ ہر ایک اپنے (اپنے) طریقہ پر کار گزاری کرتا ہے،،

اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی مخلوقات میں کوئی نہ کوئی بلکہ کئی ذاتی عیب و نقائص پائے جاتے ہیں لہٰذا لامحالہ ان کے افعال بھی نقص و عیب سے خالی نہیں ہوں گے معلوم ہوا خالص حسن اور اچھے افعال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مختص ہیں اور غیر خدا سے خالص حسن اچھے افعال کا صادر ہونا محال ہے اسی لئے حمد کی مستحق صرف اللہ کی ذات ہے اور غیر خدا کا لائق حمد ہونا محال ہے۔

اس حقیقت کی طرف سورہ فاتحہ میں جملہ : الحمدللہ کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے گزشتہ مباحث سے معلوم ہو چکا ہے کہ لظ ''اللہ،، نام ہے اس ذات مقدس کا جو تمام صفات مال کی جامع ہے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

''ایک مرتبہ میرے والد بزرگوار امام محمدباقر (علیہ السلام) کا ایک خچر گم ہو گیا۔ اس موقع پر آپ (ع) نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ میرا خچر میری طرف لوٹا دے تو میں اللہ کا ایسا شکر ادا کروں گا جس پر وہ راضی ہو جائے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ آپ (ع) کا خچر زین و لگام سمیت لا کر آپ (ع) کے حوالے کر دیا گیا آپ (ع) نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور صرف اتنا فرمایا : الحمدللہ۔ پھر فرمایا: میں نے اللہ تعالیٰ کی کوئی حمد و ثناء نہیں چھوڑی اور تمام تعریفوں کو اللہ کی ذات سے مختص کیا ہے حمد وثناء کی تمام قسمیں اس جملے میں داخل ہیں(۱)

____________________

۱) تفسیر البرہان ، ج ۱ ، ص ۲۹۔ اصول کافی ، باب الشکر ، ص ۳۵۶

۵۷۶

نیز آپ (ع) نے فرمایا:

اگر اللہ اپنے کسی بندے کو کسی بڑی یا چھوٹی نعمت سے نوازے اور بندہ الحمدللہ کہے تو اس سے اللہ کا شکر ادا ہو جاتا ہے(۱)

(۲) عقول ، نفوس ، ارواح و اشباح غرض ہر ممکن کا کمال اول اس کا اپنا وجود ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ممکن کا وجود ، اللہ کی طرف سے ہے اور وہی اس کا خالق و موجد ہے۔

دوسرا کمال وہ امور اور صفات ہیں جو کسی کی فضیلت اور امتیاز کاباعث بنتی ہیں اگر یہ صفات مخلوق کے ارادہ و ا ختیار سے باہر ہوں تو یہ بھی یقیناً اللہ کی طرف سے ہی ہوں گی جس طرح نباتات کا نشوونما پانا ، حیوانات کا اپنے فائدے اور نقصان کوسمجھنا اور انسان کا اپنے مقصد کو بیان کرنے پر قادر ہونا ہے اور جو افعال مخلوق کے ارادے اور اختیار سے صادر ہوں اگرچہ یہ اختیاری افعال کہلاتے ہیں لیکن درحقیقت ان کامنشاء اور منبع بھی اللہ کی ذات ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کار خیر کی توفیق دیتی اور راہ حق کی رہنمائی فرماتی ہے چنانچہ حدیث میں آیا ہے۔

''ان الله اولی بحسنات العبدمنه،، (۲)

''بندے کی نیکیوں میں بندے کی نسبت اللہ کا حصہ زیادہ ہے،،

اس حقیقت کی طرف جملہ ''رب العالمین،، کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے۔

(۳) ہر اچھا فعل جو اللہ سے صادر ہوتا ہے اس کا فائدہ اللہ کو نہیں ہوتا کیونکہ اللہ وہ کامل مطلق ہے جس کا مزید کامل ہونا یا کمال کو طلب کرنا محال ہے اور اللہ کا ہر فعل محض احسان ہے جو وہ اپنی مخلوق پر کرتا ہے جو اچھا کام خیر خدا سے صادر ہوتا ہے اگرچہ بعض اوقات ظاہراً دوسروں پر احسان سمجھا جاتا ہے لیکن درحقیقت یہ احسان اپنے اوپر کیا جاتا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ ۖ ) ۱۷:۷

''اگر تم اچھے کام کروں گے تو اپنے فا ئدے کیلئے اچھے کام کرو گے،،

۵۷۷

پس معلوم ہوا خالص احسان صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور وہی حمد و ثناء کا مستحق ہے کوئی دوسرا نہیںا س حقیقت کی طرف جملہ( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) میں ا شارہ کیا جاتا ہے۔

اس مقام پر یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ کسی بھی ذات کے اختیاری فعل پر اس کی حمد وثناء کبھی اس کی نعمتوں کے شوق و رغبت اور خوف و عقاب سے ہٹ کر صرف اس ذات کی خوبی کے ادراک کی وجہ سے کی جاتی ہے اور کبھی محسن کے انعام و احسان اور رغبت و خوف کے پیش نظر اس کی حمد و ثناء کی جاتی ہے کبھی انعام و احسان کی رغبت و لالچ میں کسی کی تعریف کی جاتی ہے اور کبھی کسی کے خوف کی وجہ سے اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ حمد کی پہلی وجہ کی طرف جملہ( الْحَمْدُ لِلَّـهِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے یعنی ہم اللہ کی اس لئے تعریف کرتے ہیں کہ وہ حمد کا مستحق ہے اور تمام صفات کمال کا جامع ہے ہر قسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے۔

حمد کی دوسری وجہ کی طرف جملہ ''( رَبِّ الْعَالَمِينَ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ اللہ ہی نے اپنے بندوں کو خلقت و ایجاد کی نعمت سے نوازا ہے اور ان کی تربیت کر کے انہیں کمال تک پہنچایا ہے۔

حمد کی تیسری وجہ کی طرف جملہ( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ رحمت ایک ایسی صفت ہے جو اللہ کی نعمتوں کی طرف رغبت اور اس سے طلب خیر کی متقاضی ہے۔

____________________

۱) اصول کافی ، باب الشکر ، ص ۳۵۶

۲) الوافی باب الخیر و القدر ، ج ۱ ، ص ۱۱۹

۵۷۸

حمد کی چوتھی وجہ کی طرف جملہ( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ جس کی طرف سب لوگوں کی باز گشت ہے وہ اس قابل ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور اس کی مخالفت سے احتراز کیا جائے۔

( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) کی تفسیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ روز قیامت وہ دن ہے جب اللہ کا عدل و انصاف اور رحم و کرم ظاہر ہو گا اور یہ دونوں ایسی حسین و جمیل نعمتیں ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی حمد کی جانی چاہئے جس طرح دنیا میں خلق کرنا ، تربیت دینا اور لوگوں پر احسان کرنا اللہ کے افعال اور اس کی صفات جمیلہ ہیں جن کی وجہ سے وہ حمد و ثنا کا مستحق ہے اسی طرح روز آخرت اس کی بخشش و مغفرت ، اطاعت گزاروں کو ثواب دینا اور گناہ گناروں کو سزا دینا یہ سب اس کے افعال اور اس کی صفات جمیلہ ہیں جن کے بموجب وہ حمد و ثناء کے لائق ہے۔

ہمارے اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ جملہ ''الرحمن الرحیم،، تاکید کی خاطر مکرر نہیں لایا گیا جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے بلکہ اس جملے میں حمد کے اللہ سے مختص ہونے کی وجہ بیان کی گئی ہے بسم اللہ میں بطور تبرک( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) کا ذکر کرنا کافی نہ تھا اس لئے بعد میں اس کا لانا ناگزیر تھا۔

تحلیل آیت

( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ )

''خدایا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں،،

۵۷۹

لغت

العبادۃ

لغت میں ''عبادت،، تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے:

(۱) اطاعت ،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

( أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ) ۳۶:۶۰

''اے آدم کی اولاد کیا میں نے تمہارے پاس یہ حکم نہیں بھیجا تھا کہ (خبردار) شیطان کی پرستش نہ کرنا ، وہ یقینی تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے،،

آیت میں شیطان کی جس عبادت کی نہی کی گئی ہے اس سے مرد اس کی اطاعت ہے۔

(۲) خشوع و خضوع چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

( فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ ) ۲۳:۴۷

''آپس میں کہنے لگے کیا ہم اپنے ہی ایسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان دونوں کی (قوم کی) قوم ہماری خدمت گار ہے ،،۔

اسی لئے ہر جگہ کو ''معبد،، کہا جاتا ہے جہاںل وگوں کی آمدورفت زیادہ ہو اور وہ لوگوں کے قدموں تلے دبتی رہے۔

(۳) پرستش و پوجا کرنا چنانچہ ارشادہوتا ہے:

( قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّـهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ ) ۱۳:۳۶

''کہہ دو کہ (تم مانو نہ مانو) مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں خدا ہی کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤں،،۔

جب لفظ ''عبادت،، عام طور پر بولا جائے اور یہ ہر قسم کے قرینہ اور شاہد کے بغیر ہو تو اس سے عبادت کا آخری معنی ذہن میں آتا ہے۔

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689