البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن5%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313978 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

( لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ ) ۸۴:۱۹

''کہ تم لوگ ضرور ایک سختی کے بعد دوسری سختی میں پھنسو گے۔ ،،

یا اس حدیث کی ہم معنی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے آپ فرماتے ہیں:

''لترکبن سنن من قبلکم،، ''تم بھی گذشتہ لوگوں کی غلط اور گمراہ کن سنتیں اور طریقے اپناؤ گے۔،،

پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''من ترکه من جبار قصمه الله،، ۔۔۔'' جو ظالم اور جابر بھی قرآن کو ترک کرے گا اوراسے پس پشت ڈالے گا خدا تعالیٰ اس کی کمر توڑ ڈالے گا۔،،

شاید اس جملے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کی ضمانت دے رہے ہیں کہ خدا قرآن کو جابروں اور ظالموں کے ہاتھ اس طرح کھلونا نہیں بننے دے گا جس سے اس کی تلاوت اس پر عمل ترک ہوجائے اور یہ لوگوں کے ہاتھوں سے لے لیا جائے جس طرح دوسری آسمانی کتابوں کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہے۔ گویا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن (ہمیشہ) تحریف سے محفوظ رہے گا۔ اس پر تفصیلی بحث آئندہ صفحات میں کی جائے گی۔

حدیث کے اس جملے کا مطلب بھی یہی ہے''لا تزیغ به الأهواء،، ۔۔۔'' خواہشات اسے کج (زنگ آلود) نہیں کرسکتیں۔،، یعنی اس کی اصل حقیقت میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔۔۔ قرآن کی اصل حقیقت کے تحفظ کی ضمانت اس لیے دی جارہی ہے کہ قرآن کے خود ساختہ اپنی خواہشات کے مطابق معانی بیان کئے گئے ہیں۔ چنانچہ مخصووص آیات کی تفسیر کے موقع پر اسے مفصل بیان کیاجائے گا انشاء اللہ۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر لوگ آپس کے اختلافات اور عقائد و اعمال کی مشکلات میں قرآن کی طرف رجوع کریں تو ان سب کا حل قرآن میں مل جائے گا اور لوگ اسے ایک عادل حاکم اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا پاِئیں گے۔

۲۱

ہاں! اگر مسلمانوںمیں احکام اور حدود قرآن کا نفاذ ہوتا اور اسکے اشارات کی پیروی کی جاتی تو حق اور اہل حق پہچانے جاتے اور عترت پیغمبر کی معرفت بھی حاصل ہوجاتی جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔(۱) اور یہی وہ ہستیاں ہیں جو آنحضرت کے بعد قرآن کی طرح آپ کا جانشین قرار پائیں، اور اگر مسلمان قرآنی علوم کی روشنی سے نور حاصل کرتے تو ذلت میں مبتلا نہ ہوتے، ان پر ضلالت و گمراہی کی تاریکیاں نہ چھاجاتیں، احکام خدامیں سے کوئی حکم بھی اپنے حقیقی ہدف سے منحرف نہ ہوتا، نہ کوئی شخص راہ راست سے بھٹکتا، نہ کسی کے پائے استقلال میں لغزش آتی، لیکن مسلمانوںنے قرآن کی پس پشت ڈالدیا اور زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے خواہشات نفسانی کی پیروی اور باطل کے جھنڈے تلے پناہ اختیار کی، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گرداننے لگے اور مسلمان کے قتل، اس کی ہتک حرمت اور اس کے مال کو حلال قرار دینے کو قرب خداوندی کا وسیلہ سمجھنے لگے۔ قرآن کے تروک ہونے کی دلیل اس اختلاف و انتشار سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے۔

___________________

(۱) حدیث ثقلین کا حوالہ ص ۱۸ میں ذکر کیا گیا۔ بعض روایات میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ۔۔۔''قرآن اور عترت، رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے دو جانشین ہیں۔،،

۲۲

امیر المومنین (علیہ السلام) قرآن کی تعریف میں فرماتے ہیں:

''ثم انزل علیه الکتاب نورا لاتطفا مصابیحه، و سراجا لا یخبو توقده، و بحرا لایدرک قعره، و منهاجا لا یضل نهجه، و شعاعا لایظلم ضوؤه، و فرقانا لا یخمد برهانه، و تبیانا(۱) لا تهدم ارکانه، و شفاء لا تخشی اسقامه، عزا لاتهزم انصاره، و حقا لا تخذل اعوانه، فهو معدن الایمان و بحبوحته، و ینابیع العلم و بحوره، و ریاض العدل و غدرانه، و اثافی الاسلام و بنیانه، و اودیة الحق و غیطانه، و بحر لا ینزفه المنتزفون، و عیون لا ینضبها الماتحون، و مناهل لا یغیضها الواردون، منازل لا یضل نهجها المسافرون، و اعلام لا یعمی عنها السائرون، و آکام لایجوز عنها القاصدون، جعله الله ریّاً لعطش العلمائ، و ربیعا لقلوب الفقهاء و محاجّ لطریق الصلحائ، و دوائً لیس بعده دائ، و نورا لیس معه ظلمة، و حبلاً و ثقیاًعروته، و معقلا منیعا ذروته، رزا لمن تولاه، و سلما لمن دخله، و هدی لمن ائتم به، وعذرا لمن انتحله، و برهانا لمن تکلم به، و شاهدا لمن خاصم به، و فلجا کمن حاج به، و حاملا لمن حمله، و مطیةً لمن اعمله، و آیة لمن توسم و جنة لمن استلأم، و علماً لمن وعی، و حدیثا لمن روی، و حکما لمن قضی،،(۲)

''پھر آپ پرایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا) نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں، ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس کی گہرائی تک کسی کی رسائی نہیں اور ایسی راہ ہے جس کی راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن ہے جس کی پھوٹ مدہم نہیں پڑتی، وہ (حق و باطل میں) ایسا امتیاز کرنے والی ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی، ایسا کھول کر بیان کرنے والی ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جاسکتے، و ہسراسر شفا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے روحانی بیماریوں کا کھٹکا نہیں، وہ سرتاسر عزت و غلبہ ہے جس کے یار و مددگار شکست نہیں کھاتے،

____________________

(۱) بحار الانوار میں تبیانا کی بجائے بنیانا ہے۔

(۲)نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۹۶۔

۲۳

وہ (سراپا) حق ہے، جس کے معین و معاون بے سہارا نہیں چھوڑے جاتے، وہ ایمان کا معدن اور مرکز ہے جس سے علم کے چشمے پھوٹتے اور دریا بہتے ہیں، اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں، وہ اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس ہے، حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے، وہ ایسا دریا ہے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے، وہ ایسا چشمہ ہے کہ پانی بھرنے والے اسے خشک نہیں کرسکتے، وہ ایسا گھاٹ ہے کہ اس پر اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیں سکتا، وہ ایسی منزل ہے جس کی راہ میں کوئی راہ رو بھٹکتا نہیں، وہ ایسا نشان ہے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا، وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے، اللہ نے اسے علماء کی تشنگی کے لیے سیرابی، فقہاء کے دلوں کے لیے بہار اور نیکو کاروں کی رہ گزر کے لیے شاہراہ قرار دیا ہے

یہ ایسی دوا ہے جس سے کوئی مرض نہیں رہتا، ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں، ایسی رسی ہے جس کے حلقے مضبوط ہیں، ایسی چوٹی ہے جس کی پناہ گاہ محفوظ ہے، جو اس سے وابستہ رہے اس کے کئے پیغام صلح و امن ہے، جو اس کی پیروی کرے اس کےلئے ہدایت ہے، جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کےلئے حجت ہے، جو اس کی رو سے بات کرے او کے لیے دلیل و برہان ہے، جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کے لئے گواہ ہے جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کے لئے فتح و کامرنی ہے، جو اس کا بار اٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا ہے، جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کے لئے مرکب (تیز گام) ہے، یہ حقیقت شناس کے لیے ایک واضح نشان ہے، (ضلالت و گمراہی سے ٹکرانے کے لیے) جو مسلح ہو ا س کے لئے سپر ہے، جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باندھ لے اس کے لئے علم و دانش ہے، بیان کرنے والے کے لئے بہترین کلام او رفیصلہ کرنے والے کےلئے قطعی حکم ہے۔،،

۲۴

یہ خطبہ بہت سے اہم نکات پر مشتمل ہے جن سے آگاہی اور ان میں غور و خوض لازمی ہے:

امیر المومنین کے ارشاد''لا یخبو توقده،، ۔۔۔'' قرآن ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی،،۔۔۔ اور خطبے میں اس قسم کے دوسرے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معانی لا متناہی اور ابدی ہیں۔

مثال کے طور پر ایک آیہ کریمہ کسی خاص مقام، شخص یا قوم کے بارے میں نازل ہوئی مگر وہ آیہ اس مقام، شخص اور قوم سے ہی مختص نہیں رہتی بلکہ اس کے معانی عام ہوتے ہیں اور یہ ہر جگہ، ہر شخص اور ہر قوم پر منطبق ہوتی ہے، عیاشی نے اپنی سند سے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے آیہ( وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) ( ۱۳:۷)،، ۔۔۔(ہر قوم کے لئے ایک ھادی ہوا کرتا ہے) کی تفسیر کے بارے میں روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:

'' علی: الهادی، و منا الهادی، فقلت : فانت جعلت فداک الهادی، قال : صدقت ان القرآن حی لایموت، و الآیة حیّة لا تموت، فلو کانت الآیة اذا نزلت فی الاقوام و ماتوا ماتت الآیة لمات القرآن و لکن هی جاریة فی الباقین کما جرت فی الماضین،،

(یعنی) اس آیہ شریفہ میں ہادی سے مراد امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام ہںی اور ہادی ہم ہی میں سے ہوا کرے گا۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: میں آپ پر نثار ہوں کیا آپ بھی ہادی اور اس آیہ شریفہ کے مصداق ہیں؟ ہاں میں بھی اس کا مصداق ہوں، قرآن ہمیشہ زندہ رہے گا، اسے موت نہیں آئے گی اور یہ آیہ و لکل قوم ھاد بھی زندہ ہے اور اسے موت نہیں آسکتی، اگر ایک قوم پر اترنے والی آیت قوم کے مرنے سے مر جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کو بھی موت آگئی حالانکہ ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ قرآن جس طرح گذشتہ اقوام پر منطبق ہوتا تھا اسی طرح آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی منطبق ہوگا۔،،

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''ان القرآن حی لم یمت، و انه یجری کما یجری اللیل و النهار، و کما تجری الشمس و القمر، و یجری علی آخرنا کما یجری علی اولنا،،

(یعنی) ''قرآن زندہ و جاوید ہے، اسے موت نہیں آسکتی، دن اور رات کی طرح یہ بھی چلتا رہے گا اور سورج اور چاند کی طرح ہر دور میں ضوفشانی کرتا رہے گا۔،،

۲۵

اصول کافی میں ہے، جب عمر بن یزید نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے آیت کریمہ( وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ ) ۱۳:۲۱،، کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

'' هذه نزلت فی رحم آل محمد صلی الله علیه و آله و سلم وقد ثم مات اولئک ماتت الآیة لما بقی من القرآن شیئ، و لکن القرآن یجری اوله علی آخره مادامت السماوات و الأرض، ولکل قوم آیة یتلوها هم منها من خیر او شر،،

یہ آیتِ کریمہ ہم آلِ محمد کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن یہی آیہ کریمہ شریفہ تمہارے قریبی رشتہ داروں پر منطبق ہوسکتی ہے، تو ان لوگوں میں سے نہ بن جو ایک خاص مقام اورچیز پرنازل شدہ آیت کو اس مقام اورچیز سے مختص کردیتے ہیں۔

تفسیر فرات میں ہے:

''و لو أن الآیة اذا نزلت فی قوم ثم مات أولئک ماتت الآیة لما بقی من القرآن شیئ، ولکن القرآن یجری أوله علی آخره ما دامت السماوات و الأرض، و کل قومٍ آیة یتلوها هم منها من خیر أو شر،،

''اگر کسی قوم پر کوئی آیت نازل ہو پھر وہ قوم مرجائے اور اس قوم کے ساتھ آیت بھی مرجائے تو قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہ جائے مگر ایسا نہیں جب تک آسمان اور زمین موجود ہیں گذشتہ لوگوں کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیےبھی اس کی ہدایت کا سلسلہ جاری رہیگا اور قرآن میں ہر قوم و ملت کے بارے میں ایک آیت موجود ہے جس میں ان کی اچھی یا بری سرنوشت و تقدیر اور انجام کا ذکر ہے۔،،

اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) مرۃ الانوار، ص ۳۔۴

۲۶

و منها جا لا یضل نهجة ''یعنی قرآن وہ سیدھا راستہ ہے جو اپنے راہرو کو گمراہ نہیں کرتا،،۔ اسے خالق نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے قرآن ہر اس شخص کو گمراہی سے بچاتا ہے جو اس کی پیروی کرے۔

''و تبیاناً لا تهدم ارکانه،، اس جملے میں دو احتمال ہیں:

الف: پہلا احتمال یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ میں کسی قسم کا خلل اور نقص نہیں ہوسکتا ہے، اس احتمال کے مطابق اس جملے میں امیر المومنین اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہی ںکہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ ہے۔

'' وریاض العدل و غدرانه،، (۱) ''اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ عدالت چاہے عقیدہ کے اعتبار سے ہو یا اخلاق کے اعتبار سے، اس کے تمام پہلو قران میں موجود ہیں۔ پس قرآن عدالت کا محور اوراس کی مختلف جہات کا سنگم ہے۔

و أثا فی الاسلام (۲) ''اسلام کا سنگ بنیاد اور اسکی اساس ہے۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو جو استحکام اور اثبات حاصل ہوا ہے وہ قرآن ہی کی بدولت ہے جس طرح دیگ کو استحکام ان پایوں کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے جس کے نیچے رکھے ہوتے ہیں۔

''و أودیة الحق و غیطانه،، '' حق کی وادی اوراس کا ہموار میدان ہے۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن حق کا سرچشمہ ہے۔ اس جملے میں قرآن کو وسیع اور پرسکون زرخیز سرزمین سے تشبیہ دی گئی ہے اور حق کو ان نباتات سے تشبیہ دی گئی ہے جو اس سرزمین پر اگی ہوں کیونکہ قرآن ہی حق کا سرچشمہ ہے، قرآن کے علاوہ کہیں اور سے حق نہیں مل سکتا۔

____________________

(۱) ریاض روضہ کی جمعہ ہے یہ اس سرسبز زمین کو کہتے ہیں جس میں سبزہ ہو، غدران جمع ہے غدیر کی اس کا معنی سیلاب کا جمع شدہ پانی ہے۔

( ۲) اثانی جو امانی کے وزن پر ہے، ''اثفیہ،، کی جمع ہے۔ ''اثفیہ،، اس پتھر کو کہا جاتا ہے جس پر دیگچی رکھی جاتی ہے۔

اس جملے سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ جب قرآن کے متلاشی اس کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں پہنچ کر رک جاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے، اس لیے کہ انہیں مکمل ططور پر اپنی مراد مل جاتی ہے اور وہ منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔

۲۷

'' وبحر لا ینزفه المنتزفون،، '' وہ ایسا دریا ہے جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے،، اس جملے اور اس کے بعدوالے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ جو معانیئ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے وہ اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ قرآن کے معانی لامتناہی ہیں بلکہ اس جملے میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قرآن میں کبھی کمی واقع ہو ہی نہیں سکتی، جس طرح چشمے سے پانی نکالنے، پینے یا برتن بھرنے سے پانی کم نہیں ہوتا۔

'' وآکام لا یجوز عنها القاصدون،، ''وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے نہیں گزر سکتے،،۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو محققین اور مفکرین قرآن کی بلندیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی اس کے معانی کی بلندیوں اور چوٹیوں سے تجاوز ن ہیں کرسکتے۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قران کریم ایسے سربستہ رازوں پر مشتمل ہے جن تک صاحبان فہم کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ ہم آئندہ اس حقیقت کو بیان کریں گے۔ انشاء اللہ۔

۲۸

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب

قرآن وہ آسمانی قانون اور ناموں الٰہی ہے جو لوگوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ضمانت دیتا ہے، قرآن کی ہر آیت ہدایت کا سرچشمہ اور رحمت و راہنمائی کی کان ہے۔ جو بھی ابدی سعادت اور دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کا آرزو مند ہے اسے چاہیے کہ شب و روز قرآن کریم سے عہد و پیمان باندھے، اس کی آیات کریمہ کو اپنے حافظہ میں جگہ دے اور انہیں اپنی فکر اور مزاج میں شامل کرے تاکہ ہمیشہ کی کامیابی اور ختم نہ ہونے والی تجارت کی طرف قدم بڑھاسکے۔

قرآن کی فضیلت میں ائمہ علیہم السلام ارو ان کے جدامجد سے بہت سی روایات منقول ہیں، امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

'' قال رسول الله صلی الله علیه و آله: من قرأ عشر آیات فی لیلة لم یکتب من الغافلین، و من قرأ خمسین آیة کتب من الذاکرین، و من قرأ مائة آیة کتب من القانتین، و من قرأ مائتی آیة کتب من الخاشعین، و من قرأ ثلثمائة آیة کتب من الفائزین و من قرأ خمسمائة آیة کتب من المجتهدین، و من قرأ ألف آیه کتب له قنطار من تبر،،

''پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جو شخص رات کو دس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام غافلین (جو یاد خدا سے بے بہرہ رہتے ہیں) میں نہیں لکھا جائے گا اور جو شخص پچاس آیتوں کی تلاوت کرے اور کا نام ذاکرین (جو خدا کو یاد کرتے ہیں، حرام و حلال کا خیال رکھتے ہیں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام قانتین (عبادت گزاروں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص دوسو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام خاشعین (جو خدا کے سامنے متواضع ہوں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص تین سو آیتوں کی تلاوت کرے اور کا نام سعادت مندوں میں لکھا جائے گا، جو شخص پانچ ہزار آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام عبادت اور پرستش خدا کی کوشش کرنے والوں میں لکھا جائے گا اور جو شخص ہزار آیتوں کی تلاوت کرے وہ ایسا ہے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہ خدا میں دے دیا ہو۔،،

۲۹

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''القرآن عهد الله الی خلقه، فقد ینبغی للمرء المسلم أن ینظر فی عهده، و أن یقرأ منه فی کل یوم خمسین آیة،،

''قرآن خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک عہد و میثاق ہے، مسلمان کو چاہےے کہ وہ اپنا عہد نامہ غور سے پڑھے اور روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے۔،،

آپ نے مزید فرمایا:

'' ما یمنع التاجر منکم المشغول فی سوقه اذا رجع الی منزله أن لا ینام حتی یقرأ سورة من القرآن فیکتب له مکان کل آیة یقرأها عشر حسنات، و یمحی عنه عشر سیأت؟،،

''حب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھر واپس لوٹتے ہیں تو سونے سے پہلے ایک سورۃ کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی ہے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تاکہ ہر آیت کے بدلے ان کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں اور ان کے نامہ ئ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں۔،،

اس کے بعد آپ نے فرمایا:

''علیکم بتلاوة القرآن، فان درجات الجنة علی عد آیات القرآن، فاذا کان یوم القیامة یقال لقاری القرآن: اقرأ و ارق، فکلما قرأ آیة رقی درجة،،

''قرآن کی تلاوت ضرور کیا کرو(اس لئے کہ) آیات قرآن کی تعداد کے مطابق جنت کے درجات ہوں گے۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو قاری قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاؤ اور اپنے درجات بلند کرتے جاؤ پھر ہو جیسے جیسے آیات کی تلاوت کرے گا اس کے درجات بلند ہوں گے۔،،

۳۰

حدیث کی کتابوں میں علماء کرام نے اس مضمون کی بہت سی روایات کو یکجہا کر دیا ہے، شائقین ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اور بحار الانوار کی انیسویں جلد میں اس مضمون کی کافی روایات موجود ہیں، ان میں سے بعض روایات کے مطابق قرآن کو دیکھ کر تلاوت کرنا، زبانی اور ازبر تلاوت کرنے سے بہتر ہے۔

ان میں سے ایک حدیث یہ ہے:

اسحاق بن عمار نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی:

''جعلت فداک انی احفظ القرآن عن ظهر قلبی فأقرأه عن ظهر قلبی أفضل أو أنظر فی المصحف قال: فقال لی : لا بل اقرأه و انظر فی المصحف فهو أفضل أما علمت ان النظر فی المصحف عبادة ،،؟ و قال: ''من قرأ القرآن فی المصحف متع ببصره، و خفف عن الدیه و ان کانا کافرین،، (۱)

''میری جان آپ پر نثار ہو، میں نے قرآن حفظ کرلیاہے اور زبانی ہی اس کی تلاوت کرتا ہوں، یہی بہتر ہے یا یہ کہ قرآن دیکھ کے تلاوت کروں؟ آپ نے فرمایا: قرآن دیکھ کر تلاوت کیا کرو یہ بہتر ہے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ قرآن میں دیکھنا عبادت ہے، جو شخص قرآن میں دیکھ کے اس کی تلاوت کرے اس کی آنکھ مستفید اور مستفیض ہوتی ہے اور اس کے والدین کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے، اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔،،

____________________

(۱) اصول کافی۔ کتاب فضل القرآن۔ وسائل طبعۃ عین الدولہ، ج۱، ص ۳۷۰

۳۱

قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید و تشویق میں چند اہم نکات ہیں جن کی طرف توجہ ضروری ہے:

i ) قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید اس لیے کی گئی ہے تاکہ نسخوں کی کثرت کی وجہ سے قرآن ضیاع سے محفوظ رہ سکے۔ کیوں کہ جب قرآن کی زبانی تلاوت پر اکتفاء کی جائے گی تو قرآن کے نسخے متروک ہو جائیں گے اور آہستہ آہستہ کم یاب ہو جائیں گے بلکہ بعیدنہیں کہ بتدریج اس کے آثار تک باقی نہ رہیں۔

ii ) دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کے بہت سے آثار ہیں جن کی روایات میں تصریح کی گئی ہے مثلاً معصوم نے فرمایا ہے: ''متع ببصرہ،، یعنی۔ یہ بڑا جامع کلمہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان نابینائی اور آشوب چشم سے محفوظ رہے یا یہ مراد ہوسکتی ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے سے انسان قرآنی رموز اور اس کے دقیق اور باریک نکات سے باخبر ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ جب انسان کی نظر ایسی چیز پر پڑے جو اسے پسند ہو تو اس کا نفس خوشحال ہو جاتا ہے اور اپنی بصارت اور بصیرت میں روشنی محسوس کرتا ہے۔ قرآن کے الفاظ پر جب بھی قاری کی نظر پڑتی ہے اور وہ اس کے علوم و معانی میں فکر کرتا ہے تو علم و آگاہی کی لذت محسوس کرتا ہے اور اس کی رح ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔

iii ) بعص روایات میں گھروں کے اندر قرآن کی تلاوت کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اس کا راز قرآن کی تبلیغ و ترویج اور تلاوت قرآن کا چرچا ہے، کیونکہ جب انسان گھر میں قرآن کی تلاوت کرے تو اس کے بیوی بچے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس سے یہ عمل عام ہو جاتا ہے لیکن اگر قرآن کی تلاوت کسی خاص مقام پر کی جائے تو اس کا ہر شخص، ہر جگہ شرف حاصل نہیں کرسکتا اور یہ تبلیغ اسلام میں رکاوٹ کا بہت بڑا سبب ہے۔

۳۲

شاید گھروں میں تلاوت کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اس سے شعائر الٰہی قائم ہو جاتے ہیں کیونکہ جب صبح و شام گھروں سے تلاوت قرآن کی آواز بلند ہوگی تو سننے والوں کی نظر میں اسلام کی اہمیت بڑھے گی اس لیے کہ جب شہر کے کونے کونے سے تلاوت قرآن کی آواز سنائی دے گی تو سننے والوں پر ایک قسم کا رعب اور ہیبت طاری ہوجائے گی۔

گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکورہ ہیں

''ان البیت الذی یقرأ فیه القرآن و یذکر الله تعالی فیه تکثر برکته، و تحضره الملائکة، و تهجره الشیاطین، و یضیئ لأهل السلماء کما یضیئ الکوکب الدری لأهل الأرض، و ان البیت الذی لایقرأ فیه القرآن، و لا یذکره الله تعالیٰ فیه تقل برکته، و تهجره الملائکة و تحضره الشیاطین ۔،، (۱)

''وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت اور ذکر خدا کیا جاتا ہو اس کی برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے، اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے شیاطین اس گھر کو ترک کردیتے ہیں اور یہ گھر آسمان والوں کو روشن نظر آتے ہیں، جس طرح آسمان کے ستارے اھل زمین کو نور بخشتے ہیں اور وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی اور ذکر خدا نہیں ہوتا اس میں برکت کم ہوتی ہے، فرشتے اسے ترک کردیتے ہیں اور ان میں شیاطین بس جاتے ہیں۔،،

قرآن کی فضیلت اور وہ عزت و تکریم جن سے خداوند، قاری قرآن کو نوازتا ہے روایات میں اتنی ہے کہ جس سے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

____________________

(۱) اصول کافی، کتاب فضل القرآن

۳۳

''من قرأ حرفاً من کتاب الله تعالیٰ فله حسنة والحسنة بعشر أمثالها لا أقول آلم حرف و لکن ألف حرف و لام حرف و میم حرف،،

''جو شخص کتاب الٰہی کے ایک حرف کی تلاوت کرے اس کے اعمال میں ایک حسنہ اور نیکی لکھی جاتی ہے اور ہر حسنہ کا دس گنا ثواب ملتا ہے (اس کے بعد آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا کہ ''الم،، (یہ تینوں) ایک حرف ہے بلکہ ''الف،، ایک حرف ہے ''ل،، دوسرا حرف ہے اور ''م،، تیسرا حرف ہے۔،،

اس حدیث کو اہل سنت کے راویوں نے بھی نقل کیا ہے، چنانچہ قرطبی نے اپنی تفسیر(۱) میں ترمذی سے اور اس نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے، کلینی رحمہ اللہ نے بھی تقریباً اسی مضمون کی حدیث امام جعفر صادق سے نقل فرمائی ہے۔

اس میدان میں کچھ جھوٹے راوی بھی ہیں جن کی نظر میں شاید فضیلت قرآن کی یہ تمام روایات کم تھیں اس لیے انہوں نے اپنی طرف سے فضیلت قرآن میں کچھ روایات گھڑلیں جن کی نہ تو وحی نازل ہوئی ہے اور نہ ان کا سنت نبوی میں کوئی ذکر ہے۔ ان جھوٹے راویوں میں ابو عصمۃ فرج بن ابی مریم مروزی، محمد بن عکاشہ کرمانی اور احمدبن عبد اللہ جویباری شامل ہیں۔ ابو عصمۃ نے خود اس جعل سازی کا اعتراف کیا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تو نے کس طرح عکرمہ کے واسطے سے ابن عباس سے قرآن کے ایک ایک سورے کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں، اس (ابو عصمۃ) نے جواب دیا:

''ابی رأیت الناس قد أعرضوا عن القرآن، و اشتغلوا بفقه أبی حنیفة، و مغازی محمد بن اسحق فرضعت هذا الحدیث حسبة،،

''جب میں نے دیکھا کہ لوگ قرآن سے منحرف ہوگئے ہیں اور ابی حنیفہ اور مغازیئ محمد بن اسحاق کی فقہ میں مصروف ہیں تو میں قرآن کی فضیلت میں یہ احادیث قربتہ الی اللہ گھڑلیں۔،،

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۷، و فی الکافی کتاب فضل اقلرآن

۳۴

ابو عمر و عثمان بن صلاح، ا س حدیث کے بارے میں جو ابی بن کعب کے واسطے سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہے لکھا ہے:

''قد بحث باحث عن مخرجه حتی انتهی الهی من اعترف بأنه و جماعة و ضعوه، و قد أخطأ الواحدی و جماعة من المفسرین حیث أودعوه فی تفاسیرهم،، (۱)

''اس حدیث کے بارے میں جو قرآن کے ہر ہر سورے کے فضائل میں نقل کی گئی ہے جو تحقیق کی گئیوہ اس تنیجہ پر پہنچی ہے کہ اس حدیث کے گھڑنے والے نے اس کے جعلی ہونے کا اعتراف کرلیا ہے (میں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے ملک کر اسے گھڑا ہے"

واحدی اور دیگر مفسیرین اپنی تفسیروں میں اس حدیث کو ذکر کرکے غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔،،

دیکھئے!ان لوگوں نے کتنی بڑی جراءت کی ہے کہ رسول خد کی طرف حدیث کی جھوٹی نسبت دی ہے اور ستم یہ کہ اس افتراء اور تہمت کو قرب الٰہی کا سبب قرار دیتے ہیں۔

( كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) ۱۰:۱۲

''جو لوگ زیادتی کرتے ہیں ان کی کارستانیاں یوں ہی انہیں اچھی کرکے دکھائی گئی ہےں۔،،

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۷۸۔۷۹، و فی الکافی کتاب فضل القران

۳۵

قرآن میں غور و خوض اور اس کی تفسیر

قرآن مجید اور صحیح روایات میں معانیئ قرآن کے سمجھنے اور اس کے مقاصد و اہداف میں کفر کی سخت تاکید کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ) (۴۷:۲۴)

''تو کیا یہ لو قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (انکے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔،،

اس آیہ کریمہ میں قرآن میں غور نہ کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ ابن عبّاس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے، آنحضرت نے فرمایا:

''اعربوا القرآن و التمسوا غرائبه،، ۔ ''قرآن کو بلند آواز سے پڑھان کرو اور اس کے عجائبات اورباریکیوں میں غور و خوص کیا کرو۔،،

ابو عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں:

''حدثنا من کان یقرئنا من الصحابة انهم کانوا یأخذون من رسول الله ص عشر آیات فلا یأخذون فی العشر الآخری حتی یعلموا ما فی هذه من العلم و العمل،،

۳۶

''صحابہ کرام جو ہمیں قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے فرماتے تھے ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرآن کو دس دس آیتوں کی صورت میں لیتے تھے، جب تک ہم پہلی دس آیتوں کے علمی اور عملی نکات کو حفظ نہیں کرلیتےٍ۔ دوسری دس آیتیں ہمیں نہیں ملتی تھیں۔،،(۱)

عثمان، ابن مسعود اور ابی کہتے ہیں:

''ان رسول الله ۔ص ۔کان یقرئهم العشر فلا یجاوز و نها الی عشر أخری حتی یتعلموا ما فیها من العمل فیعلمهم القرآن و العمل جمیعاً،، (۲)

''رسول خد قرآن کی دس آیتوں کی تعلیم دیتے تھے، ان دس آیتوں سے اس وقت تک تجاوز نہ فرماتے تھے جب تک ان کو سمجھ کر عمل نہ کیا جائے، پس علم قرآن اور عمل بہ قرآن کی تعلیم ایک ساتھ دیتے تھے۔،،

____________________

(۱) بحار الانوار، ج ۱۹، ص ۲۸ باب فضل التدبر فی القرآن

(۲) قرطبی، ج ۱، ص ۳۹

۳۷

ایک دن امیر المومنین علیہ السلام نے لوگوں کے سامنے جابر بن عبد اللہ انصاری کی تعریف کی تو کسی نے کہا: مولا! آپ (باب علم ہونے کے باوجود) جابر کی تعریف کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا:

''تمہیں معلوم نہیں جابر بن عبد اللہ انصاری آیہ کریمہ،( إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ ) ۲۸:۸۵

کی تفسیر سمجھتے تھے۔،،(۱)

قرآن کریم میں فکر اور تدبر کرنے کی فضیلت میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ چنانچہ بحار الانوار کی ۱۹ جلدوں میں اس مضمون کی بے شمار احادیث موجود ہیں۔ لیےکن یہ ایسی حقیقت ہے جس کے لئے اخبار و روایات میں تتبع اور جستجو کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ قرآن ایسی کتاب ہے جسے خدا نے لوگوں کے لیے دنیا ہی میں ایک مکمل ضابطہئ حیات بنا کر بھیجا ہے۔ جس سے وہ آخرت کی راہ، نور اور روشنی حاصل کرسکتے ہیں اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک قرآن کے معانی میں تدبر او فکر نہ کیا جائے، یہ ایسی حقیقت ہے جس کا فیصلہ عقل کرتی ہے۔ روایات اور احادیث میں جتنی تاکید ہے وہ اسی حکم عقل کی تائید اور اسی کی طرف راہنمائی کےلئے ہے۔

زہری نے امام زین العابدین (علیہ السلام) سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:

''آیات القرآن خزائن فکلما فتحت خزینة ینبغی لک أتنظر ما فیها،، (۲)

''قرآن کی آیات خزانے ہےں جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو (تلاش کیا کرو)،،

____________________

(۱) تفسیر القرطبی، ج ۱، ص ۲۶

(۲) اصول الکافی، کتاب فضل القرآن

۳۸

اعجاز قرآن

٭ اعجاز کے معنی

٭ نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال

٭ نبوّت اور اعجاز

٭ معجزہ اور عصری تقاضے

٭ قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ

٭ ایک اعتراض اور اس کا جواب

٭ قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ

٭ قرآن اور معارف

٭ آیات میں ہم آہنگی

٭ قرآن اور نظامِ قانون

٭ قرآن کے معانی میں پختگی

٭ قرآن کی غیب گوئی

٭ قرآن اور اسرارِ خلقت

۳۹

اعجاز کے معنی

فقہ میں اعجاز کے متعدد معانی بیان کئے گئے ہیں:

i ) کسی چیز کو کھو دینا۔''اعجزه الامر الفلانی،، ۔ یعنی اسنے فلاس چیز کو کھو دیا۔

ii ) کسی دوسرے میں عجز و ناتونی محسوس کرنا۔''اعجزت زیدا،، یعنی میں نے زید کو عاجز اور ناتواں پایا۔

iii ) کسی کو عاجز بنا دینا اس صورت میں عاجز تعجیز کا ہم معنی ہوگا۔''اعجزت زیداً،، یعنی میں زید کو عاجز بنا دیا۔

علمِ کلام کی اصطلاح میں اعجاز کا مطلب یہ ہے کہ کسی الہٰی منصب کا مدعی اپنے مدعا کے اثبات میں طبیعی قوانین کو توڑتے ہوئے ایک کارنامہ انجام دے، جس کی نظیر پیش کرنے سے دوسرے عاجز و بے بس ہوں۔ البتہ یہ معجزہ اس صورت میں مدعی کی صداقت کی دلیل ہوگا جب ا س(مدعی یا معجزہ) کا صادق ہونا ممکن ہو اور اگر علقی طور پر اس (دعویٰ) کا صادق ہونا محال ہو یا ایک نبی صادق یا امام معصوم اس دعویٰ کو محال قرار دے اس صورت میں یہ غیر معمولی کام صداقت کی دلیل نہیں بنے گا اور نہ اصطلاح میں معجزہ کہلائے گا۔ اگرچہ عام انسان ایسا عمل انجام دینے سے قاصر رہے۔

محالِ عقلی کی مثال: کوئی انسان الوہیّت اور خدائی کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اس قسم کے دعویٰ کا صادق ہونا عقلاً محال ہے کیوں کہ صحیح اور مستحکم دلیلیں اس کے محال ہونے پر دلالت کرتی ہےں۔

۴۰

نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال

پیغمبراسلام کے بعد کوئی نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اس قسم کا دعویٰ یقیناً کذب ہے اس لیے کہ ائمہ معصومین اور رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ذریعے آنحضرت کا خاتم الانبیاء ہونا مسلم الثبوت ہے۔ جب دعویٰ ہی قطعی طور پر باطل اور جھوٹا ہو تو پھر اس شاہد کا کیا فائدہ ہوگا جسے مدعی پیش کرے جب عقل اس مدعا کے محال ہونے کے کا حکم لگا دے یا شریعت اس کے باطل ہونے کی شہادت دے تو پھر خالق پر واجب نہیں کہ اس کے باطل ہونے کو برملا کرے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کسی الہٰی منصب کا دعویٰ تو کرلیتا ہے اور کوئی خارق العدات (معجزہ نما) کام بھی کر دکھاتا ہے جس سے دوسرے انسان عاجز رہتے ہیں لیکن یہی کام اس کے دعوےٰ کے کذب ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مسیلمہ کذّاب نے ایک مرتبہ اپنا لعابِ دھن کنوئیں میں پھینکا جس میں پانی تھوڑا تھا تاکہ اس کا پانی زیادہ ہو جائے لیکن اسمیں جو پانی تھا وہ بھی خشک ہوگیا۔

ایک او واقعے میں اس نے بنی حنیفہ کے کچھ بچوں کو سر پر ہاتھ پھیرا اور بعض کو گھٹی دی (حلق پر ہاتھ پھیرا) اس کے نتیجے میں جن کے سروں پر ہاتھ پھیرا تھا وہ گنجے ہوگئے اور جن کے حلق پر ہاتھ پھیرا تھا ان کو لکنت کا عارضہ ہوگیا۔(۱) جب مدعی اس قسم کا شاہداور دلیل پیش کرے تو خدا کے لیے ضروری نہیں کہ اسے مزید برملا کرے کیوں کہ اس مدعی کا ناکام عمل ہی مدعی کو باطل کرے کے لیے کافی ہے اور اصطلاح میں اسے معجزہ نہیں کہا جاتا۔

____________________

(۱) الکامل ابن اثیر، ج ۲، ص ۱۳۸

۴۱

اس عمل کو بھی اصطلاح میں معجزہ نہیں کہا جائے گا جس کا مظاہرہ جادو گر اور شعبدہ باز کیا کرتے ہیں یا بعض دقیق اور پیچیدہ علوم نظری کے ماہر انجام دیتے ہیس اگرچہ ایسا عمل انجام دینے سے عام آدمی عاجز ہو، خدا کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس عمل کو کسی اور ذریعے سے باطل قرار دے، جبکہ یہ معلوم ہہے کہ اس کا یہ عمل سحر جیسے دوسرے طبیعی امور کے نتیجے میں انجام پایا ہے۔ اگرچہ یہ انسان کسی الہٰی منصب کا دعویدار ہو اور اس کام کو اس نے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہو، کیونکہ ان پیچیدہ علوم نظری کے خاص قوانین ہوتے ہیں جن سے اس علم کے ماہرین آگاہ ہوا کرتے ہیں اور ان قواعد کی روشنی میں مخصوص نتاء تک پہنچنا ضروری ہوا کرتا ہے، اگرچہ ان قواعد کو نتائج پر منطبق کرنا کافی دقت طلب ہے۔

بنابرایں علم طبّ کے بعض حیرت انگیز قواعد بھی معجزہ سے خارج ہوں گے جن کا تعلق چیزوں کی طبیعتوں اور ان کے خاصیتوں سے ہے اگرچہ طبّ کی یہ عجیب و غریب باتیں عام لوگوں سے مخفی اور پوشیدہ ہوں بلکہ خود ان طبیبوں اور حکیموں پر بھی چیزوں کی خاصیتیں اور ان کے آثار مخفی ہوں۔

اس میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ خدا کسی خاص بندے کو کسی خاص چیز کی معرفت عطا فرمائے جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہو۔

قباحت اس میں ہے کہ خدا کسی جھوٹے شخص کی تائید کرے اور ایسے جھوٹے شخص کے ہاتھ معجزہ ظاہر کرے جو لوگوں کو راہِ راست سے گمراہ کرے۔

۴۲

نبوّت اور اعجاز

تمام انسانوں کو مکلّف کرنا خدا پر واجب ہے اور یہ بات صحیح عقلی دلائل سے ثابت ہے، کیونکہ انسان اپنی ارتقائی منازل طے کرنے اورابدی سعادت کے حصول اور عظیم منفعت کےلئے تکلیف (فرائض و ذمہ داریوں) کا محتاج ہے۔ اگرخدا انسان کو پابند قرار نہ دے تو اس کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں:

i ) خدا نے اپنے بندوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ خدا نہیں جانتا کہ لوگ ذمہ داری و لائحہ عمل کے محتاج ہیں۔

اس سے جہل لازم آتا ہے جس سے خدا کی ذات پاک و منزہ ہے۔

ii ) خدا نے لوگوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ وہ انہیں کمال تک پہنچنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس سے بخل لازم آتا ہے اور بخل اس ذات کے لیے محال ہے جو سرچشمہ ئ فیض و سخا ہے۔

iii ) خدا انہیں مکلّف بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اس پر قادر نہیں ہے۔ یہ عجز و ناتوانی ہے جو اس قادر و مطلق ذات کے لیے محال ہے۔

بنابریں بشر کو بعض فرائض کا مکلّف بنانا ضروری اور لازمی ہے اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان کو مکلّف بنانے کے لیے کسی نہ کسی مبلّغ کی ضرورت ہے جو احکامِ الہٰی کے پوشیدہ اور واضح رموز سے آگاہ کرے:

( لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ) (۸:۴۲)

''تاکہ جو شخص ہلاک (گمراہ) ہو وہ (حق کی) حجت تمام ہونیکے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ (ہدایت کی) حجّت تمام ہونیکے بعد زندہ رہے۔،،

۴۳

یہبھی ایک بدیہی بات ہے کہ سفارتِ الہٰی ایسا عظیم منصب ہے جس کے بہت سے مدعی ہوسکتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ صادق اور کاذب میں تمیز نہ ہوسکے، گمراہ کرنے والے اور ہادی و راہنما میں امتیاز نہ رہے، اس لیے جو بھی اس سفارت کا دعویدار ہو اس کے لئے ضروری ہے ہک ایسا شاہد اور ثبوت پیش کرے جو اس کے اس دعویٰ میں صادق ہونے پر دلالت کرتا ہو اور اس تبلیغ میں اس کے امین ہونے کی ضمانت دے۔ یہ شاہد ان عام اور معمولی افعال اور کارناموں میں سے نہ ہو جنہیں ہر کس و ناکس انجام دے سکتا ہو۔ بنابرایں اس مدعا کی دلیل میں ان کاموں میں منحصر ہوگی جو طبیعی قوانین کو توڑ دیں۔ معجزہ اس لیے مدعی کی صداقت کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ معجزہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہوتا ہے اور یہ کام اسی سے صادر ہوتا ہے جسے توفیق الہٰی حاصل ہو اور خدا جسے قدرت اور طاقت دے۔

بنابرایں اگر نبوّت کا مدعی اپنے دعویٰ میںجھوٹا ہو تو ایسے معجزے پر اس کو قدرت دینا لوگوں کو جہالت میں ڈالنے اور باطل کی تقوّیت کا باعث ہوگا اور یہ کام خدا کے لیے محال ہے۔

جب اس قسم کا معجزہ کسی مدعی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو یہ معجزہ اس کی صداقت کی دلیل ہوگا اور اس بات کا اظہار ہوگا کہ خداوند متعال اس کی نبوّت پر راضی ہے۔

یہ ایک ایسا قاعدہ کلیّہ ہے جسے تمام عقلاء اس قسم کے اہم کاموں میں تسلیم کرتے ہیں اور اسے کوئی بھی شک و شبہ کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔

۴۴

جب کوئی کسی بادشاہ یا صدر کے سفیر ہونے کا دعویٰ کرے یا کوئی شخص ایسے کاموں میں بادشاہ کی نمائندی کا دعویٰ کرے جن کا تعلق عوام سے ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ پر دلیل پیش کرے جس سے اس کی تائید ہو۔ خصوصاً جب لوگ اس کی صداقت میں شک کریں تو اس کی دلیل واضح اور آشکار ہونی چاہےے۔ مثال کے طور پر اگر سفیر لوگوں سے یہ کہے کہ میری صداقت کی دلیل یہ ہے کہ کل کے دن بادشاہ او صدرمملکت مجھے ایسا تحفہ دیگا جیسا وہ دوسرے سفیروں اور نمائندگان کو دیا کرتا ہے اور میری ایسی عزّت اور تکریم کرے گا جیسی دوسرے سفراء او رنمایندگان کی کیا کرتا ہے تو ایسی صورت میں جب سفیر اور لوگوں میں رونما ہونے والے اس اختلاف کا بادشاہ کو علم ہوگا اور اس کے بعد اسی دن اسی تحفے و عزّت و تکریم سے سفیر کو نوازے تو بادشاہ اور صدر مملکت کی طرف سے یہ فعل مدعیئ سفارت کی تصدیق ہوگی جس میں عقلاء کو کوئی شک نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک بادشاہ جو رعیت کی مصلحتوں کا محافظ ہوا کرتا ہے اس کے لئے قبیح ہے کہ وہ کاذب مدعی کی تائید و تصدیق کرے۔ کیونکہ وہ لوگوں میں فساد پھیلانا چاہتا ہے، جب یہ کام عام عقلاء کے لیے قبیح ہو تو اس حکیم اور دانا ذات کے لیے بطریقِ اولیٰ اور قبیح ہے اور یہ حقیقت خدا نے اس آیتِ کریمہ میں بیان فرمائی ہے:

( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ) (۶۹:۴۴۔۴۶)

''اگر رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑلیتے پھر ہم ضرور ان کی گردن اڑا دیتے۔،،

۴۵

اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی نبوّت ہم نے ثابت کی ہے اور اس کی تصدیق کے لیے معجزہ ظاہر کیا ہے، آیا ممکن ہے کہ وہ کوئی بات اپنی طرف سے ہماری طرف منسوب کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ہم ان کا مواءخذہ کریں گے اور ان کی جان لے لیں گے اس کے علاوہ اس قسم کی غلط نسبتوں کو سننے کے بعد خاموشی اختیار کرنا، ان کی تصدیق ہوگی اور شریعت مقدّسہ میں باطل کو شامل کرنے کے مترادف ہوگا۔ بنابرایں جس طرح شریعت کی ابتدائی پیدائش میں اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے اسی طرح پیدائش کے بعد بقاء کے مرحلے میں بھی اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

معجزے کا کسی مدعی نبوّت کی صداقت پر دلالت کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ ہم ےسن و قبح عقلی کے قائل ہوں یعنی اس بات کے قائل ہوں کہ عقل حسن و قبح کو درک کرسکتی ہے۔ لیکن اشاعرہ یہ بات تسلیم نہیں کرتے ان کے نزدیک نبوت کی تصدیق کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس قول کی خرابیوں میں سے ایک خرابی یہی ہے کہ اس سے تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ معجزہ اسی صورت میں نبوّشت کی صداقت کی دلیل ہوگا جب عقل کاذب کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر ہونے کا قبیح سمجھے، اگر عقل اسے قبیح نہ سمجھے تو پھر کوئی بھی صادق اور کاذب میں تمیز نہ کرسکے گا۔

فضل ابن روز بہان نے اس اشکال و اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اگرچہ خدا سے فعل قبیح کا صادر ہونا ممکن ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ خدا کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے لیکن اس کی عادت اور سنت یہی رہی ہے کہ معجزہ اسی کے ہاتھ پر ظاہر ہو جو صادق ہو اور کاذب کے ہاتھ پر معجزہ کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتا۔

اس سے اشاعرہ کے نزدیک تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود نہیں ہوتیں، لیکن اس جواب کی کمزوری ظاہر و آشکار ہے۔

۴۶

اس لیے کہ اوّلاً یہ عادت خدا اور سنت الہٰی جس کی خبر ''ابن روز بہان،، دے رہا ہے، ان چیزوں میں سے نہیں ہے جو اس سے درک کی جاسکیں، کان سے سنی جاسکیں یا آنکھ سے دیکھی جاسکیں بلکہ عقل ہی کے ذریعے اس کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب عقل حسن و قبح کا ادراک نہ کرسکے (جس کے اشاعرہ قائل ہیں) توپھر کون جانے کہ خدا کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ معجزہ صرف صادقین کے ہاتھ پر دکھاتا ہے۔

ثانیاً، یہ عادت گذشتہ انبیاء کی تصدیق کے بعد ہی ثابت ہوسکتی ہے، جن کے ہاتھ سے معجزے ظاہر ہوئے ہیں، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ خدا کی یہ سنّت رہی ہے کہ وہ صادق کے ہاتھ پر ہی معجزہ ظاہر کرتا ہے لیےکن جو حضرات گذشتہ انبیاء کی نبوّتوں کے منکر ہیں یا انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے لیے تو یہ عادت ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا جس کا ''ابن روز بہان،، مدی ہے اور نہ ہی ان کے لئے معجزہ حجت ہے ہوسکتا ہے۔

ثالثاً، جب عقل کی نظر میں کسی فعل کو انجام دینا اور ترک کرنا مساوی ہو اور اس میں کسی قبح یا حسن کا حکم نہ لگایا جاسکے تو پھر خدا کو اپنی عادت بدلنے میں کون سی چیز مانع ہوگی، جبکہ خدا قادر مطلق ہے اور اس کا کوئی مواخذہ و محاسبہ بھی نہیں کرسکتا۔ بنابرایں اگر خدا کسی کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے تو بھی کوئی مانع نہیں ہونا چاہیے۔

رابعاً، عادت تو ایک ایسی چیز ہے جو کسی عمل کے تکرار کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے اور اس میں عرصہ دراز کی احتیاج ہوتی ہے۔ یہ آخری نبی یا اس سے پہلے انبیاء کے لئے تو معجزہ بن سکتا ہے لیکن ابتدائی نبوّت کے لیے کس طرح معجزہ بن سکتا ہے، جس میں کوئی عادت ہی نہیں بنی تھی۔ ہم آئندہ صفحات پر اشاعرہ کے اقوال ذکر کریں گے اور ان کے باطل پہلو بھی بیان کریں گے۔

۴۷

معجزہ اور عصری تقاضے

آپ نے دیکھا کہ معجزہ وہ ہوتا ہے جو طبیعی قوانین کو توڑ دے، کسی الہٰی منصب کا مدعی اسے انجام دے اور باقی لوگ اسے انجام دینے سے قاصر ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی معجزہ جس ہنر یا پیشے سے مماثلت رکھا ہو اسی پیشے کے علماء و ماہرین ہی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ عام لوگ یہ کام انجام دینے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ کسی بھی صنعت اور ہنر کی خصوصیات اس کے علماء ہی بہتر سمجھتے ہیں، وہی بتاسکتے ہیں کہ عام لوگ کونسا کام انجام دے سکتے ہیں اور کونسا نہیں یہی وجہ ہے کہ علماء معجزہ کی جلدی تصدیق کرتے ہیں جبکہ اس فن و ہنر کے اصولوں سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے جاہل کے آگے شک و تردید کے دروازے کھلے رہتے ہیں چنانچہ جب تک اس کا یہ احتمال باقی رہے کہ مدعی نے خاص اصولوں کا سہارا لیا ہوگا جنہیں اہل فن ہی جانتے ہیں اسے بہت دیر تک مدعی کی صداقت پر یقین نہ آئے گا۔

اسی لیے حکمت الہٰی کا یہ تقاضا ہے کہ ہر نبی کو وہی معجزہ دے کر بھیجا جاھے جو اس دور کے مشہور و معروف فن کی مانند اور اس فن کا اس دور میں چرچا بھی ہو، اس طرح کے معجزے کی تصدیق جلدی اورحجت و برہان مضبوط ہوتی ہے۔

حکمت الہٰی کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا سے مسلح کیا جاتا کیوں کہ اس زمانے میں سحر کی شہرت زیادہ تھی اور جادوگر کثرت سے تھے، یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے آپ کی تصدیق جادوگروں نے کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عصائے موسیٰ (علیہ السلام) اژدھے میں تبدیل ہوگیا اور ان کے جعلی اور بے بنیاد سانپوں کو نگلنے کے بعد دوبارہ اپنی اصلی صورت میں آگیا ہے تووہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ سحر کے دائرے سے خارج ہے اور یہ یقیناً الہٰی معجزہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرعون کے دربار میں اس کی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔

۴۸

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں یونانی طبّ کو شہرت حاصل تھی، اس دور میں اطباء عجیب و غریب کارنامے انجام دیتے تھے، شام اور فلسطین میں یہ علم بہت زٰادہ مروّج تھا کیونکہ یہ دونوں شہر یونانی استعمار کی زد میں تھے۔ جب خداوند حکیم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان علاقوں میںنبی بناکر بھیجا تو حکمت کا یہی تقاضا تھاکہ آپ کی نبوت کی دلیل طب سے مشابہت رکھنے والی ہو۔ چنانچہ آپ مردوں کو زندہ، مادر زاد اندھوں کو بینا اور برص کے مریضوں کو شفایاب کردیتے تھے تاکہ اس زمانے کے لوگ یہ سمجھ سکیں کہ چونکہ یہ عمل انجام دیناعام لوگوں کی قدرت و استطاعت سے باہر ہے اور طبی اصولوں کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس میں طبیعت اور مادہ سے بالاتر کسی ذات کی قدرت کار فرما ہے۔

عرب فصاحت و بلاغت میںبہت آگے تھے، فصاحت ان کا طرہ امتیاز تھی، وہ ادب کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں شعر و شاعری میں مقابلے اور فخر و مباہات کے لیے خصوصی میلے لگتے تھے جہاں اچھاکلام پیش کرنے والوں کو داد تحسین دی جاتی تھی۔ ان کے نزدیک شعر و شاعری کی قدر و منزلت اس قدر زیادہ تھی کہ انہوں نے قدیم اور عمدہ اشعار پر مشتمل سات قصیدے منتخب کئے اور انہیں آبِ زر سے لکھ کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیا، اس کے بعد کسی کے عمدہ کلام پر یہ کہا جانے لگا کہ یہ فلاں شاعر کا سنہرا کلام ہے۔ عرب مرد و زن سب اس فن کو اہمیت دیتے تھے اور شعری مقابلوں میں (معروف شاعر) ''نابغہ ذبیانی،، کو جج مقرر کیا جاتا تھا۔ حج کے موقع پر بازار عکاظ میں اس کے لیے چمڑے کا خیمہ نصب کیا جاتا تھا جہاں آکر شعراء اسے اپنا کلام سناتے تاکہ وہ اپنا فیصلہ سنائے۔

۴۹

ان حالات میں حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور بلاغت قرآن کا معجزہ دے کر بھیجا جاتا، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا۔ یہ عرب نے اس سمجھا اور تصدیق کی کہ یہ کلام خدا ہے اور اس کی بلاغت بشر کی قدرت سے باہر ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف ہر اس عرب نے کیا جس میں تعصب نہیں تھا۔

اس حقیقت پر اس روایت سے بھی ر وشنی پڑتی ہے جو ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے دریافت کیا:

''لماذا بعث الله موسی بن عمران بالعصا، و یده البیضائ، و آلة السحر؟ و بعث عیسیٰ بآلة الطب؟ و بعث محمداً صلی الله علیه و آله وعلی جمیع الأنبیائ بالکلام و الخطب؟

فقال أبو الحسن : ان الله لما بعث موسی کان الغالب علی أهل عصره السحر، فأتاهم من عند الله بما لم یکن فی وسعهم مثله، و ما أبطل به سحرهم، و أثبت به الحجة علیهم، و ان الله بعث عیسیٰ فی وقت قد ظهرت فیه الزمانات، و احجاج الناس الی الطب، فأتاهم من عند الله بما لم یکن عندهم مثله، و بما أحیی لهم الموتی، و أبرأ الأکمه و الأبرص باذن الله، و أثبت به الحجة علهیم

و ان الله بعث محمد فی وقت کان الغالب علی أهل عصره الخطب و الکلام و أظنه قال: الشعر فأتاهم من عند الله من مواعظه و حکمه ما أبطل به قولهم، و أثبت باه الحجة علیهم ،،(۱)

''کیا وجہ ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو طب اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور خطابت کامعجزہ دے کر بھیجا؟ آپ نے فرمایا: خدا نے حضرت موسیٰ کو جس وقت نبی بنا کر بھیجا اس وقت سحر اور جادو کا دور دورہ تھا۔ اسی لیے خدا نے حضرت موسیٰ کو اسی نوعیت کا ایسا کمال عطا کرکے بھیجا جس سے عام لوگ عاجز تھے اور ان کے سحر باطل ہوگئے اور آپ کی حجت مکمل ہوگئی۔

____________________

(۱) اصول کافی، کتاب عقل و الجہل۔ الروایۃ ۲۰

۵۰

جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث بر مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت مختلف قسم کی بیماریاں عام تھیں اور لوگ طب کے زیادہ محتاج تھے، چنانچہ خالق نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہ طب عطا فرمائی جس کی نظیر لوگوں کے پاس نہ تھی۔ آپ کو ایسا طب عطا فرمایا جس سے آپ باذن اللہ مردوں کو زندہ اور مادر زاد اندھے کو بینا اور برص کے مریضوں کوشفایاب فرماتے تھے۔ جس سے آپ نے ان لوگوں پر اپنی حجت مکمل کی۔ جس وقت خاتم الانبیائ کو نبی بنا کر بٍھیجا گیا اس وقت بیان اور خطابت کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان تھا۔ (میرے خیال میں امام کے کلام میں شعر کا ذکر ہے) خدا نے آنحضرت کو موعظہ اور حکمت آمیز کلام دے کر بھیجا، جس سے ان کے تمام دعوے باطل ہوگئے اور آپ کی حجت پوری ہوگئی۔،،

اگرچہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس قرآن کے علاوہ بھی معجزات تھے جن میں چاند کو دو ٹکڑے کرنا، اژدھے سے کلام کرنا اور سنگریزوں کا آپ کے ہاتھ پر تسبیح پڑھنا شامل ہیں لیکن ان تمام معجزات میں قرآن کی شان اور عظمت زیادہ ہے اور یہ سب سے مضبوط حجت اور دلیل ہے۔ چونکہ عرب طبیعی علوم اور کائنات کے اسرار و رموز سے آشنا نہیں تھے اس لیے وہ ان معجزوں (شق قمر وغیرہ) کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کو نامعلوم علل و اسباب کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وہ ان اسباب میں سب سے زیادہ احتمال سحر کا دیتے تھے۔ لیکن قرآن کامعجزہ ایسا ہے کہ عرب ا س کی بلاغت اور اعجاز میں شک نہ کرسکے۔اس لیے کہ عرب فنون بلاغت سے مکمل آگاہ تھے اور اس کے اسرار و رموز کو درک کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ شق القمر جیسے دیگر معجزات وقتی تھے جو ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتے تھے اور بہت جلد ایک تاریخی واقعے میں تبدیل ہوسکتے تھے جنہیں گذشتہ لوگ آئندہ کی نسلوں کے لیے نقل کرتے۔ چنانچہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ شک و تردید کی نگاہ سے دیکھے جاتےٍ۔۔۔ مگر قرآن ایک ایسا معجزہ ہے جو ابد تک باقی رہے گا اور ہردور و نسل میں ایک زندہ معجزہ کے طور پر موجود ہے۔

ہم آئندہ ابحاث میں قرآن کے علاوہ دیگر معجزات پر تفصیلی بحث کریں گے اور ان اہل قلم ہم عصروں کا محاسبہ کریں گے جو معجزات کے منکر ہیں۔

۵۱

قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ

دعوتِ اسلام سے آشنا ہر عاقل اور باشعور انسان یقیناً جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اقوام عالم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور قرآن مجید کو بطور دلیل پیش فرمایا اور معجزہ قرآن کے ذریعے چیلنج کیا عرب کے تمام فصحاء و بلغاء مل کر اس کی نظیر اور مثل لاکر دکھائیں۔ اس کے بعد آپ نے رعایت دیتے ہوئے قرآن مجید کے دس سوروں کی نظیر و مثل پیش کرنے کا چیلنج دیا۔ پھر مزید رعایت دے کر آپ نے ایک سورہ پیش کرنے کا چیلنج دیا۔

چاہیے تھا کہ عرب، جن میں چوٹی کے فصحاء موجودتھے، آنحضرت کے اس چیلنج کا جواب دیتے اور امکان کی صورت میں قرآن کی نظیر پیش کرکے آنحضرت کا دعویٰ باطل کرتے۔ واقعاً حق تو یہ تھا کہ کم از کم وہ قرآن کے ایک سورہ کا مقابلہ کرتے، بلاغت میں اس کی نظیر پیش کرتے اور اس طرح ہو اس مدعیئ نبوّت کی دلیل کا توڑ فراہم کرتے جس نے اس فن میں ان کو چیلنج کیا، جس میں انہیں کمال حاصل تھا اور جسے وہ اپنا طرہ امتیاز سمجھتے تھے تاکہ تاریخ میں فتح و کامیابی کا سہرا وہ اپنے سر باندھتے اور اپنا نام ہمیشہ کے لیے زندہ کرتے۔ اس طرح ایک معمولی مقابلے کے نتیجے میں بہت سی خونریز جنگوں سے نجات مل جاتی اور بہت سا مال و دوکت بھی بچ جاتا۔ لوگ وطن سے بے وطن نہ ہوتے اور نہ انہیں سختیاں جھیلنی پڑتیں۔

مگر جب عربوں نے قرآن کی بلاغت کا بغور مطالعہ کیا تو انہیں اس کے معجزہ ہونے کا یقین آگیا۔ انہیں معلوم تھا کہ قرآن سے مقابلہ کرنے کی صورت میں انہیں حتمی شکست و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ بعض اقوام نے اس داعیِ حق کی تصدیق کی، دعوتِ قرآن کے آگے سرتسلیم خم کیا اور اسلام کا شرف حاصل کرلیا اور کچھ ل وگوں ے عناد اور تعصب کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فصاحت و بلاغت کی علمی جنگ پر مسلحانہ جنگ کوترجیح دی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن وحی الہٰی ہے۔

۵۲

ایک اعتراض اور اسکا جواب

ایک غیر ملم جاہل یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ عربوں نے قرآن کی نظیر پیش کردی تھی اور انہوں نے قرآن کا مقابلہ کرلیا تھا لیکن زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے تاریخ یہ بات ہم تک نہیں پہنچا سکی۔

اس اعتراض کے تین جواب ہیں:

i ) اگر اس قسم کا مقابلہ کرتے ہوئے قرآن کی نظیر پیش کی جاتی تو عرب اپنی محفلوں، اجتماعات اور بازاروں میں اس کا اعلان کرتے، دشمنان اسلام ہر محفل میں اس کے گن گاتے، مناسب موقع پر اس کا ذکر کرتے، ہر آنے والے کو اس کی خبر دیتے، اس کی اس طرح حفاظت کرتے جس طرح ایک مدعی اپنی دلیل و حجت کی حفاظت کیا کرتا ہے اور یہ چیز ان کے لیے اپنے سلف کی ان تواریخ اور زمانہ جاہلیّت کے اشعار سے زیادہ عزیز و قیمتی ہوتی جن سے کتبِ تواریخ اور دیوان بھرے پڑے ہیں۔ مگر قرآن کی نظیر پیش کرنے کا کوئی واقعہ نہ دیکھنے میں آیا اور نہ اس کا ذکر سننے میں آیا۔

ii ) قرآنِ کریم نے عربوں کو ہی چیلنج نہیں کیا، پوری انسانیّت بلکہ تمام جنّ و انس کو یہ چیلنج کیا تھا:

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ) (۱۷:۸۸)

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر (ساری دنیا جہان کے) آدمی اورجنّ اس بات پر اکٹھے ہوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں (غیر ممکن) اس کے برابر نہیں لاسکتے۔ اگرچہ اس کوشش میں ا یک کا ایک مددگار بھی بنے۔،،

۵۳

تاریخ شاہد ہے کہ نصاریٰ اور دوسرے دشمنان اسلام۔ رسول اسلام ، قرآن کریم اور دین اسلام کو ان کے مقام سے گرانے کے لیے بے تحاشا سرمایہ خرچ کر رہے ہیں اور یہ کام ہر سال بلکہ ہر مہینے ہو رہا ہے۔ اگر قرآنِ کریم کے ایک سورہ کا بھی مقابلہ ممکن ہوتا تو یہ ان کے لیے ایک مضبوط و محکم دلیل ہوتی، وہ اس کی مدد سے جلد اپنی آرزو پوری کرسکتے تھے۔ اتنا سرمایہ خرچ کرنے اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کی انہیں ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی:

( يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ) ۶۱:۸

''یہ لوگ اپنے منہ سے (پھونک مارکر) خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، حالانکہ خدا اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، اگرچہ کفّار برا ہی (کیوں نہ) مانیں۔،،

iii ) عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ جب کسی شخص کا واسطہ طویل عرصے تک کسی فصیح و بلیغ کلام سے رہا ہو اور ایک مدّت تک اس نے اس کی خدمت کی ہو ہو اس کی مثل یا کم از کم فصاحت و بلاغت میں اس کے قریب قریب اپنا کلام بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

لیکن قرآن کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں کیا گیا کیوں کہ انسان قرآن کو کتنا ہی زیادہ پڑھ لے اور اس کی خصوصیّات پر غور و خوض کرے، وہ اس کی معمولی سی جھلک بھی پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے اس سے ہم لازماً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب، تعلیم و تعلّم کے عام اسالیب سے مختلف ہے۔

۵۴

اگر قرآن کریم رسول اسلام کا اپنا بنایا ہوا کلام ہوتا تو آپ کے خطبوں اور جملوں میں کہیں نہ کہیں قرآن کریم کے اسلوب بیان کا عکس نظر آتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اقوال کے ایک خاص انداز ہے جو قرآن کریم کے اسلوب سے یکسر مختلف ہے۔

اگر آپ کے کلام میں قرآن کریم کے مشابہ کوئی چیز ہوتی تو وہ مشہور ہوجاتی۔ خصوصاً دشمنان اسلام کی زبانوں اور کتب کے ذریعے، جو ہر طریقے سے اسلام کو کمزور اور بدنام کرنے کے درپے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ عام مروّج بلاغت کی مخصوص حدود ہیں جن سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک بلیغ عربی شاعر یا نثر نگار ہے، لیکن وہ صرف ایک یا دو پہلوؤں پر بلاغت آمیز کلام پیش کرسکتا ہے۔ مثلاً وہ شجاعت و بہادری کے موضوع پر توبلیغ کلام پیش کرسکتا ہے مگر مدح و تعریف کے موضوع پر ویسا بلیغ کلام پیش کرنے سے قاصر ہے یا مرثیہ کے موضوع پر تو بلیغ کلام پیش کرسکتا ہے لیکن غزل کے عنوان سے ویسا کلام پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جبکہ قرآن کریم میں متعدد موضوعات اور مختلف فنون کا ذکر ہے اور تمام موضوعات کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ جس کی نظیر لانے سے دنیا قاصر ہے اور یہ کام بشر کے لئے ناممکن ہے۔

۵۵

قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ

اب تک ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی نبی کی نبوّت کی تصدیق اور اس پر ایمان لانا اس معجزے پر منحصر ہے جسے نبی اپنے دعوےٰ کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چونکہ گذشتہ انبیاء (علیٍھم السلام) کی نبوّتیں انہی ادوار اور انہی نسلوں کے لیے مختص تھیں اس لیے حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ ان معجزوں کی مدّت محدود ہوتی۔ اس لیے کہ وہ معجزات محدود دور نبوست کی نشانی تھی۔ اس زمانے میں بعض لوگ تو خود ان معجزات کا مشاہدہ کرتے اور ان پر حجّت تمام ہو جاتی اور بعض لوگوں کے لیے عینی شاہدان معجزوں کو تواتر سے پیش کرتے جس سے ان پر بھی حجّت تمام ہوجاتی تھی۔

لیکن ایک ابدی شریعت کے لیے شاہد کے طورپر پیش کیے جانے والا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے کیونکہ اگر معجزہ کی مدّت محدود ہوگی تو آنے والی نسل اس کا مشاہدہ نہ کرسکیں گی اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خبر متواتر کا سلسلہ بھی ختم ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں آئندہ نسلوں کو اس نبوّت کی صداقت کا علم حاصل نہیں ہوسکے گا۔ ایسی صورت میں اگر آنے والی نسلوں کو نبوّت پر ایمان لانے کا مکلّف بنایا جائے تو یہ ایک ناممکن امر کا مکلّف بنانے کے مترادف ہے اور یہ محال و ممتنع ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی محال امر کا مکلّف بنائے۔

۵۶

پس معلوم ہوا کہ دائمی نبوّت کا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک دائمی اور ابدی معجزہ کی صورت میں بھیجا تاکہ یہ ایک ابدی اور دائمی صداقت کا شاہد بن سکے اور جس طرح یہ گذشتہ لوگوں کے لیے حجّت تھا سای طرح یہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی حجّت قرار پائے۔

ہم گذشتہ مباحث سے دو نتیجوں پر پہنچے ہیں:

( i قرآن کریم انبیاء ما سلف (علیہم السلام) کے تمام معجزات اور خود خاتم الانبیاء (ص) کے باقی تمام معجزوں پر فوقیت رکھتا ہے، اس لیے کہ قرآن کریم ہمشیہ کےلئے باقی ہے اور اس کا اعجاز دائمی ہے جسے تمام نسلیں سن سکتی ہیں اور یہ سب کے لیے حجت ہے۔

ii ) گذشتہ شریعتوں کی مدت ختم ہوگئی، کیوں کہ ان کی حجت اور دلیل (معجزہ) بھی ختم ہوچکی ہے جس پر ان شریعتوں کی صداقت مبنی تھی۔(۱)

یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کو اس وجہ سے بھی گذشتہ انبیاء کے معجزات پر برتری حاصل ہے کہ قرآن کریم نے انسان کی ہدایت(۲) اور کمال کی آخری منزل تک اس کی رہنمائی کی ضمانت دی ہے۔

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۴ میں مولف اور ایک یہودی عالم کے درمیان ہونے والا مباحثہ ملاحظہ فرمائیں۔

(۲) وضاحت کے لیے اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر۵ ملاحظہ فرمائیں۔

۵۷

قرآن کریم ہی وہ رہنما ہے جس نے ان عربوں کی ہدایت کی جو ظالم، سرکش، بدترین عادات کے خوگر اور بتوں کے پرستار تھے۔ جو علوم و معارف اور تزکیّہ ئ نفس سے عاری تھے اورداخلی جنگ و جدال اورجاہلیت پر مبنی فخر و مباھات میں مصروف رہتے تھے۔ یہی عرب ایک قلیل مدّت میں ایک ایسی اُمّت بن گئے جس کی ثقافت عظیم اور تاریخ رشن و درخشاں ارو جو انسانی عادادت و اخلاق سے آراستہ ہوچکی ہے؟

تاریخ اسلام اور راہ اسلام میں جام شہادت نوش کرنے والے اصحاب پیغمبر کے حالاتِ زندگی کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو اس پر قرآنی ہدایت و رہبری کی عظمت اور اس کے حیرت انگیز اثرات عیاں ہوں گے، اسے معلوم ہوگا کہ قرآن نے ہی انہیں جاہلیت کی پست زندگی سے نکال کر علم و کمال کے بلند مراتب پر فائز کیا اور انہیں ایسے فداکار انسان بنایا جو دین و شریعت کی راہ میں جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور جنہیں اسلام کے مقابلے مںی مال و دولت اور اہل و عیال کی پرواہ نہیں ہوتی۔

جنگ بدر کے آغاز میں مسلمانوں سے مشورہ کے موقع پر جناب مقدار نے رسولِ خد کو جواب دیا وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے فرمایا:

''یا رسول الله امض لما امرک الله فنجن معک، و الله لانقول کما قالت بنو اسرائیل لموسی: اذهب انت و ربک فقباتلا انا ههنا قاعدون، و لکن اذهب انت و ربک فقاتلا انا معکما مقاتلون، فوالذی بعثک بالحق لوسرت بنا الی وبرک الغماد ۔یعنی مدینة الحبشة ۔لجالدنا معک من دونه حتی تبلغه ۔فقال له رسول الله خیراً، و دعا له بخیر،، (۱)

''یا رسول اللہ! خدا نے آپ کو جس مشن کا حکم دیا ہے اسے کرگزریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی مانند نہیں ہےں کہ جنہوں نے جناب موسیٰ سے کہا تھا: ''آپ خودجائیں اور اپنے خدا کی مدد سے جنگ کریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔،، لیکن ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ جائیں اور

___________________

۱) تاریخ طبری، غزوہئ بدر، ج ۲، ص ۱۴۰، طبع دوم۔

۵۸

اپنے ربّ کی مدد سے جنگ کریں ہم بھی آپ کے ہمراہ جنگ کریں گے۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا، اگر آپ ہمیں برک غماد (حبشہ شہر) بھی لے چلیں تو بھی ہم آپ کے ہمراہ جائیںگے، یہاں تک کہ آپ منزل مقصود پر پہنچ جائیں یہ کلام سننے کے بعد رسول اللہ نے جناب مقداد کے لیے دعائے خیر فرمائی۔،،

مسلمانوں میں سے ایک ہے جو اپنے عزم و عقیدہ، حق کو زندہ رکھنے اور باطل کو مٹانے کے لیے جانثاری کااظہار کررہا ہے، خلوص کے ایسے پیکر اور عقیدت مند مسلمانوں میں اور بہت پائے جاتے ہیں۔

ہاں! قرآن حکیم ہی وہ سراپا ہدایت ہے جس نے بت پرستوں کے دلون کو منور کیا جو خانہ جنگی اور جاہلیت کے فخر و مباھات میں الجھے ہوئے تھے اور ان لوگوں کو کفار کے مقابلے میں فولاد کی طرح سخت اور مومنین کے مقابلے میں ابریشم کی طرح نرم (رحمدل) بنایا۔ ان کیایسی تربیت کی کہ یہ اپنے ساتھیوں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے لگے۔

اسلام کی بدولت اسّی سال میں مسلمانوں کو اتنے ممالک پر فتح نصیب ہوئی جو دوسروں کو آٹھ سو سال میں بھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ جو شخص اصحاب پیغمبر کی سیرت اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی سیرت کا موازنہ کرے وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس (فتح) کا ایک الہٰی راز ہے جو اس کتابِ الہٰی میں مضمر ہے، جس نے راسخ عقیدہ اور اصولوں کے ثبات سے دلوں اور روح کو پاکیزگی دی اور نفوس پر نور افشانی کی۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لوگ سختی کے موقع پر انبیاء کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور جہاں انہیں موت نظر آتی وہاں ان کا ساتھ نہ دیتے تھے، اسی لیے گذشتہ انبیاء اپنے دور کی طاغوتی طاقتوں پر فتح نہ پاسکے تھے بلکہ وہ ان کے خوف سے بیابانوں اور غاروں میں جاکر پناہ لیتے تھے۔ یہ وہ دوسری خاصیت ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم کو باقی معجزات پر امتیاز حاصل ہے۔

جب بلاغت میں قرآن کریم کا الہٰی معجزہ ہونا ثابت ہوگیا تو اب یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہ رہے کہ قرآن صرف بلاغت کے پہلو سے معجزہ نہیں بلکہ کئی اور جہات سے بھی رسولِ اسلام کی نبوّت کی برہان اور دلیل ہے۔ ہم ان میں بعض جہات کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

۵۹

قرآن اور معارف

قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی تصریح کی گئی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) امّی تھے اور آپ نے کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ آپ نے اس کا اعلان اپنی قوم اور قبیلے میں فرمایا، جس میں آپ نے نشوونما پائی تھی۔ مگر کسی نے بھی آپ کے اس دعویٰ کی تردید نہیں کی اور یہ (کسی کا تردید نہ کرنا) آپ کے دعویٰ کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ آپ نے امّی ہونے کے باوجود قرآن کریم جیسی کتاب پیش کی جس کے معارف و علوم سے فلسفیوں کی عقلیں مبہوت ہیں اور ظہور اسلام سے لے کر آج تک مغربی و مشرقی مفکرّین ان کے سامنے مبہوت نظر آتے ہیں اور قرآنِ کریم قیامت تک مفکرّین کے لیے باعثِ حیرت و استعجاب رہے گا اور یہ اعجاز قرآنِ کریم کا ایک اہم اور عظیم پہلو ہے۔

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ امّی نہ تھے بلکہ آپ نے تاریخ، فنون اور دیگر معارف کی تعلیم کسی مکتب میں حاصل کی تھی تو کیا یہ لازمی نہیں ہے کہ آپ نے علوم و فنون اس دور کے ماہرین سے سیکھے ہوں جن میں آپ پھلے پھولے۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں میں پرورش پائی جو بُتوں اور اوہام کی پرستش کرتے اور خرافات پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ آپ کے کچھ ہم عصر اہلِ کتاب جو اپنے معارف، تاریخ اور احکام، حورات و انجیل سے لیتے تھے اور انہیں وحی و انبیاء کی طرف منسوب کرتے تھے۔

اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام تعلیمات اس زمانے کے علماء سے حاصل کی تھیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے اقوال و تعلیمات میں وہی عقائد چھائے ہونے چاہئیں جو آپ نے اپنے استادوں اور راہنماؤں سے سیکھے ہیں۔ حالانکہ قرآنِ کریم ہر لحاظ سے تورات و انجیل سے مختلف نظر آتا ہے۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689