البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن5%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314041 / ڈاؤنلوڈ: 9316
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

ان آیات کا تنقیدی جائزہ جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے

اس وقت ہمارا موضوع سخن وہ آیات ہیں جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے فی الحال ہم وہ آیات پیش کرتے ہیں جن کے بارے میں آسانی سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں نسخ واقع ہوا ہے یا نہیں اور جن آیات کا نسخ نہ ہونا (ہمارے گزشتہ بیانات کی روشنی میں) واضح ہے ان کو فی الحال پیش نہیں کرتے انشاء اللہ تعالیٰ ان کی تفسیر کے موقع پر اس پہلو (نسخ) پر نظر ڈالیں گے۔

ان آیات پر بحث ہم اسی ترتیب سے کریں گے جس ترتیب سے یہ قرآن میں موجود ہیں:

۱۔( وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۲:۱۰۹

''(مسلمانو)اہل کتاب میں سے اکثر لوگ اپنے دلی حسد کی وجہ سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو ایمان لانے کے بعد پھر کافربنا دیں (اور لطف تو یہ ہے) ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے اس کے بعد بھی (یہ تمنا باقی ہے) پس تم معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی اور حکم بھیجے ، بیشک خداہر چیز پر قادر ہے،،

ابن عباس نے قتادہ اور سدی سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے ابو جعفر نحاس نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے(۱) آیہ سیف یہ ہے:

( قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ) ۹:۲۹

''اہل کتاب میں سے جو لوگ نہ تو (دل سے) خدا ہی پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخرت پر اور نہ خدا اوراس کے رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ سچے دین ہی کو اختیار کرتے ہیں ان لوگوںسے لڑے جاؤ یہاں تک کہ وہلوگ ذلیل ہو کر (اپنے) ہاتھ سے جزیہ دیں،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۲۶ ، طبع مکتبتہ العلامیہ ۔ مصر

۳۶۱

مذکورہ آیت کے نسخ کو اس وقت مانا جا سکتا ہے جب دو باتیں مان لی جائیں جو کہ صحیح نہیں ہیں:

(۱) اس حکم کے برطرف ہونے کو بھی نسخ کہا جائے جس کی مدت معین ہو اور اس مدت کے ختم ہو جانے کی وجہ سے حکم برطرف ہوگیا ہو۔

اس بات کا باطل ہونا واضح ہے اس لئے کہ نسخ وہاں بولا جاتا ہے جہاں حکم کے عارضی اور دائمی ہونے کا کوئی ذکر نہ کیا گیا ہو اور اگر کوئی حکم عارضی ہو ، اگرچہ وقت کی تعیین تفصیل سے نہ کی گئی ہو اور اجمالی طور پر معلوم ہو کہ یہ حکم عارضی ہے تو وہی دلیل ، جو وقت کی وضاحت اور حکم کی آخری مدت بیان کرے ، قرینہ بنے گی جومراد متکلم کی وضاحت کرے اس پر نسخ صادق نہیں آتا نسخ اصطلاحی یہ ہے کہ ایسے حکم کو برطرف کیا جائے جسے کلام کے اطلاق کی رو سے ظاہری طورپر دائمی سمجھا جائے اور وہ حکم کسی معین مدت سے مختص نہ ہو۔

فخر الدین رازی کا خیال ہے کہ کسی جداگانہ دلیل کے ذریعے عارضی حکم کا وقت (آخری مدت) بیان کرنابھی نسخ کہلاتا ہے ۔ رازی کا یہ خیال سراسر باطل ہے کیونکہ اصطلاح میں اسے کوئی بھی نسخ نہیں کہتا اور جس حکم کے ابدی اور دائمی ہونے کی تصریح کی گئی ہو اس میں نسخ کا واقع نہ ہونا تو اظہر من الشمس ہے۔

(۲) پیغمبر اکرم (ص) کو اہل کتاب سے جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہو اور یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم (ص) کو اہل کتاب سے جنگ لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ آیت کریمہ میں مشرکین کو خدا اور اخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینے اور ان سے جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے اہل کتاب سے ابتدائی طورپر جنگ لڑنا جائز نہیں یہ اور بات ہے کہ کسی اور وجہ سے اہل کتاب سے لڑنا جائز ہو مثلاً اگر اہل کتاب جنگ میں پہل کریں

۳۶۲

اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوں تو اس صورت میں ان سے لڑنا جائز ہو گا چنانچہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۲:۱۹۰

''اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو (کیونکہ) خدا زیادتی کرنے والوں کو ہگز دوست نہیں رکھتا،،

یا اس صورت میں اہل کتاب سے جنگ کی جا سکتی ہے جب وہ مسلمانوں میں فتنہ و فساد پھیلائیں اس لئے کہ فتنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ): ۱۹۱

''اور فتنہ پردازی (شرک) خونریزی سے بھی بڑھ کے ہے،،

یا اس صورت میں اہل کتاب سے لڑا جا سکتا ہے جب وہ طے شدہ جزیہ دینے سے انکار کر دیں جس کی طرف زیر بحث آیہ کریمہ میں اشارہ کیا جا رہا ہے:

لیکن اگر اس قسم کا کوئی سبب اور مجوز نہ ہو تو اہل کتاب سے صرف ان کے کفر کی بنیاد پر لڑنا جائز نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلی آیت میں مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر اہل کتاب تمہیں دوبارہ کافر بنانا چاہیں جو ان کے کفر کا لازمی نتیجہ ہے تو اسے درگزر کرو اور ان سے جنگ نہ کرو۔

یہ حکم اس سے منافات نہیں رکھتا کہ دوسری آیت میں کسی اور سبب اور مجوز کی بنیاد پر ان سے لڑنے کا حکم دیا جائے بنا برایں دوسری آیت پہلی آیت کی ناسخ نہیں ، بلکہ پہلی آیت میں اہل کتاب سے قتال (جنگ) کا کوئی مجوز نہیں تھا اس لئے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا اور دوسری آیت میں ان سے قتال کا مجوز موجود تھا اس لئے لڑنے کا حکم دیا گیا۔

اس کے علاوہ جس کو اس آیت کے نسخ پر شبہ ہوا ہے اس نے آیہ کریمہ:

(حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ) ۲:۱۰۹

''یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی اور حکم بھیجے،،۔

۳۶۳

میں امر کا معنی طلب اور حکم سمجھا ہے اور اس سے اس شبہ کا شکار ہوا ہے کہ کفار سے درگزر اور چشم پوشی سے کام لیا جائے حتیٰ کہ خدا ان سے جنگ لڑنے کا حکم دے اس طرح اس نے بعد والے حکم کو ناسخ قرار دیا ہے۔

محترم قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ بالفرض اگرا سے درست بھی سمجھا جائے پھر بھی نسخ لازم نہیں آتا لیکن یہ احتمال سرے سے باطل ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں امر سے مراد طلب اور حکم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد امر تکوینی اور مخلوق میں قضا و قدر الٰہی ہے اس کی دلیل امر سے پہلے لفظ ''اتیان،، کا لانا ہے (کیونکہ ار بمعنی مطلب اتیان کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا) اور دوسری دلیل آخری آیت ہے۔

( إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۲:۱۰۹

''بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے،،

اس آیہ شریفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے: اگر اہل کتاب تمہیں دوبارہ کافر بنانا چاہیں تو انہیں معاف کر دو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰاپنی مشیّت سے اسلام کو عزت عطا فرمائے اور کفار کی اکثریت دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے کچھ کو اللہ تع الیٰ ہلاک کر دے اور انہیں آخرت میں شدید عذاب دے اور اس قسم کے دوسرے فیصلے فرمائے جن کی قضا و قدر الٰہی متقاضی ہو۔

۲۔( وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ) ۲:۱۱۵

''(ساری زمین) خدا ہی کی ہے (کیا) پورب (کیا) پچھم پس جہاں کہیں (قبلہ کی طرف) رخ کر لو وہیں خدا کا سامنا ہے بیشک خدا بڑی گجائش والا اور خوب واقف ہے،،۔

۳۶۴

علماء کی ایک جماعت ، جس میں ابن عباس ، ابو العالیہ ، حسن عطا ، مکرمہ قتادہ ، سدی اور زید بن اسلم شامل ہیں ، سے منسوب ہے کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے(۱) البتہ اس کے ناسخ کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے ابن عباس فرماتے ہیں:

یہ آیت قول اللہ تعالیٰ:

( وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ) ۲:۱۵۰

''اور (اے مسلمانو) تم (بھی) جہاں کہیں ہوا کرو نماز میں اپنا منہ (اسی کعبہ) کی طرف کر لیا کرو،،

کے ذریعے نسخ ہوئی ہے،،

قتادہ فرماتے ہیں:

یہ آیت ، آیہ :

( فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ ) ۲:۱۵۰

''تم (نماز میں) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرلیا کرو،،

کے ذریعے نسخ ہوئی ہے،،

قرطبی کا بھی یہ کہنا ہے(۲)

علماء نے اس آیت کے نسخ ہونے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ رسول اللہ (ص) اور دوسرے تمام مسلمانوں کو پہلے یہ اختیار دیا گیا تھا کہ نماز میں جس طرف چاہیں رخ کریں اگرچہ رسول اللہ (ص) نے ان اطراف میں سے بیت المقدس کی سمت اختیار فرمائی تھی اس کے بعد یہ آیت نسخ ہو گئی اور صرف بیت الحرام کی طرف رخ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔

____________________

(۱) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۱۵۷۔۱۵۸۔

(۲) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۷۴

۳۶۵

اس احتمال کا بے بنیاد ہونا محتاج نہیں کیونکہ فرمان الٰہی ہے:

( وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ) ۲۔۱۴۳

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جس قبلہ کی طرف تم پہلے (سجدہ کرتے) تھے ہم نے اس کو صرف اس وجہ سے (قبلہ( قرار دیا تھا کہ جب (قبلہ بدلا جائے تو) ہم ان لوگوں کو جو رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی پیروی کرتے ہیں ان لوگوں سے الگ دیکھ لیں جو الٹے پاؤں پھرتے ہیں،،۔

اس آیت میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اس وقت مصلحت کے تقاضوں کے مطابق اللہ کے حکم پر بیت المقدس کی طرف رخ کیا کرتے تھے اور اس میں رسول اللہ (ص) کے ذاتی اختیار کا کوئی دخل نہیں تھا حقیقت امر یہ ہے کہ کوئی جہت اور طرف خدا کی ذات سے مختص نہیں کیونکہ کوئی مکان اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتا انسان اپنی نماز ، دعا اور دیگر عبادات میں جس طرف بھی رخ کرے ، خدا ہی کی طرف رخ ہو گا۔

اسی آیت کریمہ کو اہل بیت عصمت (ع) نے اس حکم کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ مسافر جس طرف چاہے رخ کر کے نفلی نماز پڑھ سکتا ہے اور اسی آیت کو اس واجب نماز کے صحیح ہونے کی دلیل قرار دیا ہے جو غلطی سے مشرق اور مغربی کے درمیانی رخ پڑھی گئی ہو۔

جو آدمی سرگرداں ہو اور اسے معلوم نہ ہو کہ قبلہ کس طرف ہے وہ جس طرف رخ کر کے نماز پڑھے صحیح ہے اور یہ کہ غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے قرآن کے واجب سجدے کئے جا سکتے ہیں جب حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر (رح) کو زمین کی طرف رخ کر کے ذبح کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اسی آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی۔(۱)

_____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۷۵

۳۶۶

معلوم ہوا یہ آیت مطلق ہے جس کی مختلف اوقات میں مختلف قیدوں سے تقیید کی گئی کبھی (واجب نماز میں) بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا اور اس طرح اس آیت کی تقیید کی گئی اور کبھی خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اور اس طرح اس آیت کی تقیید کی گئی اور بعض علماء کے مطابق نوافل بھی ، اگرچہ چلنے کی حالت میں نہ ہوں بنا برقول بعضے ، کسی بھی طرف رخ کر کے پڑھے جا سکتے ہیں باقی رہیں وہ روایات جن کے مطابق یہ آیت نوافل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان روایات کا مطلب یہ نہیں کہ یہ آیہ کریمہ صرف نوافل سے مختص ہے کیونکہ اس سے پہلے بتا چکے ہیں کہ آیات صرف شان نزول سے مختص نہیں ہوا کرتیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیہ شریفہ کا نسخ اس وقت قابل قبول ہو گا جب دو باتیں ثابت ہوں۔

( i ) یہ ثابت ہو کہ یہ آیہ کریمہ صرف واجب نمازوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ بات یقیناً باطل ہے اور اہل سنت کی کتب احادیث میں ایسی روایات موجود ہیں جن کی رو سے یہ آیت ، دعا ، مسافر کے نوافل ، متحیر و سرگرداں

آدمی کی نماز اور اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے غلطی سے غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہو(۱) اس سے قبل وہ مقامات بھی بیان کئے گئے جہاں اہل بیت اطہار (ع) نے اس آیہ شریفہ سے استدلال فرمایا ہے۔

( ii ) یہ ثابت ہو کہ یہ آیہ شریفہ ، اس آیہ شریفہ سے پہلے نازل ہوئی ہو جس میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یہ بات بھی ثابت اور مسلم نہیں ہے۔

بنا برایں یہ دعویٰ یقیناً باطل ہے کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے اہل بیت (ع) سے ایسی روایات منقول ہیں جن میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی۔

____________________

(۱) تفسیر طبری ، ج ۱ ، ص ۴۰۰۔۴۰۲

۳۶۷

ہاں! بعض اوقات نسخ بولا جاتا ہے اور اس سے ایک عام معنی مقصود ہوتا ہے جو تقیید کو بھی شامل ہوتا ہے چنانچہ اس معنی کی طرف اس سےقبل اشارہ کیا جا چکا ہے اگر زیر بحث آیہ شریفہ میں بھی اس معنی کا ارادہ کیا جائے تو پھر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا اور عین ممکن ہے کہ اس آیت میں نسخ سے ابن عباس کی مراد یہی ہو اور اس سے قبل بھی ہم اس خقیقت کی طرف اشارہ کر چکے ہیں۔

۳۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ ) ۲:۱۷۸

''اے مومنو! جو لوگ (ناحق) مار ڈالے جائیں ان کے بدلے میں تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت،،

بعض علمائے کرام کا یہ دعویٰ ہے کہآیہ شریفہ اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

( وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ) ۵:۴۵

''اور ہم نے توریت میں یہودیوں پر یہ (حکم) فرض کر دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت،،

(پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قصاص کے معاملے میں مرد ،عورت اور غلام آزاد میں مماثلت

۳۶۸

ضروری ہے یعنی مرد کے بدلے میں مرد اور عورت کے بدلے میں عورت ، آزاد کے بدلے میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام کو قتل کیا جائے لیکن دوسری آیت کریمہ میں اس مطابقت کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی آیت دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے اس بنا پر عورت کے بدلے میں مرد اور غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے)

یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے اور مرد کے وارثوں کو دیت سے کچھ حصہ دینا بھی ضرروی نہیں(۱) البتہ حسن اور عطاء نے اس حکم کی مخالفت کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا۔

لیث کہتے ہیں:

''اگر مرد اپنی بیوی کو قتل کر دے تو اسے صرف اپنی بیوی کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا،،(۲)

امامہ اثنا عشریہ کے مطابق مقتولہ کے ولی و وارث کو اختیار حاصل ہے کہ عورت کی دیت اور خونبہا کا مطالبہ کرے اور چاہے تو قاتل کو قصاص میں قتل کر دے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مرد کی دیت اور خونبہا کا نصف حصہ اس کے وارثوں کو ادا کرنا ہو گا۔

اہل سنت میں مشہور یہی ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا اور امامیہ کا اس پر اجماع قائم ہے لیکن ابو حنیفہ ، ثوری ، ابن ابی لیلی ٰ اور داؤد نے اس حکم کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ آزاد کسی دوسرے کے غلام کے بدلے میں قتل کیا جا سکتا ہے(۳) البتہ ان کے ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل کیا جائے گا خواہ وہ اس کا اپنا غلام ہی کیوں نہ ہو(۴)

_____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۲۲۹

(۲) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۲۱۰

(۳) یضاً ، ج ۱ ، ص ۲۰۹۔

(۴) احکام القرآن للجصاص ، ج ۱ ، ص ۱۳۷

۳۶۹

لیکن قول حق یہی ہے کہ پہلی آیت محکم ہے اورا س کے معنی ظاہر ہیں اس کے بعد کوئی ناسخ آیت نازل نہیں ہوئی اس لئے کہ دوسری آیت میں آزاد و غلام اور مرد و عورت کے اعتبار سے اطلاق پایا جاتا ہے یعنی آیت کریمہ اس پہلو کو بیان نہیں کر رہی کہ عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ یا اگر آزاد ، غلام کو قتل کرے تو اسے غلام کے مقابلے میں قتل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں ؟ بلکہ دوسری آیت میں صرف اس نکتے کو بیان کیا جا رہا ہے کہ قصاص کے موقع پر جرم کی مقدار اور نوعیت کا خیال رکھا جائے یعنی جس نوعیت کا جرم کیا گیا ہے اسی کے حساب سے انتقام لیا جائے۔

چنانچہ آیہ کریمہ:

( فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ ) ۲:۱۹۴

''پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے ویسی ہی زیادتی تو بھی اس پر کرو،،

کا مفہوم بھی یہی ہے۔

بہرحال اگر دوسری آیت میں مرد و عورت اور آزادو غلام کے اعتبار سے قاتل و مقتول کی خصوصیات بیان نہ کی گئی ہوں اور صرف ابتدائی جرم اور قصاص کی نوعیت میں مساوات کو بیان کیا گیا ہو جس کو اس آیہ شریفہ میں بیان کیا گیا ہے تو دوسری آیت مہمل رہیگی اور اس کا عموم میں ظہور نہیں ہو گا تاکہ پہلی آیت کیلئے ناسخ بن سکے اور اگر دوسری آیت مرد و زن اور غلام و آزاد کے اعتبار سے اطلاق میں ظہور رکھتی ہو اور اس آیت میں صرف اس بات کی خبر نہ دی گئی ہو کہ یہ حکم تورات میں موجود ہے بلکہ اس امت کیلئے بھی یہی حکم ثابت ہو تو پہلی آیت دوسری کیلئے مقید ثابت ہو گی اور اس کا قرینہ ہو گی کہ دوسری آیت میں مراد الٰہی کیا ہے اس لئے کہ مطلق ، اگرچہ مؤخر ہو ، مقید کیلئے ناسخ نہیں بن سکتا بلکہ مقید ظہور مطلق میں تصرف (ردوبدل) پر قرینہ ثابت ہو گا چنانچہ ہر مقید ، جو موخر ہو ، کا یہی حکم ہوا کرتا ہے۔ بنا برایں غلام کے بدلے میں آزادکے قتل کئے جانے کاقائل ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

۳۷۰

اس کے مقابلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ غلام کے مقابلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے دلیل کے طور پر امیر المومنین (ع) کی روایت کو پیش کیا جاتا ہے جسے آپ (ع) نے رسول اللہ (ص) سے نقل فرمایاہے اس روایت میں رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں:

المسلمون تتکافا دماؤهم ،،

''مسلمانوں کا خون (آزادہو یا غلام) یکساں ہے،،

جواب: فقرض تسلیم اگر یہ روایت درست بھی ہوتو آیہ کریمہ :( الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے اس کی تخصیص کی جائے گی اس لئے کہ یہ روایت غلام کے مقابلے میں آزاد کے قتل کو تب جائز قرار دے گی جب اس کے عموم پر عمل کیا جائے ظاہر ہے عام اس وقت حجت اور قابل عمل ہو گا جب اس سے پہلے یا اس کے بعد کوئی مخصص وارد نہ ہو۔

باقی رہی وہ روایت جو حسن نے سمرہ سے اور اس نے رسول اللہ (ص) سے نقل کی ہے اس کی سند ضعیف ہے اور یہ قابل اعتماد نہیں چنانچہ ابوبکر بن عربی کہتے ہیں:

''بعض لوگوں کی جہالت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ آزاد کے قتل کو اس کے اپنے غلام کے قتل کے بارے میں جائز سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) کے فرمان کو پیش کرتے ہیں جس کو حسن نے سمرہ سے نقل کیا ہے اور اس میں آپ (ص) فرماتے ہیں : من قتل عبدہ قتلناہ (یعنی )''جو اپنے غلام کو قتل کرے ہم اسے قتل کریں گے،، اوریہ حدیث ضعیف ہے،،(۱)

____________________

(۱) احکام القرآن لابی بکربن العربی ، ج ۱ ، ص ۲۷

۳۷۱

مولف: اس روایت کی سند ضعیف ہونے کے علاوہ تین روایات سے متعارض بھی ہے۔

i ) عمر بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے جد سے روایت بیان کرتے ہیں:

''ایک شخص نے عملاً اپنے غلام کو قتل کر دیا اس قاتل کو رسول اللہ (ص) نے سزا میں کوڑے لگائے ، ایک سال کیلئے جلا وطن کر دیا اور بیت المال سے اس کا حصہ منقطع کر دیا لیکن اسے قتل نہیں کیا گیا،،(۱) اسی مضمون کی ایک روایت ابن عباس نے رسول اللہ (ص) سے بھی نقل کیا ہے۔

( ii ) جابر نے عامر سے اور اس نے امیر المومنین (ع) سے روایت بیان کی ہے:

''آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا ،،(۲)

( iii ) عمرو بن شعیب نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے جد سے روایت بیان کی ہے:

''حضرت ابوبکر اور حضرت عمر غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل نہیں کرتے تھے ،،(۳)

قارئین کرام نے روایات اہل بیت (ع) ملا خطہ فرمائیں جن کا اتفاق ہے کہ آزاد آدمی کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا اور رسول اللہ (ص) کے بعد مرجع دین اہل بیت اطہار (ع) ہی ہیں ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے اس دعویٰ کی گنجائش نہیں رہتی کہ آیہ : ''الحر بالحر والعبد بالعبد،، نسخ ہو گئی اور غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے۔

امامیہ ، حسن اور عطاء کے نقطہ نگاہ سے آیہ کریمہ اس اعتبار سے بھی نسخ نہیں ہوئی کہ عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکے البتہ مذہب اہل سنت کے مطابق یہ اس اعتبار سے نسخ ہو گئی ہے یعنی عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے جبکہ پہلی آیہ (الانثی ٰ بالانثیٰ ) کی رو سے عورت کے بدلے میں مرد کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔

____________________

(۱) سنن بیہقی ، ج ۸ ، ص ۳۶

(۲) ایضاً ص ۳۴۔۳۵

(۳) ایضاً ص ۳۴

۳۷۲

اس مسئلے کی وضاحت:

فرمان اللہ تعالیٰ:

( كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ ) ۲:۱۷۸

''تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے،،

کی رو سے قصاص لینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرض ہے اور دوسری ادلہ کے مطابق یہ فرض اس صورت میں ثابت ہوتا ہے جب مقتول کے ورثا قصاص کا مطالبہ کریں چنانچہ آیہ کریمہ:

( فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ ) : ۱۷۸

''پس جس (قاتل) کو اس کے (ایمانی) بھائی (طالب قصاص) کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جاوے،،۔

اس بات پر دلالت کرتی ہے (کیونکہ اس آیت میں قصاص سے درگزر کرنے کی تشویق اور ترغیب دلائی گئی ہے (بنا برایں آیت شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ حکم قصاص کے سامنے سر تسلیم خم کرنا قاتل پر اس وقت واجب ہے جب مقتول کے وارث خون کا بدلہ لینا چاہیں اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ حکم اس وقت مسلم ہے ، جب کوئی مرد ، مرد کو قتل کرے یا عورت ، مرد کو قتل کے یا عورت ، عورت کو قتل کرے۔

لیکن اگر مرد ، عورت کو قتل کرے تو عورت کے ورثا کی طرف سے قصاص کے مطالبے کے ساتھ ہی قصاص کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا مرد پر واجب نہیں ہے اور جب تک اپنی دیت کا نصف حصہ وصول نہ کرے مرد کو انکار کرنے کا حق پہنچتا ہے اور حاکم شرع بھی قاتل کے وارثوں کو دیت کا نصف حصہ دیئے بغیر قصاص کی حد جاری نہیں کر سکتا بالالفاظ دیگر آیت شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے بدلے میں عورت کو ہی قتل کیا جا سکتا ہے ، مرد کو قتل نہیں کیا جا سکتا اور آیہ کریمہ کایہ مفہوم ہرگز نسخ نہیں ہوا۔

۳۷۳

ہاں ! یہ اور بات ہے کہ آیہ شریفہ سے قطع نظر خارجی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ جب مقتولہ کے ولی و وارث مرد کی دیت کا نصف حصہ ادا کر دیں تو مرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو قصاص کیلئے پیش کر دے اس طرح مرد ، عورت اور نصف دیت کے مجموعہ کابدلہ قرار پائے گا یہ ایک جداگان اور مستقل حکم ہے جس کا اس حکم سے کوئی تعلق نہیں جو آیہ کریمہ سے ابتداً سمجھا جاتا ہے اوریہ وہ نسخ نہیں جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ آیہ( الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ) کا نسخ اس بات پر موقوف ہے کہ مقتولہ کے ولی و ورثا جب بھی قصاص کا مطالبہ کریں توقصاص کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا قاتل پر واجب ہو چنانچہ اہل سنت یہی کہتے ہیں لیکن یہ بات دلیل سے ثابت نہیں (اس کا اثبات جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ مترجم)

اہل سنت حضرات اس بات کے ثبوت میں کبھی تو دوسری آیت :( أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ ) کے اطلاق کا سہارالیتے ہیں ، کبھی حدیث شریف :المسلمون تتکافا دماؤهم کے عموم کا اس دلیل کا جواب دیا جا چکا ہے اور کبھی اس بات کے اثبات میں قتادہ کی روایت پیش کرتے ہیں جو اس نے سعید بن مسیب سے نقل کی ہے اس روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے صنعاء کے کچھ لوگوں کو ایک عورت کے قتل کے جرم میں قتل کیا۔

لیث نے حکم سے روایت بیان کی ہے کہ امیر المومنین (ع) اور عبداللہ نے فرمایا:

''جب کوئی مرد کسی عورت کو قتل کرے تو اسے اس عورت کے بدلے میں قصاص کے طور پر قتل کیا جائیگا،،

زہری نےابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے اور اس نے اپنے والد سے ، اس نے اپنے جد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''ان الرجل یقتل بالمراة ،، (۱)

''مرد ، عورت کے بدلے میں قتل کیا جائے گا،،

____________________

(۱) احکام القرآن للجصاص ، ج ۱ ، ص ۱۳۹

۳۷۴

لیکن یہ سب دلیلیں کئی اعتبار سے باطل ہیں۔

( i ) یہ سب روایات صحیح بھی ہوں لیکن کتاب خدا کی مخالف ہیں اور جو روایات کتاب الٰہی کی مخالف ہو وہ حجت نہیں ہوا کرتی یہ روایات خبر واحد ہیں اور علما کا اس پر اجتماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

( ii ) ان میں سے پہلی روایت مرسلہ ہے کیونکہ سعید بن مسیّب ، خلافت حضرت عمر کے دو سال بعد پیدا ہوا(۱) اور یہ بات بہت بعید ہے کہ اس نے حضرت عمر سے بلا واسطہ روایت کی ہو اس کے علاوہ اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے اس کام کو انجام دیا اور حضرت عمر کا فعل بذات خود حجت نہیں۔

دوسری روایت ضعیف بھی ہے اورمرسلہ بھی ۔ تیسری روایت کو اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی یہ مطلقہ ہے اور اس روایت سے اس کی تقیید کی جائے گی جس کے مطابق قاتل کو اس کی نصف دیت ادا کرنے کے بعد قتل کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ مباحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ آیہ کریمہ کا نسخ ثابت نہیں اور صرف فقہاء کی ایک جماعت کے فتویٰ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آیہ کریمہ نسخ ہو گئی ہے زیدیا عمرو کے قول اور فتویٰ کی بنیاد پر قول خداوند سے کیوں اور کس طرح دستبردار ہوا جا سکتا ہے ؟ اور مقام حیرت وتعجب ہے کہ علماء کی ایک جماعت جس کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا ، اس کے باوجود ، قرآن کیخلاف اپنا فتویٰ صادر کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی ہمارے گزشتہ بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ آیہ کریمہ:

( وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا ) ۱۷:۳۳

''اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) قابو دیا ہے،،۔

__________________

(۱) تہذیب التہذیب ، ج ۴ ، ص ۸۶

۳۷۵

اور آیہ کریمہ:

( وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) ۲:۱۷۹

''اور اے عقلمندو ! قصاص میں تمہاری زندگی ہے اور اسی لئے جاری کیا گیا ہے،،

میں آیہ شریفہ (الانثی بالانثیٰ) جس میں مرد و زن اور آزاد و غلام میں فرق کو بیان کیا گیا ہے ، کی ناسخ بننے کی صلاحیت نہیں ہے انشاء اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کے موقع پر اس موضوع پر مفصل بحث کی جائے گی۔

۴۔( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ) ۲:۱۸۰

''(مسلمانو!) تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آ کھڑی ہو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کیلئے اچھی وصیت کرے جوخداسے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے،،

بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ یہ آیت ، آیہ ارث کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے کیونکہ صدر اسلام میں میراث کی تقسیم کی وہ کیفیت نہیںتھی جو اب ہے بلکہ سارے کا سارا ترکہ بیٹے کو مل جاتا تھا والدین اور دیگر رشتہ داروں کو جو کچھ ملتا تھا وہ وصیت کے ذریعے ملتا تھا اورآیہ میراث کے ذریعے یہ حکم منسوخ ہو گیا چنانچہ آیہ کریمہ میں اسی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ مالدار آدمی کو چاہئے کہ وہ مرتے وقت والدین اور دیگر رشتہ داروں کیلئے ضرور وصیت کرے۔

کچھ حضرات کا دعوی ہے کہ یہ آیت فرمان رسول اللہ:''ولاوصیة لوارث (۱) ،، (یعنی) وارث کیلئے کسی وصیت کی ضرورت نہیں،، کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۰

۳۷۶

مگر حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اس لئے کہ آیہ ارث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ میراث کی نوبت تب آتی ہے جب مرنے والے نے کوئی وصیت نہ کی ہو اور وہ مقروض بھی نہ ہو اس کے باوجود یہ کیسے معقول ہے کہ آیہ ارث ، آیہ وصیت کی ناسخ قرار پائے۔

اس کے علاوہ نسخ کی جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ بھی درست نہیں ، اس لئے کہ:

اولاً : اگرچہ صحیح بخاری میں یہ روایت موجود ہے لیکن اس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ علماء کا اس پر اجتماع ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

ثانیاً: آیہ ارث کے ذریعے ، اس آیہ کا نسخ اس صورت میں ثابت ہو گا جب آیہ ارث ، اس آیہ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ) کے بعد نازل ہوئی ہو اور قائلین نسخ کیلئے یہ بات ثابت کرنا مشکل ہے بعض حنفی حضرات کی طرف سے نسخ کے قطعی ہونے کا دعویٰ محتاج دلیل ہے۔

ثالثاً : مرنے والے کے رشتہ داروں کے بارے میں اس حکم کا نسخ ہونا قابل تصور نہیں کیونکہ مرنے والے کے بیٹے کی موجودگی میں دوسرے رشتہ دار ارث کے حقدار ہی نہیں بنتے تاکہ آیہ ارث کے ذریعے آیہ وصیت کو نسخ کر کے رشتہ داروں کیلئے ارث کو ثابت کیا جا سکتے لہٰذا مرنے والے کے رشتہ دار وصیت ہی سے استفادہ کر سکتےہیں بہرکیف چونکہ وصیت کے نہ ہونے کی صورت میں ارث کی نوبت پہنچتی ہے ، اس لئے آیہ ارث نہ صرف آیہ وصیت کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی بلکہ اس سے آیہ وصیت کی تائید و تاکید بھی ہوتی ہے اس لئے کہ آیہ شریفہ (من بعد وصیۃ یوصی بہا اودین) کی رو سے وصیت ارث پر مقدم ہے۔

۳۷۷

بعض علماء کرام کا دعویٰ ہے کہ آیہ شریفہ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ) رسول اللہ (ص) کی حدیث(لاوصیة لوارث ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے یہ دعویٰ کئی جہات سے باطل ہے:

( i ) اس روایت کی صحت ثابت نہیں ہے چنانچہ بخاری و مسلم نے بھی اس کی تصدیق نہیں کی اور تفسیر المنار میں اس روایت کی سند کو مورد اشکال و مناقشہ قرار دیاگیا ہے(۱)

( ii ) ایسی روایت اہل بیت اطہار (ع) کی ان مستفیض روایات سے متعارض ہیں جن کے مطابق وارث کے حق میں وصیت جائز ہے چنانچہ محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ میں ہے کہ راوی نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے سوال کیا: کیا وارث کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا: جائز ہے پھر آپ (ع) نے اس ایت کی تلاوت فرمائی،

( إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ) ۲:۱۸۰

''بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کیلئے اچھی وصیت کرے،،

اس مضمون کی روایت اور بھی ہیں(۲)

( iii ) اگر اس روایت کے خبر واحد ہونے سے چشم پوشی کی جائے اور اسے اہل بیت (ع) کی روایات سے معارض بھی نہ مانیں تب بھی اس روایت اورآیہ شریفہ کے مفاہیم میں کوئی منافات نہیں پائی جاتی زیادہ سے زیادہ اس حدیث شریف سے آیہ کریمہ کے اطلاق کیلئے تقیید سمجھی جائے گی بایں معنی کہ والدین کیلئے اس وقت وصیت کی جائے جب کسی مانع کی وجہ سے وہ ارث کے مستحق نہ ہوں یا ان رشتہ داروں کیلئے وصیت کی جائے جنہیں ارث نہیں مل سکتا اور اگر حدیث اورآیہ کریمہ میں منافات فرض بھی کر لی جائے تب بھی یہ حدیث آیہ کریمہ کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی کیونکہ خبر واحد قرآن کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی جس پر مسلمانوں کا اجماع قائم ہے ، بنا برایں آیہ کریمہ محکم ہے منسوح نہیں۔

____________________

(۱) تفسیر المنار ، ج ۲ ، ص ۱۳۸

(۲) الوافی ، ج ۱۳ ، ص ۱۷

۳۷۸

اس مقام پر یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ ''کتابۃ،، کا معنی کس چیز کا حتمی فیصلہ ہے چنانچہ آیت:

( كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ ) (۶:۱۲)

''اس نے اپنی ذات پر مہربانی لازم کر لی ہے،،

میں ''کتب،، اس معنی میں استعمال ہوا ہے اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ مولا کے حکم اور اس کے حتمی فیصلوں میں اس کا امتثال امر کیا جائے اگر یہ کہ اس کی طرف سے ترک کی اجازت ہو۔

بنا برایں آیہ کریمہ کی رو سے والدین اور دیگر رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرنا لازم و واجب ہے لیکن مسلمانوں کی سیرت جو قطعی طور پر ثابت ہے، اہل بیت اطہار (ع) سے منقول روایات اورہر دور میں فقہاء کے اجتماع سے ترک وصیت کی اجازت ثابت ہے بنا برایں اس اجازت کے ثابت ہونے کے بعد آیت سے وصیت کا مستحب ہونا ثابت ہو گا بلکہ وصیت کی تاکید ثابت ہو گی اورا س آیت میں ''کتب،، سے مراد وصیت کی تشریع ہو گی اور اس کا حتمی اور لازمی قرار دینا نہیں:

۵۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) ۲:۱۸۳

''اے ایماندارو! روزہ رکھنا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا تاکہ تم (اس کی وجہ سے) بہت سے گناہوں سے بچو،،

اس آیہ کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ آیہ دوسری آیہ:

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ) : ۱۸۷

''مسلمانو!) تمہارے واسطے روزوں کی راتوں میں اپنی بی بیوں کے پاس جانا حالا کر دیا گیا،،

کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے ۔ اس کے نسخ ہونے کی کیفیت یہ بتائی گئی ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں پر روزہ اسی کیفیت سے واجب تھا جس کیفیت سے گزشتہ اقوام پر واجب تھا گزشتہ اقوام پر واجب روزہ کے احکام میں سے ایک حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں رات کا کھانا کھانے سے قبل سو جائے تو پھر رات کو کسی بھی وقت بیدار ہو کر کچھ کھانا اس کیلئے جائز نہیں تھا

۳۷۹

اور اگر کوئی عصر کے بعد سو جائے تو اس کیلئے کھانا پینا اور ہم بستری کرنا جائز نہیں تھا لیکن یہ آیہ جس میں مسلمانوں کے روزہ کو گزشتہ اقوام کے روزہ سے تشبیہ دی گئی ہے آیہ کریمہ:

( وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ ) : ۱۸۷

''اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفیدی دھاری تمہیں صاف نظر آنے لگے،،

کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں طلوع فجر تک کھانے پینے کی اجازت دی گئی ہے اس کے علاوہ اس آیت کو بھی ناسخ قراردیا جاتا ہے:

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ) : ۱۸۷

''(مسلمانو!) تمہارے واسطے روزوں کی راتوں میں اپنی بی بیوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا،،

علماء اہل سنت کا اتفاق ہے کہ آیہ تحلیل( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ ) ناسخ ہے(۱) البتہ اس کی منسوخی کے بارے میں اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ منسوخ وہی آیت ہے جو ہمارے محل بحث ہے کیونکہ ان حضرات نے آیت( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔الخ سے یہی سمجھا ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں پر واجب روزہ اور گزشتہ اقوام پر واجب روزہ یکساں تھے بعد میں وہ آیہ کریمہ اس آیہ کریمہ :( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہو گئی چنانچہ ابوالعالیہ اور علماء کا یہی خیال ہے اور ابو جعفر نحاس نے سدی کی طرف بھی اس بات کو منسوخ کیا ہے(۲)

بعض کا خیال ہے کہ آیہ تحلیل کے ذریعے گزشتہ اقوام کے عمل اور ان کی روش کو نسخ کیا گیا ہے اور آیہ کریمہ( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کو نسخ نہیں کیا گیا۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پہلی آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

_________________

(۱) الناسخ و المنسوخ نحاس ، ص ۲۴

(۲) ایضاً ص ۲۱

۳۸۰

( i ) اس کا دوسری آیہ :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ سے پہلے نازل ہونا ثابت ہو جسے نسخ کے مدعی ثابت نہیں کر سکتے۔

( ii ) آیہ کریمہ :( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ میں صدر اسلام کے روزوں کو ہر جہت سے گزشتہ اقوام کے روزوں سے تشبیہ دی جا رہی ہو (تاکہ وہ حکم میں یکساں ہو اور پھر آیت :( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہو جائے) اور یہ بات مفہوم عرفی بلکہ آیت کی صریح دلالت کیخلاف ہے کیونکہ آیہ شریفہ میں صدر اسلام کے روزے کے وجوب کو گزشتہ امتوں کے روزے کے وجوب سے تشبیہ دی جا رہی ہے دونوں کے روزوں کی تفصیلی کیفیت میں یگانگت بیان نہیں کی جا رہی تاکہ آیت :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے اسے نسخ کیا جا سکے۔

اگر کسی اور خارجی دلیل سے ثہ بات بھی ہو کہ صدر اسلام اور قبل از اسلام کے روزوں کے احکام ایک جیسے تھے تو اس صورت میں آیہ کریمہ :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ریعے ایسا حکم نسخ ہو گی جو قرآن کے علاوہ کسی اور دلیل سے ثابت ہو اور یہ ہمارے محل بحث سے خارج ہے۔

۶۔( وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ ) ۲:۱۸۴

''اور جنہیں روزہ رکھنے کی قوت ہے (اور نہ رکھیں) تو ان پر اس کا بدلہ ایک محتاج کو کھانا کھلا دینا ہے اور جو شخص اپنی خوشی سے بھلائی کرے تو یہ اس کیلئے زیادہ بہتر ہے،،۔

اس آیت کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ آیت اس آیہ شریفہ کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ) : ۱۸۵

''(مسلمانو!) تم میں سے جو شخص اس مہینہ میں اپنی جگہ پر ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ رکھے،،

۳۸۱

پہلی آیت میں اگر ''طوق،، سے مراد (عام) طاقت و قدرت ہو تو آیت کے منسوخ ہونے کا دعویٰ واضح اور درست ہے کیونکہ اس صورت میں آیہ شریفہ کا مفہوم یہ ہو گا کہ جو شخص روزہ رکھنے کی قدرت رکھتا ہے وہ چاہے تو روزہ نہ رکھے اور اس کے بدلے میں فدیہ کے طور پر مسکینوں کو کھانا کھلائے جبکہ دوسری آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص ماہ مبارک میں حاضر ہو وہ روزہ ضرور رکھے ، یعنی اختیاری حالت میں فدیہ پر اکتفاء نہیں کر سکتا۔

لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ طاقت سے مرا دوہ قدرت ہے جس کے ساتھ مشقت اور زحمت ہو بنا برایں آیہ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہخداوند متعال نے سب سے پہلے آیہ شریفہ:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ ) ۲:۱۸۳

''اے ایماندارو! روزہ رکھنا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا،،

کے ذریعے واجب تعیین(۱) کے طور پر روزہ رکھنا لازم قرار دیا ہے اور اس کے بعد آیہ شریفہ فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر : ۱۸۴

''(روزے کے دنوں میں) جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو اور دونوں میں (جتنے قضا ہوئے ہوں) گن کر رکھ لے،،

کے ذریعے مسافر اور مریض سے اس حکم کو اٹھا لیا اور ان روزوں کے عوض کسی دوسرے وقت (جب مسافر کا سفر ختم ہو جائے اور مریض ٹھیک ہو جائے) روزہ جانے کا حکم دیا ہے۔

اس کے بعد بعض مخصوص افراد کیلئے جداگانہ حکم بیان کیا گیا اور وہ یہ ہے کہ زیادہ بوڑھا آدمی ، وہ آدمی جسے پیاس زیادہ لگتی ہو ، وہ مریض جس کا مرض آئندہ رمضان تک باقی رہے اور اس قسم کے دوسرے افراد جن کو روزہ رکھنے سے ناقابل برداشت مشقت و زحمت اٹھانا پڑتی ہے ، ان لوگوں پر روزے کی ادا و قضا واجب نہیں بلکہ صرف فدیہ دیا جائے گا۔

___________________

(۱) جس کا کوئی اور چیز عوض نہ بن سکے۔

۳۸۲

معلوم ہوا جب آیہ کریمہ کی رو سے عام مومنین پر مخصوص ایام میں بطور واجب تعیینی روزوں کی ادا اور مریض و مسافر پر روزوں کی قضا کو فرض قرار دیا گیا تو وہ لوگ ان دونوں سے مختلف ہوں گے جن پر صرف فدیہ دینا واجب ہے آیات کی اس دلالت کے باوجود یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ آیہ کریمہ کے مطابق وہ آدمی جو روزہ رکھنے کی قدرت رکھتا ہو ، چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو روزوں کے بدلے میں فدیہ دے دے ، اسے اختیار ہے اہل بیت اطہار (ع) کی مستفیض روایات بھی آیہ کریمہ کی اسی تفسیر پر دلالت کرتی ہیں(۱)

لفظ طاقت اگرچہ عام قدرت اور توانائی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن طاقت کے لغوی معنی ہیں: مشقت کثیرہ کے ساتھ کسی کام کی قدرت حاصل ہونا چنانچہ ''لسان العرب،، میں ہے:

''الطوق الطاقة ای اقصی غایته و هواسم لمقدار مایمکنه ان یفعله بمشقة منه ،،

(یعنی) '' طوق کا مطلب قدرت و توانائی کی آخری حد ہے جس میں ایک کام انتہائی زحمت کے ساتھ انجام پائے،،

اور ابن اثیر اور راغب سے بھی طاقت کا یہی معنی منقول ہے۔

اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ طاقت کا معنی عام قدرت وتوانائی ہے ''اطاقہ،، جس سے ''یطیقونہ،، بنا ہے ، کا معنی کسی چیز میں طاقت پیدا کرنا ہے تو لامحالہ ''اطاقہ،، وہاں استعمال ہو گا جہاں ایک کام بذات خود آسان اور مقدور نہ ہو ، کسی دوسرے نے اسے مقدور بنایا ہو اور یہ سخت محنت و مشقت کے ساتھ ہی انجام پایا ہو۔

____________________

(۱) الوافی ، ج ۷ ، باب العاجز من الصیام ، ص ۲۳

۳۸۳

صاحب ''تفسیر المنار،، اپنے استاد سے نقل کرتے ہیں:

''عرب،، ''اطاق الشئی،، وہاں کہتے ہیں جہاں کسی چیز یا فعل پر ضعیف اور معمولی سی قدرت ہو اور اس کیلئے سخت محنت و مشقت درکار ہو،،(۱)

بنا برایں یہ آیہ کریمہ محکم ہے ، منسوخ نہیں ، اور اس کا حکم اس شخص کے حکم سے بالکل مختلف ہے جس پر ادایا قضا روزے رکھنا واجب ہیں۔

یہ سب بحث اس بنیاد پر کی گئی کہ آیہ شریفہ میں مشہور قرات کے مطابق لفظ یطیقونہ یعنی صیغہ معلوم پڑھا جائے لیکن اگر ابن عباس ، حضرت عائشہ ، عکرمہ اور ابن مسیّب کی قرات کے مطابق اس لفظ کو باب تفعیل مجہول(۲) (یطوقونہ) پڑھا جائے تو پھر مسئلہ اور زیادہ واضح ہو جائے گا کیونکہ اس صورت میں یقیناً ''مشقت،، والے معنی مراد لئے جائیں گے۔

البتہ مالک اور ربیعہ کے قول کے مطابق ، جو یہ کہتے ہیں کہ اگر بوڑھے مرداور بوڑھی عورتیں افطار کر لیں تو ان کے ذمے کچھ واجب نہیں (۳) آیہ کریمہ منسوخ ہوگئی لیکن یہ ان کی ذاتی رائے ہے جو ہمارے لئے حجت اور مدرک نہیں بن سکتی اس کے علاوہ اس قول کی صحت مشکوک ہے۔

۷۔( وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ ) ۲:۱۹۱

''اور جب تک وہ لوگ (کفار) مسجد الحرام(کعبہ) کے پاس تم سے نہ لڑیں تم بھی ان سے اس جگہ نہ لڑو پس وہ اگر تم سے لڑیں تو (بے کھٹکے) تم بھی ان کو قتل کرو ، کافروں کی یہی سزا ہے،،

____________________

(۱) تفسیر المنار ، ج ۲ ، ص ۱۵۶

(۲) احکام القرآن للجصاص ، ص ۱۷۷

(۳) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۳

۳۸۴

ابو جعفر نحاس اور اکثر اہل نظر کی رائے یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے اور مشرکین سے حرم اور غیر محرم میں جنگ لڑی جا سکتی ہے یہ قول قتادہ کی طرف بھی منسوب ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ گزشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی اور محکم ہے اگر اس کے کسی آیت کے ذریعے ناسخ ہونے کا احتمال دیا جا سکتا ہے تو وہ آیت یہ ہے:

( اقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،

یہ آیت ناسخ نہیں بن سکتی اس لئے کہ پہلی آیت خاص ہے اور دوسری عام ہے خاص ، عام کیلئے قرینہ ہوا کرتا ہے اور وہ عام کا مقصد و مراد بیان کرتا ہے اگرچہ خاص کی تاریخ صدور مقدم ہی کیوں نہ ہو اور جہاں خاص کا مقدم ہونا ثابت ہی نہ ہو وہ بطریق اولیٰ عام کیلئے قرینہ ہو گا بنا برایں اس آیت سے یہی ثابت ہوا کہ حرم سے باہر مشرکین سے جنگ لڑی جا سکتی ہے لیکن اگر مشرکین حرم میں جنگ کی ابتداء کریں تو ان سے حرم میں بھی جنگ کی جا سکتی ہے۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ مدعیان نسخ اس روایت کو ناسخ قرار دیں جس کے مطابق رسول اکرم (ص) نے حکم دیا تھا کہ ''ابن خطل،، کو قتل کر دو جبکہ وہ خانہ کعبہ سے لپٹا ہواہو۔

یہ دعویٰ بھی باطل ہے کیونکہ اولاً یہ روایت خبر واحد ہے اور خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوتا ثانیاً یہ روایت نسخ آیت پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ مدعیان نسخ خود رسول اللہ (ص) روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا:

''انهالم تحل لاحد قبلی و انما احلت لی ساعة من نهارها ،، (۲)

''مجھ سے قبل کسی کیلئے بھی کعبہ میں قتل کو حلال نہیں کیا گیا اور میرے لئے بھی فتح مکہ کے روز صرف ایک گھڑی کیلئے حلال قرار دیا گیاتھا،،

___________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۸

(۲) فتح القدیر للشوکانی ، ج ۱ ، ص ۱۶۸

۳۸۵

بنا برایں یہ آیہ کریمہ اس حقیقت کی تصریح کر رہی ہے کہ حرم میں قتال کی اجازت صرف پیغمبر اکرم (ص) کی خصوصیات میں سے ہے کسی اور کو یہ اجازت نہیں دی گئی اس طرح سوائے فقہاء کی ایک جماعت کا لحاظ کرنے کے ، اس آیت کے نسخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور آیہ شریفہ کا مفہوم ان کے دعویٰ کیخلاف ہے۔

۸۔( يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ ) ۲:۲۱۷

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تم سے لوگ حرمت والے مہینوں کے نسبت پوچھتے ہیں کہ (آیا) جہاد (ان میں جائز) ہے تو تم انہیں جواب دو کہ ان مہینوں میں جہاد بڑا گناہ ہے،،

ابو جعفر نحاس کہتے ہیں:

''علماء (اہل سنت) کا اس بات پر اجماع ہے کہ آیہ کریمہ نسخ ہو گئی ہے اور ان مہینوں میں جنگ جائز ہے البتہ عطا کی رائے یہ ہے کہ آیہ کریمہ محکم ہے اور حرمت والے مہینوں میں قتال جائز نہیں ہے ،،(۱)

شیعہ امامیہ روایات اور علماء کے فتاویٰ کے مطابق یہ آیت نسخ نہیں ہوئی اورا ن مہینوں میں جنگ جائز نہیں ہے چنانچہ صاحب ''التبیان،، اور ''جواہر الکلام،، نے اس بات کی تصریح کی ہے۔

مولف: قول حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اس لئے کہ ناسخ کے طورپر آیہ کریمہ:

( اقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۳۲

۳۸۶

کو پیش کرنا تعجب خیز ہے کیونکہ اس آیت میں مشرکین سے قتال اور جنگ کو باحرمت مہینوں کے گزر جانے پر موقوف قرار دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتاہے۔

( فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''پھر جب حرمت کے (چاروں) مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،۔

آیہ کریمہ کی اس تصریح کے باوجود یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ آیت :یسلونک عن الشہر الحرام ۔۔۔۔۔۔ الخ دوسری آیت : فاقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے۔

ہو سکتا ہے ناسخ کے طور پر آیہ سیف:

( وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ) ۹:۳۶

''مشرکین جس طرح تم سے سب کے سب مل کر لڑتے ہیں تم بھی اسی طرح سب کے سب مل کر ان سے لڑو،،

کے اطلاق کو پیش کیا جائے لیکن یہ بھی درست نہیں اس لئے کہ یہ آیت مطلق ہے اور مطلق اگرچہ موخر ہو مقید کیلئے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر نسخ کے اثبات کیلئے ابن عباس اور قتادہ کی روایت کا سہارا لیا جائے جس کے مطابق متنازع فیہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے تو یہ بھی اعتراض سے خالی نہیں اس لئے کہ اولایہ روایت خبر واحد ہے جس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا ثانیاً یہ کسی معصوم کی روایت نہیں شاید یہ ابن عباس اور قتادہ کااپنا اجتہاد ہو ثالثاً یہ روایت ابراہیم ابن شریک کی روایت سے متعارض ہے ابراہیم کہتے ہیں : احمد بن عبداللہ بن یونس نے لیث سے ، لیث نے ابی ازہر سے ، ابی ازہر نے جابر سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''لایقاتل فی شهر الحرام الاان یغزی اویغزو فاذا حضر ذالک اقام حتی ٰ ینسلخ ،،

''حرمت والے مہینوں میں جنگ نہ لڑی جائے مگریہ کہ دشمن کی طرف سے پہل ہو اور جب حرمت والا مہینہ آ جائے تو جنگ کو موقوف کیا جائے حتیٰ کہ ماہ حرام گزر جائے،،

۳۸۷

اسکے علاوہ اقتادہ اور ابن عباس سے منقول روایت ، اہل بیت ، (ع) سے منقول روایات کے بھی مخالف ہے ، جن کے مطابق ان مہینوں میں جنگ حرام ہے۔

اس آیت کے نسخ کے اثبات کیلئے اس روایت سے بھی تمسک صحیح نہیں جس کے مطابق رسول اللہ (ص) نے ماہ شوال ، ذیقعدہ اور ذی الحجہ میں حنین میں ہوازن کے ساتھ اور طائف میں ثقیف کے ساتھ جنگ کی کیونکہ اولاً یہ خبر واحد ہے جس سے نسخ ثابت نہیں ہو سکتا ثانیاً بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو یہ مجمل ہے اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہے ممکن ہے کسی خاص اوراہم ضرورت کے تحت آپ نے ان مہینوں میں جنگ کا حکم دیا ہو ایسی روایت کس طرح آیہ کریمہ کے لئے ناسخ بن سکتی ہے ۔

۹۔( وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ ) ۲:۲۲۱

''اور (مسلمانو) تم مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرو،،۔

بعض علماء کا د عویٰ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہے:

( وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمومناتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ) ۵:۵

''اور ان لوگوں میں کی آزاد پاک دامن عورتیں جن کوتم میں سے پہلے کتاب دی جا چکی ہے جب تم ان کوا ن کے مہر دیدو،،

چنانچہ ابن عباس ، مالک بن انس ، سفیان بن سعید ، عبدالرحمن ، ابن عمراور اوزاعی کی رائے یہی ہے عبداللہ بن عمر کی رائے یہ ہے کہ دوسری آیت منسوخ اور پہلی آیت ناسخ ہے اس طرح اہل کتاب عورت سے نکاح حرام ہو گا(۱)

لیکن حق یہی ہے کہ یہ دونوں آیتیں منسوخ نہیں ہوئیں اس لئے کہ اگر مشرک عورت (جس سے نکاح پہلی آیت حرام قرار دے دی رہی ہے) سے مراد بت پرست عورتیں ہوں (جیسا کہ آیت سے ظاہر ہو رہا ہے ) تو ان سے نکاح حرام ہونا ، اہل کتاب سے نکاح جائز ہونے سے کوئی منافات نہیں رکھتا تاکہ ایک ناسخ اور دوسری منسوخ قرار پائے کیونکہ پہلی آیت میں عورت بت پرست ہونے کی بنا پر حرام اور

_____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۵۸

۳۸۸

دوسری آیت میں عورت اہل کتاب ہونے کی بنیاد پر حلال قرار پائی ہے اور اگر مشرکہ سے مراد وہ عورت ہو جو اہل کتاب کوبھی شامل ہو (جیسا کہ مدعیان نسخ کا خیال ہے) تو دوسری آیت پہلی آیت کیلئے مخصص قرار پائے گی اس طرح دونوں آیتوں کامفہوم یہ ہو گا کہ اہل کتاب عورت سے تو نکاح جائز ہے لیکن مشرک ، بت پرست عورت سے نکاح جائز نہیں کیونکہ اس فرض کے مطابق پہلی آیت بت پرست اور اہل کتاب عورتوں کو حرام قرار دے رہی ہے اور دوسری آیت اس حکم سے اہل کتاب کو خارج کر کے انہیں حلال قرار دے رہی ہے۔

البتہ شیعہ نقطہ نگاہ سے اہل کتاب عورتوں سے نکاح موقت (متعہ) جائز ہے لیکن نکاح دائمی جائز نہیں اہل کتاب سے دائمی نکاح جائز نہ ہونے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ روایات جن کی رو سے اہل کتاب عورتوں سے نکاح دائمی جائز نہیں، اس آیت کیلئے مقید ثابت ہوں گی جس کے مطابق اہل کتاب سے نکاح دائمی اور نکاح موقت دونوں کا جواز سمجھا جاتا ہے یا عدم جواز کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آیت کریمہ (جس سے اہل کتاب سے نکاح کا جوازثابت ہوتا ہے) سے صرف نکاح موقت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

اس مشہور قول کے مقابلے میں علماء امامیہ کی ایک جماعت اہل کتاب عورتوں سے نکاح دائمی کوبھی جائز سمجھتی ہے چنانچہ حسین اور صدوقین (علی بن بابویہ ، محمد بن بابویہ ) سے یہ فتویٰ منقول ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس مسئلہ پر اس آیت کی تفسیر کے موقع پر تفصیلی بحث کریں گے۔

۱۰۔( لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ ) ۲:۲۵۶

''دین میں کسی طرح کی زبردستی نہیں کیونکہ ہدایت گمراہی سے (الگ) ظاہر ہو چکی ۔

۳۸۹

علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ آیت ، اس آیہ شریفہ کے ذریعے نسخ ہوگ ئی ہے:

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ ) ۹:۷۳

''اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ! کفار کے ساتھ (تلوار سے) اور منافقین کے ساتھ (زبان سے) جہاد کرو،،

کیونکہ اس آیت میں کفارسے جنگ کر کے انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جبکہ پہلی آیت میں دین کے معاملہ میں جبر کرنے سے روکا گیا ہے بعض حضرات کا خیال ہے کہ پہلی آیت نسخ نہیں ہوئی بلکہ دوسری آیت کے ذریعے اس کی تخصیص ہوئی ہے یعنی اہل کتاب کو مجبور نہ کیا جائے کیونکہ جیسا کہ اس سے قبل بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ اہل کتاب سے صرف اس بنیاد پر کہ وہ اہل کتاب ہیں ، جنگ نہیں کی جا سکتی۔

مولف : قول حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہوئی ہے اور نہ اس کی تخصیص ہوئی ہے۔

وضاحت : لغت عرب میں ''کرہ،، دو معنی میں استعمال ہوتا ہے:

i ۔ وہ معنی جو رضا مندی کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے یعنی کسی پر نارض یا خفا ہونا چنانچہ آیہ شریفہ:

( وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ) ۲:۲۱۶

''اور عجب نہیں کہ تم کسی چیز (جہاد) کون اپسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو،،

میں یہی معنی مراد ہے۔

ii ۔ وہ معنی جو اختیار کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے یعنی مجبوراً چنانچہ آیہ کریمہ:

( حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ ) ۴۶:۱۵

''اس کی ماں نے رنج ہی کی حالت میں اس کو پیٹ میں رکھا اور رنج ہی سے اس کو جنا،،۔

۳۹۰

میں یہی مقصود ہے کیونکہ حاملہ ہونا اور بچے کی ولادت اگرچہ اکثر اوقات عورت کی رضا مندی سے ہوتی ہے لیکن یہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے متنازعہ فیہ آیہ شریفہ میں نسخ یا تخصیص اس صورت میں ممکن ہے جب ''کرہ،، پہلے معنی (ناراضگی) میں استعمال ہو۔

لیکن ''اکراہ،، سے پہلا معنی (کسی چیز کو پسند نہ کرنا) مراد ہونا کئی جہات سے باطل ہے:

( i ) جہاں بھی کسی لفظ کے دو معنی ہوں ، ان میں سے کسی ایک معنی کے تعین کیلئے قرینہ اور موید کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس مقام پر کوئی ایسا قرینہ اور موید موجود نہیں جس سے معنی اول کا ارادہ کیا جانا ثابت ہو سکے۔

( ii ) دین اسلام ، اصول دین اور فروع دین دونوں کو شامل ہے اس آیت کے بعد کفر اور ایمان کا ذکر کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ دین صرف اصول دین کا نام ہے بلکہ ایک کلیہ کو اس کے بعض مصادیق پر منطبق کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت اسلامیہ میں بہت سے ایسے احکام موجود ہیں جو مسلمانوں پر (برحق) مسلط کئے گئے ہیں چنانچہ عقلاء کی سیرت بھی اس کی تائید کرتی ہے شریعت میں اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں مثلاً مقروض کو قرض ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے زوجہ کو شہر کی اطاعت پر مجبور کیا گیا ہے چور کو چوری ترک کرنے پر مجبور کیا جاتاہ ے ان تمام موارد کے ہوتے ہوئے کیسے کہا جا سکتا ہے کہ شریعت اسلامیہ میں ''اکراہ،، نہیں ہے۔

( iii ) ''اکراہ،، کی تفسیر میں اس کے پہلے معنی کو ذکر کرنا آیہ شریفہ کے دوسرے حصے:

( قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ) ۲:۲۵۶

''کیونکہ ہدایت گمراہی سے (الگ) ظاہر ہو چکی،،۔

۳۹۱

سے سازگار نہیں مگر یہ کہ ''قدتبین الرشد من الغی کو ''لااکراہ فی الدین،، کیلئے علت اور وجہ قرار دیا جائے بایں معنی کہ ہدایت اور گمراہی کا آشکار ہونا، احکام اسلام کو لوگوں پر ان کی مرضی کیخلاف مسلط کرنے سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

اگر آیہ کریمہ کا مطلب یہی ہے تو پھر اس کے نسخ ہونے کا امکان باقی نہیں رہتاکیونکہ دین اسلام کی دلیلیں اور حجیتیں شروع ہی سے واضح اور آشکار تھیں یہ الگ بات ہے کہ یہ روز بروز مستحکم ہوتی گئیں ا ن حقائق کی روشنی میں صدر اسلام کی بہ نسبت دعوت پیغمبر (ص) کے آخر میں اکراہ کا واقع نہ ہونا زیادہ مناسب ہوتا کیونکہ اسلام کے دلائل صدر اسلام کی بہ نسبت دعوت پیغمبر (ص) کے آخر میں زیادہ واضح اور مستحکم ہو گئے تھے۔

اس کے علاوہ جب عدم کراہ کی یہ علت تمام کفار میں مشترک تھی تو پھر اس حکم (عدم اکراہ) کے صرف بعض کفارسے مختص ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ تمام کے تمام کفار سے جنگ حرام ہو اس نتیجے کا باطل ہونا بدیہی اور واضح ہے۔

پس حق یہی ہے کہ آیہ کریمہ میں ''اکراہ،، سے مراد وہی معنی ہے جو اختیار کے مقابلے میں آتا ہے اور یہ یہاں جملہ خبریہ ہے انشائیہ نہیں۔

آیہ شریفہ اسی حقیقت کو بیان کر رہی ہے جس کا قرآن کی متعدد آیات میں ذکر ہو چکا ہے کہ شریعت الٰہی کسی جبر و اکراہ پر مبنی نہیں ہے نہ اس کے اصول کے سلسلے میں کسی کو مجبور کیا جاتا ہے اور اس کے فروع کے بارے میں پس حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسانیت کی ہدایت کیلئے رسول بھیجے جائیں ، آسمان سے کتابیں نازل ہوں اور احکام الٰہی کی وضاحت کی جائے تاکہ ہلاک (گمراہ) ہونے اور زندگی (ہدایت) حاصل کرنے والوں پر اتمام حجت ہو جائے اور خدا کے مقابلے میں کوئی عذر باقی نہ رہے جیسا کہ ارشاد تعالیٰ ہے:

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اور اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،۔

۳۹۲

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کوبھی ایمان لانے اور اطاعت کرنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ صرف حق کو گمراہی اور باطل کے مقابلے میںواضح طور پر بیان فرماتا ہے اور جو شخص حق پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے ارادے اور اختیارسے ایمان لاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ بھی اپنے ارادے اور اختیار سے باطل اورگمراہی کے راستے کا انتخاب کرتا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمام لوگوں کو حق کی منزل تک پہنچاسکتا ہے لیکن حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ حق اور باطل کی وضاحت کے بعد لوگوں کو ان کے اعمال میں مجبور نہ کیا جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ) ۵:۴۸

''اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کے سب کو ایک ہی (شریعت کی ) امت بنا دیتا مگر (مختلف شریعتوں سے) خدا کا مقصودیہ تھا کہ جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں تمہاراامتحان کر لے بس تم نیکیوں میں لپک کے آگے بڑھ جاؤ اور (یقین جانو) کہ تم سب کو خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تب (اس وقت) جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے وہ تمہیں بتا دے گا،،

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

''اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ (اب تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خد ہی کیلئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ) ۱۶:۳۵

''اور مشرکین کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم ہی اس کے سوا کسی اور چیز کی عبادت کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم بغیر اس (کی مرضی) کے کسی چیز کو حرام کر بیٹھتے جولوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں وہ بھی ایسے ( حیلہ حوالہ کی ) باتیں کر چکے ہیں تو (کہا کریں) پیغمبروں پر تو اس کے سوا کہ احکام کو صاف صاف پہنچا دیں اور کچھ بھی نہیں،،

۳۹۳

۱۱۔( وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ) ۴:۱۵

''اور تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بدکاری کریں تو ان کی بدکاری پر اپنے لوگوں میں سے چار کی گواہی لو پھر اگر چاروں گواہ اس کی تصدیق کریں تو (ان کی سزا یہ ہے کہ ) ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت آ جائے یا خدا ان کی کوئی (دوسری) راہ نکالے،،۔

( وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ) : ۱۶

'' اور تم لوگوں میں جن سے بدکاری سرزد ہوئی ہو ان کو مارو پیٹو ، پھر اگر وہ دونوں (اپنی حرکت سے) توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو ان کو چھوڑ دو بے شک خدا بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

حسن کی روایت ، جواس نے رقاشی سے نقل کی ہے ، کے مطابق عکرمہ اور عبادۃ بن صامت کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت ، دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے اور دوسری آیت کنوارہ مرد اور عورت جب زنا کریں تو ان کے بارے میں نسخ ہو گئی ہے اس لئے کہ ان کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور شادی شدہ مرد اور عورت جب زنا کریں توا ن کے بارے میں بھی یہ آیت نسخ ہو گئی ہے کیونکہ ان کو سو کوڑے مارنے کے علاوہ سنگسار کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مر جائیں۔

قتادہ اور محمد بن جابر کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت (میں موجود حکم) شادی شدہ ہے اور دوسری آیت باکرہ سے مختص ہے اور یہ دونوں آیات کروڑوں اور سنگساری کی سزا دینے کے حکم کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہیں۔

۳۹۴

ابن عباس ، مجاہد اور ابو جعفر نحاس جیسے ، ان کے ہم رائے ، حضرات کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت عورتوں کے زنا (چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا باکرہ) اور دوسری آیت مردوں کے زنا (چاہے شادی شدہ ہوں یا کنوارے) سے مختص ہے اور یہ دونوں آیات کروڑوں اور سنگساری کی سزا دینے کے حکم کے ذریعے نسخ ہو گئی ہیں(۱) بہرحال ابوبکر جصاص کا کہنا ہے کہ زنا کے ان دونوں حکموں کے نسخ ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے(۲)

مولف: حق یہی ہے کہ یہ دونوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں۔

توضیح: لفظ فاحشہ سے مراد وہ عمل ہے جس کی برائی اور قباحت سنگین ہو۔ اگر ایسی سنگین برائی کا ارتکاب دو عورتیں باہم مل کر کریں تو اسے ''مساحقہ،، کہا جاتا ہے ، کبھی اس برائی کو دو مرد انجام دیتے ہیں جو ''لواطہ،، کہلاتا ہے اور کبھی ایک مرد اور ایک عورت کے ذریعے یہ برائی انجام پاتی ہے جو زنا کہلاتی ہے لفظ ''فاحشہ،، سے نہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ زنا کیلئے وضع کیا گیا اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس سے خالق کی مراد زنا ہے اس نکتے کے پیش نظر پہلی آیت کا نسخ دو چیزوں پر موقوف ہے:

i ۔ پہلی آیت میں گھروں میں نظر بند کرنے کا مطلب ، مرتکب فحش کی تعزیر ہو۔

ii ۔ خدا کی طرف سے راہ مقرر ہونے سے مراد سنگساری اور کوڑے ہوں۔

ان دونوں کا ثابت ہونا ناممکن ہے کیونکہ آیہ مبارکہ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کو گھر میں نظر بند کرنے کا مقصد اسے دوبارہ ارتکاب فحش سے روکنا اور اس طرح منکرات کا سدباب کرناہے اور یہ مسلم ہے کہ لوگوں کی جان ، مال ناموس اور اس قسم کے دیگر حساس اعمال کے سلسلے میں منکرات کا سدباب کرنا واجب اور ہر شخص کا فرض ہے بلکہ ایک قول کے مطابق ہر برائی کی روک تھام واجب ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۹۸

(۲) احکام القرآن للجصاص ، ج ۲ ، ص ۱۰۷

۳۹۵

اسی طرح فحش کی مرتکب عورت کیلئے راہ مقرر کرنے کا مقصد ، اس کیلئے ایک ایسا طریقہ مقرر کرنا ہے جس کے ذریعے اسے عذاب سے نجات مل جائے یہ راہ کوڑے اور سنگساری کس طرح ہو سکتی ہے ؟ کیا کوئی آسودہ حال اور عقلمند عورت جو نظر بند ہو ، اس بات پر راضی ہو سکتی ہے کہ اسے کوڑے لگائے جائیں یا اسے سنگسار کیا جائے اسے کوڑے مارنا یا سنگسار کرنا تو اس کے عذاب میں اضافہ کرتا ہے ، اس کی نجات اور سہولت کی راہ و سبیل نہیں ہے ۔

گزشتہ بیان کی روشنی میں ''فاحشہ،، سے کبھی مراد ''مساحقہ،، ہوتا ہے ، جس طرح دوسری آیت میں ''فاحشہ،، سے مراد ''لواط،، ہے چنانچہ اس کو بعد میں بیان کیا جائے گا اور کبھی ''فاحشہ،، سے مراد وہ گناہ ہوتا ہے جو ''مساحقہ،، اور زنا دونوں کو شامل ہو۔

ان دونوںاحتمالات کے مطابق آیہ کریمہ میں فاحشہ عورت کی نظر بندی کولازمی قرار دیا جا رہا ہے (حتیٰ کہ خدا اس کیلئے آسانی نصیب فرمائے بایں معنی کہ یا وہ توبہ کر لے یا گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جائے اور کسی فحش کے ارتکاب کے قابل نہ رہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے گھر سے نکلنے کی اجازت مرحمت فرمائے یا اس میں شادی کی خواہش پیدا ہو اور اس کا شوہر اس کی ناموس کا تحفظ کرے یا اس قسم کے دیگر اسباب فراہم ہوں جن کی وجہ سے اس کے کسی فحش میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ رہے یہ ایک ایسا حکم ہے جو ہمیشہ کیلئے ثابت ہے۔

جہاں تک کوڑوں اور سنگساری کا تعلق ہے وہ ایک جداگانہ اور مستقل حکم ہے جو فحش کے مرتکب افراد کی تادیب اور تنبیہ کیلئے شارع مقدس نے مقرر فرمایا ہے جس کا حکم اول (عورت کی نظر بندی) سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اس کیلئے نسخ واقع ہوا ہے دوسرے الفاظ میں پہلا حکم شارع مقدس نے اس لئے مقرر فرمایا کہ دوبارہ فحش اور بدکاری کا سدباب ہو سکے اور دوسرے حکم کو پہلے جرم کی سزا اور اس پر تنبیہ کیلئے مقرر کیاتاکہ دوتری عورتیں بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب نہ کریں پس حکم اول اور حکم ثانی میں کوئی منافات نہیں کہ دوسرے حکم کو پہلے حکم کا ناسخ قرار دیا جائے البتہ اگر کوڑے مارنے اور سنگساری کی وجہ سے عورت کی موت واقع ہو جائے تو اسے گھر میں نظر بند کرنے کا حکم برطرف ہو جائے گا کیونکہ موت سے نظر بندی کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔

۳۹۶

خلاصہ بحث یہ ہے کہ جو شخص آیہ کریمہ میں غور و فکر کرے اسے اس میں کوئی ایسا نکتہ نظر نہیں آئے گا جس سے نسخ کا تو ہم ہو چاہئے آیہ جلد (کوڑے) اس آیہ پر مقدم ہو یا مؤخر ہو۔

جہاں تک دوسری آیت کے نسخ کا تعلق ہے وہ اس بات پر موقوف ہے۔

اولاً : ''یاتیانھا،، کی ضمیر زنا کی طرف لوٹتی ہو۔

ثانیاً : آیہ کریمہ میں ''ایذائ،، سے مراد سب و شتم (گالی گلوچ) اور لعن طعن ہو۔

ان دونوں امور کی کوئی دلیل نہیں اس کے علاوہ یہ دونوں باتیں آیہ کریمہ سے ظاہر نہیں ہوتیں۔

وضاحت: گزشتہ دونوں آیات میں تین مرتبہ جمع مذکر حاضر کی ضمیر لائی گئی ہے اور یہ مسلم ہے کہ تیسری ضمیر سے مراد وہی ہے جو پہلی اور دوسری ضمیر سے مردا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ پہلی دو ضمیروں سے مراد ، مرد ہیں پس بنا برایں''اللذان،، سے مراد دو مرد ہیں اور اس سے مراد ایسا عام معنی نہیں ہے جو مرد اور عورت دونوں کو شامل ہو۔

اس کے علاوہ اگر تثنیہ کی ضمیر سے مراد دو مرد نہ لئے جائیں تو اس کا کوئی دوسرا معنی مراد لینا صحیح بھی نہیں کیونکہ اگر ضمیر سے مراد دو مرد نہ ہوتے توا س کی جگہ جمع کی ضمیر آنی چاہئے تھی جس طرح سابقہ آیت میں جمع کی ضمیر لائی گئی ہے اور یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دوسری آیت میں ''فاحشہ،، سے مراد ''لواط،، ہے ، زنا نہیں اور نہ وہ عام معنی ہے جو لواط اور زنا دونوں کو شامل ہو یہ بات واضح ہونے کے بعد ثابت ہو جاتا ہے کہ اس آیت کے موضوع کا آیہ جلد سے کوئی ربط نہیں یہ بات تسلیم کرنے کے بعد کہ اس آیت میں موجود حکم کے موضوع میں زانی بھی شامل ہے اس امر کی کوئی دلیل نہیں رہتی کہ آیت میں جس ایذارسانی کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد کوئی خاص قسم کی اذیت ہو البتہ ابن عباس ےس مروی ہے کہ اس ایذا سے مراد ضرب و شتم ہے لیکن یہ روایت حجت نہیں کہ اس کے ذریعے نسخ ثابت ہو سکے لہٰذا لفظ کے اپنے ظہور پر عمل کرنا چاہئے اور آیہ جلد یا حکم رجم کے ذریعے (جو قطعی طور پر ثابت ہے) اس کی تقیید کی جائے۔

۳۹۷

خلاصہ بحث یہ کہ ان دونوں آیتوں میں نسخ کے التزام کی کوئی وجہ نہیں مگر یہ کہ کوئی اندھی تقلید کرے اور ان احاد روایات پر عمل کرے جو کسی علم و عمل کا فائدہ نہیں دیتیں۔

۱۲۔( وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ ) ۴:۲۴

''اور ان عورتوں کے سوا( اور عورتیں) تمہارے لئے جائز نہیں،،

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیہ کریمہ ان روایات کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس کی رُو سے سورہ نساء کی آیہ ۲۳ میں مذکور عورتوں کے علاوہ بھی کچھ عورتیں حرام قرار دی گئی ہیں یہ دعویٰ اس وقت صحیح ہو سکتا ہے جب خاص متاخر ، عام مقدم کیلئے ناسخ بنے ، مخصص نہ بنے۔

لیکن قول حق یہی ہے کہ خاص عام کیلئے مخصص بنتا ہے ناسخ نہیںبنتا ، خواہ خاص ، مقدم ہویا موخر یہی وجہ ہے کہ خبر واحد ، جس میں جیت کی تمام شرائط موجود ہوں کو عام کا مخصص قرار دیا جا سکتا ہے چنانچہ عنقریب یہ بحث آئے گی کہ خبر واحد ، جس میں حجیت کی تمام شرائط موجود ہوں، کو عام کا مخصص قرار دیا جا سکتا ہے چنانچہ عنقریب یہ بحث آئے گی کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہے اگر مؤخر خاص ناسخ ہوتا تو خبر واحد پر اکتفا نہ کیا جاتا اس لئے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں کیا جا سکتا اس کے علاوہ آیہ کریمہ میں کوئی عموم لفظی نہیں پایا جاتا بلکہ ظاہری اطلاق کے ذریعے عموم سمجھا جاتا ہے اور جب کوئی ایسی دلیل موجود ہو جو اس آیہ کیلئے مقید بننے کی صلاحیت رکھتی ہو وہاں یہ حکم لگایا جائے گا کہ اس مقام پر شروع سے (واقعی) اطلاق مراد نہیں۔

۳۹۸

۱۳۔( فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ) ۴:۲۴

''ہاں جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہو تو انہیں و مہر معین کیا ہے دے دو،،

علماء اہل سنت میں مشہور ہے کہ متعہ کی حلیت (حلال ہونا) نسخ ہو گئی ہے اور قیامت تک کیلئے اس کی حرمت ثابت ہو گئی ہے اس کے برعکس شیعہ امام کا اتفاق ہے کہ متعہ کی حلیت باقی ہے اور آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت نے بھی شیعہ امامیہ کی اس رائے سے اتفاق کیا ہے چنانچہ ابن حزم لکھتے ہیں:

''ابن مسعود ، معاویہ ، ابو سعید ، ابن عباس ، امیہ بن خلف کے دونوں بیٹے سلمہ اور معبد ، جابر اور عمرو بن حریث پیغمبر اکرم (ص) کے بعد بھی متعہ کی حلیت کے قائل تھے،،۔

اس کے بعد ابن حزم لکھتے ہیں:

''جابر نقل کرتے ہیں کہ تمام صحابہ پیغمبر اکرم (ص) ، رسول اللہ (ص) کی زندگی میں حضرت ابوبکر کی خلافت کے دوران اور خلافت حضرت عمر کے آخر تک متعہ کو حلال سمجھتے تھے،،

ابن حزم مزید لکھتے ہیں:

''تابعین میں سے طاووس ، سعید بن جبیر ، عطا اور مکہ کے دیگر فقہا متعہ کی حلیت کے قائل تھے ،،(۱)

شیخ الاسلام مرغینانی نے جو ازمتعہ کے قول کی نسبت مالک کی طرف دی ہے مالک متعہ کے جواز پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں:

____________________

(۱) حاشیہ فقی برمنتقیٰ ، ج ۲ ، ص ۵۲۰

۳۹۹

''متعہ (رسول اللہ (ص) کے زمانے میں) یقیناً مباح تھا۔ جب تک اس کا نسخ ثابت نہ ہو اس کی حلیت باقی رہے گی،،(۱)

ابن کثیر لکھتے ہیں:

''ایک اور روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل اضطراری حالت میں متعہ کو جائز سمجھتے ہیں،،(۲)

مکہ کے نامور عالم اور فقیہ ابن جریح نے اپنے زمانے میں ستر عورتوں سے نکاح متعہ کیا تھا(۳) انشاء اللہ اس آیہ کریمہ کی تفسیر کے موقعہپر ہم تفصیلی گفتگو کریں گے یہاں ہم اس آیہ کے بارے میں مختصر بحث کریں گے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ اس آیہ شریفہ کا مفہوم نسخ نہیں ہوا۔

توضیح: آیہ شریفہ میں موجود حکم اس بات پر موقوف ہے۔

اولاً: آیہ شریفہ میں استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہو۔

ثانیاً : بعد میں نکاح متعہ کی حرمت ثابت ہو جائے۔

جہاں تک امر اول (استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہو) کا تعلق ہے اس کے ثبوت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں طرفین کی بہت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آیہ شریفہ میں استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہے۔

____________________

(۱) ہدایہ شرح بدایہ ص ۳۸۵ ۔ مطبوعہ بولاق معہ فتح القدیر ۔ اس نسبت کی شیخ محمد بابرتی نے بھی شرح ہدایہ میں تاید کی ہے البتہ ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر میںاس کاانکار کیا ہے عبدالباقی مالکی زرقانی نے شرح مختصر ابی ضیاء ج ۳ ص ۱۹۰ پر کہا ہے:

''متعہ جو کسی بھی وقت قابل فسخ ہے کی حقیقت یہ ہے کہ مرد یا عورت یا ان کے ولی عقد اس طرح پڑھیں کہ اس میں مدت مذکور ہو اور یہ کہ مرد عورت کو اپنے مقصد سے آگاہ کرے لیکن اگر صیغہ عقد میں مدت کا ذکر نہ ہو لیکن مرد اس کا قصد کرے اور عورت بھی مرد کے قصد کو سمجھا جائے تو بھی کافی ہے امام مالک کا فتویٰ یہی ہے اور یہ عقد مسافروں کیلئے مفید ہے،،۔

(۲) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۴۷۴

(۳) شرح زرقانی برمختصر ابی ضیاء ، ج ۸ ، ص ۷۶

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689