البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 316003 / ڈاؤنلوڈ: 9412
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

( لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ ) ۸۴:۱۹

''کہ تم لوگ ضرور ایک سختی کے بعد دوسری سختی میں پھنسو گے۔ ،،

یا اس حدیث کی ہم معنی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے آپ فرماتے ہیں:

''لترکبن سنن من قبلکم،، ''تم بھی گذشتہ لوگوں کی غلط اور گمراہ کن سنتیں اور طریقے اپناؤ گے۔،،

پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''من ترکه من جبار قصمه الله،، ۔۔۔'' جو ظالم اور جابر بھی قرآن کو ترک کرے گا اوراسے پس پشت ڈالے گا خدا تعالیٰ اس کی کمر توڑ ڈالے گا۔،،

شاید اس جملے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کی ضمانت دے رہے ہیں کہ خدا قرآن کو جابروں اور ظالموں کے ہاتھ اس طرح کھلونا نہیں بننے دے گا جس سے اس کی تلاوت اس پر عمل ترک ہوجائے اور یہ لوگوں کے ہاتھوں سے لے لیا جائے جس طرح دوسری آسمانی کتابوں کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہے۔ گویا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن (ہمیشہ) تحریف سے محفوظ رہے گا۔ اس پر تفصیلی بحث آئندہ صفحات میں کی جائے گی۔

حدیث کے اس جملے کا مطلب بھی یہی ہے''لا تزیغ به الأهواء،، ۔۔۔'' خواہشات اسے کج (زنگ آلود) نہیں کرسکتیں۔،، یعنی اس کی اصل حقیقت میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔۔۔ قرآن کی اصل حقیقت کے تحفظ کی ضمانت اس لیے دی جارہی ہے کہ قرآن کے خود ساختہ اپنی خواہشات کے مطابق معانی بیان کئے گئے ہیں۔ چنانچہ مخصووص آیات کی تفسیر کے موقع پر اسے مفصل بیان کیاجائے گا انشاء اللہ۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر لوگ آپس کے اختلافات اور عقائد و اعمال کی مشکلات میں قرآن کی طرف رجوع کریں تو ان سب کا حل قرآن میں مل جائے گا اور لوگ اسے ایک عادل حاکم اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا پاِئیں گے۔

۲۱

ہاں! اگر مسلمانوںمیں احکام اور حدود قرآن کا نفاذ ہوتا اور اسکے اشارات کی پیروی کی جاتی تو حق اور اہل حق پہچانے جاتے اور عترت پیغمبر کی معرفت بھی حاصل ہوجاتی جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔(۱) اور یہی وہ ہستیاں ہیں جو آنحضرت کے بعد قرآن کی طرح آپ کا جانشین قرار پائیں، اور اگر مسلمان قرآنی علوم کی روشنی سے نور حاصل کرتے تو ذلت میں مبتلا نہ ہوتے، ان پر ضلالت و گمراہی کی تاریکیاں نہ چھاجاتیں، احکام خدامیں سے کوئی حکم بھی اپنے حقیقی ہدف سے منحرف نہ ہوتا، نہ کوئی شخص راہ راست سے بھٹکتا، نہ کسی کے پائے استقلال میں لغزش آتی، لیکن مسلمانوںنے قرآن کی پس پشت ڈالدیا اور زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے خواہشات نفسانی کی پیروی اور باطل کے جھنڈے تلے پناہ اختیار کی، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گرداننے لگے اور مسلمان کے قتل، اس کی ہتک حرمت اور اس کے مال کو حلال قرار دینے کو قرب خداوندی کا وسیلہ سمجھنے لگے۔ قرآن کے تروک ہونے کی دلیل اس اختلاف و انتشار سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے۔

___________________

(۱) حدیث ثقلین کا حوالہ ص ۱۸ میں ذکر کیا گیا۔ بعض روایات میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ۔۔۔''قرآن اور عترت، رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے دو جانشین ہیں۔،،

۲۲

امیر المومنین (علیہ السلام) قرآن کی تعریف میں فرماتے ہیں:

''ثم انزل علیه الکتاب نورا لاتطفا مصابیحه، و سراجا لا یخبو توقده، و بحرا لایدرک قعره، و منهاجا لا یضل نهجه، و شعاعا لایظلم ضوؤه، و فرقانا لا یخمد برهانه، و تبیانا(۱) لا تهدم ارکانه، و شفاء لا تخشی اسقامه، عزا لاتهزم انصاره، و حقا لا تخذل اعوانه، فهو معدن الایمان و بحبوحته، و ینابیع العلم و بحوره، و ریاض العدل و غدرانه، و اثافی الاسلام و بنیانه، و اودیة الحق و غیطانه، و بحر لا ینزفه المنتزفون، و عیون لا ینضبها الماتحون، و مناهل لا یغیضها الواردون، منازل لا یضل نهجها المسافرون، و اعلام لا یعمی عنها السائرون، و آکام لایجوز عنها القاصدون، جعله الله ریّاً لعطش العلمائ، و ربیعا لقلوب الفقهاء و محاجّ لطریق الصلحائ، و دوائً لیس بعده دائ، و نورا لیس معه ظلمة، و حبلاً و ثقیاًعروته، و معقلا منیعا ذروته، رزا لمن تولاه، و سلما لمن دخله، و هدی لمن ائتم به، وعذرا لمن انتحله، و برهانا لمن تکلم به، و شاهدا لمن خاصم به، و فلجا کمن حاج به، و حاملا لمن حمله، و مطیةً لمن اعمله، و آیة لمن توسم و جنة لمن استلأم، و علماً لمن وعی، و حدیثا لمن روی، و حکما لمن قضی،،(۲)

''پھر آپ پرایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا) نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں، ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس کی گہرائی تک کسی کی رسائی نہیں اور ایسی راہ ہے جس کی راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن ہے جس کی پھوٹ مدہم نہیں پڑتی، وہ (حق و باطل میں) ایسا امتیاز کرنے والی ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی، ایسا کھول کر بیان کرنے والی ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جاسکتے، و ہسراسر شفا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے روحانی بیماریوں کا کھٹکا نہیں، وہ سرتاسر عزت و غلبہ ہے جس کے یار و مددگار شکست نہیں کھاتے،

____________________

(۱) بحار الانوار میں تبیانا کی بجائے بنیانا ہے۔

(۲)نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۹۶۔

۲۳

وہ (سراپا) حق ہے، جس کے معین و معاون بے سہارا نہیں چھوڑے جاتے، وہ ایمان کا معدن اور مرکز ہے جس سے علم کے چشمے پھوٹتے اور دریا بہتے ہیں، اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں، وہ اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس ہے، حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے، وہ ایسا دریا ہے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے، وہ ایسا چشمہ ہے کہ پانی بھرنے والے اسے خشک نہیں کرسکتے، وہ ایسا گھاٹ ہے کہ اس پر اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیں سکتا، وہ ایسی منزل ہے جس کی راہ میں کوئی راہ رو بھٹکتا نہیں، وہ ایسا نشان ہے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا، وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے، اللہ نے اسے علماء کی تشنگی کے لیے سیرابی، فقہاء کے دلوں کے لیے بہار اور نیکو کاروں کی رہ گزر کے لیے شاہراہ قرار دیا ہے

یہ ایسی دوا ہے جس سے کوئی مرض نہیں رہتا، ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں، ایسی رسی ہے جس کے حلقے مضبوط ہیں، ایسی چوٹی ہے جس کی پناہ گاہ محفوظ ہے، جو اس سے وابستہ رہے اس کے کئے پیغام صلح و امن ہے، جو اس کی پیروی کرے اس کےلئے ہدایت ہے، جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کےلئے حجت ہے، جو اس کی رو سے بات کرے او کے لیے دلیل و برہان ہے، جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کے لئے گواہ ہے جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کے لئے فتح و کامرنی ہے، جو اس کا بار اٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا ہے، جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کے لئے مرکب (تیز گام) ہے، یہ حقیقت شناس کے لیے ایک واضح نشان ہے، (ضلالت و گمراہی سے ٹکرانے کے لیے) جو مسلح ہو ا س کے لئے سپر ہے، جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باندھ لے اس کے لئے علم و دانش ہے، بیان کرنے والے کے لئے بہترین کلام او رفیصلہ کرنے والے کےلئے قطعی حکم ہے۔،،

۲۴

یہ خطبہ بہت سے اہم نکات پر مشتمل ہے جن سے آگاہی اور ان میں غور و خوض لازمی ہے:

امیر المومنین کے ارشاد''لا یخبو توقده،، ۔۔۔'' قرآن ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی،،۔۔۔ اور خطبے میں اس قسم کے دوسرے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معانی لا متناہی اور ابدی ہیں۔

مثال کے طور پر ایک آیہ کریمہ کسی خاص مقام، شخص یا قوم کے بارے میں نازل ہوئی مگر وہ آیہ اس مقام، شخص اور قوم سے ہی مختص نہیں رہتی بلکہ اس کے معانی عام ہوتے ہیں اور یہ ہر جگہ، ہر شخص اور ہر قوم پر منطبق ہوتی ہے، عیاشی نے اپنی سند سے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے آیہ( وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) ( ۱۳:۷)،، ۔۔۔(ہر قوم کے لئے ایک ھادی ہوا کرتا ہے) کی تفسیر کے بارے میں روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:

'' علی: الهادی، و منا الهادی، فقلت : فانت جعلت فداک الهادی، قال : صدقت ان القرآن حی لایموت، و الآیة حیّة لا تموت، فلو کانت الآیة اذا نزلت فی الاقوام و ماتوا ماتت الآیة لمات القرآن و لکن هی جاریة فی الباقین کما جرت فی الماضین،،

(یعنی) اس آیہ شریفہ میں ہادی سے مراد امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام ہںی اور ہادی ہم ہی میں سے ہوا کرے گا۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: میں آپ پر نثار ہوں کیا آپ بھی ہادی اور اس آیہ شریفہ کے مصداق ہیں؟ ہاں میں بھی اس کا مصداق ہوں، قرآن ہمیشہ زندہ رہے گا، اسے موت نہیں آئے گی اور یہ آیہ و لکل قوم ھاد بھی زندہ ہے اور اسے موت نہیں آسکتی، اگر ایک قوم پر اترنے والی آیت قوم کے مرنے سے مر جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کو بھی موت آگئی حالانکہ ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ قرآن جس طرح گذشتہ اقوام پر منطبق ہوتا تھا اسی طرح آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی منطبق ہوگا۔،،

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''ان القرآن حی لم یمت، و انه یجری کما یجری اللیل و النهار، و کما تجری الشمس و القمر، و یجری علی آخرنا کما یجری علی اولنا،،

(یعنی) ''قرآن زندہ و جاوید ہے، اسے موت نہیں آسکتی، دن اور رات کی طرح یہ بھی چلتا رہے گا اور سورج اور چاند کی طرح ہر دور میں ضوفشانی کرتا رہے گا۔،،

۲۵

اصول کافی میں ہے، جب عمر بن یزید نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے آیت کریمہ( وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ ) ۱۳:۲۱،، کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

'' هذه نزلت فی رحم آل محمد صلی الله علیه و آله و سلم وقد ثم مات اولئک ماتت الآیة لما بقی من القرآن شیئ، و لکن القرآن یجری اوله علی آخره مادامت السماوات و الأرض، ولکل قوم آیة یتلوها هم منها من خیر او شر،،

یہ آیتِ کریمہ ہم آلِ محمد کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن یہی آیہ کریمہ شریفہ تمہارے قریبی رشتہ داروں پر منطبق ہوسکتی ہے، تو ان لوگوں میں سے نہ بن جو ایک خاص مقام اورچیز پرنازل شدہ آیت کو اس مقام اورچیز سے مختص کردیتے ہیں۔

تفسیر فرات میں ہے:

''و لو أن الآیة اذا نزلت فی قوم ثم مات أولئک ماتت الآیة لما بقی من القرآن شیئ، ولکن القرآن یجری أوله علی آخره ما دامت السماوات و الأرض، و کل قومٍ آیة یتلوها هم منها من خیر أو شر،،

''اگر کسی قوم پر کوئی آیت نازل ہو پھر وہ قوم مرجائے اور اس قوم کے ساتھ آیت بھی مرجائے تو قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہ جائے مگر ایسا نہیں جب تک آسمان اور زمین موجود ہیں گذشتہ لوگوں کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیےبھی اس کی ہدایت کا سلسلہ جاری رہیگا اور قرآن میں ہر قوم و ملت کے بارے میں ایک آیت موجود ہے جس میں ان کی اچھی یا بری سرنوشت و تقدیر اور انجام کا ذکر ہے۔،،

اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) مرۃ الانوار، ص ۳۔۴

۲۶

و منها جا لا یضل نهجة ''یعنی قرآن وہ سیدھا راستہ ہے جو اپنے راہرو کو گمراہ نہیں کرتا،،۔ اسے خالق نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے قرآن ہر اس شخص کو گمراہی سے بچاتا ہے جو اس کی پیروی کرے۔

''و تبیاناً لا تهدم ارکانه،، اس جملے میں دو احتمال ہیں:

الف: پہلا احتمال یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ میں کسی قسم کا خلل اور نقص نہیں ہوسکتا ہے، اس احتمال کے مطابق اس جملے میں امیر المومنین اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہی ںکہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ ہے۔

'' وریاض العدل و غدرانه،، (۱) ''اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ عدالت چاہے عقیدہ کے اعتبار سے ہو یا اخلاق کے اعتبار سے، اس کے تمام پہلو قران میں موجود ہیں۔ پس قرآن عدالت کا محور اوراس کی مختلف جہات کا سنگم ہے۔

و أثا فی الاسلام (۲) ''اسلام کا سنگ بنیاد اور اسکی اساس ہے۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو جو استحکام اور اثبات حاصل ہوا ہے وہ قرآن ہی کی بدولت ہے جس طرح دیگ کو استحکام ان پایوں کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے جس کے نیچے رکھے ہوتے ہیں۔

''و أودیة الحق و غیطانه،، '' حق کی وادی اوراس کا ہموار میدان ہے۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن حق کا سرچشمہ ہے۔ اس جملے میں قرآن کو وسیع اور پرسکون زرخیز سرزمین سے تشبیہ دی گئی ہے اور حق کو ان نباتات سے تشبیہ دی گئی ہے جو اس سرزمین پر اگی ہوں کیونکہ قرآن ہی حق کا سرچشمہ ہے، قرآن کے علاوہ کہیں اور سے حق نہیں مل سکتا۔

____________________

(۱) ریاض روضہ کی جمعہ ہے یہ اس سرسبز زمین کو کہتے ہیں جس میں سبزہ ہو، غدران جمع ہے غدیر کی اس کا معنی سیلاب کا جمع شدہ پانی ہے۔

( ۲) اثانی جو امانی کے وزن پر ہے، ''اثفیہ،، کی جمع ہے۔ ''اثفیہ،، اس پتھر کو کہا جاتا ہے جس پر دیگچی رکھی جاتی ہے۔

اس جملے سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ جب قرآن کے متلاشی اس کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں پہنچ کر رک جاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے، اس لیے کہ انہیں مکمل ططور پر اپنی مراد مل جاتی ہے اور وہ منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔

۲۷

'' وبحر لا ینزفه المنتزفون،، '' وہ ایسا دریا ہے جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے،، اس جملے اور اس کے بعدوالے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ جو معانیئ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے وہ اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ قرآن کے معانی لامتناہی ہیں بلکہ اس جملے میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قرآن میں کبھی کمی واقع ہو ہی نہیں سکتی، جس طرح چشمے سے پانی نکالنے، پینے یا برتن بھرنے سے پانی کم نہیں ہوتا۔

'' وآکام لا یجوز عنها القاصدون،، ''وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے نہیں گزر سکتے،،۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو محققین اور مفکرین قرآن کی بلندیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی اس کے معانی کی بلندیوں اور چوٹیوں سے تجاوز ن ہیں کرسکتے۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قران کریم ایسے سربستہ رازوں پر مشتمل ہے جن تک صاحبان فہم کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ ہم آئندہ اس حقیقت کو بیان کریں گے۔ انشاء اللہ۔

۲۸

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب

قرآن وہ آسمانی قانون اور ناموں الٰہی ہے جو لوگوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ضمانت دیتا ہے، قرآن کی ہر آیت ہدایت کا سرچشمہ اور رحمت و راہنمائی کی کان ہے۔ جو بھی ابدی سعادت اور دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کا آرزو مند ہے اسے چاہیے کہ شب و روز قرآن کریم سے عہد و پیمان باندھے، اس کی آیات کریمہ کو اپنے حافظہ میں جگہ دے اور انہیں اپنی فکر اور مزاج میں شامل کرے تاکہ ہمیشہ کی کامیابی اور ختم نہ ہونے والی تجارت کی طرف قدم بڑھاسکے۔

قرآن کی فضیلت میں ائمہ علیہم السلام ارو ان کے جدامجد سے بہت سی روایات منقول ہیں، امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

'' قال رسول الله صلی الله علیه و آله: من قرأ عشر آیات فی لیلة لم یکتب من الغافلین، و من قرأ خمسین آیة کتب من الذاکرین، و من قرأ مائة آیة کتب من القانتین، و من قرأ مائتی آیة کتب من الخاشعین، و من قرأ ثلثمائة آیة کتب من الفائزین و من قرأ خمسمائة آیة کتب من المجتهدین، و من قرأ ألف آیه کتب له قنطار من تبر،،

''پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جو شخص رات کو دس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام غافلین (جو یاد خدا سے بے بہرہ رہتے ہیں) میں نہیں لکھا جائے گا اور جو شخص پچاس آیتوں کی تلاوت کرے اور کا نام ذاکرین (جو خدا کو یاد کرتے ہیں، حرام و حلال کا خیال رکھتے ہیں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام قانتین (عبادت گزاروں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص دوسو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام خاشعین (جو خدا کے سامنے متواضع ہوں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص تین سو آیتوں کی تلاوت کرے اور کا نام سعادت مندوں میں لکھا جائے گا، جو شخص پانچ ہزار آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام عبادت اور پرستش خدا کی کوشش کرنے والوں میں لکھا جائے گا اور جو شخص ہزار آیتوں کی تلاوت کرے وہ ایسا ہے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہ خدا میں دے دیا ہو۔،،

۲۹

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''القرآن عهد الله الی خلقه، فقد ینبغی للمرء المسلم أن ینظر فی عهده، و أن یقرأ منه فی کل یوم خمسین آیة،،

''قرآن خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک عہد و میثاق ہے، مسلمان کو چاہےے کہ وہ اپنا عہد نامہ غور سے پڑھے اور روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے۔،،

آپ نے مزید فرمایا:

'' ما یمنع التاجر منکم المشغول فی سوقه اذا رجع الی منزله أن لا ینام حتی یقرأ سورة من القرآن فیکتب له مکان کل آیة یقرأها عشر حسنات، و یمحی عنه عشر سیأت؟،،

''حب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھر واپس لوٹتے ہیں تو سونے سے پہلے ایک سورۃ کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی ہے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تاکہ ہر آیت کے بدلے ان کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں اور ان کے نامہ ئ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں۔،،

اس کے بعد آپ نے فرمایا:

''علیکم بتلاوة القرآن، فان درجات الجنة علی عد آیات القرآن، فاذا کان یوم القیامة یقال لقاری القرآن: اقرأ و ارق، فکلما قرأ آیة رقی درجة،،

''قرآن کی تلاوت ضرور کیا کرو(اس لئے کہ) آیات قرآن کی تعداد کے مطابق جنت کے درجات ہوں گے۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو قاری قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاؤ اور اپنے درجات بلند کرتے جاؤ پھر ہو جیسے جیسے آیات کی تلاوت کرے گا اس کے درجات بلند ہوں گے۔،،

۳۰

حدیث کی کتابوں میں علماء کرام نے اس مضمون کی بہت سی روایات کو یکجہا کر دیا ہے، شائقین ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اور بحار الانوار کی انیسویں جلد میں اس مضمون کی کافی روایات موجود ہیں، ان میں سے بعض روایات کے مطابق قرآن کو دیکھ کر تلاوت کرنا، زبانی اور ازبر تلاوت کرنے سے بہتر ہے۔

ان میں سے ایک حدیث یہ ہے:

اسحاق بن عمار نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی:

''جعلت فداک انی احفظ القرآن عن ظهر قلبی فأقرأه عن ظهر قلبی أفضل أو أنظر فی المصحف قال: فقال لی : لا بل اقرأه و انظر فی المصحف فهو أفضل أما علمت ان النظر فی المصحف عبادة ،،؟ و قال: ''من قرأ القرآن فی المصحف متع ببصره، و خفف عن الدیه و ان کانا کافرین،، (۱)

''میری جان آپ پر نثار ہو، میں نے قرآن حفظ کرلیاہے اور زبانی ہی اس کی تلاوت کرتا ہوں، یہی بہتر ہے یا یہ کہ قرآن دیکھ کے تلاوت کروں؟ آپ نے فرمایا: قرآن دیکھ کر تلاوت کیا کرو یہ بہتر ہے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ قرآن میں دیکھنا عبادت ہے، جو شخص قرآن میں دیکھ کے اس کی تلاوت کرے اس کی آنکھ مستفید اور مستفیض ہوتی ہے اور اس کے والدین کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے، اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔،،

____________________

(۱) اصول کافی۔ کتاب فضل القرآن۔ وسائل طبعۃ عین الدولہ، ج۱، ص ۳۷۰

۳۱

قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید و تشویق میں چند اہم نکات ہیں جن کی طرف توجہ ضروری ہے:

i ) قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید اس لیے کی گئی ہے تاکہ نسخوں کی کثرت کی وجہ سے قرآن ضیاع سے محفوظ رہ سکے۔ کیوں کہ جب قرآن کی زبانی تلاوت پر اکتفاء کی جائے گی تو قرآن کے نسخے متروک ہو جائیں گے اور آہستہ آہستہ کم یاب ہو جائیں گے بلکہ بعیدنہیں کہ بتدریج اس کے آثار تک باقی نہ رہیں۔

ii ) دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کے بہت سے آثار ہیں جن کی روایات میں تصریح کی گئی ہے مثلاً معصوم نے فرمایا ہے: ''متع ببصرہ،، یعنی۔ یہ بڑا جامع کلمہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان نابینائی اور آشوب چشم سے محفوظ رہے یا یہ مراد ہوسکتی ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے سے انسان قرآنی رموز اور اس کے دقیق اور باریک نکات سے باخبر ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ جب انسان کی نظر ایسی چیز پر پڑے جو اسے پسند ہو تو اس کا نفس خوشحال ہو جاتا ہے اور اپنی بصارت اور بصیرت میں روشنی محسوس کرتا ہے۔ قرآن کے الفاظ پر جب بھی قاری کی نظر پڑتی ہے اور وہ اس کے علوم و معانی میں فکر کرتا ہے تو علم و آگاہی کی لذت محسوس کرتا ہے اور اس کی رح ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔

iii ) بعص روایات میں گھروں کے اندر قرآن کی تلاوت کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اس کا راز قرآن کی تبلیغ و ترویج اور تلاوت قرآن کا چرچا ہے، کیونکہ جب انسان گھر میں قرآن کی تلاوت کرے تو اس کے بیوی بچے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس سے یہ عمل عام ہو جاتا ہے لیکن اگر قرآن کی تلاوت کسی خاص مقام پر کی جائے تو اس کا ہر شخص، ہر جگہ شرف حاصل نہیں کرسکتا اور یہ تبلیغ اسلام میں رکاوٹ کا بہت بڑا سبب ہے۔

۳۲

شاید گھروں میں تلاوت کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اس سے شعائر الٰہی قائم ہو جاتے ہیں کیونکہ جب صبح و شام گھروں سے تلاوت قرآن کی آواز بلند ہوگی تو سننے والوں کی نظر میں اسلام کی اہمیت بڑھے گی اس لیے کہ جب شہر کے کونے کونے سے تلاوت قرآن کی آواز سنائی دے گی تو سننے والوں پر ایک قسم کا رعب اور ہیبت طاری ہوجائے گی۔

گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکورہ ہیں

''ان البیت الذی یقرأ فیه القرآن و یذکر الله تعالی فیه تکثر برکته، و تحضره الملائکة، و تهجره الشیاطین، و یضیئ لأهل السلماء کما یضیئ الکوکب الدری لأهل الأرض، و ان البیت الذی لایقرأ فیه القرآن، و لا یذکره الله تعالیٰ فیه تقل برکته، و تهجره الملائکة و تحضره الشیاطین ۔،، (۱)

''وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت اور ذکر خدا کیا جاتا ہو اس کی برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے، اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے شیاطین اس گھر کو ترک کردیتے ہیں اور یہ گھر آسمان والوں کو روشن نظر آتے ہیں، جس طرح آسمان کے ستارے اھل زمین کو نور بخشتے ہیں اور وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی اور ذکر خدا نہیں ہوتا اس میں برکت کم ہوتی ہے، فرشتے اسے ترک کردیتے ہیں اور ان میں شیاطین بس جاتے ہیں۔،،

قرآن کی فضیلت اور وہ عزت و تکریم جن سے خداوند، قاری قرآن کو نوازتا ہے روایات میں اتنی ہے کہ جس سے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

____________________

(۱) اصول کافی، کتاب فضل القرآن

۳۳

''من قرأ حرفاً من کتاب الله تعالیٰ فله حسنة والحسنة بعشر أمثالها لا أقول آلم حرف و لکن ألف حرف و لام حرف و میم حرف،،

''جو شخص کتاب الٰہی کے ایک حرف کی تلاوت کرے اس کے اعمال میں ایک حسنہ اور نیکی لکھی جاتی ہے اور ہر حسنہ کا دس گنا ثواب ملتا ہے (اس کے بعد آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا کہ ''الم،، (یہ تینوں) ایک حرف ہے بلکہ ''الف،، ایک حرف ہے ''ل،، دوسرا حرف ہے اور ''م،، تیسرا حرف ہے۔،،

اس حدیث کو اہل سنت کے راویوں نے بھی نقل کیا ہے، چنانچہ قرطبی نے اپنی تفسیر(۱) میں ترمذی سے اور اس نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے، کلینی رحمہ اللہ نے بھی تقریباً اسی مضمون کی حدیث امام جعفر صادق سے نقل فرمائی ہے۔

اس میدان میں کچھ جھوٹے راوی بھی ہیں جن کی نظر میں شاید فضیلت قرآن کی یہ تمام روایات کم تھیں اس لیے انہوں نے اپنی طرف سے فضیلت قرآن میں کچھ روایات گھڑلیں جن کی نہ تو وحی نازل ہوئی ہے اور نہ ان کا سنت نبوی میں کوئی ذکر ہے۔ ان جھوٹے راویوں میں ابو عصمۃ فرج بن ابی مریم مروزی، محمد بن عکاشہ کرمانی اور احمدبن عبد اللہ جویباری شامل ہیں۔ ابو عصمۃ نے خود اس جعل سازی کا اعتراف کیا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تو نے کس طرح عکرمہ کے واسطے سے ابن عباس سے قرآن کے ایک ایک سورے کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں، اس (ابو عصمۃ) نے جواب دیا:

''ابی رأیت الناس قد أعرضوا عن القرآن، و اشتغلوا بفقه أبی حنیفة، و مغازی محمد بن اسحق فرضعت هذا الحدیث حسبة،،

''جب میں نے دیکھا کہ لوگ قرآن سے منحرف ہوگئے ہیں اور ابی حنیفہ اور مغازیئ محمد بن اسحاق کی فقہ میں مصروف ہیں تو میں قرآن کی فضیلت میں یہ احادیث قربتہ الی اللہ گھڑلیں۔،،

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۷، و فی الکافی کتاب فضل اقلرآن

۳۴

ابو عمر و عثمان بن صلاح، ا س حدیث کے بارے میں جو ابی بن کعب کے واسطے سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہے لکھا ہے:

''قد بحث باحث عن مخرجه حتی انتهی الهی من اعترف بأنه و جماعة و ضعوه، و قد أخطأ الواحدی و جماعة من المفسرین حیث أودعوه فی تفاسیرهم،، (۱)

''اس حدیث کے بارے میں جو قرآن کے ہر ہر سورے کے فضائل میں نقل کی گئی ہے جو تحقیق کی گئیوہ اس تنیجہ پر پہنچی ہے کہ اس حدیث کے گھڑنے والے نے اس کے جعلی ہونے کا اعتراف کرلیا ہے (میں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے ملک کر اسے گھڑا ہے"

واحدی اور دیگر مفسیرین اپنی تفسیروں میں اس حدیث کو ذکر کرکے غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔،،

دیکھئے!ان لوگوں نے کتنی بڑی جراءت کی ہے کہ رسول خد کی طرف حدیث کی جھوٹی نسبت دی ہے اور ستم یہ کہ اس افتراء اور تہمت کو قرب الٰہی کا سبب قرار دیتے ہیں۔

( كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) ۱۰:۱۲

''جو لوگ زیادتی کرتے ہیں ان کی کارستانیاں یوں ہی انہیں اچھی کرکے دکھائی گئی ہےں۔،،

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۷۸۔۷۹، و فی الکافی کتاب فضل القران

۳۵

قرآن میں غور و خوض اور اس کی تفسیر

قرآن مجید اور صحیح روایات میں معانیئ قرآن کے سمجھنے اور اس کے مقاصد و اہداف میں کفر کی سخت تاکید کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ) (۴۷:۲۴)

''تو کیا یہ لو قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (انکے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔،،

اس آیہ کریمہ میں قرآن میں غور نہ کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ ابن عبّاس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے، آنحضرت نے فرمایا:

''اعربوا القرآن و التمسوا غرائبه،، ۔ ''قرآن کو بلند آواز سے پڑھان کرو اور اس کے عجائبات اورباریکیوں میں غور و خوص کیا کرو۔،،

ابو عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں:

''حدثنا من کان یقرئنا من الصحابة انهم کانوا یأخذون من رسول الله ص عشر آیات فلا یأخذون فی العشر الآخری حتی یعلموا ما فی هذه من العلم و العمل،،

۳۶

''صحابہ کرام جو ہمیں قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے فرماتے تھے ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرآن کو دس دس آیتوں کی صورت میں لیتے تھے، جب تک ہم پہلی دس آیتوں کے علمی اور عملی نکات کو حفظ نہیں کرلیتےٍ۔ دوسری دس آیتیں ہمیں نہیں ملتی تھیں۔،،(۱)

عثمان، ابن مسعود اور ابی کہتے ہیں:

''ان رسول الله ۔ص ۔کان یقرئهم العشر فلا یجاوز و نها الی عشر أخری حتی یتعلموا ما فیها من العمل فیعلمهم القرآن و العمل جمیعاً،، (۲)

''رسول خد قرآن کی دس آیتوں کی تعلیم دیتے تھے، ان دس آیتوں سے اس وقت تک تجاوز نہ فرماتے تھے جب تک ان کو سمجھ کر عمل نہ کیا جائے، پس علم قرآن اور عمل بہ قرآن کی تعلیم ایک ساتھ دیتے تھے۔،،

____________________

(۱) بحار الانوار، ج ۱۹، ص ۲۸ باب فضل التدبر فی القرآن

(۲) قرطبی، ج ۱، ص ۳۹

۳۷

ایک دن امیر المومنین علیہ السلام نے لوگوں کے سامنے جابر بن عبد اللہ انصاری کی تعریف کی تو کسی نے کہا: مولا! آپ (باب علم ہونے کے باوجود) جابر کی تعریف کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا:

''تمہیں معلوم نہیں جابر بن عبد اللہ انصاری آیہ کریمہ،( إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ ) ۲۸:۸۵

کی تفسیر سمجھتے تھے۔،،(۱)

قرآن کریم میں فکر اور تدبر کرنے کی فضیلت میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ چنانچہ بحار الانوار کی ۱۹ جلدوں میں اس مضمون کی بے شمار احادیث موجود ہیں۔ لیےکن یہ ایسی حقیقت ہے جس کے لئے اخبار و روایات میں تتبع اور جستجو کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ قرآن ایسی کتاب ہے جسے خدا نے لوگوں کے لیے دنیا ہی میں ایک مکمل ضابطہئ حیات بنا کر بھیجا ہے۔ جس سے وہ آخرت کی راہ، نور اور روشنی حاصل کرسکتے ہیں اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک قرآن کے معانی میں تدبر او فکر نہ کیا جائے، یہ ایسی حقیقت ہے جس کا فیصلہ عقل کرتی ہے۔ روایات اور احادیث میں جتنی تاکید ہے وہ اسی حکم عقل کی تائید اور اسی کی طرف راہنمائی کےلئے ہے۔

زہری نے امام زین العابدین (علیہ السلام) سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:

''آیات القرآن خزائن فکلما فتحت خزینة ینبغی لک أتنظر ما فیها،، (۲)

''قرآن کی آیات خزانے ہےں جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو (تلاش کیا کرو)،،

____________________

(۱) تفسیر القرطبی، ج ۱، ص ۲۶

(۲) اصول الکافی، کتاب فضل القرآن

۳۸

اعجاز قرآن

٭ اعجاز کے معنی

٭ نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال

٭ نبوّت اور اعجاز

٭ معجزہ اور عصری تقاضے

٭ قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ

٭ ایک اعتراض اور اس کا جواب

٭ قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ

٭ قرآن اور معارف

٭ آیات میں ہم آہنگی

٭ قرآن اور نظامِ قانون

٭ قرآن کے معانی میں پختگی

٭ قرآن کی غیب گوئی

٭ قرآن اور اسرارِ خلقت

۳۹

اعجاز کے معنی

فقہ میں اعجاز کے متعدد معانی بیان کئے گئے ہیں:

i ) کسی چیز کو کھو دینا۔''اعجزه الامر الفلانی،، ۔ یعنی اسنے فلاس چیز کو کھو دیا۔

ii ) کسی دوسرے میں عجز و ناتونی محسوس کرنا۔''اعجزت زیدا،، یعنی میں نے زید کو عاجز اور ناتواں پایا۔

iii ) کسی کو عاجز بنا دینا اس صورت میں عاجز تعجیز کا ہم معنی ہوگا۔''اعجزت زیداً،، یعنی میں زید کو عاجز بنا دیا۔

علمِ کلام کی اصطلاح میں اعجاز کا مطلب یہ ہے کہ کسی الہٰی منصب کا مدعی اپنے مدعا کے اثبات میں طبیعی قوانین کو توڑتے ہوئے ایک کارنامہ انجام دے، جس کی نظیر پیش کرنے سے دوسرے عاجز و بے بس ہوں۔ البتہ یہ معجزہ اس صورت میں مدعی کی صداقت کی دلیل ہوگا جب ا س(مدعی یا معجزہ) کا صادق ہونا ممکن ہو اور اگر علقی طور پر اس (دعویٰ) کا صادق ہونا محال ہو یا ایک نبی صادق یا امام معصوم اس دعویٰ کو محال قرار دے اس صورت میں یہ غیر معمولی کام صداقت کی دلیل نہیں بنے گا اور نہ اصطلاح میں معجزہ کہلائے گا۔ اگرچہ عام انسان ایسا عمل انجام دینے سے قاصر رہے۔

محالِ عقلی کی مثال: کوئی انسان الوہیّت اور خدائی کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اس قسم کے دعویٰ کا صادق ہونا عقلاً محال ہے کیوں کہ صحیح اور مستحکم دلیلیں اس کے محال ہونے پر دلالت کرتی ہےں۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

١١_ يتيموں كے ساتھ اچھے اور متين انداز ميں بات كرنا اور ان سے نيك سلوك كرنا ضرورى ہے_وليقولوا قولاً سديداً

١٢_ يتيموں كے حقوق كا خيال ركھنے كى ضرورت كے بارے ميں خداوند متعال كى خصوصى عنايت_و ليخش الّذين ذرّية ضعافاً و ليقولوا قولاً سديداً

١٣_ يتيم كے مال ميں زيادتى و ظلم كرنے كى حرمت كا فلسفہ، يتيم كى زندگى اور استقلال كو دوام بخشنا اور انسانى نسل كو اس ظلم و ستم كے برے اثرات سے محفوظ ركھنا ہے_و ليخش الذين امام رضا (ع) فرماتے ہيں :ففى تحريم مال اليتيم استبقاء اليتيم و استقلاله بنفسه و السلامة للعقب ان يصيبه ما اصابهم_ (١) يتيم كے مال كو حرام كرنے كا فلسفہ، يتيم كى زندگى كو دوام بخشنا، اسے استقلال فراہم كرنا اور نسل انسانى كو اس طرح كے برے اثرات سے بچانا ہے_

احساسات : احساسات كا كردار ٣، ٤

احكام: احكام كا فلسفہ ١٣

اخلاقى نظام: ٦

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا لطف١٢; اللہ تعالى كى تنبيہ٥،٨; اللہ تعالى كى طرف سے سزا ١٠

اولاد : اولاد كا انجام ٢

بچہ: بچے كے حقوق ١

بے تقوي ہونا: بے تقوي ہونے كے اثرات ٧

تجاوز: تجاوز كے اثرات ٧

تحريك : تحريك كے اسباب ٣

تربيت: تربيت كا طريقہ ٤

حقوق كا نظام : ١، ٣

____________________

١)عيون اخبار الرضا(ع) ج٢ ص٩٢ ح١ ب ٣٣ نورالثقلين ج١ ص٤٤٧ ح٧٢.

۳۸۱

راہ و روش: راہ و روش كى بنياديں ٦

روايت: ١٣

سزا: اخروى سزا ٩;دنيوى سزا ٩

عمل: عمل كے اثرات ٦;ناپسنديدہ عمل كے اثرات٧

كلام: كلام كرنے كے آداب ١١

لوگ: لوگوں كے حقوق كى رعايت كرنا ١،٤، ١٠

معاشرت: معاشرت كے آداب ١١

نسل: نسل كى بقاء ١٣

والدين: والدين كى ذمہ دارى ٢

ياد دہاني: ياد دہانى كے اثرات ،١٠

يتيم: يتيم سے سلوك ١١;يتيم كے حقوق ١، ٣، ٧، ٨، ١٢;يتيم كے حقوق پر تجاوز ٥، ١٣;يتيم كے حقوق پر تجاوز كى سزا ٩

آیت( ۱۰)

( إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ) جو لوگ ظالمانہ انداز سے يتيموں كا مال كھا جاتے ہيں وہ در حقيقت اپنے پيٹ ميں آگ بھر ر ہے ہيں اور عنقريب واصل جہنم ہوں گے_

١_ يتيموں كے مال ميں ظالمانہ اور ناروا طريقے سے تصرف كرنے كى حرمت_انّ الّذين يأكلون اموال اليتامي ظلماً

٢_ ظالمانہ طور پر يتيم كا مال كھانا، درحقيقت آگ كھانے كے مترادف ہے_

انّ الذين يأكلون اموال اليتامي ظلماً انّما يأكلون فى بطونهم ناراً

۳۸۲

٣_ يتيموں پر ظلم نہ ہونے كى صورت ميں ان كے مال ميں تصرف كرنا جائز ہے_انّ الّذين يأكلون أموال اليتامي ظلماً

٤_ يتيموں كے مال كى حفاظت كرنے كى ضرورت كے بارے ميں خداوند متعال كى خصوصى عنايت _

انّ الّذين يأكلون أموال اليتامي ظلماً انّما يأكلون فى بطونهم ناراً

٥_ انسان كے نيك و بد اعمال، اپنى ظاہرى صورت كے علاوہ ايك حقيقت اور واقعيت كے حامل ہيں _

انّ الّذين يأكلون أموال اليتامي ظلماً انّما يأكلون فى بطونهم ناراً

٦_ ہر انسان، اپنى ظاہرى صورت كے علاوہ بھى ايك حقيقت ركھتا ہے_انّما ياكلون فى بطونهم ناراً

٧_ يتيموں كا مال ضائع كرنے والوں كا انجام، دہكتى ہوئي آگ ہے_انّ الّذين يأكلون أموال اليتامي ظلماً و سيصلون سعيراً

٨_ جہنم ميں دہكتى ہوئي اور شعلہ ور آگ ہے_و سيصلون سعيراً

٩_ يتيم كے سرپرست كا اسكے مال ميں ، ذاتى منافع كيلئے اور واپس نہ كرنے كى نيت كے ساتھ تصرف كرنا، ظلم ہے_

انّ الذين يأكلون أموال اليتامي ظلماً امام كاظم(ع) نے يتيم كے مال ميں تصرف كے متعلق پوچھے گئے سوال كے جواب ميں فرمايا:لا ينبغى له ان يا كل الاّ القصد فان كان من نيّته ان لايردّه عليهم فهو بالمنزل الذى قال الله عزوجل: انّ الذين ياكلون اموال اليتامي ظلماً (١) سرپرست فقط ميانہ روى كے ساتھ يتيم كے مال ميں تصرف كرسكتا ہے اگر اس كى نيت يہ ہو كہ واپس نہ كرے تو وہ اللہ تعالى كے اس فرمان كا مصداق ہے : جو لوگ ظلم كے طور پر يتيموں كے اموال كھاتے ہيں

١٠_ يتيموں كا مال ناروا طريقے سے كھانے والوں كا قيامت كے دن، ا س حالت ميں آنا كہ ان كے منہ سے شعلے نكلتے ہوں گے_انّ الّذين يأكلون أموال اليتامي /قال رسول الله (ص) : يبعث اناس من قبورهم يوم القيامة تاجج افواههم نارا_ (قيامت كے دن كچھ لوگوں كو اپنى قبور سے اس حالت ميں نكالا جائے گا كہ ان كے منہ سے آگ كے شعلے نكل ر ہے ہوں گے ) آپ(ص) سے پوچھا گيا يہ كون لوگ ہيں ؟ آپ(ص) نے فرمايا:انّ الّذين يأكلون أموال اليتامي ظلماً (٢)

____________________

١)كافي، ج٥ ص١٢٨ ح٣ نورالثقلين ج١ ص٤٥٠ ح٩٠

٢)تفسير عياشى ج١ ص٢٢٥ ح٤٧ نورالثقلين ج١ ص٤٤٨ ح٧٦.

۳۸۳

آگ: آگ كھانا ٢

احكام: ١، ٣

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا لطف٤

انسان: انسان كى حقيقت ٦

جہنم: آتش جہنم ٨

روايت: ٩، ١٠

ظالمين: ظالمين كا انجام ٧، ظالمين كى سزا ٧

ظلم: ظلم كے موارد٩

عمل: برے عمل كى حقيقت ٥;نيك عمل كى حقيقت ٥

غاصبين: غاصبينكا حشر ١٠

قرآن كريم: قرآن كريم كى تشبيہات ٢

محرّمات: ١

يتيم: مال يتيم پر تجاوز ٧;مال يتيم سے استفادہ ٣;مال يتيم غصب كرنے كى سزا ١٠;مال يتيم كا غصب ١، ٢، ٩;مال يتيم كى حفاظت ٤;يتيم كے احكام ٣

۳۸۴

آیت( ۱۱)

( يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَا نَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلأُمِّهِ السُّدُسُ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَآؤُكُمْ وَأَبناؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيما حَكِيمًا ) الله تمھيں تمھارى اولاد كے بارے ميں وصيت كرتا ہے كہ لڑكے كا حصہ دو لڑكيوں كے برابر ہوگا _ اب اگر لڑكياں دو سے زيادہ ہيں تو انھيں تمام تركہ كا دو تہائي حصہ ملے گا او راگر ايك ہى ہے تو اسے آدھا او رمرنے والے كے ماں باپ ميں سے ہرايك كيلئے چھٹا حصہ ہے اگر اولاد بھى ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث ہوں تو ماں كے لئے ايك تہائي ہے او راگر بھائي بھى ہوں تو ماں كيلئے چھٹا حصہ ہے _ ان وصيتوں كے بعد جو كہ مرنے والے نے كى ہيں ياان قرضوں كے بعد جو اس كے ذمہ ہيں _ يہ تمھارے ہى ماں باپ او راولاد ہيں مگر تمھيں نہيں معلوم كہ تمھارے حق ميں زيادہ منفعت رساں كون ہے _ يہ الله كى طرف سے فريضہ ہے اور الله صاحب علم بھى ہے اور صاحب حكمت بھى ہے_

١_ خداوند متعال كا اولاد كى وراثت اور اس كو تقسيم كرنے كى كيفيت كے بارے ميں وصيت كرنا_

يوصيكم الله فى اولادكم

٢_ بيٹے كا وراثتميں سے حصہ، بيٹى كے حصے كے

۳۸۵

دوبرابر ہے_يوصيكم الله فى اولادكم للذكر مثل حظ الانثيين

٣_ جب ميت كى فقط دو بيٹياں ہوں تو ان كا ميراث ميں سے حصہ، دو تہائي ہوگا_*للذكر مثل حظ الانثيين خداوند متعال نے ايك بيٹى اور دو سے زيادہ بيٹيوں كے حصے كى تصريح كى ہے اور دو بيٹيوں كے حصے كے بارے ميں كچھ نہيں فرمايا_ گويا ان كى ميراث كا حصہ تعيين كرنے كيلئے فقط جملہ (للذكر ...) پر اكتفا كيا ہے_ اس لحاظ سے جب بھى ميت كے وارث، ايك بيٹا اور ايك بيٹى ہو تو بيٹے كا حصہ دوتہائي ہوگا اور ''للذكر ...'' كے مطابق ايك بيٹے كا جتنا حصہ ہوگا، دو بيٹيوں كا حصہ بھى اتنا ہى ہوگا_

٤_وراثت كا مالكيت كے اسباب ميں سے ہونا_يوصيكم الله فى اولادكم للذكر مثل حظ الانثيين

٥_ جب ميت كى (بغيركسى بيٹے كے) دو سے زيادہ بيٹياں ہوں تو ان بيٹيوں كا ميراث ميں سے حصہ دو تہائي ہوگا_

فان كنّ نساء فوق اثنتين فلهن ثلثا ما ترك

٦_ بيٹيوں كو ميراث سے ملنے والا حصہ (دوتہائي) ان كے درميان مساوى تقسيم ہوگا_

فان كنّ نساء فوق اثنتين فلهن ثلثا ما ترك چونكہ آيت ارث كے حصے بيان كررہى ہے اگر ان كے حصوں ميں فرق ہوتا تو اسكى طرف اشارہ كيا جاتا_

٧_ اگر ميت كى فقط ايك بيٹى ہو تو تركے كا نصف حصہ اس كو ملے گا_و ان كانت واحدة فلها النصف

٨_ اگر ميت كا فقط ايك بيٹاہو تو پورا تركہ اسكى ميراث ہے_للذكر مثل حظ الانثيين و ان كانت واحدة فلها النصف

چونكہ ايك بيٹى كا حصہ نصف مال ہے لہذا ''للذكر ...''كے مطابق ايك بيٹے كا حصہ لڑكى كے دوگناہوگا يعنى تمام تركہ اسكى ميراث ہوگي_

٩_ اگر متعدد بيٹے ہوں تو ميراث ميں سے ان كا حصہ ان كے درميان بطور مساوى تقسيم ہوگا_

للذكر مثل حظ الانثيين يہ كہ ہر بيٹے كا حصہ، بيٹى كے حصے سے دوگنا ہے، اس كا لازمہ يہ ہے كہ بيٹے برابر برابر حصہ ليں گے_

١٠_ ارث ميں سے ايك بيٹے كے حصے اور چند بيٹوں كے حصے ميں كوئي فرق نہيں _

۳۸۶

للذكر مثل حظ الانثيين فان كنّ نساء فلهن ثلثا ما ترك و ان كانت واحدة فلها النّصف

ايك بيٹى كے حصے (فلھا النّصف) اور چند بيٹيوں كے حصے (كنّ نسائ) ميں تفاوت كا بيان كرنا اور بيٹوں كے سلسلہ ميں ايسے فرض كا ذكر نہ كرنا ، مندرجہ بالا مطلبكى طرف اشارہ ہے_

١١_ اگر ميت كى اولاد ہو تو اسكے ماں باپ ميں سے ہر ايك كا ارث ميں سے چھٹا حصہ ہے_و لابويه لكل واحد منهما السدس مما ترك ان كان له ولد

١٢_ اگر والدين ہى ميت كے وارث ہوں تو ماں كا حصہ ايك تہائي (ثلث) اور باقى (دوتہائي) ميت كے باپ كا حصہ ہے_فان لم يكن له ولد و ورثه ابواه فلامّه الثلث جملہ ''ورثہ ابواہ''سے ظاہر ہوتا ہے كہ ميت كے وارث فقط والدين ہيں _ بنابرايں چونكہ والدہ كا حصہ ثلث( ايك تہائي) ہے تو بقيہ (دوتہائي) باپ كا حصہ ہوگا_

١٣_ ميت كے چند بھائيوں كى موجودگى ميں ماں كے تيسرے حصے كا چھٹے حصے ميں تبديل ہوجانا_

و ورثه ابواه فلامّه الثلث فان كان له اخوة فلامّه السدس مفسرين كے مطابق، ''اخوة''سے مراد دو يا دو سے زيادہ بھائي ہيں _

١٤_ ميت كے بھائيوں كا زندہ ہونا، ماں كے تيسرے حصے سےحاجب(مانع) ہونے كى شرط ہے_

و ورثه ابواه فلامّه الثلث فان كان له اخوة فلامّه السدس جملہ ''فان كان ...''بھائيوں كے بالفعل موجود ہونے پر دلالت كرتا ہے يعنى ان كا زندہ ہونا _

١٥_ ميت كے باپ كا زندہ ہونا اور ارث لينے سے اس كا ممنوع نہ ہونا ماں كے تيسرے حصے سے، ميت كے بھائيوں كے حاجب (مانع) ہونے كى شرط ہے_و ورثه ابواه فلامه الثلث فان كان له اخوة فلامّه السدس

١٦_ اگر ميت كے بھائي جنين( شكم مادر ميں )ہوں تو ماں كے تيسرے حصےسےحاجب (مانع) نہيں ہوتے_*

و ورثه ابواه فلامّه الثلث فان كان له اخوة فلامّه السدس چونكہ ''اخوة'' كا انصراف ان بھائيوں ميں ہے جو پيدا ہوچكے ہوں _

١٧_ اگر ميت كے وارث فقط والدين ہوں اور ميت كے بھائي بھى موجود ہوں تو ماں كو تركے كا چھٹا حصہ ملے گا اور باقى تركہ باپ كا ہوگا_

۳۸۷

فان لم يكن له ولد و ورثه ابواه فلامّه الثلث فان كان له اخوة فلامّه السدس

جملہ ''فان كان لہ اخوة''ايك مقدر جملے پر متفرع ہے_ يعنى ماں كا ارث ميں سے حصہ اس وقت ايك تہائي (تيسرا حصہ) ہے جب ميت كے متعدد بھائي نہ ہوں ليكن اگر ميت كے بھائي موجود ہوں توماں كا حصہ چھٹا ہوگااور چونكہ فرض يہ ہے كہ ميت كے وارث فقط والدين ہيں ، باقى حصہ باپ كا ہوگا_

١٨_ ميت كے ماں باپ يا اس كى اولاد موجود ہو تو ميت كے بھائيوں كو ميراث ميں سے كچھ نہيں ملتا_

و ورثه ابواه فلامّه الثلث فان كان له اخوة فلامّه السدس چونكہ ميت كے بھائيوں كى موجودگى ميں (فان كان لہ اخوة) فقط اسكے ماں باپ كو اس كا وارث شمار كيا گيا ہے (و ورثہ ابواہ)_

١٩_ ميت كا فقط ايك بھائي، ماں كے تيسرے حصہ سے حاجب (مانع)نہيں بن سكتا_

جملہ ''فان كان لہ اخوة''كے مفہوم سے پتہ چلتا ہے كہ اگر ميت كا كوئي بھائي نہ ہو يافقط ايك بھائي ہو تو اس كا وہى سابقہ سہم يعنى ايك تہائي اسے ملے گا_

٢٠_ ميت كے دو بھائيوں كى موجودگى ماں كے تيسرے حصے سے حاجب(مانع) نہيں بن سكتي_

فان كان له اخوة فلامه السدس يہ اس بنا پر ہے كہ '' اخوة '' جمع ہونے كى وجہ سے دو بھائيوں كو شامل نہ ہو_

٢١_ ميت كى بہنيں ،ماں كے تيسرے حصےسے مانع (حاجب) نہيں بن سكتيں _*فان كان له اخوة فلامّه السدس

٢٢_ ارث تقسيم ہونے سے پہلے،اس مال كو جس كى وصيت ميت نے كى ہے اور اس كے دين كو اصل مال ميں سے جدا كرنا ضرورى ہے _يوصيكم الله فى اولادكم للذكر مثل حظ الانثيين من بعد وصية يوصى بها او دصيْن

''من بعد''جملہ ''يوصيكم الله ''كے متعلق ہے_ يعنى ميت كى وصيت نافذ ہونے اور اس كا قرض ادا ہوجانے تك، خداوند متعال ميراث كى تقسيم كا حكم جارى نہيں فرماتا_

٢٣_ انسان كے اپنے مال كے بارے ميں وصيت كا (اسكى موت كے بعد) نافذ ہونا_من بعد وصية يوصى بها او دين

٢٤_ ميت كا قرض ادا كرنے كيلئے اسكى جانب سے وصيت كرنے كى ضرورت نہيں _من بعد وصية يوصى بها او دين

۳۸۸

٢٥_ ميت كى وصيت پر عمل كرنا اور اس كا قرض ادا كرنا، ورثاء كيلئے اسكى ميراث كا مالك بننے كى شرط ہے_

للّذكر مثل حظ الانثيين من بعد وصية يوصى بها او دصين ''للذّكر''، ''لصھن'' اور ...كا لام، تمليك كيلئے ہے اور ''من بعد وصية'' اس تمليك كے واقع ہونے كا ظرف ہے_

٢٦_ انسان كا اپنے ان اقرباء كو نہ پہچان سكنا جو اسے زيادہ نفع پہنچاتے ہيں اور اسكے زيادہ قريب ہيں _

اباؤكم و ابناؤكم لاتدرون ايّهم اقرب لكم نفعاً انسان كا اپنے باپ اور بيٹے كے منافع ميں موازنہ كرنے سے عاجز ہونا اور ان ميں سے برتر كى تشخيص نہ دے سكنا_ اسكے اپنے رشتہ داروں كے نفع رسانى كى پہچان سے عاجز ہونے كى واضح ترين مثال ہے_

٢٧_ انسان، ارث كے حصے، تعيين كرنے كى صلاحيت نہيں ركھتا_اباؤكم و ابناؤكم لاتدرون ايهم اقرب لكم نفعاً

٢٨_ دنيا و آخرت كے لحاظ سے وارثوں كے نفع و نقصان كے معيار و ميزان سے انسان كا آگاہ نہ ہونا، ان كيلئے صحيح طور پر ارث كے حصے مقرر كرنے ميں انسان كے ناتوان ہونے كى دليل ہے_اباؤكم و ابناؤكم لاتدرون ايهم اقرب لكم نفعاً

٢٩_ ارث چھوڑنے والوں كيلئے وارثوں كے نفع بخش ہونے كا ميزان، ميراث ميں ان كے حصوں كے مختلف ہونے كا معيار ہے_اباؤكم و ابناؤكم لاتدرون ايّهم اقرب لكم نفعاً

٣٠_ والدين كے مقابلے ميں اولاد كا ميت كيلئے زيادہ نفع بخش ہونا_ *اباؤكم و ابناؤكم لاتدرون ايّهم اقرب لكم نفعاً

اگر زيادہ سے زيادہ ارث كا معيار، وارث كا زيادہ نفع بخشہونا ہو تو والدين كى نسبت اولاد كے حصے كا زيادہ ہونا، ان كے زيادہ فائدہ مند ہونے كى علامت ہے_

٣١_ قرآن كريم ميں مذكور ارث كے حصے، خداوند متعال كى جانب سے مقرر شدہ فرائض ہيں _يوصيكم الله فى اولادكم فريضة من الله

٣٢_ ارث كے فرائض كى رعايت كرنے پر خداوند متعال كى تاكيد_يوصيكم الله فى اولادكم فريضة من الله

٣٣_ خداوند متعال عليم (بہت جاننے والا) اورحكيم (حكمت والا) ہے_ان الله كان عليما حكيماً

٣٤_ ارث كے مقرر شدہ حصوں كا سرچشمہ خداوند متعال كا علم و حكمت ہے _

يوصيكم الله فى اولادكم ان الله كان عليماً حكيماً

۳۸۹

٣٥_ اسلام كے نظام حقوق كا سرچشمہ خداوند متعال كا علم و حكمت ہے_يوصيكم الله فى اولادكم ان الله كان عليماً حكيما

٣٦_ قانون سازى ميں علم و حكمت دوضرورى شرطيں ہيں _يوصيكم الله فى اولادكم ان الله كان عليماً حكيماً

٣٧_ احكام الہى ميں معيار و مصلحت كا ہونا_اباؤكم و ابناؤكم لاتدرون ان الله كان عليماً حكيماً

٣٨_ ارث ميں عورتوں كى نسبت، مردوں كے حصے كے دو گنا ہونے كى وجہ يہ ہے كہ مہر اور عورتوں كے اخراجات مردوں كے ذمہ ہيں _للذكر مثل حظ الانثيين امام رضا (ع) نے مردوں كى نسبت عورتوں كے ارث ميں سے حصے كے كم ہونے كى وجہ بيان كرتے ہوئے فرمايا:لانّ المراة اذا تزوجّت اخذت و الرجل يعطى لانّ الانثى من عيال الذّكر ان احتاجت و عليه نفقتها (١) كيونكہ عورت جب شادى كرتى ہے تو مہر ليتى ہے اور مرد مہر ديتا ہے كيونكہ عورت اگر محتاج ہو تو مرد كے عيال ميں شامل ہے اور اس پر اپنى بيوى كا نفقہ واجب ہے _

٣٩_ عورتوں كے ارث ميں سے سہم كے نصف ہونے كى وجہ يہ ہے كہ عورت; جہاد ، نفقہ اور اپنے رشتہ داروں كے قتل خطا كے خون بہا سے معاف ہے_خون بہا ان كے اقوام ادا كرتے ہيں _للذّكر مثل حظ الانثيين

امام صادق(ع) عورت كے سہم ارث كے نصف ہونے كى وجہ بيان كرتے ہوئے فرماتے ہيں :ان المراة ليس عليها جهاد و لانفقة و لامعقلة وانما ذلك على الرجال ..(٢) اس لئے كہ عورت پر نہ جہاد واجب ہے نہ نفقہ اور نہ خون بہا _ يہ تينوں چيزيں مردوں پر واجب ہيں _

٤٠_ ميت كے مادرى بھائي ماں كے ايك تہائي حصّے كے چھٹے حصے ميں تبديل ہونے كا سبب نہيں ہوتے بلكہ تيسرا حصّہ ملتا ہے_ امام صادق(ع) مذكورہ آيت كے بارے ميں فرماتے ہيں :اولئك الاخوة من الاب فاذا كان الاخوة من الام لم يحجبوا الام عن الثلث _(٣) اس سے مراد پدرى بھائي ہيں اور مادرى بھائي ماں كے تيسرے حصے سے مانع نہيں بنتے_

٤١_ ميت كا بھائي يا بہن ماں كے ايك تہائي حصہ لينے سے مانع نہيں بنتے مگر يہ كہ دو بھائي يا ايك بھائي اور دو بہنيں ہوں _فان كان له اخوة فلامّه السدس

____________________

١)عيون اخبار الرضا (ع) ج٢ ص٩٨ ح١ ب٣٣ تفسير برھان ج١ ص٣٤٨ ح٢.

٢)كافى ج٧ ص٨٥ ح٣ نورالثقلين ج ١ ص٤٥١ ح٩٦. ٣)كافى ج٧ ص٩٣ ح٧،نورالثقلين ج١ ص٤٥٢ ح١٠٣.

۳۹۰

امام صادق(ع) فرماتے ہيں :لايحجب عن الثلث الاخ والاخت حتى يكونا اخوين او اخ و اختين فان الله يقول ''فان كان له اخوة فلامّه السدس'' (١) ميت كا بھائي اور بہن ماں كے تيسرے حصّے سے حاجب نہيں بنتے مگر يہ كہ دو بھائي ہوں يا ايك بھائي اور دو بہنيں ہوں كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے كہ اگر ميت كيلئے بھائي ہوں تو ماں كا چھٹا حصہ ہے_

٤٢_ اگر ميت كى چار سے كم بہنيں ہوں تو ماں كے ايك تہائي حصے كے چھٹے حصے تك كم ہونے كا باعث نہيں بنتيں _

فان كان له اخوة فلامّه السدس امام صادق (ع) فرماتے ہيں :اذا كنّ اربع اخوات حجبن الامّ عن الثلث لانهنّ بمنزلة الاخوين و ان كنّ ثلاثا لم يحجبن (٢) اگر بہنيں چار ہوں تو ماں كے تيسرے حصّے سے حاجب بنتى ہيں ، كيونكہ وہ دو بھائيوں كى جگہ پر ہيں اور اگر تين ہوں تو حاجب نہيں بنتيں _

٤٣_ ميت كى بہنيں ، ماں كے ايك تہائي حصے كے چھٹے حصے تك كم ہونے كا باعث نہيں بنتيں _فان كان له اخوة فلامّه السدس امام صادق(ع) نے ميت كى دو بہنوں كى موجودگى ميں ، ارث ميں سے ماں باپ كے حصّے كے بارے ميں فرمايا:للامّ مع الاخوات الثلث ان الله قال: ''فان كان له اخوة''و لم يقل فان كان له اخوات _(٣) بہنوں كے ہوتے ہوئے ماں كا تيسرا حصّہ ہے اس لئے كہ اللہ تعالى نے فرمايا ہے : اگر ميت كہ بھائي ہوں اور يہ نہيں فرمايا كہ اگر ميت كى بہنيں ہوں _

٤٤_ ميت كى غيرشرعى وصيت قابل اجرا نہيں _من بعد وصيّة يوصى بها او دصين امام صادق(ع) نے فرمايا:اذا اوصى الرجل بوصية فلايحل للوصى ان يغّير وصيّته الاّص ان يوصى بغيرما امر الله (٤) اگر كوئي شخص وصيت كرے تو وصى كيلئے اس كى وصيت كو تبديل كرنا جائز نہيں مگر يہ كہ اس كى وصيت اللہ تعالى كے حكم كے مطابق نہ ہو

٤٥_ ميت كى وصيت انجام دينے سے پہلے اس كا قرض ادا كرنا ضرورى ہے_من بعد وصية يوصى بها او دين

امام صادق(ع) نے فرمايا:ان الدين قبل الوصية (٥) قرض يقينا وصيت سے پہلے ہے_

____________________

١)تفسير عياشى ج١ ص٢٢٦ ح٥٢ نورالثقلين ج١ ص٤٥٣ ح١٠٦. ٢)كافى ج٧ ص٩٢ ح٢ تفسير برھان ج١ص ٣٤٩ ح٦.

٣)تھذيب، شيخ طوسى ج٩ص٢٨٣ح١٣ب٢٥مسلسل ١٠٢٥. ٤)تفسير قمى ج١ ص٦٥، بحار الانوار ج١٠٠ ص٢٠١ ح١، طبع ايران.

٥)تفسير عياشى ج١ص٢٢٦ ح٥٥، نورالثقلين ج١ ص٤٥٣ ح١١٠.

۳۹۱

احكام: ٢، ٣، ٤، ٥، ٦،٧، ٨، ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٨، ١٩، ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٣، ٢٤، ٢٥، ٤٠، ١٤، ٤٢، ٤٣، ٤٤، ٤٥ احكام كا فلسفہ ٢٨، ٢٩، ٣٧، ٣٨، ٣٩ ; احكام كى تشريع ٢٧، ٢٨;احكام كے مصالح ٣٧

ارث: ارث كى تقسيم ١;ارث كے احكام ٤، ٥، ٦،٧، ٨، ٩، ١٠، ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٨، ١٩، ٢٠، ٢١، ٢٢، ٢٥، ٢٧، ٣٢، ٤٠،٤١، ٤٢، ٤٣ ;ارث كے احكام كا فلسفہ ٢٩،٣٨، ٣٩;ارث كے حاجب ١٤، ١٥، ١٦، ١٧، ١٨، ١٩، ٢٠، ٢١، ٤٠، ٤١، ٤٢، ٤٣ ;ارث كے حصے ٣١، ٣٤; ارث كے طبقات١٤، ١٦، ١٧، ١٨، ١٩، ٢٠، ٢١، ٢٩،٤٠ ;

اسماء و صفات: حكيم ٣٣;عليم ٣٣

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا علم ٣٤، ٣٥; اللہ تعالى كى حكمت ٣٤، ٣٥; اللہ تعالى كے اوامر ١، ٣٢

انسان: انسان كى جہالت ٢٦، ٢٨ اولاد : اولاد كى ارث ١;اولاد كى قدروقيمت ٣٠

باپ : باپ كا سہم ارث ١١ ، ١٢، ١٥، ١٧; باپ كى ارث ١٨

بھائي : بھائي كا سہم ارث ١٣، ١٥; بھائي كى ارث ١٨

بيٹا : بيٹے كا ارث ميں حصہ ٢، ٨، ٩، ١٠

بيٹي: بيٹى كا ارث ميں حصہ ٢، ٣، ٥، ٦، ٧

جہالت: جہالت كے اثرات ٢٨ حقوق كا نظام : ٣٥ روايت: ٣٨، ٣٩، ٤٠، ٤١، ٤٢، ٤٣، ٤٤، ٤٥

عورت : عورت كا ارث ميں حصہ ٣٨، ٣٩ ;عورت كے احكام ٣٩

قانون سازي: قانون سازى كى شرائط ٣٦;قانون سازى ميں حكمت ٣٦;قانون سازى ميں علم ٣٦

قرض: قرض كے احكام ٢٢، ٢٤ مالكيت: مالكيت كى شرائط ٢٥;مالكيت كے اسباب ٤

ماں : ماں كا ارث ميں حصہ ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٥، ١٧، ١٩، ٤١، ٤٢، ٤٣; ماں كى ارث ١٦، ١٨، ٢٠، ٢١، ٤٠

مرد: مرد كا ارث ميں حصہ ٣٨ ميت: ميت كا قرض ٤٥

والدين: والدين كى قدروقيمت ٣٠

وصيت: قرض كى وصيت ٢٤ ; وصيت كے احكام ٢٢، ٢٣، ٢٥، ٤٤، ٤٥

۳۹۲

آیت(۱۲)

( وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإ ِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَو امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُوَاْ أَكْثَرَ مِن ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاء فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَی بِهَآ أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَآرٍّ وَصِيَّةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ )

اور تمھارے لئے تمھارى بيويوں كے تركہ كا نصف ہے اگر ان كى اولاد نہ ہو _ پس اگر ان كى اولاد بھى ہے تو ان كے تركہ ميں سے تمھارا چو تھائي حصہ ہے ان كى وصيتوں يا قرضوں كے بعد او ران كے لئے تمھارے تركہ ميں سے چو تھائي حصہ ہے اگر تمھارى اولاد نہ ہو اور اگر تمھارى اورلاد بھى ہے تو ان كے لئے تمھارے تركہ ميں سے آٹھواں حصہ ہے ان وصيتوں كے بعد جو تم نے كى ہيں يا قرضوں كے بعد اگر قرض ہے _ اور اگر كوئي مرد يا عورت اپنے كلالہ (مادرى بھائي يا بہن) كا وارث ہورہا ہے _ اور ايك بھائي يا ايك بہن ہے تو ہر يك كے لئے چھٹا حصہ ہے اس وصيت كے بعد جو كى گئي ہے يا قرضہ كے بعد بشرطيكہ وصيت يا قرضہ كى بنياد ورثہ كو ضرر پہنچانے پر نہ ہو _ يہ خدا كى طرف سے وصيت ہے خدا ہرشے كا جاننے و الا اور ہركام كو حكمت كے مطابق انجام دينے والا ہے _

١_ بيوى كے تركے ميں سے شوہر كا سہم ارث، نصف مال ہے بشرطيكہ بيوى كى كوئي اولاد نہ ہو_

و لكم نصف ما ترك ازواجكم ان لم يكن لهنّ ولد

۳۹۳

٢_ بيوى كے تركے ميں سے شوہر كا سہم ارث ،چوتھائي ہے_ يہ اس صورت ميں ہے كہ جب بيوى كى اولاد ہو_

فان كان لهنّ ولد فلكم الرّبع مما تركن

٣_ اگر شوہر كى كوئي اولاد نہ ہو تو اسكے تركے ميں سے بيوى كا حصہ ايك چوتھائي ہے_و لهنّ الرّبع مما تركتم ا ن لم يكن لكم ولدٌ

٤_ اگر شوہر كى اولاد ہو تو اسكے تركے ميں سے بيوى كا حصہآٹھواں ہے_فان كان لكم ولد فلهنّ الثمن ممّا تركتم

٥_ اگر ميت كے ماں باپ اور اولاد نہ ہو اور فقط ايك بہن يا ايك بھائي يا پھرايك بہن اور ايك بھائي ہو تو ہر ايك كے لئے ارث ميں سے چھٹا حصہ ہے_و ان كان رجل يورث كلالة او امرا ة و له اخ او اخت فلكل واحد منهما السدس ''رجل'، ''كان''كا اسم ہے اور ''يورث''اسكى صفت ہے اور ''كلالة''كان كى خبر ہے_ ''كلالة''سے مراد وہ شخص ہے جس كا باپ اور اولاد نہ ہو_ اور گذشتہ آيت ميں موجود كلمہ ''ورثہ ابواہ''سے ظاہر ہوتا ہے كہ ماں كے ہوتے ہوئے بھى بہن و بھائي ارث نہيں ليتے_بنابرايں بہن و بھائي اس وقت ارث ليں گے كہ جب طبقہ اول ميں سے كوئي بھى وارث نہ ہوں _ جملہ ''فلكل واحد: ...''اور جملہ ''فان كانوا اكثر ...''سے ظاہر ہوتا ہے كہ اگر ميت كى ايك بہن اور ايك بھائي بھى ہو تو ہر ايك كا سہم ارث چھٹا ہوگا_

٦_ اگر ميت (خواہ عورت ہو يا مرد) كے ماں باپ اور اولاد نہ ہو اور اسكے ايك سے زيادہ بہن اور بھائي ہوں تو ان سب كا ارث ميں حصہ، ايك تہائي ہوگا_فان كانوا اكثر من ذلك فهم شركاء فى الثلث جمع كى ضمائر (كانوا فهم ) كى وجہ سے ''اكثر''سے مراد يہ ہے كہ مجموعى طور پر وہ تين يا اس سے زيادہ ہوں _ خواہ سب بہنيں ہوں يا سب بھائي يا پھر مختلف ہوں _

٧_ ميت كے بھائيوں اور بہنوں كا سہم ارث، ان كے درميان بطور مساوى تقسيم ہوگا_

فان كانوا اكثر من ذلك فهم شركاء فى الثلث عورت مرد ميں فرق كئے بغيرايك بہن اوربھائي كا مساوى حصہ كہ جس كا ذكر گذشتہ آيت (اخ او اخت فلكل واحد منھما السدس) ميں ہوا ہے ہوسكتا ہے اس بات كى تائيد ہو كہ كلمہ ''شركائ''ميت كے بہنوں اور بھائيوں كے سہم كے مساوى ہونے كا بيان ہے_

٨_ ارث تقسيم ہونے سے پہلے ميت جو مال چھوڑ جائے، اس ميں سے جس كى وصيت كى گئي ہے اور

۳۹۴

جو قرض اس كو دينا ہے وہ اصل مال سے جدا كرنا ہوگا_من بعد وصيّة يوصين بها ا و دصين من بعد وصيّة توصون بها او دصين من بعد وصيّة يوصي بها ا و دين

٩_ ارث كا، مالكيت كے اسباب ميں سے ہونا_و لكم نصف ما ترك فلكم الرّبع و لهن الرّبع فلهنّ الثّمن فهم شركاء فى الثلث

١٠_ ميت كى وصيت پر عمل كرنے اور اس كا قرض ادا كرنے كے سلسلے ميں اہتمام كرنا ضرورى ہے_

من بعد وصيّة يوصين بها ا و دين من بعد وصيّة توصون بها او دين من بعد وصيّة يوصي بها او دين مسئلہ وصيت اور دصين كا تكرار، اس كى خاص اہميت پر دلالت كرتا ہے_

١١_ وصيت اس طرح نہ ہو كہ جو وارث كيلئے نقصان دہ ثابت ہو_من بعد وصيّة غيرمضار ہوسكتا ہے كلمہ''غيرمضار'' وصيت و دصين دونوں كيلئے حال ہو_ اور اصطلاحاً كہا جاتا ہے كہ ذوالحال،احد الامرين ہے جو انتزاعى عنوان ہے_ يعنى ميت كى وصيت يا اس كا قرض، نقصان دہ و ضرر رساں نہ ہو_ اور ہوسكتا ہے مورث كا حال ہو_ يعنى وہ اپنى وصيت اور دصين كے ذريعے وارث كيلئے ضرر و نقصان نہ پہنچائے_

١٢_ جو وصيت وارث كے ضرر و نقصان ميں ہو اس پر عمل كرنا ضرورى نہيں _من بعد وصيّة يوصى بها ا و دين غيرمضارّ كلمہ ''غيرمضار'' ايك طرف وصيت كرنے والے كا فريضہ معين كر رہا ہے كہ مبادا اسكى وصيت، وارث كے ضرر و نقصان ميں ہو اور دوسرى طرف جو وصيتيں ضرر و نقصان كا باعث بنيں انہيں غيرمعتبر قرار دے رہا ہے_

١٣_ قرض ايسا نہ ہو جو وارث كيلئے نقصان دہ ثابت ہو_ا و دين غيرمضارّ

١٤_ ميت كے قرضے اگر وارث كے نقصان و ضرر ميں ہوں تو ان كا ادا كرنا ضرورى نہيں _من بعد وصيّة يوصي بها او دين غيرمضارّ ''ديون''سے مراد ايك عام معنى ہے جو نسيہ (ادھار) پر مشتمل معاملات كو بھى شامل ہے_ بنابرايں اگر ميت نے كوئي ايسا معاملہ انجام ديا تھا جو نسيہ (ادھار) پر مشتمل تھا اور يہ معاملہ ضرر رساں اور نقصان دہ تھا تو ورثاء ديون كو ادا نہ كرنے كا حق ركھتے ہيں يعنى معاملہ كو فسخ كرسكتے ہيں _

۳۹۵

١٥_ دوسروں كو ضرر پہچانے سے پرہيزكرنا ضرورى ہے_من بعد وصيّة يوصي بها او دين غيرمضار ''دصيْن اور وصيت'' كو جتنى اہميت دى گئي ہے اسكے باوجود اگر وہ دوسروں كيلئے ضرر رساں و نقصان دہ ثابت ہو تو غيرمعتبر ہے اور اس سے بچنا ضرورى ہے_ لہذا دصين اور وصيت كے علاوہ دوسرے معاملات ميں تو بطريق اولي دوسروں كے نقصان و ضرر سے پرہيز كرنا ہوگا_

١٦_ خداوند متعال كا ارث كے احكام و حدود، ميت كى وصيت پر عمل كرنے اور اسكے ادا كرنے كے بارے ميں لوگوں كو سخت تاكيدكرنا_و لكم نصف ما ترك وصيّة من الله ''وصية''مفعول مطلق ہے اور ہوسكتا ہے ان تمام قوانين و احكام كے بارے ميں تاكيد ہو جو گذشتہ آيات ميں بيان ہوئے ہيں _

١٧_ خداوند متعال كا، قرض اور وصيت كے ذريعے وارثوں كو ضرر و نقصان نہ پہنچانے كے بارے ميں سخت تاكيد كرنا_من بعدوصيّة يوصى بها او دين غيرمضارّ وصيّة من الله يہ مطلب اس بنا پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''وصية''آيت كے آخرى حصے كى تاكيد ہو جو دين اور وصيت كے ذريعے وارث كو ضرر نہ پہنچانے كے بارے ميں ہے_

١٨_ خداوند متعال عليم (بہت زيادہ جاننے والا) اور حليم (بہت بردبار) ہے_والله عليم حليم

١٩_ خداوند متعال كا مؤمنين كو ميت كے دصين، وصيت اورارث كے قوانين كے بارے ميں خبردار كرنا_

و لكم نصف ما ترك من بعد وصيّة والله عليم حليم

٢٠_ ميت كى اولاد نہ ہونے كى صورت ميں ، اسكے پوتے پوتياں اولاد كے بجائے ارث ليتے ہيں _ اور شوہر و بيوى اور ماں و باپ كے سہام ميں كمى كا باعث بنتے ہيں _فان كان لكم ولدٌ امام باقر(ع) و امام صادق(ع) فرماتے ہيں :فان لم يكن له ولد و كان ولد الولد ذكوراً كانوا او اناثاً فانّهم بمنزلة الولد و يحجبون الابوين والزوج والزوجة عن سهامهم الاكثر اگر ميت كى اولاد نہ ہو اور اولاد كى اولاد ہو، لڑكے ہوں يالڑكياں وہ اولاد كى جگہ پر ہيں اور ماں باپ اورزوج و زوجہ كے بڑے حصے سے مانع بن جائيں گے(١)

____________________

١)تھذيب، شيخ طوسى ج٩ ص٢٨٩ ح٣ ب٢٧ مسلسل ١٠٤٣ تفسير برھان ج١ ص٣٥١، ح ٨.

۳۹۶

٢١_ ميراث ميں كلالہ كا سہيم ہونا اس صورت ميں ہے كہ جب ميت كے ماں ، باپ اور اولاد نہ ہو_

و ان كان رجل يورث كلالة امام صادق(ع) فرماتے ہيں :الكلالة ما لم يكن ولد و لاوالد _(١) كلالہ اس وقت وارث بنتا ہے جب ميت كا باپ اور اولاد نہ ہو_

٢٢_ فقط ميت كے وہ بہن بھائي جو ماں كى طرف سے ہيں ميراث كے چھٹے حصے كے وارث ہيں يا ايك تہائي ميں شريك ہيں _و ان كان رجل يورث كلالة او امرا ة و له اخ ا و اخت فلكل واحد منهما السدس فهم شركاء فى الثلث

امام صادق(ع) نے مذكورہ آيت ميں موجود كلالہ كے بارے ميں فرمايا:انّما عنى بذلك الاخوة و الاخوات من الامّ خاصة _(٢) اس سے اللہ تعالى كى مراد ميت كے صرف مادرى بہن بھائي ہيں _

احكام: ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ١١، ١٢، ١٣، ١٤، ١٦، ٢٠، ثرات ٩;ارث كے ا٢١، ٢٢

ارث: ارث كى اہميت ١٩;ارث كى تقسيم ٨; ارث كے احكام ١، ٢، ٣، ٤، ٥، ٦، ٧، ٨، ١٦، ٢٠، ٢١، ٢٢; ارث كے طبقات ٥، ٦، ٢٠، ٢١، ٢٢

اسماء و صفات: حليم ١٨;عليم ١٨

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا خبردار كرنا ١٩; اللہ تعالى كے اوامر ١٦، ١٧

باپ: باپ كا ارث ميں سہم ٢٠

بھائي: بھائي كا سہم ارث ٥، ٦، ٧

بہن : بہن كا ارث ميں حصہ ٥،٦،٧

خالہ: الہ كا ارث ميں سہم،١٤

روايت: ٢٠، ٢١، ٢٢

شرعى فر يضہ: شرعى فريضہ اٹھ جانے كے اسباب ١٤

ضرر: ضرر اور شرعى فريضے كا اٹھ جانا ١٤

____________________

١)كافى ج٧ ص٩٩ح ٣،نورالثقلين ج١ ص٤٥٥ ح١١٩_١١٨. ٢)كافي، ج٧ ص١٠١ ح٣ نورالثقلين ج١ ص٤٥٥ ح١٢٠.

۳۹۷

كلالہ: كلالہ كى ارث ٢١

مالكيت: مالكيت كے اسباب ٩

ماموں : ماموں كا ارث ميں حصہ، ٢٢

ماں : ماں كا ارث ميں حصہ ٢٠

مؤمنين: مؤمنين كو خبردار كرنا، ١٩

مياں بيوى : مياں بيوى كا ارث ميں حصہ ١، ٢، ٣، ٤، ٢٠

ميت: ميت كا قرض ٨، ١٠، ١٣، ١٤، ١٦، ١٧، ١٩

نقصان پہنچانا: نقصان پہنچانے پر سرزنش ١٥

وصيت: وصيت پر عمل ١٠، ١٢، ١٦; وصيت كى اہميت ١٩;وصيت كى شرائط ١٧;وصيت كے احكام ١١، ١٢

آیت(۱۳)

( تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ )

يہ سب الہى حدود ہيں اور جو الله و رسول كى اطاعت كرے گا خدا اسے ان جنتوں ميں داخل كرے گا جن كے نيچے نہريں جارى ہوں گى اور وہ ان ميں ہميشہ رہيں گے او ردر حقيقت يہى سب سے بڑى كاميابى ہے _

١_ ميت كى وصيت پر عمل كرنا، اس كا قرض اداكرنا اور ارث كے احكام و قوانين پر عمل كرنا حدود الہى ہيں _

تلك حدود الله ''تلك''ان تمام احكام كى طرف اشارہ ہے جو ارث كى آيات ميں بيان ہوئے ہيں _

۳۹۸

٢_ خدا اور اسكے رسول(ص) كى اطاعت، جنت ميں داخل ہونے اور اس ميں ہميشہ ہميشہ رہنے كا سبب ہے_

و من يطع الله و رسوله يدخله جنّات خالدين فيها

٣_ پيغمبراكرم(ص) كى اطاعت، خداوند متعال كى اطاعت ہے_تلك حدود الله و من يطع الله و رسوله

''رسول''كا اس ضمير كى طرف اضافہ ہونا جو ''الله ''كى طرف پلٹتى ہے يہ ظاہر كرتا ہے كہ رسول اكرم (ص) كى اطاعت اسلئے لازم قرار دى گئي ہے كہ آپ(ص) خدا كے رسول(ص) اور پيا م رساں ہيں لہذا درحقيقت اطاعت رسول(ص) ،خداوند متعال كى اطاعت ہے_

٤_ ارث كے احكام پر عمل، خداوند متعال اور رسول اكرم (ص) كى اطاعت ہے اور بہشت ميں داخل ہونے كا سبب ہے_يوصيكم الله فى اولادكم و من يطع الله و رسوله يدخله جنّات ''من يطع ...''كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك، ارث كے احكام و قوانين كا لحاظ ركھنا ہے_

٥_ بہشت ميں بہتى نہروں كا موجود ہونا_جنّات تجرى من تحتها الانهار

٦_ بہشت كا متعدد اور جاودانى ہونا_يدخله جنّات تجرى من تحتها الانهار خلدين فيها اہل بہشت كے بہشت ميں دائمى قيام كا لازمہ خود بہشت كى جاودانى ہے_

٧_ مؤمنين كو ارث كے احكام و قوانين پر عمل كرنے اور انہيں نافذ كرنے كى ترغيب و تشويق _تلك حدود الله و من يطع الله و رسوله يدخله جنّات

٨_ بہشت جاوداں ميں داخل ہونا، عظيم سعادت ہے_يدخله جنّات و ذلك الفوز العظيم

٩_ حدود الہى (ارث كے قوانين و احكام وغيرہ) كى رعايت اور خدا و رسول(ص) كى اطاعت، عظيم سعادت و كاميابى ہے_تلك حدود الله و من يطع الله و رسوله و ذلك الفوز العظيم

ہوسكتا ہے ''ذلك''خدا و رسول(ص) كى اطاعت كى طرف اشارہ ہو كہ اسكے موارد ميں سے ايك، ارث كے قوانين و احكام اور حدود الہى كى رعايت كرنا ہے_

آنحضرت(ص) : آنحضرت (ص) كى اطاعت ٢، ٣، ٤، ٩

۳۹۹

احكام: ١، ٤، ٧، ٩

ارث: ارث كے احكام ١، ٤، ٧، ٩

اطاعت: اطاعت كے اثرات ٢

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى اطاعت ٢،٣، ٤، ٩;اللہ تعالى كى حدود١، ٩

بہشت: بہشت كا متعدد ہونا ٦;بہشت كى ابديت ٦، ٨; بہشت كى نعمات٥; بہشت كى نہريں ٥; بہشت كے موجبات٢،٤ ; بہشت ميں جاودانى ٢

رُشد: رُشد كے اسباب ٩

سعادت و كاميابي: سعادت و كاميابى كے اسباب ٩; سعادت و كاميابى كے موانع ٨

شرعى فريضہ : شرعى فريضہ پر عمل ٧

ميّت: ميت كا قرض ١

وصيّت: وصيت پر عمل ١

آیت(۱۴)

( وَمَن يَعْصِ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ )

اور جو خدا و رسول كى نافرمانى كرے گا اور اس كے حدود سے تجاوز كر جائے گا خدا اسے جہنم ميں داخل كردے گا او روہ وہيں ہميشہ ر ہے گا او راس كے لئے رسوا كن عذاب ہے _

١_ خدا و رسول(ص) كى نافرمانى اور حدود الہى سے تجاوز، جہنم كى آگ ميں داخل ہونے اور اس ميں ہميشہ رہنے

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689