البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313132 / ڈاؤنلوڈ: 9296
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

( لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ ) ۸۴:۱۹

''کہ تم لوگ ضرور ایک سختی کے بعد دوسری سختی میں پھنسو گے۔ ،،

یا اس حدیث کی ہم معنی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے آپ فرماتے ہیں:

''لترکبن سنن من قبلکم،، ''تم بھی گذشتہ لوگوں کی غلط اور گمراہ کن سنتیں اور طریقے اپناؤ گے۔،،

پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''من ترکه من جبار قصمه الله،، ۔۔۔'' جو ظالم اور جابر بھی قرآن کو ترک کرے گا اوراسے پس پشت ڈالے گا خدا تعالیٰ اس کی کمر توڑ ڈالے گا۔،،

شاید اس جملے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کی ضمانت دے رہے ہیں کہ خدا قرآن کو جابروں اور ظالموں کے ہاتھ اس طرح کھلونا نہیں بننے دے گا جس سے اس کی تلاوت اس پر عمل ترک ہوجائے اور یہ لوگوں کے ہاتھوں سے لے لیا جائے جس طرح دوسری آسمانی کتابوں کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہے۔ گویا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن (ہمیشہ) تحریف سے محفوظ رہے گا۔ اس پر تفصیلی بحث آئندہ صفحات میں کی جائے گی۔

حدیث کے اس جملے کا مطلب بھی یہی ہے''لا تزیغ به الأهواء،، ۔۔۔'' خواہشات اسے کج (زنگ آلود) نہیں کرسکتیں۔،، یعنی اس کی اصل حقیقت میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔۔۔ قرآن کی اصل حقیقت کے تحفظ کی ضمانت اس لیے دی جارہی ہے کہ قرآن کے خود ساختہ اپنی خواہشات کے مطابق معانی بیان کئے گئے ہیں۔ چنانچہ مخصووص آیات کی تفسیر کے موقع پر اسے مفصل بیان کیاجائے گا انشاء اللہ۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر لوگ آپس کے اختلافات اور عقائد و اعمال کی مشکلات میں قرآن کی طرف رجوع کریں تو ان سب کا حل قرآن میں مل جائے گا اور لوگ اسے ایک عادل حاکم اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا پاِئیں گے۔

۲۱

ہاں! اگر مسلمانوںمیں احکام اور حدود قرآن کا نفاذ ہوتا اور اسکے اشارات کی پیروی کی جاتی تو حق اور اہل حق پہچانے جاتے اور عترت پیغمبر کی معرفت بھی حاصل ہوجاتی جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔(۱) اور یہی وہ ہستیاں ہیں جو آنحضرت کے بعد قرآن کی طرح آپ کا جانشین قرار پائیں، اور اگر مسلمان قرآنی علوم کی روشنی سے نور حاصل کرتے تو ذلت میں مبتلا نہ ہوتے، ان پر ضلالت و گمراہی کی تاریکیاں نہ چھاجاتیں، احکام خدامیں سے کوئی حکم بھی اپنے حقیقی ہدف سے منحرف نہ ہوتا، نہ کوئی شخص راہ راست سے بھٹکتا، نہ کسی کے پائے استقلال میں لغزش آتی، لیکن مسلمانوںنے قرآن کی پس پشت ڈالدیا اور زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے خواہشات نفسانی کی پیروی اور باطل کے جھنڈے تلے پناہ اختیار کی، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گرداننے لگے اور مسلمان کے قتل، اس کی ہتک حرمت اور اس کے مال کو حلال قرار دینے کو قرب خداوندی کا وسیلہ سمجھنے لگے۔ قرآن کے تروک ہونے کی دلیل اس اختلاف و انتشار سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے۔

___________________

(۱) حدیث ثقلین کا حوالہ ص ۱۸ میں ذکر کیا گیا۔ بعض روایات میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ۔۔۔''قرآن اور عترت، رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے دو جانشین ہیں۔،،

۲۲

امیر المومنین (علیہ السلام) قرآن کی تعریف میں فرماتے ہیں:

''ثم انزل علیه الکتاب نورا لاتطفا مصابیحه، و سراجا لا یخبو توقده، و بحرا لایدرک قعره، و منهاجا لا یضل نهجه، و شعاعا لایظلم ضوؤه، و فرقانا لا یخمد برهانه، و تبیانا(۱) لا تهدم ارکانه، و شفاء لا تخشی اسقامه، عزا لاتهزم انصاره، و حقا لا تخذل اعوانه، فهو معدن الایمان و بحبوحته، و ینابیع العلم و بحوره، و ریاض العدل و غدرانه، و اثافی الاسلام و بنیانه، و اودیة الحق و غیطانه، و بحر لا ینزفه المنتزفون، و عیون لا ینضبها الماتحون، و مناهل لا یغیضها الواردون، منازل لا یضل نهجها المسافرون، و اعلام لا یعمی عنها السائرون، و آکام لایجوز عنها القاصدون، جعله الله ریّاً لعطش العلمائ، و ربیعا لقلوب الفقهاء و محاجّ لطریق الصلحائ، و دوائً لیس بعده دائ، و نورا لیس معه ظلمة، و حبلاً و ثقیاًعروته، و معقلا منیعا ذروته، رزا لمن تولاه، و سلما لمن دخله، و هدی لمن ائتم به، وعذرا لمن انتحله، و برهانا لمن تکلم به، و شاهدا لمن خاصم به، و فلجا کمن حاج به، و حاملا لمن حمله، و مطیةً لمن اعمله، و آیة لمن توسم و جنة لمن استلأم، و علماً لمن وعی، و حدیثا لمن روی، و حکما لمن قضی،،(۲)

''پھر آپ پرایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا) نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں، ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس کی گہرائی تک کسی کی رسائی نہیں اور ایسی راہ ہے جس کی راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن ہے جس کی پھوٹ مدہم نہیں پڑتی، وہ (حق و باطل میں) ایسا امتیاز کرنے والی ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی، ایسا کھول کر بیان کرنے والی ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جاسکتے، و ہسراسر شفا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے روحانی بیماریوں کا کھٹکا نہیں، وہ سرتاسر عزت و غلبہ ہے جس کے یار و مددگار شکست نہیں کھاتے،

____________________

(۱) بحار الانوار میں تبیانا کی بجائے بنیانا ہے۔

(۲)نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۹۶۔

۲۳

وہ (سراپا) حق ہے، جس کے معین و معاون بے سہارا نہیں چھوڑے جاتے، وہ ایمان کا معدن اور مرکز ہے جس سے علم کے چشمے پھوٹتے اور دریا بہتے ہیں، اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں، وہ اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس ہے، حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے، وہ ایسا دریا ہے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے، وہ ایسا چشمہ ہے کہ پانی بھرنے والے اسے خشک نہیں کرسکتے، وہ ایسا گھاٹ ہے کہ اس پر اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیں سکتا، وہ ایسی منزل ہے جس کی راہ میں کوئی راہ رو بھٹکتا نہیں، وہ ایسا نشان ہے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا، وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے، اللہ نے اسے علماء کی تشنگی کے لیے سیرابی، فقہاء کے دلوں کے لیے بہار اور نیکو کاروں کی رہ گزر کے لیے شاہراہ قرار دیا ہے

یہ ایسی دوا ہے جس سے کوئی مرض نہیں رہتا، ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں، ایسی رسی ہے جس کے حلقے مضبوط ہیں، ایسی چوٹی ہے جس کی پناہ گاہ محفوظ ہے، جو اس سے وابستہ رہے اس کے کئے پیغام صلح و امن ہے، جو اس کی پیروی کرے اس کےلئے ہدایت ہے، جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کےلئے حجت ہے، جو اس کی رو سے بات کرے او کے لیے دلیل و برہان ہے، جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کے لئے گواہ ہے جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کے لئے فتح و کامرنی ہے، جو اس کا بار اٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا ہے، جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کے لئے مرکب (تیز گام) ہے، یہ حقیقت شناس کے لیے ایک واضح نشان ہے، (ضلالت و گمراہی سے ٹکرانے کے لیے) جو مسلح ہو ا س کے لئے سپر ہے، جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باندھ لے اس کے لئے علم و دانش ہے، بیان کرنے والے کے لئے بہترین کلام او رفیصلہ کرنے والے کےلئے قطعی حکم ہے۔،،

۲۴

یہ خطبہ بہت سے اہم نکات پر مشتمل ہے جن سے آگاہی اور ان میں غور و خوض لازمی ہے:

امیر المومنین کے ارشاد''لا یخبو توقده،، ۔۔۔'' قرآن ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی،،۔۔۔ اور خطبے میں اس قسم کے دوسرے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معانی لا متناہی اور ابدی ہیں۔

مثال کے طور پر ایک آیہ کریمہ کسی خاص مقام، شخص یا قوم کے بارے میں نازل ہوئی مگر وہ آیہ اس مقام، شخص اور قوم سے ہی مختص نہیں رہتی بلکہ اس کے معانی عام ہوتے ہیں اور یہ ہر جگہ، ہر شخص اور ہر قوم پر منطبق ہوتی ہے، عیاشی نے اپنی سند سے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے آیہ( وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) ( ۱۳:۷)،، ۔۔۔(ہر قوم کے لئے ایک ھادی ہوا کرتا ہے) کی تفسیر کے بارے میں روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:

'' علی: الهادی، و منا الهادی، فقلت : فانت جعلت فداک الهادی، قال : صدقت ان القرآن حی لایموت، و الآیة حیّة لا تموت، فلو کانت الآیة اذا نزلت فی الاقوام و ماتوا ماتت الآیة لمات القرآن و لکن هی جاریة فی الباقین کما جرت فی الماضین،،

(یعنی) اس آیہ شریفہ میں ہادی سے مراد امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام ہںی اور ہادی ہم ہی میں سے ہوا کرے گا۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: میں آپ پر نثار ہوں کیا آپ بھی ہادی اور اس آیہ شریفہ کے مصداق ہیں؟ ہاں میں بھی اس کا مصداق ہوں، قرآن ہمیشہ زندہ رہے گا، اسے موت نہیں آئے گی اور یہ آیہ و لکل قوم ھاد بھی زندہ ہے اور اسے موت نہیں آسکتی، اگر ایک قوم پر اترنے والی آیت قوم کے مرنے سے مر جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کو بھی موت آگئی حالانکہ ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ قرآن جس طرح گذشتہ اقوام پر منطبق ہوتا تھا اسی طرح آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی منطبق ہوگا۔،،

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''ان القرآن حی لم یمت، و انه یجری کما یجری اللیل و النهار، و کما تجری الشمس و القمر، و یجری علی آخرنا کما یجری علی اولنا،،

(یعنی) ''قرآن زندہ و جاوید ہے، اسے موت نہیں آسکتی، دن اور رات کی طرح یہ بھی چلتا رہے گا اور سورج اور چاند کی طرح ہر دور میں ضوفشانی کرتا رہے گا۔،،

۲۵

اصول کافی میں ہے، جب عمر بن یزید نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے آیت کریمہ( وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ ) ۱۳:۲۱،، کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

'' هذه نزلت فی رحم آل محمد صلی الله علیه و آله و سلم وقد ثم مات اولئک ماتت الآیة لما بقی من القرآن شیئ، و لکن القرآن یجری اوله علی آخره مادامت السماوات و الأرض، ولکل قوم آیة یتلوها هم منها من خیر او شر،،

یہ آیتِ کریمہ ہم آلِ محمد کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن یہی آیہ کریمہ شریفہ تمہارے قریبی رشتہ داروں پر منطبق ہوسکتی ہے، تو ان لوگوں میں سے نہ بن جو ایک خاص مقام اورچیز پرنازل شدہ آیت کو اس مقام اورچیز سے مختص کردیتے ہیں۔

تفسیر فرات میں ہے:

''و لو أن الآیة اذا نزلت فی قوم ثم مات أولئک ماتت الآیة لما بقی من القرآن شیئ، ولکن القرآن یجری أوله علی آخره ما دامت السماوات و الأرض، و کل قومٍ آیة یتلوها هم منها من خیر أو شر،،

''اگر کسی قوم پر کوئی آیت نازل ہو پھر وہ قوم مرجائے اور اس قوم کے ساتھ آیت بھی مرجائے تو قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہ جائے مگر ایسا نہیں جب تک آسمان اور زمین موجود ہیں گذشتہ لوگوں کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیےبھی اس کی ہدایت کا سلسلہ جاری رہیگا اور قرآن میں ہر قوم و ملت کے بارے میں ایک آیت موجود ہے جس میں ان کی اچھی یا بری سرنوشت و تقدیر اور انجام کا ذکر ہے۔،،

اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) مرۃ الانوار، ص ۳۔۴

۲۶

و منها جا لا یضل نهجة ''یعنی قرآن وہ سیدھا راستہ ہے جو اپنے راہرو کو گمراہ نہیں کرتا،،۔ اسے خالق نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے قرآن ہر اس شخص کو گمراہی سے بچاتا ہے جو اس کی پیروی کرے۔

''و تبیاناً لا تهدم ارکانه،، اس جملے میں دو احتمال ہیں:

الف: پہلا احتمال یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ میں کسی قسم کا خلل اور نقص نہیں ہوسکتا ہے، اس احتمال کے مطابق اس جملے میں امیر المومنین اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہی ںکہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ ہے۔

'' وریاض العدل و غدرانه،، (۱) ''اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ عدالت چاہے عقیدہ کے اعتبار سے ہو یا اخلاق کے اعتبار سے، اس کے تمام پہلو قران میں موجود ہیں۔ پس قرآن عدالت کا محور اوراس کی مختلف جہات کا سنگم ہے۔

و أثا فی الاسلام (۲) ''اسلام کا سنگ بنیاد اور اسکی اساس ہے۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو جو استحکام اور اثبات حاصل ہوا ہے وہ قرآن ہی کی بدولت ہے جس طرح دیگ کو استحکام ان پایوں کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے جس کے نیچے رکھے ہوتے ہیں۔

''و أودیة الحق و غیطانه،، '' حق کی وادی اوراس کا ہموار میدان ہے۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن حق کا سرچشمہ ہے۔ اس جملے میں قرآن کو وسیع اور پرسکون زرخیز سرزمین سے تشبیہ دی گئی ہے اور حق کو ان نباتات سے تشبیہ دی گئی ہے جو اس سرزمین پر اگی ہوں کیونکہ قرآن ہی حق کا سرچشمہ ہے، قرآن کے علاوہ کہیں اور سے حق نہیں مل سکتا۔

____________________

(۱) ریاض روضہ کی جمعہ ہے یہ اس سرسبز زمین کو کہتے ہیں جس میں سبزہ ہو، غدران جمع ہے غدیر کی اس کا معنی سیلاب کا جمع شدہ پانی ہے۔

( ۲) اثانی جو امانی کے وزن پر ہے، ''اثفیہ،، کی جمع ہے۔ ''اثفیہ،، اس پتھر کو کہا جاتا ہے جس پر دیگچی رکھی جاتی ہے۔

اس جملے سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ جب قرآن کے متلاشی اس کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں پہنچ کر رک جاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے، اس لیے کہ انہیں مکمل ططور پر اپنی مراد مل جاتی ہے اور وہ منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔

۲۷

'' وبحر لا ینزفه المنتزفون،، '' وہ ایسا دریا ہے جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے،، اس جملے اور اس کے بعدوالے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ جو معانیئ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے وہ اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ قرآن کے معانی لامتناہی ہیں بلکہ اس جملے میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قرآن میں کبھی کمی واقع ہو ہی نہیں سکتی، جس طرح چشمے سے پانی نکالنے، پینے یا برتن بھرنے سے پانی کم نہیں ہوتا۔

'' وآکام لا یجوز عنها القاصدون،، ''وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے نہیں گزر سکتے،،۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو محققین اور مفکرین قرآن کی بلندیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی اس کے معانی کی بلندیوں اور چوٹیوں سے تجاوز ن ہیں کرسکتے۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قران کریم ایسے سربستہ رازوں پر مشتمل ہے جن تک صاحبان فہم کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ ہم آئندہ اس حقیقت کو بیان کریں گے۔ انشاء اللہ۔

۲۸

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب

قرآن وہ آسمانی قانون اور ناموں الٰہی ہے جو لوگوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ضمانت دیتا ہے، قرآن کی ہر آیت ہدایت کا سرچشمہ اور رحمت و راہنمائی کی کان ہے۔ جو بھی ابدی سعادت اور دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کا آرزو مند ہے اسے چاہیے کہ شب و روز قرآن کریم سے عہد و پیمان باندھے، اس کی آیات کریمہ کو اپنے حافظہ میں جگہ دے اور انہیں اپنی فکر اور مزاج میں شامل کرے تاکہ ہمیشہ کی کامیابی اور ختم نہ ہونے والی تجارت کی طرف قدم بڑھاسکے۔

قرآن کی فضیلت میں ائمہ علیہم السلام ارو ان کے جدامجد سے بہت سی روایات منقول ہیں، امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

'' قال رسول الله صلی الله علیه و آله: من قرأ عشر آیات فی لیلة لم یکتب من الغافلین، و من قرأ خمسین آیة کتب من الذاکرین، و من قرأ مائة آیة کتب من القانتین، و من قرأ مائتی آیة کتب من الخاشعین، و من قرأ ثلثمائة آیة کتب من الفائزین و من قرأ خمسمائة آیة کتب من المجتهدین، و من قرأ ألف آیه کتب له قنطار من تبر،،

''پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جو شخص رات کو دس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام غافلین (جو یاد خدا سے بے بہرہ رہتے ہیں) میں نہیں لکھا جائے گا اور جو شخص پچاس آیتوں کی تلاوت کرے اور کا نام ذاکرین (جو خدا کو یاد کرتے ہیں، حرام و حلال کا خیال رکھتے ہیں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام قانتین (عبادت گزاروں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص دوسو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام خاشعین (جو خدا کے سامنے متواضع ہوں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص تین سو آیتوں کی تلاوت کرے اور کا نام سعادت مندوں میں لکھا جائے گا، جو شخص پانچ ہزار آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام عبادت اور پرستش خدا کی کوشش کرنے والوں میں لکھا جائے گا اور جو شخص ہزار آیتوں کی تلاوت کرے وہ ایسا ہے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہ خدا میں دے دیا ہو۔،،

۲۹

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''القرآن عهد الله الی خلقه، فقد ینبغی للمرء المسلم أن ینظر فی عهده، و أن یقرأ منه فی کل یوم خمسین آیة،،

''قرآن خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک عہد و میثاق ہے، مسلمان کو چاہےے کہ وہ اپنا عہد نامہ غور سے پڑھے اور روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے۔،،

آپ نے مزید فرمایا:

'' ما یمنع التاجر منکم المشغول فی سوقه اذا رجع الی منزله أن لا ینام حتی یقرأ سورة من القرآن فیکتب له مکان کل آیة یقرأها عشر حسنات، و یمحی عنه عشر سیأت؟،،

''حب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھر واپس لوٹتے ہیں تو سونے سے پہلے ایک سورۃ کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی ہے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تاکہ ہر آیت کے بدلے ان کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں اور ان کے نامہ ئ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں۔،،

اس کے بعد آپ نے فرمایا:

''علیکم بتلاوة القرآن، فان درجات الجنة علی عد آیات القرآن، فاذا کان یوم القیامة یقال لقاری القرآن: اقرأ و ارق، فکلما قرأ آیة رقی درجة،،

''قرآن کی تلاوت ضرور کیا کرو(اس لئے کہ) آیات قرآن کی تعداد کے مطابق جنت کے درجات ہوں گے۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو قاری قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاؤ اور اپنے درجات بلند کرتے جاؤ پھر ہو جیسے جیسے آیات کی تلاوت کرے گا اس کے درجات بلند ہوں گے۔،،

۳۰

حدیث کی کتابوں میں علماء کرام نے اس مضمون کی بہت سی روایات کو یکجہا کر دیا ہے، شائقین ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اور بحار الانوار کی انیسویں جلد میں اس مضمون کی کافی روایات موجود ہیں، ان میں سے بعض روایات کے مطابق قرآن کو دیکھ کر تلاوت کرنا، زبانی اور ازبر تلاوت کرنے سے بہتر ہے۔

ان میں سے ایک حدیث یہ ہے:

اسحاق بن عمار نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی:

''جعلت فداک انی احفظ القرآن عن ظهر قلبی فأقرأه عن ظهر قلبی أفضل أو أنظر فی المصحف قال: فقال لی : لا بل اقرأه و انظر فی المصحف فهو أفضل أما علمت ان النظر فی المصحف عبادة ،،؟ و قال: ''من قرأ القرآن فی المصحف متع ببصره، و خفف عن الدیه و ان کانا کافرین،، (۱)

''میری جان آپ پر نثار ہو، میں نے قرآن حفظ کرلیاہے اور زبانی ہی اس کی تلاوت کرتا ہوں، یہی بہتر ہے یا یہ کہ قرآن دیکھ کے تلاوت کروں؟ آپ نے فرمایا: قرآن دیکھ کر تلاوت کیا کرو یہ بہتر ہے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ قرآن میں دیکھنا عبادت ہے، جو شخص قرآن میں دیکھ کے اس کی تلاوت کرے اس کی آنکھ مستفید اور مستفیض ہوتی ہے اور اس کے والدین کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے، اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔،،

____________________

(۱) اصول کافی۔ کتاب فضل القرآن۔ وسائل طبعۃ عین الدولہ، ج۱، ص ۳۷۰

۳۱

قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید و تشویق میں چند اہم نکات ہیں جن کی طرف توجہ ضروری ہے:

i ) قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید اس لیے کی گئی ہے تاکہ نسخوں کی کثرت کی وجہ سے قرآن ضیاع سے محفوظ رہ سکے۔ کیوں کہ جب قرآن کی زبانی تلاوت پر اکتفاء کی جائے گی تو قرآن کے نسخے متروک ہو جائیں گے اور آہستہ آہستہ کم یاب ہو جائیں گے بلکہ بعیدنہیں کہ بتدریج اس کے آثار تک باقی نہ رہیں۔

ii ) دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کے بہت سے آثار ہیں جن کی روایات میں تصریح کی گئی ہے مثلاً معصوم نے فرمایا ہے: ''متع ببصرہ،، یعنی۔ یہ بڑا جامع کلمہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان نابینائی اور آشوب چشم سے محفوظ رہے یا یہ مراد ہوسکتی ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے سے انسان قرآنی رموز اور اس کے دقیق اور باریک نکات سے باخبر ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ جب انسان کی نظر ایسی چیز پر پڑے جو اسے پسند ہو تو اس کا نفس خوشحال ہو جاتا ہے اور اپنی بصارت اور بصیرت میں روشنی محسوس کرتا ہے۔ قرآن کے الفاظ پر جب بھی قاری کی نظر پڑتی ہے اور وہ اس کے علوم و معانی میں فکر کرتا ہے تو علم و آگاہی کی لذت محسوس کرتا ہے اور اس کی رح ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔

iii ) بعص روایات میں گھروں کے اندر قرآن کی تلاوت کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اس کا راز قرآن کی تبلیغ و ترویج اور تلاوت قرآن کا چرچا ہے، کیونکہ جب انسان گھر میں قرآن کی تلاوت کرے تو اس کے بیوی بچے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس سے یہ عمل عام ہو جاتا ہے لیکن اگر قرآن کی تلاوت کسی خاص مقام پر کی جائے تو اس کا ہر شخص، ہر جگہ شرف حاصل نہیں کرسکتا اور یہ تبلیغ اسلام میں رکاوٹ کا بہت بڑا سبب ہے۔

۳۲

شاید گھروں میں تلاوت کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اس سے شعائر الٰہی قائم ہو جاتے ہیں کیونکہ جب صبح و شام گھروں سے تلاوت قرآن کی آواز بلند ہوگی تو سننے والوں کی نظر میں اسلام کی اہمیت بڑھے گی اس لیے کہ جب شہر کے کونے کونے سے تلاوت قرآن کی آواز سنائی دے گی تو سننے والوں پر ایک قسم کا رعب اور ہیبت طاری ہوجائے گی۔

گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکورہ ہیں

''ان البیت الذی یقرأ فیه القرآن و یذکر الله تعالی فیه تکثر برکته، و تحضره الملائکة، و تهجره الشیاطین، و یضیئ لأهل السلماء کما یضیئ الکوکب الدری لأهل الأرض، و ان البیت الذی لایقرأ فیه القرآن، و لا یذکره الله تعالیٰ فیه تقل برکته، و تهجره الملائکة و تحضره الشیاطین ۔،، (۱)

''وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت اور ذکر خدا کیا جاتا ہو اس کی برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے، اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے شیاطین اس گھر کو ترک کردیتے ہیں اور یہ گھر آسمان والوں کو روشن نظر آتے ہیں، جس طرح آسمان کے ستارے اھل زمین کو نور بخشتے ہیں اور وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی اور ذکر خدا نہیں ہوتا اس میں برکت کم ہوتی ہے، فرشتے اسے ترک کردیتے ہیں اور ان میں شیاطین بس جاتے ہیں۔،،

قرآن کی فضیلت اور وہ عزت و تکریم جن سے خداوند، قاری قرآن کو نوازتا ہے روایات میں اتنی ہے کہ جس سے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

____________________

(۱) اصول کافی، کتاب فضل القرآن

۳۳

''من قرأ حرفاً من کتاب الله تعالیٰ فله حسنة والحسنة بعشر أمثالها لا أقول آلم حرف و لکن ألف حرف و لام حرف و میم حرف،،

''جو شخص کتاب الٰہی کے ایک حرف کی تلاوت کرے اس کے اعمال میں ایک حسنہ اور نیکی لکھی جاتی ہے اور ہر حسنہ کا دس گنا ثواب ملتا ہے (اس کے بعد آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا کہ ''الم،، (یہ تینوں) ایک حرف ہے بلکہ ''الف،، ایک حرف ہے ''ل،، دوسرا حرف ہے اور ''م،، تیسرا حرف ہے۔،،

اس حدیث کو اہل سنت کے راویوں نے بھی نقل کیا ہے، چنانچہ قرطبی نے اپنی تفسیر(۱) میں ترمذی سے اور اس نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے، کلینی رحمہ اللہ نے بھی تقریباً اسی مضمون کی حدیث امام جعفر صادق سے نقل فرمائی ہے۔

اس میدان میں کچھ جھوٹے راوی بھی ہیں جن کی نظر میں شاید فضیلت قرآن کی یہ تمام روایات کم تھیں اس لیے انہوں نے اپنی طرف سے فضیلت قرآن میں کچھ روایات گھڑلیں جن کی نہ تو وحی نازل ہوئی ہے اور نہ ان کا سنت نبوی میں کوئی ذکر ہے۔ ان جھوٹے راویوں میں ابو عصمۃ فرج بن ابی مریم مروزی، محمد بن عکاشہ کرمانی اور احمدبن عبد اللہ جویباری شامل ہیں۔ ابو عصمۃ نے خود اس جعل سازی کا اعتراف کیا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تو نے کس طرح عکرمہ کے واسطے سے ابن عباس سے قرآن کے ایک ایک سورے کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں، اس (ابو عصمۃ) نے جواب دیا:

''ابی رأیت الناس قد أعرضوا عن القرآن، و اشتغلوا بفقه أبی حنیفة، و مغازی محمد بن اسحق فرضعت هذا الحدیث حسبة،،

''جب میں نے دیکھا کہ لوگ قرآن سے منحرف ہوگئے ہیں اور ابی حنیفہ اور مغازیئ محمد بن اسحاق کی فقہ میں مصروف ہیں تو میں قرآن کی فضیلت میں یہ احادیث قربتہ الی اللہ گھڑلیں۔،،

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۷، و فی الکافی کتاب فضل اقلرآن

۳۴

ابو عمر و عثمان بن صلاح، ا س حدیث کے بارے میں جو ابی بن کعب کے واسطے سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہے لکھا ہے:

''قد بحث باحث عن مخرجه حتی انتهی الهی من اعترف بأنه و جماعة و ضعوه، و قد أخطأ الواحدی و جماعة من المفسرین حیث أودعوه فی تفاسیرهم،، (۱)

''اس حدیث کے بارے میں جو قرآن کے ہر ہر سورے کے فضائل میں نقل کی گئی ہے جو تحقیق کی گئیوہ اس تنیجہ پر پہنچی ہے کہ اس حدیث کے گھڑنے والے نے اس کے جعلی ہونے کا اعتراف کرلیا ہے (میں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے ملک کر اسے گھڑا ہے"

واحدی اور دیگر مفسیرین اپنی تفسیروں میں اس حدیث کو ذکر کرکے غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔،،

دیکھئے!ان لوگوں نے کتنی بڑی جراءت کی ہے کہ رسول خد کی طرف حدیث کی جھوٹی نسبت دی ہے اور ستم یہ کہ اس افتراء اور تہمت کو قرب الٰہی کا سبب قرار دیتے ہیں۔

( كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) ۱۰:۱۲

''جو لوگ زیادتی کرتے ہیں ان کی کارستانیاں یوں ہی انہیں اچھی کرکے دکھائی گئی ہےں۔،،

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۷۸۔۷۹، و فی الکافی کتاب فضل القران

۳۵

قرآن میں غور و خوض اور اس کی تفسیر

قرآن مجید اور صحیح روایات میں معانیئ قرآن کے سمجھنے اور اس کے مقاصد و اہداف میں کفر کی سخت تاکید کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ) (۴۷:۲۴)

''تو کیا یہ لو قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (انکے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔،،

اس آیہ کریمہ میں قرآن میں غور نہ کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ ابن عبّاس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے، آنحضرت نے فرمایا:

''اعربوا القرآن و التمسوا غرائبه،، ۔ ''قرآن کو بلند آواز سے پڑھان کرو اور اس کے عجائبات اورباریکیوں میں غور و خوص کیا کرو۔،،

ابو عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں:

''حدثنا من کان یقرئنا من الصحابة انهم کانوا یأخذون من رسول الله ص عشر آیات فلا یأخذون فی العشر الآخری حتی یعلموا ما فی هذه من العلم و العمل،،

۳۶

''صحابہ کرام جو ہمیں قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے فرماتے تھے ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرآن کو دس دس آیتوں کی صورت میں لیتے تھے، جب تک ہم پہلی دس آیتوں کے علمی اور عملی نکات کو حفظ نہیں کرلیتےٍ۔ دوسری دس آیتیں ہمیں نہیں ملتی تھیں۔،،(۱)

عثمان، ابن مسعود اور ابی کہتے ہیں:

''ان رسول الله ۔ص ۔کان یقرئهم العشر فلا یجاوز و نها الی عشر أخری حتی یتعلموا ما فیها من العمل فیعلمهم القرآن و العمل جمیعاً،، (۲)

''رسول خد قرآن کی دس آیتوں کی تعلیم دیتے تھے، ان دس آیتوں سے اس وقت تک تجاوز نہ فرماتے تھے جب تک ان کو سمجھ کر عمل نہ کیا جائے، پس علم قرآن اور عمل بہ قرآن کی تعلیم ایک ساتھ دیتے تھے۔،،

____________________

(۱) بحار الانوار، ج ۱۹، ص ۲۸ باب فضل التدبر فی القرآن

(۲) قرطبی، ج ۱، ص ۳۹

۳۷

ایک دن امیر المومنین علیہ السلام نے لوگوں کے سامنے جابر بن عبد اللہ انصاری کی تعریف کی تو کسی نے کہا: مولا! آپ (باب علم ہونے کے باوجود) جابر کی تعریف کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا:

''تمہیں معلوم نہیں جابر بن عبد اللہ انصاری آیہ کریمہ،( إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ ) ۲۸:۸۵

کی تفسیر سمجھتے تھے۔،،(۱)

قرآن کریم میں فکر اور تدبر کرنے کی فضیلت میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ چنانچہ بحار الانوار کی ۱۹ جلدوں میں اس مضمون کی بے شمار احادیث موجود ہیں۔ لیےکن یہ ایسی حقیقت ہے جس کے لئے اخبار و روایات میں تتبع اور جستجو کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ قرآن ایسی کتاب ہے جسے خدا نے لوگوں کے لیے دنیا ہی میں ایک مکمل ضابطہئ حیات بنا کر بھیجا ہے۔ جس سے وہ آخرت کی راہ، نور اور روشنی حاصل کرسکتے ہیں اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک قرآن کے معانی میں تدبر او فکر نہ کیا جائے، یہ ایسی حقیقت ہے جس کا فیصلہ عقل کرتی ہے۔ روایات اور احادیث میں جتنی تاکید ہے وہ اسی حکم عقل کی تائید اور اسی کی طرف راہنمائی کےلئے ہے۔

زہری نے امام زین العابدین (علیہ السلام) سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:

''آیات القرآن خزائن فکلما فتحت خزینة ینبغی لک أتنظر ما فیها،، (۲)

''قرآن کی آیات خزانے ہےں جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو (تلاش کیا کرو)،،

____________________

(۱) تفسیر القرطبی، ج ۱، ص ۲۶

(۲) اصول الکافی، کتاب فضل القرآن

۳۸

اعجاز قرآن

٭ اعجاز کے معنی

٭ نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال

٭ نبوّت اور اعجاز

٭ معجزہ اور عصری تقاضے

٭ قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ

٭ ایک اعتراض اور اس کا جواب

٭ قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ

٭ قرآن اور معارف

٭ آیات میں ہم آہنگی

٭ قرآن اور نظامِ قانون

٭ قرآن کے معانی میں پختگی

٭ قرآن کی غیب گوئی

٭ قرآن اور اسرارِ خلقت

۳۹

اعجاز کے معنی

فقہ میں اعجاز کے متعدد معانی بیان کئے گئے ہیں:

i ) کسی چیز کو کھو دینا۔''اعجزه الامر الفلانی،، ۔ یعنی اسنے فلاس چیز کو کھو دیا۔

ii ) کسی دوسرے میں عجز و ناتونی محسوس کرنا۔''اعجزت زیدا،، یعنی میں نے زید کو عاجز اور ناتواں پایا۔

iii ) کسی کو عاجز بنا دینا اس صورت میں عاجز تعجیز کا ہم معنی ہوگا۔''اعجزت زیداً،، یعنی میں زید کو عاجز بنا دیا۔

علمِ کلام کی اصطلاح میں اعجاز کا مطلب یہ ہے کہ کسی الہٰی منصب کا مدعی اپنے مدعا کے اثبات میں طبیعی قوانین کو توڑتے ہوئے ایک کارنامہ انجام دے، جس کی نظیر پیش کرنے سے دوسرے عاجز و بے بس ہوں۔ البتہ یہ معجزہ اس صورت میں مدعی کی صداقت کی دلیل ہوگا جب ا س(مدعی یا معجزہ) کا صادق ہونا ممکن ہو اور اگر علقی طور پر اس (دعویٰ) کا صادق ہونا محال ہو یا ایک نبی صادق یا امام معصوم اس دعویٰ کو محال قرار دے اس صورت میں یہ غیر معمولی کام صداقت کی دلیل نہیں بنے گا اور نہ اصطلاح میں معجزہ کہلائے گا۔ اگرچہ عام انسان ایسا عمل انجام دینے سے قاصر رہے۔

محالِ عقلی کی مثال: کوئی انسان الوہیّت اور خدائی کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اس قسم کے دعویٰ کا صادق ہونا عقلاً محال ہے کیوں کہ صحیح اور مستحکم دلیلیں اس کے محال ہونے پر دلالت کرتی ہےں۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

آیت ۱۵

( يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيراً مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ قَدْ جَاءكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ )

اے اہل كتاب تمہارے پاس ہمارا رسول آچكا ہے جوان ميں سے بہت سى باتوں كى وضاحت كر رہا ہے جن كو تم كتاب خدا ميں سے چھپا ر ہے تھے او ربہت سى باتوں سے د رگذر بھى كرتا ہے تمہارے پاس خدا كى طرف سے نور اور روشن كتاب آچكى ہے _

۱_ خداوند متعال كى طرف سے اہل كتاب كو اسلام قبول كرنے اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانے كى دعوت_

يا اھل الكتاب قد جاء كم رسولنا

۲_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ كے بھيجے ہوئے ہيں _قد جاء كم رسولنا

۳_ اہل كتاب( يہود ونصاري) ہميشہ تورات اور انجيل كے بہت سارے حقائق كوچھپائے ركھتے تھے_

مما كنتم تخفون من الكتاب گذشتہ آيات كى روشنى ميں اہل كتاب سے مراد يہود بھى ہيں اور نصاري بھي، بنابريں ''الكتاب'' سے مراد تورات اور انجيل دونوں ہيں _

۴_ تورات اور انجيل كے چھپائے گئے بہت سارے حقائق آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بيان فرمائے ہيں _

رسولنا يبين لكم كثيرا مما كنتم تخفون

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا گذشتہ آسمانى كتب كے حقائق سے مطلع و آگاہ ہونا_رسولنا يبين لكم كثيرا مما كنتم تخفون

۶_ تورات اور انجيل كے مخفى حقائق كو بيان كرنا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت كى دليل ہے_

يبين لكم كثيرا مما كنتم تخفون من الكتاب ''قد جائكم رسولنا ''كے بعد'' يبين لكم ...''كا جملہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت كى

۳۴۱

دليل كى طرف اشارہ ہے_ اس معني كى تائيد ''كنتم تخفون ''كے جملے كے ذريعے ہورہى ہے جو گزشتہ تمام ادوار ميں حقائق كو چھپانے پر دلالت كررہا ہے_

۷_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اہل كتاب كى طرف سے چھپائے گئے حقائق كو فاش كرنے يا انہيں بيان كرنے سے چشم پوشى كرتے تھے_يبين لكم و يعفوا عن كثير مذكورہ بالا مطلب اس بناپر ہے كہ آيت كے گذشتہ حصے كى روشنى ميں ''كثير'' سے چھپائے گئے حقائق ہوں ، بنابريں عفو و درگذر كا معنى فاش نہ كرنا اور انہيں جوں كا توں چھوڑ دينا ہے_

۸_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اہل كتاب كى بہت سارى خطاؤں سے چشم پوشى اور ان سے درگذر كرتے تھے_

و يعفوا عن كثير اس احتمال كى اساس پر كہ عفو (خطا سے درگذر) كے معني كے پيش نظر ''كثير'' سے مراد چھپائے گئے حقائق نہيں بلكہ اہل كتاب كے گناہ اور ان كى لغزشيں ہوں _

۹_ قرآن كريم خود بھى نوراور روشن ہے اور حقائق كو بھى بيان اور روشن كرتا ہے_قد جاء كم من الله نور و كتاب مبين اس بناپر كہ نور اور كتاب سے مراد قرآن كريم ہو، بعد والى آيہ شريفہ ميں ''بہ'' كى مفرد ضمير كو لوٹانا اس احتمال كو تقويت بخشتا ہے_

۱۰_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ايسى كتاب كے ہمراہ خدا كى طرف سے بھيجے گئے ہيں ، جو خود روشن ہے اور حقائق كو روشن كرتى ہے_قد جاء كم من الله نور و كتاب مبين اس بناپر كہ ''نور'' سے مراد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذات گرامى ہو، كتاب كا اس پر عطف اسكى تائيد كرتا ہے، كيونكہ عطف ميں بنيادى قانون يہ ہے كہ معطوف اور معطوف عليہ مختلف ہوں _

۱۱_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود بھى نور اور ہدايت يافتہ ہيں اور دوسروں كو بھى نور عطا كرتے ہيں اور ہدايت كرتے ہيں _

قد جاء كم من الله نور

۱۲_ قرآن كريم خدا كى جانب سے بھيجى گئي ايسى كتاب ہے جو حقائق كو روشن كرتى ہے_قد جاء كم من الله نور و كتاب مبين

۱۳_ خداوند متعال نے اہل كتاب كو قرآن كريم پر ايمان لانے كى دعوت دى ہے_يا اهل الكتاب قد جاء كم من الله نور و كتاب مبين

۱۴_ قرآن كريم پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دور ميں ہى كتابى اور تحريرى شكل اختيار كر چكا تھا_كتاب مبين

۱۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم كى عظمت _

۳۴۲

قد جاء كم من الله نور و كتاب مبين ''نور'' اور ''كتاب'' كو نكرہ لانے كا مقصد يہ بيان كرنا ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم كى عظمت اس سے كہيں زيادہ ہے كہ انسان اس كى تہہ تك پہنچ پائے اور اس كى حقيقت كو مكمل طور پر پہچان سكے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آسمانى كتب ۵; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور انجيل ۴;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اہل كتاب ۷، ۸ ; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور تورات ۴;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا عفو و درگذر ۸;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا علم ۵; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مقام و منزلت ۲;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا نقش و كردار ۴، ۱۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا ہدايت كرنا ۱۱; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت ۶; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ۱۰; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عظمت ۱۵; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى كتاب ۱۰ ; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت ۲;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ہدايت ۱۱

اسلام: اسلام كى دعوت دينا ۱

اللہ تعالى: اللہ تعالى كى دعوت ۱، ۱۳

انجيل: انجيل كى تعليمات ۶;انجيل كے حقائق كو چھپانا ۳، ۴، ۶

اہل كتاب: اہل كتاب اور حق كا كتمان ۳، ۷; اہل كتاب سے درگذر ۷; اہل كتاب كو دعوت ۱، ۱۳;اہل كتاب كى خطائيں ۸

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۱; ايمان كا متعلق ۱، ۱۳; ايمان كى دعوت ۱ ;قرآن كريم پر ايمان ۱۳

تورات: تورات كى تعليمات ۶; تورات كے حقائق كا كتمان ۳، ۴، ۶

حقائق: حقائق كو روشن كرنا ۹

عيسائي: عيسائي اور حق كا كتمان ۳

قرآن كريم: قرآن كريم صدر اسلام ميں ۱۴;قرآن كريم كا كردار ۹، ۱۲;قرآن كريم كا ہدايت كرنا ۱۲;قرآن كريم كى تاريخ ۱۴;قرآن كريم كى عظمت ۱۵

يہود: يہود اور حق كا كتمان ۳

۳۴۳

آیت ۱۶

( يَهْدِي بِهِ اللّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَيُخْرِجُهُم مِّنِ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )

جس كے ذريعہ خدا اپنى خوشنودى كا اتباع كرنے والوں كو سلامتى كے راستوں كى ہدايت كرتا ہے اور انہيں تاريكيوں سے نكال كر اپنے حكم سے نور كى طرف لے آتا ہے اورانہيں صراط مستقيم كى ہدايت كرتا ہے _

۱_ جو لوگ رضائے خداوندى كے حصول كى كوشش كرتے ہيں خداوند انہيں صلح و سلامتى اور امن و سكون كى راہوں پر ڈال ديتا ہے_يهدى به الله من اتبع رضوانه سبل السلام ہدايت سے مراد صرف امن و سلامتى كى راہوں كى طرف راہنمائي كرنا نہيں ، بلكہ ان پر ڈال دينا ہے، كيونكہ صرف راہنمائي تو تمام انسانوں كيلئے موجود ہے، خواہ وہ رضائے خداوند حاصل كرنے كے درپے ہوں يا نہ ہوں _

۲_ خداوند متعال نے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم كے ذريعے انسانوں كو صلح و سلامتى اور امن و سكون كى راہوں كى طرف راہنمائي و ہدايت كى ہے_يهدى به الله من اتبع رضوانه سبل السلام ''بہ'' كى ضمير سے مراد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھى ہوسكتے

ہيں ، كيونكہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم (نور) اور قرآن كريم (كتاب مبين) دونوں كا ہدف ايك ہے اور يہ ايك ہى چيز شمار ہوتے ہيں _

۳_ قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حقيقت واحدہ ہيں اور ان كا ہدف يكساں ہے يعنى (انسان كى ہدايت)_

يهدى به الله من اتبع رضوانه سبل السلام ''بہ'' كى مفرد ضمير كا قرآن كريم اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دونوں كى طرف لوٹايا جانا اس بات كى علامت ہے كہ ان كى حقيقت ايك ہى ہے اور ہدايت كرنے ميں ايك ہى چيز شمار ہوتے ہيں _

۴_ انسان اپنى ہدايت (عاقبت) كى راہ خود ہموار كرتا ہے_يهدى من اتبع رضوانه

۳۴۴

۵_ رضائے خداوندى كا حصول بہت زيادہ اہميت كا حامل ہے_من اتبع رضوانه

۶_ امن و سلامتى كى راہوں تك پہنچنا رسالت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہداف ميں سے ايك ہے_

قد جاء كم رسولنا يهدى به الله من اتبع رضوانه سبل السلام

۷_ صلح و سلامتى انبيائے الہى كى ہدايت كے سائے ميں _يهدى به الله من اتبع رضوانه سبل السلام

۸_ اہل كتاب كا آپس ميں بغض و كينہ اور ايك دوسرے سے دشمنى كا خاتمہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى اور رضائے خداوند كے حصول ميں منحصر ہے_فاغرينا بينهم العداوة والبغضاء يهدى به الله من اتبع رضوانه

۹_ قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا كے اذن سے انسانوں كو تاريكى اور گمراہى سے نكال كر نور و ہدايت كى طرف لے جاتے ہيں _و يخرجهم من الظلمات الي النور باذنه مذكورہ مطلب ميں ''باذنہ'' كو ''يخرجھم'' كا متعلق قرار ديا گيا ہے، اس بناپر ''يخرجھم'' كى ضمير كو ''نور'' اور ''كتاب'' كى طرف لوٹانا ہوگا، نہ كہ ''اللہ'' كى طرف كيونكہ خدا اپنے اذن سے كوئي كام انجام دے، اس كا كوئي معنى نہيں بنتا_

۱۰_ خدا انسانوں كو ظلم اور اندھيرے سے نكال كر نور و ہدايت كى طرف لے جاتا ہے_يخرجهم من الظلمات الى النور اس بناپر كہ''يخرجھم'' كى ضمير فاعلى ''اللہ'' كى طرف لوٹائي جائے_ اس صورت ميں ''باذنہ'' كا معنى ''بعلمہ'' ہوگا_

۱۱_ گمراہى و باطل كى راہيں متعدد جبكہ ہدايت و حق كى راہ ايك ہى ہے_و يخرجهم من الظلمات الى النور

مذكورہ بالا مطلب ''ظلمات'' كے جمع اور ''نور'' كے مفرد ہونے سے اخذ كيا گيا ہے_

۱۲_ انسان خدا كے اذن سے ہدايت تك دسترس حاصل كرتا ہے_يخرجهم من الظلمات الى النور باذنه

۱۳_ انسان صرف خدا كے اذن اور مشيت سے ہى اس كى رضا اور خوشنودى حاصل كرنے كے در پے ہوسكتے ہيں _

من اتبع رضوانه باذنه اس بناپر كہ ''باذنہ'' ''يخرجھم'' كے نہيں ، بلكہ ''اتبع'' كے متعلق ہو_

۳۴۵

۱۴_ انسان اپنے اعمال كى انجام دہى ميں نہ مجبور ہيں اور نہ بالكل آزاد _ ( امر بين الامرين)من اتبع رضوانه باذنه

۱۵_ قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انسانوں كو صراط مستقيم كى طرف ہدايت كرتے ہيں _و يهديهم الى صراط مستقيم اس بناپر كہ ''يھديھم'' كا فاعل قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہوں _

۱۶_ خداوندمتعال انسانوں كو صراط مستقيم كى طرف ہدايت كرتا ہے_و يهديهم الي صراط مستقيم

اس بناپركہ ''يھديھم'' كا فاعل خدا ہو ''باذنہ'' كى قيد نہ لانا اس احتمال كى تائيد كرتا ہے_

۱۷_ انبياء كا انتہائي ہدف انسانوں كو صراط مستقيم كى طرف ہدايت كرنا ہے_يهديهم الى صراط مستقيم

چونكہ رسالت كے اہداف و مقاصد شمار كرتے وقت صراط مستقيم كى طرف ہدايت كو آخر ميں بيان كيا گيا ہے، لہذا اس سے مذكورہ بالا مطلب اخذ ہوتا ہے_

۱۸_ صراط مستقيم سبل السلام( امن و سلامتى كى راہوں ) سے بالاترراستہ اور ايك خاص ہدايت كا محتاج ہے_

يهدى به الله من اتبع رضوانه سبل السلام و يهديهم الى صراط مستقيم ''سبل السلام'' كى طرف ہدايت كو ''صراط مستقيم'' كى طرف ہدايت سے پہلے ذكر كرنا اس بات كى علامت ہے كہ صراط مستقيم تك پہنچنے كيلئے ''سبل السلام'' سے گذرنا پڑتا ہے_

۱۹_ امن و سلامتى كى راہوں تك اہل كتاب كى رسائي، گمراہيوں سے ان كا نجات پانا اور صراط مستقيم پر گامزن ہونا قرآن كريم اور پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانے پہ موقوف ہے_يا اهل الكتاب قد جاء كم رسولنا يهديهم الى صراط مستقيم

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قرآن كريم ۳; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا نقش و كردار ۲، ۹، ۱۵ ; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا ہدايت كرنا ۳، ۱۵;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كے اثرات ۸; آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اہداف ۳، ۶

اللہ تعالى: اللہ تعالى كا اذن ۹، ۱۲، ۱۳ ;اللہ تعالى كى رضا ۵; اللہ تعالى كى رضا كا حصول ۱۳; اللہ تعالى كى رضا كے اثرات ۸; اللہ تعالى كى ہدايت۲، ۷، ۱۰، ۱۶;اللہ تعالى كے افعال ۱۰

امن و سلامتي:

۳۴۶

امن و سلامتى كى اہميت ۲، ۶;امن و سلامتى كے اسباب ۱، ۷

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا نقش ۷;انبياءعليه‌السلام كا ہدايت كرنا ۷;انبياءعليه‌السلام كے اہداف ۶، ۱۷

انسان: انسان كا نقش و كردار۴;انسان كى عاقبت۴

اہل كتاب: اہل كتاب كى دشمنى ۸

ايمان: آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۱۹;ايمان كا متعلق ۱۹;ايمان كے اثرات ۱۹;قرآن كريم پر ايمان ۱۹

باطل: باطل راہوں كا متعدد ہونا ۱۱

بغض: بغض دور كرنے كے اسباب ۸

جبر و اختيار: ۱۴

دشمني: دشمنى ختم كرنے كے اسباب ۸

رشد و تكامل: رشد و تكامل كے اسباب ۱۹

رضائے الہى كے طالب: ۱

سبل السلام (امن و سلامتى كى راہيں ) : سبل السلام كى قدر و منزلت ۱۸

سبيل اللہ : ۱۱

صراط مستقيم: ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۹ صراط مستقيم كى قدر و منزلت ۱۸

صلح: صلح كى اہميت ۲;صلح كے اسباب ۱، ۷، ۱۹

ظلمت: ظلمت سے نكلنا ۱۰

قرآن كريم: قرآن كريم كا كردار ۲، ۹، ۱۵ ; قرآن كريم كا ہدايت كرنا ۳، ۱۵;قرآن كريم كے اہداف ۳

گمراہي: گمراہى سے نجات ۱۹;گمراہى كى راہوں كا متعدد ہونا۱۱;گمراہى كے موانع ۹

نور: نورو ظلمت ۹

ہدايت: خاص ہدايت ۱۸;نور كى طرف ہدايت ۱۰;ہدايت كا پيش خيمہ ۴;ہدايت كے اسباب ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۵، ۱۶، ۱۷

۳۴۷

آیت ۱۷

لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَآلُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللّهِ شَيْئاً إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الأَرْضِ جَمِيعاً وَلِلّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَاللّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

يقينا وہ لوگ كافر ہيں جن كا كہنا يہ ہے كہ مسيح ابن مريم ہى الله ہيں _ پيغمبر آپ ان سے كہئے كہ پھر خدا كے مقابلہ ميں كون كسى امر كا صاحب اختيار ہو گا اگر وہ مسيح بن مريم اور ان كى ماں اور سارے اہل زمين كو مار ڈالنا چا ہے اور الله ہى كے لئے زمين وآسمان اور ان كے درميان كى كل حكومت ہے _ وہ جسے بھى چاہتا ہے پيدا كرتا ہے اور وہ ہرشے پر قدرت ركھنے والا ہے _

۱_ بعض عيسائي الوہيت كو حضرت عيسيعليه‌السلام ميں منحصر سمجھتے تھے_قالوا ان الله هو المسيح ابن مريم

۲_ حضرت عيسيعليه‌السلام كى الوہيت كا دعوي كفر اور اس كے دعويدار كافر ہيں _لقد كفر الذين قالوا ان الله هو المسيح ابن مريم

۳_ حضرت عيسيعليه‌السلام كى الوہيت كا دعوي عيسائيوں كى طرف سے عہد خدا كو توڑنے كا واضح اور روشن مصداق ہے_

لقد كفر الذين قالوا ان الله هو المسيح

۴_ غير خدا كى خدائي كا دعوي كفر ہے_لقد كفر ا لذين قالوا ان الله هو المسيح ابن مريم

۵_ عيسائي اس بات كا اعتراف كرتے ہيں كہ حضرت

۳۴۸

عيسيعليه‌السلام حضرت مريمعليه‌السلام كے بيٹے ہيں _قالوا ان الله هو المسيح ابن مريم بظاہر حضرت عيسيعليه‌السلام كى ''ابن مريم'' سے توصيف كرنا عيسائيوں كا كلام ہے، يعنى وہ اس حقيقت كے معترف ہيں كہ حضرت عيسيعليه‌السلام حضرت مريمعليه‌السلام كے بيٹے ہيں _

۶_ حضرت مريمعليه‌السلام كا بيٹا ہونا اس بات كى دليل ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام خدا نہيں ہيں _

قالوا ان الله هو المسيح ابن مريم عيسائيوں كے اس اعتراف كو كہ حضرت عيسيعليه‌السلام حضرت مريمعليه‌السلام كے بيٹے ہيں نقل كرنے كا مقصد انہيں اس حقيقت كى طرف توجہ دلانا ہے كہ بيٹا ہونا (مخلوق ہونا) خدائي كے ساتھ منافات ركھتا ہے_

۷_ حضرت عيسيعليه‌السلام كے بيٹا ہونے كا اعتراف كرنے كے باوجود ان كى خدائي كا دعوي قلبى عقيدہ نہيں بلكہ صرف زبانى جمع خرچ ہے_لقد كفر الذين قالوا ان الله هو المسيح ابن مريم چونكہ ان كے دعوى كو ''آمنوا يا اعتقدوا'' جيسے الفاظ كے ذريعے نہيں بلكہ لفظ ''قالوا'' كے ذريعے بيان كيا گيا ہے جس كا معنى يہ ہے كہ وہ كہتے ہيں : اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ دعوي قلبى عقيدہ ہونے كى صلاحيت نہيں ركھتا_

۸_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت عيسىعليه‌السلام كى خدائي اور الوہيت كا دعوي كرنے والے عيسائيوں سے بحث و استدلال پر مأمور ہيں _الذين قالوا ان الله قل فمن يملك

۹_ حضرت عيسيعليه‌السلام ، ان كى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام اور تمام اہل زمين كى موت و حيات خدا كے قبضہ قدرت ميں ہے_قل فمن يملك من الله شيئا ان اراد ان يهلك و من فى الارض جميعاً

۱۰_ خدا كى قدرت اور ارادے كے مقابلے ميں ہر قسم كى قدرت كى نفى كى گئي ہے_فمن يملك من الله شيئا ان اراد ان يهلك''فمن يملك'' كا استفہام ،استفہام انكارى ہے، يعنى كوئي بھى مشيت خدا كے سامنے ٹھہرنے كى طاقت نہيں ركھتا_

۱۱_ حضرت عيسيعليه‌السلام ، ان كى والدہ اور تمام اہل زمين كا ارادہ خداوندى كے سامنے عاجز و ناتوان ہونا اس دعوي كے بطلان كى دليل ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام خدا ہيں _لقد كفر الذين ان اراد ان يهلك المسيح ابن مريم و امه و من فى الارض جميعاً

۱۲_ جو شخص كسى اور كى قدرت كے زير اثر اور مجبور ہو وہ الوہيت كى صلاحيت نہيں ركھتا_فمن يملك من الله شيئا ان اراد ان يهلك

۳۴۹

۱۳_ حضرت عيسيعليه‌السلام كا باپ نہيں تھا_هو المسيح ابن مريم المسيح ابن مريم و امه

۱۴_ حضرت عيسىعليه‌السلام اور ان كى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام كے زمانہ تك زندہ تھے_

فمن يملك من الله شيئا ان اراد ان يهلك المسيح ابن مريم و امه جملہ ''ان اراد ...'' كا مفہوم يہ ہے كہ يہ دونوں بزرگ شخصيات مذكورہ آيہ شريفہ كے نزول كے زمانے ميں زندہ تھيں _

۱۵_ حضرت عيسيعليه‌السلام اور ان كى والدہ حضرت مريمعليه‌السلام ديگر انسانوں كى مانند انسان ہيں _

ان يهلك المسيح ابن مريم و امه و من فى الارض جميعاً اگر چہ ''من فى الارض''كے بغير بھى استدلال مكمل تھا، ليكن اس كے باوجود اسے ذكر كرنے كا مقصد يہ ہوسكتا ہے كہ مملوكيت اور خدا كے سامنے عاجز و ناتوان ہونے ميں حضرت عيسيعليه‌السلام اور دوسرے انسانوں ميں كوئي فرق نہيں ہے_

۱۶_ خداوندمتعال زمين و آسمانوں اور ان كے درميان موجود ہر چيز (تمام كائنات )كا حاكم اور بطور مطلق مالك ہے_

و لله ملك السموات والارض و ما بينهما''لله'' كو مقدم كرنا حصر پر دلالت كرتا ہے، يعنى صرف اسى كى ذات آسمانوں و غيرہ كى مالك ہے، لہذا اسے مطلق مالكيت سے تعبير كيا گيا ہے_

۱۷_ صرف وہى الوہيت و خدائي كى صلاحيت ركھتا ہے جو عالم ہستى كا مالك مطلق ہے_لقد كفر الذين قالوا ان الله و لله ملك السموات

۱۸_ حضرت عيسيعليه‌السلام حضرت مريمعليه‌السلام كے بيٹے اور ہر دو مملوك خدا ہيں _المسيح ابن مريم و امه و لله ملك السموات والارض

۱۹_ خداوند متعال كا حضرت عيسيعليه‌السلام اور ان كى والدہ كا مالك و حاكم ہونا اس دعوي كے بطلان كى دليل ہے كہ حضرت عيسيعليه‌السلام خدا ہيں _قالوا ان الله هو المسيح ابن مريم و لله ملك السموات والارض

۲۰_ حضرت عيسيعليه‌السلام كى خدائي كا دعوي اس بات كى علامت ہے كہ عيسائي خدا اور اس كى مطلقہ قدرت كى صحيح شناخت نہيں ركھتے تھے_الذين قالوا و لله ملك السموات

۲۱_ غير خدا كى خدائي كا دعوي خدا كى صحيح معرفت نہ ہونے كى علامت ہے_

۳۵۰

الذين قالوا و لله ملك السموات والارض

۲۲_ خداوند متعال كا تمام كائنات كا مالك ہونا اس بات كى دليل ہے كہ وہ حضرت عيسيعليه‌السلام ، حضرت مريمعليه‌السلام اور تمام اہل زمين كو ہلاك كرنے پر قادر ہے نيز اس كى قدرت كے سامنے كوئي قدرت نہيں ٹھہرسكتي_

فمن يملك من الله شيئا ان اراد ان يهلك و لله ملك السموات والارض

۲۳_ زمين اور آسمانوں كے درميان موجودات پائے جاتے ہيں _و ما بينهما

۲۴_ خداوند متعال جو چاہتا ہے اسے خلق كرتا ہے_يخلق مايشاء

۲۵_ خداوند متعال كى مشيت تمام كائنات ميں حاكم اور نفوذ ركھتى ہے_يخلق ما يشاء

۲۶_ خدا كى مطلق خالقيت اس كى مطلق مالكيت كى اساس ہے_لله ملك السموات و يخلق ما يشاء

اس بناپر كہ''يخلق ما يشائ'' ''لله ملك السموات'' كى علت ہو_

۲۷_ كائنات پر خدا كى مطلق مالكيت و حاكميت اس بات كى دليل ہے كہ وہ ہر قسم كى خلقت (مثلا ًبغير باپ كے ايك انسان خلق كرنے ) پر قادر ہے_لله ملك السموات والارض و ما بينهما يخلق ما يشاء اس بناپر كہ ''يخلق ما يشائ'' ''لله ملك السموات والارض'' كا نتيجہ ہو_

۲۸_ حضرت عيسيعليه‌السلام كى خاص خلقت ان كے بارے ميں الوھيت كا شبہ پيدا ہونے كا باعث نہيں بننى چاہيئے_

لقد كفر الذين يخلق ما يشاء گويا جملہ ''يخلق ما يشائ'' ان لوگوں كے گمان كے رد ميں ہے جو حضرت عيسيعليه‌السلام كى مخصوص خلقت كى بناپر ان كى خدائي كے قائل ہوگئے ہيں _

۲۹_ خداوندمتعال ہر چيز پر قادر ہے_والله على كل شيء قدير

۳۰_ خدا كى قدرت مطلقہ تمام كائنات پر اس كى مشيت كے حاكم ہونے كى دليل ہے_يخلق ما يشاء والله على كل شيء قدير

۳۱_ حضرت عيسي كى الوھيت كے سلسلے ميں قرآن كريم كا عيسائيوں كے ساتھ منطقى اور استدلالى رويہ _

الذين قالوا ان الله هو المسيح و الله على كل شيء قدير

آسمان:آسمان كا مالك ۱۶

۳۵۱

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا استدلال ۸;آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذمہ دارى ۸

استدلال:استدلال كى روش ۳۱

اللہ تعالى:اللہ تعالى كا ارادہ ۱۰، ۱۱; اللہ تعالى كى حاكميت ۱۶، ۱۹، ۲۵، ۲۷; اللہ تعالى كى خالقيت ۲۴، ۲۶;اللہ تعالى كى قدرت ۹، ۱۰، ۲۰، ۲۴، ۲۷، ۲۹، ۳۰;اللہ تعالى كى قدرت كى علامات ۲۲;اللہ تعالى كى مالكيت، ۱۶ ۱۸، ۱۹، ۲۲، ۲۷; اللہ تعالى كى مالكيت كا سرچشمہ ۲۶; اللہ تعالى كى مشيت ۲۴،۲۵، ۳۰ ; اللہ تعالى كے ساتھ عہد ۳

الوہيت:الوہيت كا معيار ۱۲، ۱۷;غير خدا كى الوہيت ۴، ۲۱

انسان:انسان كى خلقت ۲۷;انسان كى زندگى ۹;انسان كى موت ۹

حضرت عيسيعليه‌السلام :حضرت عيسي كا بشر ہونا ۱۵، ۲۲;حضرت عيسيعليه‌السلام كى الوہيت كا بطلان ۱۹;حضرت عيسيعليه‌السلام كى حيات ۹، ۱۴;حضرت عيسيعليه‌السلام كى خدائي ۱، ۲، ۳، ۶، ۷، ۸، ۱۱، ۲۰، ۲۸، ۳۱;حضرت عيسيعليه‌السلام كى خلقت ۱۳، ۲۸; حضرت عيسيعليه‌السلام كى موت ۹;حضرت عيسيعليه‌السلام كى ناتوانى ۱۱; حضرت عيسيعليه‌السلام كى والدہ ۱۸

حضرت مريمعليه‌السلام :حضرت مريمعليه‌السلام كا بشر ہونا ۱۵ ;حضرت مريمعليه‌السلام كا فرزند ۵، ۶، ۱۸; حضرت مريمعليه‌السلام كى زندگى ۹، ۱۴;حضرت مريم كى ناتوانى ۱۱، ۲۲

خدا شناسي:ناقص خداشناسى ۲۱

زمين:زمين كا مالك ۱۶

شبہ:شبہ كا پيش خيمہ۲۸

عالم خلقت:عالم خلقت كا خلق ہونا۲۷; عالم خلقت كا مالك ۱۷، ۲۲، ۲۷;عالم خلقت كى تدبير ۲۵، ۳۰

عقيدہ:باطل عقيدہ، ۲، ۷، ۱۱

عہد شكني:عہد شكنى كے موارد ۳

عيسائي:

۳۵۲

عيسائي اور حضرت عيسي ۵;عيسائيوں كا استدلال ۸;عيسائيوں كا عقيدہ۵، ۲۰;عيسائيوں كا كمزور نظريہ كائنات ۲۰;عيسائيوں كانقطہ نظر ۳۱; عيسائيوں كى عہد شكنى ۳; عيسائيوں كے دعوے ۱، ۲۰

قدرت:غير خدا كى قدرت كى نفى ۱۰، ۲۲

قرآن كريم:قرآن كريم اور عيسائي ۳۱

كفار: ۲

كفر:كفر كے موارد ۲، ۴

موجودات:غير آسمانى موجودات ۲۳;غير زمينى موجودات ۲۳

آیت ۱۸

( وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاء اللّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَلِلّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ )

اور يہوديوں و نصرانيوں نے يہ كہنا شروع كرديا كہ ہم الله كے فرزند اور اس كے دوست ہيں تو پيغمبر آپ كہہ ديجئے كہ پھر خدا تم پر تمہارے گناہوں كى بنا پر عذاب كيوں كرتا ہے _ بلكہ تم اس كى مخلوقات ميں سے بشر ہو اور وہ جس كو چاہتا ہے بخش ديتا ہے اور جس پر چاہتا ہے عذاب كرتا ہے اور اس كے لئے زمين و آسمان اور ان كے درميان كى كل كائنات ہے اور اسى كى طرف سب كى بازگشت ہے_

۱_ يہودى اور عيسائي اپنے آپ كو خدا كے بيٹے اور اس كے محبوب خيال كرتے تھے_و قالت اليهود والنصاري نحن ابناء الله و احبائه

۲_ خدا كا صاحب اولاد ہونا يہود و نصاري كے باطل

۳۵۳

خيالات ميں سے ايك ہے_و قالت اليهود و النصاري نحن ابناء الله و احبائه

۳_ يہود و نصاري اپنے آپ كو خدا كے مقربين ميں سے خيال كرتے تھے _و قالت اليهود و النصارى نحن ابناء الله و احبائه اس بناپر كہ ''ابنائ'' سے مراد اس كا كنائي معنى (مقربين )ہو_

۴_ يہود و نصارى خدا سے محبت اور عشق كا بے بنياد دعوي كرتے تھے_و قالت اليهود والنصاري نحن ابناء الله و احبائه مذكورہ بالا مطلب اس بناپر ہے كہ ''احبائ'' جمع ''حبيب'' اور اسم فاعل( محبت كرنے والوں ) كے معنى ميں ہو_

۵_ بعض يہود و نصاري گناہ سے آلودہ ہيں _فلم يعذبكم بذنوبكم

۶_ گناہگار يہودو نصاري عذاب خداوندى سے دوچار ہوں گے_فلم يعذبكم بذنوبكم

۷_ عذاب خداوندى گناہ سے آلودہ ہونے كا نتيجہ ہے_فلم يعذبكم بذنوبكم

۸_ گناہگار يہود و نصاري كا عذاب خداوندى ميں مبتلا ہونا ان كے اس نظريہ كو رد كرتا ہے كہ وہ خدا كے مقرب اور محبوب بندے ہيں _قل فلم يعذبكم بذنوبكم

۹_ گناہ كے مرتكب ہونے كى وجہ سے يہود و نصاري نہ تو خدا كے محبوب ہيں اور نہ اس كى بارگاہ ميں مقرب بندے ہيں _

نحن ابناء الله و احبائه قل فلم يعذبكم بذنوبكم

۱۰_ خدا كے عاشق گناہ كى آلودگى سے پاك و منزہ ہوتے ہيں _نحن ابناء الله و احبائه قل فلم يعذبكم بذنوبكم

۱۱_ گناہگار يہود و نصاري كادنيوى عذاب ميں مبتلا ہونا_قل فلم يعذبكم بذنوبكم چونكہ عيسائي اپنے آپ كو قيامت كے عذاب سے محفوظ سمجھتے ہيں ، لہذا يہ استدلال اس صورت ميں صحيح و تام ہوگا جب عذاب سے مراد دنيوى عذاب ہو_

۱۲_ يہود و نصاري دوسرے انسانوں جيسے اور ان كى

۳۵۴

مانند خلق كيے گئے ہيں _بل انتم بشر ممن خلق

۱۳_ يہودى اور عيسائي اپنے آپ كو ممتاز اور برتر انسان خيال كرتے ہيں _و قالت اليهود والنصاري نحن ابناء الله بل انتم بشر ممن خلق چونكہ خدا نے يہوديوں اور عيسائيوں كے اس وہم و خيال كے رد ميں فرمايا ہے كہ تم بھى دوسرے انسانوں كى مانند ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے كہ وہ اپنے لئے خاص امتياز كے قائل اور اپنے آپ كو دوسروں سے افضل خيال كرتے تھے_

۱۴_ خداوندمتعال نے كسى فرد، گروہ يا جماعت كو دوسرے لوگوں سے زيادہ مقرب اور عزيز خلق نہيں كيا_

بل انتم بشر ممن خلق

۱۵_ يہود و نصاري كا دوسرے انسانوں كى مانند اور ان كے مساوى ہونا اس وہم و گمان كے غلط ہونے كى دليل ہے كہ وہ خدا كے ہاں محبوب اور مقرب بندے ہيں _نحن ابناء الله و احبائه بل انتم بشر ممن خلق

۱۶_ خدا كے عذاب اور مغفرت كى اساس اس كى مشيت ہے_يغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء

۱۷_ يہود و نصاري خدا كى مغفرت سے بہرہ مند ہونے يا اس كے عذاب ميں مبتلا ہونے ميں دوسرے انسانوں كے مساوى ہيں _بل انتم بشر ممن خلق يغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء

۱۸_ صرف خداوندمتعال آسمانوں ، زمين اور ان كے درميان موجود ہر چيز( تمام كائنات) كا مالك اور فرمانروا ہے_

و لله ملك السموات والارض و ما بينهما

۱۹_ يہود و نصاري نہ تو خدا كے بيٹے ہيں اور نہ اس كى خاص محبت كے حامل ہيں ، بلكہ دوسرے انسانوں كى مانند خدا كے مملوك اور اس كى حاكميت كے ماتحت ہيں _و قالت اليهود و النصاري نحن ابناء الله و لله ملك السموات والارض

مذكورہ بالا مطلب ميں جملہ''لله ملك السموات ...'' كو يہود و نصاري كے اس وہم و گمان''نحن ابناء الله و احبائه ''كے رد كے طور پر ليا گيا ہے_

۲۰_ خدا كى مطلق مالكيت اور فرمانروائي انسانوں كى مغفرت يا عذاب ميں اس كى مشيت كے نافذ

۳۵۵

ہونے كى دليل ہے_يغفر لمن يشاء و يعذب من يشاء و لله ملك السموات والارض و ما بينهما

مذكورہ بالا مطلب ميں جملہ ''للہ ملك ...'' كو ''يغفر لمن يشاء ...'' كيلئے دليل كے طور پر ليا گيا ہے_

۲۱_ آسمانوں كا متعدد ہونا_و لله ملك السموات والارض

۲۲_ تمام موجودات كى حركت كى انتہاء صرف خداوند متعال ہے_واليه المصير

آسمان:آسمان كا مالك ۱۸;آسمانوں كا متعدد ہونا ۲۱

اللہ تعالى:اللہ تعالى اور عيسائي ۱۹;اللہ تعالى اور فرزند ۲، ۱۹; اللہ تعالى اور يہود۱۹;اللہ تعالى سے محبت ۴;اللہ تعالى كا عذاب ۷، ۸، ۱۶، ۱۷، ۲۰;اللہ تعالى كى حاكميت ۱۹;۱۹، ۲۰;اللہ تعالى كى مالكيت ۱۸، اللہ تعالى كى مشيت ۱۶، ۲۰;اللہ تعالى كى مغفرت ۱۶، ۱۷، ۲۰

اللہ تعالى سے محبت كرنے والے:اللہ تعالى سے محبت كرنے والوں كى پاكيزگي۱۰

اللہ تعالى كے محبوب: ۱، ۱۵

انسان:انسانوں كا مساوى ہونا ۱۴، ۱۵، ۱۷

پاك لوگ: ۱۰

تقرب:تقرب كے موانع ۹جزا وسزا كا نظام: ۱۷

زمين:زمين كا مالك ۱۸

عالم خلقت:عالم خلقت كا مالك ۱۸

عذاب:عذاب كے اسباب ۷

عقيدہ:باطل عقيدہ ۱، ۲، ۸، ۱۵

عيسائي:عيسائيوں كا احساس برتري۱۳; عيسائيوں كا دنيوى عذاب ۱۱;عيسائيوں كا عقيدہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۸، ۱۵ ; عيسائيوں كى نسل ۱۲;عيسائيوں كى نسل پرستى ۱۳; گناہگار عيسائي ۵، ۶، ۸، ۹، ۱۱

۳۵۶

گناہ:گناہ سے پاك ہونا ۱۰;گناہ كى سزا ۷;گناہ كے اثرات ۹

گناہگار:گناہگاروں پر عذاب ۶، ۸

مقربين: ۳، ۱۵

موجودات:موجودات كا انجام ۲۲;موجودات كى حركت ۲۲

يہود:گناہگار يہود ۵،۶،۸، ۹،۱۱;يہود كا احساس برترى ۱۳;يہود كادنيوى عذاب ۱۱; يہود كا عقيدہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۸، ۱۵;يہود كى نسل ۱۲;يہود كى نسل پرستى ۱۳

۳۵۷

آیت ۲۳

( قَالَ رَجُلاَنِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُواْ عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَى اللّهِ فَتَوَكَّلُواْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ )

مگر دو انسان جنہيں خدا كا خوف تھا اور ان پر خدا نے فضل و كرم كياتھا انھوں نے كہاكہ ان كے درو ازے سے داخل ہوجاؤ _ اگر تم دروازے ميں داخل ہوگئے تو يقينا غالب آجاؤ گے اوراللہ پر بھر وسہ كرو اگر تم صاحبان ايمان ہو _

۱_ حضرت موسيعليه‌السلام كے دو ساتھيوں نے تجويز دى كہ مقدس سرزمين كے دروازے كى طرف سے حملہ كيا جائے_

قال رجلان ادخلوا عليهم الباب

۲_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم ميں خوف خدا ركھنے والے اور ذمہ دارى كا احساس كرنے والے ساتھى بھى موجود تھے_

قال رجلان من الذين يخافون ادخلوا عليهم الباب مذكورہ بالا مطلب اس بناپر ہے كہ ''يخافون'' كا محذوف مفعول ''اللہ'' ہو يعنى ''يخافون اللہ'' جو اللہ سے ڈرتے ہيں _

۳_ حضرت موسيعليه‌السلام كے وفادار ساتھيوں اور مقدس سرزمين كے جابروں كے ساتھ نبرد آزمائي ميں انكاساتھ دينے والوں كى تعداد بہت ہى تھوڑي، بلكہ نہ ہونے كے برابر تھي_ان فيها قوماًً جبارين قال رجلان من الذين يخافون

۴_ يوشع اور كالب حضرت موسي كے خوف خدا ركھنے والے ساتھيوں ميں سے تھے_

قال رجلان من الذين يخافون انعم الله عليهمابهت سارے مفسرين كا كہنا ہے كہ ''رجلان'' سے مراد يوشع و كالب ہيں _

۵_ يوشع اور كالب كے خوف خدا نے ان ميں حضرت موسيعليه‌السلام كے اوامر كے مقابلے ميں ذمہ دارى كا احساس پيدا كيا_

۳۵۸

قال رجلان من الذين يخافون ادخلوا عليهم الباب

۶_ يوشع اور كالب خدا كى نعمتوں سے بہرہ مند افراد تھے_قال رجلان انعم الله عليهما

۷_ خدا كا خوف اور اس كے سامنے ذمہ دارى كا احساس خدا كى عظيم نعمتوں ميں سے ہے_قال رجلان من الذين يخافون انعم الله عليهما

۸_ خوف خدا انبيائے خدا كے سامنے سرتسليم خم كرنے اور ان كا مطيع بننے كا باعث بنتا ہے_قال رجلان من الذين يخافون انعم الله عليهما ادخلوا عليهم الباب

۹_ خدا كا خوف انسان كو بہادر بناتا ہے اور اس كے دل سے دشمن كا ڈر نكال ديتا ہے_قال رجلان من الذين يخافون ادخلوا عليهم الباب يوشع اور كالب كى خدا ترسى والى صفت بيان كرنے كے بعد ان كى بہادرى اور دليرى كہ جو جملہ ''ادخلوا ...'' سے معلوم ہوتى ہے، كا ذكر كرنے سے پتہ چلتا ہے كہ ان كى بہادرى اور دشمن كے مقابلے ميں نڈر ہونے كا سبب ان كا خوف خدا تھا_

۱۰_ حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كے لوگ خدا كے سامنے گستاخ اور لاپروا تھے_قال رجلان من الذين يخافون

''من الذين يخافون'' اس مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتا ہے كہ قوم موسيعليه‌السلام نے خوف خدا نہ ہونے كى وجہ سے حضرت موسيعليه‌السلام كے فرمان كى تعميل نہيں كي_

۱۱_ خدا كے سامنے قوم موسيعليه‌السلام كى گستاخى اور اس سے بے اعتنائي حضرت موسيعليه‌السلام كے( مقدس سرزمين ميں داخل ہونے اور جابروں كے ساتھ مقابلہ كرنے كے) فرمان سے منہ موڑنے كا سبب بني_انا لن ندخلها قال رجلان من الذين يخافون انعم الله عليهما ادخلوا

۱۲_ يوشع اور كالب دشمن سے ڈرو خوف كے باوجود لوگوں كو مقدس سرزمين پر حملے كى دعوت ديتے تھے_

قال رجلان من الذين يخافون مذكورہ بالا مطلب اس بناء پر ہے كہ ''يخافون'' كا محذوف مفعول ''جبارين'' ہو_

۱۳_ دشمنوں كى قوت اور طاقت سے ڈرنے كے باوجود ان كا مقابلہ كرنا لازمى ہے_قال رجلان من الذين يخافون ادخلوا عليهم الباب

۱۴_ يوشع اور كالب نے مقدس سرزمين كو بلافاصلہ اور

۳۵۹

فوراً فتح كرنے كيلئے يہ تجويز پيش كى كہ اس كے جابر باسيوں پر زبردست حملہ كركے اس كا دروازہ كھول دياجائے_

قال رجلان ادخلوا عليهم الباب فاذا دخلتموه فانكم غالبون

۱۵_ يوشع اور كالب اس بات سے آگاہ تھے كہ مقدس سرزمين كے جابروں پر فتح اور كاميابى كيلئے كونسى حكمت عملى اختيار كى جائے_قال رجلان ادخلوا عليهم الباب فاذا دخلتموه فانكم غالبون

۱۶_ مقدس سرزمين كے دروازہ كى طرف سے حملہ آور ہونے كى صورت ميں بنى اسرائيل كى جابروں پر فتح و كاميابى يقينى تھي_ادخلوا عليهم الباب فاذا دخلتموه فانكم غالبون

۱۷_ حق كا باطل پر غلبہ اہل حق كى سعى و كوشش پر موقوف ہے_فاذا دخلتموه فانكم غالبون

۱۸_ اہل ايمان كا فريضہ ہے كہ دشمن پر فتح پانے كيلئے انكى شناخت حاصل كريں ، منصوبہ بندى كريں اور مناسب روش كو بروئے كار لائيں _ادخلوا عليهم الباب فاذا دخلتموه فانكم غالبون

۱۹_ يوشع اور كالب جابروں سے مقابلہ اور ان پر غلبہ حاصل كرنے كيلئے سعى و كوشش كے ساتھ ساتھ قوم موسيعليه‌السلام كو خدا پر توكل كى تلقين كرتے تھے_ادخلوا عليهم الباب فانكم غالبون و على الله فتوكلوا

۲۰_ خدا پر توكل كرنا مومنين كيلئے دشمنوں پر غلبہ حاصل كرنے ميں بہت مفيد ثابت ہوتا ہے_فانكم غالبون و علي الله فتوكلوا

۲۱_ نعمت خداوندى سے بہرہ مند لوگ صرف خدا پر بھروسہ كرتے ہيں ، اس كى راہ ميں نبرد آزمائي كيلئے آمادہ رہتے ہيں اور لوگوں كو جہاد اور توكل كى دعوت ديتے ہيں _قال رجلان من الذين يخافون انعم الله عليهما ادخلوا و على الله فتوكلوا

۲۲_خدا پر توكل كے ساتھ ساتھ سعى و كوشش كرنا ضرورى ہے_ادخلوا عليهم الباب و علي الله فتوكلوا

۲۳_ صرف خدا پر توكل و بھروسہ كرنا اس پر حقيقى ايمان اور سچے يقين كا نتيجہ ہے_و على الله فتوكلوا ان كنتم مؤمنين

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689