البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 302163
ڈاؤنلوڈ: 8558

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302163 / ڈاؤنلوڈ: 8558
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

( لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ ) ۸۴:۱۹

''کہ تم لوگ ضرور ایک سختی کے بعد دوسری سختی میں پھنسو گے۔ ،،

یا اس حدیث کی ہم معنی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے آپ فرماتے ہیں:

''لترکبن سنن من قبلکم،، ''تم بھی گذشتہ لوگوں کی غلط اور گمراہ کن سنتیں اور طریقے اپناؤ گے۔،،

پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''من ترکه من جبار قصمه الله،، ۔۔۔'' جو ظالم اور جابر بھی قرآن کو ترک کرے گا اوراسے پس پشت ڈالے گا خدا تعالیٰ اس کی کمر توڑ ڈالے گا۔،،

شاید اس جملے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بات کی ضمانت دے رہے ہیں کہ خدا قرآن کو جابروں اور ظالموں کے ہاتھ اس طرح کھلونا نہیں بننے دے گا جس سے اس کی تلاوت اس پر عمل ترک ہوجائے اور یہ لوگوں کے ہاتھوں سے لے لیا جائے جس طرح دوسری آسمانی کتابوں کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا ہے۔ گویا یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن (ہمیشہ) تحریف سے محفوظ رہے گا۔ اس پر تفصیلی بحث آئندہ صفحات میں کی جائے گی۔

حدیث کے اس جملے کا مطلب بھی یہی ہے''لا تزیغ به الأهواء،، ۔۔۔'' خواہشات اسے کج (زنگ آلود) نہیں کرسکتیں۔،، یعنی اس کی اصل حقیقت میں تغیر و تبدل نہیں ہو سکتا۔۔۔ قرآن کی اصل حقیقت کے تحفظ کی ضمانت اس لیے دی جارہی ہے کہ قرآن کے خود ساختہ اپنی خواہشات کے مطابق معانی بیان کئے گئے ہیں۔ چنانچہ مخصووص آیات کی تفسیر کے موقع پر اسے مفصل بیان کیاجائے گا انشاء اللہ۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اگر لوگ آپس کے اختلافات اور عقائد و اعمال کی مشکلات میں قرآن کی طرف رجوع کریں تو ان سب کا حل قرآن میں مل جائے گا اور لوگ اسے ایک عادل حاکم اور حق و باطل کے درمیان فیصلہ کرنے والا پاِئیں گے۔

۲۱

ہاں! اگر مسلمانوںمیں احکام اور حدود قرآن کا نفاذ ہوتا اور اسکے اشارات کی پیروی کی جاتی تو حق اور اہل حق پہچانے جاتے اور عترت پیغمبر کی معرفت بھی حاصل ہوجاتی جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔(۱) اور یہی وہ ہستیاں ہیں جو آنحضرت کے بعد قرآن کی طرح آپ کا جانشین قرار پائیں، اور اگر مسلمان قرآنی علوم کی روشنی سے نور حاصل کرتے تو ذلت میں مبتلا نہ ہوتے، ان پر ضلالت و گمراہی کی تاریکیاں نہ چھاجاتیں، احکام خدامیں سے کوئی حکم بھی اپنے حقیقی ہدف سے منحرف نہ ہوتا، نہ کوئی شخص راہ راست سے بھٹکتا، نہ کسی کے پائے استقلال میں لغزش آتی، لیکن مسلمانوںنے قرآن کی پس پشت ڈالدیا اور زمانہ جاہلیت کی طرف لوٹ گئے خواہشات نفسانی کی پیروی اور باطل کے جھنڈے تلے پناہ اختیار کی، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گرداننے لگے اور مسلمان کے قتل، اس کی ہتک حرمت اور اس کے مال کو حلال قرار دینے کو قرب خداوندی کا وسیلہ سمجھنے لگے۔ قرآن کے تروک ہونے کی دلیل اس اختلاف و انتشار سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے۔

___________________

(۱) حدیث ثقلین کا حوالہ ص ۱۸ میں ذکر کیا گیا۔ بعض روایات میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ۔۔۔''قرآن اور عترت، رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے دو جانشین ہیں۔،،

۲۲

امیر المومنین (علیہ السلام) قرآن کی تعریف میں فرماتے ہیں:

''ثم انزل علیه الکتاب نورا لاتطفا مصابیحه، و سراجا لا یخبو توقده، و بحرا لایدرک قعره، و منهاجا لا یضل نهجه، و شعاعا لایظلم ضوؤه، و فرقانا لا یخمد برهانه، و تبیانا(۱) لا تهدم ارکانه، و شفاء لا تخشی اسقامه، عزا لاتهزم انصاره، و حقا لا تخذل اعوانه، فهو معدن الایمان و بحبوحته، و ینابیع العلم و بحوره، و ریاض العدل و غدرانه، و اثافی الاسلام و بنیانه، و اودیة الحق و غیطانه، و بحر لا ینزفه المنتزفون، و عیون لا ینضبها الماتحون، و مناهل لا یغیضها الواردون، منازل لا یضل نهجها المسافرون، و اعلام لا یعمی عنها السائرون، و آکام لایجوز عنها القاصدون، جعله الله ریّاً لعطش العلمائ، و ربیعا لقلوب الفقهاء و محاجّ لطریق الصلحائ، و دوائً لیس بعده دائ، و نورا لیس معه ظلمة، و حبلاً و ثقیاًعروته، و معقلا منیعا ذروته، رزا لمن تولاه، و سلما لمن دخله، و هدی لمن ائتم به، وعذرا لمن انتحله، و برهانا لمن تکلم به، و شاهدا لمن خاصم به، و فلجا کمن حاج به، و حاملا لمن حمله، و مطیةً لمن اعمله، و آیة لمن توسم و جنة لمن استلأم، و علماً لمن وعی، و حدیثا لمن روی، و حکما لمن قضی،،(۲)

''پھر آپ پرایک ایسی کتاب نازل فرمائی جو (سراپا) نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہوتیں، ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی، ایسا دریا ہے جس کی گہرائی تک کسی کی رسائی نہیں اور ایسی راہ ہے جس کی راہ پیمائی بے راہ نہیں کرتی، ایسی کرن ہے جس کی پھوٹ مدہم نہیں پڑتی، وہ (حق و باطل میں) ایسا امتیاز کرنے والی ہے جس کی دلیل کمزور نہیں پڑتی، ایسا کھول کر بیان کرنے والی ہے جس کے ستون منہدم نہیں کئے جاسکتے، و ہسراسر شفا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے روحانی بیماریوں کا کھٹکا نہیں، وہ سرتاسر عزت و غلبہ ہے جس کے یار و مددگار شکست نہیں کھاتے،

____________________

(۱) بحار الانوار میں تبیانا کی بجائے بنیانا ہے۔

(۲)نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۹۶۔

۲۳

وہ (سراپا) حق ہے، جس کے معین و معاون بے سہارا نہیں چھوڑے جاتے، وہ ایمان کا معدن اور مرکز ہے جس سے علم کے چشمے پھوٹتے اور دریا بہتے ہیں، اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں، وہ اسلام کا سنگ بنیاد اور اس کی اساس ہے، حق کی وادی اور اس کا ہموار میدان ہے، وہ ایسا دریا ہے کہ جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے، وہ ایسا چشمہ ہے کہ پانی بھرنے والے اسے خشک نہیں کرسکتے، وہ ایسا گھاٹ ہے کہ اس پر اترنے والوں سے اس کا پانی گھٹ نہیں سکتا، وہ ایسی منزل ہے جس کی راہ میں کوئی راہ رو بھٹکتا نہیں، وہ ایسا نشان ہے کہ چلنے والے کی نظر سے اوجھل نہیں ہوتا، وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے گزر نہیں سکتے، اللہ نے اسے علماء کی تشنگی کے لیے سیرابی، فقہاء کے دلوں کے لیے بہار اور نیکو کاروں کی رہ گزر کے لیے شاہراہ قرار دیا ہے

یہ ایسی دوا ہے جس سے کوئی مرض نہیں رہتا، ایسا نور ہے جس میں تیرگی کا گزر نہیں، ایسی رسی ہے جس کے حلقے مضبوط ہیں، ایسی چوٹی ہے جس کی پناہ گاہ محفوظ ہے، جو اس سے وابستہ رہے اس کے کئے پیغام صلح و امن ہے، جو اس کی پیروی کرے اس کےلئے ہدایت ہے، جو اسے اپنی طرف نسبت دے اس کےلئے حجت ہے، جو اس کی رو سے بات کرے او کے لیے دلیل و برہان ہے، جو اس کی بنیاد پر بحث و مناظرہ کرے اس کے لئے گواہ ہے جو اسے حجت بنا کر پیش کرے اس کے لئے فتح و کامرنی ہے، جو اس کا بار اٹھائے یہ اس کا بوجھ بٹانے والا ہے، جو اسے اپنا دستور العمل بنائے اس کے لئے مرکب (تیز گام) ہے، یہ حقیقت شناس کے لیے ایک واضح نشان ہے، (ضلالت و گمراہی سے ٹکرانے کے لیے) جو مسلح ہو ا س کے لئے سپر ہے، جو اس کی ہدایت کو گرہ میں باندھ لے اس کے لئے علم و دانش ہے، بیان کرنے والے کے لئے بہترین کلام او رفیصلہ کرنے والے کےلئے قطعی حکم ہے۔،،

۲۴

یہ خطبہ بہت سے اہم نکات پر مشتمل ہے جن سے آگاہی اور ان میں غور و خوض لازمی ہے:

امیر المومنین کے ارشاد''لا یخبو توقده،، ۔۔۔'' قرآن ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہوتی،،۔۔۔ اور خطبے میں اس قسم کے دوسرے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے معانی لا متناہی اور ابدی ہیں۔

مثال کے طور پر ایک آیہ کریمہ کسی خاص مقام، شخص یا قوم کے بارے میں نازل ہوئی مگر وہ آیہ اس مقام، شخص اور قوم سے ہی مختص نہیں رہتی بلکہ اس کے معانی عام ہوتے ہیں اور یہ ہر جگہ، ہر شخص اور ہر قوم پر منطبق ہوتی ہے، عیاشی نے اپنی سند سے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے آیہ( وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ ) ( ۱۳:۷)،، ۔۔۔(ہر قوم کے لئے ایک ھادی ہوا کرتا ہے) کی تفسیر کے بارے میں روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:

'' علی: الهادی، و منا الهادی، فقلت : فانت جعلت فداک الهادی، قال : صدقت ان القرآن حی لایموت، و الآیة حیّة لا تموت، فلو کانت الآیة اذا نزلت فی الاقوام و ماتوا ماتت الآیة لمات القرآن و لکن هی جاریة فی الباقین کما جرت فی الماضین،،

(یعنی) اس آیہ شریفہ میں ہادی سے مراد امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام ہںی اور ہادی ہم ہی میں سے ہوا کرے گا۔ راوی کہتا ہے میں نے کہا: میں آپ پر نثار ہوں کیا آپ بھی ہادی اور اس آیہ شریفہ کے مصداق ہیں؟ ہاں میں بھی اس کا مصداق ہوں، قرآن ہمیشہ زندہ رہے گا، اسے موت نہیں آئے گی اور یہ آیہ و لکل قوم ھاد بھی زندہ ہے اور اسے موت نہیں آسکتی، اگر ایک قوم پر اترنے والی آیت قوم کے مرنے سے مر جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن کو بھی موت آگئی حالانکہ ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ قرآن جس طرح گذشتہ اقوام پر منطبق ہوتا تھا اسی طرح آئندہ آنے والی نسلوں پر بھی منطبق ہوگا۔،،

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''ان القرآن حی لم یمت، و انه یجری کما یجری اللیل و النهار، و کما تجری الشمس و القمر، و یجری علی آخرنا کما یجری علی اولنا،،

(یعنی) ''قرآن زندہ و جاوید ہے، اسے موت نہیں آسکتی، دن اور رات کی طرح یہ بھی چلتا رہے گا اور سورج اور چاند کی طرح ہر دور میں ضوفشانی کرتا رہے گا۔،،

۲۵

اصول کافی میں ہے، جب عمر بن یزید نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے آیت کریمہ( وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّـهُ بِهِ أَن يُوصَلَ ) ۱۳:۲۱،، کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:

'' هذه نزلت فی رحم آل محمد صلی الله علیه و آله و سلم وقد ثم مات اولئک ماتت الآیة لما بقی من القرآن شیئ، و لکن القرآن یجری اوله علی آخره مادامت السماوات و الأرض، ولکل قوم آیة یتلوها هم منها من خیر او شر،،

یہ آیتِ کریمہ ہم آلِ محمد کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن یہی آیہ کریمہ شریفہ تمہارے قریبی رشتہ داروں پر منطبق ہوسکتی ہے، تو ان لوگوں میں سے نہ بن جو ایک خاص مقام اورچیز پرنازل شدہ آیت کو اس مقام اورچیز سے مختص کردیتے ہیں۔

تفسیر فرات میں ہے:

''و لو أن الآیة اذا نزلت فی قوم ثم مات أولئک ماتت الآیة لما بقی من القرآن شیئ، ولکن القرآن یجری أوله علی آخره ما دامت السماوات و الأرض، و کل قومٍ آیة یتلوها هم منها من خیر أو شر،،

''اگر کسی قوم پر کوئی آیت نازل ہو پھر وہ قوم مرجائے اور اس قوم کے ساتھ آیت بھی مرجائے تو قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہ جائے مگر ایسا نہیں جب تک آسمان اور زمین موجود ہیں گذشتہ لوگوں کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیےبھی اس کی ہدایت کا سلسلہ جاری رہیگا اور قرآن میں ہر قوم و ملت کے بارے میں ایک آیت موجود ہے جس میں ان کی اچھی یا بری سرنوشت و تقدیر اور انجام کا ذکر ہے۔،،

اس مضمون کی اور بھی متعدد روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) مرۃ الانوار، ص ۳۔۴

۲۶

و منها جا لا یضل نهجة ''یعنی قرآن وہ سیدھا راستہ ہے جو اپنے راہرو کو گمراہ نہیں کرتا،،۔ اسے خالق نے اپنی مخلوق کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے قرآن ہر اس شخص کو گمراہی سے بچاتا ہے جو اس کی پیروی کرے۔

''و تبیاناً لا تهدم ارکانه،، اس جملے میں دو احتمال ہیں:

الف: پہلا احتمال یہ ہے کہ قرآن کے الفاظ میں کسی قسم کا خلل اور نقص نہیں ہوسکتا ہے، اس احتمال کے مطابق اس جملے میں امیر المومنین اس بات کی طرف اشارہ فرما رہے ہی ںکہ قرآن کریم تحریف سے محفوظ ہے۔

'' وریاض العدل و غدرانه،، (۱) ''اس میں عدل کے چمن اور انصاف کے حوض ہیں۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ عدالت چاہے عقیدہ کے اعتبار سے ہو یا اخلاق کے اعتبار سے، اس کے تمام پہلو قران میں موجود ہیں۔ پس قرآن عدالت کا محور اوراس کی مختلف جہات کا سنگم ہے۔

و أثا فی الاسلام (۲) ''اسلام کا سنگ بنیاد اور اسکی اساس ہے۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو جو استحکام اور اثبات حاصل ہوا ہے وہ قرآن ہی کی بدولت ہے جس طرح دیگ کو استحکام ان پایوں کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے جس کے نیچے رکھے ہوتے ہیں۔

''و أودیة الحق و غیطانه،، '' حق کی وادی اوراس کا ہموار میدان ہے۔،، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن حق کا سرچشمہ ہے۔ اس جملے میں قرآن کو وسیع اور پرسکون زرخیز سرزمین سے تشبیہ دی گئی ہے اور حق کو ان نباتات سے تشبیہ دی گئی ہے جو اس سرزمین پر اگی ہوں کیونکہ قرآن ہی حق کا سرچشمہ ہے، قرآن کے علاوہ کہیں اور سے حق نہیں مل سکتا۔

____________________

(۱) ریاض روضہ کی جمعہ ہے یہ اس سرسبز زمین کو کہتے ہیں جس میں سبزہ ہو، غدران جمع ہے غدیر کی اس کا معنی سیلاب کا جمع شدہ پانی ہے۔

( ۲) اثانی جو امانی کے وزن پر ہے، ''اثفیہ،، کی جمع ہے۔ ''اثفیہ،، اس پتھر کو کہا جاتا ہے جس پر دیگچی رکھی جاتی ہے۔

اس جملے سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ جب قرآن کے متلاشی اس کی بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں تو وہاں پہنچ کر رک جاتے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کرتے، اس لیے کہ انہیں مکمل ططور پر اپنی مراد مل جاتی ہے اور وہ منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں۔

۲۷

'' وبحر لا ینزفه المنتزفون،، '' وہ ایسا دریا ہے جسے پانی بھرنے والے ختم نہیں کرسکتے،، اس جملے اور اس کے بعدوالے جملوں کا مطلب یہ ہے کہ جو معانیئ قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرے وہ اس کی انتہا کو نہیں پہنچ سکتا کیونکہ قرآن کے معانی لامتناہی ہیں بلکہ اس جملے میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ قرآن میں کبھی کمی واقع ہو ہی نہیں سکتی، جس طرح چشمے سے پانی نکالنے، پینے یا برتن بھرنے سے پانی کم نہیں ہوتا۔

'' وآکام لا یجوز عنها القاصدون،، ''وہ ایسا ٹیلہ ہے کہ حق کا قصد کرنے والے اس سے آگے نہیں گزر سکتے،،۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جو محققین اور مفکرین قرآن کی بلندیوں کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ کبھی بھی اس کے معانی کی بلندیوں اور چوٹیوں سے تجاوز ن ہیں کرسکتے۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ قران کریم ایسے سربستہ رازوں پر مشتمل ہے جن تک صاحبان فہم کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ ہم آئندہ اس حقیقت کو بیان کریں گے۔ انشاء اللہ۔

۲۸

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب

قرآن وہ آسمانی قانون اور ناموں الٰہی ہے جو لوگوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ضمانت دیتا ہے، قرآن کی ہر آیت ہدایت کا سرچشمہ اور رحمت و راہنمائی کی کان ہے۔ جو بھی ابدی سعادت اور دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کا آرزو مند ہے اسے چاہیے کہ شب و روز قرآن کریم سے عہد و پیمان باندھے، اس کی آیات کریمہ کو اپنے حافظہ میں جگہ دے اور انہیں اپنی فکر اور مزاج میں شامل کرے تاکہ ہمیشہ کی کامیابی اور ختم نہ ہونے والی تجارت کی طرف قدم بڑھاسکے۔

قرآن کی فضیلت میں ائمہ علیہم السلام ارو ان کے جدامجد سے بہت سی روایات منقول ہیں، امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

'' قال رسول الله صلی الله علیه و آله: من قرأ عشر آیات فی لیلة لم یکتب من الغافلین، و من قرأ خمسین آیة کتب من الذاکرین، و من قرأ مائة آیة کتب من القانتین، و من قرأ مائتی آیة کتب من الخاشعین، و من قرأ ثلثمائة آیة کتب من الفائزین و من قرأ خمسمائة آیة کتب من المجتهدین، و من قرأ ألف آیه کتب له قنطار من تبر،،

''پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، جو شخص رات کو دس آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام غافلین (جو یاد خدا سے بے بہرہ رہتے ہیں) میں نہیں لکھا جائے گا اور جو شخص پچاس آیتوں کی تلاوت کرے اور کا نام ذاکرین (جو خدا کو یاد کرتے ہیں، حرام و حلال کا خیال رکھتے ہیں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص سو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام قانتین (عبادت گزاروں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص دوسو آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام خاشعین (جو خدا کے سامنے متواضع ہوں) میں لکھا جائے گا اور جو شخص تین سو آیتوں کی تلاوت کرے اور کا نام سعادت مندوں میں لکھا جائے گا، جو شخص پانچ ہزار آیتوں کی تلاوت کرے اس کا نام عبادت اور پرستش خدا کی کوشش کرنے والوں میں لکھا جائے گا اور جو شخص ہزار آیتوں کی تلاوت کرے وہ ایسا ہے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہ خدا میں دے دیا ہو۔،،

۲۹

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''القرآن عهد الله الی خلقه، فقد ینبغی للمرء المسلم أن ینظر فی عهده، و أن یقرأ منه فی کل یوم خمسین آیة،،

''قرآن خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک عہد و میثاق ہے، مسلمان کو چاہےے کہ وہ اپنا عہد نامہ غور سے پڑھے اور روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے۔،،

آپ نے مزید فرمایا:

'' ما یمنع التاجر منکم المشغول فی سوقه اذا رجع الی منزله أن لا ینام حتی یقرأ سورة من القرآن فیکتب له مکان کل آیة یقرأها عشر حسنات، و یمحی عنه عشر سیأت؟،،

''حب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھر واپس لوٹتے ہیں تو سونے سے پہلے ایک سورۃ کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی ہے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تاکہ ہر آیت کے بدلے ان کے لئے دس نیکیاں لکھی جائیں اور ان کے نامہ ئ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں۔،،

اس کے بعد آپ نے فرمایا:

''علیکم بتلاوة القرآن، فان درجات الجنة علی عد آیات القرآن، فاذا کان یوم القیامة یقال لقاری القرآن: اقرأ و ارق، فکلما قرأ آیة رقی درجة،،

''قرآن کی تلاوت ضرور کیا کرو(اس لئے کہ) آیات قرآن کی تعداد کے مطابق جنت کے درجات ہوں گے۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو قاری قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاؤ اور اپنے درجات بلند کرتے جاؤ پھر ہو جیسے جیسے آیات کی تلاوت کرے گا اس کے درجات بلند ہوں گے۔،،

۳۰

حدیث کی کتابوں میں علماء کرام نے اس مضمون کی بہت سی روایات کو یکجہا کر دیا ہے، شائقین ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں اور بحار الانوار کی انیسویں جلد میں اس مضمون کی کافی روایات موجود ہیں، ان میں سے بعض روایات کے مطابق قرآن کو دیکھ کر تلاوت کرنا، زبانی اور ازبر تلاوت کرنے سے بہتر ہے۔

ان میں سے ایک حدیث یہ ہے:

اسحاق بن عمار نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی:

''جعلت فداک انی احفظ القرآن عن ظهر قلبی فأقرأه عن ظهر قلبی أفضل أو أنظر فی المصحف قال: فقال لی : لا بل اقرأه و انظر فی المصحف فهو أفضل أما علمت ان النظر فی المصحف عبادة ،،؟ و قال: ''من قرأ القرآن فی المصحف متع ببصره، و خفف عن الدیه و ان کانا کافرین،، (۱)

''میری جان آپ پر نثار ہو، میں نے قرآن حفظ کرلیاہے اور زبانی ہی اس کی تلاوت کرتا ہوں، یہی بہتر ہے یا یہ کہ قرآن دیکھ کے تلاوت کروں؟ آپ نے فرمایا: قرآن دیکھ کر تلاوت کیا کرو یہ بہتر ہے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ قرآن میں دیکھنا عبادت ہے، جو شخص قرآن میں دیکھ کے اس کی تلاوت کرے اس کی آنکھ مستفید اور مستفیض ہوتی ہے اور اس کے والدین کے عذاب میں کمی کردی جاتی ہے، اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔،،

____________________

(۱) اصول کافی۔ کتاب فضل القرآن۔ وسائل طبعۃ عین الدولہ، ج۱، ص ۳۷۰

۳۱

قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید و تشویق میں چند اہم نکات ہیں جن کی طرف توجہ ضروری ہے:

i ) قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کی تاکید اس لیے کی گئی ہے تاکہ نسخوں کی کثرت کی وجہ سے قرآن ضیاع سے محفوظ رہ سکے۔ کیوں کہ جب قرآن کی زبانی تلاوت پر اکتفاء کی جائے گی تو قرآن کے نسخے متروک ہو جائیں گے اور آہستہ آہستہ کم یاب ہو جائیں گے بلکہ بعیدنہیں کہ بتدریج اس کے آثار تک باقی نہ رہیں۔

ii ) دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے کے بہت سے آثار ہیں جن کی روایات میں تصریح کی گئی ہے مثلاً معصوم نے فرمایا ہے: ''متع ببصرہ،، یعنی۔ یہ بڑا جامع کلمہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان نابینائی اور آشوب چشم سے محفوظ رہے یا یہ مراد ہوسکتی ہے کہ قرآن میں دیکھ کر تلاوت کرنے سے انسان قرآنی رموز اور اس کے دقیق اور باریک نکات سے باخبر ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ جب انسان کی نظر ایسی چیز پر پڑے جو اسے پسند ہو تو اس کا نفس خوشحال ہو جاتا ہے اور اپنی بصارت اور بصیرت میں روشنی محسوس کرتا ہے۔ قرآن کے الفاظ پر جب بھی قاری کی نظر پڑتی ہے اور وہ اس کے علوم و معانی میں فکر کرتا ہے تو علم و آگاہی کی لذت محسوس کرتا ہے اور اس کی رح ہشاش بشاش ہو جاتی ہے۔

iii ) بعص روایات میں گھروں کے اندر قرآن کی تلاوت کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اس کا راز قرآن کی تبلیغ و ترویج اور تلاوت قرآن کا چرچا ہے، کیونکہ جب انسان گھر میں قرآن کی تلاوت کرے تو اس کے بیوی بچے بھی قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اس سے یہ عمل عام ہو جاتا ہے لیکن اگر قرآن کی تلاوت کسی خاص مقام پر کی جائے تو اس کا ہر شخص، ہر جگہ شرف حاصل نہیں کرسکتا اور یہ تبلیغ اسلام میں رکاوٹ کا بہت بڑا سبب ہے۔

۳۲

شاید گھروں میں تلاوت کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اس سے شعائر الٰہی قائم ہو جاتے ہیں کیونکہ جب صبح و شام گھروں سے تلاوت قرآن کی آواز بلند ہوگی تو سننے والوں کی نظر میں اسلام کی اہمیت بڑھے گی اس لیے کہ جب شہر کے کونے کونے سے تلاوت قرآن کی آواز سنائی دے گی تو سننے والوں پر ایک قسم کا رعب اور ہیبت طاری ہوجائے گی۔

گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکورہ ہیں

''ان البیت الذی یقرأ فیه القرآن و یذکر الله تعالی فیه تکثر برکته، و تحضره الملائکة، و تهجره الشیاطین، و یضیئ لأهل السلماء کما یضیئ الکوکب الدری لأهل الأرض، و ان البیت الذی لایقرأ فیه القرآن، و لا یذکره الله تعالیٰ فیه تقل برکته، و تهجره الملائکة و تحضره الشیاطین ۔،، (۱)

''وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت اور ذکر خدا کیا جاتا ہو اس کی برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے، اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے شیاطین اس گھر کو ترک کردیتے ہیں اور یہ گھر آسمان والوں کو روشن نظر آتے ہیں، جس طرح آسمان کے ستارے اھل زمین کو نور بخشتے ہیں اور وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی اور ذکر خدا نہیں ہوتا اس میں برکت کم ہوتی ہے، فرشتے اسے ترک کردیتے ہیں اور ان میں شیاطین بس جاتے ہیں۔،،

قرآن کی فضیلت اور وہ عزت و تکریم جن سے خداوند، قاری قرآن کو نوازتا ہے روایات میں اتنی ہے کہ جس سے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

____________________

(۱) اصول کافی، کتاب فضل القرآن

۳۳

''من قرأ حرفاً من کتاب الله تعالیٰ فله حسنة والحسنة بعشر أمثالها لا أقول آلم حرف و لکن ألف حرف و لام حرف و میم حرف،،

''جو شخص کتاب الٰہی کے ایک حرف کی تلاوت کرے اس کے اعمال میں ایک حسنہ اور نیکی لکھی جاتی ہے اور ہر حسنہ کا دس گنا ثواب ملتا ہے (اس کے بعد آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا کہ ''الم،، (یہ تینوں) ایک حرف ہے بلکہ ''الف،، ایک حرف ہے ''ل،، دوسرا حرف ہے اور ''م،، تیسرا حرف ہے۔،،

اس حدیث کو اہل سنت کے راویوں نے بھی نقل کیا ہے، چنانچہ قرطبی نے اپنی تفسیر(۱) میں ترمذی سے اور اس نے ابن مسعود سے نقل کیا ہے، کلینی رحمہ اللہ نے بھی تقریباً اسی مضمون کی حدیث امام جعفر صادق سے نقل فرمائی ہے۔

اس میدان میں کچھ جھوٹے راوی بھی ہیں جن کی نظر میں شاید فضیلت قرآن کی یہ تمام روایات کم تھیں اس لیے انہوں نے اپنی طرف سے فضیلت قرآن میں کچھ روایات گھڑلیں جن کی نہ تو وحی نازل ہوئی ہے اور نہ ان کا سنت نبوی میں کوئی ذکر ہے۔ ان جھوٹے راویوں میں ابو عصمۃ فرج بن ابی مریم مروزی، محمد بن عکاشہ کرمانی اور احمدبن عبد اللہ جویباری شامل ہیں۔ ابو عصمۃ نے خود اس جعل سازی کا اعتراف کیا ہے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تو نے کس طرح عکرمہ کے واسطے سے ابن عباس سے قرآن کے ایک ایک سورے کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں، اس (ابو عصمۃ) نے جواب دیا:

''ابی رأیت الناس قد أعرضوا عن القرآن، و اشتغلوا بفقه أبی حنیفة، و مغازی محمد بن اسحق فرضعت هذا الحدیث حسبة،،

''جب میں نے دیکھا کہ لوگ قرآن سے منحرف ہوگئے ہیں اور ابی حنیفہ اور مغازیئ محمد بن اسحاق کی فقہ میں مصروف ہیں تو میں قرآن کی فضیلت میں یہ احادیث قربتہ الی اللہ گھڑلیں۔،،

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۷، و فی الکافی کتاب فضل اقلرآن

۳۴

ابو عمر و عثمان بن صلاح، ا س حدیث کے بارے میں جو ابی بن کعب کے واسطے سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہے لکھا ہے:

''قد بحث باحث عن مخرجه حتی انتهی الهی من اعترف بأنه و جماعة و ضعوه، و قد أخطأ الواحدی و جماعة من المفسرین حیث أودعوه فی تفاسیرهم،، (۱)

''اس حدیث کے بارے میں جو قرآن کے ہر ہر سورے کے فضائل میں نقل کی گئی ہے جو تحقیق کی گئیوہ اس تنیجہ پر پہنچی ہے کہ اس حدیث کے گھڑنے والے نے اس کے جعلی ہونے کا اعتراف کرلیا ہے (میں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے ملک کر اسے گھڑا ہے"

واحدی اور دیگر مفسیرین اپنی تفسیروں میں اس حدیث کو ذکر کرکے غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔،،

دیکھئے!ان لوگوں نے کتنی بڑی جراءت کی ہے کہ رسول خد کی طرف حدیث کی جھوٹی نسبت دی ہے اور ستم یہ کہ اس افتراء اور تہمت کو قرب الٰہی کا سبب قرار دیتے ہیں۔

( كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) ۱۰:۱۲

''جو لوگ زیادتی کرتے ہیں ان کی کارستانیاں یوں ہی انہیں اچھی کرکے دکھائی گئی ہےں۔،،

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۷۸۔۷۹، و فی الکافی کتاب فضل القران

۳۵

قرآن میں غور و خوض اور اس کی تفسیر

قرآن مجید اور صحیح روایات میں معانیئ قرآن کے سمجھنے اور اس کے مقاصد و اہداف میں کفر کی سخت تاکید کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ) (۴۷:۲۴)

''تو کیا یہ لو قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (انکے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔،،

اس آیہ کریمہ میں قرآن میں غور نہ کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ ابن عبّاس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا ہے، آنحضرت نے فرمایا:

''اعربوا القرآن و التمسوا غرائبه،، ۔ ''قرآن کو بلند آواز سے پڑھان کرو اور اس کے عجائبات اورباریکیوں میں غور و خوص کیا کرو۔،،

ابو عبدالرحمن سلمی کہتے ہیں:

''حدثنا من کان یقرئنا من الصحابة انهم کانوا یأخذون من رسول الله ص عشر آیات فلا یأخذون فی العشر الآخری حتی یعلموا ما فی هذه من العلم و العمل،،

۳۶

''صحابہ کرام جو ہمیں قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے فرماتے تھے ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے قرآن کو دس دس آیتوں کی صورت میں لیتے تھے، جب تک ہم پہلی دس آیتوں کے علمی اور عملی نکات کو حفظ نہیں کرلیتےٍ۔ دوسری دس آیتیں ہمیں نہیں ملتی تھیں۔،،(۱)

عثمان، ابن مسعود اور ابی کہتے ہیں:

''ان رسول الله ۔ص ۔کان یقرئهم العشر فلا یجاوز و نها الی عشر أخری حتی یتعلموا ما فیها من العمل فیعلمهم القرآن و العمل جمیعاً،، (۲)

''رسول خد قرآن کی دس آیتوں کی تعلیم دیتے تھے، ان دس آیتوں سے اس وقت تک تجاوز نہ فرماتے تھے جب تک ان کو سمجھ کر عمل نہ کیا جائے، پس علم قرآن اور عمل بہ قرآن کی تعلیم ایک ساتھ دیتے تھے۔،،

____________________

(۱) بحار الانوار، ج ۱۹، ص ۲۸ باب فضل التدبر فی القرآن

(۲) قرطبی، ج ۱، ص ۳۹

۳۷

ایک دن امیر المومنین علیہ السلام نے لوگوں کے سامنے جابر بن عبد اللہ انصاری کی تعریف کی تو کسی نے کہا: مولا! آپ (باب علم ہونے کے باوجود) جابر کی تعریف کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا:

''تمہیں معلوم نہیں جابر بن عبد اللہ انصاری آیہ کریمہ،( إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ ) ۲۸:۸۵

کی تفسیر سمجھتے تھے۔،،(۱)

قرآن کریم میں فکر اور تدبر کرنے کی فضیلت میں بہت سی روایات موجود ہیں۔ چنانچہ بحار الانوار کی ۱۹ جلدوں میں اس مضمون کی بے شمار احادیث موجود ہیں۔ لیےکن یہ ایسی حقیقت ہے جس کے لئے اخبار و روایات میں تتبع اور جستجو کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں کہ قرآن ایسی کتاب ہے جسے خدا نے لوگوں کے لیے دنیا ہی میں ایک مکمل ضابطہئ حیات بنا کر بھیجا ہے۔ جس سے وہ آخرت کی راہ، نور اور روشنی حاصل کرسکتے ہیں اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک قرآن کے معانی میں تدبر او فکر نہ کیا جائے، یہ ایسی حقیقت ہے جس کا فیصلہ عقل کرتی ہے۔ روایات اور احادیث میں جتنی تاکید ہے وہ اسی حکم عقل کی تائید اور اسی کی طرف راہنمائی کےلئے ہے۔

زہری نے امام زین العابدین (علیہ السلام) سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا:

''آیات القرآن خزائن فکلما فتحت خزینة ینبغی لک أتنظر ما فیها،، (۲)

''قرآن کی آیات خزانے ہےں جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو (تلاش کیا کرو)،،

____________________

(۱) تفسیر القرطبی، ج ۱، ص ۲۶

(۲) اصول الکافی، کتاب فضل القرآن

۳۸

اعجاز قرآن

٭ اعجاز کے معنی

٭ نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال

٭ نبوّت اور اعجاز

٭ معجزہ اور عصری تقاضے

٭ قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ

٭ ایک اعتراض اور اس کا جواب

٭ قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ

٭ قرآن اور معارف

٭ آیات میں ہم آہنگی

٭ قرآن اور نظامِ قانون

٭ قرآن کے معانی میں پختگی

٭ قرآن کی غیب گوئی

٭ قرآن اور اسرارِ خلقت

۳۹

اعجاز کے معنی

فقہ میں اعجاز کے متعدد معانی بیان کئے گئے ہیں:

i ) کسی چیز کو کھو دینا۔''اعجزه الامر الفلانی،، ۔ یعنی اسنے فلاس چیز کو کھو دیا۔

ii ) کسی دوسرے میں عجز و ناتونی محسوس کرنا۔''اعجزت زیدا،، یعنی میں نے زید کو عاجز اور ناتواں پایا۔

iii ) کسی کو عاجز بنا دینا اس صورت میں عاجز تعجیز کا ہم معنی ہوگا۔''اعجزت زیداً،، یعنی میں زید کو عاجز بنا دیا۔

علمِ کلام کی اصطلاح میں اعجاز کا مطلب یہ ہے کہ کسی الہٰی منصب کا مدعی اپنے مدعا کے اثبات میں طبیعی قوانین کو توڑتے ہوئے ایک کارنامہ انجام دے، جس کی نظیر پیش کرنے سے دوسرے عاجز و بے بس ہوں۔ البتہ یہ معجزہ اس صورت میں مدعی کی صداقت کی دلیل ہوگا جب ا س(مدعی یا معجزہ) کا صادق ہونا ممکن ہو اور اگر علقی طور پر اس (دعویٰ) کا صادق ہونا محال ہو یا ایک نبی صادق یا امام معصوم اس دعویٰ کو محال قرار دے اس صورت میں یہ غیر معمولی کام صداقت کی دلیل نہیں بنے گا اور نہ اصطلاح میں معجزہ کہلائے گا۔ اگرچہ عام انسان ایسا عمل انجام دینے سے قاصر رہے۔

محالِ عقلی کی مثال: کوئی انسان الوہیّت اور خدائی کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اس قسم کے دعویٰ کا صادق ہونا عقلاً محال ہے کیوں کہ صحیح اور مستحکم دلیلیں اس کے محال ہونے پر دلالت کرتی ہےں۔

۴۰