البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313912 / ڈاؤنلوڈ: 9311
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال

پیغمبراسلام کے بعد کوئی نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اس قسم کا دعویٰ یقیناً کذب ہے اس لیے کہ ائمہ معصومین اور رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ذریعے آنحضرت کا خاتم الانبیاء ہونا مسلم الثبوت ہے۔ جب دعویٰ ہی قطعی طور پر باطل اور جھوٹا ہو تو پھر اس شاہد کا کیا فائدہ ہوگا جسے مدعی پیش کرے جب عقل اس مدعا کے محال ہونے کے کا حکم لگا دے یا شریعت اس کے باطل ہونے کی شہادت دے تو پھر خالق پر واجب نہیں کہ اس کے باطل ہونے کو برملا کرے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کسی الہٰی منصب کا دعویٰ تو کرلیتا ہے اور کوئی خارق العدات (معجزہ نما) کام بھی کر دکھاتا ہے جس سے دوسرے انسان عاجز رہتے ہیں لیکن یہی کام اس کے دعوےٰ کے کذب ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مسیلمہ کذّاب نے ایک مرتبہ اپنا لعابِ دھن کنوئیں میں پھینکا جس میں پانی تھوڑا تھا تاکہ اس کا پانی زیادہ ہو جائے لیکن اسمیں جو پانی تھا وہ بھی خشک ہوگیا۔

ایک او واقعے میں اس نے بنی حنیفہ کے کچھ بچوں کو سر پر ہاتھ پھیرا اور بعض کو گھٹی دی (حلق پر ہاتھ پھیرا) اس کے نتیجے میں جن کے سروں پر ہاتھ پھیرا تھا وہ گنجے ہوگئے اور جن کے حلق پر ہاتھ پھیرا تھا ان کو لکنت کا عارضہ ہوگیا۔(۱) جب مدعی اس قسم کا شاہداور دلیل پیش کرے تو خدا کے لیے ضروری نہیں کہ اسے مزید برملا کرے کیوں کہ اس مدعی کا ناکام عمل ہی مدعی کو باطل کرے کے لیے کافی ہے اور اصطلاح میں اسے معجزہ نہیں کہا جاتا۔

____________________

(۱) الکامل ابن اثیر، ج ۲، ص ۱۳۸

۴۱

اس عمل کو بھی اصطلاح میں معجزہ نہیں کہا جائے گا جس کا مظاہرہ جادو گر اور شعبدہ باز کیا کرتے ہیں یا بعض دقیق اور پیچیدہ علوم نظری کے ماہر انجام دیتے ہیس اگرچہ ایسا عمل انجام دینے سے عام آدمی عاجز ہو، خدا کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس عمل کو کسی اور ذریعے سے باطل قرار دے، جبکہ یہ معلوم ہہے کہ اس کا یہ عمل سحر جیسے دوسرے طبیعی امور کے نتیجے میں انجام پایا ہے۔ اگرچہ یہ انسان کسی الہٰی منصب کا دعویدار ہو اور اس کام کو اس نے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہو، کیونکہ ان پیچیدہ علوم نظری کے خاص قوانین ہوتے ہیں جن سے اس علم کے ماہرین آگاہ ہوا کرتے ہیں اور ان قواعد کی روشنی میں مخصوص نتاء تک پہنچنا ضروری ہوا کرتا ہے، اگرچہ ان قواعد کو نتائج پر منطبق کرنا کافی دقت طلب ہے۔

بنابرایں علم طبّ کے بعض حیرت انگیز قواعد بھی معجزہ سے خارج ہوں گے جن کا تعلق چیزوں کی طبیعتوں اور ان کے خاصیتوں سے ہے اگرچہ طبّ کی یہ عجیب و غریب باتیں عام لوگوں سے مخفی اور پوشیدہ ہوں بلکہ خود ان طبیبوں اور حکیموں پر بھی چیزوں کی خاصیتیں اور ان کے آثار مخفی ہوں۔

اس میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ خدا کسی خاص بندے کو کسی خاص چیز کی معرفت عطا فرمائے جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہو۔

قباحت اس میں ہے کہ خدا کسی جھوٹے شخص کی تائید کرے اور ایسے جھوٹے شخص کے ہاتھ معجزہ ظاہر کرے جو لوگوں کو راہِ راست سے گمراہ کرے۔

۴۲

نبوّت اور اعجاز

تمام انسانوں کو مکلّف کرنا خدا پر واجب ہے اور یہ بات صحیح عقلی دلائل سے ثابت ہے، کیونکہ انسان اپنی ارتقائی منازل طے کرنے اورابدی سعادت کے حصول اور عظیم منفعت کےلئے تکلیف (فرائض و ذمہ داریوں) کا محتاج ہے۔ اگرخدا انسان کو پابند قرار نہ دے تو اس کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں:

i ) خدا نے اپنے بندوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ خدا نہیں جانتا کہ لوگ ذمہ داری و لائحہ عمل کے محتاج ہیں۔

اس سے جہل لازم آتا ہے جس سے خدا کی ذات پاک و منزہ ہے۔

ii ) خدا نے لوگوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ وہ انہیں کمال تک پہنچنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس سے بخل لازم آتا ہے اور بخل اس ذات کے لیے محال ہے جو سرچشمہ ئ فیض و سخا ہے۔

iii ) خدا انہیں مکلّف بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اس پر قادر نہیں ہے۔ یہ عجز و ناتوانی ہے جو اس قادر و مطلق ذات کے لیے محال ہے۔

بنابریں بشر کو بعض فرائض کا مکلّف بنانا ضروری اور لازمی ہے اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان کو مکلّف بنانے کے لیے کسی نہ کسی مبلّغ کی ضرورت ہے جو احکامِ الہٰی کے پوشیدہ اور واضح رموز سے آگاہ کرے:

( لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ) (۸:۴۲)

''تاکہ جو شخص ہلاک (گمراہ) ہو وہ (حق کی) حجت تمام ہونیکے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ (ہدایت کی) حجّت تمام ہونیکے بعد زندہ رہے۔،،

۴۳

یہبھی ایک بدیہی بات ہے کہ سفارتِ الہٰی ایسا عظیم منصب ہے جس کے بہت سے مدعی ہوسکتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ صادق اور کاذب میں تمیز نہ ہوسکے، گمراہ کرنے والے اور ہادی و راہنما میں امتیاز نہ رہے، اس لیے جو بھی اس سفارت کا دعویدار ہو اس کے لئے ضروری ہے ہک ایسا شاہد اور ثبوت پیش کرے جو اس کے اس دعویٰ میں صادق ہونے پر دلالت کرتا ہو اور اس تبلیغ میں اس کے امین ہونے کی ضمانت دے۔ یہ شاہد ان عام اور معمولی افعال اور کارناموں میں سے نہ ہو جنہیں ہر کس و ناکس انجام دے سکتا ہو۔ بنابرایں اس مدعا کی دلیل میں ان کاموں میں منحصر ہوگی جو طبیعی قوانین کو توڑ دیں۔ معجزہ اس لیے مدعی کی صداقت کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ معجزہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہوتا ہے اور یہ کام اسی سے صادر ہوتا ہے جسے توفیق الہٰی حاصل ہو اور خدا جسے قدرت اور طاقت دے۔

بنابرایں اگر نبوّت کا مدعی اپنے دعویٰ میںجھوٹا ہو تو ایسے معجزے پر اس کو قدرت دینا لوگوں کو جہالت میں ڈالنے اور باطل کی تقوّیت کا باعث ہوگا اور یہ کام خدا کے لیے محال ہے۔

جب اس قسم کا معجزہ کسی مدعی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو یہ معجزہ اس کی صداقت کی دلیل ہوگا اور اس بات کا اظہار ہوگا کہ خداوند متعال اس کی نبوّت پر راضی ہے۔

یہ ایک ایسا قاعدہ کلیّہ ہے جسے تمام عقلاء اس قسم کے اہم کاموں میں تسلیم کرتے ہیں اور اسے کوئی بھی شک و شبہ کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔

۴۴

جب کوئی کسی بادشاہ یا صدر کے سفیر ہونے کا دعویٰ کرے یا کوئی شخص ایسے کاموں میں بادشاہ کی نمائندی کا دعویٰ کرے جن کا تعلق عوام سے ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ پر دلیل پیش کرے جس سے اس کی تائید ہو۔ خصوصاً جب لوگ اس کی صداقت میں شک کریں تو اس کی دلیل واضح اور آشکار ہونی چاہےے۔ مثال کے طور پر اگر سفیر لوگوں سے یہ کہے کہ میری صداقت کی دلیل یہ ہے کہ کل کے دن بادشاہ او صدرمملکت مجھے ایسا تحفہ دیگا جیسا وہ دوسرے سفیروں اور نمائندگان کو دیا کرتا ہے اور میری ایسی عزّت اور تکریم کرے گا جیسی دوسرے سفراء او رنمایندگان کی کیا کرتا ہے تو ایسی صورت میں جب سفیر اور لوگوں میں رونما ہونے والے اس اختلاف کا بادشاہ کو علم ہوگا اور اس کے بعد اسی دن اسی تحفے و عزّت و تکریم سے سفیر کو نوازے تو بادشاہ اور صدر مملکت کی طرف سے یہ فعل مدعیئ سفارت کی تصدیق ہوگی جس میں عقلاء کو کوئی شک نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک بادشاہ جو رعیت کی مصلحتوں کا محافظ ہوا کرتا ہے اس کے لئے قبیح ہے کہ وہ کاذب مدعی کی تائید و تصدیق کرے۔ کیونکہ وہ لوگوں میں فساد پھیلانا چاہتا ہے، جب یہ کام عام عقلاء کے لیے قبیح ہو تو اس حکیم اور دانا ذات کے لیے بطریقِ اولیٰ اور قبیح ہے اور یہ حقیقت خدا نے اس آیتِ کریمہ میں بیان فرمائی ہے:

( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ) (۶۹:۴۴۔۴۶)

''اگر رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑلیتے پھر ہم ضرور ان کی گردن اڑا دیتے۔،،

۴۵

اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی نبوّت ہم نے ثابت کی ہے اور اس کی تصدیق کے لیے معجزہ ظاہر کیا ہے، آیا ممکن ہے کہ وہ کوئی بات اپنی طرف سے ہماری طرف منسوب کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ہم ان کا مواءخذہ کریں گے اور ان کی جان لے لیں گے اس کے علاوہ اس قسم کی غلط نسبتوں کو سننے کے بعد خاموشی اختیار کرنا، ان کی تصدیق ہوگی اور شریعت مقدّسہ میں باطل کو شامل کرنے کے مترادف ہوگا۔ بنابرایں جس طرح شریعت کی ابتدائی پیدائش میں اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے اسی طرح پیدائش کے بعد بقاء کے مرحلے میں بھی اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

معجزے کا کسی مدعی نبوّت کی صداقت پر دلالت کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ ہم ےسن و قبح عقلی کے قائل ہوں یعنی اس بات کے قائل ہوں کہ عقل حسن و قبح کو درک کرسکتی ہے۔ لیکن اشاعرہ یہ بات تسلیم نہیں کرتے ان کے نزدیک نبوت کی تصدیق کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس قول کی خرابیوں میں سے ایک خرابی یہی ہے کہ اس سے تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ معجزہ اسی صورت میں نبوّشت کی صداقت کی دلیل ہوگا جب عقل کاذب کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر ہونے کا قبیح سمجھے، اگر عقل اسے قبیح نہ سمجھے تو پھر کوئی بھی صادق اور کاذب میں تمیز نہ کرسکے گا۔

فضل ابن روز بہان نے اس اشکال و اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اگرچہ خدا سے فعل قبیح کا صادر ہونا ممکن ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ خدا کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے لیکن اس کی عادت اور سنت یہی رہی ہے کہ معجزہ اسی کے ہاتھ پر ظاہر ہو جو صادق ہو اور کاذب کے ہاتھ پر معجزہ کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتا۔

اس سے اشاعرہ کے نزدیک تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود نہیں ہوتیں، لیکن اس جواب کی کمزوری ظاہر و آشکار ہے۔

۴۶

اس لیے کہ اوّلاً یہ عادت خدا اور سنت الہٰی جس کی خبر ''ابن روز بہان،، دے رہا ہے، ان چیزوں میں سے نہیں ہے جو اس سے درک کی جاسکیں، کان سے سنی جاسکیں یا آنکھ سے دیکھی جاسکیں بلکہ عقل ہی کے ذریعے اس کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب عقل حسن و قبح کا ادراک نہ کرسکے (جس کے اشاعرہ قائل ہیں) توپھر کون جانے کہ خدا کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ معجزہ صرف صادقین کے ہاتھ پر دکھاتا ہے۔

ثانیاً، یہ عادت گذشتہ انبیاء کی تصدیق کے بعد ہی ثابت ہوسکتی ہے، جن کے ہاتھ سے معجزے ظاہر ہوئے ہیں، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ خدا کی یہ سنّت رہی ہے کہ وہ صادق کے ہاتھ پر ہی معجزہ ظاہر کرتا ہے لیےکن جو حضرات گذشتہ انبیاء کی نبوّتوں کے منکر ہیں یا انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے لیے تو یہ عادت ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا جس کا ''ابن روز بہان،، مدی ہے اور نہ ہی ان کے لئے معجزہ حجت ہے ہوسکتا ہے۔

ثالثاً، جب عقل کی نظر میں کسی فعل کو انجام دینا اور ترک کرنا مساوی ہو اور اس میں کسی قبح یا حسن کا حکم نہ لگایا جاسکے تو پھر خدا کو اپنی عادت بدلنے میں کون سی چیز مانع ہوگی، جبکہ خدا قادر مطلق ہے اور اس کا کوئی مواخذہ و محاسبہ بھی نہیں کرسکتا۔ بنابرایں اگر خدا کسی کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے تو بھی کوئی مانع نہیں ہونا چاہیے۔

رابعاً، عادت تو ایک ایسی چیز ہے جو کسی عمل کے تکرار کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے اور اس میں عرصہ دراز کی احتیاج ہوتی ہے۔ یہ آخری نبی یا اس سے پہلے انبیاء کے لئے تو معجزہ بن سکتا ہے لیکن ابتدائی نبوّت کے لیے کس طرح معجزہ بن سکتا ہے، جس میں کوئی عادت ہی نہیں بنی تھی۔ ہم آئندہ صفحات پر اشاعرہ کے اقوال ذکر کریں گے اور ان کے باطل پہلو بھی بیان کریں گے۔

۴۷

معجزہ اور عصری تقاضے

آپ نے دیکھا کہ معجزہ وہ ہوتا ہے جو طبیعی قوانین کو توڑ دے، کسی الہٰی منصب کا مدعی اسے انجام دے اور باقی لوگ اسے انجام دینے سے قاصر ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی معجزہ جس ہنر یا پیشے سے مماثلت رکھا ہو اسی پیشے کے علماء و ماہرین ہی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ عام لوگ یہ کام انجام دینے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ کسی بھی صنعت اور ہنر کی خصوصیات اس کے علماء ہی بہتر سمجھتے ہیں، وہی بتاسکتے ہیں کہ عام لوگ کونسا کام انجام دے سکتے ہیں اور کونسا نہیں یہی وجہ ہے کہ علماء معجزہ کی جلدی تصدیق کرتے ہیں جبکہ اس فن و ہنر کے اصولوں سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے جاہل کے آگے شک و تردید کے دروازے کھلے رہتے ہیں چنانچہ جب تک اس کا یہ احتمال باقی رہے کہ مدعی نے خاص اصولوں کا سہارا لیا ہوگا جنہیں اہل فن ہی جانتے ہیں اسے بہت دیر تک مدعی کی صداقت پر یقین نہ آئے گا۔

اسی لیے حکمت الہٰی کا یہ تقاضا ہے کہ ہر نبی کو وہی معجزہ دے کر بھیجا جاھے جو اس دور کے مشہور و معروف فن کی مانند اور اس فن کا اس دور میں چرچا بھی ہو، اس طرح کے معجزے کی تصدیق جلدی اورحجت و برہان مضبوط ہوتی ہے۔

حکمت الہٰی کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا سے مسلح کیا جاتا کیوں کہ اس زمانے میں سحر کی شہرت زیادہ تھی اور جادوگر کثرت سے تھے، یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے آپ کی تصدیق جادوگروں نے کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عصائے موسیٰ (علیہ السلام) اژدھے میں تبدیل ہوگیا اور ان کے جعلی اور بے بنیاد سانپوں کو نگلنے کے بعد دوبارہ اپنی اصلی صورت میں آگیا ہے تووہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ سحر کے دائرے سے خارج ہے اور یہ یقیناً الہٰی معجزہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرعون کے دربار میں اس کی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔

۴۸

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں یونانی طبّ کو شہرت حاصل تھی، اس دور میں اطباء عجیب و غریب کارنامے انجام دیتے تھے، شام اور فلسطین میں یہ علم بہت زٰادہ مروّج تھا کیونکہ یہ دونوں شہر یونانی استعمار کی زد میں تھے۔ جب خداوند حکیم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان علاقوں میںنبی بناکر بھیجا تو حکمت کا یہی تقاضا تھاکہ آپ کی نبوت کی دلیل طب سے مشابہت رکھنے والی ہو۔ چنانچہ آپ مردوں کو زندہ، مادر زاد اندھوں کو بینا اور برص کے مریضوں کو شفایاب کردیتے تھے تاکہ اس زمانے کے لوگ یہ سمجھ سکیں کہ چونکہ یہ عمل انجام دیناعام لوگوں کی قدرت و استطاعت سے باہر ہے اور طبی اصولوں کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس میں طبیعت اور مادہ سے بالاتر کسی ذات کی قدرت کار فرما ہے۔

عرب فصاحت و بلاغت میںبہت آگے تھے، فصاحت ان کا طرہ امتیاز تھی، وہ ادب کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں شعر و شاعری میں مقابلے اور فخر و مباہات کے لیے خصوصی میلے لگتے تھے جہاں اچھاکلام پیش کرنے والوں کو داد تحسین دی جاتی تھی۔ ان کے نزدیک شعر و شاعری کی قدر و منزلت اس قدر زیادہ تھی کہ انہوں نے قدیم اور عمدہ اشعار پر مشتمل سات قصیدے منتخب کئے اور انہیں آبِ زر سے لکھ کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیا، اس کے بعد کسی کے عمدہ کلام پر یہ کہا جانے لگا کہ یہ فلاں شاعر کا سنہرا کلام ہے۔ عرب مرد و زن سب اس فن کو اہمیت دیتے تھے اور شعری مقابلوں میں (معروف شاعر) ''نابغہ ذبیانی،، کو جج مقرر کیا جاتا تھا۔ حج کے موقع پر بازار عکاظ میں اس کے لیے چمڑے کا خیمہ نصب کیا جاتا تھا جہاں آکر شعراء اسے اپنا کلام سناتے تاکہ وہ اپنا فیصلہ سنائے۔

۴۹

ان حالات میں حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور بلاغت قرآن کا معجزہ دے کر بھیجا جاتا، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا۔ یہ عرب نے اس سمجھا اور تصدیق کی کہ یہ کلام خدا ہے اور اس کی بلاغت بشر کی قدرت سے باہر ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف ہر اس عرب نے کیا جس میں تعصب نہیں تھا۔

اس حقیقت پر اس روایت سے بھی ر وشنی پڑتی ہے جو ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے دریافت کیا:

''لماذا بعث الله موسی بن عمران بالعصا، و یده البیضائ، و آلة السحر؟ و بعث عیسیٰ بآلة الطب؟ و بعث محمداً صلی الله علیه و آله وعلی جمیع الأنبیائ بالکلام و الخطب؟

فقال أبو الحسن : ان الله لما بعث موسی کان الغالب علی أهل عصره السحر، فأتاهم من عند الله بما لم یکن فی وسعهم مثله، و ما أبطل به سحرهم، و أثبت به الحجة علیهم، و ان الله بعث عیسیٰ فی وقت قد ظهرت فیه الزمانات، و احجاج الناس الی الطب، فأتاهم من عند الله بما لم یکن عندهم مثله، و بما أحیی لهم الموتی، و أبرأ الأکمه و الأبرص باذن الله، و أثبت به الحجة علهیم

و ان الله بعث محمد فی وقت کان الغالب علی أهل عصره الخطب و الکلام و أظنه قال: الشعر فأتاهم من عند الله من مواعظه و حکمه ما أبطل به قولهم، و أثبت باه الحجة علیهم ،،(۱)

''کیا وجہ ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو طب اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور خطابت کامعجزہ دے کر بھیجا؟ آپ نے فرمایا: خدا نے حضرت موسیٰ کو جس وقت نبی بنا کر بھیجا اس وقت سحر اور جادو کا دور دورہ تھا۔ اسی لیے خدا نے حضرت موسیٰ کو اسی نوعیت کا ایسا کمال عطا کرکے بھیجا جس سے عام لوگ عاجز تھے اور ان کے سحر باطل ہوگئے اور آپ کی حجت مکمل ہوگئی۔

____________________

(۱) اصول کافی، کتاب عقل و الجہل۔ الروایۃ ۲۰

۵۰

جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث بر مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت مختلف قسم کی بیماریاں عام تھیں اور لوگ طب کے زیادہ محتاج تھے، چنانچہ خالق نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہ طب عطا فرمائی جس کی نظیر لوگوں کے پاس نہ تھی۔ آپ کو ایسا طب عطا فرمایا جس سے آپ باذن اللہ مردوں کو زندہ اور مادر زاد اندھے کو بینا اور برص کے مریضوں کوشفایاب فرماتے تھے۔ جس سے آپ نے ان لوگوں پر اپنی حجت مکمل کی۔ جس وقت خاتم الانبیائ کو نبی بنا کر بٍھیجا گیا اس وقت بیان اور خطابت کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان تھا۔ (میرے خیال میں امام کے کلام میں شعر کا ذکر ہے) خدا نے آنحضرت کو موعظہ اور حکمت آمیز کلام دے کر بھیجا، جس سے ان کے تمام دعوے باطل ہوگئے اور آپ کی حجت پوری ہوگئی۔،،

اگرچہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس قرآن کے علاوہ بھی معجزات تھے جن میں چاند کو دو ٹکڑے کرنا، اژدھے سے کلام کرنا اور سنگریزوں کا آپ کے ہاتھ پر تسبیح پڑھنا شامل ہیں لیکن ان تمام معجزات میں قرآن کی شان اور عظمت زیادہ ہے اور یہ سب سے مضبوط حجت اور دلیل ہے۔ چونکہ عرب طبیعی علوم اور کائنات کے اسرار و رموز سے آشنا نہیں تھے اس لیے وہ ان معجزوں (شق قمر وغیرہ) کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کو نامعلوم علل و اسباب کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وہ ان اسباب میں سب سے زیادہ احتمال سحر کا دیتے تھے۔ لیکن قرآن کامعجزہ ایسا ہے کہ عرب ا س کی بلاغت اور اعجاز میں شک نہ کرسکے۔اس لیے کہ عرب فنون بلاغت سے مکمل آگاہ تھے اور اس کے اسرار و رموز کو درک کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ شق القمر جیسے دیگر معجزات وقتی تھے جو ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتے تھے اور بہت جلد ایک تاریخی واقعے میں تبدیل ہوسکتے تھے جنہیں گذشتہ لوگ آئندہ کی نسلوں کے لیے نقل کرتے۔ چنانچہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ شک و تردید کی نگاہ سے دیکھے جاتےٍ۔۔۔ مگر قرآن ایک ایسا معجزہ ہے جو ابد تک باقی رہے گا اور ہردور و نسل میں ایک زندہ معجزہ کے طور پر موجود ہے۔

ہم آئندہ ابحاث میں قرآن کے علاوہ دیگر معجزات پر تفصیلی بحث کریں گے اور ان اہل قلم ہم عصروں کا محاسبہ کریں گے جو معجزات کے منکر ہیں۔

۵۱

قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ

دعوتِ اسلام سے آشنا ہر عاقل اور باشعور انسان یقیناً جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اقوام عالم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور قرآن مجید کو بطور دلیل پیش فرمایا اور معجزہ قرآن کے ذریعے چیلنج کیا عرب کے تمام فصحاء و بلغاء مل کر اس کی نظیر اور مثل لاکر دکھائیں۔ اس کے بعد آپ نے رعایت دیتے ہوئے قرآن مجید کے دس سوروں کی نظیر و مثل پیش کرنے کا چیلنج دیا۔ پھر مزید رعایت دے کر آپ نے ایک سورہ پیش کرنے کا چیلنج دیا۔

چاہیے تھا کہ عرب، جن میں چوٹی کے فصحاء موجودتھے، آنحضرت کے اس چیلنج کا جواب دیتے اور امکان کی صورت میں قرآن کی نظیر پیش کرکے آنحضرت کا دعویٰ باطل کرتے۔ واقعاً حق تو یہ تھا کہ کم از کم وہ قرآن کے ایک سورہ کا مقابلہ کرتے، بلاغت میں اس کی نظیر پیش کرتے اور اس طرح ہو اس مدعیئ نبوّت کی دلیل کا توڑ فراہم کرتے جس نے اس فن میں ان کو چیلنج کیا، جس میں انہیں کمال حاصل تھا اور جسے وہ اپنا طرہ امتیاز سمجھتے تھے تاکہ تاریخ میں فتح و کامیابی کا سہرا وہ اپنے سر باندھتے اور اپنا نام ہمیشہ کے لیے زندہ کرتے۔ اس طرح ایک معمولی مقابلے کے نتیجے میں بہت سی خونریز جنگوں سے نجات مل جاتی اور بہت سا مال و دوکت بھی بچ جاتا۔ لوگ وطن سے بے وطن نہ ہوتے اور نہ انہیں سختیاں جھیلنی پڑتیں۔

مگر جب عربوں نے قرآن کی بلاغت کا بغور مطالعہ کیا تو انہیں اس کے معجزہ ہونے کا یقین آگیا۔ انہیں معلوم تھا کہ قرآن سے مقابلہ کرنے کی صورت میں انہیں حتمی شکست و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ بعض اقوام نے اس داعیِ حق کی تصدیق کی، دعوتِ قرآن کے آگے سرتسلیم خم کیا اور اسلام کا شرف حاصل کرلیا اور کچھ ل وگوں ے عناد اور تعصب کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فصاحت و بلاغت کی علمی جنگ پر مسلحانہ جنگ کوترجیح دی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن وحی الہٰی ہے۔

۵۲

ایک اعتراض اور اسکا جواب

ایک غیر ملم جاہل یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ عربوں نے قرآن کی نظیر پیش کردی تھی اور انہوں نے قرآن کا مقابلہ کرلیا تھا لیکن زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے تاریخ یہ بات ہم تک نہیں پہنچا سکی۔

اس اعتراض کے تین جواب ہیں:

i ) اگر اس قسم کا مقابلہ کرتے ہوئے قرآن کی نظیر پیش کی جاتی تو عرب اپنی محفلوں، اجتماعات اور بازاروں میں اس کا اعلان کرتے، دشمنان اسلام ہر محفل میں اس کے گن گاتے، مناسب موقع پر اس کا ذکر کرتے، ہر آنے والے کو اس کی خبر دیتے، اس کی اس طرح حفاظت کرتے جس طرح ایک مدعی اپنی دلیل و حجت کی حفاظت کیا کرتا ہے اور یہ چیز ان کے لیے اپنے سلف کی ان تواریخ اور زمانہ جاہلیّت کے اشعار سے زیادہ عزیز و قیمتی ہوتی جن سے کتبِ تواریخ اور دیوان بھرے پڑے ہیں۔ مگر قرآن کی نظیر پیش کرنے کا کوئی واقعہ نہ دیکھنے میں آیا اور نہ اس کا ذکر سننے میں آیا۔

ii ) قرآنِ کریم نے عربوں کو ہی چیلنج نہیں کیا، پوری انسانیّت بلکہ تمام جنّ و انس کو یہ چیلنج کیا تھا:

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ) (۱۷:۸۸)

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر (ساری دنیا جہان کے) آدمی اورجنّ اس بات پر اکٹھے ہوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں (غیر ممکن) اس کے برابر نہیں لاسکتے۔ اگرچہ اس کوشش میں ا یک کا ایک مددگار بھی بنے۔،،

۵۳

تاریخ شاہد ہے کہ نصاریٰ اور دوسرے دشمنان اسلام۔ رسول اسلام ، قرآن کریم اور دین اسلام کو ان کے مقام سے گرانے کے لیے بے تحاشا سرمایہ خرچ کر رہے ہیں اور یہ کام ہر سال بلکہ ہر مہینے ہو رہا ہے۔ اگر قرآنِ کریم کے ایک سورہ کا بھی مقابلہ ممکن ہوتا تو یہ ان کے لیے ایک مضبوط و محکم دلیل ہوتی، وہ اس کی مدد سے جلد اپنی آرزو پوری کرسکتے تھے۔ اتنا سرمایہ خرچ کرنے اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کی انہیں ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی:

( يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ) ۶۱:۸

''یہ لوگ اپنے منہ سے (پھونک مارکر) خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، حالانکہ خدا اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، اگرچہ کفّار برا ہی (کیوں نہ) مانیں۔،،

iii ) عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ جب کسی شخص کا واسطہ طویل عرصے تک کسی فصیح و بلیغ کلام سے رہا ہو اور ایک مدّت تک اس نے اس کی خدمت کی ہو ہو اس کی مثل یا کم از کم فصاحت و بلاغت میں اس کے قریب قریب اپنا کلام بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

لیکن قرآن کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں کیا گیا کیوں کہ انسان قرآن کو کتنا ہی زیادہ پڑھ لے اور اس کی خصوصیّات پر غور و خوض کرے، وہ اس کی معمولی سی جھلک بھی پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے اس سے ہم لازماً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب، تعلیم و تعلّم کے عام اسالیب سے مختلف ہے۔

۵۴

اگر قرآن کریم رسول اسلام کا اپنا بنایا ہوا کلام ہوتا تو آپ کے خطبوں اور جملوں میں کہیں نہ کہیں قرآن کریم کے اسلوب بیان کا عکس نظر آتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اقوال کے ایک خاص انداز ہے جو قرآن کریم کے اسلوب سے یکسر مختلف ہے۔

اگر آپ کے کلام میں قرآن کریم کے مشابہ کوئی چیز ہوتی تو وہ مشہور ہوجاتی۔ خصوصاً دشمنان اسلام کی زبانوں اور کتب کے ذریعے، جو ہر طریقے سے اسلام کو کمزور اور بدنام کرنے کے درپے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ عام مروّج بلاغت کی مخصوص حدود ہیں جن سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک بلیغ عربی شاعر یا نثر نگار ہے، لیکن وہ صرف ایک یا دو پہلوؤں پر بلاغت آمیز کلام پیش کرسکتا ہے۔ مثلاً وہ شجاعت و بہادری کے موضوع پر توبلیغ کلام پیش کرسکتا ہے مگر مدح و تعریف کے موضوع پر ویسا بلیغ کلام پیش کرنے سے قاصر ہے یا مرثیہ کے موضوع پر تو بلیغ کلام پیش کرسکتا ہے لیکن غزل کے عنوان سے ویسا کلام پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جبکہ قرآن کریم میں متعدد موضوعات اور مختلف فنون کا ذکر ہے اور تمام موضوعات کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ جس کی نظیر لانے سے دنیا قاصر ہے اور یہ کام بشر کے لئے ناممکن ہے۔

۵۵

قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ

اب تک ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی نبی کی نبوّت کی تصدیق اور اس پر ایمان لانا اس معجزے پر منحصر ہے جسے نبی اپنے دعوےٰ کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چونکہ گذشتہ انبیاء (علیٍھم السلام) کی نبوّتیں انہی ادوار اور انہی نسلوں کے لیے مختص تھیں اس لیے حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ ان معجزوں کی مدّت محدود ہوتی۔ اس لیے کہ وہ معجزات محدود دور نبوست کی نشانی تھی۔ اس زمانے میں بعض لوگ تو خود ان معجزات کا مشاہدہ کرتے اور ان پر حجّت تمام ہو جاتی اور بعض لوگوں کے لیے عینی شاہدان معجزوں کو تواتر سے پیش کرتے جس سے ان پر بھی حجّت تمام ہوجاتی تھی۔

لیکن ایک ابدی شریعت کے لیے شاہد کے طورپر پیش کیے جانے والا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے کیونکہ اگر معجزہ کی مدّت محدود ہوگی تو آنے والی نسل اس کا مشاہدہ نہ کرسکیں گی اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خبر متواتر کا سلسلہ بھی ختم ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں آئندہ نسلوں کو اس نبوّت کی صداقت کا علم حاصل نہیں ہوسکے گا۔ ایسی صورت میں اگر آنے والی نسلوں کو نبوّت پر ایمان لانے کا مکلّف بنایا جائے تو یہ ایک ناممکن امر کا مکلّف بنانے کے مترادف ہے اور یہ محال و ممتنع ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی محال امر کا مکلّف بنائے۔

۵۶

پس معلوم ہوا کہ دائمی نبوّت کا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک دائمی اور ابدی معجزہ کی صورت میں بھیجا تاکہ یہ ایک ابدی اور دائمی صداقت کا شاہد بن سکے اور جس طرح یہ گذشتہ لوگوں کے لیے حجّت تھا سای طرح یہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی حجّت قرار پائے۔

ہم گذشتہ مباحث سے دو نتیجوں پر پہنچے ہیں:

( i قرآن کریم انبیاء ما سلف (علیہم السلام) کے تمام معجزات اور خود خاتم الانبیاء (ص) کے باقی تمام معجزوں پر فوقیت رکھتا ہے، اس لیے کہ قرآن کریم ہمشیہ کےلئے باقی ہے اور اس کا اعجاز دائمی ہے جسے تمام نسلیں سن سکتی ہیں اور یہ سب کے لیے حجت ہے۔

ii ) گذشتہ شریعتوں کی مدت ختم ہوگئی، کیوں کہ ان کی حجت اور دلیل (معجزہ) بھی ختم ہوچکی ہے جس پر ان شریعتوں کی صداقت مبنی تھی۔(۱)

یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کو اس وجہ سے بھی گذشتہ انبیاء کے معجزات پر برتری حاصل ہے کہ قرآن کریم نے انسان کی ہدایت(۲) اور کمال کی آخری منزل تک اس کی رہنمائی کی ضمانت دی ہے۔

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۴ میں مولف اور ایک یہودی عالم کے درمیان ہونے والا مباحثہ ملاحظہ فرمائیں۔

(۲) وضاحت کے لیے اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر۵ ملاحظہ فرمائیں۔

۵۷

قرآن کریم ہی وہ رہنما ہے جس نے ان عربوں کی ہدایت کی جو ظالم، سرکش، بدترین عادات کے خوگر اور بتوں کے پرستار تھے۔ جو علوم و معارف اور تزکیّہ ئ نفس سے عاری تھے اورداخلی جنگ و جدال اورجاہلیت پر مبنی فخر و مباھات میں مصروف رہتے تھے۔ یہی عرب ایک قلیل مدّت میں ایک ایسی اُمّت بن گئے جس کی ثقافت عظیم اور تاریخ رشن و درخشاں ارو جو انسانی عادادت و اخلاق سے آراستہ ہوچکی ہے؟

تاریخ اسلام اور راہ اسلام میں جام شہادت نوش کرنے والے اصحاب پیغمبر کے حالاتِ زندگی کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو اس پر قرآنی ہدایت و رہبری کی عظمت اور اس کے حیرت انگیز اثرات عیاں ہوں گے، اسے معلوم ہوگا کہ قرآن نے ہی انہیں جاہلیت کی پست زندگی سے نکال کر علم و کمال کے بلند مراتب پر فائز کیا اور انہیں ایسے فداکار انسان بنایا جو دین و شریعت کی راہ میں جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور جنہیں اسلام کے مقابلے مںی مال و دولت اور اہل و عیال کی پرواہ نہیں ہوتی۔

جنگ بدر کے آغاز میں مسلمانوں سے مشورہ کے موقع پر جناب مقدار نے رسولِ خد کو جواب دیا وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے فرمایا:

''یا رسول الله امض لما امرک الله فنجن معک، و الله لانقول کما قالت بنو اسرائیل لموسی: اذهب انت و ربک فقباتلا انا ههنا قاعدون، و لکن اذهب انت و ربک فقاتلا انا معکما مقاتلون، فوالذی بعثک بالحق لوسرت بنا الی وبرک الغماد ۔یعنی مدینة الحبشة ۔لجالدنا معک من دونه حتی تبلغه ۔فقال له رسول الله خیراً، و دعا له بخیر،، (۱)

''یا رسول اللہ! خدا نے آپ کو جس مشن کا حکم دیا ہے اسے کرگزریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی مانند نہیں ہےں کہ جنہوں نے جناب موسیٰ سے کہا تھا: ''آپ خودجائیں اور اپنے خدا کی مدد سے جنگ کریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔،، لیکن ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ جائیں اور

___________________

۱) تاریخ طبری، غزوہئ بدر، ج ۲، ص ۱۴۰، طبع دوم۔

۵۸

اپنے ربّ کی مدد سے جنگ کریں ہم بھی آپ کے ہمراہ جنگ کریں گے۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا، اگر آپ ہمیں برک غماد (حبشہ شہر) بھی لے چلیں تو بھی ہم آپ کے ہمراہ جائیںگے، یہاں تک کہ آپ منزل مقصود پر پہنچ جائیں یہ کلام سننے کے بعد رسول اللہ نے جناب مقداد کے لیے دعائے خیر فرمائی۔،،

مسلمانوں میں سے ایک ہے جو اپنے عزم و عقیدہ، حق کو زندہ رکھنے اور باطل کو مٹانے کے لیے جانثاری کااظہار کررہا ہے، خلوص کے ایسے پیکر اور عقیدت مند مسلمانوں میں اور بہت پائے جاتے ہیں۔

ہاں! قرآن حکیم ہی وہ سراپا ہدایت ہے جس نے بت پرستوں کے دلون کو منور کیا جو خانہ جنگی اور جاہلیت کے فخر و مباھات میں الجھے ہوئے تھے اور ان لوگوں کو کفار کے مقابلے میں فولاد کی طرح سخت اور مومنین کے مقابلے میں ابریشم کی طرح نرم (رحمدل) بنایا۔ ان کیایسی تربیت کی کہ یہ اپنے ساتھیوں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے لگے۔

اسلام کی بدولت اسّی سال میں مسلمانوں کو اتنے ممالک پر فتح نصیب ہوئی جو دوسروں کو آٹھ سو سال میں بھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ جو شخص اصحاب پیغمبر کی سیرت اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی سیرت کا موازنہ کرے وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس (فتح) کا ایک الہٰی راز ہے جو اس کتابِ الہٰی میں مضمر ہے، جس نے راسخ عقیدہ اور اصولوں کے ثبات سے دلوں اور روح کو پاکیزگی دی اور نفوس پر نور افشانی کی۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لوگ سختی کے موقع پر انبیاء کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور جہاں انہیں موت نظر آتی وہاں ان کا ساتھ نہ دیتے تھے، اسی لیے گذشتہ انبیاء اپنے دور کی طاغوتی طاقتوں پر فتح نہ پاسکے تھے بلکہ وہ ان کے خوف سے بیابانوں اور غاروں میں جاکر پناہ لیتے تھے۔ یہ وہ دوسری خاصیت ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم کو باقی معجزات پر امتیاز حاصل ہے۔

جب بلاغت میں قرآن کریم کا الہٰی معجزہ ہونا ثابت ہوگیا تو اب یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہ رہے کہ قرآن صرف بلاغت کے پہلو سے معجزہ نہیں بلکہ کئی اور جہات سے بھی رسولِ اسلام کی نبوّت کی برہان اور دلیل ہے۔ ہم ان میں بعض جہات کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

۵۹

قرآن اور معارف

قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی تصریح کی گئی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) امّی تھے اور آپ نے کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ آپ نے اس کا اعلان اپنی قوم اور قبیلے میں فرمایا، جس میں آپ نے نشوونما پائی تھی۔ مگر کسی نے بھی آپ کے اس دعویٰ کی تردید نہیں کی اور یہ (کسی کا تردید نہ کرنا) آپ کے دعویٰ کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ آپ نے امّی ہونے کے باوجود قرآن کریم جیسی کتاب پیش کی جس کے معارف و علوم سے فلسفیوں کی عقلیں مبہوت ہیں اور ظہور اسلام سے لے کر آج تک مغربی و مشرقی مفکرّین ان کے سامنے مبہوت نظر آتے ہیں اور قرآنِ کریم قیامت تک مفکرّین کے لیے باعثِ حیرت و استعجاب رہے گا اور یہ اعجاز قرآنِ کریم کا ایک اہم اور عظیم پہلو ہے۔

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ امّی نہ تھے بلکہ آپ نے تاریخ، فنون اور دیگر معارف کی تعلیم کسی مکتب میں حاصل کی تھی تو کیا یہ لازمی نہیں ہے کہ آپ نے علوم و فنون اس دور کے ماہرین سے سیکھے ہوں جن میں آپ پھلے پھولے۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں میں پرورش پائی جو بُتوں اور اوہام کی پرستش کرتے اور خرافات پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ آپ کے کچھ ہم عصر اہلِ کتاب جو اپنے معارف، تاریخ اور احکام، حورات و انجیل سے لیتے تھے اور انہیں وحی و انبیاء کی طرف منسوب کرتے تھے۔

اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام تعلیمات اس زمانے کے علماء سے حاصل کی تھیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے اقوال و تعلیمات میں وہی عقائد چھائے ہونے چاہئیں جو آپ نے اپنے استادوں اور راہنماؤں سے سیکھے ہیں۔ حالانکہ قرآنِ کریم ہر لحاظ سے تورات و انجیل سے مختلف نظر آتا ہے۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

۴ _ انسانوں كى ہدايت تك دستيابى اور ان پر نعمت الہى كى تكميل آنحضرت (ص) كى بعثت كے اہداف سے ہے_

فولوا وجوهكم شطره و لعلكم تهتدون كما ارسلنا فيكم رسولاً اگر ''كما ارسلنا'' تبديلى قبلہ كى پيامبر اسلام (ص) كى رسالت سے تشبيہ كو بيان كررہاہو تو ''لاتم نعمتى عليكم و لعلكم تہتدون'' وجہ شبہ كا بيان ہے يعنى يہ كہ جس طرح آنحضرت (ص) ، كى بعثت بندوں پر اتمام نعمت اور انكى ہدايت كے حصول كے لئے ہے اسى طرح تبديلى قبلہ كے بھى ايسے ہى اہداف و نتائج ہيں _

۵ _ اللہ تعالى كى طرف سے انسانوں كو دى گئي نعمتيں آنحضرت (ص) كى بعثت كے بغير نامكمل تھيں _

و لاتم نعمتى عليكم و لعلكم تهتدون كما ارسلنا فيكم رسولاً يہ مطلب ماقبل مطلب كے ارتباط سے حاصل ہوتاہے_

۶ _ انبيائ( عليہم السلام) كا انتخاب خود عوام ميں سے ہونا اللہ تعالى كى نعمات ميں سے ہے _كما ارسلنا فيكم رسولاً منكم

۷_ انسانوں كے لئے آيات الہى كى تلاوت اور ان كو آلودگيوں (شرك اور ...) سے پاك كرنا پيامبر اسلام (ص) كے فرائض اور آپ (ص) كى رسالت كے اہداف ميں سے ہے _يتلوا عليكم آياتنا و يزكيكم

۸_ لوگوں كو قرآنى حقائق و معارف اور حكمت كى تعليم دينا آنحضرت (ص) كے فرائض اور آپ (ص) كى رسالت كے اہداف ميں سے ہے _و يعلمكم الكتاب و الحكمه

۹_ بشريت كو ايسے علوم و حقائق كى تعليم دينا جن تك ان كى رسائي ممكن نہيں ہے آنحضرت (ص) كے اہداف اور پروگراموں ميں سے ہے _و يعلمكم ما لم تكونوا تعلمون

۱۰_ خود كو آلودگيوں ، ناپاكيوں سے پاك كرنا، قرآن كريم كو سيكھنا ، حكمت كى تعليم حاصل كرنا اور دينى احكام و معارف كو سيكھنا نہايت ہى بلند و برتر اور قابل قدر امر ہے _كما ارسلنا فيكم رسولاً و يعلمكم الكتاب والحكمة

۱۱_ دين كے مبلغين كے بنيادى ترين فرائض اور سرفہرست امور انسانوں كو آلودگيوں سے پاك كرنا

۵۲۱

اور دينى احكام و معارف اور قرآن حكيم كى تعليم دينا ہے_يتلوا عليكم آياتنا و يزكيكم و يعلمكم الكتاب والحكمة

۱۲ _ پيامبر اسلام (ص) نے انسانوں كو دينى راہوں اور الہى معارف كى تعليم دينے كے علاوہ ديگر علوم كى بھى تعليم دي_*و يعلمكم ما لم تكونوا تعلمون ''يعلمكم'' كا تكرار اس امر كى طرف اشارہ ہے كہ پيامبر اسلام(ص) نے انسانوں كو دو طرح كے علوم كى تعليم دي_

الف) دينى علوم اور يہ جملہ''يعلمكم الكتاب والحكمة'' اس امر كى طرف اشارہ ہے _

ب) ديگر علوم اور يہ جملہ''يعلمكم ما لم تكونوا تعلمون'' اس امر كى طرف اشارہ ہے_

آيات الہى : آيات الہى كى تلاوت ۷

اقدار: قدروں كا معيار ۱۰

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نعمتيں ۴،۶

اللہ تعالى كے انبياءعليه‌السلام : ۱

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا بشر ہونا ۶; انبياءعليه‌السلام كى موقعيت ۶; انبياءعليه‌السلام كا نعمت ہونا ۶

انسان: انسانوں كو تعليم دينے كى اہميت ۷،۸; انسانوں كا تزكيہ ۷،۱۱; انسانوں كى تعليم ۹،۱۲; انسانوں كى ہدايت۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے اہداف ۷،۸،۹; آنحضرت (ص) كى بعثت كى اہميت ۵; آنحضرت (ص) كا بشر ہونا۲; آنحضرت (ص) كى تاريخ ۱; آنحضرت (ص) كى تعليمات ۹; آنحضرت (ص) كا مقام و موقعيت ۲; آنحضرت (ص) كى رسالت ۱; آنحضرت (ص) كى بعثت كا فلسفہ ۴; آنحضرت (ص) كى تعليمات كا دائرہ ۱۲; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۷،۸; آنحضرت (ص) كى رسالت كى نعمت ۳

تزكيہ : تزكيہ كى قدر و منزلت ۱۰

حكمت : حكمت كى تعليم كى قدر و منزلت ۱۰; حكمت كى تعليم ۸

دين: دين سيكھنے كى قدر و منزلت ۱۰; دين كى تعليم ۱۱

قبلہ : تبديلى قبلہ كى نعمت ۳

۵۲۲

قرآن حكيم: قرآن حكيم كى تعليم كى قدر و منزلت ۱۰ قرآن حكيم كى تعليم ۸،۱۱

مبلغين : مبلغين كى ذمہ دارى ۱۱;فعل '' اذكر'' امر كا جواب ہے لہذا ايك مقدر حرف شرط كے ساتھ مجزوم ہے _ پس يہ جملہ در حقيقت يوں بنتا ہے '' فاذكرونى ان

مسجد الحرام : مسجد الحرام كا قبلہ بننا۳

نعمت : نعمت كى تكميل ۴; تكميل نعمت كے اسباب ۵; نعمت كے درجات ۴

ہدايت: ہدايت كى اہميت ۴

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ ( ۱۵۲ )

اب تم ياد كروتا كہ ہم تمھيں ياد ركھيں اور ہماراشكريہ ادا كرو اور كفران نعمت نہ كرو(۱۵۲)

۱_ اللہ تعالى كا ذكر كرنا اور اس سے غفلت نہ كرنا ضرورى ہے_فاذكروني

۲_ اللہ تعالى كى ياد ميں رہنا اسكى عنايات اور خصوصى توجہ كو جذب كرنے كا باعث ہے_فاذكرونى اذكركم

تذكرونى اذكركم_ ميرى ياد ميں رہو اور ميرى ياد ميں رہوگے تو ميں تمہارى ياد ميں ر ہوں گا'' اللہ تعالى كا بندوں كو ياد كرنا ان پر عنايت و توجہ كے معنى ميں ہے _

۳ _ بارگاہ پروردگار ميں شكرگزارى ضرورى ہے _واشكروالي

۴ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت اور بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف قبلہ كى تبديلى اللہ تعالى كى مسلمانوں پر ايسى نعمتيں ہين جن كے احترام ميں مسلمانوں كو كيلئے ضرورى ہے كہ ہميشہ اللہ تعالى كى ياد ميں رہيں _

فولوا وجوهكم شطره كما ارسلنا فيكم رسولاً فاذكروني يہ مطلب حرف ''فا''سے متضاد ہے

۵۲۳

'اذكروني'' كو مذكورہ نعمتوں (قبلہ كى تبديلى اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت )پر تفريع كررہا ہے_

۵ _ آنحضرت (ص) كى بعثت اور تبديلى قبلہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں سے ياد اور توجہ كا ايك نمونہ ہے *

و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره كما ارسلنا فيكم رسولاً فاذكرونى اذكركم مذكورہ مطلب جملہ'' فاذكروني ...'' كى بعثت پيامبر(ص) اور تبديلى قبلہ پر تفريع سے حاصل ہونے والا ايك دوسرا احتمال ہے يہكه''فاذكرونى اذكركم كما ذكرتكم بارسال الرسول و تحويل القبلة ''

۶ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت اور تبديلى قبلہ ايسى دو نعمتيں ہيں جو بارگاہ ايزدى ميں شكر گزاى كے لائق ہيں _

فولوا وجوهكم شطره كما ارسلنا فيكم رسولاً و اشكروا لي شكر نعمت كے مقابلے ميں ہوتاہے اور ماقبل آيات كى روشنى ميں يہاں نعمت كا مورد نظر مصداق رسالت اور تبديلى قبلہ ہے _

۷_ اللہ تعالى كى نعمتوں كے كفران سے اجتناب ضرورى ہے _و لا تكفرون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' لا تكفرون'' در اصل يوں ہو ''و لا تكفروا نعمتي''

۸_ ياد خدا سے غفلت اور اسكى نعمات كى ناسپاسى تعمت كے مقد ہونے كى وجہ سے و ناشكرى اللہ تعالى كے انكار كے برابر ہے _فاذكرونى و اشكرولى و لا تكفرون اللہ تعالى كے شكر و سپاس ادا كرنے كا حكم دينے كے بعد( لا تكفرون) اللہ تعالى كے كفر و انكار سے نہى كرنے كا ذكر كرنا اس مطلب كو بيان كرتاہے كہ ياد خدا سے غفلت اوراسكى ناشكرى انسان كو خدا كے انكار اور كفر كى طرف كھينچ لے جاتى ہے يا يہ كہ يہ خود اللہ كے كفر اور انكار كے مساوى ہے _

۹_ ابوعمرو زبيرى امام صادقعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ حضرتعليه‌السلام نے فرمايا'' الوجه الثالث من الكفر كفر النعم و ذلك قوله تعالى فاذكرونى اذكركم و اشكروالى و لا تكفرون ...''(۱) '' كفر كى اقسام ميں سے تيسرى قسم كفر ان نعمت ہے اسى بارے ميں كلام خداوندى ہے... فاذكرونى اذكركم و اشكروالى و لا تكفرون ''

۱۰_ محمد بن مسلم امام باقرعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا''تسبيح فاطمة عليه‌السلام من ذكر الله الكثير الذى قال اذكرونى اذكركم (۲) تسبيح حضرت فاطمةعليه‌السلام ذكر كثير ہے جو اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے ''ميرا ذكر كرو تو ميں تمہارا ذكركروں گا''_

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۳۹۰ ح۱ ، نور الثقلين ج/۱ص ۱۴۰ ح ۴۳۰_ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۷ ح ۱۲۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۰ ح ۴۲۹_

۵۲۴

۱۱_''وروى ان رسول الله(ص) خرج على اصحابه فقال: قال سبحانه: فاذكرونى اذكركم يعنى اذكرونى بالطاعة والعبادة اذكركم بالنعم والاحسان والرحمة والرضوان (۱) اللہ تعالى كے اس كلام ''اذكرونى اذكركم'' كے بارے ميں رسول خدا (ص) سے روايت ہے كہ اس مراد يہ ہے كہ تم اطاعت اورعبادت كے ساتھ مجھے ياد كرو تو ميں تمہيں نعمات، احسان ، رحمت اور رضوان كے ساتھ ياد كروں گا''_

۱۲ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ رسول اسلام (ص) نے ارشاد فرمايا''ان الملك ينزل الصحيفة اول النهار و اول الليل يكتب فيها عمل ابن آدم فاملوا فى اولها خيراً و فى آخرها خيراً فان الله يغفر لكم ما بين ذلك انشاء الله فان الله يقول اذكرونى اذكركم'' (۲) ''فرشتہ دن كے شروع اور رات كے آغاز ميں انسان كا نامہ اعمال لاتا اور اس ميں بنى آدم كے اعمال كو تحرير كرتاہے پس كوشش كرو كہ دن اور رات آغازميں اچھى املاء (تحرير) لكھاؤ بےشك اللہ تعالى اس كے مابين جو كچھ (گزرا) ہے معاف فرمائے گا انشاء اللہ كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے تم مجھے ياد كرو ميں تمہيں ياد كرونگا_''

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت ۱۱

اللہ تعالى : رحمت الہى ۱۱; اللہ تعالى كو جھٹلانے كى بنياد۸; عنايات الہى كو جذب كرنے كى بنياد۲; نعمات الہى ۴

انسان: انسانى عمل كا تحرير ہونا ۱۲

بندگان خدا: اللہ تعالى كا بندوں كا ذكر كرنا ۵; بندوں الله كى طرف سے كے ذكر كے اسباب۲،۱۱

پيامبر اسلام (ص) : بعثت پيامبر (ص) كى اہميت ۶; بعثت پيامبر (ص) ۵; بعثت پيامبر (ص) كى نعمت ۶; رسالت پيامبر (ص) كى نعمت ۴

حضرت فاطمہعليه‌السلام : حضرت فاطمہعليه‌السلام كى تسبيح ۱۰

ذكر: ذكر الہى كے نتائج ۲; ذكر الہى كى اہميت۴; ذكر الہى ۱۰،۱۱

روايت: ۹،۱۰،۱۱،۱۲

شكر: شكر الہى كى اہميت ۳; شكر نعمت ۴،۶

____________________

۱) عدةالداعى ص ۲۳۸ ، بحار الانوار ج/۹۰ ص ۱۶۳ ح ۴۲_

۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۷ ح ۱۱۹، مجمع البيان ج/ ۱ ص ۴۳۱_

۵۲۵

عبادت: عبادت الہى ۱۱

غفلت : اللہ تعالى سے غفلت كے نتائج ۸ غفلت سے اجتناب ۱

قبلہ : تبديلى قبلہ كى اہميت ۶; تبديلى قبلہ ۵; تبديلى قبلہ كى نعمت ۴،۶

كفر: كفر كى اقسام ۹

كفران: كفران نعمت كے آثار۸; كفران نعمت سے اجتناب ۷; كفران نعمت ۹

مسلمان: مسلمانوں كى ذمہ دارى ۴

ملائكہ : ملائكہ كا اعمال تحرير كرنا ۱۲;ملائكہ كى اہميت و كردار۱۲

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ( ۱۵۳ )

ايمان والو صبر اور نماز كے ذريعہمدد مانگو كہ خدا صبر كرنے والوں كے ساتھہے (۱۵۳)

۱ _ مومنين كو اللہ تعالى كا فرمان اور نصيحت ہے كہ صبر كريں اور نماز قائم كريں _يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت پہ ايمان لانا مومنين كے لئے مشكلات اور پريشانيوں كا باعث ہے _

يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة آنحضرت (ص) كى رسالت كے بيان كرنے كے بعد مومنين كو مخاطب كركے صبر اور نماز كى نصيحت كرنا اورانہيں مدد طلب كرنے كا فرمان دينا در اصل مخاطبين كو يہ نكتہ القا كرنا مقصود ہے كہ آنحضرت (ص) كى رسالت پر ايمان كے باعث مشكلات اور پريشانيوں سے دوچار ہونا پڑے گا_

۳ _ ايمان كى راہ ميں آنے والى مشكلات اور پريشانيوں سے نمٹنے كے لئے كاميابى و كامرانى كے دو راستے ہيں ايك صبر و استقامت اختيار كرنا اور دوسرے

۵۲۶

نماز قائم كرنا _يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۴ _ عنايات و نصرت الہى كو جذب كرنے كا عامل صبر اور نماز ہے _يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۵ _ راہ ايمان ميں صبر و استقامت كرنے والوں كا اللہ تعالى ياور و مددگار ہے_ان الله مع الصابرين

۶ _ مومنين كے لئے ياد خدا ميں رہنے اور ياد خدا سے غفلت كے خاتمے ميں صبر اور نماز مددگار ہيں _*فاذكرونى اذكركم يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة يہ مطلب اور اسكے بعد والا مطلب اس آيت اور اس سے قبل والى آيت ميں ارتباط كو بيان كررہے ہيں يعنى مورد بحث آيہ مجيدہ ايك راہنمائي ہے كہ ياد خدا سے غفلت كو كس طرح دلوں سے اكھاڑا جاسكتاہے اور اسكے مقابل شكر الہى كے جذبہ كو كيسے دلوں ميں جگہ دى جائے_

۷_ اللہ تعالى كے حضور شكر گزارى اور اس كے كفر سے دورى كے جذبے كو پيدا كرنے كے لئے صبر اور نماز دو كامياب عوامل ہيں _*واشكروالى و لا تكفرون يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۸_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل '' و استعينوا بالصبر'' قال الصبرالصيام (۱) اللہ تعالى كے اس كلام ''واستعينوا بالصبر'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا صبر سے مراد روزہ ہے _

اللہ تعالى : الہى امداد ۵; الہى نصيحتيں ۱; اللہ تعالى كى حمايت و عنايت جذب كرنے كے عوامل ۴

ايمان : پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كے نتائج ۲

ذكر: ذكر خدا كى بنياد۶

روايت: ۸

روزہ : روزہ كى اہميت ۸

سختى : سختى كو آسان بنانے كى روش ۳

شكر : شكر كا جذبہ پيدا كرنا ۷

____________________

۱) كافى ج/ ۴ ص ۶۳ ح ۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۷۶ ح ۱۸۲_

۵۲۷

صابر لوگ: صابرين كى امداد ۵

صبر: صبر كے نتائج ۳،۴،۶،۷; صبر كى اہميت ۱

غفلت : غفلت كو دور كرنے كى بنياد ۶

كاميابى : كاميابى كے عوامل ۳

كفر: كفر سے اجتناب كے اسباب ۷

مدد طلب كرنا : روزہ سے مدد طلب كرنا ۸

مومنين : مومنين كى شرعى ذمہ دارى ۱; مومنين كو نصيحت ۱; مومنين كى مشكلات ۲

نماز : نماز كے نتائج ۳، ۴،۶ ،۷; نماز كى اہميت ۱

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ ( ۱۵۴ )

اور جو لوك راہ خدا ميں قتلہوجاتے ہيں انھيں مردہ نہ كہو بلكہ وہزندہ ہيں ليكن تمھيں ان كى زندگى كا شعورنہيں ہے (۱۵۴)

۱ _ راہ خدا ميں قتل ہونے والے زندہ ہيں اور خصوصى زندگى كے مالك ہيں _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء شہداء كے علاوہ ديگر انسان بھى عالم برزخ كى زندگى ركھتے ہيں ليكن اسكے باوجود اللہ تعالى نے شہداء كے لئے زندگى كا ذكر فرمايا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ شہداء كى زندگى خاص طرح كى ہے _

۲ _ اللہ كى راہ ميں قتل ہونے والوں كو مردہ نہيں كہنا چاہيئے اور نہ ہى انہيں مردوں ميں شمار كرنا چاہيئے _

و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

۵۲۸

۳ _ دشمنان دين سے بر سر پيكار ہونا اللہ تعالى كے نزديك اعلى اقدار ميں سے ہے _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء شہداء خصوصى حيات كے مالك ہيں اس حقيقت كو بيان كرنے كا ہدف جہاد كى ترغيب دلانا اور يہ بيان كرناہے كہ يہ اعلى ترين اقدار ميں سے ہے _

۴ _اعمال كى قدر و قيمت كا معيار فى سبيل اللہ ہونا ہے _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله

۵ _ شہداء زندہ ہيں ليكن افكار اس امر كو درك كرنے سے عاجز ہيں _بل احياء و لكن لا تشعرون

۶_ عالم ہستى ميں ايسے حقائق بھى ہيں جو انسانى افكار و شعور سے ماوراء ہيں _بل احياء و لكن لا تشعرون

۷_ عالم برزخ اور برزخى زندگى كا وجود عالم ہستى كے حقائق ميں سے ہے _ولا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

۸ _ راہ ايمان كى مشكلات ميں سے ايك اللہ كى راہ ميں جہاد، نبرد آزمائي اور اسكى سختياں ہيں جنكے لئے صبر و استقامت اور نماز سے مدد لينى چاہيئے اور اپنے ايمان پر ثابت قدم رہنا چاہيئے_ استعينوا بالصبر والصلوة و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات

۹_ شہداء كو خصوصى زندگى عطا كرنا راہ ايمان ميں صبر و استقامت كرنے والوں كے لئے اللہ تعالى كى حمايت و نصرت كا ايك جلوہ ہے _ان الله مع الصابرين _ و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات

۱۰_ قرآن حكيم كى روشوں ميں سے ايك يہ ہے كہ اہل ايمان كو الہى ذمہ داريوں كى ادائيگى كى طرف ترغيب دلانے كے ساتھ ساتھ ان كى فكرى بنيادوں كو مضبوط كرے _و لاتقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

انسانوں كو ايمان كى راہ ميں صبر و استقامت اور سختيوں كو برداشت كرنے كى دعوت جسكا واضح نمونہ جہاد اور قتل ہونا ہے _ كے بعد اللہ تعالى اس كا حقيقت كو بيان فرمانا كہ فى سبيل اللہ قتل ہونے والے خصوصى زندگى كے حامل ہيں شہداء كے فنا اور نابود ہونے كے نظريئے كى نفى كرتا ہے تا كہ اہل ايمان فرامين الہى ( راہ ايمان ميں صبر واستقامت كا مظاہرہ كرنا اور ...) كو بہتر طور سے انجام ديں _

۱۱ _ انسان كا اپنے اعمال پر قائم رہنا اور استقامت كا مظاہرہ كرنا اسكے افكار و نظريات سے مطابقت كے ذريعے ممكن ہے _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

مذكورہ مطلب كہ مورد بحث آيہ مجيدہ ميں اعمال كى بنياديں فراہم كرنے كے ليئے نظريات كو پيش كيا گياہے_

۵۲۹

اقدار:۳ قدروں كا معيار ۴

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى عنايات۹; اللہ تعالى كى حمايت كے مظاہر ۹; اللہ تعالى كى معيت ۹

امداد طلب كرنا : صبر سے امداد طلب كرنا۸; نماز سے مدد طلب كرنا ۸

ايمان : ايمان ميں استقامت ۸; ايمان كى راہ ميں سختياں ۸

تكليف شرعي: تكليف شرعى كى تشويق ۱۰

جہاد: جہاد كى قدر و منزلت ۳; جہاد كى سختياں ۸

حقائق : غير قابل ادراك حقائق ۵،۶

خلقت: عالم خلقت كے حقائق كا ادراك ۶; عالم خلقت كے حقائق ۷

حيات: برزخى زندگى كى حقانيت ۷

سبيل اللہ : سبيل اللہ كى اہميت ۴

سختى : سختى كو برداشت كرنا ۸; سختى كو آسان كرنے كى روش ۸

شہداء : شہداء كى زندگى كا ادراك ۵; شہداء كى زندگى ۱،۲،۹;شہداء كے درجات ۱،۲

صابرين : صابرين كى حمايت ۹

صبر: صبر كى اہميت ۸

عالم برزخ : عالم برزخ كى حقانيت ۷

عمل: عمل كى اہميت ۴; عمل كے تسلسل كے عوامل ۱۱

فكر: فكر و عمل كى نسبت ۱۱

قرآن كريم : قرآن كى روش بيان ۱۰

نماز : نماز كى اہميت ۸

۵۳۰

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ( ۱۵۵ )

اور ہم يقينا تمھيں تھوڑےخوف تھوڑى بھوك اور اموال ، نفوس اورثمرات كى كمى سے آزمائيں گے اور اےپيغمبر آپ ان صبر كرنے والوں كو بشارتديديں (۱۵۵)

۱ _ مومنين كى آزمائش اللہ تعالى كى حتمى سنتوں (روشوں ) ميں سے ہے _و لنبلونكم ''بلائ'' كا معنى آزمائش ہے فعل ''لنبلون'' ميں لام قسم اور نون تاكيد اسكے استمرار اور حتمى ہونے كو بيان كررہے ہيں _

۲ _ اہل ايمان كو خوف اور بھوك ميں مبتلا كركے اللہ تعالى انہيں آزماتاہے _و لنبلونكم بشيء من الخوف والجوع

۳ _ و ہ امور جن ميں مالى ، جاني، كمائي كا نقصان اور نعمتوں كى كمى ہو ان ميں مبتلا كركے اللہ تعالى مومنين كى آزمائش كرتاہے _و لنبلونكم بشيء من نقص من الاموال والانفس والمثرات

۴_ دشمنان دين سے نبرد آزمائي اور بر سر پيكار ہونا اور اس كے نتائج ( خوف، بھوك، مالى و جانى نقصان اورنعمتوں كى كمي) راہ ايمان كى مشكلات ميں سے ہيں _لا تقولوا لمن يقتل و لنبلونكم بشيء من الخوف

جہاد اور فى سبيل اللہ قتل ہونے كے بعد خوف، بھوك اور سے آزمائش كا بيان كرنا اس مطلب كى حكايت كرتاہے كہ ''الخوف و ...'' سے مراد وہ خوف اور بھوك ہيں جو دشمنان دين كے ساتھ معركہ آرائي كى وجہ سے پيدا ہوتے ہيں يعنى يہ كہ رسالت پر ايمان كا نتيجہ دشمنان دين سے صف آرائي اور اسكے نتائج خوف، بھوك اور ہيں _

۵ _ اللہ كى راہ ميں قتل ہونے والے ايك ايمانى معاشرے كے لئے امتحان كا ذريعہ ہيں _و لنبلونكم بشيء و نقص من الاموال والانفس ماقبل آيت كى روشنى ميں '' نقص الانفس'' كا مورد نظر مصداق راہ خدا ميں قتل ہونے والے افراد ہيں _

۶_ سالكان راہ ايمان كے لئے خوف اور بھوك كى مختلف اقسام، مالى و جانى نقصانات اور نعمتوں كو برداشت

كرنے كے لئے بہترين اور كارآمد وسيلہ صبر و استقامت اور نماز كا قيام ہے_يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر و لنبلونكم بشيء من الخوف والثمرات

۵۳۱

۷_ راہ ہدايت كو پيش كرنے كے ساتھ ساتھ مشكلات اور پھر ان مشكلات پر قابو پانے كا كامياب راستہ بيان كرنا قرآن حكيم كى روشوں ميں سے ايك ہے_يا ايها الذين آمنوا لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين

آيات كے اس حصہ ميں راہ ہدايت جس سے مراد ايمان بر رسالت اور ...ہے كو پيش كرنے كے ساتھ ساتھ اللہ تعالى نے اس راہ ميں پيش آنے والى مشكلات كا ذكر فرماياہے اسى طرح ان پر قابو پانے كے لئے نماز اور صبر سے امداد حاصل كرنے كا امر فرماياہے_

۸_ معاشرے كے منتظمين اور تربيت كرنے والوں كو چاہيئے كہ مجوزہ راستوں ميں پيش آنے والى مشكلات كو ان راستوں پر چلنے والوں كے لئے بيان كريں اور ان پر كاميابى كے اسباب كو بھى بيان كريں _و لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين مورد بحث آيہ مجيدہ اور ماقبل آيات مباركہ سے جوبات سامنے آتى ہے وہ صحيح راہ، اس ميں پيش آنے والى مشكلات اور ان پر كاميابى كے طريقے كو بيان كرنا ہے يہ چيز سب تربيت كرنے والوں اور منتظمين كے لئے ايك درس ہے كہ فقط صحيح راہ كو بيان كرنے پر اكتفا نہ كريں بلكہ مشكلات اور ان پر كاميابى كے راستوں كو بھى بيان كريں _

۹_ الہى امتحانات اور آزمائشيں انسانوں كے لئے طاقت فرسا اور ناقابل برداشت نہيں ہيں _و لنبلونكم بشيء من الخوف مفسرين نے وضاحت كى ہے كہ '' شيئ'' كو نكرہ استعمال كرنا اسكى كمى كو بيان كرنے كے لئے ہے يعنى '' بشيء يسير من الخوف ...'' الہى امتحانات كے موارد كو ناچيز اور كم شمار كرنا اس امر كى طرف اشارہ ہے كہ الہى آزمائشيں طاقت فرسا نہيں ہوتيں _

۱۰_ اللہ تعالى جن امور سے مومنين كو آزماتاہے مختلف، متنوع اور گوناگوں ہيں _و لنبلونكم بشيء من الخوف والجوع و نقص من الاموال والانفس والثمرات

۱۱ _ مومنين كو صبر كرنے والے اور صبر نہ كرنے والوں ميں تقسيم كرنا قرآن كريم ميں اہل ايمان ككى درجہ بنديوں ميں سے ہے _و بشر الصابرين

۱۲ _ وہ مومنين جو راہ ايمان كى سختيوں اور دشواريوں كو برداشت كرتے ہيں ان كو عظيم اجر ملے گا_و بشر الصابرين يہ جو بشارت كے متعلق كا ذكر نہيں ہوا اور صابرين كے اجر كو مشخص نہيں كيا گيا اس امر كى طرف اشارہ ہے كہ يہ اجر بہت گراں قدر اور عظيم ہے (الميزان سے اقتباس)_

۵۳۲

۱۳ _ پيامبر اسلام(ص) كى ذمہ دارى ہے كہ صابرين كے لئے الہى بشارتوں كا اعلان فرمائيں _و بشر الصابرين

۱۴ _ دينى قائدين كو چاہيئے كہ صابرين كو خوشخبرى ديں كہ وہ الہى رحمتوں سے بہرہ مند ہوں گے_و بشرالصابرين

۱۵_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''من صبر كرهاً ...نصيبه ماقال الله عزوجل ''و بشر الصابرين'' اى بالجنة والمغفرة (۱) جو كوئي مشكلات ميں صبر كرے تو اسكى جزا مغفرت اور جنت ہے يہى ہے جو اللہ تعالى كے كلام '' و بشر الصابرين '' ميں خوشخبرى دى گئي ہے_

۱۶_قال رسول الله (ص) يابن مسعود قول الله '' و لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين'' قلنا يا رسول الله (ص) فمن الصابرون ؟ قال الذين يصبرون على طاعة الله و اجتنبوا معصيته الذين كسبوا طيباً و انفقوا قصداًو قدموا فضلاً فافلحوا (۲) رسول اسلام (ص) سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے ارشاد فرمايا اے ابن مسعود اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے ''و لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين'' ہم نے آنحضرت (ص) سے عرض كيا كہ صابرين كون لوگ ہيں ؟ تو آپ (ص) نے فرمايا وہ لوگ ہيں جو اللہ كى اطاعت پر صبر كريں ، گناہوں سے دورى اختيار كريں ، پاكيزہ روزى كمائيں ، خرچ كرنے ميں ميانہ روى اختيار كريں اور جو ان كى در آمد ميں اضافہ ہو اسكو انفاق كريں پس يہى لوگ ہيں جو سعادت مند ہيں _

ابتلاء ( آزمائش ) : خوف كے ذريعے ابتلاء ۲،۴; جہاد كے ذريعے ابتلاء ۴; جانى نقصان كے ذريعے آزمائش ۴; مالى نقصان كے ذريعے آزمائش ۴; نعمتوں كى كمى كے ذريعے آزمائش ۴; بھو ك كے ذريعے آزمائش ۲،۴

اجر: اجر كے درجات ۱۲

اللہ تعالى : و بخشش الہى ۱۵; الہى امتحانات ۱، ۲ ، ۳ ، ۱۰; الہى بشارتيں ۱۳،۱۵; الہى سنتيں ''روشيں '' ۱; الہى امتحانات كا آساں ہونا ۹

الہى سنتيں (روشيں ): اللہ تعالى كے امتحان كى سنت ۱

امتحان : امتحان كا وسيلہ ۲،۳،۵; جانى نقصان كے ذريعے امتحان ۳; مالى نقصان امتحان ۳; شہداء كے ذريعے امتحان ۵; نعمتوں كى كمى كے ذريعے امتحان ۳;امتحانى ذرائع ميں تنوع ۱۰

انفاق ( خرچ كرنا ) : انفاق ميں اعتدال۱۶

____________________

۱) مصباح الشريعة ص ۱۸۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۳ ح ۴۴۹_ ۲) مكارم الاخلاق ص ۴۴۶ ، بحار الانوار ج/ ۷۴ ص ۹۳ ح/۱_

۵۳۳

ايمان : ايمان كى سختياں ۴،۱۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ۱۳

دينى قائدين : دينى قائدين كى ذمہ دارى ۱۴

رحمت : رحمت كى بشارت ۱۴; وہ افراد جن كے رحمت شامل حال ہو ۱۴

روايت:۱۵،۱۶

سختياں : سختيوں ميں صبر كى اہميت ۱۲; سختيوں ميں صبر كا اجر ۱۵; سختيوں كو آسان بنانے كى روش ۶،۷

روزي: حلال روزى كمانا ۱۶

سعادت مند لوگ : ۱۶

صابرين: صابرين كو بشارت ۱۳،۱۴; صابرين سے مراد كون لوگ ہيں ۱۶

صبر: صبر كے نتائج ۶; اطاعت ميں صبر ۱۶

كاميابي: كاميابى كى روش كا بيان كرنا ۷; كاميابى كے اسباب كا بيان ۸

گناہ : گناہ سے اجتناب ۱۶

مشكلات: مشكلات بيان كرنے كى اہميت ۸

معاشرہ : دينى معاشرے كا امتحان ۵;معاشرے كے قائدين كى ذمہ دارى ۸

معاشرتى طبقات:۱۱

مومنين: مومنين كا امتحان ۱،۲،۳،۵،۱۰; صابر مومنين كا اجر ۱۲; مومنين كا خوف ۶; مومنين كا جانى نقصان ۶; مومنين كا مالى نقصان ۶; مومنين كى بھوك ۶; مومنين كى مشكلات۴; صابر مومنين ۱۱; غير صابر مومنين ۱۱

نماز : نماز قائم كرنے كے آثار۶

ہدايت: راہ ہدايت كى مشكلات كا بيان ۷

۵۳۴

الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ( ۱۵۶ )

جو مصيبت پرنے كے بعد يہ كہتے ہيں كہ ہم الله ہى كے لئے ہيں اور اسيكى بارگاہ ميں واپس جانے والے ہيں (۱۵۶)

۱ _ اللہ تعالى انسانوں كا مالك و مختار ہے جبكہ انسان اسكے مملوك اور اسكے اختيار ميں ہيں _قالوا انا لله

۲ _ انسان اور اسكے تمام امور و معاملات كا منبع اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے اور انسان اسى كى طرف لوٹ جائے گا_

قالوا انا اليه راجعون ''رجوع ''كا معنى اس چيز كى طرف لوٹنا ہے جو منبع ياسر چشم ہو ''انا'' ميں ''نا''سے مراد انسان اور اس سے متعلق امور ہيں بنابريں جملہ''انا اليہ راجعون'' حكايت كررہاہے كہ انسان اور جو كچھ اس سے متعلق ہے اسكا سرچشمہ اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے اور سب كچھ اسى كى طرف لوٹ جائے گا _

۳ _ صابرين وہ لوگ ہيں جو مشكلات كا سامنا ہو تو قضائے الہى كے سامنے سر تسليم خم ہوجاتے ہيں ، اپنے تمام امور كو خداوند متعال كى جانب سے جانتے ہيں اور اسى كا اظہار كرتے ہيں _و بشر الصابرين _ الذين قالوا انا لله و انا اليه راجعون

۴_ اللہ تعالى كى مالكيت اور اس پر يقين كہ انسان بالآخر خدا كى طرف لوٹ جائے گا يہ امر مصائب و مشكلات كو آسان كرنے والا ہے _الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله و انا اليه راجعون

۵ _ صابر مومنين كا نظريہ ( اللہ كى طرف سے ہيں اور اسى كى طرف بازگشت ہوگي)ان كے صبر و استقامت كى دليل ہے جسكا مظاہرہ انہوں نے راہ ايمان ميں پيش آنے والى مشكلات كے مقابل كيا_الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله و انا اليه راجعون آيه مجيدة ' ' الذين قالوا ...'' صابرين كى صفات بيان كرنے كے ساتھ ساتھ ان كے صبر كى دليل كو بھى بيان كررہى ہے _

۶_مصائب و مشكلات كے وقت استرجاع ( انا للہ و انا اليہ راجعون) صابر مومنين كا وطيرہ ( شعار) ہے_

و بشر الصابرين _ الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله وانا اليه راجعون

۵۳۵

'' استرجاع '' يعنى ''انا لله و انا اليه واجعون'' كہنا_

۷_الہى بشارت ان مومنين كے لئے جو مشكلات و پريشانيوں كے مقابل قضائے الہى كے سامنے سر تسليم خم ہوجاتے ہيں _و بشر الصابرين _الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله و انا اليه راجعون

۸_''وسمع رجلاً يقول''انا لله و انا اليه راجون'' فقال عليه‌السلام ان قولنا ''انا لله'' اقرار على انفسنا بالملك وقولنا ''انا اليه راجعون'' ''اقرار على انفسنا بالهلك'' (۱) امير المومنين علىعليه‌السلام نے ايك شخص سے كلمہ استرجاع سنا تو فرمايا'' انا للہ'' كہنا اللہ تعالى كى اپنے اوپر مالكيت كو تسليم كرنا ہے اور''انا اليه راجعون'' كہنا اپنى موت و ہلاكت كا اعتراف ہے_

۹_ ابوامامہ كہتے ہيں''انقطع قبال النبي(ص) فاسترجع فقالوا مصيبةيارسول الله؟ فقال ما اصاب المومن مما يكره فهو مصيبة'' (۲) نبى صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے جوتے كا تسمہ ٹوٹ گيا تو آپ (ص) نے كلمہ استرجاع '' انا للہ و انا اليہ راجعون'' زبان پر جارى فرمايا تو اصحاب نے كہا يا رسو ل اللہ (ص) كيا يہ بھى مصيبت ہے ؟ تو آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمايا ہر ناپسنديدگى يا سختى جو مومن كو پہنچے مصيبت ہے_

۱۰_رسول اسلام (ص) سے روايت ہے آپ (ص) نے فرمايا''اعطيت امتى شيئاً لم يعطه احد من الامم ان يقولوا عند المصيبة ''انا لله وانا اليه راجعون'' (۳) ميرى امت كو ايك ايسى چيز عطا ہوئي ہے جو سابقہ امتوں ميں سے كسى كو عطا نہ كى گئي اور وہ مصيبت كے وقت ''انا للہ و انا اليہ راجعون'' كہناہے_

اقرار : اللہ تعالى كى مالكيت كا اقرار ۸; موت كا اقرار ۸

اللہ تعالى : الہى بشارتيں ۷; اللہ تعالى كى مالكيت ۱ اللہ تعالى كى طرف بازگشت : ۲،۴،۵

انسان: انسان كا انجام ۲; انسان كا مالك ۱; انسان كا مبداء و آغاز ۲،۵

ايمان : اللہ تعالى كى مالكيت پر ايمان ۴; ايمان كى سختياں ۵

روايت: ۸،۹،۱۰

____________________

۱) نہج البلاغة حكمت ۹۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص۱۴۵ ح ۴۵۷_ ۲) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۷۹_ ۳) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۷۷_

۵۳۶

سختياں : سختيوں سے نمٹنے كے آداب ۳،۶; سختيوں كے آسان كرنے كى روش ۴; سختيوں ميں صبر ۵

سر تسليم خم ہونا: خداوند متعال كى قضا كے سامنے سر تسليم خم ہونا ۳،۷

صابر لوگ: صابرين كا عقيدہ ۳; صابرين كى خصوصيات ۳

كلمہ استرجاع : ۸

أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ( ۱۵۷ )

كہ ان كے لئے پروردگار كى طرف سے صلواتاور رحمت ہے اور وہى ہدايت يافتہ ہيں (۱۵۷)

۱_ اللہ تعالى كا لطف و عنايات ، اسكى خاص رحمت ، درود و سلام اور ثنا كا سايہ ہميشہ صابر مومنين پر رہتاہے_

اولئك عليهم صلوت من ربهم و رحمة صلوة كا معنى توجہ كردنا اور مورد محبت قرار دينا ہے (الكشاف)

۲ _ اللہ تعالى كى خاص رحمت اور اسكے الطاف و عنايات كا صابر مومنين پر سايہ فگن رہنا خداوند متعال كى ربوبيت كا ايك پرتو ہے _

مصائب: مصائب سے نمٹنے كے آداب ۶; مصائب ميں كلمہ استرجاع ۶،۱۰; مصائب كو آسان كرنے كى روش ۴; مصيبت سے مراد كيا ہے ۹

مؤمنين: مومنين كو بشارت۷; مومنين كا نظريہ ۵; مومنين كى روش يا وطيرہ ۶; مومنين كے صبر كے عوامل ۵; صابر مومنين ۵،۷; مومنين كى مشكلات ۷; صابر مومنين كى خصوصيات۶من ربهم

۳ _ وہ مومنين جو اس يقين اور عقيدہ ( خدا كى طرف سے ہيں اور اسى كى طرف لوٹ جائيں گے ) كى بناپر راہ ا يمان ميں مصيبتوں كو برداشت كرتے ہيں ان كا اللہ تعالى كے ہاں بڑا بلند مقام ہے _قالوا انا لله و انا اليه راجعون_اولئك عليهم صلوات من ربهم

۵۳۷

۴ _ وہ مومنين جو راہ ايمان ميں مصيبتوں پر صابر ہيں وہ حقيقى ہدايت كو حاصل كر پائيں گے _قالوا انا لله و انا اليه راجعون و اولئك هم المهتدون

۵ _ فقط صابر مومنين ہيں جو اپنے اہداف (دنيا و آخرت كى سعادت) اور كاميابيوں كو حاصل كر پائيں گے_*و اولئك هم المهتدون

۶ _ كاميابى كا حصول اللہ تعالى كے الطاف اور رحمت سے ہى ممكن ہے _اولئك عليهم صلوات من ربهم و رحمة و اولئك هم المهتدون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ( ذيل آيت ميں ) ''اولئك'' ان لوگوں كى طرف اشارہ ہو جن كے شامل حال صلوات اور رحمت الہى ہے (اولئك عليهم )_

۷_ راہ ايمان ميں صبر كرنے والوں كو اللہ تعالى كى جانب سے خوشخبرى اور بشارت دى گئي ہے كہ وہ لوگ ہدايت و رحمت اور الطاف الہى كو حاصل كرپائيں گے_و بشر الصابرين اولئك هم المهتدون

يہ جملہ ''اولئك عليہم ...'' ممكن ہے اس نويد اور خوشخبرى ''و بشر الصابرين'' كى طرف اشارہ ہو يعنى ''بشر ہم بان عليہم صلوات و ...''

۸_ وہ مومنين جو مصيبتوں اور سختيوں ميں صابر اور قضائے الہى كے سامنے سرتسليم خم ہيں فقط يہى لوگ ہيں جو ہدايت يافتہ ہيں _و بشر الصابرين _الذين واولئك هم المهتدون ضمير فصل ''ہم'' اور خبر ''المہتدون'' كا معرفة ہونا حصر كا معنى دے رہاہے _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى رحمت كے نتائج ۶; لطف الہى كے اثرات ۶; الہى بشارتيں ۷; اللہ تعالى كى خاص رحمت ۱،۲; اللہ تعالى كى طرف سے صلوات ۱; لطف الہى ۲; ربوبيت الہى كے مظاہر ۲

انسان: انسان كا مبداء ۳

ايمان : ايمان كے نتائج ۳; اللہ تعالى كى طرف بازگشت بر ايمان ۳; ايمان كى سختياں ۳; ايمان كے متعلقات۳

رحمت : رحمت كا حصول ۷; وہ لوگ جن كے رحمت شامل حال ہوتى ہے ۱،۲

سختي: سختيوں ميں صبر ۸

سر تسليم خم ہونا :

۵۳۸

قضائے الہى كے سامنے سر تسليم خم ہونا ۸

سعادت مند لوگ: ۵ صابرين :

صابرين كو بشارت۷; صابرين كى ہدايت ۸

لطف الہي: لطف الہى كا حصول ۷; جن لوگوں كے لطف الہى شامل حال ہوتاہے ۱

مصائب: مصائب پر صبر كرنا ۳،۴،۸

مؤمنين: مومنين كى اخروى سعادت۵; مؤمنين كى دنياوى سعادت۵; صابر مومنين كے درجات ۳; صابر مومنين ۱،۲،۴; صابر مومنين كى كاميابى ۵; صابر مومنين كى خصوصيات ۵،۸; صابر مومنين كى ہدايت ۴

ہدايت: ہدايت كا حصول ۷; ہدايت كى شرائط ۶ ہدايت يافتہ لوگ: ۴،۸

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ( ۱۵۸ )

بيشك صفا اور مروہ دونوں پہاڑياں الله كى نشانيوں ميں ہيں لہذا جو شخص بھيحج يا عمرہ كرے اس كے لئے كوئي حرج نہيں ہے كہ ان دونوں پہاڑيوں كا چكر لگائے اورجو مزيد خير كرے گا تو خدا اس كے عمل كاقدردان اور اس سے خوب واقف ہے (۱۵۸)

۱ _ صفا و مروہ كے پہاڑ دو ايسى علامتيں ہيں جن كو اللہ تعالى نے عبادات كا مقام قرار دياہے_ان الصفا والمروة من شعائر الله '' شعيرة'' كى جمع شعائر ہے_ ايسى نشانيوں يا علامتوں كو كہتے ہيں جن كو خاص اعمال كے لئے قرا ر ديا گيا ہو _ كہا جاتاہے كہ'' شعائر اللہ '' ايسى علامتيں ہيں جن كو اللہ تعالى نے عبادت كے لئے قرار ديا ہے ( مجمع البيان سے اقتباس) پس ''صفا و مروہ'' كو ''شعائر اللہ '' كہنا يعنى اللہ تعالى نے ان دو جگہوں كو ايسى علامتيں قرار ديا ہے كہ بند گان خدا وہاں عبادت كريں _

۲ _ صفا و مروہ كا طواف ( ان دو كے درميان سعى كرنا ) عبادت اور حج و عمرہ كے مناسك ميں سے ہے _

ان الصفا و المروه فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما ''اعتمر'' كا مصدر '' اعتمار'' ہے جس كا معنى زيارت كرنا اور عمرہ بجالاناہے _ صفا و مروة كو عبادت كى علامت قرار دينے كے بعد ''من حج البيت ...''كى اس

۵۳۹

پر تفريع اس مطلب كو بيان كررہى ہے كہ اولاً صفا و مروة كا طواف ( ان كے درميان سعي) اللہ كى عبادت ہے اور ثانياً يہ عبادت حج و عمرہ كے اعمال و مناسك ميں سے ہے _

۳ _ اللہ تعالى ان انسانوں كا شكر گزار ہے جو نيك اعمال كو توجہ اور رغبت سے انجام ديتے ہيں _و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم فعل '' تطوع'' چونكہ متعدى استعمال ہوا ہے اس لئے اس ميں ''اتي'' كا معنى پايا جاتاہے بنابريں '' من تطوع خيراً'' يعنى جو كوئي بھى نيك عمل كو اطاعت كى بناپر انجام دے_

۴ _ اللہ تعالى شاكر ( سپاس گزار) اور عليم ( جاننے والا) ہے _فان الله شاكر عليم

۵ _ صفا و مروہ كے مابين سعى حج و عمرہ كے بہترين اعمال ميں سے ہے _فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما و من تطوع خيراً ما قبل جملے كى روشنى ميں ''خيراً'' كا مورد نظر مصداق صفا و مروة كے مابين سعى ہے_

۶_ صدر اسلام كے بعض مسلمان صفا و مروة كے مابين سعى سے كر اہت كرتے اور نہ چاہتے تھے كہ يہ مناسك حج ميں سے ہو_فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما صفا و مروة كى سعى پر اعتراض كو اس جملہ '' فلا جناح ...'' سے رد كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ مسلمان اس عمل كو كرنا نہ چاہتے تھے _ اسكى وجہ جيسا كہ شان نزول ميں اسكا ذكر ہوا ہے وہ بت تھے جو مشركين نے صفا و مروة ميں يا ان دو كے مابين نصب كيئے ہوئے تھے_

۷_ خانہ خدا كے زائرين كے اعمال ( حج و عمرہ اور صفا و مروہ كى سعي) سے اللہ تعالى آگاہ ہے_فمن حج البيت او اعتمر ...و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم

۸ _ جو لوگ نيك اعمال ( صفا و مروة كے مابين سعى اور ...) انجام ديتے ہيں اللہ تعالى كى جزاؤں سے بہرہ مند ہوں گے_

من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم بندوں سے اللہ تعالى كا سپاس گزار ہونا يہ اللہ تعالى كى جزائيں عطا كرنے سے كنايہ ہے _

۹ _ بندوں كے نيك اعمال سے اللہ تعالى كى علم و آگاہى ان كے اجر كے ضائع نہ ہونے كى ضمانت ہے _و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم

۱۰_ امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں : ''قال الله عزوجل: '' ان الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت اواعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما'' الا ترون ان الطواف بهما واجب مفروض لان الله عزوجل ذكره فى كتابه و صنعه نبيه عليه‌السلام ..''

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689