البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313988 / ڈاؤنلوڈ: 9313
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

عمل: ناپسنديدہ عمل ۱۶

كتب سماوي: كتب سماوى سے منہ پھرنا ۱۴; كتب سماوى كا ضرورى وابستگى ہونا۱۳; كتب سماوى كو قبول كرنے ميں تجزى بعض تعليمات كے قبول اور بعض كے رد; كا قائل ہونا ۱۴; كتب سماوى كى تعليمات ۱۳

وَاتَّبَعُواْ مَا تَتْلُواْ الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيْاطِينَ كَفَرُواْ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولاَ إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُواْ لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْاْ بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ ( ۱۰۲ )

اوران باتوں كااتباع شروع كرديا جو شياطين سليمان كيسلطنت ميں جپا كرتے تھے حالانكہ سليمانكافر نہيں تھے _ كافر يہ شياطين تھے جولوگوں كوجادو كى تعليم ديتے تھے اور پھرجو كچھ دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر بابلميں نازل ہوا ہے _وہ اس كى بھى تعليم اسوقت تك نہيں ديتے تھے جب تك يہ كہہ نہيں ديتے تھے كہ ہم ذريعہ امتحان ميں خبردارتم كافر نہ ہو جاناليكن وہ لوگان سے وہباتيں سيكھتے جس سے مياں بيوى كے درميانجھگڑا كراديں حالانكہ اذن خدا كے بغير وہكسى كو نقصان نہيں پہنچا سكتے _ يہ ان سےوہ سب كچھ سيكھتے جو ان كے لئے مضر تھااور اس كا كوئي فائدہ نہيں تھا يہ خوبجانتے تھے كہ جو بھى ان چيزوں كو خريدےگا اس كا آخرت ميں كوئي حصہ نہ ہوگا _انھوں نے اپنے نفس كا بہت برا سودا كياہے اگر يہ كچھ جانتے اور سمجھتے ہوں (۱۰۲)

۱_ حضرت سليمانعليه‌السلام ايك ايسے پيامبر ہيں جن كے پاس حكومت و سلطنت تھي_على ملك سليمان

۲ _ شياطين نے حضرت سليمانعليه‌السلام پر جادوگرى كى تہمت لگائي _و ما كفر سليمان و لكن الشياطين كفروا

'' ما كفر سليمان _ سليمان نے كفر اختيار نہ كيا '' اس سے مراد حضرت سليمانعليه‌السلام سے جادوگرى كى نفى كرنا ہے _ ان جملوں ''و لكن الشياطين ...'' اور ''ما تتلوا الشياطين '' سے يہ معلوم ہوتاہے كہ حضرت سليمانعليه‌السلام پر جادوگرى كى تہمت شياطين كى طرف سے تھى جو مشہور ہوگئي_

۳۴۱

۳ _ شياطين نے حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانے كے لوگوں كو جادوگرى كے علوم سكھائے اور لوگوں كے لئے جادو كو پڑھ كر بيان كرتے_ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان يعلمون الناس السحر

'' تتلوا'' كا مصدر تلاوت ہے جس كا معنى پڑھنا اور قرا ت كرناہے آيت كے ما بعد كے مضمون كى روشنى ميں '' ما'' موصولہ سے مراد جادو اور اس طرح كى چيز ہے _'' تتلوا'' كا متعلق ''على الناس'' ہے اور اس كى دليل ''يعلمون الناس'' يعنى يہودى اس جادو كے پيروكار تھے جو شياطين لوگوں كے لئے بيان كرتے تھے_

۴ _ شياطين حضرت سليمانعليه‌السلام اور انكى الہى حكومت كے مخالف تھے _ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان

''على ملك سليمان _ سليمان كى حكومت كے مخالف '' يہ ''تتلوا'' كے مفعول محذوف كے لئے حال ہے يعنى جو جادو لوگوں كے لئے بيان كرتے تھے وہ حضرت سليمانعليه‌السلام كى سلطنت كے خلاف تھا_

۵ _ حضرت سليمانعليه‌السلام كو سلطنت ملنا شياطين كى نظر ميں يہ سحر اور جادو كا كمال تھا_على ملك سليمان و ما كفر سليمان

شياطين جو جادو كے علم كى تحريريں لوگوں كے لئے حضرت سليمانعليه‌السلام كى حكومت كے برخلاف پڑھتے تھے اس چيز كے بيان كے بعد حضرت سليمانعليه‌السلام سے جادوگرى كى نفى كرنااس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ شياطين يہ ظاہر كرتے تھے كہ جو كچھ بيان كرتے يا تلاوت كرتے ہيں يہ وہى كچھ ہے جس نے سليمان (عليہ السلام) كو سلطنت تك پہنچايا ہے اس طرح وہ حضرت سليمانعليه‌السلام كى نبوت كى نفى كے درپے تھے_

۶ _ حضرت سليمانعليه‌السلام جادوگرى اور كفر كى طرف رجحانات سے منزہ و مبرا تھے_و ما كفر سليمان

۷ _ جادو كا استعمال گناہ كبيرہ اور كفر كے برابر ہے_و ما كفر سليمان

يہ بات گزرچكى ہے كہ اس جملہ سے مراد حضرت سليمانعليه‌السلام سے جادوگرى كى نفى كرناہے ليكن يہ جو جادوگرى كو كفر اختيار كرنے سے تعبير كيا گيا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ جادوگرى بھى ايك طرح كا كفر ہے يا پھر ايسا گناہ ہے جو كفر كے برابر ہے_

۳۴۲

۸_ الہى حكومت كى مخالفت اور اس كے خلاف سرگرم عمل ہونا حرام ہے _واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان

۹ _ جادو كى تعليم دينے كے ذريعے شياطين كا كفر اختيار كرنا_و لكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر

۱۰_ حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانے ميں جادو رائج تھا_ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان يعلمون الناس السحر

۱۱ _ بعض يہوديوں نے شياطين كى طرف سے سكھائے گئے جادو كى طرف رغبت پيدا كى اور انہوں نے جادو سيكھنا شروع كيا _واتبعوا ما تتلوا الشياطين

'' اتبعوا'' كى ضمير '' فريق من الذين اوتوا الكتاب'' كى طرف لوٹتى ہے _

۱۲ _ حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانہ كے يہودى شياطين كے جادو كى پيروى كرتے ہوئے آپعليه‌السلام كى حكومت كے خلاف سرگرم عمل رہے _ *واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ'' اتبعوا'' كا فاعل حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانہ كے يہودى ہوں _

۱۳ _ پيامبر اسلام (ص) كے خلاف نبرد آزمائي كے لئے يہودى تورات كى بشارتوں كا انكار كرنے كے علاوہ سحر اور جادو سے بھى مدد ليتے تھے_

نبذ فريق كتاب الله وراء ظهورهم و اتبعوا ما تتلوا الشياطين

آيہ ما قبل ميں جملہ '' نبذ فريق'' ، '' لما جاء ہم'' كے بعد اس مطلب كو پہنچاتاہے كہ يہوديوں نے آنحضرت (ص) كے بارے ميں تورات كى بشارتوں كو نظر انداز كيا تا كہ حضور (ص) كى رسالت كا انكار كريں _ جملہ''اتبعوا ...'' كا ''نبذ فريق'' پر عطف بھى اسى معنى پر دلالت كرتاہے كہ جادو كے پيچھے جانا بھى اسى مقصد كے لئے تھا_

۱۴ _ ہاروت و ماروت وہ فرشتے ہيں جو سرزمين بابل پر ساكن ہيں _و ما انزل على الملكين ببابل هاروت و ماروت

'' ببابل '' محذوف سے متعلق اور ''الملكين'' كے لئے حال ہے يعنى '' الملكين كا ئنين ببابل'' بہت سے مفسرين نے كہا ہے كہ بابل عراق كا ايك شہر ہے جو دريائے فرات كے كنارے اور حلہ كے قريب واقع ہے _

۱۵_ ہاروت و ماروت نے بابل كے لوگوں كو جادو سكھايا_و ما انزل على الملكين و ما يعلمان من احد

۱۶ _ ہاروت و ماروت نے جادو كا علم اللہ تعالى سے حاصل كيا *و ما انزل على الملكين ببابل هاروت و ماروت

۳۴۳

۱۷ _ يہوديوں نے ہاروت اور ماروت كى تعليمات كو ليتے ہوئے پيامبرعليه‌السلام كےخلاف صف آرائي كى _

اتبعوا ما تتلوا و ما انزل على الملكين ببابل هاروت و ماروت

'' ما انزل '' ، '' ما تتلوا ...'' پر عطف ہے يعنى :اتبعوا ما تتلوا الشياطين و اتبعوا ما انزل على الملكين _

۱۸ _ ہاروت اور ماروت اپنى تعليمات ( جادو كا سكھانا ) كو لوگوں كے لئے آزمائش سمجھتے تھے اور لوگوں كو متنبہ كرتے تھے_و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنه

۱۹_ ہاروت اور ماروت نے لوگوں كو جادو كى تعليم دينے سے پہلے اسكے غير صحيح استعمال اور سوء استفادہ سے منع كيا _

و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۰_ جادو كا استعمال اور اس سے سوء استفادہ انسان كو دائرہ كفر كى طرف لے جاتاہے_انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۱ _ غير آشنا علوم كى تعليم دينے والوں كو چاہيئے كہ ان علوم كے سيكھنے والوں كو ان كے نقصانات سے آگاہ اور اسكے سوء استفادہ سے روكيں _و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۲ _ شاگردوں كو علوم كى تعليم ديتے وقت ان ميں احساس ذمہ دارى پيدا كرنے كى كوشش كرنا ضرورى ہے _

و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة فلا تكفر

۲۳ _ اعمال كے نيك اور ناپسنديدہ ہونے ميں ہدف اور نيت كى اہميت _و لكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة

دو فرشتوں (ہاروت ، ماروت) كے برخلاف شياطينكو جادو سكھانے كى وجہ سے كافر كہا گيا كيونكہ شياطين كے جادو سكھانے كا مقصد فساد و تباہى پھيلانا تھا جبكہ دو فرشتوں كا ہدف اور محرك فساد كو روكنا تھا_

۲۴ _ سرزمين بابل كے لوگوں نے ہاروت اور ماروت سے جادو سيكھاتا كہ اسكے ذريعے مياں بيوى ميں جدائي ڈاليں _

فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زوجه

۲۵ _ جادو كے علم كو رائج كرنے ميں بابل كے عوام كا كردار اور اہميت_

فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زوجه

۲۶ _ جادو كى تاثير اور اسكا نقصان پہنچانا اذن خدا سے ممكن ہے _

۳۴۴

و ما هم بضارين به من احد الا باذن الله

۲۷ _ عالم ہستى ميں كوئي بھى كام يا تحرك اللہ تعالى كے اختيار اور ارادہ كے بغير ممكن نہيں ہے _

ما هم بضارين به من احد الا باذن الله

۲۸_ مياں بيوى ميں جادو كے ذريعے جدائي ڈالنا يہ گناہ كفر كے برابر ہے _

انما نحن فتنة فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زوجه

۲۹_ مسحور شدہ انسانوں كى روح اور افكار پر جادو كا اثر _يفرقون به بين المرء و زوجه

۳۰_ مياں بيوى ميں جدائي ڈالنے كا نقصان خود انہى لوگوں كے ليئے ہے _ما يفرقون به بين المرء و زوجه و ما هم بضارين ...الا باذن الله

۳۱ _ مياں بيوى ميں جدائي ڈالنا ناپسنديدہ اور حرام فعل ہے_ما يفرقون به بين المرء و زوجه و ما هم بضارين ...الا باذن الله

۳۲ _ سرزمين بابل كے عوام نے ہاروت اور ماروت سے ايسے جادو، ٹونے سيكھے جنكا نتيجہ ان كے لئے نقصان كے علاوہ كچھ نہ تھا_يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۳ _ بعض جادو نقصان دہ اور بعض فائدہ مند ہيں _يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۴_ لوگوں كو نقصان پہنچانے كے لئے جادو كے اعمال بجالانا يا فساد و بربادى پھيلانے كے لئے جادو سيكھنا حرام ہے اور اسكا گناہ كفر كے برابر ہے _فلا تكفر فيتعلمون منهما ما يفرقون به بين المرء و زو جه و يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۵ _ نقصان دہ اور بے فائدہ علوم سيكھنا حرام ہے _و يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۶ _ لوگوں كو فائدہ پہنچانے كے لئے جادو كا علم سيكھنا جائز ہے _و يتعلمون ما يضرهم و لا ينفعهم

۳۷_ فرشتوں كا جسمانى حالت ميں آنا اس طرح كہ لوگ ان كا مشاہدہ كرسكيں ممكن ہے _و ما يعلمان من احد حتى يقولا انما نحن فتنة

۳۸_ فرشتے لوگوں ميں حاضر ہو كر ان كو تعليم دے سكتے ہيں _و ما يعلمان من احدحتى يقولا فيتعلمون منهما و يتعلمون ما يضرهم

۳۹_ شياطين ( جنّ) جسم بننے اور ديكھے جانے كى صلاحيت ركھتے ہيں *يعلمون الناس السحر

۳۴۵

۴۰_ جو لوگ جادو كو ناچيز فائدہ اٹھانے اور نقصان پہنچانے كے لئے سيكھتے ہيں آخرت كى نعمتوں سے محروم ہوجائيں گے _و لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق

'' اشتراہ'' كى مفعولى ضمير '' ما يضرہم و لا ينفعہم'' كى طرف لوٹتى ہے جس كا مطلب نقصان دہ جادو ہيں _

۴۱ _ يہوديوں نے اس بات كے جاننے كے باوجود كہ جادو سيكھنے سے وہ آخرت كى تمام نعمتوں سے محروم ہوجائيں گے ، جادو سيكھا _و لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق

''خلاق'' كا معنى بہت زيادہ منافع اور اچھا حصہہے ''خلاق'' كو نكرہ استعمال كرنا اور اس كے ساتھ '' من'' زائدہ كا استعمال قلت پر دلالت كرتاہے _ ظاہراً ''علموا'' كى ضمير يہوديوں كى طرف لوٹتى ہے_

۴۲ _ عالم آخرت نيكيوں اور نعمتوں سے پرُ ہے _و ما له فى الاخرة من خلاق

۴۳ _ يہوديوں نے نقصان دہ جادو سيكھ كر خود كو تباہ كيا اور بہت بُرى قيمت وصول كى _

ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم

۴۴ _ انسان كى جان كے مقابل بہت ہى قابل قدر قيمت صرف آخرت كى نعمتوں كا حصول ہے_

ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم

جملہ '' لقد علموا ...'' كو جملہ ''لبئس ...'' كے ساتھ ملانے سے يہ معنى نكلتاہے كہ انسان اگر آخرت كو كھودينے كى قيمت دنياوى منافع كا حصول قرار دے تو اس نے خود كو بہت ہى برُى قيمت پر بيچا ہے اور خود كو تباہ كرلياہے پس فقط جو چيز انسان كو زياں كار ہونے سے بچا سكتى ہے وہ آخرت كا حصول ہے_

۴۵ _ آخرت كى نعمتوں سے محروميت كے باعث انسان تباہ ہوجاتاہے _

ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم

۴۶ _ يہودى اپنے نقصان دہ سودے (آخرت كو كھوكر جادو كے فوائد كا حصول ) سے ناآگاہ ہيں _

لبئس ما شروا به أنفسهم لو كانوا يعلمون

'' دنياوى مفادات كے مقابل آخرت كى نعمتوں كو بيچنا'' يہ '' يعلمون'' كے لئے ماقبل والے جملہ كى روشنى ميں مفعول ہے _ يعنى اے كاش جانتے ہوتے كہ يہ لين دين ان كے لئے نقصان دہ ہے اور بے سود_

۴۷_ آخرت كو كھودينے كے مقابل دنياوى مفادات كا حصول نقصان دہ سودا ہے _لبئس ما شروا به أنفسهم

۴۸ _ جادوگر يہوديوں كى نظر ميں اخروى منافع پر دنياوى مفادات ترجيح ركھتے ہيں _

۳۴۶

لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق و لبئس ما شروا به أنفسهم لو كانوا يعلمون

اگر كوئي جانتاہو كہ ناجائز منافع اور مفادات كا حصول آخرت كو كھودينے سے ہوتاہے ( لقد علموا ...) ليكن اس كے باوجود اس لين دين كے نقصان دہ ہونے پر عقيدہ نہ ركھتاہو (لوكانوا يعلمون) تو معلوم ہوتاہے كہ يہ شخص دنياوى مفادات كو آخرت پر ترجيح ديتاہے_

۴۹_ جادوگر يہودى باوجود اس كے كہ انہيں عالم آخرت سے محروم ہونے كا اطمينان تھا اپنى اسى محروميت كا انكار كرتے تھے_لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق

جملے كو لام قسم '' لقد'' اور لام تاكيد '' لمن'' سے تاكيد كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ جادوگر يہودى جس حقيقت كا علم ركھتے تھے اسى كا انكار كرتے تھے كيونكہ جملے كى تاكيد غالباً ايسے موارد ميں ہوتى ہے كہ جہاں اس كا مضمون مورد انكار ہو_

۵۰_ عالم آخرت پہ علم اورا يمان ہونا اوراس كے مطابق عمل نہ كرنا جہالت و بے ايمانى كے مترادف ہے _

لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الآخرة من خلاق لو كانوا يعلمون

يہ مطلب اس بناپر ہے اگر''لوكانوا يعلمون ''كا ارتباط ''لقد علموا ...'' سے ہو_ بنابرين ''يعلمون'' كا مفعول '' جادوگر كى عالم آخرت سے محروميت'' ہوگا _يہ جو خداوند عالم ايك طرف ان كو عالم ''لقد علموا'' اور دوسرى طرف جاہل '' لوكانوا يعلمون'' قرار ديتا ہے گويا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ علم و ايمان كا ہونا اور ان كے مطابق عمل كا نہ ہونا جہالت اور بے ايمانى كے برابر ہے _

۵۱ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا ''فلما هلك سليمان وضع ابليس السحر و كتبه فى كتاب ثم طواه و كتب على ظهره هذا ما وضع آصف بن برخيا لملك سليمان بن داود من ذخاير كنوز العلم من اراد كذا و كذا فليفعل كذا و كذا'' ثم دفنه تحت السرير ثم استشاره لهم فقرأه فقال الكافرون ما كان سليمان عليه‌السلام يغلبنا الا بهذا و قال المومنون بل هو عبدالله و نبيّه فقال الله جل ذكره ''واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان و ما كفر سليمان ولكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر ...''

۳۴۷

(۱) جب حضرت سليمانعليه‌السلام كى وفات ہوئي تو ابليس نے جادو كى بنياد ركھى اس نے ايك تحرير لكھى پھر اسے طے كيا اور اس پر لكھا '' اسے آصف بن برخيا نے حضرت سليمان بن داؤد كى حكومت برپا كرنے

كے لئے وضع كيا اس ميں علم كے ذخائر موجود ہيں تو جو ايسے ايسے كرنا چاہے تو وہ ايسا ايسا كرے پھر ابليس نے اس تحرير كو حضرت سليمانعليه‌السلام كے تخت كے نيچے چھپا ديا پھر اسكو نكالا اور سب كے سامنے پڑھا پس اس اجتماع ميں كافروں نے كہا سليمانعليه‌السلام تو فقط اسى جادو كے ذريعے ہم پر غالب آئے اور حكومت كى جبكہ مومنين نے كہا ہرگز ايسا نہيں بلكہ وہ اللہ كے بندے اور پيامبرعليه‌السلام تھے _ پس اللہ تعالى فرماتاہے''واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان و ما كفر سليمان و لكن الشياطين كفروا يعلمون الناس السحر ...''

۵۲ _ اللہ تعالى كے اس كلام (و ما انزل على الملكين ببابل هاروت وماروت )كے بارے ميں امام جعفر صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا ''و كان بعد نوح عليه‌السلام قد كثر السحرة ''(۱)

حضرت نوحعليه‌السلام كے بعد دھوكا باز جادوگر بہت زيادہ ہوگئے تو اللہ تعالى نے اس زمانہ كے نبىعليه‌السلام كى طرف دو فرشتوں كو بھيجا تا كہ اس نبىعليه‌السلام كو جادوگروں كے جادو كے طريقے اور اس جادو كو باطل و ناكارہ كرنے كے طريقے سكھائيں _ پس اس پيامبرعليه‌السلام نے جادو كے طريقے سيكھے اور اللہ تعالى كے حكم سے بندگان خدا كو بھى يہ طريقے سكھائے اور ان سے كہا كہ جادوگروں كے جادو كو روكو اور اسكو ناكارہ كردو( ساتھ ہى ساتھ) اس نبىعليه‌السلام نے لوگوں پر جادو كرنے سے ان كو منع كيا

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۵۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۱ ح ۳۰۳_

۳۴۸

اور (كلام خدا وندى ميں ارشاد ہے ) '' وہ دو فرشتے كسى كو بھى جادو كى تعليم نہ ديتے مگر يہ كہ اس سے قبل كہتے ہم آزمائش كا ذريعہ ہيں '' يعنى يہ كہ اس نبىعليه‌السلام نے ان دوفرشتوں كو حكم ديا كہ تم بشرى صورت ميں ظاہر ہوجاؤ اور جو كچھ اللہ تعالى نے تم كو جادو اور اسكو ناكارہ كرنے كے بارے ميں سكھاياہے وہ تم لوگوں كو سكھاؤ پس اللہ عزوجلّ نے ان كو فرمايا جادو كے ذريعے ، دوسروں كو نقصان پہنچاكر ، لوگوں كو يہ كہہ كر كہ ہم بھى زندہ كرنے اور مارنے كى طاقت ركھتے ہيں اور يہ كہ ہم وہ كام كرسكتے ہيں جو فقط اللہ تعالى انجام دے سكتاہے ( ايسے اظہارات سے ) كہيں كافر نہ ہوجانا اور اللہ تبارك و تعالى كا ارشاد ہے ''و ما هم بضارين به من احد الا باذن الله'' يعنى وہ جنہوں نے جادو سيكھا تھا وہ بھى اللہ تعالى كے علم اور اذن كے بغير كسى كو نقصان نہيں پہنچاسكتے تھے كيونكہ اگر اللہ تعالى چاہتا تو ان كو زبردستى روك سكتا تھا مزيد ارشاد بارى تعالى ہے '' وہ جادو كے علوم سے ايسى چيزيں سيكھتے تھے جو ان كے نقصان ميں تھيں نہ كہ فائدہ ميں ''يعنى يہ كہ ايسى چيزيں سيكھتے تھے جو ان كے دين كے لئے ضرر رساں ہو اور اس ميں كوئي فائدہ نہ ہو نيز ارشاد رب العزت ہے '' و لقد علموا لمن اشتراہ ما لہ فى الاخرة من خلاق'' كيونكہ ان كا عقيدہ تھا كہ آخرت نام كى كوئي چيز وجود نہيں ركھتى پس جب ان كا عقيدہ يہ تھا كہ جب آخرت ہى نہيں ہے تو پھر اس دنيا كے بعد كوئي چيز نہ ملے گي_ ليكن فرضاً اس دنيا كے بعد اگر آخرت ہو تو يہ لوگ اپنے كفر كى بناپر آخرت كى نعمتوں سے محروم ہوں گے ...''

۵۳ _ عمرو بن عبيد كہتے ہيں ميں حضرت امام صادقعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوا تو عرض كيا كہ ميں گناہان كبيرہ كو قرآن حكيم سے پہچاننا چاہتاہوں تو امامعليه‌السلام نے فرمايا''والسحر لان الله عزوجل يقول و لقد علموا لمن اشتراه ما له فى الاخرة من خلاق ''(۱)

____________________

۱) عيون اخبار الرضاعليه‌السلام ج/ ۱ ص ۲۶۷ ح۱باب ۲۷، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۰۷ ح ۲۹۴_

۲) اصول كافى ج/ ۲ ص۲۸۵ ح ۲۴ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۰ ح ۲۹۷_

۳۴۹

گناہان كبيرہ ميں سے ايك جادو ہے كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے'' يقينا وہ لوگ جانتے تھے كہ جو كوئي اس متاع (جادو) كو خريدے گا اسے آخرت ميں كچھ نہ ملے گا_

آخرت: آخرت كى خصوصيات۴۲

آخرت فروشي: آخرت فروشى كا نقصان ۴۷

احكام : ۸،۳۱،۳۴،۳۵،۳۶

اختلاف ڈالنا: جادو سے اختلاف ڈالنا ۲۸; اختلاف ڈالنے كى سرزنش ۳۱; اختلاف ڈالنے كا گناہ ۲۸

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا اذن ۲۶، ۲۷

امتحان : امتحان كا ذريعہ۱۸

انسان: انسان كى قدر و منزلت ۴۴; انسان كى تباہى كے معيارات ۴۵

ايمان: آخرت پر ايمان ۵۰; بغير عمل كے ايمان ۵۰; ايمان كا متعلق ۵۰

بابل: اہل بابل اورجادو ۱۵، ۲۴، ۲۵،۳۲; بابل ميں جادو كى تعليم ۱۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے دشمن ۱۳،۱۷

تعليم: تعليم دينے كے آداب ۲۱، ۲۲

تغييرات: تغييرات كا سرچشمہ ۲۷

توحيد : توحيد افعالى ۲۷

تورات: تورات كى بشارتوں كو جھٹلانا ۱۳

جادو : جادو سے استفادہ كے نتائج ۲۰; جادو سيكھنے كے نتائج ۴۱; نقصان دہ جادوكى تعليم حاصل كرنے كے نتائج ۴۳; مياں بيوى كى جدائي ميں جادو كے اثرات ۲۴، ۲۸; جادو سے سوء استفادہ كے نتائج ۴۰; جادو كے احكام ۳۴، ۳۶; جادو سے استفادہ ۳۶; جادو سے نقصان پہنچانا ۳۴،۴۰; جادو كى اقسام ۳۳; جادو كى ايجاد ۵۱; جادو كى تاثير ۲۹; جادو كى تاريخ ۱۵، ۲۵،۵۲; جادو سيكھنا ۳۶، ۴۰ ;

۳۵۰

جادو سكھانا ۳،۹،۱۱،۱۵ ، ۵۲; حضرت نوحعليه‌السلام كے بعد جادو ۵۲; جادو حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانے ميں ۳،۱۰; جادو اور كفر ۷،۲۸،۳۴; نقصان دہ جادو ۳۲،۳۳; فائدہ مند جادو ۳۳; مباح جادو ۳۶; جادو كا نقصان ۲۶; جادو سے ناجائز فائدہ اٹھانا۱۹،۲۰; جادو پھيلنے كے عوامل ۲۵; جادو كى سزا ۵۳; جادو كى تعليم دينے كا گناہ ۳۴; جادو كا گناہ ۷،۵۳; جادو كى تاثير كا سرچشمہ ۲۶

جنات: جنات كا مجسم ہونا ۳۹; جنات كا مشاہدہ ۳۹

جہالت: جہالت كے موارد ۵۰

حضرت سليمانعليه‌السلام : حضرت سليمانعليه‌السلام كا منزہ ہونا ۶; حضرت سليمانعليه‌السلام پر جادوگرى كا الزام ۲; حضرت سليمانعليه‌السلام كى حكومت ۱،۴،۵۱; حضرت سليمانعليه‌السلام كے دشمن ۴; حضرت سليمانعليه‌السلام اور جادو ۶; حضرت سليمانعليه‌السلام اور كفر ۶; حضرت سليمانعليه‌السلام كا واقعہ ۲،۵; حضرت سليمانعليه‌السلام كى نبوت ۱

حكومت : دينى حكومت سے دشمنى كا حرام ہونا ۸

خاندان: خاندانى اختلاف ۳۱; خاندانى اختلاف كے عوامل ۲۴; خاندانوں ميں اختلاف ڈالنے كا گناہ ۲۸

دنياطلبي: دنياطلبى كا نقصان ۴۷

روايت:۵۱،۵۲،۵۳

روش و كردار: پسنديدہ كردار كے معيارات۲۳; ناپسنديدہ كردار كے معيارات۲۳

زوجہ و شوہر: زوجہ و شوہر ميں اختلاف ڈالنے كى حرمت ۳۱; زوجہ و شوہر كى جدائي كا نقصان ۳۰

سيكھنا : حرام سيكھنا ۳۴،۳۵

شاگردان: شاگردوں ميں ذمہ دارى پيدا كرنا ۲۲

شياطين : شياطين كا مجسم ہونا ۳۹; شياطين كى تعليمات ۳،۹،۱۱; شياطين كا جادو۱۲; شياطين كى دشمنى ۴; شياطين كا مشاہدہ ۳۹; شياطين اور جادو۵; شياطين اور حضرت سليمانعليه‌السلام ۲،۴،۵; شياطين كا كفر ۹

علم: نقصان دہ علم سيكھنا ۳۵

فساد و تباہى پھيلانا :

۳۵۱

جادو سے فساد پھيلانا ۳۴

كفر: كفر كى بنياد۲۰; كفر كے موارد ۵۰

گناہان كبيرہ: ۷،۵۳

لين دين : نقصان دہ لين دين ۴۷

ماروت: ماروت بابل ميں ۱۴; ماروت اور جادو كا سيكھنا ۱۶; ماروت اور جادو كى تعليم دينا ۱۵،۱۸،۱۹ ، ۲۴; ماروت كا معلم ۱۶; ماروت كى تنبيہا ت ۱۸،۱۹

محرمات : ۸،۳۱،۳۴

معلم (استاد): معلم كى ذمہ دارى ۲۱،۲۲

ملائكہ: ملائكہ كا مجسم ہونا ۳۷; ملائكہ سے سيكھنا ۳۸; ملائكہ كا تعليم دينا ۳۸;ملائكہ كو ديكھنا ۳۷; بابل كے ملائكہ ۱۴

ناآشنا علوم: ناآشنا علوم كا نقصان ۲۱; ناآشنا علوم سے ناجائز فائدہ اٹھانا۲۱; ناآشنا علوم كے شاگردوں كو تنبيہ ۲۱

نعمت : اخروى نعمتوں كو حاصل كرنا ۴۴; اخروى نعمتوں سے محروم افراد ۴۰،۴۱،۴۹; اخروى نعمتوں سے محروميت ۴۵،۴۶،۴۹ ; اخروى نعمتوں كى بہتات اور فراواني۴۲

نيت: نيت كى اہميت ۲۳

واقعات: واقعات كا سرچشمہ ۲۷

ہاروت : ہاروت كا استاد۱۴; ہاروت بابل ميں ۱۴; ہاروت اور جادو سيكھنا ۱۶; ہاروت اور جادو كى تعليم دينا ۱۵،۱۸،۱۹، ۲۴; ہاروت كى تنبيہات ۱۸،۱۹

يہود: يہوديوں كى آخرت فروشى ۴۸; يہوديوں كى آگاہى ۴۱،۴۹; يہوديوں كى بصيرت ۴۸; يہوديوں كا شياطين كى پيروى كرنا ۱۲; يہوديوں كا ماروت كى پيروى كرنا ۱۷; يہوديوں كا ہاروت كى پيروى كرنا ۱۷; يہوديوں كى جادوگرى ۱۱،۱۳; يہوديوں كى جہالت ۴۶; يہوديوں كى خودفروشى ۴۳; يہوديوں كى حضرت سليمانعليه‌السلام سے دشمنى ۱۲; يہوديوں كى دنياطلبى ۴۸; يہوديوں كى روش پيكار ۱۳،۱۷; يہوديوں كا زياں كار ہونا ۴۶; يہوديوں كى محروميت ۴۹; جادوگر يہود۴۸،۴۹; حضرت سليمانعليه‌السلام كے زمانہ كے يہود ۱۲; يہودى اور جادو سيكھنا ۴۱،۴۳; يہود اور حضرت سليمانعليه‌السلام ۱۲

۳۵۲

وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُواْ واتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِّنْ عِندِ اللَّه خَيْرٌ لَّوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ ( ۱۰۳ )

اگر يہ لوگ ايمان لے آتے اور متقيبن جانے تو خدائي ثواب بہت بہتر تھا _اگر ان كى سمجھ ميں آجاتا (۱۰۳)

۱ _ اللہ تعالى كى جانب سے بہت ہى تھوڑى جزا بھى دوسرى كسى بھى منفعت يا سود سے كہيں زيادہ افضل اور قدر وقيمت والى ہے _لمثوبة من عند الله خير

''مثوبة'' كا معنى جزا كا ہے _ '' بہت ہى كم '' كى صفت كا مفہوم ''مثوبة'' كو نكرہ استعمال كرنے سے معلوم ہوتا ہے '' خير'' كا مفضل عليہ بھى ذكر نہيں ہوا تا كہ ہر چيز كو شامل ہوجائے _ پس ''خير'' يعنى ہر تصور كى جانے والى منفعت يا نفع سے بہتر _

۲ _ اللہ تعالى كى جزائيں ايمان اور تقوى ( گناہوں سے پرہيز) كى نگہداشت كرنے سے حاصل ہوتى ہيں _

و لو انهم آمنوا واتقوا لمثوبة من عند الله خير

۳_ ايمان گناہوں سے پرہيز كے بغير اور گناہوں سے اجتناب ايمان كے بغير ہو تو الہى جزاؤں سے بہرہ مند ہونا ممكن نہيں _و لو انهم آمنوا و اتقوا لمثوبة

۴ _ يہود اگر پيامبر اسلام (ص) اور قرآن حكيم پر ايمان لائيں اور گناہوں ( جادو، آسمانى كتابوں سے بے اعتنائي و غيرہ ) سے پرہيز كريں تو الہى جزاؤں (نعمتوں ) سے بہرہ مند ہوں گے _و لو انهم آمنوا و اتقوا لمثوبة من عند الله خير

آيات ۹۹، ۱۰۱ كے قرينہ سے '' انھم'' كى ضمير سے مراد پيامبر اكرم (ص) اور قرآن كو جھٹلانے والے يہود ہيں _ قابل توجہ ہے كہ جملہ ''لمثوبة ...'' جواب شرط كا قائم مقام ہے اور جواب اسى طرح كا جملہ ہے '' لا ثيبوا _ يقينا انہيں اجر ديا جائے گا ''_

۵ _ زمانہ بعثت كے يہود دنيا سے دلبستگى اور پہلے سے موجود فسق و فجور كى وجہ سے ايمان و تقوى كى بنياديں كھوچكے تھے__

لبئس ما شروا به أنفسهم و لو انهم آمنوا واتقوا لمثوبة من عند الله خير

جملہ'' و لو انھم ...'' ميں '' لو'' امتناعيہ كا استعمال اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ يہوديوں كا ايمان لانا اور جادو جيسے گناہوں سے

۳۵۳

اجتناب كرنا ايك مشكل يا ممتنع امر ہے_ ماقبل آيات جن ميں يہوديوں كى دنيا سے شديد دلبستگى اور ان كے فاسق ہونے كا ذكر ہے ممكن ہے كہ ان كى اس نفسيات كے پيدا ہونے كى دليل كا بيان ہو_

۶_ اللہ تعالى چاہتاہے كہ لوگ دنياوى منافع يا مفادات كے مقابل الہى جزاؤں كى قدرو منزلت سے آگاہ ہوں _

لمثوبة من عند الله خير لو كانوا يعلمون

'' لو كانوا يعلمون'' ميں '' لو'' تمنا كا معنى ديتاہے اور اللہ تعالى كے بارے ميں تمنا يعنى اس كا تشريعى ارادہ ہے _ '' يعلمون'' كا مفعول وہ تمام حقائق ہيں جن كا ماقبل كے جملوں ميں ذكر ہوا ہے ان ميں سے ايك چيز الہى جزا كا ديگر دنياوى منافع سے افضل ہونا ہے يعني:ليت هم يعلمون ان مثوبة الله خير

۷ _ الله تعالى چاہتا ہے كہ لوگ الہى جزاؤں كے ايمان او رتقوى كے ساتھ مربوط اور وابستہ ہونے سے آگاہ ہوجائيں _

و لو انهم آمنوا و اتقوا لمثوبة لو كانوا يعلمون

اس مطلب ميں ''يعلمون'' كا مفعول وہ حقيقت ہے جو جملہ شرطيہ '' لو انھم ...'' بيان كررہاہے يعني:ليت هم يعلمون ان مثوبة الله مشروط بالايمان والتقوى

۸ _ فقط علماء اور دانش مند افراد ہيں جو الہى جزاؤں كے ايمان اور تقوى سے مربوط ہونے اور ان جزاؤں كى ہر ديگر منفعت پر فضيلت و برترى كو درك كرتے ہيں _لمثوبة من عند الله خير لو كانوا يعلمون

ممكن ہے ''يعلمون'' فعل لازم ہو اور اس كو مفعول كى ضرورت نہ ہو _ اس بناپر اس كا معنى يہ ہوگا اے كاش اہل علم اور دانش مند ہوتے جو ان حقائق كا ادراك كرتے _

۹ _ الہى جزاؤں كى برترى اور قدر و منزلت سے انسانوں كى جہالت انہيں دنياوى مفادات كا گرويدہ كرديتى ہے اور ايمان وتقوى سے روك ديتى ہے_و لو انهم آمنوا و اتقوا لو كانوا يعلمون

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' لو'' شرطيہ ہو_ اس اعتبار سے مختلف احتمالات متصور ہيں ان ميں سے ايك يہ كہ''يعلمون'' كا مفعول الہى جزا كى برترى و فضيلت ہو اور جملہ ''و لو انھم آمنوا'' سے جواب شرط ليا جائے يعني: مطلب يوں ہو ''لوكانوا يعلمون ان ثواب اللہ خير لآمنوا و اتقوا_ اگر جانتے ہوتے كہ الہى جزا دنياوى منافع سے برتر ہے تو يقيناً ايمان لے آتے اور تقوى اختيار كرتے''_

اجر: اجر كے موجبات ۲،۳،۴،۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى جزاؤں كى قدر و منزلت۶،۸،۹; الہى جزائيں ۱; الہى جزاؤں كى شرائط ۲،۳ ، ۴ ، ۷ ، ۸

۳۵۴

ايمان: ايمان كے نتائج ۲،۳; ايمان كى اہميت ۷،۸; قرآن كريم پر ايمان ۴; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ۴; بغير تقوى كے ايمان۳; ايمان كا متعلق ۴; ايمان كى ركاوٹيں ۵،۹

تقوى : تقوى كے نتائج ۲،۳; تقوى كى اہميت ۷،۸; تقوى بغير ايمان كے ۳; تقوى كى ركاوٹيں ۵،۹

جہالت: جہالت كے نتائج ۹

دنياطلبي: دنياطلبى كے نتائج ۵; دنياطلبى كے اسباب ۹

دنياوى وسائل: دنياوى وسائل كى قدر و قيمت ۶

علماء : علماء كى خصوصيات۸

فسق: فسق كے نتائج ۵

قدريں : ۶،۸ قدروں سے جہالت ۹

گناہ : گناہ سے اجتناب ۴

يہود: يہوديوں كے اسلام لانے كے نتائج ۴; يہوديوں كے تقوى كے نتائج۴; صدر اسلام كے يہوديوں كى دنياطلبى ۵; صدر اسلام كے يہوديوں كا فسق ۵

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقُولُواْ رَاعِنَا وَقُولُواْ انظُرْنَا وَاسْمَعُوا ْوَلِلكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( ۱۰۴ )

ايمانوالو راعنا ( ہمارى رعايت كرو )نہ كہاكرو ''انظرنا '' كہا كرو اور غور سے سناكرو اور ياد ركھو كافرين كے لئے بڑادردناك عذاب ہے ( ۱۰۴)

۱ _ '' راعنا'' كا لفظ اس بات كى سند ہے كہ يہودى پيامبر (ص) كى اہانت كرتے اور آنحضرت (ص) كا تمسخر اڑاتے تھے_لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا آنحضرت (ص) كے گفتگو كرتے ہوئے مسلمان بعض اوقات آپ (ص) سے تقاضا كرتے كہ ذرا مہلت ديں تا كہ آپ (ص) كى پہلى گفتگو كو سمجھ ليں اور اس مہلت كى درخواست كے لئے ''راعنا _ ہميں فرصت ديجئے '' كا لفظ استعمال كرتے تھے يہودى اس كلمے ميں كچھ تحريف كركے اس سے ايك نامناسب اور برا معنى مراد ليتے اور اسى سے پيامبر اسلام (ص) كو خطاب كرتے تھے_

۲ _ اللہ تعالى نے اہل ايمان كو '' راعنا'' كے لفظ سے پيامبر اسلام(ص) كو مخاطب كرنے سے منع فرمايا_

يا ايها الذين آمنوا لا تقولوا راعنا

۳۵۵

۳ _ اللہ تعالى نے اہل ايمان كو حكم ديا كہ پيامبر اسلام (ص) (سے مہلت مانگتے ہوئے ) '' راعنا'' كى بجائے ''انظرنا'' كہيں _لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا ''انظرنا'' كا معنى ہے ہميں مہلت ديجئے (مجمع البيان )

۴ _ ايسى گفتار و كردار سے اجتناب كرنا ضرورى ہے جس كے نتيجے ميں دشمن ناجائز فائدہ اٹھائے_

۵ _ نيك عمل كے لئے نيك نيت ہى كافى نہيں ہے _لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا

يہ واضح ہے كہ ''راعنا'' كہنے سے مسلمانوں كى كوئي برى نيت نہ تھى ليكن اللہ تعالى نے مسلمانوں كواس لفظ كے استعمال كرنے سے روكاتا كہ دشمن اس سے سوء استفادہ نہ كرسكيں _

۶ _ ايسے الفاظ اور كلمات جن سے دينى مقدسات كى توہين ہوتى ہو ان سے پرہيزكرنا اور دوسرے لوگوں كو روكنا ضرورى ہے _لا تقولوا راعنا

۷ _ ايسے كلام يا گفتگو سے اجتناب ضرورى ہے جس ميں پيامبر اسلام (ص) كى اہانت يا تمسخر كا پہلو نكلتاہو_

لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا

۸ _ دينى قائدين كے احترام كا تحفظ ضرورى ہے _لا تقولوا راعنا

۹ _ آنحضرت (ص) كے كلام كو غور سے سننا اور جب آپ (ص) كلام فرمارہے ہوں تو خاموش رہنا ضرورى ہے _

و قولوا انظرنا و اسمعوا''سمع''كا معنى ممكن ہے غور سے سننا ہو يا فرمانبردارى يا اطاعت بھى ہوسكتاہے _ مذكورہ مطلب پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۱۰_ پيامبر اكرم (ص) كے فرامين كو قبول كرنا اہل ايمان كى ذمہ دارى ہے _يا ايها الذين آمنوا اسمعوا

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''سمع'' كا معنى اطاعت كرنا ہو_

۱۱ _ كفر اختيار كرنے والے دردناك عذاب ميں مبتلا ہوں گے _و للكافرين عذاب اليم

۱۲ _ نبى اسلام (ص) كى اہانت كرنا يا تمسخر اڑانا كفر كا موجب ہے _لا تقولوا راعنا و للكافرين عذاب اليم

۱۳ _ زمانہ بعثت كے يہود كفر اختيار كرنے والے لوگ تھے_و للكافرين عذاب اليم

ما قبل آيات كى روشنى ميں كافرين كا ايك مصداق يہود ہيں _

۱۴ _ نبى اسلام كو نہ ماننے والے اور آنحضرت (ص) كا تمسخر اڑانے والے دردناك عذاب كے مستحق ہيں _

و للكافرين عذاب اليم

۳۵۶

۱۵ _عن جميل قال كان الطيار يقول لى فدخلت انا و هوعلى ابى عبدالله عليه‌السلام فقال الطيار جعلت فداك ارايت ما ندب الله عزوجل اليه المومنين من قوله '' يا ايها الذين آمنوا'' ادخل فى ذلك المنافقون معهم؟ قال نعم و الضلال و كل من اقربالدعوة الظاهرة ...'' (۱) جميل كہتے ہيں ميں اور طيار امام صادقعليه‌السلام كى خدمت ميں حاضر ہوئے تو طيار نے حضرتعليه‌السلام كى خدمت ميں عرض كيا ميں آپعليه‌السلام كے قربان جاؤں كيا منافقين بھى اس آيت''يا ايها الذين آمنوا'' ميں شامل ہيں تو امامعليه‌السلام نے فرمايا ہاں بلكہ گمراہ اور ہر وہ شخص جس نے ظاہرى طور پر اسلام كو قبول كرلياہو اس آيت ميں شامل ہے ...''

۱۶ _ امام باقرعليه‌السلام نے فرمايا''هذه الكلمة سب بالعبرانية اليه كانوا يذهبون '' (۱)

يہ لفظ ''راعنا'' عبرانى زبان ميں گالى ہے اور يہود اسكو گالى كے طور پر استعمال كرتے تھے_

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ۱

اطاعت: نبى اسلام (ص) كى اطاعت۱۰

اقرار: اسلام كے اقرار كے آثار۱۵

اللہ تعالى : اوامر الہى ۳; اللہ تعالى كے نواہى ۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے تمسخر كے نتائج ۱۲; پيامبر اسلام (ص) كى اہانت كے آثار۱۲; پيامبر اسلام (ص) كے ساتھ گفتگو كے آداب ۲،۳،۹; پيامبر اسلام (ص) ; كے تمسخر سے اجتناب ۷ ;پيامبر اسلام (ص) كى اہانت سے اجتناب ۷; پيامبر اسلام (ص) كى گفتگو غور سے سننا ۹; پيامبر اسلام (ص) كا تمسخر ۱; پيامبر اسلام (ص) كى اہانت ۱، ۱۲; پيامبر اسلام (ص) كى تاريخ ۱; پيامبر اسلام (ص) كے تمسخر كى سزا ۱۴

تكلم: تكلم كے آداب ۶،۷

دشمنان: دشمنوں كا سوء استفادہ كرنا۴

دينى قائدين : دينى قائدين كا احترام ۸

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۴۱۲ ح ۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۴ح ۳۰۷ ، ۳۰۸_

۲) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۳۴۳، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۵ ح ۳۰۹_

۳۵۷

روايت: ۱۵،۱۶

سياست خارجہ : ۴

عذاب: اہل عذاب ۱۱،۱۴; دردناك عذاب ۱۱،۱۴; عذاب كے درجات ۱۱،۱۴; عذاب كے موجبات ۱۴

عمل صالح : عمل صالح كے معيارات ۵

كفار : ۱۳ كفار كو عذاب ۱۱

كفر: كفر كے نتائج ۱۴; نبى اسلام (ص) كے بارے ميں كفر كى سزا ۱۴; كفر كے موجبات ۱۲

گالي: راعنا كے لفظ سے گالى دينا ۱۶

مقدسات: مقدسات كى اہانت سے اجتناب ۶

منافقين : منافقين كا اسلام ۱۵

مؤمنين : مؤمنين كون لوگ؟ ۱۵; مؤمنين كى ذمہ دارى ۳،۱۰; مؤمنين كو تنبيہ ۲

نيت : نيت كے نتائج ۵

يہودي: يہوديوں كے تمسخر ۱; يہوديوں كى اہانتيں ۱; يہوديوں ميں گالى ۱۶; كافر يہوديوں كا عذاب ۱۴; صدر اسلام كے يہودى ۱،۱۳;

مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلاَ الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَاللّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاء وَاللّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( ۱۰۵ )

كافر اہل كتابيہود و نصا رى اور عام مشركين يہ نہيں چاہتے كہ تمھارے اوپر پروردگار كى طرف سےكوئي خير نازل ہو حالانكہ الله جسے چاہتاہے اپنى رحمت كے لئے مخصوص كرليتا ہے اورالله بڑے فضل و كرم كا مالك ہے (۱۰۵)

۱ _ اہل كتاب (يہود و نصارى ) اور مشركين و ہ لوگ ہيں جنہوں نے كفر اختيار كيا _

ما يود الذين كفروا من اهل الكتاب و لا المشركين

چونكہ''المشركين'' ، '' اہل الكتاب'' پر عطف ہے پس '' من اہل'' ميں '' من'' بيانيہ ہے _ بنابريں '' ما يود الذين كفروا '' يعنى وہ لوگ جو كافر ہوگئے ( مراد اہل كتاب اور مشرك ) نہيں چاہتے _

۳۵۸

۲ _ كفار ( يہود و نصارى اور مشركين) مسلمانوں پر انتہائي كم خير و بركت كے نزول سے بھى ناراضى ہيں _

ما يود الذين كفروا ان ينزل عليكم من خير ''خير'' كو نكرہ استعمال كرنا اور '' من'' زائدہ كا استعمال اس امر كى حكايت كرتاہے كہ مشركين مسلمانوں پر انتہائي كم خير و بركت كے نزول سے بھى خوش نہيں ہيں _

۳ _ انسانوں كے لئے خير و بركات كا سرچشمہ اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے _ان ينزل عليكم من خير من ربكم

۴ _ ذات اقدس بارى تعالى كى جانب سے خير و بركات كا نزول انسانوں پر اس كى ربوبيت كا ايك پرتو ہے_

ان ينزل عليكم من خير من ربكميہ مطلب لفظ '' رب'' سے استفادہ ہوتاہے_

۵ _ اسلام اور مسلمانوں كے ساتھ دشمنى ميں اہل كتاب كا مشركين كے ساتھ برابر ہونا ايك عجيب امر ہے اور ايك ايسا مسئلہ ہےجس كى توقع نہ تھي_

ما يودّ الذين كفروا من اهل الكتاب و لا المشركين ان ينزل عليكم من خير

يہوديوں كے لئے اہل كتاب كا عنوان استعمال كرنا ان كے توحيد و رسالت اور پرعقيدے كى حكايت كرتاہے اور ان كى مشركين جو اديان الہى كے كسى اصول پر عقيدہ نہيں ركھتے ان كے ساتھ شركت و برا برى يہ امور اشارہ ہيں كہ يہوديوں اور مشركين كا ارتباط غير معقول اور تعجب آور ہے _

۶ _ اللہ تعالى اپنى مشيت كى بناپر اپنى رحمت كو بعض انسانوں كے ساتھ مختص فرماديتاہے _

والله يختص برحمته من يشاء

۷ _ اللہ تعالى كے ہاں خاص رحمت ہے _والله يختص برحمته من يشاء

۸_ مومنين كے خير و بركت حاصل كرنے پر كفار كى ناراضگى اہل ايمان پر رحمت الہى كے خاتمے كا سبب نہيں بنے گى _ما يودّ الذين كفروا ان ينزل عليكم من خير من ربكم والله يختص برحمته من يشاء

۹_ اللہ تعالى كے ہاں بہت عظيم فضل و بخشش ہے _والله ذو الفضل العظيم

۱۰_ بندگان خدا پر خاص رحمت الہى كا نزول ان ميں پہلے سے موجود لياقت ، صلاحيت اور آمادہ زمين ہے _

والله يختص برحمته من يشاء و الله ذو الفضل العظيمواللہ يختص برحمتہ من يشاء كے بعد اللہ تعالى كى اس طرح تعريف كرنا كہ وہ انتہائي عظيم اور لا محدود فضل و بخشش كا مالك ہے يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ يہ جو پرودرگار اپنى خاص رحمت سب كو عطا نہيں فرماتا اور اس كو اپنے خاص بندوں كے ساتھ مختص فرماتاہے اس كى وجہ رحمت كى كمى نہيں ہے بلكہ انسانوں ميں اس كى زمين فراہم نہيں ہے جو مخصوص رحمت كى كشش كا باعث بنے_

۳۵۹

۱۱ _ الہى مشيتوں ميں قانون و حكمت موجود ہے جو لاقانونيت اور بے ہودگى سے منزہ و مبرّا ہيں _

والله يختص برحمته من يشاء و الله ذو الفضل العظيم

۱۲ _روى عن اميرالمومنين عليه‌السلام وعن ابى جعفر الباقر عليه‌السلام ان المراد برحمته هنا النبّوة (۱)

امير المومنينعليه‌السلام اور امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ اس آيت ميں رحمت سے مراد نبوت ہے _

اسلام : دشمنان اسلام ۵

اسماء اور صفات: ذوالفضل العظيم ۹

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات۳; خاص رحمت الہى ۶،۷،۱۰; رحمت الہى ۸; نزول رحمت الہى كى شرائط ۱۰; فضل الہى كى عظمت ۹; مشيت الہى كا قانونى ہونا ۱۱; فضل الہى كے درجات ۹; مشيت الہى ۶; ربوبيت الہى كے مظاہر ۴

امور : تعجب آور امور ۵

اہل كتاب: اہل كتاب كى دشمنى ۵; اہل كتا ب كا كفر ۱

خير: خير كا سرچشمہ ۳،۴

رحمت : رحمت جن كے شامل حال ہوتى ہے ۶،۸،۱۰

روايت: ۱۲ عيسائي :

عيسائيوں كا كفر ۱; عيسائي اور مسلمانان۲; عيسائيوں كى ناراضگى ۲

كفار:۱ كفار اور مسلمان ۲; كفار كى ناراضگى ۲،۸

مسلمان : مسلمانوں كے دشمن ۵; مسلمانوں پر خير كا نزول ۲،۸

مشركين : مشركين كا اہل كتاب سے اتحاد ۵; مشركين كى دشمنى ۵;مشركين كا كفر ۱; مشركين كى ناراضگى ۲

نبوت: نبوت كى رحمت ۱۲

يہود: يہوديوں كا كفر ۱; يہوديوں كى ناراضگى ۲; يہود اور مسلمان ۲

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ ص ۳۴۴ ، نورالثقلين ج/۱ص ۱۱۵ ح ۳۱۰_

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

قرطبی کہتے ہیں

''تمام علماء اور محدثین کی رائے یہ ہے کہ آیہ شریفہ میں استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہے جس کا رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)

اسلام (ص) کے زمانے میں رواج تھا ابن عباس ، ابیی بن کعب اور ابن جبیر نے اس آیہ شریفہ کو یوں پڑھا ہے( فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ) (۱)

علماء کے ان تمام اقوال کی موجودگی میں حسن کا یہ قول کسی توجہ اور اہمیت کے قابل نہیں رہتا کہ استمتاع سے مراد نکاح دائمی ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نکاح متعہ کو حلال قرار نہیں دیا نیز اس قول کی نسبت مجاہد اور ابن عباس کی طرف دی گئی ہے لیکن اس نسبت کی تکذیب و تردید حسن اور ابن عباس کی ان روایات سے ہو جاتی ہے جن کے مطابق یہ آیہ کریمہ متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے بہرحال ان کثیر روایات کے ہوتے ہوئے جو نکاح مؤقت (متعہ) کو ثابت کرتی ہے ہمیں اس کے اثبات کیلئے کسی زحمت میں پڑنے اور کلام کو طول دینے کی ضرورت نہیں۔

جہاں تک امرثانی ، یعنی متعہ ، جواز کے بعد دوبارہ حرام قرار دیا گیاہو ، کا تعلق ہے اسے ہم نہیں مانتے نسخ کے قائل حضرات ان چند چیزوں کاسہارا لیتے ہیں ، لیکن درحقیقت ان میں سے کوئی چیز ناسخ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

۱۔ آیہ شریفہ :( فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ) ۶۵:۱

''اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) (مسلمانوں سے کہہ دو) کہ جب تم اپنی بیبیوں کو طلاق دو تو ان کی عدت (پاکی) کے وقت طلاق دو،،۔ اس قول کی نسبت ابن عباس کی طرف دی گئی ہے(۲) لیکن یہ نسبت صحیح نہیں ہے کیونکہ ابن عباس زندگی بھر اس بات پر مصر رہے کہ متعہ حلال ہے۔

____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۵ ، ص ۱۳۰ ابن کثیر اپنی تفسیر میں کہتے ہیں: ابن عباس ، ابیی بن کعب ، سعید بن جبیر اور سعدی اس آیت کو یوں پڑھتے تھے:( فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ) ،

(۲) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۰۵

۴۰۱

یہ دعویٰ بذات خود درست نہیں کیونکہ اگر اس بنیاد پر آیہ کریمہ کو ناسخ قرار دیا جائے کہ مطلقہ عورتوں کیلئے عدہ کو واجب قرار دیا گیا ہے اور جس عورت سے متعہ کیا جائے اس کے عدہ کی مدت طلاق والی عورت سے کم ہے۔

اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ اس آیت سے اور کسی دوسری آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورتوں کے عدہ کی مدت برابر ہونا ضروری ہے۔

اگرا س بنیاد پر آیہ طلاق کو آیہ متعہ کا ناسخ قرار دیا جائے کہ نکاح متعہ میں طلاق نہیں ہوا کرتی تو اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ آیہ کریمہ کا مقصد ، ان موارد اور مقامات کو بیان کرنا نہیں کہ طلاق کہاں واقع ہوتی ہے اور کہاں واقع نہیں۔

ہوتی۔ تفسیر منار میں بعض مفسرین سے یہ تہمت منقول ہے کہ شیعہ ، نکاح متعہ میں عدہ کو واجب نہیں سمجھتے(۱)

سبحانک الھم ۔ بارالہا! گواہ رہنا کہ یہ شیعوں پر بہت بڑا الزام ہے متقدین اور متاخرین شیعہ فقہاء کی کتب قارئین کے سامنے ہیں آج تک کسی شیعہ فقیہ کی طرف یہ قول منسوب نہیں یہ فتویٰ شاذ و نادر قول کے طور پر بھی فقہی کتب میں موجود نہیں چہ جائیکہ یہ کوئی اجماعی مسئلہ ہو ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب شیعہ اور ان پر الزامات لگانے والے داد گاہ الٰہی میں پیش ہوں گے اس دن وہی لوگ خسارے میں ہوں گے جو باطل پر ہیں ۔وهنالک یخسرالمبطلون (۲)

۲۔ یہ آیہ متعہ اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ ) ۴:۱۲

''اور جو کچھ تمہاری بیبیاں چھوڑ (کر مر) جائیں پس تمہارے آدھے آدھ ہے،،

___________________

(۱) تفسیر ا لمنار ، ج ۵ ، ص ۱۳۔۱۴

(۲) آیت( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) کی تفسیر کے موقع پر ان الزامات کا ذکر کریں گے۔

۴۰۲

یہ آیت زوج اور زوجہ کے درمیان میراث کو ثابت کرتی ہے جبکہ نہ متعہ والی عورت کو شوہر سے ارث ملتا ہے اور نہ شوہر کو متعہ والی بیوی سے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ متعہ والی عورت درحقیقت زوجہ نہیں ہے اس طرح یہ آیت آیہ متعہ کیلئے ناسخ قرار پاتی ہےیہ قول سعید بن مسیّب ، سالم بن عبداللہ اور عاصم ابن ابی بکر کی طرف منسوب ہے(۱)

جواب: جس دلیل سے نکاح متعہ میں میراث کی نفی ہوتی ہے وہ آیت ارث کا مخصص ہے اور کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مطلق زوجیت (ہر قسم کی زوجیت و ہمسری) میراث کی مستوجب ہو بلکہ یہ ثات ہے کہ کافر کو مسلمان سے اور قاتل کو مقتول سے ارث نہیں ملتا اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ زوج اور زوجہ اس صورت میں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے جب ان کا نکاح دائمی ہو ظاہر ہے یہ حقیقت نسخ سے مختلف ہے۔

۳۔ آیہ متعہ ، سنت (روایات )کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے اس سلسلے میںامیر المومنین (ع) سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ آپ نے ابن عباس سے فرمایا:

''انک رجعل تاثه ، ان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم نهی عن المتعة وعن لحوم الحمر الاهلیة زمن خیبر،،

''تم ایک گمراہ آدمی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر متعہ اور پالتو گدھے کا گوشت حرام قرار دیا،،

ربیع بن سبرۃ نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے:

''رآیت رسول الله ص قائماً بین الرکن و الباب وهو یقول : یاایها الناس انیی قد کنت اذنت لکم فیی الاستمتاع من النساء ، وان الله قد حرم ذلک الی یوم القیامة فمن کان عنده منهن شییء فلیخل سبیله ، ولا تاخذوا مما آتیتموهن شیاً،،

''میں نے رسول اللہ (ص) کو رکن اور درخانہ کعبہ کے درمیان کھڑے ہوئے یہ فرماتے سنا۔ اے لوگو! میں نے تمہیں متعہ کی اجازت دی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کیلئے حرام قرار دے دیا ہے ، تم میں سے جس کے پاس بھی کوئی ایسی عورت ہے اسے چھوڑ دےاور جو کچھ ان عورتوں کو دیا ہے وہ واپس نہ لے،،۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۰۵۔۱۰۶

۴۰۳

سلمہ نے اپنے باپ سے روایت کی ہے:

''رخص رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم عام اوطاس فیی المتعة ثلاثاً ثم نهی عنها،،

جنگ اوطاس کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تین دن کیلئے نکاح مؤقت کی اجازت دیاور اس کے بعد اس سے منع فرمایا دیا،،

جواب: اولاً اس سے پہلے کئی دفعہ بیان ہو چکا ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہو سکتا۔

ثانیاً ان روایات کا ائمہ اہل بیت (ع) کی ان متواتر روایات سے تعارض ہے جو متعہ کے مباح ہونے پر دلالت کرتی ہیں اور یہ کہ رسول اللہ (ص) نے کبھی بھی متعہ سے منع نہیں فرمایا:

ثالثاً پیغمبر اکرم (ص) کے کسی دور میں متعہ کی حرمت ثابت ہونے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ آیہ متعہ نسخ ہو گئی ہے کیونکہ عن ممکن ہے کہ حرمت کا زمانہ حلیت متعہ کے زمانے سے مقدم ہو اور اہل سنت کی بہت سی روایات موجود ہیں جن کی رو سے متعہ رسول اللہ (ص) کے آخری ایام سے لے کر خلافت حضرت عمر تک جائز رہا۔

اگر ان روایات کی مخالف کوئی دوسری روایت موجود ہو اسے ٹھکرا دینا چاہئے قارئین کی آگاہی کیلئے ہم ذیل میں اس قسم کی چند روایات پیش کرتے ہیں:

۱۔ ابوزبیر روایت کرتے ہیں:

''میں نے جابر بن عبداللہ کو یہ کہتے سنا : ہم رسول اللہ (ص) اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں مٹھی بھر کھجور اور کچھ مقدار آٹا دے کر متعہ کیا کرتے تھے حتیٰ کہ حضرت عمر نے عمرو بن حریث کے واقعہ میں اس پر پابندی لگا دی،،(۱)

۲۔ ابو نضرۃ روایت کرتے ہیں:

''میں جابر بن عبداللہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا: متعہ حج اور متعہ نساء کے بارے

____________________

(۱) صحیح مسلم ، باب نکاح متعہ ، ج ۴ ، ص ۱۴۱

۴۰۴

میں ابن عباس اور ابن زبیر کا آپس میں اختلاف ہے جابر بن عبداللہ نے فرمایا: ہم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں حج تمتع اور متعہ نساء کرتے رہے ہیں اس کے بعد حضرت عمر نے اس سے منع کر دیا جس کے بعد ہم نے دوبارہ نہیں کیا،،(۱)

۳۔ ابو نضرۃ نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے:

حج تمتع اور متعہ نساء رسول اللہ (ص) کے زمانے میں رائج تھے اس کے بعد حضرت عمر نے ان سے روک دیا تو ہم رک گئے،،(۲)

۴۔ ابو نضرۃ نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے:

''رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہم حج تمتع اور نکاح متعہ کرتے رہے لیکن جب حضرت عمر نے اس سے منع کر دیا تو ہم نے انہیں ترک کر دیا،،(۳)

۵۔ ابونضرۃ نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے:

''میں نے کہا: ابن زبیر متعہ سے روکتے ہیں اور ابن عباس متعہ کا حکم دیتے ہیں؟ جابر نے کہا: تم خبر کو اس کے اہل کے پاس لے آئے ہو ہم رسول اللہ (ص) اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں متعہ کرتے رہے لیکن جب حضرت عمر کو خلافت ملی تو انہوں نے لوگوں سے خطاب کر کے کہا: رسول اللہ (ص) وہی رسول ، اور قرآن وہی قرآن ہے حج تمتع اور متعہ نساء رسول اللہ (ص) کے زمانے میں مباح و جائز تھے میں انہیں حرام قرار دے رہا ہوں اور ان کے مرتکب کو سزا دوں گا اور جو شخص کسی عورت سے نکاح موقت کرے گا میں اسے سنگسار کروں گا،،(۴)

____________________

(۱) صحیح مسلم ، باب نکاح متعہ ، ج ۴ ، ص ۱۴۱

(۲) مسند احمد ، ج ۳ ، ص ۳۲۵

(۳) ایضاً ص ۳۵۶۔۳۶۳

(۴) سنن بیہقی ، ج ۷ باب نکاح متعہ ، ص ۲۰۶

۴۰۵

۶۔ عطاء روایت کرتے ہیں:

''جس وقت جابر بن عبداللہ عمرہ سے فارغ ہو کر آئے تو ہم ان کے گھر گئے اس دوران لوگوں نے ان سے کچھ مسائل پوچھے جن میں متعہ بھی زیر بحث آیا تو جابر بن عبداللہ نے فرمایا: ہاں ! ہم رسول اللہ (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دور خلافت میں متعہ کرتے رہے،،(۱)

احمد نے اپنی مسند میں بھی اس روایت کو بیان کیا ہے البتہ اس میں اس جملے کا بھی اضافہ ہے: حتیٰ کہ حضرت

عمر کی خلافت کا آخری دور آیا،،(۲)

۷۔ عمران بن حصین روایت کرتے ہیں:

''کتاب الٰہی میں آیہ متعہ نازل ہوئی اور رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہم اس آیت پر عمل کرتے رہے اس کے بعد ایسی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی جو اسے نسخ کرے اور نہ پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی وفات تک اس سے منع فرمایا،،(۳)

رازی نے اس آیہ مبارکہ کی تفسیر کے موقع پر اس روایت کو اس اضافے کے ساتھ بیان کیا ہے:

''پھر ایک آدمی نے اپنی رائے کے مطابق جوجی میں آیا کہہ دیا،،(۴)

____________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۴ ، باب نکاح متعہ ، ص ۱۳۱

(۲) مسند احمد ، ج ۳، ص ۳۸۰

(۳) ایضاً ج ۴ ، ص ۲۳۶

(۴) یہ روایت اسی اضافے کے ساتھ صحیح مسلم ، ج ۴ ، باب جواز التمتع ، ص ۴۸ میں بھی موجود ہے۔

۴۰۶

۸۔ عبداللہ ابن مسعود نے روایت کی ہے:

''ہم رسول اللہ (ص) کے ہمراہ مشغول جہاد تھے اور ہمارے ساتھ عورتیں نہیں تھیں ہم نے رسول اللہ (ص) سے عرض کی : یارسول اللہ (ص) کیا ہم اپنے آپ کو نامرد بنالیں ؟ آپ (ص) نے ہمیں اس عمل سے منع فرمایااور ہمیں ایک کپڑے حق مہر پر نکاح موقت کی اجازت دے دی اس کے بعد عبداللہ ابن مسعود نے اس آیہ کی تلاوت کی:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۵:۸۷(۱)

''اے ایماندارو! جو پاک چیزیں خدا نے تمہارے واسطے حلال کر دی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کیونکہ خدا حد سے بڑھ جانے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا،،

مولف: عبداللہ ابن مسعودکا اس آیہ کی تلاوت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسے اللہ اور رسول (ص) کی طرف سے حرام قرار نہیں دیا گیا بلکہ حرمت کا حکم رسول اللہ (ص) کے بعد کسی کا ایجاد کردہ ہے:

۹۔ شعبہ نے حکم بن عیینہ سے روایت بیان کی ہے:

''میں نے حکم سے پوچھا: کیا آیہ متعہ نسخ ہوئی ہے ؟ حکم نے کہا : نہیں۔ اس کے بعد کہا : امیر المومنین (ع) نے فرمایا: اگر حضرت عمر نے متعہ حرام قرار نہ دیا ہوتا تو کوئی شقی ہی زنا میں مبتلا ہوا،،(۲)

اس روایت کوقرطبی نے عطاء کے واسطے سے ابن عباس سے نقل کیا ہے(۳)

____________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۴ ، ص ۱۳۰ ، بخاری میں اس حدیث کی تحریف سے آگاہی کیلئے اسی کتاب کاضمیمہ نمبر ۷ ملا خطہ فرمائیں۔

(۲) تفسیر طبری ، ج ۵ ، ص ۹

(۳) تفسیر قرطبی ، ج ۵ ، ص ۱۳۰

۴۰۷

مولف: شاید اس روایت میں شقی سے مراد وہی ہے جس کی تفسیر ابوہریرہ کی روایت میں بیان کی گئی ہے ابوہریرہ کہتے ہیں:

رسول اللہ (ص) نے فرمایا: جہنم میں شقی لوگ ہی داخل ہوں گے آپ (ص) سے پوچھا گیا شقی کون لوگ ہیں ؟ آپ (ص) نے فرمایا: شقی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرتے اور معصیت الٰہی کو ترک نہیں کرتے،،(۱)

۱۰۔ عطاء روایت بیان کرتے ہیں:

''میں نے ابن عباس کو یہ کہتے سنا : عمر پر خدا رحمت کرے متعہ خدا کی طرف سے پیغمبر (ص) کی امت پر ایک رحمت تھی اگر عمر نے متعہ کو حرام قرار نہ دیا ہوتا تو بہت ہی کم لوگ زنا کے محتاج ہوتے،،(۲)

وہ روایات جن کاذکر نسخ کے قائل حضرات دلیل کے طور پر کرتے ہیں ، کئی قسم کی ہیں ان میں سے بعض روایات ایسی ہیں جن کا سلسلہ سندربیع بن سبرۃ تک پہنچتا ہے یہ روایات اس نے اپنے والد سے نقل کی ہیں اور یہ زیادہ تعداد میں ہیں ان میں سے بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے رکن اور مقام یا درکعبہ اور مقام کے درمیان کھڑے ہو کر قیامت تک کیلئے متعہ کو حرام قرار دینے کا اعلان کیا۔

بعض روایات ایسی ہیں جن کے مطابق امیر المومنین (ع) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے متعہ کو حرام قرار دیا اور بعض روایات ایسی ہیں جو سلمہ بن اکوع سے منقول ہیں۔

جہاں تک ان روایات کا تعلق ہے جن کا سلسلہ سند سبرۃ تک پہنچتا ہے یہ روایات اگرچہ بہت طریقوں سے نقل کی گئی ہیں لیکن یہ ایک ہی آدمی کی روایات ہیں اور خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہو سکتا اس کے علاوہ ان ہی روایات میں سے بعض کامضمون بعض روایات کے بے بنیاد اور جھوٹا ہونے کا واضح ثبوت ہے

____________________

(۱) مسند احمد ، ج ۲ ، ص ۳۴۹

(۲) احکام القرآن للجصاص ، ج ۲ ، ص ۱۴۷

۴۰۸

کیونکہ یہ بات معقول معلوم نہیں ہوتی کہ رسول اللہ (ص) رکن و مقام یا درکعبہ و مقام کے درمیان (جہاں لوگوں کابہت بڑا اجتماع ہوتا تھا) کھڑے ہو کر متعہ کی حرمت کا اعلان فرمائیں اور یہ اعلان صرف سبرۃ سن سکے اور یہ بھی نامعقول معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں مسلمانوں میں سے صرف سبرۃ(۱) سے نقل کرے۔

اس مجمع سے مہاجرین و انصار کہاں گئے جو رسول اللہ (ص) کے ہر قول و فعل کو آنکھوں سے لگاتے اور اسے محفوظ کرل یتے تھے اور وہ راوی کہاں غائب ہو گئے تھے جو رسول اللہ (ص) کے ہاتھوں اور آنکھوں کے اشاروں کو بھی زیادہ اہمیت دیتے اور انہیں محفوظ کرل یتے تھے یہ سب حضرات کیوں غائب تھے اور قیامت تک متعہ کو حرام قرار دینے والی روایت کو نقل کرنے میں سبرۃ کے ساتھ کیوں شریک نہیں ہوئے۔

اس سے بڑھ کر خود حضرت عمر نے اس روایت کو کیوں نقل نہیں کیا تاکہ تحریم کی نسبت اپنی طرف دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اس کے علاوہ سبرۃ کی روایات آپس میں بھی سازگار نہیں ہیں اور ان میں سے بعض ، بعض کی تکذیب و تردید کرتی ہیں کیونکہ بعض روایات کے مطابق متعہ ، فتح مکہ کے سال حرام قرار دیا گیا(۲) اور بعض کے مطابق حجتہ الوداع کے سال حرام قرار دیا گیا(۳) خلاصہ یہ کہ سبرۃ کی یہ روایات کئی اعتبار سے ناقابل عمل ہیں۔

جہاں تک اس روایت کاتعلق ہے جو حضرت علی (علیہ السلام) سے مروی ہے ، وہ یقیناً من گھڑت ہے کیونکہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ

____________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۴ باب النکاح متعہ ، ص ۱۳۲۔۱۳۳

(۲) سنن ابن ماجہ طبع اول ، ج ۱ ، باب النہی عن نکاح المتعہ ، ص ۳۰۹۔ سنن ابی داؤد، ج ۱ ، باب نکاح المتعہ ، ص ۳۲۴

(۳) المنتقیٰ ، ج ۲ ، ص ۵۱۹۔ ابن ماجہ ، ج۱ ، ص ۳۰۹

۴۰۹

فتح مکہ کے سال متعہ جائز تھا پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ خیبر میں امیر المومنین (ع) ابن عباس کے سامنے متعہ کے حرام قرار دیئے جانے پر استدلال کریں یہی وجہ ہے کہ بعض علماء کرام نے یہ احتمال دیا ہے کہ گزشتہ روایت میں زمانہ خیبر سے مرادپالتو گدھے کے حرام قرار دیئے جانے کے زمانے کی طرف اشارہ ہو ، تحریم متعہ کے زمانے کی طرف نہیں اس احتمال کو منتقی اور سنن بیہقی میں ابن عیینہ سے نقل کیا گیا ہے لیکن یہ احتمال دو جہتوں سے باطل ہے:

i ۔ یہ احتمال عربی قواعد کیخلاف ہے کیونکہ اس روایت میں ایک ہی مرتبہ ، آغاز کلام میں نہی کا ذکر کیا گیا ہے لہٰذا ظرف (زمانہ تریم) بھی ایک ہی ہونا چا ہئے اس لئے کہ اگر کوئی آدمی یہ کہے :اکرمت زیداً و عمرواً یوم الجمعته (یعنی) میں نے جمعہ کے دن عمرو کی عزت کی اس میں زید اور عمرو کے احترام کا زمانہ لازماً ایک ہونا چاہئے لیکن اگر متکلم کی مراد یہ ہو کہ صرف عمرو کے احترام کا دن جمعہ تھا تو اسے کیوں کہنا چاہئے:اکرمت زیداً اواکرمت عمرواً یوم الجمته (یعنی) میں نے زید کی عزت کی اور عمرو کی عزت جمعہ کے دن کی۔

ii ۔ یہ احتمال بخاری ، مسلم اور احمد کی روایت کے منافی ہے جو انہوں نے حضرت علی (علیہ السلام) سے نقل کی ہے اس روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا:

''نھی رسول اللہ (ص) عن متعتہ النسآء یوم خیبر ''رسول اللہ (ص) نے خیبر کے دن متعتہ النساء اور پالتو گدھے کاگ وشت حرام قرار دیا،،

بیہقی نے باب متعہ میں عبداللہ بن عمر سے بھی روایت بیان کی ہے جس کے مطابق متعہ کو خیبر کے دن حرام قرار دیاگیا ہے(۱)

____________________

(۱) سنن بیہقی ، ج ۷ ، ص ۲۰۲

۴۱۰

باقی رہی وہ روایت جو سلمہ بن اکوع نے اپنے باپ سے نقل کی ہے:

''رخص رسول الله (ص) فی متعة النسآء عام اوطاط ثلاثه ایام ثم نهی عنها،،

''رسول اللہ (ص) نے جنگ اوطاس کے موقع پر تین دن کے لئے متعہ کی اجازت دی اور پھر اس سے منع فرمایا،،

یہ روایت خبر واحد ہے جس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا اس کے علاوہ اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو ابن عباس ، ابن مسعود ، جابر ، عمرو بن حریث اور ان جیسے دوسرے صحابہ اور تابعین سے یہ پوشیدہ نہ رہتی بھلا یہ روایت کیسے صحیح ہو سکتی ہے جبکہ حضرت ابوبکر نے اپنے پورے دور خلافت میں اور حضرت عمر نے اپنے دور خلافت کے زیادہ تر عرصے میں اسے حرام قرار نہیں دیا بلکہ اپنی خلافت کے آخری دنوں میں اسے حرام قرار دیا۔

اس سے قبل ابن حزم کا وہ کلام بھی گزر چکا ہے جس کےم طابق صحابہ اورتابعین کی ایک جماعت متعہ کو حلال و مباح سمجھتی رہی اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو ابن جریر نے تہذیب الآثار میںسلمان بن یسار سے اور اس نے ام عبداللہ دختر ابی خثیمہ سے نقل کی ہے : ام عبداللہ دختر ابی خثیمہ کہتی ہیں:

''ان رجلا قدم من ا لشام فزل علیها فقال : ان العزبة قد اشندت علیی فابغینی امراة انمتع معها قالت: فدلله علی امراة فشارطها و اشهدوا علی ذلک عدولاً ، فمکث معها ماشاء الله ان یمکث ، ثم انه خرج فاخبر عن ذلک عمر بن الخطاب ، فارسل الیی فسالنیی احق ماحدیت ؟ قلت : نعم قال : فاذاقدم فآذنینیی به ، فلما قدم اخبرته فارسل الیه فقال: ماحملک علی الذی فعلته ؟ قال : فعلته مع رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم ثم لم ینهنا عنه حتی قبضه الله ثم مع ابیی بکر فلم ینهنا عنه حتی قبضه الله ، ثم معک فلم تحدث لنا فه نهاً ققال عمر : اما و الذین نفسیی بیده او کنت تقدمت فیی نهی لرجمعتک ، یسنوا حتی یعرف النکاح من السفاح،،

''شام سے ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا : میں بے ہمسری سے تنگ آ گیا ہوں ۔ میرے لئے کسی عورت کابندوبست کرو جس سے میں متعہ کر لوں میں نے ایک عورت کی طرف اس کی رہنمائی کی۔ چنانچہ ان دونوں کے درمیان مقررہ مدت کیلئے قرارداد یعنی عقدمتعہ انجام پایا اور اس موقع پر عادل گواہ بھی رکھے گئے اور ایک عرصے تک یہ دونوں ساتھ رہے اس کے بعد یہ دونوں جدا ہو گئے ۔

۴۱۱

اس کی اطلاع حضرت عمر بن خطاب کو ملی اور انہوں نے مجھے اپنے پاس بلا کر پوچھا: کیا یہ خبر درست ہے ؟ میں نے اس خبر کی تصدیق کی اس پر حضرت عمر نے کہا: اگر یہ شخص دوبارہ مدینہ آئے تو مجھے اطلاع دینا جس وقت یہ شخص مدینہ آیا تو میں نے اس کی اطلاع حضرت عمر کو دے دی۔ حضرت عمر نے اس شخص کو اپنے پاس بلا کر پوچھا: تو نے یہ حرکت کیوں کی ؟ اس نے جواب دیا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میںیہ عمل انجام دیتے رہے ہیں مگر آپ (ص) نے ہمیں اس سے منع نہیں فرمایا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں بھی ہم عقد متعہ کرتے رہے مگرا نہوںنے بھی ہمیں نہیں روکا اور ان کا انتقال ہو گیا آپ کے دور خلافت میں بھی ہم اسے ایک عرصے تک انجام دیتے رہے ۔ (ابھی اس سے منع کرنے کی کیا وجہ ہے) اس پر حضرت عمر نے جواب دیا:قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر میں نے اس سے قبل اس کی حرمت کا اعلان کر دیا ہوتا تو تجھے حتماً سنگسار کر دیتا آئندہ کیلئے نکاح متعہ کی حرمت کا اعلان کر دو تاکہ حلال نکاح اور حرام نکاح میں فرق رہے،،۔

دوسری روایت وہ ہے جسے ابن جزیر نے اپنی مسند میں ابو یعلی سے اور ابوداؤد نے اپنے ناسخ میں حضرت علی (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے اس روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

''لولاما سبق من رایی عمر بن الخطاب لامرت بالمتعة ، ثم مازنی الاشقیی'' (۱)

''اگر مجھ سے پہلے عمر نے متعہ کو حرام قرار نہ دیا ہوتا تو میں متعہ کا حکم دیتا پھر کوئی شقی ہی زنا کا مرتکب ہوتا،،۔

ان دونوں روایات میں چند نکات ایسے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ متعہ کو حضرت عمر نے حرام قرار دیا ہے ۔

i ۔ حضرت امیر المومنین (ع) اور ایک صحابی گواہی دے رہے ہیں کہ متعہ ، پیغمبر اکرم (ص) کے زمانے میں اور اس کے بعد ایک عرصے تک حرام نہیں تھا اور اسے حضرت عمر نے حرام قرار دیا۔

ii ۔ عادلوں کا عقد متعہ پر گواہ رہنا اور ان کا اس سے منع نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حضرات متعہ کو جائز سمجھتے تھے۔

____________________

(۱) کنز العمال ، ج ۸ ، ص ۲۹۴

۴۱۲

iii ۔ حضرت عمر کا شامی کی اس بات کی تردید نہ کرنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے متعہ سے منع نہیں فرمایا اس بات کا ثبوت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے اسے حرام قرار دیا ہے۔

iv ۔ حضرت عمر کا شامی سے یہ کہنا : ''اگر میں نے اس سے قبل اس کی حرمت کا اعلان کر دیا ہوتا تو تجھے سنگسار کر دیتا،،۔ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس واقعہ سے پہلے حضرت عمر نے متعہ سے نہیں روکا تھا۔

v ۔ حضرت عمر کا یہ کہنا : آئندہ کیلئے نکاح متعہ کی حرمت کا اعلان کر دو،، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے قبل مسلمانوں میں متعہ کارواج عام تھااور حضرت عمر نے اس اعلان کے ذریعے یہ چاہا کہ اس کی ممنوعیت لوگوں تک پہنچ جائے تاکہ لوگ اس سے رک جائیں۔

ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر کی جانب سے متعہ کو حرام قرار دینے میں اس واقعہ کا بالواسطہ یابلاواسطہ دخل ہو کیونکہ حضرت عمر کاشامی کے اس عمل کا برا منانا جبکہ اس حدیث کے مطابق مسلمانوں میں متعہ کاعام رواج تھا اور اس واقعہ کا حضرت عمر کے علم میں آ جانا جبکہاس قسم کے واقعات کی اطلاع عموماً حاکم وقت تک نہیں پہنچتی ، ایسے امور ہیں جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اس داستان میں ایک اہم راز مضمر ہے جس سے راوی آخرتک لاعلم رہے یا ان راویوں نے جان بوجھ کر اس داستان کے اصل راز کو پردے میں ہی رہنے دیا۔

ان سب کے علاوہ سلمہ بن اکوع کی روایت سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے متعہ سے منع فرمایا تھا بنا برایں یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ روایت یوں واردہوئی ہو۔

''رخص رسول الله (ص) متعة النساء عام امطاس ثلاثا ایام ثم نهی عنها،، نہی کا صیغہ مجمہول ہو اور ترجمہ یہ ہو:

جنگ اوطاط کے موقع پر تین دن کے لئے رسول اللہ (ص) نے متعہ کی اجازت دی اور پھر اس سے روک دیا گیا ہو سکتا ہے کہ روکنے و الے حضرت عمر ہوں جنہوں نے رسول اللہ (ص) کی وفات کےبعد متعہ حرام قرار دیا۔

۴۱۳

خلاصہ کلام یہ کہ کسی قابل قبول دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اللہ (ص) نے متعہ سے منع فرمایا ہو بلکہ رسول اللہ (ص) کے منع نہ فرمانے کا بنی ثبوت یہ ہے کہ حضرت عمر نے حرام قرار دینے کی نسبت اپنی طرف دی ہے اور کہا ہے:

''متعتان کانتا علی عهد رسول الله (ص) وانا انهی عنهما و اعاقب علیهما،، (۱)

''نکاح متعہ اور حج تمتع رسول اللہ (ص) کے زمانے میں انجام پاتے تھے اور میں ان دونوں پر پابندی لگا رہا ہوں اور اس کی مخالفت کرنے والے کو سزا دونگا،،

اگر متعہ کو رسول اللہ (ص) نے حرام قرار دیا ہوتا تو حضرت عمریوں فرماتے '''نهی النبی (ص) عنهما،، رسول اللہ (ص) نے ان دونوں سے منع فرمایا،،۔

چوتھی چیز جس کا ذکر منکرین متعہ ، جو کتاب و سنت کی رو سے جائز ہے ، کے نسخ کے طور پر کرتے ہیں وہ علماء کا اجماع ہے۔

جواب: اجماع اس وقت تک حجت اور قابل عمل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تائید اور پشت پناہی قول معصوم (ع) نے کرے گزشتہ بحثوں میں یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ متعہ کو رسول اللہ (ص) کے زمانے میں اور خلافت حضرت عمر کے دور میں بھی ایک عرصے تک حرام قرار نہیں دیا گیا کیا یہ معقول ہے کہ صرف ایک جماعت کے فتویٰ کی بنیادپر ، جو معصوم عن الخطاء بھی نہیں ، کتاب خدا اور سنت رسول (ص) کو ٹھکرا دیا جائے اگر ہر آدمی کے فتویٰ سے احکام خدا نسخ ہو سکتے ہیں تو وہ احکام بھی نسخ ہو سکتے ہیں ، جو قرآن کریم اور سنت قطعیہ سے ثابت ہیں اس کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ مجتہدین کی رائے اور فتاویٰ سے نماز ، روزہ اور حج جیسے مسلم واجبات کا نسخ ہونا بھی جائز ہو جس کے ماننے کیلئے کوئی مسلمان تیار نہیں۔

____________________

(۱) یہ روایت جابر کی پانچویں روایت میں بھی ذکر کی گئی ہے ابو صالح کاتب اللیث نے اپنے نسخ میں اور طحاوی اور ان جریر نے تہذیب الآثار میں اور ابن عسا کرنے بھی اسے نقل کیا ہے البتہ ان دونوں کی روایت میں اس جملے کا اضافہ ہے ان دونوں کے مرتکب کو سزا دوں گا کنز العمال المتعہ ، ج ۸ ، ص ۲۹۳۔۲۹۴۔

۴۱۴

اس کے علاوہ متعہ کو حرام قرار دینے پر علماء کا اجماع ثابت بھی نہیں کیونکہ ایسے مسئلے پر اجتماع کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا جس کے مخالف اصحاب نبی (ص) اور ان کے بعد کے دوسرے علماء کرام ہوں خصوصاً جب ان اصحاب پیغمبر (ص) کا قول ائمہ اہل بیت (ع) ، جن سے ہر قسم کے رجس و پلیدی کو خدا نے دور رکھا ہے ، کے قول کے مطابق ہو ان تمام بحثوںکا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ متعہ کو صرف حضرت عمر نے حرام قرار دیا ہے۔

یہ حقیقت محتاج بیان نہیں کہ کتاب اللہ اور سنت پیغمبر (ص) دوسروں سے زیادہ اتباع و پیروی کے مستحق ہیں اور اسی لئے عبداللہ ابن عمر نے حج تمتع کی اجازت دے دی تھی اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا:

''کیف مخالف اباک و قد نهی عن ذلک : فقال لهم : ویلکم الاتتقون ۔۔۔۔۔۔افرسول الله صلی الله علیه وآله وسلم احق انتتبعوا سنته ام سنة عمر ؟،، (۱)

''آپ اپنے والد کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں انہوں نے تو حج تمتع سے منع کر دیا ہے عبداللہ ابن عمر نے جواب میں کہا: مقام افسوس ہے تم خوف خدا نہیں رکھتے؟ سنت رسول (ص) قابل اتباع ہے یا سنت عمر؟،،

گزشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ آیہ متعہ کے نسخ کے قائل حضرات جن چیزوں کا سہارا لیتے ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی آیہ متعہ کے حکم ، جس کا جواز شریعت اسلام میں قطعی طورپر ثابت ہے ، کیلئے ناسخ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

متعہ کی سزا۔۔۔۔۔۔سنگساری

بہت سی روایات ، جن میں سے بعض کا ذکر اس سے پہلے ہو چکا ہے ، سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے متعہ کرنے

والے کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اس سلسلے کی پہلی روایت وہ ہے جسے جابر نے نقل کیا ہے۔

____________________

(۱) مسند احمد ، ج ۲ ، ص ۹۵

۴۱۵

''تمتعنا مع رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم فلما قام عمر قال ان الله کان یحل لرسوله ماشاء بماشاة ، و ان القرآن قد نزل منازله ، فاتموا الحجة و العمرة لله کما امر کم ، و ابتوا نکاح هذا النساء فلن اوتیی برجل نکح امراة الی اجل الا رجمته بالحجارة،، (۱)

''ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ رہتے ہوئے متعہ انجام دیتے رہے لیکن جب حضرت عمر مسند خلافت پر آئے تو کہنے لگے: اللہ تعالیٰ جس کو چاہتاہے اور جیسے چاہتا ہے اپنے رسول کیلئے حلال قرار دیتا ہے قرآن مجید اپنے مخصوص اہداف کے تحت اتاراگیا حج اور عمرہ کوا سی طرح مکمل کرو جس طرح اللہ نے حکم دیا ہےاور عورتوں سے دائمی نکاح کیا کرو میرے پاس اگر کوئی ایسا آدمی لایا گیا جس نے کسی عورت سے نکاح موقت کیاہو گا تو میں اسے سنگسار کروں گا،،۔

دوسری روایت : شافعی نے مالک سے ، اس نے ابن شہاب سے اور اس نے عروہ سے روایت کی ہے کہ خولہ بنت حکیم نے حضرت عمر بن خطاب سے جا کر کہا:

''ان ربیعة بن امیة استمتع بامراة مولدة فحملت منه فخرج عمر یجر رداء ه فزعاً ۔فقال : هذه المتعة ولو کنت تقدمت فیه لرجمته ،،(۲)

بتحقیق ربیعہ بن امیہ نے ایک جوان عورت سے متعہ کیا ہے اور اس سے حمل بھی ٹھہرا ہے اس خبر کو سن کر حضرت عمر غضب کے عالم میں اپنی چادر کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہا: اگر میں نے اس سے قبل منع کیا ہوتا تو اس کو سنگسار کر دیتا،،۔

تیسری روایت: نافع نے عبداللہ ابن عمر سے روایت بیان کی ہے:

''انه سئل عن متعة النساء ، فقال : حرام ، اما ان عمر بن الخطاب لو اخذ فیها احداً لرجمه ،، (۳)

____________________

(۱) صحیح مسلم باب متعہ بالحج و العمرۃ ، ج ۴ ، ص ۳۶ ۔ طیالسی نے تقریباً بہیی روایت جابر سے اپنی مسند کی ج ۸ ، ص ۲۴۷ میں نقل کی ہے۔

(۲) سنن بیہقی باب نکاح المتعہ ، ج ۷ ، ص ۲۰۶

(۳) ایضاً

۴۱۶

''عبداللہ ابن عمر سے پوچھا گیا : متعتہ النساء حرام ہے یا حلال ؟ انہوں نے جواب دیا: حرام ہے۔ اگر حضرت عمر ایسے آدمی کو گرفتار کرتے جس نے متعہ کیا ہو تو اسے سنگسار کرتے،،۔ متعہ کے بارے میں عبداللہ بن زبیر کا مسلک بھی وہی تھاجو حضرت عمر کا تھا کیونکہ جب اس نے متعہ کو جواز سے انکار کیا تو عبداللہ بن عباس نے اس سے کہا:

''انک لجلف جاف فلعمری لقسد کانت المتعة تفعل علی عهد امام المتقین ، رسول الله ۔فقال له ابن الزبیر فجرب بنفسک فوالله لئن فحلتها لارجمنک باحجارک،، (۱)

''تم ایک ناداان اور خرمغز آدمی ہو اس لئے کہ بخدا امام المتقین (رسول اللہ ) (ص) کے زمانے میں متعہ عام تھا ابن زبیر نے کہا بہتر ہے کہ تم اپنے نفس پر اسے (متعہ) آزما دیکھو ! بخدا اگر تم متعہ کرو گے تو تمہیں سنگسار کروںگا،،۔

مقام حیرت ہے وہ مسلمان کس طرح سنگساری کا مستحق ہوا جس نے حضرت عمر کے فتویٰ کی مخالفت کی ہو جبکہ اس (مسلمان) کے عمل کی دلیل اور مدرک کتاب الٰہی اور سنت رسول ہو فرض کیا (جو ازمتعہ کے قائل) اس شخص سے اجتہادی غلطی ہو گئی لیکن کیاشک و شبہ کی بنیاد پر حد ساقط نہیں ہو جاتی اگرچہ یہ (اجتہادی غلطی) محض فرضی ہے کیونکہ کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ آیہ متعہ ، جو متعہ کے جواز پر دلالت کرتی ہے ، نسخ ہو گئی ہو۔

صاحبان نظر ملا خطہ فرمائیں کہ حضرت عمر اور ابو حنیفہ کے فتویٰ میں کتنا تفاوت ہے اس لئے کو ابو حنیفہ کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت سے باطل عقد کرے یا اپنی محرم عورتوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرے اور نکاح کے باطل اور حرام ہونے کو جانتے ہوئے اس سے ہمبستری کرے تو اس (مرد) سے حد ساقط ہے(۲) اور یہ کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو کسی کام کیلئے اجیر بنائے اور اس سے زنا کر لے تو بھی حد ساقط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مہر کو اجرت کا نام دیا ہے اور اس قسم کا حکم حضرت عمر سے بھی منقول ہے(۳)

____________________

(۱) صحیح مسلم باب نکاح المتعتہ ، ج ۴ ، ص ۱۳۳

(۲) الہدایہ ، فتح القدیر ، ج ۴ ، ص ۱۴۷

(۳) احکام القرآن للجصاص ، ص ۲ ، ص ۱۴۶

۴۱۷

متعہ کے بارے میں چند بے بنیادشبہات

صاحب تفسیر منار نے اس زعم باطل کا اظہار کیا ہے کہ متعہ ، عفت و پاکدامنی کیخلاف ہے اور اس کا مقصد شہوت پرستی اور زنا ہے کیونکہ یہ کام سراسر عفت و پاکدامنی کیخلاف ہے کہ ایک عورت کچھ عرصے کیلئے کرایہ پر اپنے آپ کو کسی مرد کے حوالے کر دے اس طرح یہ عورت اس شعر کا مصداق بنے گی۔

کرة حذفت بصوالجة

فتلقفها رجل رجل

اس شعر کے حوالے سے عورت کو اس گیند سے تشبیہ دی ہے جس کو یکے بعد دیگرے پاؤں سے ٹھوکریں ماری جاتی ہیں۔ نیز صاحب منار کایہ گمان بھی ہے کہ متعہ درج ذیل آیات کے منافی ہے کیونکہ متعہ والی عورت نہ زوجہ ہے نہ کنیز ، اس لئے اس سے ہمبستری عفت و تقویٰ کیخلاف ہے۔

( وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ) ۲۳:۵

''اور جو (اپنی ) شرمگاہوں کو (حرام سے) بچاتے ہیں،،

( إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ) : ۶

''مگر اپنی بی بیوں سے یہ اپنی زرخرید لونڈیوں سے کہ ان پر ہرگز الزام نہیں ہو سکتا،،

( فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ ) : ۷

''پس جو شخص اس کے سوا (کسی اور طریقہ سے شہوت پرستی کی ) تمنا کرے تو ایسے ہی لوگ حد سے بڑھ جانے و الے ہیں،،

۴۱۸

اس کے بعد صاحب منار لکھتے ہیں:

''حضرت عمر نے متعہ کو اپنی طرف سے حرام قرار نہیں دیا اور اگر کسی روایت سے یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت عمر نے تحریم کی نسبت اپنی طرف دی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر نے اس کی تحریم کاصرف اعلان کیا ہے یا اس کا مطلب یہ ہو گا کہ انہوں نے متعہ کی تحریم پر عملدرآمد کرایا ہے،،۔

اس کے بعد صاحب منار اپنی اس بات سے توبہ استغفار کرتے ہیں (۳۲۸) انہوں نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔

''حضرت عمر نے اپنے ذاتی اجتہادکی بنیاد پر متعہ کو حرام قرار دیا اور باقی صحابہ نے ان کی پیروی کی،،(۱)

مولف: جہاں تک متعہ کے عفت و پاکدامنی کے منافی ہونے کاتعلق ہے یہ اعتراض اس زعم باطل پر مبنی ہے کہ متعہ والی عورت زوجہ نہیں ہے گزشتہ بحثوں میں یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ متعہ والی عورت شرعی زوجہ ہے اور اس سے اس تو ہم و گمان کا بھی بے بنیاد ہونا ثابت ہو جاتا ہے کہ متعہ کا جواز اس آیہ شریفہ کے منافی ہے جو زوجات اور کنیزوں کے علاوہ باقی عورتوں سے اجتناب کا حکم دیتی ہے کہ عقد متعہ ، عقد دائمی کی طرح ایک شرعی ازدواج ہے اور متعہ والی عورت زوجات کے ذیل میں آتی ہے۔

باقی رہا یہ اشکال کہ عقد متعہ میں عورت اپنے آپ کو کرایہ پر دیتی ہے اور یہ کہ متعہ والی عورت اس گیند کی مانند ہے جس کو یکے بعد دیگرے ہاتھوں ہاتھ اڑایا جاتا ہے اگر یہ اعتراض صحیح ہو تو یہ رسول اللہ (ص) کی طرف سے متعہ کی تشریح پر اعتراض ہو گا کیونکہ یہ تشبیہ اور قباحت صرف ایک زمانے سے مختص نہیں بلکہ اگر یہ قبیح ہے تو ہر زمانے اورہر دور میں قبیح ہو گا اور اگر قبیح نہیں تو کسی زمانے میں بھی قبیح نہیں ہو گا اور کونسا مسلمان ایسا ہے جو رسول اللہ (ص) کے زمانے میں متعہ کے حلال ہونے میں شک کرے بلکہ گزشتہ بحثوں میں ثابت کیا جا چکا ہے کہ متعہ ، حضرت عمر کے دور خلافت تک حلال تھا اور اس پر عمل بھی ہوتا رہا۔

____________________

(۱) تفسیرا لمنار ، ج ۵ ، ص ۱۳۔۱۶

۴۱۹

مقام تعجب ہے کہ صاحب المنار مدعی ہے کہ اس کا مقصد حق گوئی کے علاوہ اور کچھ نہیں اور یہ کہ وہ کسی خاص مذہب کے سلسلے میں متعصب نہیں ہے جبکہ اس کے تعصب کا یہ عالم ہے کہ یہ اسلام کے ایسے حکم کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے جس کا جواز کتاب اللہ ، سنت پیغمبر (ص) اور اجماع مسلمین سے ثابت ہے اگر کوئی اختلاف ہے تو اس بات میں ہے کہ یہ حکم جواز کے بعد دوبارہ نسخ ہوا ہے کہ نہیں۔

مزید براں اگر عورت کے ایک مرد سے دوسرے مردکی طرف منتقل ہونے میں کوئی قباحت ہوتی تو اس قباحت کی وجہ سے عقد دائمی میں طلاق بھی حرام قرار دی جانی چاہئے تھے کیونکہ اس کے نتیجے میں بھی عورت ایک مرد سے دوسرے مرد کی طرف منتقل ہوتی ہے نیز ملکیت کے ذریعے کنیزوں کے نقل و انتقال کو بھی منع کر دیا جانا چاہئے تھا حالانکہ کسی بھی مسلمان نے اس پر اعتراض نہیں کیا لیکن صاحب المنار کو اس اشکال کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ وہ استرقاق (غلام اور کنیز بنانے) کو حرام سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس سے بہت سے مفاسد مترتب ہوتے ہیں جنہیںعلماء نے نظر انداز کر دیا ہے اس کا یہ فتویٰ بھی ہے کہ اگر کوئی پہلے سے طلاق کی نیت رکھتا ہو تو اس کا عقد دائمی باطل ہے اس نے اپنے اس فتوی میں تمام فقہائے اسلام کی مخالفت کی ہے۔

یہ بات بھی تعجب خیز ہے کہ صاحب المنار نے حضرت عمر کی طرف سے متعہ کے حرام قرار دیئے جانے کی ناقابل قبول تاویل و توجیہ کی ہے کیونکہ اس مقام پر تین احتمال دیئے جا سکتے ہیں:

i ۔ رسول اللہ (ص) کے مقابلے میں حضرت عمر نے اجتہاد کیا ہو گا اور متعہ کو حرام قرار دیا۔

ii ۔ اپنے اجتہاد کے ذریعے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ رسول اللہ (ص) نے متعہ کو حرام قرار دیا ہے۔

iii ۔رسول اللہ (ص) کی طرف سے متعہ کو حرام قرار دینے کی روایت نقل کی ہو گی۔

یہ احتمال صحیح نہیں کہ حضرت عمر نے رسول اللہ (ص) کی روایت نقل کی ہو کیونکہ یہ احتمال تحریم کی اپنی طرف نسبت دینے سے سازگار نہیں چونکہ متعدد روایات کے مطابق حضرت عمرنے تحریم متعہ کی نسبت اپنی طرف دی ہے بالفرض اگر ایسی روایت موجود بھی ہے تو یہ روایت ان تمام روایات کی معارض ہو گی جن کے مطابق خلافت حضرت عمر میں کافی عرصے تک متعہ حلال تھا حضرت عمر ،خلافت ابوبکر کے دوران کہاں تھے

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689