البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313935 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ تینوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں کیونکہ ان آیات کی تصریح کے مطابق رسول اللہ (ص) کو اس صورت میں اجازت دینے سے روکا جا رہا ہے اور سرزنش کی جا رہی ہے جب سچے اور جھوٹے میں تمیز نہ کی جا سکے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہ فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن نہیں لائے ، وہ جنگ سے فرار ہونے کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور آپ (ص) سے جنگ میں نہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں نیز رسول اللہ (ص) کو حکم دیا ہے کہ اس وقت تک نہ جانے کی اجازت نہ دیں جب تک ان کی صحیح صورتحال معلوم نہ ہو جائے لیکناگر مسلمانوں کی صحیح صورتحال معلوم ہو جائے تو خدا نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے رسول اللہ (ص) سے اجازت لیں اور رسول اللہ (ص) کو بھی انہیں رخصت دینے کا مجاز قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا ان دونوں آیتوں میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کیلئے ناسخ بن سکے۔

۲۶۔( مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّـهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ) ۹:۱۲۰

''مدینہ کے رہنے والوں اور ان کے گردونواح کے دیہاتیوں کو یہ جائز نہ تھا کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا کا ساتھ چھوڑ دیں اور نہ یہ جائز تھا کہ رسول کی جان سے بے پرواہ ہو کر اپنی جانوں کے بچانے کی فکر کریں،،۔

ابن زید سے منقول ہے کہ یہ آیت اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱)

( وَمَا كَانَ الْمومنونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ ) ۹:۱۲۲

''اور یہ (بھی) مناسب نہیں کہ مومنین کل کے کل (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں،،۔

لیکن حق یہی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی کیونکہ دوسری آیت تک ایک قرینہ ہے جو آیہ اول سے متصل ہے اور یہ آیہ اول کا مطلب بیان کر رہی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۸۷ قرطبی نے اس قول کی نسبت مجاہد کی طرف بھی دی ہے ، ج ۸ ، ص ۳۹۲

۴۶۱

دونوں آیات کا مفہوم یہ ہے کہ بطور واجب کفائی صرف بعض مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ جنگ میں جائیں اس طرح دوسری آیت ، پہلی آیت کیلئے ناسخ نہیں بنے گی۔

ہاں ! اگر کسی خاص موقع پر کسی ضرورت کا یہ تقاضا ہو کہ تمام مسلمان جہاد کیلئے روانہ ہوں یا حاکم شرع سب کو جہاد پر جانے کا حکم دے یا کسی او وجہ سے سب کا جہاد پر جانا ضروری ہو جائے تو اس ضرورت کو پورا کریں یہ عمومی جہاد ، وہ جہاد نہیں جو اسلام میں بطور واجب کفائی مسلمانوں پر واجب ہے بلکہ یہ ایک جداگانہ حکم ہے جوب عض مخصوص حالات میں ثابت ہے یہ دونوں حکم اپنے طور پر مستقل ثابت ہیں اور ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے:

۲۷۔( وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ) ۱۰۔۱۰۹

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تمہارے پاس جو وحی بھیجی جاتی ہے تم بس اسی کی پیروی کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ خدا (تمہارے اور کافروں کے درمیان) فیصلہ فرمائے اور وہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے،،۔

ابن زید کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ جہاد (جس میں کفار پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱) گزشتہ آیات کے بارے میں ہمارے بیان سے اس آیت کے نسخ کا دعویٰ بھی باطل ثابت ہو جاتا ہے ان بیانات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آیت میں صبر سے مراد کفار کے مقابلے میں صبر ہو (یعنی ان سے جنگ نہ کی جائے) البتہ اس آیت میں مطلق صبر کا حکم دیا جا رہا ہے جو کفار کے مقابلے میں صبر کو بھی شامل ہے ۔

بنا برایں زیر بحث آیہ شریفہ میں نسخ کے دعویٰ کی کوئی وجہ نہیں۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۷۸

۴۶۲

۲۸۔( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ) ۱۵:۹۴

''اور قیامت یقیناً ضرور آنے والی ہے تو تم (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ان کافروں سے شائستہ عنوان کے ساتھ درگزر کرو،،۔

ابن عباس ، سعید اور قتادہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

لیکن یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ''صفح،، (چشم پوشی) سے مراد یہ ہے کہ آپ (ص) ان اذیتوں اور تکلیفوں سے درگزر کریں جو تبلیغ شریعت کی راہ میں مشرکین کی طرف سے دی جاتی تھیں اس آیت کا راہ خدا میں قتال وجہاد سے کوئی ربط و تعلق نہیں اس امر کی تائید بعد والی آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین) ۱۵:۹۴

پس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کر کے سنا دو اور مشرکین کی طر ف سے منہ پھیر لو،،۔

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ) : ۹۵

''جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کیلئے کافی ہیں،،۔

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں رسول اللہ (ص) کو اوامرالٰہی کی تبلیغ اور اسلام کے نشرو اشاعت کی تشویق و ترغیب دلائی ہے اور آپ (ص) کو تسلی دی ہے کہ اس سلسلے میں آپ (ص) مشرکین کی اذیت اور ان کے تمسخر کی پروا تک نہ کریں۔

یہ ایک جداگانہ حکم ہے اور اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ جب اسلام کی حجت مکمل ہو اور مسلمانوں کی کثرت سے تقویت حاصل ہو تو کفارسے جہاد کریں۔

۴۶۳

ہاں ! یہ بات مسلم ہے کہ رسول اللہ (ص) کو اسلام کے آغاز ہی میں قتال و جہاد کا حکم نہیں دیا گیا کیونکہ اس وقت معجزہ اور دوسرے غیر معمولی اقدامات کے علاوہ عام مادی وسائل و اسباب کے بل پر کفار سے جنگ کرنے کی قدرت حاصل نہ تھی لیکن جب قدرت حاصل ہوئی اور مسلمانوں میں اتنی طاقت اور کثرت آ گئی جس سے کفار کا مقابلہ کیا جا سکے تو آپ (ص) کو جہاد کا حکم دیا گیا۔ اس سے قبل بھی یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ احکام اسلام تدریجاً نافذ کئے گئے ہ یں جو نسخ نہیں کہلاتا۔

۲۹۔( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ ) ۱۶:۶۷

''اور اسی خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو ) شراب بنا لیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ)

قتادہ ، سعید بن جبیر ، شعبی ، مجاہد ، ابراہیم اور ابورزین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ باقی آیات کی طرح یہ آیت بھی محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

( i ) ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہو لیکن نسخ کے قائلین یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ آیت میں ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہے کیونکہ ''سکر،، کے معانی میں سے ایک معنی ''سرکہ،، بھی ہے چنانچہ مشہور مفسر علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں ''سکر،، کے اسی معنی (سرکہ) کا ذکر کیا ہے(۲) بنا برایں ''رزق حسن،، سے مراد سرکہ اور اس قسم کے دیگر لذیذ کھانے ہوں گے نشہ آور شراب نہیں تاکہ آیہ تحریم خمر کے ذریعے یہ آیت نسخ ہو جائے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۱۸۱

(۲) تفسیر برہان، ج ۱، ص ۵۷۷

۴۶۴

( ii ) آیہ کریمہ مسکر (نشہ آور چیز) کے مباح ہونے پر دلالت کرے تاکہ دوسری آیت ''مسکر،، کو حرام قرار دے اور پہلی آیت کیلئے ناسخ قرار پائے۔

لیکن نسخ کا قائل اس مطلب کو بھی ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ اس آیہ کریمہ میں ایسے کام اور واقعہ کی خبر دی جارہی ہے جسکو عام لوگ انجام دیتے تھے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس کام کی اجامت بھی دی ہو۔

یہ آیت، اس آیت کے بعد نازل ہوئی ہے جس میں کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی نشانیوں کے ذریعے خدائے واجب الوجود کو ثابت کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَاللَّـهُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ) ۱۶:۶۵

''اور خد ہی نے آسمان سے پانی برسایا تو اس کے ذریعہ سے زمین کو مردہ (پڑتی) ہونے کے بعد زندہ (شاداب) کیا کچھ شک نہیں کہ اس میں جو لوگ بستے، ان کے واسطے (قدرت خدا) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

( وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ ) : ۶۶

اور اس میں شک نہیں کہ چوپایوں میں بھی تمہارے لیے عبرت (کی بات) ہے کہ ان کے پیٹ میں (خاک ملا)گوبر اور خون (جو کچھ بھرا ہوا ہے) ا س میں سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔،،

( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) :۶۷

''اور اسی طرح خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو) شراب بنالیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ) اس میں شک نہیں کہ اس میں بھی سمجھ دار لوگوں کے لیے (قدرت خدا کی) بڑی نشانی ہے۔،،

۴۶۵

( وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ) :۶۸

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو اونچی اونچی ٹیٹاں (اور مکانات پاٹ کر) بناتے ہیں ان میں چھتّے بنا۔،،

( ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) : ۶۹

''پھر ہر طرح کے پھلوں (کے بورے سے) ان کا چوس پھر اپنے پروردگار کی راہوں میں تابعداری کے ساتھ چلی جا مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کی بیماریوں) کی شفا (بھی) ہے اس میں شک نہیں کہ اس میں غور و فکر کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

اس آیت میں منجملہ آثار قدثرت میں سے ایک یہ ہے کہ خدا نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کردیا۔ اس کے بعد حیوانات کی خلقت میں تدبیر خداوندی کا بیان ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور اور انگور میں وہ صلاحیت پیدا کی جس کے ذریعے لذیذ چیزوں سے نشہ آور اشیاء بنائی جاسکتی ہےں اور باقی پھلوں میں یہ امتیاز صرف کھجور اور انگور کو حاصل ہے۔

اس کے بعد شہد کی مکھی کے ان حیرت انگیز کارناموں کا ذکر فرمایاجنہیں سن اور دیکھ کر وہ صاحبان عقل دنگ رہ جاتے ہیں جو شہد بنانے کے طریقوں اور اس کی خصوصیات سے آگاہ ہوتے ہیں اور یہ کہ شہد کی مکھی یہ سب کچھ خدا کی وحی اور الہام کے ذریعے انجام دیتی ہے۔

۴۶۶

پس معلوم ہوا ہے کہ اس آیت میں مسکر کو مباح و حلال قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کے علاوہ اسی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ (بفرض تسلیم سکر سے مراد نشہ آور چیز بھی ہو تو) نشہ آور چیز کو پینا جائز نہیں اس لیے کہ نشہ آور چیز کو رزق حسن کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات ہوتا ہے کہ نشہ آور چیز کا شمار رزق حسن میں نہیں ہوتا اس لیے یہ مباح بھی نہیں ہوگا۔

اہل بیت اطہار (ع) کی روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ شراب نوشی کسی وقت اور زمانے میں حلال نہیں تھی۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی سند کے ذریعے محمد بن مسلم سے روایت کرتے ہیں:

''قال: سئل ابو عبد الله علیه السلام عن الخمر فقال: قال رسول الله ان اول ما نهانی عنه ربی عزوجل عبادة الاوثان و شرب الخمرٍ،،

''حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے شراب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: رسول اللہ نے فرمایا: پہلی چیز جس سے اللہ نے مجِھے منع فرمایا وہ بت پرستی اور شراب نوشی ہے۔۔۔،،

نیز ریان، امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا:

قال : ما بعث الله نبیّا الا بتحریم الخمر،، (۱)

''اللہ تعالٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اسے حرمت شراب کا حکم دے کر بھیجا۔،،

____________________

(۱)البحار، ج ۱۶، ص ۱۸۔۲۰، باب حرمۃ شرب الخمر۔ وافی، ج ۱۱، ص ۷۹ میں اس کے لیے ایک مستقل باب مخصوص کیا گیا ہے۔

۴۶۷

اعجاز کی بحث میں بھی گزر چکا ہے کہ شراب کو تورات میں بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔(۱) لیکن ایک حقیقت، جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ ہے کہ اسلام نے ایک عرصہ تک حرمت شراب کا اعلان نہیں کیا اور یہ بات صرف شراب سے مختص نہیں ہے، تمام احکامات پر اسی طریقے سے عمل کیا گیا ہے، ظاہر ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شراب پہلے حلال تھی اور بعد میں حرام قرار دی گئی۔

( الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمومنينَ ) ۲۴:۳

''زنا کرنے والا مرد تو زنا کرنے والی ہی عورت یا مشرکہ سے نکایح کرے گا اور زنیا کرنے والی عورت بھی بس زنیا کرنے والے ہی مرد یا مشرک سے نکاح کرے گی اور سچے ایمانداروں پر تو اس قسم کے تعلقات حرام ہیں۔،،

سعید بن مسیّب اور بہت سے دیگر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ ) ۲۴:۳۲

''اوراپنی (قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کردیا کرو۔،،

آیہ اوّل کے مطابق زانی عورت سے وہی نکاح کرسکتا ہے جو خود زانی یا مشرک ہو۔ جب کہ دوسری آیت کیمطابق مطلق بے ہمسر مسلمان سے نکاح جائز ہے چاہے وہ زانی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ ''ایامیٰ،، (بے ہمسر) دونوں کو شامل ہے۔ اس طرح دوسری آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ قرار پائے گی۔

لیکن حق یہی ہے کہ گذشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی نسخ نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو، اور کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں کہ اس آیت میں نکاح سے مراد شادی یا ازدواج ہے۔

____________________

) ۱) اسی کتاب کے صفحہ ۵۶ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۶۸

اس کے علاوہ اگر اس آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ زانی مسلمان کے لیے مشرک عورت سےشادی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازم آتا ہے کہ مسلمان زانی عورت کے لیے مشرک مرد سے شادی کرنا جائز ہے اور یہ بات ظاہر کتابِ الہی اور سیرتِ مسلمین کے خلاف ہے

بنابرایں آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح سے مراد مطلق ہمبستری ہے۔ چاہے جائز طریقے سے ہو یا زنا ہو۔ اس آیت میں جواز یا عدم جواز کا حکم بیان نہیں کیا جارہا بلکہ یہ ایک جملہ خبر یہ ہے۔ اس کے ذریعے حرمتِ زنا کی شدّت بیان کی جارہی ہے اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زانی مرد صرف زانی عورت یا اس سے بھی پست، مشرک عورت سے زنا کرتاہے اسی طرح زانی عورت بھی صرف کسی زانی مرد یا اس سے بھی پست مشرک مرد سے زنا کرتی ہے۔ مومن انسان کبھی بھی اس قسم کے گناہوں کا مرتکب نہیں ہوتا کیونکہ زنا ایک حرام فعل ہے اور وہ حرام فعل انجام نہیں دیتا۔

( قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّـهِ ) ۴۵:۱۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) مومنوں سے کہدو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو جزا کے لیے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں۔،،

بعض مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اس آیت کا شان نزول یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مکی ہے اور یہ اس وقت نازل ہوئی جب ہجرت سے قبل مکّہ میں حضرت عمر بن خطاب کو کسی مشرک نے گالی دی اور اور ان کی توہین کی اور حضرت عمر اسے سزا دینا چاہتے تھے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ ایت نازل فرمائی۔ لیکن بعد میں آیت، اس آیہ سیف کے ذریعے منسوخ ہوگئی:

( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامّل) قتل کردو۔،،

۴۶۹

یہ حضرات اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر اس روایت کو پیش کرتے ہیں جس کی روایت علیل بن احمد نے محمد بن ہاشم سے، اس نے عاصم بن سلیمان سے، اس نے جویبر سے اس نے ضحاک سے او ضحاک نے ابن عباس سے کی ہے۔(۱)

لیکن یہ روایت ہے بہت ضعیف ہے، اس کا سب سے معمولی اور کمزور پہلو یہ ہے کہ اس کے سلسلہئ سند میں عاصم بن سلیمان شامل ہے جو بہت بڑا جھوٹا اور جعل ساز راوی ہے۔(۲) اس کے علاوہ یہ روایت متن کے اعتبار سے

بھی کمزور اور ناقابل عمل ہے۔ کیونکہ ہجرت سے پہلے مسلمان کمزور تھے اورایسے حالات میں حضرت عمر کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس مشرک سے انتقال لیتے۔ نیز اس روایت میں لفظ ''غفران،، استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ایسے مقام ہر استعمال کیاجاتا ہے جہاں کوئی انتقال لینے پر قادر ہو لیکن چشم پوشی اور درگزر کرے اور یہ مسلّم ہے کہ ہجرت سے قبل حضرت عمر کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے کہ اگر حضرت عمر انتقام لیتے تو مشرک بھی جوابی کارروائی کرتا۔

پس حق یہی ہے کہ یہ آیت محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) آیہ شریفہ کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کی امید نہیں رکھتے ان کی طرف سے اگر تمہیں ذاتی طور پر کوئی اذیت پہنچے اور تمہاری توہین کی جائے تو تمہیں اسے درگزرکردینا چاہیے، اس حقیقت پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:

( لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ) ۴۵:۱۴

''تاکہ وہ لوگوں کے اعمال کا بدلہ دے۔،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۱۸

(۲) اس کے بارے میں ابن عدی کا کہنا ہے کہ یہ شخص من گھڑت احادیث وضع کرنے والوں میں سے ایک ہے، اور یہ کہ اس کی اکثر احادیث متن اور سند کے اعتبار سے متزلزل ہیں۔

۴۷۰

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۖ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ) : ۱۵

''جو شخص نیک کام کرتا ہے تو خاص اپنے لیے اور برا کام کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا پھر (آخر) تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹا ئے جاؤگے۔،،

پس اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو آدمی روز آخرت کا امیدوار نہیں، چاہے وہ مشرک، اہل کتاب یا مسلمان ہو، جو اپنے دین کا صحیح پابند نہی، اس کے بُرے اعمال اور زیادتیوں کی سزا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی ظالم، ظلم کرکے خدا سے بچ نہیں سکتا لہذا مسلمان اور مومن کو چاہےے کہ وہ ظالموں سے انتقام لینے میں جلد بازی نہ کرے، اس لیے کہ خدا کا انتقام، مظلوم کے انتقام سے زیادہ سخت ہے، یہ ایک اخلاقی اور تادیبی حکم ہے اور یہ دعوتِ اسلام یا کسی اور ضرورت کی خاطر کفار سے قتال و جہاد کے منافی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔

( فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً ) ۴۷:۴

'' تو جب تم کافروں سے بھڑو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں زحموں سے چور کر ڈالو تو ان کی مشکیں کس لو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا یا معاوضہ لے کر رہا کرنا۔

علماء کی ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اور بعض کا خیال ہے کہ آیہ سیف، اس آیت کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ آیت ناسخ ہے اور نہ منسوخ۔ البتہ اس مسئلے کی تحقیق مزید تفیصل کی متقاضی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۲۰۔

۴۷۱

مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

شیعہ امامیہ میں یہ حکم مشہور ہے کہ مسلمانوں سے برسرپیکار کفار جب تک اسلام نہ لے آئیں، مکمل شکست سے دوچار نہ ہوجائیں اور زیادہ تعداد میں مارے جانے کی وجہ سے عاجز نہ آجائیں، وہ واجب القتل ہیں۔ صرف اسیری کی وجہ سے کافر کا قتل ساقط نہیں ہوتا۔ اگر کافر مسلمان ہوجائے تو قتل کا موضوع ہی برطرف ہوجاتا ہے کیونکہ موضوع قتل، کفر ہے۔

اسی طرح کفار کی مکمل شکست کے بعد ان کا قتل ساقط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ آیت میں اس موقت تک کفار کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک انہیں شکست نہ ہوجائے البتہ قتل کے ساقط ہو نے کے بعد حاکم شرع کو اختیار ہے کہ چاہے تو پکڑے جانے والے کافروں کو اسیر بنائے یا ان سے فدیہ و تاوان وصول کرے یا ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں بلاعوض آزاد کردے اس حکم میں بت پرست ،مشرک اور اہل کتاب شریک ہیں۔

ان احکام پر علماء کے اجماع و اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے اور بہت شاذ و نادر افراد نے ان احکام کی مخالفت کی ہے ار ان کی رائے بھی قابل توجہ نہیں۔ چناچنہ آئندہ بحثوں میں اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

اگر ''شد الوثاق،، سے مراد غلام بنانا ہو تو آیہ کریمہ کے ظہور سے بھی یہی احکام سمجھے جاتے ہیں، جن کا ذکر کیا گیا ہے '' شد الوثاق،، سے غلام بنانے کا معنی اس لیے سمجھا گیا ہے کہ ''شدّ الوثاق،، کا معنی ہے: کسی کی آزادی کا سلب کرنا، جب تک اسے بلاعوض یا عوض لے کر آزاد نہ کیا جائے اور یہ معنی غلام بنانے سے زیادہ سازگار ہے۔

اگر ''شدّ الوثاق،، کا معنی غلام بنانا نہ ہو پھر بھی کافر سے فدیہ لینے اور اس پر احسان کرتے ہوئے اسے ازاد کرنے کے ساتھ، اسے غلام بنانے کا بھی حکم موجود ہے، کیونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ کافر کو غلام بناناجائز ہے۔ اس دلیل کے ذریعے آیت کے اطلاق کی تقیید ہوگی۔

۴۷۲

مذکورہ احکام اس روایت میں موجود ہیں جسے کلینی اور شیخ طوسی نے طلحہ بن زید سے اور اس نے حضرت ابو عبد اللہ الصادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے: امام (ع) فرماتے ہیں:

''میرے والد گرامی فرماتے تھے: جنگ کے دو حکم ہیں: ایک یہ کہ اگر کفار کے ساتھ جنگ جاری ہو اور ابھی کفار کو شکست نہ ہوئی تو کافر قیدیوں کے بارے میں امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو انہیں قتل کردے اور چاہے تو ان کا بایاں پاؤں کاٹے اور اسے بدن سے جدا نہ کرے تاکہ ان کا خون نکلتا رہے اور اس طرح وہ مرجائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۵:۳۳

'' جو لوگ خدا اور اس کے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے لڑتے بھڑتے اور (احکام کو نہیں مانتے) اور فساد پھیلانے کی غرض سے ملکوں (ملکوں) دوڑتے پھرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ (چن چن کر) یا تو مار ڈالے جائیں یا انہیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں ہیر پھیر کے (ایک طرف کا ہاتھ، دوسری طرف کا پاؤں) کاٹ ڈالے جائیں، یا انہیں اپنے وطن کی سرزمین سے شہر بدر کردیا جائے، یہ رسوائی تو ان کی دنیا میں ہوئی اور پر آخرت میں تو ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہی ہے۔،،

اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا:

''کیا تم دیکھتے نہیں اللہ تعالیٰ نے صرف کفر کی صورت میں امام (ع) کو یہ اختیار دیا ہے، ہر مقام پر نہیں طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے امام (ع) سے عرض کیا: آیہ کریمہ :''او ینفوا من الارض،، کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کفار کو منتشر کردیں اور انہیں بھگا دیں اور اگر مسلمان کفار کا تعاقب کریں اور انہیں گرفتار کرلیں تو ان پر وہ احکام لاگو ہوں گے۔

۴۷۳

دوسرا یہ کہ جب کفار سے جنگ بند ہوجائے اور انہیں شکست دے دی جائے، اس وقت جو بھی قیدی بنایا جائے اور وہ مسلمانوں کے قبضے میں ہو، اس کے لیے امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو اس پر احسان کرے اور اسے آزاد کر دے، چاہے تو اس سے فدیہ و تاوان وصول کرے اور اگر چاہے تو اسے غلام بنالے۔،،(۱)

کفار کی شکست کے بعد ان سے قتل کے ساقط ہونے پر ضحاک اور عطاء بھی ہم سے متفق ہےں اور حسن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس صورت میں امام (ع) کو آزاد کرنے، فدیہ لینے اور غلام بنانے میں اختیارحاصل ہے۔(۲)

گذشتہ بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیر بحث آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی یہ اور بات ہے کہ بعض مقامات سے قتل مختص ہے اور بعض مقامات پر عدم قتل۔ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیہ سیف زیر بحث آیت سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔

مقام تعجب ہے کہ شیخ طوسی نے اس مسئلے میں علمائے امامیہ کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے کہ جنگ بندی کے بعد اسیر کے بارے میں امام کو اسیر کے قتل، آزاد کرنے، اس سے تاوان وصول کرنے اور اسے غلام بنانے میں اختیار حاصل ہے۔ چنانچ شیخ طوسی فرماتے ہیں:

''ہمارے اصحاب نے یہ روایت کی ہے کہ اگر جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کو گرفتار کیا جائے تو امام کو اختیار ہے کہ چاہے اس قتل کردے، چاہے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے اور اس طرح چھوڑ دے کہ وہ مرجائے۔ وہ اسے بلاعوض آزاد نہیں کرسکتا اور نہ اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرسکتا ہے اور اگر جنگ بندی کے بعد کسی کافر کو قیدی بنایا جائے تو امام کو اسے بلاعوض آزاد کرنے، تاوان مالی یا جانی لے کر آزاد کرنے، غلام بنانے اور قت کرنے میں اختیار ہے۔،،

____________________

(۱) الوافی، ج ۹، ص۲۳

(۲) قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷، الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱۔

۴۷۴

طبرسی نے اپنی تفسیر میں بھی شیخ طوسی کی متابعت کی ہے۔(۱) جبکہ اس مضمون کی کوئی روایت وارد نہیں ہوئی، بلکہ خود شیخ طوسی اپنی کتاب ''مبسوط،،(۲) میں اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ جو قیدی جنگ بندی کے بعد گرفتار کیا جائے اس کے بارے میں امام کو اختیار ہے کہ اس پر احسان کرکے اسے بلا عوض آزاد کردے یا اسے غلام بنائے اور یا اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرے۔ اسے قتل نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ہمارے علماء کی روایات بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔

بلکہ چیخ طوسی نے اپنی کتاب ''خلاف،، کے باب ''فئی، اور ''غنائم،، میں اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے جن حضرات نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ان میں علاّمہ مرحوم بھی ہیں انہوں نے اپنی دونوں کتابوں ''المنتہیٰ،، اور ''التذکرہ،، کے باب جہاد میں، اسیروں کے احکام میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

میرے خیال میں شیخ طوسی کی کتاب ''التبیان،، میں لفظ ''ضرب الرقاب،، (اسیروں کو قتل کرنا) لغزشِ قلم کا نتیجہ ہوگا اور مرحوم طبرسی نے بغیر کسی تحقیق کے اس بات کو لے لیا ہے۔

یہاں تک اس مسئلے میں علمائے شیعہ امامیہ، ضحاک، عطاء اورحسن کے نظریات بیان کیے گئے۔

آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

اس مسئلے میں باقی علمائے اہل سنت کے مختلف اقوال نظر آتے ہیں:

۱۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی۔ یہ قول قتادہ، ضحاک، سدی، ابن جریح، ابن عباس اور بہت سے کوفی علماء کی طرف منسوب ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ مشرک قیدی کو قتل کرنا واجب ہے اسے بلا عوض یا تاوان وصول کرکے آزاد کرنا جائز نہیں۔(۳)

____________________

(۱) التبیان، ج ۹، ص ۲۹۱، طبع نجف۔

(۲) المبسوط، کتاب الجہاد، فصل فی اضاف الکفار و کیفیۃ قتالہم۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۵

جواب: اس قول کے رو سے آیت کے نسخ کی کو ئی وجہ او جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ یہ آیت مقید ہے اور آیہ سیف مطلق ہے، چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔ اس سے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ عامِ مؤخر خاصِ مقدم کا ناسخ نہیں بن سکتا تو مطلق متاخر مقید مقدم کے لیے بطریقِ اولیٰ ناسخ نہیں بن سکتا۔(۱)

۲۔ یہ عام کفار کے بارے میں نازل ہوئی لیکن صرف مشرکین کے سلسلے میں نسخ ہوگئی ہے۔ یہ قول قتادہ، مجاہد اور حکم کی طرف منسوبگ ہے۔ مذہب ابو حنیفہ میں بھی قول مشہور ہے۔(۲)

جواب: پہلے کی طرح یہ قول بھی باطل ہے۔ کیونکہ یہ قول اس صورت میں صحیح ہوسکتا ہے جب آیہ سیف، زیرِ بحث آیت کے بعد نازل ہوئی ہو اور نسخ کے قائل حضرات یہ بات ثابت نہیں کرسکتے یہ حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے صرف خبر واحد سے تمسک کرسکتے ہیں او علماء کا اجماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت ہو جاتا ہے پھر بھی آیہ سیف کے ناسخ ہونے کی دلیل نہیں بنتی تاکہ یہ قول ثابت ہو۔ بلکہ ثابت یہ ہوگا کہ زیر بحث آیت، آیہ سیف کے لیے مقید ہو۔ اس لیے کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مشرکین کو بھی شامل ہے یا اس سے صرف مشرکین ہی مراد ہیں۔ بنابرایں یہ آیت، آیہ سیف کے لیے ایک قرینہ ہوگی کیونکہ مطلق مقید کے لیے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر ان تمام باتوں سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ مسلّم ہے کہ زیربحث آیت اور آیہ سیف میں عموم اور حصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے۔ یعنی کہیں تو مشرک ہے لیکن جنگ بندی کے بعد قیدی نہیں۔ یہاں مشرک کے لیے حکم قتل ہی ثابت ہوگا اور کہیں جنگ بندی کے بعد قیدی ہوگا مشرک نہیں۔ یہاں اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔

____________________

(۱) ہم نے اپنی کتاب ''اجود التقریرات،، کی عموم و خصوص کی بحث میں اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۶

ایک مقام وہ ہوسکتا ہے جہاں کافر، مشرک ہو اور جنگ بندی کے بعد اسے اسیر بنالیا جائے۔ یہاں دو مختلف احکام میں ٹکراؤ ہوگا۔ ظاہرہے اس صورت میں دونوں آیتیں ایک دوسرے کے لیے ناسخ نہیں ہونگی بلکہ اس آیت کے مضمون پر عمل ہوگا جس کی تائید کوئی دوسری دلیل کرے۔

۳۔ زیر بحث آیت، آیہ سیف کی ناسخ ہے یہ قول ضحاک وغیرہ کی طرف منسوب ہے۔(۱)

جواب: یہ قول اس صورت میں صحیح ہوگا جب اس آیت کا آیہ سیف کے بعد نازل ہونا ثابت ہو۔ اس کو ضحاک وغیرہ ثابت نہیں کرسکتے۔اس کے علاوہ اس سے قبل اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے مقدم ہو یا مؤخر، اس کے نسخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

۴۔ ہر حالت میں قتل کرنے، غلام بنانے، فدیہ لے کر آزاد کرنے اور بلا عوض آزاد کرنے کا اختیار امام کو حاصل ہے۔ اس قول کو ابو طلحہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جسے بہت سے علمائے کرام نے اپنایا ہے۔ ان میں ابن عمر، حسن اور عطاء شامل ہیں۔ مالک، شافعی، ثوری، اوزاعی اور ابی عبید وغیرہ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اس قول کے مطابق آیہ کریمہ میں کسی قسم کا نسخ نہیں ہوا۔(۲) نحاس اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''یہ قول اس بنیاد پر قائم ہے کہ دونوں آیتیں، آیہ سیف اور آیہ عفو، محکم ہیں (نسخ نہیں ہوئیں) اور دونوں کے ظاہر پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ قول بالکل صحیح ہے کیونکہ نسخ کے لیے کسی قطعی اور مسلّم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں پر دونوں آیتوں پر عمل کرنا ممکن ہے وہاں نسخ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ قول اہل مدینہ، شافعی اور ابو عبید سے منقول ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۸

(۳) الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱

۴۷۷

جواب: اگرچہ اس قول سے آیہ شریفہ کا نسخ ہونا لاز م نہیں آتا لیکن پھر بھی یہ باطل ہے کیونکہ آیت میں اس امر کی تصریح ہے کہ کفار کی شکست اور جنگ بندی کے بعد ہی ان قیدیوں کو بلا عوض یا عوض لیکر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ بنابریں کفار کی شکست سے پہلے بلاعوض یا عوض لے کر اسیروں کی آزادی کا قائل ہونا سراسر قرآن کی خلاف ورزی ہے۔

اسی طرح آیہ کی رو سے قتل کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک کفار کو شکست نہیں ہوتی۔ لیکن کفار کی شکست کے بعد بھی ان کے قتل کا قائل ہونا، خلاف قرآن ہے۔

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ اس آیت کے ذریعے آیہ سیف کی تقیید کی گئی ہے۔

اس قول کی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے بعض قیدیوں کو قتل کیا، بعض کو ان پر احسان کرتے ہوئے آزاد کردیا اوربعض سے فدیہ و تاوان لے کر ان کو آزاد کردیا تھا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح ہو پھر بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قتل کرنے، فدیہ لینے اور بلاعوض آزاد کرنے میں امام کو اختیار حاصل ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اسیر کو جنگ بندی اور کفار کی شکست سے پہلے قتل کیا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے کفار کی شکست کے بعد اسیروں کو ان سے فدیہ لے کر اور بغیر فدیہ کے آزادکیا ہو۔

ممکن ہے یہ حضرات (جو ہر حالت میں قتل اور آزاد کرنے میں اختیار کے قائل ہیں) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے عمل سے استدلال کریں جس کے مطابق انہوں نے اسیروںکو قتل کیا تھا۔

۴۷۸

اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلاً یہ واقعہ تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ہے بفرض تسلیم اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہو پھر بھی مدعیٰ ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا عمل حجیّت نہیں رکھتا تاکہ اس کی بنیاد پر ظاہر قرآن سے دست بردار ہوا جائے۔

۳۳۔( وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۵۱:۱۹

''اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حصّہ تھا۔،،

۳۴۔( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ۷۰:۲۴

( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

ان دونوں آیات کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ نسخ ہوئی ہےں؟ کیونکہ ان آیات میں جس معلوم اور آشکار حق کا ذکر کیا گیا ہے ممکن ہے اس سے مراد واجب زکوٰۃ ہو جو ایک واجب حق ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد کوئی اور م الی حق ہو جو واجب ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ایک مالی حق ہو جو مستحب ہو۔

اگر اس حق سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا واجب حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں نسخ ہوں گی اس لیے کہ واجب زکوٰۃ کی وجہ سے قرآن میں موجود تمام دوسرے واجب صدقات نسخ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اس احتمال کو علماء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ اگر اس حق سے مردا واجب زکوٰۃ یا کوئی دوسرا مالی حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں محکم ہوں گی۔

تحقیق اس امر کی متقاضی ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حق سے مراد واجب زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس کی ادائیگی کی شارع نے ترغیب دی ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی روایات اس بات کی دلیل ہیں کہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ واجب نہیں ہے اور اہل بیت اطہار (ع) کی روایات میںیہ بیان موجود ہے کہ اس حق سے کیا مراد ہے۔

۴۷۹

شیخ کلینی نے ابو بصیر سے روایت کی ہے ابو بصیر کہتے ہیں:

''ہم امام صادقؑ کی خدمت میں بیٹھے تھے، ہمارے ساتھ کچھ دولت مند افراد بھی تھے انہوں زکوٰۃ کا ذکر کیا تو امام(ع) نے فرمایا: زکوٰۃ کوئی ایسی چیز نہیں کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے تعریف کی جائے۔

یہ تو ایک ظاہر ہے اور مسلّم چیز ہے اسی کی وجہ سے تو مسلمانوں کے خون کو تحفظ ملا ہے اور اسی کی بدولت انسان مسلمان کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر مسلمان زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ یہ دیکھو کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی تمہارے اموال میں لوگوں کے کچھ حقوق ہیں۔ میں (ابو بصیر) نے عرض کیا: مولا! زکوٰۃ کے علاوہ ہمارے اموال میں اور کون سے حقوق موجود ہیں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا: :( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۔ میں نے عرض کی: آحر وہ کون سا حق ہے۔ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! یہ وہی حق ہے جس کی طرف ہر شخص متوجہ ہے۔ اسے چاہیے کہ ہر روز یا جمعہ میںیا مہینے میں ایک مرتبہ کچھ نہ کچھ دیتا رہے۔،،

نیز کلینی نے اپنی سندسے اسماعیل بن جابر سے اور انہوں نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے:

''آپ سے آیہ کریمہ:( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا یہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق ہے؟ آپ نے فرمایا: اس حق کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو خدا مال و دولت دے اسے چاہیے کہ اس میں سے ایک ہزار، دو ہزار یا تین ہزار الگ کرلے اور اس کے ذریعے صلہ رحمی کرے اور قریبی رشتہ داروں کی مشکلات کو حل کرے۔،،

ان کے علاوہ بھی امام باقر اور امام صادق (علیھما السلام) سے اس مضمون کی روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) الوافی باب الحق المعلوم، ج ۶، ص ۵۲

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

عبد: کبھی ''عبد،، انسان کو کہا جاتا ہے خواہ وہ آزاد ہی کیوں نہ ہو کیونکہ انسان اللہ کی مخلوق اور اس کا پروردہ ہے جو اپنے وجود اور تمام افعال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے خاضع اور نیاز مند ہے اگرچہ وہ اس کے اوامرونواہی کی مخالفت کرے اور کبھی ''عہد،، زرخرید غلام کو کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اپنے مالک کا مملوک اور اس کے زیر سلطنت ہوتا ہے کبھی لفظ ''عبد،، کے استعمال میں وسعت سے کام لیا جاتا ہے اور ہر اس شخص کو ''عبد،، کہا جاتا ہے جو کسی غیر معمولی چیز کو اہمیت دے اور اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز اسے دکھائی نہ دیتی ہو چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

الناس عبید الدنیا و الدین لعق علیٰ السنتهم یحوطونه مادرت معایشهم و اذا محصوبالبلاء قل الدیا نون،، (۱)

''لوگ دنیا پرست ہیں اور دین ان کی زبانوں تک محدود ہے جب تک یہ آسودہ حال رہیں دین کا طواف کرتے ہیں اور جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو متدین افراد بہت کم رہ جاتے ہیں،،۔

کبھی ''عبد،، متواضع اور عبادت گزار کو کہا جاتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ ) ۲۶:۲۲

''کہ آپ نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے،،۔

( عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ ) کا مطلب ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو اپنا اطاعت گزار بنا دیا ہے جو تیرے امرو نہی کی مخالفت نہیں کرتے۔

____________________

(۱) بحار ، ج ۱۰ ، ص ۱۸۹

۵۸۱

الاستعانتہ

استعانت مدد طلب کرنے کو کہتے ہیں یہ لفظ کبھی خود اور کبھی 'ب، کے ذریعے متعدی ہوتا ہے چنانچہ استعنتہ،، بھی کہا جاتا ہے اور''استعنت به ،، بھی کہا جاتا ہے یعنی میں نے اس سے مدد طلب کی۔

اعراب:

دونوں جملوں( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) میں ''ایاک،، کو جو مفعول ہے حصر کی خاطر مقدم کیا گیا ہے اور آیت میں غائب سے خطاب کی طرف التفات سے کام لیا گیا ہے(۱) اس میں دو راز ہو سکتے ہیں:

(۱) گزشتہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام موجدات کامالک اور مزتی ہے اور زندگی کا ہر کام اس کی قدرت سے انجام پاتا ہے یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ کائنات کی ہر شئی اللہ کے سامنے حاضر ہو اور اللہ ، انسان اور اس کے تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہو تاکہ روز قیامت اطاعت گزاروں اور معصیت کاروں کو جزاء و سزا دے سکے اس کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اللہ کے سامنے اپنی حاضری دے اور اس سے مخاطب ہو۔

(۲) عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق کے سامنے اسے اپنا رب سمجھ کر متواضع ہو اور ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ مربی ا پنے پروردہ کے سامنے ہو۔ یہی حکم استعانت کا بھی ہے کیونکہ انسان کا اپنے رب کا محتاج ہونا اور اس کا مستقل نہ ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ معبود ، عبد کے سامنے ہوتا کہ اس کی طرف سے مدد ہو سکے۔

ان دو نکتوں کے پیش نظر سورہ حمد میں غایب سے خطاب کی طرف رخ کیا گیا اور( إِيَّاكَ نَعْبُدُ ) کہا گیا ۔ پس بندہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہو اس سے غائب نہیں۔

____________________

(۱) علم معنی بیان میں کسی خاص مقصد کے تحت غائب کی ضمیرا ستعمال کرتے کرتے اچانک مخاطب کی ضمیر لانے یا مخاطب کے بعد غائب کی ضمیر لائے ، یعنی ایک ضمیر کو چھوڑ کر دوسری ضمیر سے استفادہ کرنے کو ''التفات،، کہا جاتا ہے۔ (مترجم)

۵۸۲

گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور بزرگی بیان فرمائی اس کے بعد اس آیت( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) کی تلاوت کی تلقین فرمائی اور یہ کہ اس آیت کے مدلول و مفہوم کا اعتراف کریں یعنی ہم سوائے خدا کے کسی اور کی عبادت و پرستش نہیں کرتے اور غیر اللہ سے مدد طلب نہیں کرتے اس خدا کے علاوہ تمام موجودات ذاتاً فقیر، محتاج اور عاجز ہیں بلکہ وہ لاشئی اور ہیچ ہیں مگر یہ کہ رحمت الٰہی انہیں شامل حال ہو۔

جس موجود و مخلوق کی یہ حالت ہو وہ اس قابل نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے یا اس سے مدد طلب کی جائے اور تمام ممکنات ، اگرچہ کمال و نقص کے اعتبار سے ان کے درجے مختلف ہیں صفت عجز میں مشترک ہیں جو ایک ممکن کا لازمہ ہے اور یہ کہ سب ممکنات اللہ کے حکم اور اس کے ارادے سے موجود ہیں۔

( أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ) ۷:۵۴

''دیکھو حکومت اور پیدا کرنا بس خاص اسی کیلئے ، وہ خدا جو سارے جہاں کا پروردگار ہے ، بڑا برکت والا ہے،،

( وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ ) ۲۴:۴۲

''اور سارے آسمان اور زمین کی سلطنت خاص خدا ہی کی ہے اور خدا ہی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے،،

اللہ کے ساتھ اس کی سلطنت میں کون ٹکر لے سکتا ہے اور اس کے امرو حکم کے سامنے کون آ سکتا ہے عطا کرنے والی ذات بھی وہی ہے اور روکنے والی ذات بھی وہی ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہے حکم فرماتا ہے پس مومن اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتا اور نہ اس کے غیر سے مدد مطلب کرتا ہے کیونکہ غیر خدا چاہے کوئی بھی ہو ہر کام اور ہر بات میں اللہ کا محتاج ہے معبود کوہر حالت میں مستغنی اور بے نیاز ہونا چاہئے اس لئے کہ فقیر اپنے جیسے فقیروں کی کیسے عبادت کرسکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ اللہ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرے اور اللہ کے علاوہ کسی کے پاس اپنی حاجت لے کر نہ جائے غمیر خدا پر بھروسہ نہ کرے اور صرف اللہ سے مانگے ورنہ شرک باللہ اور اس کی سلطنت میں کسی اور کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا۔

( وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ) ۱۷:۲۳

''اور تمہارے پروردگار نے تو حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا،،

۵۸۳

آیتہ ''الحمد،، کے بارے میں بحث دوم

٭ العبادۃ و التالہ

٭ عبادت اور اطاعت

٭ عبادت اور خشوع

٭ غیر اللہ کو سجدہ

٭ آدم (ع) کو سجدہ ۔۔۔۔۔۔ اقوال علمائ

٭ شرک باللہ کیا ہے ؟

٭ اسباب عبادت

٭ صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے

٭ شفاعت

٭ امامیہ کے نزدیک شفاعت کی احادیث

٭ اہلسنت کے نزدیک شفاعت کی احادیث

٭ تحلیل آیتہ ،اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ۔

٭ قرات

٭ لغت ، الہدایتہ ، الصراط ، الاستقامہ ، الانعام ، الغضب ، اضلال

٭ اعراب ، الضالین

٭ تفسیر----- ٭ ہدایت عامہ

٭ ہدایت خاصہ

۵۸۴

العبادۃ و التالہ

اس میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا کہ ''عبادت،، بمعنی ''پرستش،، صرف اللہ سے مختص ہے اور اس سے قبل یہ بتایا جا چکا ہے کہ جب بھی یہ لفظ (عبادت) بولا جائے اس کا معنی ''پرستش،، ہی ذہن میں آتا ہے اور یہی وہ توحید ہے جس کی تبلیغ کیلئے اللہ کی طرف سے انبیاء (ع) بھیجے گئے اور آسمان سے کتابیں نازل کی گئیں ارشادباری ہے:

( قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۚ ) ۳:۶۴

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان سے) کہو کہ اے اہل کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی) بات پر تو آؤ جو ہمارے اورتمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے،،

پس ایمان بخدا اور غیر خدا کی عبادت یہ دونوں جمع نہیں ہو سکتے غیر خدا کی عبادت حرام ہے چاہے یہ عبادت ، توحید فی الذات سے انکار اور متعدد خالقوں کے عقیدے کی بنیاد پر ہو یا اس عقیدے کی وجہ سے کی جائے کہ مخلوق اور اللہ میں فاصلہ بہت زیادہ ہے اور لوگوں کی دعا اللہ تک نہیں پہنچ سکتی لہٰذا اس خالق کائنات کے علاوہ ایک یا کئی دیگر خداؤں کے محتاج ہیں جو خالق اور لوگوں کے درمیان واسطہ بن سکیں اور ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کر سکیں خدا کے مقابلے میں ان خداؤں کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کے مقابلے میں اس کے حواریوں کی ہوتی ہے چونکہ بادشاہ اور عوام میں فاصلہ زیادہ ہوتا ہے اور عام لوگوں کی اس تک رسائی نہیں ہو سکتی اس لئے بادشاہ کے حواریوں کو واسطہ قرار دیتے ہیں اور انہی کے ذریعے اپنی حاجات اور ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں ان دونوں عقیدوں کو باطل قرار دیا ہے چنانچہ پہلے عقیدے کے ابطال میں خالق فرماتا ہے۔

( لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ ) ۲۱:۲۲

'' اگر (بفرض محال) زمین اور آسمان میں خدا کے سوا چند معبود ہوتے تو دونوں کب کے بربادہو گئے ہوتے،،

۵۸۵

( وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ ) ۲۳:۹۱

''اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے (اگر ایسا ہوتا تو) اس وقت ہر خدا اپنی اپنی مخلوق کو لئے پھرتا ہے اور یقیناً ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے (اور خوب جنگ ہوتی) جو جو باتیں یہ لوگ (خدا کی نسبت) بیان کرتے ہیں اس سے خدا پاک و پاکیزہ ہے،،۔

دوسرا عقیدہ جس کی رو سے لوگ واسطہ کے قائل ہیں اور الٰہی نظام کو بادشاہوں کے نظام سے قیاس کرتے ہیں اللہ نے مختلف بیانات کے ذریعے اس عقیدے کو باطل قرار دیا ہے بعض آیات میں اس غلط دعویٰ کی دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس عقیدے کی کوئی دلیل نہیں ہے ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ) ۲۷:۶۴

''تو کیا خدا کے سامنے کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان مشرکین سے) کہہ دو کہ اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل پیش کرو،،

( قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ ) ۲۶:۷۱

''وہ بوگے ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ان ہی کے مجاور بن جاتے ہیں،،

( أَوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ ) : ۷۳

''یا تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں،،

( قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ ) : ۷۴

''کہنے لگے ( کہ یہ سب کچھ تو نہیں) بلکہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایسا ہی کرتے پایا،،

۵۸۶

کبھی اللہ تعالیٰ ان (منکرین توحید) کو ان چیزوں کی طرف متوجہ فرماتا ہے جن کو وہ اپنے حواس کے ذریعے درک کر سکتے ہیں اور کہ یہ لوگ جن بتوں کی پوجا کرتے ہیں وہ کسی کو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان اور جو نفع ، نقصان ، لینے دینے ، مارنے اور زندہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا وہ ایک کمزور مخلوق ہی ہو سکتی ہے وہ اس قابل نہیں کہ اسے معبود بنایا جائے ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ) ۲۱:۶۶

''ابرہیم نے کہا تو کیا تم لوگ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع ہی پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہارا کچھ نقصان ہی کر سکتے ہیں،،

( أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) : ۶۷

''تف ہے تم پر اور اس چیز پر جسے تم خدا کے سوا پوجتے ہو تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے،،

( قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۚ ) ۵:۷۶

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) تم ) کہہ دو کہ کیا تم خدا (جیسے قادر وتوانا) کو چھوڑ کر ایسی (ذلیل) چیز کی عبادت کرتے ہو جس کو نہ تو نقصان ہی کا اختیار ہے اور نہ نفع کا،،۔

( أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ ) ۷:۱۴۸

''(افسوس ) کیا ان لوگوں نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ وہ نہ تو ان سے بات ہی کر سکتا ہے نہ کسی طرح کی ہدایت ہی کر سکتا ہے (خلاصہ) ان لوگو نے اسے اپنا معبود بنا لیا اور اپنے اوپر ظلم کرتے تھے،،

مخلوق کا عبادت و پرستش کے قابل نہ ہونا ا یک عقلی اور فطری قانون ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ ان آیات کے ذریعے متوجہ فرما رہا ہے اور اس قانون سے کوئی موجود ، ممکن اور محتاج مستثنیٰ نہیں اگرچہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔

۵۸۷

( وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ) ۵:۱۱۶

''اور وہ (وقت بھی یاد کرو) جب (قیامت میں عیسیٰ سے) خدا فرمائے گا کہ (کیوں) اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنالو ، عیسیٰ عرض کریں گے سبحان اللہ میری تو یہ مجال نہ تھی کہ میں منہ سے ایسی بات نکالوں جس کا مجھے کوئی حق نہ ہو (اچھا) اگر میں نے کہا ہو گا کہ تجھ کو تو ضرور معلوم ہو گا کیونکہ تو میرے دل کی (سب بات ) جانتا ہے ہاں البتہ میں تیرے دل کی بات نہیں انتا (کیونکہ) اس میں تو شک ہی نہیں کہ تو ہی غیب کی باتیں خوب جانتا ہے،،

( مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ ) ۵:۱۱۷

؟؟ تو نے مجھے جو کچھ حکم دیا اس کے سوا تو میں نے ان سے کچھ بھی نہیں کہا یہی کہ خدا ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پالنے والا ہے،،

کبھی اس اعتقاد کو اس دلیل سے باطل قرار دیا کہ اللہ اپنے بندوں کے نزدیک ہے ، ان کی سرگوشیوں کو سنتا اور ان کی پکار پر انہیں جواب دیتا ہے ان کی تربیت اور سرپرستی اسی کے ہاتھ میں ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ) ۵۰:۱۶

''اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں،،

( أَلَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ ) ۳۹:۳۶

''کیا خدا اپنے بندوں (کی مدد) کیلئے کافی نہیں ہے (ضرور ہے)،،

( ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ) ۴۰:۶۰

''تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا،،

۵۸۸

( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ ) ۶:۱۸

''وہی اپنے تمام بندوں پر غالب ہے اور وہ واقف کار حکیم ہے،،

( قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۳:۲۹

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان لوگوں سے) کہہ دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم خواہ اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو (بہرحال) خدا تو اسے جانتا ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ (سب کچھ) جانتا ہے اور خداہر چیز پر قادر ہے،،۔

( وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ ) ۱۰:۱۰۷

'' اور (یاد رکھو) اگر خدا کی طرف سے تمہیں کوئی برائی چھو بھی گئی تو اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نہ ہو گا۔ اور اگر تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو پھر اس کے فضل (وکرم) کا پلٹنے والا بھی کوئی نہیں،،

( وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ ----- فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۶:۱۷

''اور اگر تمہیں کچھ فائدہ پہنچائے تو بھی (کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ) وہ ہر چیز پر قادر ہے،،

( اللَّـهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ ) ۱۳:۲۶

''اور خدا ہی جس کیلئے چاہتا ہے روزی کو بڑھا دیتا ہے اور (جس کیلئے چاہتا ہے) تنگ کرتا ہے،،

ان اللہ ھو الرزاق دینے والا زور آور (اور) زبردست ہے،،

( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ) ۴۲:۱۱

''کوئی چیز اس کے مثل نہیں اوروہ ہر چیز کو سنتا دیکھتا ہے ،،

۵۸۹

( أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ ) ۴۱:۵۴

''سن رکھو وہ یقیناً ہر چیز پر حاوی ہے،،

بنا برایں خدا اپنےی مخلوق سے دور نہیں اس کے اور اس کی مخلوق کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں لوگوں کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں لوگ کسی ایسے واسطے کے محتاج نہیں جو ان کی حاجات اللہ تک پہنچائے تاکہ یہ واسطے عبادت میں شریک ہو جائیں بلکہ سب کے سب لوگ اس بات میں مشترک ہیں کہ اللہ ہی ان کا پروردگار ہے اور ان کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں۔

( مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ) ۵۸:۷

''جب تین (آدمیوں) کا خفیہ مشورہ ہوتا ہے تو وہ (خدا) ان کا ضرور چوتھا ہے اور جب پانچ کا (مشورہ) ہوتا ہے تو وہ ان کا چھٹا ہے اور اس سے کم ہوں یا زیادہ اور چاہے جہاں کہیں ہو وہ ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے،،

( كَذَٰلِكَ اللَّـهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ) ۳:۴۰

'' اسی طرح خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے،،

( إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ ) ۵ :۱

''بیشک خدا جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے،،

خلاصہ کلام یہ کہ توحید در عبادت کے بارے میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا اور یہ وہ امتیاز ہے جو موحد انسان کو حاصل ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرے اور اسے اپنا پروردگار بنائے وہ کافرو مشرک ہے:

۵۹۰

عبادت اور اطاعت

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری واجب اوراس کی مخالفت عقلاً مستوجب عذاب ہے قرآن مجید میں بار بار اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے عوض ثواب اور معصیت کی پاداش میں عذاب دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔

غیر اللہ کی اطاعت کئی قسم کی ہوتی ہے۔

اول: غیر اللہ کی ایک عبادت وہ ہے جو اللہ کے حکم اور اس کی اجازت سے ہو جس طرح رسول اکرم (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کی اطاعت ہے درحقیقت یہ اللہ ہی کی اطاعت ہے عقلی طورپر اطاعت خدا کی طرح یہ اطاعت بھی واجب ہے:

( مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ ۖ ) ۴:۸۰

''جس نے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اطاعت کی تو اس نے خدا کی اطاعت کی،،

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ ) ۴:۶۴

''اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں،،

یہی وجہ ہے کہ جہاں اللہ نے اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں ساتھ ساتھ رسول (ص) کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ) ۳۳:۷۱

''اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ تو اپنی مراد کو خوب اچھی طرح پہنچ گیا ہے،،

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ) ۴:۵۹

'' اے ایماندار و خدا کی اطاعت کرو اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اور جو تم میں سے صاحبان حکم ہوں ا ن کی اطاعت کرو،،

۵۹۱

ثانی: غیر اللہ کی دوسری عبادت وہ ہے جس سے منع کیا گیا ہے جس طرح شیان اور ہر اس شخص کی اطاعت ہے جو اللہ کی معصیت کا حکم دے اس اطاعت کے شرعی طور پر حرام اور عقلی طور پر قبیح ہونے میں بھی کوئی شک نہیں بلکہ بعض اوقات یہی اطاعت کفر اور شرک قرار پاتی ہے ، جب کفر یا شرک کا حکم دیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے:

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ ) ۳۳:۱

''اے نبی خدا ہی سے ڈرتے رہو اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو،،

( فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا ) ۷۶:۲۴

''تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو ، اور ان لوگوں میں سے گنہگار اور ناشکرے کی پیروی نہ کرو۔

( وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ ) ۳۱:۱۵

''اگر تیرے ماں باپ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرا شریک ایسی چیز کو قرار دے جس کا تجھے کچھ علم نہیں توتو (اس میں) ان کی اطاعت نہ کر۔

ثالث: تیسری اطاعت وہ ہے جس کا نہ حکم دیا گیا ہے اور نہ اس سے روکا گیا ہے یہ اطاعت واجب بھی نہیں اور حرام بھی نہیں بلکہ جائز ہے۔

عبادت اور خشوع

اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق کو اپنے خالق کے سامنے متواضع ہو کر پیش ہونا چاہئے اس بات کا عقل بھی حکم دیتی ہے اور شرع نے بھی اس کا حکم دیا ہے جہاں تک مخلوق کے سامنے تواضع سے پیش آنے کا تعلق ہے اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔

۵۹۲

(۱) ایسی مخلوق سے تواضع کی جائے جس کی اللہ سے کوئی خاص نسبت نہیں جس طرح شاگرد اپنے استاد، بیٹا اپنے والد اور خادم اپنے آقا سے تواضع کیساتھ پیش آتا ہے یا اس قسم کی اور تواضع جس کا عام لوگوں میں رواج ہے اس تواضع کے جواز میں بھی کوئی شک نہیں بشرطیکہ شارع نے اس سے منہ نہ فرمایا ہو پس غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں اس لئے کہ اس سجدہ سے منع کیا گیا ہے:

مخلوق کے ساتھ تواضع سے پیش آنے کا جائزہ ہونا ضرورت کا تقاضا ہے اور اس میں شرک کامعمولی سابھی شائبہ نہیں چنانچہ خ الق کا ارشاد ہے:

( وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ) ۱۷:۲۴

''اور ان کے سامنے نیاز سے خاکساری کاپہلو جھکائے رکھو اور (ان کے حق میں) دعا کرو کہ اے میرے پالنے والے جس طرح ان دونوں نے میرے چھٹپنے میں پرورش کی ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما،،

ملا خطہ فرمائیں کیا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے سامنے اظہار ذلت کرنے کا حکم دے کر ان کی عبادت کا حکم دیا ہے ؟ جبکہ اس سے قبل غیر اللہ کی عبادت سے منع فرمایا گیا ہے۔

( وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ ) ۱۷:۲۳

''اور تمہارے پروردگار نے تو ہی دا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے نیکی کرنا،،

نیز ملاخطہ ہو کہ شانہ ذلت کو جھکانا (جس طرح چھوٹے اور کمزور پرندے جھکایا کرتے ہیں) وہی احسان ہے جس کا آیت میں حکم دیا گیا ہے اور اسے عبادت کے مقابلے میں قرار دیا ہے معلوم ہوا ہر خشوع و خضوع اور اظہار ذلت شرک نہیں ہوتا ، تاکہ یہ حرام قرار پائے۔

۵۹۳

(۲) دوسرا خشوع و خضوع اور اظہار تواضح وہ ہے جو اس خیال سے کی مخلوق سے کیا جائے کہ اس مخلوق کو اللہ سے کوئی خاص نسبت ہے جس کی وجہ سے یہ مخلوق مستحق خشوع و خضوع ہے یہ عقیدہ درحقیقت باطل ہے اس خشوع و خضوع کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی جس طرح بعض باطل اور فاسد مذاہب کے پیروکار اپنے پیشوایان مذاہب کا کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بدعت ہے یعنی ایک ایسے عمل کو دین میں شامل کرنے کے مترادف ہے جو درواقع دین سے خارج ہے اور اس کی تشریع کہا جاتا ہے جو ادلہ اربعہ(۱) کی رو سے حرام اور ذات خدا پر بہتان ہے۔

( فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا ) ۱۸:۱۵

''اور جو شخص خدا پر جھوٹ بہتان باندھے اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو گا،،

(۳) تیسرا خشوع و خضوع وہ ہے جو اللہ کے حکم پر کسی مخلوق کے سامنے اختیار کیا جائے جس طرح رسول اللہ (ص) اور ائمہ ہدی (ع) اور دوسرے مومنین ہیں بلکہ بعض ایسی اشیاء ہیں جن کو اللہ سے کوئی خاص نسبت حاصل ہے جیسے مسجد ، قرآن اور حجراسود اور دوسرے شعائرالٰہی ہیں اس قسم کا تواضع اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔

( فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمومنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ ) ۵:۵۴

''عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو ظاہر کر دے گا جنہیں خدا دوست رکھتا ہو گا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے ایمانداروں کے ساتھ منسکر (متواضع ) (اور) کافروں کے ساتھ کڑے،،

____________________

(۱) قرآن سنت ، اجماع اور عقل

۵۹۴

خشوع کی یہ قسم درحقیقت اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع و خضوع اور اس کی عبادیت و بندگی اختیار کرنے کے مترادف ہے ظاہر ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی واحدنیت اور یگانگت کا معتقد ہو اس بات کااعتقاد رکھتا ہو کہ زندگی دینا ، مارنا ، خلق کرنا، رزق دینا ، بندوں کو کچھ عطا کرنا ، ان سے لے لینا ، لوگوں کوبخشنا اور عذاب کرنا اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اور یہ عقیدہ بھی رکھتا ہو کہ نبی اکرم (ص) اور آپ (ص) اللہ کے لائق عزت و تکریم بندے ہیں جو کسی بات میں اللہ سے سبقت نہیں لے جاتے اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

( عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ ﴿﴾ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ) (۲۱: ۲۶۔۲۷)

'' خدا کے معزز بندے ہیں یہ لوگ اس کے سامنے بڑھ کر بول نہیں سکتے اور یہ لوگ اسی کے حکم پر چلتے ہیں،،

ان ہستیوں (ع) کو اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ بنائے ، باذن اللہ ان (ع) کی شفاعت ، عظمت اور شان کا قائل ہو تو وہ دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس شخص نے غیر اللہ کی عبادت کی ہے اس لئے کہ ہر مسلمان بخوبی جانتا ہے کہ رسول اللہ (ص) حجراسود کو بوسہ دیا کرتے تھے اور اسے اپنے ہاتھ سے مس کر کے اس کی عزت و تکریم فرمایا کرتے تھے آپ (ع) مومنین ، شہداء اور دوسرے نیک بندوں کی قبروں کی زیارت فرماتے تھے انہیں سلام کرتے اور ان کیلئے دعا فرماتے تھے

آپ (ص) کے بعد صحابہ کرام اور تابعین بھی اس سنت پر عمل پیرا رہے یہ حضرت رسول اللہ (ص) کی قبر کی زیارت کرتے اور ا سے متبرک سمجھتے بوسہ دیتے اور رسول اللہ (ص) سے اسی طرح شفاعت طلب کرتے جس طرح زندگی میں کیا کرتے تھے اسی طرح ائمہ دین اور صالحین اولیائے کرام کی قبروں کی زیارت اور احترام کرتے تھے اس عمل کو کسی بھی صحابی نے برا اور حرام نہیں کہا اور نہ تابعین یا علمائے کرام میں سے کسی نے اس عمل کو ناجائز سمجھا یہاں تک کہ احمد بن عبدالجلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ حرانی ظاہر ہوا جس نے ان قبروں میں دفن ہستیوں سے شفاعت طلب کرنا حرام قرار دیا یہاں تک کہ اس نے ہر اس شخص کی سخت مذمت کی جس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مطہر کی زیارت کی ، بطرو تبرک اس کا بوسہ لیا یا اسے مس کیا بلکہ اس نے اس عمل کو بھی شرک اصغر اور کبھی شرک اکبر گردانا۔

۵۹۵

جب اس زمانے کے تمام علمائے کرام نے دیکھا کہ ابن تیمیہ اپنے اس عیقدے کے نتیجے میں دین اسلام کے مسلمات اور ضروریات مسلمین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ ان علمائے کرام نے آپ (ص) سے روایت نقل کی ہے جس میں آپ (ص) نے بالعموم تمام مومنین اور بالخصوص اپنی زیارت کی ترغیب و تشویق دلائی ہے اور فرمایا ہے۔

من زارنی بعد مماتی کان کمن زارنی فی حیاتی

''جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی،،۔

اس مضمون کی اور روایات بھی مروی ہیں(۱) جب علماء نے ابن تیمیہ کے اس خلاف اسلام عمل کو دیکھا(۱) تو انہوں نے اس سے برات اور نفرت کا اظہار کیا ، اس کی گمراہی کا فیصلہ دے دیا ، اس پر توبہ کو واجب قرار دیا اور اسے ہر حالت میں یا توبہ نہ کرنے کی صورت میں قید کرنے کا حکم صادر کر دیا۔

اگر ابن تیمیہ کے اس عمل کو مسلمانوں میں اختلاف وانتشار کا بیج بونے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ نہ کہا جائے توا س کی اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے خیال میں یہ اعمال (زیارات وغیرہ) شرک اور غیر اللہ کی عبادت شمار ہوتے ہیں ابن تیمیہ کو یہ معلوم نہیں کہ جو لوگ اس قسم کے اعمال بجا لاتے ہیں وہ اللہ کی توحید اور اس کی یگانگی کے معتقد ہیں اور یہ کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسراخالق و رازق نہیں خلق اور امر صرف اس کی ذات سے مختص ہے ان اعمال کا مقصد صرف اور صرف شعائر الٰہی کی تعظیم ہے اس قبل ہم بتا چکے ہیں کہ ان ہستیوں کی تعظیم و تکریم درحقیقت اللہ کی تعظیم و تکریم ہے اور اللہ کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے مترادف ہے۔

___________________

(۱) قبروں کی زیارت جائز ہونے کے متعلق روایات ضمیمہ نمبر ۱۷ میں ذکر کی گئی ہیں۔

۵۹۶

ان اعمال میں شرک کا معمولی سا شائبہ تک نہیں کیونکہ شرک غیر اللہ کی عبادت کا نام ہے اور کسی کی عبادت کا مطلب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کو قابل پرستش رب سمجھ کر اس کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کیا جائے اس معنی میں عبادت کجا اورنبی (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کو اللہ کے مکرم بندے مانتے ہوئے نبی کریم (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی تعظیم و تکریم کجا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی مسلمان کسی نبی یا اس کے وصی کی عبادت نہیں کرتا چہ جائیکہ ان کی قبروں کی عبادت کرے۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ قبروں کی زیارت کرنا اور ان کو بوسہ دینا یا اس قسم کی تعظیم کی دیگر صورتیں کسی بھی اعتبار اور سبب سے شرک نہیں کہلاتیں اگر یہ چیزیں شرک کہلاتیں تو زندہ انسانوں کی تعظیم و تکریم بھی شرک شمار ہوتی کیونکہ اس اعتبار (غیر اللہ کی تعظیم شرک ہونا) سے زندہ اور مردے میں کوئی فرق نہیں۔ حالانکہ ابن تیمیہ اور اس کے ہم مسلک ، زندہ انسانوں کی زیارت کو کبھی بھی شرک نہیں سمجھتے اس کے علاوہ اگر قبروں کی زیارت کرنا شرک ہوتا تو العیاذ باللہ حاشاوکلا رسول اللہ (ص) بھی مشرک کہلائیں گے اس لئے کہ آپ (ص) بھی قبروں کی زیارت فرمایا کرتے ، انہیں سلام کرتے تھے اور حجراسود کا بوسہ کا بوسہ لیتے تھے جیسا کہ اس سے قبل ہم بتا چکے ہیں۔

بنا برایں اس مقام پر دو میں سے ایک بات ضرور تسلیم کرنا پڑے گی۔

(۱) بعض شرک جائز ہیں اور بعض جائز نہیں۔

(۲)پرستش کی نیت کے بغیر کسی قبر کی تعظیم کرنا اور اس کا بوسہ لینا شرک نہیں کہلاتا۔

ظاہر ہے پہلی بات کا کوئی قائل نہیں ہو سکتا اس لئے کہ وہ سراسر باطل اور غلط ہے لامحالہ دوسری بات حق اور صحیح ہو گی اور یہ ثابت ہو گیا کہ انبیاء اوصیاء (علیہم السلام) کی قبروں کی زیارت اور تعظیم ، عبادت الہی اور تعظیم خدا شمار ہوتی ہے شرک نہیں کہلاتی

( وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ) ۲۲:۳۲

''اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیز گاری سے حاصل ہوتی ہے،،

اس قبل وہ روایات بیان کی جا چکی ہیں جن کی رو سے بنی (ع) اور صالحین اولیاء اللہ کی زیارت مستحب ہے۔

۵۹۷

غیر اللہ کو سجدہ

گزشتہ مباحث سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ کسی بھی مخلوق کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنا ( اگر شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہو تو) جائز نہیں اگرچہ یہ تواضع بطور پرستش نہ ہو غیر اللہ کو سجدہ کرنا بھی اسی قبیل سے ہے اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ غیر خدا کو سجدہ کرنا حرام ہے ارشاد ہوتا ہے:

( لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ) ۴۱:۳۷

''تم لوگ نہ سورج کو سجدہ کرنا اور نہ چاند کو اور اگر تم کو خدا ہی کی عبادت کرنی منظور ہے تو بس اسی کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے،،۔

اس آیت سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ سجدہ صرف خالق کائنات کیلئے مختص ہے اور کسی مخلوق کیلئے جائز نہیں۔

( وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ) ۷۲:۱۸

''اور یہ کہ مسجدیں خاص خدا کی ہیں تو تم لوگ خدا کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرنا،،

یہ آیت ہمارے مدعا پر صرف اس صورت میں دلالت کرتی ہے جب آیت میں ''مساجد،، سے مراد سات اعضاء (پٍیشانی ، دونوں ہا تھوں کی ہتھیلیاں ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے ) ہوں جن کا حالت سجدہ میں زمین سے لگنا ضروری ہے چنانچہ آیہ شریفہ سے یہی ظاہر ہو رہا ہے اور معصومین (ع) کی روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں(۱)

بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ اور تو اور کسی نبی یا اس کے وصی کو سجدہ کرنا بھی جائز نہیں شیعوں کی طرف یہ نسبت دینا

____________________

(۱) وسائل باب حدالقطع من ابواب حداسرقہ ، ج ۳ ، ص ۴۴۸

۵۹۸

کہ وہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کو سجدہ کرتے ہیں محض تہمت اور الزام ہے روز محشر شیعہ اور ان پر اس قسم کے الزامات لگانے والے درگاہ الٰہی میں پیش ہوں گے اور اللہ ہی فیصلہ کرنے والا ہے ان میں سے بعض تو الزام تراشی میں حد سے بڑھ گئے ہیں یہ الزام تو پہلے سے بھی زیادہ دل آزار اور تکلیف دہ ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کی مٹی لے کر اس کو سجدہ کرتے ہیں۔

بارالہا ! تو جانتا ہے کہ یہ کتنی بڑی تہمت ہے(۱) شیعوں کی قدیم و جدید مطبوعہ اور قلمی کتب دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان تمام کتب کا اتفاق ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے جس شخص نے شیعوں کی طرف یہ نسبت دی ہے وہ یا تو شیعوں پر عمداً الزام تراشی اور تہمت کا مرتکب ہوا ہے یا وہ غافل ہے اور کسی چیز کو سجدہ کرنے اور کسی چیز پر سجدہ کرنے میں موجود فرق کو نہیں سمجھتا۔

شیعوں کے نزیک نماز میں ہر اس چیز پر سجدہ ہو سکتا ہے جو زمین کا حصہ اور جزء شمار ہو جیسا کہ پتھر یا ڈھیلا یا ریت یا مٹی ہے ۔ ان نباتات پر بھی سجدہ ہو سکتا ہے جو کھائی یا پہنی نہ جائیں شیعہ نقطہ نگاہ سے مٹی پر سجدہ کرنا دوسری چیزوں کی نسبت افضل ہے ، اسی طرح خاک کربلا پر سجدہ کرنا باقی سب چیزوں پر سجدہ کرنے سے افضل ہے اور ان سب باتوں میں شیعہ اپنے ائمہ معصوم (ع) کی پیروی کرتے ہیں(۲) اس کے باوجود شیعوں کی طرف کیونکر شرک کی نسبت دی جاتی ہے کہ شیعہ غیر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں(۳)

خاک کربلا اللہ کی اس وسیع و عریض سرزمین ہی کاایک جزء ہے جسے اللہ نے اپنے نبی (ص) کیلئے سجدہ گاہ اور مطہر بنایا(۴)

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۸ میں روزوں کے بارے میں شیعوں پر آلوسی کے الزامات ملا خطہ فرمائیں۔

(۲) وسائل ، باب ۱۶۲ ، من ابواب مایسجد علیہ ، ص ۲۳۶

(۳) ضمیمہ نمبر ۱۹ میں تربت حسینیہ کے بارے میں ایک مباحثہ ملا خطہ فرمائیں جو م ولف اور ایک حجازی عالم کے درمیان ہوا

(۴) سنن البیہقی باب التیمم بالصعید الطیب ، ج ۱ ، ص۲۱۲ ۔ ۲۱۳

۵۹۹

ہاں ! خاک کربلا وہ خاک ہے جس کی عظمت اور قدرو منزلت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس سرزمین میں وہ نواسہ رسول (ص) اور جوانان جنت کے سردار دفن ہیں جنہوں نے اپنے نفس ، خاندان اور اصاب کو دین اسلام کی راہ اور شریعت سید المرسلین (ص) کے احیاء کی خاطر قربان کر دیا خاک کربلا کی فضیلت میں فریقین نے رسول اللہ (ص) سے روایات نقل کی ہیں(۱)

فرض کیجئے اس خاک کی فضیلت میں رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء کی کوئی روایت نہیں ہے لیکن کیا حق و انصاف کا یہ تقاضا نہیں کہ مسلمان اس مقدس خاک کو ہر وقت اپنے پاس رکھے اور جب بھی سجدہ کرنا ہو اس پر سجدہ کرے ؟ اس لئے کہ اس خاک پر سجدہ کرنا ، جو بذات خود ان چیزوں میں سے ہے جنپر سجدہ صحیح ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس مقدس خاک کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے والا شخص اس عظیم شخصیت کا پیروکار ہے جس کی طرف یہ خاک منسوب ہے اور جسے اللہ اور اصلاح مسلمین کی راہ میں شہید کر دیا گیا۔

آدم (ع) کوسجدہ ۔ اقوال علمائ

اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ حضرت آدم (ع) کو فرشتوں کا سجدہ کرنا کیوں جائز ہوا جبکہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں؟ علماء نے اس سوال کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔

(۱) حضرت آدم(ع) کوفرشتوں کا سجدہ ، خشوع و خضوع کے معنی میں تھا یہ وہ سجدہ نہیں تھا جس کا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔

__________________

(۱) وسائل ، ج ۱ ، ص ۲۳۶ ۔ باب استحباب السجود علی تربتہ الحسین (ع) نیز ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ۲۰

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689