البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313965 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

چھٹا اعتراض

اعجام قرآن پر چھٹا اعتراض یہ ہے کہ اگر ہر وہ کتاب معجزہ ہے جس کی نظیر لانے سے انسان عاجز ہو تو ہیئت کی کتاب ''اقلیدس،، اور ہندسہ کی کتاب بھی معجزہ نہیں ہوسکتی جس کی نظیر انسان نہ لاسکے۔

جواب:

اولاً: ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انسان ان دونوں کتابو ںکی نظیر لانے سے عاجز اور قاصر ہے۔ ا س لیے کہ ان کے بعد علم ہیئت اور علم ہندسہ پر ایسی ایسی کتب لکھی جاچکی ہےں جن کا بیان زیادہ وزنی اور سمجھنا آسان ہے۔ بعد کی کتاب کئی اعتبار سے ان دونوں کتابوں پر فوقیت رکھتی ہیں اور ان میں بعض ایسی چیزیں ہیں جن کا ان دونوں کتب میں نام و نشان تک نہیں ہے۔

ثانیاً: ہم نے معجزہ کی کئی شرائط بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ معجزے کو جب پیش کیا جائے تو اسے بطور چیلنج اور اپنے الہٰی منصب کے ثبوت و دلیل میں پیش کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو کام بھی بطور معجزہ انجام دیا جائے وہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہو۔ یہ دونوں شرائط ان دونوں کتب میں مفقود ہیں۔ اس کی وضاحت ہم اعجاز کی بحث کے شروع میں کرچکے ہیں۔

ساتواں اعتراض

اگر عربوں نے قرآن کا مقابلہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انسان قرآن کی نظیر لانے سے عاجز و قاصر ہے بلکہ اس کی اور وجوہات ہیں جن کا تعلق اعجاز سے نہیں ہے۔

۱۲۱

دعوت اسلام کے معاصر اور ان کے بعد عربوں کی طرف سے قرآن کا مقابلہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت اور ان کا رعب و ہیبت ان کو اس مقابلے سے روکتا تھا اور انہیں اس میں اپنی جان و مال کا خوف تھا۔ خلفاء اربعہ کی حکومت کا دور گزرنے کے بعد جب امویوں کا دور آیا، جن کی خلافتیں دعوتِ اسلامی کے محور پر قائم نھیں تھیں تو قرآن اپنے الفاظ کی متانت اور مضبوطی کی وجہ سے تمام لوگوں میں مانوس ہوچکا تھا اور نسلیں گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قرآن لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوتا چلا گیا یہ رسوخ و راثۃً نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں اس کے مقابلے سے لوگ دستبردار ہوگئے۔

جواب:

اولاً: قرآن کا چیلنج اور ایک سورہ کے مقابلے کی دعوت دینا اس زمانے کی بات ہے جب پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مکّہ میں تھے اور اسلام کو ابھی وہ تقویت حاصل نہیں ہوئی تھی اور نہ ملسمانوں کا وہ رعب و دبدبہ تھا جس سے مخالفین پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا۔ اس کے باوجود عرب کے فصحاء اور بلغاء قرآن کا مقابلہ نہ کرسکے۔

ثانیاً: خلفاء کے دور حکومت میں ایسا خوف نہیں تھا جس کی وجہ سے کفار اور مخالفین قرآن اپنے کفر اور مسلمانوں سے اپنی عدوات کو ظاہر نہ کرسکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جزیرۃ العرب میں مسلمانوں کے درمیان اہل کتاب بڑے سکون و آرام کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کو وہی حقوق حاصل تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔ ان کے فرائض وہی تھے جو مسلمانوں کے تھے۔ خاص کر حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے دور حکومت میں جن کی عدالت اور کثرت علم کی گواہی غیر مسلم تک دیتے ہیں۔ اس قسم کے اہل کتاب یا دوسرے کفار اگر قرآن کی مثل و نظیر لانے پر قادر ہوتے تو یقیناً وہ اپنے نظریئے اور ثبوت میں اسے پیش کرتے۔

۱۲۲

ثالثاً: بالفرض اگر قرآن کے مقابلے سے انہیں خوف محسوس ہوتا تھا تو یہ خوف کھلے عام مقابلے میں مانع ہونا چاہیے تھا۔ گھروں میں اور بالکل مخفی طور پر قرآن کے مقابلے میں عبارتیں بنانے سے کون سی چیز لکھنے والوں کی راہ میں حائل تھی؟

اگر اس قسم کی کتب یا عبارتیں لکھی گئی ہوتیں تو اس خوف کے زائل ہونے کے بعد ان کو ظاہر کیا جاتا جس طرح کتب عہدلین کی خرافات اور ان کے دین سے متعلق دیگر باتیں آج بھی محفوظ ہیں۔

رابعاً: کوئی بھی کلام ہو، چاہے وہ بلاغت کے بلند ترین مقام پر ہو، انسانی طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ جب وہ بار بار سماعت سے ٹکرائے گا تو اپنے پہلے مقام سے گرجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بلیغ سے بلیغ قصیدہ و کلام بھی اگر انسان کے سامنے مکرر پڑھا جائے تو انسان اس سے اکتا جاتا ہے۔ کیونکہ ا س کے مقابلے میں جب کوئی دوسرا قصیدہ اسے سنایا جاتا ہے تو اسے شروع میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ دوسرا قصیدہ پہلے قصیدہ سے بہتراور اس میں زیادہ بلاغت ہے اور جب دوسرے قصیدے کو بھی بار بار پڑھا جائے تو ان دونوں میں موجود فرق واضح ہو جاتا ہے۔

یہ قاعدہ صرف کلام ہی سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس چیز میں جاری ہے جس سے انسان لطف اندوز وہتا ہے اور اس کے حسن و قبح کو درک کرسکتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق کھانے پینے یا پہننے کی چیزوں سے ہو یا سنائی دینے والی آواز سے۔

اگر قرآن کریم معجزہ نہ ہوتا تو یہ کلیّہ اس پر بھی لاگو ہوتا اور سننے والوں کے نزدیک اس کا وہ مقام نہ رہتا جو شروع شروع میں اسے حاصل تھا اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فصاحت و بلاغت میںکمی آجانی چاہیے تھی جس کے نتیجے میں قرآن کا مقابلہ آسان ہوجاتا۔

۱۲۳

لیکن ہم بالوجدان یہ دیکھ رہے ہیں کہ قرآن کریم کو بار بار پڑھنے اورسننے کے باجود اس کے حسن اور خوبیوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور اس سے عرفان و یقین حاصل ہوتا ہے اور انسان اس پر ایمان لانے اور اس کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم کی یہ خصوصیت اور امتیاز، دوسرے مانوس کلاموں سے بالکل مختلف ہے۔ پس قرآن کا یہ پہلو بھی اس کے معجزہ ہونے کی تائید اور تاکید کرتا ہے اور یہ اس کے اعجاز کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ مخالف قرآن و اسلام کا توہم ہے۔

خامساً: بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ کسی کلام کو بار بار پڑھنے سے انسان اس سے مانوس اور اس کے مقابلے سے دستبردار ہوجاتا ہے تو یہ بات صرف مسلمانوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جو قرآن کی تصدیق کرتے ہیں اسے بار بار سنتے اور اس سے مانوس ہوتے ہیں اور چاہے جس کثرت سے بھی اس کی تلاوت کی جائے اسے رغبت و شوق سے سنتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسرے غیر مسلموں کو اس کے مقابلے سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے تھا تاکہ اس مقابلے کو کم از کم غیر مسلم ہی تسلیم کرلیتے۔

آٹھواں اعتراض

تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے جب قرآن کو جمع کرنا چاہا تو انہوںنے حضرت عمر اور زید بن ثابت کو حکم دیا کہ ومسجد کے دروازے پر بیٹھ جائیں اور ہر وہ عبارت لکھ لائیں جس کے کتاب ہونے کی گواہی دو شاہد دیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیرمعمولی کلام نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیر معمولی کلام ہوتا تو اس کے لیے کسی شہادت و گواہی کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی اور بذات خود اسے ثبت ہونا چاہیے تھا۔

۱۲۴

جواب:

اولا: قرآن کی بلاغت اور اس کا اسلوب کلام معجزہ ہے، نہ کہ اس کا ایک ایک کلمہ اور لفظ معجزہ ہے۔ اس بناء پر یہ شک ہوسکتا ہے کہ اس کے مفردات اور کسی کلمہ میں تحریف نہ ہوگئی ہو یا اس میں کمی بیشی کا بھی احتمال ہوسکتا ہے۔ فرض کریں شاہدوں کی شہادت والی راویت اگر صحیح بھی ہے تو وہ اس قسم کے احتمالات کے ازالے کے لیے ہے کہ کہیں قرآن پڑھنے والا غلطی سے یا جان بوجھ کر کسی لفظ یا کلمے میں کمی بیشی نہ کردے۔

اس کے علاوہ اگر قرآن کی ایک سورۃ کی نظیر بشر نہ لا سکے تو وہ ایک آیہ کی مثل و نظیر لانے سے منافات نہیں رکھتا۔ یہ ایک ممکن کام ہے اور آج تک مسلمانوں نے اس کے محال یا ناممکن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور قرآن نے اپنے چیلنج میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ لوگ اس کی ایک آیت کی نظیر و مثل نہیں پیش کرسکتے۔

ثانیاً: جتنی روایات اور اخبار اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر کے زمانے میں صحابہ میں سے دو شاہدوں کی شہادت سے قرآن جمع کیا جاتا تھا۔ یہ سب خبر واحد ہیں خبر متواتر نہیں اور خبر واحد اس قسم کے واقعات میں حجت اور دلیل نہیں بن سکتی۔

ثالثاً: ان اخبار کے مقابلے میں بہت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں جمع کیا گیا۔ بہت سے اصحاب نے پورا قرآن کریم حفظ کرلیا تھا اور جن حضرات کو قرآن کے بعض سورے اور حصے یاد تھے ان کا تو شمار ہی نہیں ہوسکتا۔

۱۲۵

اس کے علاوہ اگر عقلی طور پر انسان ذرا فکر سے کام لے تو اس قسم کی روایات کا کذب ثابت ہو جاتا ہے جن سے مخالفین قرآن تمسک چاہتے ہیں۔

پس قرآن جو مسلمانوں کی ہدایت کا سب سے بڑا ذریعہ اور ان کو بدبختی اور جہالت کی تاریکیوں سے سعادت اور علم کے نور کی طرف لاتا ہے اور مسلمان قرآن کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے اور دن رات اس کی تلاوت کرتے تھے، قرآن کو حفظ کرنے اور اس کی صحیح تلاوت کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے، اس کی سورتوں اور آیات کو دیکھنا مبارک سمجھتے تھے اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بھی اس بات کی ترغیب دیتے تھے، ان سب باتوں کے باوجود کیا کوئی عقلمند یہ احتمال دے سکتا ہے کہ کسی آیہ یا سورہ کو ثابت کرنے کے لیے دو گواہوں کی ضرورت ہوگی۔ انشاء اللہ ہم آ ئندہ ثابت کریں گے کہ قرآن مجید پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں مکمل طور پر جمع کرلیا گیا تھا۔

نواں اعتراض

قرآن کا اسلوب، بلاغت کے مروج اسلوب سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید نے مختلف موضوعات کو باہم مخلوط کردیا ہے۔ مثلاً اگر تاریخ کی بات کررہا ہے تو اچانک وعدہ وعید (بہشت کے وعدوں اور جہنم کے عذاب کی دھمکیوں) میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر قرآن ابواب میں تقسیم ہوتا اور ہر موضوع کے متعلق جتنی آیات ہیں ان کو یکجا کردیا جاتا تو اس کا فائدہ بہت زیادہ ہوتا اور اس سے استفادہ بھی آسان ہوتا۔

جواب:

قرآن انسانوں کی ہدایت اور ان کو دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یہ کوئی تاریخی یافقہ و اخلاق یا اسی قسم کی کوئی اور کتاب نہیں ہے کہ اس کو ان موضوعات کے لحاظ سے مستقل ابواب میں یکجا کیا جاتا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اسلوب، مطلوبہ مقصد تک پہنچانے کا نزدیک ترین اسلوب ہے، اس لیے کہ جو انسان قرآن کی بعض سورتوں کی تلاوت کرتا ہے

۱۲۶

وہ اسی تلاوت اور قلیل وقت میں، معمولی زحمت کرکے بہت سے اغراض و مقاصد حاصل کرسکتا ہے۔ مثلاً، ایک ہی تلاوت میں وہ توحید و معدا کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے۔ گذشتہ لوگوں کے حالات سے آگاہ ہوسکتا ہے اور اس سے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔ اخلاق حسنہ کا استفادہ کرسکتا ہے اور دیگر علوم و معارف سے روشناس ہوسکتا ہے ان کے علاوہ اسی تلاوت میں اپنی عبادات اور معاملات سے متعلق کچھ احکام بھی سیکھ سکتا ہے۔

ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں نظم کلام کی رعایت بھی کی گئی ہے حسن بیان کا حق ادا کردیا گیا ہے اور مقتضائے حال کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔

یہ وہ فوائد ہیں جو قرآن کو ابواب میں تقسیم کرنے سے حاصل نہ ہوسکتے۔ کیونکہ اگر اسے ابواب میں تقسیم کیا جاتا تو انسان اپنے مختلف اغراض و مقاصد اسی صورت میں حاصل کرسکتا تھا جب وہ پورے قرآن کی تلاوت کرتا اور عین ممکن ہے کہ کچھ رکاوٹیں پیش آنے کی وجہ سے انسان پورے قرآن کی تلاوت نہ کرپائے اور صرف ایک یا دو ابواب سے مستفید ہوسکے۔

مجھے اپنی زندگی کی قسم حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ باتیں اسلوب قرآن کی خوبیوں میں سے ہیں اس اسلوب کی وجہ سے قرآن کو حسن و جمال ملا ہے۔ اس لیے کہ قرآن کے ایک موضوع سے دوسرے موضوع کی طرف منتقل ہونے کے باوجود ان دونوں موضوعات میں مکمل ربط قائم رہتا ہے۔ گویا اس کے تمام جملے موتی ہیں جنہیں ایک لڑی میں پرودیا گیا ہے۔

لیکن اسلام دشمنی نے معترض کی آنکھ کو اندھا اور کان کو بہرا کردیاہے جس کی وجہ سے وہ جمال کو قبح اوراچھائی کو برائی سمجھتا ہے۔

اس کے علاوہ قرآن مجید میں بعض قصوں کی حسب ضرورت مختلف عبارتوں میں تکرار کی گئی ہے، اگر مکرر بیان کی گئی عبارتوں کو ایک ہی باب میںبیان کردیا جاتا تو قاری کو زیر نظر فائدہ حاصل نہ ہوتا۔

۱۲۷

قرآن کا مقابلہ

کتابچہ ''حسن الایجاز،،(۱) کا مصنف اپنے رسالے میں دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن کی نظیر پیش کرنا ممکن ہے اور اس نے کچھ ایسے جملے ذکر کئے ہیں جنہیں اس نے قرآن ہی سے لیا ہے اور ان کے بعض الفاظ میں تبدیلی کرکے اپنے زعم باطل میں یہ سمجھاہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کررہا ہے اس طرح اس نے اپنے مبلغ علم اور بلاغت شناسی کاراز فاش کردیا ہے۔

قارئین محترم کی خدمت میں وہ عبارتیں پیش کرکے ہم اس کے وہمی اور خیالی مقابلے کی قلعی کھول دیتے ہیں اور اس کے جملوں میں جو خامیاں پای جاتی ہیں ان کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنی کتاب ''نفحات الاعجاز،، میں بھی ان خیالی مقابلوں کا جواب دے چکے ہیں۔(۲)

اس خیال باف نے سورہ فاتحہ کے مقابلے میں لکھا ہے:

الحمد الرحمن رب الاکوان، الملک الدیان، لک العبادة و بک المستعان، اهدنا صراط الایمان

اپنے زعم باطل میں یہ سمجھتا ہے کہ اس کی یہ عبارت سورۃ فاتحہ کے معانی و مفاہیم ادا کرتی ہے اور اس سے مختصر بھی ہے۔

معلوم نہیں یہ جملے لکھنے والے کو کیا جواب دیا جائے جو علمی اعتبار سے اتنا گیا گزرا ہے کہ وزنی اور ہلکے کلام میں بھی تمیز نہیں کرسکتا۔ کاش اس سے پہلے کہ اس دعویٰ کے ذریعے وہ اپنے آپ کو رسوا کرتا۔ ان عبارتوں کو علمائے نصاریٰ کے سامنے پیش کرتا جو اسلوب کلام اور فنون بلاغت سے آشنائی رکھتے ہیں۔

____________________

(۱) یہ چھوٹا سا کتابچہ ۱۹۱۲ء میں مصر کے شہر بولاق میں ایک اینگلو ارمیکن پریس میں شائع کیا گیا۔

(۲) یہ کتاب رسالہ ''حسن الایجاز،، کی رد میں لکھی گئی جو ۱۳۴۲ھ میں نجف اشرف کے علویہ پریس میں شائع کی گئی۔

۱۲۸

اسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ کسی بھی کلام کے مقابلے کاطریقہ یہ ہے ک کوئی شاعر یا مضمون نگار اپنے ہی الفاظ، ترکیب اور اسلوب میں ایسا کلام پیش کرے جو مد مقابل کلام کے کسی پہلو اور مقصد سے مطابقت رکھتا ہو۔ مقابلے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کلام کی ترکیب اور اسلوب میں اس کلام اور ترکیب کی نقل کی جائے جس سے مقابلہ کیا جارہا ہے اور صرف الفاظ میں رد و بدل کرلیا جائے۔

اسطرح کا مقابلہ تو ہر کلام کا کیا جاسکتا ے اور ایسا مقابلہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ہم عصر عربوںکے لیے آسان تھا، لیکن چونکہ وہ مقابلے کے صحیح مفہوم اور بلاغت قرآن کے پہلوؤں کو سمجھتے تھے اس لیے مقابلہ نہ کرسکے۔ قران کے معجزہ ہونے کا انہوں نے اعتراف کرلیا اور انہوں نے اس پر ایمان لانا تھا وہ ایمان لے آئے اور جنہوں نے اس کا انکار کرناتھا انہوں نے انکار کردیا۔ اس کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( فَقَالَ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ) ۷۴:۲۴

''پھر کہنے لگا یہ تو بس جادو ہے جو (اگلوں سے) چلا آتا ہے۔،،

اس کے علاوہ مذکورہ بالا جملوں کا سورۃ فاتحہ سے موازنہ تک نہیں ہوسکتا جس سے یہ سوال پیدا ہو کہ ان جملوں سے سورۃ فاتحہ کے معانی ادا ہو جاتے ہیں؟

کیا فن بلاغت سے اس کا بے بہرہ ہونا ہی کافی نہیں تھا کہ اس نے لوگوں کے سامنے اپنی خامیوں اور عیبوں کو بھی

ظاہر کردیا؟!! اور''الحمد للرحمٰن،، کا مقایسہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان( الْحَمْدُ لِلَّـهِ ) ۱:۲،، سے کس طرح کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ اس جملے میں وہ معانی نہیں پائے جاتے جو مقصود الہٰی ہیں۔ اس لیے کہ لفظ ''اللہ،، علم ہے اور نام ہے اس ذات اقدس کا جو تمام صفات کمال کی جامع ہے۔

۱۲۹

ان صفات کمال میں سے ایک صفت، رحمت ہے جس کی طرف ''بسم اللہ، میں اشارہ کیا گیا ہے ''اللہ،، کی بجائے ''رحمٰن،، ذکر کرنے سے باقی صفات کمال پر دلالت نہیں ہوتی جو ذات الہٰی میں مجتمع ہیں اور وہ صفات ایسی ہیں جو بذات خود رحمت کی طرح حمد الہٰی کی موجب ہیں۔

اسی طرح اس کے جملے ''رب الاکوان،، میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:( رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) ۱:۳ کے معنی و مفہوم کا کوئی شمہ نہیں پایا جاتا۔ اس لیے کہ( رَبِّ الْعَالَمِينَ ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عالم طولی وعرضی(۱) ایک نہیں بلکہ متعدد ہیں اور اللہ تعالیٰ ان تمام عالموں کا مالک اور پالنے والا ہے اور اس کی رحمت ان تمام عالموں کو شامل ہے۔ چنانچہ ''رحمن،، کے بعد ''رحیم،، کاذکر بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے جس کی وضاحت انشاء اللہ ''سورہ فاتحہ،، کی تفسیر میں کی جائے گی۔

یہ پر مغز معانی کجا اور عبارت ''رب الاکوان،، کجا؟ لفظ ''کون،، کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ''حدوث،، ''وقوع،، پذیر ''ہوجانا،، اور ''کفالت،،(۲) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ سارے معانی مصدری ہیں جن کی طرف لفظ ''رب،، بمعنی مالک و مربی کی اضافت صحیح نہیں ہے۔ البتہ لفظ ''خالق،، کی اضافت ''کون،، کی طرف ہوسکتی ہے، اور ''خالق الاکوان،، کہا جاسکتا ہے۔

____________________

(۱) فلسفیانہ نقطہئ نظر سے عالم کی دوقسمیں ہیں:

i ) عرضی۔

ii ) طولی۔

عالم عرضی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میںایک علت اور دوسرا معلول نہ ہو جسے انسان اور حیوانات۔ عالم طولی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میں ایک علت اور دوسرا معلول ہو جسے عالم ناسوت (مادہ) جس کی علت عالم ملکوت ہے اور عالم ملکوت جس کی علت عالم لاہوت ہے۔

(۲) ''لسان العرب،، کی طرف رجوع کیجئے۔

۱۳۰

اس کے علاوہ لفظ ''اکوان،، عالم موجودات کے تعدد پر دلالت نہیں کرتا جیسے لفظ ''عالمین،، دلالت کرتا ہے اور آیہ کریمہ کے دوسرے پہلو جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) ۱:۴،، اس سے جو مقصد حاصل ہوتا ہے وہ جملہ ''الملک الدیان،، سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ جملہ اس عالم کے علاوہ کسی اور عالم کے وجود پر دلالت نہیں کرتا جس میں اعمال کی سزا و جزا دی جائے گی اور یہ کہ اس دن کا مالک صرف خدا کی ذات ہے کسی اور کو اس میں تصرف اور اختیا رکا حق نہیں ہوگا۔ سب لوگ اس دن خدا کے حکم کے تحت ہونگے، خدا ہی کے حکم و امر کا نفاذ ہوگا اور اسی کے حکم سے بعض کو بہشت ملے گی اور بعض کو جہنم میں بھیجا جائے گا۔

جبکہ جملہ ''الملک الدیان،، صرف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا وہ بادشاہ ہے جو اعمال کی سزا و جزا دیتا ہے۔ کتنا فرق ہے اس جملے اور آیہ کریمہ کے معانی میں؟!

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) ۱:۵

اس کتابچے کے مصنف نے اس آیہ سے صرف اتنا سمجھا ہے کہ عبادت، خدا کی ہونی چاہیے اور مدد صرف خدا سے لینی چاہیے۔ چنانچہ اپنی اس سمجھ کے مطابق اس نے اللہ تعالیٰ کے مذکورہ فرمان کو اپنے اس قول سے بدل دیا۔''لک العبادة و بک المستعان،، یعنی ''عبادت تیرے لیے ہے اور مدد تمجھ سے ہے۔،، اور اس سے وہ مقصد فوت ہوگیا جو اس آیہ کریمہ کا تھا۔ اس آیہ کریمہ میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ مومن، توحید فی العبادۃ کااظہار کرے اس کے علاوہ عبادات اور دیگر افعال میں اپنی احتیاج کابھی اظہار کرے اور یہ اعتراف کرے کہ میں اور دوسرے تمام مومنین غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے اور نہ غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ بھلا یہ نکات اس مصنف کی عبارت میںکہاںمل سکتے ہیں جبکہ اس کی عبارت آیہ مبارکہ سے زیادہ مختصر بھی نہیں ہے؟!

۱۳۱

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) ۱:۶

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اس سے ایسے قریبی راستے کی ہدایت طلب کریں جو اپنے چلنے والے کو اعمال خیر، صفات نفسانی اور عقائد جیسے مقاصد تک پہنچائے اور اس راستے کو صرف ایمان کے راستے میں منحصر نہیں فرمایا۔ یہ مطلب مصنف کے جملہ ''اھدنا صراط الایمان،، میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے علاوہ اس جملے میں صرف ایمان کے راستے کی ہدایت کے لیے درخواست کی گئی ہے۔ اس میں اس نکتے کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ ایمان کا یہ راستہ مستقیم ہے اور وہ اپنے پر چلنے والے کو گمراہ نہیں کرتا۔

اس مصنف نے صرف انہی جملوں کو مثل و نظیر کے طور پر پیش کرکے یہ گمان کرلیا ہے کہ سورہ مبارکہ کے باقی حصے کی ضرورت نہیں ہے ارو یہ بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس آیہ کے مفوہم کو نہیں سمجھ سکا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) ۱:۷

اس میں حقیت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ راستہ ایک ایسا مستقیم اور سیدھا راستہ ہے کہ اس پر انبیاء(ع) صدیقین، شہداء اور صالحین چلتے ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعتمیں نازل فرمائیں ہیں، اور اس کے مقابلے میں کچھ ایسے راستے ہیں جو مستقیم نہیں ہیں۔ ان راستوں پر وہ لوگ چلتے ہیں جن پر غضب الہٰی نازل ہوتا ہے، جو حق کے دشمن ہوتے ہیں اور حق آشکار ہونے کے باوجود اس کا انکار کرتے ہںی اور اس راستے پر چلنے والے لوگ ایسے گمراہ ہیں جو اپنی جہالت، جستجو میں کوتاہی اور اپنے آباؤ اجداد کی وراثت میں ملنے والے عقیدہ پر اکتفاء کرنے کی وجہ سے راہ حق سے بھٹک گئے ہیں، جس کے نتیجے میں بغیر کسی ہدایت اور دلیل کے انہوں نے اندھی تقلید کا راستہ اپنالیا ہے۔

۱۳۲

جو بھی اس آیہ کریمہ کو تدبّر اور تفکّر کی نگاہ سے پڑِے وہ اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوگا کہ اخلاق و عقاید اور دوسرے اعمال میں اولیائے خدا اور اللہ کے مقربین کی اتباع کرنا چاہیے اور ان سرکشوں کی راہ سے اجتناب کرنا چاہیے جن کے اعمال یا جنکے کرتوتوں کے نتیجے میں خدا نے ان پر غضب نازل فرمایا ہو اور جو حق کے واضح ہونے کے باوجود اس کے راستے بھٹک گئے ہیں۔

اہل انصاف بتائیں کہ کیا یہ کوئی معمولی نکتہ ہے جسے اس مصنف نے نظر انداز کردیا اور اس آیہ کو غیر ضروری سمجھ کر اس کی نطیر یا متبادل عبارت کا ذکر نہیں کیا۔

یہ مصنف سورۃ ''کوثر،، کے مقابلے میں یہ عبارت پیش کرتا ہے:

''انا اعطیناک الجواهر فصل لربک و جاهر ولا تعتمد قول ساحر،،

ملاحظہ فرمائیں کہ نظم اور ترکیب میں یہ کس طرح قرآن کی نقل کررہا ہے اور اس کے بعض الفاظ بدل کر لوگوں کو یہ غلط تاثر دے رہا ہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کرنے میںکامیاب ہوگیا ہے، یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اپنی یہ عبارت کس طرح مسلیمہ کذاب کی عبارت سے چوری ی ہے۔ مسیلمہ کذاب کہتا ہے:

''انا اعطیناک الجماهر فصل لربک وهاجرو ان مبغضک رجل کافر،،

مقام حیرت ہے کہ یہ اس توہم کا شکار ہے کہ اگر دو کلام سجع میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو یہ بلاغت میں بھی یکساں ہوں گے اور اس نکتے سے غافل ہے کہ خدا کی طرف سے جواہر دیئے جانے لازمہ یہ نہیں ہے کہ نماز قائم کی جائے اور اس کا اعلان کیا جائے،نیز خداکی نعمتیں صرف جواہر ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سی نعمتیں ہیں جو کہ جواہر اور دوسرے مال و دولت سے بڑھ کر ہیں جیسے زندگی ہے، عقل اور ایمان کی نعمت ہے، جب خدا کی اتنی نعمتیں ہیں تو ان تمام کو چھوڑ کر صرف مال ہی کو کیوں نماز کا سبب قرار دیا ہے۔

۱۳۳

لیکن جو شخص تبشیری مشینری کے لیے کرائے پر کام کرتا ہو اس کاقبلہ تو مال و دولت ہی ہوگا اور مال ہی اس کا آخری ہدف ہوگا جس کے حصول کی وہ کوشش کرتا ہے اور مال ہی اس کی آخری منزل ہوتی ہے جسے وہ ہر مقصد پر برتر سمجھتا ہے، ضرب المثل ہے:

''وکل اناء بالذی فیه ینفح،،

از کوزہ ہمان تراودکہ دراواست

کوئی اس شخص سے پوچھے کہ جواہر سے کیا مراد ہے جسے اس نے الف، لام کے ساتھ ذکر ککیا ہے۔ اگر جواہر سے مراد کوئی خاص جواہر ہیں تو اس لفظ میں اس کی نشاندہی کے لیے کوئی قرینہ بھی ہونا چاہیے تھا جس سے جواہر کا تعین ہو جاتا، جو کہ موجود نہیں ہے۔

اگر جواہر سے مراد دنیا کے تمام جواہر ہیں (کیونکہ جواہر جمع ہے اور اس پر الف لام موجود ہے اور جب جمع پر الف، لام ہو تو یہ استغراق یعنی تمام افراد پردلالت کرتا ہے) تو یہ سفید جھوٹ ہے۔

اس کے علاوہ اس کے سابقہ دو جموں اور جملہ ''ولا تعتمد قول ساحر،، میں کیا مناسبت ہے؟ اور ساحر سے مراد کون ہے؟ جس پر اعتماد کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اگر اس سے مراد کوئی خاص ساحر یا جادوگر ہے اور اس ساحر کے اقوال میں سے کوئی خاص قول مراد ہے تو اس کے لیے کسی قرینہ یا علامت کا ذکر ہونا چاہتے تھاکہ اس ساحر سے مراد فلاں ساحر اور اس کا فلاں قول ہے۔ جبکہ اس جملے میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی خاص ساحر اور کسی خاص قول پر دلالت کرے۔

۱۳۴

اگر ساحر سے مراد ہر ساحر ہر قول ہے(کیونکہ نہی کے بعد نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے عموم سمجھا جاتا ہے) تو اس سے کلام کا لغو ہونا لازم آتا ہے۔ کیونکہ اس کا کوئی معقول سبب نہیں ہے کہ انسان کسی بھی ساحر کے قول پر اعتماد نہ کرے خواہ اس کی بات روزمرہ کے کسی معمول کے امر سے متعلق ہو اور انسان کو اس کے قول پر اعتماد و اطمینان بھی ہو۔

اور اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے، اس کی بات پر اعتماد نہ کرو، تو بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے تو وہ کوئی بات نہیں کرتا، وہ تو اپنے جادو اور حیلوں کے ذریعے لوگوں کو اذیت دیتا ہے۔

سورہ کوثر اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا تمسخر اڑاتا تھا اور آپ(ص) سے کہتا تھا کہ آپ(ص) ''ابتر،، (لاولد) ہیں اور جلد ہی آپ(ص) کانام اور دین مٹ جائے گا۔ اس مطلب کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ ) ۵۲:۳۰

''کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ (یہ) شاعر ہے (اور) ہم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کررہے ہیں۔،،

ان کے اس خیال کے رد میں یہ سورۃ نازل ہوا:

( إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ) ۱۰۸:۱

''(اے رسول) ہم نے تم کو کوثر عطا کیا۔،،

کوثر سے مراد وہ خیر کثیر ہے جو ہر اعتبار سے خیر ہے۔

۱۳۵

دنیا میں خیر کثیر سے مراد رسالت و نبوّت کا شرف، لوگوں کی ہدایت، مسلمانوں کی امامت، انصار و اعوان کی کثرت، دشمنوں پر غلبہ اور جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی ذریت سے آپ(ص) کی نسل اور اولاد کی کثرت ہے، جن کی بدولت رہتی دنیا تک آپ(ص) کا نام قائم رہے گا۔

آخرت کا خیر کثیر آپ(ص) کی شفاعت، جنت کے بلند درجات، حوض کوثر جس سے صرف آپ(ص) اور آپ(ص) کے دوست سیراب ہوں گے اور ان کے علاوہ دیگر بہت سی نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہیں۔

( فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ )

''پس تم اپنے پروردگار کی نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔،،

ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں اور قربانی دیں۔ نحر سے مراد منیٰ کی قربانی یا عید الاضحیٰ پر دی جانے والی قربای یا نماز میں تکبیرۃ الاحرام کہنے کے دوران ہاتھوں کا گردن تک بلند کرنا یا نماز کے دوران قبلہ رخ ہونا اور متوازن کھڑے ہونا ہے۔ ان میں سے جو معنی مراد لیا جائے مناسب ہے کیونکہ یہ سب اعمال شکر کی صورتیں ہیں۔

( إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ )

''بیشک تمہارا دشمن بے اولاد رہے گا۔،،

آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ آپ لاولد نہیں ہیں بلکہ آپ کا دشمن ابتر و لا ولد ہو جائے گا۔

ان دشمنوں کا انجام آخر یہی ہوا جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ(ص) کو دی تھی۔ ان کا نام و نشان تک مٹ گیا اور دنیا میں ان کا کوئی ذکر خیر باقی نہیں ہے۔ ان کا اس طرح گمنام ہو جانا اس دردناک عذاب اور ابدی رسوائی کے علاوہ ہے جو انہیں نصیب ہوگی۔

۱۳۶

کیا یہ سورہ مبارکہ، جس کے معانی عظیم اور بلاغت کامل ہے، ان گئے گزرنے جملوں سے قابل مقایسہ ہے ،جن کو ترتیب سے لکھنے والے نے اپنی قوّت ضائع کی ہے؟ اس نے اپنے خیال میں نظیر پیش کرنے کے لیے قرآن مجید سے مفردات کی نقل کی ہے اور جملوں کے الفاظ اور اسلوب کو مسیلمہ کذاب سے لیا ہے۔ اس طرح اس نے اپنے عناد اور اسلام دشمنی بلکہ کھلم کھلا جہالت کے تقاضوں کو پورا کیا ہے تاکہ بلاغت اور اعجاز میں عظمت قرآن کا مقابلہ کرسکے!

رسُول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کےدیگر معجزات

تورات و انجیل میں نبوت محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بشارت

کسی دانشمند اور محقق کو اس میں شک نہ ہوگا کہ پیغبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے معجزات میں سے اعظم معجزہ قرآن کریم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کا مقام تمام انبیاء(ع) کے معجزات سے بلند ہے۔ ہم نے گذشتہ مباحث میں اعجاز قرآن کے چند پہلوؤں کاذکر کیا اور یہ بھی واضح کردیا کہ کتاب الہٰی کو باقی معجزات پر برتری حاصل ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ خاتم الانبیائؐ کا معجزہ صرف قرآن کریم ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ آپ(ص) باقی انبیاء(ع) کے تمام معجزات میں بھی شریک ہیں اور قرآنی معجزہ صرف آپ(ص) سے مختص ہے۔ ہمارے اس دعویٰ کی دو دلیلیں ہیں:

پہلی دلیل: مسلمانوں کی متواتر روایات ہیں جن کے مطابق یہ معجزات رسولل اعظمؐ سے صادر ہوئے اور مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں نے ان معجزات کے موضوع پر بہت کتابیں لکھی ہیں۔ خواہش مند حضرات ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

ان روایات و اخبار کی دو امتیازی خصوصیات ہیں جو باقی انبیاء کے معجزات کے بارے میں اہل کتاب کی روایات میں نہیں ہیں۔

پہلی خصوصیت: ان روایات کا زمانہ ظہور معجزات کے زمانے سے نزدیک ہونا ہے۔ جب کسی چیز واقعہ کا زمانہ نزدیک ہو تو اس کا یقین آسانی سے حاصل ہوسکتا ہے جبکہ واقعہ کا زمانہ اگر دور ہو تو اس کا یقین حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔

۱۳۷

دوسری خصوصیت: راویوں کی کثرت ہے۔ ا س لیے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اصحاب جنہو ں نے اپنی آنکھوں سے ان معجزات کا مشاہدہ کیا ہے ان کی تعداد بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰ پر ایمان لائے تھے اور آپ سے جتنے معجزات منقول ہیں ان کا سلسلہئ سند ان قلیل اور محدود مومنین تک پہنچتا ہے۔ اس کے باوجود اگر حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کے معجزات کے بارے میں تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے تو خاتم الانبیائؐ کے معجزات کے بارے میں بطریق اولیٰ تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔

ہم گذشتہ مباحث میں واضح کرچکے ہیں کہ گذشتہ انبیاء(ع) کے معجزات بعد کے زمانے والوں کے لیے تواتر سے ثابت نہیں ہیں اور اس سلسلے میں تواتر کا دعویٰ کرنا باطل ہوگا۔

دوسری دلیل: آپ(ص) نے گذشتہ انبیاء(ع) کے بہت سے معجزات کی تصدیق و تائید فرمائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی فرمایا کہ آپ(ص) ان تمام انبیاء(ع) سے افضل بلکہ خاتم الانبیاء ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام معجزات بدرجہئ اتم آپ(ص) سے بھی صادر ہوں۔ کیونکہ یہ نامعقول ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدممی سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی اقرار کرے کہ میں بعض صفات کے لحاظ سے دوسرے سے ناقص ہوں، نیز کیا یہ معقول ہے کہ ایک ڈاکٹر، دوسرے تمام ڈاکٹروں سے زیادہ ماہر ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اعتراف بھی کرے کہ بعض بیماریاں ایسی ہی ںجن کا علاج دوسرے ڈاکٹر تو کرسکتے ہیں لیکن میں نہیں کرسکتی؟! ظاہر ہے عقل کبھی بھی ایسے دعویٰ کی تصدیق نہیں کرے گی۔ اسی لیے بعض جھوٹے مدعیان نبوت نے اعجاز کا انکار کردیا اور وہ گذشتہ انبیاء کے معجزات میں سے کسی معجزے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کی تمام تر کوشش ہوتی ہے کہ ہر اس آیہ کی تاویل و توجیہ کریں جو اعجاز پر دلالت کرے۔ یہ سب انکار اس لیے کیا جاتا ہے کہ کہیں لوگ ان سے بھی اس قسم کے معجزات کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں جس سے ان کی عاجزی ظاہر ہو جائے اور یہ رسوا ہو جائیں۔

۱۳۸

بعض نادان اور عوام فریبیوں نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں چند ایسی آیات ہیں جن سے سوائے قرآن کریم کے باقی تمام معجزات رسول اعظمؐ کی نفی ہوتی ہے اور آپ(ص) کا واحد معجزہ قرآن کریم ہی ہے اور صرف یہی آپ کی نبوت کی دلیل و حجت ہے ہم ذیل میں وہ آیات ذکر کرتے ہیں جن سے ان لوگوں نے استدلال کنر کی کوشش کی ہے اور اس کے بعد ہم ان کے بطلان کو ثابت کریں گے۔

ان آیات میں سے ایک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ) ۱۷:۵۹

''اور ہمیں معجزات کے بھیجنے سے بجز اس کے اور کوئی وجہ مانع نہیں ہوئی کہ اگلوں نے انہیں جھٹلایا ارو ہم نے قوم ثمود کو (معجزے سے) اونٹی عطا کی جو (ہماری قدرت کی) دکھانے والی تھی ان لوگوں نے اس پر ظلم لیا (یہاں تک کہ مار ڈالا) اور ہم تو معجزے صرف ڈرانے کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں۔،،

اس آیہ کریمہ سے ان کے زعم باطل کے مطابق ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قرآن کے علاوہ اور کوئی معجزہ لے کر نہیں آئے اور اس کی وج یہ ہے کہ گذشتہ اقوام نے ان نشانیوں کی تکذیب کی جو ان کی طرف بھیجی گئی تھیں۔

جواب: اس آیہ کریمہ میں جن معجزات کی نفی کی گئی ہے اور جنہیں گذشتہ اقوام نے جھٹلالیا تھا ان سے مراد وہ معجزات ہیں جن کی گذشتہ اقوام نے اپنے انبیاء سے فرمائش کی تھی۔

۱۳۹

یہ آیہ کریم آپ(ص) سےہر قسم کے معجزات صادر ہونے کی نفی نہیں کرتی بلکہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آپ(ص) نے مشرکین کے مطلوبہ معجزات پیش نہیں کئے۔ اس کے چند دلائل ہیں:

۱۔ ''آیات،،، آیت کی جمع ہے۔ جس کے معنی ''نشانی،، کے ہیں اور جمع کے لفظ پ رالف۔ لام موجود ہے۔ ان خصوصیات کے پیش نظر آیہ کے معنی میں تین احتمال دیئے جاسکتے ہیں۔

i ) آیت سے مراد جنس آیت ہو جو آیت کی ہر فرد پر صادق آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کی یہ آیت ان تمام آیات کی نفی کررہی ہے جو مدعیئ نبوت کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس سے رسول اعظمؐ کی بعثت کا لغو ہونا لازم آتا ہے اسلئے کہ جب تک آپ(ص) کے دعویٰ کی صداقت کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو آپ(ص) کو نبوّت پر فائز کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بغیر کسی معجزہ کے آپ کی نبوّت کی تصدیق اور آپ کی اتباع لازمی قرار دینا لوگوں پر ایسی ذمہ داری ڈالنا جو ان کے دائرہئ قدرت سے باہر ہے۔

ii ) اس آیہ سے مراد سب نشانیاں ہوں۔ یہ احتمال بھی باطل ہے اس لیے کہ نبی کی صداقت اس پر موقوف نہیں ہوسکتی کہ جتنی بھی آیات و نشانیاں ہوسکتی ہیں، سب پیش کی جائیں اور نہ ہی مطالبہ کرنے والوں نے سب کی سب آیات و نشانیاں پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس بناء پر آیہ کے یہ معنی بھی صحیح نہیں ہونگے۔

iii ) ''الآیات،، سے مراد کچھ مخصوص نشانیاں ہوں جن کا مشرکین مطالبہ کیا کرتے تھے اور آپ(ص) نے ان کا مطالبہ پورا نہیں فرمایا اور یہی احتمال درست ہے۔

۲۔ اگر لوگوں کی تکذیب معجزات بھیجنے میں مانع بن سکتی ہے تو اسے قرآن نازل کرنے میں بھی مانع بننا چاہےے تھا۔ کیونکہ کوئی وجہ نہی ںکہ ان کی تکذیب بعض معجزات کے لیے مانع ہو اور بعض کے لیے نہ ہو۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

بیہقی نے اپنی کتاب ''شعب الایمان،، میں عزوان ان ابی حاتم سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ جناب ابوذرؓ حضرت عثمان کے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے اور انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ اتفاق سے قریشی خاندان کے ایک شخص کی نظر ان پر پڑی۔ اس نے جناب ابوذرؓ سے کہا: ابوذر! یہاں کیوں کھڑے ہو؟ جناب ابوذر نے کہا: یہ لوگ مجھے ابوذر کاکیا قصور ہے کہ وہ دروازے پر کھڑا ہے اور اسے اندر آنے کی اجازت نہیں مل رہی۔ اس شخص کی سفارش پر جناب ابوذر کو اجازت مل گئی۔ آپ گھر میں داخل ہوئے اور سب سے آخر میں جا کر بیٹھ گئے۔ اس دوران حضرت عثمان نے کعب سے پوچھا: اگر ایک شخص اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کردے تو پھر بھی اسے (کوئی دوسرا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے) کسی گناہ کا خدشہ رہے گا؟ کعب نے جواب میں کہا: نہیں۔ جناب ابوذر کے ہاتھ میںایک عصا تھا، وہ اٹھے اور کعب کے دونوں کانوں کے درمیان عصا مار کر کہا: یہودی کے بیٹے! تمہارا یہ خیال ہے کہ اگر انسان زکوٰۃ ادا کردے تو اس کے ذمے اور کوئی حق نہیں رہتا؟! جبکہ خالق فرمایا ہے:

( وَجَاءَ فِرْعَوْنُ وَمَن قَبْلَهُ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ) ۵۹:۹

''اور اگرچہ اپنےاوپر تنگی ہی (کیوں نہ) ہو دوسروں کو اپنے نفس پر ترجیح دیتے ہیں۔،،

نیز خالق فرماتا ہے:

( وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ) ۷۶:۸

''اور اس کی محبت میں محتاج اور یتیمار اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔،،

۴۸۱

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۷۰:۲۴۔۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

جناب ابوذرنے اس مضمون کی اور آیات بھی انہیں سنا دیں۔(۱)

ابن حریر نے اپنی اسناد سے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''حق معلوم صدقہ(زکوٰۃ) کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس سے صلہ رحمی اور مہمان نوازی کی جاتی ہے محتاج کی نیاز مندی دور کی جاتی ہے اور محروموں اور ناداروں کی مدد کی جاتی ہے۔،،(۲)

بعض دوسرے مفسرین نے بھی ابن عباس کے اس قول کو اختیار کیا ہے۔ ان بیانات سے یہ ثابت ہوا کہ آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی بلکہ محکم ہے۔

۳۵۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) ۵۸:۱۲

''اے ایماندارو! جب پیغمبر سے کوئی بات کان میں کہنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کوئی خیرات دے دیا کرو یہی تمہارے واسطے بہتر اور پاکیزہ بات ہے۔ پس اگر تم کو اس کا مقدور نہ ہو تو بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہرمان ہے۔،،

____________________

(۱) کنز العمال، ج ۳، ص ۳۱۰

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۲۹، ص ۵۰

۴۸۲

اکثر علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ مذکورہ آیت اس آیہ کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے:

( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ) ۵۸:۱۳

''(مسلمانو)کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ (رسول کے ) کان میں بات کہنے سے پہلے خیرات کرلو جب تم لوگ (اتنا سا کام) نہ کرسکے اور خدا نے تمہیں معاف کردیا تو پابندی سے نماز پڑھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے باخبر ہے۔،،

شیعہ امامیہ اور اہل سنت کی کثیر روایات سے یہ ثابت ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد سوائے حضرت علی (علیہ السلام) کے کسی اور نے اس پر عمل نہیں کیا۔ آپ کے پاس ایک دینار تھا جسے آپ نے دس درہم میں بیچ دیا۔ آپ جب بھی رسول اللہ سے گفتگو اور راز و فرماتے اس سے پہلے ایک درہم صدقہ دے دیتے۔ اس طرح آپ نے دس مرتبہ ا س آیہ کریمہ پر عمل کیا اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے خلوت میں راز و نیاز کا شرف حاصل کیا۔

۴۸۳

آیہ نجویٰ پر عمل کی احادیث

۱۔ ابن بابویہ نے اپنی اسناد کے ذریعے مکحول سے روایت کی ہے:

''امیر المومنین(ع) نے فرمایا: اصحاب پیغمبر(ص) جو حافظ حدیث ہیں، بخوبی جانتے ہیںکہ ان میں سے جس شخص میں بھی کوئی فضیلت و منقبت موجود ہے، میں اس میں شریک ہوں کوئی دوسرا میرے ساتھ شریک نہیں ہے۔ میں (مکحول) نے عرض کی: یا امیر المومنین(ع) وہ کون سی فضیلیتیں ہیں جو آپ کی ذات سے مختص ہےں۔ آپ نے ان فضائل کو گننا شروع کیا حتیٰ کہ فرمایا: چوبیسویں فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر یہ آیت نازل فرمائی: اذا ناجیتم ۔۔۔ الخ میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہم میں بیچ دیا اور میں جب بھی رسول اللہ سے گفتگو کرتا پہلے ایک درہم صدقہ دیا کرتا تھا۔ خدا کی قسم! مجھ سے پہلے اور میرے بعد اصحاب پیغمبر(ص) میں سے کسی نے بھی اس آیت پر عمل نہیں کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی:( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا ) ۔۔۔ الخ(۱) ،،

۲۔ ابن جریر نے مجاہد سے روایت کی ہے:

''امیر المومنین(ع) نے فرمایا: کتاب الہیٰ میں ایک ایسی آیت ہے جس پر مجِھ سے پہلے کسی نے عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد اس میں کوئی عمل کرے گا۔ میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہم میں فروخت کیا۔ میں جب بھی رسول اللہ سے خلوت میں گفتگو کرتا تو ایک درہم صدقہ دیا کرتا۔ یہاں تک کہ یہ آیت نسخ ہوگئی اور مجھِ سے پہلے کسی نے بھی اس آیت پر عمل نہیں کیا اور وہ آیت یہ ہے:( نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا ) ۔۔،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر البرہان، ج ۲، ص ۱۰۹۹

(۲) تفسیر طبری، ج ۲۸، ص ۱۵

۴۸۴

۳۔ شوکانی کہتے ہیں عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن منذ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے امیر المومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اس آیت پر میرے علاوہ کسی نے بھی عمل نہیں کیا حتیٰ کہ یہ آیت نسخ ہوگئی۔ اس کی مدّت صرف ایک گھنٹہ تھی۔،،

۴۔ سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم اور ابن مردویہ نے امیر المومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''قرآن کریم میں ایک آیت ایسی ہے جس پر مجِ سے پہلے کسی نے عمل نہیں کیا اور نہ کوئی میرے بعد اس پر عمل کرے گا اور وہ آیہ نجویٰ:( نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا ) ۔۔۔۔ الخ ہے، میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہم صدقہ دیتا تھا۔ اس کے بعد آیہ کریمہ نسخ ہوگئی اور اس پر کسی نے عمل نہیں کیا تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا ) ۔۔ الخ۔،،(۱)

مسئلے کی تحقیق

آیہ شریفہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ کے ساتھ گفتگو کرنے سے پہلے صدقہ دینے میں انسانوں کی بھلائی اور نفوس کی تطہیر و صفائی ہے اور یہ ایک ایسا حک ہے جو انسانوں کی مصلحت پر مشتمل ہے۔ یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو صدقہ دے سکتا ہو لیکن جو شخص سے پہلے صدق نہ دے سکے تفسیر البرہان، تفسیر طبری و دیگر کتب احادیث، چنانچہ مرحوم مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار کی جلد ۹، ص ۱۷۰ میں اس مضمون کی متعدد روایات کو نقل کیا ہے۔

خدا اسے بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

____________________

(۱) فتح فتح القدیر، ج ۵، ص ۱۸۶۔ ا س مضمون کی روایات کثرت سے موجود ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:

۴۸۵

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص کی عقل اس فعل کو حسن سمجھتی ہے اور وجدان اس کی صحت کی گواہی دیتا ہے۔ کیونکہ اس حکم میں فقراء کا فائدہ ہے اس لیے کہ صدقات کے مستحق یہی لوگ ہیں۔ اس کے علاوہ اس سے رسول اللہ کا بوجھ ہلکا ہوجاتاہے کیونکہ اس کے نتیجے میں عام لوگوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ بہت کم ہوجاتا اور یہ کہ اس حکم کے بعد رسول اللہ سے گفتگو اور راز و نیاز کی خواہش وہی شخص کرے گا۔ جسکے دل میں مال دنیا سے زیادہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے راز و نیاز کی محبت ہو۔

ظاہر ہے یہ عمل ایسا نہیں جو کسی زمانے میں حسن رکھتا ہو اور کسی زمانے میں حسن نہ رکھتا ہو بلکہ یہ ہمہ وقت اس مصلحت پر مشتمل ہے اور عقل اسے حسن کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

دوسری آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ (امیر المومنین(ع) کے علاوہ) عام لوگوں نے مال کے لالچ میں آکر اور صدقے سے گھبرا کر رسول اللہ سے گفتگو اور راز و نیاز کو ترک کردیا تھا۔

اس صدقے کے نسخ ہونے کے اسباب

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ سے راز و نیاز اورخلوت کی ملاقات کو ترک کرنے سے بہت سے عمومی مفادات اور مصلحتیں فوت ہوجاتی ہیں۔ ان مفادات کے تحفظ کی خاطر اور عمومی مصلحت کو خصوصی مصلحت پر ترجیح دیتے ہوئے اللہ نے وجوب صدق کو اٹھا دیا اور لوگں کو نمام قائم کرنے زکوٰۃ دینے اور خداوند رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اطاعت کرنے کا حکم دیا۔

لا محالہ ماننا پڑے گا کہ پہلی آیت :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ ) ۔۔۔ الخ سے ثابت شدہ حکم (وجوب صدقہ) دوسری آیت: ع اشفقتم ۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہوگیا ہے۔ لیکن یہ نسخ قرآن کی اقسام میں سے پہلی قسم ہے جس میں ناسخ آیت کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ منسوخ آیت میں موجود حکم کی مدّت ختم ہو گئی ہے۔ تاہم حکم اوّل کے نسخ ہونے کا سبب یہ نہیں کہ اس میں موجود مصلحت، جو حکم کی متقاضی ہے، کسی خاص زمانے سے مختص ہے کیونکہ جیسا کہ اس سے پہلے بتایا گیا ہے یہ مصلحت رسول اللہ کی پوری زندگی میںموجود تھی لیکن لوگوں کی مال سے محبت اور صدقہ سے گھبرانے کے باعث یہ حکم باقی نہیں رہ سکا۔ اس طرح حکم اوّل نسخ ہوگیا اور وجوب برطرف ہوگیا۔

۴۸۶

کبھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب خداوند عالم جانتا تھا کہ لوگوں کی مال سے محبت کی وجہ سے یہ حکم ہمیشہ نہیں رہ سکے گا تو پھر اس حکم کی تشریع کیوں فرمائی؟ (صدقے کا حکم کیوں دیا گیا؟)ِ

جواب: اس حکم اور اس کے نسخ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو متنبہ کرنا چاہا اور ان پر حجت تمام کردی۔ اس کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ امیر المومنین(ع) کے علاوہ باقی صحانہ نے مال دنیا کو رسول اللہ سے راز و نیاز کرنے پر ترجیح دی۔ اگرچہ رسول اللہ سے گفتگو ترک کرنا بذات خود کوئی معصیت نہیں تھی۔ کیونکہ یہ مناجات (خلوت کی گفتگو) واجب نہیں تھی کہ اس کا ترک کرنا گناہ ہوتا اور صدقہ دینا اس صورت میں واجب تھا جب کوئی مناجات کرنا چاہے۔ اگر کوئی مناجات نہ کرنا چاہے تو صدقہ دینا بھی اس پر واجب نہیں تھا۔ اور ترک مناجات بھی گناہ نہیں تھا لیکن اس سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص اس شرط مناجات کو ترک کرے وہ مال دنیا کو مناجات کرنے سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

حکم صدقہ کی حکمت

اس حکم کے صادر ہونے کے بعد اس کے نسخ ہو جانے سے اس کی حکمت ظاہر ہوتی ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان و کرم ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے یہ با ت بھی ثابت ہوگئی کہ لوگ رسول اللہ سے مناجات کو اہمیت نہیں دیتے تھے اس کے ساتھ ساتھ اس سے امیر المومنین(ع) کامقام اور عظمت بھی ثابت ہوگئی۔ چنانچہ آیہ کریمہ کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے اور اکثر روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں۔

لیکن اگر مناجات سے پہلے صدقے کا حکم ایک ظاہری حکم ہوتا جو صرف امتحان کے لیے صادر ہوا ہو۔ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے فرزند حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا تو اس صورت میں دوسری آیت کے ذریعے پہلی آیت کا نسخ اصطلاحی نہ ہوگا بلکہ اس امتحانی حکم کے برطرف ہونے پر نسخ لغوی صادق آئے گا۔

۴۸۷

رازی نے ابومسلم سے یہ بات نقل کی ہے:

''صدقے کا حکم یقیناً امتحانی تھا اور اس مقصد کے لیے صادر ہوا تھا کہ صدق دل سے ایمان لانے والوں اور منافقین میں تمیز ہوسکے۔ اس صورت میں نسخ نہیں ہوگا۔،،

اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد رازی لکھتے ہیں:

''یہ ایک اچھی رائے ہے۔ اسے قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔،،(۱)

شیخ شرف الدین لکھتے ہیں:

''محمد بن عباس نے اپنی تفسیر میں شیعہ اور سنی طریقوں سے ایسی ستّر احادیث نقل کی ہیں جن کا مضمون یہی ہے کہ تمام صحابہ میں صرف امیر المومنین(ع) کی ذات ایسی تھی جنہوں نے آیہ نجویٰ پر عمل کیا اور صدقہ دے کر رسول اللہ سے خلوت میں گفتگو فرمائی۔،،

اس کے بعد انہوں نے شیخ ابو جعفر طوسیؒ سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ترمذی نے اپنی سنن میں اور ثعلبی نے اپنی تفسیر علقمہ انماوی سے روایت مرفوعہ(۲) نقل کی ہے۔ اس میں امیر المومنین(ع) فرماتے ہیں:

____________________

(۱) تفسیر الرازی ، ج ۸، ص ۱۶۷

(۲) اصطلاح میں مرفوعہ اس روایت کو کہتے ہیں جس میں ایک یا چند آدمیوں کے نام ذکر نہ ہوں۔

۴۸۸

''بی خفف الله عن هذه الأمة لأن الله امتحن الصحابة، فتقاعسوا عن مناجاة الرسول، و کان قد احتجب فی منزله من مناجاة کل أحد الا من تصدق بصدقة، و کان معی دینار، فتصدقت به، فکنت أنا سبب التوبة من الله علی المسلمین حین عملت بالآیة، و لو لم یعمل بها أحد لنزل العذاب، الامتناع الکل من العمل بها،، (۱)

''اللہ نے میری بدولت اس امّت کا بوجھ ہلکا کیا کیونکہ اللہ نے تمام صحابہ کا امتحان لیا اور سب نے صدقہ دے کر رسول اللہ سے خلوت میں گفتگو کرنے میں پس و پیش کیا۔ رسول اللہ خانہ نشین ہوگئے تھے اور صرف ایسے شخص سے خلوت میں ملتے تھے جو پہلے صدقہ دیتا تھا۔ میرے پاس ایک دینا تھا اسے میں نے اسی راہ میں صدقہ میں دےدیا۔ میں ہی آیہ کریمہ پر عمل کرکے مسلمین کی توبہ کے قبول ہونے کا باعث بنا۔ اگر مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس آیت پر عمل نہ کرتا تو لوگوں پر عذاب نازل ہوتا۔،،

جامع ترمذی کے مطبوع اور خطّی نسخوں میں سے کسی میں بھی اس روایت کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ تفسیر ثعلبی میں بھی اس روایت کا کوئی ذکر نہیں ۔ جس سے اکثر مؤلفات میں اس روایت کو نق کیا جاتا ہے۔ غرض کسی بھی حدیث اور روایات کی کتاب میں یہ روایت نظر سے نہیں گزری۔ بہرحال یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ یہ حکم بہت کم عرصے تک باقی رہا اور پھر برطرف ہوگیا اور امیر المومنین(ع) کے علاوہ کسی نے بھی اس پر عمل نہیں کیا اس سے امیر المومنین کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، چاہے یہ ایک حقیقی حکم ہو یا ایک امتحان ہو۔

____________________

(۱) بحار، ج ۹، ص ۷۲، تفسیر برہان، ج ۲، ص ۱۱۰۰

۴۸۹

کھلم کھلا تعصّب

فخر الدین رازی نے صحابہ کی طرف سے فرصت اور وقت ہونے کے باوجود اس آیت پر عمل نہ کرنے کا یہ عذت پیش کیا ہے:

''صدقہ دے کر رسول اللہ سے خلوت میں ملاقات کرنا فقراء کی مایوسی اور دلشکنی اور دولتمندوں کی نفرت و اشتعال کا باعث بنتا تھا۔ اس لیے کہ جب دولتمند اس آیت پر عمل نہ کریں اور صرف چند نادار لوگ اس پر عمل کریں تو اس سے وہ لوگ لعن طعن کا نشانہ بنتے جنہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ پس چونکہ یہ فعل فقراء کے حزن و ملال اور امیروں کی نفرت کا باعث بنتا تھا۔ اس لیے اس ترک کرنے میں اتنا زیادہ نقصان نہیں تھا اس لیے کہ جو کام باہمی محبت اور ہمدردی کا باعث بنے وہ اس کام سے بہتر ہے جس سے باہمی نفرت اور دشمنی پیدا ہو۔ اس کے علاوہ یہ مناجات واجب نہیں تھی اور نہ مستحب، بلکہ لوگوں کو اس کا حکم

اس مقصد کے لیے دیا گیا تھا کہ لوگ رسول اللہ سے ملاقات اور مناجات کو ترک کردیں اور جب اس مناجات کا ترک کرنا ہی بہتر قرار پایا تو اس کو ترک کرنے والا کسی ملامت اور مذمّت کا مستحق نہیں ہوگا۔،،(۱)

مؤلف: یہ وہ معذرت تھی جو فخر الدین رازی نے بعض صحابہ کی طرف سے پیش کی ہے۔ صاحبان فکر حضرات سے مخفی نہ رہے کہ رازی کا یہ عذر قارئین کو شک و تردد میں ڈالنے کی ناکام کوشش کے علاوہ کوئی علمی مقام بھی نہیں رکھتا۔ اگر کسی شخص میں کلام فہمی کا معمولی سا بھی سلیقہ ہو تو اس سے اس قسم کا کلام ہر گز صادر نہیں ہوسکتا۔

فرض کریں اس مسئلے میں تارکین صدقہ کے بارے میں کسی قسم کی روایت موجود نہیں لین کیا آیت:( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا ) ۔۔ الخ سے لالچ اور حب مال کی وجہ سے ترک مناجات پر سرزنش نہیں سمجھی جاتی؟ کیا اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اس کوتاہی کو بخش دیا ہے؟ مگر اس تعصّب کا کیا علاج ہے جو ایک خطرناک اورمہلک بیماری ہے۔

____________________

(۱) تفسیررازی، ج ۸، ص ۱۶۷

۴۹۰

مقام تعجب ہے کہ فحر الدین رازی اس بیان سے کچھ پہلے اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ اس حکم کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے دنیا پرست اور محب آخرت میں تمیز ہو جاتی ہے کیونکہمال دنیا ہی عوامل و محرکات کا معیار اور کسوٹی قرار پاتا ہے۔

فخر الدین رازی کا یہ کہنا کہ اس عمل سے فقراء رنجیدہ اور دولت مند مشتعل ہو جاتے لہذا اس فعل کو ترک کرنا بہتر ہے کیونکہ اس طرح باہمی محبت بڑھتی ہے۔ اگر اس کا یہ قول صحیح ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام میں جتنے بھی مالی واجبات اورحقوق ہیں انہیں انجام دینے کی نسبت ترک کرنا بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے افعال کا حکم دیتا ہے جن کا ترک کرنا عقلی طور پر بہتر ہو اور رازی سے یہ بعید نہیں کہ وہ امیر المومنین(ع) کی فضیلت کا انکار کرنے کے لیے اس بات کا قائل بھی ہو جائے (کہ احکام الہٰی خلاف عقل ہیں) بلکہ عینم ممکن ہے کہ وہ اس سے بھی زیاد خرافات کا قائل ہو۔

اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نظام الدین نیشا پوری کا کلام نقل کروں جس میں فخر الدین رازی کے کلام اور اس کے تعصب کو ہدف تنقید قرار دیا گیا ہے۔ نظام الدین نیشاپوری کی عین عبارت یہ ہے: قاضی کہتا ہے:

''رسول اللہ سے مناجات سے پہلے صدقہ دینا کوئی ایسا عمل نہیں جس سے بزرگ صحابہ کرام پر علی (علیہ السلام) کی کوئی فضیلت ثابت ہو۔ کیونکہ ہوسکتا ہےکہ صحابہ کے پاس اتنا وقت نہ ہو کہ وہ ا س فرض کو انجام دے سکتے۔ فخر الدین رازی نے کہا ہے: فخر الدین رازی نے کہا ہے: ہم تسلیم کرتےہیں کہ صحابہ کے پاس اس فرض کو انجام دینے کا وقت بھی تھا لیکن یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے فقراء جن کے پاس صدقہ دینے کے لیے

کچہ نہ ہو، رنجیدہ اور دولت مند متنفر ہوسکتے تھے اور دوسری طرف اسے ترک کرنے میں کوئی نقصان بھی نہیں تھا۔ کیونکہ جس عمل سے محبت اور ہمدردی بڑھتی ہو وہ اس عمل سے بہتر ہے جو نفرت و دشمنی کا باعث بنے اس کے علاہو مناجات سے قبل صدقہ دینا واجب تھا لیکن مناجاتا خود نہ واجب تھی اور نہ مستحب۔ بلکہ بہتر یہی تھا کہ مناجات کو ترک کیا جائے۔ کیونکہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے یہ عمل رسول اللہ کے لیے ملال خاطر کا باعث بنتا تھا۔،،

۴۹۱

نیشا پوری فخر الدین رازی کے کلام کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''رازی کا یہ کلام تعصّب سے خالی نہیں۔ آخر ہم اس امر کو کیوں اپنا فرض سمجھیں کہ ہر صفت میں حضرت علی (علیہ السلام) پر باقی صحابہ کی فضیلت کو ثابت کیا جائے؟ اور کیا یہ ممکن نہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) ایسی فضیلت کے حامل ہوں جس سے دوسرے محروم ہوں؟ ممکن کیوں نہ ہو جبکہ عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں:

حضرت علی (علیہ السلام) میں تین فضیلیتیں ایسی تھیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی مجھ ہوتی تو یہ سرخ اونٹوں (ہرمال و دولت) سے بہتر ہوتی: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسی ہمسر نصیب ہونا، جنگ خیبر کے موقع پر آپ کو علم اسلام ملنا اور آیہ نجویٰ۔ وہ کون سا مصنف ہے جو رسول اللہ سے مناجات کو عیب اور خامی سمجِھے جبکہ آیہ کریمہ میں مناجات سے روکا بھی نہیں گیا۔ صرف مناجات سے قبل صدقہ دینے کا حکم دیا گیا ہے جو آدمی مناجات سے پہلے صدقہ دے وہ دو اعتبار سے فضیلت کا حامل بن جاتا ہے۔ ایک تو اس سے فقراء کی حاجات پوری ہوجاتی ہیں اور دوسرا یہ کہ اس طرح مناجات رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے محبت کا مظاہرہ ہوتا ہے اس سے رسول اللہ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے۔ مشکل مسائل کا حل ملتا ہے اور یہ بھی ظاہرہوتا ہے کہ صدقہ دینے والے کے دل میں مال دنیا سے زیادہ محبت مناجات رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ہے۔،،(۱)

۳۶۔( مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ) ۵۹:۷

''تو جومال خدا نے اپنے رسول کو دیہات والوں سے بے لڑے دلوایا ہے وہ خاص خدا اور رسول اور (رسول کے) قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پردیسیوں کا ہے۔،،

____________________

(۱) تفسیر نیشاپوری حاشیہ تفسیر طبری، ج ۲۸، ص ۲۴

۴۹۲

قتادہ سے منقول ہے کہ یہ آیت نسخ ہوگئی ہے بایں معنیٰ کہ ''فئی،، اور ''غنیمت،، دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔ صدر اسلام میں غنیمت، آیہ شریفہ میں مذکورہ افراد میں تقسیم ہوا کرتی تھی اور جنگ میں شریک مجاہدین کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ مگر یہ کہ کوئی مجاہد انہیں میں ےس ہو۔ اس کے بعد یہ حکم سورہ انفال کے ذ ریعے نسخ ہوگیا اور آیہ میں مذکور لوگوں کے لیے غنیف کا صرف پانچواں حصہ رہ گیا اور باقی چار حصوں کے مستحق مجاہدین قرار پائے، چنانچہ سورہ انفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(۱)

( وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ ) ۸:۴۱

''اور جان لو کہ جو کچھ تم (مال لڑکر) لوٹو اس میں کا پانچواں حصّہ مخصوص خدا کے لئے ہے۔،،

لیکن محققین نے قتادہ کے اس قول کو ردّ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مسلمان کفار سے جنگ کے نتیجےمیں جو مال بطور غنیمت حاصل کریں اس کا موضوع اور ہے، جو مال کسی جنگ و قتال کے بغیر اللہ تعالیٰ اپنے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو عطا فرمائے اس کا موضوع اور ہے۔ ان دو نوں آیات میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کے لئے ناسخ بن سکیں۔

مؤلّف: محققین حق بجانب ہیں کہ اس مسئلے میں کسی قسم کے مناقشہ کی گنجائش نہیں۔ اس کی تائید اور تاکید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ کی سیرت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ آپ نے غنیمت کو ا پنی ذات اور اپنے رشتہ داروں سے مختص کردیا اور مجاہدین کو اس سے محروم رکھا ہو۔

زیر بحث آیہ کے نسخ ہونے کا نظریہ اس بات سے بھی باطل ہو جاتا ہے کہ سورہ انفال، سورہ حشر سے پہلے نازل ہوئی ہے۔(۲) جس میں کسی قسم کا شک و بشہ نہیں اور یہ بھی مسلّم ہے کہ ناسخ کو منسوخ کے بعد نازل ہونا چاہیے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۳۱

(۲) تفسیر قرطبی ، ج ۱۸، ص ۱۴

۴۹۳

عالم خلقت میں بدائ

٭ تمہید

٭ قدرت خدا یہود کی نظر میں

٭ بداء شیعوں کی نظر میں

٭ قضائے الہٰی کی قسمیں

٭ عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

٭ حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

۴۹۴

اب تک ہماری بحث نسخ احکام کے بارے میں تھی۔ یہاں پر گذشتہ بحث کی مناسبت سے مسئلہ بداء کو مورد بحث قرار دیتے ہیں کیونکہ بداء بھی نسخ ہی کی ایک قسم ہے۔ اتنا فرق ضرور ہے کہ نسخ تشریع و قانون سازی کے میدان میں ہوتا ہے اور بداء تکوین و خلقت کے میدان میں۔ یعنی اگر عالم خلقت میں کوئی حکم منسوخ ہوجائے تو اسے بداء کہتے ہیں اور اگر قرآنی احکام و قوانین منسوخ ہوں تو اسے نسخ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس مناسبت سے یہاں پر بداء کی بحث چھیڑی گئی ہے۔

بداء کے بارے میں بحث کا دوسرا عامل و سبب یہ ہے کہ بعض علمائے اسلام نے بداء کی حقیقت اور اس کے صحیح مفہوم، جس کے شیعہ قائل ہیں، کونہیں سمجھِا اور اس میں کما حقّہ، تحقیق نہیں کی جس کی وجہ سے وہ بعض اشتباہات کا شکار ہوگئے اور شیعوں کی طرف ایسے عقائد و نظریات کی نسبت دی جس سے شیعہ بری ہیں۔ کاش یہ حضرات جو حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں تحقیق و تتبع کرتے یا کم از کم توقف اختیار کرتے(۱) جو نقل میں دیانت اور دین میں تقویٰ و پرہیزگاری کا تقاضا ہے۔

بہرحال ان دو مناسبتوں کے پیش نظر ہم نے بداء کو مورد بحث و تحقیق قرار دیا ہے اگرچہ اس مناسبت کے علاوہ مقدمہ تفسیر سے اس کا کوئی ربط نہیں۔

____________________

(۱) فخر رازی کے الزام ''شیعہ خدا کی طر ف جہل کی نست دیتے ہیں،، کی وضاحت کے لیے ضمیمہ نمبر ۹ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۹۵

تمہید

یہ ایک ناقابل انکا حقیقت ہے کہ تمام عالم ہستی حکومت اور قدرت الہٰی کے تحت چل رہا ہے۔ عالم امکان کی ہر شئی کے وجود کا دار و مدار خدا کی مشیئت اور ارادے پر ہے۔ اگر چاہے ایجاد فرماتا ہے اور اگر نہ چاہے ایجاد نہیں فرماتا۔

یہ حقیقت بھی مسلّم ہے کہ اللہ تعالیٰ کو روز ازل سے تمام اشیاء کا علم ہے اور خدا کے ازلی علم میں اشیاء عالم کو تعین علمی حاصل ہے اس علمی تعین کو کبھی تو قضائے الہی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کبھی قدر الہی سے لیکن تقدیر الہٰی اور اشیاء کا علم ازلی ان کے ایجاد کی قدرت کے منافی نہیں۔ کیونکہ ہر ممکن کی ایجاد خدا کی مشیّت اور اس کے ارادے میں منحصر ہے۔ جسے کبھی اخیتار سے تعبیر کیا جاتا ہے اورکبھی ارادے سے۔ اگر ممکن، مورد مشیّت الہٰی قرار پائے تو وجود میں آئے گا ورنہ نہیں۔

تقدیر اور علم الہی، ہر چیز کی واقعی حالت کے م طابق ہوتا ہے۔ بایں معنی کہ اگر مشیت الہی کا تقاضا کسی چیز کو ایجاد کرنا ہو تو علم و تقدیر الہی میں بھی یہ چیز موجود ہوگی اور اگر مشیت الہی کا تقاضا کسی چیز کا ایجاد کرنا نہ ہو تو تقدیر اور علم الہی بھی اس کے مطابق ہوگا کیونکہ کسی چیز کا علم اور انکشاف اس چیز کی واقعی حالت سے مختلف نہیں ہوتا۔ اگر واقع مورد مشیت الہی ہو تو علم بھی اس کے مطابق ہوگا یعنی معلوم ایسی چیز ہوگی جس کی مشیت الہی متقاضی ہو۔ ورنہ یہ علم واقع کے مطابق نہ ہوگا اور نہ کسی شئی کا وقوع اور اس کی حقیقت کا انکشاف ہوگا۔

پس قضاء اور قدر الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز ازل سے اپنی واقعی حالت کے مطابق علم خدا میں مشخص و معین ہے یعنی ہر چیز کا وجود اس امر پر موقوف ہے کہ وہ مورد مشیت و ارادہ الہی قرار پائے اور میشت و ارادہ الہی، اشیاء میں موجود مصلحت اور مفسدہ کے تقاضوں کے مطابق ہوا کرتے ہیں اور مصلحت و مفسدہ، حالات و شرائط کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ کسی چیز کی مصلحت یا اس کا مفسدہ علم الہٰی سے خارج نہیں ہوسکتا بلکہ علم الہی ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

۴۹۶

قدرت خدا ۔ یہود کی نظر میں

یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ جس چیز کو ازل میں قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے، مشیت اور ارادہئ الہی اس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ یعنی خداوند عالم اس عالم ہستی میںکوئی چیز گھٹانے یا بڑھانے سے عاجز ہے، اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ لینے دینے سے قاصر ہے، اس لیے کہ قلم تقدیر نے جو خط کھینچا ہے وہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔(۱)

کتنی عجیب بات ہے یہود، خدا انہیں نیست و نابود فرمائے، خاد سے تو قدرت کو سلب کرتے ہیں (اس بنیاد پر کہ خدا علم ازلی کے خلاف کسی کام پر قادر نہیں) لیکن اس بنیاد پر بندوں سے قدرت کو سلب نہیں کرتے (انہیں عاجز نہیں سمجھتے) جبکہ بقول خود سلب قدرت کا سبب دونوں میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جس طرح افعال خدا، علم ازلی میں موجود ہیں اسی طرح بندوں کے افعال بھی علم ازلی میں موجود ہیں۔

بداء شیعوں کی نظر میں

پوشیدہ نہ رہے کہ شیعہ امامیہ جس بداء کے قائل ہیں وہ ان واقعات و افعال میں واقع ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے حتمی نہ ہوں۔ لیکن جہاں تک حتمی مقدّرات الہٰی کا تعلّق ہے ان میں پس و پیش نہیں ہوسکتا لامحالہ وہی چیز مورد مشیّت الہٰی قرار پائے گی جو موردِ قضائے الہٰی ہو (حتمی مقدور ہو)

بداء کے موارد اور مقامات کو سمجھنے کے لئے قضاء و قدر کی اقسام کو سمجھنا ضروری ہے۔

__________________

(۱) مشیت الہی سے متعلق روایات کسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۰ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۴۹۷

قضائے الہٰی کی قسمیں

۱) وہ مقدّرات الہٰی جن کے بارے میں خدا نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو آگاہ نہیں کیا اور ان کا علم صرف ذاتِ الہٰی سے مختص ہے۔ اس علم (مقدّرات الہٰی) میں کسی قسم کا بداء اور ردّ و بدل نہیں ہوتا بلکہ اہل بیت اطہار(ع) نے سلیمان مروزی سے فرمایا:

''میرے والد بزرگوار نے اپنے والد گرامی امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ دو قسم کا علم رکھتا ہے۔ ایک وہ علم ہے جو سربستہ اور مخفی ہے جسے ذاتِ خدا کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا اور اسی سے بداء ہوتا ہے (بعض واقعات کی خبر دینے کے بعد اس میں تبدیلی آجاتی ہے) دوسرا علم وہ ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور انبیاء(ع) کو دی ہے اور اہل بیت نبی یہ علم رکھتے ہیں۔،،(۱)

'' ان الله علمین: علم مکنون مخزون لا یعلمه، الا هو، من ذٰلک یکون البدائ، و علم علّمه ملائکته و رسله و انبیآء و نجن نعلمة ۔،، (۲)

''اللہ کے پاس دو قسم کے علم ہیں۔ ایک علم مخزون و مکنون ہے جسے سوائے اللہ کے کوئی دوسرا نہیں جانتا اور اسی وجہ سے بداء واقع ہوتا ہے۔ دوسرا علم وہ ہے جس کی تعلیم، ملائکہ، انبیاء اور رسولوں کو دی اور ہم اس کے عالم ہیں۔،،

۲۔ وہ مقدراتِ الہٰی جن کے بارے میں اللہ نے انبیاء(ع) اور ملائکہ کو خبر دی ہے کہ یہ حتمی طور پر واقع ہوں گے۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ ان مقدرات میں بداء واقع نہیں ہوتا اگر چہ پہلے مقدرات اور ان یہ فرق موجود ہے کہ یہ مقدرات، بداء کے لیے سرچشمہ نہیں بنتے۔

____________________

(۱) عیون الاخبار الرضا باب ۱۳ فی الذکر مجلس الرضا مع سلیمان مروزی۔ بحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۲

(۲) بحار، باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۶، شیخ کلینی نے ابو بصیرسے بھی یہ روایت کی ہے: الوافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۴۹۸

گذشتہ روایات میں امام رضا(ع) نے سلیمان مروزی سے فرمایا:

امیر المومنین(ع) فرماتا کرتے تھے: علم کی دو قسمیں ہیں، ایک علم وہ ہے جو اللہ نے ملائکہ اور رسولوں کو بھی دیا۔ اللہ نے اپنے رسولوں فرشتوں کو جو کچھ سکھایا ہے وہ ہو کر رہے گا اور اللہ اپنی ذات، ملائکہ اور رسولوںؑ کو کبھی نہیں جھٹلاتا اور دوسرا علم وہ ہے جس کا خزانہ اللہ ہی کے پاس ہے اور اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی اس سے آگاہ نہیں کیا، ان مقدرات میں سے جسے چاہے مقدم فرماتا ہے اور جسے چاہے مؤخر فرماتا ہے جسے چاہے محو فرماتا ہے اور جسے چاہے ثابت اور برقرار رکھتا ہے۔،،(۱)

عیاشی نے فضیل سے روایت کی ہے کہ امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

''کچھ امور وہ ہےں جو لامحالہ واقع ہو کر رہیں گے اور ان میں کسی قسم کا بداء اور تغیر و تبدل واقع نہیں ہوگا اور کچھ امرو وہ ہیں جن کا دار مدار منشاء الہٰی پر ہے جس کو اللہ چاہے مقدم فرمائے جس کو چاہے محو کر دے اور جس کو چاہے ثابت و برقرار رکھے۔ ان امور سے اللہ نے کسی کو بھی آگاہ نہیں فرمایا جس چیز سے اللہ نے انبیاء(ع) کو مطلع کردیا ہو وہ ضرور واقع ہوگی۔ اس لیے کہ اللہ اپنی ذات، انبیاء(ع) اور اپنے فرشتوں کو نہیں جھٹلاتا۔،،(۲)

مقدرات کی تیسری قسم وہہے جس کے خارج میں واقع ہونے کے بارے میں اللہ نے اپنے نبی اور ملائکہ کو آگاہ کردیا ہے لیکن ان کا خارج میں واقع ہونا اس پر موقوف ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو، یہ وہ مقدرات ہیں جن میں بداء (تغیر و تبدل) واقع ہوتا ہے:

( يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ) ۱۳:۳۹

''خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس (اصل کتاب لوح محفوظ موجود ہے)۔،،

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا، باب ۱۳، الوافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۲) بحار، باب البداء والنسخ، ج ۲، ص ۱۳۳

۴۹۹

( لِلَّـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ ) ۳۰:۴

''کیونکہ (اس سے) پہلے اور بعد (غرض ہر زمانے میں) ہر امر کا اختیار خدا ہی کو ہے۔،،

اس قضائے الہٰی پر متعدد روایات بھی دلالت کرتی ہیں:

i ) تفسیر علی بن ابراہیم میں عبد اللہ بن مسکان اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جب شب قدر آتی ہے تو ملائکہ، روح اور انسانی اعمال لکھنے والے فرشتے دنیا کے آسمان پر نازل ہوتے ہیں اور اس سال کے تمام مقدرات الہٰی ثبت کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز میں تقدیم و تاخیر یا کمی بیشی کرنا چاہے تو خالق مخصوص فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ اللہ جسے چاہے مٹا ڈالے اور جس کا ارادہ کرے اسے ثابت رکھے۔ عبد اللہ ابن مسکان کہتا ہے، میں نے امام صادق(ع) کی خدمت میں عرض کی: کیا ہر چیز کتاب الہٰی میں ثبت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ میں نے عرض کی: تو پھر کیا ان مقدراتِ الہٰی میں تبدیلی آسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔،،(۱)

ii ) تفسیر علی بن ابراہیم میں عبد اللہ بن مسکان ، امام محمد بن باقر، امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم (علیہم السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اللہ کے اس ارشاد کی تفسیر میں فرمایا:

( فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ) ۴۴:۴

''اسی رات کو تمام دنیا کے حکمت و مصلحت کے (سال بھر کے) کاموں کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔،،

____________________

(۱) نقل از بحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۳

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689