البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 302096
ڈاؤنلوڈ: 8558

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302096 / ڈاؤنلوڈ: 8558
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

بیہقی نے اپنی کتاب ''شعب الایمان،، میں عزوان ان ابی حاتم سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ جناب ابوذرؓ حضرت عثمان کے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے اور انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ اتفاق سے قریشی خاندان کے ایک شخص کی نظر ان پر پڑی۔ اس نے جناب ابوذرؓ سے کہا: ابوذر! یہاں کیوں کھڑے ہو؟ جناب ابوذر نے کہا: یہ لوگ مجھے ابوذر کاکیا قصور ہے کہ وہ دروازے پر کھڑا ہے اور اسے اندر آنے کی اجازت نہیں مل رہی۔ اس شخص کی سفارش پر جناب ابوذر کو اجازت مل گئی۔ آپ گھر میں داخل ہوئے اور سب سے آخر میں جا کر بیٹھ گئے۔ اس دوران حضرت عثمان نے کعب سے پوچھا: اگر ایک شخص اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کردے تو پھر بھی اسے (کوئی دوسرا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے) کسی گناہ کا خدشہ رہے گا؟ کعب نے جواب میں کہا: نہیں۔ جناب ابوذر کے ہاتھ میںایک عصا تھا، وہ اٹھے اور کعب کے دونوں کانوں کے درمیان عصا مار کر کہا: یہودی کے بیٹے! تمہارا یہ خیال ہے کہ اگر انسان زکوٰۃ ادا کردے تو اس کے ذمے اور کوئی حق نہیں رہتا؟! جبکہ خالق فرمایا ہے:

( وَجَاءَ فِرْعَوْنُ وَمَن قَبْلَهُ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ) ۵۹:۹

''اور اگرچہ اپنےاوپر تنگی ہی (کیوں نہ) ہو دوسروں کو اپنے نفس پر ترجیح دیتے ہیں۔،،

نیز خالق فرماتا ہے:

( وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ) ۷۶:۸

''اور اس کی محبت میں محتاج اور یتیمار اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔،،

۴۸۱

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۷۰:۲۴۔۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

جناب ابوذرنے اس مضمون کی اور آیات بھی انہیں سنا دیں۔(۱)

ابن حریر نے اپنی اسناد سے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''حق معلوم صدقہ(زکوٰۃ) کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس سے صلہ رحمی اور مہمان نوازی کی جاتی ہے محتاج کی نیاز مندی دور کی جاتی ہے اور محروموں اور ناداروں کی مدد کی جاتی ہے۔،،(۲)

بعض دوسرے مفسرین نے بھی ابن عباس کے اس قول کو اختیار کیا ہے۔ ان بیانات سے یہ ثابت ہوا کہ آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی بلکہ محکم ہے۔

۳۵۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) ۵۸:۱۲

''اے ایماندارو! جب پیغمبر سے کوئی بات کان میں کہنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کوئی خیرات دے دیا کرو یہی تمہارے واسطے بہتر اور پاکیزہ بات ہے۔ پس اگر تم کو اس کا مقدور نہ ہو تو بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہرمان ہے۔،،

____________________

(۱) کنز العمال، ج ۳، ص ۳۱۰

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۲۹، ص ۵۰

۴۸۲

اکثر علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ مذکورہ آیت اس آیہ کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے:

( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ) ۵۸:۱۳

''(مسلمانو)کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ (رسول کے ) کان میں بات کہنے سے پہلے خیرات کرلو جب تم لوگ (اتنا سا کام) نہ کرسکے اور خدا نے تمہیں معاف کردیا تو پابندی سے نماز پڑھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے باخبر ہے۔،،

شیعہ امامیہ اور اہل سنت کی کثیر روایات سے یہ ثابت ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد سوائے حضرت علی (علیہ السلام) کے کسی اور نے اس پر عمل نہیں کیا۔ آپ کے پاس ایک دینار تھا جسے آپ نے دس درہم میں بیچ دیا۔ آپ جب بھی رسول اللہ سے گفتگو اور راز و فرماتے اس سے پہلے ایک درہم صدقہ دے دیتے۔ اس طرح آپ نے دس مرتبہ ا س آیہ کریمہ پر عمل کیا اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے خلوت میں راز و نیاز کا شرف حاصل کیا۔

۴۸۳

آیہ نجویٰ پر عمل کی احادیث

۱۔ ابن بابویہ نے اپنی اسناد کے ذریعے مکحول سے روایت کی ہے:

''امیر المومنین(ع) نے فرمایا: اصحاب پیغمبر(ص) جو حافظ حدیث ہیں، بخوبی جانتے ہیںکہ ان میں سے جس شخص میں بھی کوئی فضیلت و منقبت موجود ہے، میں اس میں شریک ہوں کوئی دوسرا میرے ساتھ شریک نہیں ہے۔ میں (مکحول) نے عرض کی: یا امیر المومنین(ع) وہ کون سی فضیلیتیں ہیں جو آپ کی ذات سے مختص ہےں۔ آپ نے ان فضائل کو گننا شروع کیا حتیٰ کہ فرمایا: چوبیسویں فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر یہ آیت نازل فرمائی: اذا ناجیتم ۔۔۔ الخ میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہم میں بیچ دیا اور میں جب بھی رسول اللہ سے گفتگو کرتا پہلے ایک درہم صدقہ دیا کرتا تھا۔ خدا کی قسم! مجھ سے پہلے اور میرے بعد اصحاب پیغمبر(ص) میں سے کسی نے بھی اس آیت پر عمل نہیں کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی:( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا ) ۔۔۔ الخ(۱) ،،

۲۔ ابن جریر نے مجاہد سے روایت کی ہے:

''امیر المومنین(ع) نے فرمایا: کتاب الہیٰ میں ایک ایسی آیت ہے جس پر مجِھ سے پہلے کسی نے عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد اس میں کوئی عمل کرے گا۔ میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہم میں فروخت کیا۔ میں جب بھی رسول اللہ سے خلوت میں گفتگو کرتا تو ایک درہم صدقہ دیا کرتا۔ یہاں تک کہ یہ آیت نسخ ہوگئی اور مجھِ سے پہلے کسی نے بھی اس آیت پر عمل نہیں کیا اور وہ آیت یہ ہے:( نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا ) ۔۔،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر البرہان، ج ۲، ص ۱۰۹۹

(۲) تفسیر طبری، ج ۲۸، ص ۱۵

۴۸۴

۳۔ شوکانی کہتے ہیں عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن منذ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے امیر المومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اس آیت پر میرے علاوہ کسی نے بھی عمل نہیں کیا حتیٰ کہ یہ آیت نسخ ہوگئی۔ اس کی مدّت صرف ایک گھنٹہ تھی۔،،

۴۔ سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم اور ابن مردویہ نے امیر المومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''قرآن کریم میں ایک آیت ایسی ہے جس پر مجِ سے پہلے کسی نے عمل نہیں کیا اور نہ کوئی میرے بعد اس پر عمل کرے گا اور وہ آیہ نجویٰ:( نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا ) ۔۔۔۔ الخ ہے، میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہم صدقہ دیتا تھا۔ اس کے بعد آیہ کریمہ نسخ ہوگئی اور اس پر کسی نے عمل نہیں کیا تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا ) ۔۔ الخ۔،،(۱)

مسئلے کی تحقیق

آیہ شریفہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ کے ساتھ گفتگو کرنے سے پہلے صدقہ دینے میں انسانوں کی بھلائی اور نفوس کی تطہیر و صفائی ہے اور یہ ایک ایسا حک ہے جو انسانوں کی مصلحت پر مشتمل ہے۔ یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو صدقہ دے سکتا ہو لیکن جو شخص سے پہلے صدق نہ دے سکے تفسیر البرہان، تفسیر طبری و دیگر کتب احادیث، چنانچہ مرحوم مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار کی جلد ۹، ص ۱۷۰ میں اس مضمون کی متعدد روایات کو نقل کیا ہے۔

خدا اسے بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

____________________

(۱) فتح فتح القدیر، ج ۵، ص ۱۸۶۔ ا س مضمون کی روایات کثرت سے موجود ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:

۴۸۵

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص کی عقل اس فعل کو حسن سمجھتی ہے اور وجدان اس کی صحت کی گواہی دیتا ہے۔ کیونکہ اس حکم میں فقراء کا فائدہ ہے اس لیے کہ صدقات کے مستحق یہی لوگ ہیں۔ اس کے علاوہ اس سے رسول اللہ کا بوجھ ہلکا ہوجاتاہے کیونکہ اس کے نتیجے میں عام لوگوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ بہت کم ہوجاتا اور یہ کہ اس حکم کے بعد رسول اللہ سے گفتگو اور راز و نیاز کی خواہش وہی شخص کرے گا۔ جسکے دل میں مال دنیا سے زیادہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے راز و نیاز کی محبت ہو۔

ظاہر ہے یہ عمل ایسا نہیں جو کسی زمانے میں حسن رکھتا ہو اور کسی زمانے میں حسن نہ رکھتا ہو بلکہ یہ ہمہ وقت اس مصلحت پر مشتمل ہے اور عقل اسے حسن کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

دوسری آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ (امیر المومنین(ع) کے علاوہ) عام لوگوں نے مال کے لالچ میں آکر اور صدقے سے گھبرا کر رسول اللہ سے گفتگو اور راز و نیاز کو ترک کردیا تھا۔

اس صدقے کے نسخ ہونے کے اسباب

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ سے راز و نیاز اورخلوت کی ملاقات کو ترک کرنے سے بہت سے عمومی مفادات اور مصلحتیں فوت ہوجاتی ہیں۔ ان مفادات کے تحفظ کی خاطر اور عمومی مصلحت کو خصوصی مصلحت پر ترجیح دیتے ہوئے اللہ نے وجوب صدق کو اٹھا دیا اور لوگں کو نمام قائم کرنے زکوٰۃ دینے اور خداوند رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اطاعت کرنے کا حکم دیا۔

لا محالہ ماننا پڑے گا کہ پہلی آیت :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ ) ۔۔۔ الخ سے ثابت شدہ حکم (وجوب صدقہ) دوسری آیت: ع اشفقتم ۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہوگیا ہے۔ لیکن یہ نسخ قرآن کی اقسام میں سے پہلی قسم ہے جس میں ناسخ آیت کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ منسوخ آیت میں موجود حکم کی مدّت ختم ہو گئی ہے۔ تاہم حکم اوّل کے نسخ ہونے کا سبب یہ نہیں کہ اس میں موجود مصلحت، جو حکم کی متقاضی ہے، کسی خاص زمانے سے مختص ہے کیونکہ جیسا کہ اس سے پہلے بتایا گیا ہے یہ مصلحت رسول اللہ کی پوری زندگی میںموجود تھی لیکن لوگوں کی مال سے محبت اور صدقہ سے گھبرانے کے باعث یہ حکم باقی نہیں رہ سکا۔ اس طرح حکم اوّل نسخ ہوگیا اور وجوب برطرف ہوگیا۔

۴۸۶

کبھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب خداوند عالم جانتا تھا کہ لوگوں کی مال سے محبت کی وجہ سے یہ حکم ہمیشہ نہیں رہ سکے گا تو پھر اس حکم کی تشریع کیوں فرمائی؟ (صدقے کا حکم کیوں دیا گیا؟)ِ

جواب: اس حکم اور اس کے نسخ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو متنبہ کرنا چاہا اور ان پر حجت تمام کردی۔ اس کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ امیر المومنین(ع) کے علاوہ باقی صحانہ نے مال دنیا کو رسول اللہ سے راز و نیاز کرنے پر ترجیح دی۔ اگرچہ رسول اللہ سے گفتگو ترک کرنا بذات خود کوئی معصیت نہیں تھی۔ کیونکہ یہ مناجات (خلوت کی گفتگو) واجب نہیں تھی کہ اس کا ترک کرنا گناہ ہوتا اور صدقہ دینا اس صورت میں واجب تھا جب کوئی مناجات کرنا چاہے۔ اگر کوئی مناجات نہ کرنا چاہے تو صدقہ دینا بھی اس پر واجب نہیں تھا۔ اور ترک مناجات بھی گناہ نہیں تھا لیکن اس سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص اس شرط مناجات کو ترک کرے وہ مال دنیا کو مناجات کرنے سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

حکم صدقہ کی حکمت

اس حکم کے صادر ہونے کے بعد اس کے نسخ ہو جانے سے اس کی حکمت ظاہر ہوتی ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان و کرم ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے یہ با ت بھی ثابت ہوگئی کہ لوگ رسول اللہ سے مناجات کو اہمیت نہیں دیتے تھے اس کے ساتھ ساتھ اس سے امیر المومنین(ع) کامقام اور عظمت بھی ثابت ہوگئی۔ چنانچہ آیہ کریمہ کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے اور اکثر روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں۔

لیکن اگر مناجات سے پہلے صدقے کا حکم ایک ظاہری حکم ہوتا جو صرف امتحان کے لیے صادر ہوا ہو۔ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے فرزند حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا تو اس صورت میں دوسری آیت کے ذریعے پہلی آیت کا نسخ اصطلاحی نہ ہوگا بلکہ اس امتحانی حکم کے برطرف ہونے پر نسخ لغوی صادق آئے گا۔

۴۸۷

رازی نے ابومسلم سے یہ بات نقل کی ہے:

''صدقے کا حکم یقیناً امتحانی تھا اور اس مقصد کے لیے صادر ہوا تھا کہ صدق دل سے ایمان لانے والوں اور منافقین میں تمیز ہوسکے۔ اس صورت میں نسخ نہیں ہوگا۔،،

اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد رازی لکھتے ہیں:

''یہ ایک اچھی رائے ہے۔ اسے قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔،،(۱)

شیخ شرف الدین لکھتے ہیں:

''محمد بن عباس نے اپنی تفسیر میں شیعہ اور سنی طریقوں سے ایسی ستّر احادیث نقل کی ہیں جن کا مضمون یہی ہے کہ تمام صحابہ میں صرف امیر المومنین(ع) کی ذات ایسی تھی جنہوں نے آیہ نجویٰ پر عمل کیا اور صدقہ دے کر رسول اللہ سے خلوت میں گفتگو فرمائی۔،،

اس کے بعد انہوں نے شیخ ابو جعفر طوسیؒ سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ترمذی نے اپنی سنن میں اور ثعلبی نے اپنی تفسیر علقمہ انماوی سے روایت مرفوعہ(۲) نقل کی ہے۔ اس میں امیر المومنین(ع) فرماتے ہیں:

____________________

(۱) تفسیر الرازی ، ج ۸، ص ۱۶۷

(۲) اصطلاح میں مرفوعہ اس روایت کو کہتے ہیں جس میں ایک یا چند آدمیوں کے نام ذکر نہ ہوں۔

۴۸۸

''بی خفف الله عن هذه الأمة لأن الله امتحن الصحابة، فتقاعسوا عن مناجاة الرسول، و کان قد احتجب فی منزله من مناجاة کل أحد الا من تصدق بصدقة، و کان معی دینار، فتصدقت به، فکنت أنا سبب التوبة من الله علی المسلمین حین عملت بالآیة، و لو لم یعمل بها أحد لنزل العذاب، الامتناع الکل من العمل بها،، (۱)

''اللہ نے میری بدولت اس امّت کا بوجھ ہلکا کیا کیونکہ اللہ نے تمام صحابہ کا امتحان لیا اور سب نے صدقہ دے کر رسول اللہ سے خلوت میں گفتگو کرنے میں پس و پیش کیا۔ رسول اللہ خانہ نشین ہوگئے تھے اور صرف ایسے شخص سے خلوت میں ملتے تھے جو پہلے صدقہ دیتا تھا۔ میرے پاس ایک دینا تھا اسے میں نے اسی راہ میں صدقہ میں دےدیا۔ میں ہی آیہ کریمہ پر عمل کرکے مسلمین کی توبہ کے قبول ہونے کا باعث بنا۔ اگر مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس آیت پر عمل نہ کرتا تو لوگوں پر عذاب نازل ہوتا۔،،

جامع ترمذی کے مطبوع اور خطّی نسخوں میں سے کسی میں بھی اس روایت کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ تفسیر ثعلبی میں بھی اس روایت کا کوئی ذکر نہیں ۔ جس سے اکثر مؤلفات میں اس روایت کو نق کیا جاتا ہے۔ غرض کسی بھی حدیث اور روایات کی کتاب میں یہ روایت نظر سے نہیں گزری۔ بہرحال یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ یہ حکم بہت کم عرصے تک باقی رہا اور پھر برطرف ہوگیا اور امیر المومنین(ع) کے علاوہ کسی نے بھی اس پر عمل نہیں کیا اس سے امیر المومنین کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، چاہے یہ ایک حقیقی حکم ہو یا ایک امتحان ہو۔

____________________

(۱) بحار، ج ۹، ص ۷۲، تفسیر برہان، ج ۲، ص ۱۱۰۰

۴۸۹

کھلم کھلا تعصّب

فخر الدین رازی نے صحابہ کی طرف سے فرصت اور وقت ہونے کے باوجود اس آیت پر عمل نہ کرنے کا یہ عذت پیش کیا ہے:

''صدقہ دے کر رسول اللہ سے خلوت میں ملاقات کرنا فقراء کی مایوسی اور دلشکنی اور دولتمندوں کی نفرت و اشتعال کا باعث بنتا تھا۔ اس لیے کہ جب دولتمند اس آیت پر عمل نہ کریں اور صرف چند نادار لوگ اس پر عمل کریں تو اس سے وہ لوگ لعن طعن کا نشانہ بنتے جنہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ پس چونکہ یہ فعل فقراء کے حزن و ملال اور امیروں کی نفرت کا باعث بنتا تھا۔ اس لیے اس ترک کرنے میں اتنا زیادہ نقصان نہیں تھا اس لیے کہ جو کام باہمی محبت اور ہمدردی کا باعث بنے وہ اس کام سے بہتر ہے جس سے باہمی نفرت اور دشمنی پیدا ہو۔ اس کے علاوہ یہ مناجات واجب نہیں تھی اور نہ مستحب، بلکہ لوگوں کو اس کا حکم

اس مقصد کے لیے دیا گیا تھا کہ لوگ رسول اللہ سے ملاقات اور مناجات کو ترک کردیں اور جب اس مناجات کا ترک کرنا ہی بہتر قرار پایا تو اس کو ترک کرنے والا کسی ملامت اور مذمّت کا مستحق نہیں ہوگا۔،،(۱)

مؤلف: یہ وہ معذرت تھی جو فخر الدین رازی نے بعض صحابہ کی طرف سے پیش کی ہے۔ صاحبان فکر حضرات سے مخفی نہ رہے کہ رازی کا یہ عذر قارئین کو شک و تردد میں ڈالنے کی ناکام کوشش کے علاوہ کوئی علمی مقام بھی نہیں رکھتا۔ اگر کسی شخص میں کلام فہمی کا معمولی سا بھی سلیقہ ہو تو اس سے اس قسم کا کلام ہر گز صادر نہیں ہوسکتا۔

فرض کریں اس مسئلے میں تارکین صدقہ کے بارے میں کسی قسم کی روایت موجود نہیں لین کیا آیت:( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا ) ۔۔ الخ سے لالچ اور حب مال کی وجہ سے ترک مناجات پر سرزنش نہیں سمجھی جاتی؟ کیا اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اس کوتاہی کو بخش دیا ہے؟ مگر اس تعصّب کا کیا علاج ہے جو ایک خطرناک اورمہلک بیماری ہے۔

____________________

(۱) تفسیررازی، ج ۸، ص ۱۶۷

۴۹۰

مقام تعجب ہے کہ فحر الدین رازی اس بیان سے کچھ پہلے اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ اس حکم کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے دنیا پرست اور محب آخرت میں تمیز ہو جاتی ہے کیونکہمال دنیا ہی عوامل و محرکات کا معیار اور کسوٹی قرار پاتا ہے۔

فخر الدین رازی کا یہ کہنا کہ اس عمل سے فقراء رنجیدہ اور دولت مند مشتعل ہو جاتے لہذا اس فعل کو ترک کرنا بہتر ہے کیونکہ اس طرح باہمی محبت بڑھتی ہے۔ اگر اس کا یہ قول صحیح ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام میں جتنے بھی مالی واجبات اورحقوق ہیں انہیں انجام دینے کی نسبت ترک کرنا بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے افعال کا حکم دیتا ہے جن کا ترک کرنا عقلی طور پر بہتر ہو اور رازی سے یہ بعید نہیں کہ وہ امیر المومنین(ع) کی فضیلت کا انکار کرنے کے لیے اس بات کا قائل بھی ہو جائے (کہ احکام الہٰی خلاف عقل ہیں) بلکہ عینم ممکن ہے کہ وہ اس سے بھی زیاد خرافات کا قائل ہو۔

اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نظام الدین نیشا پوری کا کلام نقل کروں جس میں فخر الدین رازی کے کلام اور اس کے تعصب کو ہدف تنقید قرار دیا گیا ہے۔ نظام الدین نیشاپوری کی عین عبارت یہ ہے: قاضی کہتا ہے:

''رسول اللہ سے مناجات سے پہلے صدقہ دینا کوئی ایسا عمل نہیں جس سے بزرگ صحابہ کرام پر علی (علیہ السلام) کی کوئی فضیلت ثابت ہو۔ کیونکہ ہوسکتا ہےکہ صحابہ کے پاس اتنا وقت نہ ہو کہ وہ ا س فرض کو انجام دے سکتے۔ فخر الدین رازی نے کہا ہے: فخر الدین رازی نے کہا ہے: ہم تسلیم کرتےہیں کہ صحابہ کے پاس اس فرض کو انجام دینے کا وقت بھی تھا لیکن یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے فقراء جن کے پاس صدقہ دینے کے لیے

کچہ نہ ہو، رنجیدہ اور دولت مند متنفر ہوسکتے تھے اور دوسری طرف اسے ترک کرنے میں کوئی نقصان بھی نہیں تھا۔ کیونکہ جس عمل سے محبت اور ہمدردی بڑھتی ہو وہ اس عمل سے بہتر ہے جو نفرت و دشمنی کا باعث بنے اس کے علاہو مناجات سے قبل صدقہ دینا واجب تھا لیکن مناجاتا خود نہ واجب تھی اور نہ مستحب۔ بلکہ بہتر یہی تھا کہ مناجات کو ترک کیا جائے۔ کیونکہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے یہ عمل رسول اللہ کے لیے ملال خاطر کا باعث بنتا تھا۔،،

۴۹۱

نیشا پوری فخر الدین رازی کے کلام کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''رازی کا یہ کلام تعصّب سے خالی نہیں۔ آخر ہم اس امر کو کیوں اپنا فرض سمجھیں کہ ہر صفت میں حضرت علی (علیہ السلام) پر باقی صحابہ کی فضیلت کو ثابت کیا جائے؟ اور کیا یہ ممکن نہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) ایسی فضیلت کے حامل ہوں جس سے دوسرے محروم ہوں؟ ممکن کیوں نہ ہو جبکہ عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں:

حضرت علی (علیہ السلام) میں تین فضیلیتیں ایسی تھیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی مجھ ہوتی تو یہ سرخ اونٹوں (ہرمال و دولت) سے بہتر ہوتی: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسی ہمسر نصیب ہونا، جنگ خیبر کے موقع پر آپ کو علم اسلام ملنا اور آیہ نجویٰ۔ وہ کون سا مصنف ہے جو رسول اللہ سے مناجات کو عیب اور خامی سمجِھے جبکہ آیہ کریمہ میں مناجات سے روکا بھی نہیں گیا۔ صرف مناجات سے قبل صدقہ دینے کا حکم دیا گیا ہے جو آدمی مناجات سے پہلے صدقہ دے وہ دو اعتبار سے فضیلت کا حامل بن جاتا ہے۔ ایک تو اس سے فقراء کی حاجات پوری ہوجاتی ہیں اور دوسرا یہ کہ اس طرح مناجات رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے محبت کا مظاہرہ ہوتا ہے اس سے رسول اللہ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے۔ مشکل مسائل کا حل ملتا ہے اور یہ بھی ظاہرہوتا ہے کہ صدقہ دینے والے کے دل میں مال دنیا سے زیادہ محبت مناجات رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ہے۔،،(۱)

۳۶۔( مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ) ۵۹:۷

''تو جومال خدا نے اپنے رسول کو دیہات والوں سے بے لڑے دلوایا ہے وہ خاص خدا اور رسول اور (رسول کے) قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پردیسیوں کا ہے۔،،

____________________

(۱) تفسیر نیشاپوری حاشیہ تفسیر طبری، ج ۲۸، ص ۲۴

۴۹۲

قتادہ سے منقول ہے کہ یہ آیت نسخ ہوگئی ہے بایں معنیٰ کہ ''فئی،، اور ''غنیمت،، دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔ صدر اسلام میں غنیمت، آیہ شریفہ میں مذکورہ افراد میں تقسیم ہوا کرتی تھی اور جنگ میں شریک مجاہدین کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ مگر یہ کہ کوئی مجاہد انہیں میں ےس ہو۔ اس کے بعد یہ حکم سورہ انفال کے ذ ریعے نسخ ہوگیا اور آیہ میں مذکور لوگوں کے لیے غنیف کا صرف پانچواں حصہ رہ گیا اور باقی چار حصوں کے مستحق مجاہدین قرار پائے، چنانچہ سورہ انفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(۱)

( وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ ) ۸:۴۱

''اور جان لو کہ جو کچھ تم (مال لڑکر) لوٹو اس میں کا پانچواں حصّہ مخصوص خدا کے لئے ہے۔،،

لیکن محققین نے قتادہ کے اس قول کو ردّ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مسلمان کفار سے جنگ کے نتیجےمیں جو مال بطور غنیمت حاصل کریں اس کا موضوع اور ہے، جو مال کسی جنگ و قتال کے بغیر اللہ تعالیٰ اپنے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو عطا فرمائے اس کا موضوع اور ہے۔ ان دو نوں آیات میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کے لئے ناسخ بن سکیں۔

مؤلّف: محققین حق بجانب ہیں کہ اس مسئلے میں کسی قسم کے مناقشہ کی گنجائش نہیں۔ اس کی تائید اور تاکید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ کی سیرت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ آپ نے غنیمت کو ا پنی ذات اور اپنے رشتہ داروں سے مختص کردیا اور مجاہدین کو اس سے محروم رکھا ہو۔

زیر بحث آیہ کے نسخ ہونے کا نظریہ اس بات سے بھی باطل ہو جاتا ہے کہ سورہ انفال، سورہ حشر سے پہلے نازل ہوئی ہے۔(۲) جس میں کسی قسم کا شک و بشہ نہیں اور یہ بھی مسلّم ہے کہ ناسخ کو منسوخ کے بعد نازل ہونا چاہیے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۳۱

(۲) تفسیر قرطبی ، ج ۱۸، ص ۱۴

۴۹۳

عالم خلقت میں بدائ

٭ تمہید

٭ قدرت خدا یہود کی نظر میں

٭ بداء شیعوں کی نظر میں

٭ قضائے الہٰی کی قسمیں

٭ عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

٭ حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

۴۹۴

اب تک ہماری بحث نسخ احکام کے بارے میں تھی۔ یہاں پر گذشتہ بحث کی مناسبت سے مسئلہ بداء کو مورد بحث قرار دیتے ہیں کیونکہ بداء بھی نسخ ہی کی ایک قسم ہے۔ اتنا فرق ضرور ہے کہ نسخ تشریع و قانون سازی کے میدان میں ہوتا ہے اور بداء تکوین و خلقت کے میدان میں۔ یعنی اگر عالم خلقت میں کوئی حکم منسوخ ہوجائے تو اسے بداء کہتے ہیں اور اگر قرآنی احکام و قوانین منسوخ ہوں تو اسے نسخ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس مناسبت سے یہاں پر بداء کی بحث چھیڑی گئی ہے۔

بداء کے بارے میں بحث کا دوسرا عامل و سبب یہ ہے کہ بعض علمائے اسلام نے بداء کی حقیقت اور اس کے صحیح مفہوم، جس کے شیعہ قائل ہیں، کونہیں سمجھِا اور اس میں کما حقّہ، تحقیق نہیں کی جس کی وجہ سے وہ بعض اشتباہات کا شکار ہوگئے اور شیعوں کی طرف ایسے عقائد و نظریات کی نسبت دی جس سے شیعہ بری ہیں۔ کاش یہ حضرات جو حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں تحقیق و تتبع کرتے یا کم از کم توقف اختیار کرتے(۱) جو نقل میں دیانت اور دین میں تقویٰ و پرہیزگاری کا تقاضا ہے۔

بہرحال ان دو مناسبتوں کے پیش نظر ہم نے بداء کو مورد بحث و تحقیق قرار دیا ہے اگرچہ اس مناسبت کے علاوہ مقدمہ تفسیر سے اس کا کوئی ربط نہیں۔

____________________

(۱) فخر رازی کے الزام ''شیعہ خدا کی طر ف جہل کی نست دیتے ہیں،، کی وضاحت کے لیے ضمیمہ نمبر ۹ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۹۵

تمہید

یہ ایک ناقابل انکا حقیقت ہے کہ تمام عالم ہستی حکومت اور قدرت الہٰی کے تحت چل رہا ہے۔ عالم امکان کی ہر شئی کے وجود کا دار و مدار خدا کی مشیئت اور ارادے پر ہے۔ اگر چاہے ایجاد فرماتا ہے اور اگر نہ چاہے ایجاد نہیں فرماتا۔

یہ حقیقت بھی مسلّم ہے کہ اللہ تعالیٰ کو روز ازل سے تمام اشیاء کا علم ہے اور خدا کے ازلی علم میں اشیاء عالم کو تعین علمی حاصل ہے اس علمی تعین کو کبھی تو قضائے الہی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کبھی قدر الہی سے لیکن تقدیر الہٰی اور اشیاء کا علم ازلی ان کے ایجاد کی قدرت کے منافی نہیں۔ کیونکہ ہر ممکن کی ایجاد خدا کی مشیّت اور اس کے ارادے میں منحصر ہے۔ جسے کبھی اخیتار سے تعبیر کیا جاتا ہے اورکبھی ارادے سے۔ اگر ممکن، مورد مشیّت الہٰی قرار پائے تو وجود میں آئے گا ورنہ نہیں۔

تقدیر اور علم الہی، ہر چیز کی واقعی حالت کے م طابق ہوتا ہے۔ بایں معنی کہ اگر مشیت الہی کا تقاضا کسی چیز کو ایجاد کرنا ہو تو علم و تقدیر الہی میں بھی یہ چیز موجود ہوگی اور اگر مشیت الہی کا تقاضا کسی چیز کا ایجاد کرنا نہ ہو تو تقدیر اور علم الہی بھی اس کے مطابق ہوگا کیونکہ کسی چیز کا علم اور انکشاف اس چیز کی واقعی حالت سے مختلف نہیں ہوتا۔ اگر واقع مورد مشیت الہی ہو تو علم بھی اس کے مطابق ہوگا یعنی معلوم ایسی چیز ہوگی جس کی مشیت الہی متقاضی ہو۔ ورنہ یہ علم واقع کے مطابق نہ ہوگا اور نہ کسی شئی کا وقوع اور اس کی حقیقت کا انکشاف ہوگا۔

پس قضاء اور قدر الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز ازل سے اپنی واقعی حالت کے مطابق علم خدا میں مشخص و معین ہے یعنی ہر چیز کا وجود اس امر پر موقوف ہے کہ وہ مورد مشیت و ارادہ الہی قرار پائے اور میشت و ارادہ الہی، اشیاء میں موجود مصلحت اور مفسدہ کے تقاضوں کے مطابق ہوا کرتے ہیں اور مصلحت و مفسدہ، حالات و شرائط کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ کسی چیز کی مصلحت یا اس کا مفسدہ علم الہٰی سے خارج نہیں ہوسکتا بلکہ علم الہی ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

۴۹۶

قدرت خدا ۔ یہود کی نظر میں

یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ جس چیز کو ازل میں قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے، مشیت اور ارادہئ الہی اس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ یعنی خداوند عالم اس عالم ہستی میںکوئی چیز گھٹانے یا بڑھانے سے عاجز ہے، اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ لینے دینے سے قاصر ہے، اس لیے کہ قلم تقدیر نے جو خط کھینچا ہے وہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔(۱)

کتنی عجیب بات ہے یہود، خدا انہیں نیست و نابود فرمائے، خاد سے تو قدرت کو سلب کرتے ہیں (اس بنیاد پر کہ خدا علم ازلی کے خلاف کسی کام پر قادر نہیں) لیکن اس بنیاد پر بندوں سے قدرت کو سلب نہیں کرتے (انہیں عاجز نہیں سمجھتے) جبکہ بقول خود سلب قدرت کا سبب دونوں میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جس طرح افعال خدا، علم ازلی میں موجود ہیں اسی طرح بندوں کے افعال بھی علم ازلی میں موجود ہیں۔

بداء شیعوں کی نظر میں

پوشیدہ نہ رہے کہ شیعہ امامیہ جس بداء کے قائل ہیں وہ ان واقعات و افعال میں واقع ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے حتمی نہ ہوں۔ لیکن جہاں تک حتمی مقدّرات الہٰی کا تعلّق ہے ان میں پس و پیش نہیں ہوسکتا لامحالہ وہی چیز مورد مشیّت الہٰی قرار پائے گی جو موردِ قضائے الہٰی ہو (حتمی مقدور ہو)

بداء کے موارد اور مقامات کو سمجھنے کے لئے قضاء و قدر کی اقسام کو سمجھنا ضروری ہے۔

__________________

(۱) مشیت الہی سے متعلق روایات کسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۰ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۴۹۷

قضائے الہٰی کی قسمیں

۱) وہ مقدّرات الہٰی جن کے بارے میں خدا نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو آگاہ نہیں کیا اور ان کا علم صرف ذاتِ الہٰی سے مختص ہے۔ اس علم (مقدّرات الہٰی) میں کسی قسم کا بداء اور ردّ و بدل نہیں ہوتا بلکہ اہل بیت اطہار(ع) نے سلیمان مروزی سے فرمایا:

''میرے والد بزرگوار نے اپنے والد گرامی امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ دو قسم کا علم رکھتا ہے۔ ایک وہ علم ہے جو سربستہ اور مخفی ہے جسے ذاتِ خدا کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا اور اسی سے بداء ہوتا ہے (بعض واقعات کی خبر دینے کے بعد اس میں تبدیلی آجاتی ہے) دوسرا علم وہ ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور انبیاء(ع) کو دی ہے اور اہل بیت نبی یہ علم رکھتے ہیں۔،،(۱)

'' ان الله علمین: علم مکنون مخزون لا یعلمه، الا هو، من ذٰلک یکون البدائ، و علم علّمه ملائکته و رسله و انبیآء و نجن نعلمة ۔،، (۲)

''اللہ کے پاس دو قسم کے علم ہیں۔ ایک علم مخزون و مکنون ہے جسے سوائے اللہ کے کوئی دوسرا نہیں جانتا اور اسی وجہ سے بداء واقع ہوتا ہے۔ دوسرا علم وہ ہے جس کی تعلیم، ملائکہ، انبیاء اور رسولوں کو دی اور ہم اس کے عالم ہیں۔،،

۲۔ وہ مقدراتِ الہٰی جن کے بارے میں اللہ نے انبیاء(ع) اور ملائکہ کو خبر دی ہے کہ یہ حتمی طور پر واقع ہوں گے۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ ان مقدرات میں بداء واقع نہیں ہوتا اگر چہ پہلے مقدرات اور ان یہ فرق موجود ہے کہ یہ مقدرات، بداء کے لیے سرچشمہ نہیں بنتے۔

____________________

(۱) عیون الاخبار الرضا باب ۱۳ فی الذکر مجلس الرضا مع سلیمان مروزی۔ بحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۲

(۲) بحار، باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۶، شیخ کلینی نے ابو بصیرسے بھی یہ روایت کی ہے: الوافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۴۹۸

گذشتہ روایات میں امام رضا(ع) نے سلیمان مروزی سے فرمایا:

امیر المومنین(ع) فرماتا کرتے تھے: علم کی دو قسمیں ہیں، ایک علم وہ ہے جو اللہ نے ملائکہ اور رسولوں کو بھی دیا۔ اللہ نے اپنے رسولوں فرشتوں کو جو کچھ سکھایا ہے وہ ہو کر رہے گا اور اللہ اپنی ذات، ملائکہ اور رسولوںؑ کو کبھی نہیں جھٹلاتا اور دوسرا علم وہ ہے جس کا خزانہ اللہ ہی کے پاس ہے اور اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی اس سے آگاہ نہیں کیا، ان مقدرات میں سے جسے چاہے مقدم فرماتا ہے اور جسے چاہے مؤخر فرماتا ہے جسے چاہے محو فرماتا ہے اور جسے چاہے ثابت اور برقرار رکھتا ہے۔،،(۱)

عیاشی نے فضیل سے روایت کی ہے کہ امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

''کچھ امور وہ ہےں جو لامحالہ واقع ہو کر رہیں گے اور ان میں کسی قسم کا بداء اور تغیر و تبدل واقع نہیں ہوگا اور کچھ امرو وہ ہیں جن کا دار مدار منشاء الہٰی پر ہے جس کو اللہ چاہے مقدم فرمائے جس کو چاہے محو کر دے اور جس کو چاہے ثابت و برقرار رکھے۔ ان امور سے اللہ نے کسی کو بھی آگاہ نہیں فرمایا جس چیز سے اللہ نے انبیاء(ع) کو مطلع کردیا ہو وہ ضرور واقع ہوگی۔ اس لیے کہ اللہ اپنی ذات، انبیاء(ع) اور اپنے فرشتوں کو نہیں جھٹلاتا۔،،(۲)

مقدرات کی تیسری قسم وہہے جس کے خارج میں واقع ہونے کے بارے میں اللہ نے اپنے نبی اور ملائکہ کو آگاہ کردیا ہے لیکن ان کا خارج میں واقع ہونا اس پر موقوف ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو، یہ وہ مقدرات ہیں جن میں بداء (تغیر و تبدل) واقع ہوتا ہے:

( يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ) ۱۳:۳۹

''خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس (اصل کتاب لوح محفوظ موجود ہے)۔،،

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا، باب ۱۳، الوافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۲) بحار، باب البداء والنسخ، ج ۲، ص ۱۳۳

۴۹۹

( لِلَّـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ ) ۳۰:۴

''کیونکہ (اس سے) پہلے اور بعد (غرض ہر زمانے میں) ہر امر کا اختیار خدا ہی کو ہے۔،،

اس قضائے الہٰی پر متعدد روایات بھی دلالت کرتی ہیں:

i ) تفسیر علی بن ابراہیم میں عبد اللہ بن مسکان اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جب شب قدر آتی ہے تو ملائکہ، روح اور انسانی اعمال لکھنے والے فرشتے دنیا کے آسمان پر نازل ہوتے ہیں اور اس سال کے تمام مقدرات الہٰی ثبت کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز میں تقدیم و تاخیر یا کمی بیشی کرنا چاہے تو خالق مخصوص فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ اللہ جسے چاہے مٹا ڈالے اور جس کا ارادہ کرے اسے ثابت رکھے۔ عبد اللہ ابن مسکان کہتا ہے، میں نے امام صادق(ع) کی خدمت میں عرض کی: کیا ہر چیز کتاب الہٰی میں ثبت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ میں نے عرض کی: تو پھر کیا ان مقدراتِ الہٰی میں تبدیلی آسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔،،(۱)

ii ) تفسیر علی بن ابراہیم میں عبد اللہ بن مسکان ، امام محمد بن باقر، امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم (علیہم السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اللہ کے اس ارشاد کی تفسیر میں فرمایا:

( فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ) ۴۴:۴

''اسی رات کو تمام دنیا کے حکمت و مصلحت کے (سال بھر کے) کاموں کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔،،

____________________

(۱) نقل از بحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۳

۵۰۰