البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314031 / ڈاؤنلوڈ: 9314
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟

٭ روایات کے کمزور پہلو

٭ روایات میں تضاد

٭ سات حروف کی تاویل و توجیہ

٭ قریب المعنی الفاظ

٭ سات ابواب

٭ سات ابواب کا ایک اور معنی

٭ فصیح لغات

٭ قبیلہ ئ مضر کی لغت

٭ قراءتوں میں اختلاف

٭ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

٭ اکائیوں کی کثرت

٭ سات قراءتیں

٭ مختلف لہجے

۲۲۱

اہل سنت کی روایات بتاتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ پہلے ان روایات کو بیان کیا جائے اور پھر ان کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی جائے۔

۱۔ طبری نے یونس اور ابی کریب سے انہوں نے ابی شہاب سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قال:''أقرأنی جبرئیل علی حرف فراجعته، فلم أزل أستزیده فیزیدنی حتی انتهی الی سبعة أحرف،،

''مجھے جبرئیل نے ایک حرف میں پڑھایا۔ میں نے دوبارہ جبرئیل کی طرف رجوع کیا اور یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔،،

اس روایت کومسلم نے حرملہ سے، حرملہ نے ابن وھب سے اور اس نے یونس سے نقل کیا ہے۔(۱) بخاری نے دوسری سند سے یہ روایت بیان کی ہے اور اس کا مضمون ابن برقی اور ابن عباس کے ذریعے نقل کیا ہے۔(۲)

۲۔ ابی کریب نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کی سند سے اس نے اپنے جد کی سند سے اور اس نے ابی ابن کعب کی سند سے روایت کی ہے۔ ابیّ کہتا ہے:

''کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراءة أنکرتها علیه، ثم دخل رجل آخر فقرأ قراء ة غیر قراء ة صاحبه، فدخلنا جمیعاً علی رسول الله قال: فقلت یا رسول الله ان هذا قرأ قراء ة أنکرتها علیه، ثم دخل هذا فقرأ قراءة غیر قراءة صاحبه، فامرهما رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقرأا ، فحسن رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) شأهما، فوقع فی نفسی من التکذیب، ولا اذ کنت فی الجاهلیة فلما رأی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ما غشینی ضرب صدری، ففضت عرقا کأنما أنظر الی الله فرقا فقال لی: یاأبی أرسل الی ان اقرأ القرآن علی حرف، فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثانیة أن اقرأ القرآن علی حرف فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثالثة أن اقرأه علی سبعة أحرف، و لک بکل ردة رددتها مسألة تسألنبها، فقلت: اللهم اغفر لأمتی اللهم اغفر لأمتی، و اخرت الثالثه لیوم یرغب فیه الی الخلق کلهم حتی ابراهیم علیه السلام،،

____________________

(۱)صحیح مسلم باب ان القرآن انزل علی سبعة أحرف ، ج ۲، ص ۲۰۲، طبع محمد علی صبیح، مصر۔

(۲)صحیح البخاری باب انزل القرآن علی سبعة أحرف ،ج ۲، ص ۱۰۰، مطبع عامرہ۔

۲۲۲

''میں مسجد رسول میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھنی شروع کی۔ اس نے ایک ایسی قراءت پڑھی جسے میں نہ جانتا تھا۔ اس اثنا میں دوسرا آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ایک اور قراءت سے نماز شروع کی۔ پھر جب ہم سب نماز پڑھ چکے تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قراءت سے نمام پڑھی کہ مجھے تعجب ہوا اور دوسرا آیا تو اس نے اس کے علاوہ ایک اور قراءت پڑھی۔ آپ نے ان دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ ان دونوں نے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، آپ نے دونوں کی نماز کو سراہا، اس سے میرے دل میں تکذیب آئی لیکن ایسی تکذیب نہیں جیسی زمانہ جاہلیت میں تھی۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے میری یہ کیفیت دیکھی تو میرے سینے پر ہاتھ مارا جس سے میں شرم کے مارے پسینہ سے شرابور ہوگیا اور یوں لگا جیسے میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: اے اُبیّ! مجھے یہ حکم دیا گیا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے خالق کے دربار میں درخواست کی کہ میری امت پر اس فریضہ کو آسان فرما مجھے دوبارہ یہی حکم ملا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے پھر وہی درخواست دہرائی۔ اس دفعہ مجھے حکم دیا گیا کہ میری ہر دعا، جو قبول نہیں ہوئی، کے عوض ایک دعا قبول کی جائے گی۔ اس پر میں نے یہ دعا مانگی: پالنے والے! میری امت کو بخش دے۔ پالنے والے! میری اُمّت کو بخش دے اور تیسری دعا کو اس دن کے لیے محفوظ رکھا ہے جس دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک میری دعا کے محتاج ہوں گے۔،،

اس روایت کو مُسلم نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۱) طبری نے بھی ایک اور سند سے معمولی اختلاف کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے اور تقریباً اسی مضمون کی یونس بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ صنعانی کے ذریعے اُبیّ بن کعب سے روایت کی گئی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۳۔

۲۲۳

۳۔ ابی کریب نے سلیمان بن صرد کی سند سے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے۔ اُبیّ بن کعب کہتا ہے:

قال: ''رحت الی المسجد فسمعت رجلاً یقرأ فقلت: من أقرأک؟ فقال: رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فانطلقت به الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقلت: استقریئ هذاں، فقرأ فقال: أحسنت قال: فقلت انک أقرأتنی کذا و کذا فقال: وأنت قد أحسنت قال: فقلت قد أحسنت قد أحسنت قال: فضرب بیده علی صدری، ثم قال: اللهم أذهب عن أبیّ الشک قال: ففضت عرقاً و امتلأ جو فی فرقاً ثم قال: ان اللکین أتیانی فقال أحدهما: اقرأ القرآن علی حرف، و قال الآخر: زده قال: فقلت زدنی قال: اقرأه علی حرفین حتی بلغ سبعة أحرف فقال: اقرأ علی سبعة أحرف،،

''میں مسجد میں داخل ہوا تو ایک آدمی کی قراءت سُنی، میں نے اس سے دریافت کیا تمہیں یہ قراءت کس نے پڑھائی ہے، اس نے جواب دیا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے پڑھائی ہے چنانچہ میں اسے لے کر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی قراءت سنیئے۔ اس شخص نے قراءت پڑھی اور سول اللہؐ نے سننے کے بعد فرمایا: عمدہ ہے۔ میں نے کہا: آپ نے تو مجھے اس طرح اور اس طرح قراءت پڑھائی تھی۔ آپ نے فرمایا: یقیناً تمہاری قراءت بہت اچھی ہے میں نے آپ کی نقل اتارتے ہوئے کہا: تمہاری قراءت بھی بہت اچھی ہے۔ آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا: پالنے والے! اُبیّ کے دل شک دور فرما۔ میں (اُبیّ) خجالت کے مارے پسینے سے شرابور ہو گیا اور میری پورا وجود خوف سے لرزنے لگا۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے پاس دو فرشتے نازل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ دوسرے فرشتے نے پہلے سے کہا: اس ایک حرف میں اضافہ کریں۔ میںؐ نے بھی فرشتے سے یہی کہا۔ فرشتے نے کہا: قرآن کو دو حرفوں میں پڑھیئے۔ فرشتہ حروف کی تعداد بڑھاتا گیا یہاں تک کہ فرشتے نے کہا قرآن کو سات حروف میں پڑھیئے۔،،

۲۲۴

۴۔ ابو کریب نے عبد الرحمن بن ابی بکرہ کی سند سے اور اس نے اپنے باپ کی سند سے روایت کی ہے۔ ابو کریب کہتا ہے:

قال: ''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): قال جبرئیل: اقرأ القرآن علی حرف فقال میکائیل استزده فقال: علی حرفین، حتی بلغ ستة أو سبعة أحرف و الشک من أبی کریب فقال: کهها شاف کاف ما لم تختم آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب کقولک: هلم و تعال،،

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جبرئیل نے کہا قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ میکائیل نے کہا کہ جبرئیل سے درخواست کریں کہ اسے بڑھا دے، میریؐ درخواست پر جبرئیل نے کہا دو حروف میں پڑھیئے۔ اس طرح حروف کو بڑھاتے گئے یہاں تک کہ چھ یا ست تک پہنچ گئے (چھ اور سات میں تردد ابی کریب کی طرف سے ہے) پھر آپ نے فرمایا: ان میں سے جس حرف میں بھی پڑھیں کافی ہے اور سب کا مطلب ایک ہے، جس طرح ''ھلم،، اور ''تعال،، دونوں کا معنی ہے ''آجاؤ،، بشرطیکہ رحمت کی آیہ عذاب میں اور عذاب کی آیہ رحمت میں تبدیل نہ ہو۔،،

۵۔ طبری نے احمد بن منصور کی سند سے اس نے عبد اللہ بن ابی طلحہ سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے:

قال: ''قرأ رجل عند عمر بن الخطاب فغیر علیه فقال: لقد قرأت علی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فلم یغیر علی قال: فاختصما عند النبی فقال: یا رسول الله ألم تقرئنی آیة کذا و کذا؟ قال: بلی، فوقع فی صدر عمر شیئ فعرف النبی ذلک فی وجهه قال: فضرب صدره وقال: أبعد شیطاناً، قالها ثلاثاً ثم قال: یا عمر ان القرآن کله سوائ، ما لم تجعل رحمةً عذاباً و عذاباً رحمة،،

''ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب کے سامنے قرآن پڑھا حضرت عمر بن خطاب نے اس پر اعتراض کیا اور اس کی اصلاح کی کوشش کی۔ اس شحص نے کہا: میں نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے سامنے بھی اسی طرح قراءت پڑھی تھی۔ لیکن آپ نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں فیصلے کے لیے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

۲۲۵

اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! کیا آپ نے مجھے اس آیہ کی قراءت اس طرح نہیں پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی۔ حضرت عمر کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے چہرے پر نمایاں محسوس فرمایا۔ راوی کہتا ہے: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے سینے پر ہاتھ مارا اور تین مرتبہ فرمایا: شیطان کو اپنے آپ سے دور رکھو۔ اس کے بعد فرمایا: یہ سب قرآن ایک جیسے ہیں جب تک کسی رحمت کو عذاب میں اور عذاب کو رحمت میں تبدیل نہ کرو۔،،

طبری نے یونس بن عبد الاعلیٰ سے حضرت عمر اور ہشام بن حکیم کا اسی قسم کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کی سند خود حضرت عمر تک پہنچتی ہے۔

بخاری، مسلم اور ترمذی نے بھی حضرت عمر کا ہشام کے ساتھ ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کی سند اور حدیث کے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔(۱)

۶۔ طبری نے محمد بن مثنی سے اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے:

قال: ''فأتاه جبرئیل فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمّتک القرآن علی حرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک قال: ثم أتاه الثانیة فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمتک القرآن علی حرفین فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک، ثم جاء الثالثة فقال: ان الله یأمرک أن تقری، امّتک القرآن علی ثلاثة أحرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لاتطبق ذلک، ثم جاء الرابعة فقال: ان الله یأمرک أن قری، أمّتک القرآن علی سبعة أحرف، فأنما حرف قرأوا علیه فقد أصابوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قبیلہ بنی غفار کے ہاں تھے، اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اُمّت کو ایک حرف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امّت اس کی قدرت نہیں رکھتی

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۲۔ صحیح بخاری، ج ۳، ص ۹۰ اور ج ۶، ص ۱۰۰،۱۱۱، ج ۸، ص ۵۳۔۲۱۵۔صحیح ترمذی، بشرح ابن العربی باب ما جاء انزل القرآن علی سبعة احرف ، ج ۱۱، ص ۶۰۔

۲۲۶

اُبیّ کہتا ہے: جبرئیل دوسری مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی اُمّت کو دو حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخوات ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ تیسری مرتبہ جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو تین حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ جبرئیل پھر چوتھی مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو سات حروف میں قرآن پڑھایئے، ان میں سے جس حرف پر بھی وہ قرآن پڑھے صحیح ہے۔،، اس روایت کو مسلم نے اپنی صحیح(۱) میں بیان کیا ہے۔ نیز طبری نے اس روایت کے کچھ حصے احمد بن محمد طوقی سے، اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے معمولی اختلاف سے بیان کئے ہیں۔ اس کے علاوہ طبری نے محمد بن مثنیٰ سے اور اس نے ابیّ بن ابی کعب سے روایت کی ہے۔

۷۔ طبری نے ابی کریب سے اس نے زر سے اور اس نے اُبیّ سے نقل کیا ہے:

قال: ''لقی رسول الله صلی الله علیه وآله جبرئیل عند أحجار المرائ ۔فقال: انی بعثت الی أمّة أمیین منهم الغلام و الخادم، و فیهم الشیخ الفانی و العجوز فقال جبرئیل: فلیقرأوا القرآن علی سبعة أحرف،، (۲)

''مقام''مراء احجار،، پر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جبرئیل کو دیکھا آپ نے فرمایا میں ایسی ان پڑھ قوم کی طرف بھیجا گیاہوں جس میں غلام، بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں۔ جبرئیل نے فرمایا: آپ کی امّت سات حروف میں قرآن پڑھے۔،،

۸۔ طبری نے عمرو بن عثمان عثمانی سے، اس نے مقبری سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): ان هذا القران انزل علی سبعة أحرف، فاقرأوا و لاحرج، و لکن لا تختموا طذکر رحمة بعذاب، ولا ذکر عذاب برحمة،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ جس حرف میں چاہو اسے پڑھو، کوئی حرف نہیں۔ لیکن یہ خیال رکھو کہ رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ میں بدل نہ دینا۔،،

___________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲، ص ۲۰۳۔

(۲) اس روایت کو ترمذی نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ج ۱۱، ص ۶۲۔

۲۲۷

۹۔ طبری نے عبید بن اسباط سے، اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قرآن چار حرفوں میں نازل کیا گیا ہے علیم، حکیم، غفور اور رحیم،،۔

اسی قسم کی روایت طبری نے ابی کریب سے اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کی ہے۔

۱۰۔ طبری سعید بن یحییٰ سے، اس نے عاصم کی سند سے، اس نے زر سے اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، عبد اللہ ابن مسعود کہتا ہے:

قال: ''تمارینا فی سورة من القرآن، فقلنا: خمس و ثلاثون، أوست و ثلاثون آیة، قال: فانطلقنا الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فوجدنا علیاً یناجیه قال: فقلنا انما اختلفنا فی القراء ة قال: فاحمر وجه رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و قال: انما هلک من کان قبلکم باختلافهم بینهم قال: ثم أسرَّ الی علی شیأا فقال لنا علی: ان رسول الله یأمرکم ان تقرأوا کما علّمتم،،

''قرآن کے کسی سورۃ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا اس کی آیئتیں پینتیس ہیں اور بعض نے کہا چھتیس ہیں۔ چنانچہ ہم رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ حضرت علی(علیہ السلام) سے راز و نیاز میں مشغول ہیں۔ ابن مسعود کہتا ہے کہ ہم نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! قراءت کے بارے میں ہمارا آپس میں اختلاف ہو رہا ہے۔ ہماری بات سن کر آپ کا چہرہ مبارک غصّے سے سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا ہوگئے

پھر آپ نے آہستہ سے امیر المومنین (علیہ السلام) سے کچھ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) نے ہم سے کہا: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ جس طرح تمہیں قرآن پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔،،(۱)

____________________

(۱) یہ سب روایتیں تفسیر طبری، ج ۱، ص ۹۔۱۵ میں مذکور ہیں۔

۲۲۸

۱۱۔ قرطبی نے اُبی داؤد سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:''یا اُبیّ انی قرأت القرآن ۔فقیل لی: علی حرف أوحرفین ۔فقال الملک الذی معی: قل علی حرفین ۔فقیل لی: علی حرفین أو ثلاثة ۔فقال الملک الذی معی: قل علی ثلاثة، حتی بلغ سبعة أحرف، ثم قال: لیس منها الا شاف کاف، ان قلت سمیعاً، علیماً، عزیزاً، حکیماً، مالم تخلط آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب،،

''اے اُبی! میں نے قرآن کی تلاوت کی تو مجھ سے پوچھا گیا: آپ ایک حرف میں قرآن پڑھیں گے یا دو حرف میں؟ میرے ساتھ موجود فرشتے نے کہا: کہیئے دو حرف میں۔ فرشتے نے کہا: کہیئے تین حروف میں۔ اس طرح سات حروف تک سلسلہ جا پہنچا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ ان سات حروف میں سے جس میں چاہیں پڑھیں، کافی ہے۔ چاہیں تو سمیعاً پڑھیں یا علیماً یا عزیزاً یا حکیماً پڑھیں البتہ عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ سے اور رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ سے خلط ملط نہ کردیں۔،،(۱)

i ۔ ان روایات کے کمزور پہلو

یہ تھیں اس مضمون کی اہم روایات جو اہل سُنّت کے سلسلہئ سند سے منقول ہیں اور یہ سب روایتیں صحیحہ زرارہ کی مخالف ہیں جو حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں:

''ان القرآن واحد نزل من عند واحد، و لکن الاختلاف یحیئ من قبل الرواة،،

''قرآن ایک ہی ہے اور ایک ہی ذات کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اختلاف راویوں کے پیدا کردہ ہیں۔،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۳۔

(۲) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوادر روایت ۱۲۔

۲۲۹

فضیل بن یسار نے حضرت ابا عبد اللہ(ع) سے پوچھا: یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔ امام(ع) نے فرمایا:

''أبو عبد الله علیه السلام: کذبوا أعداء الله ولکنه نزل علی حرف واحدمن عند الواحد،،

''یہ دشمنان خدا جھوٹ بولتے ہیں۔ قرآن کو صرف ایک حرف میں اور ایک ذات کی طرف سے نازل کیا گیا۔،،(۱)

اسسے پہے بطور اختصار بیان کیا جاچکا ہے کہ دینی معاملات میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد واحد مرجع و مرکز کتابِ خدا اور اہل بیت پیغمبرؐ ہیں جن سے خدا نے ہر قسم کے رجس و ناپاکی کو دور رکھا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس کی مزید وضاحت بعد میں آئے گی۔

ان روایات کی کوئی وقعت نہیں ہے جو اہل بیتؑ کی صحیح روایات کی مخالف ہیں۔ اس لئے دوسری روایات کی سند کے بارے میں کسی بحث کی نوبت نہیں آئی اور روایات اہل بیتؑ کی مخالفت کی وجہ سے ہی وہ روایات ناقابل اعتبار قرار پاتی ہیں اس کے علاوہ بھی ان روایات میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بعض روایات ایسی ہیں جن کے سوال و جواب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

ii ۔ روایات میں تضاد

تضاد کا ایک نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق جبرئیل نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو ایک حرف میں قرآن پڑھایا اور آپ نے مزید حروف کی درخواست کی یہاں تک کہ یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔

____________________

(۱) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوارد روایت ۱۳۔

۲۳۰

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف میں اضافہ تدریجاً ہوا ہے بعض روایات کے مطابق یہ اضافہ ایک ہی نشست میں ہوا اور آپ نے ان میں اضافے کا مطالبہ میکائیل کی ہدایت پر کیا اور جبرئیل نے سات حرف تک اضافہ کردیا اور بعض روایات کے مطابق میکائیل کی رہنمائی اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی درخواست کے بغیر ہی جبرئیل آسمان پر جاتے اور نازل ہوتے تھے حتیٰ کہ سات حروف مکمل ہوئے۔

تضاد کا تیسرا نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کہتی ہیں کہ اُبیّ بن کعب مسجد میں داخل ہوا اور کسی کو اپنی قراءت کے خلاف قرآن پڑھتے سنا اور بعض روایات یہ کہتی ہےں کہ اُبیّ بن کعب پہلے سے مسجد میں موجود تھا اور بعد میں دو آدمیوں نے مسجد میں داخل ہو کر اس کی قراءت کے خلاف قرآن پڑھا۔ اس کے علاوہ ان روایات میں وہ کلام بھی مختلف طریقے سے مذکور ہے جو

آنحضرت(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اُبیّ سے فرمایا۔

سوال و جواب میں مناسبت نہ ہونے کا نمونہ ابن مسعود کی روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) کا یہ فرمانا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جس طرح تمہیں پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔ یہ جواب سائل کے سوال سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ابن مسعود نے آیتوں کی تعدادکے بارے میں پوچھاتھا آیہ کی کیفیت اور قراءت کے بارے میں نہیں۔

ان تمام اشکالات کے علاوہ بھی قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کا کوئی معنی نہیں بنتا اور کوئی صاحب فکر و نظر کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔

۲۳۱

سات حروف کی تاویل و توجیہ

سات حروف کی تاویل و توجیہ میں چند اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ہم ان میں سے اہم اقوال اور ان میں موجود سقم اور اشکال بیان کریں گے:

۱۔ قریب المعنی الفاظ

سات حروف کی پہلی توجیہ اور تاویل یہ کی گئی ہے کہ الفاظ مختلف ہیں اور ان کے معانی قریب قریب ہیں، جس طرح عجل اسرع اور اسع ہیں۔ ان تینوں الفاظ کا معنی ہے۔ ''جلدی کرو،، یہ حروف حضرت عثمان کے زمانے تک موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے ان حروف کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی چھ حروف پر مشتمل قرآنوں کو نذر آتش کرنے کا حکم دے دیا۔

اس تاویل کو طبری اور علماء کی ایک جماعت نے بھی اختیار کیا ہے(۱) قرطبی کا کہنا ہے کہ اکثر اہل علم کا یہی نظریہ ہے(۲) اور ابو عمرو بن عبد البر کی رائے بھی یہی ہے(۳) ۔

اس تاویل پر ابن ابی بکرہ اور ابی داؤد کی روایت کے علاوہ یونس کی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو ابن شہاب سے منقول ہے، اس میں انہوں نے کہا ہے:

سعید بن المسیب نے مجھے خبر دی ے کہ جس شخص کی طرف خدا نے آیہ کریمہ( إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ) ۱۶:۱۰۳

یعنی اس (رسول) کو تو ایک بشر قرآن سکھاتا ہے،، میں نے جس کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ ایک کاتب وحی تھا جو اس لیے شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا کہ آپ اس سے آیتوں کے آحر میں سمیع علیم یا عزیز حکیم لکھواتے تھے پھر آپ سے پوچھتا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! عزیز حکیم لکھوں یا سمیع علیم یا عزیز علیم؟ آپ فرماتے: ان

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۱۵۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

(۳) التبیان، ص ۳۹۔

۲۳۲

میں سے جو بھی لکھو صحیح ہے۔ اس بات سے یہ شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ محمدؐ نے قرآن میرے سپرد کرد یا ہے، میں جو چہے لکھوں۔،،

نیز یونس کی اس قراءت سے بھی استدلال کیا گیا ہے:''ان ناشئة اللیل هی اشد وطا و اصوب قیلا ۔،، (۱) کچھ لوگوں نے یونس پر اعتراض کیا: اے ابو حمزہ قرآن میں تو ''اقوم،، ہے۔ یونس نے جواب دیا: اقوم اصوب اور اھدی کا معنی ایک ہی ہے۔

اسی طرح ابن مسعود کی قراءت ''ان کانت الا زقیۃ واحدۃ،، سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس نے ''ان کانت صیحۃ واحدۃ،، کی بجائے ''ان کانت الا ذقیۃ واحدۃ،، پڑھا ہے۔ اس لیے کہ''صیحة،، اور''زقیة،، کا معنی ایک ہے۔(۱)

اس کے علاوہ طبری کی یہ روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔ طبری نے محمد بن بشار اور ابی السائب اور انہوں نے ہمام سے روایت کی ہے:

''ابو الدرداء ایک شخص کو آیہ کریمہ،( إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ﴿﴾ طَعَامُ الْأَثِيمِ ) (۴۴:_۴۴_۴۳) پڑھ رہا تھا اس سے یہ آیہ نہیں پڑھی جارہی تھی اور وہ بار بار بتانے کے باوجوداس شخص سے ''طعام الاثیم،، نہیں پڑھا گیا تو ابو الدرداء نے اس سے کہا کہ اس کی جگہ پڑھو''ان شجرة الزقوم طعام الفاجر،، اس لیے کہ ''اثیم،، اور ''فاجر،، کا معنی ایک ہے۔،،(۲)

اس کے علاوہ اس تاویل کی دلیل میں ان روایات کو پیش کیا جاتا ہے جن میں یہ کہہ کر قراءت میں کافی گنجائش رکھی ہے:

ما لم تختم اٰیة رحمة بعذاب او اٰیة عذاب برحمة (یعنی) قرآن میں اتنی تبدیلی کرسکتے ہو کہ رحمت کی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل نہ ہوجائے۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج۱،ص ۱۸۔

(۲) ایضاً، ج ۲۵، ص ۷۸۔ آیہ مبارکہ کی تفسیر کے ذیل میں۔

۲۳۳

اس حد بندی کی یہی معنی ہوسکتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات کلمات میں سے بعض کو بعض کی جگہ استعمال کرنا ہے۔ البتہ اس سے صرف اس صورت کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جس سے رحمت کی کوئی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل ہوجائے۔ بنابرایں ان روایات میں سے مجمل(۱) روایات کی مبین(۲) روایات پر محمول کرنے کے بعد ان سے وہی معنی مراد لیے جائیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔

مؤلف: سات حروف کے بارے میں جتنی بھی تاویلیں کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی روایت سے سازگار نہیں، چانچہ اس کے بارے میں آئندہ بیان کیا جائے گا۔ بنابرایں یہ تمام روایات ناقابل قبول ہیں کیونکہ ان کے مفہوم کو اپنانا اور ان پر عمل کرنا ناممکن ہے، اس لیے کہ:

اولا: یہ تاویل، قرآن کے بعض معانی پر منطبق ہوسکتی ہے جس کی سات حروف سے تعبیر ہوسکتی ہو۔ اور یہ بدیہی امر ہے کہ قرآن میں اکثریت ان معانی کی ہے جنہیں مختلف الفاظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن ان سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

ثانیاً: اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے بعض الفاظ جن کے معنی ملتے جلتے ہوں، میں تبدیل کرنے کی اجازت دی ے اور گذشتہ روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے تو یہ احتمال، اس قرآن کی بنیاد کو منہدم کرنے کا باعث بنے گا جو ایک ابدی معجزہ اور پوری انسانیت پر خدا کی طرف سے حجّت ہے، اور کسی بھی عاقل کو اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ یہ احتمال حقیقی قرآن کے متروک اور اس کے بے وقعت ہوے کا متقاضی ہے۔

____________________

(۱) ایسا کلام جس کا معنی واضح نہ ہو۔ (مترجم)

(۲) ایسا کلام جس کا معنی واضح ہو۔ (مترجم)

۲۳۴

کوئی عاقل یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سورہ یٰس میں موجود آیات کی جگہ ان الفاظ کی تلاوت کی اجازت دی ہو:''یٰس والذکر العظیم، انک لمن الانبیآئ، علی طریق سویّ، انزال الحمید الکریم، التخوف قوماً خوف اسلافهم فهم ساهون ۔

ہم تو کہیں گے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں جو اسے جائز سمجھتے ہیںاللهمّ ان هٰذا الا بهتان عظیم ، پالنے والے! تو جانتا ہے کہ یہ تیرے رسول پر بہتان عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:

( قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ) ۱۰:۱۵

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔،،

جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو قرآن میں اپنی طرف سے کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہیں ہے تو آپ دوسروں کو کیسے اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔

رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے براء بن عازب کو ایک دعا کی تعلیم فرمائی تھی جس میں یہ جملہ بھی شامل تھا: ''و نبیک الذی ارسلت،، اس کو براء نے ''و رسولک الذی ارسلت،، پڑھا تو آپ نے براء کو ٹوکا اور فرمایا ''نبی،، کی جگہ ''رسول،، مت پڑھو۔(۱)

____________________

(۱) التبیان، ص ۵۸۔

۲۳۵

جب دعا کی یہ شان اور اہمیت ہے تو قرآن کی اہمیت کتنی زیادہ ہوگی۔

اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف کے مطابق قرآن پڑھا ہے اور ان روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے توپھر مدعی کو ان سات حروف کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرنی چاہیے جن کے مطابق رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے قرآن پڑھا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے:

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۱۵:۹

''بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،

ثالثاً: گذشتہ روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ قرآن کو سات حروف میں نازل کرنے کی حکمت، اُمّت کی سہولت اور آسانی ہے، اس لیے کہ اُمّت ایک حرف میں قراءت کی استطاعت نہیں رکھتی اور اسی غرض سے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف تک اضافہ کرنے کی درخواست کی تھی۔

لیکن آپ نے دیکھا کہ قراءتوں میں اختلاف باعث بنا کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گردانیں، حتیٰ کہ حضرت عثمان نے قراءت کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی قرآنوں کو نذر آتش کردیا۔

اس سے ہم درج ذیل نتائج تک پہنچتے ہیں:

۱۔ قراءتوں میں اختلاف اُمّت کے لیے ایک عذاب تھا حضرت عثمان کے دور میں ظاہر ہوا۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا سے ایسی چیز کا مطالبہ کس طرح کرسکتے تھے۔ جس میں اُمّت کا فساد و نقصان ہو اور کیایہ صحیح ہے کہ خدا ایسی درخواست منطور فرمالے؟ جبکہ بہت سی روایات میں اختلاف سے روکا گیا ہے اور اختلاف کو امّت کی ہلاکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ بعض روایات تو یہاں تک کہتی ہیںکہ جب آپ نے قراءتوں میں اختلاف کی بات سنی تو غصے سے آپ کا چہرہ مبارک سُرخ ہوگیا۔ ان میں س کچھ روایات کا ذکر ہو چکا ہے اور کچھ روایات کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔

۲۳۶

۲۔ گذشتہ روایات کا مفہوم یہ تھا کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: میری اُمّت ایک حرف میں قرآن پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ عقل اس کو نبی کریمؐ کی طرف نسبت دینے کی اجازت نہیں دیتی۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عثمان کے بعد اُمّت پیغمبر، جس میں مختلف عناصر قبیلے اور مختلف زبانوں والے شامل تھے، قرآن کو ایک حرف میں پڑھنے پر قادر تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں ایک قراءت پر اتفاق کرنا کوئی مشکل تھا جبکہ اس وقت امّت پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فصیح عربوں پر مشتمل تھی۔

۳۔ قراءتوں میں اختلاف، جس کی بنیاد پر حضرت عثمان نے قراءتوں کو ایک حرف میں منحصر کیا، خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی تھا۔ آپ نے ہر قاری کی تائید بھی فرمائی تھی اور مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان تمام قراءتوں کو تسلیم کرلیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ قراءتوں میں اختلاف خدا کی طرف سے رحمت ہے۔

اب حضرت عثمان اور ان کے تابعین کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ رحمت کے دروازے بند کردیں؟ جبکہ رسول اعظمؐ نے قراءت قرآن روکنے سے ممانعت فرمائی تھی۔

مسلمانوں کے پاس کیا جواز تھا کہ وہ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے قول کو تو ٹھکرا دیں اور حضرت عثمان کی بات مان کر اس پر عمل کریں؟

کیا مسلمانوں کی نظر میں حضرت عثمان، رحمۃ العالمین سے زیادہ مہربان اور ہمدرد تھے؟

معاذ اللہ کیا حضرت عثمان کے پیش نظر ایسی حکمت اور مصلحت تھی جس سے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خبر تھی؟ یا حاشا وکلا حضرت عثمان پر ان حروف کے منسوخ ہونے کی وحی نازل ہوئی تھی؟!

۲۳۷

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سات حروف سے متعلق روایات کی یہ بدنما تاویل اس قابل نہیں ہے کہ اسے ردّ بھی کیا جائے۔ اسی وجہ سے علمائے اہل سُنّت میں سے متاخرین نے اس تاویل کو ٹھکرا دیا ہے اور ابو جعفر محمد بن سعد ان النحوی اور حافظ جلال الدین سیوطی ان روایات کو مشکل اور متشابہ قرار دینے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان روایات کا کوئی مفہوم واضح نہیں ہے۔(۱) حالانکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان روایات کا مفہوم واضح ہے اور جو بھی ان روایات کا بنظر غائر مطالعہ کرے، اس کے لیے کوئی شک و تردد باقی نہیں رہتا۔

۲۔ سات ابواب

سات حروف کی تفسیر و تاویل کے سلسلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد سات ابواب ہیں اور قرآن ان سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ان کے عنوان یہ ہیں:

i ۔ آیات زجر (نہی)۔

ii ۔ آیات امر۔

iii ۔ آیات حلال۔

iv ۔ آیات حرام۔

v ۔ آیات محکم۔

vi ۔ آیات متشابہ۔

vii ۔ آیات امثال۔

اس نظریہ پر یونس کی روایت سے استدلال کیا گیا ہے، جسے اس نے ابن مسعود کی سند سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

____________________ _

(۱) التبیان، ص ۶۱۔

۲۳۸

انه قال: ''کان الکتاب الأول نزل من باب واحد علی حرف واحد، و نزل القرآن من سبعة أبواب، و علی سبعة أحرف: زجر، و أمر، و حلال، و حرام، و محکم، و متشابه، و أمثال ۔فأحلّوا حلاله، و حرّموا واعتبروا بأمثاله، و اعملوا بمحکمه، و آمنوا بمتشابهه، و قولوا آمنا به کل من عند ربنا،،

''پہلی آسمانی کتاب کا ایک ہی باب تھا اور وہ ایک ہی حرف پر نازل کی گئی تھی۔ قرآن مجید سات ابواب اور سات حروف میں نازل کیا گیاہے۔ زجر، امر، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔ حلال خدا کو حلا ل اور حرام خدا کو حرام سجھو، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جائے اسے انجام دو اور جس چیز سے تمہیں منع کیا جائے اس سے باز آجاؤ، قرآن کی مثالوں سے عبرت حاصل کرو، محکم آیات پر عمل کرو اور متشابہ آیات پر ایمان لے آؤ اور کہو ہم اس پر ایمان لے آئے یہ سب کچھ ہمارے ربّ کی طرف سے ہے۔،،(۱)

اس نظریہ پر بھی چند اعتراضات ہیں:

۱۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سات حروف، جن میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہیں، اور سات ابواب، جن میں قرآن تقسیم ہوا ہے اور ہیں، لہذا اس روایت کو ان مجمل روایات کی تفسیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

۲۔ یہ روایت ابو کریب کی روایت سے متصادم ہے، جو اس نے ابن مسعود سے نقل کی ہے اور جس میں کہا گیا ہے:

ان الله انزل القرآن علی خمسة احرفٍ ۔حلال و حرام و محکم و متشابه و امثال ۔(۲) (یعنی) اللہ نے قرآن کو پانچ حروف ، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال میں نازل فرمایا ہے

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۳۲۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۳۹

۳۔ اس روایت کا مفہوم مضطرب و متزلزل ہے۔ کیونکہ ''زجر،، اور ''حرام،، ایک چیز ہے، اس طرح چھ ابواب ہو جائیں گے نہ کہ سات۔ اس کے علاوہ قرآن میں اور بہت سے موضوعات کا بھی ذکر ہے جو ان سات ابواب میں شامل نہیں ہیں۔جیسے: مبدائ، معاد، قصّے، احتجاجات ، دلائل اور علوم و معارف ہیں اور اگر اس تاویل کے قائل کا مقصد یہ ہے کہ باقی ماندہ موضوعات بھی محکم و متشابہ می داخل ہیں تو باقی پانچ ابواب، حلال، حرام، امر، زجر اور امثال کو بھی دوسرے موضوعات کی طرح محکم و متشابہ میں داخل ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح قرآن دو حروف محکم و متشابہ میں منحصر ہو جاتا۔ اس لیے کہ قرآن میں جو کچھ ہے و محکم یا متشابہ ہے۔

۴۔ سات حروف کی تفسیر، سات ابواب کرنا گذشتہ روایات سے سازگار نہیں کیونکہ گذشتہ روایات میں قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کی وجہ امّت کی سہولت بیان کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اُمّت ایک حرف پر قرآن پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔

۵۔ بعض گذشتہ روایات اس بات کی تصریح کرتی ہیں کہ سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں، جن میں قاریوں کا اختلاف ہے۔

فرض کیا اگر اس روایت کا معنی سات ابواب ہیں تب بھی اس ایک روایت کی وجہ سے ان متعدد روایات کے ظاہری معنی سے دستبردار نہیں ہوا جاسکتا اور نہ ہی یہ ایک روایت گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف کسی معنی کے لیے قرینہ اور علامت بن سکتی ہے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

بیہقی نے اپنی کتاب ''شعب الایمان،، میں عزوان ان ابی حاتم سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ جناب ابوذرؓ حضرت عثمان کے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے اور انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ اتفاق سے قریشی خاندان کے ایک شخص کی نظر ان پر پڑی۔ اس نے جناب ابوذرؓ سے کہا: ابوذر! یہاں کیوں کھڑے ہو؟ جناب ابوذر نے کہا: یہ لوگ مجھے ابوذر کاکیا قصور ہے کہ وہ دروازے پر کھڑا ہے اور اسے اندر آنے کی اجازت نہیں مل رہی۔ اس شخص کی سفارش پر جناب ابوذر کو اجازت مل گئی۔ آپ گھر میں داخل ہوئے اور سب سے آخر میں جا کر بیٹھ گئے۔ اس دوران حضرت عثمان نے کعب سے پوچھا: اگر ایک شخص اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کردے تو پھر بھی اسے (کوئی دوسرا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے) کسی گناہ کا خدشہ رہے گا؟ کعب نے جواب میں کہا: نہیں۔ جناب ابوذر کے ہاتھ میںایک عصا تھا، وہ اٹھے اور کعب کے دونوں کانوں کے درمیان عصا مار کر کہا: یہودی کے بیٹے! تمہارا یہ خیال ہے کہ اگر انسان زکوٰۃ ادا کردے تو اس کے ذمے اور کوئی حق نہیں رہتا؟! جبکہ خالق فرمایا ہے:

( وَجَاءَ فِرْعَوْنُ وَمَن قَبْلَهُ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ) ۵۹:۹

''اور اگرچہ اپنےاوپر تنگی ہی (کیوں نہ) ہو دوسروں کو اپنے نفس پر ترجیح دیتے ہیں۔،،

نیز خالق فرماتا ہے:

( وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ) ۷۶:۸

''اور اس کی محبت میں محتاج اور یتیمار اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔،،

۴۸۱

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۷۰:۲۴۔۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

جناب ابوذرنے اس مضمون کی اور آیات بھی انہیں سنا دیں۔(۱)

ابن حریر نے اپنی اسناد سے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''حق معلوم صدقہ(زکوٰۃ) کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس سے صلہ رحمی اور مہمان نوازی کی جاتی ہے محتاج کی نیاز مندی دور کی جاتی ہے اور محروموں اور ناداروں کی مدد کی جاتی ہے۔،،(۲)

بعض دوسرے مفسرین نے بھی ابن عباس کے اس قول کو اختیار کیا ہے۔ ان بیانات سے یہ ثابت ہوا کہ آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی بلکہ محکم ہے۔

۳۵۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) ۵۸:۱۲

''اے ایماندارو! جب پیغمبر سے کوئی بات کان میں کہنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کوئی خیرات دے دیا کرو یہی تمہارے واسطے بہتر اور پاکیزہ بات ہے۔ پس اگر تم کو اس کا مقدور نہ ہو تو بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہرمان ہے۔،،

____________________

(۱) کنز العمال، ج ۳، ص ۳۱۰

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۲۹، ص ۵۰

۴۸۲

اکثر علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ مذکورہ آیت اس آیہ کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے:

( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ) ۵۸:۱۳

''(مسلمانو)کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ (رسول کے ) کان میں بات کہنے سے پہلے خیرات کرلو جب تم لوگ (اتنا سا کام) نہ کرسکے اور خدا نے تمہیں معاف کردیا تو پابندی سے نماز پڑھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے باخبر ہے۔،،

شیعہ امامیہ اور اہل سنت کی کثیر روایات سے یہ ثابت ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد سوائے حضرت علی (علیہ السلام) کے کسی اور نے اس پر عمل نہیں کیا۔ آپ کے پاس ایک دینار تھا جسے آپ نے دس درہم میں بیچ دیا۔ آپ جب بھی رسول اللہ سے گفتگو اور راز و فرماتے اس سے پہلے ایک درہم صدقہ دے دیتے۔ اس طرح آپ نے دس مرتبہ ا س آیہ کریمہ پر عمل کیا اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے خلوت میں راز و نیاز کا شرف حاصل کیا۔

۴۸۳

آیہ نجویٰ پر عمل کی احادیث

۱۔ ابن بابویہ نے اپنی اسناد کے ذریعے مکحول سے روایت کی ہے:

''امیر المومنین(ع) نے فرمایا: اصحاب پیغمبر(ص) جو حافظ حدیث ہیں، بخوبی جانتے ہیںکہ ان میں سے جس شخص میں بھی کوئی فضیلت و منقبت موجود ہے، میں اس میں شریک ہوں کوئی دوسرا میرے ساتھ شریک نہیں ہے۔ میں (مکحول) نے عرض کی: یا امیر المومنین(ع) وہ کون سی فضیلیتیں ہیں جو آپ کی ذات سے مختص ہےں۔ آپ نے ان فضائل کو گننا شروع کیا حتیٰ کہ فرمایا: چوبیسویں فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر یہ آیت نازل فرمائی: اذا ناجیتم ۔۔۔ الخ میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہم میں بیچ دیا اور میں جب بھی رسول اللہ سے گفتگو کرتا پہلے ایک درہم صدقہ دیا کرتا تھا۔ خدا کی قسم! مجھ سے پہلے اور میرے بعد اصحاب پیغمبر(ص) میں سے کسی نے بھی اس آیت پر عمل نہیں کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی:( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا ) ۔۔۔ الخ(۱) ،،

۲۔ ابن جریر نے مجاہد سے روایت کی ہے:

''امیر المومنین(ع) نے فرمایا: کتاب الہیٰ میں ایک ایسی آیت ہے جس پر مجِھ سے پہلے کسی نے عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد اس میں کوئی عمل کرے گا۔ میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہم میں فروخت کیا۔ میں جب بھی رسول اللہ سے خلوت میں گفتگو کرتا تو ایک درہم صدقہ دیا کرتا۔ یہاں تک کہ یہ آیت نسخ ہوگئی اور مجھِ سے پہلے کسی نے بھی اس آیت پر عمل نہیں کیا اور وہ آیت یہ ہے:( نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا ) ۔۔،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر البرہان، ج ۲، ص ۱۰۹۹

(۲) تفسیر طبری، ج ۲۸، ص ۱۵

۴۸۴

۳۔ شوکانی کہتے ہیں عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن منذ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے امیر المومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اس آیت پر میرے علاوہ کسی نے بھی عمل نہیں کیا حتیٰ کہ یہ آیت نسخ ہوگئی۔ اس کی مدّت صرف ایک گھنٹہ تھی۔،،

۴۔ سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم اور ابن مردویہ نے امیر المومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''قرآن کریم میں ایک آیت ایسی ہے جس پر مجِ سے پہلے کسی نے عمل نہیں کیا اور نہ کوئی میرے بعد اس پر عمل کرے گا اور وہ آیہ نجویٰ:( نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا ) ۔۔۔۔ الخ ہے، میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہم صدقہ دیتا تھا۔ اس کے بعد آیہ کریمہ نسخ ہوگئی اور اس پر کسی نے عمل نہیں کیا تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا ) ۔۔ الخ۔،،(۱)

مسئلے کی تحقیق

آیہ شریفہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ کے ساتھ گفتگو کرنے سے پہلے صدقہ دینے میں انسانوں کی بھلائی اور نفوس کی تطہیر و صفائی ہے اور یہ ایک ایسا حک ہے جو انسانوں کی مصلحت پر مشتمل ہے۔ یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو صدقہ دے سکتا ہو لیکن جو شخص سے پہلے صدق نہ دے سکے تفسیر البرہان، تفسیر طبری و دیگر کتب احادیث، چنانچہ مرحوم مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار کی جلد ۹، ص ۱۷۰ میں اس مضمون کی متعدد روایات کو نقل کیا ہے۔

خدا اسے بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

____________________

(۱) فتح فتح القدیر، ج ۵، ص ۱۸۶۔ ا س مضمون کی روایات کثرت سے موجود ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:

۴۸۵

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص کی عقل اس فعل کو حسن سمجھتی ہے اور وجدان اس کی صحت کی گواہی دیتا ہے۔ کیونکہ اس حکم میں فقراء کا فائدہ ہے اس لیے کہ صدقات کے مستحق یہی لوگ ہیں۔ اس کے علاوہ اس سے رسول اللہ کا بوجھ ہلکا ہوجاتاہے کیونکہ اس کے نتیجے میں عام لوگوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ بہت کم ہوجاتا اور یہ کہ اس حکم کے بعد رسول اللہ سے گفتگو اور راز و نیاز کی خواہش وہی شخص کرے گا۔ جسکے دل میں مال دنیا سے زیادہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے راز و نیاز کی محبت ہو۔

ظاہر ہے یہ عمل ایسا نہیں جو کسی زمانے میں حسن رکھتا ہو اور کسی زمانے میں حسن نہ رکھتا ہو بلکہ یہ ہمہ وقت اس مصلحت پر مشتمل ہے اور عقل اسے حسن کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

دوسری آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ (امیر المومنین(ع) کے علاوہ) عام لوگوں نے مال کے لالچ میں آکر اور صدقے سے گھبرا کر رسول اللہ سے گفتگو اور راز و نیاز کو ترک کردیا تھا۔

اس صدقے کے نسخ ہونے کے اسباب

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ سے راز و نیاز اورخلوت کی ملاقات کو ترک کرنے سے بہت سے عمومی مفادات اور مصلحتیں فوت ہوجاتی ہیں۔ ان مفادات کے تحفظ کی خاطر اور عمومی مصلحت کو خصوصی مصلحت پر ترجیح دیتے ہوئے اللہ نے وجوب صدق کو اٹھا دیا اور لوگں کو نمام قائم کرنے زکوٰۃ دینے اور خداوند رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اطاعت کرنے کا حکم دیا۔

لا محالہ ماننا پڑے گا کہ پہلی آیت :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ ) ۔۔۔ الخ سے ثابت شدہ حکم (وجوب صدقہ) دوسری آیت: ع اشفقتم ۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہوگیا ہے۔ لیکن یہ نسخ قرآن کی اقسام میں سے پہلی قسم ہے جس میں ناسخ آیت کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ منسوخ آیت میں موجود حکم کی مدّت ختم ہو گئی ہے۔ تاہم حکم اوّل کے نسخ ہونے کا سبب یہ نہیں کہ اس میں موجود مصلحت، جو حکم کی متقاضی ہے، کسی خاص زمانے سے مختص ہے کیونکہ جیسا کہ اس سے پہلے بتایا گیا ہے یہ مصلحت رسول اللہ کی پوری زندگی میںموجود تھی لیکن لوگوں کی مال سے محبت اور صدقہ سے گھبرانے کے باعث یہ حکم باقی نہیں رہ سکا۔ اس طرح حکم اوّل نسخ ہوگیا اور وجوب برطرف ہوگیا۔

۴۸۶

کبھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب خداوند عالم جانتا تھا کہ لوگوں کی مال سے محبت کی وجہ سے یہ حکم ہمیشہ نہیں رہ سکے گا تو پھر اس حکم کی تشریع کیوں فرمائی؟ (صدقے کا حکم کیوں دیا گیا؟)ِ

جواب: اس حکم اور اس کے نسخ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو متنبہ کرنا چاہا اور ان پر حجت تمام کردی۔ اس کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ امیر المومنین(ع) کے علاوہ باقی صحانہ نے مال دنیا کو رسول اللہ سے راز و نیاز کرنے پر ترجیح دی۔ اگرچہ رسول اللہ سے گفتگو ترک کرنا بذات خود کوئی معصیت نہیں تھی۔ کیونکہ یہ مناجات (خلوت کی گفتگو) واجب نہیں تھی کہ اس کا ترک کرنا گناہ ہوتا اور صدقہ دینا اس صورت میں واجب تھا جب کوئی مناجات کرنا چاہے۔ اگر کوئی مناجات نہ کرنا چاہے تو صدقہ دینا بھی اس پر واجب نہیں تھا۔ اور ترک مناجات بھی گناہ نہیں تھا لیکن اس سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص اس شرط مناجات کو ترک کرے وہ مال دنیا کو مناجات کرنے سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

حکم صدقہ کی حکمت

اس حکم کے صادر ہونے کے بعد اس کے نسخ ہو جانے سے اس کی حکمت ظاہر ہوتی ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان و کرم ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے یہ با ت بھی ثابت ہوگئی کہ لوگ رسول اللہ سے مناجات کو اہمیت نہیں دیتے تھے اس کے ساتھ ساتھ اس سے امیر المومنین(ع) کامقام اور عظمت بھی ثابت ہوگئی۔ چنانچہ آیہ کریمہ کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے اور اکثر روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں۔

لیکن اگر مناجات سے پہلے صدقے کا حکم ایک ظاہری حکم ہوتا جو صرف امتحان کے لیے صادر ہوا ہو۔ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے فرزند حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا تو اس صورت میں دوسری آیت کے ذریعے پہلی آیت کا نسخ اصطلاحی نہ ہوگا بلکہ اس امتحانی حکم کے برطرف ہونے پر نسخ لغوی صادق آئے گا۔

۴۸۷

رازی نے ابومسلم سے یہ بات نقل کی ہے:

''صدقے کا حکم یقیناً امتحانی تھا اور اس مقصد کے لیے صادر ہوا تھا کہ صدق دل سے ایمان لانے والوں اور منافقین میں تمیز ہوسکے۔ اس صورت میں نسخ نہیں ہوگا۔،،

اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد رازی لکھتے ہیں:

''یہ ایک اچھی رائے ہے۔ اسے قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔،،(۱)

شیخ شرف الدین لکھتے ہیں:

''محمد بن عباس نے اپنی تفسیر میں شیعہ اور سنی طریقوں سے ایسی ستّر احادیث نقل کی ہیں جن کا مضمون یہی ہے کہ تمام صحابہ میں صرف امیر المومنین(ع) کی ذات ایسی تھی جنہوں نے آیہ نجویٰ پر عمل کیا اور صدقہ دے کر رسول اللہ سے خلوت میں گفتگو فرمائی۔،،

اس کے بعد انہوں نے شیخ ابو جعفر طوسیؒ سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ترمذی نے اپنی سنن میں اور ثعلبی نے اپنی تفسیر علقمہ انماوی سے روایت مرفوعہ(۲) نقل کی ہے۔ اس میں امیر المومنین(ع) فرماتے ہیں:

____________________

(۱) تفسیر الرازی ، ج ۸، ص ۱۶۷

(۲) اصطلاح میں مرفوعہ اس روایت کو کہتے ہیں جس میں ایک یا چند آدمیوں کے نام ذکر نہ ہوں۔

۴۸۸

''بی خفف الله عن هذه الأمة لأن الله امتحن الصحابة، فتقاعسوا عن مناجاة الرسول، و کان قد احتجب فی منزله من مناجاة کل أحد الا من تصدق بصدقة، و کان معی دینار، فتصدقت به، فکنت أنا سبب التوبة من الله علی المسلمین حین عملت بالآیة، و لو لم یعمل بها أحد لنزل العذاب، الامتناع الکل من العمل بها،، (۱)

''اللہ نے میری بدولت اس امّت کا بوجھ ہلکا کیا کیونکہ اللہ نے تمام صحابہ کا امتحان لیا اور سب نے صدقہ دے کر رسول اللہ سے خلوت میں گفتگو کرنے میں پس و پیش کیا۔ رسول اللہ خانہ نشین ہوگئے تھے اور صرف ایسے شخص سے خلوت میں ملتے تھے جو پہلے صدقہ دیتا تھا۔ میرے پاس ایک دینا تھا اسے میں نے اسی راہ میں صدقہ میں دےدیا۔ میں ہی آیہ کریمہ پر عمل کرکے مسلمین کی توبہ کے قبول ہونے کا باعث بنا۔ اگر مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس آیت پر عمل نہ کرتا تو لوگوں پر عذاب نازل ہوتا۔،،

جامع ترمذی کے مطبوع اور خطّی نسخوں میں سے کسی میں بھی اس روایت کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ تفسیر ثعلبی میں بھی اس روایت کا کوئی ذکر نہیں ۔ جس سے اکثر مؤلفات میں اس روایت کو نق کیا جاتا ہے۔ غرض کسی بھی حدیث اور روایات کی کتاب میں یہ روایت نظر سے نہیں گزری۔ بہرحال یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ یہ حکم بہت کم عرصے تک باقی رہا اور پھر برطرف ہوگیا اور امیر المومنین(ع) کے علاوہ کسی نے بھی اس پر عمل نہیں کیا اس سے امیر المومنین کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، چاہے یہ ایک حقیقی حکم ہو یا ایک امتحان ہو۔

____________________

(۱) بحار، ج ۹، ص ۷۲، تفسیر برہان، ج ۲، ص ۱۱۰۰

۴۸۹

کھلم کھلا تعصّب

فخر الدین رازی نے صحابہ کی طرف سے فرصت اور وقت ہونے کے باوجود اس آیت پر عمل نہ کرنے کا یہ عذت پیش کیا ہے:

''صدقہ دے کر رسول اللہ سے خلوت میں ملاقات کرنا فقراء کی مایوسی اور دلشکنی اور دولتمندوں کی نفرت و اشتعال کا باعث بنتا تھا۔ اس لیے کہ جب دولتمند اس آیت پر عمل نہ کریں اور صرف چند نادار لوگ اس پر عمل کریں تو اس سے وہ لوگ لعن طعن کا نشانہ بنتے جنہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ پس چونکہ یہ فعل فقراء کے حزن و ملال اور امیروں کی نفرت کا باعث بنتا تھا۔ اس لیے اس ترک کرنے میں اتنا زیادہ نقصان نہیں تھا اس لیے کہ جو کام باہمی محبت اور ہمدردی کا باعث بنے وہ اس کام سے بہتر ہے جس سے باہمی نفرت اور دشمنی پیدا ہو۔ اس کے علاوہ یہ مناجات واجب نہیں تھی اور نہ مستحب، بلکہ لوگوں کو اس کا حکم

اس مقصد کے لیے دیا گیا تھا کہ لوگ رسول اللہ سے ملاقات اور مناجات کو ترک کردیں اور جب اس مناجات کا ترک کرنا ہی بہتر قرار پایا تو اس کو ترک کرنے والا کسی ملامت اور مذمّت کا مستحق نہیں ہوگا۔،،(۱)

مؤلف: یہ وہ معذرت تھی جو فخر الدین رازی نے بعض صحابہ کی طرف سے پیش کی ہے۔ صاحبان فکر حضرات سے مخفی نہ رہے کہ رازی کا یہ عذر قارئین کو شک و تردد میں ڈالنے کی ناکام کوشش کے علاوہ کوئی علمی مقام بھی نہیں رکھتا۔ اگر کسی شخص میں کلام فہمی کا معمولی سا بھی سلیقہ ہو تو اس سے اس قسم کا کلام ہر گز صادر نہیں ہوسکتا۔

فرض کریں اس مسئلے میں تارکین صدقہ کے بارے میں کسی قسم کی روایت موجود نہیں لین کیا آیت:( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا ) ۔۔ الخ سے لالچ اور حب مال کی وجہ سے ترک مناجات پر سرزنش نہیں سمجھی جاتی؟ کیا اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اس کوتاہی کو بخش دیا ہے؟ مگر اس تعصّب کا کیا علاج ہے جو ایک خطرناک اورمہلک بیماری ہے۔

____________________

(۱) تفسیررازی، ج ۸، ص ۱۶۷

۴۹۰

مقام تعجب ہے کہ فحر الدین رازی اس بیان سے کچھ پہلے اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ اس حکم کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے دنیا پرست اور محب آخرت میں تمیز ہو جاتی ہے کیونکہمال دنیا ہی عوامل و محرکات کا معیار اور کسوٹی قرار پاتا ہے۔

فخر الدین رازی کا یہ کہنا کہ اس عمل سے فقراء رنجیدہ اور دولت مند مشتعل ہو جاتے لہذا اس فعل کو ترک کرنا بہتر ہے کیونکہ اس طرح باہمی محبت بڑھتی ہے۔ اگر اس کا یہ قول صحیح ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام میں جتنے بھی مالی واجبات اورحقوق ہیں انہیں انجام دینے کی نسبت ترک کرنا بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے افعال کا حکم دیتا ہے جن کا ترک کرنا عقلی طور پر بہتر ہو اور رازی سے یہ بعید نہیں کہ وہ امیر المومنین(ع) کی فضیلت کا انکار کرنے کے لیے اس بات کا قائل بھی ہو جائے (کہ احکام الہٰی خلاف عقل ہیں) بلکہ عینم ممکن ہے کہ وہ اس سے بھی زیاد خرافات کا قائل ہو۔

اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نظام الدین نیشا پوری کا کلام نقل کروں جس میں فخر الدین رازی کے کلام اور اس کے تعصب کو ہدف تنقید قرار دیا گیا ہے۔ نظام الدین نیشاپوری کی عین عبارت یہ ہے: قاضی کہتا ہے:

''رسول اللہ سے مناجات سے پہلے صدقہ دینا کوئی ایسا عمل نہیں جس سے بزرگ صحابہ کرام پر علی (علیہ السلام) کی کوئی فضیلت ثابت ہو۔ کیونکہ ہوسکتا ہےکہ صحابہ کے پاس اتنا وقت نہ ہو کہ وہ ا س فرض کو انجام دے سکتے۔ فخر الدین رازی نے کہا ہے: فخر الدین رازی نے کہا ہے: ہم تسلیم کرتےہیں کہ صحابہ کے پاس اس فرض کو انجام دینے کا وقت بھی تھا لیکن یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے فقراء جن کے پاس صدقہ دینے کے لیے

کچہ نہ ہو، رنجیدہ اور دولت مند متنفر ہوسکتے تھے اور دوسری طرف اسے ترک کرنے میں کوئی نقصان بھی نہیں تھا۔ کیونکہ جس عمل سے محبت اور ہمدردی بڑھتی ہو وہ اس عمل سے بہتر ہے جو نفرت و دشمنی کا باعث بنے اس کے علاہو مناجات سے قبل صدقہ دینا واجب تھا لیکن مناجاتا خود نہ واجب تھی اور نہ مستحب۔ بلکہ بہتر یہی تھا کہ مناجات کو ترک کیا جائے۔ کیونکہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے یہ عمل رسول اللہ کے لیے ملال خاطر کا باعث بنتا تھا۔،،

۴۹۱

نیشا پوری فخر الدین رازی کے کلام کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''رازی کا یہ کلام تعصّب سے خالی نہیں۔ آخر ہم اس امر کو کیوں اپنا فرض سمجھیں کہ ہر صفت میں حضرت علی (علیہ السلام) پر باقی صحابہ کی فضیلت کو ثابت کیا جائے؟ اور کیا یہ ممکن نہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) ایسی فضیلت کے حامل ہوں جس سے دوسرے محروم ہوں؟ ممکن کیوں نہ ہو جبکہ عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں:

حضرت علی (علیہ السلام) میں تین فضیلیتیں ایسی تھیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی مجھ ہوتی تو یہ سرخ اونٹوں (ہرمال و دولت) سے بہتر ہوتی: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسی ہمسر نصیب ہونا، جنگ خیبر کے موقع پر آپ کو علم اسلام ملنا اور آیہ نجویٰ۔ وہ کون سا مصنف ہے جو رسول اللہ سے مناجات کو عیب اور خامی سمجِھے جبکہ آیہ کریمہ میں مناجات سے روکا بھی نہیں گیا۔ صرف مناجات سے قبل صدقہ دینے کا حکم دیا گیا ہے جو آدمی مناجات سے پہلے صدقہ دے وہ دو اعتبار سے فضیلت کا حامل بن جاتا ہے۔ ایک تو اس سے فقراء کی حاجات پوری ہوجاتی ہیں اور دوسرا یہ کہ اس طرح مناجات رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے محبت کا مظاہرہ ہوتا ہے اس سے رسول اللہ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے۔ مشکل مسائل کا حل ملتا ہے اور یہ بھی ظاہرہوتا ہے کہ صدقہ دینے والے کے دل میں مال دنیا سے زیادہ محبت مناجات رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ہے۔،،(۱)

۳۶۔( مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ) ۵۹:۷

''تو جومال خدا نے اپنے رسول کو دیہات والوں سے بے لڑے دلوایا ہے وہ خاص خدا اور رسول اور (رسول کے) قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پردیسیوں کا ہے۔،،

____________________

(۱) تفسیر نیشاپوری حاشیہ تفسیر طبری، ج ۲۸، ص ۲۴

۴۹۲

قتادہ سے منقول ہے کہ یہ آیت نسخ ہوگئی ہے بایں معنیٰ کہ ''فئی،، اور ''غنیمت،، دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔ صدر اسلام میں غنیمت، آیہ شریفہ میں مذکورہ افراد میں تقسیم ہوا کرتی تھی اور جنگ میں شریک مجاہدین کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ مگر یہ کہ کوئی مجاہد انہیں میں ےس ہو۔ اس کے بعد یہ حکم سورہ انفال کے ذ ریعے نسخ ہوگیا اور آیہ میں مذکور لوگوں کے لیے غنیف کا صرف پانچواں حصہ رہ گیا اور باقی چار حصوں کے مستحق مجاہدین قرار پائے، چنانچہ سورہ انفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(۱)

( وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ ) ۸:۴۱

''اور جان لو کہ جو کچھ تم (مال لڑکر) لوٹو اس میں کا پانچواں حصّہ مخصوص خدا کے لئے ہے۔،،

لیکن محققین نے قتادہ کے اس قول کو ردّ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مسلمان کفار سے جنگ کے نتیجےمیں جو مال بطور غنیمت حاصل کریں اس کا موضوع اور ہے، جو مال کسی جنگ و قتال کے بغیر اللہ تعالیٰ اپنے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو عطا فرمائے اس کا موضوع اور ہے۔ ان دو نوں آیات میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کے لئے ناسخ بن سکیں۔

مؤلّف: محققین حق بجانب ہیں کہ اس مسئلے میں کسی قسم کے مناقشہ کی گنجائش نہیں۔ اس کی تائید اور تاکید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ کی سیرت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ آپ نے غنیمت کو ا پنی ذات اور اپنے رشتہ داروں سے مختص کردیا اور مجاہدین کو اس سے محروم رکھا ہو۔

زیر بحث آیہ کے نسخ ہونے کا نظریہ اس بات سے بھی باطل ہو جاتا ہے کہ سورہ انفال، سورہ حشر سے پہلے نازل ہوئی ہے۔(۲) جس میں کسی قسم کا شک و بشہ نہیں اور یہ بھی مسلّم ہے کہ ناسخ کو منسوخ کے بعد نازل ہونا چاہیے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۳۱

(۲) تفسیر قرطبی ، ج ۱۸، ص ۱۴

۴۹۳

عالم خلقت میں بدائ

٭ تمہید

٭ قدرت خدا یہود کی نظر میں

٭ بداء شیعوں کی نظر میں

٭ قضائے الہٰی کی قسمیں

٭ عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

٭ حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

۴۹۴

اب تک ہماری بحث نسخ احکام کے بارے میں تھی۔ یہاں پر گذشتہ بحث کی مناسبت سے مسئلہ بداء کو مورد بحث قرار دیتے ہیں کیونکہ بداء بھی نسخ ہی کی ایک قسم ہے۔ اتنا فرق ضرور ہے کہ نسخ تشریع و قانون سازی کے میدان میں ہوتا ہے اور بداء تکوین و خلقت کے میدان میں۔ یعنی اگر عالم خلقت میں کوئی حکم منسوخ ہوجائے تو اسے بداء کہتے ہیں اور اگر قرآنی احکام و قوانین منسوخ ہوں تو اسے نسخ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس مناسبت سے یہاں پر بداء کی بحث چھیڑی گئی ہے۔

بداء کے بارے میں بحث کا دوسرا عامل و سبب یہ ہے کہ بعض علمائے اسلام نے بداء کی حقیقت اور اس کے صحیح مفہوم، جس کے شیعہ قائل ہیں، کونہیں سمجھِا اور اس میں کما حقّہ، تحقیق نہیں کی جس کی وجہ سے وہ بعض اشتباہات کا شکار ہوگئے اور شیعوں کی طرف ایسے عقائد و نظریات کی نسبت دی جس سے شیعہ بری ہیں۔ کاش یہ حضرات جو حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں تحقیق و تتبع کرتے یا کم از کم توقف اختیار کرتے(۱) جو نقل میں دیانت اور دین میں تقویٰ و پرہیزگاری کا تقاضا ہے۔

بہرحال ان دو مناسبتوں کے پیش نظر ہم نے بداء کو مورد بحث و تحقیق قرار دیا ہے اگرچہ اس مناسبت کے علاوہ مقدمہ تفسیر سے اس کا کوئی ربط نہیں۔

____________________

(۱) فخر رازی کے الزام ''شیعہ خدا کی طر ف جہل کی نست دیتے ہیں،، کی وضاحت کے لیے ضمیمہ نمبر ۹ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۹۵

تمہید

یہ ایک ناقابل انکا حقیقت ہے کہ تمام عالم ہستی حکومت اور قدرت الہٰی کے تحت چل رہا ہے۔ عالم امکان کی ہر شئی کے وجود کا دار و مدار خدا کی مشیئت اور ارادے پر ہے۔ اگر چاہے ایجاد فرماتا ہے اور اگر نہ چاہے ایجاد نہیں فرماتا۔

یہ حقیقت بھی مسلّم ہے کہ اللہ تعالیٰ کو روز ازل سے تمام اشیاء کا علم ہے اور خدا کے ازلی علم میں اشیاء عالم کو تعین علمی حاصل ہے اس علمی تعین کو کبھی تو قضائے الہی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کبھی قدر الہی سے لیکن تقدیر الہٰی اور اشیاء کا علم ازلی ان کے ایجاد کی قدرت کے منافی نہیں۔ کیونکہ ہر ممکن کی ایجاد خدا کی مشیّت اور اس کے ارادے میں منحصر ہے۔ جسے کبھی اخیتار سے تعبیر کیا جاتا ہے اورکبھی ارادے سے۔ اگر ممکن، مورد مشیّت الہٰی قرار پائے تو وجود میں آئے گا ورنہ نہیں۔

تقدیر اور علم الہی، ہر چیز کی واقعی حالت کے م طابق ہوتا ہے۔ بایں معنی کہ اگر مشیت الہی کا تقاضا کسی چیز کو ایجاد کرنا ہو تو علم و تقدیر الہی میں بھی یہ چیز موجود ہوگی اور اگر مشیت الہی کا تقاضا کسی چیز کا ایجاد کرنا نہ ہو تو تقدیر اور علم الہی بھی اس کے مطابق ہوگا کیونکہ کسی چیز کا علم اور انکشاف اس چیز کی واقعی حالت سے مختلف نہیں ہوتا۔ اگر واقع مورد مشیت الہی ہو تو علم بھی اس کے مطابق ہوگا یعنی معلوم ایسی چیز ہوگی جس کی مشیت الہی متقاضی ہو۔ ورنہ یہ علم واقع کے مطابق نہ ہوگا اور نہ کسی شئی کا وقوع اور اس کی حقیقت کا انکشاف ہوگا۔

پس قضاء اور قدر الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز ازل سے اپنی واقعی حالت کے مطابق علم خدا میں مشخص و معین ہے یعنی ہر چیز کا وجود اس امر پر موقوف ہے کہ وہ مورد مشیت و ارادہ الہی قرار پائے اور میشت و ارادہ الہی، اشیاء میں موجود مصلحت اور مفسدہ کے تقاضوں کے مطابق ہوا کرتے ہیں اور مصلحت و مفسدہ، حالات و شرائط کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ کسی چیز کی مصلحت یا اس کا مفسدہ علم الہٰی سے خارج نہیں ہوسکتا بلکہ علم الہی ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

۴۹۶

قدرت خدا ۔ یہود کی نظر میں

یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ جس چیز کو ازل میں قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے، مشیت اور ارادہئ الہی اس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ یعنی خداوند عالم اس عالم ہستی میںکوئی چیز گھٹانے یا بڑھانے سے عاجز ہے، اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ لینے دینے سے قاصر ہے، اس لیے کہ قلم تقدیر نے جو خط کھینچا ہے وہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔(۱)

کتنی عجیب بات ہے یہود، خدا انہیں نیست و نابود فرمائے، خاد سے تو قدرت کو سلب کرتے ہیں (اس بنیاد پر کہ خدا علم ازلی کے خلاف کسی کام پر قادر نہیں) لیکن اس بنیاد پر بندوں سے قدرت کو سلب نہیں کرتے (انہیں عاجز نہیں سمجھتے) جبکہ بقول خود سلب قدرت کا سبب دونوں میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جس طرح افعال خدا، علم ازلی میں موجود ہیں اسی طرح بندوں کے افعال بھی علم ازلی میں موجود ہیں۔

بداء شیعوں کی نظر میں

پوشیدہ نہ رہے کہ شیعہ امامیہ جس بداء کے قائل ہیں وہ ان واقعات و افعال میں واقع ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے حتمی نہ ہوں۔ لیکن جہاں تک حتمی مقدّرات الہٰی کا تعلّق ہے ان میں پس و پیش نہیں ہوسکتا لامحالہ وہی چیز مورد مشیّت الہٰی قرار پائے گی جو موردِ قضائے الہٰی ہو (حتمی مقدور ہو)

بداء کے موارد اور مقامات کو سمجھنے کے لئے قضاء و قدر کی اقسام کو سمجھنا ضروری ہے۔

__________________

(۱) مشیت الہی سے متعلق روایات کسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۰ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۴۹۷

قضائے الہٰی کی قسمیں

۱) وہ مقدّرات الہٰی جن کے بارے میں خدا نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو آگاہ نہیں کیا اور ان کا علم صرف ذاتِ الہٰی سے مختص ہے۔ اس علم (مقدّرات الہٰی) میں کسی قسم کا بداء اور ردّ و بدل نہیں ہوتا بلکہ اہل بیت اطہار(ع) نے سلیمان مروزی سے فرمایا:

''میرے والد بزرگوار نے اپنے والد گرامی امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ دو قسم کا علم رکھتا ہے۔ ایک وہ علم ہے جو سربستہ اور مخفی ہے جسے ذاتِ خدا کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا اور اسی سے بداء ہوتا ہے (بعض واقعات کی خبر دینے کے بعد اس میں تبدیلی آجاتی ہے) دوسرا علم وہ ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور انبیاء(ع) کو دی ہے اور اہل بیت نبی یہ علم رکھتے ہیں۔،،(۱)

'' ان الله علمین: علم مکنون مخزون لا یعلمه، الا هو، من ذٰلک یکون البدائ، و علم علّمه ملائکته و رسله و انبیآء و نجن نعلمة ۔،، (۲)

''اللہ کے پاس دو قسم کے علم ہیں۔ ایک علم مخزون و مکنون ہے جسے سوائے اللہ کے کوئی دوسرا نہیں جانتا اور اسی وجہ سے بداء واقع ہوتا ہے۔ دوسرا علم وہ ہے جس کی تعلیم، ملائکہ، انبیاء اور رسولوں کو دی اور ہم اس کے عالم ہیں۔،،

۲۔ وہ مقدراتِ الہٰی جن کے بارے میں اللہ نے انبیاء(ع) اور ملائکہ کو خبر دی ہے کہ یہ حتمی طور پر واقع ہوں گے۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ ان مقدرات میں بداء واقع نہیں ہوتا اگر چہ پہلے مقدرات اور ان یہ فرق موجود ہے کہ یہ مقدرات، بداء کے لیے سرچشمہ نہیں بنتے۔

____________________

(۱) عیون الاخبار الرضا باب ۱۳ فی الذکر مجلس الرضا مع سلیمان مروزی۔ بحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۲

(۲) بحار، باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۶، شیخ کلینی نے ابو بصیرسے بھی یہ روایت کی ہے: الوافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۴۹۸

گذشتہ روایات میں امام رضا(ع) نے سلیمان مروزی سے فرمایا:

امیر المومنین(ع) فرماتا کرتے تھے: علم کی دو قسمیں ہیں، ایک علم وہ ہے جو اللہ نے ملائکہ اور رسولوں کو بھی دیا۔ اللہ نے اپنے رسولوں فرشتوں کو جو کچھ سکھایا ہے وہ ہو کر رہے گا اور اللہ اپنی ذات، ملائکہ اور رسولوںؑ کو کبھی نہیں جھٹلاتا اور دوسرا علم وہ ہے جس کا خزانہ اللہ ہی کے پاس ہے اور اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی اس سے آگاہ نہیں کیا، ان مقدرات میں سے جسے چاہے مقدم فرماتا ہے اور جسے چاہے مؤخر فرماتا ہے جسے چاہے محو فرماتا ہے اور جسے چاہے ثابت اور برقرار رکھتا ہے۔،،(۱)

عیاشی نے فضیل سے روایت کی ہے کہ امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

''کچھ امور وہ ہےں جو لامحالہ واقع ہو کر رہیں گے اور ان میں کسی قسم کا بداء اور تغیر و تبدل واقع نہیں ہوگا اور کچھ امرو وہ ہیں جن کا دار مدار منشاء الہٰی پر ہے جس کو اللہ چاہے مقدم فرمائے جس کو چاہے محو کر دے اور جس کو چاہے ثابت و برقرار رکھے۔ ان امور سے اللہ نے کسی کو بھی آگاہ نہیں فرمایا جس چیز سے اللہ نے انبیاء(ع) کو مطلع کردیا ہو وہ ضرور واقع ہوگی۔ اس لیے کہ اللہ اپنی ذات، انبیاء(ع) اور اپنے فرشتوں کو نہیں جھٹلاتا۔،،(۲)

مقدرات کی تیسری قسم وہہے جس کے خارج میں واقع ہونے کے بارے میں اللہ نے اپنے نبی اور ملائکہ کو آگاہ کردیا ہے لیکن ان کا خارج میں واقع ہونا اس پر موقوف ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو، یہ وہ مقدرات ہیں جن میں بداء (تغیر و تبدل) واقع ہوتا ہے:

( يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ) ۱۳:۳۹

''خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس (اصل کتاب لوح محفوظ موجود ہے)۔،،

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا، باب ۱۳، الوافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۲) بحار، باب البداء والنسخ، ج ۲، ص ۱۳۳

۴۹۹

( لِلَّـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ ) ۳۰:۴

''کیونکہ (اس سے) پہلے اور بعد (غرض ہر زمانے میں) ہر امر کا اختیار خدا ہی کو ہے۔،،

اس قضائے الہٰی پر متعدد روایات بھی دلالت کرتی ہیں:

i ) تفسیر علی بن ابراہیم میں عبد اللہ بن مسکان اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جب شب قدر آتی ہے تو ملائکہ، روح اور انسانی اعمال لکھنے والے فرشتے دنیا کے آسمان پر نازل ہوتے ہیں اور اس سال کے تمام مقدرات الہٰی ثبت کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز میں تقدیم و تاخیر یا کمی بیشی کرنا چاہے تو خالق مخصوص فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ اللہ جسے چاہے مٹا ڈالے اور جس کا ارادہ کرے اسے ثابت رکھے۔ عبد اللہ ابن مسکان کہتا ہے، میں نے امام صادق(ع) کی خدمت میں عرض کی: کیا ہر چیز کتاب الہٰی میں ثبت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ میں نے عرض کی: تو پھر کیا ان مقدراتِ الہٰی میں تبدیلی آسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔،،(۱)

ii ) تفسیر علی بن ابراہیم میں عبد اللہ بن مسکان ، امام محمد بن باقر، امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم (علیہم السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اللہ کے اس ارشاد کی تفسیر میں فرمایا:

( فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ) ۴۴:۴

''اسی رات کو تمام دنیا کے حکمت و مصلحت کے (سال بھر کے) کاموں کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔،،

____________________

(۱) نقل از بحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۳

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689