البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313979 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال

پیغمبراسلام کے بعد کوئی نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اس قسم کا دعویٰ یقیناً کذب ہے اس لیے کہ ائمہ معصومین اور رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ذریعے آنحضرت کا خاتم الانبیاء ہونا مسلم الثبوت ہے۔ جب دعویٰ ہی قطعی طور پر باطل اور جھوٹا ہو تو پھر اس شاہد کا کیا فائدہ ہوگا جسے مدعی پیش کرے جب عقل اس مدعا کے محال ہونے کے کا حکم لگا دے یا شریعت اس کے باطل ہونے کی شہادت دے تو پھر خالق پر واجب نہیں کہ اس کے باطل ہونے کو برملا کرے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کسی الہٰی منصب کا دعویٰ تو کرلیتا ہے اور کوئی خارق العدات (معجزہ نما) کام بھی کر دکھاتا ہے جس سے دوسرے انسان عاجز رہتے ہیں لیکن یہی کام اس کے دعوےٰ کے کذب ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مسیلمہ کذّاب نے ایک مرتبہ اپنا لعابِ دھن کنوئیں میں پھینکا جس میں پانی تھوڑا تھا تاکہ اس کا پانی زیادہ ہو جائے لیکن اسمیں جو پانی تھا وہ بھی خشک ہوگیا۔

ایک او واقعے میں اس نے بنی حنیفہ کے کچھ بچوں کو سر پر ہاتھ پھیرا اور بعض کو گھٹی دی (حلق پر ہاتھ پھیرا) اس کے نتیجے میں جن کے سروں پر ہاتھ پھیرا تھا وہ گنجے ہوگئے اور جن کے حلق پر ہاتھ پھیرا تھا ان کو لکنت کا عارضہ ہوگیا۔(۱) جب مدعی اس قسم کا شاہداور دلیل پیش کرے تو خدا کے لیے ضروری نہیں کہ اسے مزید برملا کرے کیوں کہ اس مدعی کا ناکام عمل ہی مدعی کو باطل کرے کے لیے کافی ہے اور اصطلاح میں اسے معجزہ نہیں کہا جاتا۔

____________________

(۱) الکامل ابن اثیر، ج ۲، ص ۱۳۸

۴۱

اس عمل کو بھی اصطلاح میں معجزہ نہیں کہا جائے گا جس کا مظاہرہ جادو گر اور شعبدہ باز کیا کرتے ہیں یا بعض دقیق اور پیچیدہ علوم نظری کے ماہر انجام دیتے ہیس اگرچہ ایسا عمل انجام دینے سے عام آدمی عاجز ہو، خدا کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس عمل کو کسی اور ذریعے سے باطل قرار دے، جبکہ یہ معلوم ہہے کہ اس کا یہ عمل سحر جیسے دوسرے طبیعی امور کے نتیجے میں انجام پایا ہے۔ اگرچہ یہ انسان کسی الہٰی منصب کا دعویدار ہو اور اس کام کو اس نے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہو، کیونکہ ان پیچیدہ علوم نظری کے خاص قوانین ہوتے ہیں جن سے اس علم کے ماہرین آگاہ ہوا کرتے ہیں اور ان قواعد کی روشنی میں مخصوص نتاء تک پہنچنا ضروری ہوا کرتا ہے، اگرچہ ان قواعد کو نتائج پر منطبق کرنا کافی دقت طلب ہے۔

بنابرایں علم طبّ کے بعض حیرت انگیز قواعد بھی معجزہ سے خارج ہوں گے جن کا تعلق چیزوں کی طبیعتوں اور ان کے خاصیتوں سے ہے اگرچہ طبّ کی یہ عجیب و غریب باتیں عام لوگوں سے مخفی اور پوشیدہ ہوں بلکہ خود ان طبیبوں اور حکیموں پر بھی چیزوں کی خاصیتیں اور ان کے آثار مخفی ہوں۔

اس میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ خدا کسی خاص بندے کو کسی خاص چیز کی معرفت عطا فرمائے جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہو۔

قباحت اس میں ہے کہ خدا کسی جھوٹے شخص کی تائید کرے اور ایسے جھوٹے شخص کے ہاتھ معجزہ ظاہر کرے جو لوگوں کو راہِ راست سے گمراہ کرے۔

۴۲

نبوّت اور اعجاز

تمام انسانوں کو مکلّف کرنا خدا پر واجب ہے اور یہ بات صحیح عقلی دلائل سے ثابت ہے، کیونکہ انسان اپنی ارتقائی منازل طے کرنے اورابدی سعادت کے حصول اور عظیم منفعت کےلئے تکلیف (فرائض و ذمہ داریوں) کا محتاج ہے۔ اگرخدا انسان کو پابند قرار نہ دے تو اس کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں:

i ) خدا نے اپنے بندوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ خدا نہیں جانتا کہ لوگ ذمہ داری و لائحہ عمل کے محتاج ہیں۔

اس سے جہل لازم آتا ہے جس سے خدا کی ذات پاک و منزہ ہے۔

ii ) خدا نے لوگوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ وہ انہیں کمال تک پہنچنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس سے بخل لازم آتا ہے اور بخل اس ذات کے لیے محال ہے جو سرچشمہ ئ فیض و سخا ہے۔

iii ) خدا انہیں مکلّف بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اس پر قادر نہیں ہے۔ یہ عجز و ناتوانی ہے جو اس قادر و مطلق ذات کے لیے محال ہے۔

بنابریں بشر کو بعض فرائض کا مکلّف بنانا ضروری اور لازمی ہے اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان کو مکلّف بنانے کے لیے کسی نہ کسی مبلّغ کی ضرورت ہے جو احکامِ الہٰی کے پوشیدہ اور واضح رموز سے آگاہ کرے:

( لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ) (۸:۴۲)

''تاکہ جو شخص ہلاک (گمراہ) ہو وہ (حق کی) حجت تمام ہونیکے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ (ہدایت کی) حجّت تمام ہونیکے بعد زندہ رہے۔،،

۴۳

یہبھی ایک بدیہی بات ہے کہ سفارتِ الہٰی ایسا عظیم منصب ہے جس کے بہت سے مدعی ہوسکتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ صادق اور کاذب میں تمیز نہ ہوسکے، گمراہ کرنے والے اور ہادی و راہنما میں امتیاز نہ رہے، اس لیے جو بھی اس سفارت کا دعویدار ہو اس کے لئے ضروری ہے ہک ایسا شاہد اور ثبوت پیش کرے جو اس کے اس دعویٰ میں صادق ہونے پر دلالت کرتا ہو اور اس تبلیغ میں اس کے امین ہونے کی ضمانت دے۔ یہ شاہد ان عام اور معمولی افعال اور کارناموں میں سے نہ ہو جنہیں ہر کس و ناکس انجام دے سکتا ہو۔ بنابرایں اس مدعا کی دلیل میں ان کاموں میں منحصر ہوگی جو طبیعی قوانین کو توڑ دیں۔ معجزہ اس لیے مدعی کی صداقت کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ معجزہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہوتا ہے اور یہ کام اسی سے صادر ہوتا ہے جسے توفیق الہٰی حاصل ہو اور خدا جسے قدرت اور طاقت دے۔

بنابرایں اگر نبوّت کا مدعی اپنے دعویٰ میںجھوٹا ہو تو ایسے معجزے پر اس کو قدرت دینا لوگوں کو جہالت میں ڈالنے اور باطل کی تقوّیت کا باعث ہوگا اور یہ کام خدا کے لیے محال ہے۔

جب اس قسم کا معجزہ کسی مدعی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو یہ معجزہ اس کی صداقت کی دلیل ہوگا اور اس بات کا اظہار ہوگا کہ خداوند متعال اس کی نبوّت پر راضی ہے۔

یہ ایک ایسا قاعدہ کلیّہ ہے جسے تمام عقلاء اس قسم کے اہم کاموں میں تسلیم کرتے ہیں اور اسے کوئی بھی شک و شبہ کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔

۴۴

جب کوئی کسی بادشاہ یا صدر کے سفیر ہونے کا دعویٰ کرے یا کوئی شخص ایسے کاموں میں بادشاہ کی نمائندی کا دعویٰ کرے جن کا تعلق عوام سے ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ پر دلیل پیش کرے جس سے اس کی تائید ہو۔ خصوصاً جب لوگ اس کی صداقت میں شک کریں تو اس کی دلیل واضح اور آشکار ہونی چاہےے۔ مثال کے طور پر اگر سفیر لوگوں سے یہ کہے کہ میری صداقت کی دلیل یہ ہے کہ کل کے دن بادشاہ او صدرمملکت مجھے ایسا تحفہ دیگا جیسا وہ دوسرے سفیروں اور نمائندگان کو دیا کرتا ہے اور میری ایسی عزّت اور تکریم کرے گا جیسی دوسرے سفراء او رنمایندگان کی کیا کرتا ہے تو ایسی صورت میں جب سفیر اور لوگوں میں رونما ہونے والے اس اختلاف کا بادشاہ کو علم ہوگا اور اس کے بعد اسی دن اسی تحفے و عزّت و تکریم سے سفیر کو نوازے تو بادشاہ اور صدر مملکت کی طرف سے یہ فعل مدعیئ سفارت کی تصدیق ہوگی جس میں عقلاء کو کوئی شک نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک بادشاہ جو رعیت کی مصلحتوں کا محافظ ہوا کرتا ہے اس کے لئے قبیح ہے کہ وہ کاذب مدعی کی تائید و تصدیق کرے۔ کیونکہ وہ لوگوں میں فساد پھیلانا چاہتا ہے، جب یہ کام عام عقلاء کے لیے قبیح ہو تو اس حکیم اور دانا ذات کے لیے بطریقِ اولیٰ اور قبیح ہے اور یہ حقیقت خدا نے اس آیتِ کریمہ میں بیان فرمائی ہے:

( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ) (۶۹:۴۴۔۴۶)

''اگر رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑلیتے پھر ہم ضرور ان کی گردن اڑا دیتے۔،،

۴۵

اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی نبوّت ہم نے ثابت کی ہے اور اس کی تصدیق کے لیے معجزہ ظاہر کیا ہے، آیا ممکن ہے کہ وہ کوئی بات اپنی طرف سے ہماری طرف منسوب کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ہم ان کا مواءخذہ کریں گے اور ان کی جان لے لیں گے اس کے علاوہ اس قسم کی غلط نسبتوں کو سننے کے بعد خاموشی اختیار کرنا، ان کی تصدیق ہوگی اور شریعت مقدّسہ میں باطل کو شامل کرنے کے مترادف ہوگا۔ بنابرایں جس طرح شریعت کی ابتدائی پیدائش میں اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے اسی طرح پیدائش کے بعد بقاء کے مرحلے میں بھی اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

معجزے کا کسی مدعی نبوّت کی صداقت پر دلالت کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ ہم ےسن و قبح عقلی کے قائل ہوں یعنی اس بات کے قائل ہوں کہ عقل حسن و قبح کو درک کرسکتی ہے۔ لیکن اشاعرہ یہ بات تسلیم نہیں کرتے ان کے نزدیک نبوت کی تصدیق کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس قول کی خرابیوں میں سے ایک خرابی یہی ہے کہ اس سے تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ معجزہ اسی صورت میں نبوّشت کی صداقت کی دلیل ہوگا جب عقل کاذب کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر ہونے کا قبیح سمجھے، اگر عقل اسے قبیح نہ سمجھے تو پھر کوئی بھی صادق اور کاذب میں تمیز نہ کرسکے گا۔

فضل ابن روز بہان نے اس اشکال و اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اگرچہ خدا سے فعل قبیح کا صادر ہونا ممکن ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ خدا کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے لیکن اس کی عادت اور سنت یہی رہی ہے کہ معجزہ اسی کے ہاتھ پر ظاہر ہو جو صادق ہو اور کاذب کے ہاتھ پر معجزہ کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتا۔

اس سے اشاعرہ کے نزدیک تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود نہیں ہوتیں، لیکن اس جواب کی کمزوری ظاہر و آشکار ہے۔

۴۶

اس لیے کہ اوّلاً یہ عادت خدا اور سنت الہٰی جس کی خبر ''ابن روز بہان،، دے رہا ہے، ان چیزوں میں سے نہیں ہے جو اس سے درک کی جاسکیں، کان سے سنی جاسکیں یا آنکھ سے دیکھی جاسکیں بلکہ عقل ہی کے ذریعے اس کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب عقل حسن و قبح کا ادراک نہ کرسکے (جس کے اشاعرہ قائل ہیں) توپھر کون جانے کہ خدا کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ معجزہ صرف صادقین کے ہاتھ پر دکھاتا ہے۔

ثانیاً، یہ عادت گذشتہ انبیاء کی تصدیق کے بعد ہی ثابت ہوسکتی ہے، جن کے ہاتھ سے معجزے ظاہر ہوئے ہیں، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ خدا کی یہ سنّت رہی ہے کہ وہ صادق کے ہاتھ پر ہی معجزہ ظاہر کرتا ہے لیےکن جو حضرات گذشتہ انبیاء کی نبوّتوں کے منکر ہیں یا انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے لیے تو یہ عادت ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا جس کا ''ابن روز بہان،، مدی ہے اور نہ ہی ان کے لئے معجزہ حجت ہے ہوسکتا ہے۔

ثالثاً، جب عقل کی نظر میں کسی فعل کو انجام دینا اور ترک کرنا مساوی ہو اور اس میں کسی قبح یا حسن کا حکم نہ لگایا جاسکے تو پھر خدا کو اپنی عادت بدلنے میں کون سی چیز مانع ہوگی، جبکہ خدا قادر مطلق ہے اور اس کا کوئی مواخذہ و محاسبہ بھی نہیں کرسکتا۔ بنابرایں اگر خدا کسی کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے تو بھی کوئی مانع نہیں ہونا چاہیے۔

رابعاً، عادت تو ایک ایسی چیز ہے جو کسی عمل کے تکرار کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے اور اس میں عرصہ دراز کی احتیاج ہوتی ہے۔ یہ آخری نبی یا اس سے پہلے انبیاء کے لئے تو معجزہ بن سکتا ہے لیکن ابتدائی نبوّت کے لیے کس طرح معجزہ بن سکتا ہے، جس میں کوئی عادت ہی نہیں بنی تھی۔ ہم آئندہ صفحات پر اشاعرہ کے اقوال ذکر کریں گے اور ان کے باطل پہلو بھی بیان کریں گے۔

۴۷

معجزہ اور عصری تقاضے

آپ نے دیکھا کہ معجزہ وہ ہوتا ہے جو طبیعی قوانین کو توڑ دے، کسی الہٰی منصب کا مدعی اسے انجام دے اور باقی لوگ اسے انجام دینے سے قاصر ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی معجزہ جس ہنر یا پیشے سے مماثلت رکھا ہو اسی پیشے کے علماء و ماہرین ہی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ عام لوگ یہ کام انجام دینے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ کسی بھی صنعت اور ہنر کی خصوصیات اس کے علماء ہی بہتر سمجھتے ہیں، وہی بتاسکتے ہیں کہ عام لوگ کونسا کام انجام دے سکتے ہیں اور کونسا نہیں یہی وجہ ہے کہ علماء معجزہ کی جلدی تصدیق کرتے ہیں جبکہ اس فن و ہنر کے اصولوں سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے جاہل کے آگے شک و تردید کے دروازے کھلے رہتے ہیں چنانچہ جب تک اس کا یہ احتمال باقی رہے کہ مدعی نے خاص اصولوں کا سہارا لیا ہوگا جنہیں اہل فن ہی جانتے ہیں اسے بہت دیر تک مدعی کی صداقت پر یقین نہ آئے گا۔

اسی لیے حکمت الہٰی کا یہ تقاضا ہے کہ ہر نبی کو وہی معجزہ دے کر بھیجا جاھے جو اس دور کے مشہور و معروف فن کی مانند اور اس فن کا اس دور میں چرچا بھی ہو، اس طرح کے معجزے کی تصدیق جلدی اورحجت و برہان مضبوط ہوتی ہے۔

حکمت الہٰی کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا سے مسلح کیا جاتا کیوں کہ اس زمانے میں سحر کی شہرت زیادہ تھی اور جادوگر کثرت سے تھے، یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے آپ کی تصدیق جادوگروں نے کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عصائے موسیٰ (علیہ السلام) اژدھے میں تبدیل ہوگیا اور ان کے جعلی اور بے بنیاد سانپوں کو نگلنے کے بعد دوبارہ اپنی اصلی صورت میں آگیا ہے تووہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ سحر کے دائرے سے خارج ہے اور یہ یقیناً الہٰی معجزہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرعون کے دربار میں اس کی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔

۴۸

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں یونانی طبّ کو شہرت حاصل تھی، اس دور میں اطباء عجیب و غریب کارنامے انجام دیتے تھے، شام اور فلسطین میں یہ علم بہت زٰادہ مروّج تھا کیونکہ یہ دونوں شہر یونانی استعمار کی زد میں تھے۔ جب خداوند حکیم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان علاقوں میںنبی بناکر بھیجا تو حکمت کا یہی تقاضا تھاکہ آپ کی نبوت کی دلیل طب سے مشابہت رکھنے والی ہو۔ چنانچہ آپ مردوں کو زندہ، مادر زاد اندھوں کو بینا اور برص کے مریضوں کو شفایاب کردیتے تھے تاکہ اس زمانے کے لوگ یہ سمجھ سکیں کہ چونکہ یہ عمل انجام دیناعام لوگوں کی قدرت و استطاعت سے باہر ہے اور طبی اصولوں کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس میں طبیعت اور مادہ سے بالاتر کسی ذات کی قدرت کار فرما ہے۔

عرب فصاحت و بلاغت میںبہت آگے تھے، فصاحت ان کا طرہ امتیاز تھی، وہ ادب کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں شعر و شاعری میں مقابلے اور فخر و مباہات کے لیے خصوصی میلے لگتے تھے جہاں اچھاکلام پیش کرنے والوں کو داد تحسین دی جاتی تھی۔ ان کے نزدیک شعر و شاعری کی قدر و منزلت اس قدر زیادہ تھی کہ انہوں نے قدیم اور عمدہ اشعار پر مشتمل سات قصیدے منتخب کئے اور انہیں آبِ زر سے لکھ کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیا، اس کے بعد کسی کے عمدہ کلام پر یہ کہا جانے لگا کہ یہ فلاں شاعر کا سنہرا کلام ہے۔ عرب مرد و زن سب اس فن کو اہمیت دیتے تھے اور شعری مقابلوں میں (معروف شاعر) ''نابغہ ذبیانی،، کو جج مقرر کیا جاتا تھا۔ حج کے موقع پر بازار عکاظ میں اس کے لیے چمڑے کا خیمہ نصب کیا جاتا تھا جہاں آکر شعراء اسے اپنا کلام سناتے تاکہ وہ اپنا فیصلہ سنائے۔

۴۹

ان حالات میں حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور بلاغت قرآن کا معجزہ دے کر بھیجا جاتا، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا۔ یہ عرب نے اس سمجھا اور تصدیق کی کہ یہ کلام خدا ہے اور اس کی بلاغت بشر کی قدرت سے باہر ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف ہر اس عرب نے کیا جس میں تعصب نہیں تھا۔

اس حقیقت پر اس روایت سے بھی ر وشنی پڑتی ہے جو ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے دریافت کیا:

''لماذا بعث الله موسی بن عمران بالعصا، و یده البیضائ، و آلة السحر؟ و بعث عیسیٰ بآلة الطب؟ و بعث محمداً صلی الله علیه و آله وعلی جمیع الأنبیائ بالکلام و الخطب؟

فقال أبو الحسن : ان الله لما بعث موسی کان الغالب علی أهل عصره السحر، فأتاهم من عند الله بما لم یکن فی وسعهم مثله، و ما أبطل به سحرهم، و أثبت به الحجة علیهم، و ان الله بعث عیسیٰ فی وقت قد ظهرت فیه الزمانات، و احجاج الناس الی الطب، فأتاهم من عند الله بما لم یکن عندهم مثله، و بما أحیی لهم الموتی، و أبرأ الأکمه و الأبرص باذن الله، و أثبت به الحجة علهیم

و ان الله بعث محمد فی وقت کان الغالب علی أهل عصره الخطب و الکلام و أظنه قال: الشعر فأتاهم من عند الله من مواعظه و حکمه ما أبطل به قولهم، و أثبت باه الحجة علیهم ،،(۱)

''کیا وجہ ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو طب اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور خطابت کامعجزہ دے کر بھیجا؟ آپ نے فرمایا: خدا نے حضرت موسیٰ کو جس وقت نبی بنا کر بھیجا اس وقت سحر اور جادو کا دور دورہ تھا۔ اسی لیے خدا نے حضرت موسیٰ کو اسی نوعیت کا ایسا کمال عطا کرکے بھیجا جس سے عام لوگ عاجز تھے اور ان کے سحر باطل ہوگئے اور آپ کی حجت مکمل ہوگئی۔

____________________

(۱) اصول کافی، کتاب عقل و الجہل۔ الروایۃ ۲۰

۵۰

جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث بر مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت مختلف قسم کی بیماریاں عام تھیں اور لوگ طب کے زیادہ محتاج تھے، چنانچہ خالق نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہ طب عطا فرمائی جس کی نظیر لوگوں کے پاس نہ تھی۔ آپ کو ایسا طب عطا فرمایا جس سے آپ باذن اللہ مردوں کو زندہ اور مادر زاد اندھے کو بینا اور برص کے مریضوں کوشفایاب فرماتے تھے۔ جس سے آپ نے ان لوگوں پر اپنی حجت مکمل کی۔ جس وقت خاتم الانبیائ کو نبی بنا کر بٍھیجا گیا اس وقت بیان اور خطابت کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان تھا۔ (میرے خیال میں امام کے کلام میں شعر کا ذکر ہے) خدا نے آنحضرت کو موعظہ اور حکمت آمیز کلام دے کر بھیجا، جس سے ان کے تمام دعوے باطل ہوگئے اور آپ کی حجت پوری ہوگئی۔،،

اگرچہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس قرآن کے علاوہ بھی معجزات تھے جن میں چاند کو دو ٹکڑے کرنا، اژدھے سے کلام کرنا اور سنگریزوں کا آپ کے ہاتھ پر تسبیح پڑھنا شامل ہیں لیکن ان تمام معجزات میں قرآن کی شان اور عظمت زیادہ ہے اور یہ سب سے مضبوط حجت اور دلیل ہے۔ چونکہ عرب طبیعی علوم اور کائنات کے اسرار و رموز سے آشنا نہیں تھے اس لیے وہ ان معجزوں (شق قمر وغیرہ) کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کو نامعلوم علل و اسباب کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وہ ان اسباب میں سب سے زیادہ احتمال سحر کا دیتے تھے۔ لیکن قرآن کامعجزہ ایسا ہے کہ عرب ا س کی بلاغت اور اعجاز میں شک نہ کرسکے۔اس لیے کہ عرب فنون بلاغت سے مکمل آگاہ تھے اور اس کے اسرار و رموز کو درک کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ شق القمر جیسے دیگر معجزات وقتی تھے جو ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتے تھے اور بہت جلد ایک تاریخی واقعے میں تبدیل ہوسکتے تھے جنہیں گذشتہ لوگ آئندہ کی نسلوں کے لیے نقل کرتے۔ چنانچہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ شک و تردید کی نگاہ سے دیکھے جاتےٍ۔۔۔ مگر قرآن ایک ایسا معجزہ ہے جو ابد تک باقی رہے گا اور ہردور و نسل میں ایک زندہ معجزہ کے طور پر موجود ہے۔

ہم آئندہ ابحاث میں قرآن کے علاوہ دیگر معجزات پر تفصیلی بحث کریں گے اور ان اہل قلم ہم عصروں کا محاسبہ کریں گے جو معجزات کے منکر ہیں۔

۵۱

قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ

دعوتِ اسلام سے آشنا ہر عاقل اور باشعور انسان یقیناً جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اقوام عالم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور قرآن مجید کو بطور دلیل پیش فرمایا اور معجزہ قرآن کے ذریعے چیلنج کیا عرب کے تمام فصحاء و بلغاء مل کر اس کی نظیر اور مثل لاکر دکھائیں۔ اس کے بعد آپ نے رعایت دیتے ہوئے قرآن مجید کے دس سوروں کی نظیر و مثل پیش کرنے کا چیلنج دیا۔ پھر مزید رعایت دے کر آپ نے ایک سورہ پیش کرنے کا چیلنج دیا۔

چاہیے تھا کہ عرب، جن میں چوٹی کے فصحاء موجودتھے، آنحضرت کے اس چیلنج کا جواب دیتے اور امکان کی صورت میں قرآن کی نظیر پیش کرکے آنحضرت کا دعویٰ باطل کرتے۔ واقعاً حق تو یہ تھا کہ کم از کم وہ قرآن کے ایک سورہ کا مقابلہ کرتے، بلاغت میں اس کی نظیر پیش کرتے اور اس طرح ہو اس مدعیئ نبوّت کی دلیل کا توڑ فراہم کرتے جس نے اس فن میں ان کو چیلنج کیا، جس میں انہیں کمال حاصل تھا اور جسے وہ اپنا طرہ امتیاز سمجھتے تھے تاکہ تاریخ میں فتح و کامیابی کا سہرا وہ اپنے سر باندھتے اور اپنا نام ہمیشہ کے لیے زندہ کرتے۔ اس طرح ایک معمولی مقابلے کے نتیجے میں بہت سی خونریز جنگوں سے نجات مل جاتی اور بہت سا مال و دوکت بھی بچ جاتا۔ لوگ وطن سے بے وطن نہ ہوتے اور نہ انہیں سختیاں جھیلنی پڑتیں۔

مگر جب عربوں نے قرآن کی بلاغت کا بغور مطالعہ کیا تو انہیں اس کے معجزہ ہونے کا یقین آگیا۔ انہیں معلوم تھا کہ قرآن سے مقابلہ کرنے کی صورت میں انہیں حتمی شکست و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ بعض اقوام نے اس داعیِ حق کی تصدیق کی، دعوتِ قرآن کے آگے سرتسلیم خم کیا اور اسلام کا شرف حاصل کرلیا اور کچھ ل وگوں ے عناد اور تعصب کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فصاحت و بلاغت کی علمی جنگ پر مسلحانہ جنگ کوترجیح دی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن وحی الہٰی ہے۔

۵۲

ایک اعتراض اور اسکا جواب

ایک غیر ملم جاہل یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ عربوں نے قرآن کی نظیر پیش کردی تھی اور انہوں نے قرآن کا مقابلہ کرلیا تھا لیکن زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے تاریخ یہ بات ہم تک نہیں پہنچا سکی۔

اس اعتراض کے تین جواب ہیں:

i ) اگر اس قسم کا مقابلہ کرتے ہوئے قرآن کی نظیر پیش کی جاتی تو عرب اپنی محفلوں، اجتماعات اور بازاروں میں اس کا اعلان کرتے، دشمنان اسلام ہر محفل میں اس کے گن گاتے، مناسب موقع پر اس کا ذکر کرتے، ہر آنے والے کو اس کی خبر دیتے، اس کی اس طرح حفاظت کرتے جس طرح ایک مدعی اپنی دلیل و حجت کی حفاظت کیا کرتا ہے اور یہ چیز ان کے لیے اپنے سلف کی ان تواریخ اور زمانہ جاہلیّت کے اشعار سے زیادہ عزیز و قیمتی ہوتی جن سے کتبِ تواریخ اور دیوان بھرے پڑے ہیں۔ مگر قرآن کی نظیر پیش کرنے کا کوئی واقعہ نہ دیکھنے میں آیا اور نہ اس کا ذکر سننے میں آیا۔

ii ) قرآنِ کریم نے عربوں کو ہی چیلنج نہیں کیا، پوری انسانیّت بلکہ تمام جنّ و انس کو یہ چیلنج کیا تھا:

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ) (۱۷:۸۸)

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر (ساری دنیا جہان کے) آدمی اورجنّ اس بات پر اکٹھے ہوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں (غیر ممکن) اس کے برابر نہیں لاسکتے۔ اگرچہ اس کوشش میں ا یک کا ایک مددگار بھی بنے۔،،

۵۳

تاریخ شاہد ہے کہ نصاریٰ اور دوسرے دشمنان اسلام۔ رسول اسلام ، قرآن کریم اور دین اسلام کو ان کے مقام سے گرانے کے لیے بے تحاشا سرمایہ خرچ کر رہے ہیں اور یہ کام ہر سال بلکہ ہر مہینے ہو رہا ہے۔ اگر قرآنِ کریم کے ایک سورہ کا بھی مقابلہ ممکن ہوتا تو یہ ان کے لیے ایک مضبوط و محکم دلیل ہوتی، وہ اس کی مدد سے جلد اپنی آرزو پوری کرسکتے تھے۔ اتنا سرمایہ خرچ کرنے اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کی انہیں ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی:

( يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ) ۶۱:۸

''یہ لوگ اپنے منہ سے (پھونک مارکر) خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، حالانکہ خدا اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، اگرچہ کفّار برا ہی (کیوں نہ) مانیں۔،،

iii ) عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ جب کسی شخص کا واسطہ طویل عرصے تک کسی فصیح و بلیغ کلام سے رہا ہو اور ایک مدّت تک اس نے اس کی خدمت کی ہو ہو اس کی مثل یا کم از کم فصاحت و بلاغت میں اس کے قریب قریب اپنا کلام بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

لیکن قرآن کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں کیا گیا کیوں کہ انسان قرآن کو کتنا ہی زیادہ پڑھ لے اور اس کی خصوصیّات پر غور و خوض کرے، وہ اس کی معمولی سی جھلک بھی پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے اس سے ہم لازماً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب، تعلیم و تعلّم کے عام اسالیب سے مختلف ہے۔

۵۴

اگر قرآن کریم رسول اسلام کا اپنا بنایا ہوا کلام ہوتا تو آپ کے خطبوں اور جملوں میں کہیں نہ کہیں قرآن کریم کے اسلوب بیان کا عکس نظر آتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اقوال کے ایک خاص انداز ہے جو قرآن کریم کے اسلوب سے یکسر مختلف ہے۔

اگر آپ کے کلام میں قرآن کریم کے مشابہ کوئی چیز ہوتی تو وہ مشہور ہوجاتی۔ خصوصاً دشمنان اسلام کی زبانوں اور کتب کے ذریعے، جو ہر طریقے سے اسلام کو کمزور اور بدنام کرنے کے درپے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ عام مروّج بلاغت کی مخصوص حدود ہیں جن سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک بلیغ عربی شاعر یا نثر نگار ہے، لیکن وہ صرف ایک یا دو پہلوؤں پر بلاغت آمیز کلام پیش کرسکتا ہے۔ مثلاً وہ شجاعت و بہادری کے موضوع پر توبلیغ کلام پیش کرسکتا ہے مگر مدح و تعریف کے موضوع پر ویسا بلیغ کلام پیش کرنے سے قاصر ہے یا مرثیہ کے موضوع پر تو بلیغ کلام پیش کرسکتا ہے لیکن غزل کے عنوان سے ویسا کلام پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جبکہ قرآن کریم میں متعدد موضوعات اور مختلف فنون کا ذکر ہے اور تمام موضوعات کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ جس کی نظیر لانے سے دنیا قاصر ہے اور یہ کام بشر کے لئے ناممکن ہے۔

۵۵

قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ

اب تک ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی نبی کی نبوّت کی تصدیق اور اس پر ایمان لانا اس معجزے پر منحصر ہے جسے نبی اپنے دعوےٰ کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چونکہ گذشتہ انبیاء (علیٍھم السلام) کی نبوّتیں انہی ادوار اور انہی نسلوں کے لیے مختص تھیں اس لیے حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ ان معجزوں کی مدّت محدود ہوتی۔ اس لیے کہ وہ معجزات محدود دور نبوست کی نشانی تھی۔ اس زمانے میں بعض لوگ تو خود ان معجزات کا مشاہدہ کرتے اور ان پر حجّت تمام ہو جاتی اور بعض لوگوں کے لیے عینی شاہدان معجزوں کو تواتر سے پیش کرتے جس سے ان پر بھی حجّت تمام ہوجاتی تھی۔

لیکن ایک ابدی شریعت کے لیے شاہد کے طورپر پیش کیے جانے والا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے کیونکہ اگر معجزہ کی مدّت محدود ہوگی تو آنے والی نسل اس کا مشاہدہ نہ کرسکیں گی اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خبر متواتر کا سلسلہ بھی ختم ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں آئندہ نسلوں کو اس نبوّت کی صداقت کا علم حاصل نہیں ہوسکے گا۔ ایسی صورت میں اگر آنے والی نسلوں کو نبوّت پر ایمان لانے کا مکلّف بنایا جائے تو یہ ایک ناممکن امر کا مکلّف بنانے کے مترادف ہے اور یہ محال و ممتنع ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی محال امر کا مکلّف بنائے۔

۵۶

پس معلوم ہوا کہ دائمی نبوّت کا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک دائمی اور ابدی معجزہ کی صورت میں بھیجا تاکہ یہ ایک ابدی اور دائمی صداقت کا شاہد بن سکے اور جس طرح یہ گذشتہ لوگوں کے لیے حجّت تھا سای طرح یہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی حجّت قرار پائے۔

ہم گذشتہ مباحث سے دو نتیجوں پر پہنچے ہیں:

( i قرآن کریم انبیاء ما سلف (علیہم السلام) کے تمام معجزات اور خود خاتم الانبیاء (ص) کے باقی تمام معجزوں پر فوقیت رکھتا ہے، اس لیے کہ قرآن کریم ہمشیہ کےلئے باقی ہے اور اس کا اعجاز دائمی ہے جسے تمام نسلیں سن سکتی ہیں اور یہ سب کے لیے حجت ہے۔

ii ) گذشتہ شریعتوں کی مدت ختم ہوگئی، کیوں کہ ان کی حجت اور دلیل (معجزہ) بھی ختم ہوچکی ہے جس پر ان شریعتوں کی صداقت مبنی تھی۔(۱)

یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کو اس وجہ سے بھی گذشتہ انبیاء کے معجزات پر برتری حاصل ہے کہ قرآن کریم نے انسان کی ہدایت(۲) اور کمال کی آخری منزل تک اس کی رہنمائی کی ضمانت دی ہے۔

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۴ میں مولف اور ایک یہودی عالم کے درمیان ہونے والا مباحثہ ملاحظہ فرمائیں۔

(۲) وضاحت کے لیے اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر۵ ملاحظہ فرمائیں۔

۵۷

قرآن کریم ہی وہ رہنما ہے جس نے ان عربوں کی ہدایت کی جو ظالم، سرکش، بدترین عادات کے خوگر اور بتوں کے پرستار تھے۔ جو علوم و معارف اور تزکیّہ ئ نفس سے عاری تھے اورداخلی جنگ و جدال اورجاہلیت پر مبنی فخر و مباھات میں مصروف رہتے تھے۔ یہی عرب ایک قلیل مدّت میں ایک ایسی اُمّت بن گئے جس کی ثقافت عظیم اور تاریخ رشن و درخشاں ارو جو انسانی عادادت و اخلاق سے آراستہ ہوچکی ہے؟

تاریخ اسلام اور راہ اسلام میں جام شہادت نوش کرنے والے اصحاب پیغمبر کے حالاتِ زندگی کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو اس پر قرآنی ہدایت و رہبری کی عظمت اور اس کے حیرت انگیز اثرات عیاں ہوں گے، اسے معلوم ہوگا کہ قرآن نے ہی انہیں جاہلیت کی پست زندگی سے نکال کر علم و کمال کے بلند مراتب پر فائز کیا اور انہیں ایسے فداکار انسان بنایا جو دین و شریعت کی راہ میں جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور جنہیں اسلام کے مقابلے مںی مال و دولت اور اہل و عیال کی پرواہ نہیں ہوتی۔

جنگ بدر کے آغاز میں مسلمانوں سے مشورہ کے موقع پر جناب مقدار نے رسولِ خد کو جواب دیا وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے فرمایا:

''یا رسول الله امض لما امرک الله فنجن معک، و الله لانقول کما قالت بنو اسرائیل لموسی: اذهب انت و ربک فقباتلا انا ههنا قاعدون، و لکن اذهب انت و ربک فقاتلا انا معکما مقاتلون، فوالذی بعثک بالحق لوسرت بنا الی وبرک الغماد ۔یعنی مدینة الحبشة ۔لجالدنا معک من دونه حتی تبلغه ۔فقال له رسول الله خیراً، و دعا له بخیر،، (۱)

''یا رسول اللہ! خدا نے آپ کو جس مشن کا حکم دیا ہے اسے کرگزریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی مانند نہیں ہےں کہ جنہوں نے جناب موسیٰ سے کہا تھا: ''آپ خودجائیں اور اپنے خدا کی مدد سے جنگ کریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔،، لیکن ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ جائیں اور

___________________

۱) تاریخ طبری، غزوہئ بدر، ج ۲، ص ۱۴۰، طبع دوم۔

۵۸

اپنے ربّ کی مدد سے جنگ کریں ہم بھی آپ کے ہمراہ جنگ کریں گے۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا، اگر آپ ہمیں برک غماد (حبشہ شہر) بھی لے چلیں تو بھی ہم آپ کے ہمراہ جائیںگے، یہاں تک کہ آپ منزل مقصود پر پہنچ جائیں یہ کلام سننے کے بعد رسول اللہ نے جناب مقداد کے لیے دعائے خیر فرمائی۔،،

مسلمانوں میں سے ایک ہے جو اپنے عزم و عقیدہ، حق کو زندہ رکھنے اور باطل کو مٹانے کے لیے جانثاری کااظہار کررہا ہے، خلوص کے ایسے پیکر اور عقیدت مند مسلمانوں میں اور بہت پائے جاتے ہیں۔

ہاں! قرآن حکیم ہی وہ سراپا ہدایت ہے جس نے بت پرستوں کے دلون کو منور کیا جو خانہ جنگی اور جاہلیت کے فخر و مباھات میں الجھے ہوئے تھے اور ان لوگوں کو کفار کے مقابلے میں فولاد کی طرح سخت اور مومنین کے مقابلے میں ابریشم کی طرح نرم (رحمدل) بنایا۔ ان کیایسی تربیت کی کہ یہ اپنے ساتھیوں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے لگے۔

اسلام کی بدولت اسّی سال میں مسلمانوں کو اتنے ممالک پر فتح نصیب ہوئی جو دوسروں کو آٹھ سو سال میں بھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ جو شخص اصحاب پیغمبر کی سیرت اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی سیرت کا موازنہ کرے وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس (فتح) کا ایک الہٰی راز ہے جو اس کتابِ الہٰی میں مضمر ہے، جس نے راسخ عقیدہ اور اصولوں کے ثبات سے دلوں اور روح کو پاکیزگی دی اور نفوس پر نور افشانی کی۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لوگ سختی کے موقع پر انبیاء کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور جہاں انہیں موت نظر آتی وہاں ان کا ساتھ نہ دیتے تھے، اسی لیے گذشتہ انبیاء اپنے دور کی طاغوتی طاقتوں پر فتح نہ پاسکے تھے بلکہ وہ ان کے خوف سے بیابانوں اور غاروں میں جاکر پناہ لیتے تھے۔ یہ وہ دوسری خاصیت ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم کو باقی معجزات پر امتیاز حاصل ہے۔

جب بلاغت میں قرآن کریم کا الہٰی معجزہ ہونا ثابت ہوگیا تو اب یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہ رہے کہ قرآن صرف بلاغت کے پہلو سے معجزہ نہیں بلکہ کئی اور جہات سے بھی رسولِ اسلام کی نبوّت کی برہان اور دلیل ہے۔ ہم ان میں بعض جہات کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

۵۹

قرآن اور معارف

قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی تصریح کی گئی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) امّی تھے اور آپ نے کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ آپ نے اس کا اعلان اپنی قوم اور قبیلے میں فرمایا، جس میں آپ نے نشوونما پائی تھی۔ مگر کسی نے بھی آپ کے اس دعویٰ کی تردید نہیں کی اور یہ (کسی کا تردید نہ کرنا) آپ کے دعویٰ کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ آپ نے امّی ہونے کے باوجود قرآن کریم جیسی کتاب پیش کی جس کے معارف و علوم سے فلسفیوں کی عقلیں مبہوت ہیں اور ظہور اسلام سے لے کر آج تک مغربی و مشرقی مفکرّین ان کے سامنے مبہوت نظر آتے ہیں اور قرآنِ کریم قیامت تک مفکرّین کے لیے باعثِ حیرت و استعجاب رہے گا اور یہ اعجاز قرآنِ کریم کا ایک اہم اور عظیم پہلو ہے۔

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ امّی نہ تھے بلکہ آپ نے تاریخ، فنون اور دیگر معارف کی تعلیم کسی مکتب میں حاصل کی تھی تو کیا یہ لازمی نہیں ہے کہ آپ نے علوم و فنون اس دور کے ماہرین سے سیکھے ہوں جن میں آپ پھلے پھولے۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں میں پرورش پائی جو بُتوں اور اوہام کی پرستش کرتے اور خرافات پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ آپ کے کچھ ہم عصر اہلِ کتاب جو اپنے معارف، تاریخ اور احکام، حورات و انجیل سے لیتے تھے اور انہیں وحی و انبیاء کی طرف منسوب کرتے تھے۔

اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام تعلیمات اس زمانے کے علماء سے حاصل کی تھیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے اقوال و تعلیمات میں وہی عقائد چھائے ہونے چاہئیں جو آپ نے اپنے استادوں اور راہنماؤں سے سیکھے ہیں۔ حالانکہ قرآنِ کریم ہر لحاظ سے تورات و انجیل سے مختلف نظر آتا ہے۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

بیہقی نے اپنی کتاب ''شعب الایمان،، میں عزوان ان ابی حاتم سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ جناب ابوذرؓ حضرت عثمان کے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے اور انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں مل رہی تھی۔ اتفاق سے قریشی خاندان کے ایک شخص کی نظر ان پر پڑی۔ اس نے جناب ابوذرؓ سے کہا: ابوذر! یہاں کیوں کھڑے ہو؟ جناب ابوذر نے کہا: یہ لوگ مجھے ابوذر کاکیا قصور ہے کہ وہ دروازے پر کھڑا ہے اور اسے اندر آنے کی اجازت نہیں مل رہی۔ اس شخص کی سفارش پر جناب ابوذر کو اجازت مل گئی۔ آپ گھر میں داخل ہوئے اور سب سے آخر میں جا کر بیٹھ گئے۔ اس دوران حضرت عثمان نے کعب سے پوچھا: اگر ایک شخص اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کردے تو پھر بھی اسے (کوئی دوسرا حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے) کسی گناہ کا خدشہ رہے گا؟ کعب نے جواب میں کہا: نہیں۔ جناب ابوذر کے ہاتھ میںایک عصا تھا، وہ اٹھے اور کعب کے دونوں کانوں کے درمیان عصا مار کر کہا: یہودی کے بیٹے! تمہارا یہ خیال ہے کہ اگر انسان زکوٰۃ ادا کردے تو اس کے ذمے اور کوئی حق نہیں رہتا؟! جبکہ خالق فرمایا ہے:

( وَجَاءَ فِرْعَوْنُ وَمَن قَبْلَهُ وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ ) ۵۹:۹

''اور اگرچہ اپنےاوپر تنگی ہی (کیوں نہ) ہو دوسروں کو اپنے نفس پر ترجیح دیتے ہیں۔،،

نیز خالق فرماتا ہے:

( وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ) ۷۶:۸

''اور اس کی محبت میں محتاج اور یتیمار اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔،،

۴۸۱

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۷۰:۲۴۔۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

جناب ابوذرنے اس مضمون کی اور آیات بھی انہیں سنا دیں۔(۱)

ابن حریر نے اپنی اسناد سے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''حق معلوم صدقہ(زکوٰۃ) کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس سے صلہ رحمی اور مہمان نوازی کی جاتی ہے محتاج کی نیاز مندی دور کی جاتی ہے اور محروموں اور ناداروں کی مدد کی جاتی ہے۔،،(۲)

بعض دوسرے مفسرین نے بھی ابن عباس کے اس قول کو اختیار کیا ہے۔ ان بیانات سے یہ ثابت ہوا کہ آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی بلکہ محکم ہے۔

۳۵۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) ۵۸:۱۲

''اے ایماندارو! جب پیغمبر سے کوئی بات کان میں کہنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کوئی خیرات دے دیا کرو یہی تمہارے واسطے بہتر اور پاکیزہ بات ہے۔ پس اگر تم کو اس کا مقدور نہ ہو تو بے شک خدا بڑا بخشنے والا مہرمان ہے۔،،

____________________

(۱) کنز العمال، ج ۳، ص ۳۱۰

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۲۹، ص ۵۰

۴۸۲

اکثر علماء کا یہ عقیدہ ہے کہ مذکورہ آیت اس آیہ کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے:

( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَاتٍ ۚ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللَّـهُ عَلَيْكُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ) ۵۸:۱۳

''(مسلمانو)کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ (رسول کے ) کان میں بات کہنے سے پہلے خیرات کرلو جب تم لوگ (اتنا سا کام) نہ کرسکے اور خدا نے تمہیں معاف کردیا تو پابندی سے نماز پڑھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے باخبر ہے۔،،

شیعہ امامیہ اور اہل سنت کی کثیر روایات سے یہ ثابت ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد سوائے حضرت علی (علیہ السلام) کے کسی اور نے اس پر عمل نہیں کیا۔ آپ کے پاس ایک دینار تھا جسے آپ نے دس درہم میں بیچ دیا۔ آپ جب بھی رسول اللہ سے گفتگو اور راز و فرماتے اس سے پہلے ایک درہم صدقہ دے دیتے۔ اس طرح آپ نے دس مرتبہ ا س آیہ کریمہ پر عمل کیا اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے خلوت میں راز و نیاز کا شرف حاصل کیا۔

۴۸۳

آیہ نجویٰ پر عمل کی احادیث

۱۔ ابن بابویہ نے اپنی اسناد کے ذریعے مکحول سے روایت کی ہے:

''امیر المومنین(ع) نے فرمایا: اصحاب پیغمبر(ص) جو حافظ حدیث ہیں، بخوبی جانتے ہیںکہ ان میں سے جس شخص میں بھی کوئی فضیلت و منقبت موجود ہے، میں اس میں شریک ہوں کوئی دوسرا میرے ساتھ شریک نہیں ہے۔ میں (مکحول) نے عرض کی: یا امیر المومنین(ع) وہ کون سی فضیلیتیں ہیں جو آپ کی ذات سے مختص ہےں۔ آپ نے ان فضائل کو گننا شروع کیا حتیٰ کہ فرمایا: چوبیسویں فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں پر یہ آیت نازل فرمائی: اذا ناجیتم ۔۔۔ الخ میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہم میں بیچ دیا اور میں جب بھی رسول اللہ سے گفتگو کرتا پہلے ایک درہم صدقہ دیا کرتا تھا۔ خدا کی قسم! مجھ سے پہلے اور میرے بعد اصحاب پیغمبر(ص) میں سے کسی نے بھی اس آیت پر عمل نہیں کیا جس پر یہ آیت نازل ہوئی:( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا ) ۔۔۔ الخ(۱) ،،

۲۔ ابن جریر نے مجاہد سے روایت کی ہے:

''امیر المومنین(ع) نے فرمایا: کتاب الہیٰ میں ایک ایسی آیت ہے جس پر مجِھ سے پہلے کسی نے عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد اس میں کوئی عمل کرے گا۔ میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہم میں فروخت کیا۔ میں جب بھی رسول اللہ سے خلوت میں گفتگو کرتا تو ایک درہم صدقہ دیا کرتا۔ یہاں تک کہ یہ آیت نسخ ہوگئی اور مجھِ سے پہلے کسی نے بھی اس آیت پر عمل نہیں کیا اور وہ آیت یہ ہے:( نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا ) ۔۔،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر البرہان، ج ۲، ص ۱۰۹۹

(۲) تفسیر طبری، ج ۲۸، ص ۱۵

۴۸۴

۳۔ شوکانی کہتے ہیں عبد الرزاق، عبد بن حمید، ابن منذ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے امیر المومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اس آیت پر میرے علاوہ کسی نے بھی عمل نہیں کیا حتیٰ کہ یہ آیت نسخ ہوگئی۔ اس کی مدّت صرف ایک گھنٹہ تھی۔،،

۴۔ سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن منذر، ابن ابی حاتم، حاکم اور ابن مردویہ نے امیر المومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''قرآن کریم میں ایک آیت ایسی ہے جس پر مجِ سے پہلے کسی نے عمل نہیں کیا اور نہ کوئی میرے بعد اس پر عمل کرے گا اور وہ آیہ نجویٰ:( نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا ) ۔۔۔۔ الخ ہے، میرے پاس ایک دینار تھا جسے میں نے دس درہم صدقہ دیتا تھا۔ اس کے بعد آیہ کریمہ نسخ ہوگئی اور اس پر کسی نے عمل نہیں کیا تھا۔ پھر یہ آیت نازل ہوئی( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا ) ۔۔ الخ۔،،(۱)

مسئلے کی تحقیق

آیہ شریفہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ کے ساتھ گفتگو کرنے سے پہلے صدقہ دینے میں انسانوں کی بھلائی اور نفوس کی تطہیر و صفائی ہے اور یہ ایک ایسا حک ہے جو انسانوں کی مصلحت پر مشتمل ہے۔ یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو صدقہ دے سکتا ہو لیکن جو شخص سے پہلے صدق نہ دے سکے تفسیر البرہان، تفسیر طبری و دیگر کتب احادیث، چنانچہ مرحوم مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار کی جلد ۹، ص ۱۷۰ میں اس مضمون کی متعدد روایات کو نقل کیا ہے۔

خدا اسے بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

____________________

(۱) فتح فتح القدیر، ج ۵، ص ۱۸۶۔ ا س مضمون کی روایات کثرت سے موجود ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:

۴۸۵

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص کی عقل اس فعل کو حسن سمجھتی ہے اور وجدان اس کی صحت کی گواہی دیتا ہے۔ کیونکہ اس حکم میں فقراء کا فائدہ ہے اس لیے کہ صدقات کے مستحق یہی لوگ ہیں۔ اس کے علاوہ اس سے رسول اللہ کا بوجھ ہلکا ہوجاتاہے کیونکہ اس کے نتیجے میں عام لوگوں کی ملاقاتوں کا سلسلہ بہت کم ہوجاتا اور یہ کہ اس حکم کے بعد رسول اللہ سے گفتگو اور راز و نیاز کی خواہش وہی شخص کرے گا۔ جسکے دل میں مال دنیا سے زیادہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے راز و نیاز کی محبت ہو۔

ظاہر ہے یہ عمل ایسا نہیں جو کسی زمانے میں حسن رکھتا ہو اور کسی زمانے میں حسن نہ رکھتا ہو بلکہ یہ ہمہ وقت اس مصلحت پر مشتمل ہے اور عقل اسے حسن کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

دوسری آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ (امیر المومنین(ع) کے علاوہ) عام لوگوں نے مال کے لالچ میں آکر اور صدقے سے گھبرا کر رسول اللہ سے گفتگو اور راز و نیاز کو ترک کردیا تھا۔

اس صدقے کے نسخ ہونے کے اسباب

اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ سے راز و نیاز اورخلوت کی ملاقات کو ترک کرنے سے بہت سے عمومی مفادات اور مصلحتیں فوت ہوجاتی ہیں۔ ان مفادات کے تحفظ کی خاطر اور عمومی مصلحت کو خصوصی مصلحت پر ترجیح دیتے ہوئے اللہ نے وجوب صدق کو اٹھا دیا اور لوگں کو نمام قائم کرنے زکوٰۃ دینے اور خداوند رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اطاعت کرنے کا حکم دیا۔

لا محالہ ماننا پڑے گا کہ پہلی آیت :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ ) ۔۔۔ الخ سے ثابت شدہ حکم (وجوب صدقہ) دوسری آیت: ع اشفقتم ۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہوگیا ہے۔ لیکن یہ نسخ قرآن کی اقسام میں سے پہلی قسم ہے جس میں ناسخ آیت کی نظر اس بات پر ہوتی ہے کہ منسوخ آیت میں موجود حکم کی مدّت ختم ہو گئی ہے۔ تاہم حکم اوّل کے نسخ ہونے کا سبب یہ نہیں کہ اس میں موجود مصلحت، جو حکم کی متقاضی ہے، کسی خاص زمانے سے مختص ہے کیونکہ جیسا کہ اس سے پہلے بتایا گیا ہے یہ مصلحت رسول اللہ کی پوری زندگی میںموجود تھی لیکن لوگوں کی مال سے محبت اور صدقہ سے گھبرانے کے باعث یہ حکم باقی نہیں رہ سکا۔ اس طرح حکم اوّل نسخ ہوگیا اور وجوب برطرف ہوگیا۔

۴۸۶

کبھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب خداوند عالم جانتا تھا کہ لوگوں کی مال سے محبت کی وجہ سے یہ حکم ہمیشہ نہیں رہ سکے گا تو پھر اس حکم کی تشریع کیوں فرمائی؟ (صدقے کا حکم کیوں دیا گیا؟)ِ

جواب: اس حکم اور اس کے نسخ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو متنبہ کرنا چاہا اور ان پر حجت تمام کردی۔ اس کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ امیر المومنین(ع) کے علاوہ باقی صحانہ نے مال دنیا کو رسول اللہ سے راز و نیاز کرنے پر ترجیح دی۔ اگرچہ رسول اللہ سے گفتگو ترک کرنا بذات خود کوئی معصیت نہیں تھی۔ کیونکہ یہ مناجات (خلوت کی گفتگو) واجب نہیں تھی کہ اس کا ترک کرنا گناہ ہوتا اور صدقہ دینا اس صورت میں واجب تھا جب کوئی مناجات کرنا چاہے۔ اگر کوئی مناجات نہ کرنا چاہے تو صدقہ دینا بھی اس پر واجب نہیں تھا۔ اور ترک مناجات بھی گناہ نہیں تھا لیکن اس سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص اس شرط مناجات کو ترک کرے وہ مال دنیا کو مناجات کرنے سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

حکم صدقہ کی حکمت

اس حکم کے صادر ہونے کے بعد اس کے نسخ ہو جانے سے اس کی حکمت ظاہر ہوتی ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر احسان و کرم ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے یہ با ت بھی ثابت ہوگئی کہ لوگ رسول اللہ سے مناجات کو اہمیت نہیں دیتے تھے اس کے ساتھ ساتھ اس سے امیر المومنین(ع) کامقام اور عظمت بھی ثابت ہوگئی۔ چنانچہ آیہ کریمہ کا ظاہری مفہوم بھی یہی ہے اور اکثر روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں۔

لیکن اگر مناجات سے پہلے صدقے کا حکم ایک ظاہری حکم ہوتا جو صرف امتحان کے لیے صادر ہوا ہو۔ جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنے فرزند حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا تو اس صورت میں دوسری آیت کے ذریعے پہلی آیت کا نسخ اصطلاحی نہ ہوگا بلکہ اس امتحانی حکم کے برطرف ہونے پر نسخ لغوی صادق آئے گا۔

۴۸۷

رازی نے ابومسلم سے یہ بات نقل کی ہے:

''صدقے کا حکم یقیناً امتحانی تھا اور اس مقصد کے لیے صادر ہوا تھا کہ صدق دل سے ایمان لانے والوں اور منافقین میں تمیز ہوسکے۔ اس صورت میں نسخ نہیں ہوگا۔،،

اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد رازی لکھتے ہیں:

''یہ ایک اچھی رائے ہے۔ اسے قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔،،(۱)

شیخ شرف الدین لکھتے ہیں:

''محمد بن عباس نے اپنی تفسیر میں شیعہ اور سنی طریقوں سے ایسی ستّر احادیث نقل کی ہیں جن کا مضمون یہی ہے کہ تمام صحابہ میں صرف امیر المومنین(ع) کی ذات ایسی تھی جنہوں نے آیہ نجویٰ پر عمل کیا اور صدقہ دے کر رسول اللہ سے خلوت میں گفتگو فرمائی۔،،

اس کے بعد انہوں نے شیخ ابو جعفر طوسیؒ سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ترمذی نے اپنی سنن میں اور ثعلبی نے اپنی تفسیر علقمہ انماوی سے روایت مرفوعہ(۲) نقل کی ہے۔ اس میں امیر المومنین(ع) فرماتے ہیں:

____________________

(۱) تفسیر الرازی ، ج ۸، ص ۱۶۷

(۲) اصطلاح میں مرفوعہ اس روایت کو کہتے ہیں جس میں ایک یا چند آدمیوں کے نام ذکر نہ ہوں۔

۴۸۸

''بی خفف الله عن هذه الأمة لأن الله امتحن الصحابة، فتقاعسوا عن مناجاة الرسول، و کان قد احتجب فی منزله من مناجاة کل أحد الا من تصدق بصدقة، و کان معی دینار، فتصدقت به، فکنت أنا سبب التوبة من الله علی المسلمین حین عملت بالآیة، و لو لم یعمل بها أحد لنزل العذاب، الامتناع الکل من العمل بها،، (۱)

''اللہ نے میری بدولت اس امّت کا بوجھ ہلکا کیا کیونکہ اللہ نے تمام صحابہ کا امتحان لیا اور سب نے صدقہ دے کر رسول اللہ سے خلوت میں گفتگو کرنے میں پس و پیش کیا۔ رسول اللہ خانہ نشین ہوگئے تھے اور صرف ایسے شخص سے خلوت میں ملتے تھے جو پہلے صدقہ دیتا تھا۔ میرے پاس ایک دینا تھا اسے میں نے اسی راہ میں صدقہ میں دےدیا۔ میں ہی آیہ کریمہ پر عمل کرکے مسلمین کی توبہ کے قبول ہونے کا باعث بنا۔ اگر مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس آیت پر عمل نہ کرتا تو لوگوں پر عذاب نازل ہوتا۔،،

جامع ترمذی کے مطبوع اور خطّی نسخوں میں سے کسی میں بھی اس روایت کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ تفسیر ثعلبی میں بھی اس روایت کا کوئی ذکر نہیں ۔ جس سے اکثر مؤلفات میں اس روایت کو نق کیا جاتا ہے۔ غرض کسی بھی حدیث اور روایات کی کتاب میں یہ روایت نظر سے نہیں گزری۔ بہرحال یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ یہ حکم بہت کم عرصے تک باقی رہا اور پھر برطرف ہوگیا اور امیر المومنین(ع) کے علاوہ کسی نے بھی اس پر عمل نہیں کیا اس سے امیر المومنین کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے، چاہے یہ ایک حقیقی حکم ہو یا ایک امتحان ہو۔

____________________

(۱) بحار، ج ۹، ص ۷۲، تفسیر برہان، ج ۲، ص ۱۱۰۰

۴۸۹

کھلم کھلا تعصّب

فخر الدین رازی نے صحابہ کی طرف سے فرصت اور وقت ہونے کے باوجود اس آیت پر عمل نہ کرنے کا یہ عذت پیش کیا ہے:

''صدقہ دے کر رسول اللہ سے خلوت میں ملاقات کرنا فقراء کی مایوسی اور دلشکنی اور دولتمندوں کی نفرت و اشتعال کا باعث بنتا تھا۔ اس لیے کہ جب دولتمند اس آیت پر عمل نہ کریں اور صرف چند نادار لوگ اس پر عمل کریں تو اس سے وہ لوگ لعن طعن کا نشانہ بنتے جنہوں نے اس پر عمل نہیں کیا۔ پس چونکہ یہ فعل فقراء کے حزن و ملال اور امیروں کی نفرت کا باعث بنتا تھا۔ اس لیے اس ترک کرنے میں اتنا زیادہ نقصان نہیں تھا اس لیے کہ جو کام باہمی محبت اور ہمدردی کا باعث بنے وہ اس کام سے بہتر ہے جس سے باہمی نفرت اور دشمنی پیدا ہو۔ اس کے علاوہ یہ مناجات واجب نہیں تھی اور نہ مستحب، بلکہ لوگوں کو اس کا حکم

اس مقصد کے لیے دیا گیا تھا کہ لوگ رسول اللہ سے ملاقات اور مناجات کو ترک کردیں اور جب اس مناجات کا ترک کرنا ہی بہتر قرار پایا تو اس کو ترک کرنے والا کسی ملامت اور مذمّت کا مستحق نہیں ہوگا۔،،(۱)

مؤلف: یہ وہ معذرت تھی جو فخر الدین رازی نے بعض صحابہ کی طرف سے پیش کی ہے۔ صاحبان فکر حضرات سے مخفی نہ رہے کہ رازی کا یہ عذر قارئین کو شک و تردد میں ڈالنے کی ناکام کوشش کے علاوہ کوئی علمی مقام بھی نہیں رکھتا۔ اگر کسی شخص میں کلام فہمی کا معمولی سا بھی سلیقہ ہو تو اس سے اس قسم کا کلام ہر گز صادر نہیں ہوسکتا۔

فرض کریں اس مسئلے میں تارکین صدقہ کے بارے میں کسی قسم کی روایت موجود نہیں لین کیا آیت:( أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا ) ۔۔ الخ سے لالچ اور حب مال کی وجہ سے ترک مناجات پر سرزنش نہیں سمجھی جاتی؟ کیا اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اس کوتاہی کو بخش دیا ہے؟ مگر اس تعصّب کا کیا علاج ہے جو ایک خطرناک اورمہلک بیماری ہے۔

____________________

(۱) تفسیررازی، ج ۸، ص ۱۶۷

۴۹۰

مقام تعجب ہے کہ فحر الدین رازی اس بیان سے کچھ پہلے اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ اس حکم کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے دنیا پرست اور محب آخرت میں تمیز ہو جاتی ہے کیونکہمال دنیا ہی عوامل و محرکات کا معیار اور کسوٹی قرار پاتا ہے۔

فخر الدین رازی کا یہ کہنا کہ اس عمل سے فقراء رنجیدہ اور دولت مند مشتعل ہو جاتے لہذا اس فعل کو ترک کرنا بہتر ہے کیونکہ اس طرح باہمی محبت بڑھتی ہے۔ اگر اس کا یہ قول صحیح ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلام میں جتنے بھی مالی واجبات اورحقوق ہیں انہیں انجام دینے کی نسبت ترک کرنا بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے افعال کا حکم دیتا ہے جن کا ترک کرنا عقلی طور پر بہتر ہو اور رازی سے یہ بعید نہیں کہ وہ امیر المومنین(ع) کی فضیلت کا انکار کرنے کے لیے اس بات کا قائل بھی ہو جائے (کہ احکام الہٰی خلاف عقل ہیں) بلکہ عینم ممکن ہے کہ وہ اس سے بھی زیاد خرافات کا قائل ہو۔

اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نظام الدین نیشا پوری کا کلام نقل کروں جس میں فخر الدین رازی کے کلام اور اس کے تعصب کو ہدف تنقید قرار دیا گیا ہے۔ نظام الدین نیشاپوری کی عین عبارت یہ ہے: قاضی کہتا ہے:

''رسول اللہ سے مناجات سے پہلے صدقہ دینا کوئی ایسا عمل نہیں جس سے بزرگ صحابہ کرام پر علی (علیہ السلام) کی کوئی فضیلت ثابت ہو۔ کیونکہ ہوسکتا ہےکہ صحابہ کے پاس اتنا وقت نہ ہو کہ وہ ا س فرض کو انجام دے سکتے۔ فخر الدین رازی نے کہا ہے: فخر الدین رازی نے کہا ہے: ہم تسلیم کرتےہیں کہ صحابہ کے پاس اس فرض کو انجام دینے کا وقت بھی تھا لیکن یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے فقراء جن کے پاس صدقہ دینے کے لیے

کچہ نہ ہو، رنجیدہ اور دولت مند متنفر ہوسکتے تھے اور دوسری طرف اسے ترک کرنے میں کوئی نقصان بھی نہیں تھا۔ کیونکہ جس عمل سے محبت اور ہمدردی بڑھتی ہو وہ اس عمل سے بہتر ہے جو نفرت و دشمنی کا باعث بنے اس کے علاہو مناجات سے قبل صدقہ دینا واجب تھا لیکن مناجاتا خود نہ واجب تھی اور نہ مستحب۔ بلکہ بہتر یہی تھا کہ مناجات کو ترک کیا جائے۔ کیونکہ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے یہ عمل رسول اللہ کے لیے ملال خاطر کا باعث بنتا تھا۔،،

۴۹۱

نیشا پوری فخر الدین رازی کے کلام کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''رازی کا یہ کلام تعصّب سے خالی نہیں۔ آخر ہم اس امر کو کیوں اپنا فرض سمجھیں کہ ہر صفت میں حضرت علی (علیہ السلام) پر باقی صحابہ کی فضیلت کو ثابت کیا جائے؟ اور کیا یہ ممکن نہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) ایسی فضیلت کے حامل ہوں جس سے دوسرے محروم ہوں؟ ممکن کیوں نہ ہو جبکہ عبد اللہ ابن عمر کہتے ہیں:

حضرت علی (علیہ السلام) میں تین فضیلیتیں ایسی تھیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی مجھ ہوتی تو یہ سرخ اونٹوں (ہرمال و دولت) سے بہتر ہوتی: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جیسی ہمسر نصیب ہونا، جنگ خیبر کے موقع پر آپ کو علم اسلام ملنا اور آیہ نجویٰ۔ وہ کون سا مصنف ہے جو رسول اللہ سے مناجات کو عیب اور خامی سمجِھے جبکہ آیہ کریمہ میں مناجات سے روکا بھی نہیں گیا۔ صرف مناجات سے قبل صدقہ دینے کا حکم دیا گیا ہے جو آدمی مناجات سے پہلے صدقہ دے وہ دو اعتبار سے فضیلت کا حامل بن جاتا ہے۔ ایک تو اس سے فقراء کی حاجات پوری ہوجاتی ہیں اور دوسرا یہ کہ اس طرح مناجات رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے محبت کا مظاہرہ ہوتا ہے اس سے رسول اللہ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے۔ مشکل مسائل کا حل ملتا ہے اور یہ بھی ظاہرہوتا ہے کہ صدقہ دینے والے کے دل میں مال دنیا سے زیادہ محبت مناجات رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ہے۔،،(۱)

۳۶۔( مَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ) ۵۹:۷

''تو جومال خدا نے اپنے رسول کو دیہات والوں سے بے لڑے دلوایا ہے وہ خاص خدا اور رسول اور (رسول کے) قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پردیسیوں کا ہے۔،،

____________________

(۱) تفسیر نیشاپوری حاشیہ تفسیر طبری، ج ۲۸، ص ۲۴

۴۹۲

قتادہ سے منقول ہے کہ یہ آیت نسخ ہوگئی ہے بایں معنیٰ کہ ''فئی،، اور ''غنیمت،، دونوں کا ایک ہی معنی ہے۔ صدر اسلام میں غنیمت، آیہ شریفہ میں مذکورہ افراد میں تقسیم ہوا کرتی تھی اور جنگ میں شریک مجاہدین کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ مگر یہ کہ کوئی مجاہد انہیں میں ےس ہو۔ اس کے بعد یہ حکم سورہ انفال کے ذ ریعے نسخ ہوگیا اور آیہ میں مذکور لوگوں کے لیے غنیف کا صرف پانچواں حصہ رہ گیا اور باقی چار حصوں کے مستحق مجاہدین قرار پائے، چنانچہ سورہ انفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(۱)

( وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ ) ۸:۴۱

''اور جان لو کہ جو کچھ تم (مال لڑکر) لوٹو اس میں کا پانچواں حصّہ مخصوص خدا کے لئے ہے۔،،

لیکن محققین نے قتادہ کے اس قول کو ردّ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مسلمان کفار سے جنگ کے نتیجےمیں جو مال بطور غنیمت حاصل کریں اس کا موضوع اور ہے، جو مال کسی جنگ و قتال کے بغیر اللہ تعالیٰ اپنے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو عطا فرمائے اس کا موضوع اور ہے۔ ان دو نوں آیات میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کے لئے ناسخ بن سکیں۔

مؤلّف: محققین حق بجانب ہیں کہ اس مسئلے میں کسی قسم کے مناقشہ کی گنجائش نہیں۔ اس کی تائید اور تاکید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ کی سیرت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ آپ نے غنیمت کو ا پنی ذات اور اپنے رشتہ داروں سے مختص کردیا اور مجاہدین کو اس سے محروم رکھا ہو۔

زیر بحث آیہ کے نسخ ہونے کا نظریہ اس بات سے بھی باطل ہو جاتا ہے کہ سورہ انفال، سورہ حشر سے پہلے نازل ہوئی ہے۔(۲) جس میں کسی قسم کا شک و بشہ نہیں اور یہ بھی مسلّم ہے کہ ناسخ کو منسوخ کے بعد نازل ہونا چاہیے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۳۱

(۲) تفسیر قرطبی ، ج ۱۸، ص ۱۴

۴۹۳

عالم خلقت میں بدائ

٭ تمہید

٭ قدرت خدا یہود کی نظر میں

٭ بداء شیعوں کی نظر میں

٭ قضائے الہٰی کی قسمیں

٭ عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

٭ حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

۴۹۴

اب تک ہماری بحث نسخ احکام کے بارے میں تھی۔ یہاں پر گذشتہ بحث کی مناسبت سے مسئلہ بداء کو مورد بحث قرار دیتے ہیں کیونکہ بداء بھی نسخ ہی کی ایک قسم ہے۔ اتنا فرق ضرور ہے کہ نسخ تشریع و قانون سازی کے میدان میں ہوتا ہے اور بداء تکوین و خلقت کے میدان میں۔ یعنی اگر عالم خلقت میں کوئی حکم منسوخ ہوجائے تو اسے بداء کہتے ہیں اور اگر قرآنی احکام و قوانین منسوخ ہوں تو اسے نسخ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس مناسبت سے یہاں پر بداء کی بحث چھیڑی گئی ہے۔

بداء کے بارے میں بحث کا دوسرا عامل و سبب یہ ہے کہ بعض علمائے اسلام نے بداء کی حقیقت اور اس کے صحیح مفہوم، جس کے شیعہ قائل ہیں، کونہیں سمجھِا اور اس میں کما حقّہ، تحقیق نہیں کی جس کی وجہ سے وہ بعض اشتباہات کا شکار ہوگئے اور شیعوں کی طرف ایسے عقائد و نظریات کی نسبت دی جس سے شیعہ بری ہیں۔ کاش یہ حضرات جو حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں تحقیق و تتبع کرتے یا کم از کم توقف اختیار کرتے(۱) جو نقل میں دیانت اور دین میں تقویٰ و پرہیزگاری کا تقاضا ہے۔

بہرحال ان دو مناسبتوں کے پیش نظر ہم نے بداء کو مورد بحث و تحقیق قرار دیا ہے اگرچہ اس مناسبت کے علاوہ مقدمہ تفسیر سے اس کا کوئی ربط نہیں۔

____________________

(۱) فخر رازی کے الزام ''شیعہ خدا کی طر ف جہل کی نست دیتے ہیں،، کی وضاحت کے لیے ضمیمہ نمبر ۹ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۹۵

تمہید

یہ ایک ناقابل انکا حقیقت ہے کہ تمام عالم ہستی حکومت اور قدرت الہٰی کے تحت چل رہا ہے۔ عالم امکان کی ہر شئی کے وجود کا دار و مدار خدا کی مشیئت اور ارادے پر ہے۔ اگر چاہے ایجاد فرماتا ہے اور اگر نہ چاہے ایجاد نہیں فرماتا۔

یہ حقیقت بھی مسلّم ہے کہ اللہ تعالیٰ کو روز ازل سے تمام اشیاء کا علم ہے اور خدا کے ازلی علم میں اشیاء عالم کو تعین علمی حاصل ہے اس علمی تعین کو کبھی تو قضائے الہی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور کبھی قدر الہی سے لیکن تقدیر الہٰی اور اشیاء کا علم ازلی ان کے ایجاد کی قدرت کے منافی نہیں۔ کیونکہ ہر ممکن کی ایجاد خدا کی مشیّت اور اس کے ارادے میں منحصر ہے۔ جسے کبھی اخیتار سے تعبیر کیا جاتا ہے اورکبھی ارادے سے۔ اگر ممکن، مورد مشیّت الہٰی قرار پائے تو وجود میں آئے گا ورنہ نہیں۔

تقدیر اور علم الہی، ہر چیز کی واقعی حالت کے م طابق ہوتا ہے۔ بایں معنی کہ اگر مشیت الہی کا تقاضا کسی چیز کو ایجاد کرنا ہو تو علم و تقدیر الہی میں بھی یہ چیز موجود ہوگی اور اگر مشیت الہی کا تقاضا کسی چیز کا ایجاد کرنا نہ ہو تو تقدیر اور علم الہی بھی اس کے مطابق ہوگا کیونکہ کسی چیز کا علم اور انکشاف اس چیز کی واقعی حالت سے مختلف نہیں ہوتا۔ اگر واقع مورد مشیت الہی ہو تو علم بھی اس کے مطابق ہوگا یعنی معلوم ایسی چیز ہوگی جس کی مشیت الہی متقاضی ہو۔ ورنہ یہ علم واقع کے مطابق نہ ہوگا اور نہ کسی شئی کا وقوع اور اس کی حقیقت کا انکشاف ہوگا۔

پس قضاء اور قدر الہٰی کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز ازل سے اپنی واقعی حالت کے مطابق علم خدا میں مشخص و معین ہے یعنی ہر چیز کا وجود اس امر پر موقوف ہے کہ وہ مورد مشیت و ارادہ الہی قرار پائے اور میشت و ارادہ الہی، اشیاء میں موجود مصلحت اور مفسدہ کے تقاضوں کے مطابق ہوا کرتے ہیں اور مصلحت و مفسدہ، حالات و شرائط کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ کسی چیز کی مصلحت یا اس کا مفسدہ علم الہٰی سے خارج نہیں ہوسکتا بلکہ علم الہی ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

۴۹۶

قدرت خدا ۔ یہود کی نظر میں

یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ جس چیز کو ازل میں قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے، مشیت اور ارادہئ الہی اس کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ یعنی خداوند عالم اس عالم ہستی میںکوئی چیز گھٹانے یا بڑھانے سے عاجز ہے، اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ لینے دینے سے قاصر ہے، اس لیے کہ قلم تقدیر نے جو خط کھینچا ہے وہ تبدیل نہیں ہوسکتا۔(۱)

کتنی عجیب بات ہے یہود، خدا انہیں نیست و نابود فرمائے، خاد سے تو قدرت کو سلب کرتے ہیں (اس بنیاد پر کہ خدا علم ازلی کے خلاف کسی کام پر قادر نہیں) لیکن اس بنیاد پر بندوں سے قدرت کو سلب نہیں کرتے (انہیں عاجز نہیں سمجھتے) جبکہ بقول خود سلب قدرت کا سبب دونوں میں پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ جس طرح افعال خدا، علم ازلی میں موجود ہیں اسی طرح بندوں کے افعال بھی علم ازلی میں موجود ہیں۔

بداء شیعوں کی نظر میں

پوشیدہ نہ رہے کہ شیعہ امامیہ جس بداء کے قائل ہیں وہ ان واقعات و افعال میں واقع ہوتا ہے جو خدا کی طرف سے حتمی نہ ہوں۔ لیکن جہاں تک حتمی مقدّرات الہٰی کا تعلّق ہے ان میں پس و پیش نہیں ہوسکتا لامحالہ وہی چیز مورد مشیّت الہٰی قرار پائے گی جو موردِ قضائے الہٰی ہو (حتمی مقدور ہو)

بداء کے موارد اور مقامات کو سمجھنے کے لئے قضاء و قدر کی اقسام کو سمجھنا ضروری ہے۔

__________________

(۱) مشیت الہی سے متعلق روایات کسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۰ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۴۹۷

قضائے الہٰی کی قسمیں

۱) وہ مقدّرات الہٰی جن کے بارے میں خدا نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو آگاہ نہیں کیا اور ان کا علم صرف ذاتِ الہٰی سے مختص ہے۔ اس علم (مقدّرات الہٰی) میں کسی قسم کا بداء اور ردّ و بدل نہیں ہوتا بلکہ اہل بیت اطہار(ع) نے سلیمان مروزی سے فرمایا:

''میرے والد بزرگوار نے اپنے والد گرامی امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ دو قسم کا علم رکھتا ہے۔ ایک وہ علم ہے جو سربستہ اور مخفی ہے جسے ذاتِ خدا کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا اور اسی سے بداء ہوتا ہے (بعض واقعات کی خبر دینے کے بعد اس میں تبدیلی آجاتی ہے) دوسرا علم وہ ہے جس کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور انبیاء(ع) کو دی ہے اور اہل بیت نبی یہ علم رکھتے ہیں۔،،(۱)

'' ان الله علمین: علم مکنون مخزون لا یعلمه، الا هو، من ذٰلک یکون البدائ، و علم علّمه ملائکته و رسله و انبیآء و نجن نعلمة ۔،، (۲)

''اللہ کے پاس دو قسم کے علم ہیں۔ ایک علم مخزون و مکنون ہے جسے سوائے اللہ کے کوئی دوسرا نہیں جانتا اور اسی وجہ سے بداء واقع ہوتا ہے۔ دوسرا علم وہ ہے جس کی تعلیم، ملائکہ، انبیاء اور رسولوں کو دی اور ہم اس کے عالم ہیں۔،،

۲۔ وہ مقدراتِ الہٰی جن کے بارے میں اللہ نے انبیاء(ع) اور ملائکہ کو خبر دی ہے کہ یہ حتمی طور پر واقع ہوں گے۔ ا س میں کوئی شک نہیں کہ ان مقدرات میں بداء واقع نہیں ہوتا اگر چہ پہلے مقدرات اور ان یہ فرق موجود ہے کہ یہ مقدرات، بداء کے لیے سرچشمہ نہیں بنتے۔

____________________

(۱) عیون الاخبار الرضا باب ۱۳ فی الذکر مجلس الرضا مع سلیمان مروزی۔ بحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۲

(۲) بحار، باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۶، شیخ کلینی نے ابو بصیرسے بھی یہ روایت کی ہے: الوافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۴۹۸

گذشتہ روایات میں امام رضا(ع) نے سلیمان مروزی سے فرمایا:

امیر المومنین(ع) فرماتا کرتے تھے: علم کی دو قسمیں ہیں، ایک علم وہ ہے جو اللہ نے ملائکہ اور رسولوں کو بھی دیا۔ اللہ نے اپنے رسولوں فرشتوں کو جو کچھ سکھایا ہے وہ ہو کر رہے گا اور اللہ اپنی ذات، ملائکہ اور رسولوںؑ کو کبھی نہیں جھٹلاتا اور دوسرا علم وہ ہے جس کا خزانہ اللہ ہی کے پاس ہے اور اپنی مخلوق میں سے کسی کو بھی اس سے آگاہ نہیں کیا، ان مقدرات میں سے جسے چاہے مقدم فرماتا ہے اور جسے چاہے مؤخر فرماتا ہے جسے چاہے محو فرماتا ہے اور جسے چاہے ثابت اور برقرار رکھتا ہے۔،،(۱)

عیاشی نے فضیل سے روایت کی ہے کہ امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

''کچھ امور وہ ہےں جو لامحالہ واقع ہو کر رہیں گے اور ان میں کسی قسم کا بداء اور تغیر و تبدل واقع نہیں ہوگا اور کچھ امرو وہ ہیں جن کا دار مدار منشاء الہٰی پر ہے جس کو اللہ چاہے مقدم فرمائے جس کو چاہے محو کر دے اور جس کو چاہے ثابت و برقرار رکھے۔ ان امور سے اللہ نے کسی کو بھی آگاہ نہیں فرمایا جس چیز سے اللہ نے انبیاء(ع) کو مطلع کردیا ہو وہ ضرور واقع ہوگی۔ اس لیے کہ اللہ اپنی ذات، انبیاء(ع) اور اپنے فرشتوں کو نہیں جھٹلاتا۔،،(۲)

مقدرات کی تیسری قسم وہہے جس کے خارج میں واقع ہونے کے بارے میں اللہ نے اپنے نبی اور ملائکہ کو آگاہ کردیا ہے لیکن ان کا خارج میں واقع ہونا اس پر موقوف ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو، یہ وہ مقدرات ہیں جن میں بداء (تغیر و تبدل) واقع ہوتا ہے:

( يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ) ۱۳:۳۹

''خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس (اصل کتاب لوح محفوظ موجود ہے)۔،،

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا، باب ۱۳، الوافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۲) بحار، باب البداء والنسخ، ج ۲، ص ۱۳۳

۴۹۹

( لِلَّـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ ) ۳۰:۴

''کیونکہ (اس سے) پہلے اور بعد (غرض ہر زمانے میں) ہر امر کا اختیار خدا ہی کو ہے۔،،

اس قضائے الہٰی پر متعدد روایات بھی دلالت کرتی ہیں:

i ) تفسیر علی بن ابراہیم میں عبد اللہ بن مسکان اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جب شب قدر آتی ہے تو ملائکہ، روح اور انسانی اعمال لکھنے والے فرشتے دنیا کے آسمان پر نازل ہوتے ہیں اور اس سال کے تمام مقدرات الہٰی ثبت کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز میں تقدیم و تاخیر یا کمی بیشی کرنا چاہے تو خالق مخصوص فرشتے کو حکم دیتا ہے کہ اللہ جسے چاہے مٹا ڈالے اور جس کا ارادہ کرے اسے ثابت رکھے۔ عبد اللہ ابن مسکان کہتا ہے، میں نے امام صادق(ع) کی خدمت میں عرض کی: کیا ہر چیز کتاب الہٰی میں ثبت ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ میں نے عرض کی: تو پھر کیا ان مقدراتِ الہٰی میں تبدیلی آسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔،،(۱)

ii ) تفسیر علی بن ابراہیم میں عبد اللہ بن مسکان ، امام محمد بن باقر، امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم (علیہم السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اللہ کے اس ارشاد کی تفسیر میں فرمایا:

( فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ ) ۴۴:۴

''اسی رات کو تمام دنیا کے حکمت و مصلحت کے (سال بھر کے) کاموں کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔،،

____________________

(۱) نقل از بحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۳

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689