البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313966 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

چھٹا اعتراض

اعجام قرآن پر چھٹا اعتراض یہ ہے کہ اگر ہر وہ کتاب معجزہ ہے جس کی نظیر لانے سے انسان عاجز ہو تو ہیئت کی کتاب ''اقلیدس،، اور ہندسہ کی کتاب بھی معجزہ نہیں ہوسکتی جس کی نظیر انسان نہ لاسکے۔

جواب:

اولاً: ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انسان ان دونوں کتابو ںکی نظیر لانے سے عاجز اور قاصر ہے۔ ا س لیے کہ ان کے بعد علم ہیئت اور علم ہندسہ پر ایسی ایسی کتب لکھی جاچکی ہےں جن کا بیان زیادہ وزنی اور سمجھنا آسان ہے۔ بعد کی کتاب کئی اعتبار سے ان دونوں کتابوں پر فوقیت رکھتی ہیں اور ان میں بعض ایسی چیزیں ہیں جن کا ان دونوں کتب میں نام و نشان تک نہیں ہے۔

ثانیاً: ہم نے معجزہ کی کئی شرائط بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ معجزے کو جب پیش کیا جائے تو اسے بطور چیلنج اور اپنے الہٰی منصب کے ثبوت و دلیل میں پیش کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو کام بھی بطور معجزہ انجام دیا جائے وہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہو۔ یہ دونوں شرائط ان دونوں کتب میں مفقود ہیں۔ اس کی وضاحت ہم اعجاز کی بحث کے شروع میں کرچکے ہیں۔

ساتواں اعتراض

اگر عربوں نے قرآن کا مقابلہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انسان قرآن کی نظیر لانے سے عاجز و قاصر ہے بلکہ اس کی اور وجوہات ہیں جن کا تعلق اعجاز سے نہیں ہے۔

۱۲۱

دعوت اسلام کے معاصر اور ان کے بعد عربوں کی طرف سے قرآن کا مقابلہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت اور ان کا رعب و ہیبت ان کو اس مقابلے سے روکتا تھا اور انہیں اس میں اپنی جان و مال کا خوف تھا۔ خلفاء اربعہ کی حکومت کا دور گزرنے کے بعد جب امویوں کا دور آیا، جن کی خلافتیں دعوتِ اسلامی کے محور پر قائم نھیں تھیں تو قرآن اپنے الفاظ کی متانت اور مضبوطی کی وجہ سے تمام لوگوں میں مانوس ہوچکا تھا اور نسلیں گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قرآن لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوتا چلا گیا یہ رسوخ و راثۃً نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں اس کے مقابلے سے لوگ دستبردار ہوگئے۔

جواب:

اولاً: قرآن کا چیلنج اور ایک سورہ کے مقابلے کی دعوت دینا اس زمانے کی بات ہے جب پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مکّہ میں تھے اور اسلام کو ابھی وہ تقویت حاصل نہیں ہوئی تھی اور نہ ملسمانوں کا وہ رعب و دبدبہ تھا جس سے مخالفین پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا۔ اس کے باوجود عرب کے فصحاء اور بلغاء قرآن کا مقابلہ نہ کرسکے۔

ثانیاً: خلفاء کے دور حکومت میں ایسا خوف نہیں تھا جس کی وجہ سے کفار اور مخالفین قرآن اپنے کفر اور مسلمانوں سے اپنی عدوات کو ظاہر نہ کرسکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جزیرۃ العرب میں مسلمانوں کے درمیان اہل کتاب بڑے سکون و آرام کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کو وہی حقوق حاصل تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔ ان کے فرائض وہی تھے جو مسلمانوں کے تھے۔ خاص کر حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے دور حکومت میں جن کی عدالت اور کثرت علم کی گواہی غیر مسلم تک دیتے ہیں۔ اس قسم کے اہل کتاب یا دوسرے کفار اگر قرآن کی مثل و نظیر لانے پر قادر ہوتے تو یقیناً وہ اپنے نظریئے اور ثبوت میں اسے پیش کرتے۔

۱۲۲

ثالثاً: بالفرض اگر قرآن کے مقابلے سے انہیں خوف محسوس ہوتا تھا تو یہ خوف کھلے عام مقابلے میں مانع ہونا چاہیے تھا۔ گھروں میں اور بالکل مخفی طور پر قرآن کے مقابلے میں عبارتیں بنانے سے کون سی چیز لکھنے والوں کی راہ میں حائل تھی؟

اگر اس قسم کی کتب یا عبارتیں لکھی گئی ہوتیں تو اس خوف کے زائل ہونے کے بعد ان کو ظاہر کیا جاتا جس طرح کتب عہدلین کی خرافات اور ان کے دین سے متعلق دیگر باتیں آج بھی محفوظ ہیں۔

رابعاً: کوئی بھی کلام ہو، چاہے وہ بلاغت کے بلند ترین مقام پر ہو، انسانی طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ جب وہ بار بار سماعت سے ٹکرائے گا تو اپنے پہلے مقام سے گرجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بلیغ سے بلیغ قصیدہ و کلام بھی اگر انسان کے سامنے مکرر پڑھا جائے تو انسان اس سے اکتا جاتا ہے۔ کیونکہ ا س کے مقابلے میں جب کوئی دوسرا قصیدہ اسے سنایا جاتا ہے تو اسے شروع میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ دوسرا قصیدہ پہلے قصیدہ سے بہتراور اس میں زیادہ بلاغت ہے اور جب دوسرے قصیدے کو بھی بار بار پڑھا جائے تو ان دونوں میں موجود فرق واضح ہو جاتا ہے۔

یہ قاعدہ صرف کلام ہی سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس چیز میں جاری ہے جس سے انسان لطف اندوز وہتا ہے اور اس کے حسن و قبح کو درک کرسکتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق کھانے پینے یا پہننے کی چیزوں سے ہو یا سنائی دینے والی آواز سے۔

اگر قرآن کریم معجزہ نہ ہوتا تو یہ کلیّہ اس پر بھی لاگو ہوتا اور سننے والوں کے نزدیک اس کا وہ مقام نہ رہتا جو شروع شروع میں اسے حاصل تھا اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فصاحت و بلاغت میںکمی آجانی چاہیے تھی جس کے نتیجے میں قرآن کا مقابلہ آسان ہوجاتا۔

۱۲۳

لیکن ہم بالوجدان یہ دیکھ رہے ہیں کہ قرآن کریم کو بار بار پڑھنے اورسننے کے باجود اس کے حسن اور خوبیوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور اس سے عرفان و یقین حاصل ہوتا ہے اور انسان اس پر ایمان لانے اور اس کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم کی یہ خصوصیت اور امتیاز، دوسرے مانوس کلاموں سے بالکل مختلف ہے۔ پس قرآن کا یہ پہلو بھی اس کے معجزہ ہونے کی تائید اور تاکید کرتا ہے اور یہ اس کے اعجاز کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ مخالف قرآن و اسلام کا توہم ہے۔

خامساً: بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ کسی کلام کو بار بار پڑھنے سے انسان اس سے مانوس اور اس کے مقابلے سے دستبردار ہوجاتا ہے تو یہ بات صرف مسلمانوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جو قرآن کی تصدیق کرتے ہیں اسے بار بار سنتے اور اس سے مانوس ہوتے ہیں اور چاہے جس کثرت سے بھی اس کی تلاوت کی جائے اسے رغبت و شوق سے سنتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسرے غیر مسلموں کو اس کے مقابلے سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے تھا تاکہ اس مقابلے کو کم از کم غیر مسلم ہی تسلیم کرلیتے۔

آٹھواں اعتراض

تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے جب قرآن کو جمع کرنا چاہا تو انہوںنے حضرت عمر اور زید بن ثابت کو حکم دیا کہ ومسجد کے دروازے پر بیٹھ جائیں اور ہر وہ عبارت لکھ لائیں جس کے کتاب ہونے کی گواہی دو شاہد دیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیرمعمولی کلام نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیر معمولی کلام ہوتا تو اس کے لیے کسی شہادت و گواہی کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی اور بذات خود اسے ثبت ہونا چاہیے تھا۔

۱۲۴

جواب:

اولا: قرآن کی بلاغت اور اس کا اسلوب کلام معجزہ ہے، نہ کہ اس کا ایک ایک کلمہ اور لفظ معجزہ ہے۔ اس بناء پر یہ شک ہوسکتا ہے کہ اس کے مفردات اور کسی کلمہ میں تحریف نہ ہوگئی ہو یا اس میں کمی بیشی کا بھی احتمال ہوسکتا ہے۔ فرض کریں شاہدوں کی شہادت والی راویت اگر صحیح بھی ہے تو وہ اس قسم کے احتمالات کے ازالے کے لیے ہے کہ کہیں قرآن پڑھنے والا غلطی سے یا جان بوجھ کر کسی لفظ یا کلمے میں کمی بیشی نہ کردے۔

اس کے علاوہ اگر قرآن کی ایک سورۃ کی نظیر بشر نہ لا سکے تو وہ ایک آیہ کی مثل و نظیر لانے سے منافات نہیں رکھتا۔ یہ ایک ممکن کام ہے اور آج تک مسلمانوں نے اس کے محال یا ناممکن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور قرآن نے اپنے چیلنج میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ لوگ اس کی ایک آیت کی نظیر و مثل نہیں پیش کرسکتے۔

ثانیاً: جتنی روایات اور اخبار اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر کے زمانے میں صحابہ میں سے دو شاہدوں کی شہادت سے قرآن جمع کیا جاتا تھا۔ یہ سب خبر واحد ہیں خبر متواتر نہیں اور خبر واحد اس قسم کے واقعات میں حجت اور دلیل نہیں بن سکتی۔

ثالثاً: ان اخبار کے مقابلے میں بہت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں جمع کیا گیا۔ بہت سے اصحاب نے پورا قرآن کریم حفظ کرلیا تھا اور جن حضرات کو قرآن کے بعض سورے اور حصے یاد تھے ان کا تو شمار ہی نہیں ہوسکتا۔

۱۲۵

اس کے علاوہ اگر عقلی طور پر انسان ذرا فکر سے کام لے تو اس قسم کی روایات کا کذب ثابت ہو جاتا ہے جن سے مخالفین قرآن تمسک چاہتے ہیں۔

پس قرآن جو مسلمانوں کی ہدایت کا سب سے بڑا ذریعہ اور ان کو بدبختی اور جہالت کی تاریکیوں سے سعادت اور علم کے نور کی طرف لاتا ہے اور مسلمان قرآن کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے اور دن رات اس کی تلاوت کرتے تھے، قرآن کو حفظ کرنے اور اس کی صحیح تلاوت کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے، اس کی سورتوں اور آیات کو دیکھنا مبارک سمجھتے تھے اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بھی اس بات کی ترغیب دیتے تھے، ان سب باتوں کے باوجود کیا کوئی عقلمند یہ احتمال دے سکتا ہے کہ کسی آیہ یا سورہ کو ثابت کرنے کے لیے دو گواہوں کی ضرورت ہوگی۔ انشاء اللہ ہم آ ئندہ ثابت کریں گے کہ قرآن مجید پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں مکمل طور پر جمع کرلیا گیا تھا۔

نواں اعتراض

قرآن کا اسلوب، بلاغت کے مروج اسلوب سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید نے مختلف موضوعات کو باہم مخلوط کردیا ہے۔ مثلاً اگر تاریخ کی بات کررہا ہے تو اچانک وعدہ وعید (بہشت کے وعدوں اور جہنم کے عذاب کی دھمکیوں) میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر قرآن ابواب میں تقسیم ہوتا اور ہر موضوع کے متعلق جتنی آیات ہیں ان کو یکجا کردیا جاتا تو اس کا فائدہ بہت زیادہ ہوتا اور اس سے استفادہ بھی آسان ہوتا۔

جواب:

قرآن انسانوں کی ہدایت اور ان کو دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یہ کوئی تاریخی یافقہ و اخلاق یا اسی قسم کی کوئی اور کتاب نہیں ہے کہ اس کو ان موضوعات کے لحاظ سے مستقل ابواب میں یکجا کیا جاتا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اسلوب، مطلوبہ مقصد تک پہنچانے کا نزدیک ترین اسلوب ہے، اس لیے کہ جو انسان قرآن کی بعض سورتوں کی تلاوت کرتا ہے

۱۲۶

وہ اسی تلاوت اور قلیل وقت میں، معمولی زحمت کرکے بہت سے اغراض و مقاصد حاصل کرسکتا ہے۔ مثلاً، ایک ہی تلاوت میں وہ توحید و معدا کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے۔ گذشتہ لوگوں کے حالات سے آگاہ ہوسکتا ہے اور اس سے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔ اخلاق حسنہ کا استفادہ کرسکتا ہے اور دیگر علوم و معارف سے روشناس ہوسکتا ہے ان کے علاوہ اسی تلاوت میں اپنی عبادات اور معاملات سے متعلق کچھ احکام بھی سیکھ سکتا ہے۔

ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں نظم کلام کی رعایت بھی کی گئی ہے حسن بیان کا حق ادا کردیا گیا ہے اور مقتضائے حال کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔

یہ وہ فوائد ہیں جو قرآن کو ابواب میں تقسیم کرنے سے حاصل نہ ہوسکتے۔ کیونکہ اگر اسے ابواب میں تقسیم کیا جاتا تو انسان اپنے مختلف اغراض و مقاصد اسی صورت میں حاصل کرسکتا تھا جب وہ پورے قرآن کی تلاوت کرتا اور عین ممکن ہے کہ کچھ رکاوٹیں پیش آنے کی وجہ سے انسان پورے قرآن کی تلاوت نہ کرپائے اور صرف ایک یا دو ابواب سے مستفید ہوسکے۔

مجھے اپنی زندگی کی قسم حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ باتیں اسلوب قرآن کی خوبیوں میں سے ہیں اس اسلوب کی وجہ سے قرآن کو حسن و جمال ملا ہے۔ اس لیے کہ قرآن کے ایک موضوع سے دوسرے موضوع کی طرف منتقل ہونے کے باوجود ان دونوں موضوعات میں مکمل ربط قائم رہتا ہے۔ گویا اس کے تمام جملے موتی ہیں جنہیں ایک لڑی میں پرودیا گیا ہے۔

لیکن اسلام دشمنی نے معترض کی آنکھ کو اندھا اور کان کو بہرا کردیاہے جس کی وجہ سے وہ جمال کو قبح اوراچھائی کو برائی سمجھتا ہے۔

اس کے علاوہ قرآن مجید میں بعض قصوں کی حسب ضرورت مختلف عبارتوں میں تکرار کی گئی ہے، اگر مکرر بیان کی گئی عبارتوں کو ایک ہی باب میںبیان کردیا جاتا تو قاری کو زیر نظر فائدہ حاصل نہ ہوتا۔

۱۲۷

قرآن کا مقابلہ

کتابچہ ''حسن الایجاز،،(۱) کا مصنف اپنے رسالے میں دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن کی نظیر پیش کرنا ممکن ہے اور اس نے کچھ ایسے جملے ذکر کئے ہیں جنہیں اس نے قرآن ہی سے لیا ہے اور ان کے بعض الفاظ میں تبدیلی کرکے اپنے زعم باطل میں یہ سمجھاہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کررہا ہے اس طرح اس نے اپنے مبلغ علم اور بلاغت شناسی کاراز فاش کردیا ہے۔

قارئین محترم کی خدمت میں وہ عبارتیں پیش کرکے ہم اس کے وہمی اور خیالی مقابلے کی قلعی کھول دیتے ہیں اور اس کے جملوں میں جو خامیاں پای جاتی ہیں ان کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنی کتاب ''نفحات الاعجاز،، میں بھی ان خیالی مقابلوں کا جواب دے چکے ہیں۔(۲)

اس خیال باف نے سورہ فاتحہ کے مقابلے میں لکھا ہے:

الحمد الرحمن رب الاکوان، الملک الدیان، لک العبادة و بک المستعان، اهدنا صراط الایمان

اپنے زعم باطل میں یہ سمجھتا ہے کہ اس کی یہ عبارت سورۃ فاتحہ کے معانی و مفاہیم ادا کرتی ہے اور اس سے مختصر بھی ہے۔

معلوم نہیں یہ جملے لکھنے والے کو کیا جواب دیا جائے جو علمی اعتبار سے اتنا گیا گزرا ہے کہ وزنی اور ہلکے کلام میں بھی تمیز نہیں کرسکتا۔ کاش اس سے پہلے کہ اس دعویٰ کے ذریعے وہ اپنے آپ کو رسوا کرتا۔ ان عبارتوں کو علمائے نصاریٰ کے سامنے پیش کرتا جو اسلوب کلام اور فنون بلاغت سے آشنائی رکھتے ہیں۔

____________________

(۱) یہ چھوٹا سا کتابچہ ۱۹۱۲ء میں مصر کے شہر بولاق میں ایک اینگلو ارمیکن پریس میں شائع کیا گیا۔

(۲) یہ کتاب رسالہ ''حسن الایجاز،، کی رد میں لکھی گئی جو ۱۳۴۲ھ میں نجف اشرف کے علویہ پریس میں شائع کی گئی۔

۱۲۸

اسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ کسی بھی کلام کے مقابلے کاطریقہ یہ ہے ک کوئی شاعر یا مضمون نگار اپنے ہی الفاظ، ترکیب اور اسلوب میں ایسا کلام پیش کرے جو مد مقابل کلام کے کسی پہلو اور مقصد سے مطابقت رکھتا ہو۔ مقابلے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کلام کی ترکیب اور اسلوب میں اس کلام اور ترکیب کی نقل کی جائے جس سے مقابلہ کیا جارہا ہے اور صرف الفاظ میں رد و بدل کرلیا جائے۔

اسطرح کا مقابلہ تو ہر کلام کا کیا جاسکتا ے اور ایسا مقابلہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ہم عصر عربوںکے لیے آسان تھا، لیکن چونکہ وہ مقابلے کے صحیح مفہوم اور بلاغت قرآن کے پہلوؤں کو سمجھتے تھے اس لیے مقابلہ نہ کرسکے۔ قران کے معجزہ ہونے کا انہوں نے اعتراف کرلیا اور انہوں نے اس پر ایمان لانا تھا وہ ایمان لے آئے اور جنہوں نے اس کا انکار کرناتھا انہوں نے انکار کردیا۔ اس کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( فَقَالَ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ) ۷۴:۲۴

''پھر کہنے لگا یہ تو بس جادو ہے جو (اگلوں سے) چلا آتا ہے۔،،

اس کے علاوہ مذکورہ بالا جملوں کا سورۃ فاتحہ سے موازنہ تک نہیں ہوسکتا جس سے یہ سوال پیدا ہو کہ ان جملوں سے سورۃ فاتحہ کے معانی ادا ہو جاتے ہیں؟

کیا فن بلاغت سے اس کا بے بہرہ ہونا ہی کافی نہیں تھا کہ اس نے لوگوں کے سامنے اپنی خامیوں اور عیبوں کو بھی

ظاہر کردیا؟!! اور''الحمد للرحمٰن،، کا مقایسہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان( الْحَمْدُ لِلَّـهِ ) ۱:۲،، سے کس طرح کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ اس جملے میں وہ معانی نہیں پائے جاتے جو مقصود الہٰی ہیں۔ اس لیے کہ لفظ ''اللہ،، علم ہے اور نام ہے اس ذات اقدس کا جو تمام صفات کمال کی جامع ہے۔

۱۲۹

ان صفات کمال میں سے ایک صفت، رحمت ہے جس کی طرف ''بسم اللہ، میں اشارہ کیا گیا ہے ''اللہ،، کی بجائے ''رحمٰن،، ذکر کرنے سے باقی صفات کمال پر دلالت نہیں ہوتی جو ذات الہٰی میں مجتمع ہیں اور وہ صفات ایسی ہیں جو بذات خود رحمت کی طرح حمد الہٰی کی موجب ہیں۔

اسی طرح اس کے جملے ''رب الاکوان،، میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:( رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) ۱:۳ کے معنی و مفہوم کا کوئی شمہ نہیں پایا جاتا۔ اس لیے کہ( رَبِّ الْعَالَمِينَ ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عالم طولی وعرضی(۱) ایک نہیں بلکہ متعدد ہیں اور اللہ تعالیٰ ان تمام عالموں کا مالک اور پالنے والا ہے اور اس کی رحمت ان تمام عالموں کو شامل ہے۔ چنانچہ ''رحمن،، کے بعد ''رحیم،، کاذکر بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے جس کی وضاحت انشاء اللہ ''سورہ فاتحہ،، کی تفسیر میں کی جائے گی۔

یہ پر مغز معانی کجا اور عبارت ''رب الاکوان،، کجا؟ لفظ ''کون،، کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ''حدوث،، ''وقوع،، پذیر ''ہوجانا،، اور ''کفالت،،(۲) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ سارے معانی مصدری ہیں جن کی طرف لفظ ''رب،، بمعنی مالک و مربی کی اضافت صحیح نہیں ہے۔ البتہ لفظ ''خالق،، کی اضافت ''کون،، کی طرف ہوسکتی ہے، اور ''خالق الاکوان،، کہا جاسکتا ہے۔

____________________

(۱) فلسفیانہ نقطہئ نظر سے عالم کی دوقسمیں ہیں:

i ) عرضی۔

ii ) طولی۔

عالم عرضی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میںایک علت اور دوسرا معلول نہ ہو جسے انسان اور حیوانات۔ عالم طولی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میں ایک علت اور دوسرا معلول ہو جسے عالم ناسوت (مادہ) جس کی علت عالم ملکوت ہے اور عالم ملکوت جس کی علت عالم لاہوت ہے۔

(۲) ''لسان العرب،، کی طرف رجوع کیجئے۔

۱۳۰

اس کے علاوہ لفظ ''اکوان،، عالم موجودات کے تعدد پر دلالت نہیں کرتا جیسے لفظ ''عالمین،، دلالت کرتا ہے اور آیہ کریمہ کے دوسرے پہلو جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) ۱:۴،، اس سے جو مقصد حاصل ہوتا ہے وہ جملہ ''الملک الدیان،، سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ جملہ اس عالم کے علاوہ کسی اور عالم کے وجود پر دلالت نہیں کرتا جس میں اعمال کی سزا و جزا دی جائے گی اور یہ کہ اس دن کا مالک صرف خدا کی ذات ہے کسی اور کو اس میں تصرف اور اختیا رکا حق نہیں ہوگا۔ سب لوگ اس دن خدا کے حکم کے تحت ہونگے، خدا ہی کے حکم و امر کا نفاذ ہوگا اور اسی کے حکم سے بعض کو بہشت ملے گی اور بعض کو جہنم میں بھیجا جائے گا۔

جبکہ جملہ ''الملک الدیان،، صرف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا وہ بادشاہ ہے جو اعمال کی سزا و جزا دیتا ہے۔ کتنا فرق ہے اس جملے اور آیہ کریمہ کے معانی میں؟!

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) ۱:۵

اس کتابچے کے مصنف نے اس آیہ سے صرف اتنا سمجھا ہے کہ عبادت، خدا کی ہونی چاہیے اور مدد صرف خدا سے لینی چاہیے۔ چنانچہ اپنی اس سمجھ کے مطابق اس نے اللہ تعالیٰ کے مذکورہ فرمان کو اپنے اس قول سے بدل دیا۔''لک العبادة و بک المستعان،، یعنی ''عبادت تیرے لیے ہے اور مدد تمجھ سے ہے۔،، اور اس سے وہ مقصد فوت ہوگیا جو اس آیہ کریمہ کا تھا۔ اس آیہ کریمہ میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ مومن، توحید فی العبادۃ کااظہار کرے اس کے علاوہ عبادات اور دیگر افعال میں اپنی احتیاج کابھی اظہار کرے اور یہ اعتراف کرے کہ میں اور دوسرے تمام مومنین غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے اور نہ غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ بھلا یہ نکات اس مصنف کی عبارت میںکہاںمل سکتے ہیں جبکہ اس کی عبارت آیہ مبارکہ سے زیادہ مختصر بھی نہیں ہے؟!

۱۳۱

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) ۱:۶

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اس سے ایسے قریبی راستے کی ہدایت طلب کریں جو اپنے چلنے والے کو اعمال خیر، صفات نفسانی اور عقائد جیسے مقاصد تک پہنچائے اور اس راستے کو صرف ایمان کے راستے میں منحصر نہیں فرمایا۔ یہ مطلب مصنف کے جملہ ''اھدنا صراط الایمان،، میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے علاوہ اس جملے میں صرف ایمان کے راستے کی ہدایت کے لیے درخواست کی گئی ہے۔ اس میں اس نکتے کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ ایمان کا یہ راستہ مستقیم ہے اور وہ اپنے پر چلنے والے کو گمراہ نہیں کرتا۔

اس مصنف نے صرف انہی جملوں کو مثل و نظیر کے طور پر پیش کرکے یہ گمان کرلیا ہے کہ سورہ مبارکہ کے باقی حصے کی ضرورت نہیں ہے ارو یہ بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس آیہ کے مفوہم کو نہیں سمجھ سکا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) ۱:۷

اس میں حقیت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ راستہ ایک ایسا مستقیم اور سیدھا راستہ ہے کہ اس پر انبیاء(ع) صدیقین، شہداء اور صالحین چلتے ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعتمیں نازل فرمائیں ہیں، اور اس کے مقابلے میں کچھ ایسے راستے ہیں جو مستقیم نہیں ہیں۔ ان راستوں پر وہ لوگ چلتے ہیں جن پر غضب الہٰی نازل ہوتا ہے، جو حق کے دشمن ہوتے ہیں اور حق آشکار ہونے کے باوجود اس کا انکار کرتے ہںی اور اس راستے پر چلنے والے لوگ ایسے گمراہ ہیں جو اپنی جہالت، جستجو میں کوتاہی اور اپنے آباؤ اجداد کی وراثت میں ملنے والے عقیدہ پر اکتفاء کرنے کی وجہ سے راہ حق سے بھٹک گئے ہیں، جس کے نتیجے میں بغیر کسی ہدایت اور دلیل کے انہوں نے اندھی تقلید کا راستہ اپنالیا ہے۔

۱۳۲

جو بھی اس آیہ کریمہ کو تدبّر اور تفکّر کی نگاہ سے پڑِے وہ اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوگا کہ اخلاق و عقاید اور دوسرے اعمال میں اولیائے خدا اور اللہ کے مقربین کی اتباع کرنا چاہیے اور ان سرکشوں کی راہ سے اجتناب کرنا چاہیے جن کے اعمال یا جنکے کرتوتوں کے نتیجے میں خدا نے ان پر غضب نازل فرمایا ہو اور جو حق کے واضح ہونے کے باوجود اس کے راستے بھٹک گئے ہیں۔

اہل انصاف بتائیں کہ کیا یہ کوئی معمولی نکتہ ہے جسے اس مصنف نے نظر انداز کردیا اور اس آیہ کو غیر ضروری سمجھ کر اس کی نطیر یا متبادل عبارت کا ذکر نہیں کیا۔

یہ مصنف سورۃ ''کوثر،، کے مقابلے میں یہ عبارت پیش کرتا ہے:

''انا اعطیناک الجواهر فصل لربک و جاهر ولا تعتمد قول ساحر،،

ملاحظہ فرمائیں کہ نظم اور ترکیب میں یہ کس طرح قرآن کی نقل کررہا ہے اور اس کے بعض الفاظ بدل کر لوگوں کو یہ غلط تاثر دے رہا ہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کرنے میںکامیاب ہوگیا ہے، یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اپنی یہ عبارت کس طرح مسلیمہ کذاب کی عبارت سے چوری ی ہے۔ مسیلمہ کذاب کہتا ہے:

''انا اعطیناک الجماهر فصل لربک وهاجرو ان مبغضک رجل کافر،،

مقام حیرت ہے کہ یہ اس توہم کا شکار ہے کہ اگر دو کلام سجع میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو یہ بلاغت میں بھی یکساں ہوں گے اور اس نکتے سے غافل ہے کہ خدا کی طرف سے جواہر دیئے جانے لازمہ یہ نہیں ہے کہ نماز قائم کی جائے اور اس کا اعلان کیا جائے،نیز خداکی نعمتیں صرف جواہر ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سی نعمتیں ہیں جو کہ جواہر اور دوسرے مال و دولت سے بڑھ کر ہیں جیسے زندگی ہے، عقل اور ایمان کی نعمت ہے، جب خدا کی اتنی نعمتیں ہیں تو ان تمام کو چھوڑ کر صرف مال ہی کو کیوں نماز کا سبب قرار دیا ہے۔

۱۳۳

لیکن جو شخص تبشیری مشینری کے لیے کرائے پر کام کرتا ہو اس کاقبلہ تو مال و دولت ہی ہوگا اور مال ہی اس کا آخری ہدف ہوگا جس کے حصول کی وہ کوشش کرتا ہے اور مال ہی اس کی آخری منزل ہوتی ہے جسے وہ ہر مقصد پر برتر سمجھتا ہے، ضرب المثل ہے:

''وکل اناء بالذی فیه ینفح،،

از کوزہ ہمان تراودکہ دراواست

کوئی اس شخص سے پوچھے کہ جواہر سے کیا مراد ہے جسے اس نے الف، لام کے ساتھ ذکر ککیا ہے۔ اگر جواہر سے مراد کوئی خاص جواہر ہیں تو اس لفظ میں اس کی نشاندہی کے لیے کوئی قرینہ بھی ہونا چاہیے تھا جس سے جواہر کا تعین ہو جاتا، جو کہ موجود نہیں ہے۔

اگر جواہر سے مراد دنیا کے تمام جواہر ہیں (کیونکہ جواہر جمع ہے اور اس پر الف لام موجود ہے اور جب جمع پر الف، لام ہو تو یہ استغراق یعنی تمام افراد پردلالت کرتا ہے) تو یہ سفید جھوٹ ہے۔

اس کے علاوہ اس کے سابقہ دو جموں اور جملہ ''ولا تعتمد قول ساحر،، میں کیا مناسبت ہے؟ اور ساحر سے مراد کون ہے؟ جس پر اعتماد کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اگر اس سے مراد کوئی خاص ساحر یا جادوگر ہے اور اس ساحر کے اقوال میں سے کوئی خاص قول مراد ہے تو اس کے لیے کسی قرینہ یا علامت کا ذکر ہونا چاہتے تھاکہ اس ساحر سے مراد فلاں ساحر اور اس کا فلاں قول ہے۔ جبکہ اس جملے میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی خاص ساحر اور کسی خاص قول پر دلالت کرے۔

۱۳۴

اگر ساحر سے مراد ہر ساحر ہر قول ہے(کیونکہ نہی کے بعد نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے عموم سمجھا جاتا ہے) تو اس سے کلام کا لغو ہونا لازم آتا ہے۔ کیونکہ اس کا کوئی معقول سبب نہیں ہے کہ انسان کسی بھی ساحر کے قول پر اعتماد نہ کرے خواہ اس کی بات روزمرہ کے کسی معمول کے امر سے متعلق ہو اور انسان کو اس کے قول پر اعتماد و اطمینان بھی ہو۔

اور اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے، اس کی بات پر اعتماد نہ کرو، تو بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے تو وہ کوئی بات نہیں کرتا، وہ تو اپنے جادو اور حیلوں کے ذریعے لوگوں کو اذیت دیتا ہے۔

سورہ کوثر اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا تمسخر اڑاتا تھا اور آپ(ص) سے کہتا تھا کہ آپ(ص) ''ابتر،، (لاولد) ہیں اور جلد ہی آپ(ص) کانام اور دین مٹ جائے گا۔ اس مطلب کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ ) ۵۲:۳۰

''کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ (یہ) شاعر ہے (اور) ہم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کررہے ہیں۔،،

ان کے اس خیال کے رد میں یہ سورۃ نازل ہوا:

( إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ) ۱۰۸:۱

''(اے رسول) ہم نے تم کو کوثر عطا کیا۔،،

کوثر سے مراد وہ خیر کثیر ہے جو ہر اعتبار سے خیر ہے۔

۱۳۵

دنیا میں خیر کثیر سے مراد رسالت و نبوّت کا شرف، لوگوں کی ہدایت، مسلمانوں کی امامت، انصار و اعوان کی کثرت، دشمنوں پر غلبہ اور جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی ذریت سے آپ(ص) کی نسل اور اولاد کی کثرت ہے، جن کی بدولت رہتی دنیا تک آپ(ص) کا نام قائم رہے گا۔

آخرت کا خیر کثیر آپ(ص) کی شفاعت، جنت کے بلند درجات، حوض کوثر جس سے صرف آپ(ص) اور آپ(ص) کے دوست سیراب ہوں گے اور ان کے علاوہ دیگر بہت سی نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہیں۔

( فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ )

''پس تم اپنے پروردگار کی نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔،،

ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں اور قربانی دیں۔ نحر سے مراد منیٰ کی قربانی یا عید الاضحیٰ پر دی جانے والی قربای یا نماز میں تکبیرۃ الاحرام کہنے کے دوران ہاتھوں کا گردن تک بلند کرنا یا نماز کے دوران قبلہ رخ ہونا اور متوازن کھڑے ہونا ہے۔ ان میں سے جو معنی مراد لیا جائے مناسب ہے کیونکہ یہ سب اعمال شکر کی صورتیں ہیں۔

( إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ )

''بیشک تمہارا دشمن بے اولاد رہے گا۔،،

آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ آپ لاولد نہیں ہیں بلکہ آپ کا دشمن ابتر و لا ولد ہو جائے گا۔

ان دشمنوں کا انجام آخر یہی ہوا جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ(ص) کو دی تھی۔ ان کا نام و نشان تک مٹ گیا اور دنیا میں ان کا کوئی ذکر خیر باقی نہیں ہے۔ ان کا اس طرح گمنام ہو جانا اس دردناک عذاب اور ابدی رسوائی کے علاوہ ہے جو انہیں نصیب ہوگی۔

۱۳۶

کیا یہ سورہ مبارکہ، جس کے معانی عظیم اور بلاغت کامل ہے، ان گئے گزرنے جملوں سے قابل مقایسہ ہے ،جن کو ترتیب سے لکھنے والے نے اپنی قوّت ضائع کی ہے؟ اس نے اپنے خیال میں نظیر پیش کرنے کے لیے قرآن مجید سے مفردات کی نقل کی ہے اور جملوں کے الفاظ اور اسلوب کو مسیلمہ کذاب سے لیا ہے۔ اس طرح اس نے اپنے عناد اور اسلام دشمنی بلکہ کھلم کھلا جہالت کے تقاضوں کو پورا کیا ہے تاکہ بلاغت اور اعجاز میں عظمت قرآن کا مقابلہ کرسکے!

رسُول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کےدیگر معجزات

تورات و انجیل میں نبوت محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بشارت

کسی دانشمند اور محقق کو اس میں شک نہ ہوگا کہ پیغبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے معجزات میں سے اعظم معجزہ قرآن کریم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کا مقام تمام انبیاء(ع) کے معجزات سے بلند ہے۔ ہم نے گذشتہ مباحث میں اعجاز قرآن کے چند پہلوؤں کاذکر کیا اور یہ بھی واضح کردیا کہ کتاب الہٰی کو باقی معجزات پر برتری حاصل ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ خاتم الانبیائؐ کا معجزہ صرف قرآن کریم ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ آپ(ص) باقی انبیاء(ع) کے تمام معجزات میں بھی شریک ہیں اور قرآنی معجزہ صرف آپ(ص) سے مختص ہے۔ ہمارے اس دعویٰ کی دو دلیلیں ہیں:

پہلی دلیل: مسلمانوں کی متواتر روایات ہیں جن کے مطابق یہ معجزات رسولل اعظمؐ سے صادر ہوئے اور مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں نے ان معجزات کے موضوع پر بہت کتابیں لکھی ہیں۔ خواہش مند حضرات ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

ان روایات و اخبار کی دو امتیازی خصوصیات ہیں جو باقی انبیاء کے معجزات کے بارے میں اہل کتاب کی روایات میں نہیں ہیں۔

پہلی خصوصیت: ان روایات کا زمانہ ظہور معجزات کے زمانے سے نزدیک ہونا ہے۔ جب کسی چیز واقعہ کا زمانہ نزدیک ہو تو اس کا یقین آسانی سے حاصل ہوسکتا ہے جبکہ واقعہ کا زمانہ اگر دور ہو تو اس کا یقین حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔

۱۳۷

دوسری خصوصیت: راویوں کی کثرت ہے۔ ا س لیے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اصحاب جنہو ں نے اپنی آنکھوں سے ان معجزات کا مشاہدہ کیا ہے ان کی تعداد بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰ پر ایمان لائے تھے اور آپ سے جتنے معجزات منقول ہیں ان کا سلسلہئ سند ان قلیل اور محدود مومنین تک پہنچتا ہے۔ اس کے باوجود اگر حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کے معجزات کے بارے میں تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے تو خاتم الانبیائؐ کے معجزات کے بارے میں بطریق اولیٰ تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔

ہم گذشتہ مباحث میں واضح کرچکے ہیں کہ گذشتہ انبیاء(ع) کے معجزات بعد کے زمانے والوں کے لیے تواتر سے ثابت نہیں ہیں اور اس سلسلے میں تواتر کا دعویٰ کرنا باطل ہوگا۔

دوسری دلیل: آپ(ص) نے گذشتہ انبیاء(ع) کے بہت سے معجزات کی تصدیق و تائید فرمائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی فرمایا کہ آپ(ص) ان تمام انبیاء(ع) سے افضل بلکہ خاتم الانبیاء ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام معجزات بدرجہئ اتم آپ(ص) سے بھی صادر ہوں۔ کیونکہ یہ نامعقول ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدممی سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی اقرار کرے کہ میں بعض صفات کے لحاظ سے دوسرے سے ناقص ہوں، نیز کیا یہ معقول ہے کہ ایک ڈاکٹر، دوسرے تمام ڈاکٹروں سے زیادہ ماہر ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اعتراف بھی کرے کہ بعض بیماریاں ایسی ہی ںجن کا علاج دوسرے ڈاکٹر تو کرسکتے ہیں لیکن میں نہیں کرسکتی؟! ظاہر ہے عقل کبھی بھی ایسے دعویٰ کی تصدیق نہیں کرے گی۔ اسی لیے بعض جھوٹے مدعیان نبوت نے اعجاز کا انکار کردیا اور وہ گذشتہ انبیاء کے معجزات میں سے کسی معجزے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کی تمام تر کوشش ہوتی ہے کہ ہر اس آیہ کی تاویل و توجیہ کریں جو اعجاز پر دلالت کرے۔ یہ سب انکار اس لیے کیا جاتا ہے کہ کہیں لوگ ان سے بھی اس قسم کے معجزات کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں جس سے ان کی عاجزی ظاہر ہو جائے اور یہ رسوا ہو جائیں۔

۱۳۸

بعض نادان اور عوام فریبیوں نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں چند ایسی آیات ہیں جن سے سوائے قرآن کریم کے باقی تمام معجزات رسول اعظمؐ کی نفی ہوتی ہے اور آپ(ص) کا واحد معجزہ قرآن کریم ہی ہے اور صرف یہی آپ کی نبوت کی دلیل و حجت ہے ہم ذیل میں وہ آیات ذکر کرتے ہیں جن سے ان لوگوں نے استدلال کنر کی کوشش کی ہے اور اس کے بعد ہم ان کے بطلان کو ثابت کریں گے۔

ان آیات میں سے ایک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ) ۱۷:۵۹

''اور ہمیں معجزات کے بھیجنے سے بجز اس کے اور کوئی وجہ مانع نہیں ہوئی کہ اگلوں نے انہیں جھٹلایا ارو ہم نے قوم ثمود کو (معجزے سے) اونٹی عطا کی جو (ہماری قدرت کی) دکھانے والی تھی ان لوگوں نے اس پر ظلم لیا (یہاں تک کہ مار ڈالا) اور ہم تو معجزے صرف ڈرانے کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں۔،،

اس آیہ کریمہ سے ان کے زعم باطل کے مطابق ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قرآن کے علاوہ اور کوئی معجزہ لے کر نہیں آئے اور اس کی وج یہ ہے کہ گذشتہ اقوام نے ان نشانیوں کی تکذیب کی جو ان کی طرف بھیجی گئی تھیں۔

جواب: اس آیہ کریمہ میں جن معجزات کی نفی کی گئی ہے اور جنہیں گذشتہ اقوام نے جھٹلالیا تھا ان سے مراد وہ معجزات ہیں جن کی گذشتہ اقوام نے اپنے انبیاء سے فرمائش کی تھی۔

۱۳۹

یہ آیہ کریم آپ(ص) سےہر قسم کے معجزات صادر ہونے کی نفی نہیں کرتی بلکہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آپ(ص) نے مشرکین کے مطلوبہ معجزات پیش نہیں کئے۔ اس کے چند دلائل ہیں:

۱۔ ''آیات،،، آیت کی جمع ہے۔ جس کے معنی ''نشانی،، کے ہیں اور جمع کے لفظ پ رالف۔ لام موجود ہے۔ ان خصوصیات کے پیش نظر آیہ کے معنی میں تین احتمال دیئے جاسکتے ہیں۔

i ) آیت سے مراد جنس آیت ہو جو آیت کی ہر فرد پر صادق آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کی یہ آیت ان تمام آیات کی نفی کررہی ہے جو مدعیئ نبوت کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس سے رسول اعظمؐ کی بعثت کا لغو ہونا لازم آتا ہے اسلئے کہ جب تک آپ(ص) کے دعویٰ کی صداقت کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو آپ(ص) کو نبوّت پر فائز کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بغیر کسی معجزہ کے آپ کی نبوّت کی تصدیق اور آپ کی اتباع لازمی قرار دینا لوگوں پر ایسی ذمہ داری ڈالنا جو ان کے دائرہئ قدرت سے باہر ہے۔

ii ) اس آیہ سے مراد سب نشانیاں ہوں۔ یہ احتمال بھی باطل ہے اس لیے کہ نبی کی صداقت اس پر موقوف نہیں ہوسکتی کہ جتنی بھی آیات و نشانیاں ہوسکتی ہیں، سب پیش کی جائیں اور نہ ہی مطالبہ کرنے والوں نے سب کی سب آیات و نشانیاں پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس بناء پر آیہ کے یہ معنی بھی صحیح نہیں ہونگے۔

iii ) ''الآیات،، سے مراد کچھ مخصوص نشانیاں ہوں جن کا مشرکین مطالبہ کیا کرتے تھے اور آپ(ص) نے ان کا مطالبہ پورا نہیں فرمایا اور یہی احتمال درست ہے۔

۲۔ اگر لوگوں کی تکذیب معجزات بھیجنے میں مانع بن سکتی ہے تو اسے قرآن نازل کرنے میں بھی مانع بننا چاہےے تھا۔ کیونکہ کوئی وجہ نہی ںکہ ان کی تکذیب بعض معجزات کے لیے مانع ہو اور بعض کے لیے نہ ہو۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

''اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شب قدر کو اس سال رونما ہونے والے حق و باطل اور اس سال جو کچھ بھی ہونے والا ہے، کو مقدر فرماتا ہے۔ اس کے باوجود ان مقدرات میں مشیّت الہٰی کے مطابق تعیّر و تبدل (بدائ) بھی واقع ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ اجل، رزق، بلائیں، بیماریاں اور دیگر عارضوں میں سے جسے چاہتا ہے مقدم اور جسے چاہتا ہے مؤخر فرماتا ہے۔ نیز ان مقدرات میں جو چاہے اضافہ اور جو چاہے کمی کردیتا ہے۔،،(۱)

iii ) کتب احتجاج طبرسی میں امیر المومنین(ع) سے مروی ہے:

''انه قال: لولا اٰیة فی کتاب الله ، لاخبر تکم بما کان و بما یکون و بما هوکائن الیٰ یو القیامة و هی هذه الایة: یمحوا الله ۔۔۔،(۲)

آپ نے فرمایا: اگر قرآن کی ایک آیہ: یمحوا اللہ۔۔۔ نہ ہوتی تو میں تمہیں خبر دیتا کہ ماضی میں کیا کیا واقعات پیش آئے، اب کیا ہو رہا ہے اور قیامت تک کیا ہوگا۔،،

iv ) تفسیر عیاشی میں زرارہ نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام زین العابدینؑ فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتا۔ میں (زرارہ) نے عرض کی: وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔۔(۳)

) ''قرب الاسناد،، میں بزنطی نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام جعفر صادق، امام محمد باقر، امام زین العابدین، امام حسن اور امیر المومنین (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی آیت( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔ نہ ہوتی تو ہم قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی تمہیں خبر دیتے۔،،(۴)

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۴

(۲) احتجاج طبرسی، ص ۱۳۷

(۳) منقول از بحار، ج ۲، ص ۱۳۹

(۴) ایضاً ص ۱۳۲

۵۰۱

ان کے علاوہ بھی کچھ روایات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان مقدرات الہٰی اور فیصلوں میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہوتے ہیں۔

خلاصہئ بحث یہ ہے کہ حتمی قضائے الہٰی، جسے لوحِ محفوظ، ام الکتاب اور علم مخزون عند اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، میں کسی قسم کے تغیر و تبدل اور بداء کا واقع ہونا محال ہے اور اس میں کیونکر بداء واقع ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ روز ازل سے تمام اشیاء کا عالم ہے اور زمین و آسمان میں سے ذرہ بھر بھی اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔

کتاب ''اکمال الدین،، میں صدوق، ابو بصیر اور سماعۃ کی سند سے امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص یہ خیال کرے کہ خدا کے سامنے ایسی تازہ چیز ظاہر ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا، ایسے شخص سے برات کرو۔،،(۱)

عیاشی نے ابن سنان سے اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مقدم اور جس کو چاہتا ہے مؤخر فرما دیتا ہے۔ نیز جسے چاہے محو اور جسے چاہے ثبت کردیتا ہے۔ کتاب کااصلی نسخہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہے اسے انجام دینے سے پہلے ہی اس کا علم رکھتا ہے جس کام میں بھی بداء واقع ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ افعال الہٰی میں کوئی تغیر و تبدل جہالت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔،،(۲)

عمار بن موسیٰ امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سے فرمان الہٰی: یمحوا اللہ۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۶

(۲) ایضاً ص ۱۳۹

۵۰۲

''یہ وہ کتاب ہے جس میں خدا جو چاہتا ہے ثبت کرتا ہے جو چاہتا ہے محو کردیتا ہے۔ دعا کے ذریعے اس قسم کے مقدرات بدل جاتے ہیں لیکن جب مقدرات اس کتاب (لوح محو و اثبات) سے منتقل ہو کر امّ الکتاب یا لوح محفوظ میں آجاتے ہیں تو اس پر دعا کوئی اثر نہیں کرتی اور وہ ہو کر رہتے ہیں۔،،(۱)

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الغیبۃ،، میں بزنطی سے اور وہ امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: امام زمین العابدینؑ اور آپ سے پہلے امیر المومنین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے:

''آیہ کریمہ : یمحوا اللہ۔۔۔ کی موجودگی میں ہم کیسے کسی واقعہ کے بارے میں حتمی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ البتہ خدا کے بارے میں جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کو کسی بھی چیز کے واقع ہونے کے بعد اس کا علم ہوتا ہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔،،(۲)

اہل بیت اطہار(ع) کی وہ روایات، جن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خلقت سے پہلے ہی اس کا عالم ہوتا ہے، حدو حصر سے زیادہ ہیں۔ کتاب الہیٰ و سنت پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے تمام شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے اور صحیح و فطری عقل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ بداء ان مقدرات الہی میں واقع ہوتاہے جو مشیت الہی ہر موقوف ہوتے ہیں اور جن کو لوح محو و اثبات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس بداء کا قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ہم نے اللہ کی طرف (العیاذ باللہ) جہالت کی نسبت دی ہو اور نہ ہی یہ کوئی عقیدہ عظمت الہی کے منافی ہے۔

____________________

(۱) منقول ازبحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۹

(۲) ایضاً، ص ۱۳۶۔ شیخ کلینی نے اپنی سند سے عبد اللہ ابن سنان سے اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی بھی چیز میں بداء واقع ہونے سے پہلے ہی خدا اس کا عالم ہوتا ہے۔ الوافی، باب ج۱، ص ۱۱۳

۵۰۳

بداء کا قائل ہونا واضح اعتراف ہے کہ پورا عالم ہستی اپنے وجود و بقاء میں قدرت و سلطنت الہٰی کے تابع ہے اور یہ کہ ارادہئ الہٰی ازل تا ابد تمام چیزوں میں کار فرما ہے بلکہ عقیدہئ بداء ہی کی بدولت علم الہٰی اور علم مخلوق میں فرق واضح ہوتا ہے اس لیے کہ مخلوق کا علم، خواہ وہ انبیاء(ع) و اولیاء کا علم ہی کیوں نہ ہو، ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ، علم خدا کرتا ہے اور بعض اولیاء اللہ اگرچہ تعلیم الہی کی بنیاد پر، تمام ممکنات اور اعلمین کا علم رکھتے ہیں پھر بھی ان کا علم ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ اللہ کا مخزون اور اپنی ذات سے مختص علم کرتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے بارے میں مشیت الہی اور عدم مشیت الہی کا عالم وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ نے حتمی طور پر خبر دی ہو۔

بداء کا قائل ہونا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ بندے ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور بندوں سے اپنی

امیدوں کے بندھن توڑ دیں اور استجابت دعا، حاجت روائی، اطاعت کی توفیق اور معصیت سے دوری کی درخواست اس کی ذات اقدس سے کریں۔

کیونکہ بداء کا انکار کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے وہ بلا استثناء ہو کر رہے گا، اپنے کو استجابت دعا سے مایوس کر دینا ہے، اس لیے کہ انسان جس چیز کی دعا کرتا ہے، اگر قلم تقدیر نے اس کے واقع ہونے کی پیشگوئی کی ہے تو وہ لامحالہ ہو کر رہے گی۔ انسان کی دعا اور توسّل کی ضرورت ہی نہیں اور اگر قلم تقدیر نے اس کی دعا کے خلاف لکھا ہو تو وہ کام کبھی بھی نہیں ہوسکتا اور دعا و تضرع کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جب انسان استجابت دعا سے مایوس ہوگا تو وہ اپنے خالق کے دربار میں دعا و تضرع ترک کردے گا کیونکہ یہ بے فائدہ ثابت ہوگی اس طرح وہ عبادات اور صدقات بھی ترک ہو جائیں گے جو روایات معصومین(ع) کے مطابق عمر اور رزق میں اضافہ اور حاجت روائی کا باعث بنتے ہیں۔

۵۰۴

یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے معصومین(ع) سے بداء کی شان اور اہمیت کے بارے میں کثرت سے روایات وارد ہوئی ہےں۔

مرحوم صدوق نے کتاب ''توحید،، میں زرارہ سے اور انہوں نے امام محمد باقرؑ اور امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' ما عبد الله عزوجل بشیئ مثل البدائ،، (۱)

''بداء کی مانند ایسا کوئی عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔،،

یعنی عقیدہ بداء کے مانند کوئی عبادت نہیں۔ نیز ہشام بن سالم، امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''خدا کی جو تعظیم بداء کے ذریعے ہوسکتی ہے کسی اور عمل کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔،،(۲)

صدق نے محمد بن مسلم سے اور انہوں امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا (پہلے) اس سے تین باتوں کا اقرار لیا: اللہ کی عبودیت کا اقرار، شریک خدا کی نفی اور یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مؤخر کرتا ہے۔،،(۳)

اس اہمیت کا راز یہ ہے کہ بداء کا انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے اللہ اس میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے، دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔ کیونکہ یہ دونوں عقیدے انسان کو استجابت دعا سے مایوس

____________________

(۱) روایت کے دوسرے نسخے کے مطابق: بداء سے بہتر کوئی ایسا عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔

(۲) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۳) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۵۰۵

کر دیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی مشکلات اور مقاصد میں اپنے ربّ کی طرف توجہ نہ کرے۔

حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

جس بداء کے شیعہ امامیہ قائل ہیں، حقیقت میں اس کا معنی ''اظہار،، ہے (یعنی ایک چیز جو بندوں کے لیے پوشیدہ ہو اور اللہ اسے ظاہر کردے) اسکی جگہ ''بدائ،، (جس کا معنی خلقت اور آفرینش ہے) کا استعمال اس لیے ہوتا ہے کہ ان دونوں کے معنی میں شباہت پائی جاتی ہے کیونکہ ''اظہار،، کی طرح ''خلقت،، کے ذریعے مخلوق کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی کچھ روایات میں بھی ''بدائ،، اسی معنی (اظہار) میں استعمال ہوا ہے۔

بخاری نے ابو عمرہ سے راویت کی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا:

''بنی اسرائیل میں تین ایسے آدمی تھے جن میں سے ایک برص کا مریض، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ کے لیے بداء واقع ہوا کہ ان کا امتحان لیا جائے، چنانچہ برص کے مریض کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔۔۔،،(۱)

قرآن میں بھی اس کی متعدد مثالین ملتی ہیں:

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ ) ۸:۶۶

''اب خدا نے سے (اپنے حکم کی سختی ہیں) تخفیف کردی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے۔،،

( لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ) ۱۸:۱۲

''تاکہ ہم دیکھیں کہ گروہوں میں سے کس کو (غار میں) ٹھہرنے کی مدّت خوب یاد ہے۔،،

( لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) ۱۸:۷

''تاکہ ہم لوگ کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے چلن کا ہے۔،،

____________________

(۱) صحیح بخاری، ج ۴ باب ماذکر عن بنی اسرائیل، ص ۱۴۲

۵۰۶

اہل سنّت کی روایات کثیرہ میں ہے کہ دعا اور صدقہ قضائے الہی کو تبدیل کردیتے ہیں۔(۱)

جہاں تک اہل بیت اطہار(ع) کی ان روایات کا تعلّق ہے، جن میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان میں تحقیق یہی ہے کہ اگر معصوم(ع) حتمی طور پر اور بغیر کسی شرط و قید کے مستقبل میں کسی واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کا بداء واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نہ اپنی ذات کو جھٹلاتا ہے اور نہ اپنے نبی کو اور اگر معصوم(ع) کسی امر کی پیشگوئی اس شرط پر کرے کہ مشیّت الہی اس کے خلاف نہ ہو اس پر کوئی قرینہ متصل و منفصل قائم کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہے اور اس میں بداء واقع ہوسکتا ہے اور معصوم(ع) کی یہ خبر اور پیشگوئی سو فیصد صادق ہوگی اگرچہ اس میں بداء واقع ہو اور مشیّت الہٰی اس پیشگوئی کے خلاف ہو، کیونکہ معصوم(ع) کی پیشگوئی میں اس شرط پر واقع کے رونما ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو۔

عیاشی نے عمرو بن حمق سے روایت کی ہے:

''جس وقت امیر المومنین(ع) کے سرمبارک پر ضربت لگی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو! عنقریب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہےے کہ ۷۰ھ میں ایک بلا نازل ہوگی۔ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ۷۰ھ کے بعد یہ بلاٹل جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ بلا کے بعد آسائش ہوگی۔ پھر آپ نے آیہ کریمہ: یمحوا اللہ۔۔۔ کی تلاوت فرمائی۔،،

____________________

(۱) دعا سے قضاء کے تبدیل ہونے کے بارے میں روایات اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۵۰۷

اصول تفسیر

مدارک تفسیر

خبر واحدسے قرآن کی تخصیص

چند توہمات اور ان کا ازالہ

۵۰۸

تفسیر، کتاب الٰہی کی کسی آیت میں مقصود الہی کی وضاحت کا نام ہے بنا برایں اس سلسلے میں ظن اور عقلی استحسانات پر اعتماد اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایسی چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس کی تجیت عقلی اور شرعی طورپر ثابت نہ ہو کیونکہ قرآن میںظن کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر اس کی طرف کسی چیز کی نسبت دینا حرام ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔

( قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ ) ۱۰:۵۹

(''اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یاتم خدا پر بہتان باندھتے ہو،،۔

( وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ ) ۱۷:۳۶

''اور جس چیز کا تمہیں یقین نہ ہو(خواہ مخواہ) اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،،۔

انکے علاوہ بھی قرآنی آیات اور روایات موجود ہیں جن میں غیر علم پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے شیعہ اورسنی کتب احادیث میں کثرت سے روایات موجود ہیں جن میں تفسیر بالائے سے نہی کی گئی ہے۔

ان آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں مفسرین کی ذاتی رائے پر عمل کرناجائز نہیں ہے چاہے یہ مفسر کوئی صحیح المسلک آدمی ہو یا نہ ہو کیونکہ ذاتی رائے پر عمل کرنا اتباع ظن ہے جو حق سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔

مدارک تفسیر

مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن میں ان ظواہر پر عمل کرے جو ایک صحیح عرب سمجھتاہے (ہم اس سے پہلے ظواہر کی حجیت کو ثابت کر چکے ہیں) یا ان فیصلوں پر عمل کرے جو ایک صحیح اور فطری عقل صادر کرے کیونکہ جس طرح نبی حجت ظاہری ہے اسی طرح عقل حجت باطنی ہے یااس معنی اور مفہوم پر عمل کرے جو معصومین (ع) سے ثابت ہو کیونکہ یہی ہسپتال مرجع دین ہیں اور رسول اللہ (ص) نے انہی سے تمسک کی وصیت فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا۔

۵۰۹

انی تارک فکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بینی ، ما ان تمسکم بهما لن تضلوا بعدی ابدا (۱)

''میں (ص) تم میں دو گرانقدار چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت (ع) جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے کبھی بھی میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے،،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قطعی اور یقینی ذریعے سےاہل بیت اطہار (ع) کا قول ثابت ہو جاتا ہے اور خبر ضعیف (جس میں حجیت کی شرائط موجود نہ ہوں) کے ذریعے قول معصوم (ع) ثابت نہیں ہوتا۔

لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس ظنی طریقے (خبر واحد اور دیگر دلائل) سے قول معصوم (ع) ثابت ہو جاتاہے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو؟

بعض علمائے کرام اس خبر واحد کی حجیت کو مورد اشکال قرار دیتے ہیں جو تفسیر کے بارے میں وارد ہوئی ہو اعتراض یہ ہے کہ خبر واحد اور دوسرے ظنی ادلہ کی حجیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حقیقت اور واقع ہونا معلوم نہ ہو تو اس خبر واحد کے مفہوم پر واقع کے آثار مرتب کئے جائیں جس طرح واقع اور یقین حاصل ہونے کی صورت میں آثار مرتب کئے جاتے ہیںاس معنی میں حجیت وہاں متحقق ہو سکتی ہے جہاں خبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہویاکوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا اور ممکن ہے جہاںخبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہو یا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا ہو اور ممکن ہے کہ یہ شرط اس خبر واحد میں نہ پائی جائے جوتفسیر کے بارے میں ورد ہوئی ہے (کیونکہ کچھ روایات ایسی ہیں جو گزشتہ اقوام کے قصوں اور داستانوں کے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں جن کا حکم اور موضوع حکم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا)

____________________

نمبر۱اس حدیث کے حوالے اسی کتاب کے آخر پر ضمیمہ نمبر ۱ میں ذکر کئے جائیں گے نیز کنز العمال باب الاعتصام بالکتاب و السنتہ ج ۱ ، ص ۱۵۳ اور ۳۳۲

نمبر۲ جب کہا جائے شراب حرام ہے یانماز واجب ہے تو''شراب ،، اور ''نماز،، موضوع اور ''وجوب،، اور ''حرمت،، حکم کہلاتے ہیں (مترجم)۔

۵۱۰

لیکن یہ اشکال تحقیق کیخلاف ہے کیونکہ ہم نے علم ا صول میں اس کی وضاحت کر دی ہے کہ اجتہادی دلیل جس کی نظر واقع پر ہوتی ہے یعنی جو واقع کی نشاندہی کرتی ہے کہ حجیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حکم شرع میں علم کامقام دیا گیا ہے گویا اس طرح واجب العمل ظنی دلیل کو علم شمار کیا گیا ہے یہ ایسا علم ہے جس کو شارع نے علم کارتبہ دیا ہے یہ علم وجدانی نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی وہی آثار مرتب ہوں گے جو قطع و یقین پر مرتب ہوتے

ہیں نیز ان روایات کے مضمون کے مطابق خبر دینا صحیح ہو گا جس طرح وجدانی علم کے مطابق خبر دی جاتی ہے اس طرح یہ (خبر واحد وغیرہ پر عمل کرنا) بغیر علم کے خبر دینے کے مترادف نہیں ہوگا۔

چنانچہ اس طرز عمل کی تائیدسیرت عقلاء سے بھی ہوتی ہے کیونکہ عقلاء اس قسم کی دلیلوں پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح وجدانی علم پر کرتے ہیں اور دونوں کے آثار میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہوتے مثلاً جس کسی کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو ، عقلاء کے نزدیک قبضہ اس شخص کی ملکیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں مال ہو اس بنیاد پر کہا جاتاہے کہ فلاں آدمی فلاں چیز کامالک ہے اس روش کا کوئی منکر نہیں اور شارع مقدس نے بھی عقلاء کی اس دائمی سیرت اور روش پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

ہاں ! البتہ خبر موثق اور دیگر شرعی دلیلوں کے قابل عمل ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ حجیت کی تمام شرائط پر مشتمل ہوں۔ ان میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کا یقین نہ ہو کیونکہ جس خبر کاکذب یقینی ہو اسے حجیت کی دلیل شامل ہی نہیں ہو سکتی بنا برایں وہ روایات جو اجماع ، سنت قطعیہ ، کتاب الٰہی اور صحیح حکم عمقل کے خلاف ہوں کبھی بھی حجیت نہیں ہو سکتیں اگرچہ حجیت کی باقی شرائط اس خبر واحد اور روایت میں موجود ہوں اس حکم میں وہ اخبار جو کسی حکم شرعی پر مشتمل ہوں اور دوسرے اخبار یکساں ہیں۔

۵۱۱

اس شرط کاراز یہ ہے کہ راوی ، چاہے کتنا ہی موثق ہو اس کی خبر واقع کیخلاف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ راوی کیلئے حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہو خصوصاً جب واسطے (سلسلہ رواۃ) زیادہ ہوں تو اس احتمال کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے اس لئے اس احتمال کے ازالے اور اس کالعدم فرض کرنے کیلئے حجیت کی دلیل کاسہارالیناضروری ہو جاتا ہے۔

لیکن جہاں خبر کیخلاف واقع ہونے کا یقین ہو وہاں پرتعبداً اسے معدوم فرض کرنا غیر معقول ہے کیونکہ یقین کی کاشفیت ذاتی ہے یعنی اس کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ وہ واقع کاانکشاف کرتا ہے اور اس کی حجیت بحکم عقل بدیہی طورپر ثابت ہے۔

بنا بریں حجیت خبر واحد کے دلائل صرف انہی روایات کو شامل ہوں گے جن کے کاذب اور مخالف واقع ہونے کا علم اور یقین نہ ہو۔ یہی حکم خبر واحد کے علاوہ دوسرے شرعی دلائل کا بھی ہو گا جو واقع کاانکشاف کرتے ہیں یہ حقائق ایک ایسا دروازہ ہے جس سے کئی اور دروازے کھلتے ہیں اور اس سے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دیا جا سکتا ہے اس لئے قارئین کرام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے۔

خبر واحد سے قرآن کی تخصیص

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قطعی دلیل کے ذریعے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جائے تو کیا اس خبر واحد کے ذریعے ان عمومات کی تخصیص ہو سکتی ہے جو قرآن میں موجود ہیں؟

مشہور کا مسلک یہی ہے کہ خبر واحد کے ذریعے عمومات قرآن کی تخصیص جائز ہے اور بعض علمائے اہل سنت نے اس (جواز) کی مخالفت سنی ہے البتہ ان میں سے بعض نے تو معطلقاً اسے ناجائز قرار دیا ہے عیسیٰ بن ابان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر عام قرآن کی پہلے کسی قطعی دلیل کے ذریعے تخصیص ہو چکی ہو تو خبر واحد کے ذریعے اس کی مزید تخصیص جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔

کرخی کا نظریہ ہے کہ اگر کسی دلیل منفصل کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہوئی ہو تو خبر واحد کے ذریعے مزید تخصیص جائز ہے ورنہ نہیں اور قاضی ابوبکر نے توقف اختیار کیا ہے (وہ نہ جواز کاقائل ہوا ہے اور نہ عدم جواز کا)۔

۵۱۲

ہمارا عقیدہ وہی ہے جو مشہور علماء کا ہے یعنی خبر واحد کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خبر واحد کی حجیت (اس کا لازم العمل ہونا) قطعی اور یقینی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک کوئی مانع پیش نہ آئے اس خبر کے مدلول و مضمون پر عمل کرنا واجب ہے اس کالازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو جاتی ہے۔

چندتوہمات اور ان کاازالہ

چند چیزوں کو مانع کے طورپر ذکر کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ مانع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔

۱۔ مانعین کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے جس کو اللہ نے اپنے نبی (ص) پر نازل فرمایا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن خبر واحدکے مطابق واقع ہونے کا یقین نہیں اور نہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ خبر معصوم (ع) سے صادر ہوئی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال باقی ہے کہ راوی کو اشتباہ ہوا ہو اور عقل کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک ایسی دلیل کی وجہ سے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہو ایک قطعی دلیل سے دستبردار ہوا جائے۔

جواب: یہ درست ہے کہ قرآن قطعی ا لصدور ہے (اس کے کلام خدا ہونے میں کوئی شک نہیں) لیکن ہمیں اس بات کا یقین نہیں کہ حکم واقعی ، عمومات قرآن کے مطابق ہو عمومات قرآن اس لئے واجب العمل ہیں کہ یہ ظاہر کلام ہیں اور عقلاء کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ ظواہر کو حجت جانتے ہیں اور شارع مقدس نے بھی اس سیرت اور روش سے منع نہیں فرمایا۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سیرت عقلاء کی رو سے ظواہراس صورت میں حجت ہیں جب ان کے ظاہری معنی کیخلاف کوئی قریہ متصل و مقصل قائم نہ ہو اور اگر کسی مقام پر ظاہری معنی کیخلاف کوئی قرینہ قائم ہو تو اس طاہری معنی سے دستبردار ہونا اور قرینہ کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

۵۱۳

بنا برایں یہ بات تسلیم کرناناگزیر ہے کہ عمومات قرآن کی اس خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہے جس کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل قائم ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس خبر کا مضمون ، معصوم (ع) سے صادر ہونے کو شرعی طور سے تسلیم کر لیں دوسرے الفاظ میں اگرچہ قرآن کی سند قطعی ہے لیکن اس کی دلالت ظنی ہے اور عقل کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ایک ظنی دلالت سے کسی ایسی ظنی دلیل کی بنیاد پر دستبردار ہوا جائے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو۔

۲۔ دوسرا تو ہم یہ ہے کہ معصومین (ع) کی صحیح روایات کہتی ہیں کہ روایات کو کتاب خدا کے سامنے پیش کیا جائے ان میں سے جو روایات کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ترک کر دیا جائے اور اسے دیوار پر مار دیا جائے اور یہ کہ وہ روایت معصوم (ع) سے صادر ہی نہیں ہوئی جو مخالف کتاب خداہو یہ روایت صحیحہ اس خبر واحد کو بھی شامل ہوں گی جو عموم قرآن کیخلاف ہو یعنی اس کو مخالف قرآن ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔

جواب: وہ قرائن عرفیہ جو مراد خداوندی کو بیان کریں ، عرف کے نزدیک مخالف قرآن نہیں سمجھتے جاتے اور دلیل خاص ہمیشہ دلیل عام کی وضاحت ہوا کرتی ہے کوئی دو دلیلیں اس وقت ایک دوسری کی مخالف سمجھی جاتی ہیں جب ان کا آپس میں تعارض ہو۔ بایں معنی کہ جب کسی متکلم سے یہ دونوں دلیلیں صادر ہوں تو اہل عرف اس سے مقصود و متکلم کو نہ سمجھیں اور حیران رہ جائیں بنا برایں خبر واحد جو خاص ہو عام قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ مراد اور مقصود قرآن کو بیان کرتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں قطعی طورپر علم ہے کہ معصومین (ع) سے ایسی روایات صادر ہوئی ہیں جو عمومات قرآن کیلئے مخصص اور مطلقات قرآن کیلئے مقید ہیں اگر تخصیص و تقیید ، قرآن کی مخالفت کہلاتی تو ان کایہ فرمان درست نہ ہوتا ''جو کلام خدا کا مخالف ہے وہ ہمارا قول نہیں ہے بلکہ جھوٹ یاباطل ہے،، لہٰذا ان روایات کا ائمہ (ع) سے صادر ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ تخصیص و تقیید قرآن کی مخالف نہیں ہے۔

۵۱۴

اس کے علاوہ معصومین(ع) نے دو روایتوں میں سے ایک کے موافق قرآن ہونے کو ، دوسری روایت پر مقدم ہونے کامرجح قرار دیا ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ مخالف روایت بھی (جو موافق قرآن نہیں) اگر معارض نہ ہوتی تو بذات خود حجیت تھی اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ اگر اس متروک روایت کی مخالفت اس نوعیت کی ہوتی جو قرآن کے ساتھ ہرگز سازگار نہ ہوتی توبذات خود بھی حجیت نہ ہوتی اور تعارض اور ترجیح کی نوبت نہ آتی۔

معلوم ہوا روایت کا موافق کتاب نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ عرفاً یہ دونوں تخصیص یا تقیید کے ذریعے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔

اس بحث کانتیجہ یہ نکلا کہ خبر واحد جو کسی عام کیلئے مخصص یا مطلق کیلئے مقید قرار پائے بذات خود حجیت اور لازم العمل ہے مگر یہ کہ کسی دوسری دلیل سے اس کاتعارض ہو۔

۳۔ تیرا شبہ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہو تو اس کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہونا چاہئے جبکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نسخ ہونا یقیناً جائز نہیں ہے اس لئے تخصیص بھی جائز نہیں ہونی چاہئے۔

اس ملازمہ کی دلیل یہ ہے کہ نسخ (جس کی وضاحت ہم نسخ کی بحث میں کر چکے ہیں) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کانام ہے اور دلیل ناسخ اس کا انکشاف کرتی ہے کہ حکم سابق (منسوخ) ایک خاص زمانے اور مدت سے مختص تھا جو دلیل ناسخ کے آنے پر ختم ہو گیا بنا برایں کسی حکم کا نسخ ہو جانا حقیقی معنوں میں اس حکم کا اٹھا دینا نہیں بلکہ ظاہری شکل میں حکم کا ازالہ ہوتا ہے افراد کی تخصیص (حکم عام سے اس کے بعض افرادکو خارج کرنا) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کے مانند ہے اس طرح یہ دونوں تخصیص ہیں۔ اگر پہلی تخصیص جائز ہو تو دوسری کوبھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۵

جواب: یہ درست ہے کہ یہ دونوں تخصیص ہیں لیکن ان دونوں تخصیصوں میں فرق ہے یہ کہ اجتماع قطعی اس بات پر قائم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ جائز نہیں ہے اگر عدم جواز پر اجتماع قائم نہ ہوتاتو خبر واحد کے ذریعے تخصیص کی طرح اس کے ذریعے نسخ بھی جائز ہوتا اس سے قبل یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن اگرچہ قطعی الصدور ہے مگر اس کی دلالت ظنی ہے قطعی نہیں اور خبر واحد ، جس کی حجیت دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ ذریعے اس ظنی دلالت سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے۔

ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ عدم جواز نسخ پر قائم ہونے والا اجماع تعبدی نہیں بلکہ بعض مسائل اور واقعات اس اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر خارج میں رونما ہوں تو خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہوتے ہیں ایسے مسائل اور واقعات کوصرف چند آدمی نقل کریں تواس راوی کے کذب اور اس کی خطا کی دلیل ہو گی اور حجیت خبر واحد کی دلیلیں ایسی خبروں اور روایات کو شامل نہیں ہوں گی جنہیں ا ہمیت کی حامل ہونے کے باوجود ایک یا چندآدمی نقل کریں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن ثابت نہیں ہوسکتا۔

یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ نسخ قرآن کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو مسلمانوں کی صرف ایک قوم سے مختص ہو اس کے علاوہ نسخ واقع ہونے کی صورت میں اس کی خبر نقل ہونے کے اسباب و عوامل بھی زیادہ ہوتے ہیںبنا برایں اگر نسخ واقع ہو تو یہ ایک ایسی غیر معمولی خبر ہے جسے خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہونا چاہئے اگر اسے صرف ایک یا دو آدمی نقل کریں تو یہ اس راوی کے جھوٹ یا اشتباہ کا ثبوت ہو گا یہیں سے نسخ اور تخصیص کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور وہ ملازمہ بھی باطل ہو جاتا ہے جس کی رو سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہو تو نسخ بھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۶

قرآن حادث ہے قدیم

یونانی فلسفہ کا مسلمانوںکی زندگی پر اثر

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

کلام نفسی

کیا ''طلب،، کلام نفسی ہے ؟

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

۵۱۷

کسی مسلمان کو اس بات میں شک نہیں کہ کلام اللہ وہی ہے جسے اللہ نے نبوت کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) پر نازل فرمایانیز اس بات میں بھی کسی مسلمان کو شک نہیں کہ ''تکلم،، خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک صفت ہے ، جن کو صفات جمال کہتے ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس صفت کو اپنی ذات کیلئے استعمال کیا ہے۔

( وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ) ۴:۱۶۴

''اور خدا نے تو موسیٰ سے (بہت سی) باتیںبھی کیں،،

یونانی فلسفہ کا مسلمانوں کی زندگی پر اثر

تمام مسلمانوں کا مذکورہ دو باتوں پر اتفاق تھا اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیںپایا جاتاتھا یہاں تک کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا حتیٰ کہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر گرداننے لگا اور زبانی اختلاف ہاتھا پائی اور قتل و قتال میں تبدیل ہو گیا کئی مسلمانوں کی ناموس کی توہین کی گئی اور کئی بے گناہ افرادکا خون بہایا گیا جبکہ قاتل اور مقتول دونوں توحید کے قائل تھے اور رسالت و معاد کا اقرار کرتے تھے۔

کیا یہ مقام تعجب نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عصمت دری اور قتل کے درپے ہو جب کہ دونوں مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ص) اللہ کے بن دہ اور رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے پیام حق لے کر آئے ہیں اوریہ کہ اللہ روز محشر تمام لوگوںکو (حساب کتاب کیلئے) قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ(ص) کے بعد ولی امر (ع) کی سیرت یہ نہیں رہی کہ جو شخص بھی ان باتوں کی گواہی دے اس پر مسلمان کے احکام و آثار مرتب کئے جائیں ؟ کیا کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ (ص) یا آپ (ص) کے جانشینوں (ع) میں سے کسی نے کسی بھی شخص سے قرآن کے قدیم یا حادث ہونے یا اس کے علاوہ دوسرے اختلافی مسائل کے بارے میں سوال فرمایا ہو اور ان کے اختلافی مسائل میں سے کسی ایک کا اقرار لینے کے بعد اسے مسلمان قرار دیا ہو؟

۵۱۸

میں نہیں سمجھتا کہ (اور کاش سمجھتا) کہ جو لوگ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بوتے ہیں خدا کو کیا جواب دیں گے اور کیاعذر پیش کریں گے ۔انا لله و انا الیه راجعون ۔

حدوث قرآن اور قدم قرآن کے مسئلے نے اس وقت جنم لیا جب مسلمان دو گروہوں (اشعری اور غیر اشعری) میں تقسیم ہو گئے اشاعرہ اس بات کے قائل ہوئے کہ قرآن کریم ہے (یعنی ابد سے ہے اور اس کی کوئی ابتداء نہیں) اوریہ کہ کلام کی دو قسمیں ہیں ۔ ۱۔کلام لفظی ۲۔ کلام نفسی۔ کلام نفسی اللہ کی ذات کے ساتھ قائم اور موجود ہے اور اللہ کے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا کلام نفسی بھی قدیم ہے اور یہ کہ کلام نفسی خدا کی صفات ذاتیہ میں سے ایک صفت ہے معزلہ اور عدلیہ (امامیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ ''قرآن،، حادث (مخلوق) ہےاور یہ کہ کلام صرف لفظی ہی ہوا کرتی ہے کلام نفسی نامی کوئی چیز موجودن ہیں ہے اور ''تکلم،، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے۔

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

اللہ کی صفات ذاتی اور فعلی میں فرق یہ ہے کہ اس کی ذات میں صفات ذاتی کا نقیض و عکس کبھی نہیں پایا جا سکتا دوسرے الفاظ میں اللہ کی ذاتی صفات وہ صفات ہیں جو کبھی بھی اللہ سے سلب نہیں ہو سکتیں جس طرح علم ، قدرت اور حیات ہیں اللہ کی ذات ہمیشہ سے عالم ، قادر اور زندہ ہے اور عالم ، قادر اور زندہ رہے گی یہ امر محال ہے کہ ایک لمحہ کیلئے بھی اللہ عالم ، قادر اور حّی نہ ہو۔

اللہ کی صفات فعلیہ وہ ہیں کہ اللہ کی ذات کبھی ان سے متصف ہوتی اور کبھی ان کے نقیض و عکس سے متصف ہوتی ہے جس طرح خلق کرنا اور رزق دینا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز کو خلق فرمایا اور فلاں چیز کو خلق نہیں فرمایا فلاں کو اللہ نے فرزند عطا فرمایا اور مال عطا نہیں فرمایا۔

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ''تکلم،، صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں کیونکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اللہ ت عالیٰ حضرت موسی ٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا اور فرعون سے ہمکلام نہیں ہوا یااللہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا ، اور بحرنیل میں ہمکلام نہیں ہوا۔

۵۱۹

کلام نفسی

تمام اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ عام اور مشہور کلام لفظی کے علاوہ بھی ایک کلام موجود ہے جس کانام انہوںنے کلام نفسی رکھا ہے البتہ کلام نفسی کی حقیقت کے بارے میں ان سے اختلاف ہے بعض اشاعرہ کا کہنا ہے کہ کلام نفسی ، کلام لفظی کے مدلول اور اس کے معنی کا نام ہے اور بعض اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام نفسی مدلول لفظ سے مختلف ہے اور لفظ اس کلام نفسی پر دلالت و وضعیہ نہیں کرتا بلکہ لفظ کی دلالت اس کلام پر ایسی ہے جیسے انسان کے اختیاری افعال ہیں جو فاعل کے ارادہ علم اور اس کی حیات پر دلالت کرتے ہیں بہرحال اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود کلام ہی قدیم ہے لیکن فاضل قوشجی نے بعض اشاعرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ کلام قرآن کی طرح اس کی جلد اور غلام بھی قدیم ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ اشاعرہ کے علاوہ سب کا اتفاق ہے کہ قرآن حادث ہے اور یہ کہ اللہ کا کلام لفظی کائنات کی دیگر مخلوقات کی طرحایک مخلوق ہے اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں بحث و تمحیص اور تحقیق سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اصول دین میں سے ہے اور نہ فروغ دین میں سے بلکہ اس کا دنی مسائل اور الٰہی معارف سے دُور کابھی واسطہ نہیں ۔ تاہم میں نے چاہا کہ اس مسئلے کے بارے میں بھی کچھ بحث کی جائے تاکہ ہمارے اشاعرہ بھائیوں (جن کی مسلمانوں میںا کثریت ہے) کیلئے یہ بات واضح ہو جائے کہ جس مسلک کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس عقیدے کو واجب سمجھتے ہیں وہ محض ایک خیالی چیز ہے عقلی اور شرعی اعتبار سے اس کی کوئی بنیاداور اساس نہیں۔

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689