البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314004 / ڈاؤنلوڈ: 9314
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

۱۸_موسى بن ابى بكر واسطى كہتے ہيں :''سألت أبالحسن موسي عليه‌السلام عن الكفر والشرك ايهما اقدم فقال لي: الكفر اقدم وهو الجحود قال لابليس''أبى واستكبر وكان من الكافرين ''(۲) امام كاظمعليه‌السلام سے ميں نے سوال كيا كفر قديمى ترہے يا شرك تو امامعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا كفر زيادہ قديمى ہے اور اس كا معنى انكار ہے اللہ تعالى نے ابليس كے بارے ميں فرمايا ''اس نے انكار كيا(نافرمانى كي) اور تكبر اختيار كيا اور كافروں ميں سے ہوگيا ''

۱۹_ امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے''فاول ما عصى الله به الكبر وهى معصيه ابليس حين أبى واستكبر وكان من الكافرين ...'' (۳) اللہ تعالى كى نافرمانى كا اولين سبب تكبر تھا اور يہ نافرمانى ابليس كى تھى جب اس نے انكار كيا اور تكبر كيا اور كافروں ميں سے ہوگيا

۲۰_عن على ابن الحسين عليه‌السلام فى قوله ''إسجدوا لادم فسجدوا'' ...إنها كانت عصابة من الملائكة و هم الذين كانوا حول العرش و هم الذين امروا باالسجود (۴) امام سجاد عليہ السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام ''اسجدو الادم فسجدوا''كے بارے ميں روايت ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا :وہ (جن كو سجدے كا حكم ديا گيا )ملائكہ كے كچھ گروہ تھے جو عرش الہى كے اطراف ميں تھے ...يہى وہ فرشتے تھے جن كو سجدہ كا حكم ديا گيا_

۲۱_ امير المو منينعليه‌السلام نے فرمايا :''اول بقعة عبد الله عليها ظهر الكوفة لما امرالله الملائكة ان يسجدوا لادم سجدوا على ظهر الكوفة'' (۵) سب سے پہلى مقدس جگہ جہاں اللہ تعالى كى عبادت ہوئي وہ سر زمين كوفہ ہے جب اللہ تعالى نے فرشتوں كو حكم ديا كہ ادمعليه‌السلام كو سجدہ كريں تو انھوں نے ادم كو سر زمين كوفہ پر سجدہ كيا_

۲۲_ پيغبر اسلام صلى اللہ عليہ والہ وسلم كا ارشاد ہے: ''ان الله تبارك و تعالى خلق ادم فأودعنا صلبه و امر الملائكة بالسجود له تعظيماً لنا و اكراما وكان سجودهم لله عزوجل عبودية ولادم اكراما و طاعة لكوننا فى صلبه'' (۶)

____________________

۱) تفسير قمى ج / ۱ص/ ۳۵ ، نور الثقلين ج/۱ ص/۵۵ ح/۹۳_ ۲) تفسير عياشى ج/۱ص/۳۴ح/۱۹، نور الثقلين ج/۱ص/۵۷ ح/۹۹_

۳) كافى ج/۲ص/۱۳۰ح/۱۱، نورالثقلين ج/۱ ص / ۶۰ ح/۱۱۱_ ۴) تفسير عياشى ج/۱ ص۳۰ ح۷ ، تفسير برہان ج/۱ص ۷۴ ح ۶_

۵) تفسير عياشى ج/۱ ص۳۴ ح ۱۸ ، تفسير برہان ج/۱ ص ۷۹ ح ۱۶_

۶) عيوان الاخبار الرضاعليه‌السلام ج/۱ ص/۲۶۳ ح/۲۲باب ۲۶ ، نور الثقلين ج/۱ ص/۵۸ ح/۱۰۱ _

۱۲۱

خدا وند متعال نے حضرت ادمعليه‌السلام كو خلق فرمايا پھر ہميں حضرت ادمعليه‌السلام كى صلب ميں قرار ديا پھر ملائكہ كو امر فرمايا كہ ہمارى تعظيم اور اكرام كى خاطر سجدہ كريں اور ان كا سجدہ اللہ عزوجل كى عبادت كے لئے اور حضرت ادمعليه‌السلام كى اطاعت واكرام كے لئے تھا كيوں كہ ہم ان كى صلب ميں تھے_

ابليس : ابليس كے تكبر كے اثرات و نتائج ۹،۱۰; ابليس كى معصيت كے اثرات و نتائج ۱۰;ابليس كافروں ميں سے ۱۰; ابليس ملائكہ ميں سے ۸; ابليس معصيت سے پہلے ۷;ابليس اور حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ ۳، ۴، ۹;ابليس كااختيار ۱۲; ابليس كا تكبر كرنا ۱۸ ، ۱۹; ابليس كى اطاعت ۱۲; ابليس كى جنس ۱۷; ابليس كى معصيت ۴،۱۲،۱۳ ،۱۶،۱۸، ۱۹; ابليس كى معصيت كے اسباب۹;ابليس كے كفر كے عوامل ۱۰;ابليس كاكفر ۱۳،۱۸، ۱۹; ابليس كى ذمہ دارى ۳; ابليس كے گذشتہ ; درجات ۷

اخلاق : اخلاقى رذائل ۱۵; شيطانى صفات ۱۵

اطاعت : الله تعالى كى اطاعت كى بنياد ۶

الله تعالى : لله تعالى كے اوامر ۱

اہل بيتعليه‌السلام : اہل بيتعليه‌السلام كى عزت وتكريم ۲۲; اہل بيتعليه‌السلام كے فضائل ۲۲

تاريخ: تاريخ سے عبرت لينا۱۶;تاريخ كے فوائد ۱۶

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۶ (استكبار ) تكبر : تكبر كے اثرات و نتائج۱۱; تكبر كى سرزنش ۱۵

حديث:۱۷،۱۸،۱۹،۲۰،۲۱،۲۲

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت ادمعليه‌السلام كى صلاحتيں ۱;حضرت ادمعليه‌السلام كے واقعہ كى اہميت ۱۶;حضرت ادمعليه‌السلام كى ملائكہ پر برترى ۵،۶;حضرت ادمعليه‌السلام كے واقعہ ميں موجود سبق اور تعليمات ۱۶;حضرت ادمعليه‌السلام كواسماء كى تعليم ۱; خلافت ادمعليه‌السلام ۱،۶;حضرت ادمعليه‌السلام كوسجدہ كرنے كا پس منظر ۶;فرشتوں كاحضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كرنا ۱،۲،۶، ۱۶، ۲۰، ۲۱،۲۲;حضرت ادمعليه‌السلام كاواقعہ ۱،۲،۳;حضرت ادمعليه‌السلام كے درجات ۱،۵

ذكر : تاريخى واقعات كاذكر ۱۶

سجدہ : سجدے كى حقيقت ۱۴

سرزمين : كوفہ كى سرزمين۲۱

۱۲۲

عبرت : عبرت كے عوامل ۱۶

كفار:۱۰،۱۸،۱۹ حضرت ادمعليه‌السلام كے زمانے كے كفار ۱۳

كفر : كفر كے اسباب۱۱

معصيت : معصيت كے نتائج ۱۱; الله تعالى كى معصيت ۱۱، ۱۳

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلاَ مِنْهَا رَغَداً حَيْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الْظَّالِمِينَ ( ۳۵ )

اور ہم نے كہا كہ اے آدم اب تم اپنى زوجہ كے ساتھ جنت ميں ساكن ہوجاؤ اور جہاں چاہو آرام سے كھاؤ صرف اس درخت كے قريب نہ جانا كہ اپنے اوپر ظلم كرنے والوں ميں سے ہوجاؤگے_

۱_خداوند متعال نے حضرت ادمعليه‌السلام اور ان كى زوجہ كو حكم ديا كہ جنت ميں سكونت اختيار كريں _وقلناياادم اسكن أنت وزوجك الجنة

۲_حضرت ادمعليه‌السلام اور ان كى زوجہ كى بہشت ميں سكونت فرشتوں كے حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كرنے كے بعد تھى _

واذقلنا للملائكة اسجدو لادم و قلنا يا ادم اسكن

۳_حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں سكونت سے قبل حضرت حواعليه‌السلام كى تخليق ہوچكى تھى _ اسكن أنت وزوجك الجنة

۴_حضرت ادمعليه‌السلام وحضرت حواعليه‌السلام كى بہشت ميں سكونت سے قبل شادى ہوچكى تھي_ياادم اسكن أنت وزوجك الجنة

۵_بہشت كى تمام ترچيزوں سے استفادہ حضرت ادمعليه‌السلام اور اپعليه‌السلام كى زوجہ كے لئے مباح تھا _وكلامنها رغداًحيث شئتما

۶_جس بہشت ميں حضرت ادمعليه‌السلام اور حضرت حواعليه‌السلام نے قيام كيا انتہائي ارام دہ اور نعمتوں سے معمور تھى _

وكلامنها رغداًحيث شئتما''رغد ''كامعنى ہے خيرو بركت سے پُر،پاك اور جس ميں ارام واسائش ہو_يہ لفظ ''رغداً'' ضمير''منھا''كے لئے حال واقع ہواہے يعنى بہشت سے استفادہ كرو در اں حاليكہ يہ بہشت خيروبركت ، ارام واسائش اور ...سے پرُ ہے_

۱۲۳

۷_بہشت ميں ہر كہيں انا جانا حضرت ادمعليه‌السلام و حوّاعليه‌السلام كے لئے ازاد تھا_حيث شئتما

۸_ خدا وند متعال نے حضرت ادمعليه‌السلام و حوّاعليه‌السلام كو ايك مخصوص درخت سے كھانے سے منع فرمايا_ولا تقربا هذه الشجرة

۹_ ادمعليه‌السلام وحو ّ اعليه‌السلام ممنوعہ شجر كے نزديك ہونے سے نہى الہى كے مرتكب قرار پائے_ولا تقربا هذه الشجرة

اگر ''ولا تقربا _نزديك نہ جائو '' سے مرا د كھانے سے منع كرناہو تو''لا تاكلا_نہ كھاو،'' كى جگہ ''لاتقربا '' كااستعمال اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام نے شجرہ، ممنوعہ كے نزديك جانے سے نہى الہى كے ارتكاب كا خطرہ مول ليا_

۱۰ _ حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كى بہشت ميں شجرہ ممنوعہ ايك خاص كشش ركھتاتھا_*ولاتقربا هذه الشجرة

يہ جو ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام ممنوعہ درخت كے قريب جانے سے نہى الہى كے مرتكب ہوئے اس سے معلوم ہوتاہے كہ اس درخت كاپھل اتنا پر كشش تھاكہ اس كے نزديك جانا ہى اس ميں پورى رغبت وتمايل اور اس سے استفادہ كا باعث تھا_

۱۱_ جب انسان كو كسى گناہ كے ارتكاب كا خطرہ ہو تو اس گناہ كى حدود اور دائرہ سے بھى دور رہنا چاہئے_ولا تقربا هذه الشجرةفتكونا من الظالمين

۱۲_ ممنوعہ درخت سے ہر طرح كا استفادہ ادمعليه‌السلام و حوّاعليه‌السلام كے لئے ممنوع تھا_*ولا تقربا هذه الشجرة

يہ مفہوم اس احتمال كى بنا پر ہے كہ جملہ ''ولا تقربا''سے مراد تمام تصرفات اور استعمالات حرام ہوں نہ فقط كھانا جب كہ يہ جملہ اس احتمال سے مانع بھى نہيں بلكہ ايك اچھى توجيہ ہے اس سوال كے مقابلے ميں كہ اللہ تعالى نے يہ كيوں نہيں ارشاد فرمايا''ولا تا كلا من هذه الشجرة''

۱۳_ اللہ تعالى نے ادمعليه‌السلام وحو ّاعليه‌السلام كو متنبہ كيا تھا كہ اگر انھو ں نے شجرئہ ممنوعہ سے كچھ تناول كيا تو ظالموں ميں سے شمار ہوں گے_ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۱۴_ جس بہشت ميں حضرت ادمعليه‌السلام و حضرت حوّاعليه‌السلام تھے وہ

۱۲۴

شرعى ذمہ داريوں (تكليف شرعي)كا گھر تھا_اسكن انت و زوجك الجنة ولا تقربا هذه الشجرة

۱۵_ سكونت كى جگہ ،بيوى اور خور اك انسان كى ضرورى احتياجات ہيں _اسكن أنت و زوجك الجنة وكلا منها

حضرت ادمعليه‌السلام كى خلقت كا سارا ماجرا انسان كى شخصيت ،اس كى ضروريات ،نفسيات،اور افكار وغيرہ كى ايك كلى تصوير ہے حضرت ادمعليه‌السلام وحوّا كا واقعہ محض ايك داستان ہى نہيں با لفاط ديگر اگر حضرت ادمعليه‌السلام اور حضرت حواعليه‌السلام كے بارے ميں ان كى جائے سكونت، زوجہ ،خوراك كے بارے ميں گفتگو ہوئي ہے تو يہ بطور كلى سب انسانوں كى ضرورت ہے اسى طرح اگر شريعت اور ہدايت كى بات ہوئي ہے تو يہ بھى سب انسانوں كى ضرورت ہے_

۱۶_ عورت اور مرد دونوں يہ لياقت اور شائستگى ركھتے ہيں كہ ان كے ذمے الہى تكاليف (ذمہ دارياں ) ہوں اور يہ دونوں خدا وند قدوس كى بارگاہ ميں جواب دہ ہوں _ولا تقربا هذه الشجرة

۱۷_ انسان ايك ايسا موجود ہے جو قانون كا محتاج اور اللہ تعالى كى جانب سے شرعى ہدايات كا نياز مند ہے_ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۱۸_ انسان اللہ تعالى كى اطاعت اور نافرمانى ميں صاحب اختيار ہے_ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۱۹_ اللہ تعالى كے فرامين كى نا فرمانى كرنا ظلم ہے_ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۲۰_ الہى ذمہ دارياں انسان كى مصلحتوں اور مفادات كو پورا كرتى ہيں _ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۲۱_ حسين بن ميسرّ كہتے ہيں :سا لت أبا عبد الله عن جنة ادم فقال جنة من جنان الدنيا تطلع فيها الشمس والقمر ولو كانت من جنان الاخرة ما خرج منها ابداً (۱) ميں نے امام صادق( عليہ السلام )سے حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كے بارے ميں سوال كيا تو اپعليه‌السلام نے فرما يا دنيا كے باغات ميں سے ايك باغ تھا جس ميں سورج اور چاند طلوع كرتے تھے اگر يہ اخرت كى بہشت ہوتى تو اس سے ہر گز نہ نكلتے_

۲۲_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''ولا تقربا هذه الشجره''يعنى لا تا كلا منها (۲) اللہ تعالى كے اس كلام ''و لا تقربا هذه الشجره'' كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے منقول ہے يعنى '' اس درخت سے مت كھاؤ''

____________________

۱) كافى ج /۳ ص/۲۴۷ ح/۲ ،نور الثقلين ج/۱ ص/۶۲ ح/۱۱۸ ،۱۱۷_

۲) تفسير عياشى ج/۱ ص/۳۵ ح/۲۰، مجمع البيان ج/۱ ص/۱۹۴ _

۱۲۵

۲۳_اختلفت فى الشجرة التى نهى عنها ادم عليه‌السلام وقيل هى شجرة الكافور يروى عن علي عليه‌السلام ...(۱) جس شجر سے حضرت ادمعليه‌السلام كو منع كيا گيا تھا اس ميں اختلاف رائے ہے_ امام علىعليه‌السلام سے ايك روايت ہے كہ وہ كافور كادرخت تھا_

اللہ تعالى : اوامر الہى ۱; اللہ تعالى كے نواھى ۹; اللہ تعالى كى تشريعى ہدايت۱۷;اللہ تعالى كى تنبيہات ۱۳

انسان : انسان كا اختيار ۱۸;انسانى مصلحتوں كى تكميل ۲۰; انسانى ضروريات ۱۵،۱۷

جبر: جبر اور اختيار ۱۸

حديث:۲۱،۲۲،۲۳

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت ادمعليه‌السلام بہشت ميں ۳; حضرت ادمعليه‌السلام اور شجرہ ممنوعہ۸،۹،۱۲،۱۳;حضرت ادمعليه‌السلام اور حضرت حواعليه‌السلام كى شادى ۴; بہشت ميں حضرت ادم كى تكليف (شرعى ذمہ داري) ۵،۸، ۱۲; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں كھانے والى اشياء ۵; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں اسائش۶; حضرت ادم كو ملائكہ كا سجدہ۲; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں سكو نت اختيار كرنا ۱،۲;حضرت ادمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲، ۴، ۹; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں محرمات ۸; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كا مقام ۲۱; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كى نعمتيں ۶; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كى خصوصيات ۶،۷،۱۴;حضرت ادمعليه‌السلام كو تنبيہ ۱۳

حضرت حواعليه‌السلام : حضرت حواعليه‌السلام كى بہشت ميں تكليف (شرعى ذمہ دارى ) ۵،۸،۱۲; حضرت حواعليه‌السلام اورشجرہ ممنوعہ ۸،۹ ،۱۲،۱۳; حضرت حواعليه‌السلام كى تخليق ۳; حضرت حواعليه‌السلام كا بہشت ميں قيام ۱،۲; حضرت حواعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲،۳،۴،۹;حضرت حواعليه‌السلام كو تنبيہ ۱۳ دين : دين كا فلسفہ ۲۰

شجرہ ممنوعہ: شجرہ ممنوعہ سے اجتناب ۲۲; شجرہ ممنوعہ سے استفادہ ۱۲;شجرہ ممنوعہ سے مراد كيا ہے ۲۳; شجرہ ممنوعہ كى خصوصيات ۱۰

ضروريات : غذاكى ضرورت ۱۵;دين كى ضرورت ۱۷; جائے سكونت كى ضرورت ۱۵; ہدايت كى ضرورت ۱۷ زوجہ كى ضرورت۱۵

ظالمين:۱۳ ظلم: ظلم كے موارد ۱۳،۱۹

____________________

۱) تفسير تبيان ج/۱ ص/۱۵۸ ،مجمع البيان ج/۱ ص/۱۹۵_

۱۲۶

عورت : عورت كى شرعى ذمہ دارى ۱۶;عورت كى ذمہ دارى ۱۶

كافور : كافور كا درخت ۲۳

گناہ: سے اجتناب ۱۱; گناہ كے ارتكاب كا خطرہ ۱۱

مرد: مرد كى شرعى ذمہ داري۱۶; مرد كى ذمہ داري۱۶

معصيت: معصيت الہى ۱۹

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ ( ۳۶ )

تب شيطان نے انھيں فريب دينے كى كوشش كى اور انھيں ان نعمتوں سے باہر نكال ليا اور ہم نے كہا كہ اب تم سب زمين پراتر جاؤ وہاں ايك دوسرے كى دشمنى ہوگى اور وہيں تمھارا مركز ہوگا اور ايك خاص وقت تك كے لئے عيش زندگانى رہے گا_

۱_ شيطان نے حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كوشجرہ ممنوعہ سے استفادہ كى ترغيب دلائي اور اس طرح انھيں اللہ تعالى كى نا فرمانى كى طرف كھينچ كر لے گيا_فازلهما الشيطان عنها ''ازل''كا مصدر''ازلال'' ہے جس كا معنى لغزش، تزلزل پيدا كرنا اور گناہ كى ترغيب دلاناہے_ عنھا كى ضمير ممكن ہے ''الجنة''كى طرف لوٹتى ہو يعنى شيطان نے ادم وحوا كو گناہ كى طرف ترغيب دلا كر جنت سے دور كر ديا_يہ بھى ممكن ہے كہ ''عنھا '' كى ضمير ''الشجرة''كى گناہ طرف لوٹتى ہو پس مفہوم يہ ہوگا كہ شيطان نے ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كو ايسے گناہ كى طرف ترغيب دلائي جس كا منبع شجرہ ممنوعہ تھا مذكورہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بنا پر ہے_

۲_ حضرت ادمعليه‌السلام و حوا نے اللہ تعالى كى نافرمانى سے جنت ميں قيام كى لياقت كھو دي_فاخر جهما مما كانا فيه

۳_ شيطان اور اس كا ورغلانا حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كے جنت سے نكلنے كا سبب بنے_فا خرجهما مما كانا فيه

۴_ حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كے جنت ميں قيام و سكونت كى شائستگى و لياقت سلب ہوجانے كے بعد اللہ تعالى نے انھيں جنت سے نكل كر زمين پر انے كا حكم فرمايا_وقلنا اهبطوا ''اھبطوا''كا مصدر ''ھبوط'' ہے جس كا معنى ہے نيچے انا ما بعد كے جملے كى روشنى ميں ''اھبطوا''كا مفعول ''الارض ''بنتا ہے_

۱۲۷

۵_ حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى جنت ميں سكونت اور ان كى لغزش كے ما بين وقت نسبتاًبہت مختصر تھا_

وقلنا يادم اسكن أنت و زوجك الجنة فأزلهما الشيطان عنها''ازلھما''كا ماقبل جملے پر ''فا''كے ذريعہ عطف ممكن ہے اس مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۶_ شيطان ايك ورغلانے والا عنصر ہے اور انسان فريب كے دام ميں انے والا موجود ہے_فأزلهما الشيطان عنها

۷_ حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كى بہشت ميں شيطان بھى تھا_فأزلهما الشيطان عنها

۸_ اللہ تعالى نے شيطان كو حكم ديا كہ وہ بہشت سے نكل كر زمين پر چلا جائے_وقلنا اهبطوا ''اهبطوا' 'جمع كا صيغہ ہے جو اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ خطاب حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كے علاوہ ديگر كسى فردياافرادكو بھى ہے بعض كا خيال ہے كہ يہ خطاب شيطان كو بھى تھا_

۹_زمين شياطين كى جائے سكونت اور قيام گاہ ہے_اهبطوا ...ولكم فى الارض مستقر يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ اگر ''اھبطوا ''كا حكم شيطان كو بھى شامل ہو_

۱۰_ دنياوى زندگى ميں انسان اور شيطان ايك دوسرے كے دشمن ہيں _اهبطوا بعضكم لبعض عدو اگر ''اهبطوا '' كا خطاب حضرت ادمعليه‌السلام ،حواعليه‌السلام اور شيطان كو ہو تو ''بعضكم لبعض عدو''سے مراد يہ ہے كہ شيطان اور انسان ايك دوسرے كے دشمن ہوں گے_

۱۱_ زمين ميں انسانوں كى زندگى ہميشہ ايك دوسرے سے دشمنى سے پرُ ہے_اهبطوا بعضكم لبعض عدو يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ اگر ''اھبطوا ''اور اسى طرح ديگر خطابات سے مراد حضرت ادمعليه‌السلام ،حواعليه‌السلام اور ان كى نسل ہوں اس طرح''بعضكم لبعض عدو ''سے مراد انسانوں كى اپس ميں دشمنى ہے_

۱۲_ حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے ہبوط كے ساتھ ہى اللہ تعالى نے ان كى نسل كى اپس ميں دشمنى كے بارے ميں بتايا_وقلنا اهبطوا بعضكم لبعض عدو

۱۳_ حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے شجرہ ممنوعہ كا پھل كھانے سے ان كى نسل كي، ابتدائي بہشت ميں قيام و سكونت كى لياقت وشائستگى سلب ہو گئي *قلنا اهبطوا حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كو بہشت سے نكال كر زمين ميں قيام كے خطاب ميں اللہ تعالى نے گفتگو كے طبعى تقاضے كے بر خلاف حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى نسل كو بھى خطاب فرمايا ہے

۱۲۸

اس طرح اس نكتے كى طرف اشارہ فرمايا ہے كہ ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے شجرہ ممنوعہ سے پھل كھانے كا اثر ان كى نسل پر بھى ہوا جس كا نتيجہ يہ نكلا كہ ان كى نسل زمين پر زندگى كرے_

۱۴ _ شجرہ ممنوعہ سے ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كا تناول كرنا اس بات كى كى راہ ہموار ہوئي كہ انسانوں كے درميان دشمنى كے جذبات پيدا ہو گئے _*فأزلهماالشيطان عنها وقلنا اهبطوا بعضكم لبعض عدو

۱۵_ زمين انسانوں كے ليئے ايك وقتى جائے سكونت اور قرار گاہ ہے_و لكم فى الارض مستقر و متاع الى حين ''الى حين _ايك وقت تك ''يہ ''متاع'' كے علاوہ '' مستقر'' سے بھى متعلق ہے_

۱۶_ زمين پر انسانوں كے سكونت اور قرار كى مدت ان كے لئے نا معلوم ہے_ولكم فى الارض مستقر و متاع الى حين ''حين'' كا نكرہ انا اس بات كى علامت ہے كہ انسانوں كيلئے ان كے زمين پر قيام كى مدت نامعلوم ہو اور يہ كہ اس كو نہ جان سكيں گے_

۱۷_ زمين انسانوں كے لئے ايك خاص وقت اور نا معلوم مدت تك زندگى كرنے كا ذريعہ ہے_ ولكم فى الارض مستقر و متاع الى حين ''متاع'' اس چيز كو كہتے ہيں جس سے كوئي منفعت ہو_

۱۸_ جس بہشت ميں حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام تھے وہ جگہ زمين سے برتر اور بالا تر تھي_قلنا اهبطوا ...ولكم فى الارض مستقر يہ جملہ ''ولكم فى الارض مستقر '' اس بات پر دلالت كرتا ہے جس بہشت ميں حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام قيام پذير تھے وہ زمين پر نہ تھى جبكہ ''اھبطوا'' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ وہ جگہ زمين سے برتر اور والا تر تھي_

۱۹_رسول اسلام صلى اللہ عليہ والہ وسلم سے روايت ہے كہ اپ (ص) نے ارشاد فرمايا:''انما كان لبث ادم وحوا فى الجنة حتى خرجا منها سبع ساعات من ايام الدنيا ...'' (۱) حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كا بہشت ميں قيام دنيا كے ايك دن كے سات گھنٹے تھے_

۲۰_ رسول خدا (ص) سے روايت ہے كہ اپ (ص) نے ارشادفرمايا:''يوم الجمعة سيد الايام خلق الله فيه ادم واهبط فيه ادم الى الارض'' (۲) جمعہ كا دن سيد الايام (دنوں كا سردار) ہے اس دن اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كو خلق فرمايا اور اسى دن حضرت ادمعليه‌السلام زمين كى طرف بھيجے گئے _

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۱ ص/۳۵ ح/۲۱ ،نور الثقلين ج/۱ ص/۶۴ ح/۱۲۹_ ۲) خصال صدوق ج/۱ ص/۳۱۶ ح/۹۷ ،نور الثقلين ج/۱ ص/۶۴ ح/۱۲۸_

۱۲۹

۲۱_''عن الصادق عليه‌السلام ...فى قوله تعالى ولكم فى الارض مستقر ومتاع الى حين قال الى يوم القيامة '' (۱) امام صادق عليہ السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام''ولكم فى الارض مستقر ومتاع الى حين '' كے بارے ميں روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا اس سے مراد قيامت تك زمين پر قيام اور اس سے استفادہ كرناہے_

۲۲_امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے''فتسلط عليه (ادم) الشيطان ...وتسلط على حوا عليه‌السلام فاخرجهما الله عزوجل عن جنته فاهبطهما عن جواره الى الارض ... (۲) پس شيطان ادمعليه‌السلام اور حواعليه‌السلام پر مسلط ہو گيا پس اللہ تعالى نے انھيں اپنى جنت اور اپنے جوار سے نكال كرزمين كى طرف بھيجا_

۲۳_ انحضرت (ص) سے روايت ہے كہ اپ (ص) نے ارشاد فرمايا''فاوحى الله تعالى الى جبرائيل ان اهبطهما الى البلدة المباركة مكة فهبط بهما جبرائيل فالقى ادم على الصفا والقى حواء على المروة'' (۳) پس اللہ تعالى نے جبرائيلعليه‌السلام كو وحى فرمائي كہ ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كو مكہ كى مبارك سر زمين كى طرف لے جائے پس جبرائيلعليه‌السلام نے حضرت ادمعليه‌السلام كو كوہ صفا پر اور حضرت حواعليه‌السلام كو كوہ مروہ پر اتارا_

۲۴ _رسول گرامى قدر اسلام صلى اللہ عليہ والہ وسلم نے ارشاد فرمايا''حين امر ادم عليه‌السلام ان يهبط هبط ادم وزوجته و هبط ابليس ولا زوجة له ...'' (۴) جب اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كو نيچے اتر نے كا حكم فرمايا ...ادمعليه‌السلام اور ان كى زوجہعليه‌السلام نيچے اتر ائے اور ابليس بھى اترا ليكن اس كى زوجہ نہ تھى

۲۵_''عن امير المومنين فى حديث طويل وفيه ساله عن اكرم واد على وجه الارض فقال واد يقال له ''سرانديب'' ،''سقط فيه ادم من السمائ'' (۵) امير المومنينعليه‌السلام سے ايك طويل حديث ميں سوال كيا گيا كہ روئے زمين پر سب سے زيادہ صاحب شرف مقام كون سا ہے؟ حضرتعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا وہ جگہ ''سرانديب''ہے(لغت نامہ دہخدا كے مطابق يہ جگہ سرى لنكا ميں ہے)يہاں حضرت ادمعليه‌السلام اسمان سے نازل ہوئے_

ابليس: ابليس كا ہبوط (اترنا)۲۴

اللہ تعالى : اوامر الہى ۴،۸;اللہ تعالى كى تنبيہات۱۲

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ ص/۴۳، نور الثقلين ج/۱ ص/۶۳ح/۱۲۳ ۲) عيون اخبار الرضا ج/۱ ص/۳۰۶ ح /۶۷ ،نور الثقلين ج/۱ ص/ ۶۰ ح /۱۱۲_

۳) تفسير عياشى ج/ ۱ ص/۳۶ ح / ۲۱ ، تفسير برہان ج/۱ ص۸۴ ح/۱۵_ ۴)علل الشرائع ص/۵۴۷ ح /۲ باب۳۴۰ ،نور الثقلين ج/۱ ص/۶۶ و ح / ۱۳۷_

۵) نور الثقلين ج/۱ ص/ ۶۴ ح / ۱۲۶_

۱۳۰

انسان: زمين پر انسانوں كا استقرار ''قيام'' ۱۵،۱۶،۲۱ انسان كا فريب كھانا ۶; انسانوں كے دشمن ۱۰;انسانوں كى دشمنى ۱۱; انسانوں كى دشمنى كے اسباب۱۴;انسانوں كا مسكن ۱۵

جمعہ: جمعہ كى فضيلت ۲۰

حديث: ۱۹،۲۰ ،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت ادمعليه‌السلام اور ممنوعہ درخت ۱;حضرت ادمعليه‌السلام كا بہشت سے نكلنا۳،۴،۲۲;حضرت ادمعليه‌السلام كى اولاد كى دشمنى ۱۲;حضرت ادمعليه‌السلام كا بہشت ميں قيام ۵،۱۹; حضرت آدمعليه‌السلام كى نافرمانى ۲; حضرت ادمعليه‌السلام كى نافرمانى كے عوامل ۱; حضرت ادمعليه‌السلام كے ہبوط كے اسباب ۳،۴; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كے فضائل ۱۸; حضرت ادمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴،۵ ،۱۲،۳ ۱ ، ۱۹; حضرت ادمعليه‌السلام كى لغزش ۱،۵; حضرت ادمعليه‌السلام كا بہشت سے محروم ہونا ۱۳; حضرت ادمعليه‌السلام كى نسل كا محروم ہونا ۱۳;حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كا مقام ۱۸; حضرت ادمعليه‌السلام كے اترنے كى جگہ ۲۳،۲۵; حضرت ادمعليه‌السلام كى خلقت كا وقت ۲۰;حضرت ادمعليه‌السلام كا اترنا۱۲، ۲۲، ۲۴

حضرت حواعليه‌السلام : حضرت حواعليه‌السلام كا بہشت سے نكالا جانا ۳،۴،۲۲ حضرت حواعليه‌السلام اور شجرہ ممنوعہ ۱; حضرت حواعليه‌السلام كا جنت ميں قيام ۵،۱۹;حضرت حواكى نافرمانى ۲; حضرت حواعليه‌السلام كى نافرمانى كے عوامل۱; حضرت حواعليه‌السلام كے اترنے كے عوامل۳،۴;حضرت حواعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴، ۵،۷،۱۲، ۱۳،۱۹; حضرت حواعليه‌السلام كى لغزش ۱،۵; حضرت حواعليه‌السلام كے اترنے كى جگہ ۲۳;حضرت حواعليه‌السلام كا اترنا ۱۲،۲۲،۲۴

زمين: زمين كے فوائد ۱۷

زندگي: دنياوى زندگى ۱۷

سر زمينيں : سرزمين سرانديب۲۵;سر زمين سرى لنكا ۲۵

شجرہ ممنوعہ: شجرہ ممنوعہ سے استفادہ ۱۳،۱۴

شياطين: شياطين زمين پر ۹; شياطين كا مسكن ۹

شيطان: شيطان كے ورغلانے كے نتائج۳;شيطان كا بہشت سے نكالا جانا ۸; شيطان كا فريب دينا ۱،۶;شيطان كے دشمن۱۰; شيطان كا تسلط ۲۲;شيطان، حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں ۷; شيطان كا كردار۱،۳،۶;شيطان كا اترنا۸

كوہ صفا : ۲۳ كوہ مروہ:۲۳ نا فرمان : نافرمانى كے نتائج ۲;اللہ تعالى كى نا فرمانى ۱،۲

۱۳۱

فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( ۳۷ )

پھر آدم نے پروردگار سے كلمات كى تعليم حاصل كى اور ان كى بركت سے خدا نے ان كى توبہ قبولى كرلى كہ وہ توبہ قبول كرنے والا اور مہربان ہے_

۱_ حضرت ادمعليه‌السلام اپنے كيئے پر پشيمان ہوئے اور اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ كے لئے رجوع كيا_من ربه كلمات

۲_اللہ تعالى نے انتہائي قدرو قيمت والے كلمات حضرت ادمعليه‌السلام كو تعليم و تلقين فرمائے تا كہ ان كے واسطے سے اللہ كى بارگاہ ميں توبہ كريں _فتلقى ادم من ربه كلمات ''تلقى ''كا مصدر ''تلقى ''ہے جس كا معنى ہے لے لينا_لہذا اس جملے ''فتلقي ...'' كا معنى يوں بنتا ہے حضرت ادمعليه‌السلام نے اللہ تعالى كى جانب سے كلمات لے ليئے _كلمات كو نكرہ لانا ان كى عظمت وبلندى پر دلالت كرتا ہے _

۳_حضرت ادمعليه‌السلام كى توبہ اور اللہ تعالى كى جانب سے كلمات حاصل كرنا حضرت ادمعليه‌السلام كے زمين پر قيام پذير ہونے كے بعد ہوا_ *ولكم فى الارض مستقر ...فتلقى ادم من ربه كلمات يہ مفہوم ''فتلقى ''كي'' فاء ''سے استفادہ ہو تا ہے جو ترتيب كے معانى ديتا ہے_

۴_ اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كى توبہ قبول كى ،انكاگناہ معاف فرما ديا اور اپعليه‌السلام پر اپنى رحمت نازل فرمائي _

فتاب عليه انه هو التواب الرحيم

۵_ اللہ تعالى توّاب (انتہائي زيادہ توبہ قبول كر نے والا ہے) اور رحيم (مہربان )ہے_انه هو التوّاب الرحيم

۶_اللہ انسان تعالى كى طرف سے گناہ كاروں كى توبہ قبول كرنا اس كى رحمت كا پر تو ہے_ فتاب عليه انه هو التواب الرحيم اللہ تعالى كى رحمت كو اس كے تو اب ہونے كے ساتھ ساتھ ملاحظہ كيا جاسكتا ہے يعنى اللہ تعالى كے توبہ قبول كرنے كاسرچشمہ اسكى رحمت ہے يا يہ رحمت اس اعتبار سے ہے كہ حضرت ادمعليه‌السلام كو اللہ تعالى نے كلمات تعليم فرمائے مذكورہ بالا مفہوم پہلے اعتبار كے مطابق ہے_

۷_ حضرت ادمعليه‌السلام كو كلمات كى تلقين و تعليم (اللہ تعالى كى بارگاہ ميں كس طرح توبہ كى جائے اور اس كى بارگاہ اقدس ميں نياز حاصل كيا جائے ) خدا وند

۱۳۲

قدوس كى رحمت كا حضرت ادمعليه‌السلام پر ايك جلوہ تھا_فتلقى ادم من ربه كلمات انه هو التواب الرحيم

يہاں ''الرحيم'' كا جملہ ''فتلقى ...'' كے ساتھ ارتباط كے عنوان سے معنى بيان ہوا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ اللہ تعالى كى رحمت اس بات كا موجب بنى كہ حضرت ادمعليه‌السلام كو كلمات كى تعليم دى جائے_

۸_اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ اوراس سے گناہوں كى معافى طلب كرناضرورى ہے_ فتلقى ادم من ربه كلمات انه هو التواب الرحيم اولين انسان ہونے كے ناطے حضرت ادمعليه‌السلام كى توبہ كامسئلہ پيش كرنا گويااس كامقصد يہ تھاكہ انسان جب لغزش يا گناہ ميں مبتلاہو تواس كا فريضہ بيان كياجائے_

۹_توبہ كيسے كى جائے اوراس كے لئے لازم وضرورى واسطے كيسے تلاش كئے جائيں ، يہ واسطے كيسے ہوں يہ سب كچھ دين سے سيكھنا چاہئے_فتلقى ادم من ربه كلمات فتاب عليه مذكورہ بالا مفہوم اس سے استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت ادمعليه‌السلام كى توبہ كى قبوليت(تاب عليہ)كو فاء تفريع كے ساتھ اللہ كى جانب سے كلمات سيكھنے كے بعد استعمال كيا گيا ہے_

۱۰_ توبہ كى قبوليت اور اللہ تعالى كى رحمت كا يقين گناہگار انسان كو توبہ اور طلب مغفرت كى طرف راغب كرتا ہے_

فتاب عليه انه هو التواب الرحيم توبہ كى قبوليت كے لئے حرف تاكيد ''انّ''كے استعمال، ضمير فصل ''ھو'' اورصيغہ مبالغہ ''توّاب''كے استعمال سے يہ مطلب اخذہوتا ہے كہ گناہگار وں كو طلب مغفرت كى ترغيب دلائي گئي ہے_

۱۱ _ ابن عباس كہتے ہيں :''سألت رسول الله عن الكلمات التى تلقيها آدم من ربه فتاب عليه قال سأل بحق محمدوعلى و فاطمة و الحسن والحسين الا تبت عليّ فتاب عليه'' (۱) ميں نے رسول اللہ(ص) سے ان كلمات كے بارے ميں سوال كيا جو حضرت آدمعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے حاصل كيئے اور اللہ نے ان كى توبہ قبول فرمائي حضرت (ص) نے ارشاد فرمايا حضرت آدمعليه‌السلام نے اللہ تعالى كو محمد (ص) ، علىعليه‌السلام ، فاطمہعليه‌السلام ، حسنعليه‌السلام ، حسينعليه‌السلام كے واسطے سے پكار ا اور عرض كيا يا اللہ ميرى توبہ قبول فرما تو اللہ تعالى نے حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول كى _

۱۲ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا :''الكلمات التى تلقيهن آدم من ربه فتاب عليه و هدى قال سبحانك اللهم و بحمدك انى عملت سوء اً و ظلمت نفسى فاغفر لى انك خير الغافرين انك انت الغفور الرحيم (۲)

____________________

۱) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۱۴۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۶۷ ح ۱۴۳ ،۱۴۵ ، ۱۴۷ _ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۱ ح ۲۵ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۸۷ ح ۸ _

۱۳۳

وہ كلمات جو حضرت آدمعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے حاصل كيئے پس اللہ نے حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول فرمائي اور حضرت آدمعليه‌السلام كى ہدايت فرمائي ( وہ كلمات يہ تھے) كہا اے اللہ تيرى ذات پاك ہے اور تيرى حمد بجالاتاہوں بے شك ميں نے برا عمل انجام ديا اور اپنے اوپر ظلم كيا پس تو مجھے بخش دے بے شك تو بہترين بخشنے والا ہے بتحقيق تو بخشنے والا اور رحيم ہے _

۱۳_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''ان الله تبارك و تعالى لما اراد ان يتوب على آدم ارسل اليه جبرئيل فقال له ان الله تبارك و تعالى بعثنى اليك لا علمك المناسك التى يريد ان يتوب عليك بها ففعل ذالك آدم عليه‌السلام فقال له جبرئيل ان الله تبارك و تعالى قد غفرلك و قبل توبتك . ..(۱) جب اللہ تعالى نے ارادہ فرمايا كہ آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول فرمائے تو حضرت جبرئيلعليه‌السلام كو آپعليه‌السلام كى طرف بھيجا جبرائيلعليه‌السلام نے آپعليه‌السلام سے كہا اللہ تعالى نے مجھے آپعليه‌السلام كى طرف بھيجا ہے تا كہ آپعليه‌السلام كو مناسك (حج) كى تعليم دوں اور اللہ تعالى چاہتاہے كہ مناسك كى وجہ سے آپعليه‌السلام كى توبہ كو قبول فرمائے پس حضرت آدمعليه‌السلام نے مناسك كو انجام ديا پس جبرائيلعليه‌السلام نے آپعليه‌السلام سے كہا كہ بے شك اللہ تبارك و تعالى نے آپعليه‌السلام كو بخش ديا ہے اور آپعليه‌السلام كى توبہ قبول فرمالى ہے _

استغفار ( طلب مغفرت): طلب مغفرت كى اہميت ۸; طلب مغفرت كى بنياد۱۰

اسماء اور صفات: توّاب ۵; رحيم ۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش ۴; اللہ تعالى كى توبہ ۱۰; اللہ تعالى كى رحمت ۴،۱۰; اللہ تعالى كى رحمت كے مظاہر ۶،۷

اہل بيتعليه‌السلام : اہل بيتعليه‌السلام كے فضائل ۱۱

ايمان: رحمت خدا پر ايمان كے اثرات و نتائج۱۰

بخشش: بخشش كى درخواست ۸

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۱۰

توبہ : توبہ كے آداب ۲،۷،۹; توبہ كى اہميت ۸; توبہ ميں توسل ۲; توبہ كا سرچشمہ ۱۰; توبہ كى قبوليت ۶

جہان بينى (نظريہ كائنات): جہان بينى اورآئيڈيالوجى ۱۰

____________________

۱) علل الشرائع ج / ۱ص ۴۰۰ ح/ ۱ باب ۱۴۱، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۶۹ ح ۱۵۲_

۱۳۴

حضرت آدمعليه‌السلام : حضرت آدمعليه‌السلام كى بخشش ۴،۱۳; حضرت آدمعليه‌السلام كا طلب مغفرت كرنا ۱۲; آدمعليه‌السلام كا زمين پر قيام و سكونت ۳;حضرت آدمعليه‌السلام كو كلمات القاء كرنا ۲،۳، ۷،۱۱،۱۲، ۱۳;حضرت آدمعليه‌السلام كى پشيمانى ۱;حضرت آدمعليه‌السلام كو توبہ كى تعليم دينا ۲، ۳، ۷; حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ ۱،۲،۱۱،۱۲; آدمعليه‌السلام كى نافرماني۱;حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول ہونا ۴ ، ۱۳ ; حضرت آدمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲،۳،۴،۱۱; حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ كى جگہ ۳

دين : دين كى اہميت و كردار ۹

رحمت الہى : رحمت الہى جن لوگوں كے شامل حال ہوتى ہے۴،۷

روايت : ۱۱، ۱۲،۱۳

قُلْنَا اهْبِطُواْ مِنْهَا جَمِيعاً فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ ( ۳۸ )

اور ہم نے يہ بھى كہا كہ يہاں سے اتر پڑو پھر اگر ہمارى طرف سے ہدايت آجائے تو جو بھى اس كا اتباع كرلے گا اس كے لئے نہ كوئي خوف ہوگا نہ حزن _

۱_ حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى نافرمانى كے بعد اللہ تعالى نے ان سے چاہا كہ بہشت سے نكل جائيں_ قلنا اهبطوا منها '' قلنا اہبطوا'' كے آيت ۳۶ اور ۳۸ ميں تكرار كے بارے ميں چند آراء كا ذكر ہوا ہے _ اس آيت ميں '' واو'' يا كوئي اور حرف عطف موجود نہيں ہے پس اس امر سے اس بات كى تقويت ہوتى ہے كہ اس آيت ميں ''قلنا اهبطوا '' آيت ۳۶ ميں''قلنا اهبطوا'' كے لئے تاكيد ہے _

۲ _ شجرہ ممنوعہ سے حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے تناول كرنے سے ان كى نسل بھى ابتدائي بہشت سے محروم ہوگئي _قلنا اهبطوا منهماجميعاً ''اهبطوا '' جمع كا صيغہ استعمال ہوا ہے يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے علاوہ بھى كوئي ايك يا زيادہ افراد مورد خطاب ہيں اس بارے ميں چند آراء كا اظہار ہوا ہے ان ميں سے ايك يہ ہے كہ دوسرے مخاطبين آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى نسل ہے _ مذكورہ بالا مفہوم

۱۳۵

اسى رائے كے مطابق ہے _

۳_ اللہ تعالى نے شيطان كو بھى بہشت سے نكال باہر كيا_*قلنا اهبطوا منها جميعاً

يہ مفہوم اس احتمال كى بناپر ہے كہ اگر ''اہبطوا'' كا حكم حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے علاوہ شيطان كو بھى شامل ہو_

۴ _ حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام اور انكى نسل كو بہشت سے نكلتے ہوئے اللہ تعالى نے انكو اپنى جانب سے ہدايت اور راہنمائي سے بہرہ مند ہونے كى بشارت دى _فاما ياتينكم منى هدي لفظ '' امّا'' ان شرطيہ اور ما زائدہ سے تركيب پايا ہے _ جملے ميں ايك طرف انْ شرطيہ اور دوسرى طرف ما زائدہ اور يا تينَّ ميں نون تاكيد سے اس كى تاكيد كرنا اس امر كا مقتضى ہے كہ جملے كا معنى يہ ہو '' اگر ميرى طرف سے ہدايت ملے كہ جو يقيناً آئے گى ...''

۵ _ انسان كو سعادت كے حصول كى خاطر ہدايت اور الہى راہنمائي كى ضرورت ہے_ فاما ياتينكم منى هديً

۶ _ اللہ تعالى كى ہدايات و راہنمائي كى اتباع كرنے والوں كو قيامت كے روز كوئي خوف و خطر نہ ہوگا _فمن تبع هداى فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون ''خوف'' نكرہ استعمال ہوا ہے اور حرف نفى كے بعد واقع ہوا ہے جو معنى ميں عموميت پر دلالت كرتاہے گويا مطلب يوں ہے كسى قسم كا كوئي بھى خوف نہ ہوگا اسى طرح جب فعل منفى ہو تو تمام تر مصاديق كے نہ ہونے پر دلالت كرتاہے پس ''ولا ہم يحزنون'' سے مراد يہ ہے كہ كسى طرح كا بھى غم وا ندوہ نہ ہوگا_

۷_ سرائے آخرت اديان كے پيروكاروں كےلئے ايك ايسى سرائے ہے جو خوف و پريشانى كے عوامل سے دور اور ہر طرح كے حزن و ملال آور واقعات سے امان ميں ہے _فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون

بعد والى آيت جس ميں كفار كے لئے آخرت ميں پاداش كاذكر ہواہے اس كے قرينے سے كہا جاسكتاہے كہ اس آيت ميں اہل ہدايت كى آخرت ميں جزا كا ذكر كيا گيا ہے بنابريں '' فلا خوف ...'' كا تعلق عالم آخرت سے ہے _

۸ _ گناہ كے وضعى نتائج اللہ تعالى كى جانب سے توبہ كى قبوليت كے باوجود رہتے ہيں _فتاب عليه قلنا اهبطوا منها جميعاً فاما ياتينكم منى هديً حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ اور اللہ تعالى كى جانب سے اسكى قبوليت كے بعد بھى حضرت آدمعليه‌السلام كو ہبوط كا تاكيد سے حكم دينا اس بات پر دلالت كرتاہے كہ حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول ہونے كے باوجود انكو بہشت ميں دوبارہ ان كا مقام نہ مل سكا يہ چيز حكايت كرتى ہے كہ گناہ كى معافى كا لازمہ اسكے وضعى نتائج كا خاتمہ نہيں ہے _

۱۳۶

اديان : اديان كے پيروكاروں كى آخرت ميں امنيت ۷; اديان كے پيروكار قيامت ميں ۷; اديان كے پيروكاروں كا اخروى سرور ۷

اللہ تعالى : افعال الہى ۱،۳; اللہ تعالى كى بشارتيں ۴; ہدايت الہى ۴،۵

انسان: انسان كى معنوى ضروريات۵

توبہ : توبہ كے نتائج ۸

حضرت آدمعليه‌السلام : آدمعليه‌السلام كى نافرمانى كے نتائج ۲; حضرت آدمعليه‌السلام كا بہشت سے اخراج ۱،۴; نسل آدمعليه‌السلام كو بشارت ۴; حضرت آدمعليه‌السلام كى نافرمانى ۱; حضرت آدمعليه‌السلام كا واقعہ ۴;حضرت آدمعليه‌السلام كا بہشت سے محروم ہونا ۲; نسل آدمعليه‌السلام كا محروم ہونا ۲; حضرت آدمعليه‌السلام كا ہبوط ۱

حضرت حواعليه‌السلام : حواعليه‌السلام كى نافرمانى كے نتائج ۲; حواعليه‌السلام كا بہشت سے اخراج ۱،۴; حضرت حواعليه‌السلام كى نافرمانى ۱; حضرت حواعليه‌السلام كا واقعہ ۴; حضرت حواعليه‌السلام كا ہبوط ۱

سعادت: سعادت كے عوامل ۵

شيطان : شيطان كا بہشت سے اخراج ۳; شيطان كا ہبوط ۳

ضروريات : ہدايت كى ضرورت ۵

گناہ : گناہ كے وضعى نتائج۸

نافرماني: نافرمانى كے نتائج ۱

ہدايت يافتہ افراد: اہل ہدايت كا آخرت ميں امن و امان ۶; اہل ہدايت كا اخروى سرور ۶; ہدايت يافتہ انسان قيامت ميں ۶

۱۳۷

وَالَّذِينَ كَفَرواْ وَكَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ( ۳۹ )

جو لوگ كافر ہوگئے اور انھوں نے ہمارى نشانيوں كو جھٹلا ديا وہ جہنمى ہيں اور ہميشہ وہيں پڑے رہيں گے_

۱ _ آيات الہى كا انكار اور تكذيب كرنے والوں كى سزا اور كيفر آتش جہنم ہے_والذين كفروا و كذبوا باياتنا اولئك اصحاب النار '' كذبوا'' كا مصدر تكذيب ہے جسكا معنى ہے جھوٹى نسبت دينا ہے '' باياتنا'' كذبوا كے علاوہ كفروا سے بھى متعلق ہے_ جملہ''الذين كفروا '' جملہ ''من تبع ...'' پر عطف ہے جو اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ لوگ اللہ تعالى كى ہدايت و راہنمائي كو قبول كرنے والے نہيں _

۲ _ آيات الہى كا كفر اختيار كرنے والے اور جھٹلانے والے ہميشہ كے لئے جہنم ميں رہيں گے _اولئك اصحاب النارهم فيها خالدون

۳ _ دوزخ اور اسكى آگ دائمى اور ہميشہ رہنے والى ہے_هم فيها خالدون

۴ _ اللہ تعالى اپنى ہدايت و راہنمائي كو لوگوں كى طرف ايسے بھيجتاہے كہ اس ہدايت كے خدائي ہونے كى نشانى و علامت اسكے ہمراہ ہوتى ہے_فاما ياتينكم منى هدى الذين كفروا و كذبوا بآياتنا

''آيات'' جمع استعمال ہوا ہے اور اسكا معنى ہے نشانياں اور علامات_ لفظ '' ہديً'' اور ما قبل آيہ ميں لفظ '' ہداي'' دليل ہے كہ آيات سے مراد اللہ تعالى كى ہدايات او ر راہنمائي ہے _ ہدايت كو آيت سے تعبير كرنے كا معنى يہ ہے كہ اللہ تعالى اپنى ہدايت كو اس انداز سے پيش فرماتاہے كہ جس سے اسكى حقانيت آشكار ہو اور اسكا خدائي ہونا ثابت ہو_

آيات الہى : آيات الہى كو جھٹلانے والوں كى سزا ۱; آيات الہى كو جھٹلانے والے جہنم ميں ۲

اللہ تعالى : ہدايت الہى كى خصوصيات ۴

۱۳۸

اہل جہنم : ۲ جہنم : آتش جہنم ۱; آتش جہنم كا ہميشہ رہنا ۳; جہنم كا دائمى ہونا ۳; جہنم ميں ہميشہ كے لئے رہنا ۲

سزا : سزا كى وجوہات ۱، ۲

عذاب : اہل عذاب ۱،۲

كفار: كفار جہنم ميں ۲

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُواْ بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ ( ۴۰ )

اے بنى اسرائيل ہمارى نعمتوں كو ياد كرو جو ہم نے تم پر نازل كى ہيں اور ہمارے عہد كو پورا كرو ہم تمھارے عہد كو پورا كريں گے اور ہم سے ڈرتے رہو_

۱ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو گراں قدر نعمتوں سے بہرہ مند فرمايا:يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى أنعمت عليكم

'' نعمت'' مفرد آياہے اس سے مراد خاص نعمت ہوسكتى ہے جيساكہ حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت اور ممكن ہے نعمت كى جنس يا صنف مراد ہو جس ميں متعدد نعمتيں شامل ہيں جن كا آيت ۴۷ كے بعد والى آيات ميں ذكر ہوا ہے _ نعمت كى '' يائ'' متكلم كى طرف اضافت اس بات كى دليل ہے كہ يہ نعمت يا نعمتيں بہت عظيم و باشرافت ہيں _

۲ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل سے چاہا كہ اسكى نعمتوں كو ہميشہ ہميشہ كے لئے ياد ركھيں _يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى أنعمت عليكم

۳ _ بنى اسرائيل قرآن كريم كے مخاطب قرار پائے اور ان كا فريضہ قرار ديا گيا كہ قرآن حكيم كى پيروى كريں _

يا بنى اسرائيل اذكروا

۴ _ نزول قرآن كے زمانے تك بنى اسرائيل ايك قوم و

۱۳۹

قبيلے كى شكل ميں تھے_يا بنى اسرائيل اذكروا حضرت اسحاقعليه‌السلام كے فرزند اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پوتے حضرت يعقوبعليه‌السلام كا ايك اور نام اسرائيل تھا يہ جو بنى اسرائيل ( فرزندان يعقوبعليه‌السلام ) كے عنوان سے ايك گروہ يا جماعت كى شكل ميں معروف تھے اور آنحضرتعليه‌السلام كے زمانے ميں بھى اسى نام سے جانے پہچانے جاتے تھے اس سے معلوم ہوتاہے كہ انہوں نے اپنے زمانہ آغاز سے اس زمانے تك اپنى قوميت كو محفوظ كر ركھا تھا اور قوم قبيلے كى صورت ميں رہتے تھے _

۵ _ اللہ تعالى اور بنى اسرائيل كے ما بين متقابل عہد و پيمان كا وجود _اوفوا بعهدى اوف بعهدكم '' عہدي'' يعنى وہ عہد و پيمان جو اللہ تعالى نے لوگوں كے ذمے قرار ديا ہے _ '' عہدكم'' سے مراد وہ وعدے ہيں جو اللہ تعالى نے اپنے بندوں كو ديئے ہيں اور ان كى انجام دہى كو اپنے ليئے ضرورى قرار ديا ہے _

۶ _ بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كے احكام و فرامين ميں سے ايك حكم يہ تھا كہ الہى وعدوں كو وفا كريں _و اوفوا بعهدي

۷_ پيامبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے زمانے كے بنى اسرائيل الہى عہد و پيمان سے آگاہ تھے_اوفوا بعهدى اوف بعهدكم

۸_ اللہ تعالى كا وفائے عہد كرنا اس شرط كے ساتھ تھا كہ بنى اسرائيل الہى عہد و پيمان كى پابندى كريں _اوفوا بعهدى اوف بعهدكم

۹_ بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كى نصيحتوں ميں سے ايك نصيحت يہ تھى كہ فقط خدا سے ڈريں اور اسكے غير سے خوف زدہ نہ ہوں _و اياى فارهبون ''رہبہ'' كا معنى ڈرنا ہے _'' ارھبون'' ميں فعل امر ''ارہبوا'' اور نون وقايہ مكسور ہے جو اس بات كى حكايت كرتى ہے كہ يہاں '' ياى متكلم'' محذوف ہے يعنى جملہ يوں ہے ''و اياى فارهبونى ''

۱۰_ اللہ تعالى انسانوں كو نعمت عطا كرنيوالاہے _نعمتى التى انعمت عليكم

۱۱_ الہى نعمتوں كو ياد ركھنے كى ضرورت_اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم

۱۲ _ نعمتوں كو ياد كرنے اور ياد ركھنے كا ہدف اللہ كى ياد ميں رہنا اور نعمتوں كو اس كى جانب سے سمجھنا ہے _

اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم''نعمت'' كى توصيف يوں كرنا كہ اللہ تعالى نے اسے عطا فرمايا ہے '' انعمت عليكم'' يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ نعمت كو ياد كرنا نعمت دينے والے كى ياد كا ذريعہ ہونا چاہيئے يعنى نعمت كو ياد كرنے كا لازمہ يہ ہو كہ ہر نعمت ميں خدا كو ديكھاجائے_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

تفصیل: اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ کلام جو حروف تہجی سے تدریجاً یکے بعد دیگرے وجود میں آتا ہے یقیناً ایک حا دث چیز ہے۔ ایسی صفت سے اللہ کا ازل اور غیر ازل میں متصف ہونا محال ہے اختلاف اس بات میں ہے کہ آیا اس کلام کے علاوہ بھی کوئی کلام موجود ہے جس کے تمام اجزاء یکجا موجود ہوں اشاعرہ حضرات ایسے کلام کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی دوسری صفات کی طرح ایک ذاتی صفت ہے اور غیر اشاعرہ اس کی نفی کرتے ہیں اور کلام کو صرف کلام لفظی میں منحصر سمجھتے ہیں اور یہ کہ کلام لفظی متکلم سے اس طرح صادر ہوتا ہے کہ جس طرح کسی فاعل سے کوئی فعل صادر ہوتا ہے اور حق یہ ہے کہ کلام الٰہی حادث و مخلوق ہے۔

دلیل: جملہ دو قسم کا ہوتا ہے (۱) خبریہ (۲) انشائیہ

(۱) جملہ خبریہ:/ جب ہم کس یبھی جملہ خبریہ میں غور و فکر او رتحقیق کرتے ہیں تو ہمیں اس میں صرف نو چیزیں نظر آتی ہیں اوریہ نوچزیں ایسی ہیں کہ جب بھی کسی چیز کو دوسری چیز کیلئے ثابت کرنا چاہیں یا ایک چیز کی دوسری سے نفی کرنا چاہیں تو ان نو چیزوں کا ہونا لازمی ہے:

۱۔ جملے کے مفردات جن میں اس کے مودا اور ہیئت لفظیہ بھی شامل ہیں۔

۲۔ مفردات کے معانی اور ان کے مدلول۔

۳۔ جملے کی ہیئت ترکیبیہ۔

۴۔ وہ چیز جس پر ہیئت ترکیبیہ دلالت کرے۔

۵۔ خبر دینے والے شخص کا مادہ جملہ اور ہیئت جملہ کاتصور کرنا۔

۶۔مادہ جملہ اور ہیئت جملہ کے مدلول کا تصور۔

۷۔ نسبت کا خارج کے مطابق ہونا یا نہ ہونا۔

۸۔ مخبر کا اس مطابقت و عدم کا علم رکھنا یا شک کرنا۔

۹۔متکلم کامقدمات ارادہ کے بعد جملے کو خارج میں ایجاد کرنے کا ارادہ کرنا۔

۵۲۱

اشاعرہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کلام نفسی ان نو چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں ہے بنا برایں کلام نفسی کا کوئی نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا باقی رہا جملے کامفاد تو وہ بھی کلام نفسی نہیں بن سکتا کیونکہ مشہور یہ ہے کہ جملہ خبریہ ایک چیز کو دوسری چیز کیلئے ثابت کرنے یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنے کا نام ہے اور ہماری تحقیق کے مطابق اس ثبوت یا سلب کے بیان کے قصد کا نام ہے ، کیونکہ ہم نے اپنے مقام پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جملہ خبریہ کی ہیئت ترکیبیہ اپنی وضع کے مطابق اس بات کی علامت ہے کہ متکلم نسبت کے بیان کا قصد کر رہا ہے اوریہی کیفیت دوسرے الفاظ کی بھی ہے جن کو کسی نہ کسی معنی کے لئے مقرر کیا گیا ہو۔

ہم نے تحقیق سے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ وضع اس التزام کا نام ہے جس میں کسی خاص لفظ یا ہیئت کاتقرر کیا جائے تاکہا س سے ہر اس امر کی تفہیم ظاہر ہو سکے جسے متکلم کسی کوسمجھانا چاہئے یہ تھا جملہ خبریہ کا مفاداور مفہوم۔

جہاں تک جملہ انشائیہ کا تعلق ہے یہ بھی جملہ خبریہ کی مانند ہے جملہ خبریہ اور انشائیہ میں اتنا فرق ہے کہ جملہ انشائیہ میں پہلے سے کوئی خاص واقعہ موجود نہیں تھا جس کی نسبت کلامیہ مطابق یا مخالف ہو اس بیان کی روشنی میں جملہ انشائیہ میںسات چیزیں ہوا کرتی ہیں اور وہ وہی چیزیں ہیں جو جملہ خبریہ میں ہوتی ہیں البتہ صرف ساتویں اور آٹھویں چیز اس میں نہیں ہو گی اور یہ بات بھی بتا دی گئی کہ جو حضرات کلام نفسی کے قائل ہیں وہ ان نو چیزوں میں سے کسی چیز کو کلام نفسی نہیں سمجھتے۔

اب یہ سوال باقی رہ گیا ہے کہ جملہ انشائیہ کی ہیئت کامفاد (مدلول) کیا ہے ۔ علماء میں مشہور یہی ہے کہ جملہ انشائیہ کوا س لئے وضع کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے عالم انشاء کے مناسب کوئی معنی ایجاد کیا جائے اور علماء کے کلام میں مکرر بیان کیا جاتا ہے کہ انشاء لفظ کے ذریعے معنی ایجاد کرنے کا نام ہے ہم نے اصول فقہ کی بحثوں میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ وجود انشائی کی کوئی اساس اور دلیل نہیں اگرچہ لفظ اور معنی میں ایک عارضی اتحادپایا جاتا ہے جس کا منشاء لفظ اور معنی کے درمیان وہ ربطہ ہے جو وضع کی وجہ سے قائم ہوا ہے۔ لفظ کا وجود اس کیلئے حقیقی و ذاتی ہے اور معنی کیلئے عارضی اور مجازی۔

۵۲۲

یہی وجہ ہے کہ معنی کا حسن و قبیح لفظ تک سرایت کر جاتا ہے اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ لفظ کی وجہ سے معنی کو ایک وجود لفظی مل گیا ہے اگرچہ لفظ و معنی میں یہ اتحادپایا جاتا ہے لیکن یہ جملہ انشائیہ سے مختص نہیں جملہ خبریہ اور مفردات میں یہ اتحاد پایا جاتا ہے۔

جہاں تک لفظ سے قطع نظر معنی کے وجود کا تعلق ہے وہ دو ہی قسم کا ہو سکتا ہے۔

(۱) معنی کا حقیقی وجود ، جو اس کائناتی نظام میں ظاہر ہوتا ہے جس طرح اس دنیا کے مختلف جواہر (اشیائ) اور اعراض (صفات) ہیں وجود کی اس قسم کے اپنے خاص علل و اسباب ہوا کرتے ہیں جن کا الفاظ سے کوئی ربطہ و تعلق نہیں ہوتا یہ ایک واضح بات ہے۔

(۲) معنی کا اعتباری اور قراردادی وجود یہ بھی اشیاء کا ایک قسم کا وجود ہے ، لیکن صرف عالم اعتبار اور فرض میں ہے ، خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہر فرض و اعتبار ، فرض کرنے والے شخص کی ذات کے ذریعے قائم ہوا کرتا ہے اور اسی سے بلاواسطہ صادر ہوتا ہے۔ الفاظ خارجی پر ہرگز یہ موقوف نہیں باقی رہے لوگوں سے صادر ہونے والے عقود، جیسے بیع و شراء وغیرہ اور ایقاعات ، جیسے غلام آزاد کرنےاور طلاق دینا ، تصدیق اور تملیک و تملک کو جائز قرار دینا یہ چیزیں اگرچہ کسی شخص سے صیغہ عقد و ایقاع کے صادر ہونے پر موقوف ہیں اور معاملہ انجام دینے والے کے قول یا فعل کے بغیر تصدیق شارع بے اثر ہے لیکن شارع کی یہ تصدیق بقصد انشاء کسی لفظ کے صادر ہونے پر موقوف ہے مگر ہماری بحث لفظ کے اس مفاداور مفہوم سے ہے جو مرحلہ تصدیق شارع سے قبل ذکر کیا گیا ہو۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ کسی بھی چیز کا وجود حقیقی اور وجود اعتباری لفظ پر موقوف نہیں۔ باقی رہا شارع یا عقلاء کا اس وجود اعتباری کی تصدیق کرنا۔ اگرچہ یہ تصدیق متکلم سے لفظ یا کسی دوسرے فعل کے صادر ہونے پر مووف ہے لیکن یہ اس معنی میں کہ لفظ اپنے معنی میں استعمال ہوا ہو اس معنی میں نہیں کہ لفظ سے معنی کو ایجاد کیا گیا ہے جہاں تک وجود لفظی کاتعلق ہے یہ ہر اس معنی کو شامل ہے جس پر کوئی لفظ دلالت کرے جملہ انشائیہ میں کوئی خصوصیت نہیں بنا برایں علماء میں مشہور قول ''انشاء لفظ کے ذریعے ایجاد معنی کا نام ہے،، کی کوئی حقیقت اور اساس نہیں۔

۵۲۳

صحیح قول یہ ہے کہ ہیئت انشائیہ کو اس لئے وضع کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے انسان باطنی امور میں سے کسی کااظہار کرے ۔ یہی باطنی شئی کبھی تو اعتبارات میں سے ہوتی ہے جیسے امر، نہی عقود اور ایقاعات ہیں اور کبھی صفات میں سے ایک صفت ہوتی ہے جیسے کسی چیز کی تمنا اور امید رکھنا پس جملوں کی ہیتیں باطنی امور میں سے کسی نہ کسی شئی کی علامت اور نشانی ہوتی ہیں یہ شئی جملہ خبر یہ ہیں مقصد بیان اور خبر ہےاور جملہا نشائیہ میں کوئی اور چیز ہوتی ہے۔

جو جملہ اس باطنی امر کو ظاہر کرتا ہے ، کبھی اسے جملوں میں ذکر کرنے کا مقصد اس باطنی شئی کو ظاہر کرنا ہوتا ہے اور کبھی کوئی اور عامل اور مقصدہواہے یہ بات محل بحث و اختلاف ہے کہ جملہ کا دوسر مقصد میں استعمال ہونا حقیقت ہے یا مجاز اس بحث کا یہ موقع نہیں ہے تفصیلی معلومات کیلئے ہماری تعلیقات کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔

کیا ''طلب ،، کلام نفسی ہے؟

لفظ ''طلب،، کے جائے استعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''طلب،، کسی شئی کو حاصل کرنے کے درپے ہونے کا نام ہے ''طلب الضالتہ،، یعنی گمشدہ چیز کو تلاش کیا اور ''طلب الآخرۃ،، یعنی آخرت کی تلاش ، اسی صورت میں کہا جائے گا جب انسان ان دونوں (گمشدہ چیز اور آخرت) کو حاصل کرنے کے درپے ہو چنانچہ لغت کی کتاب ''لسان العرب،، میں ہے۔

''الطلب محاوله وجدان الشئی واخذه،،

(یعنی) ''مطلب کسی شئی کو حاصل اور دریافت کرنے کی کوشش کا نام ہے،،۔

اس اعتبار سے آمر (حکم دینے والے) پر ''طالب،، صادق آئے گا کیونکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ مامور (جس کا حکم دیا گیا ہو) وجود میں آ جائے اس لئے آمروہی ہوتا ہے جو مامور کو متعلق امر (ماموربہ) کو بجا لانے کی دعوت دیتا ہے اور یہی طلب کا مصداق ہے ایسا نہیں کہ امر کوئی لفظ ہو جس کا معنی طلب ہو بنا برایں اس قول کی کوئی اساس باقی نہیں رہتی کہ امر کو طلب کیلئے وضع کیا گیا ہے اور نہ اس بات کی کوئی اساس باقی رہتی ہے کہ ''طلب،، کلام نفسی ہے جس پر کلام لفظی دلالت کرتا ہے۔

اشاعرہ نے درست کہا کہ ''طلب،، اور ہے ''ارادہ،، اور ہے لیکنان کی یہ بات درست نہیں کہ ''طلب،، ایک باطنی صفت کانام ہے اور یہ کہ اس صفت باطنی پر کلام لفظی دلالت کرتا ہے۔

۵۲۴

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

گزشتہ بیانات سے قارئین محترم کے سامنے واضح ہو گیا ہو گا کہ جملہ خبریہ اور جملہ انشائیہ میں کلام کی کوئی ایسی قسم نہیں جو نفس انسانی سے وابستہ ہوتا کہ وہ کلام نفسی کہلائے یہ بات ضروری ہے کہ ہر متکلم کیلئے ایجاد کلام سے پہلے اس کلام کا تصور کرنا ضروری ہے اور تصور نفس انسانی میں ایک قسم کے وجود کا نام ہے جس کو وجود ذہنی کہتے ہیں۔ اگر کلام نفسی کے قائل حضرات کی مراد، نفس انسانی میں موجود یہی کلام ہو تو یہ بات اپنے مقام پر درست ہے لیکن یہ نکتہ بھی پوشیدہ نہ رہے کہ بات صرف کلام سے مختص نہیں بلکہ ہر فعل اختیاری کا تصور ، نفس انسانی میں موجود ہوتا ہے۔ کلام کاتصور بھی اس لئے ضروری ہے کہ یہ متکلم کا ایک فعل اختیاری ہے۔

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

کلام نفسی کے قائل حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات میں کئی دلائل دیتے ہیں۔

(۱) ہر متکلم ، تکلم سے پہلے کلام کو اپنے نفس میں ترتیب دیتا ہے اور خارج میں موجود کلام اس بات کاانکشاف ہے کہ اسی نوعیت کا ایک کلام ، نفس بھی موجود ہے اوریہ ایک واجدانی چیز ہے جسے متکلم اپنے نفس میں محسوس کرتا ہے چنانچہ شاعر ''اخطل،، نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کیا ہے۔

ان الکلام لفی الفوادوانما

جعل اللسان علی الفواد دلیلا

''(یعنی) کلام (حقیقی) تو نفس انسانی میں ہوتا ہے زبان تو صرف اس کلام نفسی کی نشاندہی کرتی ہے،،۔

اس دلیل کا جواب گزر چکا ہے یعنی نفس میں کلام کی ترتیب اس کات صور اور اسے نفس میں حاضر کرنا ہے اور یہی وجود ذہنی ہے جو تمام اختیارای افعال میں پایا جاتا ہے چنانچہ کاتب اور نقشہ کش کیلئے ضروری ہے کہ کتابت اور نقشہ کشی سے پہلے نقشہ اور مکتوب کاتصور کرے اس کا کلام نفسی سے دور کا بھی تعلق نہیں۔

۵۲۵

(۲) نفس انسانی میں موجود مفاہیم پر کلام صادق آتا ہے اور یہ اطلاق صحیح اور حقیقت ہے اس میں کوئی مجاز گوئی بھی نہیں ہے چنانچہ ہر شخص یہ ہتا ہے کہ میرے نفس میں ایک کلام ہے جسے میں ظاہر نہیں کرنا چاہتا ارشاد ربانی ہے۔

( وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ ۖ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ) ۶۷:۱۳

''اور تم لوگ اپنی بات چھپا کر کہو یا کھلم کھلا وہ تو دل کے بھیدوں تک سے خوب واقف ہے،،۔

اس دلیل کا جواب بھی گزشتہ مطلب سے معلوم ہو گا بایں معنی کہ جس طرح کلام کے وجود خارجی پر کلام صادق آتا ہے اسی طرح کلام کے وجود ذہنی پر بھی کلام صادق آتا ہے بلکہ ہر چیز کے دو قسم کے وجود ہوتے ہیں وجود خارجی اور وجود ذہنی دونوں صورتوں میں چیز کی حقیقت ایک ہی رہتی ہے اور دونوں صعورتوں میں اس شئی کا نام صادق آتا ہے اوریہ مجاز گوئی بھی نہیں کہلائے گی۔

یہ قسمیں صرف کلام سے مختص نہیں ہیں۔ چنانچہ انجینئر کو آپ یہ کہتے سنیں گے میرے نفس میں ایک عمارت کاتصور ہے۔ اسے میں نقشے پر اتاروں گا عبادت گزار انسان کہے گا میرے نفس میں یہ بات ہے کہ کل روزہ رکھوںگا۔

(۳) اللہ تعالیٰ کی ذات پر متکلم کا اطلاق صحیح ہے اور اسم فعال کی ہیئت اور وزن اس مقصد کو ظاہر کرنے کیلئے وضع کیا گیا ہے کہ مبداء فعل بطور صفت ذات کے ذریعے قائم ہے یہی وجہ ہے کہ الفاظ متحرک ساکن اور نائم اسی شخص پر صادق آتے ہیں جو حرکت ، سکون اور نوم (نیند) کی صفت سے متصف ہو یہ الفاظ اس شخص پر صادق نہیں آتے جو ان کو ایجاد کرے ظاہر ہے کلام لفظی سے اللہ کی ذات متصف نہیں ہو سکتی اس لئے کہ قدیم ذات کا حادث صفت سے متصف ہونا محال ہے لا محالہ کلام قدیم کا التزام ضروری ہے تاکہ اللہ کی ذات پر متکلم صادق آ سکے۔

۵۲۶

جواب: صیغہ متکلم میں مبداء ، کلام نہیں۔ اس لئے کہ اللہ کے علاوہ غیر خدا میں بھی کلام اس طرح متکلم کے ذریعے قائم نہیں جس طرح صفت موصوف کے ذریعے قائم ہوتی ہے۔ کیونکہ کلام اس کیفیت کو کہتے ہیں جو ہوا کی لہروں سے حاصل آواز کو عارض ہوتی ہے اور یہ ایسی چیز ہے جو ہوا کے ذریعے قائم ہے متکلم کے ذریعے نہیں صیغہ متکلم میں مبداء تکلم ہے اور تکلم ، ایجاد و معنی کے علاوہ قابل تصور کوئی اور چیز نہیں بنا برایں متکلم جس معنی میں اللہ کی ذات پر صادق آتا ہے اسی معنی میں غیر خدا پر بھی صادق آتا ہے۔

مستدل کا یہ کہنا ہے کہ اسم فاعل کا وزن ، اس مقصد کو ظاہر کرنے کیلئے وضع کیا گیا ہے کہ مبداء ذات کے ذریعے قائم ہے جس طرح صفت ، موصوف کے ذریعے قائم اورثابت ہوتی ہے یہ قول سراسر غلط ہے۔

اس لئے کہ ہیئت اسم فاعل تو صرف اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ مبداء ذات کے ذریعے قائم ہے لیکن اس قیام کی خصوصیات کہ آیایہ قیام بطور ایجاد ہے جس طرح ''ضارب،، ہے یا بطور حلول ہے جس طرح مریض ہے یہ خصوصیات ہیئت ضارب کے مفاد اور مدلول میں شامل نہیں موار دو مقامات کے اختلاف کے ساتھ یہ خصوصیات بھی مختلف ہوتی رہتی ہیں اور کسی ضابطہ وکلیہ کے تحت نہیں آتیں۔

مثال کے طورپر علم اور نوم کے ایجاد کرنے والے پر عالم اورنائم صادق نہیں آتا لیکن قبض و بسط اور نفع و رضر کے ایجاد کرنے والے پر قابض باسط اور نافع و ضار صادق آتے ہیں بنا برایں موجد حرکت پر متحرک صادق نہ آنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ موجد کلام پر متکلم بھی صادق نہ آئے۔

گزشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کلام نفسی محض ایک مفروضہ ہے۔ جس پر کوئی برہان اور وجدان دلالت نہیں کرتا۔

۵۲۷

اس مقام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بحث کے خاتمہ کے طور پر موضوع سے متعلق امام ابو عبداللہ جعفر بن محمد الصادق (علیہما السلام) کی ایک روایت ذکر کی جائے کلینی اپنی سند سے ابی بصیر سے روایت کرتے ہیں میں نے امام صادق (علیہ السلام ) کو یہ فرماتے سنا۔

سمعت ابا عبدالله ۔ع ۔بقول : لم یزل الله عزل وجل ربنا ، والعلم ذاته معلوم ، و السمع ذاته ولا مسموع ، والبصر ذاته ولا مبصر ، والقدرة ذاته ولامقدور فلما احدث الاشیاء وکان المعلوم وقع العلم منه علی المعلوم ، والسمع علی السموع ، و البصر علی البصر ، والقدرة علی القدور ، قال : قلت: فلم یزل الله متحرکا؟ قال : فقال: تعالیٰ الله عن ذلک ، ان الحرکة صفة محدثة بالفعل ، قال : فقلت: فلم یزل الله متکلماً ؟ قال: فقال: ان الکلام صفة محدثة لیست بازلیة ، کان الله عزوجل ولا متکلم (۱)

''خداوند لم یزل و لایزال اس وقت بھی علم ذاتی رکھتاتھا جب کسی معلوم کی ذات نہ تھی ۔ سمع اس وقت بھی عین ذات الٰہی تھا جب کوئی مسموع نہ تھا بصارت اس وقت بھی عین ذات الٰہی تھی ، جب کسی مبصر (دکھائی دینے والا) کی ذات نہ تھی اور قدرت خدا اس وقت بھی عین ذات تھی جب کسی مقدور کی ذات نہ تھی۔ اللہ نے جب اشیاء کو خلق فرمایا اور معلومات وجود میں آ گئیں تو علم معلوم پر ، سمع مسموع پر ، بصارت مبصر پر اور قدرت مقدور پر منطبق ہوتی گئی ابو بصیر کہتے ہیں میں نے عرض کی : اللہ ازل سے متحرک بھی ہے؟ آپ (ع) نے فرمایا اللہ کی شان اس سے بالاتر ہے اور حرکت صفات فعلی میں سے ہے جو حادث ہے ، قدیم نہیں۔ ابوبصیر کہتے ہیں: میں نے کہا : کیا اللہ ازل سے متکلم ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا کلام بھی ایک حادث صفت ہے اللہ کی ذات موجود تھی لیکن متکلم نہیں،،۔

۵۲۸

سورة الفاتحة مکیته و اباتها سبع

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾

نزلت بعد المدثر

۵۲۹

تفسیر سورہ فاتحہ

٭مقام نزول

٭ سورہ فاتحہ کے فضائل

٭فاتحتہ الکتاب کی آیات

٭سورہ فاتحہ کے اغراض و مقاصد

٭سورہ فاتحہ کا خلاصہ

٭بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تحلیل

٭ لغت ، اللہ ، الرحمن ،ا لرحیم

٭اعراب

٭ تفسیر

۵۳۰

مقام نزول:

علما مفسرین میں مشہور یہی ہے کہ سورۃ مکی ہے اوربعض کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ سورہ مدنی ہے اور پہلا قول صحیح ہے ، اس کی دو دلیلیں ہیں:

اول: سبع مثانی سے مراد سورۃ فاتحہ ہے اللہ تعالیٰ نے خود سورۃ حجرہ میں فرمایا ہے کہ ''سبع مثانی،، سورۃ حجر سے پہلے نازل کی گئی ہے۔

( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ) ۱۵:۸۷

''اور ہم نے تمہیں سبع مثانی (سورہ حمد) اور قرآن عظیم عطا کیا ہے،،۔

سورہ حجر کے بارے میں سب کا افاق ہے کہ یہ مکی ہے جب مکی ہے تو اس سے پہلے نازل شدہ سورۃ کو بطریق اولیٰ مکی ہونا چاہئے:

ثانی: نماز کی تشریع مکہ معظمہ میں ہوئی تھی جو تمام مسلمانوں کے نزدیک ایک بدیہی اور واضح حقیقت ہے اور اسلام میں ایسی کوئی نماز نہیں ہے جس میں سورۃ فاتحہ شامل نہ ہو چنانچہ اس کی تصریح خود رسول اللہ (ص) نے فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا:

''لاصلوٰة اللابفاتحته الکتاب،،

''سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز نہیں،،

نمبر ۱ اس بات کی متعدد روایات میں تصریح کی گئی ہے ان میں صدوق اور بخاری کی روایات شامل ہیں جن کا ہم بعد میں ذکر کریں گے۔

____________________

نمبر۱: البخاری ، ج ۶ ، ص ۱۰۳ ، باب فاتحہ الکتاب۔

۵۳۱

اس حدیث کو امامیہ اور غیر امامیہ دونوں نے نقل کیا ہے۔

بعض علماء کاعقیدہ یہ ہے کہ اس سورۃ مبارکہ کو اس کی عظمت و فضیلت کی وجہ سے دو مرتبہ ایک مرتبہ مکہ میں اور دوسری مرتبہ مدینہ میں نازل کیا گیا ہے۔

بذات خود اس قول کا احتمال ضرور ہے لیکنیہ دلیل سے ثابت نہیں ہے اور بعید نہیں کہ اسی ، دومرتبہ نازل ہونے کی وجہ سے اس کا نام ''سبع مثانی،، رکھا گیا ہو۔

ایک اور احتمال یہ ہے کہ ''سبع مثانی،، کی وجہ تسمیہ یہ ہو کہ اس کو ہر نمز میں دو مرتبہ پڑھا جاتا ہے ایک مرتبہ پہلی رکعت میں اور دوسری مرتبہ دوسری رکعت میں۔

سورہ فاتحہ کے فضائل

اس سورہ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ نے سورۃ حجر کی اس آیت میں اسے قرآن کے ہم پلہ قرار دیا اور ارشاد فرمایا ہے :

( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ) ۱۵:۸۷

''اور ہم نے تم کو سبع مثانی (سورہ حمد) اور قرآن عظیم عطا کیا ہے،،۔

اس کے علاوہ ہر نماز میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا لازمی ہے کوئی دوسرا سورہ اس کی جگہ نہیں لے سکتا نماز وہ عمل ہے جو دین کا ستون ہے اور مسلمان اور کافر کے درمیان طرہ امتیاز ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس کے بعد ہم اس مختصر سورہ میں موجود معارف اور علوم الہیٰ کا ذکر کریں گے

۵۳۲

صدوق نے اپنی سند سے حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) سے اور آپ (ع) نے امیر المومنین (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

''بسم اللہ الرحمن الرحیم ،، فاتحتہ الکتاب کا جزء ہے اور فاتحتہ الکتاب بسم اللہ سمیت سات آیات پر مشتمل ہے اس کے بعد آپ (ع) نے فرمایا: میں نے رسول اللہ (ص) کویہ فرماتے سنا ہے اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ اے محمد (ص):

( وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ) ۔ ۱۵:۸۷

''اور ہم نے تم کو سبع مثانی (سورہ حمد) اور قرآن عظیم عطا کیا ہے،،۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کے ذریعے خاص کر مجھ پر احسان فرمایا اور اسے قرآن کریم کا ہم پلہ قرار دیا فاتحتہ الکتاب عرش الٰہی کے گرانبہا خزانوں میں سے ہے،،

بخاری نے ابی سعید بن معلی سے روایت کی ہے ابی سعید کہتے ہیں۔

''میں حالت نماز میں تھا کہ رسول اللہ (ص) نے مجھے بلایا۔ اس وقت میں نے رسول اللہ (ص) کو جواب نہیں دیااور پھر عرض کی: یا رسول اللہ (ص) اس وقت) میں نماز پڑھ رہا تھا آپ (ص) نے فرمایا: کیا اللہ نے نہیں فرمایا:

( اسْتَجِيبُوا لِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ ) ۸:۲۴

''جب تم کو (ہمارا) رسول (محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ایسے کام کیلئے بلائے جو تمہاری روحانی زندگی کاباعث ہو تو تم خدا اور رسول کا حکم دل سے قبول کر لو،،۔

اس کے بعدآپ (ص) نے فرمایا:کیا تمہارے مسجد سے نکلنے سے پہلے تمہیں بتاؤں کہ قرآن میں سب سے افضل سورہ کونسا ہے آپ (ص) نے میرا ہاتھ پکڑا اور جب ہم مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ص)! آپ (ص) نے فرمایا تھا کہ قرآن میں سب سے افضل سورہ کے بارے میںبتائیں گے آپ (ص) نے فرمایا وہ الحمدللہ رب العمین ہے جو سبع مثانی اور قرآن کریم ہے جو مجھے دیا گیا ہے:

۵۳۳

فاتحتہ الکتاب کی آیات

مسلمانوں میں مشہور قول کے مطابق سورۃ فاتحہ کی آیات سات ہیں بلکہ اس قول میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں حسین بن جعفی سے مروی ہے کہ سورہ فاتحہ کی آیات چھ ہیں عمروبن عبید سے مروی ہے کہ سورہ فاتحہ کی آیات آٹھ ہیں لیکن یہ دونوں شاذو نادر قول ہیں اور طرفین کی روایات (جن کے مطابق سورہ فاتحہ کی آیات سات ہیں) کے خلاف ہیں:

اس سے قبل ذکر ہو چکا ہے کہ گزشتہ آیت میں سبع مثانی سے مراد سورہ فاتحہ ہے البتہ جو حضرات بسم اللہ ۔۔۔۔۔۔ کو سورہ فاتحہ کا جز سمجھتے ہیں وہ صراط الذین انعمت علیھم سے لے کر آخر تک کو ایک آیت سمجھتے ہیں اور جو لوگ بسم اللہ ۔۔۔۔۔۔ کو سورۃ فاتحہ کاجز نہیں سمجھتے وہ غیر المغضوب علیھم ولاالضالین کو ایک مستقل آیت قرار دیتے ہیں۔

سورۃ فاتحہ کے اغراض و مقاصد

سورہ فاتحہ کے دو اہم مقاصد ہیں:

(۱)عبادت اور پرستش کے قابل صرف اللہ کی ذات ہے۔

(۲) قیامت اور حشر و نشر کی اہمیت بیان کرنا اور یہ وہ عظیم مقصد ہے جس کی خاطر رسول اللہ (ص) کوب ھیجا گیا اور قرآن کو نازل کیا گیا۔

دین اسلام میں تمام انسانوں کو اللہ کی ذات اور توحید و یگانگی کی دعوت دی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۚ ) ۳:۶۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان سے) کہو کہ اے اہل کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی )بات پر تو آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے،،۔

۵۳۴

خدا کے سوا کوئی ذات پرستش کے لائق نہیں ، ہر بشر اور صاحب ادراک کو چاہئے کہ صرف خدا کے سامنے خشوع و خضوع سے پیش آئے اور اسی کی طرف توجہ کرے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ہر عقلمند ایسی ذات سے تواضع سے پیش آتا ہے اور اس کی عبادت اور کرتا ہےاور اپنی احتیاجات میں اسی کی طرف رخ کرتا ہے جس میں کوئی کمال پایا جاتا ہو اورہر ناقص کی فطرت ہے کہ وہ کامل کے سامنے متواضع رہے یا وہ اس کی اس لئے پرستش و تواضع کرتا ہے کہ اس نے اس پر احسان کیا ہے ، یا ناقص ، نفع حاصل کرنے اور نقصان کو دور کرنے میں اس کامحتاج ہوتا ہے یا کامل ذات کے قہر و غضب اور اس کی سلطنت کی وجہ سے اس کی مخالفت اور معصیت سے احتراز کرتا ہے۔

پس عبادت اور خشوع و خضوع کے اسباب یہی ہیں اور ہر عاقل کو یہ صفات صرف اللہ کی ذات میں نظر آئیں گی لہٰذا حمد کی مستحق صرف اللہ کی ذات ہے اس لئے کہ تمام صفات کمال اللہ کی ذات میں مجتمع ہیں اور اس کی ذات میں کسی نقص اور خامی کا شائبہ تک نہیں عالم ظاہر اور عالم باطن موجود اور تدریجاً وجود میں آنے والی موجدات کا منعم بھی اللہ ہے اور پوری کائنات کا تکوینی اور تشریعی مربی اللہ ہے ۔ اللہ ہی کی ذات ہے جو وسیع اور ناقابل زوال رحمت سے متصف ہے اللہ ہی مالک مطلق اور مخلوق کا حاکم اعلیٰ ہے جس کا کوئی شریک اور فریق نہیں۔

بنا برایں اپنے کمال ، انعام ، رحمت اور سلطنت کی بنیاد پر معبود حقیقی اللہ کی ذات ہے ایک عاقل انسان اسی کی طرف توجہ کرتا ہے اسی کی عبادت کرتا ، اسی سے مدد مانگتا اور اس پر توکل کرتا ہے کیونکہ اللہ کی ذات کے علاوہ ہر چیز ممکن الوجود ہے اورممکن الوجود ذاتی طورپر محتاج ہوا کرتی ہے عبادت اسی ذات کی ہو سکتی ہے اور مدد اسی سے مانگی جا سکتی ہے جو مستغنی اوربے نیاز ہے۔

۵۳۵

( يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّـهِ ۖ وَاللَّـهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ ) ۳۵:۱۵

''لوگو تم سب کے سب خدا کے (ہر وقت) محتاج ہو اور (صرف) خدا ہی (سب سے) بے پرواہ سزاوار حمد (وثنا) ہے،،۔

جب اللہ تعالیٰ نے آیات : الحمدللہ رب العالمین ۔ الرحمن الرحیم ۔ مالیک یوم الدین کے ذریعے ثابت کر دیا کہ حمد و ثناء کے لائق صرف اسی کی ذات ہے تو اس نے اپنے بندوں کو تلقین کی کہ وہ دل و جان سے کہیں : ایاک نعبد و ایاک نستعین اس کے بعد اللہ تعالیٰ ، بعثت انبیاء ، انزال کتب اور اتمام حجت کے بعد مختلف لوگوں کے حالات بیان فرما رہا ہے اور اس طرح اس نے لوگوں کو تین قسموں میں تقسیم کر دیا ہے۔

(۱) یہ وہ لوگ ہیں ، خدا کی رحمت و نعمت جن کے شامل حال ہے جنہوں نے صراط مستقیم کی ہدایت حاصل کی اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے۔

(۲) وہ لوگ ہیں جو گمراہ ہو گئے اور ادھر ادھر منحرف ہوئے اگرچہ یہ لوگ اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے حق کے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں لیکن حق سے عناد اور دشمنی نہیں رکھتے ان کا گمان یہی ہے کہ دین حق وہی ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس راستے کو انہوں نے اپنایا ہے وہی سیدھا راستہ ہے۔

(۳) وہ لوگ ہیں جن کو حب جاہ و مال نے حق سے دشمنی اور عناد پر آمادہ کر دیا چاہے انہوں نے حق پہچان کر اس کا انکار کیا ہو یا سرے سے حق کو نہ پہچانا ہو یہ وہ لوگ ہیں جو درحقیقت اپنی خواہشات کی پرستش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَـٰهَهُ هَوَاهُ ) ۴۵:۲۲

''بھلا تم نے اس شخص کوبھی دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے،،۔

گمراہوں کی اس قسم کا کفر پہلے سے زیادہ شدید ہے اور وہ اپنی گمراہی کی وجہ سے عقاب کے مستحق ہوں گے اس کے علاوہ حق سے عناد اور دشمنی کی وجہ سے بھی وہ معاقب ہوں گے۔ چونکہ بشرحب مالو مقام کی خواہشات سے خالی نہیں ہوسکتا اور جب تک ہدات الٰہی شامل حال نہ ہو گمراہی میں مبتلا ہونے سے محفوظ نہیں رہ سکتا چنانچہ ارشاد ہوتاہے۔

۵۳۶

( وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ) ۲۴:۲۱

''اور اگر تم پر خدا کافضل (وکرم) اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوء بھی کبھی پاک و صاف نہ ہوتا مگر خدا تو جسے چاہتا ہے پاک و صاف کر دیتا ہے اور خدا بڑا سننے والا واقف کار ہے،،۔

چونکہ گمراہی کا اندیشہ تھا اس لئے اللہ نے اپنے بندوں کو یہ تلقین فرمائی کہ وہ اللہ سے ہدایت طلب کریں اور دعا کے طور پر عرض کریں :اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ

ان آیات میں بندے اپنے رب سے اس ہدایت کا مطالبہ کرتے ہیں جو مومنین سے مختص ہے ، ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتاہے۔

( وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۲:۲۱۳

''اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،،۔

نیز وہ اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ انہیں ان لوگوں کے زمرے میں شامل فرمائے جنہیں اس نے نعمتیں بخشی ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ) ۱۹:۵۸

''یہ انبیاء لوگ جنہیں خدا نے اپنی نعمت دی تھی ، آدم کی اولاد سے ہیں اور ان کی نسل سے جنہیں ہم نے (طوفان کے وقت) نوح کے ساتھ (کشتی پر) سوار کر لیا تھا اور ابراہیم و یعقوب کی اولاد سے ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جن کی ہم نے ہدایت کی اور منتخب کیا جب ان کے سامنے خدا کی نازل کی ہوئی آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو سجدہ میں زار و قدار روتے ہوئے گرپڑتے تھے،،۔

اور یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں ان دونوں فرقوں کے راستے پر نہ چلائے جو ہدایت کے راستے سے بھٹک گئے ہوں:

( الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ )

۵۳۷

سورۃ فاتحہ کا خلاصہ

پہلے اللہ نے ان اوصاف کے ذریعے اپنی ذات اقدس کی تعریف و توصیف فرمائی جن کات علق اس کی ذات اور افعال سے ہے اور یہ کہ وہ تمام عالم کا پروردگار ہے اور اس کی عام رحمت اس سے ہرگز جدا نہیں ہو سکتی اور روز محشر حکومت اسی کی ہو گی یہ اس سورہ کا پہلا مقصد تھا۔

اس کے بعد عبادت اور استعانت کو اپنی ذات میں منحصر کر دیا بنا برایں ذات الٰہی کے علاوہ کوئی اور اس قابل نہیں کہ جس کی عبادت کی جائے یااس سے مدد طلب کی جائے یہ اس آیت کا دوسرا مقصد تھا اس کے بعد اللہ نے لوگوں کو یہ تلقین فرمائی کہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا کریں جو انہیں ابدی زندگی لازوال نعمتوں اور اس نور کی رہنمائی کرے جس کے بعد کوئی ظلمت نہ ہو یہ سورہ مبارکہ کا تیسرا مقصد تھا پھر ذات الٰہی نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ یہ صراط مستقیم ان لوگوں سے مخصوص ہے جن پر اللہ نے اپنے فضل و کرم سے نعمتیں نازل فرمائی ہیں اوریہ صراط مستقیم ان لوگوں کی راہ سے مختلف ہے جن پر غضب نازل ہوا اوران لوگوں کی راہ سے بھی مختلف ہے جو راہ راست سے بھٹک چکے ہیں یہ سورہ مبارکہ کا چوتھا مقصد تھا۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔کی تحلیل

لغت

اسم: لغت میں اسم کامعنی علامت ہے اور اس کا ھمزہ ، حمزہ وصل ہے اور لفظ کا لازمی جز نہیں ہے ویسے تو اس میں بہت سی لغات ہیں لیکن ان میں سے چار لغات مشہور ہیں ''اسم ،، ، ''اسم،، ، ''سم،، اور ''سم،، اسم کو دراصل ''سمو،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی بلندی ہے اس میں مناسبت یہ ہے کہ اسم کی وجہ سے اس کا معنی بلند ہو جاتا ہے اور خفار (پوشیدگی) سے ظہور میں تبدیل ہو جاتا ہے اس لئے سامع کے ذہن میں لفظ کو سن کر اس کا معنی حاضر ہو جاتا ہے یا اس مناسبت سے یہ لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ لفظ وضع کی وجہ سے گمنامی سے نکل آتا اور استعمال میں آنے لگتا ہے۔

۵۳۸

بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اسم ، سمہ (علامت) سے مشتق ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ اسم کی جمع اسماء اور تصغیر ''سمی،، ہے اور جب اس کی طرف کسی چیز کو نسبت دی جاتی ہے تو ''سموی،، اور ''اسمی،، بولا جاتا ہے اور اگر اسے متعدی بنائیں تو ''سمیت ،، یا ''اسمیت،، کہا جاتا ہے اگر اسم ، سمہ سے بنا ہوتا تو اس کی جمع ''اوسام،، اور تصغیر ''وسیم،، آتی ہے اور نسبت کے وقت ''وسمی،، اور متعدی بنانے کی صورت میں ''وسمت،، اور ''اوسمت،، پڑھا جاتا۔

اس سے معلوم ہوا ہے کہ ''اسم،، ''سمہ،، سے نہیں بنا بلکہ ''سمو،، سے بنا ہے۔

اللہ: یہ لفظ ذات مقدس الٰہی کا مخصوص نام ہے اور زمانہ جاہلیت میں بھی عرب ، ذات الٰہی کو اسی نام سے جانتے تھے۔

چنانچہ مشہور عرب شاعر لبید کہتا ہے۔

الا کل شی ماخلا الله باطل و کل نعیم لامحالة زائل

''اللہ کے علاوہ ہر شے باطل ہے ، اور آخر کارہر نعمت زائل ہو جانے والی ہے،،

خود اللہ تعالیٰ کاارشاد گرامی ہے۔

( وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ ۚ ) ۳۱:۲۵

'' اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم اگر ان سے پوچھو کہ سارے آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو ضرور کہہ دیں گے اللہ نے،،۔

بعض علماء کا یہ خیال قطعی طورپر غلط اللہ (لفظ انسان کی طرح) اسم جنس ہے ، جس کاایک ہی فرد پایا جاتا ہے ہم اس مقام پر اپنے مدعی کے اثبات میں چار دلائل پیش کرتے ہیں:

۵۳۹

(۱) تبادر ، یعنی جب بھی لفظ اللہ بولا جاتا ہے بغیر کسی دوسرے قرینہ اور علامت کے ذات الٰہی ذہن میں آتی ہے جس میں کوئی بھی شخص شک نہیں کر سکتا اگر کوئی شخص یہ احمال دے کہ ممکن ہے کہ اصل نعمت میں لفظ اللہ اسم جنس ہو اور بعد میں اس لفظ کو ذات الٰہی سے مختص کر دیا گیا ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ قائد کلیہ یہ ہے کہ شک کی صورت میں اس احتمال کو کالعدم فرض کیا جاتا ہے چنانچہ میں نے علماصول میں اس قائدے کو ثابت کیا ہے۔

(۲) لفظ اللہ اپنے معنی میں صفت کے طور پر استعمال نہیں ہوتا مثلاً یہ نہیں کہا جاتا کہ العالم اللہ ، الخاق اللہ بایں معنی کہ لفظ اللہ کے ذریعے عالم اور خالق کی صفت بیان کی جائے یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ لفظ اللہ اسم مشتق نہیں ہے اور جب اسم جامد ہو گا تو لامحالہ یہ علم ہو گا۔ کیونکہ جن حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ اسم جنس ہے وہ مشتق والے معنی کی صورت میں اس کی تفسیر کرتے ہیں۔

(۳) اگر لفظ اللہ علم نہ ہوتا اور اسم جنس ہوتا تو کلمہ لاالہ الا اللہ سے توحید ثابت نہ ہوتی جس طرح لاالہ الا الخالق ، لاالہ الاالرزاق وغیرہ سے توحید ثابت نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی لاالہ الا الرزاق یا الا الہ الاالخالق کہے تو وہ مسلمان نہیں کہلائے گا۔

(۴) حکمت وضع کا تقاضا ہے کہ جس طرح دوسرے مفاہیم کیلئے کسی نہ کسی لفظ کو وضع کیا گیا ہے اسی طرح ذات واجب الوجود کیلئے بھی کوئی نہ کوئی لفظ وضع کیا جانا چاہئے اور لغت عرب میں لفظ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ نہیں جس کو واجب الوجود سے مختص کیا گیا ہو اس سے ثات ہوتا ہے کہ لفظ اللہ ہی ہے جس کو واجب الوجود کیلئے مختص کیا گیا ہے۔

اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ کسی بھی لفظ کو کسی معنی کیلئے وضع کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ واضع (وضع کرنے والا) لفظ کابھی تصور کرے اور اس معنی کا بھی تصور کرے جس کیلئے لفظ کو وضع کرنا چاہتا ہے اور غیر خدا کیلئے خدا کا تصور کسی طرح بھی ممکن نہیں اس طرح ذات واجب الوجود کیلئے کسی لف کا وضع کیا جانا بھی محال ہو گا۔

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689