البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 302154
ڈاؤنلوڈ: 8558

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302154 / ڈاؤنلوڈ: 8558
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

یہ کہنا بھی درست نہیں کہل فظ اللہ کا واضع خود خدا ہے اور خدا کیلئے یہ محال نہیں کہ وہ اپنی ذات کیلئے کسی لفظ کو وضع کرے کیونکہ خدا اپنی ذات کا احاطہ کر سکتا ہے یہ بات اس لئے درست نہیں کہ اس وضع کا کوئی فائدہ مترتب نہیں ہوگا کیونکہ جس طرح وضع معنی کے تصور پر موقوف ہے اسی طرح لفظ کا کسی معنی میں استعمال کرنا بھی معنی کے تصور پر موقوف ہے جو ایک مخلوق کیلئے محال ہے جب معنی کا تصور محال ہوگا تو لفظ اس معنی میں استعمال بھی محال ہو گا اور جب استعمال محال ہو گا تو وضع بے فائدہ ہو کر رہ جائے گی۔ اس کے علاوہ یہ قول (لفظ اللہ کا واضع خدا ہو) بذات خود باطل ہے۔

جواب: اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ وضع ، معنی کے تفصیلی اور پوری حقیقت کے تصور پر موقوف نہیں بلکہ وضع اور استعمال دونوں کیلئے معنی کا اجمالی اور مختصر سا تصور کافی ہے اگرچہ یہ تصور معنی کی طرف اشارہ کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو اور اتنا تصور واجب کا بھی ہو سکتا ہے اور ممکن کا بھی۔

ہاں! واجب کا تصور بکہہ (پوری حقیقت کا تصور) ممکن نہیں اور اس طرح کا تصور نہ وضع میں ضروری ہے اور نہ استعمال میں۔ اگر وضع کیلئے اس قسم کا تصور ضروری ہو تو واجب الوجود کے علاوہ بہت سے ان ممکنات کا وضع اور استعمال بھی ناممکن ہو جائے گا جن کی پوری حقیقت کا تصور محال ہے جس طرح روح ، ملک اور جن میں اس میں کوئی شک نہیں کرتا کہ اسم اشارہ اور ضمیر کو استعمال کر کے اس سے ذات اقدس باری تعالیٰ کاارادہ کیا جا سکتا ہے اسی طرح اس لفظ کو ادا کر کے بھی واجب الوجود کا ارادہ کیا جا سکتا ہے جس کو واجب الوجود کیلئے وضع کیا گیا ہو چونکہ ذات باری تعالیٰ تمام صفات کمال کی جامع ہے اور وضع کے موقع پر ان کمالات کی کسی خاص جہت کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اس لئے یہ کہنا بالکل صحیح ہو گا کہ لفظ اللہ کو اس ذات کیلئے وضع کیا گیا ہے جو تمام صفات کمالیہ کی جامع ہے۔

۵۴۱

اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اگر لفظ اللہ ذات واجب الوجود کا مخصوص نام ہو تو اس آیہ کریمہ کامعنی غلط ہو جاتا ہے۔

( وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ) ۶:۳

''اور وہی تو آسمانوں میں (بھی) اور زمین میں (بھی)خدا ہے،،۔

اس لئے کہ اگر لفظ اللہ علم شخصی ہو تو آیہ کریمہ کا معنی ہو گا: ''آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کی ذات موجود ہے،، اس طرح خدا کیلئے مکان ثابت ہو گا جو محال ہے لامحالہ اللہ کا معنی معبود ہونا چاہئے تاکہ آیہ شریفہ کا معنی یہ ہو ''اللہ آسمانوں اور زمینوں میں معبود ہے،، یعنی آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کی عبادت ہوتی ہے ۔

جواب:/ اس آیہ شریفہ کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی ذات سے کوئی مکان خالی نہیں ہے اور یہ کہ وہ آسمانوں اور زمینوں میں موجود ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور مخفی سے مخفی چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ہے چنانچہ اس مفہوم کی تائید بعد والے جملے سے بھی ہوتی ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ ) ۶:۳

''وہی تمہارے ظاہر و باطن سے (بھی)خبردار ہے اور وہی جو کچھ بھی کرتے ہو جانتا ہے،،۔

ابو جعفر ، جو صدوق کے خیال کے مطابق محمد بن نعمان ہیں ، کہتے ہیں۔

''امام جعفر صادق (علیہ السلام ) سے آیہ شریفہ :

( وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ) ۶:۳

کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ (ع) نے فرمایا ایسا ہی ہے خدا ہر جگہ ہے میں نے عرض کیا کیا ذات خدا ہر جگہ موجود ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا افسوس کی بات ہے ! مکان کا مطلب محدودیت ہوتا ہے اگر تم یہ کہو کہ خدا کسی خاص جگہ موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ خدا کو کسی خاص حد میں محدود کریں ذات خدا تو اپنی مخلوق سے مختلف ہے اس کا علم ، قدرت اور سلطنت تمام مخلوق کا احاطہ کئے ہوئے ہے،،

____________________

نمبر۱ تفسیر البرہان: ج ۱ ، ص ۳۱۵

۵۴۲

اگر لفظ اللہ کو علم (اسم خاص) مانا جائے تو الف اور لام کلمہ کے لازمی اجزاء شمار ہوں گے لیکن الف ، الف وصل ہے جو ملا کر پڑھنے کی صورت میں ساقط ہو جاتا ہے ہاں ! اگر یہی ہمزہ حرف ندا کے بد واقع ہو تو ہمزہ پڑھا جائے گا اور ''یااللہ،، پڑھا جائے گایہ بات لفظ اللہ کی خصوصیات میں سے ہے اور کلام عرب میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی بعید نہیں کہ لفظ اللہ کسی دوسرے لفظ سے منقول ہو اس احتمال کی بناء پر اللہ ''لاہ،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی احتجاب و ارتفاع (پوشیدگی وبلندی) ہے یہ مصدرہے جو فاعل کے معنی میں ہو گا کیونکہ درحقیقت مرتفع اور بلند ذات صرف خدا کی ہے جس میں کسی قسم کی پستی کی شائبہ تک نہیں اپنے آثار و قدرت کی وجہ سے ظاہر و آشکار ہونے کے باوجود اس کی ذات اور حقیقت مخفی و پوشیدہ ہے نہ کوئی آنکھ اسے درک کر سکتی ہے اور نہ افکار کی اس کی حقیقت تک رسائی ہو سکتی ہے۔

فیک یا اعجوبة الکو ن غدا الفسکر کلیلا انت خیرت ذوی اللب و بلبلت العقولا کلما اقدم فکری فیک شبراً فرمیلا ناکصاً نحبط فی عشواء لا هدی السبیلا

''اے عجوبہ روزگار ، فکریں تیرے بارے میں سوچتے سوچتے تھک گئی ہیں تو نے صاحبان عقل کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور عقلوں کو سرگرداں کر دیاہے جب بھی تیری ذات کے بارے میں سوچتے سوچتے میری فکر ایک بالشت آگے بڑھی ہے اسے سرگرداں ہو کر دوبارہ ایک میل پیچھے ہٹنا پڑتاہے جہاں وہ ظلمت میں ٹامک ٹوئیاں مارتی ہے اور اسے کوئی راستہ نہیں ملتا،،۔

اس قول کا کوئی مجوز نہیں کہ لفظ اللہ ''الہ،، بمعنی عبد (عبادت کی) یا ''آلہ ،، بمعنی تحیر ہوتا کہ ''الہ،، بمعنی مفعول ہو جس طرح کتاب بمعنی مکتوب ہے یہ ایک غیر ضروری قول ہے۔

۵۴۳

الرحمن : یہ لفظ ''رحمت،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی مشہور و معروف ہے اور یہ سختی و سنگ دلی کے مقابلے میں آتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

( أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ ) ۴۸:۲۹

''جان لو کہ یقیناً خدا بڑا سخت عذاب والا ہے اور یہ بھی کہ خدا بڑے بخشنے والا مہربان ہے،،۔

رحمت ، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے اور رقت قلب اس کے مفہوم میں شامل نہیں ہے لیکن جب یہ کسی بشر میں پائی جائے تو یہ رقت قلب کے معنی میں استعمال ہوتی ہے پس رحمت اپنے حققی معنی میں خلق اور رزق کی طرح خدا کی صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں جو اس کی ذات سے کبھی جدا نہیں ہو سکتیں جس طرح حیات اور قدرت ہے اللہ جب چاہے رحمت ایجاد فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

( رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ ۖ إِن يَشَأْ يَرْحَمْكُمْ أَوْ إِن يَشَأْ يُعَذِّبْكُمْ ۚ ) ۱۷:۵۴

''تمہارا پروردگار تمہارے حال سے خوب واقف ہے اگر چاہے گاتم پر رحم کریگا اور اگر چاہے گا تم پر عذاب کریگا،،۔

( يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَرْحَمُ مَن يَشَاءُ ۖ وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ ) ۲۹:۲۱

''جس پر چاہئے عذاب کرے اور جس پر چاہے رحم کرے اور تم لوگ (سب کے سب) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے،،۔

غرض جہاں جہاں اس کی حکمت کا تقاضا ہوتا ہے وہاں رحمت ایجاد فرماتا ہے قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ سے طلب رحمت کی تاکید کی گئی ہے۔

( وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ ) ۲۳:۱۱۸

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تم کہو پروردگار تو (میری امت کو ) بخش دے اورترس کھا اور تو تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر ہے،،۔

۵۴۴

کئی مفسرین اور اہل لغت کا یہ عقیدہ ہے کہ ''رحمن،، مبالغہ کا صیغہ ہے اور رحمت کی کثرت پر دلالت کرتا ہے اور یہ بات خاص کر اس لفظ میں درست ہے چاہے ''فعلان،، کا وزن مبالغہ کیلئے استعمال ہو یا نہ ہو کیونکہ لفظ ''رحمن،، جہاں بھی استعمال ہوا ہے متعلق (مفعول) کے بغیر استعمال ہوا ہے (یعنی یہ ذکر نہیں ہوتا کہ اللہ کس پر رحم کرتا ہے) اس سے عموم سمجھا جاتا ہے اور یہ کہ رحمت خدا ہر شئی کو شامل ہے قرآن مجید میں یہ جملہ تو موجود ہے ''ان اللہ بالناس لرحیم ،، یا ''ان اللہ بالمومنین لرحمن،، یعنی اللہ لوگوں پر یا مومنین پر رحیم ہے لیکنیہ جملہ کہیں موجود نہیں ''ان اللہ بالناس،، یا ''بالمومنین لرحمن،، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ''رحمن،، مبالغہ پر دلالت کرتا ہے۔

لفظ ''رحمن ،، اللہ کے مخصوص لقب کی حیثیت رکھتا ہے اور غیر خدا پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات میں لفظ ''رحمن،، رحمت کے اعتبار سے نہیںبلکہ ذات الٰہی کے لقب کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( قَالُوا مَا أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَمَا أَنزَلَ الرَّحْمَـٰنُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ ) ۳۶:۱۵

'' وہ لوگ کہنے لگے تم لوگ بھی تو بس ہمارے ہی آدمی ہو اور خدا نے کچھ نازل (وازل) نہیں کیا ہے،،۔

( إِن يُرِدْنِ الرَّحْمَـٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنقِذُونِ ) ۲۳

''اگر خدا مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہئے تو نہ ان کی سفارش ہی میرے کچھ کام آئے گی اور نہ یہ لوگ مجھے (اس مصیبت سے )چھڑا ہی سکیں گے،،

( هَـٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَـٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ ) : ۵۲

''کہ یہ وہی (قیامت کا) دن ہے جس کا خدا نے (بھی) وعدہ کیاتھا اور پیغمبروں نے بھی سچ کہا تھا،،

( مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ) ۶۷:۳

''بھلا تجھے خدا کی آفرنیش میں کوئی کسر نظر آتی ہے،،

۵۴۵

درج ذیل آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ لفظ ''رحمن،، ذات الٰہی سے مختص ہے۔

( رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ) ۱۹:۶۰

''سارے آسمان و زمین کا مالک ہے اور ان چیزوں کا بھی جو دونوں کے درمیان میں ہیں، تم اس کی عبادت کرو اور اس کی عبادت پر ثابت قدم رو ، بھلا تمہارے علم میں اس کا کوئی ہمنام بھی ہے۔

قابل ملا خطہ یہ نکتہ ہے کہ اس سورہ (مریم) میں اللہ نے لفظ ''رحمن،، کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے حتیٰ کہ لفظ ''رحمن،، کی سولہ مرتبہ تکرار کی گئی ہے اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اس نام (رحمن) میں اللہ کا کوئی شریک اور ہمنام نہیں ہے۔

الرحیم :/ یہ لفظ صفت مشبہ کا صیغہ ہے یا مبالغہ کا اس وزن کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اکثر اوقات صفات عزیزہ اور ان لوازمات میں استعمال ہوتا ہے جو ذات سے جدا نہیں ہوتے جیسے لفظ ''علیم،، ، ''قدیر،، ، ''شریف،، ، ''وضیع،، ، ''سخی،،، اور ''دنی،، ہیں ان دونوں صفات (رحمن و رحیم) میں فرق یہ ہے کہ رحیم اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ رحمت ذات کا لازمہ ہے اور اس سے جدا نہیں ہو سکتی اور رحمن صرف اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ذات میں صفت رحمت موجود ہے اس صفت کے دوام اور ہمیشگی پر دلالت نہیں کرتا۔

رحیم میں رحمت کاایک عزیزہ اور صفت نفسانی ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں جہاں کہیں متعلق (جس پر رحم کیا جائ) کے ساتھ استعمال ہوا ہے ''ب،، کے ذریعے متعدی استعمال ہوا ہے۔

جیسے۔

( إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ) ۲:۱۴۳

''بیشک خدا لوگوں پر بڑا ہی رفیق اور مہربان ہے،،۔

( وَكَانَ بِالْمومنينَ رَحِيمًا ) ۳۳:۴۳

''اور خدا تو ایمانداروں پر بڑا مہربان ہے،،

۵۴۶

گویا رحیم کو متعلق کے ساتھ ذکر کرتے وقت اسے متعدی سے لازم میںتبدیل کیا جاتا ہے اس لئے ''با،، کے ذریعے متعدی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

آلوسی کا عقیدہ یہ ہے کہ رحمن اور رحیم صفت شبہ کے صیغے نہیں ہیں اس لئے کہ یہ دونوں الفاظ جملہ''رحمن الدنیا والاخرة و رحیمهما،، میں اپنے مفعول کی طرف مضاف نہ ہوتے لیکن آلوسی کا یہ استدلال تعجب خیز ہے اس لئے کہ گزشتہ جملہ :رحمن الدنیا و الاخرة و رحیمهما میں یہ دونوں صیغے مفعول کی طرف مضاف نہیں ہوئے بلکہ زمان و مکان کی طرف مضاف ہوئے ہیں زمان و مکان کی طرف لازم بھی مضاف ہو سکتا ہے اور متعدی بھی۔

بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''رحمن،، اسم خاص ہے (صرف خدا سے مختص سے) اس کا معنی عام ہے جو رحمت دنیا و رحمت آخرت مومنو کافر سب کو شامل ہے لیکن ''رحیم،، اسم عام ہ(جو خدا کیلئے بھی بولا جاتا ہے اور غیر خدا کیلئے بھی) لیکن اس کا معنی خاص ہے اور رحمت آخرت یا مومنین پر رحمت سے مختص ہے۔

لیکن ان روایات کی یاتاویل کی جائے گی یا انہیں مسترد کر دیا جائے گا اس لئے کہ یہ روایات کتاب الٰہی کیخلاف ہیں کیونکہ قرآن میں لفظ '' رحیم،، نہ تو اس رحمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو مومنین سے مختص ہو اور نہ اس رحمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو آخرت سے مختص ہو ارشاد ہوتا ہے۔

( فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) ۱۴:۳۶

''تو جو شخص میری پیروی کرے تو وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی (تو تجھے اختیار ہے) تو تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے،،۔

____________________

نمبر ۱ تفسیر آلوسی ، ج ۱ ص ۵۹ نمبر۲ تفسیر طبری ، ج ۱ ص ۴۳ تفسیر البرہان ، ج ۱ ، ص ۲۸

۵۴۷

( نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ) ۱۵:۴۹

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ بشک اس میں بڑا بخشنے والا مہربان ہوں،،

( إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ) ۲۲:۶۵

''اس میں شک نہیں کہ خدا لوگوں پر بڑا مہربان رحم والا ہے،،۔

( رَّبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ) ۱۷:۶۶

''اور اگر چاہے تو منافقین کی سزا کرے یا (اگر وہ لوگ توبہ کریں تو) خدا ان کی توبہ قبول فرمائے اس میں شک نہیں کہ خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے،،

قرآن میں اس مضمون کی آیات اور بھی ہیں اس کے علاوہ بعض دعاؤںاور روایات میں یہ جملہ بھی موجود ہے''رحمن الدنیا والاخرة و رحیمهما،، یعنی اللہ دنیا و آخرت میں رحمن و رحیم ہے۔

ممکن ہے ان روایات میں ، جن میں رحیم کو اسم عام اور اس کا معنی خاص قرار دیا گیا ہے ، اختصاص سے مراد یہ ہو کہ اگر انسان پر اللہ کی رحمت دنیا کی طرح آخرت میں بھی شامل نہ ہو اور یہ آخرت میں منقطع ہو جائے تو یہ رحمت نہ رہی بھلا اس رحمت کا کیا فائدہ نمبر ۲ جس کا انجام کار عذاب اور خسارہ ہو۔ اس لئے کہ زائل اور منقطع ہونے والی رحمت دائمی عذاب کے مقابلے میں کالعدم قرار پاتی ہے اس مناسبت سے یہ کہنا صحیح ہو گا کہ رحمت صرف مومنین یا عالم آخرت سے مختص ہے۔

____________________

نمبر ۱ صحیفہ سجادیہ کی دعا جو ہم وغم کے موقع پر پڑھی جای ہے مستدرک حاکم ، ج ۱ ، ص ۱۵۵

نمبر ۲: اس مطلب کی طرف بعض منقول دعاؤں میں اشارہ کیا گیا ہے۔

۵۴۸

اعراب

بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ بسم اللہ میں جارو مجرور کا متعلق ''اقرائ،، یا ''اقوال ،، یا ''قل،، ہے بعض کا عقیدہ یہ ہے کہ جارو مجرور کا متعلق ''استعین،، یا ''استعن،، ہے تیسرا قول یہ ہے کہ جارو مجرور کا متعلق ''ابتدی،، ہے پہلے دو اقوال صحیح نہیں ہیں۔

دوسرا قول اس لئے باطل ہے کہ استعانۃ (مدد طلبی) اللہ کی طرف سے محال ہے کیونکہ ذات الٰہی بے نیاز ہے خدا نہ اپنی ذات سے مدد طلب کرتا ہے اور نہ اپنی صفات حسنہ سے اور مخلوق ، اللہ کی ذات سے مدد مطلب کرتی ہے اس کے اسماء حسنہ سے نہیں اس کی تصریح آیت( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) میں موجود ہے۔

پس معلوم ہوا کہ جارو مجرور کا متعلق ''ابتدی،، ہے اقوال یا اقراء نہیں ۔ اللہ کی طرف اسم کی اضافت بیانیہ نہیں ہے تاکہ اللہ الرحمن الرحیم سے مراد صرف الفاظ ہوں اس لئے کہ یہ احتمال بعید ہے اس کے علاوہ ان تینوں الفاظ کا مجموعہ مراد نہیں لیا جا سکتا اس لئے کہ یہ مجموعہ اسماء الٰہی میں سے نہیں ہے اور اگر ان سے مراد ایک ایک لفظ مستقل ہو تو حرف عطف ہونا چاہئے تھا اور جملہ یوں ہونا چاہئے تھا ''بسم اللہ والرحمن و الرحیم،، پس معلوم ہوا اضافہ معنویہ ہے بیانیہ نہیں اور لفظ ''اللہ،، اپنے معنی اور مسمیٰ میں استعمال ہواہے۔

تفسیر

کیونکہ قرآن کے سورے ، بشر کی اس کے ممکنہ کمال تک رہنمائی اور اسے شرک و جہالت کی ظلمت سے نکال کر نور توحید و معرفت سے منور کرنے کی غرض سے نازل ہوئے ہیں لہٰذا عین مناسب ہے کہ ہر سورہ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے اسم سے کی جائے کیونکہ اسم خداوندی ہی ذات الٰہی کا مظہر بن سکتا ہے اور قرآن اسی مقصد کے لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس سے اللہ کی معرفت حاصل کی جائے۔

۵۴۹

البتہ سورہ برات اس امر سے مستثنیٰ ہے کیونکہ اس کی ابتداء مشرکین سے برات اور بیزاری کے اظہار سے کی گئی ہے اور اس مقصد کیلئے سورہ نازل کیا گیا ہے لہٰذا اسم خدا کا ذکر کرنا مناسب نہیں تھا خصوصاً جب اس اسم کے ساتھ الرحمن الرحیم کی صفت بھی لائی جائے ۔ نمبر۱

خلاصہ: جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب تکوینی (عالم ہستی) کا آغاز اپنے کامل اسم مقدس سے فرمایا اور تمام مخلوقات سے پہلے حقیقت محمدیہ اور نور محمد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو خلق فرمایا اسی طرح اپنی کتاب تدوینی (قرآن) کا آغاز بھی اپنے اسم مبارک سے فرمایا۔

وضاحت: اسم ہر اس لفظ کو کہتے ہیں جو کسی ذات پر دلالت کرے اس لاظ سے اسماء الٰہی کی دو قسمیں ہیں۔

(۱) تکوینی

(۲) قراردادی

قراردادی اسماء وہ ہیں جو کسی ذات یا صفات ثبوتیہ و سلبیسہ پر دلالت کی غرض سے وضع کئے گئے ہوں۔

اسماء تکوینی وہ ممکن موجودات ہیں جو اپنے وجود کے ذریعے خالق کے وجود اور اس کی توحید پر دلالت کریں۔

ہر گیا ہی کہ از زمین روید

وحدہ لاشریک لہ گوید

____________________

نمبر ۱ ابن عباس روایت کرتے ہیں میں نے امیر المومنین (ع) سے پوچھا سورہ برات کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہیں ؟ آپ (ع) نے فرمایا : اس لئے کہ بسم اللہ امن کا پیغام ہے اور برات تلواروں کیساتھ نازل ہوا ہے ، اس میں امن کا پیغام نہیں مستدرک ج ۲ ، ص ۳۳

۵۵۰

ارشادباری ہے:

( أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ) ۵۲:۳۵

''کیا یہ لوگ کسی کے (پیدا کئ) بغیر یہ پیدا ہو گئے ہیں یا یہی لوگ (مخلوقات کے ) پیدا کرنے والے ہیں،،

( لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ ) ۲۱:۲۲

''اگر بفرض محال زمین اور آسمان میں خدا کے سوا چند معبود ہوتے تو دونوں کب کے برباد ہو گئے ہوتے،،

پس کائنات کی ہر شئی اپنے خالق کے وجود اور اس کی توحید کا بین ثبوت اور واضح دلیل ہے جس طرح لفظی اسماء الٰہی دلالت کے اعتبار سے مختلف ہیں یعنی بعض اسماء الٰہی صفات کمال کی جامع ذات پر دلالت کرتے ہیں اور بعض صفات کمال کی ایک جہت و پہلو کو اجاگر کرتے ہیں اسی طرح اللہ کے اسماء تکوینی بھی اس اعتبارسے مختلف ہیں اگرچہ تمام اسماء تکوینی وجود ، توحید ، علم ، قدرت اور دیگر صفات کمال پر دلالت کرنے میں شریک ہیں لیکن ہر اسم تکوینی (موجود امکانی) ایک خاص پہلو پر دلالت کرتا ہے اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی موجود جتنا قوی ہو گا اسی نسبت سے اس کی دلالت بھی قوی اور آشکار ہو گی۔

یہیں سے ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ ہدیٰ (علیہم السلام) پر اسماء حسنیٰ کا اطلاق صحیح ہے چنانچہ بعض روایات میں ائمہ ہدیٰ کو اسماء حسنیٰ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نمبر۱

پس اللہ نے اپنی کتاب تدوینی (قرآن) کی ابتداء ان پاکیزہ اور باعظمت الفاظ سے کی جو اسم اعظم کے نزدیک ہیں ، اتنے نزدیک کہ آنکھ کی سفیدی بھی آنکھ کی سیاہی کے نزدیک نہیں ہے۔ نمبر۲

____________________

نمبر۱ کافی باب النوا درمن ابواب التوحید ، ص ۷۰ الوافی ، ج ۱ ، ص ۱۰۹ تفیسر البرہان ، ج ۱ ، ص ۳۷۷

نمبر ۲ الوافی ، ج ۵ ، ص ۹۹ ۔ التہذیب ، ج ۱ ، ص ۲۱۸۔ المستدرک للحاکم ، ج ۱ ، ص ۵۵۲ ۔ کنز العمال ، ج ۲ ، ص ۱۹۰ ، مزید ملا خطہ ہو ضمیمہ نمبر ۱۲

۵۵۱

اسی خدا نے اپنی کتاب تکوینی کی ابتداء عالم وجود خارجی میں اسم اعظم (رسول اکرم (ص) سے فرمائی نمبر۱۔ اس طرح انسان کو یہ تلیقن کی جا رہی ہے کہ اپنے تمام اقوال و افعال کی ابتداء نام اللہ سے کریں جناب نبی کریم (ص) سے مروی ہے۔

کل کلام او امرذی بال لم یفتح بذکرالله عزوجل فهوابتر اوقال اقطع نمبر ۲

''ہر باعظمت کلام یا فعل جس کی ابتداء نام اللہ عزوجل سے نہ کی جائے وہ نامکمل اور بے ثمر رہتا ہے،،

امیر المومنین (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا کہ ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے:

کل امر ذی بال لم یذکرفیه بسم الله فهوابتر : نمبر۳

''ہر وہ کام جس کی ابتداء بسم اللہ سے نہ کی جائے وہ ناقص رہتا ہے،،۔

۵۵۲

آیہ ''بسم اللہ ،، کے بارے میں بحث اول

٭ آغاز قرآن بہ رحمت

٭بعد از رحمن ذکر رحیم

٭کیا بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے ؟

٭ بسم اللہ کے جز قرآن ہونے کے دلائل

٭ اہل بیت اطہار (ع) کی احادیث

٭اہل سنت کی احادیث

٭ معارض روایات

٭ سیرت مسلمین

٭ تابعین اور صحابہ کا قرآن

٭ منکرین کے دلائل

٭ تحلیل آیتہ ، الحمداللہ رب العالمین الرحمن الرحیم ۔ مالک یوم الدین

٭قرات ---------- ٭تفسیر---------- ٭ قراتوں کی ترجیحات -------- ٭ تحلیل آیتہ ، ایاک نعبدوایاک نستعین

٭ ترجیحات کا بے فائدہ ہونا ---------- ٭ لغت ، العبادۃ--------- ٭ دوسروں کا جواب

٭ الاستعانتہ

٭ ہمارا جواب

٭ اعراب

٭ لغات ، الحمد ، الرب ، العالم ، الملک ، الدین

٭ تفسیر

۵۵۳

آغاز قرآن بہ رحمت

اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کی ابتداء میں رحمت کو اپنی ذات کی صفت کے طور پر ذکر فرمایا ہے کسی دوسری صفت کمال کا ذکر نہیں فرمایا اس لئے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر رحمت بن کر نازل ہوا ہے لہٰذا عین مناسب ہے کہ کلام الٰہی کی ابتداء اسی صفت سے کی جائے جو ارسال رسل اور انزال کتب کی موجب ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی متعدد آیات میں قرآن مجید اور اپنے رسول (ص) کو رحمت قرار دیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( هَـٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ) ۷:۲۰۳

''اور جو (امراض شرک وغیرہ) دل میں ہیں ان کی دوا اور ایمانداروں کیلئے رحمت ہے،،

( وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ ) ۱۶:۸۹

''اور ہم نے تم پر کتاب (قرآن) نازل کی جس میں ہر چیز کا (شافی) بیان ہے اور مسلمانوں کیلئے (سرتاپا) ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے،،۔

( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمومنينَ ۙ ) ۱۷:۸۲

''اور ہم تو قرآن میں وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کیلئے (سراسر) شفاء اور رحمت ہے،،۔

( وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ) ۲۱:۱۰۷

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ہم نے تو تم کو سارے دنیا جہان کے لوگوں کے حق میں ازسرتاپا رحمت بنا کر بھیجا،،

( وَإِنَّهُ لَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمومنينَ ) ۲۷:۷۷

''اور اس میں بھی شک نہیں کہ یہ قرآن ایمانداروں کے واسطے ازسر تاپا ہدایت اور رحمت ہے،،۔

۵۵۴

بعد از رحمن ذکر رحیم

جیسا کہ اس سے قبل بیان کیا جا چکا ہے کہ ''فعیل،، ایک ایسی ہیت اور وزن ہے جو اپنے مادہ کی ایک صفت عزیزی اورطبیعی عادت ہونے پر دلالت کرتا ہے جو اپنی ذات سے جدا نہیں ہو سکتی اوراسی سے صفت ''رحیم،، کے صفت ''رحمن،، کے بعد لائے جانے کا نکتہ اور وجہ واضح ہو جاتی ہے بایں معنی کہ صفت ''رحمن،، اپنے عموم اور وسعت پر تو دلالت کرتی ہے لیکن اس پر دلالت نہیں کرتی کہ یہ صفت اپنی ذات کا لازمہ ہے اس لئے صفت ''رحمن،، کے بعد صفت ''رحیم،، کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ اس کے لازمہ ذات ہونے پر دلالت کرے۔

پس بلاغت قرآن کا یہ تقاضا ہے کہ اس آیہ میں ان دونوں اہداف (صفت کا عام اور وسیع ہونا اور لازمہ ذات ہونا) کی طرف اشارہ کیا جائے یعنی اللہ کی ذات ''رحمن،، ہے اور اس کی رحمت ہر شئی کے شامل حال ہے اور وہ ''رحیم،، بھی ہے یعنی یہ صفت اس کی ذات سے جدا نہیں ہوتی۔

بہت سے مفسرین اس نکتے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اور انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ ''رحیم،، کی بہ نسبت ''رحمن،، کے معنی میں زیادہ وسعت پائی جاتی ہے اس لئے کہ کثرت حروف کثرت معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن حق و حقیقت یہ ہے کہ اس تعلیل کا شمار مضحکہ خیز باتوں میں ہونا چاہئے کیونکہ الفاظ کی دلالت ، وضع کی کیفیت اور اس کی نوعیت کے تابع ہوتی ہے قلت حروف اور کثرت حروف کا اس سے کوئی ربطہ نہیں کتنے ہی الفاظ ایسے ہیں جن کے حروف کم ہیں لیکن معانی زیادہ ہیں اور کئی الفاظ ایسے ہیں جن کے حروف زیادہ ہیں لیکن معانی کم ہیں مثلاً لفظ ''حذر،، (جو مبالغہ کا صیغہ ہے) کثرت معنی (زیادہ ڈرپوک) پر دلالت کرتا ہے لیکن ''حاذر،، قلت معنی (صرف ڈرپوک) پر دلالت کرتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ مجرد اور مزیدفیہ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ ''ضر،، اور ''اضر،، کامعنی ہے ''ضضر اور نقصان پہنچایا،، جبکہ ''ضر،، کی بہ نسبت ''اضر،، میں حروف زیادہ ہیں۔

لفظ ''رحمن،، کے بعد ''رحیم،، لانے کی اب تک جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ اس بات پر مبنی ہے کہ ''رحمن،، اشتقاقی معنی میں استعمال ہو لیکن اگر لفظ ''رحمن،، اسماء خداوندی میں سے ہو اور اپنے لغوی معنی سے نقل ہو کر لقب الٰہی کے طور پر استعمال ہو (چنانچہ) اس سے قبل یہ بات ثابت کی جا چکی ہے) تو گزشتہ وجہ کے علاوہ اس لفظ کے لغوی معنی سے نقل ہونے کے سبب کی طرف اشارہ ہو گا اور وہ یہ کہ اللہ کی ذات وسیع رحمت سے متصف ہے۔

۵۵۵

کیا بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے؟

تمام علمائے شیعہ امامیہ کااتفاق ہے کہ ہر سورہ کی ابتداء میں موجود بسم اللہ اس سورہ کا حصہ ہے اس قول کو ابن عباس ، ابن مبارک اور اہل مکہ جیسے ابن کثیر ہے ،نیز اہل کوفہ جس طرح عاصم اور کسائی ہیں ، نے اختیار کیا ہے۔ البتہ حمزہ نے اس کی مخالفت کی ہے۔

اکثر علمائے شافعی نے اسی قول کو اختیار کیا ہے نمبر ۱ مکہ اور کوفہ کے علماء بھی اسی پر یقین رکھتے ہیں نمبر ۲ یہی قول ابن عمر ، ابن زبیر ، ابی ھریرہ ، عطاء ، طاؤس ، سعید بن جبیر ، مکحول ، زہری اور ایک روایت کے مطابق احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ اور ابو عبید القاسم بن سلام سے منقول ہے۔ نمبر ۳ بیہقی نے اس قول کو توری اور محمد بن کعب سے نقل کیا ہے۔ نمبر۴ رازی نے اپنی تفسیر میں اسی قول کو اختیار کیا ہے اور اس نے اسے قراء مکہ و کوفہ اور اکثر فقہائے حجاز ، ابن مبارک اور ثوری کی طرف نسبت دی ہے جلال الدین سیوطی نے بھی اسی قول کو اختیار کیا اور یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس پر روایت متواترہ (تواتر معنوی) دلالت کرتی ہیں نمبر۵:

بعض شافعی اور حمزہ کاکہناہے ''بسم اللہ صرف سورہ فاتحہ کا حصہ ہے دوسرے سوروں کا نہیں،، جس طرح پہلا قول (بسم اللہ ہر سورہ کا جز ہے) احمد ابن حنبل کی طرف منسوب ہے اسی طرح یہ قول (بسم اللہ صرف سورہ فاتحہ کا جزء

____________________

نمبر۱ تفسیر آلوسی ، ج ۱ ، ص ۳۹

نمبر ۲ تفسیر الشوکانی ، ج ۱ ، ص ۷

نمبر ۳ تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۱۶

نمبر ۴ تفسیر الخازن ، ج ۱ ، ص ۱۳

نمبر ۵ الاتقان النوع ۲۲ ۔ ۲۷۔ ج ۱ ، ص ۱۳۵۔۱۳۶

۵۵۶

ہے) بھی احمد ابن حنبل کی طرف منسوب ہے نمبر۱

علمائے اہلسنت کی ایک جماعت جس میں مالک ، ابو عمرو اور یعقوب شامل ہیں کا عقیدہ ہے کہ بسم اللہ ایک جدا آیت ہے اور یہ کسی بھی سورہ کا جزء نہیں بلکہ یہ ہر سورہ کے آغاز میں بطور تبرک نازل کی گئی ہے نیز یہ دوسوروں کے درمیان فاصلہ کی غرض سے بھی نازل کی گئی ہے حنفی حضرات میں یہی قول مشہور ہے نمبر۲

البتہ اکثر حنفیوں کی رائے یہ ہے کہ نماز میں فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا واجب ہے زاہدی نے مجبتبیٰ سے نقل کیا ہے کہ ابو حنیفہ کی صحیح روایت کے مطاب قنماز کی ہر رکعت میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے نمبر۳

مالک کے نزدیک نمز میں بسم اللہ پڑھنا بذات خود مکروہ ہے لیکن علماء کی اکثریت سے ہم آہنگی اور اختلاف سے بچنے کیلئے ایسا کرنا مستحب ہے نمبر۴

بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کے دلائل

اس مسئلہ میں گزشتہ اقوال کے علاوہ بھی چند اقوال موجود ہیں لیکن ان سب کا ذکر کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے عمدہ یہ ہے کہ اس مقام پر مذہب حق (بسم اللہ جزء سورہ ہے) کی دلیل بیان کی جائے اس ضمن میں چند امور بیان کئے جاتے ہیں۔

____________________

نمبر۱: تفسیر الآلوسی ، ج ۱ ، ص ۳۹

نمبر ۲: ایضاً

نمبر۳: ایضاً

نمبر۴: الفقہ علی المذاہب الاربعہ ، ج ۱ ، ص ۲۵۷

۵۵۷

(۱) اہل بیت اطہار (ع) کی احادیث:

پہلی دلیل اہل بیت ا طہار (ع) کی وہ صحیح روایات ہیں جن میں بسم اللہ کے جزء سورہ ہونے کی تصریح موجود ہے نمبر۵۔ جب رسول اکرم (ص) نے انہیں (ع) قرآن کا ہم پلہ اور قرآن کی طرح ان (ع) سے تمسک کو واجب قرار دیا ہے تو اس مدعیٰ کو ثابت کرنے کیلئے یہی روایات کافی ہیں ذیل میں ہم یہ صحیح روایات پیش کرتے ہیں:

۱۔ معاویہ بن عمار سے روایت ہے:

''میں (معاویہ بن عمار) نے امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی: جب میں نماز کیلئے کھڑا ؟ تو کیا فاتحتہ القرآن میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بھی پڑھوں ؟ آپ (ع) نے فرمایا: ہاں میں نے عرض کی : فاتحتہ القرآن کے ساتھ بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی پڑھوں؟ آپ (ع) نے فرمایا: ہاں نمبر ۶

۲۔ یحییٰ ابن عمران ہمدانی روایت کرتے ہیں۔

''میں نے امام باقر (ع) کی خدمت میں لکھا: میری جان آپ (ع) پر قربان ہو ، اس شخص کے بارے میں آپ (ع) کیا فرماتے ہیں جو نماز میں سورہ حمد کے شروع میں تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتا ہے لیکن جب کوئی دوسرا سورہ پڑھتا ہے تو اس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتا اور عباسی کا کہنا ہے کہ اس شخص کی نماز صحیح ہے۔ آپ (ع) نے اس کے جواب میں عباسی کی تذلیل کیلئے دو مرتبہ فرمایا: ایسا شخص اپنی نماز دوبارہ پڑھے، نمبر۱

____________________

نمبر ۵: فروع کافی ، باب قرات القرآن ، ص ۸۶ ۔ الاتبصار ، باب الجھربا بسملتہ ، ج ۱ ، ص ۳۱۱ ، التہذیب ، ج ۱ ، ص ۱۵۳ ، ۲۱۸ ، وسائل الشیعہ ، ج ۱ ، ص ۳۵۲ ،

نمبر ۶ کافی ، ج ۳ ، ص ۳۱۲

نمبر ۱: کافی ، ج ۳ ، ص ۳۱۳

۵۵۸

۳۔ صحیحہ ابن ابی اذینتہ میں ہے:

''جب رسول کریم (ص) تکبیرۃ الاحرام اور نہاز کے افتتاحیہ سے فارغ ہوئے اللہ کی طرف س وحی نازل ہوئی ، اب میرا نام لیجئے یہی وجہ ہے کہ سورہ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو واجب قرار دیا گیا ہے اس کے بعد وحی نازل ہوئی اے میرے حبیب (ص) میری حمد و ثناء کیجئے آپ (ص) نے فرمایا: الحمدللہ رب العالمین۔ اس کے بعد رسول اللہ (ص) نے دل میں فرمایا: شکراً (حمد الٰہی پر شکر کیا) پھر اللہ کی طرف سے وحی ہوئی : اے حبیب ! آپ (ص) نے میری حمد کے سلسلے کو منقطع کر دیا ہے پھر سے میرا نام لیجئے یہی وجہ ہے کہ ''الحمد،، میں ''الرحمن الرحیم،، کو دو مرتبہ واجب قرار دیا گیا ہے اور جب آپ (ص) ''ولاالضالین،، تک پہنچے تو آپ (ص) نے فرمایا : ''الحمد للہ رب العالمین شکرا،، تو اللہ کی طرف سے وحی ہوئی ایک مرتبہ پھر میرے ذکر کاسلسلہ منقطع ہو گیا اس لئے دوبارہ میرا نام لیجئے یہی وجہ ہے کہ سورۃ حمدکے بعد ہر سورہ سے پہلے ''بسم اللہ الرحمن الرحیم،، کو واجب قرار دیا گیا ہے پھر وحی نازل ہوئی یا محمد (ص) اپنے رب کے اوصاف بیان کیجئے اور کہئے:

قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾ ۔ نمبر ۲

(۲) اہل سنت کی احادیث

اہل سنت کی بھی بہت سی روایات بسم اللہ کے ہر سورہ کے جز ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے چند احادیث یہاں پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

''ایک مرتبہ رسول اللہ (ص) ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے اسی دوران اچانک آپ (ص) پر غنودگی طاری ہو گئی اور پھر آپ (ص) نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا ہم نے عرض کی :یا رسول اللہ (ص) آپ کے

____________________

نمبر ۲: کافی ، ج ۳

۵۵۹

مسکرانے کا کیا سبب ہے ؟ آپ (ص) نے فرمایا: ابھی ابھی مجھ پر ایک سورہ نازل ہوا ہے جو یہ ہے:

( بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ) ۔۔۔۔۔۔ الخ ،، نمبر۱

۲۔ وار قطنی نے صحیح سند سے امیرا لمومنین (ع) سے روایت کی ہے۔

''آپ (ع) سے پوچھا گیا سبع مثانی کونسا سورہ ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا: الحمد للہ رب العالمین آپ (ع) سے سوال کیاگیا: صرف چھ آیات ہیں ؟ آپ (ع) نے فرمایا:بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ بھی ایک آیہ ہے،، نمبر۲

۳۔ دار قطنی نے ہی صحیح سند کے ذریعے ابوہریرہ سے روایت کی ہے:

''رسول اللہ (ص) نے فرمایا جب بھی تم سورہ حمد پڑھوبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ بھی پڑھا کرو کیونکہ الحمد اساس قرآن، اساس کتاب اور سبع مثانی ہے اوربِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ، الحمد کی آیات میںسے ایک آیت ہے،، نمبر ۳۔

۴۔ ابن خزیمہ اور بیہقی نے صحیح سند کے ذریعے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''سبع مثانی فاتحتہ الکتاب کانام ہے آپ سے پوچھا گیا : ساتویں آیت کونسی ہے آپ نے فرمایا :بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ : نمبر۴

۵۔ ابن خزیمہ اور بیہقی نے ''المعرفہ،، میں صحیح سند کے ذریعے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''شیطان نے لوگوں سے قرآن کی ایک بہت بڑی آیت چرالی ہے اور وہ ہےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ،، نمبر۵

____________________

نمبر۱ صحیح مسلم باب حجتہ من قال البسملتہ آیتہ ج ۲ ، ص ۱۲ ۔ سنن النسائی باب قراء ۃ البسملتہ ج ،ص ۱۴۳ ، سنن ابی داؤد باب الجھربابسملہ ج ۱ ، ص ۱۲۵

نمبر۲ الاتقان النوع ۲۲۔ ۲۷ ج ۱ ، ص ۱۳۶ ۔ سنن بیہقی ج ۲ ، ص ۴۵

نمبر۳ ایضاً

نمبر۴ ایضاً ، مستدرکا لحاکم ج ۱ ، ص ۵۵۱

نمبر ۵ ایضاً ص ۱۳۵ ۔ سنن بیہقی ، ج ۲ ، ص ۵۰

۵۶۰