البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314015 / ڈاؤنلوڈ: 9314
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

یہ کہنا بھی درست نہیں کہل فظ اللہ کا واضع خود خدا ہے اور خدا کیلئے یہ محال نہیں کہ وہ اپنی ذات کیلئے کسی لفظ کو وضع کرے کیونکہ خدا اپنی ذات کا احاطہ کر سکتا ہے یہ بات اس لئے درست نہیں کہ اس وضع کا کوئی فائدہ مترتب نہیں ہوگا کیونکہ جس طرح وضع معنی کے تصور پر موقوف ہے اسی طرح لفظ کا کسی معنی میں استعمال کرنا بھی معنی کے تصور پر موقوف ہے جو ایک مخلوق کیلئے محال ہے جب معنی کا تصور محال ہوگا تو لفظ اس معنی میں استعمال بھی محال ہو گا اور جب استعمال محال ہو گا تو وضع بے فائدہ ہو کر رہ جائے گی۔ اس کے علاوہ یہ قول (لفظ اللہ کا واضع خدا ہو) بذات خود باطل ہے۔

جواب: اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ وضع ، معنی کے تفصیلی اور پوری حقیقت کے تصور پر موقوف نہیں بلکہ وضع اور استعمال دونوں کیلئے معنی کا اجمالی اور مختصر سا تصور کافی ہے اگرچہ یہ تصور معنی کی طرف اشارہ کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو اور اتنا تصور واجب کا بھی ہو سکتا ہے اور ممکن کا بھی۔

ہاں! واجب کا تصور بکہہ (پوری حقیقت کا تصور) ممکن نہیں اور اس طرح کا تصور نہ وضع میں ضروری ہے اور نہ استعمال میں۔ اگر وضع کیلئے اس قسم کا تصور ضروری ہو تو واجب الوجود کے علاوہ بہت سے ان ممکنات کا وضع اور استعمال بھی ناممکن ہو جائے گا جن کی پوری حقیقت کا تصور محال ہے جس طرح روح ، ملک اور جن میں اس میں کوئی شک نہیں کرتا کہ اسم اشارہ اور ضمیر کو استعمال کر کے اس سے ذات اقدس باری تعالیٰ کاارادہ کیا جا سکتا ہے اسی طرح اس لفظ کو ادا کر کے بھی واجب الوجود کا ارادہ کیا جا سکتا ہے جس کو واجب الوجود کیلئے وضع کیا گیا ہو چونکہ ذات باری تعالیٰ تمام صفات کمال کی جامع ہے اور وضع کے موقع پر ان کمالات کی کسی خاص جہت کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اس لئے یہ کہنا بالکل صحیح ہو گا کہ لفظ اللہ کو اس ذات کیلئے وضع کیا گیا ہے جو تمام صفات کمالیہ کی جامع ہے۔

۵۴۱

اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اگر لفظ اللہ ذات واجب الوجود کا مخصوص نام ہو تو اس آیہ کریمہ کامعنی غلط ہو جاتا ہے۔

( وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ) ۶:۳

''اور وہی تو آسمانوں میں (بھی) اور زمین میں (بھی)خدا ہے،،۔

اس لئے کہ اگر لفظ اللہ علم شخصی ہو تو آیہ کریمہ کا معنی ہو گا: ''آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کی ذات موجود ہے،، اس طرح خدا کیلئے مکان ثابت ہو گا جو محال ہے لامحالہ اللہ کا معنی معبود ہونا چاہئے تاکہ آیہ شریفہ کا معنی یہ ہو ''اللہ آسمانوں اور زمینوں میں معبود ہے،، یعنی آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کی عبادت ہوتی ہے ۔

جواب:/ اس آیہ شریفہ کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی ذات سے کوئی مکان خالی نہیں ہے اور یہ کہ وہ آسمانوں اور زمینوں میں موجود ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور مخفی سے مخفی چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ہے چنانچہ اس مفہوم کی تائید بعد والے جملے سے بھی ہوتی ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ ) ۶:۳

''وہی تمہارے ظاہر و باطن سے (بھی)خبردار ہے اور وہی جو کچھ بھی کرتے ہو جانتا ہے،،۔

ابو جعفر ، جو صدوق کے خیال کے مطابق محمد بن نعمان ہیں ، کہتے ہیں۔

''امام جعفر صادق (علیہ السلام ) سے آیہ شریفہ :

( وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ) ۶:۳

کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ (ع) نے فرمایا ایسا ہی ہے خدا ہر جگہ ہے میں نے عرض کیا کیا ذات خدا ہر جگہ موجود ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا افسوس کی بات ہے ! مکان کا مطلب محدودیت ہوتا ہے اگر تم یہ کہو کہ خدا کسی خاص جگہ موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ خدا کو کسی خاص حد میں محدود کریں ذات خدا تو اپنی مخلوق سے مختلف ہے اس کا علم ، قدرت اور سلطنت تمام مخلوق کا احاطہ کئے ہوئے ہے،،

____________________

نمبر۱ تفسیر البرہان: ج ۱ ، ص ۳۱۵

۵۴۲

اگر لفظ اللہ کو علم (اسم خاص) مانا جائے تو الف اور لام کلمہ کے لازمی اجزاء شمار ہوں گے لیکن الف ، الف وصل ہے جو ملا کر پڑھنے کی صورت میں ساقط ہو جاتا ہے ہاں ! اگر یہی ہمزہ حرف ندا کے بد واقع ہو تو ہمزہ پڑھا جائے گا اور ''یااللہ،، پڑھا جائے گایہ بات لفظ اللہ کی خصوصیات میں سے ہے اور کلام عرب میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی بعید نہیں کہ لفظ اللہ کسی دوسرے لفظ سے منقول ہو اس احتمال کی بناء پر اللہ ''لاہ،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی احتجاب و ارتفاع (پوشیدگی وبلندی) ہے یہ مصدرہے جو فاعل کے معنی میں ہو گا کیونکہ درحقیقت مرتفع اور بلند ذات صرف خدا کی ہے جس میں کسی قسم کی پستی کی شائبہ تک نہیں اپنے آثار و قدرت کی وجہ سے ظاہر و آشکار ہونے کے باوجود اس کی ذات اور حقیقت مخفی و پوشیدہ ہے نہ کوئی آنکھ اسے درک کر سکتی ہے اور نہ افکار کی اس کی حقیقت تک رسائی ہو سکتی ہے۔

فیک یا اعجوبة الکو ن غدا الفسکر کلیلا انت خیرت ذوی اللب و بلبلت العقولا کلما اقدم فکری فیک شبراً فرمیلا ناکصاً نحبط فی عشواء لا هدی السبیلا

''اے عجوبہ روزگار ، فکریں تیرے بارے میں سوچتے سوچتے تھک گئی ہیں تو نے صاحبان عقل کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور عقلوں کو سرگرداں کر دیاہے جب بھی تیری ذات کے بارے میں سوچتے سوچتے میری فکر ایک بالشت آگے بڑھی ہے اسے سرگرداں ہو کر دوبارہ ایک میل پیچھے ہٹنا پڑتاہے جہاں وہ ظلمت میں ٹامک ٹوئیاں مارتی ہے اور اسے کوئی راستہ نہیں ملتا،،۔

اس قول کا کوئی مجوز نہیں کہ لفظ اللہ ''الہ،، بمعنی عبد (عبادت کی) یا ''آلہ ،، بمعنی تحیر ہوتا کہ ''الہ،، بمعنی مفعول ہو جس طرح کتاب بمعنی مکتوب ہے یہ ایک غیر ضروری قول ہے۔

۵۴۳

الرحمن : یہ لفظ ''رحمت،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی مشہور و معروف ہے اور یہ سختی و سنگ دلی کے مقابلے میں آتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

( أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ ) ۴۸:۲۹

''جان لو کہ یقیناً خدا بڑا سخت عذاب والا ہے اور یہ بھی کہ خدا بڑے بخشنے والا مہربان ہے،،۔

رحمت ، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے اور رقت قلب اس کے مفہوم میں شامل نہیں ہے لیکن جب یہ کسی بشر میں پائی جائے تو یہ رقت قلب کے معنی میں استعمال ہوتی ہے پس رحمت اپنے حققی معنی میں خلق اور رزق کی طرح خدا کی صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں جو اس کی ذات سے کبھی جدا نہیں ہو سکتیں جس طرح حیات اور قدرت ہے اللہ جب چاہے رحمت ایجاد فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

( رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ ۖ إِن يَشَأْ يَرْحَمْكُمْ أَوْ إِن يَشَأْ يُعَذِّبْكُمْ ۚ ) ۱۷:۵۴

''تمہارا پروردگار تمہارے حال سے خوب واقف ہے اگر چاہے گاتم پر رحم کریگا اور اگر چاہے گا تم پر عذاب کریگا،،۔

( يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَرْحَمُ مَن يَشَاءُ ۖ وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ ) ۲۹:۲۱

''جس پر چاہئے عذاب کرے اور جس پر چاہے رحم کرے اور تم لوگ (سب کے سب) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے،،۔

غرض جہاں جہاں اس کی حکمت کا تقاضا ہوتا ہے وہاں رحمت ایجاد فرماتا ہے قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ سے طلب رحمت کی تاکید کی گئی ہے۔

( وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ ) ۲۳:۱۱۸

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تم کہو پروردگار تو (میری امت کو ) بخش دے اورترس کھا اور تو تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر ہے،،۔

۵۴۴

کئی مفسرین اور اہل لغت کا یہ عقیدہ ہے کہ ''رحمن،، مبالغہ کا صیغہ ہے اور رحمت کی کثرت پر دلالت کرتا ہے اور یہ بات خاص کر اس لفظ میں درست ہے چاہے ''فعلان،، کا وزن مبالغہ کیلئے استعمال ہو یا نہ ہو کیونکہ لفظ ''رحمن،، جہاں بھی استعمال ہوا ہے متعلق (مفعول) کے بغیر استعمال ہوا ہے (یعنی یہ ذکر نہیں ہوتا کہ اللہ کس پر رحم کرتا ہے) اس سے عموم سمجھا جاتا ہے اور یہ کہ رحمت خدا ہر شئی کو شامل ہے قرآن مجید میں یہ جملہ تو موجود ہے ''ان اللہ بالناس لرحیم ،، یا ''ان اللہ بالمومنین لرحمن،، یعنی اللہ لوگوں پر یا مومنین پر رحیم ہے لیکنیہ جملہ کہیں موجود نہیں ''ان اللہ بالناس،، یا ''بالمومنین لرحمن،، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ''رحمن،، مبالغہ پر دلالت کرتا ہے۔

لفظ ''رحمن ،، اللہ کے مخصوص لقب کی حیثیت رکھتا ہے اور غیر خدا پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات میں لفظ ''رحمن،، رحمت کے اعتبار سے نہیںبلکہ ذات الٰہی کے لقب کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( قَالُوا مَا أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَمَا أَنزَلَ الرَّحْمَـٰنُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ ) ۳۶:۱۵

'' وہ لوگ کہنے لگے تم لوگ بھی تو بس ہمارے ہی آدمی ہو اور خدا نے کچھ نازل (وازل) نہیں کیا ہے،،۔

( إِن يُرِدْنِ الرَّحْمَـٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنقِذُونِ ) ۲۳

''اگر خدا مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہئے تو نہ ان کی سفارش ہی میرے کچھ کام آئے گی اور نہ یہ لوگ مجھے (اس مصیبت سے )چھڑا ہی سکیں گے،،

( هَـٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَـٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ ) : ۵۲

''کہ یہ وہی (قیامت کا) دن ہے جس کا خدا نے (بھی) وعدہ کیاتھا اور پیغمبروں نے بھی سچ کہا تھا،،

( مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ) ۶۷:۳

''بھلا تجھے خدا کی آفرنیش میں کوئی کسر نظر آتی ہے،،

۵۴۵

درج ذیل آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ لفظ ''رحمن،، ذات الٰہی سے مختص ہے۔

( رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ) ۱۹:۶۰

''سارے آسمان و زمین کا مالک ہے اور ان چیزوں کا بھی جو دونوں کے درمیان میں ہیں، تم اس کی عبادت کرو اور اس کی عبادت پر ثابت قدم رو ، بھلا تمہارے علم میں اس کا کوئی ہمنام بھی ہے۔

قابل ملا خطہ یہ نکتہ ہے کہ اس سورہ (مریم) میں اللہ نے لفظ ''رحمن،، کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے حتیٰ کہ لفظ ''رحمن،، کی سولہ مرتبہ تکرار کی گئی ہے اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اس نام (رحمن) میں اللہ کا کوئی شریک اور ہمنام نہیں ہے۔

الرحیم :/ یہ لفظ صفت مشبہ کا صیغہ ہے یا مبالغہ کا اس وزن کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اکثر اوقات صفات عزیزہ اور ان لوازمات میں استعمال ہوتا ہے جو ذات سے جدا نہیں ہوتے جیسے لفظ ''علیم،، ، ''قدیر،، ، ''شریف،، ، ''وضیع،، ، ''سخی،،، اور ''دنی،، ہیں ان دونوں صفات (رحمن و رحیم) میں فرق یہ ہے کہ رحیم اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ رحمت ذات کا لازمہ ہے اور اس سے جدا نہیں ہو سکتی اور رحمن صرف اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ذات میں صفت رحمت موجود ہے اس صفت کے دوام اور ہمیشگی پر دلالت نہیں کرتا۔

رحیم میں رحمت کاایک عزیزہ اور صفت نفسانی ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں جہاں کہیں متعلق (جس پر رحم کیا جائ) کے ساتھ استعمال ہوا ہے ''ب،، کے ذریعے متعدی استعمال ہوا ہے۔

جیسے۔

( إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ) ۲:۱۴۳

''بیشک خدا لوگوں پر بڑا ہی رفیق اور مہربان ہے،،۔

( وَكَانَ بِالْمومنينَ رَحِيمًا ) ۳۳:۴۳

''اور خدا تو ایمانداروں پر بڑا مہربان ہے،،

۵۴۶

گویا رحیم کو متعلق کے ساتھ ذکر کرتے وقت اسے متعدی سے لازم میںتبدیل کیا جاتا ہے اس لئے ''با،، کے ذریعے متعدی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

آلوسی کا عقیدہ یہ ہے کہ رحمن اور رحیم صفت شبہ کے صیغے نہیں ہیں اس لئے کہ یہ دونوں الفاظ جملہ''رحمن الدنیا والاخرة و رحیمهما،، میں اپنے مفعول کی طرف مضاف نہ ہوتے لیکن آلوسی کا یہ استدلال تعجب خیز ہے اس لئے کہ گزشتہ جملہ :رحمن الدنیا و الاخرة و رحیمهما میں یہ دونوں صیغے مفعول کی طرف مضاف نہیں ہوئے بلکہ زمان و مکان کی طرف مضاف ہوئے ہیں زمان و مکان کی طرف لازم بھی مضاف ہو سکتا ہے اور متعدی بھی۔

بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''رحمن،، اسم خاص ہے (صرف خدا سے مختص سے) اس کا معنی عام ہے جو رحمت دنیا و رحمت آخرت مومنو کافر سب کو شامل ہے لیکن ''رحیم،، اسم عام ہ(جو خدا کیلئے بھی بولا جاتا ہے اور غیر خدا کیلئے بھی) لیکن اس کا معنی خاص ہے اور رحمت آخرت یا مومنین پر رحمت سے مختص ہے۔

لیکن ان روایات کی یاتاویل کی جائے گی یا انہیں مسترد کر دیا جائے گا اس لئے کہ یہ روایات کتاب الٰہی کیخلاف ہیں کیونکہ قرآن میں لفظ '' رحیم،، نہ تو اس رحمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو مومنین سے مختص ہو اور نہ اس رحمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو آخرت سے مختص ہو ارشاد ہوتا ہے۔

( فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) ۱۴:۳۶

''تو جو شخص میری پیروی کرے تو وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی (تو تجھے اختیار ہے) تو تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے،،۔

____________________

نمبر ۱ تفسیر آلوسی ، ج ۱ ص ۵۹ نمبر۲ تفسیر طبری ، ج ۱ ص ۴۳ تفسیر البرہان ، ج ۱ ، ص ۲۸

۵۴۷

( نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ) ۱۵:۴۹

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ بشک اس میں بڑا بخشنے والا مہربان ہوں،،

( إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ) ۲۲:۶۵

''اس میں شک نہیں کہ خدا لوگوں پر بڑا مہربان رحم والا ہے،،۔

( رَّبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ) ۱۷:۶۶

''اور اگر چاہے تو منافقین کی سزا کرے یا (اگر وہ لوگ توبہ کریں تو) خدا ان کی توبہ قبول فرمائے اس میں شک نہیں کہ خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے،،

قرآن میں اس مضمون کی آیات اور بھی ہیں اس کے علاوہ بعض دعاؤںاور روایات میں یہ جملہ بھی موجود ہے''رحمن الدنیا والاخرة و رحیمهما،، یعنی اللہ دنیا و آخرت میں رحمن و رحیم ہے۔

ممکن ہے ان روایات میں ، جن میں رحیم کو اسم عام اور اس کا معنی خاص قرار دیا گیا ہے ، اختصاص سے مراد یہ ہو کہ اگر انسان پر اللہ کی رحمت دنیا کی طرح آخرت میں بھی شامل نہ ہو اور یہ آخرت میں منقطع ہو جائے تو یہ رحمت نہ رہی بھلا اس رحمت کا کیا فائدہ نمبر ۲ جس کا انجام کار عذاب اور خسارہ ہو۔ اس لئے کہ زائل اور منقطع ہونے والی رحمت دائمی عذاب کے مقابلے میں کالعدم قرار پاتی ہے اس مناسبت سے یہ کہنا صحیح ہو گا کہ رحمت صرف مومنین یا عالم آخرت سے مختص ہے۔

____________________

نمبر ۱ صحیفہ سجادیہ کی دعا جو ہم وغم کے موقع پر پڑھی جای ہے مستدرک حاکم ، ج ۱ ، ص ۱۵۵

نمبر ۲: اس مطلب کی طرف بعض منقول دعاؤں میں اشارہ کیا گیا ہے۔

۵۴۸

اعراب

بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ بسم اللہ میں جارو مجرور کا متعلق ''اقرائ،، یا ''اقوال ،، یا ''قل،، ہے بعض کا عقیدہ یہ ہے کہ جارو مجرور کا متعلق ''استعین،، یا ''استعن،، ہے تیسرا قول یہ ہے کہ جارو مجرور کا متعلق ''ابتدی،، ہے پہلے دو اقوال صحیح نہیں ہیں۔

دوسرا قول اس لئے باطل ہے کہ استعانۃ (مدد طلبی) اللہ کی طرف سے محال ہے کیونکہ ذات الٰہی بے نیاز ہے خدا نہ اپنی ذات سے مدد طلب کرتا ہے اور نہ اپنی صفات حسنہ سے اور مخلوق ، اللہ کی ذات سے مدد مطلب کرتی ہے اس کے اسماء حسنہ سے نہیں اس کی تصریح آیت( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) میں موجود ہے۔

پس معلوم ہوا کہ جارو مجرور کا متعلق ''ابتدی،، ہے اقوال یا اقراء نہیں ۔ اللہ کی طرف اسم کی اضافت بیانیہ نہیں ہے تاکہ اللہ الرحمن الرحیم سے مراد صرف الفاظ ہوں اس لئے کہ یہ احتمال بعید ہے اس کے علاوہ ان تینوں الفاظ کا مجموعہ مراد نہیں لیا جا سکتا اس لئے کہ یہ مجموعہ اسماء الٰہی میں سے نہیں ہے اور اگر ان سے مراد ایک ایک لفظ مستقل ہو تو حرف عطف ہونا چاہئے تھا اور جملہ یوں ہونا چاہئے تھا ''بسم اللہ والرحمن و الرحیم،، پس معلوم ہوا اضافہ معنویہ ہے بیانیہ نہیں اور لفظ ''اللہ،، اپنے معنی اور مسمیٰ میں استعمال ہواہے۔

تفسیر

کیونکہ قرآن کے سورے ، بشر کی اس کے ممکنہ کمال تک رہنمائی اور اسے شرک و جہالت کی ظلمت سے نکال کر نور توحید و معرفت سے منور کرنے کی غرض سے نازل ہوئے ہیں لہٰذا عین مناسب ہے کہ ہر سورہ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے اسم سے کی جائے کیونکہ اسم خداوندی ہی ذات الٰہی کا مظہر بن سکتا ہے اور قرآن اسی مقصد کے لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس سے اللہ کی معرفت حاصل کی جائے۔

۵۴۹

البتہ سورہ برات اس امر سے مستثنیٰ ہے کیونکہ اس کی ابتداء مشرکین سے برات اور بیزاری کے اظہار سے کی گئی ہے اور اس مقصد کیلئے سورہ نازل کیا گیا ہے لہٰذا اسم خدا کا ذکر کرنا مناسب نہیں تھا خصوصاً جب اس اسم کے ساتھ الرحمن الرحیم کی صفت بھی لائی جائے ۔ نمبر۱

خلاصہ: جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب تکوینی (عالم ہستی) کا آغاز اپنے کامل اسم مقدس سے فرمایا اور تمام مخلوقات سے پہلے حقیقت محمدیہ اور نور محمد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو خلق فرمایا اسی طرح اپنی کتاب تدوینی (قرآن) کا آغاز بھی اپنے اسم مبارک سے فرمایا۔

وضاحت: اسم ہر اس لفظ کو کہتے ہیں جو کسی ذات پر دلالت کرے اس لاظ سے اسماء الٰہی کی دو قسمیں ہیں۔

(۱) تکوینی

(۲) قراردادی

قراردادی اسماء وہ ہیں جو کسی ذات یا صفات ثبوتیہ و سلبیسہ پر دلالت کی غرض سے وضع کئے گئے ہوں۔

اسماء تکوینی وہ ممکن موجودات ہیں جو اپنے وجود کے ذریعے خالق کے وجود اور اس کی توحید پر دلالت کریں۔

ہر گیا ہی کہ از زمین روید

وحدہ لاشریک لہ گوید

____________________

نمبر ۱ ابن عباس روایت کرتے ہیں میں نے امیر المومنین (ع) سے پوچھا سورہ برات کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہیں ؟ آپ (ع) نے فرمایا : اس لئے کہ بسم اللہ امن کا پیغام ہے اور برات تلواروں کیساتھ نازل ہوا ہے ، اس میں امن کا پیغام نہیں مستدرک ج ۲ ، ص ۳۳

۵۵۰

ارشادباری ہے:

( أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ) ۵۲:۳۵

''کیا یہ لوگ کسی کے (پیدا کئ) بغیر یہ پیدا ہو گئے ہیں یا یہی لوگ (مخلوقات کے ) پیدا کرنے والے ہیں،،

( لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ ) ۲۱:۲۲

''اگر بفرض محال زمین اور آسمان میں خدا کے سوا چند معبود ہوتے تو دونوں کب کے برباد ہو گئے ہوتے،،

پس کائنات کی ہر شئی اپنے خالق کے وجود اور اس کی توحید کا بین ثبوت اور واضح دلیل ہے جس طرح لفظی اسماء الٰہی دلالت کے اعتبار سے مختلف ہیں یعنی بعض اسماء الٰہی صفات کمال کی جامع ذات پر دلالت کرتے ہیں اور بعض صفات کمال کی ایک جہت و پہلو کو اجاگر کرتے ہیں اسی طرح اللہ کے اسماء تکوینی بھی اس اعتبارسے مختلف ہیں اگرچہ تمام اسماء تکوینی وجود ، توحید ، علم ، قدرت اور دیگر صفات کمال پر دلالت کرنے میں شریک ہیں لیکن ہر اسم تکوینی (موجود امکانی) ایک خاص پہلو پر دلالت کرتا ہے اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی موجود جتنا قوی ہو گا اسی نسبت سے اس کی دلالت بھی قوی اور آشکار ہو گی۔

یہیں سے ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ ہدیٰ (علیہم السلام) پر اسماء حسنیٰ کا اطلاق صحیح ہے چنانچہ بعض روایات میں ائمہ ہدیٰ کو اسماء حسنیٰ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نمبر۱

پس اللہ نے اپنی کتاب تدوینی (قرآن) کی ابتداء ان پاکیزہ اور باعظمت الفاظ سے کی جو اسم اعظم کے نزدیک ہیں ، اتنے نزدیک کہ آنکھ کی سفیدی بھی آنکھ کی سیاہی کے نزدیک نہیں ہے۔ نمبر۲

____________________

نمبر۱ کافی باب النوا درمن ابواب التوحید ، ص ۷۰ الوافی ، ج ۱ ، ص ۱۰۹ تفیسر البرہان ، ج ۱ ، ص ۳۷۷

نمبر ۲ الوافی ، ج ۵ ، ص ۹۹ ۔ التہذیب ، ج ۱ ، ص ۲۱۸۔ المستدرک للحاکم ، ج ۱ ، ص ۵۵۲ ۔ کنز العمال ، ج ۲ ، ص ۱۹۰ ، مزید ملا خطہ ہو ضمیمہ نمبر ۱۲

۵۵۱

اسی خدا نے اپنی کتاب تکوینی کی ابتداء عالم وجود خارجی میں اسم اعظم (رسول اکرم (ص) سے فرمائی نمبر۱۔ اس طرح انسان کو یہ تلیقن کی جا رہی ہے کہ اپنے تمام اقوال و افعال کی ابتداء نام اللہ سے کریں جناب نبی کریم (ص) سے مروی ہے۔

کل کلام او امرذی بال لم یفتح بذکرالله عزوجل فهوابتر اوقال اقطع نمبر ۲

''ہر باعظمت کلام یا فعل جس کی ابتداء نام اللہ عزوجل سے نہ کی جائے وہ نامکمل اور بے ثمر رہتا ہے،،

امیر المومنین (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا کہ ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے:

کل امر ذی بال لم یذکرفیه بسم الله فهوابتر : نمبر۳

''ہر وہ کام جس کی ابتداء بسم اللہ سے نہ کی جائے وہ ناقص رہتا ہے،،۔

۵۵۲

آیہ ''بسم اللہ ،، کے بارے میں بحث اول

٭ آغاز قرآن بہ رحمت

٭بعد از رحمن ذکر رحیم

٭کیا بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے ؟

٭ بسم اللہ کے جز قرآن ہونے کے دلائل

٭ اہل بیت اطہار (ع) کی احادیث

٭اہل سنت کی احادیث

٭ معارض روایات

٭ سیرت مسلمین

٭ تابعین اور صحابہ کا قرآن

٭ منکرین کے دلائل

٭ تحلیل آیتہ ، الحمداللہ رب العالمین الرحمن الرحیم ۔ مالک یوم الدین

٭قرات ---------- ٭تفسیر---------- ٭ قراتوں کی ترجیحات -------- ٭ تحلیل آیتہ ، ایاک نعبدوایاک نستعین

٭ ترجیحات کا بے فائدہ ہونا ---------- ٭ لغت ، العبادۃ--------- ٭ دوسروں کا جواب

٭ الاستعانتہ

٭ ہمارا جواب

٭ اعراب

٭ لغات ، الحمد ، الرب ، العالم ، الملک ، الدین

٭ تفسیر

۵۵۳

آغاز قرآن بہ رحمت

اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کی ابتداء میں رحمت کو اپنی ذات کی صفت کے طور پر ذکر فرمایا ہے کسی دوسری صفت کمال کا ذکر نہیں فرمایا اس لئے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر رحمت بن کر نازل ہوا ہے لہٰذا عین مناسب ہے کہ کلام الٰہی کی ابتداء اسی صفت سے کی جائے جو ارسال رسل اور انزال کتب کی موجب ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی متعدد آیات میں قرآن مجید اور اپنے رسول (ص) کو رحمت قرار دیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( هَـٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ) ۷:۲۰۳

''اور جو (امراض شرک وغیرہ) دل میں ہیں ان کی دوا اور ایمانداروں کیلئے رحمت ہے،،

( وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ ) ۱۶:۸۹

''اور ہم نے تم پر کتاب (قرآن) نازل کی جس میں ہر چیز کا (شافی) بیان ہے اور مسلمانوں کیلئے (سرتاپا) ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے،،۔

( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمومنينَ ۙ ) ۱۷:۸۲

''اور ہم تو قرآن میں وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کیلئے (سراسر) شفاء اور رحمت ہے،،۔

( وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ) ۲۱:۱۰۷

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ہم نے تو تم کو سارے دنیا جہان کے لوگوں کے حق میں ازسرتاپا رحمت بنا کر بھیجا،،

( وَإِنَّهُ لَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمومنينَ ) ۲۷:۷۷

''اور اس میں بھی شک نہیں کہ یہ قرآن ایمانداروں کے واسطے ازسر تاپا ہدایت اور رحمت ہے،،۔

۵۵۴

بعد از رحمن ذکر رحیم

جیسا کہ اس سے قبل بیان کیا جا چکا ہے کہ ''فعیل،، ایک ایسی ہیت اور وزن ہے جو اپنے مادہ کی ایک صفت عزیزی اورطبیعی عادت ہونے پر دلالت کرتا ہے جو اپنی ذات سے جدا نہیں ہو سکتی اوراسی سے صفت ''رحیم،، کے صفت ''رحمن،، کے بعد لائے جانے کا نکتہ اور وجہ واضح ہو جاتی ہے بایں معنی کہ صفت ''رحمن،، اپنے عموم اور وسعت پر تو دلالت کرتی ہے لیکن اس پر دلالت نہیں کرتی کہ یہ صفت اپنی ذات کا لازمہ ہے اس لئے صفت ''رحمن،، کے بعد صفت ''رحیم،، کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ اس کے لازمہ ذات ہونے پر دلالت کرے۔

پس بلاغت قرآن کا یہ تقاضا ہے کہ اس آیہ میں ان دونوں اہداف (صفت کا عام اور وسیع ہونا اور لازمہ ذات ہونا) کی طرف اشارہ کیا جائے یعنی اللہ کی ذات ''رحمن،، ہے اور اس کی رحمت ہر شئی کے شامل حال ہے اور وہ ''رحیم،، بھی ہے یعنی یہ صفت اس کی ذات سے جدا نہیں ہوتی۔

بہت سے مفسرین اس نکتے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اور انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ ''رحیم،، کی بہ نسبت ''رحمن،، کے معنی میں زیادہ وسعت پائی جاتی ہے اس لئے کہ کثرت حروف کثرت معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن حق و حقیقت یہ ہے کہ اس تعلیل کا شمار مضحکہ خیز باتوں میں ہونا چاہئے کیونکہ الفاظ کی دلالت ، وضع کی کیفیت اور اس کی نوعیت کے تابع ہوتی ہے قلت حروف اور کثرت حروف کا اس سے کوئی ربطہ نہیں کتنے ہی الفاظ ایسے ہیں جن کے حروف کم ہیں لیکن معانی زیادہ ہیں اور کئی الفاظ ایسے ہیں جن کے حروف زیادہ ہیں لیکن معانی کم ہیں مثلاً لفظ ''حذر،، (جو مبالغہ کا صیغہ ہے) کثرت معنی (زیادہ ڈرپوک) پر دلالت کرتا ہے لیکن ''حاذر،، قلت معنی (صرف ڈرپوک) پر دلالت کرتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ مجرد اور مزیدفیہ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ ''ضر،، اور ''اضر،، کامعنی ہے ''ضضر اور نقصان پہنچایا،، جبکہ ''ضر،، کی بہ نسبت ''اضر،، میں حروف زیادہ ہیں۔

لفظ ''رحمن،، کے بعد ''رحیم،، لانے کی اب تک جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ اس بات پر مبنی ہے کہ ''رحمن،، اشتقاقی معنی میں استعمال ہو لیکن اگر لفظ ''رحمن،، اسماء خداوندی میں سے ہو اور اپنے لغوی معنی سے نقل ہو کر لقب الٰہی کے طور پر استعمال ہو (چنانچہ) اس سے قبل یہ بات ثابت کی جا چکی ہے) تو گزشتہ وجہ کے علاوہ اس لفظ کے لغوی معنی سے نقل ہونے کے سبب کی طرف اشارہ ہو گا اور وہ یہ کہ اللہ کی ذات وسیع رحمت سے متصف ہے۔

۵۵۵

کیا بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے؟

تمام علمائے شیعہ امامیہ کااتفاق ہے کہ ہر سورہ کی ابتداء میں موجود بسم اللہ اس سورہ کا حصہ ہے اس قول کو ابن عباس ، ابن مبارک اور اہل مکہ جیسے ابن کثیر ہے ،نیز اہل کوفہ جس طرح عاصم اور کسائی ہیں ، نے اختیار کیا ہے۔ البتہ حمزہ نے اس کی مخالفت کی ہے۔

اکثر علمائے شافعی نے اسی قول کو اختیار کیا ہے نمبر ۱ مکہ اور کوفہ کے علماء بھی اسی پر یقین رکھتے ہیں نمبر ۲ یہی قول ابن عمر ، ابن زبیر ، ابی ھریرہ ، عطاء ، طاؤس ، سعید بن جبیر ، مکحول ، زہری اور ایک روایت کے مطابق احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ اور ابو عبید القاسم بن سلام سے منقول ہے۔ نمبر ۳ بیہقی نے اس قول کو توری اور محمد بن کعب سے نقل کیا ہے۔ نمبر۴ رازی نے اپنی تفسیر میں اسی قول کو اختیار کیا ہے اور اس نے اسے قراء مکہ و کوفہ اور اکثر فقہائے حجاز ، ابن مبارک اور ثوری کی طرف نسبت دی ہے جلال الدین سیوطی نے بھی اسی قول کو اختیار کیا اور یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس پر روایت متواترہ (تواتر معنوی) دلالت کرتی ہیں نمبر۵:

بعض شافعی اور حمزہ کاکہناہے ''بسم اللہ صرف سورہ فاتحہ کا حصہ ہے دوسرے سوروں کا نہیں،، جس طرح پہلا قول (بسم اللہ ہر سورہ کا جز ہے) احمد ابن حنبل کی طرف منسوب ہے اسی طرح یہ قول (بسم اللہ صرف سورہ فاتحہ کا جزء

____________________

نمبر۱ تفسیر آلوسی ، ج ۱ ، ص ۳۹

نمبر ۲ تفسیر الشوکانی ، ج ۱ ، ص ۷

نمبر ۳ تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۱۶

نمبر ۴ تفسیر الخازن ، ج ۱ ، ص ۱۳

نمبر ۵ الاتقان النوع ۲۲ ۔ ۲۷۔ ج ۱ ، ص ۱۳۵۔۱۳۶

۵۵۶

ہے) بھی احمد ابن حنبل کی طرف منسوب ہے نمبر۱

علمائے اہلسنت کی ایک جماعت جس میں مالک ، ابو عمرو اور یعقوب شامل ہیں کا عقیدہ ہے کہ بسم اللہ ایک جدا آیت ہے اور یہ کسی بھی سورہ کا جزء نہیں بلکہ یہ ہر سورہ کے آغاز میں بطور تبرک نازل کی گئی ہے نیز یہ دوسوروں کے درمیان فاصلہ کی غرض سے بھی نازل کی گئی ہے حنفی حضرات میں یہی قول مشہور ہے نمبر۲

البتہ اکثر حنفیوں کی رائے یہ ہے کہ نماز میں فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا واجب ہے زاہدی نے مجبتبیٰ سے نقل کیا ہے کہ ابو حنیفہ کی صحیح روایت کے مطاب قنماز کی ہر رکعت میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے نمبر۳

مالک کے نزدیک نمز میں بسم اللہ پڑھنا بذات خود مکروہ ہے لیکن علماء کی اکثریت سے ہم آہنگی اور اختلاف سے بچنے کیلئے ایسا کرنا مستحب ہے نمبر۴

بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کے دلائل

اس مسئلہ میں گزشتہ اقوال کے علاوہ بھی چند اقوال موجود ہیں لیکن ان سب کا ذکر کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے عمدہ یہ ہے کہ اس مقام پر مذہب حق (بسم اللہ جزء سورہ ہے) کی دلیل بیان کی جائے اس ضمن میں چند امور بیان کئے جاتے ہیں۔

____________________

نمبر۱: تفسیر الآلوسی ، ج ۱ ، ص ۳۹

نمبر ۲: ایضاً

نمبر۳: ایضاً

نمبر۴: الفقہ علی المذاہب الاربعہ ، ج ۱ ، ص ۲۵۷

۵۵۷

(۱) اہل بیت اطہار (ع) کی احادیث:

پہلی دلیل اہل بیت ا طہار (ع) کی وہ صحیح روایات ہیں جن میں بسم اللہ کے جزء سورہ ہونے کی تصریح موجود ہے نمبر۵۔ جب رسول اکرم (ص) نے انہیں (ع) قرآن کا ہم پلہ اور قرآن کی طرح ان (ع) سے تمسک کو واجب قرار دیا ہے تو اس مدعیٰ کو ثابت کرنے کیلئے یہی روایات کافی ہیں ذیل میں ہم یہ صحیح روایات پیش کرتے ہیں:

۱۔ معاویہ بن عمار سے روایت ہے:

''میں (معاویہ بن عمار) نے امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی: جب میں نماز کیلئے کھڑا ؟ تو کیا فاتحتہ القرآن میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بھی پڑھوں ؟ آپ (ع) نے فرمایا: ہاں میں نے عرض کی : فاتحتہ القرآن کے ساتھ بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی پڑھوں؟ آپ (ع) نے فرمایا: ہاں نمبر ۶

۲۔ یحییٰ ابن عمران ہمدانی روایت کرتے ہیں۔

''میں نے امام باقر (ع) کی خدمت میں لکھا: میری جان آپ (ع) پر قربان ہو ، اس شخص کے بارے میں آپ (ع) کیا فرماتے ہیں جو نماز میں سورہ حمد کے شروع میں تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتا ہے لیکن جب کوئی دوسرا سورہ پڑھتا ہے تو اس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتا اور عباسی کا کہنا ہے کہ اس شخص کی نماز صحیح ہے۔ آپ (ع) نے اس کے جواب میں عباسی کی تذلیل کیلئے دو مرتبہ فرمایا: ایسا شخص اپنی نماز دوبارہ پڑھے، نمبر۱

____________________

نمبر ۵: فروع کافی ، باب قرات القرآن ، ص ۸۶ ۔ الاتبصار ، باب الجھربا بسملتہ ، ج ۱ ، ص ۳۱۱ ، التہذیب ، ج ۱ ، ص ۱۵۳ ، ۲۱۸ ، وسائل الشیعہ ، ج ۱ ، ص ۳۵۲ ،

نمبر ۶ کافی ، ج ۳ ، ص ۳۱۲

نمبر ۱: کافی ، ج ۳ ، ص ۳۱۳

۵۵۸

۳۔ صحیحہ ابن ابی اذینتہ میں ہے:

''جب رسول کریم (ص) تکبیرۃ الاحرام اور نہاز کے افتتاحیہ سے فارغ ہوئے اللہ کی طرف س وحی نازل ہوئی ، اب میرا نام لیجئے یہی وجہ ہے کہ سورہ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو واجب قرار دیا گیا ہے اس کے بعد وحی نازل ہوئی اے میرے حبیب (ص) میری حمد و ثناء کیجئے آپ (ص) نے فرمایا: الحمدللہ رب العالمین۔ اس کے بعد رسول اللہ (ص) نے دل میں فرمایا: شکراً (حمد الٰہی پر شکر کیا) پھر اللہ کی طرف سے وحی ہوئی : اے حبیب ! آپ (ص) نے میری حمد کے سلسلے کو منقطع کر دیا ہے پھر سے میرا نام لیجئے یہی وجہ ہے کہ ''الحمد،، میں ''الرحمن الرحیم،، کو دو مرتبہ واجب قرار دیا گیا ہے اور جب آپ (ص) ''ولاالضالین،، تک پہنچے تو آپ (ص) نے فرمایا : ''الحمد للہ رب العالمین شکرا،، تو اللہ کی طرف سے وحی ہوئی ایک مرتبہ پھر میرے ذکر کاسلسلہ منقطع ہو گیا اس لئے دوبارہ میرا نام لیجئے یہی وجہ ہے کہ سورۃ حمدکے بعد ہر سورہ سے پہلے ''بسم اللہ الرحمن الرحیم،، کو واجب قرار دیا گیا ہے پھر وحی نازل ہوئی یا محمد (ص) اپنے رب کے اوصاف بیان کیجئے اور کہئے:

قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾ ۔ نمبر ۲

(۲) اہل سنت کی احادیث

اہل سنت کی بھی بہت سی روایات بسم اللہ کے ہر سورہ کے جز ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے چند احادیث یہاں پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

''ایک مرتبہ رسول اللہ (ص) ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے اسی دوران اچانک آپ (ص) پر غنودگی طاری ہو گئی اور پھر آپ (ص) نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا ہم نے عرض کی :یا رسول اللہ (ص) آپ کے

____________________

نمبر ۲: کافی ، ج ۳

۵۵۹

مسکرانے کا کیا سبب ہے ؟ آپ (ص) نے فرمایا: ابھی ابھی مجھ پر ایک سورہ نازل ہوا ہے جو یہ ہے:

( بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ) ۔۔۔۔۔۔ الخ ،، نمبر۱

۲۔ وار قطنی نے صحیح سند سے امیرا لمومنین (ع) سے روایت کی ہے۔

''آپ (ع) سے پوچھا گیا سبع مثانی کونسا سورہ ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا: الحمد للہ رب العالمین آپ (ع) سے سوال کیاگیا: صرف چھ آیات ہیں ؟ آپ (ع) نے فرمایا:بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ بھی ایک آیہ ہے،، نمبر۲

۳۔ دار قطنی نے ہی صحیح سند کے ذریعے ابوہریرہ سے روایت کی ہے:

''رسول اللہ (ص) نے فرمایا جب بھی تم سورہ حمد پڑھوبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ بھی پڑھا کرو کیونکہ الحمد اساس قرآن، اساس کتاب اور سبع مثانی ہے اوربِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ، الحمد کی آیات میںسے ایک آیت ہے،، نمبر ۳۔

۴۔ ابن خزیمہ اور بیہقی نے صحیح سند کے ذریعے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''سبع مثانی فاتحتہ الکتاب کانام ہے آپ سے پوچھا گیا : ساتویں آیت کونسی ہے آپ نے فرمایا :بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ : نمبر۴

۵۔ ابن خزیمہ اور بیہقی نے ''المعرفہ،، میں صحیح سند کے ذریعے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''شیطان نے لوگوں سے قرآن کی ایک بہت بڑی آیت چرالی ہے اور وہ ہےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ،، نمبر۵

____________________

نمبر۱ صحیح مسلم باب حجتہ من قال البسملتہ آیتہ ج ۲ ، ص ۱۲ ۔ سنن النسائی باب قراء ۃ البسملتہ ج ،ص ۱۴۳ ، سنن ابی داؤد باب الجھربابسملہ ج ۱ ، ص ۱۲۵

نمبر۲ الاتقان النوع ۲۲۔ ۲۷ ج ۱ ، ص ۱۳۶ ۔ سنن بیہقی ج ۲ ، ص ۴۵

نمبر۳ ایضاً

نمبر۴ ایضاً ، مستدرکا لحاکم ج ۱ ، ص ۵۵۱

نمبر ۵ ایضاً ص ۱۳۵ ۔ سنن بیہقی ، ج ۲ ، ص ۵۰

۵۶۰

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

الٰہی نعمتوں سے مستفید ہونے والوں کو جو یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ غضب الٰہی سے بچتے ہیں اس کے مفہوم و اطلاق کو مقید کیا گیا ہے تاکہ یہ جملہ صرف ان لوگوں کو شامل ہو جو دونوں صفات کے حامل ہیں اس طرح یہ آیت ان لوگوں کو شامل نہیں ہو گی جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کاشکر ادا نہیں کیا۔

بنا برایں آیہ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ بندے ، اللہ سے ایسے راستے کی ہدایت کے طالب ہیں جس پر اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند لوگوں میں سے کچھ خاص لوگ گامزن ہیں اور وہ ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور اللہ کی اطاعت میں ثابت قدم رہتے ہوئے آخرت کی نعمتوں سے بھی اسی طرح مستفیض ہوں گے جس طرح دنیا میں اس کی نعمتوں سے مستفیض ہوئے اس طرح دنیا و آخرت دونوں میں انہیں سعادت حاصل ہوئی۔

آیہ شریفہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس جملے کی مانند ہے جیسے کہا جائے : گمراہ کن کتابوں کے علاوہ دوسری کتب اپنے پاس رکھنا جائز ہے،، اس تحیل کی روشنی میں بعض حضرات کے اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ہی اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں ۔

''لفظ،، غیر میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے جو اضافت کی وجہ سے معرفہ نہیں بن سکتا اس لئے یہ کسی معرفہ کی صفت نہیں بن سکتا،،

خلاصہ بحث یہ ہوا کہ کسی بھی جملے، چاہے خبر ہو یا انشائیہ ، میں موجود حکم اگر عام ہو اور موضوع کے تمام افرادکو شامل ہو تو اس کی تخصیص جس طرح ''الا،، وغیرہ سے کی جا سکتی ہے اسی طرح لفظ ''غیر،، کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے گویا آپ یوں کہہ سکتے ہیں میرے پاس سارے شہر والے آئے سوائے فاسقین کے یا سب شہر والوں کا احترام کرو سوائے فاسقین کے۔

۶۲۱

الضآلین

اس لفظ کا عطف ''غیر المغضوب علیھم ،، پر ہے ۔ اس جملے میں ''لا،، نفی کو بھی استعمال کیا گیاہ ے تاکہ نفی کی تاکید ہو اور یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ''مغضوب،، اور ''ضالین،، دونوں کے مجموعے کی نفی کی گئی ہے چنانچہ لفظ ''غیر،، ضمنی طور پر نفی پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس پر وہی حکم جاری کرتے ہیں جو حروف کا ہے مثلاً کہتے ہیں:

جالس رجلا غیر فاسق ولا سئی الخلق ، اعبدالله بغیر کس ولا ملل ،، (یعنی) ''ایسے آدمی کے ساتھ بیٹھو جو فاسق اور بداخلاق نہ ہو۔ اللہ کی عبادت کرو بغیر کسی اکتاہٹ اور سستی کے،،۔

ہمارے بعض تقریباً ہم عصر علمائے کرام کا خیال ہے لفظ ''غیر،، کا استعمال نفی میں صحیح نہیں ہے اس طرح انہوں نے آیہ کریمہ کی توجیہ کرنے میں اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کیا ہے آخر کار کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور اپنی عاجزی کا ا عتراف کر لیا ہے۔

تفسیر

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پہلے توحید فی العبادۃ اور توحید فی الاستعانۃ کا اعتراف کرنے کی تعلیم دی یعنی صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے اس کے بعد اپنے بن دوں کو اس امر کی تلقین کی کہ وہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا مانگیں۔

اس آیہ شریفہ کا پہلا حصہ اللہ کی حمد و ثناء اور بزرگی پر مشتمل ہے اور آخری حصہ ہدایت کی دعا پر ابتدائی اور آخری حصے کے درمیان آیہ شریفہ :ایاک نعبد و ایاک نستعین،، پہلی آیت کے مضمون کا نتیجہ اوربعد والی آیت میں موجود دعا کی تمہید ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں خدا کی جو عظمت و بزرگی بیان کی گئی ہے اس پر عبادت و استعانت (مدد طلبی) کا ذات الٰہی سے مختص ہونے کا دار و مدار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات ، رحمت اور سلطنت کی وجہ سے عبادت کا مستحق ہے اور غیر اللہ عبادت و استعانت کا مستحق نہیں۔

۶۲۲

جب عبادت اور استعانت خدا کی ذات سے مختص ہوئی تو لامحالہ دعا بھی اسی کے دربار میں کی جانے چاہئے یہی وجہ ہے کہ فریقین نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

ان الله تبارک و تعالیٰ قدجعل هذه السورة نصفین : نصف له و نصف لعبده ، فاذا قال العبد : الحمد لله رب العالمین ، یقول الله تعالیٰ : مجدنی عبدی ، و اذاقال : اهدنا الصراط المستقیم ، قال الله تعالیٰ هذا لعبدی و لعبدی ماسال ،، (۱)

''اللہ نے سورہ حمد کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ، آدھا سورہ اللہ کیلئے اور آدھا اس کے بندوں کیلئے ، جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو خالق فرماتا ہے : میرے عبد نے میری عظمت بیان کی ہے اور جب بندہ کہے :اھدنا الصراط المستقیم،، تو خالق فرماتا ہے : یہ میرے عبد کا حصہ ہے میرا بندہ جو مانگے اسے دیا جائے گا،،۔

گزشتہ بحثوں سے معلوم ہوا کہ انسان اپنے ایمان و عقیدہ اوراعمال کے سلسلے میں تین میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔

(۱) وہ راستہ جو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے مقرر کر رکھا ہے اس راستے پر وہ شخص چلتا ہے جسے اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہدایت فرمائی ہے۔

(۲) وہ راستے ، جن پر گمراہ چلتے ہیں۔

(۳) وہ راستہ جس پر غضب الٰہی کے مستحق افراد چلتے ہیں۔

سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ صراط مستقیم جو پہلا راستہ ہے وہ دوسرے دو راستوں سے مختلف ہے بایں معنی کہ صراط مستقیم پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اور دوسرے راستوں پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اس طرح یہاں پر یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جو شخص طریق مستقیم سے انحراف کرے رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے اس لئے کہ وہ گمراہ وتا ہے یا گمراہ ہونے کے علاوہ غضب الٰہی کا بھی مستحق ہوتا ہے۔

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا ۔ باب ماجاء من الرضامن الاخبار المتفرقہ ، ص ۱۶۶ طبع ایران ۱۳۱۷ھ

۶۲۳

اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچائے اور صراط مستقیم کی ہدایت فرمائے۔

مفسرین کا کہنا ہے : اللہ سے وہ شخص ہدایت طلب کرتا ہے جو پہلے سے ہدایت یافتہ نہ ہو اور ایک مسلمان ، جو اللہ کی وحدانیت اور یگانگی کا قائل ہے وہ کیونکر اپنی نماز میں ہدایت کی دعا کرتا ہے۔

اس اعتراض کے کئی جواب دیئے گئے ہیں

(۱) آیت میں ہدایت سے مراد پہلے سے حاصل ہدایت کی بقاء اور دوام ہے یعنی جب اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے فضل و احسان سے ایمان کی ہدایت کر دی تو اب اس کے بندے یہ دعا مانگتے ہیں : پالنے والے ! ہمیں ایمان پر ثابت قدم رہنے اور اسے برقرار رکھنے کی توفیق عنایت فرما تاکہ ہدایت کے بعد کہیں لغزش قدم کے نتیجے میں دوبارہ گمراہ نہ ہو جائیں۔

(۲) ہدایت کا معنی ثواب ہے یعنی بارالٰہا! ہمیں ثواب کے طور پر راہ جنت عطا فرما۔

(۳) ہدایت سے مراد ہدایت میں اضافہ ہے اس لئے کہ ہدایت کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی ہے جو شخص ہدایت کی ایک منزل پر فائز ہو وہ اس سے بلند منزل پر فائز ہونے کی دعا کر سکتا ہے۔

یہ تینوں جوابات خام خیالی اور ظاہر آیہ کریمہ کیخلاف ہیں ۔ صحیح جواب یہ ہے کہ جس ہدایت کی مسلمان اپنی نماز میں دعا کرتا ہے وہ ایسی ہدایت ہے جو اسے پہلے حاصل نہیں اسی لئے اللہ کے حضور اس کے حصول کی دعا مانگی جاتی ہے۔

وضاحت: اللہ کی طرف سے دو قسم کی ہدایت کی جاتی ہے۔

(۱) ہدایت عامہ

(۲) ہدایت خاصہ

۶۲۴

ہدایت عامہ: یہ ہدایت کبھی تکوینی ہوتی ہے اور کبھی تشریعی ۔ تکوینی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے جمادات ، نباتات اور حیوانات غرض تمام موجودات کو ودیعت فرمائی ہے یہ سب چیزیں قدرتی طور پر یا اپنے اختیار سے اپنے کمال اور ارتقائی منازل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اللہ کی ذات نے ان چیزوں میں طلب کمال کی قدرت و دیعت فرمائی ہے:

کیا آپ نے نباتات میں کبھی غور کیا ہے کہ وہ اپنی نشوونما کے دوران ایسے راستے کا انتخاب کرتی ہیں جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، یا کبھی حیوانات کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ موذی حیوانوں کوکیسے دوسروں سے تمیز دے لیتے ہیں مثلاً چوہا بلی سے تو بھاگتا ہے لیکن بکری سے نہیں بھاگتا یا چیونٹی اور شہد کی مکھی اجتماع اور حکومت تشکیل دینے اور اپنی رہائشی جگہ تعمیر کرنے کی ہدایت و رہنمائی کیسے حاصل کرتی ہے ؟ یا شیر خوار طفل پستان مادر کی رہنمائی کیسے حاصل کرتا ہے اور ولادت کے فوراً بعد دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔

( قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ) ۲۰:۵۰

''موسیٰ (ع) نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اسی کے (مناسب) صورت عطا فرمای پھرا سی نے (زندگی بسر کرنے کے) طریقے بتائے،،۔

تشریعی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے انسانوں کی طرف نبی (ع) بھیج کر اور ان پر کتب نازل فرما کر مکمل کی پہلے خدا نے انسان کو عقل اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت دے کر ان پر حجت تمام کی اس کے بعد انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء بھیجے جو انسانوںکے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کرتے اور ان کیلئے مختلف شریعتوں کو بیان کرتے تھے پھر اللہ نے انبیاء (ع) کو معجزات دے کر بھیجا جو ان کی نبوت کا ثبوت اور دلیل بن سکے اس کے بعد کچھ لوگ ہدایت پا گئے اور کچھ گمراہ ہو گئے اور ضلالت ان کا مقدر بن گئی۔

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،

۶۲۵

ہدایت خاصہ: یہ ہدایت تکوینی ہوتی ہے اور یہ اللہ کا خاص لطف و کرم ہے جس سے وہ اپنے بعض مخصوص بندوں کو اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق نوازتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے وہ اسباب و ذرائع فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنے کمال اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں اگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت خاصہ کے ذریعے لوگوں کی ہدایت اور اصلاح نہ فرمائے تو وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگریں ہدایت کی اس قسم کی طرف قرآن کی متعدد آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔

( فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ ) ۷:۳۰

''اسی نے ایک فریق کی ہدایت کی اور ایک گروہ (کے سر) پر گمراہی سوار ہو گئی،،۔

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ اب (تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خدا ہی کے لئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ ) ۲:۲۷۲

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) انہیں منزل مقصود تک پہنچانا تمہارا فرض نہیں (تمہارا کام) صرف راستہ دکھانا ہے مگر ہاں خدا جس کو چاہے منزل مقصود تک پہنچا دے،،

( إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ) ۶:۱۴۴

''خدا ہرگز ظالم قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا،،

( وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۲:۲۱۳

''اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،،

( إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ) ۲۸:۵۶

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) بیشک تم چسے چاہو منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے مگر ہاں خا جسے چاہے منزل مقصود تک پہنچائے،،

۶۲۶

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ ) ۲۹:۶۹

''اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا انہیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے،،

( فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ۱۴:۴

''تو یہی خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہی سب پر غالب حکمت والا ہے،،

ان آیات کے علاوہ بھی قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں جن سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کی ہدایت خاصہ کچھ خاص قسم کے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے سب کو نہیں بنا برایں اس سورہ فاتحہ میں مسلمان پہلے اللہ کی تشریعی و تکوینی ہدایت عامہ کا اعتراف کرتا ہے اس کے بعد درگاہ الٰہی میں تکوینی ہدایت خاصہ کی دعا کرتا ہے جو صرف مخصوص لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان قدرتی طور پر ہلاکت اور سرکشی سے دو چار ہو سکتا ہے اس لئے مسلمان اور موحد کو چاہئے کہ وہ صرف اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے بلکہ اپنے رب سے مدد طلب کرے اور اس سے ہدایت کی دعا مانگے تاکہ وہ اسے صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے اور وہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جو گمراہ اور غضب الٰہی کے مستحق ہیں۔

۶۲۷

ضمیمہ جات

۱۔ حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

۲۔ حارث کی سوانح حیات اور شعبی کے بہتان

۳۔ حدیث شریف''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے۔

۴۔ موتف اور یہودی عالم میں بحث

۵۔ ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

۶۔ رسول اسلام (ص) کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش۔

۷۔ صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

۸۔ محمد عبدہ ، اور تین طلاقیں

۹۔ شیعوں پر رازی کا افترائ

۱۰۔ احادیث اور مشیّت الٰہی

۱۱۔ دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

۱۲۔ آیہ بسم اللہ کی اہمیت

۱۳۔ آغاز آفرینش

۱۴۔ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

۱۵۔ معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

۶۲۸

۱۶۔ رسول خدا کا بسم اللہ پڑھنا اور روایت انس کی توجیح

۱۷۔ ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

۱۸۔ آلوسی کی شیعوں پر بہتان تراشی

۱۹۔ مولف اور حجازی عالم میں بحث

۲۰۔ تربت سید الشہداء (ع) کی حقیقت

۲۱۔ مکاشفہ کے ذریعے آیہ سجود کی تاویل

۲۲۔ ابلیس اور خدا کامکالمہ

۲۳۔ اسلام اور شہداتین

۲۴۔ عبادت اور اس کے عوامل

۲۵۔ الامربین الامرین لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں

۲۶۔ شفاعت کے مدارک

۶۲۹

ضمیمہ (۱) ص ۱۸

حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

حدیث ثقلین کو احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کی جلد ۳ کے صفحہ ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۶ اور ۵۹ پر ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے دارمی نے کتاب فضائل القرآن،، کے جزء ۲ کے صفحہ ۴۳۱ اور احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کے جزء ۴ کے صفحہ ۳۶۶ اور ۳۷۱ پر زید بن ارقم سے اور جزء ۵ کے ص ۱۸۶ ، ۱۸۹ پر زید بن ثابت سے روایت کیا ہے ۔

جلال ادین سیوطی نے ''جامع الصغیر،، میں طبرانی سے اور اس نے زید بن ثابت سے اس کی روایت کی ہے جلال الدین سیوطی نے یہ حدیث نقل کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے علامہ مناوی نے اپنی شرح کی جز ۳ کے صفحہ ۱۵ پر لکھا ہے : ھیثمی کا کہنا ہے '' اس حدیث کے راوی موثق ہیں،،

نیز ابویعلیٰ نے اس حدیث کی ایسے سلسلہ سند سے روایت کی جو قابل خدشہ نہیں ہے حافظ عبدالعزیز ابن الاخضر نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کااضافہ بھی کیا ہے کہ یہ حدیث حجتہ الوداع کے موقع پر صادر ہوئی اور وہ شخص (جیسا کہ ابن جوزی ہے) غلطی پر ہے جو اسے من گھڑت سمجھتا ہے سمھودی کا کہنا ہے کہ اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابہ نے نقل کیا ہے۔

حاکم نے کتاب ''المستدرک،، کی جزء ۳ کے صفحہ ۱۰۹ پر زید ابن ارقم سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اگرچہ روایات کی تعبیریں مختلف ہیں مگر سب کا مطلب ایک ہی ہے۔

۶۳۰

ضمیمہ (۲) ص ۱۸

حارث کی سوانح حیات اور

شعبی کے بہتان ان کا نام حارث بن عبداللہ الاعور الھمدانی ہے علمائے امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ امیر المومنین (علیہ السلام) کے بزرگ اصحاب میں سے تھے علماء کرام نے ان کو عظیم المرتبت ، متقی ، پرہیز گار اور خدمت گزارامیر المومنین (ع) کے لقب سے یاد کیا ہے۔

علماء کرام نے اپنی کتاب رجال اور دیگر کتابوں میں ان کے موثق ہونے کی تصریح کی ہے اہل سنت کے کئی بزرگ علماء نے حارث کا ذکر کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے ابن حجر عسقلانی ''تہذیب التہذیب،، میں لکھتے ہیں،،

''دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ حارث نے ابن مسعود سے حدیث سنی ہے اور یہ قابل خدشہ نہیں ہے،،

عثمان دارمی نے ابن معین سے نقل کیا ہے : ''حارث موثق ہے،،

اشعث ابن سوار نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے ''میں نے کوفہ جا کر دیکھا کہ لوگ پانچ آدمیوں کو دوسروں پر مقدم سمجھتے تھے ان میں سے جو شخص حارث کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر عبیدہ کا نام لیتا تھا اور جو شخص عبیدہ کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر حارث کا نام لیتا تھا،،

ابن ابی داؤد کہتے ہیں ''حارث ، فقہ ، حسب و نسب اور مسائل ارث میں سب سے بہتر تھے آپ نے میراث کے احکام امیر المومنین (ع) سے حاصل کئے،،

۶۳۱

ذہبی حارث کے حالات زندگی میں لکھتا ہے ''حارث کی احادیث سنن اربعہ میں موجود ہیں اور نسائی نے رجال (راویوں) کے سلسلے میں سخت گیر ہونے کے باوجود حارث کی احادیث سے استدلال کیا ہے اور اس کی تائید کی ہے وہ (حارث) علم کے سمندر تھے،،

مرہ بن خالد کہتا ہے کہ محمد بن سیرین نے خبر دی ہے ''اصحاب بابن مسعود میں پانچ افراد ایسے تھے جن کی احادیث قابل قبول ہوتی تھیں ان میں سے چار کی زیارت کی گئی مگر حارث کی زیارت سے محروم رہا حارث کو باقی چاروں پر فضیلت حاصل تھی اور وہ ان سے بہتر تھا،،

مولف: تعصبات و خواہشات کاتقاضا یہی ہے جو شعیی نے کہا ہے ''حارث اعور نے مجھ سے حدیث بیان کی اور وہ (حارث) ایک جھوٹا انسان تھا ،، اس بات میں کچھ اور لوگوں نے بھی شعبی کی متابعت کی ہے۔

عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر کے جزء اول صفحہ ۵ پر لکھتے ہیں۔

درحقیقت حارث کو اس لئے مطعون کیا جاتا ہے کہ ان کے دل میں حب علی (ع) کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ امیر المومنین (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتے تھے اسی لئے شعبی نے اس (حارث) کی تکذیب کی ہے کیونکہ وہ شعبی حضرت ابوبکر کو دوسروں سے بہتر اور پہلا مسلمان سمجھتا تھا،،۔

ابن حجر ، حارث کے حالات میں لکھتا ہے کہ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب ''العلم،، میں حارث کا شبی کی طرف سے طعن و تشینع کا نشانہ بننے کا یہ راز بیان کیا ہے۔

''حارث حب علی (ع) میں انتہا پسند تھے میرے خیال میں شعبی ، حارث کی تکذیب اور اسے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب الٰہی کا مستحق ہو گا اس لئے کہ حارث کی کوئی بھی بات جھوٹ ثابت نہیں ہوئی،،۔

ابن شاہین نے ''ثقات،، میں لکھا ہے کہ احمد بن صالح مصری کہتے ہیں۔

''حارث کتنے مضبوط حافظہ کے مالک تھے اور انہوں نے کتنی اچھی اور زندہ روایات حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہیں،،

۶۳۲

اس کے بعد انہوں نے حارث کی تعریف و ستائش کی ہے احمد بن صالح سے کہا گیا شعبی تو کہتا ہے کہ حارث جھوٹ بولا کرتاتھا احمد بن صالح نے کہا حارث نقل حدیث کے سلسلے میں جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ صرف اس کی اپنی رائے خلاف واقعہ ہوتی تھی۔

خدارا! صاحب بصیرت نقاد بتائیں کیا علم پرور شریعت اور دین اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف فحاشی کی نسبت صرف اس بنیاد پر دی جائے اورا س پر جھوٹ بولنے کی تہمت صرف اس لئے لگائی جائے کہ اسکے دل میں حضرت علی (ع) کی محبت ہے اور کہ وہ حضرت علی (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے ؟ کیا خود رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کے دوسروں سے افضل ہونے کا برملا اعلان نہیں فرمایا یہاں تک کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کو وہ مقام دیا جو حضرت ہارون (ع) کو حضرت موسیٰ (ع) کی نسبت حاصل تھا اور آپ (ع) کو ایسے خصائل و خصوصیات سے نوازا جو دوسرے صحابہ رسول (ص) میں سے کسی کو حاصل نہ تھیں۔

مستدرک حاکم جزء ۳ ، ۱۰۸ کے مطابق سعد ابن ابی وقاص نے معاوضہ کے سامنے ان فضائل کی اس وقت شہادت دی جب معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو امیر المومنین (ع) پر سب و شتم کرنے پر مجبور کرنا چاہا اس موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہا۔

کیف اسب رجلاً کانت لہ خصال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: لو ان لی واحدۃ منہا لکان احب الی من حمر انعم ،،

''بھلا اس ہستی پر میں کیسے سب و شتم کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے فضائل و مناقب سے نوازا جن میں ایک فضیلت بھی مجھے نصیب ہوتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ میں اسے پسند کرتا،،

اس کے بعد سعد بن ابی وقاص نے حدیث کساء ، حدیث منزلت (انت منی بمنزلہ ہارون من موسیٰ ) اور جنگ خیبر میں علم دینے کا واقعہ بیان کیا رسول اللہ (ص) نے صرف انہی فضائل کے بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ امت کے سامنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بلند مقام کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ مستدرک حاکم جزء ۳ ، صفحہ ۱۰۸ پر ہے کہ رسول اللہ (ص) نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا۔

۶۳۳

''من اطاعنی فقداطاع الله و من عصانی فقد عصی الله و من اطاعک فقد اطاعنی و من عصاک فقد عصانی،،

''جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے تیری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی،،

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے فضائل ہیں جو حدو حصر سے باہر ہیں۔

ہاں ! اگر شعبی حارث پر تہمتیں لگائے اور اس کی طرف کذب کی نسبت دے تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ شعبی وہ آدمی ہے جو بنی امیہ اور ان کے ماحول کا پروردہ اور ان کی دنیا میں موج اڑاتا اور ان کی خواہشات کے مطابق عمل کرتا تھا۔

کتاب النجوم الزاہرۃ جزء ۱ صفحہ ۲۰۸ کے مطابق ولید بن عبدالملک کی بیعت کے صلے میں عبدالملک بن مردان نے شعبی کو مصر بھیجا پھر کوفے کے والی و گورنر بشر بن مردان کی طر فسے کوفہ میں اس کا (امور حبیہ میں )وکیل رہا۔

چنانچہ کتاب الاغانی جزء ۲ ، ص ۱۲۰ پر ہے اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے کوفہ کی قضاوت کے منصب پر فائز رہا چنانچہ تاریخ طبری جزئ۵ ، ۳۱۰ پر یہ واقعہ موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات مروانی تھیں اور وہ وہی کچھ کہتا اور کرتا تھا جو خواہشات نفسانی کاتقاضا ہو کسی جھوٹی بات سے نہ اسے کوئی جھجھک ہوتی تھی اور نہ بیہودگی سے یہ باز آتات ھا۔

ابو الفرج نے الاغانی جزء ۱ ، ص ۱۲۱ پر حسن بن عمر فقیمی سے نقل کیا ہے کہ فقیمی کہتا ہے:

''میں شعبی کے کمرے میں اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اتنے میں، میں نے گانے کی آواز سنی میں نے شعبی سے کہا : گانے کی آواز آپ کے ہمسائے کے گھر سے آ رہی ہے میں نے اس کے ساتھ جا کر اس کے مکان کی چھت پر ایک چاند سے حسین و جمیل لڑکے کو دیکھا جوگانےگا رہا تھا حسن بن عمر فقیمی کہتا ہے کہ شعبی نے مجھ سے کہا : جانتے ہو یہ کون ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ شعبی نھے کہا یہ وہ ہے جس کو بچپن ہی میں حکمت عطا کی گئی ہے یہ ابن سریج ہے،،۔

۶۳۴

نیز الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۷۱ پر عمر بن ابی خلیفہ سے منقول ہے۔

''شعبی اور میرے والد گھر کے بالائی حصے میں تھے اتنے میں ہم نے اچھی آواز میں گانے کی آواز سنی میرے والد نے کہا تمہیں کچھ نظر آ رہا ہے ؟ شعبی نے کہا نہیں ۔ اس وقت ہمیں ایک خوبصورت نوجوان لڑکا نظر آیا جو گا رہا تھا اور وہ عائشہ کابیٹا تھا ، شعبی نے اس کے گانے کو پسند کیا اور کہا : خدا جسے چاہتا ہے علم و حکمت سے نوازتا ہے،،۔

الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۱۳۳ پر مذکور ہے ''مصعب بن زبیر نے کوفے پر اپنی گورنری کے دوران شعبی کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی زوجہ عائشہ بنت طلحہ ، جو اس وقت بے حجاب تھی کی خواہب گاہ میں لے گیا اور پھر مصعب نے اپنی زوجہ کے بارے میں شعبی کی رائے پوچھی شعبی نے اپنی رائے ظاہر کی اور اس کی زوجہ کی ایسی ہی تعریف کی جیسی مصعب چاہتا تھا اس پر مصعب نے شعبی کو دس ہزار درہم اور تیس لباس دیئے،،۔

شعبی اگر حارث کو ان الفاظ میں یاد کرے تعجب کی کون سی بات ہے یہ تو وہی شخص ہے جو امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے بارے میں قسم کھا کر کہتا تھا:

لقد دخل علی حضرة و ما حفظ القرآن،،

یعنی ''علی (ع) اپنی قبر میں پہنچ گئے مگر قرآن حفظ نہ کر سکے،،

چنانچہ قرطین کے جزء ۱ ، ص ۱۵۸ پر مذکور عبارت موجود ہے۔

صاحبی ، فقہ اللغۃ کے صفحہ ۱۷۰ پر رقمطراز ہے۔

''شعبی کا یہ جملہ اس شخص کے بارے میں انتہائی بے ہودہ ہے جو کہا کرتا تھا۔

''سلونی قبل ان تفقدونی ، سلونی فمامن آیة الااعلم بلیل نزلت ام بنهار ام فی سهل ام فی جبل ،،

یعنی ''پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تم میں نہ رہوں اس لئے کہ میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ رات کے وقت نازل ہوئی یا دن کے وقت کسی ہموار جگہ پر نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر،،

۶۳۵

سدی نے عبد خبر سے اور اس نے علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے۔

''آپ (ع) نے رسول خدا (ص) کی وفات کے موقع پر لوگوں کو فال بد کی کیفیت میں دیکھا جس کے بعد آپ (ع) نے قسم کھائی کہ جب تک قرآن مجید کو مکمل جمع نہ کر لوں اپنی چادر دوش پر نہیں رکھوں گا عبد خیر کہتے ہیں پس امیر المومنین (ع) نے اپنے بیت الشرف میں گوشہ نشین ہوئے اور وہیں پر آپ نے قرآن جمع کیا یہ وہ پہلا مصحف تھا جس میںق رآن جمع کیا گیا آپ نے اسی قرآن کو جمع کیا جو آپ کے قلب مطہر پر نقش اور زبانی یاد تھا اور یہ قرآن آل جعفر کے پاس تھا،،

ہر غیرت مند مسلمان کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس شخص نے خدا اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کیخلاف اس قسم کی بے ہودہ گوئی کی کیسی جرات کی ہے یہ الفاظ ''قرآن حفظ نہ کر سکا،، اس شخص کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو علم رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے شہر کا دروازہ تھااور آپ (ع) لوگوں کیلئے ان احکام کو بیان کیا کرتے تھے جنہیں دے کر رسول اللہ (ص) کوبھیجاگیا تھا اس مضمون کی بہت سی روایات ہیں جیسا کہ کنز العمال جزء ۶ ص ۱۵۶ پر موجود ہاں ! تو یہ الفاظ اس ہستی کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو حکمت کا شہر تھا جیسا کہ صحیح بخاری جزء ۱۳ ، ص ۱۷۱ پر موجود ہے اور اس شخص کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے قرآن حفظ نہیں تھا جوقرآن کے ساتھ ہے اور قرآن اس کے ساتھ اور یہ اس وقت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر نہ پہنچیں چنانچہ مستدرک الحاکم جزء ۳ ، ص ۱۲۴ اور سیوطی کی جامع الصغیر جزء ۴ ، ص ۳۵۶ پر یہ روایت موجود ہے۔

ان الذین یکسبون الاثم سیجزون ماکانوا یقترفون

''جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں عنقریب ان کو اپنے اعمال کی سزا ملے گی،،

۶۳۶

ضمیمہ (۳) ص ۲۰

حدیث شریف ''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے

یہ حدیث مسند احمد کی جزء ۵ ص ۲۱۸ پر ابی واقدلیثی کی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

بخاری میں کتاب الاعتصام بالکتاب و السنتہ باب قول النبی لتتبعن سنن من قبلکم جزء ۸ ، ص ۱۵۱ ، مسلم کی کتاب العلم باب اتباع سنن الیہود و انصاریٰ جزء ۸ ، ص ۵۷ ، اور مسند احمد جزء ۳ ، ص ۷۴ پر ابی سعید خدری سے یہ حدیث وارد ہے نیز ھیثمی کی کتاب مجمع الزوائد ، جزء ۷ ، ص ۲۶۱ پر ابن عباس سے یہ روایت مروی ہے۔

ضمیمہ (۴) ص ۴۳

مولف اور یہودی عالم میں بحث

ایک مرتبہ ایک یہودی عالم سے اس موضوع پر میری بحث ہوئی کہ شریعت یہود بھی اپنی حجت و دلیل کے ختم ہونے پر ختم ہو جاتی ہے۔

میں نے یہودی عالم سے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر عمل کرنا صرف یہودیوں پر واجب تھا یا یہ کہ یہودیوں کے علاوہ دوسری امتوں پر بھی شریعت موسیٰ ؑ پر عمل کرنا واجب ہے ؟ اگر شریعت موسیٰ ؑ صرف یہودیوں سے مختص ہو تو دوسری امتوں کیلئے کسی اور نبی کا ہونا ضروری ہے بتایئے وہ نبی کون ہے ؟ اور اگر شریعت موسیٰ ؑ تمام اقوام اور امتوں کیلئے ہو تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت کی صداقت اور اس کے تمام امتوں کو شامل ہونے پر کوئی حجت و دلیل پیش کی جائے اور تم کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکتے اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں

۶۳۷

تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ اسلام) کے معجزات کی خبر صرف اسی صورت میں تواتر کی حد تک پہنچ سکتی ہے کہ جب ہر دور میں خبر دینے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ عقلی طور پر ان سب کا جھوٹی بات پر اتفاق ناممکن ہو اور یہ وہ امر ہے جس کو ثابت کرنا تمہارے دائرہ قدرت سے باہر ہے۔

تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کی خبر دیتے ہو ، نصاریٰ حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی خبر دیتے ہیں اور دوسری امتیں اپنے اپنے نبیوں کے معجزات کی خبر دیتی ہیں بھلا ان خبروں میں کوئی فرق ہے اور ایک خبر کو دوسری خبر پر کوئی فوقیت حاصل ہے ؟ اگر لوگوں پر تمہاری خبروں کی تصدیق واجب ہے تو باقی لوگوں کی خبروں کی تصدیق کیوں ضرورت نہیں جو اپنے انبیاء کے معجزات نقل کرتے ہیں جب مسئلے کی صورت یہ ہو تو پھر تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ دوسرے انبیاء کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔

یہودی عالم نے جواب میں کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات یہود ، نصاریٰ اور مسلمان سب کے نزدیک ثابت ہیں اور سب ہی ان کا اعتراف کرتے ہیں جبکہ باقی انبیاء کے معجزات کا سب لوگ اعتراف نہیں کرتے اسی لئے باقی انبیاء کی نبوت محتاج دلیل ہے۔

میں نے کہا : مسلمانوں اور نصاریٰ کے نزدیک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اس لئے ثابت ہیں کہ ان کے نبی (حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت خاتم الانبیا (ص) نے ان معجزات کی خبر دی ہے اس وجہ سے ثابت نہیں کہ خبر متواتر ان معجزات پر دلالت کرتی ہو اگر حضرت موسیٰ ؑ کے معجزات کے بارے میں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد مصطفی (ص) کی خبر کی تصدیق ضروری ہے تو ان کی نبوت کی تصدیق بھی ضروری ہونی چاہئے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں اگر اس سلسلے میں ان کی تصدیق ضروری ہو تو ان کی خبر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بھی ثابت نہیں ہو سکیں گے یہ تو گزشتہ شریعتوں کا حال تھا۔

۶۳۸

جہاں تک شریعت اسلام کاتعلق ہے اس کی حجت اور دلیل ہمیشہ کیلئے باقی ہے اور قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے ایک چیلنج کے طورپر باقی رہے گی جب شریعت اسلام ثابت ہو گی تو اس کی بنیاد پر گزشتہ تمام انبیاء کی تصدیق بھی ہم پر واجب ہو گی اس لئے کہ قرآن مجید نے بھی اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا نے بھی ان انبیاء کی نبوت کی شہادت دی ہے پس معلوم یہ ہوا کہ قرآن کریم ہی وہ یگانہ اور ابدی معجزہ ہے جو تمام آسمانی کتابوں کی صداقت ، اور انبیاء علیہم السلام کی عصمت اور پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے۔

ضمیمہ (۵) ص ۴۳

ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

خداوند عالم نے لوگوں کی ہدایت کیلئے اپنے نبی کو بھیجا اور قرآن کریم کے ذریعے آپ (ص) کی عظمت بیان کی اور لوگوں کو سعادت و ارتقائی مراحل تک پہنچانے والا ہر امر قرآن میں موجود ہے اور یہ خدا کا وہ لطف و کرم ہے جو کسی ایک قوم سے مختص نہیں بلکہ تمام انسانیت کو شامل ہے مشیّت الٰہی یہی ہے کہ اپنے نبی کی قوم کی زبان میں ہی اپنا پیغام آپ (ص) پر نازل کیا جائے جبکہ قرآن کی تعلیمات اور ہدایات ہر دور کے انسانوں کو شامل ہیں اسی نکتہ کے پیش نظر ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ قرآن مجید کو سمجھے تاکہ اس سے ہدایت حاصل کر سکے۔

۶۳۹

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کا ترجمہ قرآن کو سمجھنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن ترجمہ کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترجمہ کرنے والا شخص لغت عربی پر مکمل عبور رکھتا ہو جس سے کسی دوسرے لغت میں قرآن کا ترجمہ کرنا چاہتا ہے۔

اس لئے کہ ترجمہ چاہے کتناہی مستحکم اور مضبوط ہو اس میں فصاحت و بلاغت اور وہ خصوصیات حاصل نہیں ہو سکتیں جن کی بدولت قرآن کو امتیازی مقام حاصل ہے یہی بات قرآن کے علاوہ دوسرے کلاموں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کیونکہ یہ عین ممکن (یہ خطرہ باقی رہتا ) ہے ترجمہ سے اس نتیجہ تک پہنچا جائے جو اس کے اصل مضمون کے بالکل برعکس ہو۔

پس ترجمہ قرآن کیلئے سب سے پہلے قرآن کا سمجھنا ضروری ہے اور قرآن فہمی کا دارو مدار تین چیزوں پر ہے ۔

۱۔ ظہور لفظی جس کو فصیح عرب سمجھیں۔

۲۔ عقل فطری کا حکم ، جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو۔

۳۔ تفسیر قرآن کے سلسلے میں معصومین (ع) کی روایات۔

بنا براین مترجم کیلئے ضروری ہے کہ وہ مندرجہ بالا تین چیزوں کا مکمل احاطہ رکھتا ہو تاکہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کو کسی دوسری لغت میں نقل کر سکے۔

باقی رہی ذاتی رائے جس کو بعض مفسرین اپنی تفسیروں میں پیش کرتے ہیں اور وہ ان گزشتہ رہنما اصولوں کی روشنی میں حاصل نہ ہو تو وہ تفسیر بالرائے ہے اور اس کی کوئی حیثیت اور مقام نہیں مترجم کو چاہئے کہ ترجمہ کے سلسلے میں اس قسم کی تفسیروں کا سہارا نہ لے۔

ترجمہ کے سلسلے میں ان نکات کومدنظر رکھتے ہوئے حقائق قرآن اور اس کے مفاہیم ہر قوم کیلئے اسی کی لغت میں پیش کئے جائیں کیونکہ قرآن تمامل وگوں کی ہدایت کیلئے نازل کیاگیا ہے ، اور جب تک قرآن کی تعلیمات اور اس کے حقائق تمام انسانوں کیلئے لغت قرآن کو ، عام انسانوں اور قرآنی تعلیمات کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہئے۔

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689