البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن5%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313931 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

یہ کہنا بھی درست نہیں کہل فظ اللہ کا واضع خود خدا ہے اور خدا کیلئے یہ محال نہیں کہ وہ اپنی ذات کیلئے کسی لفظ کو وضع کرے کیونکہ خدا اپنی ذات کا احاطہ کر سکتا ہے یہ بات اس لئے درست نہیں کہ اس وضع کا کوئی فائدہ مترتب نہیں ہوگا کیونکہ جس طرح وضع معنی کے تصور پر موقوف ہے اسی طرح لفظ کا کسی معنی میں استعمال کرنا بھی معنی کے تصور پر موقوف ہے جو ایک مخلوق کیلئے محال ہے جب معنی کا تصور محال ہوگا تو لفظ اس معنی میں استعمال بھی محال ہو گا اور جب استعمال محال ہو گا تو وضع بے فائدہ ہو کر رہ جائے گی۔ اس کے علاوہ یہ قول (لفظ اللہ کا واضع خدا ہو) بذات خود باطل ہے۔

جواب: اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ وضع ، معنی کے تفصیلی اور پوری حقیقت کے تصور پر موقوف نہیں بلکہ وضع اور استعمال دونوں کیلئے معنی کا اجمالی اور مختصر سا تصور کافی ہے اگرچہ یہ تصور معنی کی طرف اشارہ کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو اور اتنا تصور واجب کا بھی ہو سکتا ہے اور ممکن کا بھی۔

ہاں! واجب کا تصور بکہہ (پوری حقیقت کا تصور) ممکن نہیں اور اس طرح کا تصور نہ وضع میں ضروری ہے اور نہ استعمال میں۔ اگر وضع کیلئے اس قسم کا تصور ضروری ہو تو واجب الوجود کے علاوہ بہت سے ان ممکنات کا وضع اور استعمال بھی ناممکن ہو جائے گا جن کی پوری حقیقت کا تصور محال ہے جس طرح روح ، ملک اور جن میں اس میں کوئی شک نہیں کرتا کہ اسم اشارہ اور ضمیر کو استعمال کر کے اس سے ذات اقدس باری تعالیٰ کاارادہ کیا جا سکتا ہے اسی طرح اس لفظ کو ادا کر کے بھی واجب الوجود کا ارادہ کیا جا سکتا ہے جس کو واجب الوجود کیلئے وضع کیا گیا ہو چونکہ ذات باری تعالیٰ تمام صفات کمال کی جامع ہے اور وضع کے موقع پر ان کمالات کی کسی خاص جہت کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اس لئے یہ کہنا بالکل صحیح ہو گا کہ لفظ اللہ کو اس ذات کیلئے وضع کیا گیا ہے جو تمام صفات کمالیہ کی جامع ہے۔

۵۴۱

اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اگر لفظ اللہ ذات واجب الوجود کا مخصوص نام ہو تو اس آیہ کریمہ کامعنی غلط ہو جاتا ہے۔

( وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ) ۶:۳

''اور وہی تو آسمانوں میں (بھی) اور زمین میں (بھی)خدا ہے،،۔

اس لئے کہ اگر لفظ اللہ علم شخصی ہو تو آیہ کریمہ کا معنی ہو گا: ''آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کی ذات موجود ہے،، اس طرح خدا کیلئے مکان ثابت ہو گا جو محال ہے لامحالہ اللہ کا معنی معبود ہونا چاہئے تاکہ آیہ شریفہ کا معنی یہ ہو ''اللہ آسمانوں اور زمینوں میں معبود ہے،، یعنی آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کی عبادت ہوتی ہے ۔

جواب:/ اس آیہ شریفہ کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی ذات سے کوئی مکان خالی نہیں ہے اور یہ کہ وہ آسمانوں اور زمینوں میں موجود ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور مخفی سے مخفی چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ہے چنانچہ اس مفہوم کی تائید بعد والے جملے سے بھی ہوتی ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ ) ۶:۳

''وہی تمہارے ظاہر و باطن سے (بھی)خبردار ہے اور وہی جو کچھ بھی کرتے ہو جانتا ہے،،۔

ابو جعفر ، جو صدوق کے خیال کے مطابق محمد بن نعمان ہیں ، کہتے ہیں۔

''امام جعفر صادق (علیہ السلام ) سے آیہ شریفہ :

( وَهُوَ اللَّـهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ) ۶:۳

کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ (ع) نے فرمایا ایسا ہی ہے خدا ہر جگہ ہے میں نے عرض کیا کیا ذات خدا ہر جگہ موجود ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا افسوس کی بات ہے ! مکان کا مطلب محدودیت ہوتا ہے اگر تم یہ کہو کہ خدا کسی خاص جگہ موجود ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ خدا کو کسی خاص حد میں محدود کریں ذات خدا تو اپنی مخلوق سے مختلف ہے اس کا علم ، قدرت اور سلطنت تمام مخلوق کا احاطہ کئے ہوئے ہے،،

____________________

نمبر۱ تفسیر البرہان: ج ۱ ، ص ۳۱۵

۵۴۲

اگر لفظ اللہ کو علم (اسم خاص) مانا جائے تو الف اور لام کلمہ کے لازمی اجزاء شمار ہوں گے لیکن الف ، الف وصل ہے جو ملا کر پڑھنے کی صورت میں ساقط ہو جاتا ہے ہاں ! اگر یہی ہمزہ حرف ندا کے بد واقع ہو تو ہمزہ پڑھا جائے گا اور ''یااللہ،، پڑھا جائے گایہ بات لفظ اللہ کی خصوصیات میں سے ہے اور کلام عرب میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی بعید نہیں کہ لفظ اللہ کسی دوسرے لفظ سے منقول ہو اس احتمال کی بناء پر اللہ ''لاہ،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی احتجاب و ارتفاع (پوشیدگی وبلندی) ہے یہ مصدرہے جو فاعل کے معنی میں ہو گا کیونکہ درحقیقت مرتفع اور بلند ذات صرف خدا کی ہے جس میں کسی قسم کی پستی کی شائبہ تک نہیں اپنے آثار و قدرت کی وجہ سے ظاہر و آشکار ہونے کے باوجود اس کی ذات اور حقیقت مخفی و پوشیدہ ہے نہ کوئی آنکھ اسے درک کر سکتی ہے اور نہ افکار کی اس کی حقیقت تک رسائی ہو سکتی ہے۔

فیک یا اعجوبة الکو ن غدا الفسکر کلیلا انت خیرت ذوی اللب و بلبلت العقولا کلما اقدم فکری فیک شبراً فرمیلا ناکصاً نحبط فی عشواء لا هدی السبیلا

''اے عجوبہ روزگار ، فکریں تیرے بارے میں سوچتے سوچتے تھک گئی ہیں تو نے صاحبان عقل کو حیرت میں ڈال دیا ہے اور عقلوں کو سرگرداں کر دیاہے جب بھی تیری ذات کے بارے میں سوچتے سوچتے میری فکر ایک بالشت آگے بڑھی ہے اسے سرگرداں ہو کر دوبارہ ایک میل پیچھے ہٹنا پڑتاہے جہاں وہ ظلمت میں ٹامک ٹوئیاں مارتی ہے اور اسے کوئی راستہ نہیں ملتا،،۔

اس قول کا کوئی مجوز نہیں کہ لفظ اللہ ''الہ،، بمعنی عبد (عبادت کی) یا ''آلہ ،، بمعنی تحیر ہوتا کہ ''الہ،، بمعنی مفعول ہو جس طرح کتاب بمعنی مکتوب ہے یہ ایک غیر ضروری قول ہے۔

۵۴۳

الرحمن : یہ لفظ ''رحمت،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی مشہور و معروف ہے اور یہ سختی و سنگ دلی کے مقابلے میں آتا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

( أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ ) ۴۸:۲۹

''جان لو کہ یقیناً خدا بڑا سخت عذاب والا ہے اور یہ بھی کہ خدا بڑے بخشنے والا مہربان ہے،،۔

رحمت ، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے اور رقت قلب اس کے مفہوم میں شامل نہیں ہے لیکن جب یہ کسی بشر میں پائی جائے تو یہ رقت قلب کے معنی میں استعمال ہوتی ہے پس رحمت اپنے حققی معنی میں خلق اور رزق کی طرح خدا کی صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں جو اس کی ذات سے کبھی جدا نہیں ہو سکتیں جس طرح حیات اور قدرت ہے اللہ جب چاہے رحمت ایجاد فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

( رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِكُمْ ۖ إِن يَشَأْ يَرْحَمْكُمْ أَوْ إِن يَشَأْ يُعَذِّبْكُمْ ۚ ) ۱۷:۵۴

''تمہارا پروردگار تمہارے حال سے خوب واقف ہے اگر چاہے گاتم پر رحم کریگا اور اگر چاہے گا تم پر عذاب کریگا،،۔

( يُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ وَيَرْحَمُ مَن يَشَاءُ ۖ وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ ) ۲۹:۲۱

''جس پر چاہئے عذاب کرے اور جس پر چاہے رحم کرے اور تم لوگ (سب کے سب) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے،،۔

غرض جہاں جہاں اس کی حکمت کا تقاضا ہوتا ہے وہاں رحمت ایجاد فرماتا ہے قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ سے طلب رحمت کی تاکید کی گئی ہے۔

( وَقُل رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ ) ۲۳:۱۱۸

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تم کہو پروردگار تو (میری امت کو ) بخش دے اورترس کھا اور تو تو سب رحم کرنے والوں سے بہتر ہے،،۔

۵۴۴

کئی مفسرین اور اہل لغت کا یہ عقیدہ ہے کہ ''رحمن،، مبالغہ کا صیغہ ہے اور رحمت کی کثرت پر دلالت کرتا ہے اور یہ بات خاص کر اس لفظ میں درست ہے چاہے ''فعلان،، کا وزن مبالغہ کیلئے استعمال ہو یا نہ ہو کیونکہ لفظ ''رحمن،، جہاں بھی استعمال ہوا ہے متعلق (مفعول) کے بغیر استعمال ہوا ہے (یعنی یہ ذکر نہیں ہوتا کہ اللہ کس پر رحم کرتا ہے) اس سے عموم سمجھا جاتا ہے اور یہ کہ رحمت خدا ہر شئی کو شامل ہے قرآن مجید میں یہ جملہ تو موجود ہے ''ان اللہ بالناس لرحیم ،، یا ''ان اللہ بالمومنین لرحمن،، یعنی اللہ لوگوں پر یا مومنین پر رحیم ہے لیکنیہ جملہ کہیں موجود نہیں ''ان اللہ بالناس،، یا ''بالمومنین لرحمن،، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ''رحمن،، مبالغہ پر دلالت کرتا ہے۔

لفظ ''رحمن ،، اللہ کے مخصوص لقب کی حیثیت رکھتا ہے اور غیر خدا پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ قرآن کی متعدد آیات میں لفظ ''رحمن،، رحمت کے اعتبار سے نہیںبلکہ ذات الٰہی کے لقب کے اعتبار سے استعمال ہوا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( قَالُوا مَا أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَمَا أَنزَلَ الرَّحْمَـٰنُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ ) ۳۶:۱۵

'' وہ لوگ کہنے لگے تم لوگ بھی تو بس ہمارے ہی آدمی ہو اور خدا نے کچھ نازل (وازل) نہیں کیا ہے،،۔

( إِن يُرِدْنِ الرَّحْمَـٰنُ بِضُرٍّ لَّا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنقِذُونِ ) ۲۳

''اگر خدا مجھے کوئی تکلیف پہنچانا چاہئے تو نہ ان کی سفارش ہی میرے کچھ کام آئے گی اور نہ یہ لوگ مجھے (اس مصیبت سے )چھڑا ہی سکیں گے،،

( هَـٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَـٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ ) : ۵۲

''کہ یہ وہی (قیامت کا) دن ہے جس کا خدا نے (بھی) وعدہ کیاتھا اور پیغمبروں نے بھی سچ کہا تھا،،

( مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَـٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ) ۶۷:۳

''بھلا تجھے خدا کی آفرنیش میں کوئی کسر نظر آتی ہے،،

۵۴۵

درج ذیل آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ لفظ ''رحمن،، ذات الٰہی سے مختص ہے۔

( رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ) ۱۹:۶۰

''سارے آسمان و زمین کا مالک ہے اور ان چیزوں کا بھی جو دونوں کے درمیان میں ہیں، تم اس کی عبادت کرو اور اس کی عبادت پر ثابت قدم رو ، بھلا تمہارے علم میں اس کا کوئی ہمنام بھی ہے۔

قابل ملا خطہ یہ نکتہ ہے کہ اس سورہ (مریم) میں اللہ نے لفظ ''رحمن،، کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے حتیٰ کہ لفظ ''رحمن،، کی سولہ مرتبہ تکرار کی گئی ہے اس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ اس نام (رحمن) میں اللہ کا کوئی شریک اور ہمنام نہیں ہے۔

الرحیم :/ یہ لفظ صفت مشبہ کا صیغہ ہے یا مبالغہ کا اس وزن کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اکثر اوقات صفات عزیزہ اور ان لوازمات میں استعمال ہوتا ہے جو ذات سے جدا نہیں ہوتے جیسے لفظ ''علیم،، ، ''قدیر،، ، ''شریف،، ، ''وضیع،، ، ''سخی،،، اور ''دنی،، ہیں ان دونوں صفات (رحمن و رحیم) میں فرق یہ ہے کہ رحیم اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ رحمت ذات کا لازمہ ہے اور اس سے جدا نہیں ہو سکتی اور رحمن صرف اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ ذات میں صفت رحمت موجود ہے اس صفت کے دوام اور ہمیشگی پر دلالت نہیں کرتا۔

رحیم میں رحمت کاایک عزیزہ اور صفت نفسانی ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ یہ لفظ قرآن کریم میں جہاں کہیں متعلق (جس پر رحم کیا جائ) کے ساتھ استعمال ہوا ہے ''ب،، کے ذریعے متعدی استعمال ہوا ہے۔

جیسے۔

( إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ) ۲:۱۴۳

''بیشک خدا لوگوں پر بڑا ہی رفیق اور مہربان ہے،،۔

( وَكَانَ بِالْمومنينَ رَحِيمًا ) ۳۳:۴۳

''اور خدا تو ایمانداروں پر بڑا مہربان ہے،،

۵۴۶

گویا رحیم کو متعلق کے ساتھ ذکر کرتے وقت اسے متعدی سے لازم میںتبدیل کیا جاتا ہے اس لئے ''با،، کے ذریعے متعدی بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

آلوسی کا عقیدہ یہ ہے کہ رحمن اور رحیم صفت شبہ کے صیغے نہیں ہیں اس لئے کہ یہ دونوں الفاظ جملہ''رحمن الدنیا والاخرة و رحیمهما،، میں اپنے مفعول کی طرف مضاف نہ ہوتے لیکن آلوسی کا یہ استدلال تعجب خیز ہے اس لئے کہ گزشتہ جملہ :رحمن الدنیا و الاخرة و رحیمهما میں یہ دونوں صیغے مفعول کی طرف مضاف نہیں ہوئے بلکہ زمان و مکان کی طرف مضاف ہوئے ہیں زمان و مکان کی طرف لازم بھی مضاف ہو سکتا ہے اور متعدی بھی۔

بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ''رحمن،، اسم خاص ہے (صرف خدا سے مختص سے) اس کا معنی عام ہے جو رحمت دنیا و رحمت آخرت مومنو کافر سب کو شامل ہے لیکن ''رحیم،، اسم عام ہ(جو خدا کیلئے بھی بولا جاتا ہے اور غیر خدا کیلئے بھی) لیکن اس کا معنی خاص ہے اور رحمت آخرت یا مومنین پر رحمت سے مختص ہے۔

لیکن ان روایات کی یاتاویل کی جائے گی یا انہیں مسترد کر دیا جائے گا اس لئے کہ یہ روایات کتاب الٰہی کیخلاف ہیں کیونکہ قرآن میں لفظ '' رحیم،، نہ تو اس رحمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو مومنین سے مختص ہو اور نہ اس رحمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو آخرت سے مختص ہو ارشاد ہوتا ہے۔

( فَمَن تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ) ۱۴:۳۶

''تو جو شخص میری پیروی کرے تو وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری نافرمانی کی (تو تجھے اختیار ہے) تو تو بڑا بخشنے والا مہربان ہے،،۔

____________________

نمبر ۱ تفسیر آلوسی ، ج ۱ ص ۵۹ نمبر۲ تفسیر طبری ، ج ۱ ص ۴۳ تفسیر البرہان ، ج ۱ ، ص ۲۸

۵۴۷

( نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ) ۱۵:۴۹

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ بشک اس میں بڑا بخشنے والا مہربان ہوں،،

( إِنَّ اللَّـهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ ) ۲۲:۶۵

''اس میں شک نہیں کہ خدا لوگوں پر بڑا مہربان رحم والا ہے،،۔

( رَّبُّكُمُ الَّذِي يُزْجِي لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا ) ۱۷:۶۶

''اور اگر چاہے تو منافقین کی سزا کرے یا (اگر وہ لوگ توبہ کریں تو) خدا ان کی توبہ قبول فرمائے اس میں شک نہیں کہ خدا بڑا بخشنے والا مہربان ہے،،

قرآن میں اس مضمون کی آیات اور بھی ہیں اس کے علاوہ بعض دعاؤںاور روایات میں یہ جملہ بھی موجود ہے''رحمن الدنیا والاخرة و رحیمهما،، یعنی اللہ دنیا و آخرت میں رحمن و رحیم ہے۔

ممکن ہے ان روایات میں ، جن میں رحیم کو اسم عام اور اس کا معنی خاص قرار دیا گیا ہے ، اختصاص سے مراد یہ ہو کہ اگر انسان پر اللہ کی رحمت دنیا کی طرح آخرت میں بھی شامل نہ ہو اور یہ آخرت میں منقطع ہو جائے تو یہ رحمت نہ رہی بھلا اس رحمت کا کیا فائدہ نمبر ۲ جس کا انجام کار عذاب اور خسارہ ہو۔ اس لئے کہ زائل اور منقطع ہونے والی رحمت دائمی عذاب کے مقابلے میں کالعدم قرار پاتی ہے اس مناسبت سے یہ کہنا صحیح ہو گا کہ رحمت صرف مومنین یا عالم آخرت سے مختص ہے۔

____________________

نمبر ۱ صحیفہ سجادیہ کی دعا جو ہم وغم کے موقع پر پڑھی جای ہے مستدرک حاکم ، ج ۱ ، ص ۱۵۵

نمبر ۲: اس مطلب کی طرف بعض منقول دعاؤں میں اشارہ کیا گیا ہے۔

۵۴۸

اعراب

بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ بسم اللہ میں جارو مجرور کا متعلق ''اقرائ،، یا ''اقوال ،، یا ''قل،، ہے بعض کا عقیدہ یہ ہے کہ جارو مجرور کا متعلق ''استعین،، یا ''استعن،، ہے تیسرا قول یہ ہے کہ جارو مجرور کا متعلق ''ابتدی،، ہے پہلے دو اقوال صحیح نہیں ہیں۔

دوسرا قول اس لئے باطل ہے کہ استعانۃ (مدد طلبی) اللہ کی طرف سے محال ہے کیونکہ ذات الٰہی بے نیاز ہے خدا نہ اپنی ذات سے مدد طلب کرتا ہے اور نہ اپنی صفات حسنہ سے اور مخلوق ، اللہ کی ذات سے مدد مطلب کرتی ہے اس کے اسماء حسنہ سے نہیں اس کی تصریح آیت( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) میں موجود ہے۔

پس معلوم ہوا کہ جارو مجرور کا متعلق ''ابتدی،، ہے اقوال یا اقراء نہیں ۔ اللہ کی طرف اسم کی اضافت بیانیہ نہیں ہے تاکہ اللہ الرحمن الرحیم سے مراد صرف الفاظ ہوں اس لئے کہ یہ احتمال بعید ہے اس کے علاوہ ان تینوں الفاظ کا مجموعہ مراد نہیں لیا جا سکتا اس لئے کہ یہ مجموعہ اسماء الٰہی میں سے نہیں ہے اور اگر ان سے مراد ایک ایک لفظ مستقل ہو تو حرف عطف ہونا چاہئے تھا اور جملہ یوں ہونا چاہئے تھا ''بسم اللہ والرحمن و الرحیم،، پس معلوم ہوا اضافہ معنویہ ہے بیانیہ نہیں اور لفظ ''اللہ،، اپنے معنی اور مسمیٰ میں استعمال ہواہے۔

تفسیر

کیونکہ قرآن کے سورے ، بشر کی اس کے ممکنہ کمال تک رہنمائی اور اسے شرک و جہالت کی ظلمت سے نکال کر نور توحید و معرفت سے منور کرنے کی غرض سے نازل ہوئے ہیں لہٰذا عین مناسب ہے کہ ہر سورہ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کے اسم سے کی جائے کیونکہ اسم خداوندی ہی ذات الٰہی کا مظہر بن سکتا ہے اور قرآن اسی مقصد کے لئے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس سے اللہ کی معرفت حاصل کی جائے۔

۵۴۹

البتہ سورہ برات اس امر سے مستثنیٰ ہے کیونکہ اس کی ابتداء مشرکین سے برات اور بیزاری کے اظہار سے کی گئی ہے اور اس مقصد کیلئے سورہ نازل کیا گیا ہے لہٰذا اسم خدا کا ذکر کرنا مناسب نہیں تھا خصوصاً جب اس اسم کے ساتھ الرحمن الرحیم کی صفت بھی لائی جائے ۔ نمبر۱

خلاصہ: جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب تکوینی (عالم ہستی) کا آغاز اپنے کامل اسم مقدس سے فرمایا اور تمام مخلوقات سے پہلے حقیقت محمدیہ اور نور محمد نبی اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کو خلق فرمایا اسی طرح اپنی کتاب تدوینی (قرآن) کا آغاز بھی اپنے اسم مبارک سے فرمایا۔

وضاحت: اسم ہر اس لفظ کو کہتے ہیں جو کسی ذات پر دلالت کرے اس لاظ سے اسماء الٰہی کی دو قسمیں ہیں۔

(۱) تکوینی

(۲) قراردادی

قراردادی اسماء وہ ہیں جو کسی ذات یا صفات ثبوتیہ و سلبیسہ پر دلالت کی غرض سے وضع کئے گئے ہوں۔

اسماء تکوینی وہ ممکن موجودات ہیں جو اپنے وجود کے ذریعے خالق کے وجود اور اس کی توحید پر دلالت کریں۔

ہر گیا ہی کہ از زمین روید

وحدہ لاشریک لہ گوید

____________________

نمبر ۱ ابن عباس روایت کرتے ہیں میں نے امیر المومنین (ع) سے پوچھا سورہ برات کے شروع میں بسم اللہ کیوں نہیں ؟ آپ (ع) نے فرمایا : اس لئے کہ بسم اللہ امن کا پیغام ہے اور برات تلواروں کیساتھ نازل ہوا ہے ، اس میں امن کا پیغام نہیں مستدرک ج ۲ ، ص ۳۳

۵۵۰

ارشادباری ہے:

( أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ ) ۵۲:۳۵

''کیا یہ لوگ کسی کے (پیدا کئ) بغیر یہ پیدا ہو گئے ہیں یا یہی لوگ (مخلوقات کے ) پیدا کرنے والے ہیں،،

( لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ ) ۲۱:۲۲

''اگر بفرض محال زمین اور آسمان میں خدا کے سوا چند معبود ہوتے تو دونوں کب کے برباد ہو گئے ہوتے،،

پس کائنات کی ہر شئی اپنے خالق کے وجود اور اس کی توحید کا بین ثبوت اور واضح دلیل ہے جس طرح لفظی اسماء الٰہی دلالت کے اعتبار سے مختلف ہیں یعنی بعض اسماء الٰہی صفات کمال کی جامع ذات پر دلالت کرتے ہیں اور بعض صفات کمال کی ایک جہت و پہلو کو اجاگر کرتے ہیں اسی طرح اللہ کے اسماء تکوینی بھی اس اعتبارسے مختلف ہیں اگرچہ تمام اسماء تکوینی وجود ، توحید ، علم ، قدرت اور دیگر صفات کمال پر دلالت کرنے میں شریک ہیں لیکن ہر اسم تکوینی (موجود امکانی) ایک خاص پہلو پر دلالت کرتا ہے اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی موجود جتنا قوی ہو گا اسی نسبت سے اس کی دلالت بھی قوی اور آشکار ہو گی۔

یہیں سے ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ ہدیٰ (علیہم السلام) پر اسماء حسنیٰ کا اطلاق صحیح ہے چنانچہ بعض روایات میں ائمہ ہدیٰ کو اسماء حسنیٰ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نمبر۱

پس اللہ نے اپنی کتاب تدوینی (قرآن) کی ابتداء ان پاکیزہ اور باعظمت الفاظ سے کی جو اسم اعظم کے نزدیک ہیں ، اتنے نزدیک کہ آنکھ کی سفیدی بھی آنکھ کی سیاہی کے نزدیک نہیں ہے۔ نمبر۲

____________________

نمبر۱ کافی باب النوا درمن ابواب التوحید ، ص ۷۰ الوافی ، ج ۱ ، ص ۱۰۹ تفیسر البرہان ، ج ۱ ، ص ۳۷۷

نمبر ۲ الوافی ، ج ۵ ، ص ۹۹ ۔ التہذیب ، ج ۱ ، ص ۲۱۸۔ المستدرک للحاکم ، ج ۱ ، ص ۵۵۲ ۔ کنز العمال ، ج ۲ ، ص ۱۹۰ ، مزید ملا خطہ ہو ضمیمہ نمبر ۱۲

۵۵۱

اسی خدا نے اپنی کتاب تکوینی کی ابتداء عالم وجود خارجی میں اسم اعظم (رسول اکرم (ص) سے فرمائی نمبر۱۔ اس طرح انسان کو یہ تلیقن کی جا رہی ہے کہ اپنے تمام اقوال و افعال کی ابتداء نام اللہ سے کریں جناب نبی کریم (ص) سے مروی ہے۔

کل کلام او امرذی بال لم یفتح بذکرالله عزوجل فهوابتر اوقال اقطع نمبر ۲

''ہر باعظمت کلام یا فعل جس کی ابتداء نام اللہ عزوجل سے نہ کی جائے وہ نامکمل اور بے ثمر رہتا ہے،،

امیر المومنین (ع) سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا کہ ا للہ تعالیٰ فرماتا ہے:

کل امر ذی بال لم یذکرفیه بسم الله فهوابتر : نمبر۳

''ہر وہ کام جس کی ابتداء بسم اللہ سے نہ کی جائے وہ ناقص رہتا ہے،،۔

۵۵۲

آیہ ''بسم اللہ ،، کے بارے میں بحث اول

٭ آغاز قرآن بہ رحمت

٭بعد از رحمن ذکر رحیم

٭کیا بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے ؟

٭ بسم اللہ کے جز قرآن ہونے کے دلائل

٭ اہل بیت اطہار (ع) کی احادیث

٭اہل سنت کی احادیث

٭ معارض روایات

٭ سیرت مسلمین

٭ تابعین اور صحابہ کا قرآن

٭ منکرین کے دلائل

٭ تحلیل آیتہ ، الحمداللہ رب العالمین الرحمن الرحیم ۔ مالک یوم الدین

٭قرات ---------- ٭تفسیر---------- ٭ قراتوں کی ترجیحات -------- ٭ تحلیل آیتہ ، ایاک نعبدوایاک نستعین

٭ ترجیحات کا بے فائدہ ہونا ---------- ٭ لغت ، العبادۃ--------- ٭ دوسروں کا جواب

٭ الاستعانتہ

٭ ہمارا جواب

٭ اعراب

٭ لغات ، الحمد ، الرب ، العالم ، الملک ، الدین

٭ تفسیر

۵۵۳

آغاز قرآن بہ رحمت

اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کی ابتداء میں رحمت کو اپنی ذات کی صفت کے طور پر ذکر فرمایا ہے کسی دوسری صفت کمال کا ذکر نہیں فرمایا اس لئے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں پر رحمت بن کر نازل ہوا ہے لہٰذا عین مناسب ہے کہ کلام الٰہی کی ابتداء اسی صفت سے کی جائے جو ارسال رسل اور انزال کتب کی موجب ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی متعدد آیات میں قرآن مجید اور اپنے رسول (ص) کو رحمت قرار دیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( هَـٰذَا بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ) ۷:۲۰۳

''اور جو (امراض شرک وغیرہ) دل میں ہیں ان کی دوا اور ایمانداروں کیلئے رحمت ہے،،

( وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ ) ۱۶:۸۹

''اور ہم نے تم پر کتاب (قرآن) نازل کی جس میں ہر چیز کا (شافی) بیان ہے اور مسلمانوں کیلئے (سرتاپا) ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے،،۔

( وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمومنينَ ۙ ) ۱۷:۸۲

''اور ہم تو قرآن میں وہی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کیلئے (سراسر) شفاء اور رحمت ہے،،۔

( وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ) ۲۱:۱۰۷

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ہم نے تو تم کو سارے دنیا جہان کے لوگوں کے حق میں ازسرتاپا رحمت بنا کر بھیجا،،

( وَإِنَّهُ لَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمومنينَ ) ۲۷:۷۷

''اور اس میں بھی شک نہیں کہ یہ قرآن ایمانداروں کے واسطے ازسر تاپا ہدایت اور رحمت ہے،،۔

۵۵۴

بعد از رحمن ذکر رحیم

جیسا کہ اس سے قبل بیان کیا جا چکا ہے کہ ''فعیل،، ایک ایسی ہیت اور وزن ہے جو اپنے مادہ کی ایک صفت عزیزی اورطبیعی عادت ہونے پر دلالت کرتا ہے جو اپنی ذات سے جدا نہیں ہو سکتی اوراسی سے صفت ''رحیم،، کے صفت ''رحمن،، کے بعد لائے جانے کا نکتہ اور وجہ واضح ہو جاتی ہے بایں معنی کہ صفت ''رحمن،، اپنے عموم اور وسعت پر تو دلالت کرتی ہے لیکن اس پر دلالت نہیں کرتی کہ یہ صفت اپنی ذات کا لازمہ ہے اس لئے صفت ''رحمن،، کے بعد صفت ''رحیم،، کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ اس کے لازمہ ذات ہونے پر دلالت کرے۔

پس بلاغت قرآن کا یہ تقاضا ہے کہ اس آیہ میں ان دونوں اہداف (صفت کا عام اور وسیع ہونا اور لازمہ ذات ہونا) کی طرف اشارہ کیا جائے یعنی اللہ کی ذات ''رحمن،، ہے اور اس کی رحمت ہر شئی کے شامل حال ہے اور وہ ''رحیم،، بھی ہے یعنی یہ صفت اس کی ذات سے جدا نہیں ہوتی۔

بہت سے مفسرین اس نکتے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے اور انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ ''رحیم،، کی بہ نسبت ''رحمن،، کے معنی میں زیادہ وسعت پائی جاتی ہے اس لئے کہ کثرت حروف کثرت معانی پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن حق و حقیقت یہ ہے کہ اس تعلیل کا شمار مضحکہ خیز باتوں میں ہونا چاہئے کیونکہ الفاظ کی دلالت ، وضع کی کیفیت اور اس کی نوعیت کے تابع ہوتی ہے قلت حروف اور کثرت حروف کا اس سے کوئی ربطہ نہیں کتنے ہی الفاظ ایسے ہیں جن کے حروف کم ہیں لیکن معانی زیادہ ہیں اور کئی الفاظ ایسے ہیں جن کے حروف زیادہ ہیں لیکن معانی کم ہیں مثلاً لفظ ''حذر،، (جو مبالغہ کا صیغہ ہے) کثرت معنی (زیادہ ڈرپوک) پر دلالت کرتا ہے لیکن ''حاذر،، قلت معنی (صرف ڈرپوک) پر دلالت کرتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ مجرد اور مزیدفیہ ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں جیسا کہ ''ضر،، اور ''اضر،، کامعنی ہے ''ضضر اور نقصان پہنچایا،، جبکہ ''ضر،، کی بہ نسبت ''اضر،، میں حروف زیادہ ہیں۔

لفظ ''رحمن،، کے بعد ''رحیم،، لانے کی اب تک جو وجہ بیان کی گئی ہے وہ اس بات پر مبنی ہے کہ ''رحمن،، اشتقاقی معنی میں استعمال ہو لیکن اگر لفظ ''رحمن،، اسماء خداوندی میں سے ہو اور اپنے لغوی معنی سے نقل ہو کر لقب الٰہی کے طور پر استعمال ہو (چنانچہ) اس سے قبل یہ بات ثابت کی جا چکی ہے) تو گزشتہ وجہ کے علاوہ اس لفظ کے لغوی معنی سے نقل ہونے کے سبب کی طرف اشارہ ہو گا اور وہ یہ کہ اللہ کی ذات وسیع رحمت سے متصف ہے۔

۵۵۵

کیا بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے؟

تمام علمائے شیعہ امامیہ کااتفاق ہے کہ ہر سورہ کی ابتداء میں موجود بسم اللہ اس سورہ کا حصہ ہے اس قول کو ابن عباس ، ابن مبارک اور اہل مکہ جیسے ابن کثیر ہے ،نیز اہل کوفہ جس طرح عاصم اور کسائی ہیں ، نے اختیار کیا ہے۔ البتہ حمزہ نے اس کی مخالفت کی ہے۔

اکثر علمائے شافعی نے اسی قول کو اختیار کیا ہے نمبر ۱ مکہ اور کوفہ کے علماء بھی اسی پر یقین رکھتے ہیں نمبر ۲ یہی قول ابن عمر ، ابن زبیر ، ابی ھریرہ ، عطاء ، طاؤس ، سعید بن جبیر ، مکحول ، زہری اور ایک روایت کے مطابق احمد بن حنبل ، اسحاق بن راہویہ اور ابو عبید القاسم بن سلام سے منقول ہے۔ نمبر ۳ بیہقی نے اس قول کو توری اور محمد بن کعب سے نقل کیا ہے۔ نمبر۴ رازی نے اپنی تفسیر میں اسی قول کو اختیار کیا ہے اور اس نے اسے قراء مکہ و کوفہ اور اکثر فقہائے حجاز ، ابن مبارک اور ثوری کی طرف نسبت دی ہے جلال الدین سیوطی نے بھی اسی قول کو اختیار کیا اور یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس پر روایت متواترہ (تواتر معنوی) دلالت کرتی ہیں نمبر۵:

بعض شافعی اور حمزہ کاکہناہے ''بسم اللہ صرف سورہ فاتحہ کا حصہ ہے دوسرے سوروں کا نہیں،، جس طرح پہلا قول (بسم اللہ ہر سورہ کا جز ہے) احمد ابن حنبل کی طرف منسوب ہے اسی طرح یہ قول (بسم اللہ صرف سورہ فاتحہ کا جزء

____________________

نمبر۱ تفسیر آلوسی ، ج ۱ ، ص ۳۹

نمبر ۲ تفسیر الشوکانی ، ج ۱ ، ص ۷

نمبر ۳ تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۱۶

نمبر ۴ تفسیر الخازن ، ج ۱ ، ص ۱۳

نمبر ۵ الاتقان النوع ۲۲ ۔ ۲۷۔ ج ۱ ، ص ۱۳۵۔۱۳۶

۵۵۶

ہے) بھی احمد ابن حنبل کی طرف منسوب ہے نمبر۱

علمائے اہلسنت کی ایک جماعت جس میں مالک ، ابو عمرو اور یعقوب شامل ہیں کا عقیدہ ہے کہ بسم اللہ ایک جدا آیت ہے اور یہ کسی بھی سورہ کا جزء نہیں بلکہ یہ ہر سورہ کے آغاز میں بطور تبرک نازل کی گئی ہے نیز یہ دوسوروں کے درمیان فاصلہ کی غرض سے بھی نازل کی گئی ہے حنفی حضرات میں یہی قول مشہور ہے نمبر۲

البتہ اکثر حنفیوں کی رائے یہ ہے کہ نماز میں فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا واجب ہے زاہدی نے مجبتبیٰ سے نقل کیا ہے کہ ابو حنیفہ کی صحیح روایت کے مطاب قنماز کی ہر رکعت میں بسم اللہ پڑھنا واجب ہے نمبر۳

مالک کے نزدیک نمز میں بسم اللہ پڑھنا بذات خود مکروہ ہے لیکن علماء کی اکثریت سے ہم آہنگی اور اختلاف سے بچنے کیلئے ایسا کرنا مستحب ہے نمبر۴

بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کے دلائل

اس مسئلہ میں گزشتہ اقوال کے علاوہ بھی چند اقوال موجود ہیں لیکن ان سب کا ذکر کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے عمدہ یہ ہے کہ اس مقام پر مذہب حق (بسم اللہ جزء سورہ ہے) کی دلیل بیان کی جائے اس ضمن میں چند امور بیان کئے جاتے ہیں۔

____________________

نمبر۱: تفسیر الآلوسی ، ج ۱ ، ص ۳۹

نمبر ۲: ایضاً

نمبر۳: ایضاً

نمبر۴: الفقہ علی المذاہب الاربعہ ، ج ۱ ، ص ۲۵۷

۵۵۷

(۱) اہل بیت اطہار (ع) کی احادیث:

پہلی دلیل اہل بیت ا طہار (ع) کی وہ صحیح روایات ہیں جن میں بسم اللہ کے جزء سورہ ہونے کی تصریح موجود ہے نمبر۵۔ جب رسول اکرم (ص) نے انہیں (ع) قرآن کا ہم پلہ اور قرآن کی طرح ان (ع) سے تمسک کو واجب قرار دیا ہے تو اس مدعیٰ کو ثابت کرنے کیلئے یہی روایات کافی ہیں ذیل میں ہم یہ صحیح روایات پیش کرتے ہیں:

۱۔ معاویہ بن عمار سے روایت ہے:

''میں (معاویہ بن عمار) نے امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی: جب میں نماز کیلئے کھڑا ؟ تو کیا فاتحتہ القرآن میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بھی پڑھوں ؟ آپ (ع) نے فرمایا: ہاں میں نے عرض کی : فاتحتہ القرآن کے ساتھ بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی پڑھوں؟ آپ (ع) نے فرمایا: ہاں نمبر ۶

۲۔ یحییٰ ابن عمران ہمدانی روایت کرتے ہیں۔

''میں نے امام باقر (ع) کی خدمت میں لکھا: میری جان آپ (ع) پر قربان ہو ، اس شخص کے بارے میں آپ (ع) کیا فرماتے ہیں جو نماز میں سورہ حمد کے شروع میں تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتا ہے لیکن جب کوئی دوسرا سورہ پڑھتا ہے تو اس کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتا اور عباسی کا کہنا ہے کہ اس شخص کی نماز صحیح ہے۔ آپ (ع) نے اس کے جواب میں عباسی کی تذلیل کیلئے دو مرتبہ فرمایا: ایسا شخص اپنی نماز دوبارہ پڑھے، نمبر۱

____________________

نمبر ۵: فروع کافی ، باب قرات القرآن ، ص ۸۶ ۔ الاتبصار ، باب الجھربا بسملتہ ، ج ۱ ، ص ۳۱۱ ، التہذیب ، ج ۱ ، ص ۱۵۳ ، ۲۱۸ ، وسائل الشیعہ ، ج ۱ ، ص ۳۵۲ ،

نمبر ۶ کافی ، ج ۳ ، ص ۳۱۲

نمبر ۱: کافی ، ج ۳ ، ص ۳۱۳

۵۵۸

۳۔ صحیحہ ابن ابی اذینتہ میں ہے:

''جب رسول کریم (ص) تکبیرۃ الاحرام اور نہاز کے افتتاحیہ سے فارغ ہوئے اللہ کی طرف س وحی نازل ہوئی ، اب میرا نام لیجئے یہی وجہ ہے کہ سورہ کے آغاز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو واجب قرار دیا گیا ہے اس کے بعد وحی نازل ہوئی اے میرے حبیب (ص) میری حمد و ثناء کیجئے آپ (ص) نے فرمایا: الحمدللہ رب العالمین۔ اس کے بعد رسول اللہ (ص) نے دل میں فرمایا: شکراً (حمد الٰہی پر شکر کیا) پھر اللہ کی طرف سے وحی ہوئی : اے حبیب ! آپ (ص) نے میری حمد کے سلسلے کو منقطع کر دیا ہے پھر سے میرا نام لیجئے یہی وجہ ہے کہ ''الحمد،، میں ''الرحمن الرحیم،، کو دو مرتبہ واجب قرار دیا گیا ہے اور جب آپ (ص) ''ولاالضالین،، تک پہنچے تو آپ (ص) نے فرمایا : ''الحمد للہ رب العالمین شکرا،، تو اللہ کی طرف سے وحی ہوئی ایک مرتبہ پھر میرے ذکر کاسلسلہ منقطع ہو گیا اس لئے دوبارہ میرا نام لیجئے یہی وجہ ہے کہ سورۃ حمدکے بعد ہر سورہ سے پہلے ''بسم اللہ الرحمن الرحیم،، کو واجب قرار دیا گیا ہے پھر وحی نازل ہوئی یا محمد (ص) اپنے رب کے اوصاف بیان کیجئے اور کہئے:

قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾ ۔ نمبر ۲

(۲) اہل سنت کی احادیث

اہل سنت کی بھی بہت سی روایات بسم اللہ کے ہر سورہ کے جز ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے چند احادیث یہاں پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

''ایک مرتبہ رسول اللہ (ص) ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے اسی دوران اچانک آپ (ص) پر غنودگی طاری ہو گئی اور پھر آپ (ص) نے مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھایا ہم نے عرض کی :یا رسول اللہ (ص) آپ کے

____________________

نمبر ۲: کافی ، ج ۳

۵۵۹

مسکرانے کا کیا سبب ہے ؟ آپ (ص) نے فرمایا: ابھی ابھی مجھ پر ایک سورہ نازل ہوا ہے جو یہ ہے:

( بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ) ۔۔۔۔۔۔ الخ ،، نمبر۱

۲۔ وار قطنی نے صحیح سند سے امیرا لمومنین (ع) سے روایت کی ہے۔

''آپ (ع) سے پوچھا گیا سبع مثانی کونسا سورہ ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا: الحمد للہ رب العالمین آپ (ع) سے سوال کیاگیا: صرف چھ آیات ہیں ؟ آپ (ع) نے فرمایا:بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ بھی ایک آیہ ہے،، نمبر۲

۳۔ دار قطنی نے ہی صحیح سند کے ذریعے ابوہریرہ سے روایت کی ہے:

''رسول اللہ (ص) نے فرمایا جب بھی تم سورہ حمد پڑھوبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ بھی پڑھا کرو کیونکہ الحمد اساس قرآن، اساس کتاب اور سبع مثانی ہے اوربِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ، الحمد کی آیات میںسے ایک آیت ہے،، نمبر ۳۔

۴۔ ابن خزیمہ اور بیہقی نے صحیح سند کے ذریعے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''سبع مثانی فاتحتہ الکتاب کانام ہے آپ سے پوچھا گیا : ساتویں آیت کونسی ہے آپ نے فرمایا :بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ : نمبر۴

۵۔ ابن خزیمہ اور بیہقی نے ''المعرفہ،، میں صحیح سند کے ذریعے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''شیطان نے لوگوں سے قرآن کی ایک بہت بڑی آیت چرالی ہے اور وہ ہےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ،، نمبر۵

____________________

نمبر۱ صحیح مسلم باب حجتہ من قال البسملتہ آیتہ ج ۲ ، ص ۱۲ ۔ سنن النسائی باب قراء ۃ البسملتہ ج ،ص ۱۴۳ ، سنن ابی داؤد باب الجھربابسملہ ج ۱ ، ص ۱۲۵

نمبر۲ الاتقان النوع ۲۲۔ ۲۷ ج ۱ ، ص ۱۳۶ ۔ سنن بیہقی ج ۲ ، ص ۴۵

نمبر۳ ایضاً

نمبر۴ ایضاً ، مستدرکا لحاکم ج ۱ ، ص ۵۵۱

نمبر ۵ ایضاً ص ۱۳۵ ۔ سنن بیہقی ، ج ۲ ، ص ۵۰

۵۶۰

۶۔ سعیدبن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''جب تک آیہبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ نازل نہ ہوئی مسلمانوں کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ پہلا سورہ ختم ہوا ہے یا نہیں لیکن جب آیتبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ نازل ہوئی تو انہیں معلوم ہو جاتا تھا کہ پہلا سورہ ختم ہو گیا ہے :نمبر۶

۷۔ سعید نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''جب بھی جبرئیل نازل ہوتے اور بسم اللہ الرحمن پڑھتے ، آپ (ص) سمجھ جاتے کہ کوئی سورہ نازل ہو رہا ہے نمبر۱:

۸۔ ابن جریحنے روایت کی ہے :

''میرے والد نے مجھے بتایا کہ سعید بن جبیر نے انہیں کہا : ولقد ایتنک سبعا من المثانی میں ، سبع مثانی سے مراد، ام القرآن (سورہ حمد) ہے نیز سعید بن جبیر نے کہا :بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سورہ حمد کی ساتویں آیت ہے۔ جس طرح میں (سعید بن جبیر) نے تمہارے سامنےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کو پڑھا ہے اسی طرح ابن عباس نے اسے میرے سامنے پڑھا تھا اس کے بعد سعید بن جبیر نے پھر کہا :بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سورہ حمد کی ساتویں آیت ہے ابن عباس نے کہا: اللہ نے صرف تمہارے لئےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کو نازل فرمایا ہے تم سے قبل کسی اور کیلئے ایسی آیت نازل نہیں ہوئی ،،(۲)

ان کے علاوہ اور بھی اس مضمون کی روایات موجود ہیں جو شخص ان سے آگاہ ہونا چاہئے وہ کتب احادیث کی طرف رجوع کرے۔

____________________

نمبر۶ مستدرک الحاکم ، ج ۱ ، ص ۲۳۲ ۔ حاکم نے کہا ہے یہ روایت شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔

(۱) مستدرک الحاکم ج ۱ ، ص ۲۳۱

(۲) ایضاً ص ۵۵۰

۵۶۱

معارض روایات

طرفین کی ان تمام روایات کے مقابلے میں صرف دو روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورہ کا جز نہیں ہے۔

(۱) قتادہ نے انس بن مالک سے روایت کی ہے۔

''میں (انس بن مالک)نے رسول اللہ (ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ساتھ نماز پڑھی اور ان میں سے کسی کو نماز میںبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ پڑھتے نہیں سنا،،(۱)

(۲) ابن عبداللہ بن مغفل یزید بن عبداللہ نے روایت کی ہے:

''میرے والد نے نماز میںبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ پڑھتے مجھے سنا تو کہا :بیٹا خبردار! آئندہ ایسا نہ کرنا میں نے اصحاب پیغمبر (ص) میں اس عمل سے بدتر کوئی بدعت نہیں دیکھی میں نے رسول اللہ (ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کےساتھ نماز پڑھی ہے اور کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے نہیںسنا تم بھی نہ پڑھا کرو جب الحمدپڑھنا چاہو تو الحمدللہ رب العالمین سے شروع کیا کرو(۲)

جواب:

پہلی روایت کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت اہل بیت اطہار (ع) کی روایات کے مخالف ہونے کے علاوہ بھی کئی اعتبار سے قابل عمل و اعتماد نہیں۔

___________________

(۳) مسند احمد ، ج ۳ ، ص ۱۷۷ ، ۲۷۳ ، ۲۷۸ ۔ صحیح مسلم ، ج ۲ ، ص ۱۲۔ سنن نسائی ، ج ۱ ، ص ۱۴۴ ، اس مضمون کی ایک روایت عبداللہ بن مغفل سے بھی روی ہے۔

(۴) مسند احمد بن حبنل ، ج ۴ ، ص ۸۵ صحیح ترمذی ، ج ۲ ، ص ۲۳

۵۶۲

(۱) یہ روایت اہل سنت کی کئی ایسی روایات کے معارض ہے جو تواتر معنوع رکھتی ہیں خصوصاً وہ روایات جن کی سند صحیح ہے بھلا اس روایت کی تصدیق کیسے ممکن ہے اس کے علاوہ ابن عباس ، ابوہریرہ اور اسم مسلمہ بھی یہ شہادت دیتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) سورہ فاتحہ میں بسم اللہ پڑھا کرتے اور اسے سورہ کا جزء سمجھتے تھے اوریہ کہ ابن عمر کہا کرتے تھے: اگر بسم اللہ کاسورہ فاتحہ میں پڑھنا صحیح نہیں توپھر اسے کیوں لکھا گیا ہے امیر المومنین (ع) فرمایا کرتے تھے جو شخص قرات میں بسم اللہ کو ترک کرتا ہے اس نے اپنی قرات کو ناقص چھوڑا ہے نیز آپ (ع) نے فرمایا:بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سبع مثانی میں شامل ہے(۱)

(۲) یہ روایت مسلمانوں میں پائی جانے والی اس شہرت کیخلاف ہے جس کے مطابق تمام مسلمان نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کرتے تھے حتیٰ کہ ایک مرتبہ معاویہ نے اپنے دور خلافت میں بسم اللہ کو ترک کیا تو مسلمانوں نے اس سے کہا : تم نے سورہ فاتحہ کی کویت آیت چرالی ہے یا اسے بھول گئے ہو؟(۲) ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے اس امر کی کیونکر تصدیق کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے بعد دوسرے حضرات نے سورہ فاتحہ میں بسم اللہ نہیں پڑھی ہو گی۔

(۳) یہ روایت ، اس روایت کی مخالف ہے جسے انس بن مالک نے ہی نقل کیا ہے(۳) پس معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔

دوسری روایت (جو ابن عبداللہ بن مغفل نے بیان کی ہے) کا جواب بھی پہلی روایت کے جواب سے معلوم ہو جاتا ہے اس کے علاوہ یہ روایت ایسے امر پر مشتمل ہے جو حضرات دین اسلام کیخلاف ہے اس لئے کہ کسی مسلمان کو اس میں شک نہیں کہ حمد و سورہ سے پہلےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کا پڑھنا مستجب ہے اگرچہ جزء کے طور پر نہیں بلکہ تبرک کے طور پر سہی اور ابن مغفل کی روایت میں بسم اللہ کو بدعت قرار دیاگیا ہے اور اسے پڑھنے سےمنع کیا گیا ہے۔

____________________

۱) اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر ۱۴ ملا خطہ فرمائیں۔

۲) اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر ۱۵ ملا خطہ فرمائیں۔

۳) اس ضمن میں ضمیمہ نمبر ۱۶ کی طرف رجوع کریں۔

۵۶۳

(۳) سیرت مسلمین

تمام مسلمانوں کی سیرت اس بات پر برقرار ہے کہ وہ سورہ برات کے علاوہ باقی تمام سوروں میں بسم اللہ پڑھتے ہیں اور یہ بھی تواترسے ثابت ہے کہ رسول اللہ (ص) بھی بھی ہر سورہ سے پہلے بسم اللہ پڑھتے تھے اگر بسم اللہ جز سورہ نہ ہوتی تو رسول اللہ (ص) کو اس کی تصریح کرنا چاہئے تھی کیونکہ احکام بیان کرنے کے موقع پر آپ کاقرات کو بیان کرنا ظاہر کرتا ہے کہ بسم اللہ ہر سورہ کا جزء ہے ۔ رسول اللہ (ص) جس سورہ کوبھی پڑھتے تھے اگر اس میں سے کچھ آیات اس سورہ کا جزء نہ ہوتیں اور اس کے باوجود آپ (ص) اس کی وضاحت نہ کرتے تو یہ آپ (ص) کی طرف سے جہالت اور تاریکی میں رکھنے کے مترادف ہوتا جو بذات خود قبیح ہے اور وحی الٰہی کے بارے میں تو بطریق اولیٰ قبیح ہوتا اور اگر رسول اللہ (ص) نے بسم اللہ کے جز سورہ نہ ہونے کی تصریح فرمائی ہوتی تو خبر متواتر کے ذریعے اسے نقل کیا جاتا جبکہ خبر متواتر تو کجا خبر واحد کے ذریعے بھی یہ بات نقل نہیں کی گئی۔

(۴) تابعین اور صحابہ کا قرآن

اس میں کوئی شک نہیں کہ (حضرت عثمان کے قرآن جمع کرنے سے پہلے اور بعد بھی) تابعین اور صحابہ کے پاس موجود قرآنی نسخے بسم اللہ الرحمن الرحیم پر مشتمل تھے اگر بسم اللہ سورہ کا جزء نہ ہوتی تو اسے تابعین اور صحابہ اپنے قرآنوں میں درج نہ کرتے کیونکہ صحابہ نے دوسروں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قرآن میں غیر قرآن کو شامل کیا جائے حتیٰ کہ بعض متقدمین نے تو قرآن کو نقطے ، حرکات اور اعراب دینے سے بھی منع فرمایا ہے اس کے باوجود اپنے قرآنوں میں بسم اللہ شامل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں موجود دوسری تکرار شدہ آیات کی طرح بسم اللہ بھی قرآن کا حصہ ہے۔

اس سے یہ احتمال بھی باطل ہو جاتا ہے کہ تابعین نے سوروں میں فاصلہ کی خاطر بسم اللہ کوقرآن میں درج کیا ہو یہ احتمال اور دعویٰ اس امر سے بھی باطل ہو جاتاہے کہ بسم اللہ کو سورہ حمد کے ساتھ توذکر کیاگیا ہے لیکن سورہ برات کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا اگر بسم اللہ کو دو سوروں کے درمیان فاصلے کی خاطر ذکر کیا جاتا تو سورہ الحمد کے شروع میں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہئے تھا اس لئے کہ الحمد سے پہلے تو کوئی سورہ نہیں ہے کہ اس کے اور الحمد کے درمیان فاصلے کی خاطر بسم اللہ کو ذکر کرتے اس کے برعکس سورہ برات کے شروع میں بسم اللہ کا ذکر ہوناچاہئے تھا تاکہ سورہ برات اور اس سے پہلے کہ سورہ میں فاصلہ ہو اس سے ہمیںیقین ہوتا ہے کہ بسم اللہ سورہ الحمد کا جزء ہے اور سورہ برات کا جزء نہیں ہے۔

۵۶۴

منکرین کے دلائل

بسم اللہ کے جز ہونے کے منکرین نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں تین دلائل پیش کئے ہیں:

۱۔ قرآن صرف خبر متواتر کے ذریعے ثابت ہو سکتا ہے اور جس آیت کے جزء سورہ ہونے میں اختلاف ہو وہ قرآن کا حصہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے میں اختلاف ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہب سم اللہ کا جزء قرآن ہوناثابت نہیں۔

جواب: اولاً ، بسم اللہ کا جزء قرآن ہونا اہل بیت (ع) کی متواتر روایات کے ذریعے ثابت ہے اور اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ خبر متواتر رسول اللہ (ص) سے منقول ہو یا اہل بیت اطہار (ع) ہے اس لئے کہ اطاعت رسول (ص) کی طرح اطاعت اہل بیت (ع) بھی واجب ہے۔

ثانیاً : یہ جب بہت سے صحابہ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور یہ متواتر روایات سے بھی ثابت ہے تو ایک چھوٹے سے ٹولے کا انکار ، جس کی بنیاد ایک غلط فہمی ہے، کیا ضرر پہنچا سکتا ہے۔

ثالثاً : یہ تواترسے ثابت ہے کہ رسول اللہ (ص) مقام بیان میں جب بھی قرآن کے کسی سورے کی تلاوت فرماتے پہلے بسم اللہ کی تلاوت فرماتے تھے آپ (ص) نے اس کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ بسم اللہ قرآن کا جزء نہیں ہے یہ امرقطعاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا جز ہے۔

ہاں !اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بسم اللہ سورہ کا بھی جزء ہے البتہ اس کے اثبات کیلئے فریقین کی روایات کثیرہ کے علاوہ وہ روایات کافی ہیں جن کاذکر اس سے پہلے ہو چکا ہے اور بسم اللہ کا جزء ہونا صحیح خبر واحد سے ثابت ہو جاتا ہے ضرور ینہیں کہ وہ خبر متواتر ہو۔

۵۶۵

۲۔ دوسری دلیل وہ روایت ہے جو مسلم نے حضرات ابوہریرہ سے نقل کی ہے حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں:

''میں نے رسول اللہ (ص) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تع الیٰ فرماتا ہے میں نے نماز کو اپنے اور بندوں کے درمیان تقسیم کر دیا ہے اور میرا بندہ جو سوال کرے گا میں اسے پورا کروں گا جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتے تو خالق فرماتا ہے : میرے بندے نے میری حمد و ثناء کی ہے اور جب بندہ کہے : الرحمن الرحیم خالق فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ستائش کی ہے اور جب بندہ کہے : مالک نعبد و ایاک نستعین تو خالق فرماتا ہے : یہ (ذکر) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرابندہ جو چاہے گا میں اسے دوں گا اور بندہ جب کہے : اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیرا لمغضوب علیھم والضالین۔ تو خالق فرماتا ہے: یہ صرف میرےب ندے کا ہے اور اسے میں وہ کچھ دوںگا جو وہ مانگے گا،،(۱)

اس روایت سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ اس روایت کے ظاہری مفہوم کی رو سے آیہ کریمہ ایاک نعبد و ایاک نستعین کاما بعد اس کے ماقبل کے برابر ہے لیکن اگر بسم اللہ کو سورہ فاتحہ کاجزء مان لیا جائے تو اس روایت کا معنی و مفہوم صحیح نہیں رہتا۔ اس لئے کہ سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل ہے (جیسا کہ اس سے قبل معلوم ہو چکا ہے) اگر بسم اللہ کو سورہ کا جزء مان لیا جائے تو یہ آیہ ایاک نعبد و ایاک نستعین سے آخر تک دو ہی آیتیں ہوں گی۔ اس

طرح اس آیت سے پہلے کی آیات اس کے مابعد کی دو گنی ہوں گی اور آیت ایاک نعبد تک سورہ فاتحہ دو برابر حصو میں تقسیم نہیں ہو گی جو اس روایت کے منافی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲ ، ص ۶ ، سنن ابوداؤد ، ج ۱ ، ص ۱۳۰ ، سنن نسائی ، ج ۱ ، ص ۱۴۴

۵۶۶

جواب: اولاً: اس روایت کا راوی علاء ہے جس کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے بعض نے اس کی توثیق کی ہے اور بعض نے اس کی تضعیف کی ہے اس کو کمزور اور اس کی روایت کو ناقابل عمل قرار دیا ہے۔

ثانیاً بفرض تسلیم اگر اس روایت کی دلالت درست ہو تو بھی یہ قابل قبول نہیں اس لئے کہ یہ ان گزشتہ روایات سے معارض ہے جن کے مطابق سورہ فاتحہ بسم اللہ سمیت سات آیات پر مشتمل ہے۔

ثالثاً : یہ روایت اس امرپر دلالت نہیں کرتی کہ سورہ فاتحہ الفاظ کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ معنی کے اعتبارسے دو برابر حصوں میں تقسیم ہوتی ہے بنا برایں روایت کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے مدلول کے اعتبار سے سورہ فاتحہ کابعض حصہ خداسے متعلق ہے اور بعض حصہ بندوں سے متعلق ہے۔

رابعاً: اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ سورہ فاتحہ کو الفاظ کے اعتبار سے تقسیم کیا گیا ہے تو اس امر پر کوئی دلیل نہیں کہ یہ تقسیم آیات کی تعداد کے اعتبار سے کی گئی ہو ۔ شاید یہ تقسیم کلمات (الفاظ) کے اعتبار سے کی گئی ہو اس لئے کہ مکرر الفاظ کو حذف کرنے کے بعد اور بسم اللہ کو شامل کر کے ایاک نعبد و ایاک نستعین سے پہلے بھی دس کلمے ہیں اور اس کے بعد بھی۔

۳۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے :

''سورہ کوثر تین آیات پر مشتمل ہے(۱) اور سورہ ملک تیس آیات پر(۲) ،،

اگر بسم اللہ سورہ کا جزء ہو تو یہ تعداد درست نہیں رہتی۔

جواب: سورہ کوثر کے بارے میں حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت صحیح السند مان لی جائے تو یہ انس کی اس گزشتہ روایت سے معارض ہے جو مقبولہ ہے جسے موطا کے علاوہ تمام صحاح نے روایت کیا ہے(۳)

____________________

(۱) کتب روایات میں یہ روایت مجھے نہیں ملی۔

(۲) مستدرک الحاکم ، ج ۱ ، ص ۵۶۵ ۔ صحیح ترمذی ، ج۱۱ ، ص ۳۰ ، کنز العمال ، ج۱ ، ص ۵۱۶ ، ۵۲۵

(۳) تیسیرالوصول ، ج۱ ، ص ۱۹۹

۵۶۷

بنا برایں یا تو حضرت ابوہریرہ کی روایت ترک ہونی چاہئے یااس کی تاویل یہ کی جائے کہ سورہ کی تین آیات سے مرادوہ آیات ہیں جو صرف اس سورہ سے مختص ہیں اور یہ دوسرے سوروں میں موجود نہیں بخلاف بسم اللہ کے جو تمام سوروں میں مشترک موجود ہے اور یہی جواب سورہ ملک کے بارے میں بھی دیا جاسکتا ہے۔

تحلیل آیتہ

الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾

''سب تعریف خدا ہی کیلئے (سزاوار) ہے جو سارے جہان کا پالنے والا بڑا مہربان رحم والا ہے ، روز جزا کا حاکم ہے،،۔

قرات

اکثر علمائے قرات ''الحمد،، کی دال کو پیش اور ''للہ،، کے لام کو زیر دیتے ہیں بعض علمائے قرآت نے الحمد کی دال کو للہ کے لام کے تابع قرار دیا ہے اور اسے زیر دیا ہے اور بعض دوسرے علمائے قرات للہ کے لام کو الحمد کی دال کاتابع بنا کر اسے پیش دیتے ہیں لیکن یہ دونوں قرابتں غیر مشہور اور شاذ ہیں ان کی طرف توجہ بھی نہیں کرنی چاہئے ۔

لفظ ''مالک،، کی قرات کے بارے میں بھی اختلاف ہے اس میں دو قول مشہور ہیں۔

۱) یہ فاعل کے وزن پر مالک پڑھا جائے۔

۲) کتف کے وزن پر ملک یوم الدین پڑھا جائے۔

بعض قاریوںنے فلس کے وزن پر ملک پڑھا ہے ان کے مقابلے میں بعض نے فعیل کے وزن پر ملیک اور حضرت ابو حنیفہ نے صیغہ ماضی کی صورت میں ملک پڑھا ہے لیکن پہلے دو اقوال کے علاوہ تین اقوال شاذ اور ناقابل عمل ہیں۔

۵۶۸

قراتوں کی ترجیحات

پہلی دو مشہور قراتوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان میں سے کونسی مقدم ہے:

(۱) بعض علمائے قرات کا کہنا ہے کہ ''مالک،، زیادہ بہتر ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ ''مالک،، کا مفہوم '' ملک،، کی نسبت عام ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ فلاںآدمی اپنی قوم کامالک ہے۔

اس جملے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ آدمی مملکیت اور مالکیت (جو اس لفظ کے اصلی اور لغوی معنی ہیں) کے علاوہ اپنی قوم پر حکومت اور سرپرستی کا حق بھی رکھتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں آدمی اپنی قوم کا''ملک،، (بادشاہ) ہے تو اس جملے سے یہ سمجھا جائے گا کہ یہ آدمی اپنی قوم پر حکومت و سلطنت کا حق رکھتا ہے مگر مالکیت و ملکیت کا مفہوم نہیں سمجھا جائے گا پس مالک پڑھنا ملک پر مقدم ہو گا۔

(۲) اس کے مقابلے میں بعض علمائے قرات ''ملک،، کو ترجیح دیتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ مالک زمانہ کی طرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ملک زمانہ کی طرف مضاف ہوتا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے :ملک العصر (بادشاہ زمان) نیز کہا جاتا ہے :ملوک العصار المتقدمة (گزشتہ زمانے کے بادشاہ) چونکہ سورہ حمد میں ''ملک،، زمانہ (یوم) کی طرف مضاف استعمال ہوا ہے اس لئے ''ملک،، پڑھا جانا چاہئے ''مالک،، نہیں۔

ترجیحات کابے فائدہ ہونا

یہ وہ دو دلیلیں تھیں جو ''مالک،، اور ''ملک،، کے قائل علمائے قرات نے پیش کی ہیں لیکن ہمارے خیال میں یہ بحث بے فائدہ ہے بلکہ بنیادی طورپر مشہور قراتوں میں سے کسی ایک کے انتخاب اور اسے اختیار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے کہاگر یہ قراتیں تمام کی تمام رسول اللہ (ص) سے بطور تواتر منقول ہوں توساری کی ساری قراتوں کو قرآن کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور اس اعتبار سے قرآن کی آیات اور اس کے کلمات (الفاظ) میں کوئی فرق نہیں اور اگر یہ قراتیں بطور تواتر ثابت نہ ہوں (چنانچہ حق بھی یہی ہے) اس صورت میں اگر ایک قرات کی ترجیح اور اس کے انتخاب سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا علم و یقین حاصل ہو جائے تو پھر اس بحث میں پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

۵۶۹

لیکن حقیقت یہ ہے کہ بحث و تحقیق سے ایک قرات کو ترجیح دینے اور اسے منتخب کرنے سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا یقین حاصل نہیں ہو سکتا اور جب تک ایک قرات کے انتخاب اورت رجیح سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا علم حاصل نہ ہو (اکثر اوقات دوسری قرات کے باطل ہونے کایقین حاصل نہیں ہوتا) یہ بحث بے نتیجہ اور بے فائدہ ہے۔ جبکہ یہ مسلم ہے کہ معروف و مشہور قراتوں میں سے کسی بھی قرات کوپڑھا جاسکتا ہے:

مشہور قراتوں میں سے ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کی بحث بے فائدہ ہے لفظ ''مالک،، اور ''ملک،، میں اس لئے کہ ''مالک،، ، ''ملک،، میں فرق و تفاوت اس جگہ ظاہر ہوتا ہے جہاں''ملک،، ایک اعتبار اورقرارددی حکومت و سلطنت کیلئے استعمال ہو جس میں سلطنت و حکومت کے مراتب بھی مختلف موارد اور مقامات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں کبھی حاکمیت اورسلطنت کے ساتھ ملکیت بھی حاصل ہوتی ہے اور کبھی ملکیت حاصل نہیں ہوتی لیکن اگر یہی لفظ (ملک) خدا کیلئے استعمال ہو جس کی حکومت حقیقی ہے اور اس کاسرچشمہ پوری کائنات پر اللہ کا احاطہ ہے تو اسی احاطہ کی وجہ سے اللہ پر ''مالک،، اور ''ملک،، دونوں صادق آتے ہیں۔

یہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور ملک کے زمانہ کی طرف اضافت جائز نہ ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ''مالک،، جب اللہ کیلئے استعمال ہو تب ہی یہ زمانہ کی طرف مضاف نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ جس طرح دیگر موجودات عالم کام الک ہے اسی طرح زمانہ کا بھی مالک ہے بنا برایں زمانہ کی طرف مضاف ہونے میں بھی ''مالک،، مثل ''ملک،، کے ہے اور اس اعتبار سے بھی ''ملک،، کو ''مالک،، پر کوئی ترجیح حاصل نہیں۔

بعض حضرت ''ملک،، کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ اگر یہ لفظ ''مالک،، ہو تو اس صورت میں ''یوم،، کی طرف اس کی اضافت ، اضافت لفظی ہو گی جو تعریف (معرفہ) کا فائدہ نہیں دیتی اور اضافت سے پہلے کی طرح یہ نکرہ رہے گا اس طرح لازم آئے گا کہ نکرہ ، معرفہ کی صفت واقع ہو ، جو جائز نہیں لیکن اگر یہ لفظ ''ملک،، ہو تو اس صورت میں ''ملک،، سلطان کے معنی میں ہو گا جو غیر مشتق کے حکم میں ہو گا اور اس طرح یوم کی طرف ملک کی اضافت ، اضافت معنویہ ہو گی اور یہ تعریف کافائدہ دے گی اس طرح یہ اعتراض لازم نہیں آئے گا کہ نکرہ ، معرفہ کی صفت واقع ہو۔

۵۷۰

دوسروں کا جواب:

تفسیر کثاف اور دیگر کتب میں اس اعتراض کا یہ جواب دیاگیا ہے کہ اسم فاعل کی اضافت اس صورت میں اضافت لفظی کہلاتی ہے جس وہ (اسم فاعل) حال یہ مستقبل کے معنی میں ہو لیکن اگر اسم فاعل ماضی یا دوام اور ہمیشگی کے معنی میں استعمال ہو تو ان دونوں صورتوں میں اسم فاعل کی اضافت ، اضافت معنوی ہوتی ہے اور اپنے مضاف الیہ سے کسب تعریف کرتی ہے جیسے اسم فاعل کے معنی ماضی ہونے کی مثال ہے:

( الْحَمْدُ لِلَّـهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ) ۳۵:۱

''ہر طرح کی تعریف خدا ہی کے لئے (مخصوص ) ہے جو سارے آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا فرشتوں کو (اپنا) قاصد بنانے والا ہے،،۔

اور اسم فاعل کے بمعنی دوام ہونے کی مثال ہے:

( تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّـهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ) ۴۰:۲

(اس ) کتاب (قرآن) کا نازل کرنا (خاص بارگاہ) خدا سے ہے جو (سب سے) غالب بڑا واقف کار ہے۔

( غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ ) ۴۰:۳

''گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والا سخت عذاب دینے والا صاحب فضل و کرم ہے،،۔

واضح ہے کہ پہلی آیت میں ''فاطر،، اور ''جاعل،، ماضی کے معنی میں اور دوسری آیت میں ''غافر الذنب،، اور ''قابل التوب،، دوام کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں اضافت کی وجہ سے معرفہ بن گئے ہیں اور اللہ کی صفت واقع ہوئے ہیں۔

سورہ فاتحہ میں ''مالک،، کی اضافت بھی ایسی ہی ہے کیونکہ لفظ ''مالک،، کا معنی ہے روز قیامت اللہ کی مالکیت دائمی اور ابدی ہے بنا برایں ''مالک،، کی اضافت ''یوم،، کی طرف ، اضافت معنی ہو گی اور کسب تعریف کے بعد لفظ اللہ کی صفت واقع ہو سکے گی۔

۵۷۱

اس اعتراض کا تحقیقی جواب یہ ہے کہ اضافت چاہے لفظی ہو یا معنوی ، نکرہ کو معرفہ نہیں بنا سکتی بلکہ اضافت صرف تخصیص کافائدہ دیتی ہے اور لفظ کے مفہوم اور اس کے مصادیق کے دائرے کوتنگ کر دیتی ہے تعریف و تعیین تو دوسرے قرائن و شواہد کے ذریعے سمجھی جائے گی۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ جم لہ ''غلام لزید،، اور ''غلام زید،، میں کوئی فرق نہیں جس طرح ''غلام لزید،، صرف تخصیص کا فائدہ دیتا ہے اسی طرح ''غلام زید،،بھی صرف تخصیص کا فائدہ دیتا ہے پس جس طرح اضافت معنوی کے نتیجے میں تخصیص حاصل ہوتی ہے اسی طرح اضافت لفظی میں بھی تخصیص حاصل ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اضافت لفظی کی تخصیص اضافت کی وجہ سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ اضافت کے بغیر حاصل ہوئی ہے اضافت لفظی سے صرف تخفیف حاصل ہوئی ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مضاف کسی معرفہ کی صفت واقع نہ ہو سکے اس لئے کہ اگر تخصیص کی وجہ سے معرفہ کی صفت قرار پانا صحیح ہو تو مانحن فیہ (اضافت لفظی) میں مضاف کی تخصیص حاصل ہو جاتی ہے اور اگر معرفہ کی صفت بننے کا مجوز وہ تعریف (معرفہ ہونا) ہو جو خارجی شواہد سے حاصل ہو تو اس میں دونوںا ضافتیں مشترک ہیں بنا برایں اضافت لفظی اور اضافت معنوی میں جتنا فرق بیان کیا جاتا ہے وہ سب بے نتیجہ ہے۔

اس مقام پر ایک بحث باقی رہتی ہے کہ جہاں تک مقام اثبات اور وقوع کا تعلق ہے اس بات پر اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر مصاف باضافت لفظیہ صفت مشبہ ہو تو معرفہ کی صفت واقع نہیں ہوس کتا ہے لیکناگر صفت مشبہ کے علاوہ کوئی اور مشتق مضاف واقع ہو تو اس صورت میں ''سیبویہ،، نے ''خلیل،، اور ''یونس،، سے یہ بات نقل کی ہے کہ اکثر کلام عرب(۱) میں ایسے مشتقات جو مضاف ہوں ، معرفہ کی صفت واقع ہوئے ہیں اور قرآن میں جہاں کہیں بھی مضاف

____________________

۱) تفسیر ابی حیان ، ج ۱ ص ۲۱

۵۷۲

باضافت لفظیہ معرفہ کی صفت قرار پایا ہے، اسی قبیل سے ہے۔ یعنی صفت مشبہ کے علاوہ کوئی مشتق ہے جو مضاف واقع ہوا ہے اور معرفہ کی صفت قرار پایا ہے۔

قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مضاف باضافت لفظی معرفہ کی صفت واقع ہوا ہے اسے اسی پر محمول کیا گیا ہے چنانچہ ''مانحن فیہ،، (مالک یوم الدین) میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

باقی رہا صاحب ''کشاف،، کا یہ کہنا کہ ''مالک یوم الدین،، میں اسم فاعل استمرار کے معنی میں استعمال ہواہے اور جب اسم فاعل استمرار کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی اضافت ، لفظی نہیں معنوی ہوتی ہے یہ قول واضح طور پر باطل ہے اس لئے کہ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام موجودات کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس کا یہ احاطہ اور مالکیت دائمی و ابدی ہے لیکن آیت میں ''مالک،، کو ''یوم الدین،، کی طرف مضاف کیا گیا ہے اور ''یوم الدین،، وجود کے اعتبارسے متاخر ہے بنا برایں لامحالہ اسم فاعل ، مستقبل کے معنی میں ہو گا اور اضافت ، اضافث لفظی ہو گی۔

اسم فاعل مضاف کےبارے میں یہ فرق بھی درست نہیں کہ اگر اسم فاعل بمعنی ماضی ہو تو معرفہ کی صفت بن سکتا ہے ورنہ نہیں کیونکہ کسی بھی چیز کے حدوث اور تحقق کا لازمہ یہ ہے کہ وہ متعین اور معلوم ہو یہ فرق اس لئے صحیح نہیں کہ کسی بھی شئی کا حدوث مستلزم علم نہیں ہوا کرتا عین ممکن ہے کہ ایک چیز درواقع متحقق ہو لیکن سب کو معلوم نہ ہو کسی چیز کے معرفہ بننے کا دارو مدار یہ ہے کہ وہ فی الحال متکلم و مخاطب کو معلوم ہو صرف بذات خود اس کامتحقق ہونا کافی نہیں ہے خلاصہ یہ کہ کلام عرب میں وہی قواعد قابل اتباع ہیں جو فصیح عربوں نے استعمال کئے ہوں اور بے معنی توجیہات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا جن کا ذکر نحوی حضرات کیا کرتے ہیں۔

۵۷۳

الحمد:

حمد وہ مفہوم ہےجو ملامت کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے اور حمد ہر اس اچھائی پر کی جاتی ہے جو انسان کے ارادہ و اختیار سے صادر ہو خواہ تعری فکرنے والے پر احسان ہو یا نہ ہو '' شکر،، کفران (ناشکری) کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے اور اسے نعمت و احسان کے بدلے میں ادا کیا جاتا ہے ''مدح،، مذمت کے مقابلے میں آتا ہے اس میں یہضروری نہیں ہے کہ یہ کسی اختیاری عمل کےب دلے میں انجام پائے چہ جائیکہ یہ احسان کے بدلے میں ہو لفظ ''الحمد،، میں الف لام جنس ہے اس لئے کوئی خاص اور معہود حمد پیش نظر نہیں اللہ ، رحمن اور رحیم کی وضاحت اس سے قبل ہو چکی ہے۔

الرب:

یہ لفظ ''ربب،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے مصلح ، مالک اور مزتی اور اسی سے ''ربیبہ،، (پروردہ) بنایا گیا ہے ۔ یہ لفظ جب اللہ کے علاوہ کسی کیلئے استعمال ہو تو اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے ''رب السفینتہ،، (کشتی کامالک) ''رب الدار،، (گھر کا مالک)

العالم:

یہ ایسی جمع ہے جس کا کوئی مفرد نہیں۔ جس طرح ''رھط،، اور ''قوم،، ہیں کبھی اس کا اطلاق ایک حقیقت کی متعدد اشیاء کے مجموعہ پر ہوتا ہے ۔ جیسے عالم جمادات ، عالم نباتات اور عالم حیوانات ہیں کبھی یہ ایسی چیزوں کے مجموعہ کیلئے بولا جاتا ہے جن کا زمانہ یا مکان کے اعتبار سے آپس میں کوئی ربط و تعلق ہو جیسا کہ عالم صبا (بچپن) عالم ذر ، عالم دنیا اور عالم آخرت ہے کبھی تمام موجودات عالم پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔اس کی جمع کبھی واؤ اور نون کے ساتھ آتی ہے، جیسے ''عالمون،، اور کبھی فواعل کے وزن پر جیسے ''عوالم،، ہے لغت عرب میں عالم کے علاوہ کوئی اور ایسا لفظ نہیں جس کا مفرد فاعل کے وزن پر ہو اور اس کی جمع واؤ اور نون کے ساتھ آئے۔

۵۷۴

الملک:

یہ لفظ احاطہ اور سلطنت کے معنی میں آتا ہے البتہ احاطہ ، سلطنت اور ملکیت کبھی تو حقیقی اور خارجی ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ موجودات عالم کا محیط و مالک ہے کیونکہ ہر موجود و مخلوق اپنے خالق اور موجد سے قائم اور وابستہ ہے اور اپنی علت موجدہ سے وابستگی کے علاوہ اس کا اپنا کوئی مستقل وجود نہیں ہے ہر ممکن اپنے حدوث و پیدائش اور بقاء میں اپنے موثر کا محتاج ہے اور احتیاج و نیاز اس سے کبھی بھی جدا نہیں ہوتی۔

( وَاللَّـهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ ) ۴۷:۳۸

''اور خدا تو بے نیاز ہے اور تم (اس کے) محتاج ہو،،

کبھی مالکیت و سلطنت ، اعتباری اور قراردادی ہوتی ہے جس طرح لوگوںکوچیزوں کی ملکیت حاصل ہوتی ہے زید اپنے پاس موجود چیزوں کا صرف اس معنی میں مالک ہے کہ ان چیزوں کی ملکیت اور اختیار فرض کیا جاتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب ملکیت کے اسباب میں سے کوئی سبب وجود میں آئے جس طرح عقد ، معاملہ ، ارث اور آزاد علاقوں سے لکڑیاں وغیرہ جمع کرنا ہے۔

فلاسفروں کے نزدیک ملکیت اس حالت اور کیفیت کو کہا جاتا ہے جو ایک چیز کے احاطہ کرنے سے حاصل ہو یہ نو اعراض میں سے ایک عرض ہے جسے مقولہ جدہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ عمامے کا سر کو اور انگوٹھی کا انگلی کو گھیر لینے سے ایک صورت حاصل ہوتی ہے۔

الدین:

یہ جزاء اور حساب کے معنی میں آتا ہے ۔ سورہ فاتحہ میں ان دونوں میں سے جس معنی کا بھی ارادہ کیا جائے مناسب ہے کیونکہ حساب ، جزاء کا مقدمہ اورپیش خیمہ ہوتا ہے اور روز حساب یوم جزاء ہی کا نام ہے۔

۵۷۵

تفسیر:

خالق کائنات نے یہ بیان فرمایا ہے کہ حمد و ثناء کی حقیقت صرف اللہ کی ذات سے مختص ہے اس لئے کہ :

(۱) کسی بھی فعل کے حُسن اور اس کے کمال کا منشاء فاعل کاحسن اور کمال ہوا کرتا ہے بایں معنی کہ اگر فاعل اچھا اور حسن ہے تو اس سے اچھے افعال صادر ہوتے ہیں اگر فاعل برا ہے تو اس سے برے افعال صادر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مل مطلق ہے اس میں کسی قسم کے عیب اور نقص کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا اس کا ہر فعل بھی ہر لحاظ سے کامل اور بے عیب ہے۔

( قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ ) ۱۷:۸۴

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تم کہہ دو کہ ہر ایک اپنے (اپنے) طریقہ پر کار گزاری کرتا ہے،،

اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی مخلوقات میں کوئی نہ کوئی بلکہ کئی ذاتی عیب و نقائص پائے جاتے ہیں لہٰذا لامحالہ ان کے افعال بھی نقص و عیب سے خالی نہیں ہوں گے معلوم ہوا خالص حسن اور اچھے افعال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مختص ہیں اور غیر خدا سے خالص حسن اچھے افعال کا صادر ہونا محال ہے اسی لئے حمد کی مستحق صرف اللہ کی ذات ہے اور غیر خدا کا لائق حمد ہونا محال ہے۔

اس حقیقت کی طرف سورہ فاتحہ میں جملہ : الحمدللہ کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے گزشتہ مباحث سے معلوم ہو چکا ہے کہ لظ ''اللہ،، نام ہے اس ذات مقدس کا جو تمام صفات مال کی جامع ہے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

''ایک مرتبہ میرے والد بزرگوار امام محمدباقر (علیہ السلام) کا ایک خچر گم ہو گیا۔ اس موقع پر آپ (ع) نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ میرا خچر میری طرف لوٹا دے تو میں اللہ کا ایسا شکر ادا کروں گا جس پر وہ راضی ہو جائے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ آپ (ع) کا خچر زین و لگام سمیت لا کر آپ (ع) کے حوالے کر دیا گیا آپ (ع) نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور صرف اتنا فرمایا : الحمدللہ۔ پھر فرمایا: میں نے اللہ تعالیٰ کی کوئی حمد و ثناء نہیں چھوڑی اور تمام تعریفوں کو اللہ کی ذات سے مختص کیا ہے حمد وثناء کی تمام قسمیں اس جملے میں داخل ہیں(۱)

____________________

۱) تفسیر البرہان ، ج ۱ ، ص ۲۹۔ اصول کافی ، باب الشکر ، ص ۳۵۶

۵۷۶

نیز آپ (ع) نے فرمایا:

اگر اللہ اپنے کسی بندے کو کسی بڑی یا چھوٹی نعمت سے نوازے اور بندہ الحمدللہ کہے تو اس سے اللہ کا شکر ادا ہو جاتا ہے(۱)

(۲) عقول ، نفوس ، ارواح و اشباح غرض ہر ممکن کا کمال اول اس کا اپنا وجود ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ممکن کا وجود ، اللہ کی طرف سے ہے اور وہی اس کا خالق و موجد ہے۔

دوسرا کمال وہ امور اور صفات ہیں جو کسی کی فضیلت اور امتیاز کاباعث بنتی ہیں اگر یہ صفات مخلوق کے ارادہ و ا ختیار سے باہر ہوں تو یہ بھی یقیناً اللہ کی طرف سے ہی ہوں گی جس طرح نباتات کا نشوونما پانا ، حیوانات کا اپنے فائدے اور نقصان کوسمجھنا اور انسان کا اپنے مقصد کو بیان کرنے پر قادر ہونا ہے اور جو افعال مخلوق کے ارادے اور اختیار سے صادر ہوں اگرچہ یہ اختیاری افعال کہلاتے ہیں لیکن درحقیقت ان کامنشاء اور منبع بھی اللہ کی ذات ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کار خیر کی توفیق دیتی اور راہ حق کی رہنمائی فرماتی ہے چنانچہ حدیث میں آیا ہے۔

''ان الله اولی بحسنات العبدمنه،، (۲)

''بندے کی نیکیوں میں بندے کی نسبت اللہ کا حصہ زیادہ ہے،،

اس حقیقت کی طرف جملہ ''رب العالمین،، کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے۔

(۳) ہر اچھا فعل جو اللہ سے صادر ہوتا ہے اس کا فائدہ اللہ کو نہیں ہوتا کیونکہ اللہ وہ کامل مطلق ہے جس کا مزید کامل ہونا یا کمال کو طلب کرنا محال ہے اور اللہ کا ہر فعل محض احسان ہے جو وہ اپنی مخلوق پر کرتا ہے جو اچھا کام خیر خدا سے صادر ہوتا ہے اگرچہ بعض اوقات ظاہراً دوسروں پر احسان سمجھا جاتا ہے لیکن درحقیقت یہ احسان اپنے اوپر کیا جاتا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ ۖ ) ۱۷:۷

''اگر تم اچھے کام کروں گے تو اپنے فا ئدے کیلئے اچھے کام کرو گے،،

۵۷۷

پس معلوم ہوا خالص احسان صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور وہی حمد و ثناء کا مستحق ہے کوئی دوسرا نہیںا س حقیقت کی طرف جملہ( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) میں ا شارہ کیا جاتا ہے۔

اس مقام پر یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ کسی بھی ذات کے اختیاری فعل پر اس کی حمد وثناء کبھی اس کی نعمتوں کے شوق و رغبت اور خوف و عقاب سے ہٹ کر صرف اس ذات کی خوبی کے ادراک کی وجہ سے کی جاتی ہے اور کبھی محسن کے انعام و احسان اور رغبت و خوف کے پیش نظر اس کی حمد و ثناء کی جاتی ہے کبھی انعام و احسان کی رغبت و لالچ میں کسی کی تعریف کی جاتی ہے اور کبھی کسی کے خوف کی وجہ سے اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ حمد کی پہلی وجہ کی طرف جملہ( الْحَمْدُ لِلَّـهِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے یعنی ہم اللہ کی اس لئے تعریف کرتے ہیں کہ وہ حمد کا مستحق ہے اور تمام صفات کمال کا جامع ہے ہر قسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے۔

حمد کی دوسری وجہ کی طرف جملہ ''( رَبِّ الْعَالَمِينَ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ اللہ ہی نے اپنے بندوں کو خلقت و ایجاد کی نعمت سے نوازا ہے اور ان کی تربیت کر کے انہیں کمال تک پہنچایا ہے۔

حمد کی تیسری وجہ کی طرف جملہ( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ رحمت ایک ایسی صفت ہے جو اللہ کی نعمتوں کی طرف رغبت اور اس سے طلب خیر کی متقاضی ہے۔

____________________

۱) اصول کافی ، باب الشکر ، ص ۳۵۶

۲) الوافی باب الخیر و القدر ، ج ۱ ، ص ۱۱۹

۵۷۸

حمد کی چوتھی وجہ کی طرف جملہ( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ جس کی طرف سب لوگوں کی باز گشت ہے وہ اس قابل ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور اس کی مخالفت سے احتراز کیا جائے۔

( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) کی تفسیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ روز قیامت وہ دن ہے جب اللہ کا عدل و انصاف اور رحم و کرم ظاہر ہو گا اور یہ دونوں ایسی حسین و جمیل نعمتیں ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی حمد کی جانی چاہئے جس طرح دنیا میں خلق کرنا ، تربیت دینا اور لوگوں پر احسان کرنا اللہ کے افعال اور اس کی صفات جمیلہ ہیں جن کی وجہ سے وہ حمد و ثنا کا مستحق ہے اسی طرح روز آخرت اس کی بخشش و مغفرت ، اطاعت گزاروں کو ثواب دینا اور گناہ گناروں کو سزا دینا یہ سب اس کے افعال اور اس کی صفات جمیلہ ہیں جن کے بموجب وہ حمد و ثناء کے لائق ہے۔

ہمارے اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ جملہ ''الرحمن الرحیم،، تاکید کی خاطر مکرر نہیں لایا گیا جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے بلکہ اس جملے میں حمد کے اللہ سے مختص ہونے کی وجہ بیان کی گئی ہے بسم اللہ میں بطور تبرک( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) کا ذکر کرنا کافی نہ تھا اس لئے بعد میں اس کا لانا ناگزیر تھا۔

تحلیل آیت

( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ )

''خدایا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں،،

۵۷۹

لغت

العبادۃ

لغت میں ''عبادت،، تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے:

(۱) اطاعت ،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

( أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ) ۳۶:۶۰

''اے آدم کی اولاد کیا میں نے تمہارے پاس یہ حکم نہیں بھیجا تھا کہ (خبردار) شیطان کی پرستش نہ کرنا ، وہ یقینی تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے،،

آیت میں شیطان کی جس عبادت کی نہی کی گئی ہے اس سے مرد اس کی اطاعت ہے۔

(۲) خشوع و خضوع چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

( فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ ) ۲۳:۴۷

''آپس میں کہنے لگے کیا ہم اپنے ہی ایسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان دونوں کی (قوم کی) قوم ہماری خدمت گار ہے ،،۔

اسی لئے ہر جگہ کو ''معبد،، کہا جاتا ہے جہاںل وگوں کی آمدورفت زیادہ ہو اور وہ لوگوں کے قدموں تلے دبتی رہے۔

(۳) پرستش و پوجا کرنا چنانچہ ارشادہوتا ہے:

( قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّـهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ ) ۱۳:۳۶

''کہہ دو کہ (تم مانو نہ مانو) مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں خدا ہی کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤں،،۔

جب لفظ ''عبادت،، عام طور پر بولا جائے اور یہ ہر قسم کے قرینہ اور شاہد کے بغیر ہو تو اس سے عبادت کا آخری معنی ذہن میں آتا ہے۔

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689