البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313958 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ تینوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں کیونکہ ان آیات کی تصریح کے مطابق رسول اللہ (ص) کو اس صورت میں اجازت دینے سے روکا جا رہا ہے اور سرزنش کی جا رہی ہے جب سچے اور جھوٹے میں تمیز نہ کی جا سکے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہ فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن نہیں لائے ، وہ جنگ سے فرار ہونے کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور آپ (ص) سے جنگ میں نہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں نیز رسول اللہ (ص) کو حکم دیا ہے کہ اس وقت تک نہ جانے کی اجازت نہ دیں جب تک ان کی صحیح صورتحال معلوم نہ ہو جائے لیکناگر مسلمانوں کی صحیح صورتحال معلوم ہو جائے تو خدا نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے رسول اللہ (ص) سے اجازت لیں اور رسول اللہ (ص) کو بھی انہیں رخصت دینے کا مجاز قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا ان دونوں آیتوں میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کیلئے ناسخ بن سکے۔

۲۶۔( مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّـهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ) ۹:۱۲۰

''مدینہ کے رہنے والوں اور ان کے گردونواح کے دیہاتیوں کو یہ جائز نہ تھا کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا کا ساتھ چھوڑ دیں اور نہ یہ جائز تھا کہ رسول کی جان سے بے پرواہ ہو کر اپنی جانوں کے بچانے کی فکر کریں،،۔

ابن زید سے منقول ہے کہ یہ آیت اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱)

( وَمَا كَانَ الْمومنونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ ) ۹:۱۲۲

''اور یہ (بھی) مناسب نہیں کہ مومنین کل کے کل (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں،،۔

لیکن حق یہی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی کیونکہ دوسری آیت تک ایک قرینہ ہے جو آیہ اول سے متصل ہے اور یہ آیہ اول کا مطلب بیان کر رہی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۸۷ قرطبی نے اس قول کی نسبت مجاہد کی طرف بھی دی ہے ، ج ۸ ، ص ۳۹۲

۴۶۱

دونوں آیات کا مفہوم یہ ہے کہ بطور واجب کفائی صرف بعض مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ جنگ میں جائیں اس طرح دوسری آیت ، پہلی آیت کیلئے ناسخ نہیں بنے گی۔

ہاں ! اگر کسی خاص موقع پر کسی ضرورت کا یہ تقاضا ہو کہ تمام مسلمان جہاد کیلئے روانہ ہوں یا حاکم شرع سب کو جہاد پر جانے کا حکم دے یا کسی او وجہ سے سب کا جہاد پر جانا ضروری ہو جائے تو اس ضرورت کو پورا کریں یہ عمومی جہاد ، وہ جہاد نہیں جو اسلام میں بطور واجب کفائی مسلمانوں پر واجب ہے بلکہ یہ ایک جداگانہ حکم ہے جوب عض مخصوص حالات میں ثابت ہے یہ دونوں حکم اپنے طور پر مستقل ثابت ہیں اور ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے:

۲۷۔( وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ) ۱۰۔۱۰۹

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تمہارے پاس جو وحی بھیجی جاتی ہے تم بس اسی کی پیروی کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ خدا (تمہارے اور کافروں کے درمیان) فیصلہ فرمائے اور وہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے،،۔

ابن زید کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ جہاد (جس میں کفار پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱) گزشتہ آیات کے بارے میں ہمارے بیان سے اس آیت کے نسخ کا دعویٰ بھی باطل ثابت ہو جاتا ہے ان بیانات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آیت میں صبر سے مراد کفار کے مقابلے میں صبر ہو (یعنی ان سے جنگ نہ کی جائے) البتہ اس آیت میں مطلق صبر کا حکم دیا جا رہا ہے جو کفار کے مقابلے میں صبر کو بھی شامل ہے ۔

بنا برایں زیر بحث آیہ شریفہ میں نسخ کے دعویٰ کی کوئی وجہ نہیں۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۷۸

۴۶۲

۲۸۔( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ) ۱۵:۹۴

''اور قیامت یقیناً ضرور آنے والی ہے تو تم (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ان کافروں سے شائستہ عنوان کے ساتھ درگزر کرو،،۔

ابن عباس ، سعید اور قتادہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

لیکن یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ''صفح،، (چشم پوشی) سے مراد یہ ہے کہ آپ (ص) ان اذیتوں اور تکلیفوں سے درگزر کریں جو تبلیغ شریعت کی راہ میں مشرکین کی طرف سے دی جاتی تھیں اس آیت کا راہ خدا میں قتال وجہاد سے کوئی ربط و تعلق نہیں اس امر کی تائید بعد والی آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین) ۱۵:۹۴

پس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کر کے سنا دو اور مشرکین کی طر ف سے منہ پھیر لو،،۔

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ) : ۹۵

''جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کیلئے کافی ہیں،،۔

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں رسول اللہ (ص) کو اوامرالٰہی کی تبلیغ اور اسلام کے نشرو اشاعت کی تشویق و ترغیب دلائی ہے اور آپ (ص) کو تسلی دی ہے کہ اس سلسلے میں آپ (ص) مشرکین کی اذیت اور ان کے تمسخر کی پروا تک نہ کریں۔

یہ ایک جداگانہ حکم ہے اور اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ جب اسلام کی حجت مکمل ہو اور مسلمانوں کی کثرت سے تقویت حاصل ہو تو کفارسے جہاد کریں۔

۴۶۳

ہاں ! یہ بات مسلم ہے کہ رسول اللہ (ص) کو اسلام کے آغاز ہی میں قتال و جہاد کا حکم نہیں دیا گیا کیونکہ اس وقت معجزہ اور دوسرے غیر معمولی اقدامات کے علاوہ عام مادی وسائل و اسباب کے بل پر کفار سے جنگ کرنے کی قدرت حاصل نہ تھی لیکن جب قدرت حاصل ہوئی اور مسلمانوں میں اتنی طاقت اور کثرت آ گئی جس سے کفار کا مقابلہ کیا جا سکے تو آپ (ص) کو جہاد کا حکم دیا گیا۔ اس سے قبل بھی یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ احکام اسلام تدریجاً نافذ کئے گئے ہ یں جو نسخ نہیں کہلاتا۔

۲۹۔( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ ) ۱۶:۶۷

''اور اسی خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو ) شراب بنا لیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ)

قتادہ ، سعید بن جبیر ، شعبی ، مجاہد ، ابراہیم اور ابورزین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ باقی آیات کی طرح یہ آیت بھی محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

( i ) ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہو لیکن نسخ کے قائلین یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ آیت میں ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہے کیونکہ ''سکر،، کے معانی میں سے ایک معنی ''سرکہ،، بھی ہے چنانچہ مشہور مفسر علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں ''سکر،، کے اسی معنی (سرکہ) کا ذکر کیا ہے(۲) بنا برایں ''رزق حسن،، سے مراد سرکہ اور اس قسم کے دیگر لذیذ کھانے ہوں گے نشہ آور شراب نہیں تاکہ آیہ تحریم خمر کے ذریعے یہ آیت نسخ ہو جائے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۱۸۱

(۲) تفسیر برہان، ج ۱، ص ۵۷۷

۴۶۴

( ii ) آیہ کریمہ مسکر (نشہ آور چیز) کے مباح ہونے پر دلالت کرے تاکہ دوسری آیت ''مسکر،، کو حرام قرار دے اور پہلی آیت کیلئے ناسخ قرار پائے۔

لیکن نسخ کا قائل اس مطلب کو بھی ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ اس آیہ کریمہ میں ایسے کام اور واقعہ کی خبر دی جارہی ہے جسکو عام لوگ انجام دیتے تھے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس کام کی اجامت بھی دی ہو۔

یہ آیت، اس آیت کے بعد نازل ہوئی ہے جس میں کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی نشانیوں کے ذریعے خدائے واجب الوجود کو ثابت کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَاللَّـهُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ) ۱۶:۶۵

''اور خد ہی نے آسمان سے پانی برسایا تو اس کے ذریعہ سے زمین کو مردہ (پڑتی) ہونے کے بعد زندہ (شاداب) کیا کچھ شک نہیں کہ اس میں جو لوگ بستے، ان کے واسطے (قدرت خدا) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

( وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ ) : ۶۶

اور اس میں شک نہیں کہ چوپایوں میں بھی تمہارے لیے عبرت (کی بات) ہے کہ ان کے پیٹ میں (خاک ملا)گوبر اور خون (جو کچھ بھرا ہوا ہے) ا س میں سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔،،

( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) :۶۷

''اور اسی طرح خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو) شراب بنالیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ) اس میں شک نہیں کہ اس میں بھی سمجھ دار لوگوں کے لیے (قدرت خدا کی) بڑی نشانی ہے۔،،

۴۶۵

( وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ) :۶۸

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو اونچی اونچی ٹیٹاں (اور مکانات پاٹ کر) بناتے ہیں ان میں چھتّے بنا۔،،

( ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) : ۶۹

''پھر ہر طرح کے پھلوں (کے بورے سے) ان کا چوس پھر اپنے پروردگار کی راہوں میں تابعداری کے ساتھ چلی جا مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کی بیماریوں) کی شفا (بھی) ہے اس میں شک نہیں کہ اس میں غور و فکر کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

اس آیت میں منجملہ آثار قدثرت میں سے ایک یہ ہے کہ خدا نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کردیا۔ اس کے بعد حیوانات کی خلقت میں تدبیر خداوندی کا بیان ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور اور انگور میں وہ صلاحیت پیدا کی جس کے ذریعے لذیذ چیزوں سے نشہ آور اشیاء بنائی جاسکتی ہےں اور باقی پھلوں میں یہ امتیاز صرف کھجور اور انگور کو حاصل ہے۔

اس کے بعد شہد کی مکھی کے ان حیرت انگیز کارناموں کا ذکر فرمایاجنہیں سن اور دیکھ کر وہ صاحبان عقل دنگ رہ جاتے ہیں جو شہد بنانے کے طریقوں اور اس کی خصوصیات سے آگاہ ہوتے ہیں اور یہ کہ شہد کی مکھی یہ سب کچھ خدا کی وحی اور الہام کے ذریعے انجام دیتی ہے۔

۴۶۶

پس معلوم ہوا ہے کہ اس آیت میں مسکر کو مباح و حلال قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کے علاوہ اسی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ (بفرض تسلیم سکر سے مراد نشہ آور چیز بھی ہو تو) نشہ آور چیز کو پینا جائز نہیں اس لیے کہ نشہ آور چیز کو رزق حسن کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات ہوتا ہے کہ نشہ آور چیز کا شمار رزق حسن میں نہیں ہوتا اس لیے یہ مباح بھی نہیں ہوگا۔

اہل بیت اطہار (ع) کی روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ شراب نوشی کسی وقت اور زمانے میں حلال نہیں تھی۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی سند کے ذریعے محمد بن مسلم سے روایت کرتے ہیں:

''قال: سئل ابو عبد الله علیه السلام عن الخمر فقال: قال رسول الله ان اول ما نهانی عنه ربی عزوجل عبادة الاوثان و شرب الخمرٍ،،

''حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے شراب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: رسول اللہ نے فرمایا: پہلی چیز جس سے اللہ نے مجِھے منع فرمایا وہ بت پرستی اور شراب نوشی ہے۔۔۔،،

نیز ریان، امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا:

قال : ما بعث الله نبیّا الا بتحریم الخمر،، (۱)

''اللہ تعالٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اسے حرمت شراب کا حکم دے کر بھیجا۔،،

____________________

(۱)البحار، ج ۱۶، ص ۱۸۔۲۰، باب حرمۃ شرب الخمر۔ وافی، ج ۱۱، ص ۷۹ میں اس کے لیے ایک مستقل باب مخصوص کیا گیا ہے۔

۴۶۷

اعجاز کی بحث میں بھی گزر چکا ہے کہ شراب کو تورات میں بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔(۱) لیکن ایک حقیقت، جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ ہے کہ اسلام نے ایک عرصہ تک حرمت شراب کا اعلان نہیں کیا اور یہ بات صرف شراب سے مختص نہیں ہے، تمام احکامات پر اسی طریقے سے عمل کیا گیا ہے، ظاہر ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شراب پہلے حلال تھی اور بعد میں حرام قرار دی گئی۔

( الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمومنينَ ) ۲۴:۳

''زنا کرنے والا مرد تو زنا کرنے والی ہی عورت یا مشرکہ سے نکایح کرے گا اور زنیا کرنے والی عورت بھی بس زنیا کرنے والے ہی مرد یا مشرک سے نکاح کرے گی اور سچے ایمانداروں پر تو اس قسم کے تعلقات حرام ہیں۔،،

سعید بن مسیّب اور بہت سے دیگر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ ) ۲۴:۳۲

''اوراپنی (قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کردیا کرو۔،،

آیہ اوّل کے مطابق زانی عورت سے وہی نکاح کرسکتا ہے جو خود زانی یا مشرک ہو۔ جب کہ دوسری آیت کیمطابق مطلق بے ہمسر مسلمان سے نکاح جائز ہے چاہے وہ زانی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ ''ایامیٰ،، (بے ہمسر) دونوں کو شامل ہے۔ اس طرح دوسری آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ قرار پائے گی۔

لیکن حق یہی ہے کہ گذشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی نسخ نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو، اور کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں کہ اس آیت میں نکاح سے مراد شادی یا ازدواج ہے۔

____________________

) ۱) اسی کتاب کے صفحہ ۵۶ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۶۸

اس کے علاوہ اگر اس آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ زانی مسلمان کے لیے مشرک عورت سےشادی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازم آتا ہے کہ مسلمان زانی عورت کے لیے مشرک مرد سے شادی کرنا جائز ہے اور یہ بات ظاہر کتابِ الہی اور سیرتِ مسلمین کے خلاف ہے

بنابرایں آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح سے مراد مطلق ہمبستری ہے۔ چاہے جائز طریقے سے ہو یا زنا ہو۔ اس آیت میں جواز یا عدم جواز کا حکم بیان نہیں کیا جارہا بلکہ یہ ایک جملہ خبر یہ ہے۔ اس کے ذریعے حرمتِ زنا کی شدّت بیان کی جارہی ہے اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زانی مرد صرف زانی عورت یا اس سے بھی پست، مشرک عورت سے زنا کرتاہے اسی طرح زانی عورت بھی صرف کسی زانی مرد یا اس سے بھی پست مشرک مرد سے زنا کرتی ہے۔ مومن انسان کبھی بھی اس قسم کے گناہوں کا مرتکب نہیں ہوتا کیونکہ زنا ایک حرام فعل ہے اور وہ حرام فعل انجام نہیں دیتا۔

( قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّـهِ ) ۴۵:۱۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) مومنوں سے کہدو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو جزا کے لیے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں۔،،

بعض مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اس آیت کا شان نزول یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مکی ہے اور یہ اس وقت نازل ہوئی جب ہجرت سے قبل مکّہ میں حضرت عمر بن خطاب کو کسی مشرک نے گالی دی اور اور ان کی توہین کی اور حضرت عمر اسے سزا دینا چاہتے تھے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ ایت نازل فرمائی۔ لیکن بعد میں آیت، اس آیہ سیف کے ذریعے منسوخ ہوگئی:

( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامّل) قتل کردو۔،،

۴۶۹

یہ حضرات اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر اس روایت کو پیش کرتے ہیں جس کی روایت علیل بن احمد نے محمد بن ہاشم سے، اس نے عاصم بن سلیمان سے، اس نے جویبر سے اس نے ضحاک سے او ضحاک نے ابن عباس سے کی ہے۔(۱)

لیکن یہ روایت ہے بہت ضعیف ہے، اس کا سب سے معمولی اور کمزور پہلو یہ ہے کہ اس کے سلسلہئ سند میں عاصم بن سلیمان شامل ہے جو بہت بڑا جھوٹا اور جعل ساز راوی ہے۔(۲) اس کے علاوہ یہ روایت متن کے اعتبار سے

بھی کمزور اور ناقابل عمل ہے۔ کیونکہ ہجرت سے پہلے مسلمان کمزور تھے اورایسے حالات میں حضرت عمر کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس مشرک سے انتقال لیتے۔ نیز اس روایت میں لفظ ''غفران،، استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ایسے مقام ہر استعمال کیاجاتا ہے جہاں کوئی انتقال لینے پر قادر ہو لیکن چشم پوشی اور درگزر کرے اور یہ مسلّم ہے کہ ہجرت سے قبل حضرت عمر کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے کہ اگر حضرت عمر انتقام لیتے تو مشرک بھی جوابی کارروائی کرتا۔

پس حق یہی ہے کہ یہ آیت محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) آیہ شریفہ کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کی امید نہیں رکھتے ان کی طرف سے اگر تمہیں ذاتی طور پر کوئی اذیت پہنچے اور تمہاری توہین کی جائے تو تمہیں اسے درگزرکردینا چاہیے، اس حقیقت پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:

( لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ) ۴۵:۱۴

''تاکہ وہ لوگوں کے اعمال کا بدلہ دے۔،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۱۸

(۲) اس کے بارے میں ابن عدی کا کہنا ہے کہ یہ شخص من گھڑت احادیث وضع کرنے والوں میں سے ایک ہے، اور یہ کہ اس کی اکثر احادیث متن اور سند کے اعتبار سے متزلزل ہیں۔

۴۷۰

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۖ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ) : ۱۵

''جو شخص نیک کام کرتا ہے تو خاص اپنے لیے اور برا کام کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا پھر (آخر) تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹا ئے جاؤگے۔،،

پس اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو آدمی روز آخرت کا امیدوار نہیں، چاہے وہ مشرک، اہل کتاب یا مسلمان ہو، جو اپنے دین کا صحیح پابند نہی، اس کے بُرے اعمال اور زیادتیوں کی سزا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی ظالم، ظلم کرکے خدا سے بچ نہیں سکتا لہذا مسلمان اور مومن کو چاہےے کہ وہ ظالموں سے انتقام لینے میں جلد بازی نہ کرے، اس لیے کہ خدا کا انتقام، مظلوم کے انتقام سے زیادہ سخت ہے، یہ ایک اخلاقی اور تادیبی حکم ہے اور یہ دعوتِ اسلام یا کسی اور ضرورت کی خاطر کفار سے قتال و جہاد کے منافی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔

( فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً ) ۴۷:۴

'' تو جب تم کافروں سے بھڑو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں زحموں سے چور کر ڈالو تو ان کی مشکیں کس لو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا یا معاوضہ لے کر رہا کرنا۔

علماء کی ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اور بعض کا خیال ہے کہ آیہ سیف، اس آیت کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ آیت ناسخ ہے اور نہ منسوخ۔ البتہ اس مسئلے کی تحقیق مزید تفیصل کی متقاضی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۲۰۔

۴۷۱

مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

شیعہ امامیہ میں یہ حکم مشہور ہے کہ مسلمانوں سے برسرپیکار کفار جب تک اسلام نہ لے آئیں، مکمل شکست سے دوچار نہ ہوجائیں اور زیادہ تعداد میں مارے جانے کی وجہ سے عاجز نہ آجائیں، وہ واجب القتل ہیں۔ صرف اسیری کی وجہ سے کافر کا قتل ساقط نہیں ہوتا۔ اگر کافر مسلمان ہوجائے تو قتل کا موضوع ہی برطرف ہوجاتا ہے کیونکہ موضوع قتل، کفر ہے۔

اسی طرح کفار کی مکمل شکست کے بعد ان کا قتل ساقط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ آیت میں اس موقت تک کفار کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک انہیں شکست نہ ہوجائے البتہ قتل کے ساقط ہو نے کے بعد حاکم شرع کو اختیار ہے کہ چاہے تو پکڑے جانے والے کافروں کو اسیر بنائے یا ان سے فدیہ و تاوان وصول کرے یا ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں بلاعوض آزاد کردے اس حکم میں بت پرست ،مشرک اور اہل کتاب شریک ہیں۔

ان احکام پر علماء کے اجماع و اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے اور بہت شاذ و نادر افراد نے ان احکام کی مخالفت کی ہے ار ان کی رائے بھی قابل توجہ نہیں۔ چناچنہ آئندہ بحثوں میں اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

اگر ''شد الوثاق،، سے مراد غلام بنانا ہو تو آیہ کریمہ کے ظہور سے بھی یہی احکام سمجھے جاتے ہیں، جن کا ذکر کیا گیا ہے '' شد الوثاق،، سے غلام بنانے کا معنی اس لیے سمجھا گیا ہے کہ ''شدّ الوثاق،، کا معنی ہے: کسی کی آزادی کا سلب کرنا، جب تک اسے بلاعوض یا عوض لے کر آزاد نہ کیا جائے اور یہ معنی غلام بنانے سے زیادہ سازگار ہے۔

اگر ''شدّ الوثاق،، کا معنی غلام بنانا نہ ہو پھر بھی کافر سے فدیہ لینے اور اس پر احسان کرتے ہوئے اسے ازاد کرنے کے ساتھ، اسے غلام بنانے کا بھی حکم موجود ہے، کیونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ کافر کو غلام بناناجائز ہے۔ اس دلیل کے ذریعے آیت کے اطلاق کی تقیید ہوگی۔

۴۷۲

مذکورہ احکام اس روایت میں موجود ہیں جسے کلینی اور شیخ طوسی نے طلحہ بن زید سے اور اس نے حضرت ابو عبد اللہ الصادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے: امام (ع) فرماتے ہیں:

''میرے والد گرامی فرماتے تھے: جنگ کے دو حکم ہیں: ایک یہ کہ اگر کفار کے ساتھ جنگ جاری ہو اور ابھی کفار کو شکست نہ ہوئی تو کافر قیدیوں کے بارے میں امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو انہیں قتل کردے اور چاہے تو ان کا بایاں پاؤں کاٹے اور اسے بدن سے جدا نہ کرے تاکہ ان کا خون نکلتا رہے اور اس طرح وہ مرجائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۵:۳۳

'' جو لوگ خدا اور اس کے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے لڑتے بھڑتے اور (احکام کو نہیں مانتے) اور فساد پھیلانے کی غرض سے ملکوں (ملکوں) دوڑتے پھرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ (چن چن کر) یا تو مار ڈالے جائیں یا انہیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں ہیر پھیر کے (ایک طرف کا ہاتھ، دوسری طرف کا پاؤں) کاٹ ڈالے جائیں، یا انہیں اپنے وطن کی سرزمین سے شہر بدر کردیا جائے، یہ رسوائی تو ان کی دنیا میں ہوئی اور پر آخرت میں تو ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہی ہے۔،،

اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا:

''کیا تم دیکھتے نہیں اللہ تعالیٰ نے صرف کفر کی صورت میں امام (ع) کو یہ اختیار دیا ہے، ہر مقام پر نہیں طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے امام (ع) سے عرض کیا: آیہ کریمہ :''او ینفوا من الارض،، کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کفار کو منتشر کردیں اور انہیں بھگا دیں اور اگر مسلمان کفار کا تعاقب کریں اور انہیں گرفتار کرلیں تو ان پر وہ احکام لاگو ہوں گے۔

۴۷۳

دوسرا یہ کہ جب کفار سے جنگ بند ہوجائے اور انہیں شکست دے دی جائے، اس وقت جو بھی قیدی بنایا جائے اور وہ مسلمانوں کے قبضے میں ہو، اس کے لیے امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو اس پر احسان کرے اور اسے آزاد کر دے، چاہے تو اس سے فدیہ و تاوان وصول کرے اور اگر چاہے تو اسے غلام بنالے۔،،(۱)

کفار کی شکست کے بعد ان سے قتل کے ساقط ہونے پر ضحاک اور عطاء بھی ہم سے متفق ہےں اور حسن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس صورت میں امام (ع) کو آزاد کرنے، فدیہ لینے اور غلام بنانے میں اختیارحاصل ہے۔(۲)

گذشتہ بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیر بحث آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی یہ اور بات ہے کہ بعض مقامات سے قتل مختص ہے اور بعض مقامات پر عدم قتل۔ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیہ سیف زیر بحث آیت سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔

مقام تعجب ہے کہ شیخ طوسی نے اس مسئلے میں علمائے امامیہ کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے کہ جنگ بندی کے بعد اسیر کے بارے میں امام کو اسیر کے قتل، آزاد کرنے، اس سے تاوان وصول کرنے اور اسے غلام بنانے میں اختیار حاصل ہے۔ چنانچ شیخ طوسی فرماتے ہیں:

''ہمارے اصحاب نے یہ روایت کی ہے کہ اگر جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کو گرفتار کیا جائے تو امام کو اختیار ہے کہ چاہے اس قتل کردے، چاہے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے اور اس طرح چھوڑ دے کہ وہ مرجائے۔ وہ اسے بلاعوض آزاد نہیں کرسکتا اور نہ اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرسکتا ہے اور اگر جنگ بندی کے بعد کسی کافر کو قیدی بنایا جائے تو امام کو اسے بلاعوض آزاد کرنے، تاوان مالی یا جانی لے کر آزاد کرنے، غلام بنانے اور قت کرنے میں اختیار ہے۔،،

____________________

(۱) الوافی، ج ۹، ص۲۳

(۲) قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷، الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱۔

۴۷۴

طبرسی نے اپنی تفسیر میں بھی شیخ طوسی کی متابعت کی ہے۔(۱) جبکہ اس مضمون کی کوئی روایت وارد نہیں ہوئی، بلکہ خود شیخ طوسی اپنی کتاب ''مبسوط،،(۲) میں اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ جو قیدی جنگ بندی کے بعد گرفتار کیا جائے اس کے بارے میں امام کو اختیار ہے کہ اس پر احسان کرکے اسے بلا عوض آزاد کردے یا اسے غلام بنائے اور یا اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرے۔ اسے قتل نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ہمارے علماء کی روایات بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔

بلکہ چیخ طوسی نے اپنی کتاب ''خلاف،، کے باب ''فئی، اور ''غنائم،، میں اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے جن حضرات نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ان میں علاّمہ مرحوم بھی ہیں انہوں نے اپنی دونوں کتابوں ''المنتہیٰ،، اور ''التذکرہ،، کے باب جہاد میں، اسیروں کے احکام میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

میرے خیال میں شیخ طوسی کی کتاب ''التبیان،، میں لفظ ''ضرب الرقاب،، (اسیروں کو قتل کرنا) لغزشِ قلم کا نتیجہ ہوگا اور مرحوم طبرسی نے بغیر کسی تحقیق کے اس بات کو لے لیا ہے۔

یہاں تک اس مسئلے میں علمائے شیعہ امامیہ، ضحاک، عطاء اورحسن کے نظریات بیان کیے گئے۔

آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

اس مسئلے میں باقی علمائے اہل سنت کے مختلف اقوال نظر آتے ہیں:

۱۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی۔ یہ قول قتادہ، ضحاک، سدی، ابن جریح، ابن عباس اور بہت سے کوفی علماء کی طرف منسوب ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ مشرک قیدی کو قتل کرنا واجب ہے اسے بلا عوض یا تاوان وصول کرکے آزاد کرنا جائز نہیں۔(۳)

____________________

(۱) التبیان، ج ۹، ص ۲۹۱، طبع نجف۔

(۲) المبسوط، کتاب الجہاد، فصل فی اضاف الکفار و کیفیۃ قتالہم۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۵

جواب: اس قول کے رو سے آیت کے نسخ کی کو ئی وجہ او جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ یہ آیت مقید ہے اور آیہ سیف مطلق ہے، چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔ اس سے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ عامِ مؤخر خاصِ مقدم کا ناسخ نہیں بن سکتا تو مطلق متاخر مقید مقدم کے لیے بطریقِ اولیٰ ناسخ نہیں بن سکتا۔(۱)

۲۔ یہ عام کفار کے بارے میں نازل ہوئی لیکن صرف مشرکین کے سلسلے میں نسخ ہوگئی ہے۔ یہ قول قتادہ، مجاہد اور حکم کی طرف منسوبگ ہے۔ مذہب ابو حنیفہ میں بھی قول مشہور ہے۔(۲)

جواب: پہلے کی طرح یہ قول بھی باطل ہے۔ کیونکہ یہ قول اس صورت میں صحیح ہوسکتا ہے جب آیہ سیف، زیرِ بحث آیت کے بعد نازل ہوئی ہو اور نسخ کے قائل حضرات یہ بات ثابت نہیں کرسکتے یہ حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے صرف خبر واحد سے تمسک کرسکتے ہیں او علماء کا اجماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت ہو جاتا ہے پھر بھی آیہ سیف کے ناسخ ہونے کی دلیل نہیں بنتی تاکہ یہ قول ثابت ہو۔ بلکہ ثابت یہ ہوگا کہ زیر بحث آیت، آیہ سیف کے لیے مقید ہو۔ اس لیے کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مشرکین کو بھی شامل ہے یا اس سے صرف مشرکین ہی مراد ہیں۔ بنابرایں یہ آیت، آیہ سیف کے لیے ایک قرینہ ہوگی کیونکہ مطلق مقید کے لیے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر ان تمام باتوں سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ مسلّم ہے کہ زیربحث آیت اور آیہ سیف میں عموم اور حصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے۔ یعنی کہیں تو مشرک ہے لیکن جنگ بندی کے بعد قیدی نہیں۔ یہاں مشرک کے لیے حکم قتل ہی ثابت ہوگا اور کہیں جنگ بندی کے بعد قیدی ہوگا مشرک نہیں۔ یہاں اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔

____________________

(۱) ہم نے اپنی کتاب ''اجود التقریرات،، کی عموم و خصوص کی بحث میں اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۶

ایک مقام وہ ہوسکتا ہے جہاں کافر، مشرک ہو اور جنگ بندی کے بعد اسے اسیر بنالیا جائے۔ یہاں دو مختلف احکام میں ٹکراؤ ہوگا۔ ظاہرہے اس صورت میں دونوں آیتیں ایک دوسرے کے لیے ناسخ نہیں ہونگی بلکہ اس آیت کے مضمون پر عمل ہوگا جس کی تائید کوئی دوسری دلیل کرے۔

۳۔ زیر بحث آیت، آیہ سیف کی ناسخ ہے یہ قول ضحاک وغیرہ کی طرف منسوب ہے۔(۱)

جواب: یہ قول اس صورت میں صحیح ہوگا جب اس آیت کا آیہ سیف کے بعد نازل ہونا ثابت ہو۔ اس کو ضحاک وغیرہ ثابت نہیں کرسکتے۔اس کے علاوہ اس سے قبل اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے مقدم ہو یا مؤخر، اس کے نسخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

۴۔ ہر حالت میں قتل کرنے، غلام بنانے، فدیہ لے کر آزاد کرنے اور بلا عوض آزاد کرنے کا اختیار امام کو حاصل ہے۔ اس قول کو ابو طلحہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جسے بہت سے علمائے کرام نے اپنایا ہے۔ ان میں ابن عمر، حسن اور عطاء شامل ہیں۔ مالک، شافعی، ثوری، اوزاعی اور ابی عبید وغیرہ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اس قول کے مطابق آیہ کریمہ میں کسی قسم کا نسخ نہیں ہوا۔(۲) نحاس اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''یہ قول اس بنیاد پر قائم ہے کہ دونوں آیتیں، آیہ سیف اور آیہ عفو، محکم ہیں (نسخ نہیں ہوئیں) اور دونوں کے ظاہر پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ قول بالکل صحیح ہے کیونکہ نسخ کے لیے کسی قطعی اور مسلّم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں پر دونوں آیتوں پر عمل کرنا ممکن ہے وہاں نسخ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ قول اہل مدینہ، شافعی اور ابو عبید سے منقول ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۸

(۳) الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱

۴۷۷

جواب: اگرچہ اس قول سے آیہ شریفہ کا نسخ ہونا لاز م نہیں آتا لیکن پھر بھی یہ باطل ہے کیونکہ آیت میں اس امر کی تصریح ہے کہ کفار کی شکست اور جنگ بندی کے بعد ہی ان قیدیوں کو بلا عوض یا عوض لیکر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ بنابریں کفار کی شکست سے پہلے بلاعوض یا عوض لے کر اسیروں کی آزادی کا قائل ہونا سراسر قرآن کی خلاف ورزی ہے۔

اسی طرح آیہ کی رو سے قتل کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک کفار کو شکست نہیں ہوتی۔ لیکن کفار کی شکست کے بعد بھی ان کے قتل کا قائل ہونا، خلاف قرآن ہے۔

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ اس آیت کے ذریعے آیہ سیف کی تقیید کی گئی ہے۔

اس قول کی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے بعض قیدیوں کو قتل کیا، بعض کو ان پر احسان کرتے ہوئے آزاد کردیا اوربعض سے فدیہ و تاوان لے کر ان کو آزاد کردیا تھا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح ہو پھر بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قتل کرنے، فدیہ لینے اور بلاعوض آزاد کرنے میں امام کو اختیار حاصل ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اسیر کو جنگ بندی اور کفار کی شکست سے پہلے قتل کیا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے کفار کی شکست کے بعد اسیروں کو ان سے فدیہ لے کر اور بغیر فدیہ کے آزادکیا ہو۔

ممکن ہے یہ حضرات (جو ہر حالت میں قتل اور آزاد کرنے میں اختیار کے قائل ہیں) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے عمل سے استدلال کریں جس کے مطابق انہوں نے اسیروںکو قتل کیا تھا۔

۴۷۸

اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلاً یہ واقعہ تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ہے بفرض تسلیم اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہو پھر بھی مدعیٰ ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا عمل حجیّت نہیں رکھتا تاکہ اس کی بنیاد پر ظاہر قرآن سے دست بردار ہوا جائے۔

۳۳۔( وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۵۱:۱۹

''اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حصّہ تھا۔،،

۳۴۔( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ۷۰:۲۴

( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

ان دونوں آیات کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ نسخ ہوئی ہےں؟ کیونکہ ان آیات میں جس معلوم اور آشکار حق کا ذکر کیا گیا ہے ممکن ہے اس سے مراد واجب زکوٰۃ ہو جو ایک واجب حق ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد کوئی اور م الی حق ہو جو واجب ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ایک مالی حق ہو جو مستحب ہو۔

اگر اس حق سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا واجب حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں نسخ ہوں گی اس لیے کہ واجب زکوٰۃ کی وجہ سے قرآن میں موجود تمام دوسرے واجب صدقات نسخ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اس احتمال کو علماء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ اگر اس حق سے مردا واجب زکوٰۃ یا کوئی دوسرا مالی حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں محکم ہوں گی۔

تحقیق اس امر کی متقاضی ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حق سے مراد واجب زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس کی ادائیگی کی شارع نے ترغیب دی ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی روایات اس بات کی دلیل ہیں کہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ واجب نہیں ہے اور اہل بیت اطہار (ع) کی روایات میںیہ بیان موجود ہے کہ اس حق سے کیا مراد ہے۔

۴۷۹

شیخ کلینی نے ابو بصیر سے روایت کی ہے ابو بصیر کہتے ہیں:

''ہم امام صادقؑ کی خدمت میں بیٹھے تھے، ہمارے ساتھ کچھ دولت مند افراد بھی تھے انہوں زکوٰۃ کا ذکر کیا تو امام(ع) نے فرمایا: زکوٰۃ کوئی ایسی چیز نہیں کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے تعریف کی جائے۔

یہ تو ایک ظاہر ہے اور مسلّم چیز ہے اسی کی وجہ سے تو مسلمانوں کے خون کو تحفظ ملا ہے اور اسی کی بدولت انسان مسلمان کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر مسلمان زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ یہ دیکھو کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی تمہارے اموال میں لوگوں کے کچھ حقوق ہیں۔ میں (ابو بصیر) نے عرض کیا: مولا! زکوٰۃ کے علاوہ ہمارے اموال میں اور کون سے حقوق موجود ہیں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا: :( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۔ میں نے عرض کی: آحر وہ کون سا حق ہے۔ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! یہ وہی حق ہے جس کی طرف ہر شخص متوجہ ہے۔ اسے چاہیے کہ ہر روز یا جمعہ میںیا مہینے میں ایک مرتبہ کچھ نہ کچھ دیتا رہے۔،،

نیز کلینی نے اپنی سندسے اسماعیل بن جابر سے اور انہوں نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے:

''آپ سے آیہ کریمہ:( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا یہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق ہے؟ آپ نے فرمایا: اس حق کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو خدا مال و دولت دے اسے چاہیے کہ اس میں سے ایک ہزار، دو ہزار یا تین ہزار الگ کرلے اور اس کے ذریعے صلہ رحمی کرے اور قریبی رشتہ داروں کی مشکلات کو حل کرے۔،،

ان کے علاوہ بھی امام باقر اور امام صادق (علیھما السلام) سے اس مضمون کی روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) الوافی باب الحق المعلوم، ج ۶، ص ۵۲

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

۶۔ سعیدبن جبیر نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''جب تک آیہبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ نازل نہ ہوئی مسلمانوں کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ پہلا سورہ ختم ہوا ہے یا نہیں لیکن جب آیتبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ نازل ہوئی تو انہیں معلوم ہو جاتا تھا کہ پہلا سورہ ختم ہو گیا ہے :نمبر۶

۷۔ سعید نے ابن عباس سے روایت کی ہے:

''جب بھی جبرئیل نازل ہوتے اور بسم اللہ الرحمن پڑھتے ، آپ (ص) سمجھ جاتے کہ کوئی سورہ نازل ہو رہا ہے نمبر۱:

۸۔ ابن جریحنے روایت کی ہے :

''میرے والد نے مجھے بتایا کہ سعید بن جبیر نے انہیں کہا : ولقد ایتنک سبعا من المثانی میں ، سبع مثانی سے مراد، ام القرآن (سورہ حمد) ہے نیز سعید بن جبیر نے کہا :بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سورہ حمد کی ساتویں آیت ہے۔ جس طرح میں (سعید بن جبیر) نے تمہارے سامنےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کو پڑھا ہے اسی طرح ابن عباس نے اسے میرے سامنے پڑھا تھا اس کے بعد سعید بن جبیر نے پھر کہا :بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سورہ حمد کی ساتویں آیت ہے ابن عباس نے کہا: اللہ نے صرف تمہارے لئےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کو نازل فرمایا ہے تم سے قبل کسی اور کیلئے ایسی آیت نازل نہیں ہوئی ،،(۲)

ان کے علاوہ اور بھی اس مضمون کی روایات موجود ہیں جو شخص ان سے آگاہ ہونا چاہئے وہ کتب احادیث کی طرف رجوع کرے۔

____________________

نمبر۶ مستدرک الحاکم ، ج ۱ ، ص ۲۳۲ ۔ حاکم نے کہا ہے یہ روایت شیخین کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔

(۱) مستدرک الحاکم ج ۱ ، ص ۲۳۱

(۲) ایضاً ص ۵۵۰

۵۶۱

معارض روایات

طرفین کی ان تمام روایات کے مقابلے میں صرف دو روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہر سورہ کا جز نہیں ہے۔

(۱) قتادہ نے انس بن مالک سے روایت کی ہے۔

''میں (انس بن مالک)نے رسول اللہ (ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ساتھ نماز پڑھی اور ان میں سے کسی کو نماز میںبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ پڑھتے نہیں سنا،،(۱)

(۲) ابن عبداللہ بن مغفل یزید بن عبداللہ نے روایت کی ہے:

''میرے والد نے نماز میںبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ پڑھتے مجھے سنا تو کہا :بیٹا خبردار! آئندہ ایسا نہ کرنا میں نے اصحاب پیغمبر (ص) میں اس عمل سے بدتر کوئی بدعت نہیں دیکھی میں نے رسول اللہ (ص) حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان کےساتھ نماز پڑھی ہے اور کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے نہیںسنا تم بھی نہ پڑھا کرو جب الحمدپڑھنا چاہو تو الحمدللہ رب العالمین سے شروع کیا کرو(۲)

جواب:

پہلی روایت کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت اہل بیت اطہار (ع) کی روایات کے مخالف ہونے کے علاوہ بھی کئی اعتبار سے قابل عمل و اعتماد نہیں۔

___________________

(۳) مسند احمد ، ج ۳ ، ص ۱۷۷ ، ۲۷۳ ، ۲۷۸ ۔ صحیح مسلم ، ج ۲ ، ص ۱۲۔ سنن نسائی ، ج ۱ ، ص ۱۴۴ ، اس مضمون کی ایک روایت عبداللہ بن مغفل سے بھی روی ہے۔

(۴) مسند احمد بن حبنل ، ج ۴ ، ص ۸۵ صحیح ترمذی ، ج ۲ ، ص ۲۳

۵۶۲

(۱) یہ روایت اہل سنت کی کئی ایسی روایات کے معارض ہے جو تواتر معنوع رکھتی ہیں خصوصاً وہ روایات جن کی سند صحیح ہے بھلا اس روایت کی تصدیق کیسے ممکن ہے اس کے علاوہ ابن عباس ، ابوہریرہ اور اسم مسلمہ بھی یہ شہادت دیتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) سورہ فاتحہ میں بسم اللہ پڑھا کرتے اور اسے سورہ کا جزء سمجھتے تھے اوریہ کہ ابن عمر کہا کرتے تھے: اگر بسم اللہ کاسورہ فاتحہ میں پڑھنا صحیح نہیں توپھر اسے کیوں لکھا گیا ہے امیر المومنین (ع) فرمایا کرتے تھے جو شخص قرات میں بسم اللہ کو ترک کرتا ہے اس نے اپنی قرات کو ناقص چھوڑا ہے نیز آپ (ع) نے فرمایا:بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سبع مثانی میں شامل ہے(۱)

(۲) یہ روایت مسلمانوں میں پائی جانے والی اس شہرت کیخلاف ہے جس کے مطابق تمام مسلمان نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کرتے تھے حتیٰ کہ ایک مرتبہ معاویہ نے اپنے دور خلافت میں بسم اللہ کو ترک کیا تو مسلمانوں نے اس سے کہا : تم نے سورہ فاتحہ کی کویت آیت چرالی ہے یا اسے بھول گئے ہو؟(۲) ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے اس امر کی کیونکر تصدیق کی جا سکتی ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے بعد دوسرے حضرات نے سورہ فاتحہ میں بسم اللہ نہیں پڑھی ہو گی۔

(۳) یہ روایت ، اس روایت کی مخالف ہے جسے انس بن مالک نے ہی نقل کیا ہے(۳) پس معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔

دوسری روایت (جو ابن عبداللہ بن مغفل نے بیان کی ہے) کا جواب بھی پہلی روایت کے جواب سے معلوم ہو جاتا ہے اس کے علاوہ یہ روایت ایسے امر پر مشتمل ہے جو حضرات دین اسلام کیخلاف ہے اس لئے کہ کسی مسلمان کو اس میں شک نہیں کہ حمد و سورہ سے پہلےبِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ کا پڑھنا مستجب ہے اگرچہ جزء کے طور پر نہیں بلکہ تبرک کے طور پر سہی اور ابن مغفل کی روایت میں بسم اللہ کو بدعت قرار دیاگیا ہے اور اسے پڑھنے سےمنع کیا گیا ہے۔

____________________

۱) اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر ۱۴ ملا خطہ فرمائیں۔

۲) اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر ۱۵ ملا خطہ فرمائیں۔

۳) اس ضمن میں ضمیمہ نمبر ۱۶ کی طرف رجوع کریں۔

۵۶۳

(۳) سیرت مسلمین

تمام مسلمانوں کی سیرت اس بات پر برقرار ہے کہ وہ سورہ برات کے علاوہ باقی تمام سوروں میں بسم اللہ پڑھتے ہیں اور یہ بھی تواترسے ثابت ہے کہ رسول اللہ (ص) بھی بھی ہر سورہ سے پہلے بسم اللہ پڑھتے تھے اگر بسم اللہ جز سورہ نہ ہوتی تو رسول اللہ (ص) کو اس کی تصریح کرنا چاہئے تھی کیونکہ احکام بیان کرنے کے موقع پر آپ کاقرات کو بیان کرنا ظاہر کرتا ہے کہ بسم اللہ ہر سورہ کا جزء ہے ۔ رسول اللہ (ص) جس سورہ کوبھی پڑھتے تھے اگر اس میں سے کچھ آیات اس سورہ کا جزء نہ ہوتیں اور اس کے باوجود آپ (ص) اس کی وضاحت نہ کرتے تو یہ آپ (ص) کی طرف سے جہالت اور تاریکی میں رکھنے کے مترادف ہوتا جو بذات خود قبیح ہے اور وحی الٰہی کے بارے میں تو بطریق اولیٰ قبیح ہوتا اور اگر رسول اللہ (ص) نے بسم اللہ کے جز سورہ نہ ہونے کی تصریح فرمائی ہوتی تو خبر متواتر کے ذریعے اسے نقل کیا جاتا جبکہ خبر متواتر تو کجا خبر واحد کے ذریعے بھی یہ بات نقل نہیں کی گئی۔

(۴) تابعین اور صحابہ کا قرآن

اس میں کوئی شک نہیں کہ (حضرت عثمان کے قرآن جمع کرنے سے پہلے اور بعد بھی) تابعین اور صحابہ کے پاس موجود قرآنی نسخے بسم اللہ الرحمن الرحیم پر مشتمل تھے اگر بسم اللہ سورہ کا جزء نہ ہوتی تو اسے تابعین اور صحابہ اپنے قرآنوں میں درج نہ کرتے کیونکہ صحابہ نے دوسروں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ قرآن میں غیر قرآن کو شامل کیا جائے حتیٰ کہ بعض متقدمین نے تو قرآن کو نقطے ، حرکات اور اعراب دینے سے بھی منع فرمایا ہے اس کے باوجود اپنے قرآنوں میں بسم اللہ شامل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن میں موجود دوسری تکرار شدہ آیات کی طرح بسم اللہ بھی قرآن کا حصہ ہے۔

اس سے یہ احتمال بھی باطل ہو جاتا ہے کہ تابعین نے سوروں میں فاصلہ کی خاطر بسم اللہ کوقرآن میں درج کیا ہو یہ احتمال اور دعویٰ اس امر سے بھی باطل ہو جاتاہے کہ بسم اللہ کو سورہ حمد کے ساتھ توذکر کیاگیا ہے لیکن سورہ برات کے ساتھ ذکر نہیں کیا گیا اگر بسم اللہ کو دو سوروں کے درمیان فاصلے کی خاطر ذکر کیا جاتا تو سورہ الحمد کے شروع میں اس کا ذکر نہیں کرنا چاہئے تھا اس لئے کہ الحمد سے پہلے تو کوئی سورہ نہیں ہے کہ اس کے اور الحمد کے درمیان فاصلے کی خاطر بسم اللہ کو ذکر کرتے اس کے برعکس سورہ برات کے شروع میں بسم اللہ کا ذکر ہوناچاہئے تھا تاکہ سورہ برات اور اس سے پہلے کہ سورہ میں فاصلہ ہو اس سے ہمیںیقین ہوتا ہے کہ بسم اللہ سورہ الحمد کا جزء ہے اور سورہ برات کا جزء نہیں ہے۔

۵۶۴

منکرین کے دلائل

بسم اللہ کے جز ہونے کے منکرین نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں تین دلائل پیش کئے ہیں:

۱۔ قرآن صرف خبر متواتر کے ذریعے ثابت ہو سکتا ہے اور جس آیت کے جزء سورہ ہونے میں اختلاف ہو وہ قرآن کا حصہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے میں اختلاف ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہب سم اللہ کا جزء قرآن ہوناثابت نہیں۔

جواب: اولاً ، بسم اللہ کا جزء قرآن ہونا اہل بیت (ع) کی متواتر روایات کے ذریعے ثابت ہے اور اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں کہ خبر متواتر رسول اللہ (ص) سے منقول ہو یا اہل بیت اطہار (ع) ہے اس لئے کہ اطاعت رسول (ص) کی طرح اطاعت اہل بیت (ع) بھی واجب ہے۔

ثانیاً : یہ جب بہت سے صحابہ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی شہادت دیتے ہیں اور یہ متواتر روایات سے بھی ثابت ہے تو ایک چھوٹے سے ٹولے کا انکار ، جس کی بنیاد ایک غلط فہمی ہے، کیا ضرر پہنچا سکتا ہے۔

ثالثاً : یہ تواترسے ثابت ہے کہ رسول اللہ (ص) مقام بیان میں جب بھی قرآن کے کسی سورے کی تلاوت فرماتے پہلے بسم اللہ کی تلاوت فرماتے تھے آپ (ص) نے اس کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ بسم اللہ قرآن کا جزء نہیں ہے یہ امرقطعاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا جز ہے۔

ہاں !اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بسم اللہ سورہ کا بھی جزء ہے البتہ اس کے اثبات کیلئے فریقین کی روایات کثیرہ کے علاوہ وہ روایات کافی ہیں جن کاذکر اس سے پہلے ہو چکا ہے اور بسم اللہ کا جزء ہونا صحیح خبر واحد سے ثابت ہو جاتا ہے ضرور ینہیں کہ وہ خبر متواتر ہو۔

۵۶۵

۲۔ دوسری دلیل وہ روایت ہے جو مسلم نے حضرات ابوہریرہ سے نقل کی ہے حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں:

''میں نے رسول اللہ (ص) کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تع الیٰ فرماتا ہے میں نے نماز کو اپنے اور بندوں کے درمیان تقسیم کر دیا ہے اور میرا بندہ جو سوال کرے گا میں اسے پورا کروں گا جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتے تو خالق فرماتا ہے : میرے بندے نے میری حمد و ثناء کی ہے اور جب بندہ کہے : الرحمن الرحیم خالق فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ستائش کی ہے اور جب بندہ کہے : مالک نعبد و ایاک نستعین تو خالق فرماتا ہے : یہ (ذکر) میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرابندہ جو چاہے گا میں اسے دوں گا اور بندہ جب کہے : اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیرا لمغضوب علیھم والضالین۔ تو خالق فرماتا ہے: یہ صرف میرےب ندے کا ہے اور اسے میں وہ کچھ دوںگا جو وہ مانگے گا،،(۱)

اس روایت سے یوں استدلال کیا جاتا ہے کہ اس روایت کے ظاہری مفہوم کی رو سے آیہ کریمہ ایاک نعبد و ایاک نستعین کاما بعد اس کے ماقبل کے برابر ہے لیکن اگر بسم اللہ کو سورہ فاتحہ کاجزء مان لیا جائے تو اس روایت کا معنی و مفہوم صحیح نہیں رہتا۔ اس لئے کہ سورہ فاتحہ سات آیات پر مشتمل ہے (جیسا کہ اس سے قبل معلوم ہو چکا ہے) اگر بسم اللہ کو سورہ کا جزء مان لیا جائے تو یہ آیہ ایاک نعبد و ایاک نستعین سے آخر تک دو ہی آیتیں ہوں گی۔ اس

طرح اس آیت سے پہلے کی آیات اس کے مابعد کی دو گنی ہوں گی اور آیت ایاک نعبد تک سورہ فاتحہ دو برابر حصو میں تقسیم نہیں ہو گی جو اس روایت کے منافی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲ ، ص ۶ ، سنن ابوداؤد ، ج ۱ ، ص ۱۳۰ ، سنن نسائی ، ج ۱ ، ص ۱۴۴

۵۶۶

جواب: اولاً: اس روایت کا راوی علاء ہے جس کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے بعض نے اس کی توثیق کی ہے اور بعض نے اس کی تضعیف کی ہے اس کو کمزور اور اس کی روایت کو ناقابل عمل قرار دیا ہے۔

ثانیاً بفرض تسلیم اگر اس روایت کی دلالت درست ہو تو بھی یہ قابل قبول نہیں اس لئے کہ یہ ان گزشتہ روایات سے معارض ہے جن کے مطابق سورہ فاتحہ بسم اللہ سمیت سات آیات پر مشتمل ہے۔

ثالثاً : یہ روایت اس امرپر دلالت نہیں کرتی کہ سورہ فاتحہ الفاظ کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے بلکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ معنی کے اعتبارسے دو برابر حصوں میں تقسیم ہوتی ہے بنا برایں روایت کا مفہوم یہ ہے کہ اپنے مدلول کے اعتبار سے سورہ فاتحہ کابعض حصہ خداسے متعلق ہے اور بعض حصہ بندوں سے متعلق ہے۔

رابعاً: اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ سورہ فاتحہ کو الفاظ کے اعتبار سے تقسیم کیا گیا ہے تو اس امر پر کوئی دلیل نہیں کہ یہ تقسیم آیات کی تعداد کے اعتبار سے کی گئی ہو ۔ شاید یہ تقسیم کلمات (الفاظ) کے اعتبار سے کی گئی ہو اس لئے کہ مکرر الفاظ کو حذف کرنے کے بعد اور بسم اللہ کو شامل کر کے ایاک نعبد و ایاک نستعین سے پہلے بھی دس کلمے ہیں اور اس کے بعد بھی۔

۳۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے :

''سورہ کوثر تین آیات پر مشتمل ہے(۱) اور سورہ ملک تیس آیات پر(۲) ،،

اگر بسم اللہ سورہ کا جزء ہو تو یہ تعداد درست نہیں رہتی۔

جواب: سورہ کوثر کے بارے میں حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت صحیح السند مان لی جائے تو یہ انس کی اس گزشتہ روایت سے معارض ہے جو مقبولہ ہے جسے موطا کے علاوہ تمام صحاح نے روایت کیا ہے(۳)

____________________

(۱) کتب روایات میں یہ روایت مجھے نہیں ملی۔

(۲) مستدرک الحاکم ، ج ۱ ، ص ۵۶۵ ۔ صحیح ترمذی ، ج۱۱ ، ص ۳۰ ، کنز العمال ، ج۱ ، ص ۵۱۶ ، ۵۲۵

(۳) تیسیرالوصول ، ج۱ ، ص ۱۹۹

۵۶۷

بنا برایں یا تو حضرت ابوہریرہ کی روایت ترک ہونی چاہئے یااس کی تاویل یہ کی جائے کہ سورہ کی تین آیات سے مرادوہ آیات ہیں جو صرف اس سورہ سے مختص ہیں اور یہ دوسرے سوروں میں موجود نہیں بخلاف بسم اللہ کے جو تمام سوروں میں مشترک موجود ہے اور یہی جواب سورہ ملک کے بارے میں بھی دیا جاسکتا ہے۔

تحلیل آیتہ

الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾

''سب تعریف خدا ہی کیلئے (سزاوار) ہے جو سارے جہان کا پالنے والا بڑا مہربان رحم والا ہے ، روز جزا کا حاکم ہے،،۔

قرات

اکثر علمائے قرات ''الحمد،، کی دال کو پیش اور ''للہ،، کے لام کو زیر دیتے ہیں بعض علمائے قرآت نے الحمد کی دال کو للہ کے لام کے تابع قرار دیا ہے اور اسے زیر دیا ہے اور بعض دوسرے علمائے قرات للہ کے لام کو الحمد کی دال کاتابع بنا کر اسے پیش دیتے ہیں لیکن یہ دونوں قرابتں غیر مشہور اور شاذ ہیں ان کی طرف توجہ بھی نہیں کرنی چاہئے ۔

لفظ ''مالک،، کی قرات کے بارے میں بھی اختلاف ہے اس میں دو قول مشہور ہیں۔

۱) یہ فاعل کے وزن پر مالک پڑھا جائے۔

۲) کتف کے وزن پر ملک یوم الدین پڑھا جائے۔

بعض قاریوںنے فلس کے وزن پر ملک پڑھا ہے ان کے مقابلے میں بعض نے فعیل کے وزن پر ملیک اور حضرت ابو حنیفہ نے صیغہ ماضی کی صورت میں ملک پڑھا ہے لیکن پہلے دو اقوال کے علاوہ تین اقوال شاذ اور ناقابل عمل ہیں۔

۵۶۸

قراتوں کی ترجیحات

پہلی دو مشہور قراتوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ ان میں سے کونسی مقدم ہے:

(۱) بعض علمائے قرات کا کہنا ہے کہ ''مالک،، زیادہ بہتر ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ ''مالک،، کا مفہوم '' ملک،، کی نسبت عام ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ فلاںآدمی اپنی قوم کامالک ہے۔

اس جملے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ آدمی مملکیت اور مالکیت (جو اس لفظ کے اصلی اور لغوی معنی ہیں) کے علاوہ اپنی قوم پر حکومت اور سرپرستی کا حق بھی رکھتا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں آدمی اپنی قوم کا''ملک،، (بادشاہ) ہے تو اس جملے سے یہ سمجھا جائے گا کہ یہ آدمی اپنی قوم پر حکومت و سلطنت کا حق رکھتا ہے مگر مالکیت و ملکیت کا مفہوم نہیں سمجھا جائے گا پس مالک پڑھنا ملک پر مقدم ہو گا۔

(۲) اس کے مقابلے میں بعض علمائے قرات ''ملک،، کو ترجیح دیتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ اکثر اوقات دیکھنے میں آیا ہے کہ مالک زمانہ کی طرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ملک زمانہ کی طرف مضاف ہوتا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے :ملک العصر (بادشاہ زمان) نیز کہا جاتا ہے :ملوک العصار المتقدمة (گزشتہ زمانے کے بادشاہ) چونکہ سورہ حمد میں ''ملک،، زمانہ (یوم) کی طرف مضاف استعمال ہوا ہے اس لئے ''ملک،، پڑھا جانا چاہئے ''مالک،، نہیں۔

ترجیحات کابے فائدہ ہونا

یہ وہ دو دلیلیں تھیں جو ''مالک،، اور ''ملک،، کے قائل علمائے قرات نے پیش کی ہیں لیکن ہمارے خیال میں یہ بحث بے فائدہ ہے بلکہ بنیادی طورپر مشہور قراتوں میں سے کسی ایک کے انتخاب اور اسے اختیار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے کہاگر یہ قراتیں تمام کی تمام رسول اللہ (ص) سے بطور تواتر منقول ہوں توساری کی ساری قراتوں کو قرآن کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور اس اعتبار سے قرآن کی آیات اور اس کے کلمات (الفاظ) میں کوئی فرق نہیں اور اگر یہ قراتیں بطور تواتر ثابت نہ ہوں (چنانچہ حق بھی یہی ہے) اس صورت میں اگر ایک قرات کی ترجیح اور اس کے انتخاب سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا علم و یقین حاصل ہو جائے تو پھر اس بحث میں پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

۵۶۹

لیکن حقیقت یہ ہے کہ بحث و تحقیق سے ایک قرات کو ترجیح دینے اور اسے منتخب کرنے سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا یقین حاصل نہیں ہو سکتا اور جب تک ایک قرات کے انتخاب اورت رجیح سے دوسری قرات کے باطل ہونے کا علم حاصل نہ ہو (اکثر اوقات دوسری قرات کے باطل ہونے کایقین حاصل نہیں ہوتا) یہ بحث بے نتیجہ اور بے فائدہ ہے۔ جبکہ یہ مسلم ہے کہ معروف و مشہور قراتوں میں سے کسی بھی قرات کوپڑھا جاسکتا ہے:

مشہور قراتوں میں سے ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کی بحث بے فائدہ ہے لفظ ''مالک،، اور ''ملک،، میں اس لئے کہ ''مالک،، ، ''ملک،، میں فرق و تفاوت اس جگہ ظاہر ہوتا ہے جہاں''ملک،، ایک اعتبار اورقرارددی حکومت و سلطنت کیلئے استعمال ہو جس میں سلطنت و حکومت کے مراتب بھی مختلف موارد اور مقامات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں کبھی حاکمیت اورسلطنت کے ساتھ ملکیت بھی حاصل ہوتی ہے اور کبھی ملکیت حاصل نہیں ہوتی لیکن اگر یہی لفظ (ملک) خدا کیلئے استعمال ہو جس کی حکومت حقیقی ہے اور اس کاسرچشمہ پوری کائنات پر اللہ کا احاطہ ہے تو اسی احاطہ کی وجہ سے اللہ پر ''مالک،، اور ''ملک،، دونوں صادق آتے ہیں۔

یہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور ملک کے زمانہ کی طرف اضافت جائز نہ ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ''مالک،، جب اللہ کیلئے استعمال ہو تب ہی یہ زمانہ کی طرف مضاف نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ جس طرح دیگر موجودات عالم کام الک ہے اسی طرح زمانہ کا بھی مالک ہے بنا برایں زمانہ کی طرف مضاف ہونے میں بھی ''مالک،، مثل ''ملک،، کے ہے اور اس اعتبار سے بھی ''ملک،، کو ''مالک،، پر کوئی ترجیح حاصل نہیں۔

بعض حضرت ''ملک،، کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ اگر یہ لفظ ''مالک،، ہو تو اس صورت میں ''یوم،، کی طرف اس کی اضافت ، اضافت لفظی ہو گی جو تعریف (معرفہ) کا فائدہ نہیں دیتی اور اضافت سے پہلے کی طرح یہ نکرہ رہے گا اس طرح لازم آئے گا کہ نکرہ ، معرفہ کی صفت واقع ہو ، جو جائز نہیں لیکن اگر یہ لفظ ''ملک،، ہو تو اس صورت میں ''ملک،، سلطان کے معنی میں ہو گا جو غیر مشتق کے حکم میں ہو گا اور اس طرح یوم کی طرف ملک کی اضافت ، اضافت معنویہ ہو گی اور یہ تعریف کافائدہ دے گی اس طرح یہ اعتراض لازم نہیں آئے گا کہ نکرہ ، معرفہ کی صفت واقع ہو۔

۵۷۰

دوسروں کا جواب:

تفسیر کثاف اور دیگر کتب میں اس اعتراض کا یہ جواب دیاگیا ہے کہ اسم فاعل کی اضافت اس صورت میں اضافت لفظی کہلاتی ہے جس وہ (اسم فاعل) حال یہ مستقبل کے معنی میں ہو لیکن اگر اسم فاعل ماضی یا دوام اور ہمیشگی کے معنی میں استعمال ہو تو ان دونوں صورتوں میں اسم فاعل کی اضافت ، اضافت معنوی ہوتی ہے اور اپنے مضاف الیہ سے کسب تعریف کرتی ہے جیسے اسم فاعل کے معنی ماضی ہونے کی مثال ہے:

( الْحَمْدُ لِلَّـهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ) ۳۵:۱

''ہر طرح کی تعریف خدا ہی کے لئے (مخصوص ) ہے جو سارے آسمان اور زمین کا پیدا کرنے والا فرشتوں کو (اپنا) قاصد بنانے والا ہے،،۔

اور اسم فاعل کے بمعنی دوام ہونے کی مثال ہے:

( تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّـهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ) ۴۰:۲

(اس ) کتاب (قرآن) کا نازل کرنا (خاص بارگاہ) خدا سے ہے جو (سب سے) غالب بڑا واقف کار ہے۔

( غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ ) ۴۰:۳

''گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ کا قبول کرنے والا سخت عذاب دینے والا صاحب فضل و کرم ہے،،۔

واضح ہے کہ پہلی آیت میں ''فاطر،، اور ''جاعل،، ماضی کے معنی میں اور دوسری آیت میں ''غافر الذنب،، اور ''قابل التوب،، دوام کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں اضافت کی وجہ سے معرفہ بن گئے ہیں اور اللہ کی صفت واقع ہوئے ہیں۔

سورہ فاتحہ میں ''مالک،، کی اضافت بھی ایسی ہی ہے کیونکہ لفظ ''مالک،، کا معنی ہے روز قیامت اللہ کی مالکیت دائمی اور ابدی ہے بنا برایں ''مالک،، کی اضافت ''یوم،، کی طرف ، اضافت معنی ہو گی اور کسب تعریف کے بعد لفظ اللہ کی صفت واقع ہو سکے گی۔

۵۷۱

اس اعتراض کا تحقیقی جواب یہ ہے کہ اضافت چاہے لفظی ہو یا معنوی ، نکرہ کو معرفہ نہیں بنا سکتی بلکہ اضافت صرف تخصیص کافائدہ دیتی ہے اور لفظ کے مفہوم اور اس کے مصادیق کے دائرے کوتنگ کر دیتی ہے تعریف و تعیین تو دوسرے قرائن و شواہد کے ذریعے سمجھی جائے گی۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ جم لہ ''غلام لزید،، اور ''غلام زید،، میں کوئی فرق نہیں جس طرح ''غلام لزید،، صرف تخصیص کا فائدہ دیتا ہے اسی طرح ''غلام زید،،بھی صرف تخصیص کا فائدہ دیتا ہے پس جس طرح اضافت معنوی کے نتیجے میں تخصیص حاصل ہوتی ہے اسی طرح اضافت لفظی میں بھی تخصیص حاصل ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اضافت لفظی کی تخصیص اضافت کی وجہ سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ اضافت کے بغیر حاصل ہوئی ہے اضافت لفظی سے صرف تخفیف حاصل ہوئی ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مضاف کسی معرفہ کی صفت واقع نہ ہو سکے اس لئے کہ اگر تخصیص کی وجہ سے معرفہ کی صفت قرار پانا صحیح ہو تو مانحن فیہ (اضافت لفظی) میں مضاف کی تخصیص حاصل ہو جاتی ہے اور اگر معرفہ کی صفت بننے کا مجوز وہ تعریف (معرفہ ہونا) ہو جو خارجی شواہد سے حاصل ہو تو اس میں دونوںا ضافتیں مشترک ہیں بنا برایں اضافت لفظی اور اضافت معنوی میں جتنا فرق بیان کیا جاتا ہے وہ سب بے نتیجہ ہے۔

اس مقام پر ایک بحث باقی رہتی ہے کہ جہاں تک مقام اثبات اور وقوع کا تعلق ہے اس بات پر اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر مصاف باضافت لفظیہ صفت مشبہ ہو تو معرفہ کی صفت واقع نہیں ہوس کتا ہے لیکناگر صفت مشبہ کے علاوہ کوئی اور مشتق مضاف واقع ہو تو اس صورت میں ''سیبویہ،، نے ''خلیل،، اور ''یونس،، سے یہ بات نقل کی ہے کہ اکثر کلام عرب(۱) میں ایسے مشتقات جو مضاف ہوں ، معرفہ کی صفت واقع ہوئے ہیں اور قرآن میں جہاں کہیں بھی مضاف

____________________

۱) تفسیر ابی حیان ، ج ۱ ص ۲۱

۵۷۲

باضافت لفظیہ معرفہ کی صفت قرار پایا ہے، اسی قبیل سے ہے۔ یعنی صفت مشبہ کے علاوہ کوئی مشتق ہے جو مضاف واقع ہوا ہے اور معرفہ کی صفت قرار پایا ہے۔

قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مضاف باضافت لفظی معرفہ کی صفت واقع ہوا ہے اسے اسی پر محمول کیا گیا ہے چنانچہ ''مانحن فیہ،، (مالک یوم الدین) میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔

باقی رہا صاحب ''کشاف،، کا یہ کہنا کہ ''مالک یوم الدین،، میں اسم فاعل استمرار کے معنی میں استعمال ہواہے اور جب اسم فاعل استمرار کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی اضافت ، لفظی نہیں معنوی ہوتی ہے یہ قول واضح طور پر باطل ہے اس لئے کہ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام موجودات کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس کا یہ احاطہ اور مالکیت دائمی و ابدی ہے لیکن آیت میں ''مالک،، کو ''یوم الدین،، کی طرف مضاف کیا گیا ہے اور ''یوم الدین،، وجود کے اعتبارسے متاخر ہے بنا برایں لامحالہ اسم فاعل ، مستقبل کے معنی میں ہو گا اور اضافت ، اضافث لفظی ہو گی۔

اسم فاعل مضاف کےبارے میں یہ فرق بھی درست نہیں کہ اگر اسم فاعل بمعنی ماضی ہو تو معرفہ کی صفت بن سکتا ہے ورنہ نہیں کیونکہ کسی بھی چیز کے حدوث اور تحقق کا لازمہ یہ ہے کہ وہ متعین اور معلوم ہو یہ فرق اس لئے صحیح نہیں کہ کسی بھی شئی کا حدوث مستلزم علم نہیں ہوا کرتا عین ممکن ہے کہ ایک چیز درواقع متحقق ہو لیکن سب کو معلوم نہ ہو کسی چیز کے معرفہ بننے کا دارو مدار یہ ہے کہ وہ فی الحال متکلم و مخاطب کو معلوم ہو صرف بذات خود اس کامتحقق ہونا کافی نہیں ہے خلاصہ یہ کہ کلام عرب میں وہی قواعد قابل اتباع ہیں جو فصیح عربوں نے استعمال کئے ہوں اور بے معنی توجیہات پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا جن کا ذکر نحوی حضرات کیا کرتے ہیں۔

۵۷۳

الحمد:

حمد وہ مفہوم ہےجو ملامت کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے اور حمد ہر اس اچھائی پر کی جاتی ہے جو انسان کے ارادہ و اختیار سے صادر ہو خواہ تعری فکرنے والے پر احسان ہو یا نہ ہو '' شکر،، کفران (ناشکری) کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے اور اسے نعمت و احسان کے بدلے میں ادا کیا جاتا ہے ''مدح،، مذمت کے مقابلے میں آتا ہے اس میں یہضروری نہیں ہے کہ یہ کسی اختیاری عمل کےب دلے میں انجام پائے چہ جائیکہ یہ احسان کے بدلے میں ہو لفظ ''الحمد،، میں الف لام جنس ہے اس لئے کوئی خاص اور معہود حمد پیش نظر نہیں اللہ ، رحمن اور رحیم کی وضاحت اس سے قبل ہو چکی ہے۔

الرب:

یہ لفظ ''ربب،، سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے مصلح ، مالک اور مزتی اور اسی سے ''ربیبہ،، (پروردہ) بنایا گیا ہے ۔ یہ لفظ جب اللہ کے علاوہ کسی کیلئے استعمال ہو تو اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے ''رب السفینتہ،، (کشتی کامالک) ''رب الدار،، (گھر کا مالک)

العالم:

یہ ایسی جمع ہے جس کا کوئی مفرد نہیں۔ جس طرح ''رھط،، اور ''قوم،، ہیں کبھی اس کا اطلاق ایک حقیقت کی متعدد اشیاء کے مجموعہ پر ہوتا ہے ۔ جیسے عالم جمادات ، عالم نباتات اور عالم حیوانات ہیں کبھی یہ ایسی چیزوں کے مجموعہ کیلئے بولا جاتا ہے جن کا زمانہ یا مکان کے اعتبار سے آپس میں کوئی ربط و تعلق ہو جیسا کہ عالم صبا (بچپن) عالم ذر ، عالم دنیا اور عالم آخرت ہے کبھی تمام موجودات عالم پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔اس کی جمع کبھی واؤ اور نون کے ساتھ آتی ہے، جیسے ''عالمون،، اور کبھی فواعل کے وزن پر جیسے ''عوالم،، ہے لغت عرب میں عالم کے علاوہ کوئی اور ایسا لفظ نہیں جس کا مفرد فاعل کے وزن پر ہو اور اس کی جمع واؤ اور نون کے ساتھ آئے۔

۵۷۴

الملک:

یہ لفظ احاطہ اور سلطنت کے معنی میں آتا ہے البتہ احاطہ ، سلطنت اور ملکیت کبھی تو حقیقی اور خارجی ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ موجودات عالم کا محیط و مالک ہے کیونکہ ہر موجود و مخلوق اپنے خالق اور موجد سے قائم اور وابستہ ہے اور اپنی علت موجدہ سے وابستگی کے علاوہ اس کا اپنا کوئی مستقل وجود نہیں ہے ہر ممکن اپنے حدوث و پیدائش اور بقاء میں اپنے موثر کا محتاج ہے اور احتیاج و نیاز اس سے کبھی بھی جدا نہیں ہوتی۔

( وَاللَّـهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاءُ ) ۴۷:۳۸

''اور خدا تو بے نیاز ہے اور تم (اس کے) محتاج ہو،،

کبھی مالکیت و سلطنت ، اعتباری اور قراردادی ہوتی ہے جس طرح لوگوںکوچیزوں کی ملکیت حاصل ہوتی ہے زید اپنے پاس موجود چیزوں کا صرف اس معنی میں مالک ہے کہ ان چیزوں کی ملکیت اور اختیار فرض کیا جاتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں جب ملکیت کے اسباب میں سے کوئی سبب وجود میں آئے جس طرح عقد ، معاملہ ، ارث اور آزاد علاقوں سے لکڑیاں وغیرہ جمع کرنا ہے۔

فلاسفروں کے نزدیک ملکیت اس حالت اور کیفیت کو کہا جاتا ہے جو ایک چیز کے احاطہ کرنے سے حاصل ہو یہ نو اعراض میں سے ایک عرض ہے جسے مقولہ جدہ سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسا کہ عمامے کا سر کو اور انگوٹھی کا انگلی کو گھیر لینے سے ایک صورت حاصل ہوتی ہے۔

الدین:

یہ جزاء اور حساب کے معنی میں آتا ہے ۔ سورہ فاتحہ میں ان دونوں میں سے جس معنی کا بھی ارادہ کیا جائے مناسب ہے کیونکہ حساب ، جزاء کا مقدمہ اورپیش خیمہ ہوتا ہے اور روز حساب یوم جزاء ہی کا نام ہے۔

۵۷۵

تفسیر:

خالق کائنات نے یہ بیان فرمایا ہے کہ حمد و ثناء کی حقیقت صرف اللہ کی ذات سے مختص ہے اس لئے کہ :

(۱) کسی بھی فعل کے حُسن اور اس کے کمال کا منشاء فاعل کاحسن اور کمال ہوا کرتا ہے بایں معنی کہ اگر فاعل اچھا اور حسن ہے تو اس سے اچھے افعال صادر ہوتے ہیں اگر فاعل برا ہے تو اس سے برے افعال صادر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کا مل مطلق ہے اس میں کسی قسم کے عیب اور نقص کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ لہٰذا اس کا ہر فعل بھی ہر لحاظ سے کامل اور بے عیب ہے۔

( قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ عَلَىٰ شَاكِلَتِهِ ) ۱۷:۸۴

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تم کہہ دو کہ ہر ایک اپنے (اپنے) طریقہ پر کار گزاری کرتا ہے،،

اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی مخلوقات میں کوئی نہ کوئی بلکہ کئی ذاتی عیب و نقائص پائے جاتے ہیں لہٰذا لامحالہ ان کے افعال بھی نقص و عیب سے خالی نہیں ہوں گے معلوم ہوا خالص حسن اور اچھے افعال صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مختص ہیں اور غیر خدا سے خالص حسن اچھے افعال کا صادر ہونا محال ہے اسی لئے حمد کی مستحق صرف اللہ کی ذات ہے اور غیر خدا کا لائق حمد ہونا محال ہے۔

اس حقیقت کی طرف سورہ فاتحہ میں جملہ : الحمدللہ کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے گزشتہ مباحث سے معلوم ہو چکا ہے کہ لظ ''اللہ،، نام ہے اس ذات مقدس کا جو تمام صفات مال کی جامع ہے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

''ایک مرتبہ میرے والد بزرگوار امام محمدباقر (علیہ السلام) کا ایک خچر گم ہو گیا۔ اس موقع پر آپ (ع) نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ میرا خچر میری طرف لوٹا دے تو میں اللہ کا ایسا شکر ادا کروں گا جس پر وہ راضی ہو جائے زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ آپ (ع) کا خچر زین و لگام سمیت لا کر آپ (ع) کے حوالے کر دیا گیا آپ (ع) نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور صرف اتنا فرمایا : الحمدللہ۔ پھر فرمایا: میں نے اللہ تعالیٰ کی کوئی حمد و ثناء نہیں چھوڑی اور تمام تعریفوں کو اللہ کی ذات سے مختص کیا ہے حمد وثناء کی تمام قسمیں اس جملے میں داخل ہیں(۱)

____________________

۱) تفسیر البرہان ، ج ۱ ، ص ۲۹۔ اصول کافی ، باب الشکر ، ص ۳۵۶

۵۷۶

نیز آپ (ع) نے فرمایا:

اگر اللہ اپنے کسی بندے کو کسی بڑی یا چھوٹی نعمت سے نوازے اور بندہ الحمدللہ کہے تو اس سے اللہ کا شکر ادا ہو جاتا ہے(۱)

(۲) عقول ، نفوس ، ارواح و اشباح غرض ہر ممکن کا کمال اول اس کا اپنا وجود ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ممکن کا وجود ، اللہ کی طرف سے ہے اور وہی اس کا خالق و موجد ہے۔

دوسرا کمال وہ امور اور صفات ہیں جو کسی کی فضیلت اور امتیاز کاباعث بنتی ہیں اگر یہ صفات مخلوق کے ارادہ و ا ختیار سے باہر ہوں تو یہ بھی یقیناً اللہ کی طرف سے ہی ہوں گی جس طرح نباتات کا نشوونما پانا ، حیوانات کا اپنے فائدے اور نقصان کوسمجھنا اور انسان کا اپنے مقصد کو بیان کرنے پر قادر ہونا ہے اور جو افعال مخلوق کے ارادے اور اختیار سے صادر ہوں اگرچہ یہ اختیاری افعال کہلاتے ہیں لیکن درحقیقت ان کامنشاء اور منبع بھی اللہ کی ذات ہے اللہ تعالیٰ کی ذات ہی کار خیر کی توفیق دیتی اور راہ حق کی رہنمائی فرماتی ہے چنانچہ حدیث میں آیا ہے۔

''ان الله اولی بحسنات العبدمنه،، (۲)

''بندے کی نیکیوں میں بندے کی نسبت اللہ کا حصہ زیادہ ہے،،

اس حقیقت کی طرف جملہ ''رب العالمین،، کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے۔

(۳) ہر اچھا فعل جو اللہ سے صادر ہوتا ہے اس کا فائدہ اللہ کو نہیں ہوتا کیونکہ اللہ وہ کامل مطلق ہے جس کا مزید کامل ہونا یا کمال کو طلب کرنا محال ہے اور اللہ کا ہر فعل محض احسان ہے جو وہ اپنی مخلوق پر کرتا ہے جو اچھا کام خیر خدا سے صادر ہوتا ہے اگرچہ بعض اوقات ظاہراً دوسروں پر احسان سمجھا جاتا ہے لیکن درحقیقت یہ احسان اپنے اوپر کیا جاتا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

( إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ ۖ ) ۱۷:۷

''اگر تم اچھے کام کروں گے تو اپنے فا ئدے کیلئے اچھے کام کرو گے،،

۵۷۷

پس معلوم ہوا خالص احسان صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور وہی حمد و ثناء کا مستحق ہے کوئی دوسرا نہیںا س حقیقت کی طرف جملہ( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) میں ا شارہ کیا جاتا ہے۔

اس مقام پر یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ کسی بھی ذات کے اختیاری فعل پر اس کی حمد وثناء کبھی اس کی نعمتوں کے شوق و رغبت اور خوف و عقاب سے ہٹ کر صرف اس ذات کی خوبی کے ادراک کی وجہ سے کی جاتی ہے اور کبھی محسن کے انعام و احسان اور رغبت و خوف کے پیش نظر اس کی حمد و ثناء کی جاتی ہے کبھی انعام و احسان کی رغبت و لالچ میں کسی کی تعریف کی جاتی ہے اور کبھی کسی کے خوف کی وجہ سے اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ حمد کی پہلی وجہ کی طرف جملہ( الْحَمْدُ لِلَّـهِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے یعنی ہم اللہ کی اس لئے تعریف کرتے ہیں کہ وہ حمد کا مستحق ہے اور تمام صفات کمال کا جامع ہے ہر قسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے۔

حمد کی دوسری وجہ کی طرف جملہ ''( رَبِّ الْعَالَمِينَ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ اللہ ہی نے اپنے بندوں کو خلقت و ایجاد کی نعمت سے نوازا ہے اور ان کی تربیت کر کے انہیں کمال تک پہنچایا ہے۔

حمد کی تیسری وجہ کی طرف جملہ( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ رحمت ایک ایسی صفت ہے جو اللہ کی نعمتوں کی طرف رغبت اور اس سے طلب خیر کی متقاضی ہے۔

____________________

۱) اصول کافی ، باب الشکر ، ص ۳۵۶

۲) الوافی باب الخیر و القدر ، ج ۱ ، ص ۱۱۹

۵۷۸

حمد کی چوتھی وجہ کی طرف جملہ( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) کے ذریعے اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ جس کی طرف سب لوگوں کی باز گشت ہے وہ اس قابل ہے کہ اس سے ڈرا جائے اور اس کی مخالفت سے احتراز کیا جائے۔

( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) کی تفسیر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ روز قیامت وہ دن ہے جب اللہ کا عدل و انصاف اور رحم و کرم ظاہر ہو گا اور یہ دونوں ایسی حسین و جمیل نعمتیں ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی حمد کی جانی چاہئے جس طرح دنیا میں خلق کرنا ، تربیت دینا اور لوگوں پر احسان کرنا اللہ کے افعال اور اس کی صفات جمیلہ ہیں جن کی وجہ سے وہ حمد و ثنا کا مستحق ہے اسی طرح روز آخرت اس کی بخشش و مغفرت ، اطاعت گزاروں کو ثواب دینا اور گناہ گناروں کو سزا دینا یہ سب اس کے افعال اور اس کی صفات جمیلہ ہیں جن کے بموجب وہ حمد و ثناء کے لائق ہے۔

ہمارے اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ جملہ ''الرحمن الرحیم،، تاکید کی خاطر مکرر نہیں لایا گیا جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے بلکہ اس جملے میں حمد کے اللہ سے مختص ہونے کی وجہ بیان کی گئی ہے بسم اللہ میں بطور تبرک( الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) کا ذکر کرنا کافی نہ تھا اس لئے بعد میں اس کا لانا ناگزیر تھا۔

تحلیل آیت

( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ )

''خدایا ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں،،

۵۷۹

لغت

العبادۃ

لغت میں ''عبادت،، تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے:

(۱) اطاعت ،چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

( أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ) ۳۶:۶۰

''اے آدم کی اولاد کیا میں نے تمہارے پاس یہ حکم نہیں بھیجا تھا کہ (خبردار) شیطان کی پرستش نہ کرنا ، وہ یقینی تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے،،

آیت میں شیطان کی جس عبادت کی نہی کی گئی ہے اس سے مرد اس کی اطاعت ہے۔

(۲) خشوع و خضوع چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

( فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ ) ۲۳:۴۷

''آپس میں کہنے لگے کیا ہم اپنے ہی ایسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان دونوں کی (قوم کی) قوم ہماری خدمت گار ہے ،،۔

اسی لئے ہر جگہ کو ''معبد،، کہا جاتا ہے جہاںل وگوں کی آمدورفت زیادہ ہو اور وہ لوگوں کے قدموں تلے دبتی رہے۔

(۳) پرستش و پوجا کرنا چنانچہ ارشادہوتا ہے:

( قُلْ إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّـهَ وَلَا أُشْرِكَ بِهِ ۚ ) ۱۳:۳۶

''کہہ دو کہ (تم مانو نہ مانو) مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں خدا ہی کی عبادت کروں اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤں،،۔

جب لفظ ''عبادت،، عام طور پر بولا جائے اور یہ ہر قسم کے قرینہ اور شاہد کے بغیر ہو تو اس سے عبادت کا آخری معنی ذہن میں آتا ہے۔

۵۸۰

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689