البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314006 / ڈاؤنلوڈ: 9314
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

۱۸_موسى بن ابى بكر واسطى كہتے ہيں :''سألت أبالحسن موسي عليه‌السلام عن الكفر والشرك ايهما اقدم فقال لي: الكفر اقدم وهو الجحود قال لابليس''أبى واستكبر وكان من الكافرين ''(۲) امام كاظمعليه‌السلام سے ميں نے سوال كيا كفر قديمى ترہے يا شرك تو امامعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا كفر زيادہ قديمى ہے اور اس كا معنى انكار ہے اللہ تعالى نے ابليس كے بارے ميں فرمايا ''اس نے انكار كيا(نافرمانى كي) اور تكبر اختيار كيا اور كافروں ميں سے ہوگيا ''

۱۹_ امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے''فاول ما عصى الله به الكبر وهى معصيه ابليس حين أبى واستكبر وكان من الكافرين ...'' (۳) اللہ تعالى كى نافرمانى كا اولين سبب تكبر تھا اور يہ نافرمانى ابليس كى تھى جب اس نے انكار كيا اور تكبر كيا اور كافروں ميں سے ہوگيا

۲۰_عن على ابن الحسين عليه‌السلام فى قوله ''إسجدوا لادم فسجدوا'' ...إنها كانت عصابة من الملائكة و هم الذين كانوا حول العرش و هم الذين امروا باالسجود (۴) امام سجاد عليہ السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام ''اسجدو الادم فسجدوا''كے بارے ميں روايت ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا :وہ (جن كو سجدے كا حكم ديا گيا )ملائكہ كے كچھ گروہ تھے جو عرش الہى كے اطراف ميں تھے ...يہى وہ فرشتے تھے جن كو سجدہ كا حكم ديا گيا_

۲۱_ امير المو منينعليه‌السلام نے فرمايا :''اول بقعة عبد الله عليها ظهر الكوفة لما امرالله الملائكة ان يسجدوا لادم سجدوا على ظهر الكوفة'' (۵) سب سے پہلى مقدس جگہ جہاں اللہ تعالى كى عبادت ہوئي وہ سر زمين كوفہ ہے جب اللہ تعالى نے فرشتوں كو حكم ديا كہ ادمعليه‌السلام كو سجدہ كريں تو انھوں نے ادم كو سر زمين كوفہ پر سجدہ كيا_

۲۲_ پيغبر اسلام صلى اللہ عليہ والہ وسلم كا ارشاد ہے: ''ان الله تبارك و تعالى خلق ادم فأودعنا صلبه و امر الملائكة بالسجود له تعظيماً لنا و اكراما وكان سجودهم لله عزوجل عبودية ولادم اكراما و طاعة لكوننا فى صلبه'' (۶)

____________________

۱) تفسير قمى ج / ۱ص/ ۳۵ ، نور الثقلين ج/۱ ص/۵۵ ح/۹۳_ ۲) تفسير عياشى ج/۱ص/۳۴ح/۱۹، نور الثقلين ج/۱ص/۵۷ ح/۹۹_

۳) كافى ج/۲ص/۱۳۰ح/۱۱، نورالثقلين ج/۱ ص / ۶۰ ح/۱۱۱_ ۴) تفسير عياشى ج/۱ ص۳۰ ح۷ ، تفسير برہان ج/۱ص ۷۴ ح ۶_

۵) تفسير عياشى ج/۱ ص۳۴ ح ۱۸ ، تفسير برہان ج/۱ ص ۷۹ ح ۱۶_

۶) عيوان الاخبار الرضاعليه‌السلام ج/۱ ص/۲۶۳ ح/۲۲باب ۲۶ ، نور الثقلين ج/۱ ص/۵۸ ح/۱۰۱ _

۱۲۱

خدا وند متعال نے حضرت ادمعليه‌السلام كو خلق فرمايا پھر ہميں حضرت ادمعليه‌السلام كى صلب ميں قرار ديا پھر ملائكہ كو امر فرمايا كہ ہمارى تعظيم اور اكرام كى خاطر سجدہ كريں اور ان كا سجدہ اللہ عزوجل كى عبادت كے لئے اور حضرت ادمعليه‌السلام كى اطاعت واكرام كے لئے تھا كيوں كہ ہم ان كى صلب ميں تھے_

ابليس : ابليس كے تكبر كے اثرات و نتائج ۹،۱۰; ابليس كى معصيت كے اثرات و نتائج ۱۰;ابليس كافروں ميں سے ۱۰; ابليس ملائكہ ميں سے ۸; ابليس معصيت سے پہلے ۷;ابليس اور حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ ۳، ۴، ۹;ابليس كااختيار ۱۲; ابليس كا تكبر كرنا ۱۸ ، ۱۹; ابليس كى اطاعت ۱۲; ابليس كى جنس ۱۷; ابليس كى معصيت ۴،۱۲،۱۳ ،۱۶،۱۸، ۱۹; ابليس كى معصيت كے اسباب۹;ابليس كے كفر كے عوامل ۱۰;ابليس كاكفر ۱۳،۱۸، ۱۹; ابليس كى ذمہ دارى ۳; ابليس كے گذشتہ ; درجات ۷

اخلاق : اخلاقى رذائل ۱۵; شيطانى صفات ۱۵

اطاعت : الله تعالى كى اطاعت كى بنياد ۶

الله تعالى : لله تعالى كے اوامر ۱

اہل بيتعليه‌السلام : اہل بيتعليه‌السلام كى عزت وتكريم ۲۲; اہل بيتعليه‌السلام كے فضائل ۲۲

تاريخ: تاريخ سے عبرت لينا۱۶;تاريخ كے فوائد ۱۶

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۶ (استكبار ) تكبر : تكبر كے اثرات و نتائج۱۱; تكبر كى سرزنش ۱۵

حديث:۱۷،۱۸،۱۹،۲۰،۲۱،۲۲

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت ادمعليه‌السلام كى صلاحتيں ۱;حضرت ادمعليه‌السلام كے واقعہ كى اہميت ۱۶;حضرت ادمعليه‌السلام كى ملائكہ پر برترى ۵،۶;حضرت ادمعليه‌السلام كے واقعہ ميں موجود سبق اور تعليمات ۱۶;حضرت ادمعليه‌السلام كواسماء كى تعليم ۱; خلافت ادمعليه‌السلام ۱،۶;حضرت ادمعليه‌السلام كوسجدہ كرنے كا پس منظر ۶;فرشتوں كاحضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كرنا ۱،۲،۶، ۱۶، ۲۰، ۲۱،۲۲;حضرت ادمعليه‌السلام كاواقعہ ۱،۲،۳;حضرت ادمعليه‌السلام كے درجات ۱،۵

ذكر : تاريخى واقعات كاذكر ۱۶

سجدہ : سجدے كى حقيقت ۱۴

سرزمين : كوفہ كى سرزمين۲۱

۱۲۲

عبرت : عبرت كے عوامل ۱۶

كفار:۱۰،۱۸،۱۹ حضرت ادمعليه‌السلام كے زمانے كے كفار ۱۳

كفر : كفر كے اسباب۱۱

معصيت : معصيت كے نتائج ۱۱; الله تعالى كى معصيت ۱۱، ۱۳

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلاَ مِنْهَا رَغَداً حَيْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الْظَّالِمِينَ ( ۳۵ )

اور ہم نے كہا كہ اے آدم اب تم اپنى زوجہ كے ساتھ جنت ميں ساكن ہوجاؤ اور جہاں چاہو آرام سے كھاؤ صرف اس درخت كے قريب نہ جانا كہ اپنے اوپر ظلم كرنے والوں ميں سے ہوجاؤگے_

۱_خداوند متعال نے حضرت ادمعليه‌السلام اور ان كى زوجہ كو حكم ديا كہ جنت ميں سكونت اختيار كريں _وقلناياادم اسكن أنت وزوجك الجنة

۲_حضرت ادمعليه‌السلام اور ان كى زوجہ كى بہشت ميں سكونت فرشتوں كے حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كرنے كے بعد تھى _

واذقلنا للملائكة اسجدو لادم و قلنا يا ادم اسكن

۳_حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں سكونت سے قبل حضرت حواعليه‌السلام كى تخليق ہوچكى تھى _ اسكن أنت وزوجك الجنة

۴_حضرت ادمعليه‌السلام وحضرت حواعليه‌السلام كى بہشت ميں سكونت سے قبل شادى ہوچكى تھي_ياادم اسكن أنت وزوجك الجنة

۵_بہشت كى تمام ترچيزوں سے استفادہ حضرت ادمعليه‌السلام اور اپعليه‌السلام كى زوجہ كے لئے مباح تھا _وكلامنها رغداًحيث شئتما

۶_جس بہشت ميں حضرت ادمعليه‌السلام اور حضرت حواعليه‌السلام نے قيام كيا انتہائي ارام دہ اور نعمتوں سے معمور تھى _

وكلامنها رغداًحيث شئتما''رغد ''كامعنى ہے خيرو بركت سے پُر،پاك اور جس ميں ارام واسائش ہو_يہ لفظ ''رغداً'' ضمير''منھا''كے لئے حال واقع ہواہے يعنى بہشت سے استفادہ كرو در اں حاليكہ يہ بہشت خيروبركت ، ارام واسائش اور ...سے پرُ ہے_

۱۲۳

۷_بہشت ميں ہر كہيں انا جانا حضرت ادمعليه‌السلام و حوّاعليه‌السلام كے لئے ازاد تھا_حيث شئتما

۸_ خدا وند متعال نے حضرت ادمعليه‌السلام و حوّاعليه‌السلام كو ايك مخصوص درخت سے كھانے سے منع فرمايا_ولا تقربا هذه الشجرة

۹_ ادمعليه‌السلام وحو ّ اعليه‌السلام ممنوعہ شجر كے نزديك ہونے سے نہى الہى كے مرتكب قرار پائے_ولا تقربا هذه الشجرة

اگر ''ولا تقربا _نزديك نہ جائو '' سے مرا د كھانے سے منع كرناہو تو''لا تاكلا_نہ كھاو،'' كى جگہ ''لاتقربا '' كااستعمال اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام نے شجرہ، ممنوعہ كے نزديك جانے سے نہى الہى كے ارتكاب كا خطرہ مول ليا_

۱۰ _ حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كى بہشت ميں شجرہ ممنوعہ ايك خاص كشش ركھتاتھا_*ولاتقربا هذه الشجرة

يہ جو ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام ممنوعہ درخت كے قريب جانے سے نہى الہى كے مرتكب ہوئے اس سے معلوم ہوتاہے كہ اس درخت كاپھل اتنا پر كشش تھاكہ اس كے نزديك جانا ہى اس ميں پورى رغبت وتمايل اور اس سے استفادہ كا باعث تھا_

۱۱_ جب انسان كو كسى گناہ كے ارتكاب كا خطرہ ہو تو اس گناہ كى حدود اور دائرہ سے بھى دور رہنا چاہئے_ولا تقربا هذه الشجرةفتكونا من الظالمين

۱۲_ ممنوعہ درخت سے ہر طرح كا استفادہ ادمعليه‌السلام و حوّاعليه‌السلام كے لئے ممنوع تھا_*ولا تقربا هذه الشجرة

يہ مفہوم اس احتمال كى بنا پر ہے كہ جملہ ''ولا تقربا''سے مراد تمام تصرفات اور استعمالات حرام ہوں نہ فقط كھانا جب كہ يہ جملہ اس احتمال سے مانع بھى نہيں بلكہ ايك اچھى توجيہ ہے اس سوال كے مقابلے ميں كہ اللہ تعالى نے يہ كيوں نہيں ارشاد فرمايا''ولا تا كلا من هذه الشجرة''

۱۳_ اللہ تعالى نے ادمعليه‌السلام وحو ّاعليه‌السلام كو متنبہ كيا تھا كہ اگر انھو ں نے شجرئہ ممنوعہ سے كچھ تناول كيا تو ظالموں ميں سے شمار ہوں گے_ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۱۴_ جس بہشت ميں حضرت ادمعليه‌السلام و حضرت حوّاعليه‌السلام تھے وہ

۱۲۴

شرعى ذمہ داريوں (تكليف شرعي)كا گھر تھا_اسكن انت و زوجك الجنة ولا تقربا هذه الشجرة

۱۵_ سكونت كى جگہ ،بيوى اور خور اك انسان كى ضرورى احتياجات ہيں _اسكن أنت و زوجك الجنة وكلا منها

حضرت ادمعليه‌السلام كى خلقت كا سارا ماجرا انسان كى شخصيت ،اس كى ضروريات ،نفسيات،اور افكار وغيرہ كى ايك كلى تصوير ہے حضرت ادمعليه‌السلام وحوّا كا واقعہ محض ايك داستان ہى نہيں با لفاط ديگر اگر حضرت ادمعليه‌السلام اور حضرت حواعليه‌السلام كے بارے ميں ان كى جائے سكونت، زوجہ ،خوراك كے بارے ميں گفتگو ہوئي ہے تو يہ بطور كلى سب انسانوں كى ضرورت ہے اسى طرح اگر شريعت اور ہدايت كى بات ہوئي ہے تو يہ بھى سب انسانوں كى ضرورت ہے_

۱۶_ عورت اور مرد دونوں يہ لياقت اور شائستگى ركھتے ہيں كہ ان كے ذمے الہى تكاليف (ذمہ دارياں ) ہوں اور يہ دونوں خدا وند قدوس كى بارگاہ ميں جواب دہ ہوں _ولا تقربا هذه الشجرة

۱۷_ انسان ايك ايسا موجود ہے جو قانون كا محتاج اور اللہ تعالى كى جانب سے شرعى ہدايات كا نياز مند ہے_ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۱۸_ انسان اللہ تعالى كى اطاعت اور نافرمانى ميں صاحب اختيار ہے_ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۱۹_ اللہ تعالى كے فرامين كى نا فرمانى كرنا ظلم ہے_ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۲۰_ الہى ذمہ دارياں انسان كى مصلحتوں اور مفادات كو پورا كرتى ہيں _ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۲۱_ حسين بن ميسرّ كہتے ہيں :سا لت أبا عبد الله عن جنة ادم فقال جنة من جنان الدنيا تطلع فيها الشمس والقمر ولو كانت من جنان الاخرة ما خرج منها ابداً (۱) ميں نے امام صادق( عليہ السلام )سے حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كے بارے ميں سوال كيا تو اپعليه‌السلام نے فرما يا دنيا كے باغات ميں سے ايك باغ تھا جس ميں سورج اور چاند طلوع كرتے تھے اگر يہ اخرت كى بہشت ہوتى تو اس سے ہر گز نہ نكلتے_

۲۲_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''ولا تقربا هذه الشجره''يعنى لا تا كلا منها (۲) اللہ تعالى كے اس كلام ''و لا تقربا هذه الشجره'' كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے منقول ہے يعنى '' اس درخت سے مت كھاؤ''

____________________

۱) كافى ج /۳ ص/۲۴۷ ح/۲ ،نور الثقلين ج/۱ ص/۶۲ ح/۱۱۸ ،۱۱۷_

۲) تفسير عياشى ج/۱ ص/۳۵ ح/۲۰، مجمع البيان ج/۱ ص/۱۹۴ _

۱۲۵

۲۳_اختلفت فى الشجرة التى نهى عنها ادم عليه‌السلام وقيل هى شجرة الكافور يروى عن علي عليه‌السلام ...(۱) جس شجر سے حضرت ادمعليه‌السلام كو منع كيا گيا تھا اس ميں اختلاف رائے ہے_ امام علىعليه‌السلام سے ايك روايت ہے كہ وہ كافور كادرخت تھا_

اللہ تعالى : اوامر الہى ۱; اللہ تعالى كے نواھى ۹; اللہ تعالى كى تشريعى ہدايت۱۷;اللہ تعالى كى تنبيہات ۱۳

انسان : انسان كا اختيار ۱۸;انسانى مصلحتوں كى تكميل ۲۰; انسانى ضروريات ۱۵،۱۷

جبر: جبر اور اختيار ۱۸

حديث:۲۱،۲۲،۲۳

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت ادمعليه‌السلام بہشت ميں ۳; حضرت ادمعليه‌السلام اور شجرہ ممنوعہ۸،۹،۱۲،۱۳;حضرت ادمعليه‌السلام اور حضرت حواعليه‌السلام كى شادى ۴; بہشت ميں حضرت ادم كى تكليف (شرعى ذمہ داري) ۵،۸، ۱۲; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں كھانے والى اشياء ۵; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں اسائش۶; حضرت ادم كو ملائكہ كا سجدہ۲; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں سكو نت اختيار كرنا ۱،۲;حضرت ادمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲، ۴، ۹; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں محرمات ۸; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كا مقام ۲۱; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كى نعمتيں ۶; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كى خصوصيات ۶،۷،۱۴;حضرت ادمعليه‌السلام كو تنبيہ ۱۳

حضرت حواعليه‌السلام : حضرت حواعليه‌السلام كى بہشت ميں تكليف (شرعى ذمہ دارى ) ۵،۸،۱۲; حضرت حواعليه‌السلام اورشجرہ ممنوعہ ۸،۹ ،۱۲،۱۳; حضرت حواعليه‌السلام كى تخليق ۳; حضرت حواعليه‌السلام كا بہشت ميں قيام ۱،۲; حضرت حواعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲،۳،۴،۹;حضرت حواعليه‌السلام كو تنبيہ ۱۳ دين : دين كا فلسفہ ۲۰

شجرہ ممنوعہ: شجرہ ممنوعہ سے اجتناب ۲۲; شجرہ ممنوعہ سے استفادہ ۱۲;شجرہ ممنوعہ سے مراد كيا ہے ۲۳; شجرہ ممنوعہ كى خصوصيات ۱۰

ضروريات : غذاكى ضرورت ۱۵;دين كى ضرورت ۱۷; جائے سكونت كى ضرورت ۱۵; ہدايت كى ضرورت ۱۷ زوجہ كى ضرورت۱۵

ظالمين:۱۳ ظلم: ظلم كے موارد ۱۳،۱۹

____________________

۱) تفسير تبيان ج/۱ ص/۱۵۸ ،مجمع البيان ج/۱ ص/۱۹۵_

۱۲۶

عورت : عورت كى شرعى ذمہ دارى ۱۶;عورت كى ذمہ دارى ۱۶

كافور : كافور كا درخت ۲۳

گناہ: سے اجتناب ۱۱; گناہ كے ارتكاب كا خطرہ ۱۱

مرد: مرد كى شرعى ذمہ داري۱۶; مرد كى ذمہ داري۱۶

معصيت: معصيت الہى ۱۹

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ ( ۳۶ )

تب شيطان نے انھيں فريب دينے كى كوشش كى اور انھيں ان نعمتوں سے باہر نكال ليا اور ہم نے كہا كہ اب تم سب زمين پراتر جاؤ وہاں ايك دوسرے كى دشمنى ہوگى اور وہيں تمھارا مركز ہوگا اور ايك خاص وقت تك كے لئے عيش زندگانى رہے گا_

۱_ شيطان نے حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كوشجرہ ممنوعہ سے استفادہ كى ترغيب دلائي اور اس طرح انھيں اللہ تعالى كى نا فرمانى كى طرف كھينچ كر لے گيا_فازلهما الشيطان عنها ''ازل''كا مصدر''ازلال'' ہے جس كا معنى لغزش، تزلزل پيدا كرنا اور گناہ كى ترغيب دلاناہے_ عنھا كى ضمير ممكن ہے ''الجنة''كى طرف لوٹتى ہو يعنى شيطان نے ادم وحوا كو گناہ كى طرف ترغيب دلا كر جنت سے دور كر ديا_يہ بھى ممكن ہے كہ ''عنھا '' كى ضمير ''الشجرة''كى گناہ طرف لوٹتى ہو پس مفہوم يہ ہوگا كہ شيطان نے ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كو ايسے گناہ كى طرف ترغيب دلائي جس كا منبع شجرہ ممنوعہ تھا مذكورہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بنا پر ہے_

۲_ حضرت ادمعليه‌السلام و حوا نے اللہ تعالى كى نافرمانى سے جنت ميں قيام كى لياقت كھو دي_فاخر جهما مما كانا فيه

۳_ شيطان اور اس كا ورغلانا حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كے جنت سے نكلنے كا سبب بنے_فا خرجهما مما كانا فيه

۴_ حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كے جنت ميں قيام و سكونت كى شائستگى و لياقت سلب ہوجانے كے بعد اللہ تعالى نے انھيں جنت سے نكل كر زمين پر انے كا حكم فرمايا_وقلنا اهبطوا ''اھبطوا''كا مصدر ''ھبوط'' ہے جس كا معنى ہے نيچے انا ما بعد كے جملے كى روشنى ميں ''اھبطوا''كا مفعول ''الارض ''بنتا ہے_

۱۲۷

۵_ حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى جنت ميں سكونت اور ان كى لغزش كے ما بين وقت نسبتاًبہت مختصر تھا_

وقلنا يادم اسكن أنت و زوجك الجنة فأزلهما الشيطان عنها''ازلھما''كا ماقبل جملے پر ''فا''كے ذريعہ عطف ممكن ہے اس مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۶_ شيطان ايك ورغلانے والا عنصر ہے اور انسان فريب كے دام ميں انے والا موجود ہے_فأزلهما الشيطان عنها

۷_ حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كى بہشت ميں شيطان بھى تھا_فأزلهما الشيطان عنها

۸_ اللہ تعالى نے شيطان كو حكم ديا كہ وہ بہشت سے نكل كر زمين پر چلا جائے_وقلنا اهبطوا ''اهبطوا' 'جمع كا صيغہ ہے جو اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ خطاب حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كے علاوہ ديگر كسى فردياافرادكو بھى ہے بعض كا خيال ہے كہ يہ خطاب شيطان كو بھى تھا_

۹_زمين شياطين كى جائے سكونت اور قيام گاہ ہے_اهبطوا ...ولكم فى الارض مستقر يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ اگر ''اھبطوا ''كا حكم شيطان كو بھى شامل ہو_

۱۰_ دنياوى زندگى ميں انسان اور شيطان ايك دوسرے كے دشمن ہيں _اهبطوا بعضكم لبعض عدو اگر ''اهبطوا '' كا خطاب حضرت ادمعليه‌السلام ،حواعليه‌السلام اور شيطان كو ہو تو ''بعضكم لبعض عدو''سے مراد يہ ہے كہ شيطان اور انسان ايك دوسرے كے دشمن ہوں گے_

۱۱_ زمين ميں انسانوں كى زندگى ہميشہ ايك دوسرے سے دشمنى سے پرُ ہے_اهبطوا بعضكم لبعض عدو يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ اگر ''اھبطوا ''اور اسى طرح ديگر خطابات سے مراد حضرت ادمعليه‌السلام ،حواعليه‌السلام اور ان كى نسل ہوں اس طرح''بعضكم لبعض عدو ''سے مراد انسانوں كى اپس ميں دشمنى ہے_

۱۲_ حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے ہبوط كے ساتھ ہى اللہ تعالى نے ان كى نسل كى اپس ميں دشمنى كے بارے ميں بتايا_وقلنا اهبطوا بعضكم لبعض عدو

۱۳_ حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے شجرہ ممنوعہ كا پھل كھانے سے ان كى نسل كي، ابتدائي بہشت ميں قيام و سكونت كى لياقت وشائستگى سلب ہو گئي *قلنا اهبطوا حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كو بہشت سے نكال كر زمين ميں قيام كے خطاب ميں اللہ تعالى نے گفتگو كے طبعى تقاضے كے بر خلاف حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى نسل كو بھى خطاب فرمايا ہے

۱۲۸

اس طرح اس نكتے كى طرف اشارہ فرمايا ہے كہ ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے شجرہ ممنوعہ سے پھل كھانے كا اثر ان كى نسل پر بھى ہوا جس كا نتيجہ يہ نكلا كہ ان كى نسل زمين پر زندگى كرے_

۱۴ _ شجرہ ممنوعہ سے ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كا تناول كرنا اس بات كى كى راہ ہموار ہوئي كہ انسانوں كے درميان دشمنى كے جذبات پيدا ہو گئے _*فأزلهماالشيطان عنها وقلنا اهبطوا بعضكم لبعض عدو

۱۵_ زمين انسانوں كے ليئے ايك وقتى جائے سكونت اور قرار گاہ ہے_و لكم فى الارض مستقر و متاع الى حين ''الى حين _ايك وقت تك ''يہ ''متاع'' كے علاوہ '' مستقر'' سے بھى متعلق ہے_

۱۶_ زمين پر انسانوں كے سكونت اور قرار كى مدت ان كے لئے نا معلوم ہے_ولكم فى الارض مستقر و متاع الى حين ''حين'' كا نكرہ انا اس بات كى علامت ہے كہ انسانوں كيلئے ان كے زمين پر قيام كى مدت نامعلوم ہو اور يہ كہ اس كو نہ جان سكيں گے_

۱۷_ زمين انسانوں كے لئے ايك خاص وقت اور نا معلوم مدت تك زندگى كرنے كا ذريعہ ہے_ ولكم فى الارض مستقر و متاع الى حين ''متاع'' اس چيز كو كہتے ہيں جس سے كوئي منفعت ہو_

۱۸_ جس بہشت ميں حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام تھے وہ جگہ زمين سے برتر اور بالا تر تھي_قلنا اهبطوا ...ولكم فى الارض مستقر يہ جملہ ''ولكم فى الارض مستقر '' اس بات پر دلالت كرتا ہے جس بہشت ميں حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام قيام پذير تھے وہ زمين پر نہ تھى جبكہ ''اھبطوا'' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ وہ جگہ زمين سے برتر اور والا تر تھي_

۱۹_رسول اسلام صلى اللہ عليہ والہ وسلم سے روايت ہے كہ اپ (ص) نے ارشاد فرمايا:''انما كان لبث ادم وحوا فى الجنة حتى خرجا منها سبع ساعات من ايام الدنيا ...'' (۱) حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كا بہشت ميں قيام دنيا كے ايك دن كے سات گھنٹے تھے_

۲۰_ رسول خدا (ص) سے روايت ہے كہ اپ (ص) نے ارشادفرمايا:''يوم الجمعة سيد الايام خلق الله فيه ادم واهبط فيه ادم الى الارض'' (۲) جمعہ كا دن سيد الايام (دنوں كا سردار) ہے اس دن اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كو خلق فرمايا اور اسى دن حضرت ادمعليه‌السلام زمين كى طرف بھيجے گئے _

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۱ ص/۳۵ ح/۲۱ ،نور الثقلين ج/۱ ص/۶۴ ح/۱۲۹_ ۲) خصال صدوق ج/۱ ص/۳۱۶ ح/۹۷ ،نور الثقلين ج/۱ ص/۶۴ ح/۱۲۸_

۱۲۹

۲۱_''عن الصادق عليه‌السلام ...فى قوله تعالى ولكم فى الارض مستقر ومتاع الى حين قال الى يوم القيامة '' (۱) امام صادق عليہ السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام''ولكم فى الارض مستقر ومتاع الى حين '' كے بارے ميں روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا اس سے مراد قيامت تك زمين پر قيام اور اس سے استفادہ كرناہے_

۲۲_امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے''فتسلط عليه (ادم) الشيطان ...وتسلط على حوا عليه‌السلام فاخرجهما الله عزوجل عن جنته فاهبطهما عن جواره الى الارض ... (۲) پس شيطان ادمعليه‌السلام اور حواعليه‌السلام پر مسلط ہو گيا پس اللہ تعالى نے انھيں اپنى جنت اور اپنے جوار سے نكال كرزمين كى طرف بھيجا_

۲۳_ انحضرت (ص) سے روايت ہے كہ اپ (ص) نے ارشاد فرمايا''فاوحى الله تعالى الى جبرائيل ان اهبطهما الى البلدة المباركة مكة فهبط بهما جبرائيل فالقى ادم على الصفا والقى حواء على المروة'' (۳) پس اللہ تعالى نے جبرائيلعليه‌السلام كو وحى فرمائي كہ ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كو مكہ كى مبارك سر زمين كى طرف لے جائے پس جبرائيلعليه‌السلام نے حضرت ادمعليه‌السلام كو كوہ صفا پر اور حضرت حواعليه‌السلام كو كوہ مروہ پر اتارا_

۲۴ _رسول گرامى قدر اسلام صلى اللہ عليہ والہ وسلم نے ارشاد فرمايا''حين امر ادم عليه‌السلام ان يهبط هبط ادم وزوجته و هبط ابليس ولا زوجة له ...'' (۴) جب اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كو نيچے اتر نے كا حكم فرمايا ...ادمعليه‌السلام اور ان كى زوجہعليه‌السلام نيچے اتر ائے اور ابليس بھى اترا ليكن اس كى زوجہ نہ تھى

۲۵_''عن امير المومنين فى حديث طويل وفيه ساله عن اكرم واد على وجه الارض فقال واد يقال له ''سرانديب'' ،''سقط فيه ادم من السمائ'' (۵) امير المومنينعليه‌السلام سے ايك طويل حديث ميں سوال كيا گيا كہ روئے زمين پر سب سے زيادہ صاحب شرف مقام كون سا ہے؟ حضرتعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا وہ جگہ ''سرانديب''ہے(لغت نامہ دہخدا كے مطابق يہ جگہ سرى لنكا ميں ہے)يہاں حضرت ادمعليه‌السلام اسمان سے نازل ہوئے_

ابليس: ابليس كا ہبوط (اترنا)۲۴

اللہ تعالى : اوامر الہى ۴،۸;اللہ تعالى كى تنبيہات۱۲

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ ص/۴۳، نور الثقلين ج/۱ ص/۶۳ح/۱۲۳ ۲) عيون اخبار الرضا ج/۱ ص/۳۰۶ ح /۶۷ ،نور الثقلين ج/۱ ص/ ۶۰ ح /۱۱۲_

۳) تفسير عياشى ج/ ۱ ص/۳۶ ح / ۲۱ ، تفسير برہان ج/۱ ص۸۴ ح/۱۵_ ۴)علل الشرائع ص/۵۴۷ ح /۲ باب۳۴۰ ،نور الثقلين ج/۱ ص/۶۶ و ح / ۱۳۷_

۵) نور الثقلين ج/۱ ص/ ۶۴ ح / ۱۲۶_

۱۳۰

انسان: زمين پر انسانوں كا استقرار ''قيام'' ۱۵،۱۶،۲۱ انسان كا فريب كھانا ۶; انسانوں كے دشمن ۱۰;انسانوں كى دشمنى ۱۱; انسانوں كى دشمنى كے اسباب۱۴;انسانوں كا مسكن ۱۵

جمعہ: جمعہ كى فضيلت ۲۰

حديث: ۱۹،۲۰ ،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت ادمعليه‌السلام اور ممنوعہ درخت ۱;حضرت ادمعليه‌السلام كا بہشت سے نكلنا۳،۴،۲۲;حضرت ادمعليه‌السلام كى اولاد كى دشمنى ۱۲;حضرت ادمعليه‌السلام كا بہشت ميں قيام ۵،۱۹; حضرت آدمعليه‌السلام كى نافرمانى ۲; حضرت ادمعليه‌السلام كى نافرمانى كے عوامل ۱; حضرت ادمعليه‌السلام كے ہبوط كے اسباب ۳،۴; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كے فضائل ۱۸; حضرت ادمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴،۵ ،۱۲،۳ ۱ ، ۱۹; حضرت ادمعليه‌السلام كى لغزش ۱،۵; حضرت ادمعليه‌السلام كا بہشت سے محروم ہونا ۱۳; حضرت ادمعليه‌السلام كى نسل كا محروم ہونا ۱۳;حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كا مقام ۱۸; حضرت ادمعليه‌السلام كے اترنے كى جگہ ۲۳،۲۵; حضرت ادمعليه‌السلام كى خلقت كا وقت ۲۰;حضرت ادمعليه‌السلام كا اترنا۱۲، ۲۲، ۲۴

حضرت حواعليه‌السلام : حضرت حواعليه‌السلام كا بہشت سے نكالا جانا ۳،۴،۲۲ حضرت حواعليه‌السلام اور شجرہ ممنوعہ ۱; حضرت حواعليه‌السلام كا جنت ميں قيام ۵،۱۹;حضرت حواكى نافرمانى ۲; حضرت حواعليه‌السلام كى نافرمانى كے عوامل۱; حضرت حواعليه‌السلام كے اترنے كے عوامل۳،۴;حضرت حواعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴، ۵،۷،۱۲، ۱۳،۱۹; حضرت حواعليه‌السلام كى لغزش ۱،۵; حضرت حواعليه‌السلام كے اترنے كى جگہ ۲۳;حضرت حواعليه‌السلام كا اترنا ۱۲،۲۲،۲۴

زمين: زمين كے فوائد ۱۷

زندگي: دنياوى زندگى ۱۷

سر زمينيں : سرزمين سرانديب۲۵;سر زمين سرى لنكا ۲۵

شجرہ ممنوعہ: شجرہ ممنوعہ سے استفادہ ۱۳،۱۴

شياطين: شياطين زمين پر ۹; شياطين كا مسكن ۹

شيطان: شيطان كے ورغلانے كے نتائج۳;شيطان كا بہشت سے نكالا جانا ۸; شيطان كا فريب دينا ۱،۶;شيطان كے دشمن۱۰; شيطان كا تسلط ۲۲;شيطان، حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں ۷; شيطان كا كردار۱،۳،۶;شيطان كا اترنا۸

كوہ صفا : ۲۳ كوہ مروہ:۲۳ نا فرمان : نافرمانى كے نتائج ۲;اللہ تعالى كى نا فرمانى ۱،۲

۱۳۱

فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( ۳۷ )

پھر آدم نے پروردگار سے كلمات كى تعليم حاصل كى اور ان كى بركت سے خدا نے ان كى توبہ قبولى كرلى كہ وہ توبہ قبول كرنے والا اور مہربان ہے_

۱_ حضرت ادمعليه‌السلام اپنے كيئے پر پشيمان ہوئے اور اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ كے لئے رجوع كيا_من ربه كلمات

۲_اللہ تعالى نے انتہائي قدرو قيمت والے كلمات حضرت ادمعليه‌السلام كو تعليم و تلقين فرمائے تا كہ ان كے واسطے سے اللہ كى بارگاہ ميں توبہ كريں _فتلقى ادم من ربه كلمات ''تلقى ''كا مصدر ''تلقى ''ہے جس كا معنى ہے لے لينا_لہذا اس جملے ''فتلقي ...'' كا معنى يوں بنتا ہے حضرت ادمعليه‌السلام نے اللہ تعالى كى جانب سے كلمات لے ليئے _كلمات كو نكرہ لانا ان كى عظمت وبلندى پر دلالت كرتا ہے _

۳_حضرت ادمعليه‌السلام كى توبہ اور اللہ تعالى كى جانب سے كلمات حاصل كرنا حضرت ادمعليه‌السلام كے زمين پر قيام پذير ہونے كے بعد ہوا_ *ولكم فى الارض مستقر ...فتلقى ادم من ربه كلمات يہ مفہوم ''فتلقى ''كي'' فاء ''سے استفادہ ہو تا ہے جو ترتيب كے معانى ديتا ہے_

۴_ اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كى توبہ قبول كى ،انكاگناہ معاف فرما ديا اور اپعليه‌السلام پر اپنى رحمت نازل فرمائي _

فتاب عليه انه هو التواب الرحيم

۵_ اللہ تعالى توّاب (انتہائي زيادہ توبہ قبول كر نے والا ہے) اور رحيم (مہربان )ہے_انه هو التوّاب الرحيم

۶_اللہ انسان تعالى كى طرف سے گناہ كاروں كى توبہ قبول كرنا اس كى رحمت كا پر تو ہے_ فتاب عليه انه هو التواب الرحيم اللہ تعالى كى رحمت كو اس كے تو اب ہونے كے ساتھ ساتھ ملاحظہ كيا جاسكتا ہے يعنى اللہ تعالى كے توبہ قبول كرنے كاسرچشمہ اسكى رحمت ہے يا يہ رحمت اس اعتبار سے ہے كہ حضرت ادمعليه‌السلام كو اللہ تعالى نے كلمات تعليم فرمائے مذكورہ بالا مفہوم پہلے اعتبار كے مطابق ہے_

۷_ حضرت ادمعليه‌السلام كو كلمات كى تلقين و تعليم (اللہ تعالى كى بارگاہ ميں كس طرح توبہ كى جائے اور اس كى بارگاہ اقدس ميں نياز حاصل كيا جائے ) خدا وند

۱۳۲

قدوس كى رحمت كا حضرت ادمعليه‌السلام پر ايك جلوہ تھا_فتلقى ادم من ربه كلمات انه هو التواب الرحيم

يہاں ''الرحيم'' كا جملہ ''فتلقى ...'' كے ساتھ ارتباط كے عنوان سے معنى بيان ہوا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ اللہ تعالى كى رحمت اس بات كا موجب بنى كہ حضرت ادمعليه‌السلام كو كلمات كى تعليم دى جائے_

۸_اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ اوراس سے گناہوں كى معافى طلب كرناضرورى ہے_ فتلقى ادم من ربه كلمات انه هو التواب الرحيم اولين انسان ہونے كے ناطے حضرت ادمعليه‌السلام كى توبہ كامسئلہ پيش كرنا گويااس كامقصد يہ تھاكہ انسان جب لغزش يا گناہ ميں مبتلاہو تواس كا فريضہ بيان كياجائے_

۹_توبہ كيسے كى جائے اوراس كے لئے لازم وضرورى واسطے كيسے تلاش كئے جائيں ، يہ واسطے كيسے ہوں يہ سب كچھ دين سے سيكھنا چاہئے_فتلقى ادم من ربه كلمات فتاب عليه مذكورہ بالا مفہوم اس سے استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت ادمعليه‌السلام كى توبہ كى قبوليت(تاب عليہ)كو فاء تفريع كے ساتھ اللہ كى جانب سے كلمات سيكھنے كے بعد استعمال كيا گيا ہے_

۱۰_ توبہ كى قبوليت اور اللہ تعالى كى رحمت كا يقين گناہگار انسان كو توبہ اور طلب مغفرت كى طرف راغب كرتا ہے_

فتاب عليه انه هو التواب الرحيم توبہ كى قبوليت كے لئے حرف تاكيد ''انّ''كے استعمال، ضمير فصل ''ھو'' اورصيغہ مبالغہ ''توّاب''كے استعمال سے يہ مطلب اخذہوتا ہے كہ گناہگار وں كو طلب مغفرت كى ترغيب دلائي گئي ہے_

۱۱ _ ابن عباس كہتے ہيں :''سألت رسول الله عن الكلمات التى تلقيها آدم من ربه فتاب عليه قال سأل بحق محمدوعلى و فاطمة و الحسن والحسين الا تبت عليّ فتاب عليه'' (۱) ميں نے رسول اللہ(ص) سے ان كلمات كے بارے ميں سوال كيا جو حضرت آدمعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے حاصل كيئے اور اللہ نے ان كى توبہ قبول فرمائي حضرت (ص) نے ارشاد فرمايا حضرت آدمعليه‌السلام نے اللہ تعالى كو محمد (ص) ، علىعليه‌السلام ، فاطمہعليه‌السلام ، حسنعليه‌السلام ، حسينعليه‌السلام كے واسطے سے پكار ا اور عرض كيا يا اللہ ميرى توبہ قبول فرما تو اللہ تعالى نے حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول كى _

۱۲ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا :''الكلمات التى تلقيهن آدم من ربه فتاب عليه و هدى قال سبحانك اللهم و بحمدك انى عملت سوء اً و ظلمت نفسى فاغفر لى انك خير الغافرين انك انت الغفور الرحيم (۲)

____________________

۱) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۱۴۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۶۷ ح ۱۴۳ ،۱۴۵ ، ۱۴۷ _ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۱ ح ۲۵ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۸۷ ح ۸ _

۱۳۳

وہ كلمات جو حضرت آدمعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے حاصل كيئے پس اللہ نے حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول فرمائي اور حضرت آدمعليه‌السلام كى ہدايت فرمائي ( وہ كلمات يہ تھے) كہا اے اللہ تيرى ذات پاك ہے اور تيرى حمد بجالاتاہوں بے شك ميں نے برا عمل انجام ديا اور اپنے اوپر ظلم كيا پس تو مجھے بخش دے بے شك تو بہترين بخشنے والا ہے بتحقيق تو بخشنے والا اور رحيم ہے _

۱۳_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''ان الله تبارك و تعالى لما اراد ان يتوب على آدم ارسل اليه جبرئيل فقال له ان الله تبارك و تعالى بعثنى اليك لا علمك المناسك التى يريد ان يتوب عليك بها ففعل ذالك آدم عليه‌السلام فقال له جبرئيل ان الله تبارك و تعالى قد غفرلك و قبل توبتك . ..(۱) جب اللہ تعالى نے ارادہ فرمايا كہ آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول فرمائے تو حضرت جبرئيلعليه‌السلام كو آپعليه‌السلام كى طرف بھيجا جبرائيلعليه‌السلام نے آپعليه‌السلام سے كہا اللہ تعالى نے مجھے آپعليه‌السلام كى طرف بھيجا ہے تا كہ آپعليه‌السلام كو مناسك (حج) كى تعليم دوں اور اللہ تعالى چاہتاہے كہ مناسك كى وجہ سے آپعليه‌السلام كى توبہ كو قبول فرمائے پس حضرت آدمعليه‌السلام نے مناسك كو انجام ديا پس جبرائيلعليه‌السلام نے آپعليه‌السلام سے كہا كہ بے شك اللہ تبارك و تعالى نے آپعليه‌السلام كو بخش ديا ہے اور آپعليه‌السلام كى توبہ قبول فرمالى ہے _

استغفار ( طلب مغفرت): طلب مغفرت كى اہميت ۸; طلب مغفرت كى بنياد۱۰

اسماء اور صفات: توّاب ۵; رحيم ۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش ۴; اللہ تعالى كى توبہ ۱۰; اللہ تعالى كى رحمت ۴،۱۰; اللہ تعالى كى رحمت كے مظاہر ۶،۷

اہل بيتعليه‌السلام : اہل بيتعليه‌السلام كے فضائل ۱۱

ايمان: رحمت خدا پر ايمان كے اثرات و نتائج۱۰

بخشش: بخشش كى درخواست ۸

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۱۰

توبہ : توبہ كے آداب ۲،۷،۹; توبہ كى اہميت ۸; توبہ ميں توسل ۲; توبہ كا سرچشمہ ۱۰; توبہ كى قبوليت ۶

جہان بينى (نظريہ كائنات): جہان بينى اورآئيڈيالوجى ۱۰

____________________

۱) علل الشرائع ج / ۱ص ۴۰۰ ح/ ۱ باب ۱۴۱، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۶۹ ح ۱۵۲_

۱۳۴

حضرت آدمعليه‌السلام : حضرت آدمعليه‌السلام كى بخشش ۴،۱۳; حضرت آدمعليه‌السلام كا طلب مغفرت كرنا ۱۲; آدمعليه‌السلام كا زمين پر قيام و سكونت ۳;حضرت آدمعليه‌السلام كو كلمات القاء كرنا ۲،۳، ۷،۱۱،۱۲، ۱۳;حضرت آدمعليه‌السلام كى پشيمانى ۱;حضرت آدمعليه‌السلام كو توبہ كى تعليم دينا ۲، ۳، ۷; حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ ۱،۲،۱۱،۱۲; آدمعليه‌السلام كى نافرماني۱;حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول ہونا ۴ ، ۱۳ ; حضرت آدمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲،۳،۴،۱۱; حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ كى جگہ ۳

دين : دين كى اہميت و كردار ۹

رحمت الہى : رحمت الہى جن لوگوں كے شامل حال ہوتى ہے۴،۷

روايت : ۱۱، ۱۲،۱۳

قُلْنَا اهْبِطُواْ مِنْهَا جَمِيعاً فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ ( ۳۸ )

اور ہم نے يہ بھى كہا كہ يہاں سے اتر پڑو پھر اگر ہمارى طرف سے ہدايت آجائے تو جو بھى اس كا اتباع كرلے گا اس كے لئے نہ كوئي خوف ہوگا نہ حزن _

۱_ حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى نافرمانى كے بعد اللہ تعالى نے ان سے چاہا كہ بہشت سے نكل جائيں_ قلنا اهبطوا منها '' قلنا اہبطوا'' كے آيت ۳۶ اور ۳۸ ميں تكرار كے بارے ميں چند آراء كا ذكر ہوا ہے _ اس آيت ميں '' واو'' يا كوئي اور حرف عطف موجود نہيں ہے پس اس امر سے اس بات كى تقويت ہوتى ہے كہ اس آيت ميں ''قلنا اهبطوا '' آيت ۳۶ ميں''قلنا اهبطوا'' كے لئے تاكيد ہے _

۲ _ شجرہ ممنوعہ سے حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے تناول كرنے سے ان كى نسل بھى ابتدائي بہشت سے محروم ہوگئي _قلنا اهبطوا منهماجميعاً ''اهبطوا '' جمع كا صيغہ استعمال ہوا ہے يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے علاوہ بھى كوئي ايك يا زيادہ افراد مورد خطاب ہيں اس بارے ميں چند آراء كا اظہار ہوا ہے ان ميں سے ايك يہ ہے كہ دوسرے مخاطبين آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى نسل ہے _ مذكورہ بالا مفہوم

۱۳۵

اسى رائے كے مطابق ہے _

۳_ اللہ تعالى نے شيطان كو بھى بہشت سے نكال باہر كيا_*قلنا اهبطوا منها جميعاً

يہ مفہوم اس احتمال كى بناپر ہے كہ اگر ''اہبطوا'' كا حكم حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے علاوہ شيطان كو بھى شامل ہو_

۴ _ حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام اور انكى نسل كو بہشت سے نكلتے ہوئے اللہ تعالى نے انكو اپنى جانب سے ہدايت اور راہنمائي سے بہرہ مند ہونے كى بشارت دى _فاما ياتينكم منى هدي لفظ '' امّا'' ان شرطيہ اور ما زائدہ سے تركيب پايا ہے _ جملے ميں ايك طرف انْ شرطيہ اور دوسرى طرف ما زائدہ اور يا تينَّ ميں نون تاكيد سے اس كى تاكيد كرنا اس امر كا مقتضى ہے كہ جملے كا معنى يہ ہو '' اگر ميرى طرف سے ہدايت ملے كہ جو يقيناً آئے گى ...''

۵ _ انسان كو سعادت كے حصول كى خاطر ہدايت اور الہى راہنمائي كى ضرورت ہے_ فاما ياتينكم منى هديً

۶ _ اللہ تعالى كى ہدايات و راہنمائي كى اتباع كرنے والوں كو قيامت كے روز كوئي خوف و خطر نہ ہوگا _فمن تبع هداى فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون ''خوف'' نكرہ استعمال ہوا ہے اور حرف نفى كے بعد واقع ہوا ہے جو معنى ميں عموميت پر دلالت كرتاہے گويا مطلب يوں ہے كسى قسم كا كوئي بھى خوف نہ ہوگا اسى طرح جب فعل منفى ہو تو تمام تر مصاديق كے نہ ہونے پر دلالت كرتاہے پس ''ولا ہم يحزنون'' سے مراد يہ ہے كہ كسى طرح كا بھى غم وا ندوہ نہ ہوگا_

۷_ سرائے آخرت اديان كے پيروكاروں كےلئے ايك ايسى سرائے ہے جو خوف و پريشانى كے عوامل سے دور اور ہر طرح كے حزن و ملال آور واقعات سے امان ميں ہے _فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون

بعد والى آيت جس ميں كفار كے لئے آخرت ميں پاداش كاذكر ہواہے اس كے قرينے سے كہا جاسكتاہے كہ اس آيت ميں اہل ہدايت كى آخرت ميں جزا كا ذكر كيا گيا ہے بنابريں '' فلا خوف ...'' كا تعلق عالم آخرت سے ہے _

۸ _ گناہ كے وضعى نتائج اللہ تعالى كى جانب سے توبہ كى قبوليت كے باوجود رہتے ہيں _فتاب عليه قلنا اهبطوا منها جميعاً فاما ياتينكم منى هديً حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ اور اللہ تعالى كى جانب سے اسكى قبوليت كے بعد بھى حضرت آدمعليه‌السلام كو ہبوط كا تاكيد سے حكم دينا اس بات پر دلالت كرتاہے كہ حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول ہونے كے باوجود انكو بہشت ميں دوبارہ ان كا مقام نہ مل سكا يہ چيز حكايت كرتى ہے كہ گناہ كى معافى كا لازمہ اسكے وضعى نتائج كا خاتمہ نہيں ہے _

۱۳۶

اديان : اديان كے پيروكاروں كى آخرت ميں امنيت ۷; اديان كے پيروكار قيامت ميں ۷; اديان كے پيروكاروں كا اخروى سرور ۷

اللہ تعالى : افعال الہى ۱،۳; اللہ تعالى كى بشارتيں ۴; ہدايت الہى ۴،۵

انسان: انسان كى معنوى ضروريات۵

توبہ : توبہ كے نتائج ۸

حضرت آدمعليه‌السلام : آدمعليه‌السلام كى نافرمانى كے نتائج ۲; حضرت آدمعليه‌السلام كا بہشت سے اخراج ۱،۴; نسل آدمعليه‌السلام كو بشارت ۴; حضرت آدمعليه‌السلام كى نافرمانى ۱; حضرت آدمعليه‌السلام كا واقعہ ۴;حضرت آدمعليه‌السلام كا بہشت سے محروم ہونا ۲; نسل آدمعليه‌السلام كا محروم ہونا ۲; حضرت آدمعليه‌السلام كا ہبوط ۱

حضرت حواعليه‌السلام : حواعليه‌السلام كى نافرمانى كے نتائج ۲; حواعليه‌السلام كا بہشت سے اخراج ۱،۴; حضرت حواعليه‌السلام كى نافرمانى ۱; حضرت حواعليه‌السلام كا واقعہ ۴; حضرت حواعليه‌السلام كا ہبوط ۱

سعادت: سعادت كے عوامل ۵

شيطان : شيطان كا بہشت سے اخراج ۳; شيطان كا ہبوط ۳

ضروريات : ہدايت كى ضرورت ۵

گناہ : گناہ كے وضعى نتائج۸

نافرماني: نافرمانى كے نتائج ۱

ہدايت يافتہ افراد: اہل ہدايت كا آخرت ميں امن و امان ۶; اہل ہدايت كا اخروى سرور ۶; ہدايت يافتہ انسان قيامت ميں ۶

۱۳۷

وَالَّذِينَ كَفَرواْ وَكَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ( ۳۹ )

جو لوگ كافر ہوگئے اور انھوں نے ہمارى نشانيوں كو جھٹلا ديا وہ جہنمى ہيں اور ہميشہ وہيں پڑے رہيں گے_

۱ _ آيات الہى كا انكار اور تكذيب كرنے والوں كى سزا اور كيفر آتش جہنم ہے_والذين كفروا و كذبوا باياتنا اولئك اصحاب النار '' كذبوا'' كا مصدر تكذيب ہے جسكا معنى ہے جھوٹى نسبت دينا ہے '' باياتنا'' كذبوا كے علاوہ كفروا سے بھى متعلق ہے_ جملہ''الذين كفروا '' جملہ ''من تبع ...'' پر عطف ہے جو اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ لوگ اللہ تعالى كى ہدايت و راہنمائي كو قبول كرنے والے نہيں _

۲ _ آيات الہى كا كفر اختيار كرنے والے اور جھٹلانے والے ہميشہ كے لئے جہنم ميں رہيں گے _اولئك اصحاب النارهم فيها خالدون

۳ _ دوزخ اور اسكى آگ دائمى اور ہميشہ رہنے والى ہے_هم فيها خالدون

۴ _ اللہ تعالى اپنى ہدايت و راہنمائي كو لوگوں كى طرف ايسے بھيجتاہے كہ اس ہدايت كے خدائي ہونے كى نشانى و علامت اسكے ہمراہ ہوتى ہے_فاما ياتينكم منى هدى الذين كفروا و كذبوا بآياتنا

''آيات'' جمع استعمال ہوا ہے اور اسكا معنى ہے نشانياں اور علامات_ لفظ '' ہديً'' اور ما قبل آيہ ميں لفظ '' ہداي'' دليل ہے كہ آيات سے مراد اللہ تعالى كى ہدايات او ر راہنمائي ہے _ ہدايت كو آيت سے تعبير كرنے كا معنى يہ ہے كہ اللہ تعالى اپنى ہدايت كو اس انداز سے پيش فرماتاہے كہ جس سے اسكى حقانيت آشكار ہو اور اسكا خدائي ہونا ثابت ہو_

آيات الہى : آيات الہى كو جھٹلانے والوں كى سزا ۱; آيات الہى كو جھٹلانے والے جہنم ميں ۲

اللہ تعالى : ہدايت الہى كى خصوصيات ۴

۱۳۸

اہل جہنم : ۲ جہنم : آتش جہنم ۱; آتش جہنم كا ہميشہ رہنا ۳; جہنم كا دائمى ہونا ۳; جہنم ميں ہميشہ كے لئے رہنا ۲

سزا : سزا كى وجوہات ۱، ۲

عذاب : اہل عذاب ۱،۲

كفار: كفار جہنم ميں ۲

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُواْ بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ ( ۴۰ )

اے بنى اسرائيل ہمارى نعمتوں كو ياد كرو جو ہم نے تم پر نازل كى ہيں اور ہمارے عہد كو پورا كرو ہم تمھارے عہد كو پورا كريں گے اور ہم سے ڈرتے رہو_

۱ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو گراں قدر نعمتوں سے بہرہ مند فرمايا:يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى أنعمت عليكم

'' نعمت'' مفرد آياہے اس سے مراد خاص نعمت ہوسكتى ہے جيساكہ حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت اور ممكن ہے نعمت كى جنس يا صنف مراد ہو جس ميں متعدد نعمتيں شامل ہيں جن كا آيت ۴۷ كے بعد والى آيات ميں ذكر ہوا ہے _ نعمت كى '' يائ'' متكلم كى طرف اضافت اس بات كى دليل ہے كہ يہ نعمت يا نعمتيں بہت عظيم و باشرافت ہيں _

۲ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل سے چاہا كہ اسكى نعمتوں كو ہميشہ ہميشہ كے لئے ياد ركھيں _يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى أنعمت عليكم

۳ _ بنى اسرائيل قرآن كريم كے مخاطب قرار پائے اور ان كا فريضہ قرار ديا گيا كہ قرآن حكيم كى پيروى كريں _

يا بنى اسرائيل اذكروا

۴ _ نزول قرآن كے زمانے تك بنى اسرائيل ايك قوم و

۱۳۹

قبيلے كى شكل ميں تھے_يا بنى اسرائيل اذكروا حضرت اسحاقعليه‌السلام كے فرزند اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پوتے حضرت يعقوبعليه‌السلام كا ايك اور نام اسرائيل تھا يہ جو بنى اسرائيل ( فرزندان يعقوبعليه‌السلام ) كے عنوان سے ايك گروہ يا جماعت كى شكل ميں معروف تھے اور آنحضرتعليه‌السلام كے زمانے ميں بھى اسى نام سے جانے پہچانے جاتے تھے اس سے معلوم ہوتاہے كہ انہوں نے اپنے زمانہ آغاز سے اس زمانے تك اپنى قوميت كو محفوظ كر ركھا تھا اور قوم قبيلے كى صورت ميں رہتے تھے _

۵ _ اللہ تعالى اور بنى اسرائيل كے ما بين متقابل عہد و پيمان كا وجود _اوفوا بعهدى اوف بعهدكم '' عہدي'' يعنى وہ عہد و پيمان جو اللہ تعالى نے لوگوں كے ذمے قرار ديا ہے _ '' عہدكم'' سے مراد وہ وعدے ہيں جو اللہ تعالى نے اپنے بندوں كو ديئے ہيں اور ان كى انجام دہى كو اپنے ليئے ضرورى قرار ديا ہے _

۶ _ بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كے احكام و فرامين ميں سے ايك حكم يہ تھا كہ الہى وعدوں كو وفا كريں _و اوفوا بعهدي

۷_ پيامبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے زمانے كے بنى اسرائيل الہى عہد و پيمان سے آگاہ تھے_اوفوا بعهدى اوف بعهدكم

۸_ اللہ تعالى كا وفائے عہد كرنا اس شرط كے ساتھ تھا كہ بنى اسرائيل الہى عہد و پيمان كى پابندى كريں _اوفوا بعهدى اوف بعهدكم

۹_ بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كى نصيحتوں ميں سے ايك نصيحت يہ تھى كہ فقط خدا سے ڈريں اور اسكے غير سے خوف زدہ نہ ہوں _و اياى فارهبون ''رہبہ'' كا معنى ڈرنا ہے _'' ارھبون'' ميں فعل امر ''ارہبوا'' اور نون وقايہ مكسور ہے جو اس بات كى حكايت كرتى ہے كہ يہاں '' ياى متكلم'' محذوف ہے يعنى جملہ يوں ہے ''و اياى فارهبونى ''

۱۰_ اللہ تعالى انسانوں كو نعمت عطا كرنيوالاہے _نعمتى التى انعمت عليكم

۱۱_ الہى نعمتوں كو ياد ركھنے كى ضرورت_اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم

۱۲ _ نعمتوں كو ياد كرنے اور ياد ركھنے كا ہدف اللہ كى ياد ميں رہنا اور نعمتوں كو اس كى جانب سے سمجھنا ہے _

اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم''نعمت'' كى توصيف يوں كرنا كہ اللہ تعالى نے اسے عطا فرمايا ہے '' انعمت عليكم'' يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ نعمت كو ياد كرنا نعمت دينے والے كى ياد كا ذريعہ ہونا چاہيئے يعنى نعمت كو ياد كرنے كا لازمہ يہ ہو كہ ہر نعمت ميں خدا كو ديكھاجائے_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

اس رائے کی رو یہ ہے کہ یہ احتمال ا س معنی کے سراسر خلاف ہے جو لفظ سجود سے عام طور پر سمجھا جاتا ہے بنا برایں بغیر کسی شاہداور خارجی دلیل کے یہ احتمال قابل قبول نہیں نیز روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جب اولاد آدم (ع) اپنے رب کوسجدہ کرتی ہے تو ابلیس رنجیدہ ہو جاتااور رو پڑتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جس سجدے کا حکم دیا تھا اور ابلیس نے غرور میں آ کر جس سے انکار کیا تھا وہ وہی عام متصور سجدہ تھا اسی لئے ابلیس ، اولاد آدم (ع) کی طرف سے امتثال امر (تعمیل حکم) پر رنجیدہ ہوتا ہے کیونکہ اس نے خود اس کی مخالفت کی تھی۔

(۲) فرشتوں نے اللہ تعالیٰ ہی کو سجدہ کیا تھا حضرت آدم (ع) تو اس سجدہ میں فرشتوں کا صرف قبلہ قرار پائے تھے جس طرح کہا جاتا ہے کہ''صلی للقبة ،، اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس نے روبہ قبلہ نماز پڑھی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (ع) کی تکریم و تعظیم کی خاطر فرشتوں کو حضرت آدم (ع) کی طرف رخ کر کے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس نظریئے کی رو یہ ہے کہ آیت کی یہ تاویل ظاہر آیات قرآن اور روایات معصومین (ع) بلکہ آیات و روایات کی تصریحات کے بھی منافی ہے کیونکہ ابلیس نے اپنے زعم باطل میں اس بنیاد پر حضرت آدم (ع) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا کہ وہ آدم (ع) سے افضل ہے اگر یہسجدہ اللہ کو ہوتا اورحضرت آدم (ع) صرف قبلہ قرار پاتے تو ابلیس کا یہ قول بے معنی ہو جاتا:

( أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا ) ۱۷:۶۱

''کیا میں ایسے شخص کوسجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے،،

کیونکہ ممکن تو ہے کہ سجدہ کرنے والا اس سے افضل ہو جس کی طرف رخ کر کے سجدہ کیا جائے۔

۶۰۱

(۳) یہ سجدہ حضرت آدم (ع) ہی کو تھا لیکن چونکہ حکم الٰہی سے انجام پایا تھا اس لئے خشوع وخضوع اور سجدہ ، خدا ہی کے لئے ہو گا۔

وضاحت: خشوع و خضوع کی آخری منزل سجدہ ہے اسی لئے اللہ نے سجدہ اپنی ذات سے مختص فرمایا ہے اور غیر اللہ کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی اگرچہ یہ سجدہ پرستش اور عبودیت کے عنوان سے نہ کیا جائے۔

لیکن اگر اللہ کے حکم سے غیر اللہ کو سجدہ کیا جائے تو یہ درحقیقت اللہ کی عبادت اور اس کے تقرب کاباعث بنے گا اس لئے کہ یہ امتشال اور امر الٰہی اور اس کے حکم کی تعمیل ہے اگرچہ یہ ظاہراً اللہ کی کسی مخلوق کے سامنے تواضع کا مظاہرہ ہی ہو یہی وجہ ہے کہ اس امر سے سرکشی پر کسی کو عقاب کرنا صحیح ہے اور مخالف امر کا یہ عذر قابل قبول نہیں کہ میں کسی مخلوق کے سامنے ذلیل نہیںب نوں گا اور حکم دینے والے کے علاوہ کسی کے سامنے تواضع سے پیش نہیں آؤں گا(۱)

یہ تیسرا جواب درست ہے اس لئے کہ اللہ کے بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے جملہ امور میں اپنے نفس کیلئے کسی استقلال کا قائل نہ ہو اور ہر حالت میں اپنے مولا کی اطاعت کرے اگر مولا کسی کے سامنے تواضع سے پیش آنے کا حکم دے تو بندے پر واجب ہے کہ امتثال امر کرے اس صورت میں بندے کے سامنے تواضع سے پیش آنا اللہ کے سامنے تواضع سے پیش آنے کے مترادف ہو گا جس نے اس کا حکم دیا ہے(۲)

گزشتہ بحث کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسی بھی عمل سے اللہ کا قرب صرف اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس عمل کو انجام دینے کا حکم فرمائے اور یہ حکم کسی عمومی یا خصوصی دلیل کے ذریعے ثابت ہو اگر کسی عمل کے بارے میں شک ہو کہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے یا نہیں تو ایسے عمل کے ذریعے اللہ کاقرب حاصل کرنا تشریح(۳) کہلائے گا جو قرآن و سنت ، عقل اور اجماع علماء کی رو سے حرام ہے۔

____________________

(۱) ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ۲۱

(۲) ایضاً ۲۲

(۳) ایسے عمل کو دین میں شامل کرنا جو دین سے خارج ہو۔

۶۰۲

ہاں ! ائمہ (ع) اور دیگر مومنین کی قبور کی زیارت کرنا ، ان کو بوسہ دینا اور ان کی تعظیم کرنا عام دلیلوں اور اہل بیت (علیہم السلام) جن کو رسول اسلام (ص) نے اپنی مشہور حدیث :انی تارک فیکم ۔۔۔۔۔۔ کے ذریعے قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے ، کی خصوصی روایات کے ذریعے ثابت ہے زیارت قبور کے جائز ہونے کی تائید ہر دور کے مسلمانوں کی سیرت اور اہل سنت کی گزشتہ روایات سے بھی ہوتی ہے۔

شرک باللہ کیا ہے ؟

توجہ: جب غیر اللہ کے سامنے کسی خاص قسم کے خضوع کی نہی کی جائے جس طرح غیر اللہ کو سجدہ کرنا یا کسی خاص عبادت سے منع فرمایا جائے جیسے عیدالفطر اور عید قربان کے دن روزہ رکھنا حالت حیض میں نماز پڑھنا اور شوال ، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں حج کرنا ہے تو ان اعمال کو بجا لانے والا شخص حرام کا مرتکب اور عذاب کا مستحق ہو گا لیکن ان اعمال کی وجہ سے نہ مشرک ہو گا اور نہ کافر معلوم ہوا ہر فعل حرام کا مرتکب مشرک اور کافر نہیں ہوتا۔

اس سے پہلے واضح ہو چکا ہے کہ شرک کا مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی اس طرح تواضع کی جائے کہ تواضع کرنے والا ، عبد اور جس کی تواضع کی جا رہی ہے اسے رب مانا جائے پس جو شخص عبودیت اور پرستش کی نیت کے بغیر غیر اللہ کو سجدہ کرے وہ اپنے اس حرام عمل کی وجہ سے مسلمانوں کے زمرے سے خارج نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اسلام کا دارو مدار شہادتین کے اقرار پر ہے اور اسی سے اس کا مال اور خون محترم سمجھا جاتا ہے۔

۶۰۳

اس امر پر فریقین کی متواتر روایات دلالت کرتی ہیں(۱) ان دلائل کے باوجود اس شخص کو مشرک قرار دینے کا کیا جواز ہے باقی رہ جاتی ہے جو شہادتین کااقرار کرے اور قربتہ ً الی اللہ نبی اکرم (ص) اورآپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی قبور کی زیارت کرے۔

( وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مومنا ) ۴:۹۴

''اور جو شخص (اظہار اسلام کی غرض سے) تم کو سلام کرے تو تم (بے سوچے سمجھے) نہ کہہ دیا کرو کہ تو ایماندار نہیں،،

نعنقریب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں حق کا فیصلہ فرمائے گااور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

اسباب عبادت

عبادت کرنا ایک اختیاری عمل ہے جس کیلئے کسی نہ کسی ایسے سبب کا ہونا ضروری ہے جو انسان کو عبادت کرنے پرآمادہ کرے یہ سبب چند چیزیں ہو سکتی ہیں۔

(۱) عبادت کا سبب اور عامل اللہ کی عبادت کے عوض میں ملنے والی نعمتوں اور اجر و ثواب کی طمع ہو ، جس کا اللہ نے اپنے کلام مجید میں وعدہ فرمایا ہے۔

( وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ) ۴:۱۳

''اور جو خدا اور رسول کی اطاعت کرے اس کو خدا آخرت میں ایسے (ہرے بھرے) باغوں میں پہنچا دے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی،،

( وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ) ۵:۹

''اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے) کام (بھی) کئے خدا نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کیلئے (آخرت میں) مغفرت اور بڑا ثواب ہے،،

(۲) عبادت کا سبب و عامل ، حکم خداکی مخالفت پر سزا و عقاب کا خوف ہو،،

____________________

(۱) ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ مبر ۲۳

۶۰۴

( إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ) ۱۰:۱۵

''میں تو اگر اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو بڑے (کٹھن) دن کے عذاب سے ڈرتا ہو،،

( إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا ) ۷۶:۱۰

''ہم کو تو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر ہے جس میں منہ بن جائیں گے،،

ان دونوں اسباب کی طرف قرآن کی متعدد آیات دلالت کرتی ہیں۔

( تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ) ۳۲:۱۶

''رات کے وقت ان کے پہلو بستروں سے آشنا نہیں ہوتے اور (عذاب کے) خوف اور (رحمت کی) امید پراپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں،،

( وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّـهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ) ۷:۵۶

''اور (عذاب کے) خوف سے اور (رحمت کی) آس لگا کے خدا سے دعائیں مانگو (کیونکہ) نیکی کرنے والو ںسے خدا کی رحمت یقیناً قریب ہے،،۔

( يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ) ۱۷:۵۷

''وہ خود اپنے پروردگار کی قربت کے ذریعے ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ (دیکھیں) ان میں سے کون زیادہ قربت رکھتا ہے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں،،

(۳) خدا کو عبادت کا اہل سمجھ کر اس کی عبادت کی جائے کیونکہ اللہ ہی کی ذات کامل مطلق اور صفات جمال و جلال کی جامع ہے ایسی عبادت صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو مکمل طور پر فنافی اللہ کی منزل پر پہنچا ہوا ہو اور اپنے خالق کے مقابلے میں اسے اپنا وجود تک نظر نہ آتا ہو جس کا وہ خیر خواہ یا اس کے بارے میں اسے کسی عذاب کا خوف لاحق ہو اس کے پیش نظر صرف اس کا خالق ہو اور وہ غیرا للہ کا تصور تک نہ کر کے۔

۶۰۵

سوائے مصومین (علیہم السلام) کے کسی اور کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اس مرتبہ پر فائز ہے۔ جنہوں نے اپنے نفسوں کو محض اللہ کا مخلص بنایا ہے اور شیطان ان (ع) کے نزدیک تک نہیں جا سکتا اور وہ اس آیت کے مصداق ہیں:

( وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ) ۱۵:۳۹

''اور ان سب کو ضرور بہکاؤں گا،،

( إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ) : ۴۰

مگر ان میں سے تیرے نرے کھرے خاص بندے (کہ وہ میرے بہکانے میں نہ آئیں گے)،،

امیر المومنین سید الموحدین (ع) فرماتے ہیں۔

''ماعبدتک خوفاً من نارک و لا طمعاً فی جنتک ولکن و جدتک اهلاً للعبادة فعبد تک (۱)

''بارالہا ! میں نے آتش جہنم کے خوف سے تیری عبادت کی ہے اور نہ جنت کے لالچ میں بلکہ تجھے عبادت کا اہل سمجھ کر تیری عبادت کی ہے،،

معصومین (ع) کے علاوہ باقی انسانوں کی عبادت کا عامل و سبب پہلی دو وجوہ ہو سکتی ہیں ہمارے اس بیان سے ان حضرات کے اس قول کا بطلان بھی ظاہر ہو جائے گا جو جنت کے طمع یا جہنم کے خوف سے انجام دی گئی عبادات کو باطل سمجھتے ہیں اور عبادت کی صحت میں اس امر کو شرط قرار دیتے ہیںکہ عبادت صرف اللہ کو اس کا اہل سمجھ کر انجام دی جائے یہ قول اس لئے باطل ہے کہ معصومین (ع) کے علاوہ عام لوگ ایسی عبادت انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتے اور انہیں ایسے امر کا مکلف بنانا ناممکن ہے جو ان کے دائرہ اختیار سے خارج ہے۔

____________________

(۱) مراۃ العقول باب الینتہ ، ج ۲ ، ص ۱۰۱

۶۰۶

اس کے علاوہ پہلی دو آیات اس عبادت کے صحیح ہونے پر دلالت کرتی ہیں جو جنت کی طمع اور جہنم کے خوف سے انجام دی جائیں ان آیات میں اللہ نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو اللہ کو جہنم کے خوف یا بہشت کے لالچ میں پکارے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ عمل محبوب خدا ہو ، اللہ نے اس کا حکم دیا ہو اور اس سے امتثال امر ہو جائے معصومین (ع) کی روایات بھی ہیں جن کی رو سے وہ عبادت صحیح ہے جو دوزخ کے خوف سے اور جنت کی طمع میں انجام دی جائے(۱)

ہم گزشتہ بحثوں میں وضاحت کر چکے ہیں کہ اسی سورہ کی گزشتہ آیات کی رو سے حمد و ثناء اللہ کے کمال ذاتی اس کی ربوبیت ، رحمت واسعہ اور سلطنت و قدرت کی وجہ سے اللہ کی ذات سے مختص ہے اس طرح ان آیات میں عبادت کے منشاء اور اسباب کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے یعنی عبادت کی وجہ یا یہ ہوتی ہے کہ عابد معبود کے کمال اور اس کے مستحق عبادت ہونے کو درک کر کے اس کی عبادت کرتا ہے اور یہ آزاد انسان کی عبادت ہے یا عبادت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عابد ، معبود کی نعمتوں اور اس کے احسان کو درک کرتے ہوئے ان کی طمع میں عبادت کرتا ہے یہ تاجروں کی عبادت ہے یا عبادت اس لئے کی جاتی ہے کہ عبادت گزار معبود کے قہر و غضب اور اس کے عقاب کو درک کرتا ہے یہ غلاموں کی عبادت ہے۔

____________________

(۲) ضمیمہ نمبر ۲۴ پر عبادت کی اقسام ملا خطہ فرمائیں۔

۶۰۷

صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا

اس میں کوئی حرج نہیں کہ انسان اپنے مقاصد میں اللہ کے علاوہ دوسری مخلوق یا افعال سے مدد طلب کرے ارشاد ہوتا ہے۔

( وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ ) ۲:۴۵

''اور (مصیبت کے وقت) صبر اور نماز کا سہارا پکڑو،،

( وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ ) ۵:۲

''اور (تمہارا تو فرض یہ ہے کہ ) نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو،،

( مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا ) ۱۸:۹۵

''ذوالقرنین نے کہا میرے پروردگار نے جو قدرت مجھے دے رکھی ہے وہ کہیں بہتر ہے،،۔

پس معلوم ہوا ہر قسم کی مدد طلبی صرف اللہ کی ذات میں منحصر نہیں بلکہ اسعانت (مدد طلب کرنا) کے اللہ سے مختص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کی قدرت اور توفیقات میں اضافہ صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کیا جائے تاکہ عبادت خالص اور کامل انجام پائے۔

پس معلوم ہوا ہر قسم کی مدد طلبی صرف اللہ کی ذات میں منحصر نہیں بلکہ استعانت (مدد طلب کرنا) کہ اللہ سے مختص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کی قدرت اور توفیقات میں اضافہ صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کیا جائے تاکہ عبادت خالص اور کامل انجام پائے۔

اس کا مقصد ، اس حقیقت کو ثابت کرنا ہے کہ انسان اپنے اختیاری اعمال میں جبرو تفویض کے درمیانی سنگم پر کھڑا ہے اس لئے کہ جملہ افعال انسان کے اختیارسے صادر ہوتے ہیں اسی لئے قول خداوندی( إِيَّاكَ نَعْبُدُ ) (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) میں فعل کی نسبت انسان کی طرف دی گئی ہے لیکن انسان کا یہ فعل اللہ کی طرف لمحہ بہ لمحہ ملنے والی مدد اور قدرت کے ذریعے انجام پاتا ہے ، جو ایک غیر منقطع عطیہ ہے بایں معنی کہ اگر کسی بھی لمحے مدد الٰہی منقطع ہو جائے تو انسان اس فعل کو مکمل نہیں کر سکتا اور نہ اس سے کوئی عبادت اور نیکی ہو سکتی ہے۔

۶۰۸

یہ وہی قول و عقیدہ ہے جس کا ایک خالص انسان متقاضی ہے اس لئے کہ جبر کا لازمہ یہ ہے کہ گناہ گار انسان کو عذاب دینا ایک بے گناہ شخص کو عذاب دینے کے مترادف ہے اور یہ صریحاً ظلم ہے:

( سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا ) ۱۷:۴۳

''جو جو (بیہودہ باتیں) یہ لوگ(خدا کی نسبت) کہا کرتے ہیں وہ ان سے بڑھ کر بہت پاکیزہ اور بدتر ہے،،

تفویض یعنی جملہ افعال انسان کے سپرد ہونے سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے خالق کا اقرار جائے کیونکہ تفویض کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے افعال کو مستقل طور پر انجام دیتا ہے اور وہی ان کا خالق ہے اس عقیدے کا نتیجہ متعدد خالقوں کا قائل ہونا ہے جو شرک باللہ ہے۔

اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان افراط و تفریط کی بجائے درمیانی راستہ اختیار کرے بایں معنی کہ فعل انسان ہی سے صادر ہوتا ہے اور وہی اس فعل کا اختیاری فاعل ہے اسی وجہ سے وہ سزا و عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے اور ایک لحاظ سے اللہ کی ذات ہے جو انسان کو زندگی ، قدرت اور دیگر مقدمات فعل مسلسل عطا فرماتی رہتی ہیں۔

بنا برایں انسان اپنے اعمال کو مستقل طور پر انجام دے سکتا ہے اور نہ اپنے خالق کی سلطنت میں کسی قسم کی دخل اندازی کر سکتا ہے اس مسئلہ کی وضاحت ہم اعجاز قرآن کی بحث میں کر چکے ہیں۔

یہی وہ استعانت ہے جو اللہ کی ذات میں منحصر ہے اگر فیض الٰہی حاصل نہ ہو تو کسی سے کوئی فعل سرزد نہیں ہو سکتا چاہے تمام جن وانس مل کر اسے انجام دینا چاہیں۔ اس لئے کہ ممکن الوجود ، جو اپنے وجود میں استقلال نہیں رکھتا اس کا کسی عمل کو مستقلاً انجام دینا ناممکن ہے۔

۶۰۹

ہمارے اس بیان سے جملہ( ایاک نستعین ) کو( ایاک نعبد ) کے بعد ذکر کرنے کی وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے بایں معنی کہ پہلے تو اللہ نے عبادت کو اپنی ذات سے مختص کر دیا اور یہ کہ مومنین صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں پھر یہ حقیقت ظاہر کی کہ انسان کی عبادات ، اللہ کی مدد اور اس کی دی ہوئی قدرت سے انجام پاتی ہیں اور بندے مشیت کے مرہون منت ہیں بندوں کی نیکیوں میں اللہ کی ذات زیادہ موثر ہے اور برائیوں کا مسؤل بندہ ہی ہوتا ہے(۱)

شفاعت

قرآنی آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کے تمام معاملات کا کفیل و ضامن اللہ تعالیٰ ہے تمام معاملات اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اللہ ہی اپنی رحمت سے بندوں کو کمال کا راستہ دکھاتا ہے وہ اپنے بن دوں کے نزدیک ہے ، ان کی آواز سنتا اور دعا قبول فرماتا ہے۔

( أَلَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ ) ۳۹:۳۶

''کیا خدا اپنے بندوں (کی مدد) کیلئے کافی نہیں ہے (ضرور ہے)،،

( وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ) ۲:۱۸۶

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جب میرے بندے میرا حال تم سے پوچھیں تو (کہدو کہ ) میں ان کے پاس ہی ہوں اور جب کوئی مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں ہر دعا کرنے والے کی (دعا سن لیتا ہوں اور اگر مناسب ہو تو) قبول کرتا ہوں پس انہیں چاہئے کہ (میرا ہی کہنا مانیں اور) مجھپر ایمان لائیں تاکہ وہ سیدھی راہ پر آ جائیں،،

____________________

(۱) ضمیمہ نمبر ۲۵ ملا خطہ فرمائیں۔

۶۱۰

بنا برایں مخلوق کو چاہئے کہ وہ اپنی جیسی مخلوق سے شفاعت طلب نہ کرے اور نہ کسی مخلوق کو اپنے اور اپنے رب کے درمیان واسطہ بنائے اس لئے کہ اس میں مقصد تک رسائی کیلئے لمبی مسافت طے کرنا پڑتی ہے بلکہ غیر اللہ کی طرف احتیاج ظاہر کرنا لازم آتا ہے ایک محتاج دوسرے محتاج کے کیا کام آ سکتا ہے اور ایک گناہگار کو اس شخص کی شفاعت سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے جس کے پاس کوئی سلطنت و اختیار نہ ہو۔

( لِلَّـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ ) ۳۰:۴

''پہلے اور بعد (غرض ہر زمانہ میں) ہر امر کا اختیار خدا ہی کو ہے،،۔

( قُل لِّلَّـهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ۖ لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ ) ۳۹:۴۴

''تم کہہ دو کہ ساری سفارش تو خدا کیلئے خاص ہے سارے آسمان اور زمین کی حکومت اسی کیلئے خاص ہے،،

یہ وہ شفاعت ہے جو اذن خدا کے بغیر کی جائے لیکن اگر اللہ کسی کو شفاعت کرنے کی اجازت دے دے تو اس سے شفاعت طلب کرنا اللہ کے حضور خشوع و خضوع اور اس کی پرستش کے مترادف ہو گا اور قرآن کریم سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض بندوں کو شفاعت کی اجازت دی ہوئی ہے اگرچہ اس کیلئے رسول اللہ (ص) کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کی تصریح نہیں فرمائی گئی چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

( ا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَـٰنِ عَهْدًا ) ۱۹:۸۷

''(اس دن) یہ لوگ سفارش پر (بھی) قادر نہ ہونگے مگر (ہاں) جس شخص نے خدا سے (سفارش کا) اقرار لے لیا ہو،،

( يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ ) ۲۰:۱۰۹

''اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی مگر جس کو خدا نے اجازت دی ہو،،

۶۱۱

( وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ ) ۳۴:۲۳

''اور جس شخص کیلئے وہ خود اجازت عطا فرمائے اس کے سوا کسی کی سفارش اس کی بارگاہ میں کام نہ آئیگی،،

( وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ) ۴:۶۴

''اور (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جب ان لوگوں نے (نافرمانی کر کے) اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ، اگر تمہارے پاس پاس چلے آتے اورخدا سے معافی مانگتے اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) (تم) بھی ان کی مغفرت چاہتے تو بیشک وہ لوگ خدا کو بڑا توبہ قبول کرنےوالا مہربان پاتے،،

شفاعت کے موضوع پر اللہ رسول (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی متواتر روایات بھی موجود ہیں۔

امامیہ کے نزدیک شفاعت کی احادیث

شفاعت کےب ارے میں امامیہ سلسلہ سند سے پہنچنے والی روایات حدو حصر سے زیادہ ہیں امامیہ کے نزدیک یہ مسئلہ واضحات میں سے ہے اور کسی سے پوشیدہ نہیں نمونہ کے طور پر صرف ایک روایت پیش کرنے پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔

برقی نے ''المحاسن،، میں معاویہ بن وہب سے روایت کی ہے۔

''معاویہ بن وہب کہتا ہے : میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اس آیت کی تفسیر پوچھی:

( لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ) ۷۸:۳۸

''اس سے کوئی بات نہ کرس کے گا مگر جسے خدا اجازت دے اور وہ حق بات کہے،،

۶۱۲

آپ (ع) نے فرمایا: اللہ کی قسم ہم ہی ہیں جنہیں بولنے کی اجازت ہو گی اور حق بات کریں گے میں نے کہا میری جان آپ (ع) پر نثار ہو جب آپ (ع) بولیں گے تو کون سی بات کریں گے؟ آپ (ع) نے فرمایا: ہم اپنے رب کی عظمت اور بزرگی بیان کریں گے اپنے نبی (ص) پروردو سلام بھیجیں گے اور اپنے شیعوں کی شفاعت کریں گے اور اللہ (ہماری سفارش) رد نہیں فرمائے گا،، محمد بن یعقوب نے ''کافی،، میں محمد بن فضیل سے اور اس نے امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے(۱)

اہلسنت کے نزدیک شفاعت کی احادیث

شفاعت کے بارے میں اہلسنت کے ہاں بھی روایات متواترہ(۲) موجود ہیں جن میں سےب عض یہاں پیش کر رہیں۔

۱۔ یزید فقیر روایت کرتا ہے کہ جابر بن عبداللہ نے خبر دی کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

اللہ کی جانب سے پانچ ایسی چیزیں مجھے عطا ہوئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں ۔۔۔۔۔۔ مجھے ایسا رعب عطا کیا جو ایک ماہ کی مسافت سے دشمن کو محسوس ہوتا ہے ، زمین کومیرے لئے سجدہ گاہ اور مطہر بنایا ۔۔۔۔۔۔مال غنیمت میرے لئے حلال قرار دیا ، جبکہ مجھ سے پہلے یہ کسی کے لئے حلال نہ تھا اور مجھے شفاعت کا اختیار دیا ہے(۳)

____________________

(۱) بحار ، باب الشفاعہ ، ج ۳ ، ص ۳۰۱

(۲)۔ کنز العمال ، ج ۷ ، ص ۲۱۵ ۔۲۷۰ میں تقریبات ۸۰ روایات موجود ہیں۔

(۳) ۔ صحیح بخاری کتاب یتمم ، باب ۱ ، ج ۱ ، ص ۸۶

۶۱۳

۲۔ انس بن مالک نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''بہشت میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ، میں ہوں:(۱)

۳۔ ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا۔

''ہر نبی کی ایک دعا ہوا کرتی ہے اور میں نے اپنی دعا ، روز محشر اپنی امت کی شفاعت کیلئے ذخیرہ کر رکھی ہے،،(۲)

۴۔ ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''میں روز قیامت اولاد آدم کا سردار ہوں گا میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس کی قبر شگافتہ ہو گی ، میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں گا اور میری شفاعت سب سے پہلے ہو گی ،،(۳)

۵۔ ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

شفاعت کرنے والے پانچ ہیں ، قرآن کریم ، قریبی رشتہ دار ، امانت داری ، تمہارے نبی اور اس کے اہل بیت ،،(۴)

____________________

(۱)۔ صحیح مسلم باب ان النبی اول من یشفع فی الجنتہ ، ج ۱ ، ص ۱۳۰

(۲) ۔ ضمیمہ نمبر ۲۶ ملا خطہ فرمائیں۔

(۳) ۔ صحیح مسلم باب تفصیل نبینا علی جمیع الخلائق ، ج ۷ ، ص ۵۹

(۴) ۔ کنز العمال ، الشفاعتہ ، ج ۷ ، ص ۲۱۴

۶۱۴

۶۔ عبداللہ بن ابی جدعاء نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''میری امت کے ایک آدمی کی شفاعت سے قبیلہ نبی تمیم کے افراد سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہونگے،،(۱)

اس روایت کو ترمذی اور حاکم نے بھی بیان کیا ہے ان روایات سے ثابت ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے اہل بیت (ع) سے شفاعت طلب کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کاشریعت میں حکم دیا گیا ہے ایسی صورت میںشفاعت طلب کرنا کیونکر شرک شمارہو گا ؟ اللہ تعالیٰ ہمیں خواہشات نفسانی کی پیروی اور قدم و علم کی لغزشوں سے محفوظ رکھے۔

تحلیل آیت

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾

''تو ہم کو سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھ ، ان کی راہ جنہیں تو نے (اپنی) نعمت عطا کی ہے ، نہ ان کی رہا جن پر تیرا غضب ڈھایا گیا ہے اور نہ گمراہوں کی،،۔

قرات

قراتوں میں سب سے مشہور قرات یہ ہے کہ اس آیت میں ''غیر،، کی 'را، کو مجرور پڑھا جائے البتہ زمحشری نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) اور حضرت عمر نے 'را، کو منصوب پڑھا ہے لیکن یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ (ص) نے ''غیر،،کی 'را، کو منصوب پڑھا ہو اسی طرح یہ بھی ثابت نہیں کہ حضرت عمر نے اسے منصوب پڑھا ہو اور اگر یہ ثابت بھی ہو کہ حضرت عمر نے اسے منصوب پڑھا تھا پھرب ھی یہ حجت اور قابل قبول نہیں کیونکہ اس سے قبل ہم واضح کر چکے ہیں کہیغر معصوم کی قرات کوتب اہمیت حاصل ہوتی ہے جب وہ مشہور قراتوں میں سے ہو ورنہ وہ شاذ ہو گی اور اس کا پڑھنا کافی نہ ہو گا مشہور و معروف قرات( أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) ہے

۶۱۵

البتہ حضرت علی (ع) اور حضرت عمر کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ ان حضرات نے ''من انعمت علیہم و غیر الضآلین ،، پڑھا ہے حضرت عل ی(ع) کا اس طرح پڑھنا ثابت نہیں ہے بلکہ آپ کااس طرح سے نہ پڑھنا ثابت ہے اگر امیر المومنین (ع) ''ومن انعمت علیھم و غیر الضالین،، پڑھتے تو یہ قرات آپ (ع) کے شیعول میں رائج ہو گئی ہوتی اور آپ (ع) کے بعد دوسرے ائمہ (ع) اس کی تائید فرماتے حالانکہ کسی ایک قابل اعتماد آدمی نے بھی اس قرات کو نقل نہیں کیا۔

رسول اللہ (ص) کی طرف ''غیر،، کو منصوب پڑھنے کی جو نسبت دی جاتی ہے اس کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا سکتا ہے کہ اگر آپ (ص) ''غیر،، کو منصوب پڑھتے تو یہ رات مشہور ہو جاتی اور باقی المہ ہدیٰ (ع) بھی اس کی تائید فرماتے جہاں تک حضرت عمر کی قرات کا تعلق ہے اس کا حکم بیان کر دیا گیا ہے۔

لغت

الهدایة

''ہدایت،، راہنمائی کو کہتے ہیں جو ضلالت و گمراہی کا عکس ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کا مطلب عنقریب نظر سے گزرے گا۔

الصراط

''صراط،، وہ راستہ ہے جس پر چلنےسے انسان اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے البتہ کبھی کسی غیر محسوس چیز کو بھی ''طریق،، کہا جاتا ہے چنانچہ کہاجاتا ہے''الاحتیاط طریق النجاة ،، یعنی ''احتیاط راہ نجات ہے،، اطاعتہ اللہ طریق الی الجنتہ،، یعنی ''اللہ کی اطاعت بہشت تک پہنچنے کا راستہ ہے،،

غیر محسوس طریق کو یا اس لئے ''طریق،، کہا جاتا ہے کہ لفظ ''طریق ،، طریق محسوس اور طریق غیر محسوس دونوں کیلئے استعمال ہو گا یا تشبیہ اور استعمارہ کے طور پر غیر محسوس طریق کو بھی طریق کہا گیا ہے۔

۶۱۶

الاستقامة

''استقامت ،، اعتدال اور میانہ روی کو کہا جاتا ہے، جو دایں یا بائیں طرف انحراف کے مقابلے میں آتا ہے ''صراط مستقیم،، وہ راستہ ہے جس پر چلنے والا ابدی نعمتوں اور رضائے الہی تک پہنچ جاتا ہے اور ''صراط مستقیم،، یہی ہے کہ مخلوق اپنے خالق کی اطاعت کرے اس کے اوامرو نواہی میں اس کی مخالفت و معصیت نہ کرے اور غیر اللہ کی عبادت نہ کرے یہ وہی صراط ہے جس میں کسی قسم کا انحراف نہیں ارشاد ہوتا ہے۔

( وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۴۲:۵۲

''اور اس میں شک نہیں کہ تم (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) سیدھا ہی راستہ دکھاتے ہو،،

( صِرَاطِ اللَّـهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ ) : ۵۳

''اس خدا کا راستہ کہ جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) اسی کا ہے سن رکھو،،

( وَهَـٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا ۗ ) ۶:۱۲۶

''اور (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) یہ (اسلام) تمہارے پروردگار کا (بنایا ہوا) سیدھا راستہ ہے،،۔

( إِنَّ اللَّـهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۗ هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ) ۳:۵۱

''بیشک خدا ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس اس کی عبادت کرو (کیونکہ) یہی (نجات کا) سیدھا راستہ ہے،،

( وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ) ۳۶:۶۱

''اور یہ کہ (دیکھو) صرف میری عبادت کرنا یہی (نجات کی ) سیدھی راہ ہے،،۔

۶۱۷

( وَبِعَهْدِ اللَّـهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ) ۶:۱۵۲

''اور خدا کے عہد و پیمان کو پورا کرو یہ وہ باتیں ہیں جن کا خدا نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو،،۔

( وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ) : ۱۵۳

''اور یہ (بھی سمجھ لو) کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے تو اسی پر چلے جاؤ اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو خدا کے راستہ سے (بھٹکا کر) تتر بتر کر دیں گے،،

چونکہ اللہ کی عبادت کسی خاص قسم میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض عبادات کاتعلق دل اور نفس سے ہے اور بعض کا متعدد اعضاء بدن سے۔ لہٰذا کبھی تو ایک عام اور وسیع معنی کو مدنظر رکھا جاتا ہے جو عبادت کی تمام اقسام کو شامل ہے اس معنی کی مناسبت سے لفظ صراط مفرد سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے ''الصراط المستقیم،، اور ''الصراط السویٰ،، ہے اور کبھی عبادت کی مختلف اقسام کو پیش نظر رکھا جاتاہ ے جس طرح اللہ تعالیٰ ، رسول اللہ (ص) اور معادپر ایمان لانا اور نماز ، روزہ ، حج اور دیگر اعمال بجا لانا ہے اس معنی کی مناسبت سے یہ لفظ جمع کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے چنانچہ ارشادباری ہے۔

( قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ) ۵:۱۵

''اور تمہارے پاس تو خدا کی طرف سے ایک (چمکتا ہوا) نور اور صاف صاف بیان کرنے والی کتاب (قرآن) آ چکی،،

( يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ ) ۵:۱۶

''جو لوگ خدا کی خوشنودی کے پابند ہیں ان کو تو اس کے ذریعہ سے نجات کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے،،

( وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ۚ ) ۱۴:۱۲

''اور ہمیں (آخر) کیا ہے جو ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں حالانکہ ہمیں (نجات کی) یقیناً اسی نے راہیں دکھائیں،،

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ ) ۲۹:۶۹

''اور جنل وگوںنے ہماری راہ میں جہاں کیا انہیں ہم ضرور اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے،،

۶۱۸

الانعام:

''انعام،، کے معنی ہیں ، نعمتوں سے نوازنا اور ان میں اضافہ کرنا اللہ کی نعمتوں سے نوازے گئے لوگ وہ ہوتے ہیں جو صراط مستقیم پر گامزن ہوں جنہیں خواہشات نفسانی شیطان کی اطاعت پر آمادہ نہ کر سکے اور اس طرح وہ ابدی سعادت اور دائمی زندگی حاصل کر لیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ انہیں رضائے الٰہی نصیب ہو۔

( وَعَدَ اللَّـهُ الْمومنينَ وَالْمومناتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ) ۹:۷۲

''خدا نے ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں سے (بہشت کے) ان باغوں کا وعدہ کر لیاہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (بہشت) عدن کے باغوں میں عمدہ عمدہ مکانات کا (بھی وعدہ فرمایا ہے) اور خدا کی خوشنودی ان سب سے بالاتر ہے یہی تو بڑی اعلیٰ درجہ کی کامیابی ہے،،

الغضب:

''غضب،، نارضگی کو کہا جاتا ہے جس کے مقابلے میں رحمت ہے اللہ ان لوگوں پر غضبناک ہوتا ہے جو کفر کے بھنور میں پھنسے ہوئے اور حق سے منحرف ہوں اور آیات الٰہی کو پس پشت ڈالتے ہوں اس سے مراد مطلق کافر نہیں:

( وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۱۶:۱۰۶

''بلکہ خوب سینہ کشادہ (جی کھول کر) کفر کرے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور ان کیلئے بڑا (سخت)عذاب ہے،،

۶۱۹

الضلال:

''ضلال،، بے راہ روی اور گمراہی کو کہا جاتا ہے اس کے مقابلے میں ''ہدایت،، ہے گمراہ لوگ وہ ہیں جو راہ ہدایت سے منحرف اور ابدی ہلاکت و دائمی عذاب سے دوچار ہوں لیکن یہ لوگ شدت کفر میں ان لوگوں کی مانند نہیں جو غضب الٰہی کے مستحق ہیں کیونکہ اگرچہ گمراہ ہونے والے حق کی تحقیق میں کوتاہی کی وجہ سے صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہوتے لیکن حق آشکار ہونے کے بعد وہ اس سے دشمنی نہیںبرتتے۔

چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ ''مغضوب علیھم،، سے مراد یہود اور ''ضالین،، سے مراد نصاریٰ ہیں اس سے قبل اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے کہ قرآنی آیات صرف شان نزول سے مختص نہیں ہواکرتیں اور یہ کہ ان آیات کا جو معنی بھی بیان کیا جائے وہ قاعدہ کلیہ کی تطبیق و اطلاق ہے۔

اعراب

سورہ فاتحہ میں جملہ ''غیر ا لمغضوب علیھم،، جملہ ''الذین انعمت علیھم،، کا بدن بن رہا ہے دوسرا احتمال یہ ہے کہ الذین انعمت علیھم کی صفت بن رہا ہے بایں معنی کہ اللہ کی نعمتیں اس کی رحمت کی طرح تمام تک پہنچتی رہتی ہیں کچھ لوگ ان نعمتوں کا شکر بجالاتے ہیں اور کچھ لوگ کفران نعمت کرتے ہیں:

( أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّـهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ ) ۳۱:۲۰

''کیا تم لوگوںنے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے(غرض سب کچھ) خدا ہی نے یقینی تمہارا تابع کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اورباطنی نعمتیں پوری کر دیں اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو (خواہ مخواہ) خدا کے بارے میں ھجگڑتے ہیں (حالانکہ ان کے پاس ) نہ علم ہے اور نہ ہدایت ہے اور نہ کوئی روش کتاب ہے،،

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689