البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن2%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314013 / ڈاؤنلوڈ: 9314
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

اس رائے کی رو یہ ہے کہ یہ احتمال ا س معنی کے سراسر خلاف ہے جو لفظ سجود سے عام طور پر سمجھا جاتا ہے بنا برایں بغیر کسی شاہداور خارجی دلیل کے یہ احتمال قابل قبول نہیں نیز روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جب اولاد آدم (ع) اپنے رب کوسجدہ کرتی ہے تو ابلیس رنجیدہ ہو جاتااور رو پڑتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جس سجدے کا حکم دیا تھا اور ابلیس نے غرور میں آ کر جس سے انکار کیا تھا وہ وہی عام متصور سجدہ تھا اسی لئے ابلیس ، اولاد آدم (ع) کی طرف سے امتثال امر (تعمیل حکم) پر رنجیدہ ہوتا ہے کیونکہ اس نے خود اس کی مخالفت کی تھی۔

(۲) فرشتوں نے اللہ تعالیٰ ہی کو سجدہ کیا تھا حضرت آدم (ع) تو اس سجدہ میں فرشتوں کا صرف قبلہ قرار پائے تھے جس طرح کہا جاتا ہے کہ''صلی للقبة ،، اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس نے روبہ قبلہ نماز پڑھی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (ع) کی تکریم و تعظیم کی خاطر فرشتوں کو حضرت آدم (ع) کی طرف رخ کر کے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس نظریئے کی رو یہ ہے کہ آیت کی یہ تاویل ظاہر آیات قرآن اور روایات معصومین (ع) بلکہ آیات و روایات کی تصریحات کے بھی منافی ہے کیونکہ ابلیس نے اپنے زعم باطل میں اس بنیاد پر حضرت آدم (ع) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا کہ وہ آدم (ع) سے افضل ہے اگر یہسجدہ اللہ کو ہوتا اورحضرت آدم (ع) صرف قبلہ قرار پاتے تو ابلیس کا یہ قول بے معنی ہو جاتا:

( أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا ) ۱۷:۶۱

''کیا میں ایسے شخص کوسجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے،،

کیونکہ ممکن تو ہے کہ سجدہ کرنے والا اس سے افضل ہو جس کی طرف رخ کر کے سجدہ کیا جائے۔

۶۰۱

(۳) یہ سجدہ حضرت آدم (ع) ہی کو تھا لیکن چونکہ حکم الٰہی سے انجام پایا تھا اس لئے خشوع وخضوع اور سجدہ ، خدا ہی کے لئے ہو گا۔

وضاحت: خشوع و خضوع کی آخری منزل سجدہ ہے اسی لئے اللہ نے سجدہ اپنی ذات سے مختص فرمایا ہے اور غیر اللہ کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی اگرچہ یہ سجدہ پرستش اور عبودیت کے عنوان سے نہ کیا جائے۔

لیکن اگر اللہ کے حکم سے غیر اللہ کو سجدہ کیا جائے تو یہ درحقیقت اللہ کی عبادت اور اس کے تقرب کاباعث بنے گا اس لئے کہ یہ امتشال اور امر الٰہی اور اس کے حکم کی تعمیل ہے اگرچہ یہ ظاہراً اللہ کی کسی مخلوق کے سامنے تواضع کا مظاہرہ ہی ہو یہی وجہ ہے کہ اس امر سے سرکشی پر کسی کو عقاب کرنا صحیح ہے اور مخالف امر کا یہ عذر قابل قبول نہیں کہ میں کسی مخلوق کے سامنے ذلیل نہیںب نوں گا اور حکم دینے والے کے علاوہ کسی کے سامنے تواضع سے پیش نہیں آؤں گا(۱)

یہ تیسرا جواب درست ہے اس لئے کہ اللہ کے بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے جملہ امور میں اپنے نفس کیلئے کسی استقلال کا قائل نہ ہو اور ہر حالت میں اپنے مولا کی اطاعت کرے اگر مولا کسی کے سامنے تواضع سے پیش آنے کا حکم دے تو بندے پر واجب ہے کہ امتثال امر کرے اس صورت میں بندے کے سامنے تواضع سے پیش آنا اللہ کے سامنے تواضع سے پیش آنے کے مترادف ہو گا جس نے اس کا حکم دیا ہے(۲)

گزشتہ بحث کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسی بھی عمل سے اللہ کا قرب صرف اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس عمل کو انجام دینے کا حکم فرمائے اور یہ حکم کسی عمومی یا خصوصی دلیل کے ذریعے ثابت ہو اگر کسی عمل کے بارے میں شک ہو کہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے یا نہیں تو ایسے عمل کے ذریعے اللہ کاقرب حاصل کرنا تشریح(۳) کہلائے گا جو قرآن و سنت ، عقل اور اجماع علماء کی رو سے حرام ہے۔

____________________

(۱) ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ۲۱

(۲) ایضاً ۲۲

(۳) ایسے عمل کو دین میں شامل کرنا جو دین سے خارج ہو۔

۶۰۲

ہاں ! ائمہ (ع) اور دیگر مومنین کی قبور کی زیارت کرنا ، ان کو بوسہ دینا اور ان کی تعظیم کرنا عام دلیلوں اور اہل بیت (علیہم السلام) جن کو رسول اسلام (ص) نے اپنی مشہور حدیث :انی تارک فیکم ۔۔۔۔۔۔ کے ذریعے قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے ، کی خصوصی روایات کے ذریعے ثابت ہے زیارت قبور کے جائز ہونے کی تائید ہر دور کے مسلمانوں کی سیرت اور اہل سنت کی گزشتہ روایات سے بھی ہوتی ہے۔

شرک باللہ کیا ہے ؟

توجہ: جب غیر اللہ کے سامنے کسی خاص قسم کے خضوع کی نہی کی جائے جس طرح غیر اللہ کو سجدہ کرنا یا کسی خاص عبادت سے منع فرمایا جائے جیسے عیدالفطر اور عید قربان کے دن روزہ رکھنا حالت حیض میں نماز پڑھنا اور شوال ، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں حج کرنا ہے تو ان اعمال کو بجا لانے والا شخص حرام کا مرتکب اور عذاب کا مستحق ہو گا لیکن ان اعمال کی وجہ سے نہ مشرک ہو گا اور نہ کافر معلوم ہوا ہر فعل حرام کا مرتکب مشرک اور کافر نہیں ہوتا۔

اس سے پہلے واضح ہو چکا ہے کہ شرک کا مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی اس طرح تواضع کی جائے کہ تواضع کرنے والا ، عبد اور جس کی تواضع کی جا رہی ہے اسے رب مانا جائے پس جو شخص عبودیت اور پرستش کی نیت کے بغیر غیر اللہ کو سجدہ کرے وہ اپنے اس حرام عمل کی وجہ سے مسلمانوں کے زمرے سے خارج نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اسلام کا دارو مدار شہادتین کے اقرار پر ہے اور اسی سے اس کا مال اور خون محترم سمجھا جاتا ہے۔

۶۰۳

اس امر پر فریقین کی متواتر روایات دلالت کرتی ہیں(۱) ان دلائل کے باوجود اس شخص کو مشرک قرار دینے کا کیا جواز ہے باقی رہ جاتی ہے جو شہادتین کااقرار کرے اور قربتہ ً الی اللہ نبی اکرم (ص) اورآپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی قبور کی زیارت کرے۔

( وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مومنا ) ۴:۹۴

''اور جو شخص (اظہار اسلام کی غرض سے) تم کو سلام کرے تو تم (بے سوچے سمجھے) نہ کہہ دیا کرو کہ تو ایماندار نہیں،،

نعنقریب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں حق کا فیصلہ فرمائے گااور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

اسباب عبادت

عبادت کرنا ایک اختیاری عمل ہے جس کیلئے کسی نہ کسی ایسے سبب کا ہونا ضروری ہے جو انسان کو عبادت کرنے پرآمادہ کرے یہ سبب چند چیزیں ہو سکتی ہیں۔

(۱) عبادت کا سبب اور عامل اللہ کی عبادت کے عوض میں ملنے والی نعمتوں اور اجر و ثواب کی طمع ہو ، جس کا اللہ نے اپنے کلام مجید میں وعدہ فرمایا ہے۔

( وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ) ۴:۱۳

''اور جو خدا اور رسول کی اطاعت کرے اس کو خدا آخرت میں ایسے (ہرے بھرے) باغوں میں پہنچا دے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی،،

( وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ) ۵:۹

''اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے) کام (بھی) کئے خدا نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کیلئے (آخرت میں) مغفرت اور بڑا ثواب ہے،،

(۲) عبادت کا سبب و عامل ، حکم خداکی مخالفت پر سزا و عقاب کا خوف ہو،،

____________________

(۱) ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ مبر ۲۳

۶۰۴

( إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ) ۱۰:۱۵

''میں تو اگر اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو بڑے (کٹھن) دن کے عذاب سے ڈرتا ہو،،

( إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا ) ۷۶:۱۰

''ہم کو تو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر ہے جس میں منہ بن جائیں گے،،

ان دونوں اسباب کی طرف قرآن کی متعدد آیات دلالت کرتی ہیں۔

( تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ) ۳۲:۱۶

''رات کے وقت ان کے پہلو بستروں سے آشنا نہیں ہوتے اور (عذاب کے) خوف اور (رحمت کی) امید پراپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں،،

( وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّـهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ) ۷:۵۶

''اور (عذاب کے) خوف سے اور (رحمت کی) آس لگا کے خدا سے دعائیں مانگو (کیونکہ) نیکی کرنے والو ںسے خدا کی رحمت یقیناً قریب ہے،،۔

( يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ) ۱۷:۵۷

''وہ خود اپنے پروردگار کی قربت کے ذریعے ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ (دیکھیں) ان میں سے کون زیادہ قربت رکھتا ہے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں،،

(۳) خدا کو عبادت کا اہل سمجھ کر اس کی عبادت کی جائے کیونکہ اللہ ہی کی ذات کامل مطلق اور صفات جمال و جلال کی جامع ہے ایسی عبادت صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو مکمل طور پر فنافی اللہ کی منزل پر پہنچا ہوا ہو اور اپنے خالق کے مقابلے میں اسے اپنا وجود تک نظر نہ آتا ہو جس کا وہ خیر خواہ یا اس کے بارے میں اسے کسی عذاب کا خوف لاحق ہو اس کے پیش نظر صرف اس کا خالق ہو اور وہ غیرا للہ کا تصور تک نہ کر کے۔

۶۰۵

سوائے مصومین (علیہم السلام) کے کسی اور کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اس مرتبہ پر فائز ہے۔ جنہوں نے اپنے نفسوں کو محض اللہ کا مخلص بنایا ہے اور شیطان ان (ع) کے نزدیک تک نہیں جا سکتا اور وہ اس آیت کے مصداق ہیں:

( وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ) ۱۵:۳۹

''اور ان سب کو ضرور بہکاؤں گا،،

( إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ) : ۴۰

مگر ان میں سے تیرے نرے کھرے خاص بندے (کہ وہ میرے بہکانے میں نہ آئیں گے)،،

امیر المومنین سید الموحدین (ع) فرماتے ہیں۔

''ماعبدتک خوفاً من نارک و لا طمعاً فی جنتک ولکن و جدتک اهلاً للعبادة فعبد تک (۱)

''بارالہا ! میں نے آتش جہنم کے خوف سے تیری عبادت کی ہے اور نہ جنت کے لالچ میں بلکہ تجھے عبادت کا اہل سمجھ کر تیری عبادت کی ہے،،

معصومین (ع) کے علاوہ باقی انسانوں کی عبادت کا عامل و سبب پہلی دو وجوہ ہو سکتی ہیں ہمارے اس بیان سے ان حضرات کے اس قول کا بطلان بھی ظاہر ہو جائے گا جو جنت کے طمع یا جہنم کے خوف سے انجام دی گئی عبادات کو باطل سمجھتے ہیں اور عبادت کی صحت میں اس امر کو شرط قرار دیتے ہیںکہ عبادت صرف اللہ کو اس کا اہل سمجھ کر انجام دی جائے یہ قول اس لئے باطل ہے کہ معصومین (ع) کے علاوہ عام لوگ ایسی عبادت انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتے اور انہیں ایسے امر کا مکلف بنانا ناممکن ہے جو ان کے دائرہ اختیار سے خارج ہے۔

____________________

(۱) مراۃ العقول باب الینتہ ، ج ۲ ، ص ۱۰۱

۶۰۶

اس کے علاوہ پہلی دو آیات اس عبادت کے صحیح ہونے پر دلالت کرتی ہیں جو جنت کی طمع اور جہنم کے خوف سے انجام دی جائیں ان آیات میں اللہ نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو اللہ کو جہنم کے خوف یا بہشت کے لالچ میں پکارے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ عمل محبوب خدا ہو ، اللہ نے اس کا حکم دیا ہو اور اس سے امتثال امر ہو جائے معصومین (ع) کی روایات بھی ہیں جن کی رو سے وہ عبادت صحیح ہے جو دوزخ کے خوف سے اور جنت کی طمع میں انجام دی جائے(۱)

ہم گزشتہ بحثوں میں وضاحت کر چکے ہیں کہ اسی سورہ کی گزشتہ آیات کی رو سے حمد و ثناء اللہ کے کمال ذاتی اس کی ربوبیت ، رحمت واسعہ اور سلطنت و قدرت کی وجہ سے اللہ کی ذات سے مختص ہے اس طرح ان آیات میں عبادت کے منشاء اور اسباب کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے یعنی عبادت کی وجہ یا یہ ہوتی ہے کہ عابد معبود کے کمال اور اس کے مستحق عبادت ہونے کو درک کر کے اس کی عبادت کرتا ہے اور یہ آزاد انسان کی عبادت ہے یا عبادت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عابد ، معبود کی نعمتوں اور اس کے احسان کو درک کرتے ہوئے ان کی طمع میں عبادت کرتا ہے یہ تاجروں کی عبادت ہے یا عبادت اس لئے کی جاتی ہے کہ عبادت گزار معبود کے قہر و غضب اور اس کے عقاب کو درک کرتا ہے یہ غلاموں کی عبادت ہے۔

____________________

(۲) ضمیمہ نمبر ۲۴ پر عبادت کی اقسام ملا خطہ فرمائیں۔

۶۰۷

صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا

اس میں کوئی حرج نہیں کہ انسان اپنے مقاصد میں اللہ کے علاوہ دوسری مخلوق یا افعال سے مدد طلب کرے ارشاد ہوتا ہے۔

( وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ ) ۲:۴۵

''اور (مصیبت کے وقت) صبر اور نماز کا سہارا پکڑو،،

( وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ ) ۵:۲

''اور (تمہارا تو فرض یہ ہے کہ ) نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو،،

( مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا ) ۱۸:۹۵

''ذوالقرنین نے کہا میرے پروردگار نے جو قدرت مجھے دے رکھی ہے وہ کہیں بہتر ہے،،۔

پس معلوم ہوا ہر قسم کی مدد طلبی صرف اللہ کی ذات میں منحصر نہیں بلکہ اسعانت (مدد طلب کرنا) کے اللہ سے مختص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کی قدرت اور توفیقات میں اضافہ صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کیا جائے تاکہ عبادت خالص اور کامل انجام پائے۔

پس معلوم ہوا ہر قسم کی مدد طلبی صرف اللہ کی ذات میں منحصر نہیں بلکہ استعانت (مدد طلب کرنا) کہ اللہ سے مختص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کی قدرت اور توفیقات میں اضافہ صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کیا جائے تاکہ عبادت خالص اور کامل انجام پائے۔

اس کا مقصد ، اس حقیقت کو ثابت کرنا ہے کہ انسان اپنے اختیاری اعمال میں جبرو تفویض کے درمیانی سنگم پر کھڑا ہے اس لئے کہ جملہ افعال انسان کے اختیارسے صادر ہوتے ہیں اسی لئے قول خداوندی( إِيَّاكَ نَعْبُدُ ) (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) میں فعل کی نسبت انسان کی طرف دی گئی ہے لیکن انسان کا یہ فعل اللہ کی طرف لمحہ بہ لمحہ ملنے والی مدد اور قدرت کے ذریعے انجام پاتا ہے ، جو ایک غیر منقطع عطیہ ہے بایں معنی کہ اگر کسی بھی لمحے مدد الٰہی منقطع ہو جائے تو انسان اس فعل کو مکمل نہیں کر سکتا اور نہ اس سے کوئی عبادت اور نیکی ہو سکتی ہے۔

۶۰۸

یہ وہی قول و عقیدہ ہے جس کا ایک خالص انسان متقاضی ہے اس لئے کہ جبر کا لازمہ یہ ہے کہ گناہ گار انسان کو عذاب دینا ایک بے گناہ شخص کو عذاب دینے کے مترادف ہے اور یہ صریحاً ظلم ہے:

( سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا ) ۱۷:۴۳

''جو جو (بیہودہ باتیں) یہ لوگ(خدا کی نسبت) کہا کرتے ہیں وہ ان سے بڑھ کر بہت پاکیزہ اور بدتر ہے،،

تفویض یعنی جملہ افعال انسان کے سپرد ہونے سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے خالق کا اقرار جائے کیونکہ تفویض کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے افعال کو مستقل طور پر انجام دیتا ہے اور وہی ان کا خالق ہے اس عقیدے کا نتیجہ متعدد خالقوں کا قائل ہونا ہے جو شرک باللہ ہے۔

اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان افراط و تفریط کی بجائے درمیانی راستہ اختیار کرے بایں معنی کہ فعل انسان ہی سے صادر ہوتا ہے اور وہی اس فعل کا اختیاری فاعل ہے اسی وجہ سے وہ سزا و عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے اور ایک لحاظ سے اللہ کی ذات ہے جو انسان کو زندگی ، قدرت اور دیگر مقدمات فعل مسلسل عطا فرماتی رہتی ہیں۔

بنا برایں انسان اپنے اعمال کو مستقل طور پر انجام دے سکتا ہے اور نہ اپنے خالق کی سلطنت میں کسی قسم کی دخل اندازی کر سکتا ہے اس مسئلہ کی وضاحت ہم اعجاز قرآن کی بحث میں کر چکے ہیں۔

یہی وہ استعانت ہے جو اللہ کی ذات میں منحصر ہے اگر فیض الٰہی حاصل نہ ہو تو کسی سے کوئی فعل سرزد نہیں ہو سکتا چاہے تمام جن وانس مل کر اسے انجام دینا چاہیں۔ اس لئے کہ ممکن الوجود ، جو اپنے وجود میں استقلال نہیں رکھتا اس کا کسی عمل کو مستقلاً انجام دینا ناممکن ہے۔

۶۰۹

ہمارے اس بیان سے جملہ( ایاک نستعین ) کو( ایاک نعبد ) کے بعد ذکر کرنے کی وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے بایں معنی کہ پہلے تو اللہ نے عبادت کو اپنی ذات سے مختص کر دیا اور یہ کہ مومنین صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں پھر یہ حقیقت ظاہر کی کہ انسان کی عبادات ، اللہ کی مدد اور اس کی دی ہوئی قدرت سے انجام پاتی ہیں اور بندے مشیت کے مرہون منت ہیں بندوں کی نیکیوں میں اللہ کی ذات زیادہ موثر ہے اور برائیوں کا مسؤل بندہ ہی ہوتا ہے(۱)

شفاعت

قرآنی آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کے تمام معاملات کا کفیل و ضامن اللہ تعالیٰ ہے تمام معاملات اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اللہ ہی اپنی رحمت سے بندوں کو کمال کا راستہ دکھاتا ہے وہ اپنے بن دوں کے نزدیک ہے ، ان کی آواز سنتا اور دعا قبول فرماتا ہے۔

( أَلَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ ) ۳۹:۳۶

''کیا خدا اپنے بندوں (کی مدد) کیلئے کافی نہیں ہے (ضرور ہے)،،

( وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ) ۲:۱۸۶

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جب میرے بندے میرا حال تم سے پوچھیں تو (کہدو کہ ) میں ان کے پاس ہی ہوں اور جب کوئی مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں ہر دعا کرنے والے کی (دعا سن لیتا ہوں اور اگر مناسب ہو تو) قبول کرتا ہوں پس انہیں چاہئے کہ (میرا ہی کہنا مانیں اور) مجھپر ایمان لائیں تاکہ وہ سیدھی راہ پر آ جائیں،،

____________________

(۱) ضمیمہ نمبر ۲۵ ملا خطہ فرمائیں۔

۶۱۰

بنا برایں مخلوق کو چاہئے کہ وہ اپنی جیسی مخلوق سے شفاعت طلب نہ کرے اور نہ کسی مخلوق کو اپنے اور اپنے رب کے درمیان واسطہ بنائے اس لئے کہ اس میں مقصد تک رسائی کیلئے لمبی مسافت طے کرنا پڑتی ہے بلکہ غیر اللہ کی طرف احتیاج ظاہر کرنا لازم آتا ہے ایک محتاج دوسرے محتاج کے کیا کام آ سکتا ہے اور ایک گناہگار کو اس شخص کی شفاعت سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے جس کے پاس کوئی سلطنت و اختیار نہ ہو۔

( لِلَّـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ ) ۳۰:۴

''پہلے اور بعد (غرض ہر زمانہ میں) ہر امر کا اختیار خدا ہی کو ہے،،۔

( قُل لِّلَّـهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ۖ لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ ) ۳۹:۴۴

''تم کہہ دو کہ ساری سفارش تو خدا کیلئے خاص ہے سارے آسمان اور زمین کی حکومت اسی کیلئے خاص ہے،،

یہ وہ شفاعت ہے جو اذن خدا کے بغیر کی جائے لیکن اگر اللہ کسی کو شفاعت کرنے کی اجازت دے دے تو اس سے شفاعت طلب کرنا اللہ کے حضور خشوع و خضوع اور اس کی پرستش کے مترادف ہو گا اور قرآن کریم سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض بندوں کو شفاعت کی اجازت دی ہوئی ہے اگرچہ اس کیلئے رسول اللہ (ص) کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کی تصریح نہیں فرمائی گئی چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

( ا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَـٰنِ عَهْدًا ) ۱۹:۸۷

''(اس دن) یہ لوگ سفارش پر (بھی) قادر نہ ہونگے مگر (ہاں) جس شخص نے خدا سے (سفارش کا) اقرار لے لیا ہو،،

( يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ ) ۲۰:۱۰۹

''اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی مگر جس کو خدا نے اجازت دی ہو،،

۶۱۱

( وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ ) ۳۴:۲۳

''اور جس شخص کیلئے وہ خود اجازت عطا فرمائے اس کے سوا کسی کی سفارش اس کی بارگاہ میں کام نہ آئیگی،،

( وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ) ۴:۶۴

''اور (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جب ان لوگوں نے (نافرمانی کر کے) اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ، اگر تمہارے پاس پاس چلے آتے اورخدا سے معافی مانگتے اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) (تم) بھی ان کی مغفرت چاہتے تو بیشک وہ لوگ خدا کو بڑا توبہ قبول کرنےوالا مہربان پاتے،،

شفاعت کے موضوع پر اللہ رسول (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی متواتر روایات بھی موجود ہیں۔

امامیہ کے نزدیک شفاعت کی احادیث

شفاعت کےب ارے میں امامیہ سلسلہ سند سے پہنچنے والی روایات حدو حصر سے زیادہ ہیں امامیہ کے نزدیک یہ مسئلہ واضحات میں سے ہے اور کسی سے پوشیدہ نہیں نمونہ کے طور پر صرف ایک روایت پیش کرنے پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔

برقی نے ''المحاسن،، میں معاویہ بن وہب سے روایت کی ہے۔

''معاویہ بن وہب کہتا ہے : میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اس آیت کی تفسیر پوچھی:

( لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ) ۷۸:۳۸

''اس سے کوئی بات نہ کرس کے گا مگر جسے خدا اجازت دے اور وہ حق بات کہے،،

۶۱۲

آپ (ع) نے فرمایا: اللہ کی قسم ہم ہی ہیں جنہیں بولنے کی اجازت ہو گی اور حق بات کریں گے میں نے کہا میری جان آپ (ع) پر نثار ہو جب آپ (ع) بولیں گے تو کون سی بات کریں گے؟ آپ (ع) نے فرمایا: ہم اپنے رب کی عظمت اور بزرگی بیان کریں گے اپنے نبی (ص) پروردو سلام بھیجیں گے اور اپنے شیعوں کی شفاعت کریں گے اور اللہ (ہماری سفارش) رد نہیں فرمائے گا،، محمد بن یعقوب نے ''کافی،، میں محمد بن فضیل سے اور اس نے امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے(۱)

اہلسنت کے نزدیک شفاعت کی احادیث

شفاعت کے بارے میں اہلسنت کے ہاں بھی روایات متواترہ(۲) موجود ہیں جن میں سےب عض یہاں پیش کر رہیں۔

۱۔ یزید فقیر روایت کرتا ہے کہ جابر بن عبداللہ نے خبر دی کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

اللہ کی جانب سے پانچ ایسی چیزیں مجھے عطا ہوئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں ۔۔۔۔۔۔ مجھے ایسا رعب عطا کیا جو ایک ماہ کی مسافت سے دشمن کو محسوس ہوتا ہے ، زمین کومیرے لئے سجدہ گاہ اور مطہر بنایا ۔۔۔۔۔۔مال غنیمت میرے لئے حلال قرار دیا ، جبکہ مجھ سے پہلے یہ کسی کے لئے حلال نہ تھا اور مجھے شفاعت کا اختیار دیا ہے(۳)

____________________

(۱) بحار ، باب الشفاعہ ، ج ۳ ، ص ۳۰۱

(۲)۔ کنز العمال ، ج ۷ ، ص ۲۱۵ ۔۲۷۰ میں تقریبات ۸۰ روایات موجود ہیں۔

(۳) ۔ صحیح بخاری کتاب یتمم ، باب ۱ ، ج ۱ ، ص ۸۶

۶۱۳

۲۔ انس بن مالک نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''بہشت میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ، میں ہوں:(۱)

۳۔ ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا۔

''ہر نبی کی ایک دعا ہوا کرتی ہے اور میں نے اپنی دعا ، روز محشر اپنی امت کی شفاعت کیلئے ذخیرہ کر رکھی ہے،،(۲)

۴۔ ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''میں روز قیامت اولاد آدم کا سردار ہوں گا میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس کی قبر شگافتہ ہو گی ، میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں گا اور میری شفاعت سب سے پہلے ہو گی ،،(۳)

۵۔ ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

شفاعت کرنے والے پانچ ہیں ، قرآن کریم ، قریبی رشتہ دار ، امانت داری ، تمہارے نبی اور اس کے اہل بیت ،،(۴)

____________________

(۱)۔ صحیح مسلم باب ان النبی اول من یشفع فی الجنتہ ، ج ۱ ، ص ۱۳۰

(۲) ۔ ضمیمہ نمبر ۲۶ ملا خطہ فرمائیں۔

(۳) ۔ صحیح مسلم باب تفصیل نبینا علی جمیع الخلائق ، ج ۷ ، ص ۵۹

(۴) ۔ کنز العمال ، الشفاعتہ ، ج ۷ ، ص ۲۱۴

۶۱۴

۶۔ عبداللہ بن ابی جدعاء نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''میری امت کے ایک آدمی کی شفاعت سے قبیلہ نبی تمیم کے افراد سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہونگے،،(۱)

اس روایت کو ترمذی اور حاکم نے بھی بیان کیا ہے ان روایات سے ثابت ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے اہل بیت (ع) سے شفاعت طلب کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کاشریعت میں حکم دیا گیا ہے ایسی صورت میںشفاعت طلب کرنا کیونکر شرک شمارہو گا ؟ اللہ تعالیٰ ہمیں خواہشات نفسانی کی پیروی اور قدم و علم کی لغزشوں سے محفوظ رکھے۔

تحلیل آیت

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾

''تو ہم کو سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھ ، ان کی راہ جنہیں تو نے (اپنی) نعمت عطا کی ہے ، نہ ان کی رہا جن پر تیرا غضب ڈھایا گیا ہے اور نہ گمراہوں کی،،۔

قرات

قراتوں میں سب سے مشہور قرات یہ ہے کہ اس آیت میں ''غیر،، کی 'را، کو مجرور پڑھا جائے البتہ زمحشری نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) اور حضرت عمر نے 'را، کو منصوب پڑھا ہے لیکن یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ (ص) نے ''غیر،،کی 'را، کو منصوب پڑھا ہو اسی طرح یہ بھی ثابت نہیں کہ حضرت عمر نے اسے منصوب پڑھا ہو اور اگر یہ ثابت بھی ہو کہ حضرت عمر نے اسے منصوب پڑھا تھا پھرب ھی یہ حجت اور قابل قبول نہیں کیونکہ اس سے قبل ہم واضح کر چکے ہیں کہیغر معصوم کی قرات کوتب اہمیت حاصل ہوتی ہے جب وہ مشہور قراتوں میں سے ہو ورنہ وہ شاذ ہو گی اور اس کا پڑھنا کافی نہ ہو گا مشہور و معروف قرات( أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) ہے

۶۱۵

البتہ حضرت علی (ع) اور حضرت عمر کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ ان حضرات نے ''من انعمت علیہم و غیر الضآلین ،، پڑھا ہے حضرت عل ی(ع) کا اس طرح پڑھنا ثابت نہیں ہے بلکہ آپ کااس طرح سے نہ پڑھنا ثابت ہے اگر امیر المومنین (ع) ''ومن انعمت علیھم و غیر الضالین،، پڑھتے تو یہ قرات آپ (ع) کے شیعول میں رائج ہو گئی ہوتی اور آپ (ع) کے بعد دوسرے ائمہ (ع) اس کی تائید فرماتے حالانکہ کسی ایک قابل اعتماد آدمی نے بھی اس قرات کو نقل نہیں کیا۔

رسول اللہ (ص) کی طرف ''غیر،، کو منصوب پڑھنے کی جو نسبت دی جاتی ہے اس کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا سکتا ہے کہ اگر آپ (ص) ''غیر،، کو منصوب پڑھتے تو یہ رات مشہور ہو جاتی اور باقی المہ ہدیٰ (ع) بھی اس کی تائید فرماتے جہاں تک حضرت عمر کی قرات کا تعلق ہے اس کا حکم بیان کر دیا گیا ہے۔

لغت

الهدایة

''ہدایت،، راہنمائی کو کہتے ہیں جو ضلالت و گمراہی کا عکس ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کا مطلب عنقریب نظر سے گزرے گا۔

الصراط

''صراط،، وہ راستہ ہے جس پر چلنےسے انسان اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے البتہ کبھی کسی غیر محسوس چیز کو بھی ''طریق،، کہا جاتا ہے چنانچہ کہاجاتا ہے''الاحتیاط طریق النجاة ،، یعنی ''احتیاط راہ نجات ہے،، اطاعتہ اللہ طریق الی الجنتہ،، یعنی ''اللہ کی اطاعت بہشت تک پہنچنے کا راستہ ہے،،

غیر محسوس طریق کو یا اس لئے ''طریق،، کہا جاتا ہے کہ لفظ ''طریق ،، طریق محسوس اور طریق غیر محسوس دونوں کیلئے استعمال ہو گا یا تشبیہ اور استعمارہ کے طور پر غیر محسوس طریق کو بھی طریق کہا گیا ہے۔

۶۱۶

الاستقامة

''استقامت ،، اعتدال اور میانہ روی کو کہا جاتا ہے، جو دایں یا بائیں طرف انحراف کے مقابلے میں آتا ہے ''صراط مستقیم،، وہ راستہ ہے جس پر چلنے والا ابدی نعمتوں اور رضائے الہی تک پہنچ جاتا ہے اور ''صراط مستقیم،، یہی ہے کہ مخلوق اپنے خالق کی اطاعت کرے اس کے اوامرو نواہی میں اس کی مخالفت و معصیت نہ کرے اور غیر اللہ کی عبادت نہ کرے یہ وہی صراط ہے جس میں کسی قسم کا انحراف نہیں ارشاد ہوتا ہے۔

( وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۴۲:۵۲

''اور اس میں شک نہیں کہ تم (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) سیدھا ہی راستہ دکھاتے ہو،،

( صِرَاطِ اللَّـهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ ) : ۵۳

''اس خدا کا راستہ کہ جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) اسی کا ہے سن رکھو،،

( وَهَـٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا ۗ ) ۶:۱۲۶

''اور (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) یہ (اسلام) تمہارے پروردگار کا (بنایا ہوا) سیدھا راستہ ہے،،۔

( إِنَّ اللَّـهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۗ هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ) ۳:۵۱

''بیشک خدا ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس اس کی عبادت کرو (کیونکہ) یہی (نجات کا) سیدھا راستہ ہے،،

( وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ) ۳۶:۶۱

''اور یہ کہ (دیکھو) صرف میری عبادت کرنا یہی (نجات کی ) سیدھی راہ ہے،،۔

۶۱۷

( وَبِعَهْدِ اللَّـهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ) ۶:۱۵۲

''اور خدا کے عہد و پیمان کو پورا کرو یہ وہ باتیں ہیں جن کا خدا نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو،،۔

( وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ) : ۱۵۳

''اور یہ (بھی سمجھ لو) کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے تو اسی پر چلے جاؤ اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو خدا کے راستہ سے (بھٹکا کر) تتر بتر کر دیں گے،،

چونکہ اللہ کی عبادت کسی خاص قسم میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض عبادات کاتعلق دل اور نفس سے ہے اور بعض کا متعدد اعضاء بدن سے۔ لہٰذا کبھی تو ایک عام اور وسیع معنی کو مدنظر رکھا جاتا ہے جو عبادت کی تمام اقسام کو شامل ہے اس معنی کی مناسبت سے لفظ صراط مفرد سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے ''الصراط المستقیم،، اور ''الصراط السویٰ،، ہے اور کبھی عبادت کی مختلف اقسام کو پیش نظر رکھا جاتاہ ے جس طرح اللہ تعالیٰ ، رسول اللہ (ص) اور معادپر ایمان لانا اور نماز ، روزہ ، حج اور دیگر اعمال بجا لانا ہے اس معنی کی مناسبت سے یہ لفظ جمع کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے چنانچہ ارشادباری ہے۔

( قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ) ۵:۱۵

''اور تمہارے پاس تو خدا کی طرف سے ایک (چمکتا ہوا) نور اور صاف صاف بیان کرنے والی کتاب (قرآن) آ چکی،،

( يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ ) ۵:۱۶

''جو لوگ خدا کی خوشنودی کے پابند ہیں ان کو تو اس کے ذریعہ سے نجات کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے،،

( وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ۚ ) ۱۴:۱۲

''اور ہمیں (آخر) کیا ہے جو ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں حالانکہ ہمیں (نجات کی) یقیناً اسی نے راہیں دکھائیں،،

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ ) ۲۹:۶۹

''اور جنل وگوںنے ہماری راہ میں جہاں کیا انہیں ہم ضرور اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے،،

۶۱۸

الانعام:

''انعام،، کے معنی ہیں ، نعمتوں سے نوازنا اور ان میں اضافہ کرنا اللہ کی نعمتوں سے نوازے گئے لوگ وہ ہوتے ہیں جو صراط مستقیم پر گامزن ہوں جنہیں خواہشات نفسانی شیطان کی اطاعت پر آمادہ نہ کر سکے اور اس طرح وہ ابدی سعادت اور دائمی زندگی حاصل کر لیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ انہیں رضائے الٰہی نصیب ہو۔

( وَعَدَ اللَّـهُ الْمومنينَ وَالْمومناتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ) ۹:۷۲

''خدا نے ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں سے (بہشت کے) ان باغوں کا وعدہ کر لیاہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (بہشت) عدن کے باغوں میں عمدہ عمدہ مکانات کا (بھی وعدہ فرمایا ہے) اور خدا کی خوشنودی ان سب سے بالاتر ہے یہی تو بڑی اعلیٰ درجہ کی کامیابی ہے،،

الغضب:

''غضب،، نارضگی کو کہا جاتا ہے جس کے مقابلے میں رحمت ہے اللہ ان لوگوں پر غضبناک ہوتا ہے جو کفر کے بھنور میں پھنسے ہوئے اور حق سے منحرف ہوں اور آیات الٰہی کو پس پشت ڈالتے ہوں اس سے مراد مطلق کافر نہیں:

( وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۱۶:۱۰۶

''بلکہ خوب سینہ کشادہ (جی کھول کر) کفر کرے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور ان کیلئے بڑا (سخت)عذاب ہے،،

۶۱۹

الضلال:

''ضلال،، بے راہ روی اور گمراہی کو کہا جاتا ہے اس کے مقابلے میں ''ہدایت،، ہے گمراہ لوگ وہ ہیں جو راہ ہدایت سے منحرف اور ابدی ہلاکت و دائمی عذاب سے دوچار ہوں لیکن یہ لوگ شدت کفر میں ان لوگوں کی مانند نہیں جو غضب الٰہی کے مستحق ہیں کیونکہ اگرچہ گمراہ ہونے والے حق کی تحقیق میں کوتاہی کی وجہ سے صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہوتے لیکن حق آشکار ہونے کے بعد وہ اس سے دشمنی نہیںبرتتے۔

چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ ''مغضوب علیھم،، سے مراد یہود اور ''ضالین،، سے مراد نصاریٰ ہیں اس سے قبل اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے کہ قرآنی آیات صرف شان نزول سے مختص نہیں ہواکرتیں اور یہ کہ ان آیات کا جو معنی بھی بیان کیا جائے وہ قاعدہ کلیہ کی تطبیق و اطلاق ہے۔

اعراب

سورہ فاتحہ میں جملہ ''غیر ا لمغضوب علیھم،، جملہ ''الذین انعمت علیھم،، کا بدن بن رہا ہے دوسرا احتمال یہ ہے کہ الذین انعمت علیھم کی صفت بن رہا ہے بایں معنی کہ اللہ کی نعمتیں اس کی رحمت کی طرح تمام تک پہنچتی رہتی ہیں کچھ لوگ ان نعمتوں کا شکر بجالاتے ہیں اور کچھ لوگ کفران نعمت کرتے ہیں:

( أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّـهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ ) ۳۱:۲۰

''کیا تم لوگوںنے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے(غرض سب کچھ) خدا ہی نے یقینی تمہارا تابع کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اورباطنی نعمتیں پوری کر دیں اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو (خواہ مخواہ) خدا کے بارے میں ھجگڑتے ہیں (حالانکہ ان کے پاس ) نہ علم ہے اور نہ ہدایت ہے اور نہ کوئی روش کتاب ہے،،

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689