البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن5%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314037 / ڈاؤنلوڈ: 9314
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

ضمیمہ (۶) ص ۱۱۳

رسول (ص) اسلام کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش

اسی کتاب کے ص پر آیات کریمہ کی جو وضاحت ہم نے کی ہے اس کی تائیدان روایات سے بھی ہوتی ہے جو ان آیات کی شان نزول کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں چنانچہ ان آیات کی شان نزول کے بارے میں ''تفسیر البرہان،، میں مرقوم ہے۔

''ایک دن رسول خدا (ص) خانہ کعبہ میں اپنے آس پاس بیٹھے کچھ صحابیوں کو کلام خدا اور اس کے اوامرو نواہی کی تعلیم دے رہے تھے اتنے میں قریش کے سرکردہ افراد کی ایک جماعت جس میں ولید بن مغیرہ مخزومی ، ابو البختری بن ہشام ، ابوجہل بن ہشام ، عاص بن وائل السہمی ، عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس قسم کے دیگر افراد شامل تھے وہاں آئی ۔ ان مشرکین نے آپس میں کہا : دینمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ا ہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے آؤ ایک مرتبہ پھر اس کو سختی سے جھڑکیں ، اس کی سرزنش کریں اور دلائل سے اس کے لائے ہوئے پیغام کو باطل ثابت کریں تاکہ اپنے اصحاب کے سامنے اس کی اہمیت اور ہیبت ختم ہو جائے اور وہ ان کی نظروں سے گر جائے شاید اس طرح وہ اپنے مشن گمراہی ، باطل اور سرکشی سے باز آ جائے اگر زبانی سرزنش اور دلائل کے ذریعے باز آ جائے تو بہتر ورنہ شمشیر کے زور سے اسے بٹھا دیں گے۔

ابوجہل نے کہا : کون آگے بڑھ کرمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے گفتگو کرے گا؟

عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے کہا : میں اس سے گفتگو شروع کروں گا کیا تم مجھے اس سے مقابلہ اور مباحثہ کیلئے کافی نہیں سمجھتے ؟

۶۴۱

ابوجہل نے کہا : کیوں نہیں چنانچہ یہ سب کے سب آنحضرتؐ کی خدمت میں آئے اور عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے اپنے کلام کا آغاز کرتے ہوئے یوں کہا:

''آپ (ص) نے ایک بہت بڑا دعویٰ کر دیا اور بہت اونچی بات کہہ دی ہے آپ (ص) کا خیال ہے کہ آپ (ص) رب کائنات کے بھیجے ہوئے رسولؐ ہیں جبکہ رب اور خالق کائنات کیلئے ہرگز یہ مناسب نہیں کہ آپ (ص) جیسے انسان کو اپنا رسول بنا کر بھیجے جو ہماری مانند بشر ہے آپ ویسے ہی کھاتے پیتے ہیں جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں آپ ویسے ہی بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں جیسے ہم چلتے ہیں روم اور فارس کے بادشاہ جب کسی ملک میں اپنا نمائندہ بھیجتے ہیں تو کسی مالدار ، باحیثیت آدمی کو بھیجتے ہیں جس کے عالی شان محل و عمارات اور کئی غلام و نوکر ہوں اور رب کائنات کا مقام تو ان بادشاہوں سے بہت بلند ہے بلکہ یہ اس کے بندے ہیں اگرخدا ہماری طرف اپنا کوئی نمائندہ بھیجنا چاہتا تو ہم میں سے ایسے آدمی کا انتخاب کرتا جو مال و دولت اور مقام و منزلت کے اعتبار سے سب سے بہتر اور نمایاں حیثیت کا مالک ہو بنا برایں یہی قرآن جس کے بارے میں آپ (ص) کا یہ خیال ہے کہ خدا نے اسے آپ (ص) پر نازل کیا اور اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے مکہ یا مدینہ کے کسی عظیم المرتبت آدمی پر اسے کیوں نازل نہیں کیا ؟ یہ اہل مکہ میں سے ولید بن مغیرہ پر نازل کیا ہوتا یا اہل مدینہ میں سے عروہ بن مسعود ثقفی پر نازل کرتا،،

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: عبداللہ ابھی تیرا کچھ کلام باقی ہے؟

عبداللہ نے کہا : ہاں ! ہم اس وقت تک آپ (ص) پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک اسی مکہ کی سرزمین پر آپ (ص) چشمہ نہ بہائیں کیونکہ مکہ اپک پتھریلہ اور پہاڑی علاقہ ہے ہمیں اس امر کی ضرورت ہے آپ (ص) اس کی کھدائی کریں اسے ہموار کریں اور اس میں چشمے بہا دیں یا آپ (ص) کے پاس کھجور اور انگور کے باغات ہوں جس سے آپ (ص) کھائیں اور ان باغات میں نہریں بہتی ہوں ، یا آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہمپر گرے جیسا کہ آپ (ص) کا خیال ہے کیونکہ آپ (ص) نے ہی تو ہمارے بارے میں کہا : ''اگر یہ لوگ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرتے دیکھیں تو کہیں گے،، یہ تہہ بتہہ بادل ہیں،، اب ایسا کر کے دکھائیں شاید ہم یہی کہیں؟،،

۶۴۲

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لا سکتے جب تک خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کر حاضر نہ کریں یا پھرا س وقت ایمان لائیں گے جب آپ (ص) کے پاس سونے کا گھر ہو اور ہمیں اس میں سے حصہ دیں اور بے نیاز کر دیں شاید اس کے باوجود ہم بغاوت کر جائیں کیونکہ آپ (ص) نے ہی ہمارے بارے میں کہا ہے:

کلا ان الانسان لیطغی ان راه استغنی

''سن رکھو بیشک انسان جب اپنے کو غنی دیکھتا ہے تو سرکش ہو جاتا ہے،،۔

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: یا ہم اس صورت میں ایمان لائیں گے جب آپ (ص) آسمان کی طرف پرواز کریں اور آپ (ص) کے آسمان کی طرف پرواز کرنے پر بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کی طرف سے عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس کے ساتھیوں پر ایک کتاب نازل نہ ہو جس میں یہ خطاب ہو کہ تم سب محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب پر ایمان لے آؤاس لئے کہیہ میرا بھیجا ہوا رسول ہے اس کی باتوں کی تصدیق کرو اس لئے کہ یہ جو کچھ کہتا ہے میری طرف سے کہتا ہے،،

اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ! ان سب مطالبات کے پورے ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں میں آپ (ص) پر ایمان لاؤں یا نہ لاؤں اگر آپ ؐ ہمیں اٹھا کر آسمان کی طرف لے جائیں اور اس کے دروازے ہمارے آگے کھول دیں اور ہم ان دروازوں میں داخل ہو جائیں پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھیں مسحور کی گئی ہیں اور ہم پر جادو کیا گیا ہے۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پالنے و الے ! تو ہر آواز کوسننے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے اپنے بندوں کی باتوں کوتوبہتر جانتا ہے۔

اے عبداللہ بن ابی امیہ ! تیرا یہ کہنا کہ روم اور فارس کے بادشاہ ہمیشہ کسی مالدار آدمی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتے ہیں تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا خود تدبیر فرماتا اور فیصلہ کرتا ہے اس کے افعال ، تیرے خیالات اور تجاویز کے مطابق انجام نہیں پاتے بلکہ خدا خود جو چاہے کرتا ہے اور جیسا اس کا ارادہ ہو حکم فرماتا ہے۔

۶۴۳

اگر نبی محلوںکا مالک ہوتا اور ان میں جا کر غائب ہو جاتا یا اس کی خدمت کیلئے غلام اور نوکر ہوتے جو اس کو لوگوں کی نظروں سے چھپائے رکھتے ، تو کیا رسالت ضائع اور احکام خدا معطل نہ ہو جاتے؟

(میرے بارے میں ) تیرایہ کہنا کہ اگر تو نبی ہوتاتو تیرے ساتھ ہمہ وقت ایک فرشتہ ہوتا جو تیری تصدیق کرتا اور اسے ہم بھی دیکھ سکتے تو تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تیرے حواس فرشتے کو درک نہیں کر سکتے کیونکہ فرشتہ ہوا کی مانند ہے جس کا مشاہدہ نہیں ہو سکتا اگر تم فرشتے کا مشاہدہ کر سکتے بایں معنی کہ تمہاری حس باصرہ کو غیر معمولی طاقت دے دی جاتی ، تو تم کہتے یہ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ یہ تو ایک بشر ہے اس لئے کہ اگر فرشتہ ظاہر ہوتا تو لامحالہ کسی انسانی صورت میں ہی ظاہر ہوتا جس سے تم مانوس ہوتے تاکہ تم اس کی بات کو سمجھ سکو۔

تمہارا یہ کہنا کہ میں جادو گر ہوں بھلا میں جادو گر کیسے ہو سکتا ہوں جبکہ تم بخوبی جانتے ہو کہ عقل و فہم اور خیر و شر کو تمیز دینے میں ، میں تم سے بالاتر ہوں میری پیدائش سے آج تک چالیس سال کے عرصے میں تم نے مجھ سے کوئی جرم، جھوٹ ، بدزبانی سرزد ہوتے ہوئے دیکھی ہے ؟ یا کسی غلط بات اور کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے دیکھا ہے ؟ تمہارا کیا خیال ہے کیا ایک شخص اتنے طویل عرصے تک اپنی قوت اور بل بوتے پر ہر قسم کی غلطی سے محفوظ رہ سکتا ہے ؟ یا اس عرصے میں خدا کی تائید اور توفیق شامل حال رہی ہو گی؟

تمہارا یہ کہنا کہ خدا نے مکہ یا مدینہ کے کسی مالدار اور نامور آدمی پر قرآن کیوں نازل نہیں کیا ؟ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کی نظر میں مال دنیا کی وہ عظمت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے اور اس کی نظر میں مال دنیا کی وہ اہمیت اور وقعت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے خدا کسی سے اس کے مال و دولت اور حیثیت و مقام کی وجہ سے نہیں ڈرتا جس طرح تو ڈرتا ہے۔

تیرا یہ کہنا کہ جب تک زمین سے چشمے نہ پھوٹیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے وغیرہ تم نے اپنے اس کلام میں رسول خدا محمد (ص) کے سامنے کئی تجاویز پیش کی ہیں ان میں سے بعض تجاویز ایسی ہیں کہ اگر محمدؐ ان تجاویز پر عمل بھی کرے تب بھی وہ نبوت کی دلیل نہیں بن سکتیں رسول (ص) کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ جاہلوں کی نادانی کو غنیمت سمجھے اور ان کے سامنے ایسے دلائل پیش کرے جو درحقیقت حجت و دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

۶۴۴

تیری کچھ تجاویز ایسی ہیں کہ اگر ان پر عمل ہو جائے تو یہ تیری ہلاکت کا باعث بنیں گی نبوت کے دلائل تو اس لئے پیش کئے جاتے ہیں کہ خدا کے بندے ایمان لے آئیں اور ہلاکت سے محفوظ رہیں پس تو نے اپنی ہلاکت کی تجویز پیش کی ہے خدا کی ذات سب سے زیادہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والی ہے لوگوں کی مصلحتوں کو ان سے بہتر سمجھتی ہے۔ اور ان کی تجاویز پر عمل کر کے انہیں ہلاک نہیں کرتی۔

تیری بعض تجاویز ایسی ہیں جو بذات خود ناممکن ہیں اور صحیح و جائز نہیں ہیں اور کچھ تجاویز ایسی ہیں جو تیرے اعتراف کے مطابق تیری ضد ، ہٹ دھرمی اور سرکشی پر مبنی ہیں تو کسی دلیل کوتسلیم کرتا ہے اور نہ اسے سننے کیلئے تیار ہے۔

تیرا یہ مطالبہ کہ اگر اس سرزمین پر چشمے بہا کر دکھاؤں تب ایمان لاؤ گے تو نے یہ مطالبہ اس لئے کیا ہے کہ تو الٰہی دلائل سے جاہل ہے تیرا کیا خیال ہے اگر میں تیرا مطالبہ پورا کر دوں اور زمین پر چشمے بہا کر دکھا دوں تو کیا اسی دلیل سے میری نبوت ثابت ہو گی ؟ تیرا یہ مطالبہ اورتجویز ایسی ہے جیسا تو کہے ہم تو تب ایمان لائیں گے جب آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور چل کر دکھائیں کیا تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے پاس طائف میں کھجور اور انگور کے باغات نہیں ہیں جن سے تم کھاتے رہتے ہو اور ان کے درمیان سے نہریں نہیں بہتیں ؟ کیا ان باغات اور نہروں کی وجہ سے تم نبی بن گئے ہو؟

تیرا یہ کہنا کہ آسمان ریزہ ریزہ ہو کر ہمارے اوپر گرے جیسا کہ تیرا گمان ہے۔

آسمان کا ریزہ ریزہ ہو کر گرنا تمہاری موت اور ہلاکت کے مترادف ہے گویا اس طرح تم رسول خدا (ص) سے اپنی ہلاکت کا مطالبہ کر رہے ہیں رسول خدا (ص) کا رحم و کرم اس سے بالاتر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر دے۔

ہاں ! وہ تمہارے سامنے الٰہی دلائل پیش کرے گا۔

۶۴۵

وہ الٰہی دلائل اور حجتیں جو اللہ اپنے نبی کو دیکر بھیجتا ہے وہ بندوں کے مشوروں اور تجاویز کے مطابق نہیں ہوا کرتیں اس لئے کہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ کس امر میں ان کا مفاد اور مصلحت ہے جو جائز ہو اور کس میں مفسدہ اور نقصان ہے جو جائز نہ ہو کیا تم نے کسی ڈاکٹر کو دیکھا ہے جو اپنے مریض کے مشورے کے مطابق اس کیلئے نسخہ اور دوائی تجویز کرے ؟ یا تم نے کسی ایسے حاکم کو دیکھا ہے جو حق کے دعوے دار کو مدعی علیہ کی مرضی کے مطابق گواہ پیش کرنے کا حکم دے؟

تیرا یہ کہنا کہ ہم تب ایمان لائیں گے جب تو خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کرے جن کا ہم مشاہدہ کر سکیں یہ وہ مطالبہ ہے جس کا محال اور ناممکن ہونا کسی سے پوشیدہ نہیں اس لئے ہمارا رب اور خالق عام مخلوق کی مانند نہیں جو کسی کے سامنے آتا اور حرکت کرتا ہو ، تاکہ اس کو تمہارے سامنے لایا جائے پس تم نے اس مطالبہ میں ایک ناممکن ا مر کی تجویز پیش کی ہے۔

اے عبداللہ ! تیرا یہ کہنا کہ ہم تو تب ایمان لائیں گے جب تیرے پاس سونے کا مکان ہو یہ بتاؤ تم نے سنا ہے کہ شاہ مصر کے پاس سونے کے کئی گھر ہیں ؟ عبداللہ نے کہا : جی سنا ہے آپ (ص) نے فرمایا کیا بادشاہ مصران مکانات کی وجہ سے نبی بن گیا ہے ؟ عبداللہ نے کہا : نہیں ۔ آپ (ص) نے فرمایا جس طرح بادشاہ مصر کے سونے کے مکانات سے وہ نبی نہیں بن جاتا اگر میرے پاس بھی سونے کے مکانات ہوتے تو ان سے میری نبوت ثابت نہ ہوتی البتہ محمد (ص) تمہاری حالت اور نادانی کو غنیمت سمجھ کر اس قسم کی چیزوں کو حجت خدا کے طور پر پیش نہیں کرتا تیرا یہ کہنا کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے جب تم آسمان کی طرف پرواز کرو اور پھرتو یہ کہتاہ ے کہ تیرے آسمان کی طرف بلند ہونے کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم پر کوئی کتاب نازل نہ ہو جس کو ہم خود پڑھیں۔

۶۴۶

اے عبداللہ ! تمہیں معلوم ہے کہ آسمان کی طرف پرواز کرنا آسمان سے اترنے سے زیادہ مشکل ہے تو ایک مرتبہ اعتراف کر چکا ہے کہ میرے آسمان کی طرف پرواز کرنے کے باوجود بھی تم ایمان نہیں لاؤ گے تو میرے آسمان سے قرآن لے کر اترنے پر کب ایمان لاؤ گے ؟ تو نے اپنے کلام میں یہ بھی کہا ہے کہ ہم پر قرآن نازل ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں ہم ایمان لائیں نہ لائیں۔

یہ تیری طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ تو حجت خدا کے مقابلے میں عناد اور ضد رکھتا ہے تمہارے ان مطالبوں کا جواب خالق کا وہ جامع کلام ہے جو اس نے نازل فرمایا ہے اور اسی سے تمہاری تمام تجاویز باطل ہو جاتی ہیں خالق فرماتا ہے : اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کہہ دو ! میرا رب پاک و پاکیزہ ہے میں ایک انسان ہوں جس کو رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بنا کر بھیجا گیا ہے مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ خدا کو کوئی حکم دوں ، اس کو کسی کام سے روکوں یا کسی امر کا مشورہ دوں،،

یہ حدیث شریف بہت سارے فوائد پر مشتمل ہے محققین کو اس حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے ان آیات کی شان نزول کے بارے میں اور بھی بہت سی روایات موجود ہیں جن کو طبری نے ان آیات کی تفسیر کے موقع پر ذکر کیا ہے۔

۶۴۷

ضمیمہ (۷) ص ۳۱۵

صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

یہ حدیث یوں مروی ہے:

عبداللہ بن مسعود کہتا ہے:

''کنا نغزو مع رسول الله ص و لیس معنا نسآء فقلنا : الا نستخصی فنهانا عن ذلک ، ثم رخص لنا ان ننکح المراة بالتوب الی اجل ، ثم قراء عبدالله :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۵:۸۷

''ہم دوران جنگ رسول خدا (ص) کے ہمراہ تھے اور ہماری بیویاں ہمارے پاس نہیں تھیں ہم نے رسول خدا (ص) سے پوچھا : کیا ہم اپنے آپ کو نامرد بنا دیں آپ (ص) نے ہمیں اس عمل سے منع فرمایا اور اس امر کی اجازت دی کہ ایک مقررہ وقت تک کیلئے ایک کپڑے کے عوض عورتوںسے نکاح کر لیں اس کے بعد عبداللہ بن مسعود نے اس آیہ کریمہ کی تلاوت کی:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) (۵:۸۷)

''اے ایماندرو ! جو پاک چیزیں خدا نے تمہارے واسطے حلال کر دی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کیونکہ خدا حد سے بڑھ جانے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا،،

محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی ایک جماعت نے اس نص ، حدیث اور عبارت کو بخاری سے نقل کیا ہے لیکن آج کل کی رائج الوقت صحیح بخاری کے ج ۶ ص ۵۳ پر جو حدیث موجود ہے وہ دو اعتبار سے اصلی صحیح بخاری کی عبارت سے مختلف ہے:

۱۔ موجودہ صحیح بخاری میں سند حدیث سے لفظ عبداللہ بن مسعود کو نکال لیا گیا ہے جبکہ اکثر محدثین نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا ہے عبداللہ بن مسعود کے نام کو اس لئے نکال لیا گیا ہے تاکہ عبداللہ بن مسعود کا نام اس بات کا قرینہ اور شاہد نہ بن سکتے کہ اس روایت کا مقصد نکاح متعہ کو جائز قرار دینا ہے ، اس لئے کہ عبداللہ بن مسعود نکاح متعہ کو جائز سمجھتے تھے۔

۶۴۸

۲۔ موجودہ صحیح بخاری میں روایت کے آخری سے لفظ ''الی اجل،، (معین مدت تک) کو بھی نکال دیا گیا ہے کیونکہ ''الی اجل،، کا لفظ اس امر کی تصریح ہے کہ آنحضرت ؐ نے نکاح متعہ کی اجازت دے دی ہے چنانچہ شارحین نے بھی یہی سمجھا اور ایسی ہی اس کی تفسیر کی ہے کیونکہ اس قسم کے مقامات پر نکاح کی اجازت لازمی طور پر نکاح متعہ ہی کی اجازت ہوا کرتی ہے صرف دائمی نکاح کی نہیں اور یہ کہ ''لیس معنانسآ،، یعنی مجاہدین کے پاس عورتوں کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اپنی بیویاں ان کے ساتھ نہیں تھیں ایسا نہیں ہے کہ عام عورتیں وہاں نہیں تھیں ورنہ نکاح کی اجازت دینا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اس معنی کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ بعض روایات میں ''لیس معنا،، کی جگہ ''لیس لنانساء ،، موجود ہے یعنی ہماری اپنی عورتیں نہیں ہیں۔

چونکہ یہ روایت نکاح متعہ کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے اس لئے کئی فقہاء کا دعویٰ ہے کہ بعض دوسری روایات میں نکاح متعہ کو حرام قرار دیا گیا ہے جس سے اس روایت میں موجود حکم (جواز متعہ) نسخ ہو جاتا ہے لیکناس بات سے بھی ان کا مدعیٰ ثابت نہیں ہوتا جس کی تفصیل آیہ متعہ سے متعلق روایات پر تبصرہ کے دوران ہم نے بیان کر دی ہے تحریف کے مجرم ہاتھوں سے یہ روایت بھی محفوظ نہیں رہ سکی اور اس کو اپنی صحیح اورا صلی صورت پر نہیں رہنے دیا گیا ہم ذیل میں ان محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی فہرست ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے صحیح بخاری سے صحیح حدیث نقل کی ہے۔

(۱) بیھقی : سنن بیھقی جز ۷ ص ۲۰۰ طبع حیدر آباد

(ب) سیوطی : تفسیر سیوطی = ۲ = ۲۰۷ = المیمنیتہ مصر

(ج) زیلعی : نصب الرایہ = ۳ = ۱۸۰ = دارالتالیف مصر

(د) ابن تیمیہ : المنتقی ٰ جزء ۲ ص ۵۱۷ طبع حجازی

(ھ) ابن القیم : زادالمعاد = ۴ = ۸ محمد علی صبیح

(و) قنوچی : روضتہ الندیہ ۲ = ۱۶ = المنیریہ

(ز) محمد بن سلیمان : جمع الفوائد = ۱ = ۵۸۹ = دارالتالیف

۶۴۹

اس روایت کے کچھ اور مصادر اور حوالے بھی ہیں جو ذیل میں دیئے جا رہے ہیں

(ح) مسند احمد : جزء ۱ ص ۴۲۰ طبع مصر ۱۳۱۳

(ط) تفسیر قرطبی : = ۵ = ۱۳۰ = = ۱۳۵۶

(ی) تفسیر ابن کثیر : = ۲ = ۱۸۷ = = علی البابی

(ل) الاعتبار للحازمی : = = ۱۷۶ حیدر آباد

یہ حدیث صحیح ابی حاتم اور اس قسم کے اہم مصادر میں بھی موجود ہیں۔

ضمیمہ (۸) ص ۳۲۸

محمد عبدہ اور تین طلاقیں

محمد عبدہ پہلے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ اگر ایک نشست میں تین طلاقیں جاری کر دی جائیں تو وہ ایک طلاق شمار ہوں گی۔

اس کے بعد فرماتے ہیں:

''ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم ان مقلدین سے بحث اور مناظرہ کریں یا ان قاضیوں اور مفتیوں سے ان کے مذاہب چھڑا دیں جو تین طلاقوں کے قائل ہیں ان میں سے اکثر حضرت ایک طلاق پر دلالت کرنے والی روایات سے آگاہ ہیں جو کتب حدیث وغیرہ میں موجود ہیں البتہ یہ لوگ ان روایات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لئے کہ یہ لوگ اپنی کتابوں میں موجود اقوال پر زیادہ عمل کرتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نہیں(۱)

کاش محمد عبدہ متعہ کی بحث میں بھی یہی بات کرتے۔ اس لئے کہ جیسا کہ آپ نے دیکھا نکاح متعہ شریعت اسلام میں

____________________

(۱) تفسیر المنار ، جزء ۱ ، ص ۳۸۶

۶۵۰

ثابت ہے اس کے بعد اسے نسخ بھی نہیں کیا گیا جو لوگ نکاح متعہ کو حرام سمجتھے ہیں ان کی واحد دلیل ان کی کتابوں میں موجود اقوال ہی بن سکتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بن سکتیں۔

ضمیمہ (۹) ص ۳۸۳

شیعوں پر رازی کا افترائ

من جملہ ان لوگوں میں جنہیں تحقیق و تدقین کی توفیق نہیں ، فخر رازی ہے جو آیئہ کریمہ ''یمحوا اللہ مایشآء ویثبت،، کی تفسیر میں کہتا ہے :

''رافضی (شیعہ) کہتے ہیں خدا کے حق میں بداء جائز ہے اوربداء یہ ہے کہ خدا کو کسی چیز کا یقین حاصل ہو اس کے بعد اس پر انکشاف ہو کہ حقیقت اور واقع ایسا نہیں جس کا اسے یقین تھا،،۔

خالق ! تو جانتا ہے کہ یہ محض تہمت ہے رازی نے اپنی کتاب ''محصل،، کے خاتمہ میں ''سلیمان بن جریر،، سے ایک کلام نقل کیا ہے جس کا ذکر قبیح ہے اور مجھے بھی زیب نہیں دیتا کہ اس کتاب میں اس کلام کو ذکر کروں رازی نے یہ جملہ اسی جیسے ایک دوسرے ننگین جملے کے بعد ذکر کیا ہے جوبعض نصاریٰ رسول خدا (ص) کے بارے میں کہتے تھے جب آنحضرت (ص) ایسے احکام لے کر آئے جو گزشتہ شریعتوں کے لئے ناسخ قرار پائے''کبرت کلمته تخرج من ا فواههم وسیعلم الذین ظلموا ایی منقلب ینقلبون،،

۶۵۱

ضمیمہ (۱۰) ص ۳۹۴

احادیث اور مشیّت الٰہی

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی دونوں کتابوں ''توحید،، اور ''معانی الاخبار،، میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت بیان کی ہے ، امام علیہ السلام نے آیہ شریفہ : ''وقالت الیھود یداللہ مغلولۃ ،، کے بارے میں فرمایا:

''لیکن یہود کہا کرتے تھے خدا خلقت و آفرنیش کے ہر کام سے فارغ ہو گیا ہے خدا نہ تو کسی چیز کو بڑھاتا ہے اور نہ گھٹاتا ہے،،

خدا نے ان لوگوں کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا:

( غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ ) ۵:۶۴

''انہیں کے ہاتھ باندھ دیئے جائیں اور ان کے (اس) کہنے پر (خدا کی ) پھٹکار (بر سے خدا کا ہاتھ بندھنے کیوں لگا) بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے،،

کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا۔

( يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ) ۱۳:۳۹

''(پھر اس میں سے) خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) موجود ہے،،

عیاشی نے یعقوب بن شعیب اور عماد کے ذریعے حضرت ابو عبداللہ (علیہ السلام) سے بھی اسی مضمون کی روایت بیان کی ہے اس قسم کی روایات کو مجلسی نے بحار کی جلد ۲ ، ص ۱۳۱۔۱۴۲ پر ذکر کیا ہے۔

۶۵۲

ضمیمہ (۱۱) ص ۳۹۱

دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

سلمان کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''قضاء الٰہی کو دعا ہی تبدیل کرس کتی ہے اور عمر میں اضافہ نیکی ہی کر سکتی ہے،،(۱)

تو بان کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''عمر کو نیکی ہی بڑھا سکتی ہے انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے(۲)

ضمیمہ (۱۲) ص ۲۳۵

آیہ بسم اللہ کی اہمیت

اس کتاب کے صفحہ ۴۳۳ پر اعراب کی بحث میں یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ ''بسم اللہ،، میں اسم کی اضافت اللہ کی طرف اضافہ معنویہ ہے

____________________

(۱) ترمذی ، باب ماجاء لایرد القدر الالدعا ، ج ۸ ، ص ۳۵۰

(۲) ابن ماجہ ، باب القدر ، ج ۱ ، ص ۲۴ ، حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہےاور ذہبی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ، ج ۱ ، ص ۴۹۳ ۔ احمد نے اپنی مسند میں روایت کی ہے، ج ۵ ، ص ۲۷۷ ، ۲۸۰ ، ۲۸۲ ، اس مضمون کی روایت زیادہ ہیں جو متعلقہ کتب میں مل سکتی ہیں۔

۶۵۳

اوریہ کہ لفظ ''اللہ،، اپنے حقیقی معنی(۱) میں استعمال ہوا ہے ۔ بنا برایں لفظ اسم اپنے اس جامع معنی میں استعمال ہوا ہے جو تمام اسمائے الٰہی پر صادق آنے کے قابل ہے گویا مفہوم کاذکر کر کے اس کے ذریعے اس کے مصداق کی طر فاشارہ کیا گیا ہے چونکہ اسم اعظم اسم الٰہی کا اشرف مصداق ہے اس لئے لامحالہ اسم اعظم مفہوم اسم کے مصداق بننے کا سب سے زیادہ استحقاق رکھتا ہو گا اوراسی سے اس روایت کا معنی بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بسم اللہ اسم اعظم کے اس سے بھی زیادہ نزدیک ہے جتنی آنکھکی سفیدی آنکھ کی سیاہی کے نزدیک ہے کیونکہ بسم اللہ اور اسم اعظم کے درمیان قرب ذاتی ہے اس لئے کہ مفہوم اور مصداق خارج میں ایک ہوا کرتے ہیں اور سفیدی چشم کاقرب سیاہی چشم کیلئے مکانی اور ان دونوں میں اتحاد وضعی ہے۔

ضمیمہ (۱۳) ص ۴۳۶

آغاز آفرنیش

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خدا نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق فرمایا(۲)

محمد بن مسلم سنان کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں امام جواد (علیہ السلام) کی خدمت میں بیٹھا تھا ، آپ (ع) نے فرمایا:

''اے محمد ! خدا ہمیشہ اپنی وحدانیت میں منفرد اور یگانہ رہا ہے اس کے بعد خداوند عالم نے محمد ، علی اور فاطمہ (علیہم السلام) کو خلق فرمایا اس کے بعد یہ حضرات ہزار برس عالم نور میں رہے(۳)

____________________

(۱) وہ ذات جو تمام صفات کمال کی جامع ہو (مترجم)

(۲) البحار ، باب حقیقتہ العقل و کیفیتہ و بدء خلقہ ، ج ۱ ، ص ۳۳

(۳) اصول کافی ، باب تاریخ مولد النبی (ص) ، ص ۲۳۹ ، الوافی باب بداخلق المعصومین ، ج ۲ ، ص ۱۵۵

۶۵۴

ضمیمہ (۱۴) ص ۴۴۶

بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

بیہقی نے اپنی سند سے ام سلمہ سے روایت کی ہے:

''رسول خدا (ص) نے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھا اور اسے جزء قرآن قرار دیا،،

یہ روایت حاکم نے مستدرک کی ج ۱ ص ۲۳۲ پر بیان کی ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت مسلم اور بخاری کی شرائط پر پوری اترتی ہے اور صحیح ہے نیز عبد خیر سے روایت ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام سے پوچھا گیا سبع مثانی کون سا سورہ ہے ، آپ (ص) نے فرمایا : سورۃ الحمد۔

راوی نے پوچھا: الحمد کی آیات توچھ ہیں آپ (ع) نے فرمایا : بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی سورہ الحمد کا جزء ہے اس روایت کو ابوہریرہ نے بھی بیان کیا ہے۔

رسول خدا (ص) سے ابوہریرہ روایت نقل کرتا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

''سورۃ الحمد سات آیات پر مشتمل ہے ان میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی شامل ہے،،

ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورہ فاتحہ کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے فرماتے تھے یہ روایت ترمذی نے ج ۲ ، ص ۴۴ پر نقل کی ہے۔

ابن عمر سے منقول ہے کہ وہ نماز کی ابتداء تکبیرۃ الاحرام سے کرتے تھے اس کے بعد بسم اللہ الرحم الرحیم پڑھتے تھے اور جب سورۃ الحمد سے فارغ ہوتے دوبارہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے اور کہا کرتے تھے ''اگر بسم اللہ کا پڑھنا ضروری نہیں تو پھر قرآن میں اسے کیوں لکھا گیا ہے،،

۶۵۵

ان کے علاوہ بھی اس مضمون کی کئی روایات موجود ہیں سنن بیہقی ج ۲ ص ۴۳ ، ۴۷ کی طرف رجوع کریں ، کنز العمال ، ج ۲ ، ص ۱۹۰ فضائل السورہ والآیات نیز باب البسملہ آیہ ، ص ۳۷۵ میں ثعلبی نے علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جب آپ (ص) نماز میں کسی سورے کو پڑھتے تھے تو شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ترک کر دے اس نے سورہ کو ناقص پڑھا ہے نیز آپ (ص) فرماتے تھے بسم اللہ الرحمن الرحیم سبع مثانی کا حصہ ہے۔

ضمیمہ (۱۵) ص ۴۴۶

معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

بیہقی نے ج ۲ ، ص ۴۹ پر اپنی سند سے انس بن مالک سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ معاویہ نے مدینہ میں نماز پڑھی اس نے نماز میں سورہ فاتحہ بلند آواز میں پڑھا البتہ اس نے سورہ حمد سے پہلے تو بسم اللہ کو پڑھا مگر حمد کے بعد پڑھے جانے والے سورہ سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ اس کی قرات مکمل ہو گئی ، اس کے بعد تکبیر بھی نہیں پڑھی اور رکوع میں چلا گیا اور اس طرح اپنی نماز مکمل کی جب معاویہ سلام پھیر چکا تو نماز میں موجود مہاجرین ہر طرف سے بول اٹھے معاویہ ! تم نے نماز میں چوری کر لی یا بھول گئے ہو ؟ اس واقعہ کے بعد جب بھی معاویہ نماز پڑھتا تو سورہ الحمد کے بعد والے سورہ سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھتااور سجدے میں جانے سے قبل تکبیر بھی پڑھتا تھا،،۔

۶۵۶

اسی روایت کو بیہقی نے ایک اور سند سے بھی بیان کیا ہے البتہ اس روایت کا مضمون یہ ہے کہ معاویہ نے سورۃ الحمد سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اور اس کے بعد دوسرے سورے سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اس کے علاوہ اس روایت میں اعتراض کرنے والوں میں مہاجرین کے علاوہ انصار کابھی ذکر ہے اس روایت کو حاکم نے مستدرک کی جلد۱ ص ۲۳۳ میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے اور مسلم کی شرائط پر پوری اترتی ہے۔

ضمیمہ (۱۶) ص ۴۴۶

رسول (ص) خدا کا بسم اللہ کو پڑھنا اور روایت انس کی توجیہ

قرات بسم اللہ کی ایک روایت اسی کتاب کے ص پر گزر چکی ہے قتادہ نے انس سے روایت کی ہے ''رسول خدا (ص) سورہ حمد کی تلاوت مد کیساتھ کرتے تھے اس کے بعد انس نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کی اور بسم اللہ ، الرحمن اور الرحیم کو مد کے ساتھ پڑھا ،،(۱)

شریک بن انس کی روایت ہے:

''میں نے رسول خدا (ص) کو بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے سنا،،

____________________

(۱) سنن بیہقی ، باب افتتاح القراء ۃ فی الصلوٰۃ : ببسم اللہ الرحمن الرحیم ، ج ۲ ، ص ۴۶ ۔ مستدرک حدیث الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۲۳۳

۶۵۷

حاکم کہتے ہیں : اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

عسقلانی کی روایت ہے:

''میں نے بہت دفعہ معتمربن سلیمان کی اقتداء میں نماز صبح اور نماز مغرب پڑھی معتمر سورہ فاتحہ سے پہلے اور اس کے بعد بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے تھے ۔ میں (عسقلانی) نے معتمر کو یہ کہتے سنا ہے : میں نماز میں ہمیشہ اپنے والد کی اقدا کرتا ہوں اور میرے والد کہتے تھے : میں نماز میں ہمیشہ انس بن مالک کی اقتدا کرتا ہوں اورانس کہتے تھے : میں نماز میں رسول خدا (ص) کی اقدا کرتا ہوں،،

(یہ سب نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ الرحمنالرحیم پڑھتے تھے)

حاکم کہتے ہیں اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں(۱)

ابو نعامہ انس سے روایت کرتے ہیں:

''رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے ،،(۲)

مولف : ممکن ہے انس کی گزشتہ روایت (جس سے بسم اللہ کے جزء قرآن نہ ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے) سے مراد یہ ہو کہ رسول خدا (ص) اور آپ کے بعد دوسرے خلفاء نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ (ص) نے بسم اللہ کو سرے سے نہیں پڑھا) اس مطلب کا قرینہ اور شاہد انس کی مذکورہ بالا روایت ہے (جس میں اس امر کی تصریح ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا) اس مطلب کی تائید گزشتہ روایت میں انس کی اس تعبیر سے بھی ہوتی ہے کہ ''میں نے قرات نہیں سنی،، بلکہ انس کی بعض روایات میں تو یہ جملہ موجود ہے کہ ''میں نے ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھتے نہیں سنا،، بعض روایات میں یہ جملہ موجود ہے۔

____________________

(۱) مستدرک ، ج ۱ ، ص ۲۳۳ ۔۲۳۴

(۲) سنن بیہقی ، باب من قال لایجہر بہا ، ج ۲ ، ص ۵۲

۶۵۸

''رسول خدا (ص) نے ہمیں نماز پڑھائی مگر ہمیں بسم اللہ کی قراً سنائی نہیں دی(۱)

بنا برایں انس کی گزشتہ روایت اور ان روایات کے درمیان کوئی منافات نہیں پائی جاتی جن کے مطابق رسول خدا (ص) کے بعد دوسرے اصحاب بسم اللہ پڑھتے تھے۔

ہاں ! ایک روایت یہ کہتی ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر قرات کے اول اور آخر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے(۲)

لیکن اس روایت کے راویوں میں ولید بن مسلم قرشی شامل ہے جس کا ثقہ ہونا مخدوش ہے بلکہ بہت سوں نے تو تصریح کی ہے کہ یہ شخص بہت زیادہ خطا کاراور جعلساز تھا(۳)

جہاں تک قتادہ کی اس روایت کا تعلق ہے جو انس سے مروی ہے جس کے مطابق رسول خدا (ص) ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان قرات کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے(۴)

تقریباً اسی روایت کی ہم مضمون وہ روایت ہے جس کو نسائی نے باب البداء بفاتحتہ الکتاب ، ج ۱ ، ص ۱۴۳ میں ذکر کیا ہے قتادہ کس اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے بعد دوسرے خلفاء ، سورہ فاتحہ سے ابتداء کرتے تھے (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ یہ حضرات سورہ فاتحہ کی ابتداء آیتہ الحمد للہ سے کرتے تھے ) اور سورۃ فاتحتہ التکاب پر الحمدللہ رب العالمین کا اطلاق ہوتا رہتا ہے چنانچہ بعض گزشتہ روایات میں بھی سورہ فاتحہ کو الحمدللہ رب العالمین کہا گیا ہے۔

شافعی نے بھی اس روایت کو اسی معنی پر محمول کیا ہے۔

____________________

(۱) ایضاً باب ترک الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۴۴

(۲) صحیح مسلم ، باب حجتہ من قال لایجہربابسملہ ، ج ۲ ، ص ۱۲

(۳) تہذیب التہذیب ملا خطہ فرمائیں۔

(۴) ترمذی باب ماجاء فی افتتاح القرات بالحمد ، ج ۲ ، ص ۴۵ ۔ سنن ابی داؤد ، باب الجہر بسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۲۵

۶۵۹

ضمیمہ (۱۷) ص ۴۷۵

ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

اس موضوع کی روایات اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں ذکر کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی البتہ ہم صرف احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ ہی کی وہ روایت ذکر کرتے ہیں کہ جو اس کی کتاب ''المنتقی ٰ من اخبار المصطفی،، میں مذکور ہے اس کے علاوہ بعض دوسرے حضرات کی روایات کو بھی ذکر کریں گے۔

۱۔ بریدہ سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''میں (ص) نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن مجھے اپنی والدہ گرامی کی زیارت کی اجازت دی گئی ہے تم بھی اس کی زیارت کیا کروں کیونکہ اس سے آخرت کی یاد دہانی ہوتی ہے،،۔

بریدہ کہتے ہیں ، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

۲۔ ابوہریرہ سے مروی ہے :

''رسول اسلام (ص) نے اپنی والدہ گرامی کی قبر کی زیارت کی ۔ آپ (ص) خود بھی روئے اور ارد گرد موجود افراد کو بھی رلا دیا ۔ پھر فرمایا : میں (ص) نے خدا سےاپنی والدہ کیلئے طلب مغفرت کی اجازت مانگی مگر خدا نے اجازت نہ دی پھر میں نے اس کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی جو خدا نے دے دی پس تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو اس لئے کہ زیارت قبور موت کی یاد دلاتی ہے،،۔

ابوہریرہ کہتے ہیں اس روایت کو علماء کی کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔

۶۶۰

۳۔ عبداللہ بن ابی ملیکہ سے مروی ہے:

''ایک مرتبہ حضرت عائشہ قبرستان کی طرف سے آئیں میں نے سے پوچھا: ام المومنین آپ کہاں سے آ رہی ہیں ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : اپنے بھائی عبدالرحمن کی قبر سے آ رہی ہوں میں نے کہا : کیا رسول خدا (ص) نے زیارت قبور سے منع نہیں فرمایا تھا ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : ہاں ! آنحضرت (ص) نے پہلے منع فرمایا تھا پھر آپ (ص) نے زیارت قبور کا امر فرمایا تھا،،

عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں اس روایت کو اثرم نے بھی اپنے سنن میں ذکر کیا ہے۔

مولف: شیخ محمد حامد فقی اپنے حاشیہ کتاب پر لکھتے ہیں : اس روایت کو ابن ماجہ ، حاکم اور بغوی نے شرح السنتہ میں بھی ذکر کیا ہے۔

۴۔ ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) قبرستان میں تشریف لائے اور فرمایا:

'دصاحبان ایمان کو ہمارا اسلام ہو ، انشاء اللہ ہم بھی تم سے آ ملیں گے،،

ابوہریرہ کہتے ہیں : اس روایت کو احمد مسلم اور نسائی نے بھی ذکر کیا ہے احمد نے عائشہ سے بھی یہ روایت نقل کی ہے البتہ اس میں اس جملے کا اضافہ ہے : ''خدا یا ہمیں ان مرحومین کے اجرسے محروم نہ فرما اور ہمیں ان کے بعد آزمائش میں نہ ڈال،،

۵۔ بریدہ سے مروی ہے:

''رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کویہ تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان کی طرف جائیں تو یہ کہا کریں :''السلام علیکم اهل الدیارمن المومنین و اسلمین و انا ان شآء الله بکم لاحقون ، نسال الله لنا ولکم العافیة،، ۔

''ان گھروں میں بسنے والے مومنو اور مسلمانو! ہمارا تم پر سلام ہو ، انشاء اللہ ہم تم سے آ ملیں گے ہم تمہارے لئے اور اپنے لئے خداسے عافیت کے طلب گار ہیں،،۔

ابن تیمیہ کہتے ہیں اس روایت کو احمد ،مسلم اور ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے(۱)

____________________

(۱) المنتقی ٰ ، ج ۲ ، ص ۱۱۶

۶۶۱

۶۔ ابن عمر رسول خدا (ص) سے روایت کرتے ہیں:

''من حج فزار قبری بعد وفاقی کان کمن زارنی فی حیاتی،،

''جو آدمی حج بیت اللہ سے مشرف ہو اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کرے گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی،،

اس روایت کو طبرانی نے اوسط میں اور بیہقی نے سنن میں نقل کیا ہے۔

۷۔ نیز رسول خدا (ص) سے مروی ہے:

''جو شخص میری قبر کی زیارت کرے اس کی شفاعت میرے اوپر واجب ہو جاتی ہے،،

اس روایت کو ابن عدی نے کامل میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

۸۔ انس نے رسول خدا (ص) سے روایت کی ہے۔

''جو شخص (میری معرفت رکھتے ہوئے) مدینہ میں میری زیارت کرے ، روز قیامت میں اس کے اعمال کا گواہ ہونگا یا اس کی شفاعت کروں گا ،،(۱)

۹۔ ابوہریرہ رسول خدا (ص) سے روایت کرتے ہیں:

''جو آدمی اپنے کسی دوست کی قبر کی زیارت کرے اور اسے سلام کر کے اس کے پاس بیٹھ جائے تو (مرحوم) دوست سلام کا جواب دیتا ہے اور جب تک زیارت کرنے والا شخص اس کی قبر پر بیٹھا رہے مرحوم مانوس رہتا ہے ،،(۲)

____________________

(۱) بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کی ہے ، کنز العمال ، فضل زیارت القبور ، ج ۸ ، ص ۹۹

(۲) اس روایت کو ابو الشیخ اور دیلمی نے نقل کیا ہے۔

۶۶۲

۱۰۔ ''جو شخص بھی کسی جاننے والے کی قبر کی زیارت کرے اور اسے سلام کرے مرنے والا اسے پہچان لیتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے،،۔

اس روایت کو تمام ، خطیب ، ابن عساکر اور ابن بخار نے نقل کیا ہے صاحب کنز العمال کہتے ہیں ، اس روایت کی سند عمدہ ہے کنز العمال ، ج ۸ ، ص ۹۹ اور ص ۱۲۵ میں اور اس کے بعد اس میں اس مضمون کی تقریباً اسی روایات نقل کی ہیں ، جو حضرات ان روایات سے آگاہ ہوناچاہئے وہ ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۱۱۔ ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''جو شخص بھی مجھے سلام کرے خداوند میری روح کو میری طرف لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں،،(۱)

۱۲۔ ابن عمر حجرا سود کو چھونے اور اس کو چومنے کے بارے میں کہتے ہیں:

''رسول خدا (ص) حجرا سود کو مس کرتے اور بوسہ دیتے تھے سائل نے ابن عمر سے پوچھا: کیا آپ یہ احتمال نہیں دیتے کہ لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے ہم زحمت میں مبتلا ہو جائیں گے ؟ اور بے بس ہو جائیں گے ۔ ابن عمر نے جواب دیا: اس قسم کے احتمالات اور شاید والی باتوں کو ترک کریں میں نے خود رسول اکرم (ص) کو دیکھا ہے کہ آپ (ص) حجرا سود کو سینے سے لگاتے اور اس کو بوسہ دیتے تھے،،

____________________

(۱) سنن بیہقی باب زیارت قبر النبی(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ، ج ۵ ، ص ۲۴۵۔

۶۶۳

اس روایت کوبخاری نے اپنی صحیح میں مسدد سے نقل کیا ہے۔

۱۳۔ ابن عباس کی روایت ہے :

میں نے رسول اکرم (ص) کو دیکھا کہ حجرا سود پر سجدہ کیا کرتے تھے،،(۱)

۱۶۔ داؤد ابن ابی صالح کی روایت ہے

''ایک مرتبہ مروان آیا اور اس نے ایک آدمی کو اپنا چہرہ قبر پر رکھے ہوئے دیکھا چنانچہ مروان نے اس کو گردن سے پکڑا اور کہا تمہیں معلوم ہے کہ اس وقت تم کیا کر رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ، مروان نے آگے بڑھ کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ ابو ایوب انصاری ؓ ہیں ۔ ابو ایوب نے مروان سے کہا: میں رسول خدا (ص) کی خدمت میں شرفیاب ہوا ہوں نہ کہ حجرا سود کے پاس آیا ہوں۔ میں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : تم اس وقت دین پر گریہ نہ کرو جب زمام حکومت اس کے اہل کے ہاتھ میں ہو بلکہ اس وقت دین پر گریہ کرو جب دینی حکومت نااہلوں کے ہاتھ میں چلی جائے(۲)

۱۷۔ حافظ ابن عسا کر نقل کرتے ہیں:

''جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) تشریف لائیں اور اپنے والد گرامی رسول اکرم (ص) کی قبر پر آ کر رکیں اور آپ (ص) کی قبر کی مٹی ہاتھ میں لی اور اسے آنکھوں سے لگا کر گر یہ فرمایا،،

____________________

(۱) سنن بیہقی ، باب السجود علیہ علی الحجر ، ج ۵ ، ص ۷۴۔۷۵

(۲) اس روایت کو حاکم نے مستدرک کی جلد ۴ ص ۵۱۵ میں نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ، ذہبی نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ابن تیمیہ نے حجرا سود کو بوسہ دینے اسے مس کرنے اور اس پر رخسار رکھنے کے بارے میں روایات کو منتقی ٰ کی ج ۲ ، ص ۲۶۱ ، ۲۶۳ میں نقل کیا ہے۔

۶۶۴

۱۸۔ حافظ ابن عساکر سے مروی ہے:

''ایک اعرابی رسول خدا (ص) کی قبر پر آیا اور قبر کی مٹی اپنے سر پر ڈالنے لگا اس کے بعد رسول خدا (ص) سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: یارسول اللہ (ص) آپ (ص) پر نازل ہونے والی آیات میں سے ایک آیت یہ تھی ''اگر لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے (گناہ کا مرتکب ہونے) کے بعد تیرے پاس آئیں اور آپ (ص) ان کیلئے طلب مغفرت کریں تو خدا ان کے گناہوں کو بخش دے گا،، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اور آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ (ص) میرے لئے مغفرت طلب کریں اتنے میں قبر سے آواز آئی خدا نے تیرے گناہ معاف کر دیئے یہ سارا واقعہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے سامنے پیش آیا،،۔

۱۹۔ نیز ابن عساکر سے مروی ہے:

''ایک مرتبہ جناب بلال ، رسول اللہ (ص) کی قبر پر آئے اور روتے ہوئے اپنا چہرہ خاک قبر پر رکھ دیا اتنے میں امام حسن اور امام حسینہ (علیہما السلام) تشریف لے آئے ، جناب بلال نے ان کو اپنے سینے سے لگایا اور ان کی دست بوسی کی،،(۱)

ضمیمہ (۱۸) ص ۴۷۷

آلوسی کی شیعوں پر بہتان تراشی

اسی کتاب کے ص پر مذکور تہمت (شیعہ خاک کربلا کو سجدہ کرتے ہیں) میں آلوسی نے آیہ شریفہ:

کلواواشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر کی تفسیر کے موقع پر یہ الزام لگایا ہے کہ شیعہ روزوں میں طلوع آفتاب تک کھانے پینے کو جائز سمجھتے ہیں۔

____________________

(۱) الغدیر ، ج ۵ ، ۱۲۷۔۱۲۸

۶۶۵

میں نہیں سمجھتا کہ آلوسی کے پاس اس نسبت (الزام) کی کیا دلیل ہے جب کہ وہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں مقیم تھا عراق کو شروع سے اب تک شیعوں کے مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے اور عتبات مقدسہ (زیارات ائمہ) بھی بغداد کے نزدیک ہیں اور شیعوں کے علاوہ دوسرے فرقوں کے ماننے والے وہاں کم ہیں اس کے علاوہ خود آلوسی شیعہ کتابوں سے بخوبی آشنا بھی ہے درحقیقت شیعوں کی طرف اس قسم کی نسبتوں ہی کی وجہ سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور انہیں الزام تراشیوں نے دشمنان اسلام کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا ہے اور بعید نہیں کہ اس میں خارجی ہاتھ کارفرما ہو۔

ضمیمہ (۱۹) ص ۴۷۷

مولف اور حجازی عالم میں بحث

سن ۱۳۵۳ھ میں زیارت بیت اللہ سے شرفیاب ہوا اس دوران مسجد نبوی میں میری ملاقات ایک فاضل عالم دین سے ہوئی جو سجدہ گاہ پر نماز پڑھنے والوں کی نگرانی کرتا اور ان سے (سجدہ گاہ) چھین لیتا تھا میں نے اس سے کہا:

شیخنا ! کیا رسول خدا (ص) نے مسلمان کی اجازت کے بغیر ان کے مال میں تصرف کو حرام قرار نہیں دیا ؟ اس نے جواب دیا: کیوں نہیں ! میں نے کہا: توپھر تم ان مسلمانوں سے ان کا مال کیوں چھینتے ہو جبکہ یہ شہادتیں پڑھتے ہیں ؟ اس نے کہا : یہ لوگ مشرک ہیں انہوں نے تربت (خاک کربلا) کو بت بنا رکھا ہے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں میں نے کہا : اگر اجازت ہو تو اس موضوع پر قدرے تفصیلی بحث کی جائے اس نے جواب دیا: کوئی حرج نہیں۔

چنانچہ ہم دونوں میں بحث اور مناظرہ شروع ہوا اور آخر کار اس نے اپنے اس عمل کی معذرت طلب کی اور اپنے رب سے استغفار کرنے لگا اور کہنے لگا: درحقیقت اب تک میں غلطی فہمی کا شکار رہا ہوں۔

۶۶۶

اس کے بعد اس نے مجھ سے درخواست کی کہ (دینے میں قیام کے دوران) مختلف موضوعات پر بحث ہوتی رہے میں نے بھی آمادگی ظاہر کی اور اس طرح ہر شب مسجد نبوی میں بحث و مباحثہ کی ایک محفل تشکیل پاتی تھی مدینہ میں تقریباً دس راتیں ہماراقیام رہا اس دوران مختلف مکاتب فکر کے افراد کا اجتماع ہوتا تھا اور ہم دونوں کے درمیان مختلف موضوعات پر مناظرے ہوتے تھے آخر کار اس حجازی نے ان اعتقادات اور خیالات سے بیزاری کا اظہار کیا جو وہ شیعوں کے بارے میں رکھتا تھا اوراس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ میری ان تمام بحثوں کو رسالہ ''ام القریٰ ،، میں شائع کرے گا تاکہ ان لوگوں کیلئے حق آشکار ہو جائے جو حق سے بغض و عناد نہیں رکھےت اور اشتباہ و غلط فہمی کے شکار ہیں اور یہ کہ وہ اس رسالے کا ایک نسخہ مجھے بھی بھیجے گا۔ مگر اس نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا شاید حالات نے اس کا ساتھ نہ دیا ہو اور اس کے مقصد کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ہوں۔

ضمیمہ (۲۰) ص ۴۷۷

تربت سید الشہداء کی فضیلت

ابویعلی ٰ اپنی مسند میں اور ابن ابی شیبہ اذرسعید نے منصور سے اور اس نے اپنی سنن میں مسند علی سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ میں رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ (ص) کی آنکھوںسے آنسو جاری تھے میں نے عرض کیا : یارسول اللہ (ص) کیا آپ (ص) کسی سے خفا ہو گئے ہیں آپ (ص) کے آنسو کیوں جاری ہیں ؟ آپ (ص) نے فرمایا: ابھی کچھ دیر قبل جبرئیل میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ نہر فرات پر میرا نواسہ حسین (ع) شہید کیا جائے گا اس کے بعد انہوںنے پوچھا: کیا آپ (ص) حسین (ع) کی تربت سونگھیں گے؟ میں (ص) نے کہا: ضرور سونگھوں گا چنانچہ جبرئیل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اپنے ہاتھ میں مٹی لا کر مجھے دے دی جس کے بعد میں گریہ کئے بغیر نہ رہ سکا،،

۶۶۷

طبرانی نے کبیر میں جناب ام سلمہ سے روایت کی ہے:

ایک دن رسول خدا (ص) لیٹے آرام فرما رہے تھے یکایک آپ رنجیدہ خاطر بیدار ہوئے اس وقت آپ (ص) کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی مٹی تھی جسے آپ چوم رہے تھے ام سلمہ کہتی ہیں میں نے عرض کی یارسول اللہ (ص) یہ کیسی مٹی ہے ؟ رسول خدا (ص) نے فرمایا: جبرئیل نے مجھے خبر دی کہ آپ (ص) کانواسہ سرزمین کربلا پر شہید کر دیا جائے گا میں نے کہا کہ مجھے وہ خاک دکھا دے جس پر میرا نواسہ (ع) شہید کیا جائے گا یہ وہی مٹی ہے جو جبرئیل نے لا کر دی ہے۔

اسی روایت کو ابن شیبہ نے معمولی اختلاف کے ساتھ ام سلمہ سے روایت کیا ہے ابن ماجہ ، طیالسی اور ابو نعیم نے بھی تقریباً اس مضمون کی روایت نقل کی ہے(۱)

ضمیمہ (۲۱) ص ۴۷۹

مکاشفہ کے ذریعے آیہ سجود کی تاویل

حسن بن منصور کہتے ہیں جب ابلیس سے کہاگیا کہ آدم کو سجدہ کرے تو اس نے خالق سے مخاطب ہو کر کہا:

''میرے دل سے سجدہ کی اہمیت اٹھا لے تاکہ تیرے غیر کیلئے سجدہ کر سکوں اگر تو نے آدم کیلئے سجدہ کا حکم دیا ہے تو اپنے غیر کیلئے سجدہ کرنے سے منع بھی تو فرمایا ہے۔

خالق نے فرمایا: میں تمہیں ابدی عذاب دوں گا ابلیس نے کہا : کیا تو مجھے عذاب دیتے وقت دیکھے گا نہیں ؟ خالق نے فرمایا : کیوں نہیں ابلیس نے کہا تیرا دیدار مجھے عذاب کے دیکھنے پر آمادہ کر رہا ہے تو جو چاہے مجھے عذاب دے ۔(۲)

مولف : ابن روز بہان جیسے اہل مکاشفہ کو اس قسم کا خلاف عقل و قرآن و ضرورت دین مکا شفہ مبارک ہو۔

____________________

(۱) کنز العمال ، ج ۷ ، ص ۱۰۵ ۔۱۰۶

(۲) تفسیر ابن روز بہان ، ص ۲۱ ، طبع ہند۔

۶۶۸

ضمیمہ (۲۲) ص ۴۷۹

ابلیس اور خدا کا مکالمہ

امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے آپ (ع) نے فرمایا:

ابلیس نے کہا : پالنے والے ! مجھے آدم کا سجدہ معاف کر دے میں تیری ایسی عبادت کروں گا جو نہ کسی مقرب فرشتے نے کی ہو گی اور نہ کسی نبی مرسل نے خالق نے فرمایا: مجھے تیری عبادت کی احتیاج نہیں عبادت وہ ہوتی ہے جس کو (جیسے) میں چاہوں وہ نہیں جسے تو چاہے(۱)

نیز امام صادق علیہ السلام نے ایک زندیق سے اس کے اس سوال ، ''خدا نے ملائکہ کو آدم ؑ کیلئے سجدہ کا کیسے حکم دیا ؟،، کے جواب میں فرمایا:

''جو خدا کے حکم پر سجدہ کرے گویا اس نے خدا کیلئے سجدہ کیا ہے پس آدم (ع) کیلئے سجدہ خدا کیلئے سجدہ تھا کیونکہ یہ سجدہ خدا کے حکم پر کیا گیا تھا،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر الصافی تفسیر قول خداوندی فسجدوالاابلیس ، ص ۲۶

(۲) البحار ، باب سجود الملائکہ و معناہ ، ج ۵ ، ص ۳۷

۶۶۹

ضمیمہ (۲۳) ص ۴۸۰

اسلام اور شہادتیں

سماعہ ، امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:

اسلام ، کلمہ لاالہ الا اللہ اور رسول خدا (ص) کی رسالت کی تصدیق کا نام ہے اسی سے مسلمان کا خون محفوظ ہو جاتا ہے اس سے نکاح جائز ہوتاہے اور یہ ارث کا موجب بھی بنتا ہے(۱)

ابوہریرہ نے رسول خدا (ص) سے روایت کی ہے ، آپ (ص) نے فرمایا:

''میں اس وقت تک جہاد کروں گا جب تک کفار لا الہ الا اللہ کی شہادت نہ دیں اور مجھ پر اور اس کتاب پر ایمان نہ لائیں جسے میں لے کر آیا ہوں جب لوگ ان دونوں باتوں پرایمان لے آئیں تو میری طرف سے ان کے جان و مال محفوظ ہو جاتے ہیں مگر یہ کہ اسلامی قوانین کی رو سے کسی مسلمان کا قتل اور اس کا مال ضبط کرنا جائز ہو اس کے بعد ہر شخص کے اعمال اور اس کا ثواب و عقاب خدا کے سامنے ہو گا،،

اس روایت کو جابر اور عبداللہ بن عمر نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے(۲)

صاحب تیسیرالوصول عبداللہ بن عمر کی روایت کے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں اس روایت کو مسلم اور بخاری نے بھی نقل کیا ہے(۳)

____________________

(۱) الوافی الایمان اخص من الاسلام ، ج ۳ ،ص ۱۸

(۲) صحیح مسلم باب الامرقتال الناس حتیٰ یقولوا لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ ج ۱ ، ص ۳۹

(۳) تیسیرا لوصول ج ۱ ، ص ۲۰

۶۷۰

اس روایت کو ترمذی نے ابوہریرہ سے بھی نقل کیا ہے۔

باب ماجاء امرت ان اقاتل الناس حتیٰ یقولوالا الہ الا اللہ ، ج ۱۰ ص ۶۸ ۔ اس روایت کو نسائی نے انس سے بھی نقل کیا ہے کتاب التحریم الدم ، ج ۲ ، ص ۱۶۱ ۔ باب علی مایقاتل الناس ، ص ۲۶۹۔

اس کو احمد نے اپنے مسند کے ج ۲ ، ص ۳۴۵ ، ۵۲۸ پر ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور ج ۳ ، ص ۱۹۹ ، ۲۲۴ پرانس سے نیز ج ۵ ، ص ۲۴۶ پر معاذ بن جبل سے اور ص ۴۳۳ پر اسی مضمون کی روایت کو عبیداللہ بن عدی سے روایت کیا ہے۔

صاحب تیسرا لوصول ، ج ۱ ، ص ۲۰ پر عبیداللہ کی روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: اس کو مالک نے بھی نقل کیا ہے۔

ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''مجھے اس وقت تک لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لاالہ الا اللہ نہ کہیں اور جو شخص لا اللہ الا اللہ کہے میری طرف سے اس کے جان و مال محفوظ ہو جاتے ہیں مگر یہ کہ برحق کوئی قتل کیا جائے یا اس کا مال ضبط کیا جائے باقی اعمال کا حساب کتاب خدا کے پاس ہو گا،،(۱)

اسم کو مسلم ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، ترمذی ، نسائی ، احمد اور طیالسی نے بھی روایت کی ہے۔

____________________

(۱) صحیح بخاری ، باب قتل من ابی قبول الفرائض ، ج ۸ ، ص ۵۰

۶۷۱

اوس بن اوس ثقفی کی روایت ہے:

''ہم مسجد مدینہ کے گنبد کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں رسول خدا (ص) مسجد میں داخل ہوئے پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے رسول خدا (ص) سے سرگوشی میں ایک بات کہی جسے ہم نہ سمجھ سکے البتہ آنحضرت (ص) نے اس کو جواب دیا: جاؤ !ا نہیں کہو اس کو قتل کر دیں اس کے بعد آپ (ص) نے اس شخص کو دوبارہ بلایا اور فرمایا: شاید وہ شخص کلمہ شہادتین پڑھتا ہو۔ اس شخص نے جواب دیا : جی ہاں وہ شہادتین پڑھتا ہے آپ (ص) نے فرمایا: (اگر ایسا ہے) تو جاؤ اور انہیں کہو اسے آزاد کر دیں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک وہ توحید الٰہی اور میری رسالت کی شہادت نہ دیں جب شہادتین کا اقرار کر لیں تو ان کا خون اور مال محترم ہو جاتا ہے مگریہ کہ کسی کو برحق قتل کیا جائے یا اس کا مال ضبط کیا جائے ان کے باقی اعمال کا حساب کتاب خدا کے سامنے ہو گا،،

اس روایت کو ابوداؤد طیالسی ، احمد ، دارمی اور طحاوی نے نقل کیا ہے(۱)

ضمیمہ (۲۴) ص ۴۸۲

عبادت اور اس کے عوامل

محمد بن یعقوب نے اپنی سند سے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

''بندے تین قسم کے ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو عقاب کے خوف سے عبادت کرتے ہیں یہ غلاموں کی عبادت ہے ، اور کچھ لوگ وہ ہیں جو ثواب کے لالچ میں عبادت کرتے ہیں ، یہ مزدوروں کی عبادت ہے ، کچھ لوگ وہ ہیں جو محض حب خدا کی خاطر عبادت کرتے ہیں یہ آزاد انسانوں کی عیادت ہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے،، شیخ صدوق نے اپنی سند سے امام صادق علیہ السلام سے تقریباً اسی مضمون کی روایت نقل کی ہے۔

____________________

(۱) کنز العمال فی حکم الاسلام ، طبعتہ دائرۃ المعارف العثمانیہ ، ج ۱ ، ص ۳۷۵

۶۷۲

امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

''ایک قوم ایسی ہے جو ثواب کے شوق و رغبت میں عبادت کرتی ہے یہ تاجروں کی عبادت ہے اور ایک قسم وہ ہے جو دوزخ کے خوف سے عبادت کرتی ہے ، یہ غلاموں کی عبادت ہے اور تیسری قوم وہ ہے جو شکر خدا کی خاطر عبادت کرتی ہے خدا کے آزاد بندوں کی عبادت یہی ہے(۱)

ضمیمہ (۲۵) ص ۴۸۴

الامربین الامرین : لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں

حسن بن علی الوشاء نے امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے راوی کہتا ہے:

''میں نے امام علیہ السلام سے پوچھا: کیا خدا نے ہر کام کو بندے کے سپرد کر دیا ہے آپ (ع) نے فرمایا: خدا کی ذات سے بالاتر ہے میں نے کہا: کیا خدا بندوں کو معصیت پر مجبور کرتا ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا : یہ عدل الٰہی کے منافی ہے راوی کہتا ہے : اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا فرماتا ہے: اے فرزند آدم تیری نیکیوں میں ، تیری نسبت میرا حصہ زیادہ ہے اور تیری برائیوں میں تیرا حصہ زیادہ ہے تو نے اسی قوت کے ذریعے برائی کو انجام دیا ہے جو میں نے تجھے دی ہے ،،(۲)

____________________

(۱) الوسائل ، مقدمنہ العبادات ، باب مایجوز قصدہ من غایات النیتہ ح ، ص ۱۰

(۲) الوافی باب الخیر و القدر ، ج ۱ ، ص ۱۱۹ :

۶۷۳

ضمیمہ (۲۶) ص ۴۸۷

شفاعت کے مدارک

ایک روایت میں ہے:

''ہر نبی کی کوئی نہ کوئی دعا ہوا کرتی ہے ۔ انشاء اللہ میرا ارادہ یہ ہے کہ میں اپنی دعا کو راز میں رکھوں گا اور روز محشر اپنی امت کی شفاعت کی دعا کروں گا،،

یہ روایت مندرجہ ذیل مدارک میں موجود ہے:

صحیح بخاری کتاب الدعوات ، باب ۱ ، ج ۷ ، ص ۱۴۵۔

صحیح مسلم باب اختباء النبی(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) دعوۃ الشفاعتہ لامتہ ، ج ۱ ، ص ۱۳۰۔۱۳۱ انس اور جابر سے بھی مروی ہے: مالک نے موطا میں ابوہریرہ سے نقل کیا ہے باب ماجاء فی الدعاء ، ج ۱ ص ۱۶۶ طبعتہ مصطفےٰ محمد المشروحہ

ابن ماجہ نے اپنے سنن میں بھی نقل کیا ہے ، باب ذکر الشفاعۃ ، ج ۲ ، ۳۰۱ طبعتہ مطیعۃ العلمینہ مصر۔ احمد نے اپنی سند میں ابوہریرہ سے نقل کیا ہے ، ج ۲ ، ص ۲۷۵ ، ۳۱۳ ، ۳۸۱ ، ۳۹۶ ، ۴۰۹ ، ۴۲۶ ، ۴۳۰ ، ۴۸۶ ، ابوسعید خدری سے بھی منقول ہے ، ج ۳ ، ص ۲ ، انس سے بھی مروی ہے ، ج ۳ ، ص ۱۳۴ ، ۲۰۸ ، ۲۱۸ ، ۲۰۹ ، ۲۵۸ ، ۲۷۶ ، ۲۹۲ ، جابر سے بھی منقول ہے ، ج ۳ ، ص ۳۸۴ ، ۳۹۶ ، ابوذر سے بھی منقول ہے ، ج ۵ ، ص ۱۴۸

خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کتاب کی اشاعت کی نعمت سے نوازا ہمیں امید ہے کہ اس کتاب سے مسلمان اور غیر مسلمان مستفیض ہوں گے اور یہ قرآن اور اس کے اسرار و رموز کو سمجھنے کا باعث بنے گی اللہ تعالیٰ سے اس تفسیر کی تکمیل کی دعا کرتے ہیں جو ہماری آخری آرزو ہے۔

واللہ ولی التوفیق مولف

تمام شد

تصحیح کتاب شریف البیان تاریخ ۹۰ئ/۱/۳۰ ، ۱۴۱۰/۷/۲ ھ : نثار حیدر نقوی نورپور شاہاں اسلام آباد

۶۷۴

فہرست

عرض مترجم ۳

مقدمہ ۶

البیان فی تفسیر القرآن ۶

قرآنی مکتب ۷

فضائل قرآن ۱۵

تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب ۱۶

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب ۲۹

گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکورہ ہیں ۳۳

قرآن میں غور و خوض اور اس کی تفسیر ۳۶

اعجاز قرآن ۳۹

اعجاز کے معنی ۴۰

نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال ۴۱

نبوّت اور اعجاز ۴۳

معجزہ اور عصری تقاضے ۴۸

قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ ۵۲

ایک اعتراض اور اسکا جواب ۵۳

قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ ۵۶

قرآن اور معارف ۶۰

آیات میں ہم آہنگی ۷۶

قرآن اور نظام قانون ۸۲

۶۷۵

قرآن کے معانی میں پختگی ۹۴

قرآن کی غیب گوئی ۹۵

قرآن اور اسرار خلقت ۹۹

اعجازِ قُرآن اور اوہام ۱۰۸

پہلا اعتراض ۱۰۹

جواب: ۱۰۹

دوسرا اعتراض ۱۱۱

جواب: ۱۱۱

تیسرا اعتراض ۱۱۲

جواب: ۱۱۲

چوتھا اعتراض ۱۱۴

جواب: ۱۱۴

پانچواں اعتراض ۱۱۴

جواب: ۱۱۵

چھٹا اعتراض ۱۲۱

جواب: ۱۲۱

ساتواں اعتراض ۱۲۱

جواب: ۱۲۲

آٹھواں اعتراض ۱۲۴

جواب: ۱۲۵

نواں اعتراض ۱۲۶

۶۷۶

جواب: ۱۲۶

قرآن کا مقابلہ ۱۲۸

رسُول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کےدیگر معجزات ۱۳۷

تورات و انجیل میں نبوت محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بشارت ۱۳۷

جواب: ۱۵۰

جواب: ۱۵۴

جواب: ۱۵۷

تورات و انجیل میں نبوّت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بشارت ۱۶۱

قاریوں پر ایک نظر ۱۶۳

تمہید ۱۶۴

۱۔ عبد اللہ بن عامر دمشقی ۱۶۷

۲۔ ابن کثیر مکّی ۱۷۰

۳۔ عاصم بن بہدلہ کوفی ۱۷۲

۴۔ ابو عمرو بصری ۱۷۸

۵۔ حمزہ کوفی ۱۸۲

۶۔ نافع مدنی ۱۸۷

۷۔ کسائی کوفی ۱۹۰

۸۔ خلف بن ہشام بزار ۱۹۲

۹۔ یعقوب بن اسحاق ۱۹۳

۱۰۔ یزید بن قعقاع ۱۹۵

قراءتوں پر ایک نظر ۱۹۷

۶۷۷

تواتر قراءت کے منکرین کی تصریح ۲۰۰

تواتر قراءت کے دلائل ۲۰۶

جواب: ۲۰۶

جواب: ۲۰۷

جواب: ۲۰۸

تتمہ ۲۰۹

قراءتیں اور سات اسلوب ۲۱۰

۱۔ حجیت قراءت ۲۱۵

جواب: ۲۱۶

جواب: ۲۱۶

۲۔ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے ۲۱۹

کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟ ۲۲۱

i ۔ ان روایات کے کمزور پہلو ۲۲۹

ii ۔ روایات میں تضاد ۲۳۰

سات حروف کی تاویل و توجیہ ۲۳۲

۱۔ قریب المعنی الفاظ ۲۳۲

۲۔ سات ابواب ۲۳۸

۳۔ سات ابواب کا ایک اور معنی ۲۴۱

۴۔ فصیح لغات ۲۴۱

۵۔ قبیلہ ئ مضر کی لُغت ۲۴۳

۶۔ قراءتوں میں اختلاف ۲۴۴

۶۷۸

جواب: ۲۴۵

۷۔ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی ۲۴۶

جواب: ۲۴۷

۸۔ اکائیوں کی کثرت ۲۴۸

جواب: ۲۴۸

۹۔ سات قراءتیں ۲۴۹

جواب: ۲۴۹

۱۰۔ مختلف لہجے ۲۴۹

جواب: ۲۵۰

مسئلہ تحریف قرآن ۲۵۲

۱۔ معنی تحریف کی تعریف ۲۵۳

۲۔ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ ۲۵۶

۳۔ نسخ تلاوت ۲۵۸

تحریف، قرآن کی نظر میں ۲۶۳

تحریف اور سنت ۲۶۹

نماز میں سورتوں کی اجازت ۲۷۴

خلفاء پر تحریف کا الزام ۲۷۶

قائلین تحریف کے شبہات ۲۸۲

پہلا شبہ: ۲۸۲

جواب: ۲۸۳

دوسرا شبہ: ۲۸۵

۶۷۹

جواب: ۲۸۷

تیسرا شبہ ۲۹۰

جواب: ۲۹۰

وضاحت: ۲۹۰

روایات تحریف ۲۹۰

روایات کا حقیقی مفہوم ۲۹۴

جواب: ۲۹۹

جواب: ۲۹۹

چوتھا شبہ ۳۰۱

جمع قرآن کے بارے میں نظریات ۳۰۲

جواب ۳۰۳

جمع قرآن کی روایات ۳۰۴

۱۔ جمع قرآن کی احادیث میں تضاد ۳۱۴

٭ قرآن کو مصحف کی صورت میں کب جمع کیا گیا۔ ۳۱۴

٭ حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع قرآن کی ذمہ داری کس نے لی ؟ ۳۱۴

٭ کیا جمع قرآن کا کام زید کے سپرد کیا گیا تھا؟ ۳۱۴

٭ کیا حضرت عثمان کے زمانے تک ایسی آیات باقی تھیں جن کی تدوین نہیں کی گئی؟ ۳۱۵

٭ جمع قرآن میں حضرت عثمان کا ماخذ و مدرک کیا تھا؟ ۳۱۵

٭ حضرت ابوبکر سے جمع قرآن کا مطالبہ کس نے کیا؟ ۳۱۵

٭قرآن جمع کر کے اس کے نسخے دوسرے شہروں میں کس نے بھیجے؟ ۳۱۵

٭ دو آئتوں کو سورہ برائت کے آخر میں کب ملایا گیا؟ ۳۱۶

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689