البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313919 / ڈاؤنلوڈ: 9311
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام پر نزول وحى ۳

انسان: انسانى عمل سے آگاہى ۵،۲۱; انسان كى نيتوں سے آگاہى ۵

اہل كتاب: اہل كتاب كو دھمكى ۲۲

بيت المقدس : بيت المقدس كے قبلہ ہونے كا نسخ ۷

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كو بشارت ۶; پيامبر اسلام (ص) كى تاريخ ۱،۲; پيامبر اسلام (ص) كے رجحانات۱،۷; پيامبر اسلام(ص) كى رضايت كے عوامل ۶،۱۴; پيامبر اسلام (ص) كا دائرہ اختيارات ۱۱; نزول وحى كے وقت آنحضرت (ص) ۲; پيامبر اسلام (ص) كے درجات ۷،۸; پيامبر اسلام(ص) پر جبرائيلعليه‌السلام كا نزول ۴

روايت: ۲۴،۲۵

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب كا علم ۱۶; علمائے اہل كتاب اور حق پر پردہ ڈالنا ۱۹

عيسائي: عيسائيوں كا حق كو قبول نہ كرنا ۲۳; صدر اسلام كے عيسائي ۲۳

عيسائيت كے علماء : عيسائيت كے علماء كا علم ۱۷

قانون : قانون كے نسخ كا سرچشمہ ۱۰; قانون سازى كا سرچشمہ ۱۰

قبلہ : احكام قبلہ ۱۳،۱۵،۲۴; اہل كتاب اور تبديلى قبلہ ۲۲; تبديلى قبلہ كى بشارت ۶; تبديلى قبلہ ۱۲; انجيل ميں تبديلى قبلہ ۱۸; تورات ميں تبديلى قبلہ ۱۸; آسمانى كتابوں ميں تبديلى قبلہ ۱۸; قبلہ كى جہت ۵; تبديلى قبلہ كى حقانيت ۱۶،۱۹،۲۰; علمائے اہل كتاب اور تبديلى قبلہ ۱۶،۱۹; عيسائي علماء اور قبلہ ۱۷; يہودى علماء اور قبلہ ۱۷; تبديلى قبلہ كے اسباب ۷; تبديلى قبلہ كا فلسفہ ۲۵; مسلمانوں كا قبلہ ۱۳ ، ۱۴; پيامبر اسلام (ص) اور تبديلى قبلہ ۱; عيسائي اور تبديلى قبلہ ۲۰; قبلہ كے تعين كا سرچشمہ ۹،۱۱; يہودى اور تبديلى قبلہ ۲۰

كعبہ: كعبہ كا قبلہ ہونا ۱۸

مسجد الحرام : مسجد الحرام كاقبلہ ہونا ۱۳،۱۵; مسجد الحرام كا قبلہ قرار پانا ۱۲،۱۴،۱۷

مقربين : ۸

ملائكہ : ملائكہ وحى كے ظہور كى جگہ ۴

۵۰۱

نماز : احكام نماز ۲۴; نماز ميں قبلہ ۲۴

وحى : وحى كے ظہور كى جگہ ۳; وحى اور آسمان ۳،۴

يہود : يہودى حق كو قبول نہ كرنے والے ۲۳; صدر اسلام كے يہودى ۲۳; يہودى اور قبلہ ۲۵

يہودى علماء : علمائے يہود كا علم ۱۷

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُواْ قِبْلَتَكَ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذَاً لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ( ۱۴۵ )

اگر آپ ان اہل كتابكے پاس تمام آيتيں بھى پيش كرديں كہ يہآپ كے قبلہ كو مان ليں تو ہرگز نہ مانيں گے اور آپ بھى ان كے قبلہ كو نہ مانيں گےاور يہ آپس مين بھى ايك دوسرے كے قبلہ كونہيں مانتے اور علم كے آجانے كے بعد اگرآپ ان كے خواہشات كا اتباع كرليں گے توآپ كا شمار ظالموں ميں ہوجائے گا (۱۴۵)

۱ _ اہل كتاب كى ذمہ دارى ہے مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر قبول كريں _ما تبعوا قبلتك

۲ _ اہل كتاب ( يہود و نصارى ) كو باوجود اس كے كہ انہيں مسلمانوں كے قبلہ ( مسجد الحرام ) كى حقانيت كا اطمينان ہے اس كو قبول نہيں كريں گے_ليعلمون انه الحق و لئن اتيت الذين ما تبعوا قبلتك

۳ _ مسجد الحرام كو قبلہ حق كے طور پر قبول كرنے كے لئے كوئي دليل اور معجزہ اہل كتاب پر اثر انداز نہيں ہوسكتا_

و لئن اتيت الذين اوتوا الكتاب بكل آية ما تبعوا قبلتك

''آية'' كا معنى علامت و نشانى ہے البتہ يہاں اس سے مقصود معجزہ اور برہان ہے _

۴ _ اہل كتاب ( يہود و نصارى ) ضدى اور حق قبول نہ كرنے والے لوگ ہيں _و لئن اتيت الذين اوتوا الكتاب بكل آية ما تبعوا قبلتك '' لئن خدا كى قسم آپ اہل كتاب كو جو بھى

۵۰۲

معجزہ يا دليل پيش كريں تو وہ آپ كے قبلہ كى پيروى نہ كريں گے '' يہ جملہ اہل كتاب كى گہرى دشمنى ، ضد اور حق ناپذيرى كو بتاتاہے_

۵ _ يہود و نصارى اپنى ضد، دشمنى اور عناد كى وجہ سے كعبہ كو قبلہ كے طور پر ماننے كو تيار نہيں ہيں _و لئن اتيت الذين اوتوا الكتاب بكل آية ما تبعوا قبلتك

۶ _ تبديلى قبلہ كے بعد اللہ تعالى نے پيامبر اسلام (ص) سے چاہا كہ اہل كتاب كے قبلہ كى طرف ہرگز رخ نہ كريں اور نہ ہى اس كو اپنا قبلہ قرار ديں _و ما انت بتابع قبلتهم '' و ما انت تم ان كے قبلہ كى پيروى نہ كروگے '' يہ جملہ خبريہ ہے ليكن مقصود اس سے انشاء ہے اور حكم ہے كہ تم ان كے قبلہ كى پيروى نہ كرو_

۷_ يہو دو نصارى ميں سے ہر ايك كا مخصوص قبلہ ہے _و ما بعضهم بتابع قبلة بعض

۸_ يہود و نصارى ميں سے كوئي بھى ايك دوسرے كے قبلہ كو قبول نہ كريں گے _و ما بعضهم بتابع قبلة بعض

۹_ يہو د و نصارى كى كوشش تھى كہ پيامبر اسلام (ص) اور مومنين كو كعبہ سے منحرف كركے اپنے قبلہ كى طرف موڑيں _و ما انت بتابع قبلتهم و لئن اتبعت اهواء هم جملہ ''و لئن اتبعت انك لمن الظالمين'' ميں ''لئن''كى لام قسم، حرف تاكيد ''ان'' اور ''لمن'' ميں لام تاكيد كے ساتھ تاكيد اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ اہل كتاب نے پيامبر اسلام (ص) اور مومنين كو اپنے قبلہ كى طرف ترغيب دلانے كى مسلسل كوشش كرتے ہوئے اسكى زمين فراہم كرلى تھى _ ما قبل جملوں كے قرائن كى روشنى ميں '' اہوائہم '' كے مصاديق ميں سے ايك اہل كتاب كے قبلہ كى پيروى ہے _

۱۰_ يہود و نصارى اس كوشش ميں تھے كہ پيامبر اسلام (ص) اور مومنين كو اپنے دينى احكام و قوانين كى طرف ترغيب دلائيں _و لئن اتبعت اهواء هم

۱۱ _ يہو د و نصارى نے دين الہى كو اپنى نفسانى خواہشات پر مبنى آراء كے ساتھ گڈ مڈ كرديا تھا_و لئن اتبعت اهواء هم

'' اہواء ہم _( نفسانى خواہشات پر مبنى آراء ) سے مراد يہود و نصارى كا دين ہے كيونكہ ان كى پيامبر اسلا م(ص) اور اہل ايمان سے جنگ كى بنياد دينى عقائد و احكام تھے _ اہل كتاب كا دين الہى تھا ليكن آيہ مجيدہ ميں اسے نفسانى خواہشات سے تعبير كيا گيا ہے _ مذكورہ بالا مطلب اسى اعتبار سے ہے _

۱۲ _ نبى اكرم (ص) كے دين ( اسلام ) كى بنياد وحى اور حكم خداوندى تھا_من بعد ما جاء ك من العلم

'' علم '' سے مراد وہ احكام و فرامين ہيں جو اللہ

۵۰۳

تعالى كى طرف سے وحى كے ذريعے پيامبر اسلام (ص) پر نازل ہوئے _

۱۳ _ احكام و معارف كا انحصار وحى پر ہے اوريہ عالمانہ حقائق ہيں _من بعد ما جاء ك من العلم

''وحي'' كى جگہ ''علم'' كا لفظ لانا اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ وحى پر منحصر فرامين عالمانہ ہيں _

۱۴ _ بيت المقدس سے كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى عالمانہ حكم ہے اسكى بنياد و حى اور فرمان الہى ہے _

وما انت بتابع قبلتهم ...من بعد ما جاء ك من العلم '' العلم'' كے مورد نظر مصاديق ميں سے وحى اور تبديلى قبلہ پر مبنى فرمان الہى ہے _

۱۵ _ پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ہے كہ يہود و نصارى كى پيروى سے پرہيز كريں اور نفسانى خواہشات پر مبنى ان كى آراء كو ردّ كريں _و لئن اتبعت اهواء هم انك اذاً لمن الظالمين

۱۶ _ اللہ تعالى نے پيامبر اسلام(ص) كو متنبہ كيا كہ اگر انہوں نے يہود و نصارى كى اتباع كى تو ستمگروں ميں سے شمار ہوں گے _لئن اتبعت اهواء هم انك اذاً لمن الظالمين

۱۷ _ قوانين ا لہى كے ہوتے ہوئے نفسانى خواہشات پر مبنى آراء و قوانين كى پيروى كرنا ظلم ہے _

لئن اتبعت اهواء هم من بعد ما جاء ك من العلم انك اذاً لمن الظالمين

۱۸ _ ايسے قوانين اور معارف قابل اتباع ہيں جو نفسانى خواہشات سے پاك ہوں اور ان كى بنياد علم پر ہو_

و لئن اتبعت اهواء هم من بعد ما جائك من العلم انك اذاً لمن الظالمين

۱۹_ اگر دين اسلام كے رہبروں نے ديگر اديان كے پيروكاروں كے ساتھ دينى معاملات ميں سازباز كى تو ستم گروں كے زمرے ميں ہوں گے_و لئن اتبعت اهواء هم انك اذاً لمن الظالمين

۲۰_ آگاہى كے باوجود گناہ كا ارتكاب ظلم ہے _و لئن اتبعتت اهواء هم من بعد ما جائك من العلم انك اذاً لمن الظالمين

اسلام: اسلام كاسرچشمہ ۱۲; اسلام كا وحى ہونا ۱۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى تنبيہات ۱۶

اہل كتاب: اہل كتاب اور مسلمانوں كا قبلہ ۲،۳; اہل كتاب كى حق ناپذيرى ۴;اہل كتاب كا قبلہ ۱; اہل كتاب كى ضد ۴; اہل كتاب كى ذمہ دارى ۱

۵۰۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام(ص) اور اہل كتاب كا قبلہ ۶; پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ۶،۱۵; پيامبر اسلام (ص) كو تنبيہ ۱۶

دين : عالمانہ دين ۱۳; دين ميں ساز باز ظلم ہے ۱۹; دين كى حقانيت كے معيارات ۱۸

دينى قائدين : دينى قائدين كى ساز باز۱۹

ظالمين : ۱۶،۱۹

ظلم : ظلم كے موارد ۱۷،۲۰

علم : علم كے آثار۲۰

عيسائي: عيسائيوں كى پيروى كے آثار۱۶; عيسائيوں سے منہ پھيرنا ۱۵; عيسائيوں كى پيروى كرنا ۱۵; عيسائيوں كى تحريف كا عمل ۱۱; عيسائيوں كى كوشش ۹; عيسائيوں كا حق قبول نہ كرنا ۴; عيسائيوں كى دشمنى ۵; عيسائيوں كا قبلہ ۷; عيسائيوں كى ضد ۴،۵;عيسائي اور مسلمانوں كا قبلہ ۲،۵،۹; عيسائي اور يہوديوں كا قبلہ ۸; عيسائي اور مومنين ۱۰; عيسائي اور پيامبر اسلام (ص) ۹،۱۰; عيسائيوں كى نفس پرستى ۱۱،۱۵

عيسائيت: عيسائيت ميں تحريف ۱۱; عيسائيت كى پيروى ۱۰

قانون: غير دينى قوانين كى اتباع ۱۷; عالمانہ قوانين ۱۸; لازم الاتباع قوانين كے معيارات۱۸

قبلہ: تبديلى قبلہ ۶; تبديلى قبلہ كا عالمانہ ہونا ۱۴; تبديلى قبلہ كا سرچشمہ ۱۴; تبديلى قبلہ كا وحى ہونا ۱۴

قرآن كريم : قرآن كريم كى پيشين گوئي ۸

كعبہ : كعبہ كا قبلہ ہونا ۵

گناہ : آگاہانہ گناہ ۲۰; گناہ ظلم ہے ۲۰

مسجد الحرام : مسجد الحرام كے قبلہ ہونے كى حقانيت ۲،۳; مسجد الحرام كا قبلہ ہونا ۱

نفس پرستى : نفس پرستى سے اجتناب ۱۸

وحي: وحى كى اہميت ۱۳، ۱۴

يہود : يہوديوں كى پيروى كے آ ثار ۱۶; يہوديوں سے

۵۰۵

منہ موڑنا ۱۵; يہوديوں كى پيروى ۱۵; يہوديوں كى تحريف كا عمل ۱۱; يہوديوں كى كوشش ۹; يہوديوں كا حق قبول نہ كرنا ۴; يہوديوں كى دشمنى ۵; يہوديوں كا قبلہ ۷; يہوديوں كى ضد ۴،۵; يہوديوں كى نفس پرستى ۱۱،۱۵; يہود اور مسلمانوں كا قبلہ ۲،۵،۹; يہود اور عيسائيوں كا قبلہ ۸; يہود اور مومنين۱۰; يہود اور پيامبراسلام (ص) ۹،۱۰

يہوديت: يہوديت ميں حق و باطل كا گڈ مڈ ہونا۱۱; يہوديت كى پيروى ۱۰

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءهُمْ وَإِنَّ فَرِيقاً مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ( ۱۴۶ )

جن لوگوں كو ہم نے كتاب دى ہے وہ رسول كوبھى اپنى اولادہى كى طرح پہنچانتے ہيں _بس ان كا ايك گروہ ہے جو حق كو ديدہ وراستہ چھپا رہا ہے (۱۴۶)

۱_ اہل كتاب كو پيامبر اسلام (ص) كى نبوت پر اس طرح اطمينان تھا جيسے انہيں اپنے بيٹوں كے فرزند ہونے كا اطمينان تھا_الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم ظاہر مطلب يہ ہے كہ ''يعرفونہ'' كى مفعولى ضمير پيامبر اسلام (ص) كى طرف لوٹتى ہے اگر چہ يہ احتمال بھى ہے كہ يہ ضمير تبديلى قبلہ كى طرف لوٹتى ہو ليكن چونكہ '' مشبہ بہ '' بيٹے ہيں لہذا يہ احتمال درست معلوم نہيں ہوتا كيونكہ قبلہ كى شناخت كا بيٹوں كى شناخت سے كوئي تناسب و ربط نہيں بنتا_

۲_ تورات و انجيل ميں آنحضرت (ص) كى بعثت كى خوشخبرى اور آپ (ص) كى صفات بہت ہى واضح انداز ميں بيان تھيں _الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم يہ بيان كرنے كے بعد كہ يہود و نصارى اہل كتاب ہيں اس حقيقت كو بيان كرنا كہ وہ لوگ آنحضرت (ص) كى حقانيت سے بخوبى آگاہ تھے اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ان كى اس شناخت كا سرچشمہ انكى آسمانى كتاب (تورات و انجيل ) تھي_

۳ _ پيامبر موعود كى خصوصيات كى پيامبر اسلام (ص) پر تطبيق و مطابقت ميں اہل كتاب كو ہرگز شك و ترديد نہ تھا_

الذين آتناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم

۴ _ بعض اہل كتاب حقيقت ( آنحضرت (ص) كى نبوت) كى شناخت كے باوجود اس كو چھپاتے تھے_و ان فريقامنهم ليكتمون الحق و هم يعلمون

۵ _ پيامبر موعود كى خصوصيات كى پيامبر اسلام (ص) پر مطابقت كا بعض اہل كتاب اعتراف كرتے اور اس كو چھپاتے نہ تھے_و ان فريقا منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون يہ مطلب اس جملہ ''ان فريقا ...'' كے مفہوم سے ماخوذ ہے_

۵۰۶

۶_ قبلہ كى بيت المقدس سے كعبہ كى طرف تبديلى اور اسكى حقانيت كا بيان تورات و انجيل ميں تھا_*

الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' يعرفونہ'' كى ضمير تبديلى قبلہ كى طرف لوٹتى ہو_

۷_ تبديلى قبلہ كى حقانيت ميں اہل كتاب كو كوئي شك و ترديد نہ تھا*الذين آتيناهم الكتاب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم

۸_ بعض علمائے اہل كتاب كو باوجود اس كے كہ مسلمانوں كے قبلہ كى حقانيت كا اطمينان تھا پھر بھى اسكو چھپاتے تھے _و ان فريقا منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون يہ جملہ ''و ہم يعلمون'' اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ پردہ ڈالنے والے اہل كتاب كے علمائے دين تھے_

۹_ دينى مسائل پر پردہ ڈالنے والے اگر خصوصاً علماء ہوں تو سرزنش و ملامت كے سزاوار ہيں _و ان فريقاً منهم ليكتمون الحق و هم يعلمون اس جملہ '' و ان فريقا ...'' كے لب و لہجہ ميں ان لوگوں كے لئے سرزنش و ملامت ہے جو حقيقت كو درك كرنے كے باوجود اسكا انكار كرتے ہيں _

۱۰_ دينى حقائق پر پردہ ڈالنے سے اجتناب ضرورى ہے_و ان فريقا منهم ليكتمون الحق وهم يعلمون

۱۱ _ اديان كے علماء كے ليئے حقائق پر پردہ ڈالنے كے گناہ ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجود ہے_و ان فريقا منهم ليكتمون الحق وهم يعلمون

۲ ۱_ امام صادق سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے فرمايا:هذه الآية نزلت فى اليهود و النصارى يقول الله تبارك و تعالى ''الذين آتيناهم الكتاب'' يعنى التوراة والانجيل (يعرفونه) يعنى رسول الله كما يعرفون ابناء هم لان الله عزوجل قد انزل عليهم فى التوراة والزبور والانجيل صفة محمد(ص) و صفتة اصحابه و مبعثه و هجرته ...; (۱)

'' يہ آيت يہود و نصارى كے بارے ميں نازل ہوئي يہ وہى لوگ تھے جن كو تورات و انجيل عطا كى گئي اور و ہ رسو ل اللہ كى بھى اپنے فرزندوں كي

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ص ۳۳ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۸ ح ۴۲۲_

۵۰۷

طرح شناخت ركھتے تھے كيونكہ اللہ تعالى نے تورات اور زبور ميں آنحضرت (ص) كى صفات، آپ (ص) كے اصحاب كى صفات ، آپ (ص) كى بعثت ، آپ (ص) كى ہجرت كا (ذكر) نازل فرمايا تھا ...''

انجيل : انجيل كى بشارتيں ۲; انجيل كى تعليمات۲

اہل كتاب: اہل كتاب اور پيامبر موعود ۳،۵; اہل كتاب اور مسلمانوں كا قبلہ ۸; اہل كتاب او ر حق كا چھپانا ۴،۸; اہل كتاب اور پيامبر اسلام (ص) ۳،۴،۵; اہل كتاب اور پيامبر اسلام (ص) كى نبوت ۱

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى تاريخ ۵; پيامبر اسلام (ص) انجيل ميں ۲،۱۲; پيامبر اسلام (ص) تورات ميں ۲،۱۲; پيامبر اسلام (ص) آسمانى كتابوں ميں ۳

تورات: تورات كى بشارتيں ۲; تورات كى تعليمات ۲

حق : حق پر پردہ ڈالنے سے اجتناب ۱۰; حق چھپانے كا گناہ ۱۱

دين: دين چھپانے سے اجتناب ۱۰; دين پر پردہ ڈالنے كى سرزنش ۹

روايت: ۱۲

سرزنش: سرزنش كے عوامل ۹

علماء : علمائے دين اور حق كا چھپانا ۹،۱۱; علمائے دين كو تنبيہ ۱۱

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب اور حق كا چھپانا ۸

عيسائي : عيسائيوں كى پيامبر اسلام (ص) سے آگاہى ۱۲

قبلہ : اہل كتاب اور تبديلى قبلہ ۷; انجيل ميں تبديلى قبلہ ۶; تورات ميں تبديلى قبلہ ۶; تبديلى قبلہ كى حقانيت ۶،۷; مسلمانوں كے قبلہ كى حقانيت ۸

قرآن كريم : قرآنى تشبيہات۱

كعبہ : كعبہ كا قبلہ بننا ۶

يہودي: يہوديوں كى پيامبر اسلام (ص) سے آگاہى ۱۲

۵۰۸

اَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ( ۱۴۷ )

اے رسول يہ حقآپ كے پروردگار كى طرف سے ہے لہذا آپ انشك و شبہ كرنے والوں ميں نہ ہوجائيں (۱۴۷)

۱ _ احكام اور معارف حق ہيں جو من جانب اللہ ہيں _الحق من ربك '' الحق'' ميں '' ال '' جنسيہ ہے جو استغراق كا مفہوم دے رہاہے يعنى جو كچھ حق ہے وہ اللہ تعالى كى جانب سے ہے_ البتہ مورد كى مناسبت كے اعتبار سے اصل مقصود احكام و معارف ہيں _

۲ _ بشرى قوانين كبھى بھى خالص '' حق'' نہيں رہے بلكہ ان ميں باطل امور كى آميزش رہى ہے _الحق من ربك

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' الحق'' ميں '' ال'' زيد الرجل كى طرح افراد كى خصوصيات كے استغراق كے لئے ہے_ يعنى جس چيز كى بھى تمام تر خصوصيات حق ہوں اور كسى بھى باطل شے سے نہيں مل سكتى اور وہ اللہ تعالى كى جانب سے ہے_

۳_ قبلہ كى بيت المقدس سے كعبہ كى طرف تبديلى حق ہے اور ہر طرح كے باطل و ناروا امر سے پاك ہے_الحق من ربك ماقبل آيات كى روشنى ميں '' الحق'' كا مورد نظر مصداق قبلہ كى تبديلى ہے _

۴ _ اسلام كے احكام و معارف اللہ تعالى كى ربوبيت كا پرتو ہيں _الحق من ربك

۵ _ اللہ تعالى كى جانب سے نازل شدہ احكام و معارف كو قبول كرنا ضرورى ہے اور ان ميں شك و ترديد كرنے سے اجتناب كرنا ضرورى ہے _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين ''ممترين'' كا مصدر '' امترائ'' ہے جسكا معنى ہے شك و ترديد كرنا _

۶ _ اہل كتاب ( يہود و نصارى ) كى احكام اسلام كے خلاف تبليغى كوششيں (پراپيگنڈہ) صدر اسلام كے مسلمانوں كے اذہان ميں شك و ترديد پيدا كرنے كا باعث بنيں _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين

فعل ''فلا تكوننَّ'' جس ميں نون تاكيد پائي جاتى ہے كے ذريعے مسلمانوں كو شك وترديد سے اجتناب كا حكم دينا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ مسلمانوں ميں شك و ترديد كى زمين فراہم ہوچكى تھي_ ما قبل آيات سے سمجھا جاسكتاہے كہ اس شك و ترديد كا سرچشمہ اہل كتاب كى

۵۰۹

مخالفتيں تھيں _

۷_ زمانہ بعثت كے يہود و نصارى نے اپنے قبلہ كو حق ثابت كرنے اور كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى كونا حق ثابت كرنے كى مسلسل كوششيں كيں _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين

۸_ اللہ تعالى اور اسكے افعال و صفات كى معرفت اسكى طرف سے نازل ہونے والے احكام و معارف سے شك و ترديد كے خاتمے كا باعث ہے _الحق من ربك فلا تكونن من الممترين

۹_ اصبغ بن نباتہ امير المومنين علىعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ آپعليه‌السلام نے اس آيہ مجيدہ '' الحق من ربك ...'' كے بارے ميں فرمايا ''الحق من ربك (انك الرسول اليهم) فلا تكونن من الممترين (۱)

آپ(ص) يقيناً ان كى طرف رسول( الله كے بھيجے ہوئے ) ہيں پس اس امر ميں كسى طرح كا شك و ترديد نہ كرو _

احكام: احكام كى حقانيت كے معيارات۱

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۶،۷; اسلام كے خلاف تبليغات ۶; اسلام كا منبع ۴

اللہ تعالى : خداشناسى كے نتائج ۸; اللہ تعالى كى ربوبيت كے مظاہر ۴

بيت المقدس: بيت المقدس كا قبلہ ہونا ۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام(ص) كا ايمان ۹; پيامبر اسلام (ص) كى نبوت ۹

دين : دين ميں شك كرنے سے اجتناب ۵; دين قبول كرنے كى اہميت ۵; دين كى حقانيت كے معيارات ۱; دين كا سرچشمہ ۱; دين ميں شك و ترديد كے موانع ۸

روايت:۹

شبہات: شبہات كے اسباب ۶

عيسائي: عيسائيوں كى اسلام كے خلاف تبليغات۶; عيسائيوں كا قبلہ ۷; عيسائي اور صدر اسلام كے مسلمان۶

قانون: قوانين بشرى كى خصوصيات۲

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۲۸۳ ح ۱۶ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۸ ح ۴۲۱_

۵۱۰

قبلہ : تبديلى قبلہ كى حقانيت ۳; عيسائي اور تبديلى قبلہ ۷; يہودى اور تبديلى قبلہ ۷

كعبہ : كعبہ كا قبلہ بننا ۳

نظريہ كائنات (جہان بيني): نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۸

يہود : يہوديوں كى اسلام كے خلاف تبليغات ۶; يہوديوں كا قبلہ ۷; يہود اور صدر اسلام كے مسلمان ۶

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُواْ يَأْتِ بِكُمُ اللّهُ جَمِيعًا إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( ۱۴۸ )

ہر ايك كے لئے ايك رخ معيں ہے اوروہ اسى كى طرف منہ كرتا ہے _ اب تمنيكيوں كى طرف سبقت كرو اور تم سب جہاں بھى رہوگے خدا ايك دن سب كو جمع كردے گاكہ وہ ہرشے پرقادر ہے (۱۴۸)

۱_ دينى امتوں ميں سے ہر ايك كے لئے ايك خاص قبلہ ہے_ ''وجھة'' اس چيز كو كہتے ہيں جس كى طرف انسان رخ كرے_ ماقبل اور مابعد كى آيات كے قرينہ كى روشنى ميں اس سے مراد قبلہ ہے_ لفظ ''كل'' كا مضاف اليہ ''امة'' جيسا كوئي لفظ ہے_ البتہ ''ہو موليہا'' كے قرينہ سے اس سے مراد دينى امتيں ہيں _

۲ _ امتوں كے لئے قبلہ كا تعين كرنے والا اللہ تعالى ہے_و لكل وجهة هو موليها ''ہو'' كى ضمير ماقبل آيت ميں ''ربك'' كى طرف لوٹتى ہے _ ''مولّي'' كا معنى پلٹانے يا لوٹانے والا ہے اسكا پہلا مفعول ''كل امة'' ہے جو بہت واضح ہونے

كى بناپر كلام ميں نہيں آيا _ بنابريں ''ہوموليّھا'' كا معنى يہ بنتاہے اللہ تعالى ہے جو امتوں كو ايك خاص قبلہ كى طرف پلٹاتاہے ( يعنى حكم ديتاہے كہ كس سمت كو اپنا قبلہ قرار دو ) _

۳ _ تبديلى قبلہ اور اسكے تعين كے بارے ميں بحث كرنا بے جا امر ہے _و لكل وجهة هو موليها اہل كتاب كى مخالفت اور تبديلى قبلہ كے خلاف تبليغات نے مسلمانوں كے درميان اختلافات كو جنم ديا_ اس چيز كے بيان كے بعد اس حقيقت كى ياد دہانى كرانا كہ قبلہ كا متعين كرنے والا اللہ تعالى ہى ہے اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ توحيد پرستوں كوزيب نہيں ديتا كہ قبلہ كى تبديلى اور تعين كے بارے ميں بحث يا اختلاف كريں كيونكہ خداوند متعال ہے جو قبلہ كو متعين كرنے والا ہے _

۵۱۱

۴ _ اس امر كى طرف توجہ كہ قبلہ كى تبديلى اور تعين الہى افعال ميں سے ہے اسكے بارے ميں اختلاف كو ختم كرنے كا موجب ہے _و لكل وجهة هو موليها

۵ _ نيكى كے كاموں كو انجام دينا اور ان ميں سبقت كرنا ضرورى ہے _فاستبقوا الخيرات

۶ _ امتوں كى فضيلت و برترى كا معيار نيك كاموں ميں سبقت كرناہے نہ خاص قبلہ ركھنا _و لكل وجهة هو موليها فاستبقوا الخيرات '' ہو موليہا'' كے بعد اس جملہ '' فاستبقوا الخيرات'' كو لانا قبلہ كى تبديلى كے بارے ميں بحث و تمحيص اور اختلاف كے بے جا ہونے كے بارے ميں ايك اور حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ فقط قبلہ رخ ہونا ہى كافى نہيں ہے بلكہ نيك كاموں كى انجام دہى اہم ہے پس ان ميں سبقت كرو_

۷_ دين كے فروعى احكام كے بارے ميں دوسرے اديان كے پيروكاروں سے بحث،جدل اور اختلاف كرنے سے پرہيز كرنا ضرورى ہے_ *لكل وجهة هو موليها فاستبقوا الخيرات

۸_ قبلہ اور فرعى احكام كے بارے ميں اختلاف اور جدل سے كام لينا نيكى كے مصاديق ميں سے نہيں ہے _لكل وجهة هو موليها فاستبقوا الخيرات

۹_ اللہ تعالى تمام انسانوں كو جہاں كہيں بھى ہوں گے ميدان محشر ميں حاضر كرے گا _اين ما تكونوا يا ت بكم الله جميعا

۱۰_ قيامت ميں تمام انسانوں كا يكبارگى اور اجتماعى طور پر حاضر ہونا _اين ما تكونوا يأت بكم الله جميعاً

۱۱ _ قيامت نيك اعمال كى جزا كا وقت ہے _فاستبقوا الخيرات اين ما تكونوا يأت بكم الله جميعاً

جملہ'' اين ما تكونوا ...'' ما قبل جملے كى تعليل ہے يعنى چونكہ تم سب كے لئے قيامت كا وقت ہے پس دنيا ميں نيك اعمال بجا لاؤ يہ علت اس

۵۱۲

مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ آخرت ميں انسان كى سعادت دنيا ميں نيك اعمال سے وابستہ ہے_

۱۲ _ اللہ تعالى مطلق ( لامحدود) قدرت و قوت كا مالك ہے _ان الله على كل شى قدير

۱۳ _ قيامت كو برپا كرنا اور وہاں سب انسانوں كو جمع كرنا اللہ تعالى كى لا محدود قدرت كا مظہر ہے _يأت بكم الله جميعاً ان الله على كل شيء قدير

۱۴ _ قيامت كو برپا كرنا اور وہاں سب انسانوں كو حاضر كرنا صرف ايسى ہستى كے لئے ممكن ہے جو قادر مطلق ہو _

يأت بكم الله جميعاً ان الله على كل شيء قدير

۱۵ _ قيامت اور وہاں انسانوں كے حاضر ہونے پر يقين انسان كو نيك كاموں كى انجام دہى كى ترغيب دلاتاہے_

فاستبقوا الخيرات اين ما تكونوا يأت بكم الله جميعاً

نيك كاموں كا حكم دينے كے بعد قيامت كى ياد آورى اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ انسان قيامت پر يقين اور توجہ كى وجہ سے نيك كام انجام دينے ميں سستى نہ كرے گا _

اسماء اور صفات: قدير ۱۲

اقدار: قدروں كا معيار ۶

اللہ تعالى : افعال الہى ۲،۶; قدرت الہى ۱۲; قدرت الہى كے مظاہر۱۳،۱۴

امتيں : امتوں كى فضيلت و برترى كے معيارات ۶

انسان: انسان قيامت ميں ۹،۱۰; انسانوں كا آخرت ميں محشور ہونا۹،۱۰،۱۳،۱۴

ايمان : حشر پہ ايمان كے نتائج ۱۵;قيامت پر ايمان كے نتائج ۱۵

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۱۵

دين : فروع دين ميں مجادلہ ۷،۸

عمل : پسنديدہ عمل كى اہميت ۵،۶; اخروى عمل كى پاداش ۱۱; پسنديدہ عمل كا اجر ۱۱; پسنديدہ عمل كى زمين فراہم ہونا ۱۵; ناپسنديدہ عمل ۸; عمل كے نتيجے كا وقت ۱۱

۵۱۳

قبلہ : قبلہ كے بارے ميں بحث و گفتگو ۳; امتوں كا قبلہ ۱،۲; قبلہ كے بارے ميں جدل ۸; قبلہ كے تعين كا سرچشمہ ۲،۴; قبلہ كى تبديلى كا سرچشمہ ۴

قيامت : قيامت كا برپاہونا ۱۳، ۱۴; قيامت كى خصوصيات ۱۱

كردار: كردار كى بنياديں ۱۵

گفتگو: بے جا گفتگو ۳

مجادلہ : ناپسنديدہ مجادلہ ۴،۷

نظريہ كائنات ( جہان بيني): نظريہ كائنات اور آئيڈيالوجى ۱۵

نيكى : يكى ميں سبقت ۵،۶

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ( ۱۴۹ )

پيغمبر آپجہاں سے باہر نكليں اپنا رخ مسجدالحرام كيسمت ہى ركھيں كہ يہى پروردگار كى طرف سےحق ہے اور الله تم لوگوں كے اعمال سے غافلنہيں ہے (۱۴۹)

۱ _ پيامبر اسلام (ص) كے ليئے مسجد الحرام كو قبلہ قرار دينا اللہ تعالى كى جانب سے ہے_ ومن حيث خرجت فول وجهك شطر المسجد الحرام و انه للحق من ربك

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى قرار دى گئي كہ وہ اعمال جو قبلہ رخ انجام دينے ضرورى ہيں ان كو مسجد الحرام كے رخ ادا كريں _و من حيث خرجت فول وجهك شطر المسجد الحرام

۳ _ مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر متعين كرنا حق ( با حكمت او ر بجا حكم ) ہے جو اللہ تعالى كى جانب سے ہے_

و انه للحق من ربك

۴ _ وہ اعمال جن ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے ان ميں مسجد

۵۱۴

الحرام كى جہت اور سمت كى طرف رخ كرنا كافى ہے _فول وجهك شطر المسجد الحرام

يہ واضح ہے كہ مسجد الحرام يا كعبہ ہى قبلہ ہے پس ''شطر'' كا لفظ لانا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ جن اعمال ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے ضرورى نہيں ايك براہ راست، مستقيم يا سيدھا خط كھينچا جائے جو كعبہ كے بالكل روبرو ہو بلكہ اس سمت اور جہت كى طرف رخ كرناكافى ہے جس ميں كعبہ يا مسجد الحرام ہے _

۵ _ مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر متعين كرنا پيامبر اسلام (ص) پر اللہ تعالى كى ربوبيت كا پرتو ہے اور يہ عمل آنحضرت (ص) كے اہداف كى تكميل كے لئے تھا_و انه للحق من ربك لفظ '' رب _ (تربيت كرنے والا' مدبر) كى ضمير ''ك'' كى طرف اضافت جو آنحضرت (ص) كو خطاب ہے ممكن ہے اس معنى كى طرف اشارہ ہو كہ تبديلى قبلہ آنحضرت (ص) كے امور ( رسالت كے اہداف) كى تدبير كے لئے ہے_

۶ _ اللہ تعالى ہرگز انسانوں كے اعمال سے غافل نہيں ہے_و ما الله بغافل عما تعملون

۷_ اللہ تعالى كى سزا ان لوگوں كے انتظار ميں جو احكام الہى (مثلاً مسجد الحرام كو قبلہ قرار دينا ) كى مخالفت كرتے ہيں _

و ما الله بغافل عما تعملون بندوں كے اعمال پر اللہ تعالى كى نظارت كے ذكر كرنے كا ہدف ان لوگوں كو دھمكى دينا ہے جو احكام الہى كى مخالفت كرتے ہيں _

۸_ مسلمانوں كے مابين فرمان خدا ( تبديلى و تعيين قبلہ) كى نافرمانى كى آمادگى پائي جاتى ہے _و ما الله بغافل عما تعملون

ظاہراً '' تعملون'' كا مورد خطاب مسلمان ہيں _ پس يہ جو مسلمانوں كو دھمكى دى گئي ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ مسلمانوں كے درميان ايسے افراد تھے جو نئے قبلہ ميں شك و ترديد سے دوچار تھے يا پھر مخالفت كے در پے تھے_

احكام : ۲،۴

اسماء اور صفات: جلالى صفات۶

اللہ تعالى : افعال الہى ۱; حكمت الہى ۳; اللہ تعالى اور غفلت ۶; الہى سزائيں ۷; ربوبيت خدا كے مظاہر ۵

انسان: انسانى عمل سے آگاہى ۶

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام كے اہداف ۵; پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارياں ۲

دين : دين كى مخالفت كى سزا ۷

۵۱۵

سزا : سزا كے موجبات ۷

قبلہ : قبلہ كے احكام ۲،۴; قبلہ كى جہت ۴; قبلہ كے تعين كا منبع ۱،۳، ۸

مسجد الحرام : كے قبلہ بننے كا فلسفہ ۳; مسجد الحرام كا قبلہ ہونا ۲،۴; مسجد الحرام كا قبلہ بننا ۱،۵; مسجد الحرام كے قبلہ بننے كى مخالفت ۷

مسلمان : مسلمانوں كى نافرمانى كى زمين فراہم ہونا ۸

نافرمانى : اللہ تعالى كى نافرمانى ۸

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( ۱۵۰ )

اور آپ جہاں سے بھى نكليں اپنا رخ خانہ كعبہ كى طرف ركھيں اور پھرتم سب جہاں رہو تم سب بھى اپنا رخ ادھرہيركھو تا كہ لوگوں كے لئے تمھارے اوپركوئي حجت نہ رہ جائے سوائے ان لوگوں كےكہ جو ظالم ہيں تو ان كا خوف نہ كرو بلكہالله سے ڈرو كہ ہم تم پر اپنى نعمت تمامكردينا چاہتے ہيں كہ شايد تم ہدايت يافتہہوجاؤ(۱۵۰)

۱ _ مسجد الحرام آنحضرت (ص) اور تمام مسلمانان عالم كا قبلہ ہے _و من حيث و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره

مسجد الحرام كے قبلہ بننے كى حقانيت ۳; مسجد الحرام

۲ _ مسجد الحرام كسى خاص علاقے يا كسى خاص گروہ كا قبلہ نہيں ہے _و حيث ما كنتم فولوا و جوهكم شطره

۵۱۶

۳ _ جن اعمال ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے كافى ہے كہ مسجد الحرام كى جہت و سمت كى طرف منہ كيا جائے_

فول وجهك شطر المسجد الحرام و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره يہ مطلب كلمہ '' شطر'' كہ جو سمت اور جہت كے معنى ميں ہے ، سے مستفاد ہے _

۴ _ بيت المقدس كے مسلسل قبلہ كے طور پر رہنے سے مخالفين اسلام كو آنحضرت (ص) اور مسلمانوں كے خلاف دليل و حجت مل جاتى _فول وجهك فولوا وجوهكم شطره لئلا يكون للناس عليكم حجة

۵ _ قبلہ كى بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى سے مخالفين اسلام و مسلمين كا پراپيگنڈہ نقش بر آب ہوگيا _

فول وجهك شطر المسجد الحرام لئلا يكون للناس عليكم حجة

۶ _ دشمنان اسلام كے تبليغاتى نقشوں كو ختم كرنا مسلمانوں كے ضرورى فرائض ميں سے ہے _لئلا يكون للناس عليكم حجة

۷_ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف قبلہ كى تبديلى سابقہ اديان ميں مذكور پيامبر موعود كى حقانيت كے دلائل ميں سے ہے _فول وجهك شطر المسجد الحرام لئلا يكون للناس عليكم حجة '' لئلا يكون'' كى تعليل بيان كررہى ہے كہ مسلمانوں كا سابق قبلہ (بيت المقدس) پر باقى رہنا باعث بنتا كہ مخالفين اسلام پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت اور مسلمانوں كے خلاف دليل قائم كريں _ بنابرايں تبديلى قبلہ كو گذشتہ آسمانى كتابوں ميں پيامبر موعود كى حقانيت كے دلائل يا نشانيوں ميں سے ہونا چاہيئے_

۸ _ كعبہ كے مسلمانوں كے قبلہ كے طور پر متعين ہونے سے بعض مخالفين پر پيامبر اسلام(ص) كى حقانيت واضح ہوگئي_لئلا يكون للناس عليكم حجة الا الذين ظلموا منهم ظالمين كے لئے حجت اور دليل كا وجود _ جو جملہ استثنائيہ كا مفاد ہے _اس اعتبار سے نہيں ہے كہ ظالموں كے پاس مسلمانوں كے خلاف كوئي دليل ہے بلكہ اس سے مراد مخالفين كى دو گروہوں ميں تقسيم ہے _ ايك وہ گروہ جو ظلم و ستم كے بناپر پيامبر اسلام (ص) كى مخالفت كرتاہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو شبہ كى بناپر مخالفت كرتاہے پہلا گروہ قبلہ تبديل ہوتا يا نہ ہوتا اپنى مخالفت اور دشمنى كو ہر صورت جارى ركھتا _ دوسرا گروہ پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت كو درك كركے پراپيگنڈا يا تبليغات سوء كو چھوڑ ديتا_

۹_ مسجد الحرام كے قبلہ كے طور پر متعين ہونے كے بعد فقط ظالمين تھے جو ٹسووں ، بہانوں سے دستبردار نہ ہوئے اور مسلمانوں كے خلاف اپنى دشمنى كو جارى ركھا_لئلا يكون للناس عليكم حجة الا الذين ظلموا منهم

۵۱۷

۱۰_ اہل ايمان كو دشمنان دين سے ہرگز نہيں ڈرنا چاہيئے_فلا تخشوهم

۱۱_ مسلمانوں كو دشمنان دين كے خوف اور ان سے احساس خطر كے بہانے احكام الہى كے اجرا كرنے ميں كوتاہى نہيں كرنى چاہيئے_فولوا وجوهكم شطره الا الذين ظلموا منهم فلا تخشوهم

۱۲ _ مسلمانوں كو احكام الہى پر عمل كرنے اور اپنے برحق موقف كے حوالے سے دشمنوں كے پراپيگنڈے، جنجال اور تبليغات سے خوفزدہ نہيں ہونا چاہيئے_فلا تخشوهم

۱۳ _ صر ف اللہ تعالى سے ڈرنے كى ضرورت ہے اور اسكے احكام كى مخالفت سے اجتناب كرنا چاہيئے_واخشوني

۱۴ _ اللہ تعالى سے ڈر اور خوف ہے جو اسكے احكام پر عمل كرنے كے لئے راہ ہموار كرتاہے_فولوا وجوهكم شطره فلا تخشوهم واخشوني

۱۵ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى قبلہ نے مسلمانوں پر اللہ كى نعمت كے تمام ہونے كى راہ ہموار كى _

فولوا وجوهكم شطره لاتم نعمتى عليكم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' لاتم نعمتي ...'' ، '' لئلا يكون ...'' پر عطف ہو نتيجتاً '' لاتم ...'' جملہ '' فولوا وجوہكم شطرہ'' كے لئے ہدف اورغايت كا بيان ہوگا_

۱۶_ مسلمانوں كے لئے خصوصى ہدايت كى فراہمى كى زمين كا ہموار ہونا مسجد الحرام كے انكے لئے قبلہ كے طور پر متعين ہونے كے اہداف ميں سے ہے _فولوا وجوهكم شطره لعلكم تهتدون

آيہ مجيدہ كے مخاطبين مسلمان ہيں اور وہ اپنے اسلام پر ايمان كى وجہ سے ہدايت يافتہ ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ '' تھتدون'' ميں بيان شدہ ہدايت سے مراد پہلى ہدايت كى نسبت ايك كاملتر اور مخصوص ہدايت ہے _

۱۷ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى قبلہ كا واقعہ تاريخ اسلام ميں بہت ہى اہم اور تاريخ ساز ہے _

و من حيث خرجت فول وجهك شطر المسجد الحرام و لعلكم تهتدون قبلہ كى تبديلى اور تعين كے بارے ميں متعدد آيات كا نزول ، ''فول ...'' كے فرمان كا تكرار (آيات ۱۴۴ ، ۱۴۹ ، ۱۵۰) اور اس سے پيامبر اسلام (ص) كو مخاطب قرار دينا نيز ''قولوا وجوہكم شطرہ'' كے ذريعے مسلمانوں كو بار بار مخاطب قرار دينا (آيات ۱۴۴ ، ۱۵۰) خاص اہميت كا حامل ہے اوراس سے قبلہ كے تعين و تبديلى كى اہميت واضح ہوتى ہے _ اسى طرح قبلہ كے لئے جو بنيادى احكام بيان كئے گئے ہيں وہ اس كے تاريخ ساز ہونے پر دلالت كرتے ہيں _

۵۱۸

۱۸ _ ہدايت كے مختلف مراحل اور درجات ہيں _و لعلكم تهتدون

'' لعلكم ...'' كا خطاب چونكہ مسلمانوں كے لئے ہے جبكہ وہ ہدايت كا ايك مرحلہ طے كرچكے ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ '' تھتدون'' كى ہدايت سے مراد اسكا ايك بالاتر مرحلہ ہے اس سے روشن ہوتاہے كہ ہدايت كے مختلف مراحل ہيں _

۱۹_ جناب ابن عباس سے روايت كہ آنحضرت (ص) نے فرمايا:'البيت قبلة لاهل المسجد و المسجد قبلة لاهل الحرم و الحرم قبلة لاهل الأرض فى مشارقها و مغاربها من امتى ''(۱) كعبہ مسجد الحرام والوں كے لئے قبلہ ہے ، مسجد الحرام اہل حرم (مكہ اور اسكے اطراف كے مقامات ميں رہنے والوں ) كے لئے قبلہ ہے اور حرم اہل زمين كے مشرق و مغرب ميں رہنے والے ميرى امت كے تمام افراد كے لئے قبلہ ہے_

احكام : ۱،۳،۱۹

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۱۷ دشمنان اسلام كا پراپيگنڈا۵; دشمنان اسلام كے دلائل ۴

اللہ تعالى : اوامر الہى كى مخالفت سے اجتناب ۱۳; نعمات الہى ۱۵

انبياءعليه‌السلام : اديان ميں پيامبر موعود ۷

بيت المقدس: بيت ا لمقدس كے مسلسل قبلہ رہنے كے آثار۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام كى حقانيت كے دلائل ۷،۸;اديان ميں پيامبر اسلام (ص) ۷

ترغيب: ترغيب كے عوامل ۱۴

تكليف شرعي: تكليف شرعى پر آمادگى ۱۴; تكليف شرعى پر عمل ميں قاطعيت ۱۱،۱۲; تكليف شرعى پر عمل ميں كوتاہى كرنا ۱۱

خوف : خوف خدا كے نتائج ۱۴; خوف خدا كى اہميت ۱۳ ; دشمنوں سے خوف ۱۰،۱۱،۱۲; پسنديدہ خوف ۱۴; ناپسنديدہ خوف ۱۰،۱۲

دشمن: دشمنوں كا پراپيگنڈا ۱۲; دشمنوں كو پراپيگنڈے سے روكنا ۶

روايت:۱۹

____________________

۱) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۵۵_

۵۱۹

ظالمين : ظالموں كى بہانہ تراشياں ۹; ظالموں كى دشمنى ۹

قبلہ : تبديلى قبلہ كے نتائج ۵،۸،۱۵; قبلہ كے احكام ۱،۳،۱۹; تبديلى قبلہ كى اہميت ۱۷; اديان ميں تبديلى قبلہ ۷; قبلہ كى جہت ۳; اہل حرم كا قبلہ ۱۹; اہل مكہ كا قبلہ ۱۹; پيامبر اسلام كا قبلہ ۱; مكہ سے دور رہنے والوں كا قبلہ ۱۹; مسلمانوں كا قبلہ ۱

مسجد الحرام : مسجد الحرام كے قبلہ بننے كے نتائج ۸،۹،۱۵; مسجد الحرام كے قبلہ بننے كا فلسفہ ۱۶; مسجد الحرام كا قبلہ ہونا ۱،۲،۳; مسجد الحرام كا قبلہ بننا۱۷

مسلمان: مسلمانوں كے دشمن ۹; مسلمانوں كى ذمہ دارى ۶،۱۲; مسلمانوں كى نعمتيں ۱۵;مسلمانوں كى ہدايت ۱۶

مؤمنين: مومنين كى ذمہ دارى ۱۰،۱۱

نعمت: نعمت كى تكميل كا پيش خيمہ ۱۵

ہدايت:

ہدايت كى راہ ہموار ہونا ۱۶; ہدايت كے مراتب ۱۸; وہ لوگ جن كو خصوصى ہدايت ميسر آتى ہے ۱۶; خصوصى ہدايت ۱۴

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ ( ۱۵۱ )

جس طرح ہم نے تمھارے در ميانتمھيں ميں سے ايك رسول بھيجا ہے جو تم پرہمارى آيات كى تلاوت كرتا ہے تمھيں پاك وپاكيزہ بناتا ہے اور تمھيں كتاب و حكمتكى تعليم ديتا ہے اور وہ سب كچھ بتاتا ہےجو تم نہيں جانتے تھے (۱۵۱)

۱_ حضرت محمد (ص) ، اللہ تعالى كى جانب سے مبعوث ہوئے_كما ارسلنا فيكم رسولا

۲ _ آنحضرت (ص) ، لوگوں ميں رسول مبعوث ہوئے اور انہى ميں سے تھے_كما ارسلنا فيكم رسولاً منكم

۳ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف تبديلى قبلہ رسالت كى نعمت كے ہمراہ ايك بڑى نعمت ہے _

فولوا وجوهكم شطره لعلكم تهتدون، كما ارسلنا فيكم رسولا يہ مطلب اس بناپر ہے كہ ''كما'' ميں ''كاف'' تشبيہ كے لئے ہو پس تبديلى قبلہ جو ماقبل آيت ميں مذكور ہے ''مشبہہ'' ہے اور پيامبر كى بعثت ''مشبہہ بہ '' ہے قبلہ كو رسالت كى نعمت سے تشبيہ دينا اس مسئلے كى عظمت اور اس نعمت كى بزرگى كى دليل ہے _

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

ضمیمہ (۶) ص ۱۱۳

رسول (ص) اسلام کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش

اسی کتاب کے ص پر آیات کریمہ کی جو وضاحت ہم نے کی ہے اس کی تائیدان روایات سے بھی ہوتی ہے جو ان آیات کی شان نزول کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں چنانچہ ان آیات کی شان نزول کے بارے میں ''تفسیر البرہان،، میں مرقوم ہے۔

''ایک دن رسول خدا (ص) خانہ کعبہ میں اپنے آس پاس بیٹھے کچھ صحابیوں کو کلام خدا اور اس کے اوامرو نواہی کی تعلیم دے رہے تھے اتنے میں قریش کے سرکردہ افراد کی ایک جماعت جس میں ولید بن مغیرہ مخزومی ، ابو البختری بن ہشام ، ابوجہل بن ہشام ، عاص بن وائل السہمی ، عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس قسم کے دیگر افراد شامل تھے وہاں آئی ۔ ان مشرکین نے آپس میں کہا : دینمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ا ہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے آؤ ایک مرتبہ پھر اس کو سختی سے جھڑکیں ، اس کی سرزنش کریں اور دلائل سے اس کے لائے ہوئے پیغام کو باطل ثابت کریں تاکہ اپنے اصحاب کے سامنے اس کی اہمیت اور ہیبت ختم ہو جائے اور وہ ان کی نظروں سے گر جائے شاید اس طرح وہ اپنے مشن گمراہی ، باطل اور سرکشی سے باز آ جائے اگر زبانی سرزنش اور دلائل کے ذریعے باز آ جائے تو بہتر ورنہ شمشیر کے زور سے اسے بٹھا دیں گے۔

ابوجہل نے کہا : کون آگے بڑھ کرمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے گفتگو کرے گا؟

عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے کہا : میں اس سے گفتگو شروع کروں گا کیا تم مجھے اس سے مقابلہ اور مباحثہ کیلئے کافی نہیں سمجھتے ؟

۶۴۱

ابوجہل نے کہا : کیوں نہیں چنانچہ یہ سب کے سب آنحضرتؐ کی خدمت میں آئے اور عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے اپنے کلام کا آغاز کرتے ہوئے یوں کہا:

''آپ (ص) نے ایک بہت بڑا دعویٰ کر دیا اور بہت اونچی بات کہہ دی ہے آپ (ص) کا خیال ہے کہ آپ (ص) رب کائنات کے بھیجے ہوئے رسولؐ ہیں جبکہ رب اور خالق کائنات کیلئے ہرگز یہ مناسب نہیں کہ آپ (ص) جیسے انسان کو اپنا رسول بنا کر بھیجے جو ہماری مانند بشر ہے آپ ویسے ہی کھاتے پیتے ہیں جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں آپ ویسے ہی بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں جیسے ہم چلتے ہیں روم اور فارس کے بادشاہ جب کسی ملک میں اپنا نمائندہ بھیجتے ہیں تو کسی مالدار ، باحیثیت آدمی کو بھیجتے ہیں جس کے عالی شان محل و عمارات اور کئی غلام و نوکر ہوں اور رب کائنات کا مقام تو ان بادشاہوں سے بہت بلند ہے بلکہ یہ اس کے بندے ہیں اگرخدا ہماری طرف اپنا کوئی نمائندہ بھیجنا چاہتا تو ہم میں سے ایسے آدمی کا انتخاب کرتا جو مال و دولت اور مقام و منزلت کے اعتبار سے سب سے بہتر اور نمایاں حیثیت کا مالک ہو بنا برایں یہی قرآن جس کے بارے میں آپ (ص) کا یہ خیال ہے کہ خدا نے اسے آپ (ص) پر نازل کیا اور اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے مکہ یا مدینہ کے کسی عظیم المرتبت آدمی پر اسے کیوں نازل نہیں کیا ؟ یہ اہل مکہ میں سے ولید بن مغیرہ پر نازل کیا ہوتا یا اہل مدینہ میں سے عروہ بن مسعود ثقفی پر نازل کرتا،،

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: عبداللہ ابھی تیرا کچھ کلام باقی ہے؟

عبداللہ نے کہا : ہاں ! ہم اس وقت تک آپ (ص) پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک اسی مکہ کی سرزمین پر آپ (ص) چشمہ نہ بہائیں کیونکہ مکہ اپک پتھریلہ اور پہاڑی علاقہ ہے ہمیں اس امر کی ضرورت ہے آپ (ص) اس کی کھدائی کریں اسے ہموار کریں اور اس میں چشمے بہا دیں یا آپ (ص) کے پاس کھجور اور انگور کے باغات ہوں جس سے آپ (ص) کھائیں اور ان باغات میں نہریں بہتی ہوں ، یا آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہمپر گرے جیسا کہ آپ (ص) کا خیال ہے کیونکہ آپ (ص) نے ہی تو ہمارے بارے میں کہا : ''اگر یہ لوگ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرتے دیکھیں تو کہیں گے،، یہ تہہ بتہہ بادل ہیں،، اب ایسا کر کے دکھائیں شاید ہم یہی کہیں؟،،

۶۴۲

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لا سکتے جب تک خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کر حاضر نہ کریں یا پھرا س وقت ایمان لائیں گے جب آپ (ص) کے پاس سونے کا گھر ہو اور ہمیں اس میں سے حصہ دیں اور بے نیاز کر دیں شاید اس کے باوجود ہم بغاوت کر جائیں کیونکہ آپ (ص) نے ہی ہمارے بارے میں کہا ہے:

کلا ان الانسان لیطغی ان راه استغنی

''سن رکھو بیشک انسان جب اپنے کو غنی دیکھتا ہے تو سرکش ہو جاتا ہے،،۔

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: یا ہم اس صورت میں ایمان لائیں گے جب آپ (ص) آسمان کی طرف پرواز کریں اور آپ (ص) کے آسمان کی طرف پرواز کرنے پر بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کی طرف سے عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس کے ساتھیوں پر ایک کتاب نازل نہ ہو جس میں یہ خطاب ہو کہ تم سب محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب پر ایمان لے آؤاس لئے کہیہ میرا بھیجا ہوا رسول ہے اس کی باتوں کی تصدیق کرو اس لئے کہ یہ جو کچھ کہتا ہے میری طرف سے کہتا ہے،،

اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ! ان سب مطالبات کے پورے ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں میں آپ (ص) پر ایمان لاؤں یا نہ لاؤں اگر آپ ؐ ہمیں اٹھا کر آسمان کی طرف لے جائیں اور اس کے دروازے ہمارے آگے کھول دیں اور ہم ان دروازوں میں داخل ہو جائیں پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھیں مسحور کی گئی ہیں اور ہم پر جادو کیا گیا ہے۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پالنے و الے ! تو ہر آواز کوسننے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے اپنے بندوں کی باتوں کوتوبہتر جانتا ہے۔

اے عبداللہ بن ابی امیہ ! تیرا یہ کہنا کہ روم اور فارس کے بادشاہ ہمیشہ کسی مالدار آدمی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتے ہیں تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا خود تدبیر فرماتا اور فیصلہ کرتا ہے اس کے افعال ، تیرے خیالات اور تجاویز کے مطابق انجام نہیں پاتے بلکہ خدا خود جو چاہے کرتا ہے اور جیسا اس کا ارادہ ہو حکم فرماتا ہے۔

۶۴۳

اگر نبی محلوںکا مالک ہوتا اور ان میں جا کر غائب ہو جاتا یا اس کی خدمت کیلئے غلام اور نوکر ہوتے جو اس کو لوگوں کی نظروں سے چھپائے رکھتے ، تو کیا رسالت ضائع اور احکام خدا معطل نہ ہو جاتے؟

(میرے بارے میں ) تیرایہ کہنا کہ اگر تو نبی ہوتاتو تیرے ساتھ ہمہ وقت ایک فرشتہ ہوتا جو تیری تصدیق کرتا اور اسے ہم بھی دیکھ سکتے تو تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تیرے حواس فرشتے کو درک نہیں کر سکتے کیونکہ فرشتہ ہوا کی مانند ہے جس کا مشاہدہ نہیں ہو سکتا اگر تم فرشتے کا مشاہدہ کر سکتے بایں معنی کہ تمہاری حس باصرہ کو غیر معمولی طاقت دے دی جاتی ، تو تم کہتے یہ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ یہ تو ایک بشر ہے اس لئے کہ اگر فرشتہ ظاہر ہوتا تو لامحالہ کسی انسانی صورت میں ہی ظاہر ہوتا جس سے تم مانوس ہوتے تاکہ تم اس کی بات کو سمجھ سکو۔

تمہارا یہ کہنا کہ میں جادو گر ہوں بھلا میں جادو گر کیسے ہو سکتا ہوں جبکہ تم بخوبی جانتے ہو کہ عقل و فہم اور خیر و شر کو تمیز دینے میں ، میں تم سے بالاتر ہوں میری پیدائش سے آج تک چالیس سال کے عرصے میں تم نے مجھ سے کوئی جرم، جھوٹ ، بدزبانی سرزد ہوتے ہوئے دیکھی ہے ؟ یا کسی غلط بات اور کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے دیکھا ہے ؟ تمہارا کیا خیال ہے کیا ایک شخص اتنے طویل عرصے تک اپنی قوت اور بل بوتے پر ہر قسم کی غلطی سے محفوظ رہ سکتا ہے ؟ یا اس عرصے میں خدا کی تائید اور توفیق شامل حال رہی ہو گی؟

تمہارا یہ کہنا کہ خدا نے مکہ یا مدینہ کے کسی مالدار اور نامور آدمی پر قرآن کیوں نازل نہیں کیا ؟ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کی نظر میں مال دنیا کی وہ عظمت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے اور اس کی نظر میں مال دنیا کی وہ اہمیت اور وقعت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے خدا کسی سے اس کے مال و دولت اور حیثیت و مقام کی وجہ سے نہیں ڈرتا جس طرح تو ڈرتا ہے۔

تیرا یہ کہنا کہ جب تک زمین سے چشمے نہ پھوٹیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے وغیرہ تم نے اپنے اس کلام میں رسول خدا محمد (ص) کے سامنے کئی تجاویز پیش کی ہیں ان میں سے بعض تجاویز ایسی ہیں کہ اگر محمدؐ ان تجاویز پر عمل بھی کرے تب بھی وہ نبوت کی دلیل نہیں بن سکتیں رسول (ص) کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ جاہلوں کی نادانی کو غنیمت سمجھے اور ان کے سامنے ایسے دلائل پیش کرے جو درحقیقت حجت و دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

۶۴۴

تیری کچھ تجاویز ایسی ہیں کہ اگر ان پر عمل ہو جائے تو یہ تیری ہلاکت کا باعث بنیں گی نبوت کے دلائل تو اس لئے پیش کئے جاتے ہیں کہ خدا کے بندے ایمان لے آئیں اور ہلاکت سے محفوظ رہیں پس تو نے اپنی ہلاکت کی تجویز پیش کی ہے خدا کی ذات سب سے زیادہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والی ہے لوگوں کی مصلحتوں کو ان سے بہتر سمجھتی ہے۔ اور ان کی تجاویز پر عمل کر کے انہیں ہلاک نہیں کرتی۔

تیری بعض تجاویز ایسی ہیں جو بذات خود ناممکن ہیں اور صحیح و جائز نہیں ہیں اور کچھ تجاویز ایسی ہیں جو تیرے اعتراف کے مطابق تیری ضد ، ہٹ دھرمی اور سرکشی پر مبنی ہیں تو کسی دلیل کوتسلیم کرتا ہے اور نہ اسے سننے کیلئے تیار ہے۔

تیرا یہ مطالبہ کہ اگر اس سرزمین پر چشمے بہا کر دکھاؤں تب ایمان لاؤ گے تو نے یہ مطالبہ اس لئے کیا ہے کہ تو الٰہی دلائل سے جاہل ہے تیرا کیا خیال ہے اگر میں تیرا مطالبہ پورا کر دوں اور زمین پر چشمے بہا کر دکھا دوں تو کیا اسی دلیل سے میری نبوت ثابت ہو گی ؟ تیرا یہ مطالبہ اورتجویز ایسی ہے جیسا تو کہے ہم تو تب ایمان لائیں گے جب آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور چل کر دکھائیں کیا تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے پاس طائف میں کھجور اور انگور کے باغات نہیں ہیں جن سے تم کھاتے رہتے ہو اور ان کے درمیان سے نہریں نہیں بہتیں ؟ کیا ان باغات اور نہروں کی وجہ سے تم نبی بن گئے ہو؟

تیرا یہ کہنا کہ آسمان ریزہ ریزہ ہو کر ہمارے اوپر گرے جیسا کہ تیرا گمان ہے۔

آسمان کا ریزہ ریزہ ہو کر گرنا تمہاری موت اور ہلاکت کے مترادف ہے گویا اس طرح تم رسول خدا (ص) سے اپنی ہلاکت کا مطالبہ کر رہے ہیں رسول خدا (ص) کا رحم و کرم اس سے بالاتر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر دے۔

ہاں ! وہ تمہارے سامنے الٰہی دلائل پیش کرے گا۔

۶۴۵

وہ الٰہی دلائل اور حجتیں جو اللہ اپنے نبی کو دیکر بھیجتا ہے وہ بندوں کے مشوروں اور تجاویز کے مطابق نہیں ہوا کرتیں اس لئے کہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ کس امر میں ان کا مفاد اور مصلحت ہے جو جائز ہو اور کس میں مفسدہ اور نقصان ہے جو جائز نہ ہو کیا تم نے کسی ڈاکٹر کو دیکھا ہے جو اپنے مریض کے مشورے کے مطابق اس کیلئے نسخہ اور دوائی تجویز کرے ؟ یا تم نے کسی ایسے حاکم کو دیکھا ہے جو حق کے دعوے دار کو مدعی علیہ کی مرضی کے مطابق گواہ پیش کرنے کا حکم دے؟

تیرا یہ کہنا کہ ہم تب ایمان لائیں گے جب تو خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کرے جن کا ہم مشاہدہ کر سکیں یہ وہ مطالبہ ہے جس کا محال اور ناممکن ہونا کسی سے پوشیدہ نہیں اس لئے ہمارا رب اور خالق عام مخلوق کی مانند نہیں جو کسی کے سامنے آتا اور حرکت کرتا ہو ، تاکہ اس کو تمہارے سامنے لایا جائے پس تم نے اس مطالبہ میں ایک ناممکن ا مر کی تجویز پیش کی ہے۔

اے عبداللہ ! تیرا یہ کہنا کہ ہم تو تب ایمان لائیں گے جب تیرے پاس سونے کا مکان ہو یہ بتاؤ تم نے سنا ہے کہ شاہ مصر کے پاس سونے کے کئی گھر ہیں ؟ عبداللہ نے کہا : جی سنا ہے آپ (ص) نے فرمایا کیا بادشاہ مصران مکانات کی وجہ سے نبی بن گیا ہے ؟ عبداللہ نے کہا : نہیں ۔ آپ (ص) نے فرمایا جس طرح بادشاہ مصر کے سونے کے مکانات سے وہ نبی نہیں بن جاتا اگر میرے پاس بھی سونے کے مکانات ہوتے تو ان سے میری نبوت ثابت نہ ہوتی البتہ محمد (ص) تمہاری حالت اور نادانی کو غنیمت سمجھ کر اس قسم کی چیزوں کو حجت خدا کے طور پر پیش نہیں کرتا تیرا یہ کہنا کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے جب تم آسمان کی طرف پرواز کرو اور پھرتو یہ کہتاہ ے کہ تیرے آسمان کی طرف بلند ہونے کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم پر کوئی کتاب نازل نہ ہو جس کو ہم خود پڑھیں۔

۶۴۶

اے عبداللہ ! تمہیں معلوم ہے کہ آسمان کی طرف پرواز کرنا آسمان سے اترنے سے زیادہ مشکل ہے تو ایک مرتبہ اعتراف کر چکا ہے کہ میرے آسمان کی طرف پرواز کرنے کے باوجود بھی تم ایمان نہیں لاؤ گے تو میرے آسمان سے قرآن لے کر اترنے پر کب ایمان لاؤ گے ؟ تو نے اپنے کلام میں یہ بھی کہا ہے کہ ہم پر قرآن نازل ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں ہم ایمان لائیں نہ لائیں۔

یہ تیری طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ تو حجت خدا کے مقابلے میں عناد اور ضد رکھتا ہے تمہارے ان مطالبوں کا جواب خالق کا وہ جامع کلام ہے جو اس نے نازل فرمایا ہے اور اسی سے تمہاری تمام تجاویز باطل ہو جاتی ہیں خالق فرماتا ہے : اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کہہ دو ! میرا رب پاک و پاکیزہ ہے میں ایک انسان ہوں جس کو رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بنا کر بھیجا گیا ہے مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ خدا کو کوئی حکم دوں ، اس کو کسی کام سے روکوں یا کسی امر کا مشورہ دوں،،

یہ حدیث شریف بہت سارے فوائد پر مشتمل ہے محققین کو اس حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے ان آیات کی شان نزول کے بارے میں اور بھی بہت سی روایات موجود ہیں جن کو طبری نے ان آیات کی تفسیر کے موقع پر ذکر کیا ہے۔

۶۴۷

ضمیمہ (۷) ص ۳۱۵

صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

یہ حدیث یوں مروی ہے:

عبداللہ بن مسعود کہتا ہے:

''کنا نغزو مع رسول الله ص و لیس معنا نسآء فقلنا : الا نستخصی فنهانا عن ذلک ، ثم رخص لنا ان ننکح المراة بالتوب الی اجل ، ثم قراء عبدالله :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۵:۸۷

''ہم دوران جنگ رسول خدا (ص) کے ہمراہ تھے اور ہماری بیویاں ہمارے پاس نہیں تھیں ہم نے رسول خدا (ص) سے پوچھا : کیا ہم اپنے آپ کو نامرد بنا دیں آپ (ص) نے ہمیں اس عمل سے منع فرمایا اور اس امر کی اجازت دی کہ ایک مقررہ وقت تک کیلئے ایک کپڑے کے عوض عورتوںسے نکاح کر لیں اس کے بعد عبداللہ بن مسعود نے اس آیہ کریمہ کی تلاوت کی:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) (۵:۸۷)

''اے ایماندرو ! جو پاک چیزیں خدا نے تمہارے واسطے حلال کر دی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کیونکہ خدا حد سے بڑھ جانے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا،،

محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی ایک جماعت نے اس نص ، حدیث اور عبارت کو بخاری سے نقل کیا ہے لیکن آج کل کی رائج الوقت صحیح بخاری کے ج ۶ ص ۵۳ پر جو حدیث موجود ہے وہ دو اعتبار سے اصلی صحیح بخاری کی عبارت سے مختلف ہے:

۱۔ موجودہ صحیح بخاری میں سند حدیث سے لفظ عبداللہ بن مسعود کو نکال لیا گیا ہے جبکہ اکثر محدثین نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا ہے عبداللہ بن مسعود کے نام کو اس لئے نکال لیا گیا ہے تاکہ عبداللہ بن مسعود کا نام اس بات کا قرینہ اور شاہد نہ بن سکتے کہ اس روایت کا مقصد نکاح متعہ کو جائز قرار دینا ہے ، اس لئے کہ عبداللہ بن مسعود نکاح متعہ کو جائز سمجھتے تھے۔

۶۴۸

۲۔ موجودہ صحیح بخاری میں روایت کے آخری سے لفظ ''الی اجل،، (معین مدت تک) کو بھی نکال دیا گیا ہے کیونکہ ''الی اجل،، کا لفظ اس امر کی تصریح ہے کہ آنحضرت ؐ نے نکاح متعہ کی اجازت دے دی ہے چنانچہ شارحین نے بھی یہی سمجھا اور ایسی ہی اس کی تفسیر کی ہے کیونکہ اس قسم کے مقامات پر نکاح کی اجازت لازمی طور پر نکاح متعہ ہی کی اجازت ہوا کرتی ہے صرف دائمی نکاح کی نہیں اور یہ کہ ''لیس معنانسآ،، یعنی مجاہدین کے پاس عورتوں کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اپنی بیویاں ان کے ساتھ نہیں تھیں ایسا نہیں ہے کہ عام عورتیں وہاں نہیں تھیں ورنہ نکاح کی اجازت دینا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اس معنی کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ بعض روایات میں ''لیس معنا،، کی جگہ ''لیس لنانساء ،، موجود ہے یعنی ہماری اپنی عورتیں نہیں ہیں۔

چونکہ یہ روایت نکاح متعہ کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے اس لئے کئی فقہاء کا دعویٰ ہے کہ بعض دوسری روایات میں نکاح متعہ کو حرام قرار دیا گیا ہے جس سے اس روایت میں موجود حکم (جواز متعہ) نسخ ہو جاتا ہے لیکناس بات سے بھی ان کا مدعیٰ ثابت نہیں ہوتا جس کی تفصیل آیہ متعہ سے متعلق روایات پر تبصرہ کے دوران ہم نے بیان کر دی ہے تحریف کے مجرم ہاتھوں سے یہ روایت بھی محفوظ نہیں رہ سکی اور اس کو اپنی صحیح اورا صلی صورت پر نہیں رہنے دیا گیا ہم ذیل میں ان محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی فہرست ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے صحیح بخاری سے صحیح حدیث نقل کی ہے۔

(۱) بیھقی : سنن بیھقی جز ۷ ص ۲۰۰ طبع حیدر آباد

(ب) سیوطی : تفسیر سیوطی = ۲ = ۲۰۷ = المیمنیتہ مصر

(ج) زیلعی : نصب الرایہ = ۳ = ۱۸۰ = دارالتالیف مصر

(د) ابن تیمیہ : المنتقی ٰ جزء ۲ ص ۵۱۷ طبع حجازی

(ھ) ابن القیم : زادالمعاد = ۴ = ۸ محمد علی صبیح

(و) قنوچی : روضتہ الندیہ ۲ = ۱۶ = المنیریہ

(ز) محمد بن سلیمان : جمع الفوائد = ۱ = ۵۸۹ = دارالتالیف

۶۴۹

اس روایت کے کچھ اور مصادر اور حوالے بھی ہیں جو ذیل میں دیئے جا رہے ہیں

(ح) مسند احمد : جزء ۱ ص ۴۲۰ طبع مصر ۱۳۱۳

(ط) تفسیر قرطبی : = ۵ = ۱۳۰ = = ۱۳۵۶

(ی) تفسیر ابن کثیر : = ۲ = ۱۸۷ = = علی البابی

(ل) الاعتبار للحازمی : = = ۱۷۶ حیدر آباد

یہ حدیث صحیح ابی حاتم اور اس قسم کے اہم مصادر میں بھی موجود ہیں۔

ضمیمہ (۸) ص ۳۲۸

محمد عبدہ اور تین طلاقیں

محمد عبدہ پہلے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ اگر ایک نشست میں تین طلاقیں جاری کر دی جائیں تو وہ ایک طلاق شمار ہوں گی۔

اس کے بعد فرماتے ہیں:

''ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم ان مقلدین سے بحث اور مناظرہ کریں یا ان قاضیوں اور مفتیوں سے ان کے مذاہب چھڑا دیں جو تین طلاقوں کے قائل ہیں ان میں سے اکثر حضرت ایک طلاق پر دلالت کرنے والی روایات سے آگاہ ہیں جو کتب حدیث وغیرہ میں موجود ہیں البتہ یہ لوگ ان روایات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لئے کہ یہ لوگ اپنی کتابوں میں موجود اقوال پر زیادہ عمل کرتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نہیں(۱)

کاش محمد عبدہ متعہ کی بحث میں بھی یہی بات کرتے۔ اس لئے کہ جیسا کہ آپ نے دیکھا نکاح متعہ شریعت اسلام میں

____________________

(۱) تفسیر المنار ، جزء ۱ ، ص ۳۸۶

۶۵۰

ثابت ہے اس کے بعد اسے نسخ بھی نہیں کیا گیا جو لوگ نکاح متعہ کو حرام سمجتھے ہیں ان کی واحد دلیل ان کی کتابوں میں موجود اقوال ہی بن سکتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بن سکتیں۔

ضمیمہ (۹) ص ۳۸۳

شیعوں پر رازی کا افترائ

من جملہ ان لوگوں میں جنہیں تحقیق و تدقین کی توفیق نہیں ، فخر رازی ہے جو آیئہ کریمہ ''یمحوا اللہ مایشآء ویثبت،، کی تفسیر میں کہتا ہے :

''رافضی (شیعہ) کہتے ہیں خدا کے حق میں بداء جائز ہے اوربداء یہ ہے کہ خدا کو کسی چیز کا یقین حاصل ہو اس کے بعد اس پر انکشاف ہو کہ حقیقت اور واقع ایسا نہیں جس کا اسے یقین تھا،،۔

خالق ! تو جانتا ہے کہ یہ محض تہمت ہے رازی نے اپنی کتاب ''محصل،، کے خاتمہ میں ''سلیمان بن جریر،، سے ایک کلام نقل کیا ہے جس کا ذکر قبیح ہے اور مجھے بھی زیب نہیں دیتا کہ اس کتاب میں اس کلام کو ذکر کروں رازی نے یہ جملہ اسی جیسے ایک دوسرے ننگین جملے کے بعد ذکر کیا ہے جوبعض نصاریٰ رسول خدا (ص) کے بارے میں کہتے تھے جب آنحضرت (ص) ایسے احکام لے کر آئے جو گزشتہ شریعتوں کے لئے ناسخ قرار پائے''کبرت کلمته تخرج من ا فواههم وسیعلم الذین ظلموا ایی منقلب ینقلبون،،

۶۵۱

ضمیمہ (۱۰) ص ۳۹۴

احادیث اور مشیّت الٰہی

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی دونوں کتابوں ''توحید،، اور ''معانی الاخبار،، میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت بیان کی ہے ، امام علیہ السلام نے آیہ شریفہ : ''وقالت الیھود یداللہ مغلولۃ ،، کے بارے میں فرمایا:

''لیکن یہود کہا کرتے تھے خدا خلقت و آفرنیش کے ہر کام سے فارغ ہو گیا ہے خدا نہ تو کسی چیز کو بڑھاتا ہے اور نہ گھٹاتا ہے،،

خدا نے ان لوگوں کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا:

( غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ ) ۵:۶۴

''انہیں کے ہاتھ باندھ دیئے جائیں اور ان کے (اس) کہنے پر (خدا کی ) پھٹکار (بر سے خدا کا ہاتھ بندھنے کیوں لگا) بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے،،

کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا۔

( يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ) ۱۳:۳۹

''(پھر اس میں سے) خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) موجود ہے،،

عیاشی نے یعقوب بن شعیب اور عماد کے ذریعے حضرت ابو عبداللہ (علیہ السلام) سے بھی اسی مضمون کی روایت بیان کی ہے اس قسم کی روایات کو مجلسی نے بحار کی جلد ۲ ، ص ۱۳۱۔۱۴۲ پر ذکر کیا ہے۔

۶۵۲

ضمیمہ (۱۱) ص ۳۹۱

دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

سلمان کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''قضاء الٰہی کو دعا ہی تبدیل کرس کتی ہے اور عمر میں اضافہ نیکی ہی کر سکتی ہے،،(۱)

تو بان کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''عمر کو نیکی ہی بڑھا سکتی ہے انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے(۲)

ضمیمہ (۱۲) ص ۲۳۵

آیہ بسم اللہ کی اہمیت

اس کتاب کے صفحہ ۴۳۳ پر اعراب کی بحث میں یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ ''بسم اللہ،، میں اسم کی اضافت اللہ کی طرف اضافہ معنویہ ہے

____________________

(۱) ترمذی ، باب ماجاء لایرد القدر الالدعا ، ج ۸ ، ص ۳۵۰

(۲) ابن ماجہ ، باب القدر ، ج ۱ ، ص ۲۴ ، حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہےاور ذہبی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ، ج ۱ ، ص ۴۹۳ ۔ احمد نے اپنی مسند میں روایت کی ہے، ج ۵ ، ص ۲۷۷ ، ۲۸۰ ، ۲۸۲ ، اس مضمون کی روایت زیادہ ہیں جو متعلقہ کتب میں مل سکتی ہیں۔

۶۵۳

اوریہ کہ لفظ ''اللہ،، اپنے حقیقی معنی(۱) میں استعمال ہوا ہے ۔ بنا برایں لفظ اسم اپنے اس جامع معنی میں استعمال ہوا ہے جو تمام اسمائے الٰہی پر صادق آنے کے قابل ہے گویا مفہوم کاذکر کر کے اس کے ذریعے اس کے مصداق کی طر فاشارہ کیا گیا ہے چونکہ اسم اعظم اسم الٰہی کا اشرف مصداق ہے اس لئے لامحالہ اسم اعظم مفہوم اسم کے مصداق بننے کا سب سے زیادہ استحقاق رکھتا ہو گا اوراسی سے اس روایت کا معنی بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بسم اللہ اسم اعظم کے اس سے بھی زیادہ نزدیک ہے جتنی آنکھکی سفیدی آنکھ کی سیاہی کے نزدیک ہے کیونکہ بسم اللہ اور اسم اعظم کے درمیان قرب ذاتی ہے اس لئے کہ مفہوم اور مصداق خارج میں ایک ہوا کرتے ہیں اور سفیدی چشم کاقرب سیاہی چشم کیلئے مکانی اور ان دونوں میں اتحاد وضعی ہے۔

ضمیمہ (۱۳) ص ۴۳۶

آغاز آفرنیش

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خدا نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق فرمایا(۲)

محمد بن مسلم سنان کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں امام جواد (علیہ السلام) کی خدمت میں بیٹھا تھا ، آپ (ع) نے فرمایا:

''اے محمد ! خدا ہمیشہ اپنی وحدانیت میں منفرد اور یگانہ رہا ہے اس کے بعد خداوند عالم نے محمد ، علی اور فاطمہ (علیہم السلام) کو خلق فرمایا اس کے بعد یہ حضرات ہزار برس عالم نور میں رہے(۳)

____________________

(۱) وہ ذات جو تمام صفات کمال کی جامع ہو (مترجم)

(۲) البحار ، باب حقیقتہ العقل و کیفیتہ و بدء خلقہ ، ج ۱ ، ص ۳۳

(۳) اصول کافی ، باب تاریخ مولد النبی (ص) ، ص ۲۳۹ ، الوافی باب بداخلق المعصومین ، ج ۲ ، ص ۱۵۵

۶۵۴

ضمیمہ (۱۴) ص ۴۴۶

بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

بیہقی نے اپنی سند سے ام سلمہ سے روایت کی ہے:

''رسول خدا (ص) نے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھا اور اسے جزء قرآن قرار دیا،،

یہ روایت حاکم نے مستدرک کی ج ۱ ص ۲۳۲ پر بیان کی ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت مسلم اور بخاری کی شرائط پر پوری اترتی ہے اور صحیح ہے نیز عبد خیر سے روایت ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام سے پوچھا گیا سبع مثانی کون سا سورہ ہے ، آپ (ص) نے فرمایا : سورۃ الحمد۔

راوی نے پوچھا: الحمد کی آیات توچھ ہیں آپ (ع) نے فرمایا : بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی سورہ الحمد کا جزء ہے اس روایت کو ابوہریرہ نے بھی بیان کیا ہے۔

رسول خدا (ص) سے ابوہریرہ روایت نقل کرتا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

''سورۃ الحمد سات آیات پر مشتمل ہے ان میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی شامل ہے،،

ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورہ فاتحہ کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے فرماتے تھے یہ روایت ترمذی نے ج ۲ ، ص ۴۴ پر نقل کی ہے۔

ابن عمر سے منقول ہے کہ وہ نماز کی ابتداء تکبیرۃ الاحرام سے کرتے تھے اس کے بعد بسم اللہ الرحم الرحیم پڑھتے تھے اور جب سورۃ الحمد سے فارغ ہوتے دوبارہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے اور کہا کرتے تھے ''اگر بسم اللہ کا پڑھنا ضروری نہیں تو پھر قرآن میں اسے کیوں لکھا گیا ہے،،

۶۵۵

ان کے علاوہ بھی اس مضمون کی کئی روایات موجود ہیں سنن بیہقی ج ۲ ص ۴۳ ، ۴۷ کی طرف رجوع کریں ، کنز العمال ، ج ۲ ، ص ۱۹۰ فضائل السورہ والآیات نیز باب البسملہ آیہ ، ص ۳۷۵ میں ثعلبی نے علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جب آپ (ص) نماز میں کسی سورے کو پڑھتے تھے تو شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ترک کر دے اس نے سورہ کو ناقص پڑھا ہے نیز آپ (ص) فرماتے تھے بسم اللہ الرحمن الرحیم سبع مثانی کا حصہ ہے۔

ضمیمہ (۱۵) ص ۴۴۶

معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

بیہقی نے ج ۲ ، ص ۴۹ پر اپنی سند سے انس بن مالک سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ معاویہ نے مدینہ میں نماز پڑھی اس نے نماز میں سورہ فاتحہ بلند آواز میں پڑھا البتہ اس نے سورہ حمد سے پہلے تو بسم اللہ کو پڑھا مگر حمد کے بعد پڑھے جانے والے سورہ سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ اس کی قرات مکمل ہو گئی ، اس کے بعد تکبیر بھی نہیں پڑھی اور رکوع میں چلا گیا اور اس طرح اپنی نماز مکمل کی جب معاویہ سلام پھیر چکا تو نماز میں موجود مہاجرین ہر طرف سے بول اٹھے معاویہ ! تم نے نماز میں چوری کر لی یا بھول گئے ہو ؟ اس واقعہ کے بعد جب بھی معاویہ نماز پڑھتا تو سورہ الحمد کے بعد والے سورہ سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھتااور سجدے میں جانے سے قبل تکبیر بھی پڑھتا تھا،،۔

۶۵۶

اسی روایت کو بیہقی نے ایک اور سند سے بھی بیان کیا ہے البتہ اس روایت کا مضمون یہ ہے کہ معاویہ نے سورۃ الحمد سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اور اس کے بعد دوسرے سورے سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اس کے علاوہ اس روایت میں اعتراض کرنے والوں میں مہاجرین کے علاوہ انصار کابھی ذکر ہے اس روایت کو حاکم نے مستدرک کی جلد۱ ص ۲۳۳ میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے اور مسلم کی شرائط پر پوری اترتی ہے۔

ضمیمہ (۱۶) ص ۴۴۶

رسول (ص) خدا کا بسم اللہ کو پڑھنا اور روایت انس کی توجیہ

قرات بسم اللہ کی ایک روایت اسی کتاب کے ص پر گزر چکی ہے قتادہ نے انس سے روایت کی ہے ''رسول خدا (ص) سورہ حمد کی تلاوت مد کیساتھ کرتے تھے اس کے بعد انس نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کی اور بسم اللہ ، الرحمن اور الرحیم کو مد کے ساتھ پڑھا ،،(۱)

شریک بن انس کی روایت ہے:

''میں نے رسول خدا (ص) کو بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے سنا،،

____________________

(۱) سنن بیہقی ، باب افتتاح القراء ۃ فی الصلوٰۃ : ببسم اللہ الرحمن الرحیم ، ج ۲ ، ص ۴۶ ۔ مستدرک حدیث الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۲۳۳

۶۵۷

حاکم کہتے ہیں : اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

عسقلانی کی روایت ہے:

''میں نے بہت دفعہ معتمربن سلیمان کی اقتداء میں نماز صبح اور نماز مغرب پڑھی معتمر سورہ فاتحہ سے پہلے اور اس کے بعد بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے تھے ۔ میں (عسقلانی) نے معتمر کو یہ کہتے سنا ہے : میں نماز میں ہمیشہ اپنے والد کی اقدا کرتا ہوں اور میرے والد کہتے تھے : میں نماز میں ہمیشہ انس بن مالک کی اقتدا کرتا ہوں اورانس کہتے تھے : میں نماز میں رسول خدا (ص) کی اقدا کرتا ہوں،،

(یہ سب نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ الرحمنالرحیم پڑھتے تھے)

حاکم کہتے ہیں اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں(۱)

ابو نعامہ انس سے روایت کرتے ہیں:

''رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے ،،(۲)

مولف : ممکن ہے انس کی گزشتہ روایت (جس سے بسم اللہ کے جزء قرآن نہ ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے) سے مراد یہ ہو کہ رسول خدا (ص) اور آپ کے بعد دوسرے خلفاء نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ (ص) نے بسم اللہ کو سرے سے نہیں پڑھا) اس مطلب کا قرینہ اور شاہد انس کی مذکورہ بالا روایت ہے (جس میں اس امر کی تصریح ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا) اس مطلب کی تائید گزشتہ روایت میں انس کی اس تعبیر سے بھی ہوتی ہے کہ ''میں نے قرات نہیں سنی،، بلکہ انس کی بعض روایات میں تو یہ جملہ موجود ہے کہ ''میں نے ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھتے نہیں سنا،، بعض روایات میں یہ جملہ موجود ہے۔

____________________

(۱) مستدرک ، ج ۱ ، ص ۲۳۳ ۔۲۳۴

(۲) سنن بیہقی ، باب من قال لایجہر بہا ، ج ۲ ، ص ۵۲

۶۵۸

''رسول خدا (ص) نے ہمیں نماز پڑھائی مگر ہمیں بسم اللہ کی قراً سنائی نہیں دی(۱)

بنا برایں انس کی گزشتہ روایت اور ان روایات کے درمیان کوئی منافات نہیں پائی جاتی جن کے مطابق رسول خدا (ص) کے بعد دوسرے اصحاب بسم اللہ پڑھتے تھے۔

ہاں ! ایک روایت یہ کہتی ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر قرات کے اول اور آخر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے(۲)

لیکن اس روایت کے راویوں میں ولید بن مسلم قرشی شامل ہے جس کا ثقہ ہونا مخدوش ہے بلکہ بہت سوں نے تو تصریح کی ہے کہ یہ شخص بہت زیادہ خطا کاراور جعلساز تھا(۳)

جہاں تک قتادہ کی اس روایت کا تعلق ہے جو انس سے مروی ہے جس کے مطابق رسول خدا (ص) ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان قرات کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے(۴)

تقریباً اسی روایت کی ہم مضمون وہ روایت ہے جس کو نسائی نے باب البداء بفاتحتہ الکتاب ، ج ۱ ، ص ۱۴۳ میں ذکر کیا ہے قتادہ کس اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے بعد دوسرے خلفاء ، سورہ فاتحہ سے ابتداء کرتے تھے (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ یہ حضرات سورہ فاتحہ کی ابتداء آیتہ الحمد للہ سے کرتے تھے ) اور سورۃ فاتحتہ التکاب پر الحمدللہ رب العالمین کا اطلاق ہوتا رہتا ہے چنانچہ بعض گزشتہ روایات میں بھی سورہ فاتحہ کو الحمدللہ رب العالمین کہا گیا ہے۔

شافعی نے بھی اس روایت کو اسی معنی پر محمول کیا ہے۔

____________________

(۱) ایضاً باب ترک الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۴۴

(۲) صحیح مسلم ، باب حجتہ من قال لایجہربابسملہ ، ج ۲ ، ص ۱۲

(۳) تہذیب التہذیب ملا خطہ فرمائیں۔

(۴) ترمذی باب ماجاء فی افتتاح القرات بالحمد ، ج ۲ ، ص ۴۵ ۔ سنن ابی داؤد ، باب الجہر بسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۲۵

۶۵۹

ضمیمہ (۱۷) ص ۴۷۵

ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

اس موضوع کی روایات اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں ذکر کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی البتہ ہم صرف احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ ہی کی وہ روایت ذکر کرتے ہیں کہ جو اس کی کتاب ''المنتقی ٰ من اخبار المصطفی،، میں مذکور ہے اس کے علاوہ بعض دوسرے حضرات کی روایات کو بھی ذکر کریں گے۔

۱۔ بریدہ سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''میں (ص) نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن مجھے اپنی والدہ گرامی کی زیارت کی اجازت دی گئی ہے تم بھی اس کی زیارت کیا کروں کیونکہ اس سے آخرت کی یاد دہانی ہوتی ہے،،۔

بریدہ کہتے ہیں ، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

۲۔ ابوہریرہ سے مروی ہے :

''رسول اسلام (ص) نے اپنی والدہ گرامی کی قبر کی زیارت کی ۔ آپ (ص) خود بھی روئے اور ارد گرد موجود افراد کو بھی رلا دیا ۔ پھر فرمایا : میں (ص) نے خدا سےاپنی والدہ کیلئے طلب مغفرت کی اجازت مانگی مگر خدا نے اجازت نہ دی پھر میں نے اس کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی جو خدا نے دے دی پس تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو اس لئے کہ زیارت قبور موت کی یاد دلاتی ہے،،۔

ابوہریرہ کہتے ہیں اس روایت کو علماء کی کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689