البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313913 / ڈاؤنلوڈ: 9311
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

۴ _ انسانوں كى ہدايت تك دستيابى اور ان پر نعمت الہى كى تكميل آنحضرت (ص) كى بعثت كے اہداف سے ہے_

فولوا وجوهكم شطره و لعلكم تهتدون كما ارسلنا فيكم رسولاً اگر ''كما ارسلنا'' تبديلى قبلہ كى پيامبر اسلام (ص) كى رسالت سے تشبيہ كو بيان كررہاہو تو ''لاتم نعمتى عليكم و لعلكم تہتدون'' وجہ شبہ كا بيان ہے يعنى يہ كہ جس طرح آنحضرت (ص) ، كى بعثت بندوں پر اتمام نعمت اور انكى ہدايت كے حصول كے لئے ہے اسى طرح تبديلى قبلہ كے بھى ايسے ہى اہداف و نتائج ہيں _

۵ _ اللہ تعالى كى طرف سے انسانوں كو دى گئي نعمتيں آنحضرت (ص) كى بعثت كے بغير نامكمل تھيں _

و لاتم نعمتى عليكم و لعلكم تهتدون كما ارسلنا فيكم رسولاً يہ مطلب ماقبل مطلب كے ارتباط سے حاصل ہوتاہے_

۶ _ انبيائ( عليہم السلام) كا انتخاب خود عوام ميں سے ہونا اللہ تعالى كى نعمات ميں سے ہے _كما ارسلنا فيكم رسولاً منكم

۷_ انسانوں كے لئے آيات الہى كى تلاوت اور ان كو آلودگيوں (شرك اور ...) سے پاك كرنا پيامبر اسلام (ص) كے فرائض اور آپ (ص) كى رسالت كے اہداف ميں سے ہے _يتلوا عليكم آياتنا و يزكيكم

۸_ لوگوں كو قرآنى حقائق و معارف اور حكمت كى تعليم دينا آنحضرت (ص) كے فرائض اور آپ (ص) كى رسالت كے اہداف ميں سے ہے _و يعلمكم الكتاب و الحكمه

۹_ بشريت كو ايسے علوم و حقائق كى تعليم دينا جن تك ان كى رسائي ممكن نہيں ہے آنحضرت (ص) كے اہداف اور پروگراموں ميں سے ہے _و يعلمكم ما لم تكونوا تعلمون

۱۰_ خود كو آلودگيوں ، ناپاكيوں سے پاك كرنا، قرآن كريم كو سيكھنا ، حكمت كى تعليم حاصل كرنا اور دينى احكام و معارف كو سيكھنا نہايت ہى بلند و برتر اور قابل قدر امر ہے _كما ارسلنا فيكم رسولاً و يعلمكم الكتاب والحكمة

۱۱_ دين كے مبلغين كے بنيادى ترين فرائض اور سرفہرست امور انسانوں كو آلودگيوں سے پاك كرنا

۵۲۱

اور دينى احكام و معارف اور قرآن حكيم كى تعليم دينا ہے_يتلوا عليكم آياتنا و يزكيكم و يعلمكم الكتاب والحكمة

۱۲ _ پيامبر اسلام (ص) نے انسانوں كو دينى راہوں اور الہى معارف كى تعليم دينے كے علاوہ ديگر علوم كى بھى تعليم دي_*و يعلمكم ما لم تكونوا تعلمون ''يعلمكم'' كا تكرار اس امر كى طرف اشارہ ہے كہ پيامبر اسلام(ص) نے انسانوں كو دو طرح كے علوم كى تعليم دي_

الف) دينى علوم اور يہ جملہ''يعلمكم الكتاب والحكمة'' اس امر كى طرف اشارہ ہے _

ب) ديگر علوم اور يہ جملہ''يعلمكم ما لم تكونوا تعلمون'' اس امر كى طرف اشارہ ہے_

آيات الہى : آيات الہى كى تلاوت ۷

اقدار: قدروں كا معيار ۱۰

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نعمتيں ۴،۶

اللہ تعالى كے انبياءعليه‌السلام : ۱

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا بشر ہونا ۶; انبياءعليه‌السلام كى موقعيت ۶; انبياءعليه‌السلام كا نعمت ہونا ۶

انسان: انسانوں كو تعليم دينے كى اہميت ۷،۸; انسانوں كا تزكيہ ۷،۱۱; انسانوں كى تعليم ۹،۱۲; انسانوں كى ہدايت۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے اہداف ۷،۸،۹; آنحضرت (ص) كى بعثت كى اہميت ۵; آنحضرت (ص) كا بشر ہونا۲; آنحضرت (ص) كى تاريخ ۱; آنحضرت (ص) كى تعليمات ۹; آنحضرت (ص) كا مقام و موقعيت ۲; آنحضرت (ص) كى رسالت ۱; آنحضرت (ص) كى بعثت كا فلسفہ ۴; آنحضرت (ص) كى تعليمات كا دائرہ ۱۲; آنحضرت (ص) كى ذمہ دارى ۷،۸; آنحضرت (ص) كى رسالت كى نعمت ۳

تزكيہ : تزكيہ كى قدر و منزلت ۱۰

حكمت : حكمت كى تعليم كى قدر و منزلت ۱۰; حكمت كى تعليم ۸

دين: دين سيكھنے كى قدر و منزلت ۱۰; دين كى تعليم ۱۱

قبلہ : تبديلى قبلہ كى نعمت ۳

۵۲۲

قرآن حكيم: قرآن حكيم كى تعليم كى قدر و منزلت ۱۰ قرآن حكيم كى تعليم ۸،۱۱

مبلغين : مبلغين كى ذمہ دارى ۱۱;فعل '' اذكر'' امر كا جواب ہے لہذا ايك مقدر حرف شرط كے ساتھ مجزوم ہے _ پس يہ جملہ در حقيقت يوں بنتا ہے '' فاذكرونى ان

مسجد الحرام : مسجد الحرام كا قبلہ بننا۳

نعمت : نعمت كى تكميل ۴; تكميل نعمت كے اسباب ۵; نعمت كے درجات ۴

ہدايت: ہدايت كى اہميت ۴

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ ( ۱۵۲ )

اب تم ياد كروتا كہ ہم تمھيں ياد ركھيں اور ہماراشكريہ ادا كرو اور كفران نعمت نہ كرو(۱۵۲)

۱_ اللہ تعالى كا ذكر كرنا اور اس سے غفلت نہ كرنا ضرورى ہے_فاذكروني

۲_ اللہ تعالى كى ياد ميں رہنا اسكى عنايات اور خصوصى توجہ كو جذب كرنے كا باعث ہے_فاذكرونى اذكركم

تذكرونى اذكركم_ ميرى ياد ميں رہو اور ميرى ياد ميں رہوگے تو ميں تمہارى ياد ميں ر ہوں گا'' اللہ تعالى كا بندوں كو ياد كرنا ان پر عنايت و توجہ كے معنى ميں ہے _

۳ _ بارگاہ پروردگار ميں شكرگزارى ضرورى ہے _واشكروالي

۴ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت اور بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف قبلہ كى تبديلى اللہ تعالى كى مسلمانوں پر ايسى نعمتيں ہين جن كے احترام ميں مسلمانوں كو كيلئے ضرورى ہے كہ ہميشہ اللہ تعالى كى ياد ميں رہيں _

فولوا وجوهكم شطره كما ارسلنا فيكم رسولاً فاذكروني يہ مطلب حرف ''فا''سے متضاد ہے

۵۲۳

'اذكروني'' كو مذكورہ نعمتوں (قبلہ كى تبديلى اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت )پر تفريع كررہا ہے_

۵ _ آنحضرت (ص) كى بعثت اور تبديلى قبلہ اللہ تعالى كى اپنے بندوں سے ياد اور توجہ كا ايك نمونہ ہے *

و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره كما ارسلنا فيكم رسولاً فاذكرونى اذكركم مذكورہ مطلب جملہ'' فاذكروني ...'' كى بعثت پيامبر(ص) اور تبديلى قبلہ پر تفريع سے حاصل ہونے والا ايك دوسرا احتمال ہے يہكه''فاذكرونى اذكركم كما ذكرتكم بارسال الرسول و تحويل القبلة ''

۶ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت اور تبديلى قبلہ ايسى دو نعمتيں ہيں جو بارگاہ ايزدى ميں شكر گزاى كے لائق ہيں _

فولوا وجوهكم شطره كما ارسلنا فيكم رسولاً و اشكروا لي شكر نعمت كے مقابلے ميں ہوتاہے اور ماقبل آيات كى روشنى ميں يہاں نعمت كا مورد نظر مصداق رسالت اور تبديلى قبلہ ہے _

۷_ اللہ تعالى كى نعمتوں كے كفران سے اجتناب ضرورى ہے _و لا تكفرون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' لا تكفرون'' در اصل يوں ہو ''و لا تكفروا نعمتي''

۸_ ياد خدا سے غفلت اور اسكى نعمات كى ناسپاسى تعمت كے مقد ہونے كى وجہ سے و ناشكرى اللہ تعالى كے انكار كے برابر ہے _فاذكرونى و اشكرولى و لا تكفرون اللہ تعالى كے شكر و سپاس ادا كرنے كا حكم دينے كے بعد( لا تكفرون) اللہ تعالى كے كفر و انكار سے نہى كرنے كا ذكر كرنا اس مطلب كو بيان كرتاہے كہ ياد خدا سے غفلت اوراسكى ناشكرى انسان كو خدا كے انكار اور كفر كى طرف كھينچ لے جاتى ہے يا يہ كہ يہ خود اللہ كے كفر اور انكار كے مساوى ہے _

۹_ ابوعمرو زبيرى امام صادقعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ حضرتعليه‌السلام نے فرمايا'' الوجه الثالث من الكفر كفر النعم و ذلك قوله تعالى فاذكرونى اذكركم و اشكروالى و لا تكفرون ...''(۱) '' كفر كى اقسام ميں سے تيسرى قسم كفر ان نعمت ہے اسى بارے ميں كلام خداوندى ہے... فاذكرونى اذكركم و اشكروالى و لا تكفرون ''

۱۰_ محمد بن مسلم امام باقرعليه‌السلام سے روايت كرتے ہيں كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا''تسبيح فاطمة عليه‌السلام من ذكر الله الكثير الذى قال اذكرونى اذكركم (۲) تسبيح حضرت فاطمةعليه‌السلام ذكر كثير ہے جو اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے ''ميرا ذكر كرو تو ميں تمہارا ذكركروں گا''_

____________________

۱) كافى ج/ ۲ ص ۳۹۰ ح۱ ، نور الثقلين ج/۱ص ۱۴۰ ح ۴۳۰_ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۷ ح ۱۲۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۰ ح ۴۲۹_

۵۲۴

۱۱_''وروى ان رسول الله(ص) خرج على اصحابه فقال: قال سبحانه: فاذكرونى اذكركم يعنى اذكرونى بالطاعة والعبادة اذكركم بالنعم والاحسان والرحمة والرضوان (۱) اللہ تعالى كے اس كلام ''اذكرونى اذكركم'' كے بارے ميں رسول خدا (ص) سے روايت ہے كہ اس مراد يہ ہے كہ تم اطاعت اورعبادت كے ساتھ مجھے ياد كرو تو ميں تمہيں نعمات، احسان ، رحمت اور رضوان كے ساتھ ياد كروں گا''_

۱۲ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ رسول اسلام (ص) نے ارشاد فرمايا''ان الملك ينزل الصحيفة اول النهار و اول الليل يكتب فيها عمل ابن آدم فاملوا فى اولها خيراً و فى آخرها خيراً فان الله يغفر لكم ما بين ذلك انشاء الله فان الله يقول اذكرونى اذكركم'' (۲) ''فرشتہ دن كے شروع اور رات كے آغاز ميں انسان كا نامہ اعمال لاتا اور اس ميں بنى آدم كے اعمال كو تحرير كرتاہے پس كوشش كرو كہ دن اور رات آغازميں اچھى املاء (تحرير) لكھاؤ بےشك اللہ تعالى اس كے مابين جو كچھ (گزرا) ہے معاف فرمائے گا انشاء اللہ كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے تم مجھے ياد كرو ميں تمہيں ياد كرونگا_''

اطاعت: اللہ تعالى كى اطاعت ۱۱

اللہ تعالى : رحمت الہى ۱۱; اللہ تعالى كو جھٹلانے كى بنياد۸; عنايات الہى كو جذب كرنے كى بنياد۲; نعمات الہى ۴

انسان: انسانى عمل كا تحرير ہونا ۱۲

بندگان خدا: اللہ تعالى كا بندوں كا ذكر كرنا ۵; بندوں الله كى طرف سے كے ذكر كے اسباب۲،۱۱

پيامبر اسلام (ص) : بعثت پيامبر (ص) كى اہميت ۶; بعثت پيامبر (ص) ۵; بعثت پيامبر (ص) كى نعمت ۶; رسالت پيامبر (ص) كى نعمت ۴

حضرت فاطمہعليه‌السلام : حضرت فاطمہعليه‌السلام كى تسبيح ۱۰

ذكر: ذكر الہى كے نتائج ۲; ذكر الہى كى اہميت۴; ذكر الہى ۱۰،۱۱

روايت: ۹،۱۰،۱۱،۱۲

شكر: شكر الہى كى اہميت ۳; شكر نعمت ۴،۶

____________________

۱) عدةالداعى ص ۲۳۸ ، بحار الانوار ج/۹۰ ص ۱۶۳ ح ۴۲_

۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۶۷ ح ۱۱۹، مجمع البيان ج/ ۱ ص ۴۳۱_

۵۲۵

عبادت: عبادت الہى ۱۱

غفلت : اللہ تعالى سے غفلت كے نتائج ۸ غفلت سے اجتناب ۱

قبلہ : تبديلى قبلہ كى اہميت ۶; تبديلى قبلہ ۵; تبديلى قبلہ كى نعمت ۴،۶

كفر: كفر كى اقسام ۹

كفران: كفران نعمت كے آثار۸; كفران نعمت سے اجتناب ۷; كفران نعمت ۹

مسلمان: مسلمانوں كى ذمہ دارى ۴

ملائكہ : ملائكہ كا اعمال تحرير كرنا ۱۲;ملائكہ كى اہميت و كردار۱۲

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ( ۱۵۳ )

ايمان والو صبر اور نماز كے ذريعہمدد مانگو كہ خدا صبر كرنے والوں كے ساتھہے (۱۵۳)

۱ _ مومنين كو اللہ تعالى كا فرمان اور نصيحت ہے كہ صبر كريں اور نماز قائم كريں _يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت پہ ايمان لانا مومنين كے لئے مشكلات اور پريشانيوں كا باعث ہے _

يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة آنحضرت (ص) كى رسالت كے بيان كرنے كے بعد مومنين كو مخاطب كركے صبر اور نماز كى نصيحت كرنا اورانہيں مدد طلب كرنے كا فرمان دينا در اصل مخاطبين كو يہ نكتہ القا كرنا مقصود ہے كہ آنحضرت (ص) كى رسالت پر ايمان كے باعث مشكلات اور پريشانيوں سے دوچار ہونا پڑے گا_

۳ _ ايمان كى راہ ميں آنے والى مشكلات اور پريشانيوں سے نمٹنے كے لئے كاميابى و كامرانى كے دو راستے ہيں ايك صبر و استقامت اختيار كرنا اور دوسرے

۵۲۶

نماز قائم كرنا _يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۴ _ عنايات و نصرت الہى كو جذب كرنے كا عامل صبر اور نماز ہے _يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۵ _ راہ ايمان ميں صبر و استقامت كرنے والوں كا اللہ تعالى ياور و مددگار ہے_ان الله مع الصابرين

۶ _ مومنين كے لئے ياد خدا ميں رہنے اور ياد خدا سے غفلت كے خاتمے ميں صبر اور نماز مددگار ہيں _*فاذكرونى اذكركم يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة يہ مطلب اور اسكے بعد والا مطلب اس آيت اور اس سے قبل والى آيت ميں ارتباط كو بيان كررہے ہيں يعنى مورد بحث آيہ مجيدہ ايك راہنمائي ہے كہ ياد خدا سے غفلت كو كس طرح دلوں سے اكھاڑا جاسكتاہے اور اسكے مقابل شكر الہى كے جذبہ كو كيسے دلوں ميں جگہ دى جائے_

۷_ اللہ تعالى كے حضور شكر گزارى اور اس كے كفر سے دورى كے جذبے كو پيدا كرنے كے لئے صبر اور نماز دو كامياب عوامل ہيں _*واشكروالى و لا تكفرون يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر والصلوة

۸_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل '' و استعينوا بالصبر'' قال الصبرالصيام (۱) اللہ تعالى كے اس كلام ''واستعينوا بالصبر'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا صبر سے مراد روزہ ہے _

اللہ تعالى : الہى امداد ۵; الہى نصيحتيں ۱; اللہ تعالى كى حمايت و عنايت جذب كرنے كے عوامل ۴

ايمان : پيامبر اسلام (ص) پر ايمان كے نتائج ۲

ذكر: ذكر خدا كى بنياد۶

روايت: ۸

روزہ : روزہ كى اہميت ۸

سختى : سختى كو آسان بنانے كى روش ۳

شكر : شكر كا جذبہ پيدا كرنا ۷

____________________

۱) كافى ج/ ۴ ص ۶۳ ح ۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۷۶ ح ۱۸۲_

۵۲۷

صابر لوگ: صابرين كى امداد ۵

صبر: صبر كے نتائج ۳،۴،۶،۷; صبر كى اہميت ۱

غفلت : غفلت كو دور كرنے كى بنياد ۶

كاميابى : كاميابى كے عوامل ۳

كفر: كفر سے اجتناب كے اسباب ۷

مدد طلب كرنا : روزہ سے مدد طلب كرنا ۸

مومنين : مومنين كى شرعى ذمہ دارى ۱; مومنين كو نصيحت ۱; مومنين كى مشكلات ۲

نماز : نماز كے نتائج ۳، ۴،۶ ،۷; نماز كى اہميت ۱

وَلاَ تَقُولُواْ لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبيلِ اللّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ ( ۱۵۴ )

اور جو لوك راہ خدا ميں قتلہوجاتے ہيں انھيں مردہ نہ كہو بلكہ وہزندہ ہيں ليكن تمھيں ان كى زندگى كا شعورنہيں ہے (۱۵۴)

۱ _ راہ خدا ميں قتل ہونے والے زندہ ہيں اور خصوصى زندگى كے مالك ہيں _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء شہداء كے علاوہ ديگر انسان بھى عالم برزخ كى زندگى ركھتے ہيں ليكن اسكے باوجود اللہ تعالى نے شہداء كے لئے زندگى كا ذكر فرمايا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ شہداء كى زندگى خاص طرح كى ہے _

۲ _ اللہ كى راہ ميں قتل ہونے والوں كو مردہ نہيں كہنا چاہيئے اور نہ ہى انہيں مردوں ميں شمار كرنا چاہيئے _

و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

۵۲۸

۳ _ دشمنان دين سے بر سر پيكار ہونا اللہ تعالى كے نزديك اعلى اقدار ميں سے ہے _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء شہداء خصوصى حيات كے مالك ہيں اس حقيقت كو بيان كرنے كا ہدف جہاد كى ترغيب دلانا اور يہ بيان كرناہے كہ يہ اعلى ترين اقدار ميں سے ہے _

۴ _اعمال كى قدر و قيمت كا معيار فى سبيل اللہ ہونا ہے _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله

۵ _ شہداء زندہ ہيں ليكن افكار اس امر كو درك كرنے سے عاجز ہيں _بل احياء و لكن لا تشعرون

۶_ عالم ہستى ميں ايسے حقائق بھى ہيں جو انسانى افكار و شعور سے ماوراء ہيں _بل احياء و لكن لا تشعرون

۷_ عالم برزخ اور برزخى زندگى كا وجود عالم ہستى كے حقائق ميں سے ہے _ولا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

۸ _ راہ ايمان كى مشكلات ميں سے ايك اللہ كى راہ ميں جہاد، نبرد آزمائي اور اسكى سختياں ہيں جنكے لئے صبر و استقامت اور نماز سے مدد لينى چاہيئے اور اپنے ايمان پر ثابت قدم رہنا چاہيئے_ استعينوا بالصبر والصلوة و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات

۹_ شہداء كو خصوصى زندگى عطا كرنا راہ ايمان ميں صبر و استقامت كرنے والوں كے لئے اللہ تعالى كى حمايت و نصرت كا ايك جلوہ ہے _ان الله مع الصابرين _ و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات

۱۰_ قرآن حكيم كى روشوں ميں سے ايك يہ ہے كہ اہل ايمان كو الہى ذمہ داريوں كى ادائيگى كى طرف ترغيب دلانے كے ساتھ ساتھ ان كى فكرى بنيادوں كو مضبوط كرے _و لاتقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

انسانوں كو ايمان كى راہ ميں صبر و استقامت اور سختيوں كو برداشت كرنے كى دعوت جسكا واضح نمونہ جہاد اور قتل ہونا ہے _ كے بعد اللہ تعالى اس كا حقيقت كو بيان فرمانا كہ فى سبيل اللہ قتل ہونے والے خصوصى زندگى كے حامل ہيں شہداء كے فنا اور نابود ہونے كے نظريئے كى نفى كرتا ہے تا كہ اہل ايمان فرامين الہى ( راہ ايمان ميں صبر واستقامت كا مظاہرہ كرنا اور ...) كو بہتر طور سے انجام ديں _

۱۱ _ انسان كا اپنے اعمال پر قائم رہنا اور استقامت كا مظاہرہ كرنا اسكے افكار و نظريات سے مطابقت كے ذريعے ممكن ہے _و لا تقولوا لمن يقتل فى سبيل الله اموات بل احياء

مذكورہ مطلب كہ مورد بحث آيہ مجيدہ ميں اعمال كى بنياديں فراہم كرنے كے ليئے نظريات كو پيش كيا گياہے_

۵۲۹

اقدار:۳ قدروں كا معيار ۴

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى عنايات۹; اللہ تعالى كى حمايت كے مظاہر ۹; اللہ تعالى كى معيت ۹

امداد طلب كرنا : صبر سے امداد طلب كرنا۸; نماز سے مدد طلب كرنا ۸

ايمان : ايمان ميں استقامت ۸; ايمان كى راہ ميں سختياں ۸

تكليف شرعي: تكليف شرعى كى تشويق ۱۰

جہاد: جہاد كى قدر و منزلت ۳; جہاد كى سختياں ۸

حقائق : غير قابل ادراك حقائق ۵،۶

خلقت: عالم خلقت كے حقائق كا ادراك ۶; عالم خلقت كے حقائق ۷

حيات: برزخى زندگى كى حقانيت ۷

سبيل اللہ : سبيل اللہ كى اہميت ۴

سختى : سختى كو برداشت كرنا ۸; سختى كو آسان كرنے كى روش ۸

شہداء : شہداء كى زندگى كا ادراك ۵; شہداء كى زندگى ۱،۲،۹;شہداء كے درجات ۱،۲

صابرين : صابرين كى حمايت ۹

صبر: صبر كى اہميت ۸

عالم برزخ : عالم برزخ كى حقانيت ۷

عمل: عمل كى اہميت ۴; عمل كے تسلسل كے عوامل ۱۱

فكر: فكر و عمل كى نسبت ۱۱

قرآن كريم : قرآن كى روش بيان ۱۰

نماز : نماز كى اہميت ۸

۵۳۰

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ ( ۱۵۵ )

اور ہم يقينا تمھيں تھوڑےخوف تھوڑى بھوك اور اموال ، نفوس اورثمرات كى كمى سے آزمائيں گے اور اےپيغمبر آپ ان صبر كرنے والوں كو بشارتديديں (۱۵۵)

۱ _ مومنين كى آزمائش اللہ تعالى كى حتمى سنتوں (روشوں ) ميں سے ہے _و لنبلونكم ''بلائ'' كا معنى آزمائش ہے فعل ''لنبلون'' ميں لام قسم اور نون تاكيد اسكے استمرار اور حتمى ہونے كو بيان كررہے ہيں _

۲ _ اہل ايمان كو خوف اور بھوك ميں مبتلا كركے اللہ تعالى انہيں آزماتاہے _و لنبلونكم بشيء من الخوف والجوع

۳ _ و ہ امور جن ميں مالى ، جاني، كمائي كا نقصان اور نعمتوں كى كمى ہو ان ميں مبتلا كركے اللہ تعالى مومنين كى آزمائش كرتاہے _و لنبلونكم بشيء من نقص من الاموال والانفس والمثرات

۴_ دشمنان دين سے نبرد آزمائي اور بر سر پيكار ہونا اور اس كے نتائج ( خوف، بھوك، مالى و جانى نقصان اورنعمتوں كى كمي) راہ ايمان كى مشكلات ميں سے ہيں _لا تقولوا لمن يقتل و لنبلونكم بشيء من الخوف

جہاد اور فى سبيل اللہ قتل ہونے كے بعد خوف، بھوك اور سے آزمائش كا بيان كرنا اس مطلب كى حكايت كرتاہے كہ ''الخوف و ...'' سے مراد وہ خوف اور بھوك ہيں جو دشمنان دين كے ساتھ معركہ آرائي كى وجہ سے پيدا ہوتے ہيں يعنى يہ كہ رسالت پر ايمان كا نتيجہ دشمنان دين سے صف آرائي اور اسكے نتائج خوف، بھوك اور ہيں _

۵ _ اللہ كى راہ ميں قتل ہونے والے ايك ايمانى معاشرے كے لئے امتحان كا ذريعہ ہيں _و لنبلونكم بشيء و نقص من الاموال والانفس ماقبل آيت كى روشنى ميں '' نقص الانفس'' كا مورد نظر مصداق راہ خدا ميں قتل ہونے والے افراد ہيں _

۶_ سالكان راہ ايمان كے لئے خوف اور بھوك كى مختلف اقسام، مالى و جانى نقصانات اور نعمتوں كو برداشت

كرنے كے لئے بہترين اور كارآمد وسيلہ صبر و استقامت اور نماز كا قيام ہے_يا ايها الذين آمنوا استعينوا بالصبر و لنبلونكم بشيء من الخوف والثمرات

۵۳۱

۷_ راہ ہدايت كو پيش كرنے كے ساتھ ساتھ مشكلات اور پھر ان مشكلات پر قابو پانے كا كامياب راستہ بيان كرنا قرآن حكيم كى روشوں ميں سے ايك ہے_يا ايها الذين آمنوا لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين

آيات كے اس حصہ ميں راہ ہدايت جس سے مراد ايمان بر رسالت اور ...ہے كو پيش كرنے كے ساتھ ساتھ اللہ تعالى نے اس راہ ميں پيش آنے والى مشكلات كا ذكر فرماياہے اسى طرح ان پر قابو پانے كے لئے نماز اور صبر سے امداد حاصل كرنے كا امر فرماياہے_

۸_ معاشرے كے منتظمين اور تربيت كرنے والوں كو چاہيئے كہ مجوزہ راستوں ميں پيش آنے والى مشكلات كو ان راستوں پر چلنے والوں كے لئے بيان كريں اور ان پر كاميابى كے اسباب كو بھى بيان كريں _و لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين مورد بحث آيہ مجيدہ اور ماقبل آيات مباركہ سے جوبات سامنے آتى ہے وہ صحيح راہ، اس ميں پيش آنے والى مشكلات اور ان پر كاميابى كے طريقے كو بيان كرنا ہے يہ چيز سب تربيت كرنے والوں اور منتظمين كے لئے ايك درس ہے كہ فقط صحيح راہ كو بيان كرنے پر اكتفا نہ كريں بلكہ مشكلات اور ان پر كاميابى كے راستوں كو بھى بيان كريں _

۹_ الہى امتحانات اور آزمائشيں انسانوں كے لئے طاقت فرسا اور ناقابل برداشت نہيں ہيں _و لنبلونكم بشيء من الخوف مفسرين نے وضاحت كى ہے كہ '' شيئ'' كو نكرہ استعمال كرنا اسكى كمى كو بيان كرنے كے لئے ہے يعنى '' بشيء يسير من الخوف ...'' الہى امتحانات كے موارد كو ناچيز اور كم شمار كرنا اس امر كى طرف اشارہ ہے كہ الہى آزمائشيں طاقت فرسا نہيں ہوتيں _

۱۰_ اللہ تعالى جن امور سے مومنين كو آزماتاہے مختلف، متنوع اور گوناگوں ہيں _و لنبلونكم بشيء من الخوف والجوع و نقص من الاموال والانفس والثمرات

۱۱ _ مومنين كو صبر كرنے والے اور صبر نہ كرنے والوں ميں تقسيم كرنا قرآن كريم ميں اہل ايمان ككى درجہ بنديوں ميں سے ہے _و بشر الصابرين

۱۲ _ وہ مومنين جو راہ ايمان كى سختيوں اور دشواريوں كو برداشت كرتے ہيں ان كو عظيم اجر ملے گا_و بشر الصابرين يہ جو بشارت كے متعلق كا ذكر نہيں ہوا اور صابرين كے اجر كو مشخص نہيں كيا گيا اس امر كى طرف اشارہ ہے كہ يہ اجر بہت گراں قدر اور عظيم ہے (الميزان سے اقتباس)_

۵۳۲

۱۳ _ پيامبر اسلام(ص) كى ذمہ دارى ہے كہ صابرين كے لئے الہى بشارتوں كا اعلان فرمائيں _و بشر الصابرين

۱۴ _ دينى قائدين كو چاہيئے كہ صابرين كو خوشخبرى ديں كہ وہ الہى رحمتوں سے بہرہ مند ہوں گے_و بشرالصابرين

۱۵_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''من صبر كرهاً ...نصيبه ماقال الله عزوجل ''و بشر الصابرين'' اى بالجنة والمغفرة (۱) جو كوئي مشكلات ميں صبر كرے تو اسكى جزا مغفرت اور جنت ہے يہى ہے جو اللہ تعالى كے كلام '' و بشر الصابرين '' ميں خوشخبرى دى گئي ہے_

۱۶_قال رسول الله (ص) يابن مسعود قول الله '' و لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين'' قلنا يا رسول الله (ص) فمن الصابرون ؟ قال الذين يصبرون على طاعة الله و اجتنبوا معصيته الذين كسبوا طيباً و انفقوا قصداًو قدموا فضلاً فافلحوا (۲) رسول اسلام (ص) سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے ارشاد فرمايا اے ابن مسعود اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے ''و لنبلونكم بشيء من الخوف و بشر الصابرين'' ہم نے آنحضرت (ص) سے عرض كيا كہ صابرين كون لوگ ہيں ؟ تو آپ (ص) نے فرمايا وہ لوگ ہيں جو اللہ كى اطاعت پر صبر كريں ، گناہوں سے دورى اختيار كريں ، پاكيزہ روزى كمائيں ، خرچ كرنے ميں ميانہ روى اختيار كريں اور جو ان كى در آمد ميں اضافہ ہو اسكو انفاق كريں پس يہى لوگ ہيں جو سعادت مند ہيں _

ابتلاء ( آزمائش ) : خوف كے ذريعے ابتلاء ۲،۴; جہاد كے ذريعے ابتلاء ۴; جانى نقصان كے ذريعے آزمائش ۴; مالى نقصان كے ذريعے آزمائش ۴; نعمتوں كى كمى كے ذريعے آزمائش ۴; بھو ك كے ذريعے آزمائش ۲،۴

اجر: اجر كے درجات ۱۲

اللہ تعالى : و بخشش الہى ۱۵; الہى امتحانات ۱، ۲ ، ۳ ، ۱۰; الہى بشارتيں ۱۳،۱۵; الہى سنتيں ''روشيں '' ۱; الہى امتحانات كا آساں ہونا ۹

الہى سنتيں (روشيں ): اللہ تعالى كے امتحان كى سنت ۱

امتحان : امتحان كا وسيلہ ۲،۳،۵; جانى نقصان كے ذريعے امتحان ۳; مالى نقصان امتحان ۳; شہداء كے ذريعے امتحان ۵; نعمتوں كى كمى كے ذريعے امتحان ۳;امتحانى ذرائع ميں تنوع ۱۰

انفاق ( خرچ كرنا ) : انفاق ميں اعتدال۱۶

____________________

۱) مصباح الشريعة ص ۱۸۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۴۳ ح ۴۴۹_ ۲) مكارم الاخلاق ص ۴۴۶ ، بحار الانوار ج/ ۷۴ ص ۹۳ ح/۱_

۵۳۳

ايمان : ايمان كى سختياں ۴،۱۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى ذمہ دارى ۱۳

دينى قائدين : دينى قائدين كى ذمہ دارى ۱۴

رحمت : رحمت كى بشارت ۱۴; وہ افراد جن كے رحمت شامل حال ہو ۱۴

روايت:۱۵،۱۶

سختياں : سختيوں ميں صبر كى اہميت ۱۲; سختيوں ميں صبر كا اجر ۱۵; سختيوں كو آسان بنانے كى روش ۶،۷

روزي: حلال روزى كمانا ۱۶

سعادت مند لوگ : ۱۶

صابرين: صابرين كو بشارت ۱۳،۱۴; صابرين سے مراد كون لوگ ہيں ۱۶

صبر: صبر كے نتائج ۶; اطاعت ميں صبر ۱۶

كاميابي: كاميابى كى روش كا بيان كرنا ۷; كاميابى كے اسباب كا بيان ۸

گناہ : گناہ سے اجتناب ۱۶

مشكلات: مشكلات بيان كرنے كى اہميت ۸

معاشرہ : دينى معاشرے كا امتحان ۵;معاشرے كے قائدين كى ذمہ دارى ۸

معاشرتى طبقات:۱۱

مومنين: مومنين كا امتحان ۱،۲،۳،۵،۱۰; صابر مومنين كا اجر ۱۲; مومنين كا خوف ۶; مومنين كا جانى نقصان ۶; مومنين كا مالى نقصان ۶; مومنين كى بھوك ۶; مومنين كى مشكلات۴; صابر مومنين ۱۱; غير صابر مومنين ۱۱

نماز : نماز قائم كرنے كے آثار۶

ہدايت: راہ ہدايت كى مشكلات كا بيان ۷

۵۳۴

الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ( ۱۵۶ )

جو مصيبت پرنے كے بعد يہ كہتے ہيں كہ ہم الله ہى كے لئے ہيں اور اسيكى بارگاہ ميں واپس جانے والے ہيں (۱۵۶)

۱ _ اللہ تعالى انسانوں كا مالك و مختار ہے جبكہ انسان اسكے مملوك اور اسكے اختيار ميں ہيں _قالوا انا لله

۲ _ انسان اور اسكے تمام امور و معاملات كا منبع اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے اور انسان اسى كى طرف لوٹ جائے گا_

قالوا انا اليه راجعون ''رجوع ''كا معنى اس چيز كى طرف لوٹنا ہے جو منبع ياسر چشم ہو ''انا'' ميں ''نا''سے مراد انسان اور اس سے متعلق امور ہيں بنابريں جملہ''انا اليہ راجعون'' حكايت كررہاہے كہ انسان اور جو كچھ اس سے متعلق ہے اسكا سرچشمہ اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے اور سب كچھ اسى كى طرف لوٹ جائے گا _

۳ _ صابرين وہ لوگ ہيں جو مشكلات كا سامنا ہو تو قضائے الہى كے سامنے سر تسليم خم ہوجاتے ہيں ، اپنے تمام امور كو خداوند متعال كى جانب سے جانتے ہيں اور اسى كا اظہار كرتے ہيں _و بشر الصابرين _ الذين قالوا انا لله و انا اليه راجعون

۴_ اللہ تعالى كى مالكيت اور اس پر يقين كہ انسان بالآخر خدا كى طرف لوٹ جائے گا يہ امر مصائب و مشكلات كو آسان كرنے والا ہے _الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله و انا اليه راجعون

۵ _ صابر مومنين كا نظريہ ( اللہ كى طرف سے ہيں اور اسى كى طرف بازگشت ہوگي)ان كے صبر و استقامت كى دليل ہے جسكا مظاہرہ انہوں نے راہ ايمان ميں پيش آنے والى مشكلات كے مقابل كيا_الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله و انا اليه راجعون آيه مجيدة ' ' الذين قالوا ...'' صابرين كى صفات بيان كرنے كے ساتھ ساتھ ان كے صبر كى دليل كو بھى بيان كررہى ہے _

۶_مصائب و مشكلات كے وقت استرجاع ( انا للہ و انا اليہ راجعون) صابر مومنين كا وطيرہ ( شعار) ہے_

و بشر الصابرين _ الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله وانا اليه راجعون

۵۳۵

'' استرجاع '' يعنى ''انا لله و انا اليه واجعون'' كہنا_

۷_الہى بشارت ان مومنين كے لئے جو مشكلات و پريشانيوں كے مقابل قضائے الہى كے سامنے سر تسليم خم ہوجاتے ہيں _و بشر الصابرين _الذين اذا اصابتهم مصيبة قالوا انا لله و انا اليه راجعون

۸_''وسمع رجلاً يقول''انا لله و انا اليه راجون'' فقال عليه‌السلام ان قولنا ''انا لله'' اقرار على انفسنا بالملك وقولنا ''انا اليه راجعون'' ''اقرار على انفسنا بالهلك'' (۱) امير المومنين علىعليه‌السلام نے ايك شخص سے كلمہ استرجاع سنا تو فرمايا'' انا للہ'' كہنا اللہ تعالى كى اپنے اوپر مالكيت كو تسليم كرنا ہے اور''انا اليه راجعون'' كہنا اپنى موت و ہلاكت كا اعتراف ہے_

۹_ ابوامامہ كہتے ہيں''انقطع قبال النبي(ص) فاسترجع فقالوا مصيبةيارسول الله؟ فقال ما اصاب المومن مما يكره فهو مصيبة'' (۲) نبى صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے جوتے كا تسمہ ٹوٹ گيا تو آپ (ص) نے كلمہ استرجاع '' انا للہ و انا اليہ راجعون'' زبان پر جارى فرمايا تو اصحاب نے كہا يا رسو ل اللہ (ص) كيا يہ بھى مصيبت ہے ؟ تو آنحضرت (ص) نے ارشاد فرمايا ہر ناپسنديدگى يا سختى جو مومن كو پہنچے مصيبت ہے_

۱۰_رسول اسلام (ص) سے روايت ہے آپ (ص) نے فرمايا''اعطيت امتى شيئاً لم يعطه احد من الامم ان يقولوا عند المصيبة ''انا لله وانا اليه راجعون'' (۳) ميرى امت كو ايك ايسى چيز عطا ہوئي ہے جو سابقہ امتوں ميں سے كسى كو عطا نہ كى گئي اور وہ مصيبت كے وقت ''انا للہ و انا اليہ راجعون'' كہناہے_

اقرار : اللہ تعالى كى مالكيت كا اقرار ۸; موت كا اقرار ۸

اللہ تعالى : الہى بشارتيں ۷; اللہ تعالى كى مالكيت ۱ اللہ تعالى كى طرف بازگشت : ۲،۴،۵

انسان: انسان كا انجام ۲; انسان كا مالك ۱; انسان كا مبداء و آغاز ۲،۵

ايمان : اللہ تعالى كى مالكيت پر ايمان ۴; ايمان كى سختياں ۵

روايت: ۸،۹،۱۰

____________________

۱) نہج البلاغة حكمت ۹۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص۱۴۵ ح ۴۵۷_ ۲) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۷۹_ ۳) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۳۷۷_

۵۳۶

سختياں : سختيوں سے نمٹنے كے آداب ۳،۶; سختيوں كے آسان كرنے كى روش ۴; سختيوں ميں صبر ۵

سر تسليم خم ہونا: خداوند متعال كى قضا كے سامنے سر تسليم خم ہونا ۳،۷

صابر لوگ: صابرين كا عقيدہ ۳; صابرين كى خصوصيات ۳

كلمہ استرجاع : ۸

أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ( ۱۵۷ )

كہ ان كے لئے پروردگار كى طرف سے صلواتاور رحمت ہے اور وہى ہدايت يافتہ ہيں (۱۵۷)

۱_ اللہ تعالى كا لطف و عنايات ، اسكى خاص رحمت ، درود و سلام اور ثنا كا سايہ ہميشہ صابر مومنين پر رہتاہے_

اولئك عليهم صلوت من ربهم و رحمة صلوة كا معنى توجہ كردنا اور مورد محبت قرار دينا ہے (الكشاف)

۲ _ اللہ تعالى كى خاص رحمت اور اسكے الطاف و عنايات كا صابر مومنين پر سايہ فگن رہنا خداوند متعال كى ربوبيت كا ايك پرتو ہے _

مصائب: مصائب سے نمٹنے كے آداب ۶; مصائب ميں كلمہ استرجاع ۶،۱۰; مصائب كو آسان كرنے كى روش ۴; مصيبت سے مراد كيا ہے ۹

مؤمنين: مومنين كو بشارت۷; مومنين كا نظريہ ۵; مومنين كى روش يا وطيرہ ۶; مومنين كے صبر كے عوامل ۵; صابر مومنين ۵،۷; مومنين كى مشكلات ۷; صابر مومنين كى خصوصيات۶من ربهم

۳ _ وہ مومنين جو اس يقين اور عقيدہ ( خدا كى طرف سے ہيں اور اسى كى طرف لوٹ جائيں گے ) كى بناپر راہ ا يمان ميں مصيبتوں كو برداشت كرتے ہيں ان كا اللہ تعالى كے ہاں بڑا بلند مقام ہے _قالوا انا لله و انا اليه راجعون_اولئك عليهم صلوات من ربهم

۵۳۷

۴ _ وہ مومنين جو راہ ايمان ميں مصيبتوں پر صابر ہيں وہ حقيقى ہدايت كو حاصل كر پائيں گے _قالوا انا لله و انا اليه راجعون و اولئك هم المهتدون

۵ _ فقط صابر مومنين ہيں جو اپنے اہداف (دنيا و آخرت كى سعادت) اور كاميابيوں كو حاصل كر پائيں گے_*و اولئك هم المهتدون

۶ _ كاميابى كا حصول اللہ تعالى كے الطاف اور رحمت سے ہى ممكن ہے _اولئك عليهم صلوات من ربهم و رحمة و اولئك هم المهتدون يہ مطلب اس بناپر ہے كہ( ذيل آيت ميں ) ''اولئك'' ان لوگوں كى طرف اشارہ ہو جن كے شامل حال صلوات اور رحمت الہى ہے (اولئك عليهم )_

۷_ راہ ايمان ميں صبر كرنے والوں كو اللہ تعالى كى جانب سے خوشخبرى اور بشارت دى گئي ہے كہ وہ لوگ ہدايت و رحمت اور الطاف الہى كو حاصل كرپائيں گے_و بشر الصابرين اولئك هم المهتدون

يہ جملہ ''اولئك عليہم ...'' ممكن ہے اس نويد اور خوشخبرى ''و بشر الصابرين'' كى طرف اشارہ ہو يعنى ''بشر ہم بان عليہم صلوات و ...''

۸_ وہ مومنين جو مصيبتوں اور سختيوں ميں صابر اور قضائے الہى كے سامنے سرتسليم خم ہيں فقط يہى لوگ ہيں جو ہدايت يافتہ ہيں _و بشر الصابرين _الذين واولئك هم المهتدون ضمير فصل ''ہم'' اور خبر ''المہتدون'' كا معرفة ہونا حصر كا معنى دے رہاہے _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى رحمت كے نتائج ۶; لطف الہى كے اثرات ۶; الہى بشارتيں ۷; اللہ تعالى كى خاص رحمت ۱،۲; اللہ تعالى كى طرف سے صلوات ۱; لطف الہى ۲; ربوبيت الہى كے مظاہر ۲

انسان: انسان كا مبداء ۳

ايمان : ايمان كے نتائج ۳; اللہ تعالى كى طرف بازگشت بر ايمان ۳; ايمان كى سختياں ۳; ايمان كے متعلقات۳

رحمت : رحمت كا حصول ۷; وہ لوگ جن كے رحمت شامل حال ہوتى ہے ۱،۲

سختي: سختيوں ميں صبر ۸

سر تسليم خم ہونا :

۵۳۸

قضائے الہى كے سامنے سر تسليم خم ہونا ۸

سعادت مند لوگ: ۵ صابرين :

صابرين كو بشارت۷; صابرين كى ہدايت ۸

لطف الہي: لطف الہى كا حصول ۷; جن لوگوں كے لطف الہى شامل حال ہوتاہے ۱

مصائب: مصائب پر صبر كرنا ۳،۴،۸

مؤمنين: مومنين كى اخروى سعادت۵; مؤمنين كى دنياوى سعادت۵; صابر مومنين كے درجات ۳; صابر مومنين ۱،۲،۴; صابر مومنين كى كاميابى ۵; صابر مومنين كى خصوصيات ۵،۸; صابر مومنين كى ہدايت ۴

ہدايت: ہدايت كا حصول ۷; ہدايت كى شرائط ۶ ہدايت يافتہ لوگ: ۴،۸

إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ ( ۱۵۸ )

بيشك صفا اور مروہ دونوں پہاڑياں الله كى نشانيوں ميں ہيں لہذا جو شخص بھيحج يا عمرہ كرے اس كے لئے كوئي حرج نہيں ہے كہ ان دونوں پہاڑيوں كا چكر لگائے اورجو مزيد خير كرے گا تو خدا اس كے عمل كاقدردان اور اس سے خوب واقف ہے (۱۵۸)

۱ _ صفا و مروہ كے پہاڑ دو ايسى علامتيں ہيں جن كو اللہ تعالى نے عبادات كا مقام قرار دياہے_ان الصفا والمروة من شعائر الله '' شعيرة'' كى جمع شعائر ہے_ ايسى نشانيوں يا علامتوں كو كہتے ہيں جن كو خاص اعمال كے لئے قرا ر ديا گيا ہو _ كہا جاتاہے كہ'' شعائر اللہ '' ايسى علامتيں ہيں جن كو اللہ تعالى نے عبادت كے لئے قرار ديا ہے ( مجمع البيان سے اقتباس) پس ''صفا و مروہ'' كو ''شعائر اللہ '' كہنا يعنى اللہ تعالى نے ان دو جگہوں كو ايسى علامتيں قرار ديا ہے كہ بند گان خدا وہاں عبادت كريں _

۲ _ صفا و مروہ كا طواف ( ان دو كے درميان سعى كرنا ) عبادت اور حج و عمرہ كے مناسك ميں سے ہے _

ان الصفا و المروه فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما ''اعتمر'' كا مصدر '' اعتمار'' ہے جس كا معنى زيارت كرنا اور عمرہ بجالاناہے _ صفا و مروة كو عبادت كى علامت قرار دينے كے بعد ''من حج البيت ...''كى اس

۵۳۹

پر تفريع اس مطلب كو بيان كررہى ہے كہ اولاً صفا و مروة كا طواف ( ان كے درميان سعي) اللہ كى عبادت ہے اور ثانياً يہ عبادت حج و عمرہ كے اعمال و مناسك ميں سے ہے _

۳ _ اللہ تعالى ان انسانوں كا شكر گزار ہے جو نيك اعمال كو توجہ اور رغبت سے انجام ديتے ہيں _و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم فعل '' تطوع'' چونكہ متعدى استعمال ہوا ہے اس لئے اس ميں ''اتي'' كا معنى پايا جاتاہے بنابريں '' من تطوع خيراً'' يعنى جو كوئي بھى نيك عمل كو اطاعت كى بناپر انجام دے_

۴ _ اللہ تعالى شاكر ( سپاس گزار) اور عليم ( جاننے والا) ہے _فان الله شاكر عليم

۵ _ صفا و مروہ كے مابين سعى حج و عمرہ كے بہترين اعمال ميں سے ہے _فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما و من تطوع خيراً ما قبل جملے كى روشنى ميں ''خيراً'' كا مورد نظر مصداق صفا و مروة كے مابين سعى ہے_

۶_ صدر اسلام كے بعض مسلمان صفا و مروة كے مابين سعى سے كر اہت كرتے اور نہ چاہتے تھے كہ يہ مناسك حج ميں سے ہو_فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما صفا و مروة كى سعى پر اعتراض كو اس جملہ '' فلا جناح ...'' سے رد كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ مسلمان اس عمل كو كرنا نہ چاہتے تھے _ اسكى وجہ جيسا كہ شان نزول ميں اسكا ذكر ہوا ہے وہ بت تھے جو مشركين نے صفا و مروة ميں يا ان دو كے مابين نصب كيئے ہوئے تھے_

۷_ خانہ خدا كے زائرين كے اعمال ( حج و عمرہ اور صفا و مروہ كى سعي) سے اللہ تعالى آگاہ ہے_فمن حج البيت او اعتمر ...و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم

۸ _ جو لوگ نيك اعمال ( صفا و مروة كے مابين سعى اور ...) انجام ديتے ہيں اللہ تعالى كى جزاؤں سے بہرہ مند ہوں گے_

من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم بندوں سے اللہ تعالى كا سپاس گزار ہونا يہ اللہ تعالى كى جزائيں عطا كرنے سے كنايہ ہے _

۹ _ بندوں كے نيك اعمال سے اللہ تعالى كى علم و آگاہى ان كے اجر كے ضائع نہ ہونے كى ضمانت ہے _و من تطوع خيراً فان الله شاكر عليم

۱۰_ امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں : ''قال الله عزوجل: '' ان الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت اواعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما'' الا ترون ان الطواف بهما واجب مفروض لان الله عزوجل ذكره فى كتابه و صنعه نبيه عليه‌السلام ..''

۵۴۰

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

ضمیمہ (۶) ص ۱۱۳

رسول (ص) اسلام کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش

اسی کتاب کے ص پر آیات کریمہ کی جو وضاحت ہم نے کی ہے اس کی تائیدان روایات سے بھی ہوتی ہے جو ان آیات کی شان نزول کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں چنانچہ ان آیات کی شان نزول کے بارے میں ''تفسیر البرہان،، میں مرقوم ہے۔

''ایک دن رسول خدا (ص) خانہ کعبہ میں اپنے آس پاس بیٹھے کچھ صحابیوں کو کلام خدا اور اس کے اوامرو نواہی کی تعلیم دے رہے تھے اتنے میں قریش کے سرکردہ افراد کی ایک جماعت جس میں ولید بن مغیرہ مخزومی ، ابو البختری بن ہشام ، ابوجہل بن ہشام ، عاص بن وائل السہمی ، عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس قسم کے دیگر افراد شامل تھے وہاں آئی ۔ ان مشرکین نے آپس میں کہا : دینمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ا ہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے آؤ ایک مرتبہ پھر اس کو سختی سے جھڑکیں ، اس کی سرزنش کریں اور دلائل سے اس کے لائے ہوئے پیغام کو باطل ثابت کریں تاکہ اپنے اصحاب کے سامنے اس کی اہمیت اور ہیبت ختم ہو جائے اور وہ ان کی نظروں سے گر جائے شاید اس طرح وہ اپنے مشن گمراہی ، باطل اور سرکشی سے باز آ جائے اگر زبانی سرزنش اور دلائل کے ذریعے باز آ جائے تو بہتر ورنہ شمشیر کے زور سے اسے بٹھا دیں گے۔

ابوجہل نے کہا : کون آگے بڑھ کرمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے گفتگو کرے گا؟

عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے کہا : میں اس سے گفتگو شروع کروں گا کیا تم مجھے اس سے مقابلہ اور مباحثہ کیلئے کافی نہیں سمجھتے ؟

۶۴۱

ابوجہل نے کہا : کیوں نہیں چنانچہ یہ سب کے سب آنحضرتؐ کی خدمت میں آئے اور عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے اپنے کلام کا آغاز کرتے ہوئے یوں کہا:

''آپ (ص) نے ایک بہت بڑا دعویٰ کر دیا اور بہت اونچی بات کہہ دی ہے آپ (ص) کا خیال ہے کہ آپ (ص) رب کائنات کے بھیجے ہوئے رسولؐ ہیں جبکہ رب اور خالق کائنات کیلئے ہرگز یہ مناسب نہیں کہ آپ (ص) جیسے انسان کو اپنا رسول بنا کر بھیجے جو ہماری مانند بشر ہے آپ ویسے ہی کھاتے پیتے ہیں جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں آپ ویسے ہی بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں جیسے ہم چلتے ہیں روم اور فارس کے بادشاہ جب کسی ملک میں اپنا نمائندہ بھیجتے ہیں تو کسی مالدار ، باحیثیت آدمی کو بھیجتے ہیں جس کے عالی شان محل و عمارات اور کئی غلام و نوکر ہوں اور رب کائنات کا مقام تو ان بادشاہوں سے بہت بلند ہے بلکہ یہ اس کے بندے ہیں اگرخدا ہماری طرف اپنا کوئی نمائندہ بھیجنا چاہتا تو ہم میں سے ایسے آدمی کا انتخاب کرتا جو مال و دولت اور مقام و منزلت کے اعتبار سے سب سے بہتر اور نمایاں حیثیت کا مالک ہو بنا برایں یہی قرآن جس کے بارے میں آپ (ص) کا یہ خیال ہے کہ خدا نے اسے آپ (ص) پر نازل کیا اور اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے مکہ یا مدینہ کے کسی عظیم المرتبت آدمی پر اسے کیوں نازل نہیں کیا ؟ یہ اہل مکہ میں سے ولید بن مغیرہ پر نازل کیا ہوتا یا اہل مدینہ میں سے عروہ بن مسعود ثقفی پر نازل کرتا،،

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: عبداللہ ابھی تیرا کچھ کلام باقی ہے؟

عبداللہ نے کہا : ہاں ! ہم اس وقت تک آپ (ص) پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک اسی مکہ کی سرزمین پر آپ (ص) چشمہ نہ بہائیں کیونکہ مکہ اپک پتھریلہ اور پہاڑی علاقہ ہے ہمیں اس امر کی ضرورت ہے آپ (ص) اس کی کھدائی کریں اسے ہموار کریں اور اس میں چشمے بہا دیں یا آپ (ص) کے پاس کھجور اور انگور کے باغات ہوں جس سے آپ (ص) کھائیں اور ان باغات میں نہریں بہتی ہوں ، یا آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہمپر گرے جیسا کہ آپ (ص) کا خیال ہے کیونکہ آپ (ص) نے ہی تو ہمارے بارے میں کہا : ''اگر یہ لوگ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرتے دیکھیں تو کہیں گے،، یہ تہہ بتہہ بادل ہیں،، اب ایسا کر کے دکھائیں شاید ہم یہی کہیں؟،،

۶۴۲

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لا سکتے جب تک خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کر حاضر نہ کریں یا پھرا س وقت ایمان لائیں گے جب آپ (ص) کے پاس سونے کا گھر ہو اور ہمیں اس میں سے حصہ دیں اور بے نیاز کر دیں شاید اس کے باوجود ہم بغاوت کر جائیں کیونکہ آپ (ص) نے ہی ہمارے بارے میں کہا ہے:

کلا ان الانسان لیطغی ان راه استغنی

''سن رکھو بیشک انسان جب اپنے کو غنی دیکھتا ہے تو سرکش ہو جاتا ہے،،۔

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: یا ہم اس صورت میں ایمان لائیں گے جب آپ (ص) آسمان کی طرف پرواز کریں اور آپ (ص) کے آسمان کی طرف پرواز کرنے پر بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کی طرف سے عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس کے ساتھیوں پر ایک کتاب نازل نہ ہو جس میں یہ خطاب ہو کہ تم سب محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب پر ایمان لے آؤاس لئے کہیہ میرا بھیجا ہوا رسول ہے اس کی باتوں کی تصدیق کرو اس لئے کہ یہ جو کچھ کہتا ہے میری طرف سے کہتا ہے،،

اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ! ان سب مطالبات کے پورے ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں میں آپ (ص) پر ایمان لاؤں یا نہ لاؤں اگر آپ ؐ ہمیں اٹھا کر آسمان کی طرف لے جائیں اور اس کے دروازے ہمارے آگے کھول دیں اور ہم ان دروازوں میں داخل ہو جائیں پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھیں مسحور کی گئی ہیں اور ہم پر جادو کیا گیا ہے۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پالنے و الے ! تو ہر آواز کوسننے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے اپنے بندوں کی باتوں کوتوبہتر جانتا ہے۔

اے عبداللہ بن ابی امیہ ! تیرا یہ کہنا کہ روم اور فارس کے بادشاہ ہمیشہ کسی مالدار آدمی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتے ہیں تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا خود تدبیر فرماتا اور فیصلہ کرتا ہے اس کے افعال ، تیرے خیالات اور تجاویز کے مطابق انجام نہیں پاتے بلکہ خدا خود جو چاہے کرتا ہے اور جیسا اس کا ارادہ ہو حکم فرماتا ہے۔

۶۴۳

اگر نبی محلوںکا مالک ہوتا اور ان میں جا کر غائب ہو جاتا یا اس کی خدمت کیلئے غلام اور نوکر ہوتے جو اس کو لوگوں کی نظروں سے چھپائے رکھتے ، تو کیا رسالت ضائع اور احکام خدا معطل نہ ہو جاتے؟

(میرے بارے میں ) تیرایہ کہنا کہ اگر تو نبی ہوتاتو تیرے ساتھ ہمہ وقت ایک فرشتہ ہوتا جو تیری تصدیق کرتا اور اسے ہم بھی دیکھ سکتے تو تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تیرے حواس فرشتے کو درک نہیں کر سکتے کیونکہ فرشتہ ہوا کی مانند ہے جس کا مشاہدہ نہیں ہو سکتا اگر تم فرشتے کا مشاہدہ کر سکتے بایں معنی کہ تمہاری حس باصرہ کو غیر معمولی طاقت دے دی جاتی ، تو تم کہتے یہ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ یہ تو ایک بشر ہے اس لئے کہ اگر فرشتہ ظاہر ہوتا تو لامحالہ کسی انسانی صورت میں ہی ظاہر ہوتا جس سے تم مانوس ہوتے تاکہ تم اس کی بات کو سمجھ سکو۔

تمہارا یہ کہنا کہ میں جادو گر ہوں بھلا میں جادو گر کیسے ہو سکتا ہوں جبکہ تم بخوبی جانتے ہو کہ عقل و فہم اور خیر و شر کو تمیز دینے میں ، میں تم سے بالاتر ہوں میری پیدائش سے آج تک چالیس سال کے عرصے میں تم نے مجھ سے کوئی جرم، جھوٹ ، بدزبانی سرزد ہوتے ہوئے دیکھی ہے ؟ یا کسی غلط بات اور کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے دیکھا ہے ؟ تمہارا کیا خیال ہے کیا ایک شخص اتنے طویل عرصے تک اپنی قوت اور بل بوتے پر ہر قسم کی غلطی سے محفوظ رہ سکتا ہے ؟ یا اس عرصے میں خدا کی تائید اور توفیق شامل حال رہی ہو گی؟

تمہارا یہ کہنا کہ خدا نے مکہ یا مدینہ کے کسی مالدار اور نامور آدمی پر قرآن کیوں نازل نہیں کیا ؟ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کی نظر میں مال دنیا کی وہ عظمت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے اور اس کی نظر میں مال دنیا کی وہ اہمیت اور وقعت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے خدا کسی سے اس کے مال و دولت اور حیثیت و مقام کی وجہ سے نہیں ڈرتا جس طرح تو ڈرتا ہے۔

تیرا یہ کہنا کہ جب تک زمین سے چشمے نہ پھوٹیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے وغیرہ تم نے اپنے اس کلام میں رسول خدا محمد (ص) کے سامنے کئی تجاویز پیش کی ہیں ان میں سے بعض تجاویز ایسی ہیں کہ اگر محمدؐ ان تجاویز پر عمل بھی کرے تب بھی وہ نبوت کی دلیل نہیں بن سکتیں رسول (ص) کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ جاہلوں کی نادانی کو غنیمت سمجھے اور ان کے سامنے ایسے دلائل پیش کرے جو درحقیقت حجت و دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

۶۴۴

تیری کچھ تجاویز ایسی ہیں کہ اگر ان پر عمل ہو جائے تو یہ تیری ہلاکت کا باعث بنیں گی نبوت کے دلائل تو اس لئے پیش کئے جاتے ہیں کہ خدا کے بندے ایمان لے آئیں اور ہلاکت سے محفوظ رہیں پس تو نے اپنی ہلاکت کی تجویز پیش کی ہے خدا کی ذات سب سے زیادہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والی ہے لوگوں کی مصلحتوں کو ان سے بہتر سمجھتی ہے۔ اور ان کی تجاویز پر عمل کر کے انہیں ہلاک نہیں کرتی۔

تیری بعض تجاویز ایسی ہیں جو بذات خود ناممکن ہیں اور صحیح و جائز نہیں ہیں اور کچھ تجاویز ایسی ہیں جو تیرے اعتراف کے مطابق تیری ضد ، ہٹ دھرمی اور سرکشی پر مبنی ہیں تو کسی دلیل کوتسلیم کرتا ہے اور نہ اسے سننے کیلئے تیار ہے۔

تیرا یہ مطالبہ کہ اگر اس سرزمین پر چشمے بہا کر دکھاؤں تب ایمان لاؤ گے تو نے یہ مطالبہ اس لئے کیا ہے کہ تو الٰہی دلائل سے جاہل ہے تیرا کیا خیال ہے اگر میں تیرا مطالبہ پورا کر دوں اور زمین پر چشمے بہا کر دکھا دوں تو کیا اسی دلیل سے میری نبوت ثابت ہو گی ؟ تیرا یہ مطالبہ اورتجویز ایسی ہے جیسا تو کہے ہم تو تب ایمان لائیں گے جب آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور چل کر دکھائیں کیا تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے پاس طائف میں کھجور اور انگور کے باغات نہیں ہیں جن سے تم کھاتے رہتے ہو اور ان کے درمیان سے نہریں نہیں بہتیں ؟ کیا ان باغات اور نہروں کی وجہ سے تم نبی بن گئے ہو؟

تیرا یہ کہنا کہ آسمان ریزہ ریزہ ہو کر ہمارے اوپر گرے جیسا کہ تیرا گمان ہے۔

آسمان کا ریزہ ریزہ ہو کر گرنا تمہاری موت اور ہلاکت کے مترادف ہے گویا اس طرح تم رسول خدا (ص) سے اپنی ہلاکت کا مطالبہ کر رہے ہیں رسول خدا (ص) کا رحم و کرم اس سے بالاتر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر دے۔

ہاں ! وہ تمہارے سامنے الٰہی دلائل پیش کرے گا۔

۶۴۵

وہ الٰہی دلائل اور حجتیں جو اللہ اپنے نبی کو دیکر بھیجتا ہے وہ بندوں کے مشوروں اور تجاویز کے مطابق نہیں ہوا کرتیں اس لئے کہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ کس امر میں ان کا مفاد اور مصلحت ہے جو جائز ہو اور کس میں مفسدہ اور نقصان ہے جو جائز نہ ہو کیا تم نے کسی ڈاکٹر کو دیکھا ہے جو اپنے مریض کے مشورے کے مطابق اس کیلئے نسخہ اور دوائی تجویز کرے ؟ یا تم نے کسی ایسے حاکم کو دیکھا ہے جو حق کے دعوے دار کو مدعی علیہ کی مرضی کے مطابق گواہ پیش کرنے کا حکم دے؟

تیرا یہ کہنا کہ ہم تب ایمان لائیں گے جب تو خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کرے جن کا ہم مشاہدہ کر سکیں یہ وہ مطالبہ ہے جس کا محال اور ناممکن ہونا کسی سے پوشیدہ نہیں اس لئے ہمارا رب اور خالق عام مخلوق کی مانند نہیں جو کسی کے سامنے آتا اور حرکت کرتا ہو ، تاکہ اس کو تمہارے سامنے لایا جائے پس تم نے اس مطالبہ میں ایک ناممکن ا مر کی تجویز پیش کی ہے۔

اے عبداللہ ! تیرا یہ کہنا کہ ہم تو تب ایمان لائیں گے جب تیرے پاس سونے کا مکان ہو یہ بتاؤ تم نے سنا ہے کہ شاہ مصر کے پاس سونے کے کئی گھر ہیں ؟ عبداللہ نے کہا : جی سنا ہے آپ (ص) نے فرمایا کیا بادشاہ مصران مکانات کی وجہ سے نبی بن گیا ہے ؟ عبداللہ نے کہا : نہیں ۔ آپ (ص) نے فرمایا جس طرح بادشاہ مصر کے سونے کے مکانات سے وہ نبی نہیں بن جاتا اگر میرے پاس بھی سونے کے مکانات ہوتے تو ان سے میری نبوت ثابت نہ ہوتی البتہ محمد (ص) تمہاری حالت اور نادانی کو غنیمت سمجھ کر اس قسم کی چیزوں کو حجت خدا کے طور پر پیش نہیں کرتا تیرا یہ کہنا کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے جب تم آسمان کی طرف پرواز کرو اور پھرتو یہ کہتاہ ے کہ تیرے آسمان کی طرف بلند ہونے کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم پر کوئی کتاب نازل نہ ہو جس کو ہم خود پڑھیں۔

۶۴۶

اے عبداللہ ! تمہیں معلوم ہے کہ آسمان کی طرف پرواز کرنا آسمان سے اترنے سے زیادہ مشکل ہے تو ایک مرتبہ اعتراف کر چکا ہے کہ میرے آسمان کی طرف پرواز کرنے کے باوجود بھی تم ایمان نہیں لاؤ گے تو میرے آسمان سے قرآن لے کر اترنے پر کب ایمان لاؤ گے ؟ تو نے اپنے کلام میں یہ بھی کہا ہے کہ ہم پر قرآن نازل ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں ہم ایمان لائیں نہ لائیں۔

یہ تیری طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ تو حجت خدا کے مقابلے میں عناد اور ضد رکھتا ہے تمہارے ان مطالبوں کا جواب خالق کا وہ جامع کلام ہے جو اس نے نازل فرمایا ہے اور اسی سے تمہاری تمام تجاویز باطل ہو جاتی ہیں خالق فرماتا ہے : اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کہہ دو ! میرا رب پاک و پاکیزہ ہے میں ایک انسان ہوں جس کو رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بنا کر بھیجا گیا ہے مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ خدا کو کوئی حکم دوں ، اس کو کسی کام سے روکوں یا کسی امر کا مشورہ دوں،،

یہ حدیث شریف بہت سارے فوائد پر مشتمل ہے محققین کو اس حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے ان آیات کی شان نزول کے بارے میں اور بھی بہت سی روایات موجود ہیں جن کو طبری نے ان آیات کی تفسیر کے موقع پر ذکر کیا ہے۔

۶۴۷

ضمیمہ (۷) ص ۳۱۵

صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

یہ حدیث یوں مروی ہے:

عبداللہ بن مسعود کہتا ہے:

''کنا نغزو مع رسول الله ص و لیس معنا نسآء فقلنا : الا نستخصی فنهانا عن ذلک ، ثم رخص لنا ان ننکح المراة بالتوب الی اجل ، ثم قراء عبدالله :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۵:۸۷

''ہم دوران جنگ رسول خدا (ص) کے ہمراہ تھے اور ہماری بیویاں ہمارے پاس نہیں تھیں ہم نے رسول خدا (ص) سے پوچھا : کیا ہم اپنے آپ کو نامرد بنا دیں آپ (ص) نے ہمیں اس عمل سے منع فرمایا اور اس امر کی اجازت دی کہ ایک مقررہ وقت تک کیلئے ایک کپڑے کے عوض عورتوںسے نکاح کر لیں اس کے بعد عبداللہ بن مسعود نے اس آیہ کریمہ کی تلاوت کی:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) (۵:۸۷)

''اے ایماندرو ! جو پاک چیزیں خدا نے تمہارے واسطے حلال کر دی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کیونکہ خدا حد سے بڑھ جانے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا،،

محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی ایک جماعت نے اس نص ، حدیث اور عبارت کو بخاری سے نقل کیا ہے لیکن آج کل کی رائج الوقت صحیح بخاری کے ج ۶ ص ۵۳ پر جو حدیث موجود ہے وہ دو اعتبار سے اصلی صحیح بخاری کی عبارت سے مختلف ہے:

۱۔ موجودہ صحیح بخاری میں سند حدیث سے لفظ عبداللہ بن مسعود کو نکال لیا گیا ہے جبکہ اکثر محدثین نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا ہے عبداللہ بن مسعود کے نام کو اس لئے نکال لیا گیا ہے تاکہ عبداللہ بن مسعود کا نام اس بات کا قرینہ اور شاہد نہ بن سکتے کہ اس روایت کا مقصد نکاح متعہ کو جائز قرار دینا ہے ، اس لئے کہ عبداللہ بن مسعود نکاح متعہ کو جائز سمجھتے تھے۔

۶۴۸

۲۔ موجودہ صحیح بخاری میں روایت کے آخری سے لفظ ''الی اجل،، (معین مدت تک) کو بھی نکال دیا گیا ہے کیونکہ ''الی اجل،، کا لفظ اس امر کی تصریح ہے کہ آنحضرت ؐ نے نکاح متعہ کی اجازت دے دی ہے چنانچہ شارحین نے بھی یہی سمجھا اور ایسی ہی اس کی تفسیر کی ہے کیونکہ اس قسم کے مقامات پر نکاح کی اجازت لازمی طور پر نکاح متعہ ہی کی اجازت ہوا کرتی ہے صرف دائمی نکاح کی نہیں اور یہ کہ ''لیس معنانسآ،، یعنی مجاہدین کے پاس عورتوں کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اپنی بیویاں ان کے ساتھ نہیں تھیں ایسا نہیں ہے کہ عام عورتیں وہاں نہیں تھیں ورنہ نکاح کی اجازت دینا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اس معنی کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ بعض روایات میں ''لیس معنا،، کی جگہ ''لیس لنانساء ،، موجود ہے یعنی ہماری اپنی عورتیں نہیں ہیں۔

چونکہ یہ روایت نکاح متعہ کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے اس لئے کئی فقہاء کا دعویٰ ہے کہ بعض دوسری روایات میں نکاح متعہ کو حرام قرار دیا گیا ہے جس سے اس روایت میں موجود حکم (جواز متعہ) نسخ ہو جاتا ہے لیکناس بات سے بھی ان کا مدعیٰ ثابت نہیں ہوتا جس کی تفصیل آیہ متعہ سے متعلق روایات پر تبصرہ کے دوران ہم نے بیان کر دی ہے تحریف کے مجرم ہاتھوں سے یہ روایت بھی محفوظ نہیں رہ سکی اور اس کو اپنی صحیح اورا صلی صورت پر نہیں رہنے دیا گیا ہم ذیل میں ان محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی فہرست ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے صحیح بخاری سے صحیح حدیث نقل کی ہے۔

(۱) بیھقی : سنن بیھقی جز ۷ ص ۲۰۰ طبع حیدر آباد

(ب) سیوطی : تفسیر سیوطی = ۲ = ۲۰۷ = المیمنیتہ مصر

(ج) زیلعی : نصب الرایہ = ۳ = ۱۸۰ = دارالتالیف مصر

(د) ابن تیمیہ : المنتقی ٰ جزء ۲ ص ۵۱۷ طبع حجازی

(ھ) ابن القیم : زادالمعاد = ۴ = ۸ محمد علی صبیح

(و) قنوچی : روضتہ الندیہ ۲ = ۱۶ = المنیریہ

(ز) محمد بن سلیمان : جمع الفوائد = ۱ = ۵۸۹ = دارالتالیف

۶۴۹

اس روایت کے کچھ اور مصادر اور حوالے بھی ہیں جو ذیل میں دیئے جا رہے ہیں

(ح) مسند احمد : جزء ۱ ص ۴۲۰ طبع مصر ۱۳۱۳

(ط) تفسیر قرطبی : = ۵ = ۱۳۰ = = ۱۳۵۶

(ی) تفسیر ابن کثیر : = ۲ = ۱۸۷ = = علی البابی

(ل) الاعتبار للحازمی : = = ۱۷۶ حیدر آباد

یہ حدیث صحیح ابی حاتم اور اس قسم کے اہم مصادر میں بھی موجود ہیں۔

ضمیمہ (۸) ص ۳۲۸

محمد عبدہ اور تین طلاقیں

محمد عبدہ پہلے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ اگر ایک نشست میں تین طلاقیں جاری کر دی جائیں تو وہ ایک طلاق شمار ہوں گی۔

اس کے بعد فرماتے ہیں:

''ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم ان مقلدین سے بحث اور مناظرہ کریں یا ان قاضیوں اور مفتیوں سے ان کے مذاہب چھڑا دیں جو تین طلاقوں کے قائل ہیں ان میں سے اکثر حضرت ایک طلاق پر دلالت کرنے والی روایات سے آگاہ ہیں جو کتب حدیث وغیرہ میں موجود ہیں البتہ یہ لوگ ان روایات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لئے کہ یہ لوگ اپنی کتابوں میں موجود اقوال پر زیادہ عمل کرتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نہیں(۱)

کاش محمد عبدہ متعہ کی بحث میں بھی یہی بات کرتے۔ اس لئے کہ جیسا کہ آپ نے دیکھا نکاح متعہ شریعت اسلام میں

____________________

(۱) تفسیر المنار ، جزء ۱ ، ص ۳۸۶

۶۵۰

ثابت ہے اس کے بعد اسے نسخ بھی نہیں کیا گیا جو لوگ نکاح متعہ کو حرام سمجتھے ہیں ان کی واحد دلیل ان کی کتابوں میں موجود اقوال ہی بن سکتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بن سکتیں۔

ضمیمہ (۹) ص ۳۸۳

شیعوں پر رازی کا افترائ

من جملہ ان لوگوں میں جنہیں تحقیق و تدقین کی توفیق نہیں ، فخر رازی ہے جو آیئہ کریمہ ''یمحوا اللہ مایشآء ویثبت،، کی تفسیر میں کہتا ہے :

''رافضی (شیعہ) کہتے ہیں خدا کے حق میں بداء جائز ہے اوربداء یہ ہے کہ خدا کو کسی چیز کا یقین حاصل ہو اس کے بعد اس پر انکشاف ہو کہ حقیقت اور واقع ایسا نہیں جس کا اسے یقین تھا،،۔

خالق ! تو جانتا ہے کہ یہ محض تہمت ہے رازی نے اپنی کتاب ''محصل،، کے خاتمہ میں ''سلیمان بن جریر،، سے ایک کلام نقل کیا ہے جس کا ذکر قبیح ہے اور مجھے بھی زیب نہیں دیتا کہ اس کتاب میں اس کلام کو ذکر کروں رازی نے یہ جملہ اسی جیسے ایک دوسرے ننگین جملے کے بعد ذکر کیا ہے جوبعض نصاریٰ رسول خدا (ص) کے بارے میں کہتے تھے جب آنحضرت (ص) ایسے احکام لے کر آئے جو گزشتہ شریعتوں کے لئے ناسخ قرار پائے''کبرت کلمته تخرج من ا فواههم وسیعلم الذین ظلموا ایی منقلب ینقلبون،،

۶۵۱

ضمیمہ (۱۰) ص ۳۹۴

احادیث اور مشیّت الٰہی

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی دونوں کتابوں ''توحید،، اور ''معانی الاخبار،، میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت بیان کی ہے ، امام علیہ السلام نے آیہ شریفہ : ''وقالت الیھود یداللہ مغلولۃ ،، کے بارے میں فرمایا:

''لیکن یہود کہا کرتے تھے خدا خلقت و آفرنیش کے ہر کام سے فارغ ہو گیا ہے خدا نہ تو کسی چیز کو بڑھاتا ہے اور نہ گھٹاتا ہے،،

خدا نے ان لوگوں کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا:

( غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ ) ۵:۶۴

''انہیں کے ہاتھ باندھ دیئے جائیں اور ان کے (اس) کہنے پر (خدا کی ) پھٹکار (بر سے خدا کا ہاتھ بندھنے کیوں لگا) بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے،،

کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا۔

( يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ) ۱۳:۳۹

''(پھر اس میں سے) خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) موجود ہے،،

عیاشی نے یعقوب بن شعیب اور عماد کے ذریعے حضرت ابو عبداللہ (علیہ السلام) سے بھی اسی مضمون کی روایت بیان کی ہے اس قسم کی روایات کو مجلسی نے بحار کی جلد ۲ ، ص ۱۳۱۔۱۴۲ پر ذکر کیا ہے۔

۶۵۲

ضمیمہ (۱۱) ص ۳۹۱

دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

سلمان کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''قضاء الٰہی کو دعا ہی تبدیل کرس کتی ہے اور عمر میں اضافہ نیکی ہی کر سکتی ہے،،(۱)

تو بان کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''عمر کو نیکی ہی بڑھا سکتی ہے انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے(۲)

ضمیمہ (۱۲) ص ۲۳۵

آیہ بسم اللہ کی اہمیت

اس کتاب کے صفحہ ۴۳۳ پر اعراب کی بحث میں یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ ''بسم اللہ،، میں اسم کی اضافت اللہ کی طرف اضافہ معنویہ ہے

____________________

(۱) ترمذی ، باب ماجاء لایرد القدر الالدعا ، ج ۸ ، ص ۳۵۰

(۲) ابن ماجہ ، باب القدر ، ج ۱ ، ص ۲۴ ، حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہےاور ذہبی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ، ج ۱ ، ص ۴۹۳ ۔ احمد نے اپنی مسند میں روایت کی ہے، ج ۵ ، ص ۲۷۷ ، ۲۸۰ ، ۲۸۲ ، اس مضمون کی روایت زیادہ ہیں جو متعلقہ کتب میں مل سکتی ہیں۔

۶۵۳

اوریہ کہ لفظ ''اللہ،، اپنے حقیقی معنی(۱) میں استعمال ہوا ہے ۔ بنا برایں لفظ اسم اپنے اس جامع معنی میں استعمال ہوا ہے جو تمام اسمائے الٰہی پر صادق آنے کے قابل ہے گویا مفہوم کاذکر کر کے اس کے ذریعے اس کے مصداق کی طر فاشارہ کیا گیا ہے چونکہ اسم اعظم اسم الٰہی کا اشرف مصداق ہے اس لئے لامحالہ اسم اعظم مفہوم اسم کے مصداق بننے کا سب سے زیادہ استحقاق رکھتا ہو گا اوراسی سے اس روایت کا معنی بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بسم اللہ اسم اعظم کے اس سے بھی زیادہ نزدیک ہے جتنی آنکھکی سفیدی آنکھ کی سیاہی کے نزدیک ہے کیونکہ بسم اللہ اور اسم اعظم کے درمیان قرب ذاتی ہے اس لئے کہ مفہوم اور مصداق خارج میں ایک ہوا کرتے ہیں اور سفیدی چشم کاقرب سیاہی چشم کیلئے مکانی اور ان دونوں میں اتحاد وضعی ہے۔

ضمیمہ (۱۳) ص ۴۳۶

آغاز آفرنیش

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خدا نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق فرمایا(۲)

محمد بن مسلم سنان کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں امام جواد (علیہ السلام) کی خدمت میں بیٹھا تھا ، آپ (ع) نے فرمایا:

''اے محمد ! خدا ہمیشہ اپنی وحدانیت میں منفرد اور یگانہ رہا ہے اس کے بعد خداوند عالم نے محمد ، علی اور فاطمہ (علیہم السلام) کو خلق فرمایا اس کے بعد یہ حضرات ہزار برس عالم نور میں رہے(۳)

____________________

(۱) وہ ذات جو تمام صفات کمال کی جامع ہو (مترجم)

(۲) البحار ، باب حقیقتہ العقل و کیفیتہ و بدء خلقہ ، ج ۱ ، ص ۳۳

(۳) اصول کافی ، باب تاریخ مولد النبی (ص) ، ص ۲۳۹ ، الوافی باب بداخلق المعصومین ، ج ۲ ، ص ۱۵۵

۶۵۴

ضمیمہ (۱۴) ص ۴۴۶

بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

بیہقی نے اپنی سند سے ام سلمہ سے روایت کی ہے:

''رسول خدا (ص) نے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھا اور اسے جزء قرآن قرار دیا،،

یہ روایت حاکم نے مستدرک کی ج ۱ ص ۲۳۲ پر بیان کی ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت مسلم اور بخاری کی شرائط پر پوری اترتی ہے اور صحیح ہے نیز عبد خیر سے روایت ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام سے پوچھا گیا سبع مثانی کون سا سورہ ہے ، آپ (ص) نے فرمایا : سورۃ الحمد۔

راوی نے پوچھا: الحمد کی آیات توچھ ہیں آپ (ع) نے فرمایا : بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی سورہ الحمد کا جزء ہے اس روایت کو ابوہریرہ نے بھی بیان کیا ہے۔

رسول خدا (ص) سے ابوہریرہ روایت نقل کرتا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

''سورۃ الحمد سات آیات پر مشتمل ہے ان میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی شامل ہے،،

ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورہ فاتحہ کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے فرماتے تھے یہ روایت ترمذی نے ج ۲ ، ص ۴۴ پر نقل کی ہے۔

ابن عمر سے منقول ہے کہ وہ نماز کی ابتداء تکبیرۃ الاحرام سے کرتے تھے اس کے بعد بسم اللہ الرحم الرحیم پڑھتے تھے اور جب سورۃ الحمد سے فارغ ہوتے دوبارہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے اور کہا کرتے تھے ''اگر بسم اللہ کا پڑھنا ضروری نہیں تو پھر قرآن میں اسے کیوں لکھا گیا ہے،،

۶۵۵

ان کے علاوہ بھی اس مضمون کی کئی روایات موجود ہیں سنن بیہقی ج ۲ ص ۴۳ ، ۴۷ کی طرف رجوع کریں ، کنز العمال ، ج ۲ ، ص ۱۹۰ فضائل السورہ والآیات نیز باب البسملہ آیہ ، ص ۳۷۵ میں ثعلبی نے علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جب آپ (ص) نماز میں کسی سورے کو پڑھتے تھے تو شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ترک کر دے اس نے سورہ کو ناقص پڑھا ہے نیز آپ (ص) فرماتے تھے بسم اللہ الرحمن الرحیم سبع مثانی کا حصہ ہے۔

ضمیمہ (۱۵) ص ۴۴۶

معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

بیہقی نے ج ۲ ، ص ۴۹ پر اپنی سند سے انس بن مالک سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ معاویہ نے مدینہ میں نماز پڑھی اس نے نماز میں سورہ فاتحہ بلند آواز میں پڑھا البتہ اس نے سورہ حمد سے پہلے تو بسم اللہ کو پڑھا مگر حمد کے بعد پڑھے جانے والے سورہ سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ اس کی قرات مکمل ہو گئی ، اس کے بعد تکبیر بھی نہیں پڑھی اور رکوع میں چلا گیا اور اس طرح اپنی نماز مکمل کی جب معاویہ سلام پھیر چکا تو نماز میں موجود مہاجرین ہر طرف سے بول اٹھے معاویہ ! تم نے نماز میں چوری کر لی یا بھول گئے ہو ؟ اس واقعہ کے بعد جب بھی معاویہ نماز پڑھتا تو سورہ الحمد کے بعد والے سورہ سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھتااور سجدے میں جانے سے قبل تکبیر بھی پڑھتا تھا،،۔

۶۵۶

اسی روایت کو بیہقی نے ایک اور سند سے بھی بیان کیا ہے البتہ اس روایت کا مضمون یہ ہے کہ معاویہ نے سورۃ الحمد سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اور اس کے بعد دوسرے سورے سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اس کے علاوہ اس روایت میں اعتراض کرنے والوں میں مہاجرین کے علاوہ انصار کابھی ذکر ہے اس روایت کو حاکم نے مستدرک کی جلد۱ ص ۲۳۳ میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے اور مسلم کی شرائط پر پوری اترتی ہے۔

ضمیمہ (۱۶) ص ۴۴۶

رسول (ص) خدا کا بسم اللہ کو پڑھنا اور روایت انس کی توجیہ

قرات بسم اللہ کی ایک روایت اسی کتاب کے ص پر گزر چکی ہے قتادہ نے انس سے روایت کی ہے ''رسول خدا (ص) سورہ حمد کی تلاوت مد کیساتھ کرتے تھے اس کے بعد انس نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کی اور بسم اللہ ، الرحمن اور الرحیم کو مد کے ساتھ پڑھا ،،(۱)

شریک بن انس کی روایت ہے:

''میں نے رسول خدا (ص) کو بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے سنا،،

____________________

(۱) سنن بیہقی ، باب افتتاح القراء ۃ فی الصلوٰۃ : ببسم اللہ الرحمن الرحیم ، ج ۲ ، ص ۴۶ ۔ مستدرک حدیث الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۲۳۳

۶۵۷

حاکم کہتے ہیں : اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

عسقلانی کی روایت ہے:

''میں نے بہت دفعہ معتمربن سلیمان کی اقتداء میں نماز صبح اور نماز مغرب پڑھی معتمر سورہ فاتحہ سے پہلے اور اس کے بعد بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے تھے ۔ میں (عسقلانی) نے معتمر کو یہ کہتے سنا ہے : میں نماز میں ہمیشہ اپنے والد کی اقدا کرتا ہوں اور میرے والد کہتے تھے : میں نماز میں ہمیشہ انس بن مالک کی اقتدا کرتا ہوں اورانس کہتے تھے : میں نماز میں رسول خدا (ص) کی اقدا کرتا ہوں،،

(یہ سب نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ الرحمنالرحیم پڑھتے تھے)

حاکم کہتے ہیں اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں(۱)

ابو نعامہ انس سے روایت کرتے ہیں:

''رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے ،،(۲)

مولف : ممکن ہے انس کی گزشتہ روایت (جس سے بسم اللہ کے جزء قرآن نہ ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے) سے مراد یہ ہو کہ رسول خدا (ص) اور آپ کے بعد دوسرے خلفاء نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ (ص) نے بسم اللہ کو سرے سے نہیں پڑھا) اس مطلب کا قرینہ اور شاہد انس کی مذکورہ بالا روایت ہے (جس میں اس امر کی تصریح ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا) اس مطلب کی تائید گزشتہ روایت میں انس کی اس تعبیر سے بھی ہوتی ہے کہ ''میں نے قرات نہیں سنی،، بلکہ انس کی بعض روایات میں تو یہ جملہ موجود ہے کہ ''میں نے ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھتے نہیں سنا،، بعض روایات میں یہ جملہ موجود ہے۔

____________________

(۱) مستدرک ، ج ۱ ، ص ۲۳۳ ۔۲۳۴

(۲) سنن بیہقی ، باب من قال لایجہر بہا ، ج ۲ ، ص ۵۲

۶۵۸

''رسول خدا (ص) نے ہمیں نماز پڑھائی مگر ہمیں بسم اللہ کی قراً سنائی نہیں دی(۱)

بنا برایں انس کی گزشتہ روایت اور ان روایات کے درمیان کوئی منافات نہیں پائی جاتی جن کے مطابق رسول خدا (ص) کے بعد دوسرے اصحاب بسم اللہ پڑھتے تھے۔

ہاں ! ایک روایت یہ کہتی ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر قرات کے اول اور آخر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے(۲)

لیکن اس روایت کے راویوں میں ولید بن مسلم قرشی شامل ہے جس کا ثقہ ہونا مخدوش ہے بلکہ بہت سوں نے تو تصریح کی ہے کہ یہ شخص بہت زیادہ خطا کاراور جعلساز تھا(۳)

جہاں تک قتادہ کی اس روایت کا تعلق ہے جو انس سے مروی ہے جس کے مطابق رسول خدا (ص) ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان قرات کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے(۴)

تقریباً اسی روایت کی ہم مضمون وہ روایت ہے جس کو نسائی نے باب البداء بفاتحتہ الکتاب ، ج ۱ ، ص ۱۴۳ میں ذکر کیا ہے قتادہ کس اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے بعد دوسرے خلفاء ، سورہ فاتحہ سے ابتداء کرتے تھے (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ یہ حضرات سورہ فاتحہ کی ابتداء آیتہ الحمد للہ سے کرتے تھے ) اور سورۃ فاتحتہ التکاب پر الحمدللہ رب العالمین کا اطلاق ہوتا رہتا ہے چنانچہ بعض گزشتہ روایات میں بھی سورہ فاتحہ کو الحمدللہ رب العالمین کہا گیا ہے۔

شافعی نے بھی اس روایت کو اسی معنی پر محمول کیا ہے۔

____________________

(۱) ایضاً باب ترک الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۴۴

(۲) صحیح مسلم ، باب حجتہ من قال لایجہربابسملہ ، ج ۲ ، ص ۱۲

(۳) تہذیب التہذیب ملا خطہ فرمائیں۔

(۴) ترمذی باب ماجاء فی افتتاح القرات بالحمد ، ج ۲ ، ص ۴۵ ۔ سنن ابی داؤد ، باب الجہر بسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۲۵

۶۵۹

ضمیمہ (۱۷) ص ۴۷۵

ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

اس موضوع کی روایات اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں ذکر کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی البتہ ہم صرف احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ ہی کی وہ روایت ذکر کرتے ہیں کہ جو اس کی کتاب ''المنتقی ٰ من اخبار المصطفی،، میں مذکور ہے اس کے علاوہ بعض دوسرے حضرات کی روایات کو بھی ذکر کریں گے۔

۱۔ بریدہ سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''میں (ص) نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن مجھے اپنی والدہ گرامی کی زیارت کی اجازت دی گئی ہے تم بھی اس کی زیارت کیا کروں کیونکہ اس سے آخرت کی یاد دہانی ہوتی ہے،،۔

بریدہ کہتے ہیں ، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

۲۔ ابوہریرہ سے مروی ہے :

''رسول اسلام (ص) نے اپنی والدہ گرامی کی قبر کی زیارت کی ۔ آپ (ص) خود بھی روئے اور ارد گرد موجود افراد کو بھی رلا دیا ۔ پھر فرمایا : میں (ص) نے خدا سےاپنی والدہ کیلئے طلب مغفرت کی اجازت مانگی مگر خدا نے اجازت نہ دی پھر میں نے اس کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی جو خدا نے دے دی پس تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو اس لئے کہ زیارت قبور موت کی یاد دلاتی ہے،،۔

ابوہریرہ کہتے ہیں اس روایت کو علماء کی کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689