البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313982 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال

پیغمبراسلام کے بعد کوئی نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اس قسم کا دعویٰ یقیناً کذب ہے اس لیے کہ ائمہ معصومین اور رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ذریعے آنحضرت کا خاتم الانبیاء ہونا مسلم الثبوت ہے۔ جب دعویٰ ہی قطعی طور پر باطل اور جھوٹا ہو تو پھر اس شاہد کا کیا فائدہ ہوگا جسے مدعی پیش کرے جب عقل اس مدعا کے محال ہونے کے کا حکم لگا دے یا شریعت اس کے باطل ہونے کی شہادت دے تو پھر خالق پر واجب نہیں کہ اس کے باطل ہونے کو برملا کرے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کسی الہٰی منصب کا دعویٰ تو کرلیتا ہے اور کوئی خارق العدات (معجزہ نما) کام بھی کر دکھاتا ہے جس سے دوسرے انسان عاجز رہتے ہیں لیکن یہی کام اس کے دعوےٰ کے کذب ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مسیلمہ کذّاب نے ایک مرتبہ اپنا لعابِ دھن کنوئیں میں پھینکا جس میں پانی تھوڑا تھا تاکہ اس کا پانی زیادہ ہو جائے لیکن اسمیں جو پانی تھا وہ بھی خشک ہوگیا۔

ایک او واقعے میں اس نے بنی حنیفہ کے کچھ بچوں کو سر پر ہاتھ پھیرا اور بعض کو گھٹی دی (حلق پر ہاتھ پھیرا) اس کے نتیجے میں جن کے سروں پر ہاتھ پھیرا تھا وہ گنجے ہوگئے اور جن کے حلق پر ہاتھ پھیرا تھا ان کو لکنت کا عارضہ ہوگیا۔(۱) جب مدعی اس قسم کا شاہداور دلیل پیش کرے تو خدا کے لیے ضروری نہیں کہ اسے مزید برملا کرے کیوں کہ اس مدعی کا ناکام عمل ہی مدعی کو باطل کرے کے لیے کافی ہے اور اصطلاح میں اسے معجزہ نہیں کہا جاتا۔

____________________

(۱) الکامل ابن اثیر، ج ۲، ص ۱۳۸

۴۱

اس عمل کو بھی اصطلاح میں معجزہ نہیں کہا جائے گا جس کا مظاہرہ جادو گر اور شعبدہ باز کیا کرتے ہیں یا بعض دقیق اور پیچیدہ علوم نظری کے ماہر انجام دیتے ہیس اگرچہ ایسا عمل انجام دینے سے عام آدمی عاجز ہو، خدا کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس عمل کو کسی اور ذریعے سے باطل قرار دے، جبکہ یہ معلوم ہہے کہ اس کا یہ عمل سحر جیسے دوسرے طبیعی امور کے نتیجے میں انجام پایا ہے۔ اگرچہ یہ انسان کسی الہٰی منصب کا دعویدار ہو اور اس کام کو اس نے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہو، کیونکہ ان پیچیدہ علوم نظری کے خاص قوانین ہوتے ہیں جن سے اس علم کے ماہرین آگاہ ہوا کرتے ہیں اور ان قواعد کی روشنی میں مخصوص نتاء تک پہنچنا ضروری ہوا کرتا ہے، اگرچہ ان قواعد کو نتائج پر منطبق کرنا کافی دقت طلب ہے۔

بنابرایں علم طبّ کے بعض حیرت انگیز قواعد بھی معجزہ سے خارج ہوں گے جن کا تعلق چیزوں کی طبیعتوں اور ان کے خاصیتوں سے ہے اگرچہ طبّ کی یہ عجیب و غریب باتیں عام لوگوں سے مخفی اور پوشیدہ ہوں بلکہ خود ان طبیبوں اور حکیموں پر بھی چیزوں کی خاصیتیں اور ان کے آثار مخفی ہوں۔

اس میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ خدا کسی خاص بندے کو کسی خاص چیز کی معرفت عطا فرمائے جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہو۔

قباحت اس میں ہے کہ خدا کسی جھوٹے شخص کی تائید کرے اور ایسے جھوٹے شخص کے ہاتھ معجزہ ظاہر کرے جو لوگوں کو راہِ راست سے گمراہ کرے۔

۴۲

نبوّت اور اعجاز

تمام انسانوں کو مکلّف کرنا خدا پر واجب ہے اور یہ بات صحیح عقلی دلائل سے ثابت ہے، کیونکہ انسان اپنی ارتقائی منازل طے کرنے اورابدی سعادت کے حصول اور عظیم منفعت کےلئے تکلیف (فرائض و ذمہ داریوں) کا محتاج ہے۔ اگرخدا انسان کو پابند قرار نہ دے تو اس کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں:

i ) خدا نے اپنے بندوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ خدا نہیں جانتا کہ لوگ ذمہ داری و لائحہ عمل کے محتاج ہیں۔

اس سے جہل لازم آتا ہے جس سے خدا کی ذات پاک و منزہ ہے۔

ii ) خدا نے لوگوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ وہ انہیں کمال تک پہنچنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس سے بخل لازم آتا ہے اور بخل اس ذات کے لیے محال ہے جو سرچشمہ ئ فیض و سخا ہے۔

iii ) خدا انہیں مکلّف بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اس پر قادر نہیں ہے۔ یہ عجز و ناتوانی ہے جو اس قادر و مطلق ذات کے لیے محال ہے۔

بنابریں بشر کو بعض فرائض کا مکلّف بنانا ضروری اور لازمی ہے اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان کو مکلّف بنانے کے لیے کسی نہ کسی مبلّغ کی ضرورت ہے جو احکامِ الہٰی کے پوشیدہ اور واضح رموز سے آگاہ کرے:

( لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ) (۸:۴۲)

''تاکہ جو شخص ہلاک (گمراہ) ہو وہ (حق کی) حجت تمام ہونیکے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ (ہدایت کی) حجّت تمام ہونیکے بعد زندہ رہے۔،،

۴۳

یہبھی ایک بدیہی بات ہے کہ سفارتِ الہٰی ایسا عظیم منصب ہے جس کے بہت سے مدعی ہوسکتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ صادق اور کاذب میں تمیز نہ ہوسکے، گمراہ کرنے والے اور ہادی و راہنما میں امتیاز نہ رہے، اس لیے جو بھی اس سفارت کا دعویدار ہو اس کے لئے ضروری ہے ہک ایسا شاہد اور ثبوت پیش کرے جو اس کے اس دعویٰ میں صادق ہونے پر دلالت کرتا ہو اور اس تبلیغ میں اس کے امین ہونے کی ضمانت دے۔ یہ شاہد ان عام اور معمولی افعال اور کارناموں میں سے نہ ہو جنہیں ہر کس و ناکس انجام دے سکتا ہو۔ بنابرایں اس مدعا کی دلیل میں ان کاموں میں منحصر ہوگی جو طبیعی قوانین کو توڑ دیں۔ معجزہ اس لیے مدعی کی صداقت کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ معجزہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہوتا ہے اور یہ کام اسی سے صادر ہوتا ہے جسے توفیق الہٰی حاصل ہو اور خدا جسے قدرت اور طاقت دے۔

بنابرایں اگر نبوّت کا مدعی اپنے دعویٰ میںجھوٹا ہو تو ایسے معجزے پر اس کو قدرت دینا لوگوں کو جہالت میں ڈالنے اور باطل کی تقوّیت کا باعث ہوگا اور یہ کام خدا کے لیے محال ہے۔

جب اس قسم کا معجزہ کسی مدعی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو یہ معجزہ اس کی صداقت کی دلیل ہوگا اور اس بات کا اظہار ہوگا کہ خداوند متعال اس کی نبوّت پر راضی ہے۔

یہ ایک ایسا قاعدہ کلیّہ ہے جسے تمام عقلاء اس قسم کے اہم کاموں میں تسلیم کرتے ہیں اور اسے کوئی بھی شک و شبہ کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔

۴۴

جب کوئی کسی بادشاہ یا صدر کے سفیر ہونے کا دعویٰ کرے یا کوئی شخص ایسے کاموں میں بادشاہ کی نمائندی کا دعویٰ کرے جن کا تعلق عوام سے ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ پر دلیل پیش کرے جس سے اس کی تائید ہو۔ خصوصاً جب لوگ اس کی صداقت میں شک کریں تو اس کی دلیل واضح اور آشکار ہونی چاہےے۔ مثال کے طور پر اگر سفیر لوگوں سے یہ کہے کہ میری صداقت کی دلیل یہ ہے کہ کل کے دن بادشاہ او صدرمملکت مجھے ایسا تحفہ دیگا جیسا وہ دوسرے سفیروں اور نمائندگان کو دیا کرتا ہے اور میری ایسی عزّت اور تکریم کرے گا جیسی دوسرے سفراء او رنمایندگان کی کیا کرتا ہے تو ایسی صورت میں جب سفیر اور لوگوں میں رونما ہونے والے اس اختلاف کا بادشاہ کو علم ہوگا اور اس کے بعد اسی دن اسی تحفے و عزّت و تکریم سے سفیر کو نوازے تو بادشاہ اور صدر مملکت کی طرف سے یہ فعل مدعیئ سفارت کی تصدیق ہوگی جس میں عقلاء کو کوئی شک نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک بادشاہ جو رعیت کی مصلحتوں کا محافظ ہوا کرتا ہے اس کے لئے قبیح ہے کہ وہ کاذب مدعی کی تائید و تصدیق کرے۔ کیونکہ وہ لوگوں میں فساد پھیلانا چاہتا ہے، جب یہ کام عام عقلاء کے لیے قبیح ہو تو اس حکیم اور دانا ذات کے لیے بطریقِ اولیٰ اور قبیح ہے اور یہ حقیقت خدا نے اس آیتِ کریمہ میں بیان فرمائی ہے:

( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ) (۶۹:۴۴۔۴۶)

''اگر رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑلیتے پھر ہم ضرور ان کی گردن اڑا دیتے۔،،

۴۵

اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی نبوّت ہم نے ثابت کی ہے اور اس کی تصدیق کے لیے معجزہ ظاہر کیا ہے، آیا ممکن ہے کہ وہ کوئی بات اپنی طرف سے ہماری طرف منسوب کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ہم ان کا مواءخذہ کریں گے اور ان کی جان لے لیں گے اس کے علاوہ اس قسم کی غلط نسبتوں کو سننے کے بعد خاموشی اختیار کرنا، ان کی تصدیق ہوگی اور شریعت مقدّسہ میں باطل کو شامل کرنے کے مترادف ہوگا۔ بنابرایں جس طرح شریعت کی ابتدائی پیدائش میں اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے اسی طرح پیدائش کے بعد بقاء کے مرحلے میں بھی اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

معجزے کا کسی مدعی نبوّت کی صداقت پر دلالت کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ ہم ےسن و قبح عقلی کے قائل ہوں یعنی اس بات کے قائل ہوں کہ عقل حسن و قبح کو درک کرسکتی ہے۔ لیکن اشاعرہ یہ بات تسلیم نہیں کرتے ان کے نزدیک نبوت کی تصدیق کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس قول کی خرابیوں میں سے ایک خرابی یہی ہے کہ اس سے تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ معجزہ اسی صورت میں نبوّشت کی صداقت کی دلیل ہوگا جب عقل کاذب کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر ہونے کا قبیح سمجھے، اگر عقل اسے قبیح نہ سمجھے تو پھر کوئی بھی صادق اور کاذب میں تمیز نہ کرسکے گا۔

فضل ابن روز بہان نے اس اشکال و اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اگرچہ خدا سے فعل قبیح کا صادر ہونا ممکن ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ خدا کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے لیکن اس کی عادت اور سنت یہی رہی ہے کہ معجزہ اسی کے ہاتھ پر ظاہر ہو جو صادق ہو اور کاذب کے ہاتھ پر معجزہ کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتا۔

اس سے اشاعرہ کے نزدیک تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود نہیں ہوتیں، لیکن اس جواب کی کمزوری ظاہر و آشکار ہے۔

۴۶

اس لیے کہ اوّلاً یہ عادت خدا اور سنت الہٰی جس کی خبر ''ابن روز بہان،، دے رہا ہے، ان چیزوں میں سے نہیں ہے جو اس سے درک کی جاسکیں، کان سے سنی جاسکیں یا آنکھ سے دیکھی جاسکیں بلکہ عقل ہی کے ذریعے اس کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب عقل حسن و قبح کا ادراک نہ کرسکے (جس کے اشاعرہ قائل ہیں) توپھر کون جانے کہ خدا کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ معجزہ صرف صادقین کے ہاتھ پر دکھاتا ہے۔

ثانیاً، یہ عادت گذشتہ انبیاء کی تصدیق کے بعد ہی ثابت ہوسکتی ہے، جن کے ہاتھ سے معجزے ظاہر ہوئے ہیں، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ خدا کی یہ سنّت رہی ہے کہ وہ صادق کے ہاتھ پر ہی معجزہ ظاہر کرتا ہے لیےکن جو حضرات گذشتہ انبیاء کی نبوّتوں کے منکر ہیں یا انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے لیے تو یہ عادت ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا جس کا ''ابن روز بہان،، مدی ہے اور نہ ہی ان کے لئے معجزہ حجت ہے ہوسکتا ہے۔

ثالثاً، جب عقل کی نظر میں کسی فعل کو انجام دینا اور ترک کرنا مساوی ہو اور اس میں کسی قبح یا حسن کا حکم نہ لگایا جاسکے تو پھر خدا کو اپنی عادت بدلنے میں کون سی چیز مانع ہوگی، جبکہ خدا قادر مطلق ہے اور اس کا کوئی مواخذہ و محاسبہ بھی نہیں کرسکتا۔ بنابرایں اگر خدا کسی کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے تو بھی کوئی مانع نہیں ہونا چاہیے۔

رابعاً، عادت تو ایک ایسی چیز ہے جو کسی عمل کے تکرار کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے اور اس میں عرصہ دراز کی احتیاج ہوتی ہے۔ یہ آخری نبی یا اس سے پہلے انبیاء کے لئے تو معجزہ بن سکتا ہے لیکن ابتدائی نبوّت کے لیے کس طرح معجزہ بن سکتا ہے، جس میں کوئی عادت ہی نہیں بنی تھی۔ ہم آئندہ صفحات پر اشاعرہ کے اقوال ذکر کریں گے اور ان کے باطل پہلو بھی بیان کریں گے۔

۴۷

معجزہ اور عصری تقاضے

آپ نے دیکھا کہ معجزہ وہ ہوتا ہے جو طبیعی قوانین کو توڑ دے، کسی الہٰی منصب کا مدعی اسے انجام دے اور باقی لوگ اسے انجام دینے سے قاصر ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی معجزہ جس ہنر یا پیشے سے مماثلت رکھا ہو اسی پیشے کے علماء و ماہرین ہی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ عام لوگ یہ کام انجام دینے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ کسی بھی صنعت اور ہنر کی خصوصیات اس کے علماء ہی بہتر سمجھتے ہیں، وہی بتاسکتے ہیں کہ عام لوگ کونسا کام انجام دے سکتے ہیں اور کونسا نہیں یہی وجہ ہے کہ علماء معجزہ کی جلدی تصدیق کرتے ہیں جبکہ اس فن و ہنر کے اصولوں سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے جاہل کے آگے شک و تردید کے دروازے کھلے رہتے ہیں چنانچہ جب تک اس کا یہ احتمال باقی رہے کہ مدعی نے خاص اصولوں کا سہارا لیا ہوگا جنہیں اہل فن ہی جانتے ہیں اسے بہت دیر تک مدعی کی صداقت پر یقین نہ آئے گا۔

اسی لیے حکمت الہٰی کا یہ تقاضا ہے کہ ہر نبی کو وہی معجزہ دے کر بھیجا جاھے جو اس دور کے مشہور و معروف فن کی مانند اور اس فن کا اس دور میں چرچا بھی ہو، اس طرح کے معجزے کی تصدیق جلدی اورحجت و برہان مضبوط ہوتی ہے۔

حکمت الہٰی کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا سے مسلح کیا جاتا کیوں کہ اس زمانے میں سحر کی شہرت زیادہ تھی اور جادوگر کثرت سے تھے، یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے آپ کی تصدیق جادوگروں نے کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عصائے موسیٰ (علیہ السلام) اژدھے میں تبدیل ہوگیا اور ان کے جعلی اور بے بنیاد سانپوں کو نگلنے کے بعد دوبارہ اپنی اصلی صورت میں آگیا ہے تووہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ سحر کے دائرے سے خارج ہے اور یہ یقیناً الہٰی معجزہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرعون کے دربار میں اس کی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔

۴۸

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں یونانی طبّ کو شہرت حاصل تھی، اس دور میں اطباء عجیب و غریب کارنامے انجام دیتے تھے، شام اور فلسطین میں یہ علم بہت زٰادہ مروّج تھا کیونکہ یہ دونوں شہر یونانی استعمار کی زد میں تھے۔ جب خداوند حکیم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان علاقوں میںنبی بناکر بھیجا تو حکمت کا یہی تقاضا تھاکہ آپ کی نبوت کی دلیل طب سے مشابہت رکھنے والی ہو۔ چنانچہ آپ مردوں کو زندہ، مادر زاد اندھوں کو بینا اور برص کے مریضوں کو شفایاب کردیتے تھے تاکہ اس زمانے کے لوگ یہ سمجھ سکیں کہ چونکہ یہ عمل انجام دیناعام لوگوں کی قدرت و استطاعت سے باہر ہے اور طبی اصولوں کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس میں طبیعت اور مادہ سے بالاتر کسی ذات کی قدرت کار فرما ہے۔

عرب فصاحت و بلاغت میںبہت آگے تھے، فصاحت ان کا طرہ امتیاز تھی، وہ ادب کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں شعر و شاعری میں مقابلے اور فخر و مباہات کے لیے خصوصی میلے لگتے تھے جہاں اچھاکلام پیش کرنے والوں کو داد تحسین دی جاتی تھی۔ ان کے نزدیک شعر و شاعری کی قدر و منزلت اس قدر زیادہ تھی کہ انہوں نے قدیم اور عمدہ اشعار پر مشتمل سات قصیدے منتخب کئے اور انہیں آبِ زر سے لکھ کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیا، اس کے بعد کسی کے عمدہ کلام پر یہ کہا جانے لگا کہ یہ فلاں شاعر کا سنہرا کلام ہے۔ عرب مرد و زن سب اس فن کو اہمیت دیتے تھے اور شعری مقابلوں میں (معروف شاعر) ''نابغہ ذبیانی،، کو جج مقرر کیا جاتا تھا۔ حج کے موقع پر بازار عکاظ میں اس کے لیے چمڑے کا خیمہ نصب کیا جاتا تھا جہاں آکر شعراء اسے اپنا کلام سناتے تاکہ وہ اپنا فیصلہ سنائے۔

۴۹

ان حالات میں حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور بلاغت قرآن کا معجزہ دے کر بھیجا جاتا، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا۔ یہ عرب نے اس سمجھا اور تصدیق کی کہ یہ کلام خدا ہے اور اس کی بلاغت بشر کی قدرت سے باہر ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف ہر اس عرب نے کیا جس میں تعصب نہیں تھا۔

اس حقیقت پر اس روایت سے بھی ر وشنی پڑتی ہے جو ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے دریافت کیا:

''لماذا بعث الله موسی بن عمران بالعصا، و یده البیضائ، و آلة السحر؟ و بعث عیسیٰ بآلة الطب؟ و بعث محمداً صلی الله علیه و آله وعلی جمیع الأنبیائ بالکلام و الخطب؟

فقال أبو الحسن : ان الله لما بعث موسی کان الغالب علی أهل عصره السحر، فأتاهم من عند الله بما لم یکن فی وسعهم مثله، و ما أبطل به سحرهم، و أثبت به الحجة علیهم، و ان الله بعث عیسیٰ فی وقت قد ظهرت فیه الزمانات، و احجاج الناس الی الطب، فأتاهم من عند الله بما لم یکن عندهم مثله، و بما أحیی لهم الموتی، و أبرأ الأکمه و الأبرص باذن الله، و أثبت به الحجة علهیم

و ان الله بعث محمد فی وقت کان الغالب علی أهل عصره الخطب و الکلام و أظنه قال: الشعر فأتاهم من عند الله من مواعظه و حکمه ما أبطل به قولهم، و أثبت باه الحجة علیهم ،،(۱)

''کیا وجہ ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو طب اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور خطابت کامعجزہ دے کر بھیجا؟ آپ نے فرمایا: خدا نے حضرت موسیٰ کو جس وقت نبی بنا کر بھیجا اس وقت سحر اور جادو کا دور دورہ تھا۔ اسی لیے خدا نے حضرت موسیٰ کو اسی نوعیت کا ایسا کمال عطا کرکے بھیجا جس سے عام لوگ عاجز تھے اور ان کے سحر باطل ہوگئے اور آپ کی حجت مکمل ہوگئی۔

____________________

(۱) اصول کافی، کتاب عقل و الجہل۔ الروایۃ ۲۰

۵۰

جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث بر مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت مختلف قسم کی بیماریاں عام تھیں اور لوگ طب کے زیادہ محتاج تھے، چنانچہ خالق نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہ طب عطا فرمائی جس کی نظیر لوگوں کے پاس نہ تھی۔ آپ کو ایسا طب عطا فرمایا جس سے آپ باذن اللہ مردوں کو زندہ اور مادر زاد اندھے کو بینا اور برص کے مریضوں کوشفایاب فرماتے تھے۔ جس سے آپ نے ان لوگوں پر اپنی حجت مکمل کی۔ جس وقت خاتم الانبیائ کو نبی بنا کر بٍھیجا گیا اس وقت بیان اور خطابت کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان تھا۔ (میرے خیال میں امام کے کلام میں شعر کا ذکر ہے) خدا نے آنحضرت کو موعظہ اور حکمت آمیز کلام دے کر بھیجا، جس سے ان کے تمام دعوے باطل ہوگئے اور آپ کی حجت پوری ہوگئی۔،،

اگرچہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس قرآن کے علاوہ بھی معجزات تھے جن میں چاند کو دو ٹکڑے کرنا، اژدھے سے کلام کرنا اور سنگریزوں کا آپ کے ہاتھ پر تسبیح پڑھنا شامل ہیں لیکن ان تمام معجزات میں قرآن کی شان اور عظمت زیادہ ہے اور یہ سب سے مضبوط حجت اور دلیل ہے۔ چونکہ عرب طبیعی علوم اور کائنات کے اسرار و رموز سے آشنا نہیں تھے اس لیے وہ ان معجزوں (شق قمر وغیرہ) کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کو نامعلوم علل و اسباب کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وہ ان اسباب میں سب سے زیادہ احتمال سحر کا دیتے تھے۔ لیکن قرآن کامعجزہ ایسا ہے کہ عرب ا س کی بلاغت اور اعجاز میں شک نہ کرسکے۔اس لیے کہ عرب فنون بلاغت سے مکمل آگاہ تھے اور اس کے اسرار و رموز کو درک کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ شق القمر جیسے دیگر معجزات وقتی تھے جو ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتے تھے اور بہت جلد ایک تاریخی واقعے میں تبدیل ہوسکتے تھے جنہیں گذشتہ لوگ آئندہ کی نسلوں کے لیے نقل کرتے۔ چنانچہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ شک و تردید کی نگاہ سے دیکھے جاتےٍ۔۔۔ مگر قرآن ایک ایسا معجزہ ہے جو ابد تک باقی رہے گا اور ہردور و نسل میں ایک زندہ معجزہ کے طور پر موجود ہے۔

ہم آئندہ ابحاث میں قرآن کے علاوہ دیگر معجزات پر تفصیلی بحث کریں گے اور ان اہل قلم ہم عصروں کا محاسبہ کریں گے جو معجزات کے منکر ہیں۔

۵۱

قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ

دعوتِ اسلام سے آشنا ہر عاقل اور باشعور انسان یقیناً جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اقوام عالم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور قرآن مجید کو بطور دلیل پیش فرمایا اور معجزہ قرآن کے ذریعے چیلنج کیا عرب کے تمام فصحاء و بلغاء مل کر اس کی نظیر اور مثل لاکر دکھائیں۔ اس کے بعد آپ نے رعایت دیتے ہوئے قرآن مجید کے دس سوروں کی نظیر و مثل پیش کرنے کا چیلنج دیا۔ پھر مزید رعایت دے کر آپ نے ایک سورہ پیش کرنے کا چیلنج دیا۔

چاہیے تھا کہ عرب، جن میں چوٹی کے فصحاء موجودتھے، آنحضرت کے اس چیلنج کا جواب دیتے اور امکان کی صورت میں قرآن کی نظیر پیش کرکے آنحضرت کا دعویٰ باطل کرتے۔ واقعاً حق تو یہ تھا کہ کم از کم وہ قرآن کے ایک سورہ کا مقابلہ کرتے، بلاغت میں اس کی نظیر پیش کرتے اور اس طرح ہو اس مدعیئ نبوّت کی دلیل کا توڑ فراہم کرتے جس نے اس فن میں ان کو چیلنج کیا، جس میں انہیں کمال حاصل تھا اور جسے وہ اپنا طرہ امتیاز سمجھتے تھے تاکہ تاریخ میں فتح و کامیابی کا سہرا وہ اپنے سر باندھتے اور اپنا نام ہمیشہ کے لیے زندہ کرتے۔ اس طرح ایک معمولی مقابلے کے نتیجے میں بہت سی خونریز جنگوں سے نجات مل جاتی اور بہت سا مال و دوکت بھی بچ جاتا۔ لوگ وطن سے بے وطن نہ ہوتے اور نہ انہیں سختیاں جھیلنی پڑتیں۔

مگر جب عربوں نے قرآن کی بلاغت کا بغور مطالعہ کیا تو انہیں اس کے معجزہ ہونے کا یقین آگیا۔ انہیں معلوم تھا کہ قرآن سے مقابلہ کرنے کی صورت میں انہیں حتمی شکست و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ بعض اقوام نے اس داعیِ حق کی تصدیق کی، دعوتِ قرآن کے آگے سرتسلیم خم کیا اور اسلام کا شرف حاصل کرلیا اور کچھ ل وگوں ے عناد اور تعصب کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فصاحت و بلاغت کی علمی جنگ پر مسلحانہ جنگ کوترجیح دی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن وحی الہٰی ہے۔

۵۲

ایک اعتراض اور اسکا جواب

ایک غیر ملم جاہل یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ عربوں نے قرآن کی نظیر پیش کردی تھی اور انہوں نے قرآن کا مقابلہ کرلیا تھا لیکن زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے تاریخ یہ بات ہم تک نہیں پہنچا سکی۔

اس اعتراض کے تین جواب ہیں:

i ) اگر اس قسم کا مقابلہ کرتے ہوئے قرآن کی نظیر پیش کی جاتی تو عرب اپنی محفلوں، اجتماعات اور بازاروں میں اس کا اعلان کرتے، دشمنان اسلام ہر محفل میں اس کے گن گاتے، مناسب موقع پر اس کا ذکر کرتے، ہر آنے والے کو اس کی خبر دیتے، اس کی اس طرح حفاظت کرتے جس طرح ایک مدعی اپنی دلیل و حجت کی حفاظت کیا کرتا ہے اور یہ چیز ان کے لیے اپنے سلف کی ان تواریخ اور زمانہ جاہلیّت کے اشعار سے زیادہ عزیز و قیمتی ہوتی جن سے کتبِ تواریخ اور دیوان بھرے پڑے ہیں۔ مگر قرآن کی نظیر پیش کرنے کا کوئی واقعہ نہ دیکھنے میں آیا اور نہ اس کا ذکر سننے میں آیا۔

ii ) قرآنِ کریم نے عربوں کو ہی چیلنج نہیں کیا، پوری انسانیّت بلکہ تمام جنّ و انس کو یہ چیلنج کیا تھا:

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ) (۱۷:۸۸)

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر (ساری دنیا جہان کے) آدمی اورجنّ اس بات پر اکٹھے ہوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں (غیر ممکن) اس کے برابر نہیں لاسکتے۔ اگرچہ اس کوشش میں ا یک کا ایک مددگار بھی بنے۔،،

۵۳

تاریخ شاہد ہے کہ نصاریٰ اور دوسرے دشمنان اسلام۔ رسول اسلام ، قرآن کریم اور دین اسلام کو ان کے مقام سے گرانے کے لیے بے تحاشا سرمایہ خرچ کر رہے ہیں اور یہ کام ہر سال بلکہ ہر مہینے ہو رہا ہے۔ اگر قرآنِ کریم کے ایک سورہ کا بھی مقابلہ ممکن ہوتا تو یہ ان کے لیے ایک مضبوط و محکم دلیل ہوتی، وہ اس کی مدد سے جلد اپنی آرزو پوری کرسکتے تھے۔ اتنا سرمایہ خرچ کرنے اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کی انہیں ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی:

( يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ) ۶۱:۸

''یہ لوگ اپنے منہ سے (پھونک مارکر) خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، حالانکہ خدا اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، اگرچہ کفّار برا ہی (کیوں نہ) مانیں۔،،

iii ) عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ جب کسی شخص کا واسطہ طویل عرصے تک کسی فصیح و بلیغ کلام سے رہا ہو اور ایک مدّت تک اس نے اس کی خدمت کی ہو ہو اس کی مثل یا کم از کم فصاحت و بلاغت میں اس کے قریب قریب اپنا کلام بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

لیکن قرآن کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں کیا گیا کیوں کہ انسان قرآن کو کتنا ہی زیادہ پڑھ لے اور اس کی خصوصیّات پر غور و خوض کرے، وہ اس کی معمولی سی جھلک بھی پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے اس سے ہم لازماً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب، تعلیم و تعلّم کے عام اسالیب سے مختلف ہے۔

۵۴

اگر قرآن کریم رسول اسلام کا اپنا بنایا ہوا کلام ہوتا تو آپ کے خطبوں اور جملوں میں کہیں نہ کہیں قرآن کریم کے اسلوب بیان کا عکس نظر آتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اقوال کے ایک خاص انداز ہے جو قرآن کریم کے اسلوب سے یکسر مختلف ہے۔

اگر آپ کے کلام میں قرآن کریم کے مشابہ کوئی چیز ہوتی تو وہ مشہور ہوجاتی۔ خصوصاً دشمنان اسلام کی زبانوں اور کتب کے ذریعے، جو ہر طریقے سے اسلام کو کمزور اور بدنام کرنے کے درپے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ عام مروّج بلاغت کی مخصوص حدود ہیں جن سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک بلیغ عربی شاعر یا نثر نگار ہے، لیکن وہ صرف ایک یا دو پہلوؤں پر بلاغت آمیز کلام پیش کرسکتا ہے۔ مثلاً وہ شجاعت و بہادری کے موضوع پر توبلیغ کلام پیش کرسکتا ہے مگر مدح و تعریف کے موضوع پر ویسا بلیغ کلام پیش کرنے سے قاصر ہے یا مرثیہ کے موضوع پر تو بلیغ کلام پیش کرسکتا ہے لیکن غزل کے عنوان سے ویسا کلام پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جبکہ قرآن کریم میں متعدد موضوعات اور مختلف فنون کا ذکر ہے اور تمام موضوعات کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ جس کی نظیر لانے سے دنیا قاصر ہے اور یہ کام بشر کے لئے ناممکن ہے۔

۵۵

قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ

اب تک ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی نبی کی نبوّت کی تصدیق اور اس پر ایمان لانا اس معجزے پر منحصر ہے جسے نبی اپنے دعوےٰ کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چونکہ گذشتہ انبیاء (علیٍھم السلام) کی نبوّتیں انہی ادوار اور انہی نسلوں کے لیے مختص تھیں اس لیے حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ ان معجزوں کی مدّت محدود ہوتی۔ اس لیے کہ وہ معجزات محدود دور نبوست کی نشانی تھی۔ اس زمانے میں بعض لوگ تو خود ان معجزات کا مشاہدہ کرتے اور ان پر حجّت تمام ہو جاتی اور بعض لوگوں کے لیے عینی شاہدان معجزوں کو تواتر سے پیش کرتے جس سے ان پر بھی حجّت تمام ہوجاتی تھی۔

لیکن ایک ابدی شریعت کے لیے شاہد کے طورپر پیش کیے جانے والا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے کیونکہ اگر معجزہ کی مدّت محدود ہوگی تو آنے والی نسل اس کا مشاہدہ نہ کرسکیں گی اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خبر متواتر کا سلسلہ بھی ختم ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں آئندہ نسلوں کو اس نبوّت کی صداقت کا علم حاصل نہیں ہوسکے گا۔ ایسی صورت میں اگر آنے والی نسلوں کو نبوّت پر ایمان لانے کا مکلّف بنایا جائے تو یہ ایک ناممکن امر کا مکلّف بنانے کے مترادف ہے اور یہ محال و ممتنع ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی محال امر کا مکلّف بنائے۔

۵۶

پس معلوم ہوا کہ دائمی نبوّت کا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک دائمی اور ابدی معجزہ کی صورت میں بھیجا تاکہ یہ ایک ابدی اور دائمی صداقت کا شاہد بن سکے اور جس طرح یہ گذشتہ لوگوں کے لیے حجّت تھا سای طرح یہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی حجّت قرار پائے۔

ہم گذشتہ مباحث سے دو نتیجوں پر پہنچے ہیں:

( i قرآن کریم انبیاء ما سلف (علیہم السلام) کے تمام معجزات اور خود خاتم الانبیاء (ص) کے باقی تمام معجزوں پر فوقیت رکھتا ہے، اس لیے کہ قرآن کریم ہمشیہ کےلئے باقی ہے اور اس کا اعجاز دائمی ہے جسے تمام نسلیں سن سکتی ہیں اور یہ سب کے لیے حجت ہے۔

ii ) گذشتہ شریعتوں کی مدت ختم ہوگئی، کیوں کہ ان کی حجت اور دلیل (معجزہ) بھی ختم ہوچکی ہے جس پر ان شریعتوں کی صداقت مبنی تھی۔(۱)

یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کو اس وجہ سے بھی گذشتہ انبیاء کے معجزات پر برتری حاصل ہے کہ قرآن کریم نے انسان کی ہدایت(۲) اور کمال کی آخری منزل تک اس کی رہنمائی کی ضمانت دی ہے۔

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۴ میں مولف اور ایک یہودی عالم کے درمیان ہونے والا مباحثہ ملاحظہ فرمائیں۔

(۲) وضاحت کے لیے اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر۵ ملاحظہ فرمائیں۔

۵۷

قرآن کریم ہی وہ رہنما ہے جس نے ان عربوں کی ہدایت کی جو ظالم، سرکش، بدترین عادات کے خوگر اور بتوں کے پرستار تھے۔ جو علوم و معارف اور تزکیّہ ئ نفس سے عاری تھے اورداخلی جنگ و جدال اورجاہلیت پر مبنی فخر و مباھات میں مصروف رہتے تھے۔ یہی عرب ایک قلیل مدّت میں ایک ایسی اُمّت بن گئے جس کی ثقافت عظیم اور تاریخ رشن و درخشاں ارو جو انسانی عادادت و اخلاق سے آراستہ ہوچکی ہے؟

تاریخ اسلام اور راہ اسلام میں جام شہادت نوش کرنے والے اصحاب پیغمبر کے حالاتِ زندگی کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو اس پر قرآنی ہدایت و رہبری کی عظمت اور اس کے حیرت انگیز اثرات عیاں ہوں گے، اسے معلوم ہوگا کہ قرآن نے ہی انہیں جاہلیت کی پست زندگی سے نکال کر علم و کمال کے بلند مراتب پر فائز کیا اور انہیں ایسے فداکار انسان بنایا جو دین و شریعت کی راہ میں جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور جنہیں اسلام کے مقابلے مںی مال و دولت اور اہل و عیال کی پرواہ نہیں ہوتی۔

جنگ بدر کے آغاز میں مسلمانوں سے مشورہ کے موقع پر جناب مقدار نے رسولِ خد کو جواب دیا وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے فرمایا:

''یا رسول الله امض لما امرک الله فنجن معک، و الله لانقول کما قالت بنو اسرائیل لموسی: اذهب انت و ربک فقباتلا انا ههنا قاعدون، و لکن اذهب انت و ربک فقاتلا انا معکما مقاتلون، فوالذی بعثک بالحق لوسرت بنا الی وبرک الغماد ۔یعنی مدینة الحبشة ۔لجالدنا معک من دونه حتی تبلغه ۔فقال له رسول الله خیراً، و دعا له بخیر،، (۱)

''یا رسول اللہ! خدا نے آپ کو جس مشن کا حکم دیا ہے اسے کرگزریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی مانند نہیں ہےں کہ جنہوں نے جناب موسیٰ سے کہا تھا: ''آپ خودجائیں اور اپنے خدا کی مدد سے جنگ کریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔،، لیکن ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ جائیں اور

___________________

۱) تاریخ طبری، غزوہئ بدر، ج ۲، ص ۱۴۰، طبع دوم۔

۵۸

اپنے ربّ کی مدد سے جنگ کریں ہم بھی آپ کے ہمراہ جنگ کریں گے۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا، اگر آپ ہمیں برک غماد (حبشہ شہر) بھی لے چلیں تو بھی ہم آپ کے ہمراہ جائیںگے، یہاں تک کہ آپ منزل مقصود پر پہنچ جائیں یہ کلام سننے کے بعد رسول اللہ نے جناب مقداد کے لیے دعائے خیر فرمائی۔،،

مسلمانوں میں سے ایک ہے جو اپنے عزم و عقیدہ، حق کو زندہ رکھنے اور باطل کو مٹانے کے لیے جانثاری کااظہار کررہا ہے، خلوص کے ایسے پیکر اور عقیدت مند مسلمانوں میں اور بہت پائے جاتے ہیں۔

ہاں! قرآن حکیم ہی وہ سراپا ہدایت ہے جس نے بت پرستوں کے دلون کو منور کیا جو خانہ جنگی اور جاہلیت کے فخر و مباھات میں الجھے ہوئے تھے اور ان لوگوں کو کفار کے مقابلے میں فولاد کی طرح سخت اور مومنین کے مقابلے میں ابریشم کی طرح نرم (رحمدل) بنایا۔ ان کیایسی تربیت کی کہ یہ اپنے ساتھیوں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے لگے۔

اسلام کی بدولت اسّی سال میں مسلمانوں کو اتنے ممالک پر فتح نصیب ہوئی جو دوسروں کو آٹھ سو سال میں بھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ جو شخص اصحاب پیغمبر کی سیرت اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی سیرت کا موازنہ کرے وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس (فتح) کا ایک الہٰی راز ہے جو اس کتابِ الہٰی میں مضمر ہے، جس نے راسخ عقیدہ اور اصولوں کے ثبات سے دلوں اور روح کو پاکیزگی دی اور نفوس پر نور افشانی کی۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لوگ سختی کے موقع پر انبیاء کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور جہاں انہیں موت نظر آتی وہاں ان کا ساتھ نہ دیتے تھے، اسی لیے گذشتہ انبیاء اپنے دور کی طاغوتی طاقتوں پر فتح نہ پاسکے تھے بلکہ وہ ان کے خوف سے بیابانوں اور غاروں میں جاکر پناہ لیتے تھے۔ یہ وہ دوسری خاصیت ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم کو باقی معجزات پر امتیاز حاصل ہے۔

جب بلاغت میں قرآن کریم کا الہٰی معجزہ ہونا ثابت ہوگیا تو اب یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہ رہے کہ قرآن صرف بلاغت کے پہلو سے معجزہ نہیں بلکہ کئی اور جہات سے بھی رسولِ اسلام کی نبوّت کی برہان اور دلیل ہے۔ ہم ان میں بعض جہات کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

۵۹

قرآن اور معارف

قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی تصریح کی گئی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) امّی تھے اور آپ نے کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ آپ نے اس کا اعلان اپنی قوم اور قبیلے میں فرمایا، جس میں آپ نے نشوونما پائی تھی۔ مگر کسی نے بھی آپ کے اس دعویٰ کی تردید نہیں کی اور یہ (کسی کا تردید نہ کرنا) آپ کے دعویٰ کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ آپ نے امّی ہونے کے باوجود قرآن کریم جیسی کتاب پیش کی جس کے معارف و علوم سے فلسفیوں کی عقلیں مبہوت ہیں اور ظہور اسلام سے لے کر آج تک مغربی و مشرقی مفکرّین ان کے سامنے مبہوت نظر آتے ہیں اور قرآنِ کریم قیامت تک مفکرّین کے لیے باعثِ حیرت و استعجاب رہے گا اور یہ اعجاز قرآنِ کریم کا ایک اہم اور عظیم پہلو ہے۔

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ امّی نہ تھے بلکہ آپ نے تاریخ، فنون اور دیگر معارف کی تعلیم کسی مکتب میں حاصل کی تھی تو کیا یہ لازمی نہیں ہے کہ آپ نے علوم و فنون اس دور کے ماہرین سے سیکھے ہوں جن میں آپ پھلے پھولے۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں میں پرورش پائی جو بُتوں اور اوہام کی پرستش کرتے اور خرافات پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ آپ کے کچھ ہم عصر اہلِ کتاب جو اپنے معارف، تاریخ اور احکام، حورات و انجیل سے لیتے تھے اور انہیں وحی و انبیاء کی طرف منسوب کرتے تھے۔

اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام تعلیمات اس زمانے کے علماء سے حاصل کی تھیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے اقوال و تعلیمات میں وہی عقائد چھائے ہونے چاہئیں جو آپ نے اپنے استادوں اور راہنماؤں سے سیکھے ہیں۔ حالانکہ قرآنِ کریم ہر لحاظ سے تورات و انجیل سے مختلف نظر آتا ہے۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

ضمیمہ (۶) ص ۱۱۳

رسول (ص) اسلام کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش

اسی کتاب کے ص پر آیات کریمہ کی جو وضاحت ہم نے کی ہے اس کی تائیدان روایات سے بھی ہوتی ہے جو ان آیات کی شان نزول کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں چنانچہ ان آیات کی شان نزول کے بارے میں ''تفسیر البرہان،، میں مرقوم ہے۔

''ایک دن رسول خدا (ص) خانہ کعبہ میں اپنے آس پاس بیٹھے کچھ صحابیوں کو کلام خدا اور اس کے اوامرو نواہی کی تعلیم دے رہے تھے اتنے میں قریش کے سرکردہ افراد کی ایک جماعت جس میں ولید بن مغیرہ مخزومی ، ابو البختری بن ہشام ، ابوجہل بن ہشام ، عاص بن وائل السہمی ، عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس قسم کے دیگر افراد شامل تھے وہاں آئی ۔ ان مشرکین نے آپس میں کہا : دینمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ا ہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے آؤ ایک مرتبہ پھر اس کو سختی سے جھڑکیں ، اس کی سرزنش کریں اور دلائل سے اس کے لائے ہوئے پیغام کو باطل ثابت کریں تاکہ اپنے اصحاب کے سامنے اس کی اہمیت اور ہیبت ختم ہو جائے اور وہ ان کی نظروں سے گر جائے شاید اس طرح وہ اپنے مشن گمراہی ، باطل اور سرکشی سے باز آ جائے اگر زبانی سرزنش اور دلائل کے ذریعے باز آ جائے تو بہتر ورنہ شمشیر کے زور سے اسے بٹھا دیں گے۔

ابوجہل نے کہا : کون آگے بڑھ کرمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے گفتگو کرے گا؟

عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے کہا : میں اس سے گفتگو شروع کروں گا کیا تم مجھے اس سے مقابلہ اور مباحثہ کیلئے کافی نہیں سمجھتے ؟

۶۴۱

ابوجہل نے کہا : کیوں نہیں چنانچہ یہ سب کے سب آنحضرتؐ کی خدمت میں آئے اور عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے اپنے کلام کا آغاز کرتے ہوئے یوں کہا:

''آپ (ص) نے ایک بہت بڑا دعویٰ کر دیا اور بہت اونچی بات کہہ دی ہے آپ (ص) کا خیال ہے کہ آپ (ص) رب کائنات کے بھیجے ہوئے رسولؐ ہیں جبکہ رب اور خالق کائنات کیلئے ہرگز یہ مناسب نہیں کہ آپ (ص) جیسے انسان کو اپنا رسول بنا کر بھیجے جو ہماری مانند بشر ہے آپ ویسے ہی کھاتے پیتے ہیں جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں آپ ویسے ہی بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں جیسے ہم چلتے ہیں روم اور فارس کے بادشاہ جب کسی ملک میں اپنا نمائندہ بھیجتے ہیں تو کسی مالدار ، باحیثیت آدمی کو بھیجتے ہیں جس کے عالی شان محل و عمارات اور کئی غلام و نوکر ہوں اور رب کائنات کا مقام تو ان بادشاہوں سے بہت بلند ہے بلکہ یہ اس کے بندے ہیں اگرخدا ہماری طرف اپنا کوئی نمائندہ بھیجنا چاہتا تو ہم میں سے ایسے آدمی کا انتخاب کرتا جو مال و دولت اور مقام و منزلت کے اعتبار سے سب سے بہتر اور نمایاں حیثیت کا مالک ہو بنا برایں یہی قرآن جس کے بارے میں آپ (ص) کا یہ خیال ہے کہ خدا نے اسے آپ (ص) پر نازل کیا اور اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے مکہ یا مدینہ کے کسی عظیم المرتبت آدمی پر اسے کیوں نازل نہیں کیا ؟ یہ اہل مکہ میں سے ولید بن مغیرہ پر نازل کیا ہوتا یا اہل مدینہ میں سے عروہ بن مسعود ثقفی پر نازل کرتا،،

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: عبداللہ ابھی تیرا کچھ کلام باقی ہے؟

عبداللہ نے کہا : ہاں ! ہم اس وقت تک آپ (ص) پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک اسی مکہ کی سرزمین پر آپ (ص) چشمہ نہ بہائیں کیونکہ مکہ اپک پتھریلہ اور پہاڑی علاقہ ہے ہمیں اس امر کی ضرورت ہے آپ (ص) اس کی کھدائی کریں اسے ہموار کریں اور اس میں چشمے بہا دیں یا آپ (ص) کے پاس کھجور اور انگور کے باغات ہوں جس سے آپ (ص) کھائیں اور ان باغات میں نہریں بہتی ہوں ، یا آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہمپر گرے جیسا کہ آپ (ص) کا خیال ہے کیونکہ آپ (ص) نے ہی تو ہمارے بارے میں کہا : ''اگر یہ لوگ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرتے دیکھیں تو کہیں گے،، یہ تہہ بتہہ بادل ہیں،، اب ایسا کر کے دکھائیں شاید ہم یہی کہیں؟،،

۶۴۲

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لا سکتے جب تک خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کر حاضر نہ کریں یا پھرا س وقت ایمان لائیں گے جب آپ (ص) کے پاس سونے کا گھر ہو اور ہمیں اس میں سے حصہ دیں اور بے نیاز کر دیں شاید اس کے باوجود ہم بغاوت کر جائیں کیونکہ آپ (ص) نے ہی ہمارے بارے میں کہا ہے:

کلا ان الانسان لیطغی ان راه استغنی

''سن رکھو بیشک انسان جب اپنے کو غنی دیکھتا ہے تو سرکش ہو جاتا ہے،،۔

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: یا ہم اس صورت میں ایمان لائیں گے جب آپ (ص) آسمان کی طرف پرواز کریں اور آپ (ص) کے آسمان کی طرف پرواز کرنے پر بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کی طرف سے عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس کے ساتھیوں پر ایک کتاب نازل نہ ہو جس میں یہ خطاب ہو کہ تم سب محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب پر ایمان لے آؤاس لئے کہیہ میرا بھیجا ہوا رسول ہے اس کی باتوں کی تصدیق کرو اس لئے کہ یہ جو کچھ کہتا ہے میری طرف سے کہتا ہے،،

اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ! ان سب مطالبات کے پورے ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں میں آپ (ص) پر ایمان لاؤں یا نہ لاؤں اگر آپ ؐ ہمیں اٹھا کر آسمان کی طرف لے جائیں اور اس کے دروازے ہمارے آگے کھول دیں اور ہم ان دروازوں میں داخل ہو جائیں پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھیں مسحور کی گئی ہیں اور ہم پر جادو کیا گیا ہے۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پالنے و الے ! تو ہر آواز کوسننے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے اپنے بندوں کی باتوں کوتوبہتر جانتا ہے۔

اے عبداللہ بن ابی امیہ ! تیرا یہ کہنا کہ روم اور فارس کے بادشاہ ہمیشہ کسی مالدار آدمی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتے ہیں تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا خود تدبیر فرماتا اور فیصلہ کرتا ہے اس کے افعال ، تیرے خیالات اور تجاویز کے مطابق انجام نہیں پاتے بلکہ خدا خود جو چاہے کرتا ہے اور جیسا اس کا ارادہ ہو حکم فرماتا ہے۔

۶۴۳

اگر نبی محلوںکا مالک ہوتا اور ان میں جا کر غائب ہو جاتا یا اس کی خدمت کیلئے غلام اور نوکر ہوتے جو اس کو لوگوں کی نظروں سے چھپائے رکھتے ، تو کیا رسالت ضائع اور احکام خدا معطل نہ ہو جاتے؟

(میرے بارے میں ) تیرایہ کہنا کہ اگر تو نبی ہوتاتو تیرے ساتھ ہمہ وقت ایک فرشتہ ہوتا جو تیری تصدیق کرتا اور اسے ہم بھی دیکھ سکتے تو تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تیرے حواس فرشتے کو درک نہیں کر سکتے کیونکہ فرشتہ ہوا کی مانند ہے جس کا مشاہدہ نہیں ہو سکتا اگر تم فرشتے کا مشاہدہ کر سکتے بایں معنی کہ تمہاری حس باصرہ کو غیر معمولی طاقت دے دی جاتی ، تو تم کہتے یہ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ یہ تو ایک بشر ہے اس لئے کہ اگر فرشتہ ظاہر ہوتا تو لامحالہ کسی انسانی صورت میں ہی ظاہر ہوتا جس سے تم مانوس ہوتے تاکہ تم اس کی بات کو سمجھ سکو۔

تمہارا یہ کہنا کہ میں جادو گر ہوں بھلا میں جادو گر کیسے ہو سکتا ہوں جبکہ تم بخوبی جانتے ہو کہ عقل و فہم اور خیر و شر کو تمیز دینے میں ، میں تم سے بالاتر ہوں میری پیدائش سے آج تک چالیس سال کے عرصے میں تم نے مجھ سے کوئی جرم، جھوٹ ، بدزبانی سرزد ہوتے ہوئے دیکھی ہے ؟ یا کسی غلط بات اور کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے دیکھا ہے ؟ تمہارا کیا خیال ہے کیا ایک شخص اتنے طویل عرصے تک اپنی قوت اور بل بوتے پر ہر قسم کی غلطی سے محفوظ رہ سکتا ہے ؟ یا اس عرصے میں خدا کی تائید اور توفیق شامل حال رہی ہو گی؟

تمہارا یہ کہنا کہ خدا نے مکہ یا مدینہ کے کسی مالدار اور نامور آدمی پر قرآن کیوں نازل نہیں کیا ؟ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کی نظر میں مال دنیا کی وہ عظمت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے اور اس کی نظر میں مال دنیا کی وہ اہمیت اور وقعت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے خدا کسی سے اس کے مال و دولت اور حیثیت و مقام کی وجہ سے نہیں ڈرتا جس طرح تو ڈرتا ہے۔

تیرا یہ کہنا کہ جب تک زمین سے چشمے نہ پھوٹیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے وغیرہ تم نے اپنے اس کلام میں رسول خدا محمد (ص) کے سامنے کئی تجاویز پیش کی ہیں ان میں سے بعض تجاویز ایسی ہیں کہ اگر محمدؐ ان تجاویز پر عمل بھی کرے تب بھی وہ نبوت کی دلیل نہیں بن سکتیں رسول (ص) کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ جاہلوں کی نادانی کو غنیمت سمجھے اور ان کے سامنے ایسے دلائل پیش کرے جو درحقیقت حجت و دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

۶۴۴

تیری کچھ تجاویز ایسی ہیں کہ اگر ان پر عمل ہو جائے تو یہ تیری ہلاکت کا باعث بنیں گی نبوت کے دلائل تو اس لئے پیش کئے جاتے ہیں کہ خدا کے بندے ایمان لے آئیں اور ہلاکت سے محفوظ رہیں پس تو نے اپنی ہلاکت کی تجویز پیش کی ہے خدا کی ذات سب سے زیادہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والی ہے لوگوں کی مصلحتوں کو ان سے بہتر سمجھتی ہے۔ اور ان کی تجاویز پر عمل کر کے انہیں ہلاک نہیں کرتی۔

تیری بعض تجاویز ایسی ہیں جو بذات خود ناممکن ہیں اور صحیح و جائز نہیں ہیں اور کچھ تجاویز ایسی ہیں جو تیرے اعتراف کے مطابق تیری ضد ، ہٹ دھرمی اور سرکشی پر مبنی ہیں تو کسی دلیل کوتسلیم کرتا ہے اور نہ اسے سننے کیلئے تیار ہے۔

تیرا یہ مطالبہ کہ اگر اس سرزمین پر چشمے بہا کر دکھاؤں تب ایمان لاؤ گے تو نے یہ مطالبہ اس لئے کیا ہے کہ تو الٰہی دلائل سے جاہل ہے تیرا کیا خیال ہے اگر میں تیرا مطالبہ پورا کر دوں اور زمین پر چشمے بہا کر دکھا دوں تو کیا اسی دلیل سے میری نبوت ثابت ہو گی ؟ تیرا یہ مطالبہ اورتجویز ایسی ہے جیسا تو کہے ہم تو تب ایمان لائیں گے جب آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور چل کر دکھائیں کیا تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے پاس طائف میں کھجور اور انگور کے باغات نہیں ہیں جن سے تم کھاتے رہتے ہو اور ان کے درمیان سے نہریں نہیں بہتیں ؟ کیا ان باغات اور نہروں کی وجہ سے تم نبی بن گئے ہو؟

تیرا یہ کہنا کہ آسمان ریزہ ریزہ ہو کر ہمارے اوپر گرے جیسا کہ تیرا گمان ہے۔

آسمان کا ریزہ ریزہ ہو کر گرنا تمہاری موت اور ہلاکت کے مترادف ہے گویا اس طرح تم رسول خدا (ص) سے اپنی ہلاکت کا مطالبہ کر رہے ہیں رسول خدا (ص) کا رحم و کرم اس سے بالاتر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر دے۔

ہاں ! وہ تمہارے سامنے الٰہی دلائل پیش کرے گا۔

۶۴۵

وہ الٰہی دلائل اور حجتیں جو اللہ اپنے نبی کو دیکر بھیجتا ہے وہ بندوں کے مشوروں اور تجاویز کے مطابق نہیں ہوا کرتیں اس لئے کہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ کس امر میں ان کا مفاد اور مصلحت ہے جو جائز ہو اور کس میں مفسدہ اور نقصان ہے جو جائز نہ ہو کیا تم نے کسی ڈاکٹر کو دیکھا ہے جو اپنے مریض کے مشورے کے مطابق اس کیلئے نسخہ اور دوائی تجویز کرے ؟ یا تم نے کسی ایسے حاکم کو دیکھا ہے جو حق کے دعوے دار کو مدعی علیہ کی مرضی کے مطابق گواہ پیش کرنے کا حکم دے؟

تیرا یہ کہنا کہ ہم تب ایمان لائیں گے جب تو خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کرے جن کا ہم مشاہدہ کر سکیں یہ وہ مطالبہ ہے جس کا محال اور ناممکن ہونا کسی سے پوشیدہ نہیں اس لئے ہمارا رب اور خالق عام مخلوق کی مانند نہیں جو کسی کے سامنے آتا اور حرکت کرتا ہو ، تاکہ اس کو تمہارے سامنے لایا جائے پس تم نے اس مطالبہ میں ایک ناممکن ا مر کی تجویز پیش کی ہے۔

اے عبداللہ ! تیرا یہ کہنا کہ ہم تو تب ایمان لائیں گے جب تیرے پاس سونے کا مکان ہو یہ بتاؤ تم نے سنا ہے کہ شاہ مصر کے پاس سونے کے کئی گھر ہیں ؟ عبداللہ نے کہا : جی سنا ہے آپ (ص) نے فرمایا کیا بادشاہ مصران مکانات کی وجہ سے نبی بن گیا ہے ؟ عبداللہ نے کہا : نہیں ۔ آپ (ص) نے فرمایا جس طرح بادشاہ مصر کے سونے کے مکانات سے وہ نبی نہیں بن جاتا اگر میرے پاس بھی سونے کے مکانات ہوتے تو ان سے میری نبوت ثابت نہ ہوتی البتہ محمد (ص) تمہاری حالت اور نادانی کو غنیمت سمجھ کر اس قسم کی چیزوں کو حجت خدا کے طور پر پیش نہیں کرتا تیرا یہ کہنا کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے جب تم آسمان کی طرف پرواز کرو اور پھرتو یہ کہتاہ ے کہ تیرے آسمان کی طرف بلند ہونے کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم پر کوئی کتاب نازل نہ ہو جس کو ہم خود پڑھیں۔

۶۴۶

اے عبداللہ ! تمہیں معلوم ہے کہ آسمان کی طرف پرواز کرنا آسمان سے اترنے سے زیادہ مشکل ہے تو ایک مرتبہ اعتراف کر چکا ہے کہ میرے آسمان کی طرف پرواز کرنے کے باوجود بھی تم ایمان نہیں لاؤ گے تو میرے آسمان سے قرآن لے کر اترنے پر کب ایمان لاؤ گے ؟ تو نے اپنے کلام میں یہ بھی کہا ہے کہ ہم پر قرآن نازل ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں ہم ایمان لائیں نہ لائیں۔

یہ تیری طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ تو حجت خدا کے مقابلے میں عناد اور ضد رکھتا ہے تمہارے ان مطالبوں کا جواب خالق کا وہ جامع کلام ہے جو اس نے نازل فرمایا ہے اور اسی سے تمہاری تمام تجاویز باطل ہو جاتی ہیں خالق فرماتا ہے : اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کہہ دو ! میرا رب پاک و پاکیزہ ہے میں ایک انسان ہوں جس کو رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بنا کر بھیجا گیا ہے مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ خدا کو کوئی حکم دوں ، اس کو کسی کام سے روکوں یا کسی امر کا مشورہ دوں،،

یہ حدیث شریف بہت سارے فوائد پر مشتمل ہے محققین کو اس حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے ان آیات کی شان نزول کے بارے میں اور بھی بہت سی روایات موجود ہیں جن کو طبری نے ان آیات کی تفسیر کے موقع پر ذکر کیا ہے۔

۶۴۷

ضمیمہ (۷) ص ۳۱۵

صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

یہ حدیث یوں مروی ہے:

عبداللہ بن مسعود کہتا ہے:

''کنا نغزو مع رسول الله ص و لیس معنا نسآء فقلنا : الا نستخصی فنهانا عن ذلک ، ثم رخص لنا ان ننکح المراة بالتوب الی اجل ، ثم قراء عبدالله :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۵:۸۷

''ہم دوران جنگ رسول خدا (ص) کے ہمراہ تھے اور ہماری بیویاں ہمارے پاس نہیں تھیں ہم نے رسول خدا (ص) سے پوچھا : کیا ہم اپنے آپ کو نامرد بنا دیں آپ (ص) نے ہمیں اس عمل سے منع فرمایا اور اس امر کی اجازت دی کہ ایک مقررہ وقت تک کیلئے ایک کپڑے کے عوض عورتوںسے نکاح کر لیں اس کے بعد عبداللہ بن مسعود نے اس آیہ کریمہ کی تلاوت کی:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) (۵:۸۷)

''اے ایماندرو ! جو پاک چیزیں خدا نے تمہارے واسطے حلال کر دی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کیونکہ خدا حد سے بڑھ جانے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا،،

محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی ایک جماعت نے اس نص ، حدیث اور عبارت کو بخاری سے نقل کیا ہے لیکن آج کل کی رائج الوقت صحیح بخاری کے ج ۶ ص ۵۳ پر جو حدیث موجود ہے وہ دو اعتبار سے اصلی صحیح بخاری کی عبارت سے مختلف ہے:

۱۔ موجودہ صحیح بخاری میں سند حدیث سے لفظ عبداللہ بن مسعود کو نکال لیا گیا ہے جبکہ اکثر محدثین نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا ہے عبداللہ بن مسعود کے نام کو اس لئے نکال لیا گیا ہے تاکہ عبداللہ بن مسعود کا نام اس بات کا قرینہ اور شاہد نہ بن سکتے کہ اس روایت کا مقصد نکاح متعہ کو جائز قرار دینا ہے ، اس لئے کہ عبداللہ بن مسعود نکاح متعہ کو جائز سمجھتے تھے۔

۶۴۸

۲۔ موجودہ صحیح بخاری میں روایت کے آخری سے لفظ ''الی اجل،، (معین مدت تک) کو بھی نکال دیا گیا ہے کیونکہ ''الی اجل،، کا لفظ اس امر کی تصریح ہے کہ آنحضرت ؐ نے نکاح متعہ کی اجازت دے دی ہے چنانچہ شارحین نے بھی یہی سمجھا اور ایسی ہی اس کی تفسیر کی ہے کیونکہ اس قسم کے مقامات پر نکاح کی اجازت لازمی طور پر نکاح متعہ ہی کی اجازت ہوا کرتی ہے صرف دائمی نکاح کی نہیں اور یہ کہ ''لیس معنانسآ،، یعنی مجاہدین کے پاس عورتوں کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اپنی بیویاں ان کے ساتھ نہیں تھیں ایسا نہیں ہے کہ عام عورتیں وہاں نہیں تھیں ورنہ نکاح کی اجازت دینا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اس معنی کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ بعض روایات میں ''لیس معنا،، کی جگہ ''لیس لنانساء ،، موجود ہے یعنی ہماری اپنی عورتیں نہیں ہیں۔

چونکہ یہ روایت نکاح متعہ کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے اس لئے کئی فقہاء کا دعویٰ ہے کہ بعض دوسری روایات میں نکاح متعہ کو حرام قرار دیا گیا ہے جس سے اس روایت میں موجود حکم (جواز متعہ) نسخ ہو جاتا ہے لیکناس بات سے بھی ان کا مدعیٰ ثابت نہیں ہوتا جس کی تفصیل آیہ متعہ سے متعلق روایات پر تبصرہ کے دوران ہم نے بیان کر دی ہے تحریف کے مجرم ہاتھوں سے یہ روایت بھی محفوظ نہیں رہ سکی اور اس کو اپنی صحیح اورا صلی صورت پر نہیں رہنے دیا گیا ہم ذیل میں ان محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی فہرست ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے صحیح بخاری سے صحیح حدیث نقل کی ہے۔

(۱) بیھقی : سنن بیھقی جز ۷ ص ۲۰۰ طبع حیدر آباد

(ب) سیوطی : تفسیر سیوطی = ۲ = ۲۰۷ = المیمنیتہ مصر

(ج) زیلعی : نصب الرایہ = ۳ = ۱۸۰ = دارالتالیف مصر

(د) ابن تیمیہ : المنتقی ٰ جزء ۲ ص ۵۱۷ طبع حجازی

(ھ) ابن القیم : زادالمعاد = ۴ = ۸ محمد علی صبیح

(و) قنوچی : روضتہ الندیہ ۲ = ۱۶ = المنیریہ

(ز) محمد بن سلیمان : جمع الفوائد = ۱ = ۵۸۹ = دارالتالیف

۶۴۹

اس روایت کے کچھ اور مصادر اور حوالے بھی ہیں جو ذیل میں دیئے جا رہے ہیں

(ح) مسند احمد : جزء ۱ ص ۴۲۰ طبع مصر ۱۳۱۳

(ط) تفسیر قرطبی : = ۵ = ۱۳۰ = = ۱۳۵۶

(ی) تفسیر ابن کثیر : = ۲ = ۱۸۷ = = علی البابی

(ل) الاعتبار للحازمی : = = ۱۷۶ حیدر آباد

یہ حدیث صحیح ابی حاتم اور اس قسم کے اہم مصادر میں بھی موجود ہیں۔

ضمیمہ (۸) ص ۳۲۸

محمد عبدہ اور تین طلاقیں

محمد عبدہ پہلے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ اگر ایک نشست میں تین طلاقیں جاری کر دی جائیں تو وہ ایک طلاق شمار ہوں گی۔

اس کے بعد فرماتے ہیں:

''ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم ان مقلدین سے بحث اور مناظرہ کریں یا ان قاضیوں اور مفتیوں سے ان کے مذاہب چھڑا دیں جو تین طلاقوں کے قائل ہیں ان میں سے اکثر حضرت ایک طلاق پر دلالت کرنے والی روایات سے آگاہ ہیں جو کتب حدیث وغیرہ میں موجود ہیں البتہ یہ لوگ ان روایات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لئے کہ یہ لوگ اپنی کتابوں میں موجود اقوال پر زیادہ عمل کرتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نہیں(۱)

کاش محمد عبدہ متعہ کی بحث میں بھی یہی بات کرتے۔ اس لئے کہ جیسا کہ آپ نے دیکھا نکاح متعہ شریعت اسلام میں

____________________

(۱) تفسیر المنار ، جزء ۱ ، ص ۳۸۶

۶۵۰

ثابت ہے اس کے بعد اسے نسخ بھی نہیں کیا گیا جو لوگ نکاح متعہ کو حرام سمجتھے ہیں ان کی واحد دلیل ان کی کتابوں میں موجود اقوال ہی بن سکتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بن سکتیں۔

ضمیمہ (۹) ص ۳۸۳

شیعوں پر رازی کا افترائ

من جملہ ان لوگوں میں جنہیں تحقیق و تدقین کی توفیق نہیں ، فخر رازی ہے جو آیئہ کریمہ ''یمحوا اللہ مایشآء ویثبت،، کی تفسیر میں کہتا ہے :

''رافضی (شیعہ) کہتے ہیں خدا کے حق میں بداء جائز ہے اوربداء یہ ہے کہ خدا کو کسی چیز کا یقین حاصل ہو اس کے بعد اس پر انکشاف ہو کہ حقیقت اور واقع ایسا نہیں جس کا اسے یقین تھا،،۔

خالق ! تو جانتا ہے کہ یہ محض تہمت ہے رازی نے اپنی کتاب ''محصل،، کے خاتمہ میں ''سلیمان بن جریر،، سے ایک کلام نقل کیا ہے جس کا ذکر قبیح ہے اور مجھے بھی زیب نہیں دیتا کہ اس کتاب میں اس کلام کو ذکر کروں رازی نے یہ جملہ اسی جیسے ایک دوسرے ننگین جملے کے بعد ذکر کیا ہے جوبعض نصاریٰ رسول خدا (ص) کے بارے میں کہتے تھے جب آنحضرت (ص) ایسے احکام لے کر آئے جو گزشتہ شریعتوں کے لئے ناسخ قرار پائے''کبرت کلمته تخرج من ا فواههم وسیعلم الذین ظلموا ایی منقلب ینقلبون،،

۶۵۱

ضمیمہ (۱۰) ص ۳۹۴

احادیث اور مشیّت الٰہی

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی دونوں کتابوں ''توحید،، اور ''معانی الاخبار،، میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت بیان کی ہے ، امام علیہ السلام نے آیہ شریفہ : ''وقالت الیھود یداللہ مغلولۃ ،، کے بارے میں فرمایا:

''لیکن یہود کہا کرتے تھے خدا خلقت و آفرنیش کے ہر کام سے فارغ ہو گیا ہے خدا نہ تو کسی چیز کو بڑھاتا ہے اور نہ گھٹاتا ہے،،

خدا نے ان لوگوں کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا:

( غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ ) ۵:۶۴

''انہیں کے ہاتھ باندھ دیئے جائیں اور ان کے (اس) کہنے پر (خدا کی ) پھٹکار (بر سے خدا کا ہاتھ بندھنے کیوں لگا) بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے،،

کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا۔

( يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ) ۱۳:۳۹

''(پھر اس میں سے) خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) موجود ہے،،

عیاشی نے یعقوب بن شعیب اور عماد کے ذریعے حضرت ابو عبداللہ (علیہ السلام) سے بھی اسی مضمون کی روایت بیان کی ہے اس قسم کی روایات کو مجلسی نے بحار کی جلد ۲ ، ص ۱۳۱۔۱۴۲ پر ذکر کیا ہے۔

۶۵۲

ضمیمہ (۱۱) ص ۳۹۱

دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

سلمان کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''قضاء الٰہی کو دعا ہی تبدیل کرس کتی ہے اور عمر میں اضافہ نیکی ہی کر سکتی ہے،،(۱)

تو بان کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''عمر کو نیکی ہی بڑھا سکتی ہے انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے(۲)

ضمیمہ (۱۲) ص ۲۳۵

آیہ بسم اللہ کی اہمیت

اس کتاب کے صفحہ ۴۳۳ پر اعراب کی بحث میں یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ ''بسم اللہ،، میں اسم کی اضافت اللہ کی طرف اضافہ معنویہ ہے

____________________

(۱) ترمذی ، باب ماجاء لایرد القدر الالدعا ، ج ۸ ، ص ۳۵۰

(۲) ابن ماجہ ، باب القدر ، ج ۱ ، ص ۲۴ ، حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہےاور ذہبی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ، ج ۱ ، ص ۴۹۳ ۔ احمد نے اپنی مسند میں روایت کی ہے، ج ۵ ، ص ۲۷۷ ، ۲۸۰ ، ۲۸۲ ، اس مضمون کی روایت زیادہ ہیں جو متعلقہ کتب میں مل سکتی ہیں۔

۶۵۳

اوریہ کہ لفظ ''اللہ،، اپنے حقیقی معنی(۱) میں استعمال ہوا ہے ۔ بنا برایں لفظ اسم اپنے اس جامع معنی میں استعمال ہوا ہے جو تمام اسمائے الٰہی پر صادق آنے کے قابل ہے گویا مفہوم کاذکر کر کے اس کے ذریعے اس کے مصداق کی طر فاشارہ کیا گیا ہے چونکہ اسم اعظم اسم الٰہی کا اشرف مصداق ہے اس لئے لامحالہ اسم اعظم مفہوم اسم کے مصداق بننے کا سب سے زیادہ استحقاق رکھتا ہو گا اوراسی سے اس روایت کا معنی بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بسم اللہ اسم اعظم کے اس سے بھی زیادہ نزدیک ہے جتنی آنکھکی سفیدی آنکھ کی سیاہی کے نزدیک ہے کیونکہ بسم اللہ اور اسم اعظم کے درمیان قرب ذاتی ہے اس لئے کہ مفہوم اور مصداق خارج میں ایک ہوا کرتے ہیں اور سفیدی چشم کاقرب سیاہی چشم کیلئے مکانی اور ان دونوں میں اتحاد وضعی ہے۔

ضمیمہ (۱۳) ص ۴۳۶

آغاز آفرنیش

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خدا نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق فرمایا(۲)

محمد بن مسلم سنان کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں امام جواد (علیہ السلام) کی خدمت میں بیٹھا تھا ، آپ (ع) نے فرمایا:

''اے محمد ! خدا ہمیشہ اپنی وحدانیت میں منفرد اور یگانہ رہا ہے اس کے بعد خداوند عالم نے محمد ، علی اور فاطمہ (علیہم السلام) کو خلق فرمایا اس کے بعد یہ حضرات ہزار برس عالم نور میں رہے(۳)

____________________

(۱) وہ ذات جو تمام صفات کمال کی جامع ہو (مترجم)

(۲) البحار ، باب حقیقتہ العقل و کیفیتہ و بدء خلقہ ، ج ۱ ، ص ۳۳

(۳) اصول کافی ، باب تاریخ مولد النبی (ص) ، ص ۲۳۹ ، الوافی باب بداخلق المعصومین ، ج ۲ ، ص ۱۵۵

۶۵۴

ضمیمہ (۱۴) ص ۴۴۶

بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

بیہقی نے اپنی سند سے ام سلمہ سے روایت کی ہے:

''رسول خدا (ص) نے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھا اور اسے جزء قرآن قرار دیا،،

یہ روایت حاکم نے مستدرک کی ج ۱ ص ۲۳۲ پر بیان کی ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت مسلم اور بخاری کی شرائط پر پوری اترتی ہے اور صحیح ہے نیز عبد خیر سے روایت ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام سے پوچھا گیا سبع مثانی کون سا سورہ ہے ، آپ (ص) نے فرمایا : سورۃ الحمد۔

راوی نے پوچھا: الحمد کی آیات توچھ ہیں آپ (ع) نے فرمایا : بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی سورہ الحمد کا جزء ہے اس روایت کو ابوہریرہ نے بھی بیان کیا ہے۔

رسول خدا (ص) سے ابوہریرہ روایت نقل کرتا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

''سورۃ الحمد سات آیات پر مشتمل ہے ان میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی شامل ہے،،

ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورہ فاتحہ کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے فرماتے تھے یہ روایت ترمذی نے ج ۲ ، ص ۴۴ پر نقل کی ہے۔

ابن عمر سے منقول ہے کہ وہ نماز کی ابتداء تکبیرۃ الاحرام سے کرتے تھے اس کے بعد بسم اللہ الرحم الرحیم پڑھتے تھے اور جب سورۃ الحمد سے فارغ ہوتے دوبارہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے اور کہا کرتے تھے ''اگر بسم اللہ کا پڑھنا ضروری نہیں تو پھر قرآن میں اسے کیوں لکھا گیا ہے،،

۶۵۵

ان کے علاوہ بھی اس مضمون کی کئی روایات موجود ہیں سنن بیہقی ج ۲ ص ۴۳ ، ۴۷ کی طرف رجوع کریں ، کنز العمال ، ج ۲ ، ص ۱۹۰ فضائل السورہ والآیات نیز باب البسملہ آیہ ، ص ۳۷۵ میں ثعلبی نے علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جب آپ (ص) نماز میں کسی سورے کو پڑھتے تھے تو شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ترک کر دے اس نے سورہ کو ناقص پڑھا ہے نیز آپ (ص) فرماتے تھے بسم اللہ الرحمن الرحیم سبع مثانی کا حصہ ہے۔

ضمیمہ (۱۵) ص ۴۴۶

معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

بیہقی نے ج ۲ ، ص ۴۹ پر اپنی سند سے انس بن مالک سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ معاویہ نے مدینہ میں نماز پڑھی اس نے نماز میں سورہ فاتحہ بلند آواز میں پڑھا البتہ اس نے سورہ حمد سے پہلے تو بسم اللہ کو پڑھا مگر حمد کے بعد پڑھے جانے والے سورہ سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ اس کی قرات مکمل ہو گئی ، اس کے بعد تکبیر بھی نہیں پڑھی اور رکوع میں چلا گیا اور اس طرح اپنی نماز مکمل کی جب معاویہ سلام پھیر چکا تو نماز میں موجود مہاجرین ہر طرف سے بول اٹھے معاویہ ! تم نے نماز میں چوری کر لی یا بھول گئے ہو ؟ اس واقعہ کے بعد جب بھی معاویہ نماز پڑھتا تو سورہ الحمد کے بعد والے سورہ سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھتااور سجدے میں جانے سے قبل تکبیر بھی پڑھتا تھا،،۔

۶۵۶

اسی روایت کو بیہقی نے ایک اور سند سے بھی بیان کیا ہے البتہ اس روایت کا مضمون یہ ہے کہ معاویہ نے سورۃ الحمد سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اور اس کے بعد دوسرے سورے سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اس کے علاوہ اس روایت میں اعتراض کرنے والوں میں مہاجرین کے علاوہ انصار کابھی ذکر ہے اس روایت کو حاکم نے مستدرک کی جلد۱ ص ۲۳۳ میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے اور مسلم کی شرائط پر پوری اترتی ہے۔

ضمیمہ (۱۶) ص ۴۴۶

رسول (ص) خدا کا بسم اللہ کو پڑھنا اور روایت انس کی توجیہ

قرات بسم اللہ کی ایک روایت اسی کتاب کے ص پر گزر چکی ہے قتادہ نے انس سے روایت کی ہے ''رسول خدا (ص) سورہ حمد کی تلاوت مد کیساتھ کرتے تھے اس کے بعد انس نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کی اور بسم اللہ ، الرحمن اور الرحیم کو مد کے ساتھ پڑھا ،،(۱)

شریک بن انس کی روایت ہے:

''میں نے رسول خدا (ص) کو بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے سنا،،

____________________

(۱) سنن بیہقی ، باب افتتاح القراء ۃ فی الصلوٰۃ : ببسم اللہ الرحمن الرحیم ، ج ۲ ، ص ۴۶ ۔ مستدرک حدیث الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۲۳۳

۶۵۷

حاکم کہتے ہیں : اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

عسقلانی کی روایت ہے:

''میں نے بہت دفعہ معتمربن سلیمان کی اقتداء میں نماز صبح اور نماز مغرب پڑھی معتمر سورہ فاتحہ سے پہلے اور اس کے بعد بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے تھے ۔ میں (عسقلانی) نے معتمر کو یہ کہتے سنا ہے : میں نماز میں ہمیشہ اپنے والد کی اقدا کرتا ہوں اور میرے والد کہتے تھے : میں نماز میں ہمیشہ انس بن مالک کی اقتدا کرتا ہوں اورانس کہتے تھے : میں نماز میں رسول خدا (ص) کی اقدا کرتا ہوں،،

(یہ سب نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ الرحمنالرحیم پڑھتے تھے)

حاکم کہتے ہیں اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں(۱)

ابو نعامہ انس سے روایت کرتے ہیں:

''رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے ،،(۲)

مولف : ممکن ہے انس کی گزشتہ روایت (جس سے بسم اللہ کے جزء قرآن نہ ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے) سے مراد یہ ہو کہ رسول خدا (ص) اور آپ کے بعد دوسرے خلفاء نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ (ص) نے بسم اللہ کو سرے سے نہیں پڑھا) اس مطلب کا قرینہ اور شاہد انس کی مذکورہ بالا روایت ہے (جس میں اس امر کی تصریح ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا) اس مطلب کی تائید گزشتہ روایت میں انس کی اس تعبیر سے بھی ہوتی ہے کہ ''میں نے قرات نہیں سنی،، بلکہ انس کی بعض روایات میں تو یہ جملہ موجود ہے کہ ''میں نے ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھتے نہیں سنا،، بعض روایات میں یہ جملہ موجود ہے۔

____________________

(۱) مستدرک ، ج ۱ ، ص ۲۳۳ ۔۲۳۴

(۲) سنن بیہقی ، باب من قال لایجہر بہا ، ج ۲ ، ص ۵۲

۶۵۸

''رسول خدا (ص) نے ہمیں نماز پڑھائی مگر ہمیں بسم اللہ کی قراً سنائی نہیں دی(۱)

بنا برایں انس کی گزشتہ روایت اور ان روایات کے درمیان کوئی منافات نہیں پائی جاتی جن کے مطابق رسول خدا (ص) کے بعد دوسرے اصحاب بسم اللہ پڑھتے تھے۔

ہاں ! ایک روایت یہ کہتی ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر قرات کے اول اور آخر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے(۲)

لیکن اس روایت کے راویوں میں ولید بن مسلم قرشی شامل ہے جس کا ثقہ ہونا مخدوش ہے بلکہ بہت سوں نے تو تصریح کی ہے کہ یہ شخص بہت زیادہ خطا کاراور جعلساز تھا(۳)

جہاں تک قتادہ کی اس روایت کا تعلق ہے جو انس سے مروی ہے جس کے مطابق رسول خدا (ص) ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان قرات کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے(۴)

تقریباً اسی روایت کی ہم مضمون وہ روایت ہے جس کو نسائی نے باب البداء بفاتحتہ الکتاب ، ج ۱ ، ص ۱۴۳ میں ذکر کیا ہے قتادہ کس اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے بعد دوسرے خلفاء ، سورہ فاتحہ سے ابتداء کرتے تھے (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ یہ حضرات سورہ فاتحہ کی ابتداء آیتہ الحمد للہ سے کرتے تھے ) اور سورۃ فاتحتہ التکاب پر الحمدللہ رب العالمین کا اطلاق ہوتا رہتا ہے چنانچہ بعض گزشتہ روایات میں بھی سورہ فاتحہ کو الحمدللہ رب العالمین کہا گیا ہے۔

شافعی نے بھی اس روایت کو اسی معنی پر محمول کیا ہے۔

____________________

(۱) ایضاً باب ترک الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۴۴

(۲) صحیح مسلم ، باب حجتہ من قال لایجہربابسملہ ، ج ۲ ، ص ۱۲

(۳) تہذیب التہذیب ملا خطہ فرمائیں۔

(۴) ترمذی باب ماجاء فی افتتاح القرات بالحمد ، ج ۲ ، ص ۴۵ ۔ سنن ابی داؤد ، باب الجہر بسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۲۵

۶۵۹

ضمیمہ (۱۷) ص ۴۷۵

ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

اس موضوع کی روایات اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں ذکر کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی البتہ ہم صرف احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ ہی کی وہ روایت ذکر کرتے ہیں کہ جو اس کی کتاب ''المنتقی ٰ من اخبار المصطفی،، میں مذکور ہے اس کے علاوہ بعض دوسرے حضرات کی روایات کو بھی ذکر کریں گے۔

۱۔ بریدہ سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''میں (ص) نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن مجھے اپنی والدہ گرامی کی زیارت کی اجازت دی گئی ہے تم بھی اس کی زیارت کیا کروں کیونکہ اس سے آخرت کی یاد دہانی ہوتی ہے،،۔

بریدہ کہتے ہیں ، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

۲۔ ابوہریرہ سے مروی ہے :

''رسول اسلام (ص) نے اپنی والدہ گرامی کی قبر کی زیارت کی ۔ آپ (ص) خود بھی روئے اور ارد گرد موجود افراد کو بھی رلا دیا ۔ پھر فرمایا : میں (ص) نے خدا سےاپنی والدہ کیلئے طلب مغفرت کی اجازت مانگی مگر خدا نے اجازت نہ دی پھر میں نے اس کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی جو خدا نے دے دی پس تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو اس لئے کہ زیارت قبور موت کی یاد دلاتی ہے،،۔

ابوہریرہ کہتے ہیں اس روایت کو علماء کی کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689