البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313877 / ڈاؤنلوڈ: 9311
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

اس رائے کی رو یہ ہے کہ یہ احتمال ا س معنی کے سراسر خلاف ہے جو لفظ سجود سے عام طور پر سمجھا جاتا ہے بنا برایں بغیر کسی شاہداور خارجی دلیل کے یہ احتمال قابل قبول نہیں نیز روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ جب اولاد آدم (ع) اپنے رب کوسجدہ کرتی ہے تو ابلیس رنجیدہ ہو جاتااور رو پڑتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو جس سجدے کا حکم دیا تھا اور ابلیس نے غرور میں آ کر جس سے انکار کیا تھا وہ وہی عام متصور سجدہ تھا اسی لئے ابلیس ، اولاد آدم (ع) کی طرف سے امتثال امر (تعمیل حکم) پر رنجیدہ ہوتا ہے کیونکہ اس نے خود اس کی مخالفت کی تھی۔

(۲) فرشتوں نے اللہ تعالیٰ ہی کو سجدہ کیا تھا حضرت آدم (ع) تو اس سجدہ میں فرشتوں کا صرف قبلہ قرار پائے تھے جس طرح کہا جاتا ہے کہ''صلی للقبة ،، اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس نے روبہ قبلہ نماز پڑھی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (ع) کی تکریم و تعظیم کی خاطر فرشتوں کو حضرت آدم (ع) کی طرف رخ کر کے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

اس نظریئے کی رو یہ ہے کہ آیت کی یہ تاویل ظاہر آیات قرآن اور روایات معصومین (ع) بلکہ آیات و روایات کی تصریحات کے بھی منافی ہے کیونکہ ابلیس نے اپنے زعم باطل میں اس بنیاد پر حضرت آدم (ع) کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا کہ وہ آدم (ع) سے افضل ہے اگر یہسجدہ اللہ کو ہوتا اورحضرت آدم (ع) صرف قبلہ قرار پاتے تو ابلیس کا یہ قول بے معنی ہو جاتا:

( أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِينًا ) ۱۷:۶۱

''کیا میں ایسے شخص کوسجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے،،

کیونکہ ممکن تو ہے کہ سجدہ کرنے والا اس سے افضل ہو جس کی طرف رخ کر کے سجدہ کیا جائے۔

۶۰۱

(۳) یہ سجدہ حضرت آدم (ع) ہی کو تھا لیکن چونکہ حکم الٰہی سے انجام پایا تھا اس لئے خشوع وخضوع اور سجدہ ، خدا ہی کے لئے ہو گا۔

وضاحت: خشوع و خضوع کی آخری منزل سجدہ ہے اسی لئے اللہ نے سجدہ اپنی ذات سے مختص فرمایا ہے اور غیر اللہ کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دی اگرچہ یہ سجدہ پرستش اور عبودیت کے عنوان سے نہ کیا جائے۔

لیکن اگر اللہ کے حکم سے غیر اللہ کو سجدہ کیا جائے تو یہ درحقیقت اللہ کی عبادت اور اس کے تقرب کاباعث بنے گا اس لئے کہ یہ امتشال اور امر الٰہی اور اس کے حکم کی تعمیل ہے اگرچہ یہ ظاہراً اللہ کی کسی مخلوق کے سامنے تواضع کا مظاہرہ ہی ہو یہی وجہ ہے کہ اس امر سے سرکشی پر کسی کو عقاب کرنا صحیح ہے اور مخالف امر کا یہ عذر قابل قبول نہیں کہ میں کسی مخلوق کے سامنے ذلیل نہیںب نوں گا اور حکم دینے والے کے علاوہ کسی کے سامنے تواضع سے پیش نہیں آؤں گا(۱)

یہ تیسرا جواب درست ہے اس لئے کہ اللہ کے بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے جملہ امور میں اپنے نفس کیلئے کسی استقلال کا قائل نہ ہو اور ہر حالت میں اپنے مولا کی اطاعت کرے اگر مولا کسی کے سامنے تواضع سے پیش آنے کا حکم دے تو بندے پر واجب ہے کہ امتثال امر کرے اس صورت میں بندے کے سامنے تواضع سے پیش آنا اللہ کے سامنے تواضع سے پیش آنے کے مترادف ہو گا جس نے اس کا حکم دیا ہے(۲)

گزشتہ بحث کا نتیجہ یہ ہوا کہ کسی بھی عمل سے اللہ کا قرب صرف اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس عمل کو انجام دینے کا حکم فرمائے اور یہ حکم کسی عمومی یا خصوصی دلیل کے ذریعے ثابت ہو اگر کسی عمل کے بارے میں شک ہو کہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے یا نہیں تو ایسے عمل کے ذریعے اللہ کاقرب حاصل کرنا تشریح(۳) کہلائے گا جو قرآن و سنت ، عقل اور اجماع علماء کی رو سے حرام ہے۔

____________________

(۱) ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ۲۱

(۲) ایضاً ۲۲

(۳) ایسے عمل کو دین میں شامل کرنا جو دین سے خارج ہو۔

۶۰۲

ہاں ! ائمہ (ع) اور دیگر مومنین کی قبور کی زیارت کرنا ، ان کو بوسہ دینا اور ان کی تعظیم کرنا عام دلیلوں اور اہل بیت (علیہم السلام) جن کو رسول اسلام (ص) نے اپنی مشہور حدیث :انی تارک فیکم ۔۔۔۔۔۔ کے ذریعے قرآن کے ہم پلہ قرار دیا ہے ، کی خصوصی روایات کے ذریعے ثابت ہے زیارت قبور کے جائز ہونے کی تائید ہر دور کے مسلمانوں کی سیرت اور اہل سنت کی گزشتہ روایات سے بھی ہوتی ہے۔

شرک باللہ کیا ہے ؟

توجہ: جب غیر اللہ کے سامنے کسی خاص قسم کے خضوع کی نہی کی جائے جس طرح غیر اللہ کو سجدہ کرنا یا کسی خاص عبادت سے منع فرمایا جائے جیسے عیدالفطر اور عید قربان کے دن روزہ رکھنا حالت حیض میں نماز پڑھنا اور شوال ، ذیقعدہ اور ذی الحجہ کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں حج کرنا ہے تو ان اعمال کو بجا لانے والا شخص حرام کا مرتکب اور عذاب کا مستحق ہو گا لیکن ان اعمال کی وجہ سے نہ مشرک ہو گا اور نہ کافر معلوم ہوا ہر فعل حرام کا مرتکب مشرک اور کافر نہیں ہوتا۔

اس سے پہلے واضح ہو چکا ہے کہ شرک کا مطلب یہ ہے کہ غیر اللہ کی اس طرح تواضع کی جائے کہ تواضع کرنے والا ، عبد اور جس کی تواضع کی جا رہی ہے اسے رب مانا جائے پس جو شخص عبودیت اور پرستش کی نیت کے بغیر غیر اللہ کو سجدہ کرے وہ اپنے اس حرام عمل کی وجہ سے مسلمانوں کے زمرے سے خارج نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اسلام کا دارو مدار شہادتین کے اقرار پر ہے اور اسی سے اس کا مال اور خون محترم سمجھا جاتا ہے۔

۶۰۳

اس امر پر فریقین کی متواتر روایات دلالت کرتی ہیں(۱) ان دلائل کے باوجود اس شخص کو مشرک قرار دینے کا کیا جواز ہے باقی رہ جاتی ہے جو شہادتین کااقرار کرے اور قربتہ ً الی اللہ نبی اکرم (ص) اورآپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی قبور کی زیارت کرے۔

( وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَىٰ إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مومنا ) ۴:۹۴

''اور جو شخص (اظہار اسلام کی غرض سے) تم کو سلام کرے تو تم (بے سوچے سمجھے) نہ کہہ دیا کرو کہ تو ایماندار نہیں،،

نعنقریب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں حق کا فیصلہ فرمائے گااور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

اسباب عبادت

عبادت کرنا ایک اختیاری عمل ہے جس کیلئے کسی نہ کسی ایسے سبب کا ہونا ضروری ہے جو انسان کو عبادت کرنے پرآمادہ کرے یہ سبب چند چیزیں ہو سکتی ہیں۔

(۱) عبادت کا سبب اور عامل اللہ کی عبادت کے عوض میں ملنے والی نعمتوں اور اجر و ثواب کی طمع ہو ، جس کا اللہ نے اپنے کلام مجید میں وعدہ فرمایا ہے۔

( وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ) ۴:۱۳

''اور جو خدا اور رسول کی اطاعت کرے اس کو خدا آخرت میں ایسے (ہرے بھرے) باغوں میں پہنچا دے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی،،

( وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ) ۵:۹

''اور جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے (اچھے) کام (بھی) کئے خدا نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کیلئے (آخرت میں) مغفرت اور بڑا ثواب ہے،،

(۲) عبادت کا سبب و عامل ، حکم خداکی مخالفت پر سزا و عقاب کا خوف ہو،،

____________________

(۱) ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ مبر ۲۳

۶۰۴

( إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ) ۱۰:۱۵

''میں تو اگر اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو بڑے (کٹھن) دن کے عذاب سے ڈرتا ہو،،

( إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا ) ۷۶:۱۰

''ہم کو تو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر ہے جس میں منہ بن جائیں گے،،

ان دونوں اسباب کی طرف قرآن کی متعدد آیات دلالت کرتی ہیں۔

( تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ) ۳۲:۱۶

''رات کے وقت ان کے پہلو بستروں سے آشنا نہیں ہوتے اور (عذاب کے) خوف اور (رحمت کی) امید پراپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں،،

( وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّـهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ) ۷:۵۶

''اور (عذاب کے) خوف سے اور (رحمت کی) آس لگا کے خدا سے دعائیں مانگو (کیونکہ) نیکی کرنے والو ںسے خدا کی رحمت یقیناً قریب ہے،،۔

( يَبْتَغُونَ إِلَىٰ رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ ) ۱۷:۵۷

''وہ خود اپنے پروردگار کی قربت کے ذریعے ڈھونڈتے پھرتے ہیں کہ (دیکھیں) ان میں سے کون زیادہ قربت رکھتا ہے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں،،

(۳) خدا کو عبادت کا اہل سمجھ کر اس کی عبادت کی جائے کیونکہ اللہ ہی کی ذات کامل مطلق اور صفات جمال و جلال کی جامع ہے ایسی عبادت صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو مکمل طور پر فنافی اللہ کی منزل پر پہنچا ہوا ہو اور اپنے خالق کے مقابلے میں اسے اپنا وجود تک نظر نہ آتا ہو جس کا وہ خیر خواہ یا اس کے بارے میں اسے کسی عذاب کا خوف لاحق ہو اس کے پیش نظر صرف اس کا خالق ہو اور وہ غیرا للہ کا تصور تک نہ کر کے۔

۶۰۵

سوائے مصومین (علیہم السلام) کے کسی اور کے بارے میں یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ اس مرتبہ پر فائز ہے۔ جنہوں نے اپنے نفسوں کو محض اللہ کا مخلص بنایا ہے اور شیطان ان (ع) کے نزدیک تک نہیں جا سکتا اور وہ اس آیت کے مصداق ہیں:

( وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ) ۱۵:۳۹

''اور ان سب کو ضرور بہکاؤں گا،،

( إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ) : ۴۰

مگر ان میں سے تیرے نرے کھرے خاص بندے (کہ وہ میرے بہکانے میں نہ آئیں گے)،،

امیر المومنین سید الموحدین (ع) فرماتے ہیں۔

''ماعبدتک خوفاً من نارک و لا طمعاً فی جنتک ولکن و جدتک اهلاً للعبادة فعبد تک (۱)

''بارالہا ! میں نے آتش جہنم کے خوف سے تیری عبادت کی ہے اور نہ جنت کے لالچ میں بلکہ تجھے عبادت کا اہل سمجھ کر تیری عبادت کی ہے،،

معصومین (ع) کے علاوہ باقی انسانوں کی عبادت کا عامل و سبب پہلی دو وجوہ ہو سکتی ہیں ہمارے اس بیان سے ان حضرات کے اس قول کا بطلان بھی ظاہر ہو جائے گا جو جنت کے طمع یا جہنم کے خوف سے انجام دی گئی عبادات کو باطل سمجھتے ہیں اور عبادت کی صحت میں اس امر کو شرط قرار دیتے ہیںکہ عبادت صرف اللہ کو اس کا اہل سمجھ کر انجام دی جائے یہ قول اس لئے باطل ہے کہ معصومین (ع) کے علاوہ عام لوگ ایسی عبادت انجام دینے کی قدرت نہیں رکھتے اور انہیں ایسے امر کا مکلف بنانا ناممکن ہے جو ان کے دائرہ اختیار سے خارج ہے۔

____________________

(۱) مراۃ العقول باب الینتہ ، ج ۲ ، ص ۱۰۱

۶۰۶

اس کے علاوہ پہلی دو آیات اس عبادت کے صحیح ہونے پر دلالت کرتی ہیں جو جنت کی طمع اور جہنم کے خوف سے انجام دی جائیں ان آیات میں اللہ نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو اللہ کو جہنم کے خوف یا بہشت کے لالچ میں پکارے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ یہ عمل محبوب خدا ہو ، اللہ نے اس کا حکم دیا ہو اور اس سے امتثال امر ہو جائے معصومین (ع) کی روایات بھی ہیں جن کی رو سے وہ عبادت صحیح ہے جو دوزخ کے خوف سے اور جنت کی طمع میں انجام دی جائے(۱)

ہم گزشتہ بحثوں میں وضاحت کر چکے ہیں کہ اسی سورہ کی گزشتہ آیات کی رو سے حمد و ثناء اللہ کے کمال ذاتی اس کی ربوبیت ، رحمت واسعہ اور سلطنت و قدرت کی وجہ سے اللہ کی ذات سے مختص ہے اس طرح ان آیات میں عبادت کے منشاء اور اسباب کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے یعنی عبادت کی وجہ یا یہ ہوتی ہے کہ عابد معبود کے کمال اور اس کے مستحق عبادت ہونے کو درک کر کے اس کی عبادت کرتا ہے اور یہ آزاد انسان کی عبادت ہے یا عبادت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عابد ، معبود کی نعمتوں اور اس کے احسان کو درک کرتے ہوئے ان کی طمع میں عبادت کرتا ہے یہ تاجروں کی عبادت ہے یا عبادت اس لئے کی جاتی ہے کہ عبادت گزار معبود کے قہر و غضب اور اس کے عقاب کو درک کرتا ہے یہ غلاموں کی عبادت ہے۔

____________________

(۲) ضمیمہ نمبر ۲۴ پر عبادت کی اقسام ملا خطہ فرمائیں۔

۶۰۷

صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا

اس میں کوئی حرج نہیں کہ انسان اپنے مقاصد میں اللہ کے علاوہ دوسری مخلوق یا افعال سے مدد طلب کرے ارشاد ہوتا ہے۔

( وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ ) ۲:۴۵

''اور (مصیبت کے وقت) صبر اور نماز کا سہارا پکڑو،،

( وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ ) ۵:۲

''اور (تمہارا تو فرض یہ ہے کہ ) نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو،،

( مَا مَكَّنِّي فِيهِ رَبِّي خَيْرٌ فَأَعِينُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا ) ۱۸:۹۵

''ذوالقرنین نے کہا میرے پروردگار نے جو قدرت مجھے دے رکھی ہے وہ کہیں بہتر ہے،،۔

پس معلوم ہوا ہر قسم کی مدد طلبی صرف اللہ کی ذات میں منحصر نہیں بلکہ اسعانت (مدد طلب کرنا) کے اللہ سے مختص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کی قدرت اور توفیقات میں اضافہ صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کیا جائے تاکہ عبادت خالص اور کامل انجام پائے۔

پس معلوم ہوا ہر قسم کی مدد طلبی صرف اللہ کی ذات میں منحصر نہیں بلکہ استعانت (مدد طلب کرنا) کہ اللہ سے مختص ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عبادت کی قدرت اور توفیقات میں اضافہ صرف اللہ تعالیٰ سے طلب کیا جائے تاکہ عبادت خالص اور کامل انجام پائے۔

اس کا مقصد ، اس حقیقت کو ثابت کرنا ہے کہ انسان اپنے اختیاری اعمال میں جبرو تفویض کے درمیانی سنگم پر کھڑا ہے اس لئے کہ جملہ افعال انسان کے اختیارسے صادر ہوتے ہیں اسی لئے قول خداوندی( إِيَّاكَ نَعْبُدُ ) (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) میں فعل کی نسبت انسان کی طرف دی گئی ہے لیکن انسان کا یہ فعل اللہ کی طرف لمحہ بہ لمحہ ملنے والی مدد اور قدرت کے ذریعے انجام پاتا ہے ، جو ایک غیر منقطع عطیہ ہے بایں معنی کہ اگر کسی بھی لمحے مدد الٰہی منقطع ہو جائے تو انسان اس فعل کو مکمل نہیں کر سکتا اور نہ اس سے کوئی عبادت اور نیکی ہو سکتی ہے۔

۶۰۸

یہ وہی قول و عقیدہ ہے جس کا ایک خالص انسان متقاضی ہے اس لئے کہ جبر کا لازمہ یہ ہے کہ گناہ گار انسان کو عذاب دینا ایک بے گناہ شخص کو عذاب دینے کے مترادف ہے اور یہ صریحاً ظلم ہے:

( سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا ) ۱۷:۴۳

''جو جو (بیہودہ باتیں) یہ لوگ(خدا کی نسبت) کہا کرتے ہیں وہ ان سے بڑھ کر بہت پاکیزہ اور بدتر ہے،،

تفویض یعنی جملہ افعال انسان کے سپرد ہونے سے یہ لازم آتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے خالق کا اقرار جائے کیونکہ تفویض کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے افعال کو مستقل طور پر انجام دیتا ہے اور وہی ان کا خالق ہے اس عقیدے کا نتیجہ متعدد خالقوں کا قائل ہونا ہے جو شرک باللہ ہے۔

اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان افراط و تفریط کی بجائے درمیانی راستہ اختیار کرے بایں معنی کہ فعل انسان ہی سے صادر ہوتا ہے اور وہی اس فعل کا اختیاری فاعل ہے اسی وجہ سے وہ سزا و عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے اور ایک لحاظ سے اللہ کی ذات ہے جو انسان کو زندگی ، قدرت اور دیگر مقدمات فعل مسلسل عطا فرماتی رہتی ہیں۔

بنا برایں انسان اپنے اعمال کو مستقل طور پر انجام دے سکتا ہے اور نہ اپنے خالق کی سلطنت میں کسی قسم کی دخل اندازی کر سکتا ہے اس مسئلہ کی وضاحت ہم اعجاز قرآن کی بحث میں کر چکے ہیں۔

یہی وہ استعانت ہے جو اللہ کی ذات میں منحصر ہے اگر فیض الٰہی حاصل نہ ہو تو کسی سے کوئی فعل سرزد نہیں ہو سکتا چاہے تمام جن وانس مل کر اسے انجام دینا چاہیں۔ اس لئے کہ ممکن الوجود ، جو اپنے وجود میں استقلال نہیں رکھتا اس کا کسی عمل کو مستقلاً انجام دینا ناممکن ہے۔

۶۰۹

ہمارے اس بیان سے جملہ( ایاک نستعین ) کو( ایاک نعبد ) کے بعد ذکر کرنے کی وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے بایں معنی کہ پہلے تو اللہ نے عبادت کو اپنی ذات سے مختص کر دیا اور یہ کہ مومنین صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں پھر یہ حقیقت ظاہر کی کہ انسان کی عبادات ، اللہ کی مدد اور اس کی دی ہوئی قدرت سے انجام پاتی ہیں اور بندے مشیت کے مرہون منت ہیں بندوں کی نیکیوں میں اللہ کی ذات زیادہ موثر ہے اور برائیوں کا مسؤل بندہ ہی ہوتا ہے(۱)

شفاعت

قرآنی آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کے تمام معاملات کا کفیل و ضامن اللہ تعالیٰ ہے تمام معاملات اس کے قبضہ قدرت میں ہیں اللہ ہی اپنی رحمت سے بندوں کو کمال کا راستہ دکھاتا ہے وہ اپنے بن دوں کے نزدیک ہے ، ان کی آواز سنتا اور دعا قبول فرماتا ہے۔

( أَلَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ ) ۳۹:۳۶

''کیا خدا اپنے بندوں (کی مدد) کیلئے کافی نہیں ہے (ضرور ہے)،،

( وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ) ۲:۱۸۶

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جب میرے بندے میرا حال تم سے پوچھیں تو (کہدو کہ ) میں ان کے پاس ہی ہوں اور جب کوئی مجھ سے دعا مانگتا ہے تو میں ہر دعا کرنے والے کی (دعا سن لیتا ہوں اور اگر مناسب ہو تو) قبول کرتا ہوں پس انہیں چاہئے کہ (میرا ہی کہنا مانیں اور) مجھپر ایمان لائیں تاکہ وہ سیدھی راہ پر آ جائیں،،

____________________

(۱) ضمیمہ نمبر ۲۵ ملا خطہ فرمائیں۔

۶۱۰

بنا برایں مخلوق کو چاہئے کہ وہ اپنی جیسی مخلوق سے شفاعت طلب نہ کرے اور نہ کسی مخلوق کو اپنے اور اپنے رب کے درمیان واسطہ بنائے اس لئے کہ اس میں مقصد تک رسائی کیلئے لمبی مسافت طے کرنا پڑتی ہے بلکہ غیر اللہ کی طرف احتیاج ظاہر کرنا لازم آتا ہے ایک محتاج دوسرے محتاج کے کیا کام آ سکتا ہے اور ایک گناہگار کو اس شخص کی شفاعت سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے جس کے پاس کوئی سلطنت و اختیار نہ ہو۔

( لِلَّـهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ ۚ ) ۳۰:۴

''پہلے اور بعد (غرض ہر زمانہ میں) ہر امر کا اختیار خدا ہی کو ہے،،۔

( قُل لِّلَّـهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ۖ لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ ) ۳۹:۴۴

''تم کہہ دو کہ ساری سفارش تو خدا کیلئے خاص ہے سارے آسمان اور زمین کی حکومت اسی کیلئے خاص ہے،،

یہ وہ شفاعت ہے جو اذن خدا کے بغیر کی جائے لیکن اگر اللہ کسی کو شفاعت کرنے کی اجازت دے دے تو اس سے شفاعت طلب کرنا اللہ کے حضور خشوع و خضوع اور اس کی پرستش کے مترادف ہو گا اور قرآن کریم سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض بندوں کو شفاعت کی اجازت دی ہوئی ہے اگرچہ اس کیلئے رسول اللہ (ص) کے علاوہ کسی دوسرے کے نام کی تصریح نہیں فرمائی گئی چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

( ا يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَـٰنِ عَهْدًا ) ۱۹:۸۷

''(اس دن) یہ لوگ سفارش پر (بھی) قادر نہ ہونگے مگر (ہاں) جس شخص نے خدا سے (سفارش کا) اقرار لے لیا ہو،،

( يَوْمَئِذٍ لَّا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ ) ۲۰:۱۰۹

''اس دن کسی کی سفارش کام نہ آئے گی مگر جس کو خدا نے اجازت دی ہو،،

۶۱۱

( وَلَا تَنفَعُ الشَّفَاعَةُ عِندَهُ إِلَّا لِمَنْ أَذِنَ لَهُ ۚ ) ۳۴:۲۳

''اور جس شخص کیلئے وہ خود اجازت عطا فرمائے اس کے سوا کسی کی سفارش اس کی بارگاہ میں کام نہ آئیگی،،

( وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ) ۴:۶۴

''اور (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جب ان لوگوں نے (نافرمانی کر کے) اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا ، اگر تمہارے پاس پاس چلے آتے اورخدا سے معافی مانگتے اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) (تم) بھی ان کی مغفرت چاہتے تو بیشک وہ لوگ خدا کو بڑا توبہ قبول کرنےوالا مہربان پاتے،،

شفاعت کے موضوع پر اللہ رسول (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی متواتر روایات بھی موجود ہیں۔

امامیہ کے نزدیک شفاعت کی احادیث

شفاعت کےب ارے میں امامیہ سلسلہ سند سے پہنچنے والی روایات حدو حصر سے زیادہ ہیں امامیہ کے نزدیک یہ مسئلہ واضحات میں سے ہے اور کسی سے پوشیدہ نہیں نمونہ کے طور پر صرف ایک روایت پیش کرنے پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔

برقی نے ''المحاسن،، میں معاویہ بن وہب سے روایت کی ہے۔

''معاویہ بن وہب کہتا ہے : میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اس آیت کی تفسیر پوچھی:

( لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَـٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ) ۷۸:۳۸

''اس سے کوئی بات نہ کرس کے گا مگر جسے خدا اجازت دے اور وہ حق بات کہے،،

۶۱۲

آپ (ع) نے فرمایا: اللہ کی قسم ہم ہی ہیں جنہیں بولنے کی اجازت ہو گی اور حق بات کریں گے میں نے کہا میری جان آپ (ع) پر نثار ہو جب آپ (ع) بولیں گے تو کون سی بات کریں گے؟ آپ (ع) نے فرمایا: ہم اپنے رب کی عظمت اور بزرگی بیان کریں گے اپنے نبی (ص) پروردو سلام بھیجیں گے اور اپنے شیعوں کی شفاعت کریں گے اور اللہ (ہماری سفارش) رد نہیں فرمائے گا،، محمد بن یعقوب نے ''کافی،، میں محمد بن فضیل سے اور اس نے امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے(۱)

اہلسنت کے نزدیک شفاعت کی احادیث

شفاعت کے بارے میں اہلسنت کے ہاں بھی روایات متواترہ(۲) موجود ہیں جن میں سےب عض یہاں پیش کر رہیں۔

۱۔ یزید فقیر روایت کرتا ہے کہ جابر بن عبداللہ نے خبر دی کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

اللہ کی جانب سے پانچ ایسی چیزیں مجھے عطا ہوئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں کی گئیں ۔۔۔۔۔۔ مجھے ایسا رعب عطا کیا جو ایک ماہ کی مسافت سے دشمن کو محسوس ہوتا ہے ، زمین کومیرے لئے سجدہ گاہ اور مطہر بنایا ۔۔۔۔۔۔مال غنیمت میرے لئے حلال قرار دیا ، جبکہ مجھ سے پہلے یہ کسی کے لئے حلال نہ تھا اور مجھے شفاعت کا اختیار دیا ہے(۳)

____________________

(۱) بحار ، باب الشفاعہ ، ج ۳ ، ص ۳۰۱

(۲)۔ کنز العمال ، ج ۷ ، ص ۲۱۵ ۔۲۷۰ میں تقریبات ۸۰ روایات موجود ہیں۔

(۳) ۔ صحیح بخاری کتاب یتمم ، باب ۱ ، ج ۱ ، ص ۸۶

۶۱۳

۲۔ انس بن مالک نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''بہشت میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ، میں ہوں:(۱)

۳۔ ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا۔

''ہر نبی کی ایک دعا ہوا کرتی ہے اور میں نے اپنی دعا ، روز محشر اپنی امت کی شفاعت کیلئے ذخیرہ کر رکھی ہے،،(۲)

۴۔ ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''میں روز قیامت اولاد آدم کا سردار ہوں گا میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس کی قبر شگافتہ ہو گی ، میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں گا اور میری شفاعت سب سے پہلے ہو گی ،،(۳)

۵۔ ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

شفاعت کرنے والے پانچ ہیں ، قرآن کریم ، قریبی رشتہ دار ، امانت داری ، تمہارے نبی اور اس کے اہل بیت ،،(۴)

____________________

(۱)۔ صحیح مسلم باب ان النبی اول من یشفع فی الجنتہ ، ج ۱ ، ص ۱۳۰

(۲) ۔ ضمیمہ نمبر ۲۶ ملا خطہ فرمائیں۔

(۳) ۔ صحیح مسلم باب تفصیل نبینا علی جمیع الخلائق ، ج ۷ ، ص ۵۹

(۴) ۔ کنز العمال ، الشفاعتہ ، ج ۷ ، ص ۲۱۴

۶۱۴

۶۔ عبداللہ بن ابی جدعاء نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''میری امت کے ایک آدمی کی شفاعت سے قبیلہ نبی تمیم کے افراد سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہونگے،،(۱)

اس روایت کو ترمذی اور حاکم نے بھی بیان کیا ہے ان روایات سے ثابت ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے اہل بیت (ع) سے شفاعت طلب کرنا ایک ایسا عمل ہے جس کاشریعت میں حکم دیا گیا ہے ایسی صورت میںشفاعت طلب کرنا کیونکر شرک شمارہو گا ؟ اللہ تعالیٰ ہمیں خواہشات نفسانی کی پیروی اور قدم و علم کی لغزشوں سے محفوظ رکھے۔

تحلیل آیت

اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾

''تو ہم کو سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھ ، ان کی راہ جنہیں تو نے (اپنی) نعمت عطا کی ہے ، نہ ان کی رہا جن پر تیرا غضب ڈھایا گیا ہے اور نہ گمراہوں کی،،۔

قرات

قراتوں میں سب سے مشہور قرات یہ ہے کہ اس آیت میں ''غیر،، کی 'را، کو مجرور پڑھا جائے البتہ زمحشری نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) اور حضرت عمر نے 'را، کو منصوب پڑھا ہے لیکن یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ (ص) نے ''غیر،،کی 'را، کو منصوب پڑھا ہو اسی طرح یہ بھی ثابت نہیں کہ حضرت عمر نے اسے منصوب پڑھا ہو اور اگر یہ ثابت بھی ہو کہ حضرت عمر نے اسے منصوب پڑھا تھا پھرب ھی یہ حجت اور قابل قبول نہیں کیونکہ اس سے قبل ہم واضح کر چکے ہیں کہیغر معصوم کی قرات کوتب اہمیت حاصل ہوتی ہے جب وہ مشہور قراتوں میں سے ہو ورنہ وہ شاذ ہو گی اور اس کا پڑھنا کافی نہ ہو گا مشہور و معروف قرات( أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) ہے

۶۱۵

البتہ حضرت علی (ع) اور حضرت عمر کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ ان حضرات نے ''من انعمت علیہم و غیر الضآلین ،، پڑھا ہے حضرت عل ی(ع) کا اس طرح پڑھنا ثابت نہیں ہے بلکہ آپ کااس طرح سے نہ پڑھنا ثابت ہے اگر امیر المومنین (ع) ''ومن انعمت علیھم و غیر الضالین،، پڑھتے تو یہ قرات آپ (ع) کے شیعول میں رائج ہو گئی ہوتی اور آپ (ع) کے بعد دوسرے ائمہ (ع) اس کی تائید فرماتے حالانکہ کسی ایک قابل اعتماد آدمی نے بھی اس قرات کو نقل نہیں کیا۔

رسول اللہ (ص) کی طرف ''غیر،، کو منصوب پڑھنے کی جو نسبت دی جاتی ہے اس کے بارے میں بھی یہی کہا جا سکتا سکتا ہے کہ اگر آپ (ص) ''غیر،، کو منصوب پڑھتے تو یہ رات مشہور ہو جاتی اور باقی المہ ہدیٰ (ع) بھی اس کی تائید فرماتے جہاں تک حضرت عمر کی قرات کا تعلق ہے اس کا حکم بیان کر دیا گیا ہے۔

لغت

الهدایة

''ہدایت،، راہنمائی کو کہتے ہیں جو ضلالت و گمراہی کا عکس ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کا مطلب عنقریب نظر سے گزرے گا۔

الصراط

''صراط،، وہ راستہ ہے جس پر چلنےسے انسان اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے البتہ کبھی کسی غیر محسوس چیز کو بھی ''طریق،، کہا جاتا ہے چنانچہ کہاجاتا ہے''الاحتیاط طریق النجاة ،، یعنی ''احتیاط راہ نجات ہے،، اطاعتہ اللہ طریق الی الجنتہ،، یعنی ''اللہ کی اطاعت بہشت تک پہنچنے کا راستہ ہے،،

غیر محسوس طریق کو یا اس لئے ''طریق،، کہا جاتا ہے کہ لفظ ''طریق ،، طریق محسوس اور طریق غیر محسوس دونوں کیلئے استعمال ہو گا یا تشبیہ اور استعمارہ کے طور پر غیر محسوس طریق کو بھی طریق کہا گیا ہے۔

۶۱۶

الاستقامة

''استقامت ،، اعتدال اور میانہ روی کو کہا جاتا ہے، جو دایں یا بائیں طرف انحراف کے مقابلے میں آتا ہے ''صراط مستقیم،، وہ راستہ ہے جس پر چلنے والا ابدی نعمتوں اور رضائے الہی تک پہنچ جاتا ہے اور ''صراط مستقیم،، یہی ہے کہ مخلوق اپنے خالق کی اطاعت کرے اس کے اوامرو نواہی میں اس کی مخالفت و معصیت نہ کرے اور غیر اللہ کی عبادت نہ کرے یہ وہی صراط ہے جس میں کسی قسم کا انحراف نہیں ارشاد ہوتا ہے۔

( وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۴۲:۵۲

''اور اس میں شک نہیں کہ تم (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) سیدھا ہی راستہ دکھاتے ہو،،

( صِرَاطِ اللَّـهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ ) : ۵۳

''اس خدا کا راستہ کہ جو آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) اسی کا ہے سن رکھو،،

( وَهَـٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا ۗ ) ۶:۱۲۶

''اور (اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) یہ (اسلام) تمہارے پروردگار کا (بنایا ہوا) سیدھا راستہ ہے،،۔

( إِنَّ اللَّـهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۗ هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ) ۳:۵۱

''بیشک خدا ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے پس اس کی عبادت کرو (کیونکہ) یہی (نجات کا) سیدھا راستہ ہے،،

( وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَـٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ) ۳۶:۶۱

''اور یہ کہ (دیکھو) صرف میری عبادت کرنا یہی (نجات کی ) سیدھی راہ ہے،،۔

۶۱۷

( وَبِعَهْدِ اللَّـهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ) ۶:۱۵۲

''اور خدا کے عہد و پیمان کو پورا کرو یہ وہ باتیں ہیں جن کا خدا نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ تم عبرت حاصل کرو،،۔

( وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ ۚ ) : ۱۵۳

''اور یہ (بھی سمجھ لو) کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے تو اسی پر چلے جاؤ اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تم کو خدا کے راستہ سے (بھٹکا کر) تتر بتر کر دیں گے،،

چونکہ اللہ کی عبادت کسی خاص قسم میں منحصر نہیں ہے بلکہ بعض عبادات کاتعلق دل اور نفس سے ہے اور بعض کا متعدد اعضاء بدن سے۔ لہٰذا کبھی تو ایک عام اور وسیع معنی کو مدنظر رکھا جاتا ہے جو عبادت کی تمام اقسام کو شامل ہے اس معنی کی مناسبت سے لفظ صراط مفرد سے تعبیر کیا جاتا ہے جیسے ''الصراط المستقیم،، اور ''الصراط السویٰ،، ہے اور کبھی عبادت کی مختلف اقسام کو پیش نظر رکھا جاتاہ ے جس طرح اللہ تعالیٰ ، رسول اللہ (ص) اور معادپر ایمان لانا اور نماز ، روزہ ، حج اور دیگر اعمال بجا لانا ہے اس معنی کی مناسبت سے یہ لفظ جمع کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے چنانچہ ارشادباری ہے۔

( قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ) ۵:۱۵

''اور تمہارے پاس تو خدا کی طرف سے ایک (چمکتا ہوا) نور اور صاف صاف بیان کرنے والی کتاب (قرآن) آ چکی،،

( يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ ) ۵:۱۶

''جو لوگ خدا کی خوشنودی کے پابند ہیں ان کو تو اس کے ذریعہ سے نجات کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے،،

( وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ۚ ) ۱۴:۱۲

''اور ہمیں (آخر) کیا ہے جو ہم اللہ پر بھروسہ نہ کریں حالانکہ ہمیں (نجات کی) یقیناً اسی نے راہیں دکھائیں،،

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ ) ۲۹:۶۹

''اور جنل وگوںنے ہماری راہ میں جہاں کیا انہیں ہم ضرور اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے،،

۶۱۸

الانعام:

''انعام،، کے معنی ہیں ، نعمتوں سے نوازنا اور ان میں اضافہ کرنا اللہ کی نعمتوں سے نوازے گئے لوگ وہ ہوتے ہیں جو صراط مستقیم پر گامزن ہوں جنہیں خواہشات نفسانی شیطان کی اطاعت پر آمادہ نہ کر سکے اور اس طرح وہ ابدی سعادت اور دائمی زندگی حاصل کر لیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ انہیں رضائے الٰہی نصیب ہو۔

( وَعَدَ اللَّـهُ الْمومنينَ وَالْمومناتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ) ۹:۷۲

''خدا نے ایماندار مردوں اور ایماندار عورتوں سے (بہشت کے) ان باغوں کا وعدہ کر لیاہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (بہشت) عدن کے باغوں میں عمدہ عمدہ مکانات کا (بھی وعدہ فرمایا ہے) اور خدا کی خوشنودی ان سب سے بالاتر ہے یہی تو بڑی اعلیٰ درجہ کی کامیابی ہے،،

الغضب:

''غضب،، نارضگی کو کہا جاتا ہے جس کے مقابلے میں رحمت ہے اللہ ان لوگوں پر غضبناک ہوتا ہے جو کفر کے بھنور میں پھنسے ہوئے اور حق سے منحرف ہوں اور آیات الٰہی کو پس پشت ڈالتے ہوں اس سے مراد مطلق کافر نہیں:

( وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۱۶:۱۰۶

''بلکہ خوب سینہ کشادہ (جی کھول کر) کفر کرے تو ان پر خدا کا غضب ہے اور ان کیلئے بڑا (سخت)عذاب ہے،،

۶۱۹

الضلال:

''ضلال،، بے راہ روی اور گمراہی کو کہا جاتا ہے اس کے مقابلے میں ''ہدایت،، ہے گمراہ لوگ وہ ہیں جو راہ ہدایت سے منحرف اور ابدی ہلاکت و دائمی عذاب سے دوچار ہوں لیکن یہ لوگ شدت کفر میں ان لوگوں کی مانند نہیں جو غضب الٰہی کے مستحق ہیں کیونکہ اگرچہ گمراہ ہونے والے حق کی تحقیق میں کوتاہی کی وجہ سے صراط مستقیم سے بھٹک گئے ہوتے لیکن حق آشکار ہونے کے بعد وہ اس سے دشمنی نہیںبرتتے۔

چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ ''مغضوب علیھم،، سے مراد یہود اور ''ضالین،، سے مراد نصاریٰ ہیں اس سے قبل اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے کہ قرآنی آیات صرف شان نزول سے مختص نہیں ہواکرتیں اور یہ کہ ان آیات کا جو معنی بھی بیان کیا جائے وہ قاعدہ کلیہ کی تطبیق و اطلاق ہے۔

اعراب

سورہ فاتحہ میں جملہ ''غیر ا لمغضوب علیھم،، جملہ ''الذین انعمت علیھم،، کا بدن بن رہا ہے دوسرا احتمال یہ ہے کہ الذین انعمت علیھم کی صفت بن رہا ہے بایں معنی کہ اللہ کی نعمتیں اس کی رحمت کی طرح تمام تک پہنچتی رہتی ہیں کچھ لوگ ان نعمتوں کا شکر بجالاتے ہیں اور کچھ لوگ کفران نعمت کرتے ہیں:

( أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّـهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَبَاطِنَةً ۗ وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ ) ۳۱:۲۰

''کیا تم لوگوںنے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے(غرض سب کچھ) خدا ہی نے یقینی تمہارا تابع کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اورباطنی نعمتیں پوری کر دیں اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو (خواہ مخواہ) خدا کے بارے میں ھجگڑتے ہیں (حالانکہ ان کے پاس ) نہ علم ہے اور نہ ہدایت ہے اور نہ کوئی روش کتاب ہے،،

۶۲۰

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

ضمیمہ (۶) ص ۱۱۳

رسول (ص) اسلام کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش

اسی کتاب کے ص پر آیات کریمہ کی جو وضاحت ہم نے کی ہے اس کی تائیدان روایات سے بھی ہوتی ہے جو ان آیات کی شان نزول کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں چنانچہ ان آیات کی شان نزول کے بارے میں ''تفسیر البرہان،، میں مرقوم ہے۔

''ایک دن رسول خدا (ص) خانہ کعبہ میں اپنے آس پاس بیٹھے کچھ صحابیوں کو کلام خدا اور اس کے اوامرو نواہی کی تعلیم دے رہے تھے اتنے میں قریش کے سرکردہ افراد کی ایک جماعت جس میں ولید بن مغیرہ مخزومی ، ابو البختری بن ہشام ، ابوجہل بن ہشام ، عاص بن وائل السہمی ، عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس قسم کے دیگر افراد شامل تھے وہاں آئی ۔ ان مشرکین نے آپس میں کہا : دینمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ا ہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے آؤ ایک مرتبہ پھر اس کو سختی سے جھڑکیں ، اس کی سرزنش کریں اور دلائل سے اس کے لائے ہوئے پیغام کو باطل ثابت کریں تاکہ اپنے اصحاب کے سامنے اس کی اہمیت اور ہیبت ختم ہو جائے اور وہ ان کی نظروں سے گر جائے شاید اس طرح وہ اپنے مشن گمراہی ، باطل اور سرکشی سے باز آ جائے اگر زبانی سرزنش اور دلائل کے ذریعے باز آ جائے تو بہتر ورنہ شمشیر کے زور سے اسے بٹھا دیں گے۔

ابوجہل نے کہا : کون آگے بڑھ کرمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے گفتگو کرے گا؟

عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے کہا : میں اس سے گفتگو شروع کروں گا کیا تم مجھے اس سے مقابلہ اور مباحثہ کیلئے کافی نہیں سمجھتے ؟

۶۴۱

ابوجہل نے کہا : کیوں نہیں چنانچہ یہ سب کے سب آنحضرتؐ کی خدمت میں آئے اور عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے اپنے کلام کا آغاز کرتے ہوئے یوں کہا:

''آپ (ص) نے ایک بہت بڑا دعویٰ کر دیا اور بہت اونچی بات کہہ دی ہے آپ (ص) کا خیال ہے کہ آپ (ص) رب کائنات کے بھیجے ہوئے رسولؐ ہیں جبکہ رب اور خالق کائنات کیلئے ہرگز یہ مناسب نہیں کہ آپ (ص) جیسے انسان کو اپنا رسول بنا کر بھیجے جو ہماری مانند بشر ہے آپ ویسے ہی کھاتے پیتے ہیں جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں آپ ویسے ہی بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں جیسے ہم چلتے ہیں روم اور فارس کے بادشاہ جب کسی ملک میں اپنا نمائندہ بھیجتے ہیں تو کسی مالدار ، باحیثیت آدمی کو بھیجتے ہیں جس کے عالی شان محل و عمارات اور کئی غلام و نوکر ہوں اور رب کائنات کا مقام تو ان بادشاہوں سے بہت بلند ہے بلکہ یہ اس کے بندے ہیں اگرخدا ہماری طرف اپنا کوئی نمائندہ بھیجنا چاہتا تو ہم میں سے ایسے آدمی کا انتخاب کرتا جو مال و دولت اور مقام و منزلت کے اعتبار سے سب سے بہتر اور نمایاں حیثیت کا مالک ہو بنا برایں یہی قرآن جس کے بارے میں آپ (ص) کا یہ خیال ہے کہ خدا نے اسے آپ (ص) پر نازل کیا اور اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے مکہ یا مدینہ کے کسی عظیم المرتبت آدمی پر اسے کیوں نازل نہیں کیا ؟ یہ اہل مکہ میں سے ولید بن مغیرہ پر نازل کیا ہوتا یا اہل مدینہ میں سے عروہ بن مسعود ثقفی پر نازل کرتا،،

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: عبداللہ ابھی تیرا کچھ کلام باقی ہے؟

عبداللہ نے کہا : ہاں ! ہم اس وقت تک آپ (ص) پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک اسی مکہ کی سرزمین پر آپ (ص) چشمہ نہ بہائیں کیونکہ مکہ اپک پتھریلہ اور پہاڑی علاقہ ہے ہمیں اس امر کی ضرورت ہے آپ (ص) اس کی کھدائی کریں اسے ہموار کریں اور اس میں چشمے بہا دیں یا آپ (ص) کے پاس کھجور اور انگور کے باغات ہوں جس سے آپ (ص) کھائیں اور ان باغات میں نہریں بہتی ہوں ، یا آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہمپر گرے جیسا کہ آپ (ص) کا خیال ہے کیونکہ آپ (ص) نے ہی تو ہمارے بارے میں کہا : ''اگر یہ لوگ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرتے دیکھیں تو کہیں گے،، یہ تہہ بتہہ بادل ہیں،، اب ایسا کر کے دکھائیں شاید ہم یہی کہیں؟،،

۶۴۲

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لا سکتے جب تک خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کر حاضر نہ کریں یا پھرا س وقت ایمان لائیں گے جب آپ (ص) کے پاس سونے کا گھر ہو اور ہمیں اس میں سے حصہ دیں اور بے نیاز کر دیں شاید اس کے باوجود ہم بغاوت کر جائیں کیونکہ آپ (ص) نے ہی ہمارے بارے میں کہا ہے:

کلا ان الانسان لیطغی ان راه استغنی

''سن رکھو بیشک انسان جب اپنے کو غنی دیکھتا ہے تو سرکش ہو جاتا ہے،،۔

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: یا ہم اس صورت میں ایمان لائیں گے جب آپ (ص) آسمان کی طرف پرواز کریں اور آپ (ص) کے آسمان کی طرف پرواز کرنے پر بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کی طرف سے عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس کے ساتھیوں پر ایک کتاب نازل نہ ہو جس میں یہ خطاب ہو کہ تم سب محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب پر ایمان لے آؤاس لئے کہیہ میرا بھیجا ہوا رسول ہے اس کی باتوں کی تصدیق کرو اس لئے کہ یہ جو کچھ کہتا ہے میری طرف سے کہتا ہے،،

اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ! ان سب مطالبات کے پورے ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں میں آپ (ص) پر ایمان لاؤں یا نہ لاؤں اگر آپ ؐ ہمیں اٹھا کر آسمان کی طرف لے جائیں اور اس کے دروازے ہمارے آگے کھول دیں اور ہم ان دروازوں میں داخل ہو جائیں پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھیں مسحور کی گئی ہیں اور ہم پر جادو کیا گیا ہے۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پالنے و الے ! تو ہر آواز کوسننے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے اپنے بندوں کی باتوں کوتوبہتر جانتا ہے۔

اے عبداللہ بن ابی امیہ ! تیرا یہ کہنا کہ روم اور فارس کے بادشاہ ہمیشہ کسی مالدار آدمی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتے ہیں تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا خود تدبیر فرماتا اور فیصلہ کرتا ہے اس کے افعال ، تیرے خیالات اور تجاویز کے مطابق انجام نہیں پاتے بلکہ خدا خود جو چاہے کرتا ہے اور جیسا اس کا ارادہ ہو حکم فرماتا ہے۔

۶۴۳

اگر نبی محلوںکا مالک ہوتا اور ان میں جا کر غائب ہو جاتا یا اس کی خدمت کیلئے غلام اور نوکر ہوتے جو اس کو لوگوں کی نظروں سے چھپائے رکھتے ، تو کیا رسالت ضائع اور احکام خدا معطل نہ ہو جاتے؟

(میرے بارے میں ) تیرایہ کہنا کہ اگر تو نبی ہوتاتو تیرے ساتھ ہمہ وقت ایک فرشتہ ہوتا جو تیری تصدیق کرتا اور اسے ہم بھی دیکھ سکتے تو تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تیرے حواس فرشتے کو درک نہیں کر سکتے کیونکہ فرشتہ ہوا کی مانند ہے جس کا مشاہدہ نہیں ہو سکتا اگر تم فرشتے کا مشاہدہ کر سکتے بایں معنی کہ تمہاری حس باصرہ کو غیر معمولی طاقت دے دی جاتی ، تو تم کہتے یہ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ یہ تو ایک بشر ہے اس لئے کہ اگر فرشتہ ظاہر ہوتا تو لامحالہ کسی انسانی صورت میں ہی ظاہر ہوتا جس سے تم مانوس ہوتے تاکہ تم اس کی بات کو سمجھ سکو۔

تمہارا یہ کہنا کہ میں جادو گر ہوں بھلا میں جادو گر کیسے ہو سکتا ہوں جبکہ تم بخوبی جانتے ہو کہ عقل و فہم اور خیر و شر کو تمیز دینے میں ، میں تم سے بالاتر ہوں میری پیدائش سے آج تک چالیس سال کے عرصے میں تم نے مجھ سے کوئی جرم، جھوٹ ، بدزبانی سرزد ہوتے ہوئے دیکھی ہے ؟ یا کسی غلط بات اور کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے دیکھا ہے ؟ تمہارا کیا خیال ہے کیا ایک شخص اتنے طویل عرصے تک اپنی قوت اور بل بوتے پر ہر قسم کی غلطی سے محفوظ رہ سکتا ہے ؟ یا اس عرصے میں خدا کی تائید اور توفیق شامل حال رہی ہو گی؟

تمہارا یہ کہنا کہ خدا نے مکہ یا مدینہ کے کسی مالدار اور نامور آدمی پر قرآن کیوں نازل نہیں کیا ؟ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کی نظر میں مال دنیا کی وہ عظمت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے اور اس کی نظر میں مال دنیا کی وہ اہمیت اور وقعت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے خدا کسی سے اس کے مال و دولت اور حیثیت و مقام کی وجہ سے نہیں ڈرتا جس طرح تو ڈرتا ہے۔

تیرا یہ کہنا کہ جب تک زمین سے چشمے نہ پھوٹیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے وغیرہ تم نے اپنے اس کلام میں رسول خدا محمد (ص) کے سامنے کئی تجاویز پیش کی ہیں ان میں سے بعض تجاویز ایسی ہیں کہ اگر محمدؐ ان تجاویز پر عمل بھی کرے تب بھی وہ نبوت کی دلیل نہیں بن سکتیں رسول (ص) کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ جاہلوں کی نادانی کو غنیمت سمجھے اور ان کے سامنے ایسے دلائل پیش کرے جو درحقیقت حجت و دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

۶۴۴

تیری کچھ تجاویز ایسی ہیں کہ اگر ان پر عمل ہو جائے تو یہ تیری ہلاکت کا باعث بنیں گی نبوت کے دلائل تو اس لئے پیش کئے جاتے ہیں کہ خدا کے بندے ایمان لے آئیں اور ہلاکت سے محفوظ رہیں پس تو نے اپنی ہلاکت کی تجویز پیش کی ہے خدا کی ذات سب سے زیادہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والی ہے لوگوں کی مصلحتوں کو ان سے بہتر سمجھتی ہے۔ اور ان کی تجاویز پر عمل کر کے انہیں ہلاک نہیں کرتی۔

تیری بعض تجاویز ایسی ہیں جو بذات خود ناممکن ہیں اور صحیح و جائز نہیں ہیں اور کچھ تجاویز ایسی ہیں جو تیرے اعتراف کے مطابق تیری ضد ، ہٹ دھرمی اور سرکشی پر مبنی ہیں تو کسی دلیل کوتسلیم کرتا ہے اور نہ اسے سننے کیلئے تیار ہے۔

تیرا یہ مطالبہ کہ اگر اس سرزمین پر چشمے بہا کر دکھاؤں تب ایمان لاؤ گے تو نے یہ مطالبہ اس لئے کیا ہے کہ تو الٰہی دلائل سے جاہل ہے تیرا کیا خیال ہے اگر میں تیرا مطالبہ پورا کر دوں اور زمین پر چشمے بہا کر دکھا دوں تو کیا اسی دلیل سے میری نبوت ثابت ہو گی ؟ تیرا یہ مطالبہ اورتجویز ایسی ہے جیسا تو کہے ہم تو تب ایمان لائیں گے جب آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور چل کر دکھائیں کیا تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے پاس طائف میں کھجور اور انگور کے باغات نہیں ہیں جن سے تم کھاتے رہتے ہو اور ان کے درمیان سے نہریں نہیں بہتیں ؟ کیا ان باغات اور نہروں کی وجہ سے تم نبی بن گئے ہو؟

تیرا یہ کہنا کہ آسمان ریزہ ریزہ ہو کر ہمارے اوپر گرے جیسا کہ تیرا گمان ہے۔

آسمان کا ریزہ ریزہ ہو کر گرنا تمہاری موت اور ہلاکت کے مترادف ہے گویا اس طرح تم رسول خدا (ص) سے اپنی ہلاکت کا مطالبہ کر رہے ہیں رسول خدا (ص) کا رحم و کرم اس سے بالاتر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر دے۔

ہاں ! وہ تمہارے سامنے الٰہی دلائل پیش کرے گا۔

۶۴۵

وہ الٰہی دلائل اور حجتیں جو اللہ اپنے نبی کو دیکر بھیجتا ہے وہ بندوں کے مشوروں اور تجاویز کے مطابق نہیں ہوا کرتیں اس لئے کہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ کس امر میں ان کا مفاد اور مصلحت ہے جو جائز ہو اور کس میں مفسدہ اور نقصان ہے جو جائز نہ ہو کیا تم نے کسی ڈاکٹر کو دیکھا ہے جو اپنے مریض کے مشورے کے مطابق اس کیلئے نسخہ اور دوائی تجویز کرے ؟ یا تم نے کسی ایسے حاکم کو دیکھا ہے جو حق کے دعوے دار کو مدعی علیہ کی مرضی کے مطابق گواہ پیش کرنے کا حکم دے؟

تیرا یہ کہنا کہ ہم تب ایمان لائیں گے جب تو خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کرے جن کا ہم مشاہدہ کر سکیں یہ وہ مطالبہ ہے جس کا محال اور ناممکن ہونا کسی سے پوشیدہ نہیں اس لئے ہمارا رب اور خالق عام مخلوق کی مانند نہیں جو کسی کے سامنے آتا اور حرکت کرتا ہو ، تاکہ اس کو تمہارے سامنے لایا جائے پس تم نے اس مطالبہ میں ایک ناممکن ا مر کی تجویز پیش کی ہے۔

اے عبداللہ ! تیرا یہ کہنا کہ ہم تو تب ایمان لائیں گے جب تیرے پاس سونے کا مکان ہو یہ بتاؤ تم نے سنا ہے کہ شاہ مصر کے پاس سونے کے کئی گھر ہیں ؟ عبداللہ نے کہا : جی سنا ہے آپ (ص) نے فرمایا کیا بادشاہ مصران مکانات کی وجہ سے نبی بن گیا ہے ؟ عبداللہ نے کہا : نہیں ۔ آپ (ص) نے فرمایا جس طرح بادشاہ مصر کے سونے کے مکانات سے وہ نبی نہیں بن جاتا اگر میرے پاس بھی سونے کے مکانات ہوتے تو ان سے میری نبوت ثابت نہ ہوتی البتہ محمد (ص) تمہاری حالت اور نادانی کو غنیمت سمجھ کر اس قسم کی چیزوں کو حجت خدا کے طور پر پیش نہیں کرتا تیرا یہ کہنا کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے جب تم آسمان کی طرف پرواز کرو اور پھرتو یہ کہتاہ ے کہ تیرے آسمان کی طرف بلند ہونے کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم پر کوئی کتاب نازل نہ ہو جس کو ہم خود پڑھیں۔

۶۴۶

اے عبداللہ ! تمہیں معلوم ہے کہ آسمان کی طرف پرواز کرنا آسمان سے اترنے سے زیادہ مشکل ہے تو ایک مرتبہ اعتراف کر چکا ہے کہ میرے آسمان کی طرف پرواز کرنے کے باوجود بھی تم ایمان نہیں لاؤ گے تو میرے آسمان سے قرآن لے کر اترنے پر کب ایمان لاؤ گے ؟ تو نے اپنے کلام میں یہ بھی کہا ہے کہ ہم پر قرآن نازل ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں ہم ایمان لائیں نہ لائیں۔

یہ تیری طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ تو حجت خدا کے مقابلے میں عناد اور ضد رکھتا ہے تمہارے ان مطالبوں کا جواب خالق کا وہ جامع کلام ہے جو اس نے نازل فرمایا ہے اور اسی سے تمہاری تمام تجاویز باطل ہو جاتی ہیں خالق فرماتا ہے : اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کہہ دو ! میرا رب پاک و پاکیزہ ہے میں ایک انسان ہوں جس کو رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بنا کر بھیجا گیا ہے مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ خدا کو کوئی حکم دوں ، اس کو کسی کام سے روکوں یا کسی امر کا مشورہ دوں،،

یہ حدیث شریف بہت سارے فوائد پر مشتمل ہے محققین کو اس حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے ان آیات کی شان نزول کے بارے میں اور بھی بہت سی روایات موجود ہیں جن کو طبری نے ان آیات کی تفسیر کے موقع پر ذکر کیا ہے۔

۶۴۷

ضمیمہ (۷) ص ۳۱۵

صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

یہ حدیث یوں مروی ہے:

عبداللہ بن مسعود کہتا ہے:

''کنا نغزو مع رسول الله ص و لیس معنا نسآء فقلنا : الا نستخصی فنهانا عن ذلک ، ثم رخص لنا ان ننکح المراة بالتوب الی اجل ، ثم قراء عبدالله :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۵:۸۷

''ہم دوران جنگ رسول خدا (ص) کے ہمراہ تھے اور ہماری بیویاں ہمارے پاس نہیں تھیں ہم نے رسول خدا (ص) سے پوچھا : کیا ہم اپنے آپ کو نامرد بنا دیں آپ (ص) نے ہمیں اس عمل سے منع فرمایا اور اس امر کی اجازت دی کہ ایک مقررہ وقت تک کیلئے ایک کپڑے کے عوض عورتوںسے نکاح کر لیں اس کے بعد عبداللہ بن مسعود نے اس آیہ کریمہ کی تلاوت کی:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) (۵:۸۷)

''اے ایماندرو ! جو پاک چیزیں خدا نے تمہارے واسطے حلال کر دی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کیونکہ خدا حد سے بڑھ جانے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا،،

محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی ایک جماعت نے اس نص ، حدیث اور عبارت کو بخاری سے نقل کیا ہے لیکن آج کل کی رائج الوقت صحیح بخاری کے ج ۶ ص ۵۳ پر جو حدیث موجود ہے وہ دو اعتبار سے اصلی صحیح بخاری کی عبارت سے مختلف ہے:

۱۔ موجودہ صحیح بخاری میں سند حدیث سے لفظ عبداللہ بن مسعود کو نکال لیا گیا ہے جبکہ اکثر محدثین نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا ہے عبداللہ بن مسعود کے نام کو اس لئے نکال لیا گیا ہے تاکہ عبداللہ بن مسعود کا نام اس بات کا قرینہ اور شاہد نہ بن سکتے کہ اس روایت کا مقصد نکاح متعہ کو جائز قرار دینا ہے ، اس لئے کہ عبداللہ بن مسعود نکاح متعہ کو جائز سمجھتے تھے۔

۶۴۸

۲۔ موجودہ صحیح بخاری میں روایت کے آخری سے لفظ ''الی اجل،، (معین مدت تک) کو بھی نکال دیا گیا ہے کیونکہ ''الی اجل،، کا لفظ اس امر کی تصریح ہے کہ آنحضرت ؐ نے نکاح متعہ کی اجازت دے دی ہے چنانچہ شارحین نے بھی یہی سمجھا اور ایسی ہی اس کی تفسیر کی ہے کیونکہ اس قسم کے مقامات پر نکاح کی اجازت لازمی طور پر نکاح متعہ ہی کی اجازت ہوا کرتی ہے صرف دائمی نکاح کی نہیں اور یہ کہ ''لیس معنانسآ،، یعنی مجاہدین کے پاس عورتوں کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اپنی بیویاں ان کے ساتھ نہیں تھیں ایسا نہیں ہے کہ عام عورتیں وہاں نہیں تھیں ورنہ نکاح کی اجازت دینا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اس معنی کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ بعض روایات میں ''لیس معنا،، کی جگہ ''لیس لنانساء ،، موجود ہے یعنی ہماری اپنی عورتیں نہیں ہیں۔

چونکہ یہ روایت نکاح متعہ کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے اس لئے کئی فقہاء کا دعویٰ ہے کہ بعض دوسری روایات میں نکاح متعہ کو حرام قرار دیا گیا ہے جس سے اس روایت میں موجود حکم (جواز متعہ) نسخ ہو جاتا ہے لیکناس بات سے بھی ان کا مدعیٰ ثابت نہیں ہوتا جس کی تفصیل آیہ متعہ سے متعلق روایات پر تبصرہ کے دوران ہم نے بیان کر دی ہے تحریف کے مجرم ہاتھوں سے یہ روایت بھی محفوظ نہیں رہ سکی اور اس کو اپنی صحیح اورا صلی صورت پر نہیں رہنے دیا گیا ہم ذیل میں ان محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی فہرست ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے صحیح بخاری سے صحیح حدیث نقل کی ہے۔

(۱) بیھقی : سنن بیھقی جز ۷ ص ۲۰۰ طبع حیدر آباد

(ب) سیوطی : تفسیر سیوطی = ۲ = ۲۰۷ = المیمنیتہ مصر

(ج) زیلعی : نصب الرایہ = ۳ = ۱۸۰ = دارالتالیف مصر

(د) ابن تیمیہ : المنتقی ٰ جزء ۲ ص ۵۱۷ طبع حجازی

(ھ) ابن القیم : زادالمعاد = ۴ = ۸ محمد علی صبیح

(و) قنوچی : روضتہ الندیہ ۲ = ۱۶ = المنیریہ

(ز) محمد بن سلیمان : جمع الفوائد = ۱ = ۵۸۹ = دارالتالیف

۶۴۹

اس روایت کے کچھ اور مصادر اور حوالے بھی ہیں جو ذیل میں دیئے جا رہے ہیں

(ح) مسند احمد : جزء ۱ ص ۴۲۰ طبع مصر ۱۳۱۳

(ط) تفسیر قرطبی : = ۵ = ۱۳۰ = = ۱۳۵۶

(ی) تفسیر ابن کثیر : = ۲ = ۱۸۷ = = علی البابی

(ل) الاعتبار للحازمی : = = ۱۷۶ حیدر آباد

یہ حدیث صحیح ابی حاتم اور اس قسم کے اہم مصادر میں بھی موجود ہیں۔

ضمیمہ (۸) ص ۳۲۸

محمد عبدہ اور تین طلاقیں

محمد عبدہ پہلے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ اگر ایک نشست میں تین طلاقیں جاری کر دی جائیں تو وہ ایک طلاق شمار ہوں گی۔

اس کے بعد فرماتے ہیں:

''ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم ان مقلدین سے بحث اور مناظرہ کریں یا ان قاضیوں اور مفتیوں سے ان کے مذاہب چھڑا دیں جو تین طلاقوں کے قائل ہیں ان میں سے اکثر حضرت ایک طلاق پر دلالت کرنے والی روایات سے آگاہ ہیں جو کتب حدیث وغیرہ میں موجود ہیں البتہ یہ لوگ ان روایات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لئے کہ یہ لوگ اپنی کتابوں میں موجود اقوال پر زیادہ عمل کرتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نہیں(۱)

کاش محمد عبدہ متعہ کی بحث میں بھی یہی بات کرتے۔ اس لئے کہ جیسا کہ آپ نے دیکھا نکاح متعہ شریعت اسلام میں

____________________

(۱) تفسیر المنار ، جزء ۱ ، ص ۳۸۶

۶۵۰

ثابت ہے اس کے بعد اسے نسخ بھی نہیں کیا گیا جو لوگ نکاح متعہ کو حرام سمجتھے ہیں ان کی واحد دلیل ان کی کتابوں میں موجود اقوال ہی بن سکتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بن سکتیں۔

ضمیمہ (۹) ص ۳۸۳

شیعوں پر رازی کا افترائ

من جملہ ان لوگوں میں جنہیں تحقیق و تدقین کی توفیق نہیں ، فخر رازی ہے جو آیئہ کریمہ ''یمحوا اللہ مایشآء ویثبت،، کی تفسیر میں کہتا ہے :

''رافضی (شیعہ) کہتے ہیں خدا کے حق میں بداء جائز ہے اوربداء یہ ہے کہ خدا کو کسی چیز کا یقین حاصل ہو اس کے بعد اس پر انکشاف ہو کہ حقیقت اور واقع ایسا نہیں جس کا اسے یقین تھا،،۔

خالق ! تو جانتا ہے کہ یہ محض تہمت ہے رازی نے اپنی کتاب ''محصل،، کے خاتمہ میں ''سلیمان بن جریر،، سے ایک کلام نقل کیا ہے جس کا ذکر قبیح ہے اور مجھے بھی زیب نہیں دیتا کہ اس کتاب میں اس کلام کو ذکر کروں رازی نے یہ جملہ اسی جیسے ایک دوسرے ننگین جملے کے بعد ذکر کیا ہے جوبعض نصاریٰ رسول خدا (ص) کے بارے میں کہتے تھے جب آنحضرت (ص) ایسے احکام لے کر آئے جو گزشتہ شریعتوں کے لئے ناسخ قرار پائے''کبرت کلمته تخرج من ا فواههم وسیعلم الذین ظلموا ایی منقلب ینقلبون،،

۶۵۱

ضمیمہ (۱۰) ص ۳۹۴

احادیث اور مشیّت الٰہی

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی دونوں کتابوں ''توحید،، اور ''معانی الاخبار،، میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت بیان کی ہے ، امام علیہ السلام نے آیہ شریفہ : ''وقالت الیھود یداللہ مغلولۃ ،، کے بارے میں فرمایا:

''لیکن یہود کہا کرتے تھے خدا خلقت و آفرنیش کے ہر کام سے فارغ ہو گیا ہے خدا نہ تو کسی چیز کو بڑھاتا ہے اور نہ گھٹاتا ہے،،

خدا نے ان لوگوں کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا:

( غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ ) ۵:۶۴

''انہیں کے ہاتھ باندھ دیئے جائیں اور ان کے (اس) کہنے پر (خدا کی ) پھٹکار (بر سے خدا کا ہاتھ بندھنے کیوں لگا) بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے،،

کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا۔

( يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ) ۱۳:۳۹

''(پھر اس میں سے) خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) موجود ہے،،

عیاشی نے یعقوب بن شعیب اور عماد کے ذریعے حضرت ابو عبداللہ (علیہ السلام) سے بھی اسی مضمون کی روایت بیان کی ہے اس قسم کی روایات کو مجلسی نے بحار کی جلد ۲ ، ص ۱۳۱۔۱۴۲ پر ذکر کیا ہے۔

۶۵۲

ضمیمہ (۱۱) ص ۳۹۱

دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

سلمان کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''قضاء الٰہی کو دعا ہی تبدیل کرس کتی ہے اور عمر میں اضافہ نیکی ہی کر سکتی ہے،،(۱)

تو بان کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''عمر کو نیکی ہی بڑھا سکتی ہے انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے(۲)

ضمیمہ (۱۲) ص ۲۳۵

آیہ بسم اللہ کی اہمیت

اس کتاب کے صفحہ ۴۳۳ پر اعراب کی بحث میں یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ ''بسم اللہ،، میں اسم کی اضافت اللہ کی طرف اضافہ معنویہ ہے

____________________

(۱) ترمذی ، باب ماجاء لایرد القدر الالدعا ، ج ۸ ، ص ۳۵۰

(۲) ابن ماجہ ، باب القدر ، ج ۱ ، ص ۲۴ ، حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہےاور ذہبی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ، ج ۱ ، ص ۴۹۳ ۔ احمد نے اپنی مسند میں روایت کی ہے، ج ۵ ، ص ۲۷۷ ، ۲۸۰ ، ۲۸۲ ، اس مضمون کی روایت زیادہ ہیں جو متعلقہ کتب میں مل سکتی ہیں۔

۶۵۳

اوریہ کہ لفظ ''اللہ،، اپنے حقیقی معنی(۱) میں استعمال ہوا ہے ۔ بنا برایں لفظ اسم اپنے اس جامع معنی میں استعمال ہوا ہے جو تمام اسمائے الٰہی پر صادق آنے کے قابل ہے گویا مفہوم کاذکر کر کے اس کے ذریعے اس کے مصداق کی طر فاشارہ کیا گیا ہے چونکہ اسم اعظم اسم الٰہی کا اشرف مصداق ہے اس لئے لامحالہ اسم اعظم مفہوم اسم کے مصداق بننے کا سب سے زیادہ استحقاق رکھتا ہو گا اوراسی سے اس روایت کا معنی بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بسم اللہ اسم اعظم کے اس سے بھی زیادہ نزدیک ہے جتنی آنکھکی سفیدی آنکھ کی سیاہی کے نزدیک ہے کیونکہ بسم اللہ اور اسم اعظم کے درمیان قرب ذاتی ہے اس لئے کہ مفہوم اور مصداق خارج میں ایک ہوا کرتے ہیں اور سفیدی چشم کاقرب سیاہی چشم کیلئے مکانی اور ان دونوں میں اتحاد وضعی ہے۔

ضمیمہ (۱۳) ص ۴۳۶

آغاز آفرنیش

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خدا نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق فرمایا(۲)

محمد بن مسلم سنان کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں امام جواد (علیہ السلام) کی خدمت میں بیٹھا تھا ، آپ (ع) نے فرمایا:

''اے محمد ! خدا ہمیشہ اپنی وحدانیت میں منفرد اور یگانہ رہا ہے اس کے بعد خداوند عالم نے محمد ، علی اور فاطمہ (علیہم السلام) کو خلق فرمایا اس کے بعد یہ حضرات ہزار برس عالم نور میں رہے(۳)

____________________

(۱) وہ ذات جو تمام صفات کمال کی جامع ہو (مترجم)

(۲) البحار ، باب حقیقتہ العقل و کیفیتہ و بدء خلقہ ، ج ۱ ، ص ۳۳

(۳) اصول کافی ، باب تاریخ مولد النبی (ص) ، ص ۲۳۹ ، الوافی باب بداخلق المعصومین ، ج ۲ ، ص ۱۵۵

۶۵۴

ضمیمہ (۱۴) ص ۴۴۶

بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

بیہقی نے اپنی سند سے ام سلمہ سے روایت کی ہے:

''رسول خدا (ص) نے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھا اور اسے جزء قرآن قرار دیا،،

یہ روایت حاکم نے مستدرک کی ج ۱ ص ۲۳۲ پر بیان کی ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت مسلم اور بخاری کی شرائط پر پوری اترتی ہے اور صحیح ہے نیز عبد خیر سے روایت ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام سے پوچھا گیا سبع مثانی کون سا سورہ ہے ، آپ (ص) نے فرمایا : سورۃ الحمد۔

راوی نے پوچھا: الحمد کی آیات توچھ ہیں آپ (ع) نے فرمایا : بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی سورہ الحمد کا جزء ہے اس روایت کو ابوہریرہ نے بھی بیان کیا ہے۔

رسول خدا (ص) سے ابوہریرہ روایت نقل کرتا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

''سورۃ الحمد سات آیات پر مشتمل ہے ان میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی شامل ہے،،

ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورہ فاتحہ کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے فرماتے تھے یہ روایت ترمذی نے ج ۲ ، ص ۴۴ پر نقل کی ہے۔

ابن عمر سے منقول ہے کہ وہ نماز کی ابتداء تکبیرۃ الاحرام سے کرتے تھے اس کے بعد بسم اللہ الرحم الرحیم پڑھتے تھے اور جب سورۃ الحمد سے فارغ ہوتے دوبارہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے اور کہا کرتے تھے ''اگر بسم اللہ کا پڑھنا ضروری نہیں تو پھر قرآن میں اسے کیوں لکھا گیا ہے،،

۶۵۵

ان کے علاوہ بھی اس مضمون کی کئی روایات موجود ہیں سنن بیہقی ج ۲ ص ۴۳ ، ۴۷ کی طرف رجوع کریں ، کنز العمال ، ج ۲ ، ص ۱۹۰ فضائل السورہ والآیات نیز باب البسملہ آیہ ، ص ۳۷۵ میں ثعلبی نے علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جب آپ (ص) نماز میں کسی سورے کو پڑھتے تھے تو شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ترک کر دے اس نے سورہ کو ناقص پڑھا ہے نیز آپ (ص) فرماتے تھے بسم اللہ الرحمن الرحیم سبع مثانی کا حصہ ہے۔

ضمیمہ (۱۵) ص ۴۴۶

معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

بیہقی نے ج ۲ ، ص ۴۹ پر اپنی سند سے انس بن مالک سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ معاویہ نے مدینہ میں نماز پڑھی اس نے نماز میں سورہ فاتحہ بلند آواز میں پڑھا البتہ اس نے سورہ حمد سے پہلے تو بسم اللہ کو پڑھا مگر حمد کے بعد پڑھے جانے والے سورہ سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ اس کی قرات مکمل ہو گئی ، اس کے بعد تکبیر بھی نہیں پڑھی اور رکوع میں چلا گیا اور اس طرح اپنی نماز مکمل کی جب معاویہ سلام پھیر چکا تو نماز میں موجود مہاجرین ہر طرف سے بول اٹھے معاویہ ! تم نے نماز میں چوری کر لی یا بھول گئے ہو ؟ اس واقعہ کے بعد جب بھی معاویہ نماز پڑھتا تو سورہ الحمد کے بعد والے سورہ سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھتااور سجدے میں جانے سے قبل تکبیر بھی پڑھتا تھا،،۔

۶۵۶

اسی روایت کو بیہقی نے ایک اور سند سے بھی بیان کیا ہے البتہ اس روایت کا مضمون یہ ہے کہ معاویہ نے سورۃ الحمد سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اور اس کے بعد دوسرے سورے سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اس کے علاوہ اس روایت میں اعتراض کرنے والوں میں مہاجرین کے علاوہ انصار کابھی ذکر ہے اس روایت کو حاکم نے مستدرک کی جلد۱ ص ۲۳۳ میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے اور مسلم کی شرائط پر پوری اترتی ہے۔

ضمیمہ (۱۶) ص ۴۴۶

رسول (ص) خدا کا بسم اللہ کو پڑھنا اور روایت انس کی توجیہ

قرات بسم اللہ کی ایک روایت اسی کتاب کے ص پر گزر چکی ہے قتادہ نے انس سے روایت کی ہے ''رسول خدا (ص) سورہ حمد کی تلاوت مد کیساتھ کرتے تھے اس کے بعد انس نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کی اور بسم اللہ ، الرحمن اور الرحیم کو مد کے ساتھ پڑھا ،،(۱)

شریک بن انس کی روایت ہے:

''میں نے رسول خدا (ص) کو بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے سنا،،

____________________

(۱) سنن بیہقی ، باب افتتاح القراء ۃ فی الصلوٰۃ : ببسم اللہ الرحمن الرحیم ، ج ۲ ، ص ۴۶ ۔ مستدرک حدیث الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۲۳۳

۶۵۷

حاکم کہتے ہیں : اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

عسقلانی کی روایت ہے:

''میں نے بہت دفعہ معتمربن سلیمان کی اقتداء میں نماز صبح اور نماز مغرب پڑھی معتمر سورہ فاتحہ سے پہلے اور اس کے بعد بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے تھے ۔ میں (عسقلانی) نے معتمر کو یہ کہتے سنا ہے : میں نماز میں ہمیشہ اپنے والد کی اقدا کرتا ہوں اور میرے والد کہتے تھے : میں نماز میں ہمیشہ انس بن مالک کی اقتدا کرتا ہوں اورانس کہتے تھے : میں نماز میں رسول خدا (ص) کی اقدا کرتا ہوں،،

(یہ سب نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ الرحمنالرحیم پڑھتے تھے)

حاکم کہتے ہیں اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں(۱)

ابو نعامہ انس سے روایت کرتے ہیں:

''رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے ،،(۲)

مولف : ممکن ہے انس کی گزشتہ روایت (جس سے بسم اللہ کے جزء قرآن نہ ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے) سے مراد یہ ہو کہ رسول خدا (ص) اور آپ کے بعد دوسرے خلفاء نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ (ص) نے بسم اللہ کو سرے سے نہیں پڑھا) اس مطلب کا قرینہ اور شاہد انس کی مذکورہ بالا روایت ہے (جس میں اس امر کی تصریح ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا) اس مطلب کی تائید گزشتہ روایت میں انس کی اس تعبیر سے بھی ہوتی ہے کہ ''میں نے قرات نہیں سنی،، بلکہ انس کی بعض روایات میں تو یہ جملہ موجود ہے کہ ''میں نے ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھتے نہیں سنا،، بعض روایات میں یہ جملہ موجود ہے۔

____________________

(۱) مستدرک ، ج ۱ ، ص ۲۳۳ ۔۲۳۴

(۲) سنن بیہقی ، باب من قال لایجہر بہا ، ج ۲ ، ص ۵۲

۶۵۸

''رسول خدا (ص) نے ہمیں نماز پڑھائی مگر ہمیں بسم اللہ کی قراً سنائی نہیں دی(۱)

بنا برایں انس کی گزشتہ روایت اور ان روایات کے درمیان کوئی منافات نہیں پائی جاتی جن کے مطابق رسول خدا (ص) کے بعد دوسرے اصحاب بسم اللہ پڑھتے تھے۔

ہاں ! ایک روایت یہ کہتی ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر قرات کے اول اور آخر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے(۲)

لیکن اس روایت کے راویوں میں ولید بن مسلم قرشی شامل ہے جس کا ثقہ ہونا مخدوش ہے بلکہ بہت سوں نے تو تصریح کی ہے کہ یہ شخص بہت زیادہ خطا کاراور جعلساز تھا(۳)

جہاں تک قتادہ کی اس روایت کا تعلق ہے جو انس سے مروی ہے جس کے مطابق رسول خدا (ص) ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان قرات کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے(۴)

تقریباً اسی روایت کی ہم مضمون وہ روایت ہے جس کو نسائی نے باب البداء بفاتحتہ الکتاب ، ج ۱ ، ص ۱۴۳ میں ذکر کیا ہے قتادہ کس اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے بعد دوسرے خلفاء ، سورہ فاتحہ سے ابتداء کرتے تھے (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ یہ حضرات سورہ فاتحہ کی ابتداء آیتہ الحمد للہ سے کرتے تھے ) اور سورۃ فاتحتہ التکاب پر الحمدللہ رب العالمین کا اطلاق ہوتا رہتا ہے چنانچہ بعض گزشتہ روایات میں بھی سورہ فاتحہ کو الحمدللہ رب العالمین کہا گیا ہے۔

شافعی نے بھی اس روایت کو اسی معنی پر محمول کیا ہے۔

____________________

(۱) ایضاً باب ترک الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۴۴

(۲) صحیح مسلم ، باب حجتہ من قال لایجہربابسملہ ، ج ۲ ، ص ۱۲

(۳) تہذیب التہذیب ملا خطہ فرمائیں۔

(۴) ترمذی باب ماجاء فی افتتاح القرات بالحمد ، ج ۲ ، ص ۴۵ ۔ سنن ابی داؤد ، باب الجہر بسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۲۵

۶۵۹

ضمیمہ (۱۷) ص ۴۷۵

ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

اس موضوع کی روایات اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں ذکر کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی البتہ ہم صرف احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ ہی کی وہ روایت ذکر کرتے ہیں کہ جو اس کی کتاب ''المنتقی ٰ من اخبار المصطفی،، میں مذکور ہے اس کے علاوہ بعض دوسرے حضرات کی روایات کو بھی ذکر کریں گے۔

۱۔ بریدہ سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''میں (ص) نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن مجھے اپنی والدہ گرامی کی زیارت کی اجازت دی گئی ہے تم بھی اس کی زیارت کیا کروں کیونکہ اس سے آخرت کی یاد دہانی ہوتی ہے،،۔

بریدہ کہتے ہیں ، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

۲۔ ابوہریرہ سے مروی ہے :

''رسول اسلام (ص) نے اپنی والدہ گرامی کی قبر کی زیارت کی ۔ آپ (ص) خود بھی روئے اور ارد گرد موجود افراد کو بھی رلا دیا ۔ پھر فرمایا : میں (ص) نے خدا سےاپنی والدہ کیلئے طلب مغفرت کی اجازت مانگی مگر خدا نے اجازت نہ دی پھر میں نے اس کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی جو خدا نے دے دی پس تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو اس لئے کہ زیارت قبور موت کی یاد دلاتی ہے،،۔

ابوہریرہ کہتے ہیں اس روایت کو علماء کی کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689