البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن8%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313874 / ڈاؤنلوڈ: 9311
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

۴۔ احادیث جمع قرآن حکم عقل کے خلاف ہیں۔

جمع قرآن سے متعلق جو روایات بیان کی گئی ہیں وہ حکم عقل کیخلاف ہیں کیونکہ بذات خود قرآن کی عظمت ، حفظ قرآن اور قرات قرآن کو رسول اللہ (ص) کا اہمیت دینا ، رسول اللہ (ص) جس چیز کو اہمیت دیتے تھے مسلمانوں کا اس کو دل و جان سے قبول کرنا اور اہمیت دینا اور ان تمام اعمال کا بیان شدہ ثواب ، جمع قرآن کے اس طریقہ کار سے ساز گار نہیں جس کا روایت میں ذکر ہے۔

قرآن مجید میں کئی ایسے پہلو ہیں جن کی بنیادپر مسلمانوں کی نگاہ میں قرآن اہمیت کاحامل بن سکتا ہے اور مرد تو بجائے خود یہ عورتوں اوربچوں میں بھی مشہور ہو سکتا ہے اور وہ پہلو یہ ہیں:

۱۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت : عرب کلام بلیغ کے حفظ کرنے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اسی وجہ سے وہ زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبوں کو یاد کر لیتے تھے ایسے عرب ، کلام پاک کو اہمیت کیوں نہ دیتے جس کے چیلنج کا جواب کوئی فصیح و بلیغ شخص اور خطیب بھی نہیں دے سکا اس وقت تمام دنیائے عرب کی توجہ قرآن مجید پر مرکوز تھی مومنین اسے اس لئے حفظ کرتے تھے کہ ان کا اس پر ایمان تھا اور کفار اس کا مقابلہ کرنے اور اس کی حجیت کوباطل ثابت کرنے کیلئے اسے حفظ کرتے تھے۔

۲۔ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ) جن کی اس وقت کرہ ارض کے ایک عظیم خطے پر حکومت تھی اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے کہ حتی المقدور قرآن کا تحفظ اور اسے حفظ کیا جائے اور انسانی عادت و طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ جب کوئی سربراہ مملکت کسی کتاب کے تحفظ اور پڑھنے کی خواہش ظاہر کرے تو یہ کتاب ان لوگوں میں فوراً رائج ہو جاتی ہے جو کسی دینی یا دنیوی مفاد کی خاطر اس سربراہ کی خوشنودی چاہتے ہوں۔

۳۔ حافظ قرآن کو لوگوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ہر تاریخ دان بخوبی جانتا ہے کہ اس دور میں حافظان اور قاریان قرآن کا کتنا احترام کیا جاتا تھا یہ خود ایک اہم سبب ہے کہ اس مقصد کیلئے لوگوں نے سارے کا سارا یا مقدور بھر قرآن ضرور حفظ کیا ہو گا۔

۳۲۱

۴۔ حفظ اور قرات قرآن کا اجرو ثواب ، جس کا قاری اور حافظ قرآن مستحق قرار پایا ہے ، ایک اہم عامل ہے جو لوگوں میں قرآن کو یاد کرنے اور اس کے تحفظ کا شوق پیدا کر سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمان عظمت قرآن کو بہت زیادہ اہیمت دیتے تھے قرآن کو اپنے جان و مال اور اولاد سے زیادہ عزیز رکھتے اورا س کی حفاظت کرتے تھے چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ کچھ عورتوں نے سارے کا سارا قرآن جمع کر لیا تھا۔

ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں:

''فضل بن وکین نے ہمیں خبر دی کہ ولید بن عبداللہ بن جمیع نے حدیث بیان کی: میری نانی ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث ، جس کی زیارت کیلئے رسول اللہ (ص) جایا کرتے اور اسے شہیدہ کا نام دیتے تھے اور اس نے سارا قرآن جمع کر لیا تھا ، نے حدیث بیان کی: جب رسول اللہ (ص) جنگ بدر کیلئے روانہ ہوئے تو میں نے آپ (ص) سے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص) ! اگر اجازت ہو تو میں بھی آپ (ص) کے ساتھ چلوں اور جنگی زخمیوں کا علاج اور تیمارداری کروں، شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرمائے ؟ آپ (ص) نے فرمایا : خدا نے شہادت تمہاری قسمت میں لکھ دی ہے،،(۱)

قرآن جمع کرنے کے معاملے میں جب عورتوں کا یہ حال ہے تو مردوں کا کیا حال ہو گا یہی وجہ ہے کہ عہد رسول اللہ (ص) کے بہت سے حافظان قرآن کے نام تاریخ میں درج ہیں۔

قرطبی لکھتے ہیں:

_____________________

۱) الاتقان النوع ۲۰ ج ۱ ص ۱۲۵

۳۲۲

''جنگ یمامہ کے دن ستر قاری شہید کر دیئے گئے اور عہد نبی اکرم (ص) میں بر معونہ کے مقام پر بھی اتنے ہی قاری شہید کئے گئے ،،(۱)

جمع قرآن سے متعلق گزشتہ صفحات میں پیش کردہ دسویں روایت میں ہے کہ جنگ یمامہ کے دن چار سو قاری شہید کئے گئے۔

بہرحال نبی اکرم (ص) کے قرآن مجید کو انتہائی اہمیت دینے اور خصوصی طور پر متعدد کاتبوں کا اہتمام کرنے سے ، جبکہ قرآن تیس سال میں قسط وار نازل ہوا ہے ، ہمیں یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ آپ (ص) نے اپنے زمانے میں ہی جمع قرآن کا حکم دیدیا تھا۔

زید بن ثابت روایت کرتے ہیں:

''ہم رسول اللہ (ص) کے پاس بیٹھ کر ٹکڑوں سے قرآن جمع کیا کرتے تھے،،

حاکم اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں:

''یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط کی بنیاد پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اسے اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا،،

اس کے بعد فرماتے ہیں:

یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن مجید رسول اسلام (ص) کے زمانے میں ہی جمع کر لیا گیا تھا،،(۲)

جہاں تک قرآن کے بعد سوروں یا ایک سورہ کے کچھ حصوں کا تعلق ہے ان کو حفظ کرنا تو عام بات تھی اور شاید ہی کوئی مسلمان مرد یا عورت ہو جس نے چند سورتیں یا ایک سورۃ کے کچھ حصہ یاد نہ کئے ہوں۔

____________________

(۱) الاتقان النوع ۲۰ ، ص ۱۲۲ ۔ قرطبی اپنی تفسیر ، ج ۱ ، ص ۵۰ میں لکھتے ہیں: بعض کا کہنا ہے کہ جنگ یمامہ کے دن سات سو قاری شہید کئے گئے۔

(۲) المستدرک ، ج ۲ ، ص ۶۱۱

۳۲۳

عبادہ بن صامت روایت کرتے ہیں:

کان رسول الله ۔ص ۔بشغل ، فاذا قدم رجل مهاجر علی رسول الله ۔ص ۔دفعه الی رجل منا یعلمه القرآن ،، (۱)

''بعض اوقات رسول اللہ (ص) کسی کام میں مصروف ہوتے اور مہاجرین میں سے کوئی آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ (ص) اسے ہم میں سے کسی کے حوالے کر دیتے جو اسے قرآن کی تعلیم دیتا تھا،،

کلیب نے روایت کی ہے:

''کنت مع علی ، ع ۔فسمع فجهم فی المسجد یقراون القرآن ، فقال : طوبی لهولاء ۔۔۔۔۔۔(۲)

''میں علی (علیہ السلام) کے ہمراہ تھا جب آ پ(ع) نے لوگوں کی قرات قرآن کا شور سنا تو فرمایا: ان لوگوں کو بشارت

ہو جو قرات کلام پاک میں مصروف ہیں،،

نیز عبادہ بن صامت سے روایت ہے:

کان الرجل اذا هاجر دفعه النبی ۔ص ۔الی رجل منایعلمه القرآن ، وکانبسمع المسجد رسول الله ۔ص ۔فجة بتلاوة القرآن ، حی امرهم رسول الله ان یخفضوا اصواتهم لئلا یتغالطوا،، (۳)

''جب کوئی نیا مہاجر مدینہ آتا تو نبی اکرم (ص) اسے ہم میں سے کسی کے حوالے کر دیتے جو اسے قرآن کی تعلیم دیتا تھا اس وقت مسجد نبوی (ص) سے قرات قرآن کا ایک شور بلند ہوتا تھا حتیٰ کہ نبی اکرم (ص) کو کہنا پڑا کہ اپنی آوازوں کو آہستہ کریں کہیں شور میں قرآن غلط نہ پڑھا جائے،،

___________________

(۱) مسند احمد ، ج ۵ ، ص ۳۲۴

(۲) کنز العمال ، فضائل القرآن ، طبع ثانی ، ج ۲ ، ص ۱۸۵

(۳) مناہل العرفان ، ص ۳۲۴

۳۲۴

یہ حقیقت ہے کہ حفظ قرآن ، اگرچہ قرآن کے بعض حصے سہی ، کارواج مسلمان مرد اور عورتوں میں عام تھا بلکہ بعض اوقات تو کچھ مسلمان عورتیں قرآن کی ایک یا متعدد سورتوں کی تعلیم کو اپنا مہر قرار دیتیں(۱) قرآن کو اتنی زیادہ اہمیت دینے کے باوجود یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ قرآن کی جمع آوری میں خلافت ابوبکر تک تاخیر ہوئی اور جمع قرآن کے سلسلے میں حضرت ابوبکر کو دو گواہوں کی ضرورت محسوس ہوئی جو یہ شہادت دیں کہ ہم نے سورہ یا آیہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے سنا ہے۔

۵۔ احادیث جمع قرآن خلاف اجماع ہیں۔

یہ سب روایات تمام مسلمانوں کے اس اتفاقی اور اجماعی فیصلے کیخلاف ہیں کہ قرآن صرف تواتر کے ذریعے ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ان روایات کے مطابق قرآن دو شاہدوں یا ایک ایسے شاہد جس کی گواہی دو کے برابر ہو ، کی شہادت سے ثابت کیا جاتا تھا اس طریقے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن خبر واحد کے ذریعے بھی ثابت ہو انصاف سے بتائے ! کوئی مسلمان یہ بات ماننے کیلئے تیار ہے ؟ میں نہیں سمجھ سکا کہ دونوں قول کیسے جمع ہو سکتے ہیں کہ قرآن خبر متواتر کے بغیر ثابت نہ ہو سکے اور یہ روایات بھی صحیح ہوں جن کے مطابق قرآن دو شاہدوں کی شہادت سے بھی ثابت ہو جاتا ہے۔

کیا اس بات کے یقین سے کہ قرآن خبر متواتر کے بغیر ثابت نہیں ہوتا ، اس بات کا یقین حاصل نہیں ہوتا کہ یہ ساری کی ساری روایات جھوٹی اور من گھڑت ہیں؟

تعجب تو اس پر ہے کہ ابن حجرجیسے بعض دانشمندوں نے فرمایا ہے کہ ان روایات میں شہادت سے مراد کتابت اور حفظ کرنا ہے(۲) میرے خیال میں جس وجہ سے ابن ح جر نے یہ توجیہ کی ہے وہ ثبوت قرآن کیلئے تواتر کاضروری ہونا ہے بہرحال یہ توجیہہ کئی جہات سے صحیح نہیں ہے:

____________________

(۱) اس حدیث کو شیخان (بخاری و مسلم) ابوداؤد ، ترمذی اور نسائی نے بیان کیا ہے ۔ تاج ، ج ۲ ، ص ۳۳۲

(۲) الاتقان نوع ۱۸ ص ۱۰۰

۳۲۵

اولاً: یہ توجیہ جمع قرآن سے متعلق مذکورہ روایات کی تصریحات کیخلاف ہے۔

ثانیاً: اس توجیہ کا لازمہ یہ ہے کہ جب تک یہ کسی کے پاس لکھا ہوا نہ ملے وہ اسے قرآن میں شامل نہیں کرتے تھے جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہوتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے اس کو ساقط (ترک ) کر دیا جس کا قرآن ہونا تواتر سے ثابت ہو۔

ثالثاً : جس بات کو لکھنا یا حفظ کرنا مقصود ہو اگر وہ متواترات میں سے ہو تو اسے ل کھنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور جب تک متواتر نہ ہو کتابت اور حفظ کرنے سے قرآن ثابت نہیں ہوتا بہرحال کتابت اور حفظ کو جمع قرآن کی شرط قرار دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ ان روایات کو مسترد کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ روایات تواتر کے بغیر بھی قرآن کے ثابت ہونے پر دلالت کرتی ہیں جس کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔

۶۔ احادیث جمع قرآن اور قرآن میں زیادتی

اگر یہ روایات صحیح ہوں اور ان کے ذریعے قرآن میں کمی کی صورت میں تحریف پر استدلال کیا جائے تو انہی روایات کے ذریعے قرآن میں زیادتی کی صورت میں تحریف پر بھی استدلال کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان روایات میں جمع قرآن کی جو کیفیت اور طریقہ بتایا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قرآن میں کچھ نہ کچھ اضافہ کر دیا گیا ہو۔

اعتراض:قرآن میں زیادتی کو اس میں نقص اور کمی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ قرآن کی کسی آیہ یا سورہ کو قرآن سے نکال لینا آسان ہے لیکن قرآن میں کسی آیہ کا اضافہ کرنا مشکل ہے۔ ا س لئے کہ قرآن میں اعجاز کی حد تک فصاحت و بلاغت پائی جاتی ہے اوراس کے پایہ کا کلام بنا کر اسے قرآن میں شامل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔

۳۲۶

جواب: اگرچہ قرآن کے اعجاز اور اس کی بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک سورہ کی مثل و نظیر نہ لائی جا سکے لیکن ایک دو کلموں کی مثل و نظیر تولائی جا سکتی ہے بلکہ اگر مختصر ہو تو ایک آیہ کی مثل بھی لائی جا سکتی ہے اور اگر یہ احتمال نہ ہوتا تو قرآن ثابت کرنے کیلئے دو شاہدوں کی گواہی کی ضرورت نہ پڑتی جس کا گزشتہ روایات میں ذکر ہوا ہے اس لئے کہ جو آیت بھی کسی کی طرف سے پیش کی جاتی وہ خود منہ بولتا ثبوت ہوتی کہ میں قرآن سے ہوں کہ نہیں۔

بنا برایں جو قرآن میں کمی کی صورت میں تحریف کا قائل ہے اسے لامحالہ ماننا پڑے گا کہ قرآن میں زیادتی بھی ہوئی ہے اور یہ اجماع مسلمین کیخلاف ہے۔

گزشتہ مباحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ جمع قرآن کو خلفاء کی طرف نسبت دینا محض خیال خام ہے جو کتاب و سنت ، عقل اور اجماع کیخلاف ہے۔

تحریف کو ثابت کرنے کیلئے جمع قرآن کے ذریعے استدلال نہیں کیا جا سکتا ، بفرض تسلیم اگر قرآن کو حضرت ابوبکر نے اپنے دور خلافت میں جمع کیا ہو پھر بھی اس میں شک نہیں کہ جمع قرآن کا جو طریقہ گزشتہ بیان کی گئی روایات میں ذکر کیا گیا ہے ، جھوٹ ہے اور حق یہ ہے کہ قرآن کو مسلمانوں میں تواتر کی بنیاد پر جمع کیا گیا ہے البتہ جو سورے اور آیات لوگوں کے سینوں میں بطور تواتر موجود تھیں جمع کرنے والے نے قرآن کی صورت میں ان کی تدوین کی ہے۔

ہاں ! یہ مسلم ہے کہ حضرت عثمان نے اپنے دور خلافت میں قرآن جمع کیا ہے لیکن حضرت عثمان اس معنی میں جامع قرآن نہیں ہیں کہ انہوں نے سوروں اور آیتوں کو بذات خود جمع کیا ہو بلکہ اس معنی میں جامع قرآن ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو ایک ہی قرات پر متفق کیا اور باقی قرآنوں کوجو اس قرات سے مختلف تھے جلا دیا اور دوسرے شہروں میں یہ حکمنامہ بھیجا کہ اس نسخے کے علاو باقی نسخے جلا دیئے جائیں اور مسلمانوں کو قرات میں اختلاف کرنے سے روک دیا چنانچہ اس حقیقت کی تصریح بعض دانشمندان اہل سنت نے بھی کی ہے۔

۳۲۷

حارث محاسبی کہتے ہیں:

''عام لوگوں میں مشہور ہے کہ قرآن حضرت عثمان نے جمع کیا ہے حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے حضرت عثمان نے صرف لوگوں کو اس ایک قرات پر آمادہ اور متفق کیا تھا جسے حروف قرات میں اہل عراق و شام کے اختلاف کے وقت حضرت عثمان اور کچھ مہاجرین و انصار نے اختیار کیا تھا اور اس سے قبل قرآن ، حروف ہفتگانہ جن میں قرآن نازل ہوا تھا ، کے مطابق پڑھا جاتا تھا ،،(۱)

مولف : جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضرت عثمان نے مسلمانوں کو اس ایک قرات پر متفق کیا جو مسلمانوں میں مشہور تھی ، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) سے بطور تواتر انہوں نے سنی تھی اور ان قرات پر پابندی لگا دی جو حروف ہفتگانہ کی بنیادپر پڑھی جاتی تھیں ، جن کا بطلان گزشتہ مباحث میں بیان ہو چکا ہے ، حضرت عثمان کے اس کارنامے پر کسی مسلمان کو اعتراض نہیں کیونکہ قرات میں اختلاف مسلمانوں میں اختلاف کا باعث بن رہا تھا اور اس کا شیرازہ بکھر رہا تھا بلکہ اس اختلاف کی وجہ سے بعض مسلمان بعض کو کافر قرار دے رہے تھے گزشتہ مباحث میں ایسی روایات گزر چکی ہیں جن میں رسول اللہ (ص) نے قرات میں اختلاف سے منع فرمایاہے ہاں ! حضرت عثمان کے جس عمل پر مسلمان اعتراض کرتے ہیںوہ ان کا قرآن کے باقی نسخوں کو جلانا اور مختلف شہروں میں جلانے کا حکم دینا ہے اس عمل پر مسلمانوں کی ایک جماعت نے اعتراض کیا تھا اور حضرت عثمان کا نام حراق المصاحف قرآن سوز رکھ دیا تھا۔

نتیجہ:

ان گزشتہ مباحث سے قارئین محترم کے سامنے واضح ہو گیا کہ تحریف قرآن کی باتیں خرافات اور بیہودہ خیالات ہیں اس قسم کی باتیں ضعیف العقل کر سکتے ہیں یا وہ لوگ کر سکتےہیں جو اس مسئلہ میں کماحقہ ، غور نہیں کرتے یا تحریف کا قائل وہ ہو گا جو اس نظریئے پر فریفتہ ہو ظاہر ہے کسی بھی چیز کی محبت انسان کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے اور وہ نہ حق کی بات کر سکتا ہے اور نہ سن سکتا ہے اس کے برعکس جو شخص عقلمند، منصف مزاج اور متفکرہو گا وہ اس نظریہ کے باطل ہونے میں شک نہیں کر سکتا۔

____________________

(۱) الاتقان نوع ۱۸ ، ج ۱ ، ص ۱۰۳

۳۲۸

ظواھر قرآن کی حجیت

٭ ظواہر قرآن کے حجت نہ ہونے کے دلائل

٭ قرآن فہمی کا مختص ہونا

٭ تفسیر بالرائے کی ممانعت

٭ معانی قرآن کی پیچیدگی

٭ خلاف ظاہر کا یقین

٭ متشابہ پر عمل کی ممانعت

٭ قرآن میں تحریف

۳۲۹

اس میں کوئی شرک نہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ) نے اظہار مافی الضمیر اور افہام و تفہیم کا کوئی خاص طریقہ نہیں اپنایا اور افہام و تفہیم کا وہی طریقہ اپنایا جو آپ (ص) کی قوم می رائج تھا آپ (ص) اپنی قوم کے لئے قرآن لے کرآئے تاکہ وہ اسے سمجھے اور اس کی آیتوں میں غور و فکر کرے قرآن جن کاموں کا حکم دے انہیں بجا لائے اور جن باتوں سے روکے اس سے باز آ جائے قرآن کی متعدد ا یتوں میں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا ) (۴۷:۲۴)

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی ) غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں،،

دوسری جگہ ارشادہوتا ہے:

( وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ) ۳۹:۲۷

''اور ہم نے تو اس قرآن میں لوگوں کے (سمجھانے کے) واسطے ہر طرح کی مثل بیان کر دی ہے تااکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کریں،،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ ) ۲۶:۱۹۲

''اور (اے رسول) بیشک یہ (قرآن) ساری خدائی کے پالنے والے (خدا) کا اتارا ہوا ہے،،

( نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ) : ۱۹۳

''جسے روح الامین (جبرئیل) لے کر نازل ہوئے ہیں،،

( عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ) : ۱۹۴

''تمہارے دل پر تاکہ تم بھی (اور پیغمبروں کی طرح لوگوں کو عذاب خدا سے) ڈراؤ،،

۳۳۰

( بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ ) : ۱۹۵

''(جسے جبرئیل) صاف عربی زبان میں (لے کر آئے)،،

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( هَـٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ) ۳:۱۳۸

''یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کیلئے تو صرف بیان (واقعہ ) ہے (مگر) اور پرہیز گاروں کیلئے نصیحت ہے،،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( فَإِنَّمَا يَسَّرْنَاهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ) ۴۴:۵۸

''تو ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں (اس لئے) آسان کر دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں،،

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ ) ۵۴:۱۷

''اور ہم نے تو قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے واسطے آسان کر دیا ہے تو کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے،،

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ) ۴:۸۲

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے اور (یہ نہیں خیال کرتے کہ) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا ) ہوتا توضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے،،

ان کے علاوہ بھی قرآن کی ایسی آیات موجود ہیں جن میں احکام قرآن پر عمل کرنا واجب قرار دیا گیا اور اس کے ظواہر پر عمل کرنے کی تاکید کی گئی ہے ذیل میں ظواہر قرآن کی حجیت اور عربوں کے قرآن کے معانی کو سمجھنے کے چند دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔

۳۳۱

۱۔ قرآن کو رسالت کی حجت و دلیل کے طورپر نازل کیا گیا اور نبی اکرم (ص) نے پوری انسانیت کو اس کی ایک سورہ تک کی مثل پیش کرنے کا چیلنج کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ عرب قرآن کے ظاہری معانی سمجھتے تھے اگر قرآن ایک ناقابل حل معمہ ہوتا تو عربوں کو چیلنج کرنا صحیح نہ ہوتا اور ان کے سامنے قرآن معجزہ ہونا ثابت نہ ہوتا کیونکہ جس چیز کو وہ سمجھتے ہی نہ تھے اس کا جواب کیا دیتے اور یہ بات قرآن نازل کرنے کے مقصد اور لوگوں کو دعوت ایمان دینے سے سازگار نہیں بلکہ منافی ہوتی۔

۲۔ بہت سی روایات میں ثقلین ، جنہیں رسول اللہ (ص) اپنے بعد چھو ڑکر گئے ، سے متمسک رہنے کا حکم دیا گیا ہے ظاہر ہے تمسک کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب کو اپنایا جائے اور اس سے جو احکام سمجھےج ائیں ان پر عمل کیا جائے اور ظاہر قرآن کی حجیت اسی کا نام ہے۔

۳۔ روایات متواترہ میں حکم دیا گیا ہے کہ روایات کو قرآن کے سامنے پیش کرو( اس سے مقایسہ کرو) اور پھر جو روایت کتاب خدا کیخلاف ہو اسے باطل سمجھو اور دیوار پر دے مارو وہ جھوٹ پر مبنی ہے اس کو قبول کرنے سے منع کیا گای ہے اور ائمہ (ع) کا فرمان نہیں ہے یہ روایات تصریح کرتی ہیں کہ ظواہر قرآن حجت ہیں اور قرآن کو عام اہل زبان جو فصیح عربی جانتے ہوں سمجھ سکتے ہیں۔

اس قسم کی دوسری روایات میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ صحیح شرائط کو باطل شرائط سے الگ کرنا ہو تو ان کا کتاب خدا سے مقایسہ کرو اور جو کتاب خدا کے خلاف ہو اسے مستردکر دو۔

۴۔ بعض احکام شرعیہ پرائمہ (ع) کا قرآنی آیات سے استدلال کرنا دلیل ہے کہ ظواہر قرآن حجت ہیں:

۱۔ زراہ نے امام صادق (ع) سے پوچھا کہ آپ (ع) نے کہاں سے سمجھا کہ پورے سر کا نہیں بلکہ سر کے ایک حصے کا مسح واجب ہے آپ (ع) نے فرمایا : ''لمکان الباء ،، (یعنی ''وامسحوا برؤوسکم،، میں ''ب،، بعض کا معنی دیتی ے اوریہ بتاتی ہے کہ سر کے کچھ حصے کا مسح واجب ہے)

۳۳۲

۲۔امام (علیہ السلام) نے منصور دو انیقی کو چغل خور کی بات پر عمل کرنے سے منع فرمایا اور کہا ''چل خور فاسق ہے،، اس کے بعد دلیل کے طور پر اس آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی:

( إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا ) ۴۹:۶

''اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبرلے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو،،

۳۔ ایک شخص نے گانا سننے کی خاطر ، جس کی آواز ہمسائے کے گھر سے آ رہی تھی بیت الخلاء میں دیر لگائی اور اپنی طرف سے یہ عذر پیش کیا کہ میں عمداً گانا سننے یہاں نہیں آیا آپ (ع) نے فرمایا:

''آپ تو نے خدا کا یہ فرمان نہیں سنا،،

( إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ) ۱۷:۳۶

''کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان سب کی (قیامت کے دن) یقیناً باز پرس ہونی ہے،،۔

۱۴۔ امام صادق (علیہ السلام) نے اپنے فرزند اسماعیل سے فرمایا:

جب مومنین کی ایک جماعت تیرے پاس آ کر گواہی دے تو اس کی تصدیق کر،،۔

پھر آپ (ع) نے بطور دلیل اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرمائی:

( يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمومنينَ ) ۹:۶۱

''جب تک دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے،،

۳۳۳

۱۵۔ آپ (ع) نے فرمایا:

''تین مرتبہ طلاق شدہ عورت کے حلالہ کیلئے ایک غلام سے عقد کافی ہے ، کیونکہ اس پر بھی ''زوج،، صادق آتا ہے ارشاد خداوندی ہے:

( حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ) ۲:۲۳۰

''جب تک دوسرے مرد سے نکاح نہ کرے،،

۱۶۔ آپ (ع) نے فرمایا۔

جب عورت کو تین طلاقیں دی گئی ہوں وہ عقد منقطع (متعہ) سے حلال نہیں ہو گی ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا ) ۲:۲۳۰

''ہاں اگر دوسراشوہر (نکاح کے بعد ) اس کو طلاق دے دے تب البتہ ان میاں بی بی پر باہم میل کر لینے میں کچھ گناہ نہیں ہے،،۔

اور متعہ میں طلاق نہیں ہوتی۔

۱۷۔ ایک شخص نے امام صادق (ع) کی خدمت میں آ کر عرض کی:

ٹھوکر لگنے سے میراناخن اتر گیا ہے جس پر پٹی باندھی ہوئی ہے مسح کیسے کروں؟ آپ (ع) نے فرمایا: اس مسئلے اور اس قسم کے دوسرے مسائل کا جواب قرآن سے تلاش کیا جا سکتا ہے ، خدا فرماتا ہے:

( وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ ) ۲۲:۷۸

''اور امور دین میں تم پر کسی طرح کی سختی نہیں کی،،

پھر آپ (ع) نے فرمایا : اس پٹی کے اوپر مسح کرو،،

۳۳۴

۱۸: امام صادق (ع) سے بعض عورتوں کے بارے میں سوال کیا گیا کہ حلال ہیں یا حرام ؟ آپ (ع) نے فرمایا:

''حلال ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ ) ۴:۲۴

''اور ان عورتوں کے سوا(اور عورتیں) تمہارے لئے جائز ہیں،،

۱۹۔ آپ (ع) نے فرمایا:

''مولا کی اجازت کے بغیر غلام نکاح نہیں کر سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ ) ۱۶:۷۵

''ایک غلام ہے جو دوسرے کی ملک ہے (اور) کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا،،

۲۰۔ آپ (ع) نے بعض حیوانات کے حلال گوشت ہونے کی دلیل کے طور پر اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ ) ۶:۱۴۵

''(اے رسولؐ) تم کہو کہ میں تو جو (قرآن) میرے پاس وحی کے طور پر آیا ہے اس میں کوئی چیز کسی کھانے والے پر جو اس کو کھائے حرام نہیں پاتا،،

ان کے علاوہ بھی امام (ع) نے آیات قرآن سے استدلال فرمائے ہیں جو فقہ کے مختلف ابواب میں موجود ہیں۔

۳۳۵

ظواہر قرآن کے حجت نہ ہونے کے دلائل:

محدثین کی ایک جماعت ظواہر قرآن کی حجیت کی منکر ہے اور ان پر عمل کرنے سے منع کرتی ہے اور اپنے مدعا پر ذرج ذیل دلائل پیش کرتی ہے:

۱۔ قرآن فہمی کا مختص ہونا:

قرآن کو صرف وہی ہستیاں سمجھ سکتی ہیں جن سے قرآن مخاطب ہے ان علماء کرام نے اپنے اس دعویٰ کے اثبات میں چند روایات سے استدلال کیا ہے وہ روایات یہ ہیں:

i ۔ مرسلہ(۱) شعیب بن انس میں امام صادق (ع) نے حضرت ابو حنیفہ سے فرمایا:

''انت فقه اهل العراق ؟ قال : نعم قال ع : فبایی شیی تفتیهم ؟ قال : بکتاب الله و سنة نیسه قال ع یا ابا حنیفة تعرف کتاب الله حق معرفته ، و تعرف الناسخ من المنسوخ ؟ قال : نعم قال ع : یا ابا حنیفة لقد ادعیت علماً ویلک ماجعل الله ذلک الا عند اهل الکتاب الذین انزل علیهم ، وبلک ماهو الا عند الحاص من ذریة تبینا ص وما ورثک الله تعالیٰ من کتابه حرفاً ،،

''کیا تو اہل عراق کا فقیہ ہے ؟ حضرت ابو حنیفہ نے جواب دیا : جی ہاں ۔ آپ (ع) نےف رمایا : تو کس دلیل کی بنیادپر لوگوں میں فتویٰ دیتا ہے ؟ حضرت ابو حنیفہ نے کہا : کتاب خدااور سنت نبوی (ص) کی بنیاد پر فتویٰ دیتا ہوں ۔ آپ (ع) نے فرمایا : کیا تو کتاب خدا کو کماحقہ ، سمجھ سکتا ہے اورناسخ کو منسوح سے تمیز دے سکتا ہے ؟ حضرت ابو حنیفہ نے کہا : جی ہاں۔ آپ (ع) نے فرمایا : ابو حنیفہ : تو نے ایک بہت بڑے علم کا دعویٰ کیا ہے اتنا وسیع علم اللہ تعالیٰ نے صرف ان ہستیوں کو دیا ہے جن پر قرآن اتارا اور یہ علم صرف ہمارے نبی (ص) کی ذریت کے پاس ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنی کتاب کے پاس حرف تک کا وارث نہیں بنایا،،

۳۳۶

ii ۔ زید شحام کی روایت میں ہے قتادہ امام باقر (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ (ع) نے فرمایا:

''دخل قتادة علی ابیی جعفر ع فقال له : انت فقیه اهل البصرة ؟ فقال : هکذا یزعمون فقال ع بلغیی انک تفسر القرآن قال : نعم الی ان قال یا قتادة ان کنت فد فسرت القرآن من تلقساء نفسک فقد هلکت وهلکت ، وان کنت قد فسرته من الرجال فقد هلکت و اهلکت ، یا قتادة ویحک انما یعرف القرآن من خوطب به ،،

''فرمایا: میں نے سنا ہے تو قرآن کی تفسیر بیان کرتا ہے قتادہ نے کہا : جی ہاں ۔ سوال جواب ہوتے رہے حتی ٰ کہ آپ (ع) نے فرمایا: اے قتادہ اگر تو اپنی طرف سے قرآن کی تفسیر کرے گا تو خود بھی ہلاک ہو گا اور دوسروں کی ہلاکت کاباعث بھی بنے گا اور اگر لوگوں سے سنی سنائی تفسیر بیان کرے گا پھر بھی خود کو اور دوسروں کو ہلاک کرے گا اے قتادہ قرآن کو وہی ہستیاں سمجھ سکتی ہیں جن سے قرآن کے ذریعے خطاب کیا گیا ہے،،۔

جواب:

اس قسم کی روایات کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کو کماحقہ سمجھنا ، اس کے ظاہر و باطن کو درک کرنا اورناسخ و منسوخ کو تشخیص دینا ان ہستیوں سے مختص ہے جن سے قرآن کے ذریعے خطاب کیا گیا ہے چنانچہ پہلی روایات میں امام (ع) نے حضرت ابو حنیفہ سے کتاب خدا کی کماحقہ معرفت اور ناسخ کو منسوخ سے تمیز دینے کے بارے میں سوال کیا تھا اور آپ (ع) نے حضرت ابو حنیفہ کی سرزنش بھی اسی بات پر کی تھی کہ انہوں نے کتاب خدا کے کماحقہ ، علم کا دعویٰ کیا تھا۔

دوسری روایت بھی لفظ ''تفسیر،، پر مشتمل ہے جس کا معنیٰ کسی حقیقت پر سے پردہ اٹھاتا ہے بنا برایں یہ روایت ظواہر قرآن پر عمل کرنے کو شامل نہیں ہے۔ اس لئے کہ ظاہر پر تو کوئی پردہ نہیں ہوتا جسے اٹھانا پڑے اور تفسیر صادق آئے۔

۳۳۷

اس حقیقت پر وہ گزشتہ روایات بھی دلالت کرتی ہیں جن کے مطابق قرآن کا سمجھنا صرف معصومین (ع) سے مختص نہیں روایت مرسلہ کا جملہ''وما ورثک الله من کتابه حرفاً (یعنی) خدا نے تجھے اپنی کتاب کے ایک حرف تک کا وارث نہیں بنایا،، بھی اسی نکتے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (ص) کے جانشینوں کو کتاب کا وارث بنایا ہے اور انہیں اس کے ظاہر و باطن اور تاویل ، غرض پوری کتاب کا علم دیا ہے جو کسی اور کو نہیں ملا ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ ) ۳۵:۳۲

''پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے خاص ان کو قرآن کاوارث بنایا جنہیں (اہل سمجھ کر) منتخب کیا،،۔

معلوم ہوا قرآن کے حقائق اور واقعات کے صحیح عالم معصومین (ع) ہیں۔ روایت مرسلہ میں بھی حضرت ابو حنیفہ وغیرہ سےا یسے علم کی نفی کی گئی ہے ورنہ یہ بات نامعقول ہے کہ حضرت ابو حنیفہ کتاب خداسے کچھ بھی نہ جانتے ہوں۔ اس مضمون کی آیات اور روایات اور بھی ہیں جن میں کتاب خدا کے مکمل علم کو معصومین (ع) سے مختص کیا گیا ہے۔

۲۔ تفسیر بالرائے کی ممانعت

قرآنی الفاظ کے ظاہری معنی کو اپنانا اوراس پر عمل کرنا ایک قسم کی تفسیر بالرائے ہے جس کی فریقین کی متواتر روایات میں نہی کی گئی ہے۔

جواب:

اس سے قبل بیان ہو چکاہے کہ تفسیر کا معنی کسی پوشیدہ حقیقت سے پردہ اٹھانا ہے کسی قرآنی لفظ سے اس کے ظاہری معنی کو لے لینا تفسیر نہیں کہلائے گا کیونکہ یہ ظاہری معنی پوشیدہ اور مستور نہیں ہے کہ اس سے پردہ اٹھانا پڑے۔

۳۳۸

بفرض تسلیم اگر یہ تفسیر بھی کہلائے تو یہ تفسیر بالرائے نہیں ہو گی جس سے وہ روایات متواتر اس کو شامل ہو جائیں جن میں تفسیر بالرائے کی ممانعت کی گئی ہے ، بلکہ یہ تفسیر ایسی ہو گی جس کو عام لوگ کسی لفظ سے سمجھتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص عام فہم اور قرائن متصلہ و منفصلہ کے مطابق نہج البلاغۃ کے خطبات میں سے کسی خطبے کا ترجمہ کرے تو اس کوتفسیر بالرائے نہیں کہا جائے گا اس حقیقت کی طرف امام صادق (ع) نے بھی اشارہ فرمایا ہے۔

انما هلک الناس فیی المتشابه الانهم لم یقفوا علی معناه ، ولم یعرفوا حقیقته ، فوضعوا له تاویلا من عند انفسهم بآرائهم ، واستغنوا بذلک من مسالة الاوصیاء فیعرفونهم

''لوگ قرآن کی متشابہ آیات (جن کا معنی ظاہر نہ ہو) کی وجہ سے ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ وہ اس کے حقیقی معانی نہیں سمجھ سکتے اور اپنی رائے سے اس کی کوئی نہ کوئی تاویل و توجیہ کر لیتے ہیں جس کے بعد وہ اپنے کو اوصیاء سے بے نیاز سمجھتے ہیں اور متشابہ آیات کامطلب ان سے نہیں پوچھتے تاکہ وہ انہیں ان آیات کے صحیح معانی بتائیں،،

ممکن ہے ان روایات میں تفسیر بالرائے سے مراد یہ ہو کہ ائمہ (ع) کی طرف رجوع کئے بغیر ، جو قرآن کے ہم پلہ اور واجب الاطاعت ہیں ، مستقل طور پر اور اپنی رائے سے کوئی فتویٰ دیا جائے مثلاً اگر کوئی شخص قرآن میں موجود کسی عام یا مطلق پر فوراً عمل کرے اور روایات ائمہ سے مخصص اور مقید کو تلاش نہ کرے تو یہ تفسیر بالرائے ہو گی۔

خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کے کسی لفظ کے قرائن متصلہ اور منفصلہ کو کتاب و سنت میں تلاش کرنے اور دلیل عقلی ڈھڈنڈے کے بعد اس کے ظاہری معنی کو لے لینا تفسیر بالرائے تو کجا تفسیر بھی نہیں ہے اس کے علاوہ جہاں بعض روایات میں تفسیر بالرائے سے نہی کی گئی ہے وہاں کچھ ایسی روایات بھی ہیں جن میں قرآن کی طرف رجوع کرنے اور اس کے ظاہری معنی پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان دونوں قسم کی روایات پر عمل کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ تفسیر بالرائے سے مراد قرآن کے ظاہری معنی پر عمل نہ ہو بلکہ متشابہ اور غیر واضح آیات کی اپنی طرف سے تاویل کرنا مقصود ہو اس طرح دونوں قسم کی روایات پر عمل ہو جائے گا۔

۳۳۹

۳۔ معانی قرآن کی پیچیدگی

قرآن مجید انتہائی بلند معانی اور پیچیدہ مطالب پر مشتمل ہے جو انسان کی طاقت فہم سے بالاتر ہے اور قرآنی مقاصد کا احاطہ انسانی قدرت سے باہر ہے گزشتہ علمائے کرام کی کچھ کتابیں بھی ایسی ہیں جنہیں ہر خاص و عام نہیں سمجھ سکتا بلکہ صرف ارباب دانش اور نکتہ دان ہی سمجھ سکتے ہیں تو کتاب الٰہی کو ہر شخص کیسے سمجھ سکتا ہے (جس میں اولین و آخرین کے علوم جمع ہیں)۔

جواب

یہ مسلم ہے کہ قرآن میں ''مالکان،، اور ''مایکون،، کا علم موجود ہے اور اس وسیع علم کے مالک صرف اور صرف اہل بیت (علیہم السلام) ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ قرآن کے کچھ ظاہری معانی بھی ہیں جن کو لغت عرب اور اس کے اسلوب کا جاننے والا ہر شخص سمجھ سکتا ہے اور قرائن و مویدات کو تلاش کرنے کے بعد ان معانی پر عمل کر سکتا ہے۔

۴۔ خلاف ظاہر کا یقین

ہمیں اجمالاً علم ہے کہ بعض عمومات قرآن کی تخصیص اور مطلقات کی تقیید ہوئی ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ بعض ظواہر قرآن یقیناً مراد الٰہی نہیں ہیں اور یہ عمومات جن کی تخصیص ہوئی ہے وہ مطلقات جن کی تقیید ہوئی ہے اور ظواہر قرآن جو یقیناً مراد الٰہی نہیں ہیں ، مشخص و معین نہیں ہیں تاکہ صرف انہی عمومات اور مطلقات میں ظاہر پر عمل کرنے سے احتراز کیا جائے نتیجہ یہ نکلا کہ تمام عمومات ، مطلقات اور ظواہر قرآن اگرچہ بذات خود مجمل نہیں لیکن بعض عمومات کی تخصیص اور بعض مطلقات کی تقیید کی وجہ سے باقی عمومات ، مطلقات اور ظواہر قرآن بھی مجمل ہو جائیں گے اس لئے ان عمومات ، مطلقات اور ظواہر قرآن پر عمل کرنا جائز نہیں مبادا خلاف واقع معنی کاارادہ ہو جائے۔

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

ضمیمہ (۶) ص ۱۱۳

رسول (ص) اسلام کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش

اسی کتاب کے ص پر آیات کریمہ کی جو وضاحت ہم نے کی ہے اس کی تائیدان روایات سے بھی ہوتی ہے جو ان آیات کی شان نزول کے ضمن میں وارد ہوئی ہیں چنانچہ ان آیات کی شان نزول کے بارے میں ''تفسیر البرہان،، میں مرقوم ہے۔

''ایک دن رسول خدا (ص) خانہ کعبہ میں اپنے آس پاس بیٹھے کچھ صحابیوں کو کلام خدا اور اس کے اوامرو نواہی کی تعلیم دے رہے تھے اتنے میں قریش کے سرکردہ افراد کی ایک جماعت جس میں ولید بن مغیرہ مخزومی ، ابو البختری بن ہشام ، ابوجہل بن ہشام ، عاص بن وائل السہمی ، عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس قسم کے دیگر افراد شامل تھے وہاں آئی ۔ ان مشرکین نے آپس میں کہا : دینمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی ا ہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے آؤ ایک مرتبہ پھر اس کو سختی سے جھڑکیں ، اس کی سرزنش کریں اور دلائل سے اس کے لائے ہوئے پیغام کو باطل ثابت کریں تاکہ اپنے اصحاب کے سامنے اس کی اہمیت اور ہیبت ختم ہو جائے اور وہ ان کی نظروں سے گر جائے شاید اس طرح وہ اپنے مشن گمراہی ، باطل اور سرکشی سے باز آ جائے اگر زبانی سرزنش اور دلائل کے ذریعے باز آ جائے تو بہتر ورنہ شمشیر کے زور سے اسے بٹھا دیں گے۔

ابوجہل نے کہا : کون آگے بڑھ کرمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے گفتگو کرے گا؟

عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے کہا : میں اس سے گفتگو شروع کروں گا کیا تم مجھے اس سے مقابلہ اور مباحثہ کیلئے کافی نہیں سمجھتے ؟

۶۴۱

ابوجہل نے کہا : کیوں نہیں چنانچہ یہ سب کے سب آنحضرتؐ کی خدمت میں آئے اور عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی نے اپنے کلام کا آغاز کرتے ہوئے یوں کہا:

''آپ (ص) نے ایک بہت بڑا دعویٰ کر دیا اور بہت اونچی بات کہہ دی ہے آپ (ص) کا خیال ہے کہ آپ (ص) رب کائنات کے بھیجے ہوئے رسولؐ ہیں جبکہ رب اور خالق کائنات کیلئے ہرگز یہ مناسب نہیں کہ آپ (ص) جیسے انسان کو اپنا رسول بنا کر بھیجے جو ہماری مانند بشر ہے آپ ویسے ہی کھاتے پیتے ہیں جیسے ہم کھاتے پیتے ہیں آپ ویسے ہی بازاروں میں گھومتے پھرتے ہیں جیسے ہم چلتے ہیں روم اور فارس کے بادشاہ جب کسی ملک میں اپنا نمائندہ بھیجتے ہیں تو کسی مالدار ، باحیثیت آدمی کو بھیجتے ہیں جس کے عالی شان محل و عمارات اور کئی غلام و نوکر ہوں اور رب کائنات کا مقام تو ان بادشاہوں سے بہت بلند ہے بلکہ یہ اس کے بندے ہیں اگرخدا ہماری طرف اپنا کوئی نمائندہ بھیجنا چاہتا تو ہم میں سے ایسے آدمی کا انتخاب کرتا جو مال و دولت اور مقام و منزلت کے اعتبار سے سب سے بہتر اور نمایاں حیثیت کا مالک ہو بنا برایں یہی قرآن جس کے بارے میں آپ (ص) کا یہ خیال ہے کہ خدا نے اسے آپ (ص) پر نازل کیا اور اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے مکہ یا مدینہ کے کسی عظیم المرتبت آدمی پر اسے کیوں نازل نہیں کیا ؟ یہ اہل مکہ میں سے ولید بن مغیرہ پر نازل کیا ہوتا یا اہل مدینہ میں سے عروہ بن مسعود ثقفی پر نازل کرتا،،

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: عبداللہ ابھی تیرا کچھ کلام باقی ہے؟

عبداللہ نے کہا : ہاں ! ہم اس وقت تک آپ (ص) پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک اسی مکہ کی سرزمین پر آپ (ص) چشمہ نہ بہائیں کیونکہ مکہ اپک پتھریلہ اور پہاڑی علاقہ ہے ہمیں اس امر کی ضرورت ہے آپ (ص) اس کی کھدائی کریں اسے ہموار کریں اور اس میں چشمے بہا دیں یا آپ (ص) کے پاس کھجور اور انگور کے باغات ہوں جس سے آپ (ص) کھائیں اور ان باغات میں نہریں بہتی ہوں ، یا آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہمپر گرے جیسا کہ آپ (ص) کا خیال ہے کیونکہ آپ (ص) نے ہی تو ہمارے بارے میں کہا : ''اگر یہ لوگ آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرتے دیکھیں تو کہیں گے،، یہ تہہ بتہہ بادل ہیں،، اب ایسا کر کے دکھائیں شاید ہم یہی کہیں؟،،

۶۴۲

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : ہم اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لا سکتے جب تک خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کر حاضر نہ کریں یا پھرا س وقت ایمان لائیں گے جب آپ (ص) کے پاس سونے کا گھر ہو اور ہمیں اس میں سے حصہ دیں اور بے نیاز کر دیں شاید اس کے باوجود ہم بغاوت کر جائیں کیونکہ آپ (ص) نے ہی ہمارے بارے میں کہا ہے:

کلا ان الانسان لیطغی ان راه استغنی

''سن رکھو بیشک انسان جب اپنے کو غنی دیکھتا ہے تو سرکش ہو جاتا ہے،،۔

اس کے بعد عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: یا ہم اس صورت میں ایمان لائیں گے جب آپ (ص) آسمان کی طرف پرواز کریں اور آپ (ص) کے آسمان کی طرف پرواز کرنے پر بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کی طرف سے عبداللہ بن ابی امیہ مخزومی اور اس کے ساتھیوں پر ایک کتاب نازل نہ ہو جس میں یہ خطاب ہو کہ تم سب محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب پر ایمان لے آؤاس لئے کہیہ میرا بھیجا ہوا رسول ہے اس کی باتوں کی تصدیق کرو اس لئے کہ یہ جو کچھ کہتا ہے میری طرف سے کہتا ہے،،

اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ! ان سب مطالبات کے پورے ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں میں آپ (ص) پر ایمان لاؤں یا نہ لاؤں اگر آپ ؐ ہمیں اٹھا کر آسمان کی طرف لے جائیں اور اس کے دروازے ہمارے آگے کھول دیں اور ہم ان دروازوں میں داخل ہو جائیں پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ ہماری آنکھیں مسحور کی گئی ہیں اور ہم پر جادو کیا گیا ہے۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پالنے و الے ! تو ہر آواز کوسننے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے اپنے بندوں کی باتوں کوتوبہتر جانتا ہے۔

اے عبداللہ بن ابی امیہ ! تیرا یہ کہنا کہ روم اور فارس کے بادشاہ ہمیشہ کسی مالدار آدمی کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتے ہیں تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا خود تدبیر فرماتا اور فیصلہ کرتا ہے اس کے افعال ، تیرے خیالات اور تجاویز کے مطابق انجام نہیں پاتے بلکہ خدا خود جو چاہے کرتا ہے اور جیسا اس کا ارادہ ہو حکم فرماتا ہے۔

۶۴۳

اگر نبی محلوںکا مالک ہوتا اور ان میں جا کر غائب ہو جاتا یا اس کی خدمت کیلئے غلام اور نوکر ہوتے جو اس کو لوگوں کی نظروں سے چھپائے رکھتے ، تو کیا رسالت ضائع اور احکام خدا معطل نہ ہو جاتے؟

(میرے بارے میں ) تیرایہ کہنا کہ اگر تو نبی ہوتاتو تیرے ساتھ ہمہ وقت ایک فرشتہ ہوتا جو تیری تصدیق کرتا اور اسے ہم بھی دیکھ سکتے تو تجھے معلوم ہونا چاہئے کہ تیرے حواس فرشتے کو درک نہیں کر سکتے کیونکہ فرشتہ ہوا کی مانند ہے جس کا مشاہدہ نہیں ہو سکتا اگر تم فرشتے کا مشاہدہ کر سکتے بایں معنی کہ تمہاری حس باصرہ کو غیر معمولی طاقت دے دی جاتی ، تو تم کہتے یہ کوئی فرشتہ نہیں بلکہ یہ تو ایک بشر ہے اس لئے کہ اگر فرشتہ ظاہر ہوتا تو لامحالہ کسی انسانی صورت میں ہی ظاہر ہوتا جس سے تم مانوس ہوتے تاکہ تم اس کی بات کو سمجھ سکو۔

تمہارا یہ کہنا کہ میں جادو گر ہوں بھلا میں جادو گر کیسے ہو سکتا ہوں جبکہ تم بخوبی جانتے ہو کہ عقل و فہم اور خیر و شر کو تمیز دینے میں ، میں تم سے بالاتر ہوں میری پیدائش سے آج تک چالیس سال کے عرصے میں تم نے مجھ سے کوئی جرم، جھوٹ ، بدزبانی سرزد ہوتے ہوئے دیکھی ہے ؟ یا کسی غلط بات اور کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے دیکھا ہے ؟ تمہارا کیا خیال ہے کیا ایک شخص اتنے طویل عرصے تک اپنی قوت اور بل بوتے پر ہر قسم کی غلطی سے محفوظ رہ سکتا ہے ؟ یا اس عرصے میں خدا کی تائید اور توفیق شامل حال رہی ہو گی؟

تمہارا یہ کہنا کہ خدا نے مکہ یا مدینہ کے کسی مالدار اور نامور آدمی پر قرآن کیوں نازل نہیں کیا ؟ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کی نظر میں مال دنیا کی وہ عظمت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے اور اس کی نظر میں مال دنیا کی وہ اہمیت اور وقعت نہیں جو تمہاری نگاہ میں ہے خدا کسی سے اس کے مال و دولت اور حیثیت و مقام کی وجہ سے نہیں ڈرتا جس طرح تو ڈرتا ہے۔

تیرا یہ کہنا کہ جب تک زمین سے چشمے نہ پھوٹیں ہم ہرگز ایمان نہیں لائیں گے وغیرہ تم نے اپنے اس کلام میں رسول خدا محمد (ص) کے سامنے کئی تجاویز پیش کی ہیں ان میں سے بعض تجاویز ایسی ہیں کہ اگر محمدؐ ان تجاویز پر عمل بھی کرے تب بھی وہ نبوت کی دلیل نہیں بن سکتیں رسول (ص) کی شان اس سے بالاتر ہے کہ وہ جاہلوں کی نادانی کو غنیمت سمجھے اور ان کے سامنے ایسے دلائل پیش کرے جو درحقیقت حجت و دلیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

۶۴۴

تیری کچھ تجاویز ایسی ہیں کہ اگر ان پر عمل ہو جائے تو یہ تیری ہلاکت کا باعث بنیں گی نبوت کے دلائل تو اس لئے پیش کئے جاتے ہیں کہ خدا کے بندے ایمان لے آئیں اور ہلاکت سے محفوظ رہیں پس تو نے اپنی ہلاکت کی تجویز پیش کی ہے خدا کی ذات سب سے زیادہ اپنے بندوں پر رحم کرنے والی ہے لوگوں کی مصلحتوں کو ان سے بہتر سمجھتی ہے۔ اور ان کی تجاویز پر عمل کر کے انہیں ہلاک نہیں کرتی۔

تیری بعض تجاویز ایسی ہیں جو بذات خود ناممکن ہیں اور صحیح و جائز نہیں ہیں اور کچھ تجاویز ایسی ہیں جو تیرے اعتراف کے مطابق تیری ضد ، ہٹ دھرمی اور سرکشی پر مبنی ہیں تو کسی دلیل کوتسلیم کرتا ہے اور نہ اسے سننے کیلئے تیار ہے۔

تیرا یہ مطالبہ کہ اگر اس سرزمین پر چشمے بہا کر دکھاؤں تب ایمان لاؤ گے تو نے یہ مطالبہ اس لئے کیا ہے کہ تو الٰہی دلائل سے جاہل ہے تیرا کیا خیال ہے اگر میں تیرا مطالبہ پورا کر دوں اور زمین پر چشمے بہا کر دکھا دوں تو کیا اسی دلیل سے میری نبوت ثابت ہو گی ؟ تیرا یہ مطالبہ اورتجویز ایسی ہے جیسا تو کہے ہم تو تب ایمان لائیں گے جب آپ اپنی جگہ سے اٹھیں اور چل کر دکھائیں کیا تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے پاس طائف میں کھجور اور انگور کے باغات نہیں ہیں جن سے تم کھاتے رہتے ہو اور ان کے درمیان سے نہریں نہیں بہتیں ؟ کیا ان باغات اور نہروں کی وجہ سے تم نبی بن گئے ہو؟

تیرا یہ کہنا کہ آسمان ریزہ ریزہ ہو کر ہمارے اوپر گرے جیسا کہ تیرا گمان ہے۔

آسمان کا ریزہ ریزہ ہو کر گرنا تمہاری موت اور ہلاکت کے مترادف ہے گویا اس طرح تم رسول خدا (ص) سے اپنی ہلاکت کا مطالبہ کر رہے ہیں رسول خدا (ص) کا رحم و کرم اس سے بالاتر ہے کہ وہ تمہیں ہلاک کر دے۔

ہاں ! وہ تمہارے سامنے الٰہی دلائل پیش کرے گا۔

۶۴۵

وہ الٰہی دلائل اور حجتیں جو اللہ اپنے نبی کو دیکر بھیجتا ہے وہ بندوں کے مشوروں اور تجاویز کے مطابق نہیں ہوا کرتیں اس لئے کہ لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ کس امر میں ان کا مفاد اور مصلحت ہے جو جائز ہو اور کس میں مفسدہ اور نقصان ہے جو جائز نہ ہو کیا تم نے کسی ڈاکٹر کو دیکھا ہے جو اپنے مریض کے مشورے کے مطابق اس کیلئے نسخہ اور دوائی تجویز کرے ؟ یا تم نے کسی ایسے حاکم کو دیکھا ہے جو حق کے دعوے دار کو مدعی علیہ کی مرضی کے مطابق گواہ پیش کرنے کا حکم دے؟

تیرا یہ کہنا کہ ہم تب ایمان لائیں گے جب تو خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر کرے جن کا ہم مشاہدہ کر سکیں یہ وہ مطالبہ ہے جس کا محال اور ناممکن ہونا کسی سے پوشیدہ نہیں اس لئے ہمارا رب اور خالق عام مخلوق کی مانند نہیں جو کسی کے سامنے آتا اور حرکت کرتا ہو ، تاکہ اس کو تمہارے سامنے لایا جائے پس تم نے اس مطالبہ میں ایک ناممکن ا مر کی تجویز پیش کی ہے۔

اے عبداللہ ! تیرا یہ کہنا کہ ہم تو تب ایمان لائیں گے جب تیرے پاس سونے کا مکان ہو یہ بتاؤ تم نے سنا ہے کہ شاہ مصر کے پاس سونے کے کئی گھر ہیں ؟ عبداللہ نے کہا : جی سنا ہے آپ (ص) نے فرمایا کیا بادشاہ مصران مکانات کی وجہ سے نبی بن گیا ہے ؟ عبداللہ نے کہا : نہیں ۔ آپ (ص) نے فرمایا جس طرح بادشاہ مصر کے سونے کے مکانات سے وہ نبی نہیں بن جاتا اگر میرے پاس بھی سونے کے مکانات ہوتے تو ان سے میری نبوت ثابت نہ ہوتی البتہ محمد (ص) تمہاری حالت اور نادانی کو غنیمت سمجھ کر اس قسم کی چیزوں کو حجت خدا کے طور پر پیش نہیں کرتا تیرا یہ کہنا کہ ہم اس وقت ایمان لائیں گے جب تم آسمان کی طرف پرواز کرو اور پھرتو یہ کہتاہ ے کہ تیرے آسمان کی طرف بلند ہونے کے بعد بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم پر کوئی کتاب نازل نہ ہو جس کو ہم خود پڑھیں۔

۶۴۶

اے عبداللہ ! تمہیں معلوم ہے کہ آسمان کی طرف پرواز کرنا آسمان سے اترنے سے زیادہ مشکل ہے تو ایک مرتبہ اعتراف کر چکا ہے کہ میرے آسمان کی طرف پرواز کرنے کے باوجود بھی تم ایمان نہیں لاؤ گے تو میرے آسمان سے قرآن لے کر اترنے پر کب ایمان لاؤ گے ؟ تو نے اپنے کلام میں یہ بھی کہا ہے کہ ہم پر قرآن نازل ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں ہم ایمان لائیں نہ لائیں۔

یہ تیری طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ تو حجت خدا کے مقابلے میں عناد اور ضد رکھتا ہے تمہارے ان مطالبوں کا جواب خالق کا وہ جامع کلام ہے جو اس نے نازل فرمایا ہے اور اسی سے تمہاری تمام تجاویز باطل ہو جاتی ہیں خالق فرماتا ہے : اےمحمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کہہ دو ! میرا رب پاک و پاکیزہ ہے میں ایک انسان ہوں جس کو رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بنا کر بھیجا گیا ہے مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ خدا کو کوئی حکم دوں ، اس کو کسی کام سے روکوں یا کسی امر کا مشورہ دوں،،

یہ حدیث شریف بہت سارے فوائد پر مشتمل ہے محققین کو اس حدیث کی طرف رجوع کرنا چاہئے ان آیات کی شان نزول کے بارے میں اور بھی بہت سی روایات موجود ہیں جن کو طبری نے ان آیات کی تفسیر کے موقع پر ذکر کیا ہے۔

۶۴۷

ضمیمہ (۷) ص ۳۱۵

صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

یہ حدیث یوں مروی ہے:

عبداللہ بن مسعود کہتا ہے:

''کنا نغزو مع رسول الله ص و لیس معنا نسآء فقلنا : الا نستخصی فنهانا عن ذلک ، ثم رخص لنا ان ننکح المراة بالتوب الی اجل ، ثم قراء عبدالله :( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۵:۸۷

''ہم دوران جنگ رسول خدا (ص) کے ہمراہ تھے اور ہماری بیویاں ہمارے پاس نہیں تھیں ہم نے رسول خدا (ص) سے پوچھا : کیا ہم اپنے آپ کو نامرد بنا دیں آپ (ص) نے ہمیں اس عمل سے منع فرمایا اور اس امر کی اجازت دی کہ ایک مقررہ وقت تک کیلئے ایک کپڑے کے عوض عورتوںسے نکاح کر لیں اس کے بعد عبداللہ بن مسعود نے اس آیہ کریمہ کی تلاوت کی:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) (۵:۸۷)

''اے ایماندرو ! جو پاک چیزیں خدا نے تمہارے واسطے حلال کر دی ہیں ان کو اپنے اوپر حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کیونکہ خدا حد سے بڑھ جانے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا،،

محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی ایک جماعت نے اس نص ، حدیث اور عبارت کو بخاری سے نقل کیا ہے لیکن آج کل کی رائج الوقت صحیح بخاری کے ج ۶ ص ۵۳ پر جو حدیث موجود ہے وہ دو اعتبار سے اصلی صحیح بخاری کی عبارت سے مختلف ہے:

۱۔ موجودہ صحیح بخاری میں سند حدیث سے لفظ عبداللہ بن مسعود کو نکال لیا گیا ہے جبکہ اکثر محدثین نے عبداللہ بن مسعود کا ذکر کیا ہے عبداللہ بن مسعود کے نام کو اس لئے نکال لیا گیا ہے تاکہ عبداللہ بن مسعود کا نام اس بات کا قرینہ اور شاہد نہ بن سکتے کہ اس روایت کا مقصد نکاح متعہ کو جائز قرار دینا ہے ، اس لئے کہ عبداللہ بن مسعود نکاح متعہ کو جائز سمجھتے تھے۔

۶۴۸

۲۔ موجودہ صحیح بخاری میں روایت کے آخری سے لفظ ''الی اجل،، (معین مدت تک) کو بھی نکال دیا گیا ہے کیونکہ ''الی اجل،، کا لفظ اس امر کی تصریح ہے کہ آنحضرت ؐ نے نکاح متعہ کی اجازت دے دی ہے چنانچہ شارحین نے بھی یہی سمجھا اور ایسی ہی اس کی تفسیر کی ہے کیونکہ اس قسم کے مقامات پر نکاح کی اجازت لازمی طور پر نکاح متعہ ہی کی اجازت ہوا کرتی ہے صرف دائمی نکاح کی نہیں اور یہ کہ ''لیس معنانسآ،، یعنی مجاہدین کے پاس عورتوں کے نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اپنی بیویاں ان کے ساتھ نہیں تھیں ایسا نہیں ہے کہ عام عورتیں وہاں نہیں تھیں ورنہ نکاح کی اجازت دینا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اس معنی کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ بعض روایات میں ''لیس معنا،، کی جگہ ''لیس لنانساء ،، موجود ہے یعنی ہماری اپنی عورتیں نہیں ہیں۔

چونکہ یہ روایت نکاح متعہ کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے اس لئے کئی فقہاء کا دعویٰ ہے کہ بعض دوسری روایات میں نکاح متعہ کو حرام قرار دیا گیا ہے جس سے اس روایت میں موجود حکم (جواز متعہ) نسخ ہو جاتا ہے لیکناس بات سے بھی ان کا مدعیٰ ثابت نہیں ہوتا جس کی تفصیل آیہ متعہ سے متعلق روایات پر تبصرہ کے دوران ہم نے بیان کر دی ہے تحریف کے مجرم ہاتھوں سے یہ روایت بھی محفوظ نہیں رہ سکی اور اس کو اپنی صحیح اورا صلی صورت پر نہیں رہنے دیا گیا ہم ذیل میں ان محدثین ، مفسرین اور فقہاء کی فہرست ذکر کر رہے ہیں جنہوں نے صحیح بخاری سے صحیح حدیث نقل کی ہے۔

(۱) بیھقی : سنن بیھقی جز ۷ ص ۲۰۰ طبع حیدر آباد

(ب) سیوطی : تفسیر سیوطی = ۲ = ۲۰۷ = المیمنیتہ مصر

(ج) زیلعی : نصب الرایہ = ۳ = ۱۸۰ = دارالتالیف مصر

(د) ابن تیمیہ : المنتقی ٰ جزء ۲ ص ۵۱۷ طبع حجازی

(ھ) ابن القیم : زادالمعاد = ۴ = ۸ محمد علی صبیح

(و) قنوچی : روضتہ الندیہ ۲ = ۱۶ = المنیریہ

(ز) محمد بن سلیمان : جمع الفوائد = ۱ = ۵۸۹ = دارالتالیف

۶۴۹

اس روایت کے کچھ اور مصادر اور حوالے بھی ہیں جو ذیل میں دیئے جا رہے ہیں

(ح) مسند احمد : جزء ۱ ص ۴۲۰ طبع مصر ۱۳۱۳

(ط) تفسیر قرطبی : = ۵ = ۱۳۰ = = ۱۳۵۶

(ی) تفسیر ابن کثیر : = ۲ = ۱۸۷ = = علی البابی

(ل) الاعتبار للحازمی : = = ۱۷۶ حیدر آباد

یہ حدیث صحیح ابی حاتم اور اس قسم کے اہم مصادر میں بھی موجود ہیں۔

ضمیمہ (۸) ص ۳۲۸

محمد عبدہ اور تین طلاقیں

محمد عبدہ پہلے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ اگر ایک نشست میں تین طلاقیں جاری کر دی جائیں تو وہ ایک طلاق شمار ہوں گی۔

اس کے بعد فرماتے ہیں:

''ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم ان مقلدین سے بحث اور مناظرہ کریں یا ان قاضیوں اور مفتیوں سے ان کے مذاہب چھڑا دیں جو تین طلاقوں کے قائل ہیں ان میں سے اکثر حضرت ایک طلاق پر دلالت کرنے والی روایات سے آگاہ ہیں جو کتب حدیث وغیرہ میں موجود ہیں البتہ یہ لوگ ان روایات کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لئے کہ یہ لوگ اپنی کتابوں میں موجود اقوال پر زیادہ عمل کرتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نہیں(۱)

کاش محمد عبدہ متعہ کی بحث میں بھی یہی بات کرتے۔ اس لئے کہ جیسا کہ آپ نے دیکھا نکاح متعہ شریعت اسلام میں

____________________

(۱) تفسیر المنار ، جزء ۱ ، ص ۳۸۶

۶۵۰

ثابت ہے اس کے بعد اسے نسخ بھی نہیں کیا گیا جو لوگ نکاح متعہ کو حرام سمجتھے ہیں ان کی واحد دلیل ان کی کتابوں میں موجود اقوال ہی بن سکتے ہیں کتاب خدا اور سنت رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بن سکتیں۔

ضمیمہ (۹) ص ۳۸۳

شیعوں پر رازی کا افترائ

من جملہ ان لوگوں میں جنہیں تحقیق و تدقین کی توفیق نہیں ، فخر رازی ہے جو آیئہ کریمہ ''یمحوا اللہ مایشآء ویثبت،، کی تفسیر میں کہتا ہے :

''رافضی (شیعہ) کہتے ہیں خدا کے حق میں بداء جائز ہے اوربداء یہ ہے کہ خدا کو کسی چیز کا یقین حاصل ہو اس کے بعد اس پر انکشاف ہو کہ حقیقت اور واقع ایسا نہیں جس کا اسے یقین تھا،،۔

خالق ! تو جانتا ہے کہ یہ محض تہمت ہے رازی نے اپنی کتاب ''محصل،، کے خاتمہ میں ''سلیمان بن جریر،، سے ایک کلام نقل کیا ہے جس کا ذکر قبیح ہے اور مجھے بھی زیب نہیں دیتا کہ اس کتاب میں اس کلام کو ذکر کروں رازی نے یہ جملہ اسی جیسے ایک دوسرے ننگین جملے کے بعد ذکر کیا ہے جوبعض نصاریٰ رسول خدا (ص) کے بارے میں کہتے تھے جب آنحضرت (ص) ایسے احکام لے کر آئے جو گزشتہ شریعتوں کے لئے ناسخ قرار پائے''کبرت کلمته تخرج من ا فواههم وسیعلم الذین ظلموا ایی منقلب ینقلبون،،

۶۵۱

ضمیمہ (۱۰) ص ۳۹۴

احادیث اور مشیّت الٰہی

شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی دونوں کتابوں ''توحید،، اور ''معانی الاخبار،، میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت بیان کی ہے ، امام علیہ السلام نے آیہ شریفہ : ''وقالت الیھود یداللہ مغلولۃ ،، کے بارے میں فرمایا:

''لیکن یہود کہا کرتے تھے خدا خلقت و آفرنیش کے ہر کام سے فارغ ہو گیا ہے خدا نہ تو کسی چیز کو بڑھاتا ہے اور نہ گھٹاتا ہے،،

خدا نے ان لوگوں کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا:

( غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ ) ۵:۶۴

''انہیں کے ہاتھ باندھ دیئے جائیں اور ان کے (اس) کہنے پر (خدا کی ) پھٹکار (بر سے خدا کا ہاتھ بندھنے کیوں لگا) بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے،،

کیا تم نے خدا کا یہ قول نہیں سنا۔

( يَمْحُو اللَّـهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ) ۱۳:۳۹

''(پھر اس میں سے) خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جس کو چاہتا ہے) باقی رکھتا ہے اور اس کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) موجود ہے،،

عیاشی نے یعقوب بن شعیب اور عماد کے ذریعے حضرت ابو عبداللہ (علیہ السلام) سے بھی اسی مضمون کی روایت بیان کی ہے اس قسم کی روایات کو مجلسی نے بحار کی جلد ۲ ، ص ۱۳۱۔۱۴۲ پر ذکر کیا ہے۔

۶۵۲

ضمیمہ (۱۱) ص ۳۹۱

دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

سلمان کی روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''قضاء الٰہی کو دعا ہی تبدیل کرس کتی ہے اور عمر میں اضافہ نیکی ہی کر سکتی ہے،،(۱)

تو بان کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''عمر کو نیکی ہی بڑھا سکتی ہے انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم ہو جاتا ہے(۲)

ضمیمہ (۱۲) ص ۲۳۵

آیہ بسم اللہ کی اہمیت

اس کتاب کے صفحہ ۴۳۳ پر اعراب کی بحث میں یہ وضاحت کی جا چکی ہے کہ ''بسم اللہ،، میں اسم کی اضافت اللہ کی طرف اضافہ معنویہ ہے

____________________

(۱) ترمذی ، باب ماجاء لایرد القدر الالدعا ، ج ۸ ، ص ۳۵۰

(۲) ابن ماجہ ، باب القدر ، ج ۱ ، ص ۲۴ ، حاکم نے مستدرک میں روایت کی ہےاور ذہبی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ، ج ۱ ، ص ۴۹۳ ۔ احمد نے اپنی مسند میں روایت کی ہے، ج ۵ ، ص ۲۷۷ ، ۲۸۰ ، ۲۸۲ ، اس مضمون کی روایت زیادہ ہیں جو متعلقہ کتب میں مل سکتی ہیں۔

۶۵۳

اوریہ کہ لفظ ''اللہ،، اپنے حقیقی معنی(۱) میں استعمال ہوا ہے ۔ بنا برایں لفظ اسم اپنے اس جامع معنی میں استعمال ہوا ہے جو تمام اسمائے الٰہی پر صادق آنے کے قابل ہے گویا مفہوم کاذکر کر کے اس کے ذریعے اس کے مصداق کی طر فاشارہ کیا گیا ہے چونکہ اسم اعظم اسم الٰہی کا اشرف مصداق ہے اس لئے لامحالہ اسم اعظم مفہوم اسم کے مصداق بننے کا سب سے زیادہ استحقاق رکھتا ہو گا اوراسی سے اس روایت کا معنی بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بسم اللہ اسم اعظم کے اس سے بھی زیادہ نزدیک ہے جتنی آنکھکی سفیدی آنکھ کی سیاہی کے نزدیک ہے کیونکہ بسم اللہ اور اسم اعظم کے درمیان قرب ذاتی ہے اس لئے کہ مفہوم اور مصداق خارج میں ایک ہوا کرتے ہیں اور سفیدی چشم کاقرب سیاہی چشم کیلئے مکانی اور ان دونوں میں اتحاد وضعی ہے۔

ضمیمہ (۱۳) ص ۴۳۶

آغاز آفرنیش

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

خدا نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق فرمایا(۲)

محمد بن مسلم سنان کی روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں امام جواد (علیہ السلام) کی خدمت میں بیٹھا تھا ، آپ (ع) نے فرمایا:

''اے محمد ! خدا ہمیشہ اپنی وحدانیت میں منفرد اور یگانہ رہا ہے اس کے بعد خداوند عالم نے محمد ، علی اور فاطمہ (علیہم السلام) کو خلق فرمایا اس کے بعد یہ حضرات ہزار برس عالم نور میں رہے(۳)

____________________

(۱) وہ ذات جو تمام صفات کمال کی جامع ہو (مترجم)

(۲) البحار ، باب حقیقتہ العقل و کیفیتہ و بدء خلقہ ، ج ۱ ، ص ۳۳

(۳) اصول کافی ، باب تاریخ مولد النبی (ص) ، ص ۲۳۹ ، الوافی باب بداخلق المعصومین ، ج ۲ ، ص ۱۵۵

۶۵۴

ضمیمہ (۱۴) ص ۴۴۶

بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

بیہقی نے اپنی سند سے ام سلمہ سے روایت کی ہے:

''رسول خدا (ص) نے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کو پڑھا اور اسے جزء قرآن قرار دیا،،

یہ روایت حاکم نے مستدرک کی ج ۱ ص ۲۳۲ پر بیان کی ہے اور کہا ہے کہ یہ روایت مسلم اور بخاری کی شرائط پر پوری اترتی ہے اور صحیح ہے نیز عبد خیر سے روایت ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام سے پوچھا گیا سبع مثانی کون سا سورہ ہے ، آپ (ص) نے فرمایا : سورۃ الحمد۔

راوی نے پوچھا: الحمد کی آیات توچھ ہیں آپ (ع) نے فرمایا : بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی سورہ الحمد کا جزء ہے اس روایت کو ابوہریرہ نے بھی بیان کیا ہے۔

رسول خدا (ص) سے ابوہریرہ روایت نقل کرتا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

''سورۃ الحمد سات آیات پر مشتمل ہے ان میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی شامل ہے،،

ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورہ فاتحہ کا آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے فرماتے تھے یہ روایت ترمذی نے ج ۲ ، ص ۴۴ پر نقل کی ہے۔

ابن عمر سے منقول ہے کہ وہ نماز کی ابتداء تکبیرۃ الاحرام سے کرتے تھے اس کے بعد بسم اللہ الرحم الرحیم پڑھتے تھے اور جب سورۃ الحمد سے فارغ ہوتے دوبارہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے اور کہا کرتے تھے ''اگر بسم اللہ کا پڑھنا ضروری نہیں تو پھر قرآن میں اسے کیوں لکھا گیا ہے،،

۶۵۵

ان کے علاوہ بھی اس مضمون کی کئی روایات موجود ہیں سنن بیہقی ج ۲ ص ۴۳ ، ۴۷ کی طرف رجوع کریں ، کنز العمال ، ج ۲ ، ص ۱۹۰ فضائل السورہ والآیات نیز باب البسملہ آیہ ، ص ۳۷۵ میں ثعلبی نے علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ جب آپ (ص) نماز میں کسی سورے کو پڑھتے تھے تو شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور فرماتے تھے جو شخص بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ترک کر دے اس نے سورہ کو ناقص پڑھا ہے نیز آپ (ص) فرماتے تھے بسم اللہ الرحمن الرحیم سبع مثانی کا حصہ ہے۔

ضمیمہ (۱۵) ص ۴۴۶

معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

بیہقی نے ج ۲ ، ص ۴۹ پر اپنی سند سے انس بن مالک سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ معاویہ نے مدینہ میں نماز پڑھی اس نے نماز میں سورہ فاتحہ بلند آواز میں پڑھا البتہ اس نے سورہ حمد سے پہلے تو بسم اللہ کو پڑھا مگر حمد کے بعد پڑھے جانے والے سورہ سے پہلے بسم اللہ نہیں پڑھی یہاں تک کہ اس کی قرات مکمل ہو گئی ، اس کے بعد تکبیر بھی نہیں پڑھی اور رکوع میں چلا گیا اور اس طرح اپنی نماز مکمل کی جب معاویہ سلام پھیر چکا تو نماز میں موجود مہاجرین ہر طرف سے بول اٹھے معاویہ ! تم نے نماز میں چوری کر لی یا بھول گئے ہو ؟ اس واقعہ کے بعد جب بھی معاویہ نماز پڑھتا تو سورہ الحمد کے بعد والے سورہ سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھتااور سجدے میں جانے سے قبل تکبیر بھی پڑھتا تھا،،۔

۶۵۶

اسی روایت کو بیہقی نے ایک اور سند سے بھی بیان کیا ہے البتہ اس روایت کا مضمون یہ ہے کہ معاویہ نے سورۃ الحمد سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اور اس کے بعد دوسرے سورے سے پہلے بھی بسم اللہ نہیں پڑھی اس کے علاوہ اس روایت میں اعتراض کرنے والوں میں مہاجرین کے علاوہ انصار کابھی ذکر ہے اس روایت کو حاکم نے مستدرک کی جلد۱ ص ۲۳۳ میں ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے اور مسلم کی شرائط پر پوری اترتی ہے۔

ضمیمہ (۱۶) ص ۴۴۶

رسول (ص) خدا کا بسم اللہ کو پڑھنا اور روایت انس کی توجیہ

قرات بسم اللہ کی ایک روایت اسی کتاب کے ص پر گزر چکی ہے قتادہ نے انس سے روایت کی ہے ''رسول خدا (ص) سورہ حمد کی تلاوت مد کیساتھ کرتے تھے اس کے بعد انس نے بسم اللہ الرحمن الرحیم کی تلاوت کی اور بسم اللہ ، الرحمن اور الرحیم کو مد کے ساتھ پڑھا ،،(۱)

شریک بن انس کی روایت ہے:

''میں نے رسول خدا (ص) کو بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے سنا،،

____________________

(۱) سنن بیہقی ، باب افتتاح القراء ۃ فی الصلوٰۃ : ببسم اللہ الرحمن الرحیم ، ج ۲ ، ص ۴۶ ۔ مستدرک حدیث الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۲۳۳

۶۵۷

حاکم کہتے ہیں : اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

عسقلانی کی روایت ہے:

''میں نے بہت دفعہ معتمربن سلیمان کی اقتداء میں نماز صبح اور نماز مغرب پڑھی معتمر سورہ فاتحہ سے پہلے اور اس کے بعد بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے تھے ۔ میں (عسقلانی) نے معتمر کو یہ کہتے سنا ہے : میں نماز میں ہمیشہ اپنے والد کی اقدا کرتا ہوں اور میرے والد کہتے تھے : میں نماز میں ہمیشہ انس بن مالک کی اقتدا کرتا ہوں اورانس کہتے تھے : میں نماز میں رسول خدا (ص) کی اقدا کرتا ہوں،،

(یہ سب نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ الرحمنالرحیم پڑھتے تھے)

حاکم کہتے ہیں اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں(۱)

ابو نعامہ انس سے روایت کرتے ہیں:

''رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے نہیں پڑھتے تھے ،،(۲)

مولف : ممکن ہے انس کی گزشتہ روایت (جس سے بسم اللہ کے جزء قرآن نہ ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے) سے مراد یہ ہو کہ رسول خدا (ص) اور آپ کے بعد دوسرے خلفاء نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ (ص) نے بسم اللہ کو سرے سے نہیں پڑھا) اس مطلب کا قرینہ اور شاہد انس کی مذکورہ بالا روایت ہے (جس میں اس امر کی تصریح ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے بسم اللہ کو بلند آواز سے نہیں پڑھا) اس مطلب کی تائید گزشتہ روایت میں انس کی اس تعبیر سے بھی ہوتی ہے کہ ''میں نے قرات نہیں سنی،، بلکہ انس کی بعض روایات میں تو یہ جملہ موجود ہے کہ ''میں نے ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھتے نہیں سنا،، بعض روایات میں یہ جملہ موجود ہے۔

____________________

(۱) مستدرک ، ج ۱ ، ص ۲۳۳ ۔۲۳۴

(۲) سنن بیہقی ، باب من قال لایجہر بہا ، ج ۲ ، ص ۵۲

۶۵۸

''رسول خدا (ص) نے ہمیں نماز پڑھائی مگر ہمیں بسم اللہ کی قراً سنائی نہیں دی(۱)

بنا برایں انس کی گزشتہ روایت اور ان روایات کے درمیان کوئی منافات نہیں پائی جاتی جن کے مطابق رسول خدا (ص) کے بعد دوسرے اصحاب بسم اللہ پڑھتے تھے۔

ہاں ! ایک روایت یہ کہتی ہے کہ رسول خدا (ص) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر قرات کے اول اور آخر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے(۲)

لیکن اس روایت کے راویوں میں ولید بن مسلم قرشی شامل ہے جس کا ثقہ ہونا مخدوش ہے بلکہ بہت سوں نے تو تصریح کی ہے کہ یہ شخص بہت زیادہ خطا کاراور جعلساز تھا(۳)

جہاں تک قتادہ کی اس روایت کا تعلق ہے جو انس سے مروی ہے جس کے مطابق رسول خدا (ص) ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان قرات کی ابتداء الحمد اللہ رب العالمین سے کرتے تھے(۴)

تقریباً اسی روایت کی ہم مضمون وہ روایت ہے جس کو نسائی نے باب البداء بفاتحتہ الکتاب ، ج ۱ ، ص ۱۴۳ میں ذکر کیا ہے قتادہ کس اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے بعد دوسرے خلفاء ، سورہ فاتحہ سے ابتداء کرتے تھے (روایت کا مطلب یہ نہیں کہ یہ حضرات سورہ فاتحہ کی ابتداء آیتہ الحمد للہ سے کرتے تھے ) اور سورۃ فاتحتہ التکاب پر الحمدللہ رب العالمین کا اطلاق ہوتا رہتا ہے چنانچہ بعض گزشتہ روایات میں بھی سورہ فاتحہ کو الحمدللہ رب العالمین کہا گیا ہے۔

شافعی نے بھی اس روایت کو اسی معنی پر محمول کیا ہے۔

____________________

(۱) ایضاً باب ترک الجہر ببسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۴۴

(۲) صحیح مسلم ، باب حجتہ من قال لایجہربابسملہ ، ج ۲ ، ص ۱۲

(۳) تہذیب التہذیب ملا خطہ فرمائیں۔

(۴) ترمذی باب ماجاء فی افتتاح القرات بالحمد ، ج ۲ ، ص ۴۵ ۔ سنن ابی داؤد ، باب الجہر بسم اللہ ، ج ۱ ، ص ۱۲۵

۶۵۹

ضمیمہ (۱۷) ص ۴۷۵

ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

اس موضوع کی روایات اتنی زیادہ ہیں کہ انہیں ذکر کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی البتہ ہم صرف احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ ہی کی وہ روایت ذکر کرتے ہیں کہ جو اس کی کتاب ''المنتقی ٰ من اخبار المصطفی،، میں مذکور ہے اس کے علاوہ بعض دوسرے حضرات کی روایات کو بھی ذکر کریں گے۔

۱۔ بریدہ سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''میں (ص) نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا لیکن مجھے اپنی والدہ گرامی کی زیارت کی اجازت دی گئی ہے تم بھی اس کی زیارت کیا کروں کیونکہ اس سے آخرت کی یاد دہانی ہوتی ہے،،۔

بریدہ کہتے ہیں ، ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔

۲۔ ابوہریرہ سے مروی ہے :

''رسول اسلام (ص) نے اپنی والدہ گرامی کی قبر کی زیارت کی ۔ آپ (ص) خود بھی روئے اور ارد گرد موجود افراد کو بھی رلا دیا ۔ پھر فرمایا : میں (ص) نے خدا سےاپنی والدہ کیلئے طلب مغفرت کی اجازت مانگی مگر خدا نے اجازت نہ دی پھر میں نے اس کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی جو خدا نے دے دی پس تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو اس لئے کہ زیارت قبور موت کی یاد دلاتی ہے،،۔

ابوہریرہ کہتے ہیں اس روایت کو علماء کی کی ایک جماعت نے نقل کیا ہے۔

۶۶۰

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689