البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن5%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314042 / ڈاؤنلوڈ: 9316
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

( i ) اس کا دوسری آیہ :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ سے پہلے نازل ہونا ثابت ہو جسے نسخ کے مدعی ثابت نہیں کر سکتے۔

( ii ) آیہ کریمہ :( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ میں صدر اسلام کے روزوں کو ہر جہت سے گزشتہ اقوام کے روزوں سے تشبیہ دی جا رہی ہو (تاکہ وہ حکم میں یکساں ہو اور پھر آیت :( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہو جائے) اور یہ بات مفہوم عرفی بلکہ آیت کی صریح دلالت کیخلاف ہے کیونکہ آیہ شریفہ میں صدر اسلام کے روزے کے وجوب کو گزشتہ امتوں کے روزے کے وجوب سے تشبیہ دی جا رہی ہے دونوں کے روزوں کی تفصیلی کیفیت میں یگانگت بیان نہیں کی جا رہی تاکہ آیت :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے اسے نسخ کیا جا سکے۔

اگر کسی اور خارجی دلیل سے ثہ بات بھی ہو کہ صدر اسلام اور قبل از اسلام کے روزوں کے احکام ایک جیسے تھے تو اس صورت میں آیہ کریمہ :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ریعے ایسا حکم نسخ ہو گی جو قرآن کے علاوہ کسی اور دلیل سے ثابت ہو اور یہ ہمارے محل بحث سے خارج ہے۔

۶۔( وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ ) ۲:۱۸۴

''اور جنہیں روزہ رکھنے کی قوت ہے (اور نہ رکھیں) تو ان پر اس کا بدلہ ایک محتاج کو کھانا کھلا دینا ہے اور جو شخص اپنی خوشی سے بھلائی کرے تو یہ اس کیلئے زیادہ بہتر ہے،،۔

اس آیت کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ آیت اس آیہ شریفہ کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ) : ۱۸۵

''(مسلمانو!) تم میں سے جو شخص اس مہینہ میں اپنی جگہ پر ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ رکھے،،

۳۸۱

پہلی آیت میں اگر ''طوق،، سے مراد (عام) طاقت و قدرت ہو تو آیت کے منسوخ ہونے کا دعویٰ واضح اور درست ہے کیونکہ اس صورت میں آیہ شریفہ کا مفہوم یہ ہو گا کہ جو شخص روزہ رکھنے کی قدرت رکھتا ہے وہ چاہے تو روزہ نہ رکھے اور اس کے بدلے میں فدیہ کے طور پر مسکینوں کو کھانا کھلائے جبکہ دوسری آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص ماہ مبارک میں حاضر ہو وہ روزہ ضرور رکھے ، یعنی اختیاری حالت میں فدیہ پر اکتفاء نہیں کر سکتا۔

لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ طاقت سے مرا دوہ قدرت ہے جس کے ساتھ مشقت اور زحمت ہو بنا برایں آیہ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہخداوند متعال نے سب سے پہلے آیہ شریفہ:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ ) ۲:۱۸۳

''اے ایماندارو! روزہ رکھنا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا،،

کے ذریعے واجب تعیین(۱) کے طور پر روزہ رکھنا لازم قرار دیا ہے اور اس کے بعد آیہ شریفہ فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر : ۱۸۴

''(روزے کے دنوں میں) جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو اور دونوں میں (جتنے قضا ہوئے ہوں) گن کر رکھ لے،،

کے ذریعے مسافر اور مریض سے اس حکم کو اٹھا لیا اور ان روزوں کے عوض کسی دوسرے وقت (جب مسافر کا سفر ختم ہو جائے اور مریض ٹھیک ہو جائے) روزہ جانے کا حکم دیا ہے۔

اس کے بعد بعض مخصوص افراد کیلئے جداگانہ حکم بیان کیا گیا اور وہ یہ ہے کہ زیادہ بوڑھا آدمی ، وہ آدمی جسے پیاس زیادہ لگتی ہو ، وہ مریض جس کا مرض آئندہ رمضان تک باقی رہے اور اس قسم کے دوسرے افراد جن کو روزہ رکھنے سے ناقابل برداشت مشقت و زحمت اٹھانا پڑتی ہے ، ان لوگوں پر روزے کی ادا و قضا واجب نہیں بلکہ صرف فدیہ دیا جائے گا۔

___________________

(۱) جس کا کوئی اور چیز عوض نہ بن سکے۔

۳۸۲

معلوم ہوا جب آیہ کریمہ کی رو سے عام مومنین پر مخصوص ایام میں بطور واجب تعیینی روزوں کی ادا اور مریض و مسافر پر روزوں کی قضا کو فرض قرار دیا گیا تو وہ لوگ ان دونوں سے مختلف ہوں گے جن پر صرف فدیہ دینا واجب ہے آیات کی اس دلالت کے باوجود یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ آیہ کریمہ کے مطابق وہ آدمی جو روزہ رکھنے کی قدرت رکھتا ہو ، چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو روزوں کے بدلے میں فدیہ دے دے ، اسے اختیار ہے اہل بیت اطہار (ع) کی مستفیض روایات بھی آیہ کریمہ کی اسی تفسیر پر دلالت کرتی ہیں(۱)

لفظ طاقت اگرچہ عام قدرت اور توانائی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن طاقت کے لغوی معنی ہیں: مشقت کثیرہ کے ساتھ کسی کام کی قدرت حاصل ہونا چنانچہ ''لسان العرب،، میں ہے:

''الطوق الطاقة ای اقصی غایته و هواسم لمقدار مایمکنه ان یفعله بمشقة منه ،،

(یعنی) '' طوق کا مطلب قدرت و توانائی کی آخری حد ہے جس میں ایک کام انتہائی زحمت کے ساتھ انجام پائے،،

اور ابن اثیر اور راغب سے بھی طاقت کا یہی معنی منقول ہے۔

اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ طاقت کا معنی عام قدرت وتوانائی ہے ''اطاقہ،، جس سے ''یطیقونہ،، بنا ہے ، کا معنی کسی چیز میں طاقت پیدا کرنا ہے تو لامحالہ ''اطاقہ،، وہاں استعمال ہو گا جہاں ایک کام بذات خود آسان اور مقدور نہ ہو ، کسی دوسرے نے اسے مقدور بنایا ہو اور یہ سخت محنت و مشقت کے ساتھ ہی انجام پایا ہو۔

____________________

(۱) الوافی ، ج ۷ ، باب العاجز من الصیام ، ص ۲۳

۳۸۳

صاحب ''تفسیر المنار،، اپنے استاد سے نقل کرتے ہیں:

''عرب،، ''اطاق الشئی،، وہاں کہتے ہیں جہاں کسی چیز یا فعل پر ضعیف اور معمولی سی قدرت ہو اور اس کیلئے سخت محنت و مشقت درکار ہو،،(۱)

بنا برایں یہ آیہ کریمہ محکم ہے ، منسوخ نہیں ، اور اس کا حکم اس شخص کے حکم سے بالکل مختلف ہے جس پر ادایا قضا روزے رکھنا واجب ہیں۔

یہ سب بحث اس بنیاد پر کی گئی کہ آیہ شریفہ میں مشہور قرات کے مطابق لفظ یطیقونہ یعنی صیغہ معلوم پڑھا جائے لیکن اگر ابن عباس ، حضرت عائشہ ، عکرمہ اور ابن مسیّب کی قرات کے مطابق اس لفظ کو باب تفعیل مجہول(۲) (یطوقونہ) پڑھا جائے تو پھر مسئلہ اور زیادہ واضح ہو جائے گا کیونکہ اس صورت میں یقیناً ''مشقت،، والے معنی مراد لئے جائیں گے۔

البتہ مالک اور ربیعہ کے قول کے مطابق ، جو یہ کہتے ہیں کہ اگر بوڑھے مرداور بوڑھی عورتیں افطار کر لیں تو ان کے ذمے کچھ واجب نہیں (۳) آیہ کریمہ منسوخ ہوگئی لیکن یہ ان کی ذاتی رائے ہے جو ہمارے لئے حجت اور مدرک نہیں بن سکتی اس کے علاوہ اس قول کی صحت مشکوک ہے۔

۷۔( وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ ) ۲:۱۹۱

''اور جب تک وہ لوگ (کفار) مسجد الحرام(کعبہ) کے پاس تم سے نہ لڑیں تم بھی ان سے اس جگہ نہ لڑو پس وہ اگر تم سے لڑیں تو (بے کھٹکے) تم بھی ان کو قتل کرو ، کافروں کی یہی سزا ہے،،

____________________

(۱) تفسیر المنار ، ج ۲ ، ص ۱۵۶

(۲) احکام القرآن للجصاص ، ص ۱۷۷

(۳) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۳

۳۸۴

ابو جعفر نحاس اور اکثر اہل نظر کی رائے یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے اور مشرکین سے حرم اور غیر محرم میں جنگ لڑی جا سکتی ہے یہ قول قتادہ کی طرف بھی منسوب ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ گزشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی اور محکم ہے اگر اس کے کسی آیت کے ذریعے ناسخ ہونے کا احتمال دیا جا سکتا ہے تو وہ آیت یہ ہے:

( اقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،

یہ آیت ناسخ نہیں بن سکتی اس لئے کہ پہلی آیت خاص ہے اور دوسری عام ہے خاص ، عام کیلئے قرینہ ہوا کرتا ہے اور وہ عام کا مقصد و مراد بیان کرتا ہے اگرچہ خاص کی تاریخ صدور مقدم ہی کیوں نہ ہو اور جہاں خاص کا مقدم ہونا ثابت ہی نہ ہو وہ بطریق اولیٰ عام کیلئے قرینہ ہو گا بنا برایں اس آیت سے یہی ثابت ہوا کہ حرم سے باہر مشرکین سے جنگ لڑی جا سکتی ہے لیکن اگر مشرکین حرم میں جنگ کی ابتداء کریں تو ان سے حرم میں بھی جنگ کی جا سکتی ہے۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ مدعیان نسخ اس روایت کو ناسخ قرار دیں جس کے مطابق رسول اکرم (ص) نے حکم دیا تھا کہ ''ابن خطل،، کو قتل کر دو جبکہ وہ خانہ کعبہ سے لپٹا ہواہو۔

یہ دعویٰ بھی باطل ہے کیونکہ اولاً یہ روایت خبر واحد ہے اور خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوتا ثانیاً یہ روایت نسخ آیت پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ مدعیان نسخ خود رسول اللہ (ص) روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا:

''انهالم تحل لاحد قبلی و انما احلت لی ساعة من نهارها ،، (۲)

''مجھ سے قبل کسی کیلئے بھی کعبہ میں قتل کو حلال نہیں کیا گیا اور میرے لئے بھی فتح مکہ کے روز صرف ایک گھڑی کیلئے حلال قرار دیا گیاتھا،،

___________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۸

(۲) فتح القدیر للشوکانی ، ج ۱ ، ص ۱۶۸

۳۸۵

بنا برایں یہ آیہ کریمہ اس حقیقت کی تصریح کر رہی ہے کہ حرم میں قتال کی اجازت صرف پیغمبر اکرم (ص) کی خصوصیات میں سے ہے کسی اور کو یہ اجازت نہیں دی گئی اس طرح سوائے فقہاء کی ایک جماعت کا لحاظ کرنے کے ، اس آیت کے نسخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور آیہ شریفہ کا مفہوم ان کے دعویٰ کیخلاف ہے۔

۸۔( يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ ) ۲:۲۱۷

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تم سے لوگ حرمت والے مہینوں کے نسبت پوچھتے ہیں کہ (آیا) جہاد (ان میں جائز) ہے تو تم انہیں جواب دو کہ ان مہینوں میں جہاد بڑا گناہ ہے،،

ابو جعفر نحاس کہتے ہیں:

''علماء (اہل سنت) کا اس بات پر اجماع ہے کہ آیہ کریمہ نسخ ہو گئی ہے اور ان مہینوں میں جنگ جائز ہے البتہ عطا کی رائے یہ ہے کہ آیہ کریمہ محکم ہے اور حرمت والے مہینوں میں قتال جائز نہیں ہے ،،(۱)

شیعہ امامیہ روایات اور علماء کے فتاویٰ کے مطابق یہ آیت نسخ نہیں ہوئی اورا ن مہینوں میں جنگ جائز نہیں ہے چنانچہ صاحب ''التبیان،، اور ''جواہر الکلام،، نے اس بات کی تصریح کی ہے۔

مولف: قول حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اس لئے کہ ناسخ کے طورپر آیہ کریمہ:

( اقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۳۲

۳۸۶

کو پیش کرنا تعجب خیز ہے کیونکہ اس آیت میں مشرکین سے قتال اور جنگ کو باحرمت مہینوں کے گزر جانے پر موقوف قرار دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتاہے۔

( فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''پھر جب حرمت کے (چاروں) مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،۔

آیہ کریمہ کی اس تصریح کے باوجود یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ آیت :یسلونک عن الشہر الحرام ۔۔۔۔۔۔ الخ دوسری آیت : فاقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے۔

ہو سکتا ہے ناسخ کے طور پر آیہ سیف:

( وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ) ۹:۳۶

''مشرکین جس طرح تم سے سب کے سب مل کر لڑتے ہیں تم بھی اسی طرح سب کے سب مل کر ان سے لڑو،،

کے اطلاق کو پیش کیا جائے لیکن یہ بھی درست نہیں اس لئے کہ یہ آیت مطلق ہے اور مطلق اگرچہ موخر ہو مقید کیلئے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر نسخ کے اثبات کیلئے ابن عباس اور قتادہ کی روایت کا سہارا لیا جائے جس کے مطابق متنازع فیہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے تو یہ بھی اعتراض سے خالی نہیں اس لئے کہ اولایہ روایت خبر واحد ہے جس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا ثانیاً یہ کسی معصوم کی روایت نہیں شاید یہ ابن عباس اور قتادہ کااپنا اجتہاد ہو ثالثاً یہ روایت ابراہیم ابن شریک کی روایت سے متعارض ہے ابراہیم کہتے ہیں : احمد بن عبداللہ بن یونس نے لیث سے ، لیث نے ابی ازہر سے ، ابی ازہر نے جابر سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''لایقاتل فی شهر الحرام الاان یغزی اویغزو فاذا حضر ذالک اقام حتی ٰ ینسلخ ،،

''حرمت والے مہینوں میں جنگ نہ لڑی جائے مگریہ کہ دشمن کی طرف سے پہل ہو اور جب حرمت والا مہینہ آ جائے تو جنگ کو موقوف کیا جائے حتیٰ کہ ماہ حرام گزر جائے،،

۳۸۷

اسکے علاوہ اقتادہ اور ابن عباس سے منقول روایت ، اہل بیت ، (ع) سے منقول روایات کے بھی مخالف ہے ، جن کے مطابق ان مہینوں میں جنگ حرام ہے۔

اس آیت کے نسخ کے اثبات کیلئے اس روایت سے بھی تمسک صحیح نہیں جس کے مطابق رسول اللہ (ص) نے ماہ شوال ، ذیقعدہ اور ذی الحجہ میں حنین میں ہوازن کے ساتھ اور طائف میں ثقیف کے ساتھ جنگ کی کیونکہ اولاً یہ خبر واحد ہے جس سے نسخ ثابت نہیں ہو سکتا ثانیاً بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو یہ مجمل ہے اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہے ممکن ہے کسی خاص اوراہم ضرورت کے تحت آپ نے ان مہینوں میں جنگ کا حکم دیا ہو ایسی روایت کس طرح آیہ کریمہ کے لئے ناسخ بن سکتی ہے ۔

۹۔( وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ ) ۲:۲۲۱

''اور (مسلمانو) تم مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرو،،۔

بعض علماء کا د عویٰ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہے:

( وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمومناتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ) ۵:۵

''اور ان لوگوں میں کی آزاد پاک دامن عورتیں جن کوتم میں سے پہلے کتاب دی جا چکی ہے جب تم ان کوا ن کے مہر دیدو،،

چنانچہ ابن عباس ، مالک بن انس ، سفیان بن سعید ، عبدالرحمن ، ابن عمراور اوزاعی کی رائے یہی ہے عبداللہ بن عمر کی رائے یہ ہے کہ دوسری آیت منسوخ اور پہلی آیت ناسخ ہے اس طرح اہل کتاب عورت سے نکاح حرام ہو گا(۱)

لیکن حق یہی ہے کہ یہ دونوں آیتیں منسوخ نہیں ہوئیں اس لئے کہ اگر مشرک عورت (جس سے نکاح پہلی آیت حرام قرار دے دی رہی ہے) سے مراد بت پرست عورتیں ہوں (جیسا کہ آیت سے ظاہر ہو رہا ہے ) تو ان سے نکاح حرام ہونا ، اہل کتاب سے نکاح جائز ہونے سے کوئی منافات نہیں رکھتا تاکہ ایک ناسخ اور دوسری منسوخ قرار پائے کیونکہ پہلی آیت میں عورت بت پرست ہونے کی بنا پر حرام اور

_____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۵۸

۳۸۸

دوسری آیت میں عورت اہل کتاب ہونے کی بنیاد پر حلال قرار پائی ہے اور اگر مشرکہ سے مراد وہ عورت ہو جو اہل کتاب کوبھی شامل ہو (جیسا کہ مدعیان نسخ کا خیال ہے) تو دوسری آیت پہلی آیت کیلئے مخصص قرار پائے گی اس طرح دونوں آیتوں کامفہوم یہ ہو گا کہ اہل کتاب عورت سے تو نکاح جائز ہے لیکن مشرک ، بت پرست عورت سے نکاح جائز نہیں کیونکہ اس فرض کے مطابق پہلی آیت بت پرست اور اہل کتاب عورتوں کو حرام قرار دے رہی ہے اور دوسری آیت اس حکم سے اہل کتاب کو خارج کر کے انہیں حلال قرار دے رہی ہے۔

البتہ شیعہ نقطہ نگاہ سے اہل کتاب عورتوں سے نکاح موقت (متعہ) جائز ہے لیکن نکاح دائمی جائز نہیں اہل کتاب سے دائمی نکاح جائز نہ ہونے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ روایات جن کی رو سے اہل کتاب عورتوں سے نکاح دائمی جائز نہیں، اس آیت کیلئے مقید ثابت ہوں گی جس کے مطابق اہل کتاب سے نکاح دائمی اور نکاح موقت دونوں کا جواز سمجھا جاتا ہے یا عدم جواز کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آیت کریمہ (جس سے اہل کتاب سے نکاح کا جوازثابت ہوتا ہے) سے صرف نکاح موقت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

اس مشہور قول کے مقابلے میں علماء امامیہ کی ایک جماعت اہل کتاب عورتوں سے نکاح دائمی کوبھی جائز سمجھتی ہے چنانچہ حسین اور صدوقین (علی بن بابویہ ، محمد بن بابویہ ) سے یہ فتویٰ منقول ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس مسئلہ پر اس آیت کی تفسیر کے موقع پر تفصیلی بحث کریں گے۔

۱۰۔( لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ ) ۲:۲۵۶

''دین میں کسی طرح کی زبردستی نہیں کیونکہ ہدایت گمراہی سے (الگ) ظاہر ہو چکی ۔

۳۸۹

علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ آیت ، اس آیہ شریفہ کے ذریعے نسخ ہوگ ئی ہے:

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ ) ۹:۷۳

''اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ! کفار کے ساتھ (تلوار سے) اور منافقین کے ساتھ (زبان سے) جہاد کرو،،

کیونکہ اس آیت میں کفارسے جنگ کر کے انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جبکہ پہلی آیت میں دین کے معاملہ میں جبر کرنے سے روکا گیا ہے بعض حضرات کا خیال ہے کہ پہلی آیت نسخ نہیں ہوئی بلکہ دوسری آیت کے ذریعے اس کی تخصیص ہوئی ہے یعنی اہل کتاب کو مجبور نہ کیا جائے کیونکہ جیسا کہ اس سے قبل بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ اہل کتاب سے صرف اس بنیاد پر کہ وہ اہل کتاب ہیں ، جنگ نہیں کی جا سکتی۔

مولف : قول حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہوئی ہے اور نہ اس کی تخصیص ہوئی ہے۔

وضاحت : لغت عرب میں ''کرہ،، دو معنی میں استعمال ہوتا ہے:

i ۔ وہ معنی جو رضا مندی کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے یعنی کسی پر نارض یا خفا ہونا چنانچہ آیہ شریفہ:

( وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ) ۲:۲۱۶

''اور عجب نہیں کہ تم کسی چیز (جہاد) کون اپسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو،،

میں یہی معنی مراد ہے۔

ii ۔ وہ معنی جو اختیار کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے یعنی مجبوراً چنانچہ آیہ کریمہ:

( حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ ) ۴۶:۱۵

''اس کی ماں نے رنج ہی کی حالت میں اس کو پیٹ میں رکھا اور رنج ہی سے اس کو جنا،،۔

۳۹۰

میں یہی مقصود ہے کیونکہ حاملہ ہونا اور بچے کی ولادت اگرچہ اکثر اوقات عورت کی رضا مندی سے ہوتی ہے لیکن یہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے متنازعہ فیہ آیہ شریفہ میں نسخ یا تخصیص اس صورت میں ممکن ہے جب ''کرہ،، پہلے معنی (ناراضگی) میں استعمال ہو۔

لیکن ''اکراہ،، سے پہلا معنی (کسی چیز کو پسند نہ کرنا) مراد ہونا کئی جہات سے باطل ہے:

( i ) جہاں بھی کسی لفظ کے دو معنی ہوں ، ان میں سے کسی ایک معنی کے تعین کیلئے قرینہ اور موید کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس مقام پر کوئی ایسا قرینہ اور موید موجود نہیں جس سے معنی اول کا ارادہ کیا جانا ثابت ہو سکے۔

( ii ) دین اسلام ، اصول دین اور فروع دین دونوں کو شامل ہے اس آیت کے بعد کفر اور ایمان کا ذکر کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ دین صرف اصول دین کا نام ہے بلکہ ایک کلیہ کو اس کے بعض مصادیق پر منطبق کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت اسلامیہ میں بہت سے ایسے احکام موجود ہیں جو مسلمانوں پر (برحق) مسلط کئے گئے ہیں چنانچہ عقلاء کی سیرت بھی اس کی تائید کرتی ہے شریعت میں اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں مثلاً مقروض کو قرض ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے زوجہ کو شہر کی اطاعت پر مجبور کیا گیا ہے چور کو چوری ترک کرنے پر مجبور کیا جاتاہ ے ان تمام موارد کے ہوتے ہوئے کیسے کہا جا سکتا ہے کہ شریعت اسلامیہ میں ''اکراہ،، نہیں ہے۔

( iii ) ''اکراہ،، کی تفسیر میں اس کے پہلے معنی کو ذکر کرنا آیہ شریفہ کے دوسرے حصے:

( قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ) ۲:۲۵۶

''کیونکہ ہدایت گمراہی سے (الگ) ظاہر ہو چکی،،۔

۳۹۱

سے سازگار نہیں مگر یہ کہ ''قدتبین الرشد من الغی کو ''لااکراہ فی الدین،، کیلئے علت اور وجہ قرار دیا جائے بایں معنی کہ ہدایت اور گمراہی کا آشکار ہونا، احکام اسلام کو لوگوں پر ان کی مرضی کیخلاف مسلط کرنے سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

اگر آیہ کریمہ کا مطلب یہی ہے تو پھر اس کے نسخ ہونے کا امکان باقی نہیں رہتاکیونکہ دین اسلام کی دلیلیں اور حجیتیں شروع ہی سے واضح اور آشکار تھیں یہ الگ بات ہے کہ یہ روز بروز مستحکم ہوتی گئیں ا ن حقائق کی روشنی میں صدر اسلام کی بہ نسبت دعوت پیغمبر (ص) کے آخر میں اکراہ کا واقع نہ ہونا زیادہ مناسب ہوتا کیونکہ اسلام کے دلائل صدر اسلام کی بہ نسبت دعوت پیغمبر (ص) کے آخر میں زیادہ واضح اور مستحکم ہو گئے تھے۔

اس کے علاوہ جب عدم کراہ کی یہ علت تمام کفار میں مشترک تھی تو پھر اس حکم (عدم اکراہ) کے صرف بعض کفارسے مختص ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ تمام کے تمام کفار سے جنگ حرام ہو اس نتیجے کا باطل ہونا بدیہی اور واضح ہے۔

پس حق یہی ہے کہ آیہ کریمہ میں ''اکراہ،، سے مراد وہی معنی ہے جو اختیار کے مقابلے میں آتا ہے اور یہ یہاں جملہ خبریہ ہے انشائیہ نہیں۔

آیہ شریفہ اسی حقیقت کو بیان کر رہی ہے جس کا قرآن کی متعدد آیات میں ذکر ہو چکا ہے کہ شریعت الٰہی کسی جبر و اکراہ پر مبنی نہیں ہے نہ اس کے اصول کے سلسلے میں کسی کو مجبور کیا جاتا ہے اور اس کے فروع کے بارے میں پس حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسانیت کی ہدایت کیلئے رسول بھیجے جائیں ، آسمان سے کتابیں نازل ہوں اور احکام الٰہی کی وضاحت کی جائے تاکہ ہلاک (گمراہ) ہونے اور زندگی (ہدایت) حاصل کرنے والوں پر اتمام حجت ہو جائے اور خدا کے مقابلے میں کوئی عذر باقی نہ رہے جیسا کہ ارشاد تعالیٰ ہے:

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اور اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،۔

۳۹۲

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کوبھی ایمان لانے اور اطاعت کرنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ صرف حق کو گمراہی اور باطل کے مقابلے میںواضح طور پر بیان فرماتا ہے اور جو شخص حق پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے ارادے اور اختیارسے ایمان لاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ بھی اپنے ارادے اور اختیار سے باطل اورگمراہی کے راستے کا انتخاب کرتا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمام لوگوں کو حق کی منزل تک پہنچاسکتا ہے لیکن حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ حق اور باطل کی وضاحت کے بعد لوگوں کو ان کے اعمال میں مجبور نہ کیا جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ) ۵:۴۸

''اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کے سب کو ایک ہی (شریعت کی ) امت بنا دیتا مگر (مختلف شریعتوں سے) خدا کا مقصودیہ تھا کہ جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں تمہاراامتحان کر لے بس تم نیکیوں میں لپک کے آگے بڑھ جاؤ اور (یقین جانو) کہ تم سب کو خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تب (اس وقت) جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے وہ تمہیں بتا دے گا،،

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

''اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ (اب تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خد ہی کیلئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ) ۱۶:۳۵

''اور مشرکین کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم ہی اس کے سوا کسی اور چیز کی عبادت کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم بغیر اس (کی مرضی) کے کسی چیز کو حرام کر بیٹھتے جولوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں وہ بھی ایسے ( حیلہ حوالہ کی ) باتیں کر چکے ہیں تو (کہا کریں) پیغمبروں پر تو اس کے سوا کہ احکام کو صاف صاف پہنچا دیں اور کچھ بھی نہیں،،

۳۹۳

۱۱۔( وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ) ۴:۱۵

''اور تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بدکاری کریں تو ان کی بدکاری پر اپنے لوگوں میں سے چار کی گواہی لو پھر اگر چاروں گواہ اس کی تصدیق کریں تو (ان کی سزا یہ ہے کہ ) ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت آ جائے یا خدا ان کی کوئی (دوسری) راہ نکالے،،۔

( وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ) : ۱۶

'' اور تم لوگوں میں جن سے بدکاری سرزد ہوئی ہو ان کو مارو پیٹو ، پھر اگر وہ دونوں (اپنی حرکت سے) توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو ان کو چھوڑ دو بے شک خدا بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

حسن کی روایت ، جواس نے رقاشی سے نقل کی ہے ، کے مطابق عکرمہ اور عبادۃ بن صامت کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت ، دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے اور دوسری آیت کنوارہ مرد اور عورت جب زنا کریں تو ان کے بارے میں نسخ ہو گئی ہے اس لئے کہ ان کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور شادی شدہ مرد اور عورت جب زنا کریں توا ن کے بارے میں بھی یہ آیت نسخ ہو گئی ہے کیونکہ ان کو سو کوڑے مارنے کے علاوہ سنگسار کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مر جائیں۔

قتادہ اور محمد بن جابر کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت (میں موجود حکم) شادی شدہ ہے اور دوسری آیت باکرہ سے مختص ہے اور یہ دونوں آیات کروڑوں اور سنگساری کی سزا دینے کے حکم کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہیں۔

۳۹۴

ابن عباس ، مجاہد اور ابو جعفر نحاس جیسے ، ان کے ہم رائے ، حضرات کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت عورتوں کے زنا (چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا باکرہ) اور دوسری آیت مردوں کے زنا (چاہے شادی شدہ ہوں یا کنوارے) سے مختص ہے اور یہ دونوں آیات کروڑوں اور سنگساری کی سزا دینے کے حکم کے ذریعے نسخ ہو گئی ہیں(۱) بہرحال ابوبکر جصاص کا کہنا ہے کہ زنا کے ان دونوں حکموں کے نسخ ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے(۲)

مولف: حق یہی ہے کہ یہ دونوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں۔

توضیح: لفظ فاحشہ سے مراد وہ عمل ہے جس کی برائی اور قباحت سنگین ہو۔ اگر ایسی سنگین برائی کا ارتکاب دو عورتیں باہم مل کر کریں تو اسے ''مساحقہ،، کہا جاتا ہے ، کبھی اس برائی کو دو مرد انجام دیتے ہیں جو ''لواطہ،، کہلاتا ہے اور کبھی ایک مرد اور ایک عورت کے ذریعے یہ برائی انجام پاتی ہے جو زنا کہلاتی ہے لفظ ''فاحشہ،، سے نہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ زنا کیلئے وضع کیا گیا اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس سے خالق کی مراد زنا ہے اس نکتے کے پیش نظر پہلی آیت کا نسخ دو چیزوں پر موقوف ہے:

i ۔ پہلی آیت میں گھروں میں نظر بند کرنے کا مطلب ، مرتکب فحش کی تعزیر ہو۔

ii ۔ خدا کی طرف سے راہ مقرر ہونے سے مراد سنگساری اور کوڑے ہوں۔

ان دونوں کا ثابت ہونا ناممکن ہے کیونکہ آیہ مبارکہ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کو گھر میں نظر بند کرنے کا مقصد اسے دوبارہ ارتکاب فحش سے روکنا اور اس طرح منکرات کا سدباب کرناہے اور یہ مسلم ہے کہ لوگوں کی جان ، مال ناموس اور اس قسم کے دیگر حساس اعمال کے سلسلے میں منکرات کا سدباب کرنا واجب اور ہر شخص کا فرض ہے بلکہ ایک قول کے مطابق ہر برائی کی روک تھام واجب ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۹۸

(۲) احکام القرآن للجصاص ، ج ۲ ، ص ۱۰۷

۳۹۵

اسی طرح فحش کی مرتکب عورت کیلئے راہ مقرر کرنے کا مقصد ، اس کیلئے ایک ایسا طریقہ مقرر کرنا ہے جس کے ذریعے اسے عذاب سے نجات مل جائے یہ راہ کوڑے اور سنگساری کس طرح ہو سکتی ہے ؟ کیا کوئی آسودہ حال اور عقلمند عورت جو نظر بند ہو ، اس بات پر راضی ہو سکتی ہے کہ اسے کوڑے لگائے جائیں یا اسے سنگسار کیا جائے اسے کوڑے مارنا یا سنگسار کرنا تو اس کے عذاب میں اضافہ کرتا ہے ، اس کی نجات اور سہولت کی راہ و سبیل نہیں ہے ۔

گزشتہ بیان کی روشنی میں ''فاحشہ،، سے کبھی مراد ''مساحقہ،، ہوتا ہے ، جس طرح دوسری آیت میں ''فاحشہ،، سے مراد ''لواط،، ہے چنانچہ اس کو بعد میں بیان کیا جائے گا اور کبھی ''فاحشہ،، سے مراد وہ گناہ ہوتا ہے جو ''مساحقہ،، اور زنا دونوں کو شامل ہو۔

ان دونوںاحتمالات کے مطابق آیہ کریمہ میں فاحشہ عورت کی نظر بندی کولازمی قرار دیا جا رہا ہے (حتیٰ کہ خدا اس کیلئے آسانی نصیب فرمائے بایں معنی کہ یا وہ توبہ کر لے یا گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جائے اور کسی فحش کے ارتکاب کے قابل نہ رہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے گھر سے نکلنے کی اجازت مرحمت فرمائے یا اس میں شادی کی خواہش پیدا ہو اور اس کا شوہر اس کی ناموس کا تحفظ کرے یا اس قسم کے دیگر اسباب فراہم ہوں جن کی وجہ سے اس کے کسی فحش میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ رہے یہ ایک ایسا حکم ہے جو ہمیشہ کیلئے ثابت ہے۔

جہاں تک کوڑوں اور سنگساری کا تعلق ہے وہ ایک جداگانہ اور مستقل حکم ہے جو فحش کے مرتکب افراد کی تادیب اور تنبیہ کیلئے شارع مقدس نے مقرر فرمایا ہے جس کا حکم اول (عورت کی نظر بندی) سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اس کیلئے نسخ واقع ہوا ہے دوسرے الفاظ میں پہلا حکم شارع مقدس نے اس لئے مقرر فرمایا کہ دوبارہ فحش اور بدکاری کا سدباب ہو سکے اور دوسرے حکم کو پہلے جرم کی سزا اور اس پر تنبیہ کیلئے مقرر کیاتاکہ دوتری عورتیں بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب نہ کریں پس حکم اول اور حکم ثانی میں کوئی منافات نہیں کہ دوسرے حکم کو پہلے حکم کا ناسخ قرار دیا جائے البتہ اگر کوڑے مارنے اور سنگساری کی وجہ سے عورت کی موت واقع ہو جائے تو اسے گھر میں نظر بند کرنے کا حکم برطرف ہو جائے گا کیونکہ موت سے نظر بندی کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔

۳۹۶

خلاصہ بحث یہ ہے کہ جو شخص آیہ کریمہ میں غور و فکر کرے اسے اس میں کوئی ایسا نکتہ نظر نہیں آئے گا جس سے نسخ کا تو ہم ہو چاہئے آیہ جلد (کوڑے) اس آیہ پر مقدم ہو یا مؤخر ہو۔

جہاں تک دوسری آیت کے نسخ کا تعلق ہے وہ اس بات پر موقوف ہے۔

اولاً : ''یاتیانھا،، کی ضمیر زنا کی طرف لوٹتی ہو۔

ثانیاً : آیہ کریمہ میں ''ایذائ،، سے مراد سب و شتم (گالی گلوچ) اور لعن طعن ہو۔

ان دونوں امور کی کوئی دلیل نہیں اس کے علاوہ یہ دونوں باتیں آیہ کریمہ سے ظاہر نہیں ہوتیں۔

وضاحت: گزشتہ دونوں آیات میں تین مرتبہ جمع مذکر حاضر کی ضمیر لائی گئی ہے اور یہ مسلم ہے کہ تیسری ضمیر سے مراد وہی ہے جو پہلی اور دوسری ضمیر سے مردا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ پہلی دو ضمیروں سے مراد ، مرد ہیں پس بنا برایں''اللذان،، سے مراد دو مرد ہیں اور اس سے مراد ایسا عام معنی نہیں ہے جو مرد اور عورت دونوں کو شامل ہو۔

اس کے علاوہ اگر تثنیہ کی ضمیر سے مراد دو مرد نہ لئے جائیں تو اس کا کوئی دوسرا معنی مراد لینا صحیح بھی نہیں کیونکہ اگر ضمیر سے مراد دو مرد نہ ہوتے توا س کی جگہ جمع کی ضمیر آنی چاہئے تھی جس طرح سابقہ آیت میں جمع کی ضمیر لائی گئی ہے اور یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دوسری آیت میں ''فاحشہ،، سے مراد ''لواط،، ہے ، زنا نہیں اور نہ وہ عام معنی ہے جو لواط اور زنا دونوں کو شامل ہو یہ بات واضح ہونے کے بعد ثابت ہو جاتا ہے کہ اس آیت کے موضوع کا آیہ جلد سے کوئی ربط نہیں یہ بات تسلیم کرنے کے بعد کہ اس آیت میں موجود حکم کے موضوع میں زانی بھی شامل ہے اس امر کی کوئی دلیل نہیں رہتی کہ آیت میں جس ایذارسانی کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد کوئی خاص قسم کی اذیت ہو البتہ ابن عباس ےس مروی ہے کہ اس ایذا سے مراد ضرب و شتم ہے لیکن یہ روایت حجت نہیں کہ اس کے ذریعے نسخ ثابت ہو سکے لہٰذا لفظ کے اپنے ظہور پر عمل کرنا چاہئے اور آیہ جلد یا حکم رجم کے ذریعے (جو قطعی طور پر ثابت ہے) اس کی تقیید کی جائے۔

۳۹۷

خلاصہ بحث یہ کہ ان دونوں آیتوں میں نسخ کے التزام کی کوئی وجہ نہیں مگر یہ کہ کوئی اندھی تقلید کرے اور ان احاد روایات پر عمل کرے جو کسی علم و عمل کا فائدہ نہیں دیتیں۔

۱۲۔( وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ ) ۴:۲۴

''اور ان عورتوں کے سوا( اور عورتیں) تمہارے لئے جائز نہیں،،

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیہ کریمہ ان روایات کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس کی رُو سے سورہ نساء کی آیہ ۲۳ میں مذکور عورتوں کے علاوہ بھی کچھ عورتیں حرام قرار دی گئی ہیں یہ دعویٰ اس وقت صحیح ہو سکتا ہے جب خاص متاخر ، عام مقدم کیلئے ناسخ بنے ، مخصص نہ بنے۔

لیکن قول حق یہی ہے کہ خاص عام کیلئے مخصص بنتا ہے ناسخ نہیںبنتا ، خواہ خاص ، مقدم ہویا موخر یہی وجہ ہے کہ خبر واحد ، جس میں جیت کی تمام شرائط موجود ہوں کو عام کا مخصص قرار دیا جا سکتا ہے چنانچہ عنقریب یہ بحث آئے گی کہ خبر واحد ، جس میں حجیت کی تمام شرائط موجود ہوں، کو عام کا مخصص قرار دیا جا سکتا ہے چنانچہ عنقریب یہ بحث آئے گی کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہے اگر مؤخر خاص ناسخ ہوتا تو خبر واحد پر اکتفا نہ کیا جاتا اس لئے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں کیا جا سکتا اس کے علاوہ آیہ کریمہ میں کوئی عموم لفظی نہیں پایا جاتا بلکہ ظاہری اطلاق کے ذریعے عموم سمجھا جاتا ہے اور جب کوئی ایسی دلیل موجود ہو جو اس آیہ کیلئے مقید بننے کی صلاحیت رکھتی ہو وہاں یہ حکم لگایا جائے گا کہ اس مقام پر شروع سے (واقعی) اطلاق مراد نہیں۔

۳۹۸

۱۳۔( فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ) ۴:۲۴

''ہاں جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہو تو انہیں و مہر معین کیا ہے دے دو،،

علماء اہل سنت میں مشہور ہے کہ متعہ کی حلیت (حلال ہونا) نسخ ہو گئی ہے اور قیامت تک کیلئے اس کی حرمت ثابت ہو گئی ہے اس کے برعکس شیعہ امام کا اتفاق ہے کہ متعہ کی حلیت باقی ہے اور آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت نے بھی شیعہ امامیہ کی اس رائے سے اتفاق کیا ہے چنانچہ ابن حزم لکھتے ہیں:

''ابن مسعود ، معاویہ ، ابو سعید ، ابن عباس ، امیہ بن خلف کے دونوں بیٹے سلمہ اور معبد ، جابر اور عمرو بن حریث پیغمبر اکرم (ص) کے بعد بھی متعہ کی حلیت کے قائل تھے،،۔

اس کے بعد ابن حزم لکھتے ہیں:

''جابر نقل کرتے ہیں کہ تمام صحابہ پیغمبر اکرم (ص) ، رسول اللہ (ص) کی زندگی میں حضرت ابوبکر کی خلافت کے دوران اور خلافت حضرت عمر کے آخر تک متعہ کو حلال سمجھتے تھے،،

ابن حزم مزید لکھتے ہیں:

''تابعین میں سے طاووس ، سعید بن جبیر ، عطا اور مکہ کے دیگر فقہا متعہ کی حلیت کے قائل تھے ،،(۱)

شیخ الاسلام مرغینانی نے جو ازمتعہ کے قول کی نسبت مالک کی طرف دی ہے مالک متعہ کے جواز پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں:

____________________

(۱) حاشیہ فقی برمنتقیٰ ، ج ۲ ، ص ۵۲۰

۳۹۹

''متعہ (رسول اللہ (ص) کے زمانے میں) یقیناً مباح تھا۔ جب تک اس کا نسخ ثابت نہ ہو اس کی حلیت باقی رہے گی،،(۱)

ابن کثیر لکھتے ہیں:

''ایک اور روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل اضطراری حالت میں متعہ کو جائز سمجھتے ہیں،،(۲)

مکہ کے نامور عالم اور فقیہ ابن جریح نے اپنے زمانے میں ستر عورتوں سے نکاح متعہ کیا تھا(۳) انشاء اللہ اس آیہ کریمہ کی تفسیر کے موقعہپر ہم تفصیلی گفتگو کریں گے یہاں ہم اس آیہ کے بارے میں مختصر بحث کریں گے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ اس آیہ شریفہ کا مفہوم نسخ نہیں ہوا۔

توضیح: آیہ شریفہ میں موجود حکم اس بات پر موقوف ہے۔

اولاً: آیہ شریفہ میں استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہو۔

ثانیاً : بعد میں نکاح متعہ کی حرمت ثابت ہو جائے۔

جہاں تک امر اول (استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہو) کا تعلق ہے اس کے ثبوت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں طرفین کی بہت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آیہ شریفہ میں استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہے۔

____________________

(۱) ہدایہ شرح بدایہ ص ۳۸۵ ۔ مطبوعہ بولاق معہ فتح القدیر ۔ اس نسبت کی شیخ محمد بابرتی نے بھی شرح ہدایہ میں تاید کی ہے البتہ ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر میںاس کاانکار کیا ہے عبدالباقی مالکی زرقانی نے شرح مختصر ابی ضیاء ج ۳ ص ۱۹۰ پر کہا ہے:

''متعہ جو کسی بھی وقت قابل فسخ ہے کی حقیقت یہ ہے کہ مرد یا عورت یا ان کے ولی عقد اس طرح پڑھیں کہ اس میں مدت مذکور ہو اور یہ کہ مرد عورت کو اپنے مقصد سے آگاہ کرے لیکن اگر صیغہ عقد میں مدت کا ذکر نہ ہو لیکن مرد اس کا قصد کرے اور عورت بھی مرد کے قصد کو سمجھا جائے تو بھی کافی ہے امام مالک کا فتویٰ یہی ہے اور یہ عقد مسافروں کیلئے مفید ہے،،۔

(۲) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۴۷۴

(۳) شرح زرقانی برمختصر ابی ضیاء ، ج ۸ ، ص ۷۶

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

۳۔ عبداللہ بن ابی ملیکہ سے مروی ہے:

''ایک مرتبہ حضرت عائشہ قبرستان کی طرف سے آئیں میں نے سے پوچھا: ام المومنین آپ کہاں سے آ رہی ہیں ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : اپنے بھائی عبدالرحمن کی قبر سے آ رہی ہوں میں نے کہا : کیا رسول خدا (ص) نے زیارت قبور سے منع نہیں فرمایا تھا ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : ہاں ! آنحضرت (ص) نے پہلے منع فرمایا تھا پھر آپ (ص) نے زیارت قبور کا امر فرمایا تھا،،

عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں اس روایت کو اثرم نے بھی اپنے سنن میں ذکر کیا ہے۔

مولف: شیخ محمد حامد فقی اپنے حاشیہ کتاب پر لکھتے ہیں : اس روایت کو ابن ماجہ ، حاکم اور بغوی نے شرح السنتہ میں بھی ذکر کیا ہے۔

۴۔ ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) قبرستان میں تشریف لائے اور فرمایا:

'دصاحبان ایمان کو ہمارا اسلام ہو ، انشاء اللہ ہم بھی تم سے آ ملیں گے،،

ابوہریرہ کہتے ہیں : اس روایت کو احمد مسلم اور نسائی نے بھی ذکر کیا ہے احمد نے عائشہ سے بھی یہ روایت نقل کی ہے البتہ اس میں اس جملے کا اضافہ ہے : ''خدا یا ہمیں ان مرحومین کے اجرسے محروم نہ فرما اور ہمیں ان کے بعد آزمائش میں نہ ڈال،،

۵۔ بریدہ سے مروی ہے:

''رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کویہ تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان کی طرف جائیں تو یہ کہا کریں :''السلام علیکم اهل الدیارمن المومنین و اسلمین و انا ان شآء الله بکم لاحقون ، نسال الله لنا ولکم العافیة،، ۔

''ان گھروں میں بسنے والے مومنو اور مسلمانو! ہمارا تم پر سلام ہو ، انشاء اللہ ہم تم سے آ ملیں گے ہم تمہارے لئے اور اپنے لئے خداسے عافیت کے طلب گار ہیں،،۔

ابن تیمیہ کہتے ہیں اس روایت کو احمد ،مسلم اور ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے(۱)

____________________

(۱) المنتقی ٰ ، ج ۲ ، ص ۱۱۶

۶۶۱

۶۔ ابن عمر رسول خدا (ص) سے روایت کرتے ہیں:

''من حج فزار قبری بعد وفاقی کان کمن زارنی فی حیاتی،،

''جو آدمی حج بیت اللہ سے مشرف ہو اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کرے گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی،،

اس روایت کو طبرانی نے اوسط میں اور بیہقی نے سنن میں نقل کیا ہے۔

۷۔ نیز رسول خدا (ص) سے مروی ہے:

''جو شخص میری قبر کی زیارت کرے اس کی شفاعت میرے اوپر واجب ہو جاتی ہے،،

اس روایت کو ابن عدی نے کامل میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

۸۔ انس نے رسول خدا (ص) سے روایت کی ہے۔

''جو شخص (میری معرفت رکھتے ہوئے) مدینہ میں میری زیارت کرے ، روز قیامت میں اس کے اعمال کا گواہ ہونگا یا اس کی شفاعت کروں گا ،،(۱)

۹۔ ابوہریرہ رسول خدا (ص) سے روایت کرتے ہیں:

''جو آدمی اپنے کسی دوست کی قبر کی زیارت کرے اور اسے سلام کر کے اس کے پاس بیٹھ جائے تو (مرحوم) دوست سلام کا جواب دیتا ہے اور جب تک زیارت کرنے والا شخص اس کی قبر پر بیٹھا رہے مرحوم مانوس رہتا ہے ،،(۲)

____________________

(۱) بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کی ہے ، کنز العمال ، فضل زیارت القبور ، ج ۸ ، ص ۹۹

(۲) اس روایت کو ابو الشیخ اور دیلمی نے نقل کیا ہے۔

۶۶۲

۱۰۔ ''جو شخص بھی کسی جاننے والے کی قبر کی زیارت کرے اور اسے سلام کرے مرنے والا اسے پہچان لیتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے،،۔

اس روایت کو تمام ، خطیب ، ابن عساکر اور ابن بخار نے نقل کیا ہے صاحب کنز العمال کہتے ہیں ، اس روایت کی سند عمدہ ہے کنز العمال ، ج ۸ ، ص ۹۹ اور ص ۱۲۵ میں اور اس کے بعد اس میں اس مضمون کی تقریباً اسی روایات نقل کی ہیں ، جو حضرات ان روایات سے آگاہ ہوناچاہئے وہ ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۱۱۔ ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''جو شخص بھی مجھے سلام کرے خداوند میری روح کو میری طرف لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں،،(۱)

۱۲۔ ابن عمر حجرا سود کو چھونے اور اس کو چومنے کے بارے میں کہتے ہیں:

''رسول خدا (ص) حجرا سود کو مس کرتے اور بوسہ دیتے تھے سائل نے ابن عمر سے پوچھا: کیا آپ یہ احتمال نہیں دیتے کہ لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے ہم زحمت میں مبتلا ہو جائیں گے ؟ اور بے بس ہو جائیں گے ۔ ابن عمر نے جواب دیا: اس قسم کے احتمالات اور شاید والی باتوں کو ترک کریں میں نے خود رسول اکرم (ص) کو دیکھا ہے کہ آپ (ص) حجرا سود کو سینے سے لگاتے اور اس کو بوسہ دیتے تھے،،

____________________

(۱) سنن بیہقی باب زیارت قبر النبی(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ، ج ۵ ، ص ۲۴۵۔

۶۶۳

اس روایت کوبخاری نے اپنی صحیح میں مسدد سے نقل کیا ہے۔

۱۳۔ ابن عباس کی روایت ہے :

میں نے رسول اکرم (ص) کو دیکھا کہ حجرا سود پر سجدہ کیا کرتے تھے،،(۱)

۱۶۔ داؤد ابن ابی صالح کی روایت ہے

''ایک مرتبہ مروان آیا اور اس نے ایک آدمی کو اپنا چہرہ قبر پر رکھے ہوئے دیکھا چنانچہ مروان نے اس کو گردن سے پکڑا اور کہا تمہیں معلوم ہے کہ اس وقت تم کیا کر رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ، مروان نے آگے بڑھ کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ ابو ایوب انصاری ؓ ہیں ۔ ابو ایوب نے مروان سے کہا: میں رسول خدا (ص) کی خدمت میں شرفیاب ہوا ہوں نہ کہ حجرا سود کے پاس آیا ہوں۔ میں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : تم اس وقت دین پر گریہ نہ کرو جب زمام حکومت اس کے اہل کے ہاتھ میں ہو بلکہ اس وقت دین پر گریہ کرو جب دینی حکومت نااہلوں کے ہاتھ میں چلی جائے(۲)

۱۷۔ حافظ ابن عسا کر نقل کرتے ہیں:

''جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) تشریف لائیں اور اپنے والد گرامی رسول اکرم (ص) کی قبر پر آ کر رکیں اور آپ (ص) کی قبر کی مٹی ہاتھ میں لی اور اسے آنکھوں سے لگا کر گر یہ فرمایا،،

____________________

(۱) سنن بیہقی ، باب السجود علیہ علی الحجر ، ج ۵ ، ص ۷۴۔۷۵

(۲) اس روایت کو حاکم نے مستدرک کی جلد ۴ ص ۵۱۵ میں نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ، ذہبی نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ابن تیمیہ نے حجرا سود کو بوسہ دینے اسے مس کرنے اور اس پر رخسار رکھنے کے بارے میں روایات کو منتقی ٰ کی ج ۲ ، ص ۲۶۱ ، ۲۶۳ میں نقل کیا ہے۔

۶۶۴

۱۸۔ حافظ ابن عساکر سے مروی ہے:

''ایک اعرابی رسول خدا (ص) کی قبر پر آیا اور قبر کی مٹی اپنے سر پر ڈالنے لگا اس کے بعد رسول خدا (ص) سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: یارسول اللہ (ص) آپ (ص) پر نازل ہونے والی آیات میں سے ایک آیت یہ تھی ''اگر لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے (گناہ کا مرتکب ہونے) کے بعد تیرے پاس آئیں اور آپ (ص) ان کیلئے طلب مغفرت کریں تو خدا ان کے گناہوں کو بخش دے گا،، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اور آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ (ص) میرے لئے مغفرت طلب کریں اتنے میں قبر سے آواز آئی خدا نے تیرے گناہ معاف کر دیئے یہ سارا واقعہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے سامنے پیش آیا،،۔

۱۹۔ نیز ابن عساکر سے مروی ہے:

''ایک مرتبہ جناب بلال ، رسول اللہ (ص) کی قبر پر آئے اور روتے ہوئے اپنا چہرہ خاک قبر پر رکھ دیا اتنے میں امام حسن اور امام حسینہ (علیہما السلام) تشریف لے آئے ، جناب بلال نے ان کو اپنے سینے سے لگایا اور ان کی دست بوسی کی،،(۱)

ضمیمہ (۱۸) ص ۴۷۷

آلوسی کی شیعوں پر بہتان تراشی

اسی کتاب کے ص پر مذکور تہمت (شیعہ خاک کربلا کو سجدہ کرتے ہیں) میں آلوسی نے آیہ شریفہ:

کلواواشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر کی تفسیر کے موقع پر یہ الزام لگایا ہے کہ شیعہ روزوں میں طلوع آفتاب تک کھانے پینے کو جائز سمجھتے ہیں۔

____________________

(۱) الغدیر ، ج ۵ ، ۱۲۷۔۱۲۸

۶۶۵

میں نہیں سمجھتا کہ آلوسی کے پاس اس نسبت (الزام) کی کیا دلیل ہے جب کہ وہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں مقیم تھا عراق کو شروع سے اب تک شیعوں کے مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے اور عتبات مقدسہ (زیارات ائمہ) بھی بغداد کے نزدیک ہیں اور شیعوں کے علاوہ دوسرے فرقوں کے ماننے والے وہاں کم ہیں اس کے علاوہ خود آلوسی شیعہ کتابوں سے بخوبی آشنا بھی ہے درحقیقت شیعوں کی طرف اس قسم کی نسبتوں ہی کی وجہ سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور انہیں الزام تراشیوں نے دشمنان اسلام کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا ہے اور بعید نہیں کہ اس میں خارجی ہاتھ کارفرما ہو۔

ضمیمہ (۱۹) ص ۴۷۷

مولف اور حجازی عالم میں بحث

سن ۱۳۵۳ھ میں زیارت بیت اللہ سے شرفیاب ہوا اس دوران مسجد نبوی میں میری ملاقات ایک فاضل عالم دین سے ہوئی جو سجدہ گاہ پر نماز پڑھنے والوں کی نگرانی کرتا اور ان سے (سجدہ گاہ) چھین لیتا تھا میں نے اس سے کہا:

شیخنا ! کیا رسول خدا (ص) نے مسلمان کی اجازت کے بغیر ان کے مال میں تصرف کو حرام قرار نہیں دیا ؟ اس نے جواب دیا: کیوں نہیں ! میں نے کہا: توپھر تم ان مسلمانوں سے ان کا مال کیوں چھینتے ہو جبکہ یہ شہادتیں پڑھتے ہیں ؟ اس نے کہا : یہ لوگ مشرک ہیں انہوں نے تربت (خاک کربلا) کو بت بنا رکھا ہے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں میں نے کہا : اگر اجازت ہو تو اس موضوع پر قدرے تفصیلی بحث کی جائے اس نے جواب دیا: کوئی حرج نہیں۔

چنانچہ ہم دونوں میں بحث اور مناظرہ شروع ہوا اور آخر کار اس نے اپنے اس عمل کی معذرت طلب کی اور اپنے رب سے استغفار کرنے لگا اور کہنے لگا: درحقیقت اب تک میں غلطی فہمی کا شکار رہا ہوں۔

۶۶۶

اس کے بعد اس نے مجھ سے درخواست کی کہ (دینے میں قیام کے دوران) مختلف موضوعات پر بحث ہوتی رہے میں نے بھی آمادگی ظاہر کی اور اس طرح ہر شب مسجد نبوی میں بحث و مباحثہ کی ایک محفل تشکیل پاتی تھی مدینہ میں تقریباً دس راتیں ہماراقیام رہا اس دوران مختلف مکاتب فکر کے افراد کا اجتماع ہوتا تھا اور ہم دونوں کے درمیان مختلف موضوعات پر مناظرے ہوتے تھے آخر کار اس حجازی نے ان اعتقادات اور خیالات سے بیزاری کا اظہار کیا جو وہ شیعوں کے بارے میں رکھتا تھا اوراس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ میری ان تمام بحثوں کو رسالہ ''ام القریٰ ،، میں شائع کرے گا تاکہ ان لوگوں کیلئے حق آشکار ہو جائے جو حق سے بغض و عناد نہیں رکھےت اور اشتباہ و غلط فہمی کے شکار ہیں اور یہ کہ وہ اس رسالے کا ایک نسخہ مجھے بھی بھیجے گا۔ مگر اس نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا شاید حالات نے اس کا ساتھ نہ دیا ہو اور اس کے مقصد کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ہوں۔

ضمیمہ (۲۰) ص ۴۷۷

تربت سید الشہداء کی فضیلت

ابویعلی ٰ اپنی مسند میں اور ابن ابی شیبہ اذرسعید نے منصور سے اور اس نے اپنی سنن میں مسند علی سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ میں رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ (ص) کی آنکھوںسے آنسو جاری تھے میں نے عرض کیا : یارسول اللہ (ص) کیا آپ (ص) کسی سے خفا ہو گئے ہیں آپ (ص) کے آنسو کیوں جاری ہیں ؟ آپ (ص) نے فرمایا: ابھی کچھ دیر قبل جبرئیل میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ نہر فرات پر میرا نواسہ حسین (ع) شہید کیا جائے گا اس کے بعد انہوںنے پوچھا: کیا آپ (ص) حسین (ع) کی تربت سونگھیں گے؟ میں (ص) نے کہا: ضرور سونگھوں گا چنانچہ جبرئیل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اپنے ہاتھ میں مٹی لا کر مجھے دے دی جس کے بعد میں گریہ کئے بغیر نہ رہ سکا،،

۶۶۷

طبرانی نے کبیر میں جناب ام سلمہ سے روایت کی ہے:

ایک دن رسول خدا (ص) لیٹے آرام فرما رہے تھے یکایک آپ رنجیدہ خاطر بیدار ہوئے اس وقت آپ (ص) کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی مٹی تھی جسے آپ چوم رہے تھے ام سلمہ کہتی ہیں میں نے عرض کی یارسول اللہ (ص) یہ کیسی مٹی ہے ؟ رسول خدا (ص) نے فرمایا: جبرئیل نے مجھے خبر دی کہ آپ (ص) کانواسہ سرزمین کربلا پر شہید کر دیا جائے گا میں نے کہا کہ مجھے وہ خاک دکھا دے جس پر میرا نواسہ (ع) شہید کیا جائے گا یہ وہی مٹی ہے جو جبرئیل نے لا کر دی ہے۔

اسی روایت کو ابن شیبہ نے معمولی اختلاف کے ساتھ ام سلمہ سے روایت کیا ہے ابن ماجہ ، طیالسی اور ابو نعیم نے بھی تقریباً اس مضمون کی روایت نقل کی ہے(۱)

ضمیمہ (۲۱) ص ۴۷۹

مکاشفہ کے ذریعے آیہ سجود کی تاویل

حسن بن منصور کہتے ہیں جب ابلیس سے کہاگیا کہ آدم کو سجدہ کرے تو اس نے خالق سے مخاطب ہو کر کہا:

''میرے دل سے سجدہ کی اہمیت اٹھا لے تاکہ تیرے غیر کیلئے سجدہ کر سکوں اگر تو نے آدم کیلئے سجدہ کا حکم دیا ہے تو اپنے غیر کیلئے سجدہ کرنے سے منع بھی تو فرمایا ہے۔

خالق نے فرمایا: میں تمہیں ابدی عذاب دوں گا ابلیس نے کہا : کیا تو مجھے عذاب دیتے وقت دیکھے گا نہیں ؟ خالق نے فرمایا : کیوں نہیں ابلیس نے کہا تیرا دیدار مجھے عذاب کے دیکھنے پر آمادہ کر رہا ہے تو جو چاہے مجھے عذاب دے ۔(۲)

مولف : ابن روز بہان جیسے اہل مکاشفہ کو اس قسم کا خلاف عقل و قرآن و ضرورت دین مکا شفہ مبارک ہو۔

____________________

(۱) کنز العمال ، ج ۷ ، ص ۱۰۵ ۔۱۰۶

(۲) تفسیر ابن روز بہان ، ص ۲۱ ، طبع ہند۔

۶۶۸

ضمیمہ (۲۲) ص ۴۷۹

ابلیس اور خدا کا مکالمہ

امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے آپ (ع) نے فرمایا:

ابلیس نے کہا : پالنے والے ! مجھے آدم کا سجدہ معاف کر دے میں تیری ایسی عبادت کروں گا جو نہ کسی مقرب فرشتے نے کی ہو گی اور نہ کسی نبی مرسل نے خالق نے فرمایا: مجھے تیری عبادت کی احتیاج نہیں عبادت وہ ہوتی ہے جس کو (جیسے) میں چاہوں وہ نہیں جسے تو چاہے(۱)

نیز امام صادق علیہ السلام نے ایک زندیق سے اس کے اس سوال ، ''خدا نے ملائکہ کو آدم ؑ کیلئے سجدہ کا کیسے حکم دیا ؟،، کے جواب میں فرمایا:

''جو خدا کے حکم پر سجدہ کرے گویا اس نے خدا کیلئے سجدہ کیا ہے پس آدم (ع) کیلئے سجدہ خدا کیلئے سجدہ تھا کیونکہ یہ سجدہ خدا کے حکم پر کیا گیا تھا،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر الصافی تفسیر قول خداوندی فسجدوالاابلیس ، ص ۲۶

(۲) البحار ، باب سجود الملائکہ و معناہ ، ج ۵ ، ص ۳۷

۶۶۹

ضمیمہ (۲۳) ص ۴۸۰

اسلام اور شہادتیں

سماعہ ، امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:

اسلام ، کلمہ لاالہ الا اللہ اور رسول خدا (ص) کی رسالت کی تصدیق کا نام ہے اسی سے مسلمان کا خون محفوظ ہو جاتا ہے اس سے نکاح جائز ہوتاہے اور یہ ارث کا موجب بھی بنتا ہے(۱)

ابوہریرہ نے رسول خدا (ص) سے روایت کی ہے ، آپ (ص) نے فرمایا:

''میں اس وقت تک جہاد کروں گا جب تک کفار لا الہ الا اللہ کی شہادت نہ دیں اور مجھ پر اور اس کتاب پر ایمان نہ لائیں جسے میں لے کر آیا ہوں جب لوگ ان دونوں باتوں پرایمان لے آئیں تو میری طرف سے ان کے جان و مال محفوظ ہو جاتے ہیں مگر یہ کہ اسلامی قوانین کی رو سے کسی مسلمان کا قتل اور اس کا مال ضبط کرنا جائز ہو اس کے بعد ہر شخص کے اعمال اور اس کا ثواب و عقاب خدا کے سامنے ہو گا،،

اس روایت کو جابر اور عبداللہ بن عمر نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے(۲)

صاحب تیسیرالوصول عبداللہ بن عمر کی روایت کے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں اس روایت کو مسلم اور بخاری نے بھی نقل کیا ہے(۳)

____________________

(۱) الوافی الایمان اخص من الاسلام ، ج ۳ ،ص ۱۸

(۲) صحیح مسلم باب الامرقتال الناس حتیٰ یقولوا لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ ج ۱ ، ص ۳۹

(۳) تیسیرا لوصول ج ۱ ، ص ۲۰

۶۷۰

اس روایت کو ترمذی نے ابوہریرہ سے بھی نقل کیا ہے۔

باب ماجاء امرت ان اقاتل الناس حتیٰ یقولوالا الہ الا اللہ ، ج ۱۰ ص ۶۸ ۔ اس روایت کو نسائی نے انس سے بھی نقل کیا ہے کتاب التحریم الدم ، ج ۲ ، ص ۱۶۱ ۔ باب علی مایقاتل الناس ، ص ۲۶۹۔

اس کو احمد نے اپنے مسند کے ج ۲ ، ص ۳۴۵ ، ۵۲۸ پر ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور ج ۳ ، ص ۱۹۹ ، ۲۲۴ پرانس سے نیز ج ۵ ، ص ۲۴۶ پر معاذ بن جبل سے اور ص ۴۳۳ پر اسی مضمون کی روایت کو عبیداللہ بن عدی سے روایت کیا ہے۔

صاحب تیسرا لوصول ، ج ۱ ، ص ۲۰ پر عبیداللہ کی روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: اس کو مالک نے بھی نقل کیا ہے۔

ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''مجھے اس وقت تک لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لاالہ الا اللہ نہ کہیں اور جو شخص لا اللہ الا اللہ کہے میری طرف سے اس کے جان و مال محفوظ ہو جاتے ہیں مگر یہ کہ برحق کوئی قتل کیا جائے یا اس کا مال ضبط کیا جائے باقی اعمال کا حساب کتاب خدا کے پاس ہو گا،،(۱)

اسم کو مسلم ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، ترمذی ، نسائی ، احمد اور طیالسی نے بھی روایت کی ہے۔

____________________

(۱) صحیح بخاری ، باب قتل من ابی قبول الفرائض ، ج ۸ ، ص ۵۰

۶۷۱

اوس بن اوس ثقفی کی روایت ہے:

''ہم مسجد مدینہ کے گنبد کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں رسول خدا (ص) مسجد میں داخل ہوئے پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے رسول خدا (ص) سے سرگوشی میں ایک بات کہی جسے ہم نہ سمجھ سکے البتہ آنحضرت (ص) نے اس کو جواب دیا: جاؤ !ا نہیں کہو اس کو قتل کر دیں اس کے بعد آپ (ص) نے اس شخص کو دوبارہ بلایا اور فرمایا: شاید وہ شخص کلمہ شہادتین پڑھتا ہو۔ اس شخص نے جواب دیا : جی ہاں وہ شہادتین پڑھتا ہے آپ (ص) نے فرمایا: (اگر ایسا ہے) تو جاؤ اور انہیں کہو اسے آزاد کر دیں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک وہ توحید الٰہی اور میری رسالت کی شہادت نہ دیں جب شہادتین کا اقرار کر لیں تو ان کا خون اور مال محترم ہو جاتا ہے مگریہ کہ کسی کو برحق قتل کیا جائے یا اس کا مال ضبط کیا جائے ان کے باقی اعمال کا حساب کتاب خدا کے سامنے ہو گا،،

اس روایت کو ابوداؤد طیالسی ، احمد ، دارمی اور طحاوی نے نقل کیا ہے(۱)

ضمیمہ (۲۴) ص ۴۸۲

عبادت اور اس کے عوامل

محمد بن یعقوب نے اپنی سند سے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

''بندے تین قسم کے ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو عقاب کے خوف سے عبادت کرتے ہیں یہ غلاموں کی عبادت ہے ، اور کچھ لوگ وہ ہیں جو ثواب کے لالچ میں عبادت کرتے ہیں ، یہ مزدوروں کی عبادت ہے ، کچھ لوگ وہ ہیں جو محض حب خدا کی خاطر عبادت کرتے ہیں یہ آزاد انسانوں کی عیادت ہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے،، شیخ صدوق نے اپنی سند سے امام صادق علیہ السلام سے تقریباً اسی مضمون کی روایت نقل کی ہے۔

____________________

(۱) کنز العمال فی حکم الاسلام ، طبعتہ دائرۃ المعارف العثمانیہ ، ج ۱ ، ص ۳۷۵

۶۷۲

امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

''ایک قوم ایسی ہے جو ثواب کے شوق و رغبت میں عبادت کرتی ہے یہ تاجروں کی عبادت ہے اور ایک قسم وہ ہے جو دوزخ کے خوف سے عبادت کرتی ہے ، یہ غلاموں کی عبادت ہے اور تیسری قوم وہ ہے جو شکر خدا کی خاطر عبادت کرتی ہے خدا کے آزاد بندوں کی عبادت یہی ہے(۱)

ضمیمہ (۲۵) ص ۴۸۴

الامربین الامرین : لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں

حسن بن علی الوشاء نے امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے راوی کہتا ہے:

''میں نے امام علیہ السلام سے پوچھا: کیا خدا نے ہر کام کو بندے کے سپرد کر دیا ہے آپ (ع) نے فرمایا: خدا کی ذات سے بالاتر ہے میں نے کہا: کیا خدا بندوں کو معصیت پر مجبور کرتا ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا : یہ عدل الٰہی کے منافی ہے راوی کہتا ہے : اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا فرماتا ہے: اے فرزند آدم تیری نیکیوں میں ، تیری نسبت میرا حصہ زیادہ ہے اور تیری برائیوں میں تیرا حصہ زیادہ ہے تو نے اسی قوت کے ذریعے برائی کو انجام دیا ہے جو میں نے تجھے دی ہے ،،(۲)

____________________

(۱) الوسائل ، مقدمنہ العبادات ، باب مایجوز قصدہ من غایات النیتہ ح ، ص ۱۰

(۲) الوافی باب الخیر و القدر ، ج ۱ ، ص ۱۱۹ :

۶۷۳

ضمیمہ (۲۶) ص ۴۸۷

شفاعت کے مدارک

ایک روایت میں ہے:

''ہر نبی کی کوئی نہ کوئی دعا ہوا کرتی ہے ۔ انشاء اللہ میرا ارادہ یہ ہے کہ میں اپنی دعا کو راز میں رکھوں گا اور روز محشر اپنی امت کی شفاعت کی دعا کروں گا،،

یہ روایت مندرجہ ذیل مدارک میں موجود ہے:

صحیح بخاری کتاب الدعوات ، باب ۱ ، ج ۷ ، ص ۱۴۵۔

صحیح مسلم باب اختباء النبی(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) دعوۃ الشفاعتہ لامتہ ، ج ۱ ، ص ۱۳۰۔۱۳۱ انس اور جابر سے بھی مروی ہے: مالک نے موطا میں ابوہریرہ سے نقل کیا ہے باب ماجاء فی الدعاء ، ج ۱ ص ۱۶۶ طبعتہ مصطفےٰ محمد المشروحہ

ابن ماجہ نے اپنے سنن میں بھی نقل کیا ہے ، باب ذکر الشفاعۃ ، ج ۲ ، ۳۰۱ طبعتہ مطیعۃ العلمینہ مصر۔ احمد نے اپنی سند میں ابوہریرہ سے نقل کیا ہے ، ج ۲ ، ص ۲۷۵ ، ۳۱۳ ، ۳۸۱ ، ۳۹۶ ، ۴۰۹ ، ۴۲۶ ، ۴۳۰ ، ۴۸۶ ، ابوسعید خدری سے بھی منقول ہے ، ج ۳ ، ص ۲ ، انس سے بھی مروی ہے ، ج ۳ ، ص ۱۳۴ ، ۲۰۸ ، ۲۱۸ ، ۲۰۹ ، ۲۵۸ ، ۲۷۶ ، ۲۹۲ ، جابر سے بھی منقول ہے ، ج ۳ ، ص ۳۸۴ ، ۳۹۶ ، ابوذر سے بھی منقول ہے ، ج ۵ ، ص ۱۴۸

خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کتاب کی اشاعت کی نعمت سے نوازا ہمیں امید ہے کہ اس کتاب سے مسلمان اور غیر مسلمان مستفیض ہوں گے اور یہ قرآن اور اس کے اسرار و رموز کو سمجھنے کا باعث بنے گی اللہ تعالیٰ سے اس تفسیر کی تکمیل کی دعا کرتے ہیں جو ہماری آخری آرزو ہے۔

واللہ ولی التوفیق مولف

تمام شد

تصحیح کتاب شریف البیان تاریخ ۹۰ئ/۱/۳۰ ، ۱۴۱۰/۷/۲ ھ : نثار حیدر نقوی نورپور شاہاں اسلام آباد

۶۷۴

فہرست

عرض مترجم ۳

مقدمہ ۶

البیان فی تفسیر القرآن ۶

قرآنی مکتب ۷

فضائل قرآن ۱۵

تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب ۱۶

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب ۲۹

گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکورہ ہیں ۳۳

قرآن میں غور و خوض اور اس کی تفسیر ۳۶

اعجاز قرآن ۳۹

اعجاز کے معنی ۴۰

نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال ۴۱

نبوّت اور اعجاز ۴۳

معجزہ اور عصری تقاضے ۴۸

قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ ۵۲

ایک اعتراض اور اسکا جواب ۵۳

قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ ۵۶

قرآن اور معارف ۶۰

آیات میں ہم آہنگی ۷۶

قرآن اور نظام قانون ۸۲

۶۷۵

قرآن کے معانی میں پختگی ۹۴

قرآن کی غیب گوئی ۹۵

قرآن اور اسرار خلقت ۹۹

اعجازِ قُرآن اور اوہام ۱۰۸

پہلا اعتراض ۱۰۹

جواب: ۱۰۹

دوسرا اعتراض ۱۱۱

جواب: ۱۱۱

تیسرا اعتراض ۱۱۲

جواب: ۱۱۲

چوتھا اعتراض ۱۱۴

جواب: ۱۱۴

پانچواں اعتراض ۱۱۴

جواب: ۱۱۵

چھٹا اعتراض ۱۲۱

جواب: ۱۲۱

ساتواں اعتراض ۱۲۱

جواب: ۱۲۲

آٹھواں اعتراض ۱۲۴

جواب: ۱۲۵

نواں اعتراض ۱۲۶

۶۷۶

جواب: ۱۲۶

قرآن کا مقابلہ ۱۲۸

رسُول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کےدیگر معجزات ۱۳۷

تورات و انجیل میں نبوت محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بشارت ۱۳۷

جواب: ۱۵۰

جواب: ۱۵۴

جواب: ۱۵۷

تورات و انجیل میں نبوّت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بشارت ۱۶۱

قاریوں پر ایک نظر ۱۶۳

تمہید ۱۶۴

۱۔ عبد اللہ بن عامر دمشقی ۱۶۷

۲۔ ابن کثیر مکّی ۱۷۰

۳۔ عاصم بن بہدلہ کوفی ۱۷۲

۴۔ ابو عمرو بصری ۱۷۸

۵۔ حمزہ کوفی ۱۸۲

۶۔ نافع مدنی ۱۸۷

۷۔ کسائی کوفی ۱۹۰

۸۔ خلف بن ہشام بزار ۱۹۲

۹۔ یعقوب بن اسحاق ۱۹۳

۱۰۔ یزید بن قعقاع ۱۹۵

قراءتوں پر ایک نظر ۱۹۷

۶۷۷

تواتر قراءت کے منکرین کی تصریح ۲۰۰

تواتر قراءت کے دلائل ۲۰۶

جواب: ۲۰۶

جواب: ۲۰۷

جواب: ۲۰۸

تتمہ ۲۰۹

قراءتیں اور سات اسلوب ۲۱۰

۱۔ حجیت قراءت ۲۱۵

جواب: ۲۱۶

جواب: ۲۱۶

۲۔ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے ۲۱۹

کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟ ۲۲۱

i ۔ ان روایات کے کمزور پہلو ۲۲۹

ii ۔ روایات میں تضاد ۲۳۰

سات حروف کی تاویل و توجیہ ۲۳۲

۱۔ قریب المعنی الفاظ ۲۳۲

۲۔ سات ابواب ۲۳۸

۳۔ سات ابواب کا ایک اور معنی ۲۴۱

۴۔ فصیح لغات ۲۴۱

۵۔ قبیلہ ئ مضر کی لُغت ۲۴۳

۶۔ قراءتوں میں اختلاف ۲۴۴

۶۷۸

جواب: ۲۴۵

۷۔ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی ۲۴۶

جواب: ۲۴۷

۸۔ اکائیوں کی کثرت ۲۴۸

جواب: ۲۴۸

۹۔ سات قراءتیں ۲۴۹

جواب: ۲۴۹

۱۰۔ مختلف لہجے ۲۴۹

جواب: ۲۵۰

مسئلہ تحریف قرآن ۲۵۲

۱۔ معنی تحریف کی تعریف ۲۵۳

۲۔ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ ۲۵۶

۳۔ نسخ تلاوت ۲۵۸

تحریف، قرآن کی نظر میں ۲۶۳

تحریف اور سنت ۲۶۹

نماز میں سورتوں کی اجازت ۲۷۴

خلفاء پر تحریف کا الزام ۲۷۶

قائلین تحریف کے شبہات ۲۸۲

پہلا شبہ: ۲۸۲

جواب: ۲۸۳

دوسرا شبہ: ۲۸۵

۶۷۹

جواب: ۲۸۷

تیسرا شبہ ۲۹۰

جواب: ۲۹۰

وضاحت: ۲۹۰

روایات تحریف ۲۹۰

روایات کا حقیقی مفہوم ۲۹۴

جواب: ۲۹۹

جواب: ۲۹۹

چوتھا شبہ ۳۰۱

جمع قرآن کے بارے میں نظریات ۳۰۲

جواب ۳۰۳

جمع قرآن کی روایات ۳۰۴

۱۔ جمع قرآن کی احادیث میں تضاد ۳۱۴

٭ قرآن کو مصحف کی صورت میں کب جمع کیا گیا۔ ۳۱۴

٭ حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع قرآن کی ذمہ داری کس نے لی ؟ ۳۱۴

٭ کیا جمع قرآن کا کام زید کے سپرد کیا گیا تھا؟ ۳۱۴

٭ کیا حضرت عثمان کے زمانے تک ایسی آیات باقی تھیں جن کی تدوین نہیں کی گئی؟ ۳۱۵

٭ جمع قرآن میں حضرت عثمان کا ماخذ و مدرک کیا تھا؟ ۳۱۵

٭ حضرت ابوبکر سے جمع قرآن کا مطالبہ کس نے کیا؟ ۳۱۵

٭قرآن جمع کر کے اس کے نسخے دوسرے شہروں میں کس نے بھیجے؟ ۳۱۵

٭ دو آئتوں کو سورہ برائت کے آخر میں کب ملایا گیا؟ ۳۱۶

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689