البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن5%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314022 / ڈاؤنلوڈ: 9314
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

الٰہی نعمتوں سے مستفید ہونے والوں کو جو یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ غضب الٰہی سے بچتے ہیں اس کے مفہوم و اطلاق کو مقید کیا گیا ہے تاکہ یہ جملہ صرف ان لوگوں کو شامل ہو جو دونوں صفات کے حامل ہیں اس طرح یہ آیت ان لوگوں کو شامل نہیں ہو گی جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کاشکر ادا نہیں کیا۔

بنا برایں آیہ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ بندے ، اللہ سے ایسے راستے کی ہدایت کے طالب ہیں جس پر اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند لوگوں میں سے کچھ خاص لوگ گامزن ہیں اور وہ ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور اللہ کی اطاعت میں ثابت قدم رہتے ہوئے آخرت کی نعمتوں سے بھی اسی طرح مستفیض ہوں گے جس طرح دنیا میں اس کی نعمتوں سے مستفیض ہوئے اس طرح دنیا و آخرت دونوں میں انہیں سعادت حاصل ہوئی۔

آیہ شریفہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس جملے کی مانند ہے جیسے کہا جائے : گمراہ کن کتابوں کے علاوہ دوسری کتب اپنے پاس رکھنا جائز ہے،، اس تحیل کی روشنی میں بعض حضرات کے اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ہی اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں ۔

''لفظ،، غیر میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے جو اضافت کی وجہ سے معرفہ نہیں بن سکتا اس لئے یہ کسی معرفہ کی صفت نہیں بن سکتا،،

خلاصہ بحث یہ ہوا کہ کسی بھی جملے، چاہے خبر ہو یا انشائیہ ، میں موجود حکم اگر عام ہو اور موضوع کے تمام افرادکو شامل ہو تو اس کی تخصیص جس طرح ''الا،، وغیرہ سے کی جا سکتی ہے اسی طرح لفظ ''غیر،، کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے گویا آپ یوں کہہ سکتے ہیں میرے پاس سارے شہر والے آئے سوائے فاسقین کے یا سب شہر والوں کا احترام کرو سوائے فاسقین کے۔

۶۲۱

الضآلین

اس لفظ کا عطف ''غیر المغضوب علیھم ،، پر ہے ۔ اس جملے میں ''لا،، نفی کو بھی استعمال کیا گیاہ ے تاکہ نفی کی تاکید ہو اور یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ''مغضوب،، اور ''ضالین،، دونوں کے مجموعے کی نفی کی گئی ہے چنانچہ لفظ ''غیر،، ضمنی طور پر نفی پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس پر وہی حکم جاری کرتے ہیں جو حروف کا ہے مثلاً کہتے ہیں:

جالس رجلا غیر فاسق ولا سئی الخلق ، اعبدالله بغیر کس ولا ملل ،، (یعنی) ''ایسے آدمی کے ساتھ بیٹھو جو فاسق اور بداخلاق نہ ہو۔ اللہ کی عبادت کرو بغیر کسی اکتاہٹ اور سستی کے،،۔

ہمارے بعض تقریباً ہم عصر علمائے کرام کا خیال ہے لفظ ''غیر،، کا استعمال نفی میں صحیح نہیں ہے اس طرح انہوں نے آیہ کریمہ کی توجیہ کرنے میں اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کیا ہے آخر کار کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور اپنی عاجزی کا ا عتراف کر لیا ہے۔

تفسیر

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پہلے توحید فی العبادۃ اور توحید فی الاستعانۃ کا اعتراف کرنے کی تعلیم دی یعنی صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے اس کے بعد اپنے بن دوں کو اس امر کی تلقین کی کہ وہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا مانگیں۔

اس آیہ شریفہ کا پہلا حصہ اللہ کی حمد و ثناء اور بزرگی پر مشتمل ہے اور آخری حصہ ہدایت کی دعا پر ابتدائی اور آخری حصے کے درمیان آیہ شریفہ :ایاک نعبد و ایاک نستعین،، پہلی آیت کے مضمون کا نتیجہ اوربعد والی آیت میں موجود دعا کی تمہید ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں خدا کی جو عظمت و بزرگی بیان کی گئی ہے اس پر عبادت و استعانت (مدد طلبی) کا ذات الٰہی سے مختص ہونے کا دار و مدار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات ، رحمت اور سلطنت کی وجہ سے عبادت کا مستحق ہے اور غیر اللہ عبادت و استعانت کا مستحق نہیں۔

۶۲۲

جب عبادت اور استعانت خدا کی ذات سے مختص ہوئی تو لامحالہ دعا بھی اسی کے دربار میں کی جانے چاہئے یہی وجہ ہے کہ فریقین نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

ان الله تبارک و تعالیٰ قدجعل هذه السورة نصفین : نصف له و نصف لعبده ، فاذا قال العبد : الحمد لله رب العالمین ، یقول الله تعالیٰ : مجدنی عبدی ، و اذاقال : اهدنا الصراط المستقیم ، قال الله تعالیٰ هذا لعبدی و لعبدی ماسال ،، (۱)

''اللہ نے سورہ حمد کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ، آدھا سورہ اللہ کیلئے اور آدھا اس کے بندوں کیلئے ، جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو خالق فرماتا ہے : میرے عبد نے میری عظمت بیان کی ہے اور جب بندہ کہے :اھدنا الصراط المستقیم،، تو خالق فرماتا ہے : یہ میرے عبد کا حصہ ہے میرا بندہ جو مانگے اسے دیا جائے گا،،۔

گزشتہ بحثوں سے معلوم ہوا کہ انسان اپنے ایمان و عقیدہ اوراعمال کے سلسلے میں تین میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔

(۱) وہ راستہ جو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے مقرر کر رکھا ہے اس راستے پر وہ شخص چلتا ہے جسے اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہدایت فرمائی ہے۔

(۲) وہ راستے ، جن پر گمراہ چلتے ہیں۔

(۳) وہ راستہ جس پر غضب الٰہی کے مستحق افراد چلتے ہیں۔

سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ صراط مستقیم جو پہلا راستہ ہے وہ دوسرے دو راستوں سے مختلف ہے بایں معنی کہ صراط مستقیم پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اور دوسرے راستوں پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اس طرح یہاں پر یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جو شخص طریق مستقیم سے انحراف کرے رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے اس لئے کہ وہ گمراہ وتا ہے یا گمراہ ہونے کے علاوہ غضب الٰہی کا بھی مستحق ہوتا ہے۔

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا ۔ باب ماجاء من الرضامن الاخبار المتفرقہ ، ص ۱۶۶ طبع ایران ۱۳۱۷ھ

۶۲۳

اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچائے اور صراط مستقیم کی ہدایت فرمائے۔

مفسرین کا کہنا ہے : اللہ سے وہ شخص ہدایت طلب کرتا ہے جو پہلے سے ہدایت یافتہ نہ ہو اور ایک مسلمان ، جو اللہ کی وحدانیت اور یگانگی کا قائل ہے وہ کیونکر اپنی نماز میں ہدایت کی دعا کرتا ہے۔

اس اعتراض کے کئی جواب دیئے گئے ہیں

(۱) آیت میں ہدایت سے مراد پہلے سے حاصل ہدایت کی بقاء اور دوام ہے یعنی جب اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے فضل و احسان سے ایمان کی ہدایت کر دی تو اب اس کے بندے یہ دعا مانگتے ہیں : پالنے والے ! ہمیں ایمان پر ثابت قدم رہنے اور اسے برقرار رکھنے کی توفیق عنایت فرما تاکہ ہدایت کے بعد کہیں لغزش قدم کے نتیجے میں دوبارہ گمراہ نہ ہو جائیں۔

(۲) ہدایت کا معنی ثواب ہے یعنی بارالٰہا! ہمیں ثواب کے طور پر راہ جنت عطا فرما۔

(۳) ہدایت سے مراد ہدایت میں اضافہ ہے اس لئے کہ ہدایت کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی ہے جو شخص ہدایت کی ایک منزل پر فائز ہو وہ اس سے بلند منزل پر فائز ہونے کی دعا کر سکتا ہے۔

یہ تینوں جوابات خام خیالی اور ظاہر آیہ کریمہ کیخلاف ہیں ۔ صحیح جواب یہ ہے کہ جس ہدایت کی مسلمان اپنی نماز میں دعا کرتا ہے وہ ایسی ہدایت ہے جو اسے پہلے حاصل نہیں اسی لئے اللہ کے حضور اس کے حصول کی دعا مانگی جاتی ہے۔

وضاحت: اللہ کی طرف سے دو قسم کی ہدایت کی جاتی ہے۔

(۱) ہدایت عامہ

(۲) ہدایت خاصہ

۶۲۴

ہدایت عامہ: یہ ہدایت کبھی تکوینی ہوتی ہے اور کبھی تشریعی ۔ تکوینی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے جمادات ، نباتات اور حیوانات غرض تمام موجودات کو ودیعت فرمائی ہے یہ سب چیزیں قدرتی طور پر یا اپنے اختیار سے اپنے کمال اور ارتقائی منازل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اللہ کی ذات نے ان چیزوں میں طلب کمال کی قدرت و دیعت فرمائی ہے:

کیا آپ نے نباتات میں کبھی غور کیا ہے کہ وہ اپنی نشوونما کے دوران ایسے راستے کا انتخاب کرتی ہیں جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، یا کبھی حیوانات کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ موذی حیوانوں کوکیسے دوسروں سے تمیز دے لیتے ہیں مثلاً چوہا بلی سے تو بھاگتا ہے لیکن بکری سے نہیں بھاگتا یا چیونٹی اور شہد کی مکھی اجتماع اور حکومت تشکیل دینے اور اپنی رہائشی جگہ تعمیر کرنے کی ہدایت و رہنمائی کیسے حاصل کرتی ہے ؟ یا شیر خوار طفل پستان مادر کی رہنمائی کیسے حاصل کرتا ہے اور ولادت کے فوراً بعد دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔

( قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ) ۲۰:۵۰

''موسیٰ (ع) نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اسی کے (مناسب) صورت عطا فرمای پھرا سی نے (زندگی بسر کرنے کے) طریقے بتائے،،۔

تشریعی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے انسانوں کی طرف نبی (ع) بھیج کر اور ان پر کتب نازل فرما کر مکمل کی پہلے خدا نے انسان کو عقل اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت دے کر ان پر حجت تمام کی اس کے بعد انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء بھیجے جو انسانوںکے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کرتے اور ان کیلئے مختلف شریعتوں کو بیان کرتے تھے پھر اللہ نے انبیاء (ع) کو معجزات دے کر بھیجا جو ان کی نبوت کا ثبوت اور دلیل بن سکے اس کے بعد کچھ لوگ ہدایت پا گئے اور کچھ گمراہ ہو گئے اور ضلالت ان کا مقدر بن گئی۔

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،

۶۲۵

ہدایت خاصہ: یہ ہدایت تکوینی ہوتی ہے اور یہ اللہ کا خاص لطف و کرم ہے جس سے وہ اپنے بعض مخصوص بندوں کو اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق نوازتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے وہ اسباب و ذرائع فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنے کمال اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں اگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت خاصہ کے ذریعے لوگوں کی ہدایت اور اصلاح نہ فرمائے تو وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگریں ہدایت کی اس قسم کی طرف قرآن کی متعدد آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔

( فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ ) ۷:۳۰

''اسی نے ایک فریق کی ہدایت کی اور ایک گروہ (کے سر) پر گمراہی سوار ہو گئی،،۔

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ اب (تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خدا ہی کے لئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ ) ۲:۲۷۲

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) انہیں منزل مقصود تک پہنچانا تمہارا فرض نہیں (تمہارا کام) صرف راستہ دکھانا ہے مگر ہاں خدا جس کو چاہے منزل مقصود تک پہنچا دے،،

( إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ) ۶:۱۴۴

''خدا ہرگز ظالم قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا،،

( وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۲:۲۱۳

''اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،،

( إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ) ۲۸:۵۶

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) بیشک تم چسے چاہو منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے مگر ہاں خا جسے چاہے منزل مقصود تک پہنچائے،،

۶۲۶

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ ) ۲۹:۶۹

''اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا انہیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے،،

( فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ۱۴:۴

''تو یہی خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہی سب پر غالب حکمت والا ہے،،

ان آیات کے علاوہ بھی قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں جن سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کی ہدایت خاصہ کچھ خاص قسم کے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے سب کو نہیں بنا برایں اس سورہ فاتحہ میں مسلمان پہلے اللہ کی تشریعی و تکوینی ہدایت عامہ کا اعتراف کرتا ہے اس کے بعد درگاہ الٰہی میں تکوینی ہدایت خاصہ کی دعا کرتا ہے جو صرف مخصوص لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان قدرتی طور پر ہلاکت اور سرکشی سے دو چار ہو سکتا ہے اس لئے مسلمان اور موحد کو چاہئے کہ وہ صرف اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے بلکہ اپنے رب سے مدد طلب کرے اور اس سے ہدایت کی دعا مانگے تاکہ وہ اسے صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے اور وہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جو گمراہ اور غضب الٰہی کے مستحق ہیں۔

۶۲۷

ضمیمہ جات

۱۔ حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

۲۔ حارث کی سوانح حیات اور شعبی کے بہتان

۳۔ حدیث شریف''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے۔

۴۔ موتف اور یہودی عالم میں بحث

۵۔ ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

۶۔ رسول اسلام (ص) کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش۔

۷۔ صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

۸۔ محمد عبدہ ، اور تین طلاقیں

۹۔ شیعوں پر رازی کا افترائ

۱۰۔ احادیث اور مشیّت الٰہی

۱۱۔ دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

۱۲۔ آیہ بسم اللہ کی اہمیت

۱۳۔ آغاز آفرینش

۱۴۔ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

۱۵۔ معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

۶۲۸

۱۶۔ رسول خدا کا بسم اللہ پڑھنا اور روایت انس کی توجیح

۱۷۔ ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

۱۸۔ آلوسی کی شیعوں پر بہتان تراشی

۱۹۔ مولف اور حجازی عالم میں بحث

۲۰۔ تربت سید الشہداء (ع) کی حقیقت

۲۱۔ مکاشفہ کے ذریعے آیہ سجود کی تاویل

۲۲۔ ابلیس اور خدا کامکالمہ

۲۳۔ اسلام اور شہداتین

۲۴۔ عبادت اور اس کے عوامل

۲۵۔ الامربین الامرین لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں

۲۶۔ شفاعت کے مدارک

۶۲۹

ضمیمہ (۱) ص ۱۸

حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

حدیث ثقلین کو احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کی جلد ۳ کے صفحہ ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۶ اور ۵۹ پر ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے دارمی نے کتاب فضائل القرآن،، کے جزء ۲ کے صفحہ ۴۳۱ اور احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کے جزء ۴ کے صفحہ ۳۶۶ اور ۳۷۱ پر زید بن ارقم سے اور جزء ۵ کے ص ۱۸۶ ، ۱۸۹ پر زید بن ثابت سے روایت کیا ہے ۔

جلال ادین سیوطی نے ''جامع الصغیر،، میں طبرانی سے اور اس نے زید بن ثابت سے اس کی روایت کی ہے جلال الدین سیوطی نے یہ حدیث نقل کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے علامہ مناوی نے اپنی شرح کی جز ۳ کے صفحہ ۱۵ پر لکھا ہے : ھیثمی کا کہنا ہے '' اس حدیث کے راوی موثق ہیں،،

نیز ابویعلیٰ نے اس حدیث کی ایسے سلسلہ سند سے روایت کی جو قابل خدشہ نہیں ہے حافظ عبدالعزیز ابن الاخضر نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کااضافہ بھی کیا ہے کہ یہ حدیث حجتہ الوداع کے موقع پر صادر ہوئی اور وہ شخص (جیسا کہ ابن جوزی ہے) غلطی پر ہے جو اسے من گھڑت سمجھتا ہے سمھودی کا کہنا ہے کہ اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابہ نے نقل کیا ہے۔

حاکم نے کتاب ''المستدرک،، کی جزء ۳ کے صفحہ ۱۰۹ پر زید ابن ارقم سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اگرچہ روایات کی تعبیریں مختلف ہیں مگر سب کا مطلب ایک ہی ہے۔

۶۳۰

ضمیمہ (۲) ص ۱۸

حارث کی سوانح حیات اور

شعبی کے بہتان ان کا نام حارث بن عبداللہ الاعور الھمدانی ہے علمائے امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ امیر المومنین (علیہ السلام) کے بزرگ اصحاب میں سے تھے علماء کرام نے ان کو عظیم المرتبت ، متقی ، پرہیز گار اور خدمت گزارامیر المومنین (ع) کے لقب سے یاد کیا ہے۔

علماء کرام نے اپنی کتاب رجال اور دیگر کتابوں میں ان کے موثق ہونے کی تصریح کی ہے اہل سنت کے کئی بزرگ علماء نے حارث کا ذکر کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے ابن حجر عسقلانی ''تہذیب التہذیب،، میں لکھتے ہیں،،

''دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ حارث نے ابن مسعود سے حدیث سنی ہے اور یہ قابل خدشہ نہیں ہے،،

عثمان دارمی نے ابن معین سے نقل کیا ہے : ''حارث موثق ہے،،

اشعث ابن سوار نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے ''میں نے کوفہ جا کر دیکھا کہ لوگ پانچ آدمیوں کو دوسروں پر مقدم سمجھتے تھے ان میں سے جو شخص حارث کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر عبیدہ کا نام لیتا تھا اور جو شخص عبیدہ کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر حارث کا نام لیتا تھا،،

ابن ابی داؤد کہتے ہیں ''حارث ، فقہ ، حسب و نسب اور مسائل ارث میں سب سے بہتر تھے آپ نے میراث کے احکام امیر المومنین (ع) سے حاصل کئے،،

۶۳۱

ذہبی حارث کے حالات زندگی میں لکھتا ہے ''حارث کی احادیث سنن اربعہ میں موجود ہیں اور نسائی نے رجال (راویوں) کے سلسلے میں سخت گیر ہونے کے باوجود حارث کی احادیث سے استدلال کیا ہے اور اس کی تائید کی ہے وہ (حارث) علم کے سمندر تھے،،

مرہ بن خالد کہتا ہے کہ محمد بن سیرین نے خبر دی ہے ''اصحاب بابن مسعود میں پانچ افراد ایسے تھے جن کی احادیث قابل قبول ہوتی تھیں ان میں سے چار کی زیارت کی گئی مگر حارث کی زیارت سے محروم رہا حارث کو باقی چاروں پر فضیلت حاصل تھی اور وہ ان سے بہتر تھا،،

مولف: تعصبات و خواہشات کاتقاضا یہی ہے جو شعیی نے کہا ہے ''حارث اعور نے مجھ سے حدیث بیان کی اور وہ (حارث) ایک جھوٹا انسان تھا ،، اس بات میں کچھ اور لوگوں نے بھی شعبی کی متابعت کی ہے۔

عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر کے جزء اول صفحہ ۵ پر لکھتے ہیں۔

درحقیقت حارث کو اس لئے مطعون کیا جاتا ہے کہ ان کے دل میں حب علی (ع) کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ امیر المومنین (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتے تھے اسی لئے شعبی نے اس (حارث) کی تکذیب کی ہے کیونکہ وہ شعبی حضرت ابوبکر کو دوسروں سے بہتر اور پہلا مسلمان سمجھتا تھا،،۔

ابن حجر ، حارث کے حالات میں لکھتا ہے کہ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب ''العلم،، میں حارث کا شبی کی طرف سے طعن و تشینع کا نشانہ بننے کا یہ راز بیان کیا ہے۔

''حارث حب علی (ع) میں انتہا پسند تھے میرے خیال میں شعبی ، حارث کی تکذیب اور اسے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب الٰہی کا مستحق ہو گا اس لئے کہ حارث کی کوئی بھی بات جھوٹ ثابت نہیں ہوئی،،۔

ابن شاہین نے ''ثقات،، میں لکھا ہے کہ احمد بن صالح مصری کہتے ہیں۔

''حارث کتنے مضبوط حافظہ کے مالک تھے اور انہوں نے کتنی اچھی اور زندہ روایات حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہیں،،

۶۳۲

اس کے بعد انہوں نے حارث کی تعریف و ستائش کی ہے احمد بن صالح سے کہا گیا شعبی تو کہتا ہے کہ حارث جھوٹ بولا کرتاتھا احمد بن صالح نے کہا حارث نقل حدیث کے سلسلے میں جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ صرف اس کی اپنی رائے خلاف واقعہ ہوتی تھی۔

خدارا! صاحب بصیرت نقاد بتائیں کیا علم پرور شریعت اور دین اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف فحاشی کی نسبت صرف اس بنیاد پر دی جائے اورا س پر جھوٹ بولنے کی تہمت صرف اس لئے لگائی جائے کہ اسکے دل میں حضرت علی (ع) کی محبت ہے اور کہ وہ حضرت علی (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے ؟ کیا خود رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کے دوسروں سے افضل ہونے کا برملا اعلان نہیں فرمایا یہاں تک کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کو وہ مقام دیا جو حضرت ہارون (ع) کو حضرت موسیٰ (ع) کی نسبت حاصل تھا اور آپ (ع) کو ایسے خصائل و خصوصیات سے نوازا جو دوسرے صحابہ رسول (ص) میں سے کسی کو حاصل نہ تھیں۔

مستدرک حاکم جزء ۳ ، ۱۰۸ کے مطابق سعد ابن ابی وقاص نے معاوضہ کے سامنے ان فضائل کی اس وقت شہادت دی جب معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو امیر المومنین (ع) پر سب و شتم کرنے پر مجبور کرنا چاہا اس موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہا۔

کیف اسب رجلاً کانت لہ خصال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: لو ان لی واحدۃ منہا لکان احب الی من حمر انعم ،،

''بھلا اس ہستی پر میں کیسے سب و شتم کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے فضائل و مناقب سے نوازا جن میں ایک فضیلت بھی مجھے نصیب ہوتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ میں اسے پسند کرتا،،

اس کے بعد سعد بن ابی وقاص نے حدیث کساء ، حدیث منزلت (انت منی بمنزلہ ہارون من موسیٰ ) اور جنگ خیبر میں علم دینے کا واقعہ بیان کیا رسول اللہ (ص) نے صرف انہی فضائل کے بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ امت کے سامنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بلند مقام کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ مستدرک حاکم جزء ۳ ، صفحہ ۱۰۸ پر ہے کہ رسول اللہ (ص) نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا۔

۶۳۳

''من اطاعنی فقداطاع الله و من عصانی فقد عصی الله و من اطاعک فقد اطاعنی و من عصاک فقد عصانی،،

''جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے تیری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی،،

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے فضائل ہیں جو حدو حصر سے باہر ہیں۔

ہاں ! اگر شعبی حارث پر تہمتیں لگائے اور اس کی طرف کذب کی نسبت دے تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ شعبی وہ آدمی ہے جو بنی امیہ اور ان کے ماحول کا پروردہ اور ان کی دنیا میں موج اڑاتا اور ان کی خواہشات کے مطابق عمل کرتا تھا۔

کتاب النجوم الزاہرۃ جزء ۱ صفحہ ۲۰۸ کے مطابق ولید بن عبدالملک کی بیعت کے صلے میں عبدالملک بن مردان نے شعبی کو مصر بھیجا پھر کوفے کے والی و گورنر بشر بن مردان کی طر فسے کوفہ میں اس کا (امور حبیہ میں )وکیل رہا۔

چنانچہ کتاب الاغانی جزء ۲ ، ص ۱۲۰ پر ہے اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے کوفہ کی قضاوت کے منصب پر فائز رہا چنانچہ تاریخ طبری جزئ۵ ، ۳۱۰ پر یہ واقعہ موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات مروانی تھیں اور وہ وہی کچھ کہتا اور کرتا تھا جو خواہشات نفسانی کاتقاضا ہو کسی جھوٹی بات سے نہ اسے کوئی جھجھک ہوتی تھی اور نہ بیہودگی سے یہ باز آتات ھا۔

ابو الفرج نے الاغانی جزء ۱ ، ص ۱۲۱ پر حسن بن عمر فقیمی سے نقل کیا ہے کہ فقیمی کہتا ہے:

''میں شعبی کے کمرے میں اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اتنے میں، میں نے گانے کی آواز سنی میں نے شعبی سے کہا : گانے کی آواز آپ کے ہمسائے کے گھر سے آ رہی ہے میں نے اس کے ساتھ جا کر اس کے مکان کی چھت پر ایک چاند سے حسین و جمیل لڑکے کو دیکھا جوگانےگا رہا تھا حسن بن عمر فقیمی کہتا ہے کہ شعبی نے مجھ سے کہا : جانتے ہو یہ کون ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ شعبی نھے کہا یہ وہ ہے جس کو بچپن ہی میں حکمت عطا کی گئی ہے یہ ابن سریج ہے،،۔

۶۳۴

نیز الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۷۱ پر عمر بن ابی خلیفہ سے منقول ہے۔

''شعبی اور میرے والد گھر کے بالائی حصے میں تھے اتنے میں ہم نے اچھی آواز میں گانے کی آواز سنی میرے والد نے کہا تمہیں کچھ نظر آ رہا ہے ؟ شعبی نے کہا نہیں ۔ اس وقت ہمیں ایک خوبصورت نوجوان لڑکا نظر آیا جو گا رہا تھا اور وہ عائشہ کابیٹا تھا ، شعبی نے اس کے گانے کو پسند کیا اور کہا : خدا جسے چاہتا ہے علم و حکمت سے نوازتا ہے،،۔

الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۱۳۳ پر مذکور ہے ''مصعب بن زبیر نے کوفے پر اپنی گورنری کے دوران شعبی کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی زوجہ عائشہ بنت طلحہ ، جو اس وقت بے حجاب تھی کی خواہب گاہ میں لے گیا اور پھر مصعب نے اپنی زوجہ کے بارے میں شعبی کی رائے پوچھی شعبی نے اپنی رائے ظاہر کی اور اس کی زوجہ کی ایسی ہی تعریف کی جیسی مصعب چاہتا تھا اس پر مصعب نے شعبی کو دس ہزار درہم اور تیس لباس دیئے،،۔

شعبی اگر حارث کو ان الفاظ میں یاد کرے تعجب کی کون سی بات ہے یہ تو وہی شخص ہے جو امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے بارے میں قسم کھا کر کہتا تھا:

لقد دخل علی حضرة و ما حفظ القرآن،،

یعنی ''علی (ع) اپنی قبر میں پہنچ گئے مگر قرآن حفظ نہ کر سکے،،

چنانچہ قرطین کے جزء ۱ ، ص ۱۵۸ پر مذکور عبارت موجود ہے۔

صاحبی ، فقہ اللغۃ کے صفحہ ۱۷۰ پر رقمطراز ہے۔

''شعبی کا یہ جملہ اس شخص کے بارے میں انتہائی بے ہودہ ہے جو کہا کرتا تھا۔

''سلونی قبل ان تفقدونی ، سلونی فمامن آیة الااعلم بلیل نزلت ام بنهار ام فی سهل ام فی جبل ،،

یعنی ''پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تم میں نہ رہوں اس لئے کہ میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ رات کے وقت نازل ہوئی یا دن کے وقت کسی ہموار جگہ پر نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر،،

۶۳۵

سدی نے عبد خبر سے اور اس نے علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے۔

''آپ (ع) نے رسول خدا (ص) کی وفات کے موقع پر لوگوں کو فال بد کی کیفیت میں دیکھا جس کے بعد آپ (ع) نے قسم کھائی کہ جب تک قرآن مجید کو مکمل جمع نہ کر لوں اپنی چادر دوش پر نہیں رکھوں گا عبد خیر کہتے ہیں پس امیر المومنین (ع) نے اپنے بیت الشرف میں گوشہ نشین ہوئے اور وہیں پر آپ نے قرآن جمع کیا یہ وہ پہلا مصحف تھا جس میںق رآن جمع کیا گیا آپ نے اسی قرآن کو جمع کیا جو آپ کے قلب مطہر پر نقش اور زبانی یاد تھا اور یہ قرآن آل جعفر کے پاس تھا،،

ہر غیرت مند مسلمان کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس شخص نے خدا اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کیخلاف اس قسم کی بے ہودہ گوئی کی کیسی جرات کی ہے یہ الفاظ ''قرآن حفظ نہ کر سکا،، اس شخص کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو علم رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے شہر کا دروازہ تھااور آپ (ع) لوگوں کیلئے ان احکام کو بیان کیا کرتے تھے جنہیں دے کر رسول اللہ (ص) کوبھیجاگیا تھا اس مضمون کی بہت سی روایات ہیں جیسا کہ کنز العمال جزء ۶ ص ۱۵۶ پر موجود ہاں ! تو یہ الفاظ اس ہستی کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو حکمت کا شہر تھا جیسا کہ صحیح بخاری جزء ۱۳ ، ص ۱۷۱ پر موجود ہے اور اس شخص کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے قرآن حفظ نہیں تھا جوقرآن کے ساتھ ہے اور قرآن اس کے ساتھ اور یہ اس وقت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر نہ پہنچیں چنانچہ مستدرک الحاکم جزء ۳ ، ص ۱۲۴ اور سیوطی کی جامع الصغیر جزء ۴ ، ص ۳۵۶ پر یہ روایت موجود ہے۔

ان الذین یکسبون الاثم سیجزون ماکانوا یقترفون

''جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں عنقریب ان کو اپنے اعمال کی سزا ملے گی،،

۶۳۶

ضمیمہ (۳) ص ۲۰

حدیث شریف ''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے

یہ حدیث مسند احمد کی جزء ۵ ص ۲۱۸ پر ابی واقدلیثی کی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

بخاری میں کتاب الاعتصام بالکتاب و السنتہ باب قول النبی لتتبعن سنن من قبلکم جزء ۸ ، ص ۱۵۱ ، مسلم کی کتاب العلم باب اتباع سنن الیہود و انصاریٰ جزء ۸ ، ص ۵۷ ، اور مسند احمد جزء ۳ ، ص ۷۴ پر ابی سعید خدری سے یہ حدیث وارد ہے نیز ھیثمی کی کتاب مجمع الزوائد ، جزء ۷ ، ص ۲۶۱ پر ابن عباس سے یہ روایت مروی ہے۔

ضمیمہ (۴) ص ۴۳

مولف اور یہودی عالم میں بحث

ایک مرتبہ ایک یہودی عالم سے اس موضوع پر میری بحث ہوئی کہ شریعت یہود بھی اپنی حجت و دلیل کے ختم ہونے پر ختم ہو جاتی ہے۔

میں نے یہودی عالم سے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر عمل کرنا صرف یہودیوں پر واجب تھا یا یہ کہ یہودیوں کے علاوہ دوسری امتوں پر بھی شریعت موسیٰ ؑ پر عمل کرنا واجب ہے ؟ اگر شریعت موسیٰ ؑ صرف یہودیوں سے مختص ہو تو دوسری امتوں کیلئے کسی اور نبی کا ہونا ضروری ہے بتایئے وہ نبی کون ہے ؟ اور اگر شریعت موسیٰ ؑ تمام اقوام اور امتوں کیلئے ہو تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت کی صداقت اور اس کے تمام امتوں کو شامل ہونے پر کوئی حجت و دلیل پیش کی جائے اور تم کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکتے اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں

۶۳۷

تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ اسلام) کے معجزات کی خبر صرف اسی صورت میں تواتر کی حد تک پہنچ سکتی ہے کہ جب ہر دور میں خبر دینے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ عقلی طور پر ان سب کا جھوٹی بات پر اتفاق ناممکن ہو اور یہ وہ امر ہے جس کو ثابت کرنا تمہارے دائرہ قدرت سے باہر ہے۔

تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کی خبر دیتے ہو ، نصاریٰ حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی خبر دیتے ہیں اور دوسری امتیں اپنے اپنے نبیوں کے معجزات کی خبر دیتی ہیں بھلا ان خبروں میں کوئی فرق ہے اور ایک خبر کو دوسری خبر پر کوئی فوقیت حاصل ہے ؟ اگر لوگوں پر تمہاری خبروں کی تصدیق واجب ہے تو باقی لوگوں کی خبروں کی تصدیق کیوں ضرورت نہیں جو اپنے انبیاء کے معجزات نقل کرتے ہیں جب مسئلے کی صورت یہ ہو تو پھر تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ دوسرے انبیاء کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔

یہودی عالم نے جواب میں کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات یہود ، نصاریٰ اور مسلمان سب کے نزدیک ثابت ہیں اور سب ہی ان کا اعتراف کرتے ہیں جبکہ باقی انبیاء کے معجزات کا سب لوگ اعتراف نہیں کرتے اسی لئے باقی انبیاء کی نبوت محتاج دلیل ہے۔

میں نے کہا : مسلمانوں اور نصاریٰ کے نزدیک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اس لئے ثابت ہیں کہ ان کے نبی (حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت خاتم الانبیا (ص) نے ان معجزات کی خبر دی ہے اس وجہ سے ثابت نہیں کہ خبر متواتر ان معجزات پر دلالت کرتی ہو اگر حضرت موسیٰ ؑ کے معجزات کے بارے میں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد مصطفی (ص) کی خبر کی تصدیق ضروری ہے تو ان کی نبوت کی تصدیق بھی ضروری ہونی چاہئے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں اگر اس سلسلے میں ان کی تصدیق ضروری ہو تو ان کی خبر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بھی ثابت نہیں ہو سکیں گے یہ تو گزشتہ شریعتوں کا حال تھا۔

۶۳۸

جہاں تک شریعت اسلام کاتعلق ہے اس کی حجت اور دلیل ہمیشہ کیلئے باقی ہے اور قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے ایک چیلنج کے طورپر باقی رہے گی جب شریعت اسلام ثابت ہو گی تو اس کی بنیاد پر گزشتہ تمام انبیاء کی تصدیق بھی ہم پر واجب ہو گی اس لئے کہ قرآن مجید نے بھی اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا نے بھی ان انبیاء کی نبوت کی شہادت دی ہے پس معلوم یہ ہوا کہ قرآن کریم ہی وہ یگانہ اور ابدی معجزہ ہے جو تمام آسمانی کتابوں کی صداقت ، اور انبیاء علیہم السلام کی عصمت اور پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے۔

ضمیمہ (۵) ص ۴۳

ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

خداوند عالم نے لوگوں کی ہدایت کیلئے اپنے نبی کو بھیجا اور قرآن کریم کے ذریعے آپ (ص) کی عظمت بیان کی اور لوگوں کو سعادت و ارتقائی مراحل تک پہنچانے والا ہر امر قرآن میں موجود ہے اور یہ خدا کا وہ لطف و کرم ہے جو کسی ایک قوم سے مختص نہیں بلکہ تمام انسانیت کو شامل ہے مشیّت الٰہی یہی ہے کہ اپنے نبی کی قوم کی زبان میں ہی اپنا پیغام آپ (ص) پر نازل کیا جائے جبکہ قرآن کی تعلیمات اور ہدایات ہر دور کے انسانوں کو شامل ہیں اسی نکتہ کے پیش نظر ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ قرآن مجید کو سمجھے تاکہ اس سے ہدایت حاصل کر سکے۔

۶۳۹

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کا ترجمہ قرآن کو سمجھنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن ترجمہ کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترجمہ کرنے والا شخص لغت عربی پر مکمل عبور رکھتا ہو جس سے کسی دوسرے لغت میں قرآن کا ترجمہ کرنا چاہتا ہے۔

اس لئے کہ ترجمہ چاہے کتناہی مستحکم اور مضبوط ہو اس میں فصاحت و بلاغت اور وہ خصوصیات حاصل نہیں ہو سکتیں جن کی بدولت قرآن کو امتیازی مقام حاصل ہے یہی بات قرآن کے علاوہ دوسرے کلاموں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کیونکہ یہ عین ممکن (یہ خطرہ باقی رہتا ) ہے ترجمہ سے اس نتیجہ تک پہنچا جائے جو اس کے اصل مضمون کے بالکل برعکس ہو۔

پس ترجمہ قرآن کیلئے سب سے پہلے قرآن کا سمجھنا ضروری ہے اور قرآن فہمی کا دارو مدار تین چیزوں پر ہے ۔

۱۔ ظہور لفظی جس کو فصیح عرب سمجھیں۔

۲۔ عقل فطری کا حکم ، جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو۔

۳۔ تفسیر قرآن کے سلسلے میں معصومین (ع) کی روایات۔

بنا براین مترجم کیلئے ضروری ہے کہ وہ مندرجہ بالا تین چیزوں کا مکمل احاطہ رکھتا ہو تاکہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کو کسی دوسری لغت میں نقل کر سکے۔

باقی رہی ذاتی رائے جس کو بعض مفسرین اپنی تفسیروں میں پیش کرتے ہیں اور وہ ان گزشتہ رہنما اصولوں کی روشنی میں حاصل نہ ہو تو وہ تفسیر بالرائے ہے اور اس کی کوئی حیثیت اور مقام نہیں مترجم کو چاہئے کہ ترجمہ کے سلسلے میں اس قسم کی تفسیروں کا سہارا نہ لے۔

ترجمہ کے سلسلے میں ان نکات کومدنظر رکھتے ہوئے حقائق قرآن اور اس کے مفاہیم ہر قوم کیلئے اسی کی لغت میں پیش کئے جائیں کیونکہ قرآن تمامل وگوں کی ہدایت کیلئے نازل کیاگیا ہے ، اور جب تک قرآن کی تعلیمات اور اس کے حقائق تمام انسانوں کیلئے لغت قرآن کو ، عام انسانوں اور قرآنی تعلیمات کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہئے۔

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

۳۔ عبداللہ بن ابی ملیکہ سے مروی ہے:

''ایک مرتبہ حضرت عائشہ قبرستان کی طرف سے آئیں میں نے سے پوچھا: ام المومنین آپ کہاں سے آ رہی ہیں ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : اپنے بھائی عبدالرحمن کی قبر سے آ رہی ہوں میں نے کہا : کیا رسول خدا (ص) نے زیارت قبور سے منع نہیں فرمایا تھا ؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا : ہاں ! آنحضرت (ص) نے پہلے منع فرمایا تھا پھر آپ (ص) نے زیارت قبور کا امر فرمایا تھا،،

عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں اس روایت کو اثرم نے بھی اپنے سنن میں ذکر کیا ہے۔

مولف: شیخ محمد حامد فقی اپنے حاشیہ کتاب پر لکھتے ہیں : اس روایت کو ابن ماجہ ، حاکم اور بغوی نے شرح السنتہ میں بھی ذکر کیا ہے۔

۴۔ ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول خدا (ص) قبرستان میں تشریف لائے اور فرمایا:

'دصاحبان ایمان کو ہمارا اسلام ہو ، انشاء اللہ ہم بھی تم سے آ ملیں گے،،

ابوہریرہ کہتے ہیں : اس روایت کو احمد مسلم اور نسائی نے بھی ذکر کیا ہے احمد نے عائشہ سے بھی یہ روایت نقل کی ہے البتہ اس میں اس جملے کا اضافہ ہے : ''خدا یا ہمیں ان مرحومین کے اجرسے محروم نہ فرما اور ہمیں ان کے بعد آزمائش میں نہ ڈال،،

۵۔ بریدہ سے مروی ہے:

''رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں کویہ تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان کی طرف جائیں تو یہ کہا کریں :''السلام علیکم اهل الدیارمن المومنین و اسلمین و انا ان شآء الله بکم لاحقون ، نسال الله لنا ولکم العافیة،، ۔

''ان گھروں میں بسنے والے مومنو اور مسلمانو! ہمارا تم پر سلام ہو ، انشاء اللہ ہم تم سے آ ملیں گے ہم تمہارے لئے اور اپنے لئے خداسے عافیت کے طلب گار ہیں،،۔

ابن تیمیہ کہتے ہیں اس روایت کو احمد ،مسلم اور ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے(۱)

____________________

(۱) المنتقی ٰ ، ج ۲ ، ص ۱۱۶

۶۶۱

۶۔ ابن عمر رسول خدا (ص) سے روایت کرتے ہیں:

''من حج فزار قبری بعد وفاقی کان کمن زارنی فی حیاتی،،

''جو آدمی حج بیت اللہ سے مشرف ہو اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کرے گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی،،

اس روایت کو طبرانی نے اوسط میں اور بیہقی نے سنن میں نقل کیا ہے۔

۷۔ نیز رسول خدا (ص) سے مروی ہے:

''جو شخص میری قبر کی زیارت کرے اس کی شفاعت میرے اوپر واجب ہو جاتی ہے،،

اس روایت کو ابن عدی نے کامل میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

۸۔ انس نے رسول خدا (ص) سے روایت کی ہے۔

''جو شخص (میری معرفت رکھتے ہوئے) مدینہ میں میری زیارت کرے ، روز قیامت میں اس کے اعمال کا گواہ ہونگا یا اس کی شفاعت کروں گا ،،(۱)

۹۔ ابوہریرہ رسول خدا (ص) سے روایت کرتے ہیں:

''جو آدمی اپنے کسی دوست کی قبر کی زیارت کرے اور اسے سلام کر کے اس کے پاس بیٹھ جائے تو (مرحوم) دوست سلام کا جواب دیتا ہے اور جب تک زیارت کرنے والا شخص اس کی قبر پر بیٹھا رہے مرحوم مانوس رہتا ہے ،،(۲)

____________________

(۱) بیہقی نے شعب الایمان میں روایت کی ہے ، کنز العمال ، فضل زیارت القبور ، ج ۸ ، ص ۹۹

(۲) اس روایت کو ابو الشیخ اور دیلمی نے نقل کیا ہے۔

۶۶۲

۱۰۔ ''جو شخص بھی کسی جاننے والے کی قبر کی زیارت کرے اور اسے سلام کرے مرنے والا اسے پہچان لیتا ہے اور اس کا جواب دیتا ہے،،۔

اس روایت کو تمام ، خطیب ، ابن عساکر اور ابن بخار نے نقل کیا ہے صاحب کنز العمال کہتے ہیں ، اس روایت کی سند عمدہ ہے کنز العمال ، ج ۸ ، ص ۹۹ اور ص ۱۲۵ میں اور اس کے بعد اس میں اس مضمون کی تقریباً اسی روایات نقل کی ہیں ، جو حضرات ان روایات سے آگاہ ہوناچاہئے وہ ان کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

۱۱۔ ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''جو شخص بھی مجھے سلام کرے خداوند میری روح کو میری طرف لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں،،(۱)

۱۲۔ ابن عمر حجرا سود کو چھونے اور اس کو چومنے کے بارے میں کہتے ہیں:

''رسول خدا (ص) حجرا سود کو مس کرتے اور بوسہ دیتے تھے سائل نے ابن عمر سے پوچھا: کیا آپ یہ احتمال نہیں دیتے کہ لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے ہم زحمت میں مبتلا ہو جائیں گے ؟ اور بے بس ہو جائیں گے ۔ ابن عمر نے جواب دیا: اس قسم کے احتمالات اور شاید والی باتوں کو ترک کریں میں نے خود رسول اکرم (ص) کو دیکھا ہے کہ آپ (ص) حجرا سود کو سینے سے لگاتے اور اس کو بوسہ دیتے تھے،،

____________________

(۱) سنن بیہقی باب زیارت قبر النبی(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ، ج ۵ ، ص ۲۴۵۔

۶۶۳

اس روایت کوبخاری نے اپنی صحیح میں مسدد سے نقل کیا ہے۔

۱۳۔ ابن عباس کی روایت ہے :

میں نے رسول اکرم (ص) کو دیکھا کہ حجرا سود پر سجدہ کیا کرتے تھے،،(۱)

۱۶۔ داؤد ابن ابی صالح کی روایت ہے

''ایک مرتبہ مروان آیا اور اس نے ایک آدمی کو اپنا چہرہ قبر پر رکھے ہوئے دیکھا چنانچہ مروان نے اس کو گردن سے پکڑا اور کہا تمہیں معلوم ہے کہ اس وقت تم کیا کر رہے ہو ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ، مروان نے آگے بڑھ کر دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ ابو ایوب انصاری ؓ ہیں ۔ ابو ایوب نے مروان سے کہا: میں رسول خدا (ص) کی خدمت میں شرفیاب ہوا ہوں نہ کہ حجرا سود کے پاس آیا ہوں۔ میں نے رسول خدا (ص) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : تم اس وقت دین پر گریہ نہ کرو جب زمام حکومت اس کے اہل کے ہاتھ میں ہو بلکہ اس وقت دین پر گریہ کرو جب دینی حکومت نااہلوں کے ہاتھ میں چلی جائے(۲)

۱۷۔ حافظ ابن عسا کر نقل کرتے ہیں:

''جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) تشریف لائیں اور اپنے والد گرامی رسول اکرم (ص) کی قبر پر آ کر رکیں اور آپ (ص) کی قبر کی مٹی ہاتھ میں لی اور اسے آنکھوں سے لگا کر گر یہ فرمایا،،

____________________

(۱) سنن بیہقی ، باب السجود علیہ علی الحجر ، ج ۵ ، ص ۷۴۔۷۵

(۲) اس روایت کو حاکم نے مستدرک کی جلد ۴ ص ۵۱۵ میں نقل کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ، ذہبی نے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ابن تیمیہ نے حجرا سود کو بوسہ دینے اسے مس کرنے اور اس پر رخسار رکھنے کے بارے میں روایات کو منتقی ٰ کی ج ۲ ، ص ۲۶۱ ، ۲۶۳ میں نقل کیا ہے۔

۶۶۴

۱۸۔ حافظ ابن عساکر سے مروی ہے:

''ایک اعرابی رسول خدا (ص) کی قبر پر آیا اور قبر کی مٹی اپنے سر پر ڈالنے لگا اس کے بعد رسول خدا (ص) سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: یارسول اللہ (ص) آپ (ص) پر نازل ہونے والی آیات میں سے ایک آیت یہ تھی ''اگر لوگ اپنے نفسوں پر ظلم کرنے (گناہ کا مرتکب ہونے) کے بعد تیرے پاس آئیں اور آپ (ص) ان کیلئے طلب مغفرت کریں تو خدا ان کے گناہوں کو بخش دے گا،، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اور آپ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ (ص) میرے لئے مغفرت طلب کریں اتنے میں قبر سے آواز آئی خدا نے تیرے گناہ معاف کر دیئے یہ سارا واقعہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے سامنے پیش آیا،،۔

۱۹۔ نیز ابن عساکر سے مروی ہے:

''ایک مرتبہ جناب بلال ، رسول اللہ (ص) کی قبر پر آئے اور روتے ہوئے اپنا چہرہ خاک قبر پر رکھ دیا اتنے میں امام حسن اور امام حسینہ (علیہما السلام) تشریف لے آئے ، جناب بلال نے ان کو اپنے سینے سے لگایا اور ان کی دست بوسی کی،،(۱)

ضمیمہ (۱۸) ص ۴۷۷

آلوسی کی شیعوں پر بہتان تراشی

اسی کتاب کے ص پر مذکور تہمت (شیعہ خاک کربلا کو سجدہ کرتے ہیں) میں آلوسی نے آیہ شریفہ:

کلواواشربوا حتی یتبین لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر کی تفسیر کے موقع پر یہ الزام لگایا ہے کہ شیعہ روزوں میں طلوع آفتاب تک کھانے پینے کو جائز سمجھتے ہیں۔

____________________

(۱) الغدیر ، ج ۵ ، ۱۲۷۔۱۲۸

۶۶۵

میں نہیں سمجھتا کہ آلوسی کے پاس اس نسبت (الزام) کی کیا دلیل ہے جب کہ وہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں مقیم تھا عراق کو شروع سے اب تک شیعوں کے مرکز کی حیثیت حاصل رہی ہے اور عتبات مقدسہ (زیارات ائمہ) بھی بغداد کے نزدیک ہیں اور شیعوں کے علاوہ دوسرے فرقوں کے ماننے والے وہاں کم ہیں اس کے علاوہ خود آلوسی شیعہ کتابوں سے بخوبی آشنا بھی ہے درحقیقت شیعوں کی طرف اس قسم کی نسبتوں ہی کی وجہ سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور انہیں الزام تراشیوں نے دشمنان اسلام کو مسلمانوں پر مسلط کر دیا ہے اور بعید نہیں کہ اس میں خارجی ہاتھ کارفرما ہو۔

ضمیمہ (۱۹) ص ۴۷۷

مولف اور حجازی عالم میں بحث

سن ۱۳۵۳ھ میں زیارت بیت اللہ سے شرفیاب ہوا اس دوران مسجد نبوی میں میری ملاقات ایک فاضل عالم دین سے ہوئی جو سجدہ گاہ پر نماز پڑھنے والوں کی نگرانی کرتا اور ان سے (سجدہ گاہ) چھین لیتا تھا میں نے اس سے کہا:

شیخنا ! کیا رسول خدا (ص) نے مسلمان کی اجازت کے بغیر ان کے مال میں تصرف کو حرام قرار نہیں دیا ؟ اس نے جواب دیا: کیوں نہیں ! میں نے کہا: توپھر تم ان مسلمانوں سے ان کا مال کیوں چھینتے ہو جبکہ یہ شہادتیں پڑھتے ہیں ؟ اس نے کہا : یہ لوگ مشرک ہیں انہوں نے تربت (خاک کربلا) کو بت بنا رکھا ہے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں میں نے کہا : اگر اجازت ہو تو اس موضوع پر قدرے تفصیلی بحث کی جائے اس نے جواب دیا: کوئی حرج نہیں۔

چنانچہ ہم دونوں میں بحث اور مناظرہ شروع ہوا اور آخر کار اس نے اپنے اس عمل کی معذرت طلب کی اور اپنے رب سے استغفار کرنے لگا اور کہنے لگا: درحقیقت اب تک میں غلطی فہمی کا شکار رہا ہوں۔

۶۶۶

اس کے بعد اس نے مجھ سے درخواست کی کہ (دینے میں قیام کے دوران) مختلف موضوعات پر بحث ہوتی رہے میں نے بھی آمادگی ظاہر کی اور اس طرح ہر شب مسجد نبوی میں بحث و مباحثہ کی ایک محفل تشکیل پاتی تھی مدینہ میں تقریباً دس راتیں ہماراقیام رہا اس دوران مختلف مکاتب فکر کے افراد کا اجتماع ہوتا تھا اور ہم دونوں کے درمیان مختلف موضوعات پر مناظرے ہوتے تھے آخر کار اس حجازی نے ان اعتقادات اور خیالات سے بیزاری کا اظہار کیا جو وہ شیعوں کے بارے میں رکھتا تھا اوراس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ میری ان تمام بحثوں کو رسالہ ''ام القریٰ ،، میں شائع کرے گا تاکہ ان لوگوں کیلئے حق آشکار ہو جائے جو حق سے بغض و عناد نہیں رکھےت اور اشتباہ و غلط فہمی کے شکار ہیں اور یہ کہ وہ اس رسالے کا ایک نسخہ مجھے بھی بھیجے گا۔ مگر اس نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا شاید حالات نے اس کا ساتھ نہ دیا ہو اور اس کے مقصد کی راہ میں رکاوٹ بن گئے ہوں۔

ضمیمہ (۲۰) ص ۴۷۷

تربت سید الشہداء کی فضیلت

ابویعلی ٰ اپنی مسند میں اور ابن ابی شیبہ اذرسعید نے منصور سے اور اس نے اپنی سنن میں مسند علی سے روایت کی ہے:

''ایک مرتبہ میں رسول اللہ (ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ (ص) کی آنکھوںسے آنسو جاری تھے میں نے عرض کیا : یارسول اللہ (ص) کیا آپ (ص) کسی سے خفا ہو گئے ہیں آپ (ص) کے آنسو کیوں جاری ہیں ؟ آپ (ص) نے فرمایا: ابھی کچھ دیر قبل جبرئیل میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ نہر فرات پر میرا نواسہ حسین (ع) شہید کیا جائے گا اس کے بعد انہوںنے پوچھا: کیا آپ (ص) حسین (ع) کی تربت سونگھیں گے؟ میں (ص) نے کہا: ضرور سونگھوں گا چنانچہ جبرئیل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اپنے ہاتھ میں مٹی لا کر مجھے دے دی جس کے بعد میں گریہ کئے بغیر نہ رہ سکا،،

۶۶۷

طبرانی نے کبیر میں جناب ام سلمہ سے روایت کی ہے:

ایک دن رسول خدا (ص) لیٹے آرام فرما رہے تھے یکایک آپ رنجیدہ خاطر بیدار ہوئے اس وقت آپ (ص) کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی مٹی تھی جسے آپ چوم رہے تھے ام سلمہ کہتی ہیں میں نے عرض کی یارسول اللہ (ص) یہ کیسی مٹی ہے ؟ رسول خدا (ص) نے فرمایا: جبرئیل نے مجھے خبر دی کہ آپ (ص) کانواسہ سرزمین کربلا پر شہید کر دیا جائے گا میں نے کہا کہ مجھے وہ خاک دکھا دے جس پر میرا نواسہ (ع) شہید کیا جائے گا یہ وہی مٹی ہے جو جبرئیل نے لا کر دی ہے۔

اسی روایت کو ابن شیبہ نے معمولی اختلاف کے ساتھ ام سلمہ سے روایت کیا ہے ابن ماجہ ، طیالسی اور ابو نعیم نے بھی تقریباً اس مضمون کی روایت نقل کی ہے(۱)

ضمیمہ (۲۱) ص ۴۷۹

مکاشفہ کے ذریعے آیہ سجود کی تاویل

حسن بن منصور کہتے ہیں جب ابلیس سے کہاگیا کہ آدم کو سجدہ کرے تو اس نے خالق سے مخاطب ہو کر کہا:

''میرے دل سے سجدہ کی اہمیت اٹھا لے تاکہ تیرے غیر کیلئے سجدہ کر سکوں اگر تو نے آدم کیلئے سجدہ کا حکم دیا ہے تو اپنے غیر کیلئے سجدہ کرنے سے منع بھی تو فرمایا ہے۔

خالق نے فرمایا: میں تمہیں ابدی عذاب دوں گا ابلیس نے کہا : کیا تو مجھے عذاب دیتے وقت دیکھے گا نہیں ؟ خالق نے فرمایا : کیوں نہیں ابلیس نے کہا تیرا دیدار مجھے عذاب کے دیکھنے پر آمادہ کر رہا ہے تو جو چاہے مجھے عذاب دے ۔(۲)

مولف : ابن روز بہان جیسے اہل مکاشفہ کو اس قسم کا خلاف عقل و قرآن و ضرورت دین مکا شفہ مبارک ہو۔

____________________

(۱) کنز العمال ، ج ۷ ، ص ۱۰۵ ۔۱۰۶

(۲) تفسیر ابن روز بہان ، ص ۲۱ ، طبع ہند۔

۶۶۸

ضمیمہ (۲۲) ص ۴۷۹

ابلیس اور خدا کا مکالمہ

امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے آپ (ع) نے فرمایا:

ابلیس نے کہا : پالنے والے ! مجھے آدم کا سجدہ معاف کر دے میں تیری ایسی عبادت کروں گا جو نہ کسی مقرب فرشتے نے کی ہو گی اور نہ کسی نبی مرسل نے خالق نے فرمایا: مجھے تیری عبادت کی احتیاج نہیں عبادت وہ ہوتی ہے جس کو (جیسے) میں چاہوں وہ نہیں جسے تو چاہے(۱)

نیز امام صادق علیہ السلام نے ایک زندیق سے اس کے اس سوال ، ''خدا نے ملائکہ کو آدم ؑ کیلئے سجدہ کا کیسے حکم دیا ؟،، کے جواب میں فرمایا:

''جو خدا کے حکم پر سجدہ کرے گویا اس نے خدا کیلئے سجدہ کیا ہے پس آدم (ع) کیلئے سجدہ خدا کیلئے سجدہ تھا کیونکہ یہ سجدہ خدا کے حکم پر کیا گیا تھا،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر الصافی تفسیر قول خداوندی فسجدوالاابلیس ، ص ۲۶

(۲) البحار ، باب سجود الملائکہ و معناہ ، ج ۵ ، ص ۳۷

۶۶۹

ضمیمہ (۲۳) ص ۴۸۰

اسلام اور شہادتیں

سماعہ ، امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:

اسلام ، کلمہ لاالہ الا اللہ اور رسول خدا (ص) کی رسالت کی تصدیق کا نام ہے اسی سے مسلمان کا خون محفوظ ہو جاتا ہے اس سے نکاح جائز ہوتاہے اور یہ ارث کا موجب بھی بنتا ہے(۱)

ابوہریرہ نے رسول خدا (ص) سے روایت کی ہے ، آپ (ص) نے فرمایا:

''میں اس وقت تک جہاد کروں گا جب تک کفار لا الہ الا اللہ کی شہادت نہ دیں اور مجھ پر اور اس کتاب پر ایمان نہ لائیں جسے میں لے کر آیا ہوں جب لوگ ان دونوں باتوں پرایمان لے آئیں تو میری طرف سے ان کے جان و مال محفوظ ہو جاتے ہیں مگر یہ کہ اسلامی قوانین کی رو سے کسی مسلمان کا قتل اور اس کا مال ضبط کرنا جائز ہو اس کے بعد ہر شخص کے اعمال اور اس کا ثواب و عقاب خدا کے سامنے ہو گا،،

اس روایت کو جابر اور عبداللہ بن عمر نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے(۲)

صاحب تیسیرالوصول عبداللہ بن عمر کی روایت کے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں اس روایت کو مسلم اور بخاری نے بھی نقل کیا ہے(۳)

____________________

(۱) الوافی الایمان اخص من الاسلام ، ج ۳ ،ص ۱۸

(۲) صحیح مسلم باب الامرقتال الناس حتیٰ یقولوا لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ ج ۱ ، ص ۳۹

(۳) تیسیرا لوصول ج ۱ ، ص ۲۰

۶۷۰

اس روایت کو ترمذی نے ابوہریرہ سے بھی نقل کیا ہے۔

باب ماجاء امرت ان اقاتل الناس حتیٰ یقولوالا الہ الا اللہ ، ج ۱۰ ص ۶۸ ۔ اس روایت کو نسائی نے انس سے بھی نقل کیا ہے کتاب التحریم الدم ، ج ۲ ، ص ۱۶۱ ۔ باب علی مایقاتل الناس ، ص ۲۶۹۔

اس کو احمد نے اپنے مسند کے ج ۲ ، ص ۳۴۵ ، ۵۲۸ پر ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور ج ۳ ، ص ۱۹۹ ، ۲۲۴ پرانس سے نیز ج ۵ ، ص ۲۴۶ پر معاذ بن جبل سے اور ص ۴۳۳ پر اسی مضمون کی روایت کو عبیداللہ بن عدی سے روایت کیا ہے۔

صاحب تیسرا لوصول ، ج ۱ ، ص ۲۰ پر عبیداللہ کی روایت کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: اس کو مالک نے بھی نقل کیا ہے۔

ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:

''مجھے اس وقت تک لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ لاالہ الا اللہ نہ کہیں اور جو شخص لا اللہ الا اللہ کہے میری طرف سے اس کے جان و مال محفوظ ہو جاتے ہیں مگر یہ کہ برحق کوئی قتل کیا جائے یا اس کا مال ضبط کیا جائے باقی اعمال کا حساب کتاب خدا کے پاس ہو گا،،(۱)

اسم کو مسلم ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، ترمذی ، نسائی ، احمد اور طیالسی نے بھی روایت کی ہے۔

____________________

(۱) صحیح بخاری ، باب قتل من ابی قبول الفرائض ، ج ۸ ، ص ۵۰

۶۷۱

اوس بن اوس ثقفی کی روایت ہے:

''ہم مسجد مدینہ کے گنبد کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں رسول خدا (ص) مسجد میں داخل ہوئے پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے رسول خدا (ص) سے سرگوشی میں ایک بات کہی جسے ہم نہ سمجھ سکے البتہ آنحضرت (ص) نے اس کو جواب دیا: جاؤ !ا نہیں کہو اس کو قتل کر دیں اس کے بعد آپ (ص) نے اس شخص کو دوبارہ بلایا اور فرمایا: شاید وہ شخص کلمہ شہادتین پڑھتا ہو۔ اس شخص نے جواب دیا : جی ہاں وہ شہادتین پڑھتا ہے آپ (ص) نے فرمایا: (اگر ایسا ہے) تو جاؤ اور انہیں کہو اسے آزاد کر دیں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک وہ توحید الٰہی اور میری رسالت کی شہادت نہ دیں جب شہادتین کا اقرار کر لیں تو ان کا خون اور مال محترم ہو جاتا ہے مگریہ کہ کسی کو برحق قتل کیا جائے یا اس کا مال ضبط کیا جائے ان کے باقی اعمال کا حساب کتاب خدا کے سامنے ہو گا،،

اس روایت کو ابوداؤد طیالسی ، احمد ، دارمی اور طحاوی نے نقل کیا ہے(۱)

ضمیمہ (۲۴) ص ۴۸۲

عبادت اور اس کے عوامل

محمد بن یعقوب نے اپنی سند سے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:

''بندے تین قسم کے ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو عقاب کے خوف سے عبادت کرتے ہیں یہ غلاموں کی عبادت ہے ، اور کچھ لوگ وہ ہیں جو ثواب کے لالچ میں عبادت کرتے ہیں ، یہ مزدوروں کی عبادت ہے ، کچھ لوگ وہ ہیں جو محض حب خدا کی خاطر عبادت کرتے ہیں یہ آزاد انسانوں کی عیادت ہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے،، شیخ صدوق نے اپنی سند سے امام صادق علیہ السلام سے تقریباً اسی مضمون کی روایت نقل کی ہے۔

____________________

(۱) کنز العمال فی حکم الاسلام ، طبعتہ دائرۃ المعارف العثمانیہ ، ج ۱ ، ص ۳۷۵

۶۷۲

امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

''ایک قوم ایسی ہے جو ثواب کے شوق و رغبت میں عبادت کرتی ہے یہ تاجروں کی عبادت ہے اور ایک قسم وہ ہے جو دوزخ کے خوف سے عبادت کرتی ہے ، یہ غلاموں کی عبادت ہے اور تیسری قوم وہ ہے جو شکر خدا کی خاطر عبادت کرتی ہے خدا کے آزاد بندوں کی عبادت یہی ہے(۱)

ضمیمہ (۲۵) ص ۴۸۴

الامربین الامرین : لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں

حسن بن علی الوشاء نے امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے راوی کہتا ہے:

''میں نے امام علیہ السلام سے پوچھا: کیا خدا نے ہر کام کو بندے کے سپرد کر دیا ہے آپ (ع) نے فرمایا: خدا کی ذات سے بالاتر ہے میں نے کہا: کیا خدا بندوں کو معصیت پر مجبور کرتا ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا : یہ عدل الٰہی کے منافی ہے راوی کہتا ہے : اس کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: خدا فرماتا ہے: اے فرزند آدم تیری نیکیوں میں ، تیری نسبت میرا حصہ زیادہ ہے اور تیری برائیوں میں تیرا حصہ زیادہ ہے تو نے اسی قوت کے ذریعے برائی کو انجام دیا ہے جو میں نے تجھے دی ہے ،،(۲)

____________________

(۱) الوسائل ، مقدمنہ العبادات ، باب مایجوز قصدہ من غایات النیتہ ح ، ص ۱۰

(۲) الوافی باب الخیر و القدر ، ج ۱ ، ص ۱۱۹ :

۶۷۳

ضمیمہ (۲۶) ص ۴۸۷

شفاعت کے مدارک

ایک روایت میں ہے:

''ہر نبی کی کوئی نہ کوئی دعا ہوا کرتی ہے ۔ انشاء اللہ میرا ارادہ یہ ہے کہ میں اپنی دعا کو راز میں رکھوں گا اور روز محشر اپنی امت کی شفاعت کی دعا کروں گا،،

یہ روایت مندرجہ ذیل مدارک میں موجود ہے:

صحیح بخاری کتاب الدعوات ، باب ۱ ، ج ۷ ، ص ۱۴۵۔

صحیح مسلم باب اختباء النبی(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) دعوۃ الشفاعتہ لامتہ ، ج ۱ ، ص ۱۳۰۔۱۳۱ انس اور جابر سے بھی مروی ہے: مالک نے موطا میں ابوہریرہ سے نقل کیا ہے باب ماجاء فی الدعاء ، ج ۱ ص ۱۶۶ طبعتہ مصطفےٰ محمد المشروحہ

ابن ماجہ نے اپنے سنن میں بھی نقل کیا ہے ، باب ذکر الشفاعۃ ، ج ۲ ، ۳۰۱ طبعتہ مطیعۃ العلمینہ مصر۔ احمد نے اپنی سند میں ابوہریرہ سے نقل کیا ہے ، ج ۲ ، ص ۲۷۵ ، ۳۱۳ ، ۳۸۱ ، ۳۹۶ ، ۴۰۹ ، ۴۲۶ ، ۴۳۰ ، ۴۸۶ ، ابوسعید خدری سے بھی منقول ہے ، ج ۳ ، ص ۲ ، انس سے بھی مروی ہے ، ج ۳ ، ص ۱۳۴ ، ۲۰۸ ، ۲۱۸ ، ۲۰۹ ، ۲۵۸ ، ۲۷۶ ، ۲۹۲ ، جابر سے بھی منقول ہے ، ج ۳ ، ص ۳۸۴ ، ۳۹۶ ، ابوذر سے بھی منقول ہے ، ج ۵ ، ص ۱۴۸

خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کتاب کی اشاعت کی نعمت سے نوازا ہمیں امید ہے کہ اس کتاب سے مسلمان اور غیر مسلمان مستفیض ہوں گے اور یہ قرآن اور اس کے اسرار و رموز کو سمجھنے کا باعث بنے گی اللہ تعالیٰ سے اس تفسیر کی تکمیل کی دعا کرتے ہیں جو ہماری آخری آرزو ہے۔

واللہ ولی التوفیق مولف

تمام شد

تصحیح کتاب شریف البیان تاریخ ۹۰ئ/۱/۳۰ ، ۱۴۱۰/۷/۲ ھ : نثار حیدر نقوی نورپور شاہاں اسلام آباد

۶۷۴

فہرست

عرض مترجم ۳

مقدمہ ۶

البیان فی تفسیر القرآن ۶

قرآنی مکتب ۷

فضائل قرآن ۱۵

تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب ۱۶

تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب ۲۹

گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکورہ ہیں ۳۳

قرآن میں غور و خوض اور اس کی تفسیر ۳۶

اعجاز قرآن ۳۹

اعجاز کے معنی ۴۰

نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال ۴۱

نبوّت اور اعجاز ۴۳

معجزہ اور عصری تقاضے ۴۸

قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ ۵۲

ایک اعتراض اور اسکا جواب ۵۳

قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ ۵۶

قرآن اور معارف ۶۰

آیات میں ہم آہنگی ۷۶

قرآن اور نظام قانون ۸۲

۶۷۵

قرآن کے معانی میں پختگی ۹۴

قرآن کی غیب گوئی ۹۵

قرآن اور اسرار خلقت ۹۹

اعجازِ قُرآن اور اوہام ۱۰۸

پہلا اعتراض ۱۰۹

جواب: ۱۰۹

دوسرا اعتراض ۱۱۱

جواب: ۱۱۱

تیسرا اعتراض ۱۱۲

جواب: ۱۱۲

چوتھا اعتراض ۱۱۴

جواب: ۱۱۴

پانچواں اعتراض ۱۱۴

جواب: ۱۱۵

چھٹا اعتراض ۱۲۱

جواب: ۱۲۱

ساتواں اعتراض ۱۲۱

جواب: ۱۲۲

آٹھواں اعتراض ۱۲۴

جواب: ۱۲۵

نواں اعتراض ۱۲۶

۶۷۶

جواب: ۱۲۶

قرآن کا مقابلہ ۱۲۸

رسُول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کےدیگر معجزات ۱۳۷

تورات و انجیل میں نبوت محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بشارت ۱۳۷

جواب: ۱۵۰

جواب: ۱۵۴

جواب: ۱۵۷

تورات و انجیل میں نبوّت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بشارت ۱۶۱

قاریوں پر ایک نظر ۱۶۳

تمہید ۱۶۴

۱۔ عبد اللہ بن عامر دمشقی ۱۶۷

۲۔ ابن کثیر مکّی ۱۷۰

۳۔ عاصم بن بہدلہ کوفی ۱۷۲

۴۔ ابو عمرو بصری ۱۷۸

۵۔ حمزہ کوفی ۱۸۲

۶۔ نافع مدنی ۱۸۷

۷۔ کسائی کوفی ۱۹۰

۸۔ خلف بن ہشام بزار ۱۹۲

۹۔ یعقوب بن اسحاق ۱۹۳

۱۰۔ یزید بن قعقاع ۱۹۵

قراءتوں پر ایک نظر ۱۹۷

۶۷۷

تواتر قراءت کے منکرین کی تصریح ۲۰۰

تواتر قراءت کے دلائل ۲۰۶

جواب: ۲۰۶

جواب: ۲۰۷

جواب: ۲۰۸

تتمہ ۲۰۹

قراءتیں اور سات اسلوب ۲۱۰

۱۔ حجیت قراءت ۲۱۵

جواب: ۲۱۶

جواب: ۲۱۶

۲۔ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے ۲۱۹

کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟ ۲۲۱

i ۔ ان روایات کے کمزور پہلو ۲۲۹

ii ۔ روایات میں تضاد ۲۳۰

سات حروف کی تاویل و توجیہ ۲۳۲

۱۔ قریب المعنی الفاظ ۲۳۲

۲۔ سات ابواب ۲۳۸

۳۔ سات ابواب کا ایک اور معنی ۲۴۱

۴۔ فصیح لغات ۲۴۱

۵۔ قبیلہ ئ مضر کی لُغت ۲۴۳

۶۔ قراءتوں میں اختلاف ۲۴۴

۶۷۸

جواب: ۲۴۵

۷۔ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی ۲۴۶

جواب: ۲۴۷

۸۔ اکائیوں کی کثرت ۲۴۸

جواب: ۲۴۸

۹۔ سات قراءتیں ۲۴۹

جواب: ۲۴۹

۱۰۔ مختلف لہجے ۲۴۹

جواب: ۲۵۰

مسئلہ تحریف قرآن ۲۵۲

۱۔ معنی تحریف کی تعریف ۲۵۳

۲۔ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ ۲۵۶

۳۔ نسخ تلاوت ۲۵۸

تحریف، قرآن کی نظر میں ۲۶۳

تحریف اور سنت ۲۶۹

نماز میں سورتوں کی اجازت ۲۷۴

خلفاء پر تحریف کا الزام ۲۷۶

قائلین تحریف کے شبہات ۲۸۲

پہلا شبہ: ۲۸۲

جواب: ۲۸۳

دوسرا شبہ: ۲۸۵

۶۷۹

جواب: ۲۸۷

تیسرا شبہ ۲۹۰

جواب: ۲۹۰

وضاحت: ۲۹۰

روایات تحریف ۲۹۰

روایات کا حقیقی مفہوم ۲۹۴

جواب: ۲۹۹

جواب: ۲۹۹

چوتھا شبہ ۳۰۱

جمع قرآن کے بارے میں نظریات ۳۰۲

جواب ۳۰۳

جمع قرآن کی روایات ۳۰۴

۱۔ جمع قرآن کی احادیث میں تضاد ۳۱۴

٭ قرآن کو مصحف کی صورت میں کب جمع کیا گیا۔ ۳۱۴

٭ حضرت ابوبکر کے زمانے میں جمع قرآن کی ذمہ داری کس نے لی ؟ ۳۱۴

٭ کیا جمع قرآن کا کام زید کے سپرد کیا گیا تھا؟ ۳۱۴

٭ کیا حضرت عثمان کے زمانے تک ایسی آیات باقی تھیں جن کی تدوین نہیں کی گئی؟ ۳۱۵

٭ جمع قرآن میں حضرت عثمان کا ماخذ و مدرک کیا تھا؟ ۳۱۵

٭ حضرت ابوبکر سے جمع قرآن کا مطالبہ کس نے کیا؟ ۳۱۵

٭قرآن جمع کر کے اس کے نسخے دوسرے شہروں میں کس نے بھیجے؟ ۳۱۵

٭ دو آئتوں کو سورہ برائت کے آخر میں کب ملایا گیا؟ ۳۱۶

۶۸۰

681

682

683

684

685

686

687

688

689