البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 302105
ڈاؤنلوڈ: 8558

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302105 / ڈاؤنلوڈ: 8558
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

قرآنِ کریم میں موجود حقائق و معارف ان موہومات سے پاک ہیں جن سے (موجودہ) انجیل و تورات اور ان کے دیگر علمی مدارک بھرے پڑے ہیں۔ قرآنِ کریم نے بہت سی آیات میں اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات بیان کی ہیں جو اس کی ذات کے لائق ہیں اور اس نے حدوث اور ہر قسم کے عیب و نقص سے اللہ تعالیٰ کو پاک و منزہ قرار دیا ہے، نمونہ کے طور پر چند آیات کا ذکر کرتے ہیں:

۱)( وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّـهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَل لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ ) ۲:۱۱۶

''اور (یہود) کہنے لگے کہ خدا اولاد رکھتا ہے۔ حالانکہ وہ (اس بکھیڑے سے) پاک ہے، بلکہ جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب اسی کا ہے اور سب اسی کے فرمانبردار ہیں۔،،

۲)( بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ) ۱۱۷

''(وہی) آسمانوں اور زمین کا موجود ہے اور جب کسی کام کا کرنا ٹھان لیتا ہے تو اس کی نسبت صرف کہہ دیتا ہے کہ ہو جا پس وہ (خود بخود) ہو جاتا ہے۔،،

۳)( وَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ ) ۱۶۳

''اور تمہارا معبود تو (وہی) یکتا خدا ہے۔ اس کے سوال کوئی معبود نہیں جو بڑا مہربان رحم والا ہے۔،،

۴)( اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ) : ۲۵۵

''خدا ہی وہ (ذات پاک) ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں (وہ) زندہ ہے (اور) سارے جہاں کا سنبھالنے والا ہے، اس کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے (غرض سب کچھ) اسی کا ہے۔،،

۵)( إِنَّ اللَّـهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ ) (۳:۵)

''بے شک خدا پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے (نہ) زمین میں نہ آسمان میں۔،،

۶۱

۶)( هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ۶

''وہی تو وہ (خدا) ہے جو ماں کے پیٹ میں تمہاری صورت جیسی چاہتا ہے بناتا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ (وہی ہر چیز پر) غالب (اور) دانا ہے۔،،

۷)( ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ رَبُّكُمْ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ ) ۶:۱۰۲

''وہی اللہ تمہارا پروردگار ہے، اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے تو اسی کی عبادت کرو اور وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔،،

۸)( لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ) ۱۰۳

''اس کو آنکھیں دیکھ نہیں سکتیں (نہ دنیا میں نہ آخرت میں) اور وہ (لوگوں کی) نظروں کو خوب دیکھتا ہے۔ وہ بڑا باریک بین خبردار ہے۔،،

۹)( قُلِ اللَّـهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ ) ۱۰:۳۴

''تمہیں کہو کہ خدا ہی بھی پہلے پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ زندہ کرتا ہے تو کدھر تم الٹے چلے جارہے ہو۔،،

۱۰)( اللَّـهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ۖ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ ) (۱۳:۲)

''خدا وہی تو ہے جس نے آسمانوں کو جنہیں تم دیکھتے ہو بغیر ستون کے اٹھا کھڑا کردیا (پھر عرش کے بنانے) پر آمادہ ہوا سورج اور چاند کو (اپنا) تابعدار بنایا، کہ ہر ایک وقت مقرر تک چلا کرتا ہے۔ وہی (دنیا کے) ہر ایک کام کا انتظام کرتا ہے اور اسی غرض سے کہ تم لوگ اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہونے کا یقین کرو (اپنی) آیتیں تفصیل دار بیان کرتا ہے۔،،

۶۲

۱۱)( وَهُوَ اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَىٰ وَالْآخِرَةِ ۖ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ) (۲۸:۷۰)

''اور وہی خدا ہے، اس کے سواء کوئی قابل پرستش نہیں۔ دنیا اور آخرت میںاسی کی تعریف ہے اور اسی کی حکومت ہے اور تم لوگ (مرنے کے بعد) اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔

۱۲)( هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَـٰنُ الرَّحِيمُ ) ۵۹:۲۲

''وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہی بڑا مہربان نہایت حرم والا ہے۔،،

۱۳ئ)( هُوَ اللَّـهُ الَّذِي لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمومن الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ ) ۲۳

''وہی وہ خدا ہے جس کے سوال کوئی قابل عبادت نہیں (حقیقی) بادشاہ پاک ذات (ہر عیب سے بری) امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا یہ لوگ جس کو (اس کا) شریک ٹھہراتے ہیں اس سے پاک ہے۔،،

۱۴)( هُوَ اللَّـهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ۲۴

'' وہی خدا (تمام چیزوں کا) خالق موجد صورتوں کا بنانے والا اسی کے اچھے اچھے نام ہیں جو چیزیں سارے آسمانوں و زمین میں ہیں سب اسی کی تسبیح کرتی ہیں اور وہی غالب حکمت والا ہے۔،

خالق کائنات کے یہ اوصاف قرآن کریم نے بیان کیے ہیں اور ایسے معارف کا ذکر کیاہے جو مستحکم دلائل اور عقل سلیم سے ہم آہنگ ہیں۔ اب صاحبان عقل خود ہی فیصلہ کرلیں کہ کیا ایک امی انسان، جس نے ایک جاہل معاشرے میں نشو و نما پائی ہے، کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ایسے بلند پایہ حقائق و معارف پیش کرسکے۔

۶۳

اس کے علاوہ قرآن کریم نے انبیاء کی وہ صفاتِ حسنہ بیان کی ہیں جو ان کے شایان شان ہیں ہر وہ کمال ان سے منسوب کیا ہے جو نبوّت کے تقدّس کے لیے ضروری اور الہٰی نمائندوں کے لیے سزوار ہے۔ ذیل میں وہ آیات درج کی جاتی ہےں:

۱)( الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ ) (۷:۱۵۷)

''جو لوگ ہمارے نبی امّی پیغمبر کے قدم بقدم چلتے ہیں جس (کی بشارت) کو اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں (وہ نبی) جو اچھے کام کا حکم دیتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اور جو پاک و پاکیزہ چیزیں ان پر حلال اور ناپاک گندی چیزیں ان پر حرام کردیتا ہے۔،،

۲)( هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ) ۶۲:۲

''وہی توہے جس نے جاہلوں میں انہیں میں کا ایک رسول (محمد) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور ان کو کتاب اور عقل کی باتیں سکھاتے ہیں اگرچہ اس کے پہلے تو یہ لوگ صریحی گمراہی میں (پڑے ہوئے) تھے۔،،

۳)( وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ ) ۶۸:۳

''اور تمہارے واسطے یقیناً وہ اجر ہے جو کبِھی ختم ہی ہہوگا۔،،

۴)( وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ )

''اور بے شک تمہارے اخلاق بڑے (اعلیٰ درجہ کے) ہیں۔،،

۵)( إِنَّ اللَّـهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ) ۳:۳۳

''بے شک اللہ نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو سارے جہان سے برگزیدہ کیا ہے۔،،

۶۴

۶)( وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ إِنَّنِي بَرَاءٌ مِّمَّا تَعْبُدُونَ ) ۴۳:۲۶

''جب ابراہیم نے اپنے (منہ بولے) باپ (آذر) اور اپنی قوام سے کہا کہ جن چیزوں کو تم لوگ پوجتے ہو میں یقیناً ان سے بیزار ہوں۔،،

۷)( إِلَّا الَّذِي فَطَرَنِي فَإِنَّهُ سَيَهْدِينِ ) : ۲۷

''مگر (اس کی عبارت کرتا ہوں) جس نے مجِھے پیدا کیا تو وہی بہت جلد میری ہدایت کرے گا۔،،

۸)( وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ ) ۶:۷۵

''اسی طرح ہم ابراھیم کو سارے آسمان و زمین کی سلطنت (کا انتظام) دکھاتے رہے تاکہ وہ (ہماری) وحدانیت کا یقین کرنے والوں میں ہوجائیں۔،،

۹)( وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ) ۸۴

''اور ہم نے ابراہیم کو اسحٰق و یعقوب (سا بیٹا، پوتا) عطا کیا، ہم نے سب کو ہدایت کی، اور ان سے پہلے نوح کی (بھی) ہم ہی نے ہدایت کی اور ان ہی (ابراہیم) کی اولاد سے داؤد، سلیمان و ایوب و یوسف و موسیٰ و ہارون (سب کی ہم نے ہدایت کی) اورنیکو کاروں کو ہم ایسا ہی صلہ عطا فرماتے ہیں۔،،

۱۰)( وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ ) : ۸۵

''اور زکریا اور یحییٰ و عیسیٰ و الیاس (سب کی ہدایت کی اور یہ) سب (خدا کے) نیک بندوں میں سے ہیں۔،،

۱۱)( وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ ) :۸۶

''اور اسماعیل و یسع و یونس و لوط (کی بھی ہدایت کی) اور سب کو سارے جہان پرفضیلت عطا کی۔،،

۶۵

۱۲)( وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۸۷

''اور (صرف) نہیں کہ نہیں (بلکہ) ان کے باپ داداؤں اور ان کی اولاد اور ان کے بھائی بندوں میں سے (بہتوں کو) اور ان کو منتخب کیا اور انہیں سیدھی راہ کی ہدایت کی۔،،

۱۳)( وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا ۖ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّـهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمومنينَ ) :۲۷ :۱۵

''اور اس میں شک نہیں کہ ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا اور دونوں نے (خوش ہو کر) کہا خدا کا شکر جس نے ہم کو اپنے بہتیرے ایماندار بندوں پر فضیلت دی۔،،

۱۴)( وَاذْكُرْ إِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ وَكُلٌّ مِّنَ الْأَخْيَارِ ) ۳۸:۴۸

''اور (اے رسول) اسمٰعیل اور یسع اور ذوالکفعل کو (بھی) یاد کرو اور (یہ) سب نیک بندوں میں سے ہیں۔،،

۱۵)( أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ) ۱۹:۵۸

''یہ انبیاء لوگ جنہیں خدا نے اپنی نعمت دی تھی آدم کی اولاد سے ہیں اور ان کی نسل سے جنہیں ہم نے (طوفان کے وقت) نوح کے ساتھ (کشتی پر) سوار کرلیا تھا اور ابراہیم و یعقوب کی اولاد سے ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جن کی ہم نے ہدایت کی اور منتخب کیا، جب ان کے سامنے خدا کی نازل کی ہوئی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو سجدہ میں زار و قطار روتے ہوئے گر پڑتے تھے۔،،

انبیاء کی پاکیزگی، تقدّس اور اوصافِ جمیلہ کے بیان پر مشتمل آپ نے قرآن کی یہ آیات ملاحظہ فرمائیں۔

۶۶

اب دیکھئے کہ تورات و انجیل نے ان انبیاء کرام اور الہٰی نمائندوں کو کن صفات سے یاد کیا اور انہیں کتنا پست مقام دیا ہے۔ نمونہ کے طور پر ذیل میں ان کتابوں کے چند حوالے پیش کئے جاتے ہیں۔

۱۔ تورات، کتاب پیدائش کے باب دوّم اور سوّم میں حضرت آدم و حوا اور ان کے جنت سے نکالے جانے کا قصّہ اس طرح درج ہے:

''خدا نے حضرت آدم کو ہر قسم کا پھل کھانے کی اجازت دی، لیکن خیر و شر کی معرفت کا پھل کھانے سے روک دیا اور فرمایا: جس دن اس (خیر و شر کی معرفت کے) درخت کا پھل کھاؤ گے اسی دن مرجاؤ گے۔ اس کے بعد اللہ تعالی ے حضرت آدم سے ہی ان کی زوجہ حوّا کو خلق فرمایا۔ یہ دونوں بہشت میں برہنہ رہتے تھے، اس لیے کہ وہ خیر و شر کو نہیں سمجھتے تھے۔ پھر سانپ نے آکر اس درخت تک ان کی رہنمائی کی اور انہیں اس درخت کا پھل کھانے پر آمادہ یا اور ان سے کہا: تم اس کے کھانے سے نہی ںمرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جب تم اس میں سے کھاؤ گے تو تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خیر و شر میں تمیز کرنے لگو گے۔ چنانچہ جب انہوں نے اس درخت کا پھل کھایا تو ان کی آنکھیں کھل گئیں اور وہ اپنی برہنگی کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے اپنی لنگیاں بنائیں۔ اللہ تعالیٰ جنت میں ٹہل رہا تھا، نے انہیں دیکھ لیا اس کے بعد حضرت آدم اور حوّا چھپ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پکار کر کہا:

آدم! تم کہاں ہو؟ آدم نے کہا: (بات یہ ہے کہ ) میں آپ کی آواز سن کر فوراً چھپ گیا اس لئے کہ میں برہنہ تھا۔ خدا نے فرمایا: تمہیں کس ے سمجھایا کہ تم برہنہ ہو، تم نے اس درخت کا پھل تو نہیں کھالیا؟ جب خدا کو پتہ چلا کہ آدم نے اس درخت کا پھل کھا لیا ہے تو فرمایا: اب آدم مجِھ جیسا بن گیا ہے اور خیر و شر میں تمیز کرسکتا ہے، اب وہ ہاتھ بڑھا کر شجرہئ حیات کا پِھل بھی کھالے گا اس طرح ابد تک زندہ رہے گا۔ چنانچہ خدا نے آدم کو جنّت سے نکال باہر کیا اور جنّت کے مشرق کی طرف شجرہئ حیات پر پہرہ بٹھا دیا۔،،

۶۷

تورات میں ایک اور جگہ مذکورہ ہے: (کتاب پیدائش کے بارہویں باب میں ایک جگہ مذکور ہے)

''اسی پرانے سانپ کو ابلیس کہا جاتا ہے اور یہ وہی شیطان ہے جو سب کو گمراہ کردیتا ہے۔،،

دیکھا آپ نے؟ ان نام نہاد آسمانی کتب میں کس طرح ذاتِ الہٰی پر بہتان باندھا گیا ہے کہ اس نے آدم سے جھوٹ بولا اور شجرہئ معرفت کے سلسلے میں دھوکہ دہی سے کام لیا۔ خدا کو یہ خوف پیدا ہوگیا تھا کہ آدم کو حیاتِ ابدی حاصل ہوجائے گی اور وہ حاکمیت کے سلسلے میں خدا سے ٹکرا جائے گا اس لیے اس نے آدم کو جنّت سے نکال دیا۔ گویا کہ خدا جسم رکھتا ہے اور وہ جنّت میں چلتا پھرتا ہے۔ خدا کو اس جگہ کا علم نہیں تھا جہاں آدم چھپے ہوئے تھے اور گمراہ کن شیطان نے آدم کو نصیحت کی اور جہالت کی تاریکی سے نکال کر معرفت کے نور کت پہنچایا۔

۲۔ کتاب پیدائش کے بارہویں باب میں ہے:

''حضرت ابراہیم نے فرعون کے سامنے ''سارہ،، کو اپنی بہن ظاہر کیا اور اس کے اپنی بیوی ہونے کو چھپائے رکھا، ''سارہ،، کے حسن و جمال کی وجہ سے فرعون نے اسے حضرت ابراہیم سے لے لیا اور اس کے بدلے حضرت ابراہیم کی مالی مدد کی۔ جس کے بعد حضرت ابراہیم بھیڑ، بکری، گائے، گدھے، اونٹوں، غلام اور کنیزوں کے مالک بن گئے۔ جب فرعون کو معلوم ہوا کہ سارہ حضرت ابراہیم کی بہن نہیں بلکہ بیوی ہیں تو اس نے حضرت ابراہیم سے پوچھا: آپ نے کیوں نہیں بتایا کہ سارہ آپ کی بیوی ہے اور اسے ا پنی بہن کیوں ظاہر کیا؟ جس کی وجہ سے میں ے اسے اپنی بیوی بنالیا۔ یہ کہہ کر فرعوں نے سارہ حضرت ابراہیم کو واپس کردی۔،،

۶۸

۳۔ کتاب پیدائش کے انیسویں باب میں حضرت لوط اور ان کی بیٹیوں کی داستان اس طرح بیان کی گئی ہے:

''لوط کی بڑی بیٹی نے اپنی چھوٹی بہن سے کہا: ہمارا باپ بوڑھا ہوگیا ہے اور روئے زمین پر ایسا کوئی فرد نہیں ہے جو ہم سے ہمبستری کرے۔ ہم یوں کریں کہ اپنے باپ کو شراب پلائیں اور پھر (اس کے نشے کی حالت میں) اس سے ہم آغوش ہو جائیں تاکہ اپنے باپ سے نسل پیدا کریں۔ چنانچہ انہوں نے اس رات اپنے باپ کو شراب پلائی اور پھر بڑی بیٹی اپنے باپ سے ہم آغوش ہوگئی۔ دوسری رات بھی اسے شراب پلائی اور اس دفعہ چھوٹی بیٹی اپنے باپ سے ہم آغوش ہوئی۔ چنانچہ اپنے باپ سے ان کا حمل ٹھہرا۔ بڑی بیٹی نے ایک بچہ جنا جس کا نام ''موآب،، رکھا گیا جو ''موآبیین،، کا باپ ہے۔ چھوٹی بیٹی نے بھی ایک بچہ جنا جس کا نام ''بن عمّی،، رکھا گیا اور وہ آج تک ''بنی عمون،، کا باپ ہے۔،،

یہ وہ اہانتیں ہیں جن کی نسبت موجودہ تورات نے حضرت لوط نبی اور آپ کی بیٹیوں سے دی ہے، ان کتابوں کو پڑھنے والا ہر شخص اپنی عقل کو حاکم قرار دے اور جو چاہے فیصلہ کرے۔

۴۔ بائبل کتاب پیدائش کے ستائیسویں باب میں ہے:

''حضرت اسحاق نے چاہا کہ اپنے بیٹے ''عیسو،، کو نبوّت کا قلمدان سونپیں، یعقوب نے اسحاق کو دھوکہ دیا اور یہ ظاہر کیا ''عیسو،، وہی ہیں۔ یعقوب نے حضرت اسحاق کو کھانا اور شراب پیش کی۔ اسحاق نے کھانا کھایا اور شراب پی۔ اس طرح کے بار بار کے حیلوں اور دھوکہ بازی سے اسے یہ کامیابی حاصل ہوئی کہ اسحاق نے یعقوب کے حق میں دعا مانگی اور کہا: تو اپنے دوسرے بھائیوں کا سردار بن جا۔ تیری ماں کے بیٹے (تیرے بھائی) تیرے آگے جِھکیں، جو تجھ پر لعنت بھیجے اس پر لعنت ہو اور تجھے دعا دینے والے، برکت پائیں۔ جب ''عیسو،، کو معلوم ہوا کہ اس کے بھائی یعقوب نے دھوکہ بازی سے نبوّت کی برکتیںاس سے چھین لی ہیں تو اس نے اپنے باپ اسحاق سے مخاطب ہو کر کہا: بابا! مجھے بھی نبوّت کی برکتوں سے نوازیں۔

۶۹

اسحاق نے کہا: تیرے بھائی یعقوب نے مکر و فریب سے تیری برکتیں لے لیں ہیں۔ ''عیسو،، نے کہا: میرے لیے کوئی برکت باقی نہیں ہے؟ اسحاق نے کہا : میں نے اسے تمہارا سردار مقرر کردیا ہے، اس کے تمام بھائیوں کو اس کا غلام بنا دیا ہے اور گندم و شراب کے ذریعے اسے تقویت پہنچائی ہے۔ بیٹے! اب میں تمہارے لیے کیا کرسکتا ہوں۔ ''عیسو،، ، ''اسحاق،، کی بات سُن کر بلند آواز میں رونے لگا۔،،

کیا یہ معقول بات ہے کہ اس طریقے سے نبوّت چھین لی جائے؟ کیا خدا اس قسم کے دھوکہ بازوں اور کاذبوں کو بھی نبوّت دے دیتا ہے اور اس کے حقیقی اہل اور حقداروں کو محروم رکھتا ہے؟ ا س کے علاوہ کیا یعقوب، اسحاق کی مانند خدا کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگئے؟ کیا خدا اس نبوّت کو یعقوب سے لے کر اس کے صحیح حقداروں کو پلٹانے پر قادر نہیں تھا؟

خدا کی ذات اس قسم کی کمزوریوں سے بالاتر ہے۔ شاید شراب کے نشے میں اس قسم کی بیہودہ باتیں گھڑی گھی ہیں اور شرابنوشی کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی طرف نسبت دی گئی ہے۔

۰۵ اصحاح اور بائبل میں ہے: (کتاب پیدائش کے اٹھائیسویں باب میں ہے)

''حضرت یعقوب کے بیٹے ''یہوذا،، نے اپنے بیٹے ''عیر،، کی بیوی ''ثامار،، سے زنا کیا۔ اس سے اس کا حمل ٹھہرا اور اس نے دو بچوں ''فارص،، اور ''زارح،، کو جنم دیا۔،،

اس کے علاوہ انجیل متی کے اصحاح اوّل میں یسوع مسیح کے نسب کا تفیصلاً ذکر کیا گیا ہے۔ اس کی میں حضرت مسیح، سلیمان اور ان کے والد داؤد کو ''فارص،، ، جو ''یہوذا،، کے اپنی بہو ''ثامار،، سے زنا کے نیتجے میں پیدا ہوا، کی نسل سے قرار دیا ہے۔

نعوذ باللہ کہ انبیاء (علیہم السلام) اولاد زنا ہوں، یہ کیونکر ممکن ہے کہ انبیاء پر پنے محرموں سے زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے کا الزام لگایا جائے۔ موجودہ تورات لکھنے والوں کو کوئی پرواہ نہیں تھی کہ وہ کیا لکھ اور کیا کہہ رہے ہیں۔

۷۰

۶۔ بائبل میں ہے:

''حضرت داؤد نے ایک مومن مجاہد ''اوریا،، کی بیوی سے زنا کیا۔ اس زنا سے اس کا حمل ٹھہرا، داؤد کو رسوائی کا خوف ہوا اور اس نے اس واقعہ پر پردہ ڈالنے اور ''اوریا،، کو تاریکی میں رکھنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ''اوریا،، کو حکم دیا کہ گھر جا کر اپنی زوجہ سے ہمبستری کرے۔ ''اوریا،، نے اس سے انکار کردیا اور کہا: آقا! ''یوآب،، اور میرے آقا کے غلام صحراؤں میں ہوں اور میں اپنے گھر جا کر کھانے پینے اور اپنی بیوی کے ساتھ عیاشی میں مصروف رہوں۔ آپ کی زندگی کی قسم! میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتا۔ جب داؤد اس طرح اپنے جرم پر پردہ ڈالنے سے مایوس ہوگئے تو انہوں نے ''اوریا،، کو اپنے گھر بلایا اور اسے کھانے کی دعوت دی اور اسے شراب پلا کر مست کردیا۔ دوسرے دن ''داؤد،، نے ''یوآب،، کو لکھا کہ ''اوریا،، کو میدانِ جنگ میں سب سے آگے رکھو اور خود پیچھے ہٹ جاؤ تاکہ یہ مارا جائے۔ ''یوآب،، نے یونہی کیا۔ ''اوریا،، جنگ میں مارا گیا اور اس کی اطلاع داؤد کو دے دی گئی۔ داؤد نے ''اوریا،، کی بیوی کو اپنے گھر بلایا ارو اس کے شوہر کے سوگواری کے دن ختم ہونے کے بعد اس سے شادی کرلی۔،،

انجیل متی کے اصحاح اوّل میں ہے کہ ''سلیمان ابن داؤد،، اسی عورت سے پیدا ہوئے۔

غور کیجئے! اس جعل ساز نے خدا کے سامنے کتنی بڑی جراءت کی ہے۔ خدا کا نبی کجا کیا ایک عام غیرت مند انسان کی طرف بھی اس قسم کے کاموں کی نسبت دی جاسکتی ہے؟ اور انجیل لوقا میں یہ جو لکھا ہے کہ مسیح اپنے باپ داؤد کی کرسی پر بیٹھتا ہے مذکورہ قصّے سے کس طرح مطابق رکھتا ہے؟

۷۱

۷۔ تورات کے گیارہوں باب میں ہے:

''حضرت سلیمان کی سات سو معزز بیویاں اور تین سو کنیزیں تھیں۔ ان عورتوں نے آپ کو دوسرے خداؤں اوربتوں کی طرف مائل کردیا۔ چنانچہ حضرت سلیمان صید و نیوں کی دیوی ''عشتورث،، اور عمونیوں کی نفرتی ملکوم کی پیروی کرنے لگا اور اللہ کے سامنے اس نے برائی کی حضرت سلیمان کے اس عمل سے ان کا خدا غضبناک ہوگیا اورفرمایا کہ مںی تجھ سے تیری حکومت لے کر تیرے غلام کو دے دیتا ہوں۔،،

اسی تورات میں ہے:

''یوسبہ بادشاہ نے ان اونچے مقاموں پر نجاست ڈلوائی جو یروشلم کے مقابل کوہ الایق کے داہنی طرف تھے، جن کو اسرائیل کے بادشاہ ''سلیمان،، نے صیدونیوں کی دیوی ''عشتورث،، اور موآبیوں کی ''نفرتی کموس،، اور بنی عمون کی نفرتی ملکوم کے لئے بنایا تھا اور اس نے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور درختوں کو کاٹ ڈالا۔،،

فرض کریں کہ نبی کے لیے معصوم ہونا ضروری نہیں (اگرچہ عقلی دلائل ان کی عصمت پر دلالت کرتے ہیں) لیکن کیاایک نبی کے لیے عقلی طور پر جائز ہے کہ وہ بتوں کی عبادت کرے اور ان کے لیے عالیشان بتکدے تعمیر کرے لیکن لوگوں کو توحید اور خدا کی عبادت کی طرف دعوت دے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔

۷۲

۸۔ کتاب ''ہوشع،، کے باب اوّل میں ہے:

''سب سے پہلے خدا نے ''ہوشع،، سے یہ کہا: جاؤ! اور اپنے ایک زانی عورت اور زانی اولاد کا انتخاب کرو۔ کیونکہ یہ زمین زنا کرتے ہوئے اپنے ربّ سے برگشتہ ہوئی تھی، چنانچہ ''ہوشع،، گئے اور اپنے لئے ''جومر بنتو بلایم،، کا انتخاب کیا اس سے حمل ٹھہرا اور اس کے یہاں دو بچے اور ایک بچی پیدا ہوئی۔،،

اسی کتاب ''ہوشع،، کے تیسرے باب میں ہے:

''خدا نے ان سے کہا: جاؤ اور ایک زانی اور آشنا رکھنے والی عورت سے ایسی محبت کرو جیسی رب، بنی اسرائیل سے کرتا ہے۔،،

کیا خدا کے اوامر ایسے ہوا کرتے ہیں کہ وہ اپنے نبی کو زنا اور زانی عورتوں سے محبت کا حکم دے؟ نعوذ باللہ من ذالک، تعجّب اس بات پر ن ہیں کہ لکھنے والے نے ان باتوں کو قبیح نہیں سمجھا۔ ہمیں تعجّب ان ترقی پسند اورمہذب اقوام اور ان علوم کے ماہرین پر ہے جو موجودہ تورات کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس میں موجود خرافات سے آگاہ ہیں۔ وہ کس طرح اس کتاب کے وحیِ الہیٰ اور آسمانی ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ در حقیقت آباؤ اجداد کی اندھی تقلید طبیعت ثانیہ بن جاتی ہے جسے چھوڑ کر حقیقت کی پیروی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ خدا ہی راہ مستقیم کی ہدایت اور کار خیر کی توفیق دینے والا ہے۔

۹۔ انجیل کے بارہویں، مرقس کے تیسرے اور لوقا کے آٹھویں باب میں ہے:

''حضرت مسیح ایک اجتماع سے خطاب کررہے تھے، اتنے میں آپ کی والدہ اور آپ کے بھائی آئے اور انہوں نے آپ سے ہمکلام ہونے کی خواہش کی۔ مجمع میں سے ایک شخص نے جناب مسیح سے کہا کہ آپ کی والدہ اوربھائی باہر کھڑے ہیں اور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے جواب دیا: یہ میری والدہ اور میرے بھائی کون ہیں؟ اس کے بعد ہاتھ سے اپنے شاگردوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: میرے بھائی بہن اور ماں وہی ہیں جو آسمان میں موجود باپ کی مشیئت کے مطابق کام کرتے ہیں۔،،

۷۳

اس کلام کو پڑھیں اور دیکھیں کہ اس میں کتنی خرافات ہیں۔ جناب مسیح اپنی طاہرہ و مطاہرہ والدہ گرامی کو نہ صرف جھڑک دیتے اور اپنے دیدار تک سے محروم رکھتے ہیں بلکہ اپنے شاگردوں کو اپنی والدہ گرامی پر ترجیح دیتے اور اپنے شاگردوں کو افضل سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ وہی شاگرد ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح نے فرمایا تھا:انهم لا ایمان لهم (ان میں ایمان کی بو تک نہیں ہے)۔ جیسا کہ مرقس کے چوتھے باب میں موجود ہے۔

چنانچہ متی کے سترھویں باب میں ہے ''آپ نے شاگردوں کے بارے میں فرمایا کہ ان کے دل میں رائی کے دانہ جتنا بھی ایمان نہیں ہے۔ یہ وہی شاگرد ہیں کہ جب یہودی مسیح پر حملہ آور ہوئے تو آپ نے شاگردوں سے کہا کہ رات میرے ساتھ بیدار رہو تو انہوں نے آپ کے ساتھ بیدار رہنے سے انکار کردیا اور جب یہود نے آپ کو ظاہری طور پر گرفتار کرلیا تو یہ سب آپ کو تنہا چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ جیسا کہ انجیل متی کے چھبیسویں باب میں ہے اوران کے علاوہ بھی بہت سی برائیاں ان شاگردوں سے منسوب کی گئی ہیں۔،،

۱۰۔ یوحنا کے دوسرے باب میں ہے:

''جناب مسیح نے شادی کی ایک تقریب میں شرکت کی۔ اس تقریب میں پیش کی جانے والی شراب جب ختم ہوگئی تو آپ نے معجزہ سے شراب کے چھ مٹکے ان کے لیے حاضر کیے۔،،

متی کے گیارہویں اور لوقا کے ساتویں باب میں ہے:

''جناب مسیح شراب خور تھے اور نہ صرف آپ شراب خور تھے بلکہ آپ کثرت سے شراب نوشی کیا کرتے تھے۔،،

حاشا وکلا حضرت مسیح (علیہ السلام) کی ذات اس قسم کے بہتان اور الزامات سے کوسوں دُور ہے۔

۷۴

تورات میں ہے:

''اللہ تعالیٰ نے جناب ہارون سے کہا، جب آپ کسی اجتماع میں داخل ہوں تو نہ شراب پئیں اور نہ دیگر نشہ آور اشیاء استعمال کریں تاکہ آپ کو موت نہ آجائے اور یہ حکم آپ کی آئندہ نسلوں کے لیے بھی واجب الاتباع ہے تاکہ مقدس و حلال اور نجس و طاہر میں تمیز ہوسکے۔،،

لوقا کے باب اوّل میں یوحنا کی مدح و تعریف میں جملہ آیا ہے:

''وہ خدا کے نزدیک عظیم ہوگا اور شراب و نشہ آور چیزیں استعمال نہیں کرے گا۔،،

اس قسم کے اور دلائل بھی موجود ہیں جو عہد نامہ ئ قدیم و جدید میں بھی شراب کے حرام ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔

موجودہ اور مروجہ کتب عہدین میں موجود کچھ ان خرافات اور بیہودہ باتوں کا ذکر بطور نمونہ کیا گیا۔

اس قسم کی گمراہ کن باتیں جو کسی دلیل سے مطابقت نہیں رکھتیں اور نہ ہی کسی منطق سے ان کا واسلطہ ہے، ہم نے قارئین کے سامنے اس لیے پیش کی ہیں کہ وہ انہیں بغور پڑھیں اور اپنے عقل و وجدان سے فیصلہ کریں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بارے میں یہ کہا جائے کہ آپ نے اپنے معارف، تعلیمات اور قرآن میں موجود احکام، اس قسم کی خرافات پر مشتمل کتب سے لئے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اس قسم کی گمراہ کن باتوں اور خرافات پر مشتمل کتب کو وحی آسمانی سے منسوب کیا جائے یہ کتابیں ایسی ہیں جنہوں نے انبیاء کی عظمت و تقدّس کو آلودہ کیا ہے اس کی دلیل وہ داستانیں ہیں جن کا ذکر ہم نے گذشتہ صفحات میں کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی داستانیں ہیں جنہیں ہم اس کتاب میں نقل نہیں کررہے۔(۱)

____________________

(۱)''الهدیٰ الی دین المصطفیٰ و الرحلة المدرسیة یشخنا البلاغی،، اور ہماری کتاب''نفحات الاعجاز،، کو ملاحظہ فرمائیں، ان کتب میں مزید خرافات نقل کی گئی ہیں۔

۷۵

آیات میں ہم آہنگی

ہر عاقل اور تجربہ کار یہ سمجھتا ہے کہ جب کوئی شخص جھوٹ اور غلط بیانی کی بنیاد پر قانون بناتا یا حوادث و واقعات بیان کرتا ہے تو اس کی باتوں میں خواہ مخواہ تضاد اور اختلاف پایا جاتا ہے، خصوصاً اگر یہ شخص قانون سازی، عمرانیات، عقائد اور اخلاقیات کے دقیق مسائل عرصہ دراز تک بیان کرتا رہے تو لازماً وہ تضاد بیانی کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ ناقص بشر کی طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ اگر کوئی اس کی اصلاح نہ کرے تو وہ ضرور اپنے علم میں تضاد ہو جاتا ہے۔ یہ ضرب المثل مشہور ہے:

دروغ گو را حافظہ نہ باشد۔

قرآن کریم میں مختلف معاملات کا ذکر ہے اور ان پر مفصّل بحث کی گئی ہے۔ چنانچہ الہیات، نبوّت، تعلیم احکام کے بنیادی اصول، سیاسیات اور اخلاقی اصولوں پر بحث کی گئی ہے۔ فلکیات و تاریخ سے متعلّق مسائل، صلح و جنگ کے قوانین، ملک، ستارے اور ہواؤں جیسی آسمانی موجودات اور سمندروں، نباتات اور انسانوںجیسی زمینی موجودات کا اس میں ذکرملتا ہے، ان کے علاوہ مختلف قسم کی مثالوں کا قرآن کریم میں ،کر ہے اور قیامت کی ہولناکیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں میں کسی قسم کا تضاد یا اختلاف نہیں پایا جاتا اور نہ ہی عقل اور عقلاء کے نزدیک ان کا کسی مسلمہ اصول سے اختلاف ہے، بلکہ بعض اوقات ایک ہی واقعہ دو مرتبہ یا کئی مرتبہ دھرایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں معمولی سا بھی اختلاف نظر نہیں آتا۔

۷۶

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصّہ آپ کے سامنے ہے۔ قرآن کریم میںکئی مرتبہ اس کا ذکر کیا گیا ہے اور ہر مرتبہ اس میں کوئی نہ کوئی خصوصیت دکھائی دیتی ہے لیکن اصل مطلب کے اعتبار سے اس میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔

خصوصاً جب آپ اس پہلو پر توجہ دیں کہ قرآن کریم ایک ہی مرتبہ نازل نہیں ہوا بلکہ تھوڑا تھوڑا کرکے اور مختلف واقعات کی مناسبت سے اس کی آیات نازل ہوئی ہیں تو آپ یقین کریں گے قرآن کریم اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ کلام ہے، اس لیے کہ قرآن کریم کا مختلف مقامات پر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نازل ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ جب اسے جمع کیا جائے تو اس میں ہم آہنگی نہ پائی جائے۔ حالانکہ قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ جب یہ متفرق اجزاء کی صورت میں نازل ہوا تھا تو معجزہ تھا جب اسے یکجا کردیا گیا تو بھی معجزہ ہے، اعجاز کے اس پہلو کو خود قرآن کی اس آیہ میں بیان کیا گیا ہے:

( أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّـهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ) ۴:۸۲

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں بھی غور نہیں کرتے اور (یہ نہیں خیال کرتے کہ) اگر خدا کے سوا کسی اور کی طرف سے (آیا) ہوتا تو ضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے۔،،

اس آیت کریمہ میں قرآن لوگوں کو اس چیز کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے جسے وہ فطری طور پر محسوس کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جس شخص کا دعویٰ کذب وافتراء پر مبنی ہوتا ہے اس کے کلام میں ضرور تناقض و تضاد ہوتا ہے اور یہ چیز قرآن کریم میںموجود نہیں ہے۔

۷۷

استدلال کی یہ روش قرآن کریم نے اکثر مواقع پر اختیار کی ہے۔ اس طرح وہ ایک فطری فیصلے کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے اور اپنی فطرت کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتا ہے اورہدایت کار طریقہ بہترین و کامیاب ہے۔

عربوں نے بھی اسلوب قرآن کی اس استقامت اور ہم آہنگی کو محسوس کرلیا تھا اور ان کے فصحاء و بلغاء کو اس کا یقین تھا۔اس کا ثبوت ولید بن مغیرہ کے وہ کلمات ہیں جو اس نے قرآن کریم کی تعریف میں کہے تھے، جب ابو جہل نے قرآن کریم کے بارے میں کچھ کہنے کے لیے کہا تو اس نے کہا:

فما أقول فیه؟ فو الله ما منکم رجل أعلم فی الأشعار منی و لا أعلم برجزه منی، ولا بقصیده ،ولا بأشعار الجن، والله یشبه یقول شیأاً من هذا، و والله ان لقوله لحلاوة، لیحطم ما تحته، و انه لیعلو ولایعلی

'' میں قرآن کے بارے میں کیا کہوں۔ خدا کی قسم تم جانتے ہو شعر و شاعری، رجز خوانی و قصیدہ خوانی میں میرے پائے کا کوئی آدمی نہیں ہے بلکہ جنات کے کلام اور اشعار کو سمجھنے میں بھی میرے پاے کا کوئی آدمی نہیں۔ مگر خدا کی قسم قرآن جو کچھ کہتا ہے و کسی سے نہیں ملتا۔ خدا کی قسم قرآن کریم میںایک خاص مٹھاس ہے ار اس کے مقابلے میں دوسرے تمام کلام درہم برہم نظر آتے ہیں اور یہ ہمشیہ غالب ریگا اور کبھی مغلوب نہیں ہوسکتا۔،،

ابوجہل نے کہا:

قال أبو جهل: و الله لا یرضی قومک حتی تقول فیه

''خدا کی قسم جب تک تم قرآن کی مذمّت میں کچھ نہ کہو گے تمہاری قوم تم سے ہرگز راضی نہیں ہوسکتی۔،،

۷۸

ولید نے کہا:

قال الولید: فدعنی حتی افکر فیہ فلما فکر

''مجھے سوچنے دو۔،،

ولید نے سوچ کر کہا:

قال: ھذا سحر یاءثرہ عن غیرہ(۱)

''یہ سحر ہے جسے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) دوسروں سے نقل کررہے ہیں۔،،

بعض روایات میں ہے کہ ولید نے کہا:

''و الله لقد سمعت منه کلاماً ما هو من کلام الانس و من کلام الجن، و ان له لحلاوة، و ان علیه لطلاوة و ان أعلاه لمثر، و ان أسفله لمغدق، و انه لیعلو و لا یعلی علیه، و ما یقول هذا بشر ۔۔۔(۲)

''خدا کی قسم! محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے جو کلام سنا ہے وہ نہ کسی انسان کا ہوسکا ہے اور نہ کسی جن کا، اس میں جیب مٹھاس اور تازگی پائی جاتی ہے۔ وہ پر ثمر درخت ہے۔ وہ ریشہ دار کلام ہے۔ وہ ہمشیہ غالب رہے گا اور اس پر کبھی کوئی غلبہ نہیں پاسکتا اور کوئی بشر ایسا کلام پیش نہیں کرسکتا۔،،

اگر آپ یہ حقیقت خود محسوس کرنا چاہتے ہیں تو وحی کی طرف منسوب ان کتابوں کو بغور پڑھیئے، آپ دیکھیں گے کہ ان میں تضاد پایا جاتا ہے، ان کے اسلوب میں اضطراب ہے اور ان کا کلام ثابت و قائم رہنے والا نہیں ہے۔ آپ جب کتب عہدین میں موجود اختلاف و تناقص کو دیکھیں گے تو آپ پر حقیقت آشکار ہو جائے گی اور حق و باطل میں آپ تمیم کرلیں گے۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۲۹، ص ۹۸

(۲) تفسیر القرطبی، ج ۱۹، ص۷۲

۷۹

ذیل میں انجیل میں موجود کچھ اختلافات بطور نمونہ ذکر کئے جاتے ہیں:

۱۔ انجیل متی کے بارہویں اور لوقا کے گیارہویں باب میں ہے، حضرت مسیح نے فرمایا:

''جو میرے ساتھ نہیں وہ میرے خلاف ہے اور جو میرے ساتھ اجتماع نہیں کرتا وہ بکھر جاتا ہے۔،،

مرقس اور لوقا کے نویں باب میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہمارے ساتھ ہے۔،،

۲۔ متی کے انیسویں، مرقس کے دسویں اور لوقا کے اٹھارھویں باب میں ہے:

''کچھ لوگوں نے جناب مسیح سے کہا: اے صالح معلّم۔ آپ نے فرمایا: مجھے صالح کہہ کر کیوں پکار رہے ہو، صالح صرف ایک ہی ہے اور وہ خدا کی ذات ہے۔،،

یوحنا کے دسویں باب میں ہے کہ آپ نے فرمایا:

''میں صالح چرواھا ہوں۔،،

۳۔ متی کے ستائیسویں باب میں ہے:

''جو دو چور حضرت مسیح کے ساتھ مصلوب کئے گئے تھے وہ حضرت مسیح کو برا بھلا کہتے تھے۔،،

اور لوقا کے ستائیسویں باب میں ہے:

''جن دو گناہ گاروں کو آپ کے ساتھ مصلوب کیا گیا تھا ان میں سے ایک نے حضرت عیسیٰ پر طنز کیا اور کہا: اگر آپ واقعی مسیح ہیں تو اپنے آپ کو اور مجِھے اس دار سے چھٹکارا دلائیں۔ دوسرے نے جواب دیا: تو خدا سے نہیں ڈرتا جبکہ تو اس سزا میں گرفتار بھی ہے۔،،

۸۰