البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 313941 / ڈاؤنلوڈ: 9312
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۴۔ انجیل یوحنا کے پانچویں باب میں ہے کہ مسیح نے فرمایا:

''اگر میں اپنے حق میں گواہی دوں تو میری یہ شہادت برحق نہیں ہوگی۔،،

اسی انجیل کے آٹھویں باب میں ہے کہ حضرت مسیح نے فرمایا:

''اگر میں اپنے لیے گواہی دوں تو میری گواہی برحق ہوگی۔،،

انجیل جو ایک چھوٹی سی کتاب ہے اس میں آپ نے اختلاف و تناقض کے نمونے ملاحظہ فرمائے، میں سمجھتا ہوں کہ جو کوئی تعصب و عناد سے بالاتر ہو کر حق کو سمجھنا چاہتا ہے اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔(۱)

_____________________

(۱) تفصیل کے لئے شیخ بلاغی قدس سرّہ، کی کتاب''الهدیٰ و الرحلة المدرسیة،، اور ہماری کتاب''نفحات الاعجاز،، کا مطالعہ فرمائیں۔

۸۱

قرآن اور نظام قانون

تاریخ دانوں سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام سے پہلے اقوام، تعلیمات اور اخلاقیات کے لحاظ سے کس قدر جہالت میں مبتلا اور گئی گزری تھیں۔ ان کی وحشیانہ زندگی ہوتی تھی۔ ان میں ہمیشہ جنگیں ہوتی رہتی تھیں، لوگوں کے دل لوٹ کھسوٹ اور جنگ کی آگ بھڑکانے پر تلے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سی خرافات پر مشتمل عقائد عربوں میں پائے جاتے تھے۔ ان کے پاس نہ ایسا دین تھا جس پر ان کا اجتماع ہوتا اور نہ ایسا نظام تھا جو انہیں یکجا کرسکتا تھا۔ ان کے آباؤ اجداد کی بری عادتیں انہیں دائیں بائیں لے جارہی تھیں اور عرب ممالک میں کثرت سے بت پرست پائے جاتے تھے۔ مختلف قبیلوں اور اقوام کے مخصوص بت اور خدا ہوا کرتے تھے، جن کی وہ پرستش کیا کرتے اور خدا کے سامنے انہیں اپنا شفیع قرار دیتے تھے ۔ وہ بتوں سے اپنی حاجتیں مانگتے اور پانسہ ڈال کر فال لیتے اور قمار بازی پر فخر کرتے تھے۔ سوتیلی ماؤں سے شادیاں رچانا ان کی عادت تھی اور ان کی سب سے بدترین صفت لڑکیوں کو زندگہ دفن کردینا تھی۔

یہ تھیں زمانہ جاہلیّت کے عربوں کی عادات، ان کے خضائل، اور جب محمد عربی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے نور کا ظہور ہوا اور مکہ میں اسلام کا سورج چمکا تو یہی عرب معارف و تعلیمات سے مزیّن اور مکارم اخلاق سے آراستہ ہوگئے۔ بت پرستی کی جگہ توحید، اور جہالت و نادانی کی جگہ علم نے لے لی۔ رذائل اور بری صفات کی جگہ فضائل نے انتشار و اختلاف کی جگہ محبت و

۸۲

اخوت نے جنم لیا۔ اس کے نتیجے میں یہی عرب ایک امّت بن گئے، پورے عالم پر یہ حکومت کرنے لگے اور پوری دنیا میں انسانیت اور تمدّن کے علمبردار بن گئے۔

دُوری(۱) کاکہنا ہے:

و بعد ظهور الذی جمع قبائل العرب أمّة واحدة، تقصد مقصداً واحداً ظهرت للعیان أمّة کبیرة، مدّت جناح ملکها من نهر تاج اسبانیا الی نهر الجانج فی الهند، و رفعت علی منار الاشارة أعلام التمدن فی أقطار الأرض، أیام کانت اوربا مظلمة بجهالات أهلها فی القرون المتوسطة

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے تمام قبائل کو ایک اُمّت میں تبدیل کردیا جس کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ بہت جلد ایک بڑی امّت کی شکل اختیار کرگئی جو اسپین کے دریائے ٹیگ سے لے کر ہندوستان کے دریائے گنگاتک حکومت کرنے اور پوری دنیا پر اپنے تمدّن اور انسانیّت کے جھنڈے لہرانے لگی۔ یہ وہ دور تھا جب قرون وسطیٰ میں یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔،،

اس کے بعد کہتے ہیں:

ثم قال: انهم کانوا فی القرون المتوسطة مختصین بالعلوم من بین سائر الأمم، وانقشعت بسببهم سحائب البربریة التی امتدت علی اوربا حین اختل نظامها بفتوحات المتوحشین

''قرون وسطیٰ میں علوم و فنون صرف مسلمانوں کے ہاں پائے جاتے تھے اور انہیں مسلمانوں کے ذریعے ظلم و بربریت کے وہ بادل چھٹ گئے جو یورپ پر چھائے ہوئے تھے۔،،

____________________

(۱) فرانس کا ایک وزیر۔

(۲) صفوۃ العرفان، لمحمد فرید و جدی، ص ۱۱۹۔

۸۳

یہ تمام عظیم کامیابیاں ا س کتاب کریم کی برکت سے تھیں جس کی نطیر تمام آسمانی کتب میں نہیں ملتی۔ کیونکہ قرآن کریم نے اپنے نظام اور اپنی تعلیمات میں وہ روش اختیار کی ہے جو دلیل و برہان سے ہم آہنگ اور عقل سے مربوط ہے۔ قرآن کریم نے ہمیشہ عدل کا راستہ اختیار کیا اور ہمشیہ افراط و تفریط سے اجتناب برتا ہے۔ چنانچہ سورہ فاتحہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ خدا کے دربار میں بشر کی زبان سے صراء مستقیم کی دعا کی جارہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) ۱:۶،،

''ہم کو سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھ،،

اگرچہ یہ جملہ محتصر سا ہے لیکن اس کے معانی بہت وسیع ہیں۔ انشاء اللہ سورہ فاتحہ کی تفسیر میں ہم ان کی طرف اشارہ کریں گے۔

قرآن کریم نے عدل و انصاف اور صراطِ مستقیم اختیار کرنے کاحکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

۱۔( إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ ) ۴:۵۸

''(اے ایمان دارو) خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ لوگوں کی امانتیں امانت رکھنے والوں کے حوالے کر دو اور جب لوگوں کے باہمی جھگڑوں کافیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔،،

۲۔( اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ) ۵ :۸

''(خبردار بلکہ) تم (ہر حال میں) انصاف کرو، یہی پرہیزگاری سے بہت قریب ہے۔،،

۸۴

۳۔( وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ) ۶:۱۵۲

''جب بات کہو تو انصاف سے اگرچہ وہ (جسکے تم خلاف کہو) تمہارا عزیز ہی (کیوں نہ) ہو۔،،

۴۔( إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ )

۱۶:۹۰

''اس میں شک نہیں کہ خدا انصاف اور (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے اور قرابتداروں کو (کچھ) دینے کا حکم کرتا ہے اور بدکاری اور ناشائستہ حرکتوں اور سرکشی کرنے کو منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔،،

قرآن کریم نے عدل و انصاف کا حکم دیا ہے اور اپنی تعلیمات میں اعتدال و میانہ روی اختیار کی ہے، اس نے متعدد مقامات پر بخل اور کنجوسی سے روکا اور لوگوں کو اس کے مفاسد اور انجام سے آگاہ کیا ہے۔

( وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّـهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ) ۳:۱۸۰

''اور جن لوگوں کو خدا نے ا پنے فضل (و کرم) سے کچھ دیا ہے (اور پھر) بخل کرتے ہیں وہ ہرگز اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ ان کے لیے کچھ بہتر ہوگا بلکہ یہ ان کے حق میں بدتر ہے، کیوں کہ جس (مال) کا بخل کرتے ہیں عنقریب ہی قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر ان کے گلے میں پہنایا جائے گا اور سارے آسمانوں اور زمین کی میراث خدا ہی کی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے۔،،

اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے اسراف اور فضول خرچی سے بھی روکا اور ہے لوگوں کو اس کے مفاسد اور نقصانات سے آگاہ کیا ہے۔

۸۵

( وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ) ۶:۱۴۱

''اور خبردار فضول خرچی نہ کرو کیوں کہ وہ (خدا) فضل خرچوں سے ہرگز الفت نہیں رکھتا۔،،

( إنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ) ۱۷:۲۷

(خبردار) فضول خرچی مت کیا کرو کیونکہ فضول خرچی کرنے والے یقیناً شیاطانوں کے بھائی ہیں۔،،

( وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا ) ۱۷:۲۹

''اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (بہت تنگ) کرلو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل کھولدو کہ (سب کچھ دے ڈالو اور) آخر تم کو ملامت زدہ حسرت آلودہ یا حسرت بھرا بیٹھنا پڑے۔،،

قرآن کریم نے مصائب پر صبر اور اذیتوں و مشقتوں کو برداشت کرنے کا حکم دیا ہے۔ صابرین کی ان کے صبر کرنے پر تعریف کی ہے اور انہیں ثواب کثیر عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے:

( إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ ) ۳۹:۱۰

''صبر کرنے والوں ہی کو تو ان کابھرپور بے حساب بدلے دیا جائے گا۔،،

( وَاللَّـهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ ) ۳:۱۴۶

''اور ثابت قدم رہنے والوں سے خدا الفت رکھتا ہے۔،،

قرآن کریم نے جہاں صبر کرنے کی تاکید کی ہے وہاں مظلوم سے یہ نہیں کہا کہ وہ ظالم کے سامنے بے بسی کے عالم میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے بلکہ اسے اجازت دی ہے کہ وہ ظالم سے انتقام لے اور جس طرح کا اس پر ظلم ڈھایا گیا ہے اسی کے مطابق بدلہ لے تاکہ فساد کی جڑ ختم ہو اور عدل کی شریعت وجود میں آجائے۔

۸۶

( فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ ) ۲:۱۹۴

''پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے ویسی ہی زیادتی تم بھی اس پر کرو۔،،

اس کے علاوہ مقتول کے ولی کو ایسے قاتل سے قصاص لینے کی اجازت دی ہے جس نے عمداً قتل کیا ہے۔

( وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا ) ۱۷:۳۳

''اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) قابو دیا ہے تو اسے چاہیے کہ قتل (خون کا بدلہ لینے) میں زیادتی نہ کرے۔،،

قرآن کریم نے اعتدال اور میانہ روی کی راہ اختیار کرنے کا حکم دے کر نظام دنیا و آخرت کو یکجا کردیا ہے نیز دنیا کی اصلاح اور اخری سعادت کی بھی ضمانت دی ہے۔

قرآن کریم وہ عظیم ناموس ہے جسے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) لے کر آئے تاکہ انسان دنیا و آخرت دونوں کی سعادتوں سے ہمکنار ہو۔

قرآن کریم کی تشریع اور قانون سازی صرف دنیاوی پہلو کے پیش نظر نہیں ہے جس میں آخرت کو نظر انداز کردیا گیا ہو، جیسا کہ موجودہ تورات میں آپ کو یہ چیز نظر آئے گی تورات اتنی بڑی کتاب ہے اس کے باوجود اس میں کوئی ایسا مقام نظر نہیں آتا جہاں آخرت کے وجود کا ذکر ہو اور نہ ہی اس میں اچھے اور برے اعمال کی جزا و سزا کے سلسلے میں آخرت کا کوئی تذکرہ ہے البتہ تورات میں تصریحاً یہ بات ضرور موجود ہے کہ اطاعت کا اثر یہ ہے کہ انسان دنیا میں مستغنی و بے نیاز اور لوگوں کو غلام بنا کر ان پر حاکم ہو جاتا ہے اور معصیت کا اثر یہ ہے کہ انسان اپنے ربّ کی نظر سے گر جاتا ہے، جس کے نتیجے میں موت آجاتی ہے اور اس کا سب مال چھن جاتا ہے۔

۸۷

ایسا بھی نہیں ہے کہ قرآن کریم کی قانون سازی میں صرف اخروی پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہو اور دنیاوی امور کا اس میں کوئی تذکرہ نہ ہو۔ جس طرح کہ انجیل میں ہے۔ انجیل میں صرف اخروی باتیں ہیں اور دنیا کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ صرف قرآن کریم کی شریعت ایسی مکمل شریعت ہے جو کبھی تو مصلحت دنیا کو مد نظر رکھتی ہے اور کبھی مصلحت آخرت اس کے پیش نظر ہوتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

۱۔( وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ) ۴:۱۳

''اور جو خدا اور رسول کی اطاعت کرے اس کو خدا آخرت میں ایسے (ہرے بھرے) باغوں میں پہنچا دے گا جن کے نیچے نرہیں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ (چین سے) رہیں گے اور یہی تو بڑی کامیابی ہے۔،،

۲۔( وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ) ۴:۱۴

''اور جس شخص نے خدا اور رسول کی نافرمانی کی اور اس کی حدوں سے گزر گیا تو بس خدا اس کو جہنم میں داخل کرے گا اور وہ اس میں ہمیشہ (اپنا کیا بھگتتا) رہے گا اور اس کے لیے بڑی رسوائی کا عذاب ہے۔،،

۳۔( فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ) ۹۹:۷-۸

''تو جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی تو ہے اسے دیکھ لے گا۔،،

۴۔( وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ ) ۲۸:۷۷

''اور جو کچھ خدا نے تجھے دے رکھاہے اس میں آخرت کے گھر کی بھی جستجو کر، اور دنیا سے جس قدر تیرا حصّہ ہے مت بھول۔،،

۸۸

قرآن مجید مزید بہت سی آیات میں لوگوں کو تحصیل علم کی تاکید کرتا ہے اور بہت سی دنیاوی لذتوں کو مباح و جائز قرار دینے کے ساتھ ساتھ تقویٰ اختیار کرنے پر بھی اصرار کرتا ہے۔

۵۔( قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ ) ۷:۳۲

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ان سے پوچھو تو کہ جو زینت (کے ساز و سامان) اورکھانے پینے کی صاف ستھری چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کی ہیں کس نے حرام کردیں۔،،

قرآن کریم اکثر مقامات پر خدا کی عبادت کرنے، اپنی تشریعی و تکوینی آیات، کائنات اور اپنے نفس پر غور و فکر اور تاءمل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے صرف اسی پہلو کو نہیں اپنایا جس سے انسان اپنے ربّ تک پہنچتا ہے بلکہ دوسرے پہلو کابِھی ذکر فرمایا ہے جس کے ذریعے اپنے معاشرے کے دوسرے افراد کے ساتھ مل کر بیٹھا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم نے انسان کے لیے خرید و فروخت کو حلال قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ ) ۲:۲۷۵

''حالانکہ بکری کو تو خدا نے حلال کیا اور سُود کو حرام کردیا۔،،

قرآن کریم نے عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ ) ۵:۱

''اے ایماندارو! (اپنے) اقراروں کو پورا کرو۔،،

اور اسلام نے ازدواج کاحکم دیا جس پر بنی نوعِ انسان کی بقا کا دار مدار ہے:

( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ) ۲۴:۳۲

''اور (اپنی قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیکوکار غلاموں اور لونڈیوں کابھی نکاح کردیا کرو۔ اگریہ لوگ محتاج ہوں گے تو خدا اپنے فضل (وکرم) سے انہیں مالدار نہیں بنا دے گا اور خدا تو بڑی گنجائش والا واف کار ہے۔،،

۸۹

( فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ) ۴:۳

''اور عورتوں سے اپنی مرضی کے موافق دو دو اور تین تین اور چار چار نکاح کرو، پھر اگر تمہیں اس کا اندیشہ ہو کہ تم (متعدد بیبیوں میں بھی) انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو۔،،

انسان کو اپنی زوجہ سے احسان سے پیش آنے، اس کی تمام ضروریات پوری کرنے، والدین اور رشتہ داروں اور تمام مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے ساتھ احسان کرنے کاحکم دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ) ۴:۱۹

''اور بیبیوں کیساتھ اچھاسلوک کرتے رہو۔،،

( وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ ) ۲:۲۲۸

''اور شریعت کے موافق عورتوں کا (مردوں پر) وہی سب کچھ (حق) ہے جو (مردوں کا) عورتوں پر ہے۔،،

( وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ) ۴:۳۶

''اور خدا ہی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اورماںباپ اور قرابتداروں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار، پڑوسیوں اور اجنبی پڑوسیوں اور پہلو میں بیٹھنے والے مصاحبین اور مسافروں اور اپنے زرخرید لونڈی غلام کے ساتھ احسان کرو، بیشک خدا اکڑ کر چلنے والوں اور شیخی باموں کو دوست نہیں رکھتا۔،،

۹۰

( وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ) ۲۸:۷۷

''اور جس طرح خدا نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اوروں کے ساتھ احسان کر اور روئے زمین میں فساد کا خواہاں نہ ہو، اس میں شک نہیں کہ خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔،،

( إِنَّ رَحْمَتَ اللَّـهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ) ۷:۵۶

''(کیونکہ) نیکی کرنے والوں سے خدا کی رحمت یقیناً قریب ہے۔،،

( وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ) ۲:۱۹۵

''اور نیکی کرو، بے شک خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔،،

قرآنی تعلیمات کے یہ چند نمونے ہیں جن میں اعتدال اور میانہ روی کی راہ بتائی گئی ہے۔

قرآن مجید نے امّت کے تمام افراد پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب قرار دیا ہے اور اسے کسی خاص گروہ یا افراد سے مخصوص نہیں کیا۔ قرآن کریم نے اسی قانون سازی کے ذریعے اپنی تعلیمات کی ترویج و تبلیغ کے دروازے کھول دیئے اور اس میں زندگی و دوام کی روح پھونک دی ۔ قرآن کریم نے معاشرے کے ہر فرد کو معاشرے کا بلکہ ہر مسلمان تبلیغ احکام کے مکلف ہیں اور احکام دین کی تبلیغ کرنے اور انہیں نافذ کرنے کا فریضہ ان پر عائد کیا گیا ہے کیا آپ نے اس سے زیادہ طاقتور اور مؤثر کوئی دوسرا لشکر دیکھا ہے۔ ہم نے بادشاہوں اور حکام کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی فوجی قوت اور آمریت کے بل بوتے پر اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور یہ واضح ہے کہ حکام کی فوج اور پولیس ہر وقت اور ہر جگہ لوگوں کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ کتنا فرق ہے لشکر اسلام اور دوسرے حکام کے لشکر میں؟

۹۱

قرآن کریم کی سب سے بڑی اور اہم تعلیم جو مسلمانوں کی صفوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرسکتی ہے وہ مسلمانوں کے تمام طبقوں میں اخوت و بھائی چارہ قائم کرنے کی ہے، نیز علم و تقویٰ کے علاوہ تمام امتیازات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ ) ۴۹:۱۳

''اس میں شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تم سب میں بڑا عزت دار وہی ہے جو بڑا پرہیزگار ہو۔،،

( قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ ) ۳۹:۹

''(اے رسول) تم پوچھو تو کہ بھلا کہیں جاننے والے اور نہ جاننے والے لوگ برابر ہوسکتے ہیں۔،،

پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں:

ان الله عزوجل أعز بالاسلام من کان فی الجاهلیة ذلیلاً، و أذهب بالاسلام ما کان من نخوة الجاهلیة، و تفاخرها بعشائرها، و باسق أنسابها، فالناس الیوم کلهم أبیضهم و أسودهم، و قرشیهم و عربیهم و عجمیهم من آدم ۔و ان آدم خلقه الله من طین، و ان أحب الناس الی الله عزوجل یوم القیامة أطوعهم له و أتقاهم،، ۔۔۔(۱)

''خالق کائنات نے اسلام کی بدولت اسے عزّت دی جو زمانہ جاہلیّت میں جاہل سمجھا جاتا تھا اور اسلام کے ذریعے زمانہ جاہلیّت میں پائے جانے والے غرور و نخوت کو ختم کردیا۔ حسن نسب اور قبیلے پر کئے جانے والے فخر کو بھی قرآن کریم نے ختم کردیا آج سب لوگ برابر ہیں۔ چاہے وہ سفید ہوں یا سیاہ۔ قریشی ہوں عربی یا عجمی غرض سب کے سب آدمٍ کی اولاد ہیں اور آدم کو خدا نے مٹی سے پیدا کیا اور روز قیامت سب سے زیادہ محبوبِ خدا وہ ہوگا جو سب سے زیادہ پرہیزگار اور متقی ہوگا۔،،

نیز آپ نے فرمایا:

''فضل العالم علی سائر الناس کفضلی علی أدنا کم (۲)

''عالم کو عام لوگوں پر وہی فضیلت ہے جو مجھے تم میں سے ایک معمولی آدمی پر ہے۔،،

____________________

) ۱) فروع کافی، ج ۲، باب ۲۱، ان المومن کفو المومنۃ۔

) ۲) الجامع الصغری بشرح المنادی، ج ۴، ص ۴۳۲۔

۹۲

اسلام نے حضرت سلمان فارسیؓ کو ان کے کمال ایمان کی وجہ سے دوسروں پر مقدم کیا حتی کہ ان کو اہل بیت میں سے قرار دیا اورسول اللہ کا چچا ابو لہب اپنے کفر کی وجہ سے راندہئ درگاہ قرار دیا۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے کبھی بھی اپنے حسب و نسب پر فخر نہیں کیا اور ہی آپ نے اپنے کسی اور کمال و صفت پر فخر کیا جس کا اس زمانےمیں عام رواج تھا، بلکہ آپ لوگوں کو خدا اور آخرت پرایمان لانے کی دعوت دیا کرتے تھے۔

آپ نے کلمہئ توحید اور توحید کلمہ( ۱ ) کی دعوت دی اور اسی وجہ سے آپ اس قوم پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے جو اپنے حسب و نسب پر فخر کیا کرتی تھی اور جس کے دل نفاق اور اختلافات سے بھرے ہوئے تھے۔ اسلامی تعلیمی اس قوم کی طبیعتوں پر اثر انداز ہوئیں جس سے ان میں موجود کبر و نخوت کا خاتمہ ہوگیا اور شرفا و امراء کو اپنی بیٹیوں کا رشتہ غریب و نادار مسلمانوں سے کرنے میں کوئی عار محسوس نہ ہونے لگا۔( ۲ )

یہ ہے قرآن کی شریعت اور اس کی تعلیمات، جن میں انفرادی و اجتماعی مصلحتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ قرآن کریم کے بعض قوانین کا تعلق دنیا سے ہے اور بعض کا آخرت سے اور ان میں دونوں جہانوں کی مصلحتوں کی ضمانت ملتی ہے، ان تمام خصوصیات کو دیکھنے کے بعد بھی کوئی فرد اس شریعت کے لانے اور پیش کرنے والے کی نبوّت میں شک کرسکتا ہے؟ خصوصاً جب وہ اس پہلو کو دیکھے کہ پیغمرب اسلام نے ایک ایسی وحشی قوم میں نشو و نما پائی جس کا اس قسم کی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔

_____________________

۱) ) باہمی اتحاد و اتفاق (مترجم)۔

۲) ) اس کی ایک مثال زیاد بن لبید ہے جو بنی بیاضہ کے امراء اکابرین میں سے تھا، اس نے ا پنی بیٹی کی شادی جویبر کے ساتھ کردی۔ جویبر ایک پستہ قد اور سیاہ رنگت والا انتہائی محتاج و غریب مسلمان تھا۔ فروع کافی، ج ۲، باب ۲۱، ان المومن کفو المومنۃ۔

۹۳

قرآن کے معانی میں پختگی

قرآن کریم متعدد موضوعات سے متعرض ہوا ہے اور اس کے مقاصد مختلف اور جدا ہیں جیسا کہ ان کا تعلق الہٰیات و معارف، آغاز خلقت اور معاد، رُوح، ملک، ابلیس اور جن جیسے مافوق طبیعت مفاہیم سے ہے۔ ان کے علاوہ فلکیات، زمین، تاریخ، گذشتہ انبیاء میں سے بعض کے مسائل و معاملات اور گذشتہ انبیاء اور ان کی امّتوں میں رونما ہونے والے واقعات سے ان کی مناسبت ہے۔ نیز ضرب الامثال، احتجاجات اور استدلالات، اخلاقیات، خاندانی حقوق، ریاستی سیاست، اجتماعی و جنگی نظام، قضا و قدر، کسب و اختیار، عبادات و معاملات ، نکاح و طلاق، واجبات اور حدود و قصاص وغیرہ سے یہ متعلق ہیں۔

قرآن کریم نے ان تمام مسائل کو ایسے ٹھوس حقائق کی صورت میں پیش کیا جن میں کسی طرح کے بطلان و تنقید کا گزر تک نہیں ہوسکتا اور کسی بھی باطل کے لیے ان میں گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا کمال ہے جس کا مظاہرہ ایک عام بشر سے ہونا محال ہے خصوصاً ایسے شخص سے جس نے ایک ایسی امّت میں پرورش پائی ہو جس کی قسمت میں نہ معارف تھے اور نہ دیگر علوم۔

اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ علوم النظریہ پر تالیف شدہ کتب میں مذکور نظریات کچھ عرصہ گزرنے کے بعد باطل نظر آتے ہیں کیونکہ علمو النظریہ میں جتنی زیادہ غور و فکر کی جائے اتنے ہی زیادہ اس کے حقائق واضح اور آشکار ہو جاتے ہیں اور پہلوں نے جس نظریہ کو ثابت کیا ہوتا ہے بعد والوں کا نظریہ اس کے برعکس ہوتا ہے اور حقیقت بحث و تمحیص سے جنم لیتی ہے کتنے ہی مباحث ایسے ہیں جنہیں پہلوں نے ادھورا چھوڑا اور بعد میں آنے والوں نے انہیں مکمّل کیا۔ اسی وجہ سے پہلوں کی فلسفہ کی کتب بعد میں آنے والوں کی تنقید کا نشانہ بنتی ہیں۔ یہاں تک کہ پہلے والے جن مسائل کو یقینی برہان سمجھتے تھے بعد میں ان پر ہونے والی بحث و تمحیص کے نتیجہ میں وہ مسائل ادھام شمار ہونے لگے۔

قرآن کریم کو اتنا طویل عرصہ گزرنے، اس کے اغراض و مقاصد مختلف ہونے اور معانی کی رفعت کے باوجوداس میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جو قابل تنقید و قابل اعتراض ہو، سوائے ان چند توہمات کے جن کو کوتاہ فکر افراد اپنے زعم باطل میں تنقید سمجھتے ہیں۔ اس اوہام کا ذکر اور ان کا باطل ہونا ہم بعد میں ثابت کریں گے۔

۹۴

قرآن کی غیب گوئی

قرآن کریم نے متدد آیات میں بعض ایسے اہم ترین امور کی خبردی ہے جن کا تعلق آیندہ سے تھا۔ ان تمام پیشگوئیوں میں قرآن کریم صادق ثابت ہوا اور کوئی بھی خبر خلاف واقع ثابت نہیں ہوئی، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ غیب کی خبریں جن کا ذریعہ وحی و نبوّت کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

ان آیات میں غیب کی خبریں دی گئی ہیں:

( وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّـهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ ) ۸:۷

''اور (یہ وہ وقت تھا) جب خدا تم سے وعدہ کررہا تھا کہ (کفار مکّہ کی) دو جماعتوں میں سے ایک تمہارے لیے ضروری ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ کمزور جمعات تمہارے ہاتھ لگے (تاکہ بغیر لڑے بھڑے مال غنیمت ہاتھ آجائے) اور خدا یہ چاہتا تھا کہ اپنی باتوں سے حق کو ثابت (قائم) کرے اور کافروں کی جڑ کاٹ ڈالے۔،،

یہ آیت کریمہ جنگ بدر کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔ اس میں مومنین کی فتح اور کفّار کی بیخ کنی کا وعدہ کیا گیا ہے جب کہ مومنین تعداد اور وسائل جنگ دونوں لحاظ سے کم تھے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں میں سوار صرف جناب مقداد تھے یا آپ کے ساتھ جناب زبیر بن عوام تھے۔ مسلمانوں کے مقابلے میں کفار ہر لحاظ سے طاقتور تھے اور خود قرآن کریم نے ان کی طاقت کو لفظ ''شوکۃ،، سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مسلمان ان سے خوفزدہ تھے۔ مگر خدا نے چاہا کہ حق باطل پر غالب آجائے خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا، کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی نصرت فرمائی اور کفار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔

۹۵

( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ) ۱۵:۹۴

''پس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کرکے سنا دو اور مشرکین کی طرف سے منہ پھیرلو۔،،

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ) :۹۵

جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کے لئے کافی ہیں۔،،

( الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ) ۹۶

''جو لوگ خدا کے ساتھ دوسرے پروردگار کوشریک ٹھہراتے ہیں تو عنقریب ہی انہیں معلوم ہوجائیگا۔،،

یہ آیات دعوتِ اسلام کے آغاز میں مکّہ میں نازل ہوئیں۔ بزاز اور طبرانی نے ان کی شانِ نزول کے بارے میں انس بن مالک سے یہ روایت نقل کی ہے:

''یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب نبی کریم مکّہ میں کچھ لوگوں کے قریب سے گزرے۔ آپ کے گزرنے کے بعد ان لوگوں نے آپ کی طرف اشارے کئے اورکہا:هذا الذی یزعم انه نبی و معه جبرئیل ''یعنی یہ وہی آدمی ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ میں نبی ہوں اور میرے ساتھ جبرئیل ہے؟،،(۱)

چنانچہ ان آیات کریمہ میں نبی کی دعوت کی کامیابی، نصرتِ الہٰی اور ان لوگوں کی رسوائی کی خبر دی گئی ہے جنہوں نے آپ کی مخالفت کی تھی، آپ کی نبوّت کا مذاق اڑایا تھا اور جو اس دعوت کی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

یہ خبر اس وقت دی گئی تھی جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قریش کی یہ طاقت ختم ہو جائے گی، اس کی حکومت کو زوال آجائے گا اور پیغمبر اسلام اس پر غالب آجائیں گے۔

___________________

(۱) جلال الدین سیوطی، ص ۱۳۳، باب نقول۔

۹۶

اس قسم کی ایک دوسری آیہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ) ۶۱:۹

''وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے دوسرے تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرکی برا ہی (کیوں نہ) مانیں۔،،

انہی غیب کی خبروں میں سے ایک ارشاد الہٰی یہ ہے:

( غُلِبَتِ الرُّومُ ) ۳۰:۲

''(یہاں سے) بہت قریب کے ملک میں (نصاریٰ اہل فارس آتش پرستوں سے) ہار گئے۔،،

( فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ )

''مگر یہ عنقریب ہی اپنے ہار جانے کے بعد چند سالوں میں پھر (اہل فارس پر) غالب آجائیں گے۔،،

ان آیات میں جو خبر دی گئی ہے وہ دس سال سے کم عرصے میں واقع ہو کر رہی۔ شاہ روم نے شاہ ایران پر غلبہ پالیا اور رومی لشکر سرزمین فارس میں داخل ہوگیا۔

انہی میں سے ایک آیت یہ بھی ہے:

( أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُّنتَصِرٌ ) ۵۴:۴۴

''کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بہت قوی جماعت ہیں۔،،

( سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ) :۴۵

''عنقریب ہی یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔،،

۹۷

اس آیت میں کفار کی شکست، ان کے تتر بتر ہونے اور ان کا رعب و ہیبت ختم ہو جانے کی خبر دی گئی ہے۔ یہ واقعہ بھی جنگ بدر کا ہے۔ جب ابوجہل نے اپنے گھِوڑے کو ایڑ لگا کر پہلی صف کی طرف بڑھتے ہوئے کہا تھا:

''ہم آج محمد اور آپ کے اصحاب پر فتح حاصل کریں گے۔،،

چنانچہ خدا نے اس کو اور اس کے لشکر کو ہلاک و برباد کردیا، حق کو ثابت اور روشن کیا، مینارہئ حق بلند ہوا اور اس کا بول بالا ہوا، کفار شکست کھا گئے اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا۔

یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کوئی یہ تصوّر بھی نہیں کرسکتا تھا کہ صرف تین سو تیرہ افراد اس طاقتور فوج کو شکست دے دیں گے جو سامانِِ جنگ اور تعداد کے لحاظ سے ان سے کئی گنا زیادہ تھی۔ جبکہ ن تین سو تیرہ افراد کے پاس صرف ایک یا دو گھوڑے اور ستّر اونٹ تھے جن پر یہ باری باری سوار ہوتے تھے، ان کے پاس کوئی جنگی قوّت نہیں تھی۔ اس کے باوجود ان کا پلّہ بھاری رہا اور باطل قوّت کا سارا رعب و ہیبت خاک میں مل گیا۔

اگر امر خدا، احکامِ نبوّت، استحکام اور نیّت صادق نہ ہوتی یہ کامیابی ممکن نہ تھی۔ اسی طرح کی ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ )( سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ) :۱۱۱: ۱ و ۳

''ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ خود ستیاناس ہوجائے۔ وہ بہت بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا اور اس کی جو رو بھی جو سر پرایندھن اٹھائے پھرتی ہے۔،،

اس آیت کریمہ میں ابو لہب اور اس کی بیوی کی جہنمی ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی قرآن کریم یہ پیشگوئی کررہا ہے کہ یہ دونوں زندگی بھر ایمان نہیں لائیں گے اور ہوا بھی اسی طرح کہ یہ دونوں ایمان لائے بغیر ہلاک ہوگئے۔

۹۸

قرآن اور اسرار خلقت

قرآن کریم نے بہت سی آیات میں طبیعی قوانین اور افلاک وغیرہ کے مسائل بیان کئے ہیں۔ یہ مسائل ایسے ہیں جن کو سمجھنے کا آغاز اسلام سے ہوا اور سوائے وحی الہٰی کے انہیں سمجھنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ اگرچہ ان میں سے بعض قوانین کے بارے میں اس دور کے یونانی یا علوم سے آشنا دیگر افراد کچھ معلومات رکھتے تھے۔ لیکن جزیرۃ العرب اس طرح کے علمی ماحول سے بالکل کٹا ہوا تھا۔

قرآن کریم نے جن مسائل کی خبر دی ہے ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جو علوم و انکشافات عام ہونے کے بعد ہی حل کئے جاسکے ہیں۔

قرآن کریم میں ایسی خبریں کم نہیں ہیں۔ان مسائل سے متعلق آیات کی تفسیر کے دوران ہم ان مسائل کاذکر کریں گے۔

قرآن کریم نے مسائل کی خبر انتہائی دور اندیشی اور احتیاط کے ساتھ دی ہے اور ان میں سے بعض کی تصریح کی ہے اور جہاں مصلحت صرف اشارہ کرنے میں تھی وہاں اشارہ کرنے پر اکتفا کیا ہے کیونکہ ان میں سے بعض مسائل ایسے تھے جن کو اس زمانے کے لوگوں کی عقلیں ماننے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ اس لیے مصلحت اسی میں تھی کہ ان مسائل کی طرف ایسا اشارہ کردیا جائے کہ جب آئندہ دور میں علم ترقی کرے تو یہ واضح ہو کر سامنے آجائیںٍ۔

وہ مسئلہ، جس کا انکشاف آسمانی وحی کے ذریعے ہوا اور جس کی جانب متاءخرین بعد میں متوجّہ ہوئے، اس کی طرف یہ آیہ کریمہ اشارہ کررہی ہے:

( وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ ) ۱۵:۱۹

''اور ہم نے اس میں ہر قسم کی مناسب چیز اُگائی۔،،

۹۹

موجودہ دور میں جدید تحقیق کے نتیجے میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ نبات کی تمام اقسام مخصوص اجزاء کا مرکّب ہوتی ہیں۔ ان اجزاء میں اتنا باریک اور نازک توازن ہے کہ جسے مشہور اور دقیق انسانی معیاروں پر بھی پرکھا نہیں جاسکتا۔

جن حیرت انگیز اسرار کی طرف وحی الہٰی میں اشارہ کیا گیا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعض درخت اور نباتات ایسے ہیں جو ہواؤں کے ذریعے بار آور ہو کر پھل دیتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:

( وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ ) ۱۵:۲۲

''اور ہم ہی نے وہ ہواھیں بھیجیں جو بادلوں کو پانی سے بھرے ہوئے ہیں۔،،

گذشتہ مفسرین نے آیہ کریمہ میں سے ''لقاح،، کا ترجمہ ''اٹھانا،، کیا ہے، کیونکہ ''لقاح،، کے معانی میں سے ایک معنی ''اٹھانا،، ہے اور اس آیہ کریمہ کی تفسیر یہ کی ہے کہ ہوائیں بادلوں کو اٹھاتی ہیں یا بادل بارشوں کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ لیکن ان معانی کی کوئی اہمیت نہیں ہے خصوصاً یہ نکتہ مدِّ نظر رکھتے ہوئے کہ ہوائیں بادلوں کو اٹھاتی نہیں ہیں بلکہ انہیں دھکیل کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیتی ہےں۔ ماہرین نباتات کے انکشافات کے مطالعہ اور صحیح فکر و نظر سے اس سربستہ اور دقیق راز کا انکشاف ہوتا ہے جسے گذشتہ علماء کے افکار حاصل نہ کرسکے اس آیت میں اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ درخت اور نباتات کو ''لقاح،، (بارآوری کا عمل) کی ضرورت ہے اوریہ لقاح خوبانی، صنوبر، انار، مالٹا، روئی اور دیگر دانہ دار نباتات میں ہواؤں کے طریقے انجام پاتا ہے۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ جب شگوفوں کے اندر دانے پک جاتے ہیں تو شگوفوں کے اندر موجود کلیاں کھل جاتی ہیں اور ان کے اندر سے زیرہ ہواؤں کے ذریعے اڑ کر مادہ پودے کے پھولوں پر جاگرتا ہے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

ان آیات کا تنقیدی جائزہ جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے

اس وقت ہمارا موضوع سخن وہ آیات ہیں جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے فی الحال ہم وہ آیات پیش کرتے ہیں جن کے بارے میں آسانی سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں نسخ واقع ہوا ہے یا نہیں اور جن آیات کا نسخ نہ ہونا (ہمارے گزشتہ بیانات کی روشنی میں) واضح ہے ان کو فی الحال پیش نہیں کرتے انشاء اللہ تعالیٰ ان کی تفسیر کے موقع پر اس پہلو (نسخ) پر نظر ڈالیں گے۔

ان آیات پر بحث ہم اسی ترتیب سے کریں گے جس ترتیب سے یہ قرآن میں موجود ہیں:

۱۔( وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۲:۱۰۹

''(مسلمانو)اہل کتاب میں سے اکثر لوگ اپنے دلی حسد کی وجہ سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو ایمان لانے کے بعد پھر کافربنا دیں (اور لطف تو یہ ہے) ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے اس کے بعد بھی (یہ تمنا باقی ہے) پس تم معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی اور حکم بھیجے ، بیشک خداہر چیز پر قادر ہے،،

ابن عباس نے قتادہ اور سدی سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے ابو جعفر نحاس نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے(۱) آیہ سیف یہ ہے:

( قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ) ۹:۲۹

''اہل کتاب میں سے جو لوگ نہ تو (دل سے) خدا ہی پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخرت پر اور نہ خدا اوراس کے رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ سچے دین ہی کو اختیار کرتے ہیں ان لوگوںسے لڑے جاؤ یہاں تک کہ وہلوگ ذلیل ہو کر (اپنے) ہاتھ سے جزیہ دیں،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۲۶ ، طبع مکتبتہ العلامیہ ۔ مصر

۳۶۱

مذکورہ آیت کے نسخ کو اس وقت مانا جا سکتا ہے جب دو باتیں مان لی جائیں جو کہ صحیح نہیں ہیں:

(۱) اس حکم کے برطرف ہونے کو بھی نسخ کہا جائے جس کی مدت معین ہو اور اس مدت کے ختم ہو جانے کی وجہ سے حکم برطرف ہوگیا ہو۔

اس بات کا باطل ہونا واضح ہے اس لئے کہ نسخ وہاں بولا جاتا ہے جہاں حکم کے عارضی اور دائمی ہونے کا کوئی ذکر نہ کیا گیا ہو اور اگر کوئی حکم عارضی ہو ، اگرچہ وقت کی تعیین تفصیل سے نہ کی گئی ہو اور اجمالی طور پر معلوم ہو کہ یہ حکم عارضی ہے تو وہی دلیل ، جو وقت کی وضاحت اور حکم کی آخری مدت بیان کرے ، قرینہ بنے گی جومراد متکلم کی وضاحت کرے اس پر نسخ صادق نہیں آتا نسخ اصطلاحی یہ ہے کہ ایسے حکم کو برطرف کیا جائے جسے کلام کے اطلاق کی رو سے ظاہری طورپر دائمی سمجھا جائے اور وہ حکم کسی معین مدت سے مختص نہ ہو۔

فخر الدین رازی کا خیال ہے کہ کسی جداگانہ دلیل کے ذریعے عارضی حکم کا وقت (آخری مدت) بیان کرنابھی نسخ کہلاتا ہے ۔ رازی کا یہ خیال سراسر باطل ہے کیونکہ اصطلاح میں اسے کوئی بھی نسخ نہیں کہتا اور جس حکم کے ابدی اور دائمی ہونے کی تصریح کی گئی ہو اس میں نسخ کا واقع نہ ہونا تو اظہر من الشمس ہے۔

(۲) پیغمبر اکرم (ص) کو اہل کتاب سے جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہو اور یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم (ص) کو اہل کتاب سے جنگ لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ آیت کریمہ میں مشرکین کو خدا اور اخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینے اور ان سے جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے اہل کتاب سے ابتدائی طورپر جنگ لڑنا جائز نہیں یہ اور بات ہے کہ کسی اور وجہ سے اہل کتاب سے لڑنا جائز ہو مثلاً اگر اہل کتاب جنگ میں پہل کریں

۳۶۲

اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوں تو اس صورت میں ان سے لڑنا جائز ہو گا چنانچہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۲:۱۹۰

''اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو (کیونکہ) خدا زیادتی کرنے والوں کو ہگز دوست نہیں رکھتا،،

یا اس صورت میں اہل کتاب سے جنگ کی جا سکتی ہے جب وہ مسلمانوں میں فتنہ و فساد پھیلائیں اس لئے کہ فتنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ): ۱۹۱

''اور فتنہ پردازی (شرک) خونریزی سے بھی بڑھ کے ہے،،

یا اس صورت میں اہل کتاب سے لڑا جا سکتا ہے جب وہ طے شدہ جزیہ دینے سے انکار کر دیں جس کی طرف زیر بحث آیہ کریمہ میں اشارہ کیا جا رہا ہے:

لیکن اگر اس قسم کا کوئی سبب اور مجوز نہ ہو تو اہل کتاب سے صرف ان کے کفر کی بنیاد پر لڑنا جائز نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلی آیت میں مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر اہل کتاب تمہیں دوبارہ کافر بنانا چاہیں جو ان کے کفر کا لازمی نتیجہ ہے تو اسے درگزر کرو اور ان سے جنگ نہ کرو۔

یہ حکم اس سے منافات نہیں رکھتا کہ دوسری آیت میں کسی اور سبب اور مجوز کی بنیاد پر ان سے لڑنے کا حکم دیا جائے بنا برایں دوسری آیت پہلی آیت کی ناسخ نہیں ، بلکہ پہلی آیت میں اہل کتاب سے قتال (جنگ) کا کوئی مجوز نہیں تھا اس لئے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا اور دوسری آیت میں ان سے قتال کا مجوز موجود تھا اس لئے لڑنے کا حکم دیا گیا۔

اس کے علاوہ جس کو اس آیت کے نسخ پر شبہ ہوا ہے اس نے آیہ کریمہ:

(حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ) ۲:۱۰۹

''یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی اور حکم بھیجے،،۔

۳۶۳

میں امر کا معنی طلب اور حکم سمجھا ہے اور اس سے اس شبہ کا شکار ہوا ہے کہ کفار سے درگزر اور چشم پوشی سے کام لیا جائے حتیٰ کہ خدا ان سے جنگ لڑنے کا حکم دے اس طرح اس نے بعد والے حکم کو ناسخ قرار دیا ہے۔

محترم قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ بالفرض اگرا سے درست بھی سمجھا جائے پھر بھی نسخ لازم نہیں آتا لیکن یہ احتمال سرے سے باطل ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں امر سے مراد طلب اور حکم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد امر تکوینی اور مخلوق میں قضا و قدر الٰہی ہے اس کی دلیل امر سے پہلے لفظ ''اتیان،، کا لانا ہے (کیونکہ ار بمعنی مطلب اتیان کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا) اور دوسری دلیل آخری آیت ہے۔

( إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۲:۱۰۹

''بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے،،

اس آیہ شریفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے: اگر اہل کتاب تمہیں دوبارہ کافر بنانا چاہیں تو انہیں معاف کر دو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰاپنی مشیّت سے اسلام کو عزت عطا فرمائے اور کفار کی اکثریت دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے کچھ کو اللہ تع الیٰ ہلاک کر دے اور انہیں آخرت میں شدید عذاب دے اور اس قسم کے دوسرے فیصلے فرمائے جن کی قضا و قدر الٰہی متقاضی ہو۔

۲۔( وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ) ۲:۱۱۵

''(ساری زمین) خدا ہی کی ہے (کیا) پورب (کیا) پچھم پس جہاں کہیں (قبلہ کی طرف) رخ کر لو وہیں خدا کا سامنا ہے بیشک خدا بڑی گجائش والا اور خوب واقف ہے،،۔

۳۶۴

علماء کی ایک جماعت ، جس میں ابن عباس ، ابو العالیہ ، حسن عطا ، مکرمہ قتادہ ، سدی اور زید بن اسلم شامل ہیں ، سے منسوب ہے کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے(۱) البتہ اس کے ناسخ کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے ابن عباس فرماتے ہیں:

یہ آیت قول اللہ تعالیٰ:

( وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ) ۲:۱۵۰

''اور (اے مسلمانو) تم (بھی) جہاں کہیں ہوا کرو نماز میں اپنا منہ (اسی کعبہ) کی طرف کر لیا کرو،،

کے ذریعے نسخ ہوئی ہے،،

قتادہ فرماتے ہیں:

یہ آیت ، آیہ :

( فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ ) ۲:۱۵۰

''تم (نماز میں) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرلیا کرو،،

کے ذریعے نسخ ہوئی ہے،،

قرطبی کا بھی یہ کہنا ہے(۲)

علماء نے اس آیت کے نسخ ہونے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ رسول اللہ (ص) اور دوسرے تمام مسلمانوں کو پہلے یہ اختیار دیا گیا تھا کہ نماز میں جس طرف چاہیں رخ کریں اگرچہ رسول اللہ (ص) نے ان اطراف میں سے بیت المقدس کی سمت اختیار فرمائی تھی اس کے بعد یہ آیت نسخ ہو گئی اور صرف بیت الحرام کی طرف رخ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔

____________________

(۱) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۱۵۷۔۱۵۸۔

(۲) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۷۴

۳۶۵

اس احتمال کا بے بنیاد ہونا محتاج نہیں کیونکہ فرمان الٰہی ہے:

( وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ) ۲۔۱۴۳

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جس قبلہ کی طرف تم پہلے (سجدہ کرتے) تھے ہم نے اس کو صرف اس وجہ سے (قبلہ( قرار دیا تھا کہ جب (قبلہ بدلا جائے تو) ہم ان لوگوں کو جو رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی پیروی کرتے ہیں ان لوگوں سے الگ دیکھ لیں جو الٹے پاؤں پھرتے ہیں،،۔

اس آیت میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اس وقت مصلحت کے تقاضوں کے مطابق اللہ کے حکم پر بیت المقدس کی طرف رخ کیا کرتے تھے اور اس میں رسول اللہ (ص) کے ذاتی اختیار کا کوئی دخل نہیں تھا حقیقت امر یہ ہے کہ کوئی جہت اور طرف خدا کی ذات سے مختص نہیں کیونکہ کوئی مکان اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتا انسان اپنی نماز ، دعا اور دیگر عبادات میں جس طرف بھی رخ کرے ، خدا ہی کی طرف رخ ہو گا۔

اسی آیت کریمہ کو اہل بیت عصمت (ع) نے اس حکم کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ مسافر جس طرف چاہے رخ کر کے نفلی نماز پڑھ سکتا ہے اور اسی آیت کو اس واجب نماز کے صحیح ہونے کی دلیل قرار دیا ہے جو غلطی سے مشرق اور مغربی کے درمیانی رخ پڑھی گئی ہو۔

جو آدمی سرگرداں ہو اور اسے معلوم نہ ہو کہ قبلہ کس طرف ہے وہ جس طرف رخ کر کے نماز پڑھے صحیح ہے اور یہ کہ غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے قرآن کے واجب سجدے کئے جا سکتے ہیں جب حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر (رح) کو زمین کی طرف رخ کر کے ذبح کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اسی آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی۔(۱)

_____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۷۵

۳۶۶

معلوم ہوا یہ آیت مطلق ہے جس کی مختلف اوقات میں مختلف قیدوں سے تقیید کی گئی کبھی (واجب نماز میں) بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا اور اس طرح اس آیت کی تقیید کی گئی اور کبھی خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اور اس طرح اس آیت کی تقیید کی گئی اور بعض علماء کے مطابق نوافل بھی ، اگرچہ چلنے کی حالت میں نہ ہوں بنا برقول بعضے ، کسی بھی طرف رخ کر کے پڑھے جا سکتے ہیں باقی رہیں وہ روایات جن کے مطابق یہ آیت نوافل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان روایات کا مطلب یہ نہیں کہ یہ آیہ کریمہ صرف نوافل سے مختص ہے کیونکہ اس سے پہلے بتا چکے ہیں کہ آیات صرف شان نزول سے مختص نہیں ہوا کرتیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیہ شریفہ کا نسخ اس وقت قابل قبول ہو گا جب دو باتیں ثابت ہوں۔

( i ) یہ ثابت ہو کہ یہ آیہ کریمہ صرف واجب نمازوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ بات یقیناً باطل ہے اور اہل سنت کی کتب احادیث میں ایسی روایات موجود ہیں جن کی رو سے یہ آیت ، دعا ، مسافر کے نوافل ، متحیر و سرگرداں

آدمی کی نماز اور اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے غلطی سے غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہو(۱) اس سے قبل وہ مقامات بھی بیان کئے گئے جہاں اہل بیت اطہار (ع) نے اس آیہ شریفہ سے استدلال فرمایا ہے۔

( ii ) یہ ثابت ہو کہ یہ آیہ شریفہ ، اس آیہ شریفہ سے پہلے نازل ہوئی ہو جس میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یہ بات بھی ثابت اور مسلم نہیں ہے۔

بنا برایں یہ دعویٰ یقیناً باطل ہے کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے اہل بیت (ع) سے ایسی روایات منقول ہیں جن میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی۔

____________________

(۱) تفسیر طبری ، ج ۱ ، ص ۴۰۰۔۴۰۲

۳۶۷

ہاں! بعض اوقات نسخ بولا جاتا ہے اور اس سے ایک عام معنی مقصود ہوتا ہے جو تقیید کو بھی شامل ہوتا ہے چنانچہ اس معنی کی طرف اس سےقبل اشارہ کیا جا چکا ہے اگر زیر بحث آیہ شریفہ میں بھی اس معنی کا ارادہ کیا جائے تو پھر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا اور عین ممکن ہے کہ اس آیت میں نسخ سے ابن عباس کی مراد یہی ہو اور اس سے قبل بھی ہم اس خقیقت کی طرف اشارہ کر چکے ہیں۔

۳۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ ) ۲:۱۷۸

''اے مومنو! جو لوگ (ناحق) مار ڈالے جائیں ان کے بدلے میں تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت،،

بعض علمائے کرام کا یہ دعویٰ ہے کہآیہ شریفہ اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

( وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ) ۵:۴۵

''اور ہم نے توریت میں یہودیوں پر یہ (حکم) فرض کر دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت،،

(پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قصاص کے معاملے میں مرد ،عورت اور غلام آزاد میں مماثلت

۳۶۸

ضروری ہے یعنی مرد کے بدلے میں مرد اور عورت کے بدلے میں عورت ، آزاد کے بدلے میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام کو قتل کیا جائے لیکن دوسری آیت کریمہ میں اس مطابقت کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی آیت دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے اس بنا پر عورت کے بدلے میں مرد اور غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے)

یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے اور مرد کے وارثوں کو دیت سے کچھ حصہ دینا بھی ضرروی نہیں(۱) البتہ حسن اور عطاء نے اس حکم کی مخالفت کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا۔

لیث کہتے ہیں:

''اگر مرد اپنی بیوی کو قتل کر دے تو اسے صرف اپنی بیوی کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا،،(۲)

امامہ اثنا عشریہ کے مطابق مقتولہ کے ولی و وارث کو اختیار حاصل ہے کہ عورت کی دیت اور خونبہا کا مطالبہ کرے اور چاہے تو قاتل کو قصاص میں قتل کر دے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مرد کی دیت اور خونبہا کا نصف حصہ اس کے وارثوں کو ادا کرنا ہو گا۔

اہل سنت میں مشہور یہی ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا اور امامیہ کا اس پر اجماع قائم ہے لیکن ابو حنیفہ ، ثوری ، ابن ابی لیلی ٰ اور داؤد نے اس حکم کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ آزاد کسی دوسرے کے غلام کے بدلے میں قتل کیا جا سکتا ہے(۳) البتہ ان کے ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل کیا جائے گا خواہ وہ اس کا اپنا غلام ہی کیوں نہ ہو(۴)

_____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۲۲۹

(۲) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۲۱۰

(۳) یضاً ، ج ۱ ، ص ۲۰۹۔

(۴) احکام القرآن للجصاص ، ج ۱ ، ص ۱۳۷

۳۶۹

لیکن قول حق یہی ہے کہ پہلی آیت محکم ہے اورا س کے معنی ظاہر ہیں اس کے بعد کوئی ناسخ آیت نازل نہیں ہوئی اس لئے کہ دوسری آیت میں آزاد و غلام اور مرد و عورت کے اعتبار سے اطلاق پایا جاتا ہے یعنی آیت کریمہ اس پہلو کو بیان نہیں کر رہی کہ عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ یا اگر آزاد ، غلام کو قتل کرے تو اسے غلام کے مقابلے میں قتل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں ؟ بلکہ دوسری آیت میں صرف اس نکتے کو بیان کیا جا رہا ہے کہ قصاص کے موقع پر جرم کی مقدار اور نوعیت کا خیال رکھا جائے یعنی جس نوعیت کا جرم کیا گیا ہے اسی کے حساب سے انتقام لیا جائے۔

چنانچہ آیہ کریمہ:

( فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ ) ۲:۱۹۴

''پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے ویسی ہی زیادتی تو بھی اس پر کرو،،

کا مفہوم بھی یہی ہے۔

بہرحال اگر دوسری آیت میں مرد و عورت اور آزادو غلام کے اعتبار سے قاتل و مقتول کی خصوصیات بیان نہ کی گئی ہوں اور صرف ابتدائی جرم اور قصاص کی نوعیت میں مساوات کو بیان کیا گیا ہو جس کو اس آیہ شریفہ میں بیان کیا گیا ہے تو دوسری آیت مہمل رہیگی اور اس کا عموم میں ظہور نہیں ہو گا تاکہ پہلی آیت کیلئے ناسخ بن سکے اور اگر دوسری آیت مرد و زن اور غلام و آزاد کے اعتبار سے اطلاق میں ظہور رکھتی ہو اور اس آیت میں صرف اس بات کی خبر نہ دی گئی ہو کہ یہ حکم تورات میں موجود ہے بلکہ اس امت کیلئے بھی یہی حکم ثابت ہو تو پہلی آیت دوسری کیلئے مقید ثابت ہو گی اور اس کا قرینہ ہو گی کہ دوسری آیت میں مراد الٰہی کیا ہے اس لئے کہ مطلق ، اگرچہ مؤخر ہو ، مقید کیلئے ناسخ نہیں بن سکتا بلکہ مقید ظہور مطلق میں تصرف (ردوبدل) پر قرینہ ثابت ہو گا چنانچہ ہر مقید ، جو موخر ہو ، کا یہی حکم ہوا کرتا ہے۔ بنا برایں غلام کے بدلے میں آزادکے قتل کئے جانے کاقائل ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

۳۷۰

اس کے مقابلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ غلام کے مقابلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے دلیل کے طور پر امیر المومنین (ع) کی روایت کو پیش کیا جاتا ہے جسے آپ (ع) نے رسول اللہ (ص) سے نقل فرمایاہے اس روایت میں رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں:

المسلمون تتکافا دماؤهم ،،

''مسلمانوں کا خون (آزادہو یا غلام) یکساں ہے،،

جواب: فقرض تسلیم اگر یہ روایت درست بھی ہوتو آیہ کریمہ :( الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے اس کی تخصیص کی جائے گی اس لئے کہ یہ روایت غلام کے مقابلے میں آزاد کے قتل کو تب جائز قرار دے گی جب اس کے عموم پر عمل کیا جائے ظاہر ہے عام اس وقت حجت اور قابل عمل ہو گا جب اس سے پہلے یا اس کے بعد کوئی مخصص وارد نہ ہو۔

باقی رہی وہ روایت جو حسن نے سمرہ سے اور اس نے رسول اللہ (ص) سے نقل کی ہے اس کی سند ضعیف ہے اور یہ قابل اعتماد نہیں چنانچہ ابوبکر بن عربی کہتے ہیں:

''بعض لوگوں کی جہالت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ آزاد کے قتل کو اس کے اپنے غلام کے قتل کے بارے میں جائز سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) کے فرمان کو پیش کرتے ہیں جس کو حسن نے سمرہ سے نقل کیا ہے اور اس میں آپ (ص) فرماتے ہیں : من قتل عبدہ قتلناہ (یعنی )''جو اپنے غلام کو قتل کرے ہم اسے قتل کریں گے،، اوریہ حدیث ضعیف ہے،،(۱)

____________________

(۱) احکام القرآن لابی بکربن العربی ، ج ۱ ، ص ۲۷

۳۷۱

مولف: اس روایت کی سند ضعیف ہونے کے علاوہ تین روایات سے متعارض بھی ہے۔

i ) عمر بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے جد سے روایت بیان کرتے ہیں:

''ایک شخص نے عملاً اپنے غلام کو قتل کر دیا اس قاتل کو رسول اللہ (ص) نے سزا میں کوڑے لگائے ، ایک سال کیلئے جلا وطن کر دیا اور بیت المال سے اس کا حصہ منقطع کر دیا لیکن اسے قتل نہیں کیا گیا،،(۱) اسی مضمون کی ایک روایت ابن عباس نے رسول اللہ (ص) سے بھی نقل کیا ہے۔

( ii ) جابر نے عامر سے اور اس نے امیر المومنین (ع) سے روایت بیان کی ہے:

''آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا ،،(۲)

( iii ) عمرو بن شعیب نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے جد سے روایت بیان کی ہے:

''حضرت ابوبکر اور حضرت عمر غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل نہیں کرتے تھے ،،(۳)

قارئین کرام نے روایات اہل بیت (ع) ملا خطہ فرمائیں جن کا اتفاق ہے کہ آزاد آدمی کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا اور رسول اللہ (ص) کے بعد مرجع دین اہل بیت اطہار (ع) ہی ہیں ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے اس دعویٰ کی گنجائش نہیں رہتی کہ آیہ : ''الحر بالحر والعبد بالعبد،، نسخ ہو گئی اور غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے۔

امامیہ ، حسن اور عطاء کے نقطہ نگاہ سے آیہ کریمہ اس اعتبار سے بھی نسخ نہیں ہوئی کہ عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکے البتہ مذہب اہل سنت کے مطابق یہ اس اعتبار سے نسخ ہو گئی ہے یعنی عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے جبکہ پہلی آیہ (الانثی ٰ بالانثیٰ ) کی رو سے عورت کے بدلے میں مرد کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔

____________________

(۱) سنن بیہقی ، ج ۸ ، ص ۳۶

(۲) ایضاً ص ۳۴۔۳۵

(۳) ایضاً ص ۳۴

۳۷۲

اس مسئلے کی وضاحت:

فرمان اللہ تعالیٰ:

( كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ ) ۲:۱۷۸

''تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے،،

کی رو سے قصاص لینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرض ہے اور دوسری ادلہ کے مطابق یہ فرض اس صورت میں ثابت ہوتا ہے جب مقتول کے ورثا قصاص کا مطالبہ کریں چنانچہ آیہ کریمہ:

( فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ ) : ۱۷۸

''پس جس (قاتل) کو اس کے (ایمانی) بھائی (طالب قصاص) کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جاوے،،۔

اس بات پر دلالت کرتی ہے (کیونکہ اس آیت میں قصاص سے درگزر کرنے کی تشویق اور ترغیب دلائی گئی ہے (بنا برایں آیت شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ حکم قصاص کے سامنے سر تسلیم خم کرنا قاتل پر اس وقت واجب ہے جب مقتول کے وارث خون کا بدلہ لینا چاہیں اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ حکم اس وقت مسلم ہے ، جب کوئی مرد ، مرد کو قتل کرے یا عورت ، مرد کو قتل کے یا عورت ، عورت کو قتل کرے۔

لیکن اگر مرد ، عورت کو قتل کرے تو عورت کے ورثا کی طرف سے قصاص کے مطالبے کے ساتھ ہی قصاص کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا مرد پر واجب نہیں ہے اور جب تک اپنی دیت کا نصف حصہ وصول نہ کرے مرد کو انکار کرنے کا حق پہنچتا ہے اور حاکم شرع بھی قاتل کے وارثوں کو دیت کا نصف حصہ دیئے بغیر قصاص کی حد جاری نہیں کر سکتا بالالفاظ دیگر آیت شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے بدلے میں عورت کو ہی قتل کیا جا سکتا ہے ، مرد کو قتل نہیں کیا جا سکتا اور آیہ کریمہ کایہ مفہوم ہرگز نسخ نہیں ہوا۔

۳۷۳

ہاں ! یہ اور بات ہے کہ آیہ شریفہ سے قطع نظر خارجی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ جب مقتولہ کے ولی و وارث مرد کی دیت کا نصف حصہ ادا کر دیں تو مرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو قصاص کیلئے پیش کر دے اس طرح مرد ، عورت اور نصف دیت کے مجموعہ کابدلہ قرار پائے گا یہ ایک جداگان اور مستقل حکم ہے جس کا اس حکم سے کوئی تعلق نہیں جو آیہ کریمہ سے ابتداً سمجھا جاتا ہے اوریہ وہ نسخ نہیں جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ آیہ( الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ) کا نسخ اس بات پر موقوف ہے کہ مقتولہ کے ولی و ورثا جب بھی قصاص کا مطالبہ کریں توقصاص کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا قاتل پر واجب ہو چنانچہ اہل سنت یہی کہتے ہیں لیکن یہ بات دلیل سے ثابت نہیں (اس کا اثبات جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ مترجم)

اہل سنت حضرات اس بات کے ثبوت میں کبھی تو دوسری آیت :( أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ ) کے اطلاق کا سہارالیتے ہیں ، کبھی حدیث شریف :المسلمون تتکافا دماؤهم کے عموم کا اس دلیل کا جواب دیا جا چکا ہے اور کبھی اس بات کے اثبات میں قتادہ کی روایت پیش کرتے ہیں جو اس نے سعید بن مسیب سے نقل کی ہے اس روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے صنعاء کے کچھ لوگوں کو ایک عورت کے قتل کے جرم میں قتل کیا۔

لیث نے حکم سے روایت بیان کی ہے کہ امیر المومنین (ع) اور عبداللہ نے فرمایا:

''جب کوئی مرد کسی عورت کو قتل کرے تو اسے اس عورت کے بدلے میں قصاص کے طور پر قتل کیا جائیگا،،

زہری نےابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے اور اس نے اپنے والد سے ، اس نے اپنے جد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''ان الرجل یقتل بالمراة ،، (۱)

''مرد ، عورت کے بدلے میں قتل کیا جائے گا،،

____________________

(۱) احکام القرآن للجصاص ، ج ۱ ، ص ۱۳۹

۳۷۴

لیکن یہ سب دلیلیں کئی اعتبار سے باطل ہیں۔

( i ) یہ سب روایات صحیح بھی ہوں لیکن کتاب خدا کی مخالف ہیں اور جو روایات کتاب الٰہی کی مخالف ہو وہ حجت نہیں ہوا کرتی یہ روایات خبر واحد ہیں اور علما کا اس پر اجتماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

( ii ) ان میں سے پہلی روایت مرسلہ ہے کیونکہ سعید بن مسیّب ، خلافت حضرت عمر کے دو سال بعد پیدا ہوا(۱) اور یہ بات بہت بعید ہے کہ اس نے حضرت عمر سے بلا واسطہ روایت کی ہو اس کے علاوہ اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے اس کام کو انجام دیا اور حضرت عمر کا فعل بذات خود حجت نہیں۔

دوسری روایت ضعیف بھی ہے اورمرسلہ بھی ۔ تیسری روایت کو اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی یہ مطلقہ ہے اور اس روایت سے اس کی تقیید کی جائے گی جس کے مطابق قاتل کو اس کی نصف دیت ادا کرنے کے بعد قتل کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ مباحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ آیہ کریمہ کا نسخ ثابت نہیں اور صرف فقہاء کی ایک جماعت کے فتویٰ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آیہ کریمہ نسخ ہو گئی ہے زیدیا عمرو کے قول اور فتویٰ کی بنیاد پر قول خداوند سے کیوں اور کس طرح دستبردار ہوا جا سکتا ہے ؟ اور مقام حیرت وتعجب ہے کہ علماء کی ایک جماعت جس کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا ، اس کے باوجود ، قرآن کیخلاف اپنا فتویٰ صادر کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی ہمارے گزشتہ بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ آیہ کریمہ:

( وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا ) ۱۷:۳۳

''اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) قابو دیا ہے،،۔

__________________

(۱) تہذیب التہذیب ، ج ۴ ، ص ۸۶

۳۷۵

اور آیہ کریمہ:

( وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) ۲:۱۷۹

''اور اے عقلمندو ! قصاص میں تمہاری زندگی ہے اور اسی لئے جاری کیا گیا ہے،،

میں آیہ شریفہ (الانثی بالانثیٰ) جس میں مرد و زن اور آزاد و غلام میں فرق کو بیان کیا گیا ہے ، کی ناسخ بننے کی صلاحیت نہیں ہے انشاء اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کے موقع پر اس موضوع پر مفصل بحث کی جائے گی۔

۴۔( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ) ۲:۱۸۰

''(مسلمانو!) تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آ کھڑی ہو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کیلئے اچھی وصیت کرے جوخداسے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے،،

بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ یہ آیت ، آیہ ارث کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے کیونکہ صدر اسلام میں میراث کی تقسیم کی وہ کیفیت نہیںتھی جو اب ہے بلکہ سارے کا سارا ترکہ بیٹے کو مل جاتا تھا والدین اور دیگر رشتہ داروں کو جو کچھ ملتا تھا وہ وصیت کے ذریعے ملتا تھا اورآیہ میراث کے ذریعے یہ حکم منسوخ ہو گیا چنانچہ آیہ کریمہ میں اسی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ مالدار آدمی کو چاہئے کہ وہ مرتے وقت والدین اور دیگر رشتہ داروں کیلئے ضرور وصیت کرے۔

کچھ حضرات کا دعوی ہے کہ یہ آیت فرمان رسول اللہ:''ولاوصیة لوارث (۱) ،، (یعنی) وارث کیلئے کسی وصیت کی ضرورت نہیں،، کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۰

۳۷۶

مگر حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اس لئے کہ آیہ ارث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ میراث کی نوبت تب آتی ہے جب مرنے والے نے کوئی وصیت نہ کی ہو اور وہ مقروض بھی نہ ہو اس کے باوجود یہ کیسے معقول ہے کہ آیہ ارث ، آیہ وصیت کی ناسخ قرار پائے۔

اس کے علاوہ نسخ کی جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ بھی درست نہیں ، اس لئے کہ:

اولاً : اگرچہ صحیح بخاری میں یہ روایت موجود ہے لیکن اس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ علماء کا اس پر اجتماع ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

ثانیاً: آیہ ارث کے ذریعے ، اس آیہ کا نسخ اس صورت میں ثابت ہو گا جب آیہ ارث ، اس آیہ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ) کے بعد نازل ہوئی ہو اور قائلین نسخ کیلئے یہ بات ثابت کرنا مشکل ہے بعض حنفی حضرات کی طرف سے نسخ کے قطعی ہونے کا دعویٰ محتاج دلیل ہے۔

ثالثاً : مرنے والے کے رشتہ داروں کے بارے میں اس حکم کا نسخ ہونا قابل تصور نہیں کیونکہ مرنے والے کے بیٹے کی موجودگی میں دوسرے رشتہ دار ارث کے حقدار ہی نہیں بنتے تاکہ آیہ ارث کے ذریعے آیہ وصیت کو نسخ کر کے رشتہ داروں کیلئے ارث کو ثابت کیا جا سکتے لہٰذا مرنے والے کے رشتہ دار وصیت ہی سے استفادہ کر سکتےہیں بہرکیف چونکہ وصیت کے نہ ہونے کی صورت میں ارث کی نوبت پہنچتی ہے ، اس لئے آیہ ارث نہ صرف آیہ وصیت کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی بلکہ اس سے آیہ وصیت کی تائید و تاکید بھی ہوتی ہے اس لئے کہ آیہ شریفہ (من بعد وصیۃ یوصی بہا اودین) کی رو سے وصیت ارث پر مقدم ہے۔

۳۷۷

بعض علماء کرام کا دعویٰ ہے کہ آیہ شریفہ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ) رسول اللہ (ص) کی حدیث(لاوصیة لوارث ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے یہ دعویٰ کئی جہات سے باطل ہے:

( i ) اس روایت کی صحت ثابت نہیں ہے چنانچہ بخاری و مسلم نے بھی اس کی تصدیق نہیں کی اور تفسیر المنار میں اس روایت کی سند کو مورد اشکال و مناقشہ قرار دیاگیا ہے(۱)

( ii ) ایسی روایت اہل بیت اطہار (ع) کی ان مستفیض روایات سے متعارض ہیں جن کے مطابق وارث کے حق میں وصیت جائز ہے چنانچہ محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ میں ہے کہ راوی نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے سوال کیا: کیا وارث کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا: جائز ہے پھر آپ (ع) نے اس ایت کی تلاوت فرمائی،

( إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ) ۲:۱۸۰

''بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کیلئے اچھی وصیت کرے،،

اس مضمون کی روایت اور بھی ہیں(۲)

( iii ) اگر اس روایت کے خبر واحد ہونے سے چشم پوشی کی جائے اور اسے اہل بیت (ع) کی روایات سے معارض بھی نہ مانیں تب بھی اس روایت اورآیہ شریفہ کے مفاہیم میں کوئی منافات نہیں پائی جاتی زیادہ سے زیادہ اس حدیث شریف سے آیہ کریمہ کے اطلاق کیلئے تقیید سمجھی جائے گی بایں معنی کہ والدین کیلئے اس وقت وصیت کی جائے جب کسی مانع کی وجہ سے وہ ارث کے مستحق نہ ہوں یا ان رشتہ داروں کیلئے وصیت کی جائے جنہیں ارث نہیں مل سکتا اور اگر حدیث اورآیہ کریمہ میں منافات فرض بھی کر لی جائے تب بھی یہ حدیث آیہ کریمہ کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی کیونکہ خبر واحد قرآن کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی جس پر مسلمانوں کا اجماع قائم ہے ، بنا برایں آیہ کریمہ محکم ہے منسوح نہیں۔

____________________

(۱) تفسیر المنار ، ج ۲ ، ص ۱۳۸

(۲) الوافی ، ج ۱۳ ، ص ۱۷

۳۷۸

اس مقام پر یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ ''کتابۃ،، کا معنی کس چیز کا حتمی فیصلہ ہے چنانچہ آیت:

( كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ ) (۶:۱۲)

''اس نے اپنی ذات پر مہربانی لازم کر لی ہے،،

میں ''کتب،، اس معنی میں استعمال ہوا ہے اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ مولا کے حکم اور اس کے حتمی فیصلوں میں اس کا امتثال امر کیا جائے اگر یہ کہ اس کی طرف سے ترک کی اجازت ہو۔

بنا برایں آیہ کریمہ کی رو سے والدین اور دیگر رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرنا لازم و واجب ہے لیکن مسلمانوں کی سیرت جو قطعی طور پر ثابت ہے، اہل بیت اطہار (ع) سے منقول روایات اورہر دور میں فقہاء کے اجتماع سے ترک وصیت کی اجازت ثابت ہے بنا برایں اس اجازت کے ثابت ہونے کے بعد آیت سے وصیت کا مستحب ہونا ثابت ہو گا بلکہ وصیت کی تاکید ثابت ہو گی اورا س آیت میں ''کتب،، سے مراد وصیت کی تشریع ہو گی اور اس کا حتمی اور لازمی قرار دینا نہیں:

۵۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) ۲:۱۸۳

''اے ایماندارو! روزہ رکھنا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا تاکہ تم (اس کی وجہ سے) بہت سے گناہوں سے بچو،،

اس آیہ کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ آیہ دوسری آیہ:

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ) : ۱۸۷

''مسلمانو!) تمہارے واسطے روزوں کی راتوں میں اپنی بی بیوں کے پاس جانا حالا کر دیا گیا،،

کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے ۔ اس کے نسخ ہونے کی کیفیت یہ بتائی گئی ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں پر روزہ اسی کیفیت سے واجب تھا جس کیفیت سے گزشتہ اقوام پر واجب تھا گزشتہ اقوام پر واجب روزہ کے احکام میں سے ایک حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں رات کا کھانا کھانے سے قبل سو جائے تو پھر رات کو کسی بھی وقت بیدار ہو کر کچھ کھانا اس کیلئے جائز نہیں تھا

۳۷۹

اور اگر کوئی عصر کے بعد سو جائے تو اس کیلئے کھانا پینا اور ہم بستری کرنا جائز نہیں تھا لیکن یہ آیہ جس میں مسلمانوں کے روزہ کو گزشتہ اقوام کے روزہ سے تشبیہ دی گئی ہے آیہ کریمہ:

( وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ ) : ۱۸۷

''اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفیدی دھاری تمہیں صاف نظر آنے لگے،،

کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں طلوع فجر تک کھانے پینے کی اجازت دی گئی ہے اس کے علاوہ اس آیت کو بھی ناسخ قراردیا جاتا ہے:

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ) : ۱۸۷

''(مسلمانو!) تمہارے واسطے روزوں کی راتوں میں اپنی بی بیوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا،،

علماء اہل سنت کا اتفاق ہے کہ آیہ تحلیل( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ ) ناسخ ہے(۱) البتہ اس کی منسوخی کے بارے میں اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ منسوخ وہی آیت ہے جو ہمارے محل بحث ہے کیونکہ ان حضرات نے آیت( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔الخ سے یہی سمجھا ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں پر واجب روزہ اور گزشتہ اقوام پر واجب روزہ یکساں تھے بعد میں وہ آیہ کریمہ اس آیہ کریمہ :( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہو گئی چنانچہ ابوالعالیہ اور علماء کا یہی خیال ہے اور ابو جعفر نحاس نے سدی کی طرف بھی اس بات کو منسوخ کیا ہے(۲)

بعض کا خیال ہے کہ آیہ تحلیل کے ذریعے گزشتہ اقوام کے عمل اور ان کی روش کو نسخ کیا گیا ہے اور آیہ کریمہ( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کو نسخ نہیں کیا گیا۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پہلی آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

_________________

(۱) الناسخ و المنسوخ نحاس ، ص ۲۴

(۲) ایضاً ص ۲۱

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689