البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن0%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف: آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم الخوئی رح
زمرہ جات:

صفحے: 689
مشاہدے: 302083
ڈاؤنلوڈ: 8558

تبصرے:

البیان فی تفسیر القرآن
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 302083 / ڈاؤنلوڈ: 8558
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

۴۔ انجیل یوحنا کے پانچویں باب میں ہے کہ مسیح نے فرمایا:

''اگر میں اپنے حق میں گواہی دوں تو میری یہ شہادت برحق نہیں ہوگی۔،،

اسی انجیل کے آٹھویں باب میں ہے کہ حضرت مسیح نے فرمایا:

''اگر میں اپنے لیے گواہی دوں تو میری گواہی برحق ہوگی۔،،

انجیل جو ایک چھوٹی سی کتاب ہے اس میں آپ نے اختلاف و تناقض کے نمونے ملاحظہ فرمائے، میں سمجھتا ہوں کہ جو کوئی تعصب و عناد سے بالاتر ہو کر حق کو سمجھنا چاہتا ہے اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔(۱)

_____________________

(۱) تفصیل کے لئے شیخ بلاغی قدس سرّہ، کی کتاب''الهدیٰ و الرحلة المدرسیة،، اور ہماری کتاب''نفحات الاعجاز،، کا مطالعہ فرمائیں۔

۸۱

قرآن اور نظام قانون

تاریخ دانوں سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام سے پہلے اقوام، تعلیمات اور اخلاقیات کے لحاظ سے کس قدر جہالت میں مبتلا اور گئی گزری تھیں۔ ان کی وحشیانہ زندگی ہوتی تھی۔ ان میں ہمیشہ جنگیں ہوتی رہتی تھیں، لوگوں کے دل لوٹ کھسوٹ اور جنگ کی آگ بھڑکانے پر تلے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سی خرافات پر مشتمل عقائد عربوں میں پائے جاتے تھے۔ ان کے پاس نہ ایسا دین تھا جس پر ان کا اجتماع ہوتا اور نہ ایسا نظام تھا جو انہیں یکجا کرسکتا تھا۔ ان کے آباؤ اجداد کی بری عادتیں انہیں دائیں بائیں لے جارہی تھیں اور عرب ممالک میں کثرت سے بت پرست پائے جاتے تھے۔ مختلف قبیلوں اور اقوام کے مخصوص بت اور خدا ہوا کرتے تھے، جن کی وہ پرستش کیا کرتے اور خدا کے سامنے انہیں اپنا شفیع قرار دیتے تھے ۔ وہ بتوں سے اپنی حاجتیں مانگتے اور پانسہ ڈال کر فال لیتے اور قمار بازی پر فخر کرتے تھے۔ سوتیلی ماؤں سے شادیاں رچانا ان کی عادت تھی اور ان کی سب سے بدترین صفت لڑکیوں کو زندگہ دفن کردینا تھی۔

یہ تھیں زمانہ جاہلیّت کے عربوں کی عادات، ان کے خضائل، اور جب محمد عربی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے نور کا ظہور ہوا اور مکہ میں اسلام کا سورج چمکا تو یہی عرب معارف و تعلیمات سے مزیّن اور مکارم اخلاق سے آراستہ ہوگئے۔ بت پرستی کی جگہ توحید، اور جہالت و نادانی کی جگہ علم نے لے لی۔ رذائل اور بری صفات کی جگہ فضائل نے انتشار و اختلاف کی جگہ محبت و

۸۲

اخوت نے جنم لیا۔ اس کے نتیجے میں یہی عرب ایک امّت بن گئے، پورے عالم پر یہ حکومت کرنے لگے اور پوری دنیا میں انسانیت اور تمدّن کے علمبردار بن گئے۔

دُوری(۱) کاکہنا ہے:

و بعد ظهور الذی جمع قبائل العرب أمّة واحدة، تقصد مقصداً واحداً ظهرت للعیان أمّة کبیرة، مدّت جناح ملکها من نهر تاج اسبانیا الی نهر الجانج فی الهند، و رفعت علی منار الاشارة أعلام التمدن فی أقطار الأرض، أیام کانت اوربا مظلمة بجهالات أهلها فی القرون المتوسطة

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے تمام قبائل کو ایک اُمّت میں تبدیل کردیا جس کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ بہت جلد ایک بڑی امّت کی شکل اختیار کرگئی جو اسپین کے دریائے ٹیگ سے لے کر ہندوستان کے دریائے گنگاتک حکومت کرنے اور پوری دنیا پر اپنے تمدّن اور انسانیّت کے جھنڈے لہرانے لگی۔ یہ وہ دور تھا جب قرون وسطیٰ میں یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔،،

اس کے بعد کہتے ہیں:

ثم قال: انهم کانوا فی القرون المتوسطة مختصین بالعلوم من بین سائر الأمم، وانقشعت بسببهم سحائب البربریة التی امتدت علی اوربا حین اختل نظامها بفتوحات المتوحشین

''قرون وسطیٰ میں علوم و فنون صرف مسلمانوں کے ہاں پائے جاتے تھے اور انہیں مسلمانوں کے ذریعے ظلم و بربریت کے وہ بادل چھٹ گئے جو یورپ پر چھائے ہوئے تھے۔،،

____________________

(۱) فرانس کا ایک وزیر۔

(۲) صفوۃ العرفان، لمحمد فرید و جدی، ص ۱۱۹۔

۸۳

یہ تمام عظیم کامیابیاں ا س کتاب کریم کی برکت سے تھیں جس کی نطیر تمام آسمانی کتب میں نہیں ملتی۔ کیونکہ قرآن کریم نے اپنے نظام اور اپنی تعلیمات میں وہ روش اختیار کی ہے جو دلیل و برہان سے ہم آہنگ اور عقل سے مربوط ہے۔ قرآن کریم نے ہمیشہ عدل کا راستہ اختیار کیا اور ہمشیہ افراط و تفریط سے اجتناب برتا ہے۔ چنانچہ سورہ فاتحہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ خدا کے دربار میں بشر کی زبان سے صراء مستقیم کی دعا کی جارہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) ۱:۶،،

''ہم کو سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھ،،

اگرچہ یہ جملہ محتصر سا ہے لیکن اس کے معانی بہت وسیع ہیں۔ انشاء اللہ سورہ فاتحہ کی تفسیر میں ہم ان کی طرف اشارہ کریں گے۔

قرآن کریم نے عدل و انصاف اور صراطِ مستقیم اختیار کرنے کاحکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

۱۔( إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ ) ۴:۵۸

''(اے ایمان دارو) خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ لوگوں کی امانتیں امانت رکھنے والوں کے حوالے کر دو اور جب لوگوں کے باہمی جھگڑوں کافیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔،،

۲۔( اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ) ۵ :۸

''(خبردار بلکہ) تم (ہر حال میں) انصاف کرو، یہی پرہیزگاری سے بہت قریب ہے۔،،

۸۴

۳۔( وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ) ۶:۱۵۲

''جب بات کہو تو انصاف سے اگرچہ وہ (جسکے تم خلاف کہو) تمہارا عزیز ہی (کیوں نہ) ہو۔،،

۴۔( إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ )

۱۶:۹۰

''اس میں شک نہیں کہ خدا انصاف اور (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے اور قرابتداروں کو (کچھ) دینے کا حکم کرتا ہے اور بدکاری اور ناشائستہ حرکتوں اور سرکشی کرنے کو منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔،،

قرآن کریم نے عدل و انصاف کا حکم دیا ہے اور اپنی تعلیمات میں اعتدال و میانہ روی اختیار کی ہے، اس نے متعدد مقامات پر بخل اور کنجوسی سے روکا اور لوگوں کو اس کے مفاسد اور انجام سے آگاہ کیا ہے۔

( وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّـهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ) ۳:۱۸۰

''اور جن لوگوں کو خدا نے ا پنے فضل (و کرم) سے کچھ دیا ہے (اور پھر) بخل کرتے ہیں وہ ہرگز اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ ان کے لیے کچھ بہتر ہوگا بلکہ یہ ان کے حق میں بدتر ہے، کیوں کہ جس (مال) کا بخل کرتے ہیں عنقریب ہی قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر ان کے گلے میں پہنایا جائے گا اور سارے آسمانوں اور زمین کی میراث خدا ہی کی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے۔،،

اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے اسراف اور فضول خرچی سے بھی روکا اور ہے لوگوں کو اس کے مفاسد اور نقصانات سے آگاہ کیا ہے۔

۸۵

( وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ) ۶:۱۴۱

''اور خبردار فضول خرچی نہ کرو کیوں کہ وہ (خدا) فضل خرچوں سے ہرگز الفت نہیں رکھتا۔،،

( إنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ) ۱۷:۲۷

(خبردار) فضول خرچی مت کیا کرو کیونکہ فضول خرچی کرنے والے یقیناً شیاطانوں کے بھائی ہیں۔،،

( وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا ) ۱۷:۲۹

''اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (بہت تنگ) کرلو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل کھولدو کہ (سب کچھ دے ڈالو اور) آخر تم کو ملامت زدہ حسرت آلودہ یا حسرت بھرا بیٹھنا پڑے۔،،

قرآن کریم نے مصائب پر صبر اور اذیتوں و مشقتوں کو برداشت کرنے کا حکم دیا ہے۔ صابرین کی ان کے صبر کرنے پر تعریف کی ہے اور انہیں ثواب کثیر عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے:

( إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ ) ۳۹:۱۰

''صبر کرنے والوں ہی کو تو ان کابھرپور بے حساب بدلے دیا جائے گا۔،،

( وَاللَّـهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ ) ۳:۱۴۶

''اور ثابت قدم رہنے والوں سے خدا الفت رکھتا ہے۔،،

قرآن کریم نے جہاں صبر کرنے کی تاکید کی ہے وہاں مظلوم سے یہ نہیں کہا کہ وہ ظالم کے سامنے بے بسی کے عالم میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے بلکہ اسے اجازت دی ہے کہ وہ ظالم سے انتقام لے اور جس طرح کا اس پر ظلم ڈھایا گیا ہے اسی کے مطابق بدلہ لے تاکہ فساد کی جڑ ختم ہو اور عدل کی شریعت وجود میں آجائے۔

۸۶

( فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ ) ۲:۱۹۴

''پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے ویسی ہی زیادتی تم بھی اس پر کرو۔،،

اس کے علاوہ مقتول کے ولی کو ایسے قاتل سے قصاص لینے کی اجازت دی ہے جس نے عمداً قتل کیا ہے۔

( وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا ) ۱۷:۳۳

''اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) قابو دیا ہے تو اسے چاہیے کہ قتل (خون کا بدلہ لینے) میں زیادتی نہ کرے۔،،

قرآن کریم نے اعتدال اور میانہ روی کی راہ اختیار کرنے کا حکم دے کر نظام دنیا و آخرت کو یکجا کردیا ہے نیز دنیا کی اصلاح اور اخری سعادت کی بھی ضمانت دی ہے۔

قرآن کریم وہ عظیم ناموس ہے جسے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) لے کر آئے تاکہ انسان دنیا و آخرت دونوں کی سعادتوں سے ہمکنار ہو۔

قرآن کریم کی تشریع اور قانون سازی صرف دنیاوی پہلو کے پیش نظر نہیں ہے جس میں آخرت کو نظر انداز کردیا گیا ہو، جیسا کہ موجودہ تورات میں آپ کو یہ چیز نظر آئے گی تورات اتنی بڑی کتاب ہے اس کے باوجود اس میں کوئی ایسا مقام نظر نہیں آتا جہاں آخرت کے وجود کا ذکر ہو اور نہ ہی اس میں اچھے اور برے اعمال کی جزا و سزا کے سلسلے میں آخرت کا کوئی تذکرہ ہے البتہ تورات میں تصریحاً یہ بات ضرور موجود ہے کہ اطاعت کا اثر یہ ہے کہ انسان دنیا میں مستغنی و بے نیاز اور لوگوں کو غلام بنا کر ان پر حاکم ہو جاتا ہے اور معصیت کا اثر یہ ہے کہ انسان اپنے ربّ کی نظر سے گر جاتا ہے، جس کے نتیجے میں موت آجاتی ہے اور اس کا سب مال چھن جاتا ہے۔

۸۷

ایسا بھی نہیں ہے کہ قرآن کریم کی قانون سازی میں صرف اخروی پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہو اور دنیاوی امور کا اس میں کوئی تذکرہ نہ ہو۔ جس طرح کہ انجیل میں ہے۔ انجیل میں صرف اخروی باتیں ہیں اور دنیا کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ صرف قرآن کریم کی شریعت ایسی مکمل شریعت ہے جو کبھی تو مصلحت دنیا کو مد نظر رکھتی ہے اور کبھی مصلحت آخرت اس کے پیش نظر ہوتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

۱۔( وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ) ۴:۱۳

''اور جو خدا اور رسول کی اطاعت کرے اس کو خدا آخرت میں ایسے (ہرے بھرے) باغوں میں پہنچا دے گا جن کے نیچے نرہیں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ (چین سے) رہیں گے اور یہی تو بڑی کامیابی ہے۔،،

۲۔( وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ) ۴:۱۴

''اور جس شخص نے خدا اور رسول کی نافرمانی کی اور اس کی حدوں سے گزر گیا تو بس خدا اس کو جہنم میں داخل کرے گا اور وہ اس میں ہمیشہ (اپنا کیا بھگتتا) رہے گا اور اس کے لیے بڑی رسوائی کا عذاب ہے۔،،

۳۔( فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ) ۹۹:۷-۸

''تو جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی تو ہے اسے دیکھ لے گا۔،،

۴۔( وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ ) ۲۸:۷۷

''اور جو کچھ خدا نے تجھے دے رکھاہے اس میں آخرت کے گھر کی بھی جستجو کر، اور دنیا سے جس قدر تیرا حصّہ ہے مت بھول۔،،

۸۸

قرآن مجید مزید بہت سی آیات میں لوگوں کو تحصیل علم کی تاکید کرتا ہے اور بہت سی دنیاوی لذتوں کو مباح و جائز قرار دینے کے ساتھ ساتھ تقویٰ اختیار کرنے پر بھی اصرار کرتا ہے۔

۵۔( قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ ) ۷:۳۲

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ان سے پوچھو تو کہ جو زینت (کے ساز و سامان) اورکھانے پینے کی صاف ستھری چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کی ہیں کس نے حرام کردیں۔،،

قرآن کریم اکثر مقامات پر خدا کی عبادت کرنے، اپنی تشریعی و تکوینی آیات، کائنات اور اپنے نفس پر غور و فکر اور تاءمل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے صرف اسی پہلو کو نہیں اپنایا جس سے انسان اپنے ربّ تک پہنچتا ہے بلکہ دوسرے پہلو کابِھی ذکر فرمایا ہے جس کے ذریعے اپنے معاشرے کے دوسرے افراد کے ساتھ مل کر بیٹھا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم نے انسان کے لیے خرید و فروخت کو حلال قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ ) ۲:۲۷۵

''حالانکہ بکری کو تو خدا نے حلال کیا اور سُود کو حرام کردیا۔،،

قرآن کریم نے عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ ) ۵:۱

''اے ایماندارو! (اپنے) اقراروں کو پورا کرو۔،،

اور اسلام نے ازدواج کاحکم دیا جس پر بنی نوعِ انسان کی بقا کا دار مدار ہے:

( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ) ۲۴:۳۲

''اور (اپنی قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیکوکار غلاموں اور لونڈیوں کابھی نکاح کردیا کرو۔ اگریہ لوگ محتاج ہوں گے تو خدا اپنے فضل (وکرم) سے انہیں مالدار نہیں بنا دے گا اور خدا تو بڑی گنجائش والا واف کار ہے۔،،

۸۹

( فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ) ۴:۳

''اور عورتوں سے اپنی مرضی کے موافق دو دو اور تین تین اور چار چار نکاح کرو، پھر اگر تمہیں اس کا اندیشہ ہو کہ تم (متعدد بیبیوں میں بھی) انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو۔،،

انسان کو اپنی زوجہ سے احسان سے پیش آنے، اس کی تمام ضروریات پوری کرنے، والدین اور رشتہ داروں اور تمام مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے ساتھ احسان کرنے کاحکم دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ) ۴:۱۹

''اور بیبیوں کیساتھ اچھاسلوک کرتے رہو۔،،

( وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ ) ۲:۲۲۸

''اور شریعت کے موافق عورتوں کا (مردوں پر) وہی سب کچھ (حق) ہے جو (مردوں کا) عورتوں پر ہے۔،،

( وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ) ۴:۳۶

''اور خدا ہی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اورماںباپ اور قرابتداروں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار، پڑوسیوں اور اجنبی پڑوسیوں اور پہلو میں بیٹھنے والے مصاحبین اور مسافروں اور اپنے زرخرید لونڈی غلام کے ساتھ احسان کرو، بیشک خدا اکڑ کر چلنے والوں اور شیخی باموں کو دوست نہیں رکھتا۔،،

۹۰

( وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ) ۲۸:۷۷

''اور جس طرح خدا نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اوروں کے ساتھ احسان کر اور روئے زمین میں فساد کا خواہاں نہ ہو، اس میں شک نہیں کہ خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔،،

( إِنَّ رَحْمَتَ اللَّـهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ) ۷:۵۶

''(کیونکہ) نیکی کرنے والوں سے خدا کی رحمت یقیناً قریب ہے۔،،

( وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ) ۲:۱۹۵

''اور نیکی کرو، بے شک خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔،،

قرآنی تعلیمات کے یہ چند نمونے ہیں جن میں اعتدال اور میانہ روی کی راہ بتائی گئی ہے۔

قرآن مجید نے امّت کے تمام افراد پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب قرار دیا ہے اور اسے کسی خاص گروہ یا افراد سے مخصوص نہیں کیا۔ قرآن کریم نے اسی قانون سازی کے ذریعے اپنی تعلیمات کی ترویج و تبلیغ کے دروازے کھول دیئے اور اس میں زندگی و دوام کی روح پھونک دی ۔ قرآن کریم نے معاشرے کے ہر فرد کو معاشرے کا بلکہ ہر مسلمان تبلیغ احکام کے مکلف ہیں اور احکام دین کی تبلیغ کرنے اور انہیں نافذ کرنے کا فریضہ ان پر عائد کیا گیا ہے کیا آپ نے اس سے زیادہ طاقتور اور مؤثر کوئی دوسرا لشکر دیکھا ہے۔ ہم نے بادشاہوں اور حکام کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی فوجی قوت اور آمریت کے بل بوتے پر اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور یہ واضح ہے کہ حکام کی فوج اور پولیس ہر وقت اور ہر جگہ لوگوں کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ کتنا فرق ہے لشکر اسلام اور دوسرے حکام کے لشکر میں؟

۹۱

قرآن کریم کی سب سے بڑی اور اہم تعلیم جو مسلمانوں کی صفوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرسکتی ہے وہ مسلمانوں کے تمام طبقوں میں اخوت و بھائی چارہ قائم کرنے کی ہے، نیز علم و تقویٰ کے علاوہ تمام امتیازات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ ) ۴۹:۱۳

''اس میں شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تم سب میں بڑا عزت دار وہی ہے جو بڑا پرہیزگار ہو۔،،

( قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ ) ۳۹:۹

''(اے رسول) تم پوچھو تو کہ بھلا کہیں جاننے والے اور نہ جاننے والے لوگ برابر ہوسکتے ہیں۔،،

پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں:

ان الله عزوجل أعز بالاسلام من کان فی الجاهلیة ذلیلاً، و أذهب بالاسلام ما کان من نخوة الجاهلیة، و تفاخرها بعشائرها، و باسق أنسابها، فالناس الیوم کلهم أبیضهم و أسودهم، و قرشیهم و عربیهم و عجمیهم من آدم ۔و ان آدم خلقه الله من طین، و ان أحب الناس الی الله عزوجل یوم القیامة أطوعهم له و أتقاهم،، ۔۔۔(۱)

''خالق کائنات نے اسلام کی بدولت اسے عزّت دی جو زمانہ جاہلیّت میں جاہل سمجھا جاتا تھا اور اسلام کے ذریعے زمانہ جاہلیّت میں پائے جانے والے غرور و نخوت کو ختم کردیا۔ حسن نسب اور قبیلے پر کئے جانے والے فخر کو بھی قرآن کریم نے ختم کردیا آج سب لوگ برابر ہیں۔ چاہے وہ سفید ہوں یا سیاہ۔ قریشی ہوں عربی یا عجمی غرض سب کے سب آدمٍ کی اولاد ہیں اور آدم کو خدا نے مٹی سے پیدا کیا اور روز قیامت سب سے زیادہ محبوبِ خدا وہ ہوگا جو سب سے زیادہ پرہیزگار اور متقی ہوگا۔،،

نیز آپ نے فرمایا:

''فضل العالم علی سائر الناس کفضلی علی أدنا کم (۲)

''عالم کو عام لوگوں پر وہی فضیلت ہے جو مجھے تم میں سے ایک معمولی آدمی پر ہے۔،،

____________________

) ۱) فروع کافی، ج ۲، باب ۲۱، ان المومن کفو المومنۃ۔

) ۲) الجامع الصغری بشرح المنادی، ج ۴، ص ۴۳۲۔

۹۲

اسلام نے حضرت سلمان فارسیؓ کو ان کے کمال ایمان کی وجہ سے دوسروں پر مقدم کیا حتی کہ ان کو اہل بیت میں سے قرار دیا اورسول اللہ کا چچا ابو لہب اپنے کفر کی وجہ سے راندہئ درگاہ قرار دیا۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے کبھی بھی اپنے حسب و نسب پر فخر نہیں کیا اور ہی آپ نے اپنے کسی اور کمال و صفت پر فخر کیا جس کا اس زمانےمیں عام رواج تھا، بلکہ آپ لوگوں کو خدا اور آخرت پرایمان لانے کی دعوت دیا کرتے تھے۔

آپ نے کلمہئ توحید اور توحید کلمہ( ۱ ) کی دعوت دی اور اسی وجہ سے آپ اس قوم پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے جو اپنے حسب و نسب پر فخر کیا کرتی تھی اور جس کے دل نفاق اور اختلافات سے بھرے ہوئے تھے۔ اسلامی تعلیمی اس قوم کی طبیعتوں پر اثر انداز ہوئیں جس سے ان میں موجود کبر و نخوت کا خاتمہ ہوگیا اور شرفا و امراء کو اپنی بیٹیوں کا رشتہ غریب و نادار مسلمانوں سے کرنے میں کوئی عار محسوس نہ ہونے لگا۔( ۲ )

یہ ہے قرآن کی شریعت اور اس کی تعلیمات، جن میں انفرادی و اجتماعی مصلحتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ قرآن کریم کے بعض قوانین کا تعلق دنیا سے ہے اور بعض کا آخرت سے اور ان میں دونوں جہانوں کی مصلحتوں کی ضمانت ملتی ہے، ان تمام خصوصیات کو دیکھنے کے بعد بھی کوئی فرد اس شریعت کے لانے اور پیش کرنے والے کی نبوّت میں شک کرسکتا ہے؟ خصوصاً جب وہ اس پہلو کو دیکھے کہ پیغمرب اسلام نے ایک ایسی وحشی قوم میں نشو و نما پائی جس کا اس قسم کی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔

_____________________

۱) ) باہمی اتحاد و اتفاق (مترجم)۔

۲) ) اس کی ایک مثال زیاد بن لبید ہے جو بنی بیاضہ کے امراء اکابرین میں سے تھا، اس نے ا پنی بیٹی کی شادی جویبر کے ساتھ کردی۔ جویبر ایک پستہ قد اور سیاہ رنگت والا انتہائی محتاج و غریب مسلمان تھا۔ فروع کافی، ج ۲، باب ۲۱، ان المومن کفو المومنۃ۔

۹۳

قرآن کے معانی میں پختگی

قرآن کریم متعدد موضوعات سے متعرض ہوا ہے اور اس کے مقاصد مختلف اور جدا ہیں جیسا کہ ان کا تعلق الہٰیات و معارف، آغاز خلقت اور معاد، رُوح، ملک، ابلیس اور جن جیسے مافوق طبیعت مفاہیم سے ہے۔ ان کے علاوہ فلکیات، زمین، تاریخ، گذشتہ انبیاء میں سے بعض کے مسائل و معاملات اور گذشتہ انبیاء اور ان کی امّتوں میں رونما ہونے والے واقعات سے ان کی مناسبت ہے۔ نیز ضرب الامثال، احتجاجات اور استدلالات، اخلاقیات، خاندانی حقوق، ریاستی سیاست، اجتماعی و جنگی نظام، قضا و قدر، کسب و اختیار، عبادات و معاملات ، نکاح و طلاق، واجبات اور حدود و قصاص وغیرہ سے یہ متعلق ہیں۔

قرآن کریم نے ان تمام مسائل کو ایسے ٹھوس حقائق کی صورت میں پیش کیا جن میں کسی طرح کے بطلان و تنقید کا گزر تک نہیں ہوسکتا اور کسی بھی باطل کے لیے ان میں گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا کمال ہے جس کا مظاہرہ ایک عام بشر سے ہونا محال ہے خصوصاً ایسے شخص سے جس نے ایک ایسی امّت میں پرورش پائی ہو جس کی قسمت میں نہ معارف تھے اور نہ دیگر علوم۔

اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ علوم النظریہ پر تالیف شدہ کتب میں مذکور نظریات کچھ عرصہ گزرنے کے بعد باطل نظر آتے ہیں کیونکہ علمو النظریہ میں جتنی زیادہ غور و فکر کی جائے اتنے ہی زیادہ اس کے حقائق واضح اور آشکار ہو جاتے ہیں اور پہلوں نے جس نظریہ کو ثابت کیا ہوتا ہے بعد والوں کا نظریہ اس کے برعکس ہوتا ہے اور حقیقت بحث و تمحیص سے جنم لیتی ہے کتنے ہی مباحث ایسے ہیں جنہیں پہلوں نے ادھورا چھوڑا اور بعد میں آنے والوں نے انہیں مکمّل کیا۔ اسی وجہ سے پہلوں کی فلسفہ کی کتب بعد میں آنے والوں کی تنقید کا نشانہ بنتی ہیں۔ یہاں تک کہ پہلے والے جن مسائل کو یقینی برہان سمجھتے تھے بعد میں ان پر ہونے والی بحث و تمحیص کے نتیجہ میں وہ مسائل ادھام شمار ہونے لگے۔

قرآن کریم کو اتنا طویل عرصہ گزرنے، اس کے اغراض و مقاصد مختلف ہونے اور معانی کی رفعت کے باوجوداس میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جو قابل تنقید و قابل اعتراض ہو، سوائے ان چند توہمات کے جن کو کوتاہ فکر افراد اپنے زعم باطل میں تنقید سمجھتے ہیں۔ اس اوہام کا ذکر اور ان کا باطل ہونا ہم بعد میں ثابت کریں گے۔

۹۴

قرآن کی غیب گوئی

قرآن کریم نے متدد آیات میں بعض ایسے اہم ترین امور کی خبردی ہے جن کا تعلق آیندہ سے تھا۔ ان تمام پیشگوئیوں میں قرآن کریم صادق ثابت ہوا اور کوئی بھی خبر خلاف واقع ثابت نہیں ہوئی، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ غیب کی خبریں جن کا ذریعہ وحی و نبوّت کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

ان آیات میں غیب کی خبریں دی گئی ہیں:

( وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّـهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ ) ۸:۷

''اور (یہ وہ وقت تھا) جب خدا تم سے وعدہ کررہا تھا کہ (کفار مکّہ کی) دو جماعتوں میں سے ایک تمہارے لیے ضروری ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ کمزور جمعات تمہارے ہاتھ لگے (تاکہ بغیر لڑے بھڑے مال غنیمت ہاتھ آجائے) اور خدا یہ چاہتا تھا کہ اپنی باتوں سے حق کو ثابت (قائم) کرے اور کافروں کی جڑ کاٹ ڈالے۔،،

یہ آیت کریمہ جنگ بدر کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔ اس میں مومنین کی فتح اور کفّار کی بیخ کنی کا وعدہ کیا گیا ہے جب کہ مومنین تعداد اور وسائل جنگ دونوں لحاظ سے کم تھے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں میں سوار صرف جناب مقداد تھے یا آپ کے ساتھ جناب زبیر بن عوام تھے۔ مسلمانوں کے مقابلے میں کفار ہر لحاظ سے طاقتور تھے اور خود قرآن کریم نے ان کی طاقت کو لفظ ''شوکۃ،، سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مسلمان ان سے خوفزدہ تھے۔ مگر خدا نے چاہا کہ حق باطل پر غالب آجائے خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا، کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی نصرت فرمائی اور کفار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔

۹۵

( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ) ۱۵:۹۴

''پس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کرکے سنا دو اور مشرکین کی طرف سے منہ پھیرلو۔،،

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ) :۹۵

جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کے لئے کافی ہیں۔،،

( الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ) ۹۶

''جو لوگ خدا کے ساتھ دوسرے پروردگار کوشریک ٹھہراتے ہیں تو عنقریب ہی انہیں معلوم ہوجائیگا۔،،

یہ آیات دعوتِ اسلام کے آغاز میں مکّہ میں نازل ہوئیں۔ بزاز اور طبرانی نے ان کی شانِ نزول کے بارے میں انس بن مالک سے یہ روایت نقل کی ہے:

''یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب نبی کریم مکّہ میں کچھ لوگوں کے قریب سے گزرے۔ آپ کے گزرنے کے بعد ان لوگوں نے آپ کی طرف اشارے کئے اورکہا:هذا الذی یزعم انه نبی و معه جبرئیل ''یعنی یہ وہی آدمی ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ میں نبی ہوں اور میرے ساتھ جبرئیل ہے؟،،(۱)

چنانچہ ان آیات کریمہ میں نبی کی دعوت کی کامیابی، نصرتِ الہٰی اور ان لوگوں کی رسوائی کی خبر دی گئی ہے جنہوں نے آپ کی مخالفت کی تھی، آپ کی نبوّت کا مذاق اڑایا تھا اور جو اس دعوت کی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

یہ خبر اس وقت دی گئی تھی جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قریش کی یہ طاقت ختم ہو جائے گی، اس کی حکومت کو زوال آجائے گا اور پیغمبر اسلام اس پر غالب آجائیں گے۔

___________________

(۱) جلال الدین سیوطی، ص ۱۳۳، باب نقول۔

۹۶

اس قسم کی ایک دوسری آیہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ) ۶۱:۹

''وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے دوسرے تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرکی برا ہی (کیوں نہ) مانیں۔،،

انہی غیب کی خبروں میں سے ایک ارشاد الہٰی یہ ہے:

( غُلِبَتِ الرُّومُ ) ۳۰:۲

''(یہاں سے) بہت قریب کے ملک میں (نصاریٰ اہل فارس آتش پرستوں سے) ہار گئے۔،،

( فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ )

''مگر یہ عنقریب ہی اپنے ہار جانے کے بعد چند سالوں میں پھر (اہل فارس پر) غالب آجائیں گے۔،،

ان آیات میں جو خبر دی گئی ہے وہ دس سال سے کم عرصے میں واقع ہو کر رہی۔ شاہ روم نے شاہ ایران پر غلبہ پالیا اور رومی لشکر سرزمین فارس میں داخل ہوگیا۔

انہی میں سے ایک آیت یہ بھی ہے:

( أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُّنتَصِرٌ ) ۵۴:۴۴

''کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بہت قوی جماعت ہیں۔،،

( سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ) :۴۵

''عنقریب ہی یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔،،

۹۷

اس آیت میں کفار کی شکست، ان کے تتر بتر ہونے اور ان کا رعب و ہیبت ختم ہو جانے کی خبر دی گئی ہے۔ یہ واقعہ بھی جنگ بدر کا ہے۔ جب ابوجہل نے اپنے گھِوڑے کو ایڑ لگا کر پہلی صف کی طرف بڑھتے ہوئے کہا تھا:

''ہم آج محمد اور آپ کے اصحاب پر فتح حاصل کریں گے۔،،

چنانچہ خدا نے اس کو اور اس کے لشکر کو ہلاک و برباد کردیا، حق کو ثابت اور روشن کیا، مینارہئ حق بلند ہوا اور اس کا بول بالا ہوا، کفار شکست کھا گئے اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا۔

یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کوئی یہ تصوّر بھی نہیں کرسکتا تھا کہ صرف تین سو تیرہ افراد اس طاقتور فوج کو شکست دے دیں گے جو سامانِِ جنگ اور تعداد کے لحاظ سے ان سے کئی گنا زیادہ تھی۔ جبکہ ن تین سو تیرہ افراد کے پاس صرف ایک یا دو گھوڑے اور ستّر اونٹ تھے جن پر یہ باری باری سوار ہوتے تھے، ان کے پاس کوئی جنگی قوّت نہیں تھی۔ اس کے باوجود ان کا پلّہ بھاری رہا اور باطل قوّت کا سارا رعب و ہیبت خاک میں مل گیا۔

اگر امر خدا، احکامِ نبوّت، استحکام اور نیّت صادق نہ ہوتی یہ کامیابی ممکن نہ تھی۔ اسی طرح کی ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ )( سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ) :۱۱۱: ۱ و ۳

''ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ خود ستیاناس ہوجائے۔ وہ بہت بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا اور اس کی جو رو بھی جو سر پرایندھن اٹھائے پھرتی ہے۔،،

اس آیت کریمہ میں ابو لہب اور اس کی بیوی کی جہنمی ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی قرآن کریم یہ پیشگوئی کررہا ہے کہ یہ دونوں زندگی بھر ایمان نہیں لائیں گے اور ہوا بھی اسی طرح کہ یہ دونوں ایمان لائے بغیر ہلاک ہوگئے۔

۹۸

قرآن اور اسرار خلقت

قرآن کریم نے بہت سی آیات میں طبیعی قوانین اور افلاک وغیرہ کے مسائل بیان کئے ہیں۔ یہ مسائل ایسے ہیں جن کو سمجھنے کا آغاز اسلام سے ہوا اور سوائے وحی الہٰی کے انہیں سمجھنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ اگرچہ ان میں سے بعض قوانین کے بارے میں اس دور کے یونانی یا علوم سے آشنا دیگر افراد کچھ معلومات رکھتے تھے۔ لیکن جزیرۃ العرب اس طرح کے علمی ماحول سے بالکل کٹا ہوا تھا۔

قرآن کریم نے جن مسائل کی خبر دی ہے ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جو علوم و انکشافات عام ہونے کے بعد ہی حل کئے جاسکے ہیں۔

قرآن کریم میں ایسی خبریں کم نہیں ہیں۔ان مسائل سے متعلق آیات کی تفسیر کے دوران ہم ان مسائل کاذکر کریں گے۔

قرآن کریم نے مسائل کی خبر انتہائی دور اندیشی اور احتیاط کے ساتھ دی ہے اور ان میں سے بعض کی تصریح کی ہے اور جہاں مصلحت صرف اشارہ کرنے میں تھی وہاں اشارہ کرنے پر اکتفا کیا ہے کیونکہ ان میں سے بعض مسائل ایسے تھے جن کو اس زمانے کے لوگوں کی عقلیں ماننے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ اس لیے مصلحت اسی میں تھی کہ ان مسائل کی طرف ایسا اشارہ کردیا جائے کہ جب آئندہ دور میں علم ترقی کرے تو یہ واضح ہو کر سامنے آجائیںٍ۔

وہ مسئلہ، جس کا انکشاف آسمانی وحی کے ذریعے ہوا اور جس کی جانب متاءخرین بعد میں متوجّہ ہوئے، اس کی طرف یہ آیہ کریمہ اشارہ کررہی ہے:

( وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ ) ۱۵:۱۹

''اور ہم نے اس میں ہر قسم کی مناسب چیز اُگائی۔،،

۹۹

موجودہ دور میں جدید تحقیق کے نتیجے میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ نبات کی تمام اقسام مخصوص اجزاء کا مرکّب ہوتی ہیں۔ ان اجزاء میں اتنا باریک اور نازک توازن ہے کہ جسے مشہور اور دقیق انسانی معیاروں پر بھی پرکھا نہیں جاسکتا۔

جن حیرت انگیز اسرار کی طرف وحی الہٰی میں اشارہ کیا گیا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعض درخت اور نباتات ایسے ہیں جو ہواؤں کے ذریعے بار آور ہو کر پھل دیتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:

( وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ ) ۱۵:۲۲

''اور ہم ہی نے وہ ہواھیں بھیجیں جو بادلوں کو پانی سے بھرے ہوئے ہیں۔،،

گذشتہ مفسرین نے آیہ کریمہ میں سے ''لقاح،، کا ترجمہ ''اٹھانا،، کیا ہے، کیونکہ ''لقاح،، کے معانی میں سے ایک معنی ''اٹھانا،، ہے اور اس آیہ کریمہ کی تفسیر یہ کی ہے کہ ہوائیں بادلوں کو اٹھاتی ہیں یا بادل بارشوں کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ لیکن ان معانی کی کوئی اہمیت نہیں ہے خصوصاً یہ نکتہ مدِّ نظر رکھتے ہوئے کہ ہوائیں بادلوں کو اٹھاتی نہیں ہیں بلکہ انہیں دھکیل کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیتی ہےں۔ ماہرین نباتات کے انکشافات کے مطالعہ اور صحیح فکر و نظر سے اس سربستہ اور دقیق راز کا انکشاف ہوتا ہے جسے گذشتہ علماء کے افکار حاصل نہ کرسکے اس آیت میں اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ درخت اور نباتات کو ''لقاح،، (بارآوری کا عمل) کی ضرورت ہے اوریہ لقاح خوبانی، صنوبر، انار، مالٹا، روئی اور دیگر دانہ دار نباتات میں ہواؤں کے طریقے انجام پاتا ہے۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ جب شگوفوں کے اندر دانے پک جاتے ہیں تو شگوفوں کے اندر موجود کلیاں کھل جاتی ہیں اور ان کے اندر سے زیرہ ہواؤں کے ذریعے اڑ کر مادہ پودے کے پھولوں پر جاگرتا ہے۔

۱۰۰