البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن11%

البیان فی تفسیر القرآن مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 689

البیان فی تفسیر القرآن
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 689 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 314029 / ڈاؤنلوڈ: 9314
سائز سائز سائز
البیان فی تفسیر القرآن

البیان فی تفسیر القرآن

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

۴۔ انجیل یوحنا کے پانچویں باب میں ہے کہ مسیح نے فرمایا:

''اگر میں اپنے حق میں گواہی دوں تو میری یہ شہادت برحق نہیں ہوگی۔،،

اسی انجیل کے آٹھویں باب میں ہے کہ حضرت مسیح نے فرمایا:

''اگر میں اپنے لیے گواہی دوں تو میری گواہی برحق ہوگی۔،،

انجیل جو ایک چھوٹی سی کتاب ہے اس میں آپ نے اختلاف و تناقض کے نمونے ملاحظہ فرمائے، میں سمجھتا ہوں کہ جو کوئی تعصب و عناد سے بالاتر ہو کر حق کو سمجھنا چاہتا ہے اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔(۱)

_____________________

(۱) تفصیل کے لئے شیخ بلاغی قدس سرّہ، کی کتاب''الهدیٰ و الرحلة المدرسیة،، اور ہماری کتاب''نفحات الاعجاز،، کا مطالعہ فرمائیں۔

۸۱

قرآن اور نظام قانون

تاریخ دانوں سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اسلام سے پہلے اقوام، تعلیمات اور اخلاقیات کے لحاظ سے کس قدر جہالت میں مبتلا اور گئی گزری تھیں۔ ان کی وحشیانہ زندگی ہوتی تھی۔ ان میں ہمیشہ جنگیں ہوتی رہتی تھیں، لوگوں کے دل لوٹ کھسوٹ اور جنگ کی آگ بھڑکانے پر تلے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سی خرافات پر مشتمل عقائد عربوں میں پائے جاتے تھے۔ ان کے پاس نہ ایسا دین تھا جس پر ان کا اجتماع ہوتا اور نہ ایسا نظام تھا جو انہیں یکجا کرسکتا تھا۔ ان کے آباؤ اجداد کی بری عادتیں انہیں دائیں بائیں لے جارہی تھیں اور عرب ممالک میں کثرت سے بت پرست پائے جاتے تھے۔ مختلف قبیلوں اور اقوام کے مخصوص بت اور خدا ہوا کرتے تھے، جن کی وہ پرستش کیا کرتے اور خدا کے سامنے انہیں اپنا شفیع قرار دیتے تھے ۔ وہ بتوں سے اپنی حاجتیں مانگتے اور پانسہ ڈال کر فال لیتے اور قمار بازی پر فخر کرتے تھے۔ سوتیلی ماؤں سے شادیاں رچانا ان کی عادت تھی اور ان کی سب سے بدترین صفت لڑکیوں کو زندگہ دفن کردینا تھی۔

یہ تھیں زمانہ جاہلیّت کے عربوں کی عادات، ان کے خضائل، اور جب محمد عربی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے نور کا ظہور ہوا اور مکہ میں اسلام کا سورج چمکا تو یہی عرب معارف و تعلیمات سے مزیّن اور مکارم اخلاق سے آراستہ ہوگئے۔ بت پرستی کی جگہ توحید، اور جہالت و نادانی کی جگہ علم نے لے لی۔ رذائل اور بری صفات کی جگہ فضائل نے انتشار و اختلاف کی جگہ محبت و

۸۲

اخوت نے جنم لیا۔ اس کے نتیجے میں یہی عرب ایک امّت بن گئے، پورے عالم پر یہ حکومت کرنے لگے اور پوری دنیا میں انسانیت اور تمدّن کے علمبردار بن گئے۔

دُوری(۱) کاکہنا ہے:

و بعد ظهور الذی جمع قبائل العرب أمّة واحدة، تقصد مقصداً واحداً ظهرت للعیان أمّة کبیرة، مدّت جناح ملکها من نهر تاج اسبانیا الی نهر الجانج فی الهند، و رفعت علی منار الاشارة أعلام التمدن فی أقطار الأرض، أیام کانت اوربا مظلمة بجهالات أهلها فی القرون المتوسطة

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے تمام قبائل کو ایک اُمّت میں تبدیل کردیا جس کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ بہت جلد ایک بڑی امّت کی شکل اختیار کرگئی جو اسپین کے دریائے ٹیگ سے لے کر ہندوستان کے دریائے گنگاتک حکومت کرنے اور پوری دنیا پر اپنے تمدّن اور انسانیّت کے جھنڈے لہرانے لگی۔ یہ وہ دور تھا جب قرون وسطیٰ میں یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔،،

اس کے بعد کہتے ہیں:

ثم قال: انهم کانوا فی القرون المتوسطة مختصین بالعلوم من بین سائر الأمم، وانقشعت بسببهم سحائب البربریة التی امتدت علی اوربا حین اختل نظامها بفتوحات المتوحشین

''قرون وسطیٰ میں علوم و فنون صرف مسلمانوں کے ہاں پائے جاتے تھے اور انہیں مسلمانوں کے ذریعے ظلم و بربریت کے وہ بادل چھٹ گئے جو یورپ پر چھائے ہوئے تھے۔،،

____________________

(۱) فرانس کا ایک وزیر۔

(۲) صفوۃ العرفان، لمحمد فرید و جدی، ص ۱۱۹۔

۸۳

یہ تمام عظیم کامیابیاں ا س کتاب کریم کی برکت سے تھیں جس کی نطیر تمام آسمانی کتب میں نہیں ملتی۔ کیونکہ قرآن کریم نے اپنے نظام اور اپنی تعلیمات میں وہ روش اختیار کی ہے جو دلیل و برہان سے ہم آہنگ اور عقل سے مربوط ہے۔ قرآن کریم نے ہمیشہ عدل کا راستہ اختیار کیا اور ہمشیہ افراط و تفریط سے اجتناب برتا ہے۔ چنانچہ سورہ فاتحہ میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ خدا کے دربار میں بشر کی زبان سے صراء مستقیم کی دعا کی جارہی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) ۱:۶،،

''ہم کو سیدھی راہ پر ثابت قدم رکھ،،

اگرچہ یہ جملہ محتصر سا ہے لیکن اس کے معانی بہت وسیع ہیں۔ انشاء اللہ سورہ فاتحہ کی تفسیر میں ہم ان کی طرف اشارہ کریں گے۔

قرآن کریم نے عدل و انصاف اور صراطِ مستقیم اختیار کرنے کاحکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے۔

۱۔( إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ ) ۴:۵۸

''(اے ایمان دارو) خدا تمہیں حکم دیتا ہے کہ لوگوں کی امانتیں امانت رکھنے والوں کے حوالے کر دو اور جب لوگوں کے باہمی جھگڑوں کافیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔،،

۲۔( اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ) ۵ :۸

''(خبردار بلکہ) تم (ہر حال میں) انصاف کرو، یہی پرہیزگاری سے بہت قریب ہے۔،،

۸۴

۳۔( وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ) ۶:۱۵۲

''جب بات کہو تو انصاف سے اگرچہ وہ (جسکے تم خلاف کہو) تمہارا عزیز ہی (کیوں نہ) ہو۔،،

۴۔( إِنَّ اللَّـهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ )

۱۶:۹۰

''اس میں شک نہیں کہ خدا انصاف اور (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے اور قرابتداروں کو (کچھ) دینے کا حکم کرتا ہے اور بدکاری اور ناشائستہ حرکتوں اور سرکشی کرنے کو منع کرتا ہے (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔،،

قرآن کریم نے عدل و انصاف کا حکم دیا ہے اور اپنی تعلیمات میں اعتدال و میانہ روی اختیار کی ہے، اس نے متعدد مقامات پر بخل اور کنجوسی سے روکا اور لوگوں کو اس کے مفاسد اور انجام سے آگاہ کیا ہے۔

( وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّـهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ ) ۳:۱۸۰

''اور جن لوگوں کو خدا نے ا پنے فضل (و کرم) سے کچھ دیا ہے (اور پھر) بخل کرتے ہیں وہ ہرگز اس خیال میں نہ رہیں کہ یہ ان کے لیے کچھ بہتر ہوگا بلکہ یہ ان کے حق میں بدتر ہے، کیوں کہ جس (مال) کا بخل کرتے ہیں عنقریب ہی قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر ان کے گلے میں پہنایا جائے گا اور سارے آسمانوں اور زمین کی میراث خدا ہی کی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس سے خبردار ہے۔،،

اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے اسراف اور فضول خرچی سے بھی روکا اور ہے لوگوں کو اس کے مفاسد اور نقصانات سے آگاہ کیا ہے۔

۸۵

( وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ) ۶:۱۴۱

''اور خبردار فضول خرچی نہ کرو کیوں کہ وہ (خدا) فضل خرچوں سے ہرگز الفت نہیں رکھتا۔،،

( إنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ۖ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ) ۱۷:۲۷

(خبردار) فضول خرچی مت کیا کرو کیونکہ فضول خرچی کرنے والے یقیناً شیاطانوں کے بھائی ہیں۔،،

( وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا ) ۱۷:۲۹

''اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (بہت تنگ) کرلو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل کھولدو کہ (سب کچھ دے ڈالو اور) آخر تم کو ملامت زدہ حسرت آلودہ یا حسرت بھرا بیٹھنا پڑے۔،،

قرآن کریم نے مصائب پر صبر اور اذیتوں و مشقتوں کو برداشت کرنے کا حکم دیا ہے۔ صابرین کی ان کے صبر کرنے پر تعریف کی ہے اور انہیں ثواب کثیر عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے:

( إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ ) ۳۹:۱۰

''صبر کرنے والوں ہی کو تو ان کابھرپور بے حساب بدلے دیا جائے گا۔،،

( وَاللَّـهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ ) ۳:۱۴۶

''اور ثابت قدم رہنے والوں سے خدا الفت رکھتا ہے۔،،

قرآن کریم نے جہاں صبر کرنے کی تاکید کی ہے وہاں مظلوم سے یہ نہیں کہا کہ وہ ظالم کے سامنے بے بسی کے عالم میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائے بلکہ اسے اجازت دی ہے کہ وہ ظالم سے انتقام لے اور جس طرح کا اس پر ظلم ڈھایا گیا ہے اسی کے مطابق بدلہ لے تاکہ فساد کی جڑ ختم ہو اور عدل کی شریعت وجود میں آجائے۔

۸۶

( فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ ) ۲:۱۹۴

''پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے ویسی ہی زیادتی تم بھی اس پر کرو۔،،

اس کے علاوہ مقتول کے ولی کو ایسے قاتل سے قصاص لینے کی اجازت دی ہے جس نے عمداً قتل کیا ہے۔

( وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا ) ۱۷:۳۳

''اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) قابو دیا ہے تو اسے چاہیے کہ قتل (خون کا بدلہ لینے) میں زیادتی نہ کرے۔،،

قرآن کریم نے اعتدال اور میانہ روی کی راہ اختیار کرنے کا حکم دے کر نظام دنیا و آخرت کو یکجا کردیا ہے نیز دنیا کی اصلاح اور اخری سعادت کی بھی ضمانت دی ہے۔

قرآن کریم وہ عظیم ناموس ہے جسے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) لے کر آئے تاکہ انسان دنیا و آخرت دونوں کی سعادتوں سے ہمکنار ہو۔

قرآن کریم کی تشریع اور قانون سازی صرف دنیاوی پہلو کے پیش نظر نہیں ہے جس میں آخرت کو نظر انداز کردیا گیا ہو، جیسا کہ موجودہ تورات میں آپ کو یہ چیز نظر آئے گی تورات اتنی بڑی کتاب ہے اس کے باوجود اس میں کوئی ایسا مقام نظر نہیں آتا جہاں آخرت کے وجود کا ذکر ہو اور نہ ہی اس میں اچھے اور برے اعمال کی جزا و سزا کے سلسلے میں آخرت کا کوئی تذکرہ ہے البتہ تورات میں تصریحاً یہ بات ضرور موجود ہے کہ اطاعت کا اثر یہ ہے کہ انسان دنیا میں مستغنی و بے نیاز اور لوگوں کو غلام بنا کر ان پر حاکم ہو جاتا ہے اور معصیت کا اثر یہ ہے کہ انسان اپنے ربّ کی نظر سے گر جاتا ہے، جس کے نتیجے میں موت آجاتی ہے اور اس کا سب مال چھن جاتا ہے۔

۸۷

ایسا بھی نہیں ہے کہ قرآن کریم کی قانون سازی میں صرف اخروی پہلو کو مدنظر رکھا گیا ہو اور دنیاوی امور کا اس میں کوئی تذکرہ نہ ہو۔ جس طرح کہ انجیل میں ہے۔ انجیل میں صرف اخروی باتیں ہیں اور دنیا کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ صرف قرآن کریم کی شریعت ایسی مکمل شریعت ہے جو کبھی تو مصلحت دنیا کو مد نظر رکھتی ہے اور کبھی مصلحت آخرت اس کے پیش نظر ہوتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

۱۔( وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ) ۴:۱۳

''اور جو خدا اور رسول کی اطاعت کرے اس کو خدا آخرت میں ایسے (ہرے بھرے) باغوں میں پہنچا دے گا جن کے نیچے نرہیں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ (چین سے) رہیں گے اور یہی تو بڑی کامیابی ہے۔،،

۲۔( وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ) ۴:۱۴

''اور جس شخص نے خدا اور رسول کی نافرمانی کی اور اس کی حدوں سے گزر گیا تو بس خدا اس کو جہنم میں داخل کرے گا اور وہ اس میں ہمیشہ (اپنا کیا بھگتتا) رہے گا اور اس کے لیے بڑی رسوائی کا عذاب ہے۔،،

۳۔( فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ) ۹۹:۷-۸

''تو جس شخص نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس شخص نے ذرہ برابر بدی کی تو ہے اسے دیکھ لے گا۔،،

۴۔( وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّـهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ ) ۲۸:۷۷

''اور جو کچھ خدا نے تجھے دے رکھاہے اس میں آخرت کے گھر کی بھی جستجو کر، اور دنیا سے جس قدر تیرا حصّہ ہے مت بھول۔،،

۸۸

قرآن مجید مزید بہت سی آیات میں لوگوں کو تحصیل علم کی تاکید کرتا ہے اور بہت سی دنیاوی لذتوں کو مباح و جائز قرار دینے کے ساتھ ساتھ تقویٰ اختیار کرنے پر بھی اصرار کرتا ہے۔

۵۔( قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ ) ۷:۳۲

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ان سے پوچھو تو کہ جو زینت (کے ساز و سامان) اورکھانے پینے کی صاف ستھری چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کی ہیں کس نے حرام کردیں۔،،

قرآن کریم اکثر مقامات پر خدا کی عبادت کرنے، اپنی تشریعی و تکوینی آیات، کائنات اور اپنے نفس پر غور و فکر اور تاءمل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ان سب کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے صرف اسی پہلو کو نہیں اپنایا جس سے انسان اپنے ربّ تک پہنچتا ہے بلکہ دوسرے پہلو کابِھی ذکر فرمایا ہے جس کے ذریعے اپنے معاشرے کے دوسرے افراد کے ساتھ مل کر بیٹھا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم نے انسان کے لیے خرید و فروخت کو حلال قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( وَأَحَلَّ اللَّـهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ ) ۲:۲۷۵

''حالانکہ بکری کو تو خدا نے حلال کیا اور سُود کو حرام کردیا۔،،

قرآن کریم نے عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ ) ۵:۱

''اے ایماندارو! (اپنے) اقراروں کو پورا کرو۔،،

اور اسلام نے ازدواج کاحکم دیا جس پر بنی نوعِ انسان کی بقا کا دار مدار ہے:

( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِن يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ) ۲۴:۳۲

''اور (اپنی قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیکوکار غلاموں اور لونڈیوں کابھی نکاح کردیا کرو۔ اگریہ لوگ محتاج ہوں گے تو خدا اپنے فضل (وکرم) سے انہیں مالدار نہیں بنا دے گا اور خدا تو بڑی گنجائش والا واف کار ہے۔،،

۸۹

( فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً ) ۴:۳

''اور عورتوں سے اپنی مرضی کے موافق دو دو اور تین تین اور چار چار نکاح کرو، پھر اگر تمہیں اس کا اندیشہ ہو کہ تم (متعدد بیبیوں میں بھی) انصاف نہ کرسکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو۔،،

انسان کو اپنی زوجہ سے احسان سے پیش آنے، اس کی تمام ضروریات پوری کرنے، والدین اور رشتہ داروں اور تمام مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے ساتھ احسان کرنے کاحکم دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ) ۴:۱۹

''اور بیبیوں کیساتھ اچھاسلوک کرتے رہو۔،،

( وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ ) ۲:۲۲۸

''اور شریعت کے موافق عورتوں کا (مردوں پر) وہی سب کچھ (حق) ہے جو (مردوں کا) عورتوں پر ہے۔،،

( وَاعْبُدُوا اللَّـهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ) ۴:۳۶

''اور خدا ہی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اورماںباپ اور قرابتداروں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار، پڑوسیوں اور اجنبی پڑوسیوں اور پہلو میں بیٹھنے والے مصاحبین اور مسافروں اور اپنے زرخرید لونڈی غلام کے ساتھ احسان کرو، بیشک خدا اکڑ کر چلنے والوں اور شیخی باموں کو دوست نہیں رکھتا۔،،

۹۰

( وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّـهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ) ۲۸:۷۷

''اور جس طرح خدا نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اوروں کے ساتھ احسان کر اور روئے زمین میں فساد کا خواہاں نہ ہو، اس میں شک نہیں کہ خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔،،

( إِنَّ رَحْمَتَ اللَّـهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ) ۷:۵۶

''(کیونکہ) نیکی کرنے والوں سے خدا کی رحمت یقیناً قریب ہے۔،،

( وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ) ۲:۱۹۵

''اور نیکی کرو، بے شک خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔،،

قرآنی تعلیمات کے یہ چند نمونے ہیں جن میں اعتدال اور میانہ روی کی راہ بتائی گئی ہے۔

قرآن مجید نے امّت کے تمام افراد پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر واجب قرار دیا ہے اور اسے کسی خاص گروہ یا افراد سے مخصوص نہیں کیا۔ قرآن کریم نے اسی قانون سازی کے ذریعے اپنی تعلیمات کی ترویج و تبلیغ کے دروازے کھول دیئے اور اس میں زندگی و دوام کی روح پھونک دی ۔ قرآن کریم نے معاشرے کے ہر فرد کو معاشرے کا بلکہ ہر مسلمان تبلیغ احکام کے مکلف ہیں اور احکام دین کی تبلیغ کرنے اور انہیں نافذ کرنے کا فریضہ ان پر عائد کیا گیا ہے کیا آپ نے اس سے زیادہ طاقتور اور مؤثر کوئی دوسرا لشکر دیکھا ہے۔ ہم نے بادشاہوں اور حکام کو دیکھا ہے کہ وہ اپنی فوجی قوت اور آمریت کے بل بوتے پر اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں اور یہ واضح ہے کہ حکام کی فوج اور پولیس ہر وقت اور ہر جگہ لوگوں کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ کتنا فرق ہے لشکر اسلام اور دوسرے حکام کے لشکر میں؟

۹۱

قرآن کریم کی سب سے بڑی اور اہم تعلیم جو مسلمانوں کی صفوں میں اتفاق و اتحاد پیدا کرسکتی ہے وہ مسلمانوں کے تمام طبقوں میں اخوت و بھائی چارہ قائم کرنے کی ہے، نیز علم و تقویٰ کے علاوہ تمام امتیازات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ ۚ ) ۴۹:۱۳

''اس میں شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تم سب میں بڑا عزت دار وہی ہے جو بڑا پرہیزگار ہو۔،،

( قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ ) ۳۹:۹

''(اے رسول) تم پوچھو تو کہ بھلا کہیں جاننے والے اور نہ جاننے والے لوگ برابر ہوسکتے ہیں۔،،

پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں:

ان الله عزوجل أعز بالاسلام من کان فی الجاهلیة ذلیلاً، و أذهب بالاسلام ما کان من نخوة الجاهلیة، و تفاخرها بعشائرها، و باسق أنسابها، فالناس الیوم کلهم أبیضهم و أسودهم، و قرشیهم و عربیهم و عجمیهم من آدم ۔و ان آدم خلقه الله من طین، و ان أحب الناس الی الله عزوجل یوم القیامة أطوعهم له و أتقاهم،، ۔۔۔(۱)

''خالق کائنات نے اسلام کی بدولت اسے عزّت دی جو زمانہ جاہلیّت میں جاہل سمجھا جاتا تھا اور اسلام کے ذریعے زمانہ جاہلیّت میں پائے جانے والے غرور و نخوت کو ختم کردیا۔ حسن نسب اور قبیلے پر کئے جانے والے فخر کو بھی قرآن کریم نے ختم کردیا آج سب لوگ برابر ہیں۔ چاہے وہ سفید ہوں یا سیاہ۔ قریشی ہوں عربی یا عجمی غرض سب کے سب آدمٍ کی اولاد ہیں اور آدم کو خدا نے مٹی سے پیدا کیا اور روز قیامت سب سے زیادہ محبوبِ خدا وہ ہوگا جو سب سے زیادہ پرہیزگار اور متقی ہوگا۔،،

نیز آپ نے فرمایا:

''فضل العالم علی سائر الناس کفضلی علی أدنا کم (۲)

''عالم کو عام لوگوں پر وہی فضیلت ہے جو مجھے تم میں سے ایک معمولی آدمی پر ہے۔،،

____________________

) ۱) فروع کافی، ج ۲، باب ۲۱، ان المومن کفو المومنۃ۔

) ۲) الجامع الصغری بشرح المنادی، ج ۴، ص ۴۳۲۔

۹۲

اسلام نے حضرت سلمان فارسیؓ کو ان کے کمال ایمان کی وجہ سے دوسروں پر مقدم کیا حتی کہ ان کو اہل بیت میں سے قرار دیا اورسول اللہ کا چچا ابو لہب اپنے کفر کی وجہ سے راندہئ درگاہ قرار دیا۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ پیغمبر اسلام نے کبھی بھی اپنے حسب و نسب پر فخر نہیں کیا اور ہی آپ نے اپنے کسی اور کمال و صفت پر فخر کیا جس کا اس زمانےمیں عام رواج تھا، بلکہ آپ لوگوں کو خدا اور آخرت پرایمان لانے کی دعوت دیا کرتے تھے۔

آپ نے کلمہئ توحید اور توحید کلمہ( ۱ ) کی دعوت دی اور اسی وجہ سے آپ اس قوم پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے جو اپنے حسب و نسب پر فخر کیا کرتی تھی اور جس کے دل نفاق اور اختلافات سے بھرے ہوئے تھے۔ اسلامی تعلیمی اس قوم کی طبیعتوں پر اثر انداز ہوئیں جس سے ان میں موجود کبر و نخوت کا خاتمہ ہوگیا اور شرفا و امراء کو اپنی بیٹیوں کا رشتہ غریب و نادار مسلمانوں سے کرنے میں کوئی عار محسوس نہ ہونے لگا۔( ۲ )

یہ ہے قرآن کی شریعت اور اس کی تعلیمات، جن میں انفرادی و اجتماعی مصلحتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ قرآن کریم کے بعض قوانین کا تعلق دنیا سے ہے اور بعض کا آخرت سے اور ان میں دونوں جہانوں کی مصلحتوں کی ضمانت ملتی ہے، ان تمام خصوصیات کو دیکھنے کے بعد بھی کوئی فرد اس شریعت کے لانے اور پیش کرنے والے کی نبوّت میں شک کرسکتا ہے؟ خصوصاً جب وہ اس پہلو کو دیکھے کہ پیغمرب اسلام نے ایک ایسی وحشی قوم میں نشو و نما پائی جس کا اس قسم کی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔

_____________________

۱) ) باہمی اتحاد و اتفاق (مترجم)۔

۲) ) اس کی ایک مثال زیاد بن لبید ہے جو بنی بیاضہ کے امراء اکابرین میں سے تھا، اس نے ا پنی بیٹی کی شادی جویبر کے ساتھ کردی۔ جویبر ایک پستہ قد اور سیاہ رنگت والا انتہائی محتاج و غریب مسلمان تھا۔ فروع کافی، ج ۲، باب ۲۱، ان المومن کفو المومنۃ۔

۹۳

قرآن کے معانی میں پختگی

قرآن کریم متعدد موضوعات سے متعرض ہوا ہے اور اس کے مقاصد مختلف اور جدا ہیں جیسا کہ ان کا تعلق الہٰیات و معارف، آغاز خلقت اور معاد، رُوح، ملک، ابلیس اور جن جیسے مافوق طبیعت مفاہیم سے ہے۔ ان کے علاوہ فلکیات، زمین، تاریخ، گذشتہ انبیاء میں سے بعض کے مسائل و معاملات اور گذشتہ انبیاء اور ان کی امّتوں میں رونما ہونے والے واقعات سے ان کی مناسبت ہے۔ نیز ضرب الامثال، احتجاجات اور استدلالات، اخلاقیات، خاندانی حقوق، ریاستی سیاست، اجتماعی و جنگی نظام، قضا و قدر، کسب و اختیار، عبادات و معاملات ، نکاح و طلاق، واجبات اور حدود و قصاص وغیرہ سے یہ متعلق ہیں۔

قرآن کریم نے ان تمام مسائل کو ایسے ٹھوس حقائق کی صورت میں پیش کیا جن میں کسی طرح کے بطلان و تنقید کا گزر تک نہیں ہوسکتا اور کسی بھی باطل کے لیے ان میں گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا کمال ہے جس کا مظاہرہ ایک عام بشر سے ہونا محال ہے خصوصاً ایسے شخص سے جس نے ایک ایسی امّت میں پرورش پائی ہو جس کی قسمت میں نہ معارف تھے اور نہ دیگر علوم۔

اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ علوم النظریہ پر تالیف شدہ کتب میں مذکور نظریات کچھ عرصہ گزرنے کے بعد باطل نظر آتے ہیں کیونکہ علمو النظریہ میں جتنی زیادہ غور و فکر کی جائے اتنے ہی زیادہ اس کے حقائق واضح اور آشکار ہو جاتے ہیں اور پہلوں نے جس نظریہ کو ثابت کیا ہوتا ہے بعد والوں کا نظریہ اس کے برعکس ہوتا ہے اور حقیقت بحث و تمحیص سے جنم لیتی ہے کتنے ہی مباحث ایسے ہیں جنہیں پہلوں نے ادھورا چھوڑا اور بعد میں آنے والوں نے انہیں مکمّل کیا۔ اسی وجہ سے پہلوں کی فلسفہ کی کتب بعد میں آنے والوں کی تنقید کا نشانہ بنتی ہیں۔ یہاں تک کہ پہلے والے جن مسائل کو یقینی برہان سمجھتے تھے بعد میں ان پر ہونے والی بحث و تمحیص کے نتیجہ میں وہ مسائل ادھام شمار ہونے لگے۔

قرآن کریم کو اتنا طویل عرصہ گزرنے، اس کے اغراض و مقاصد مختلف ہونے اور معانی کی رفعت کے باوجوداس میں کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جو قابل تنقید و قابل اعتراض ہو، سوائے ان چند توہمات کے جن کو کوتاہ فکر افراد اپنے زعم باطل میں تنقید سمجھتے ہیں۔ اس اوہام کا ذکر اور ان کا باطل ہونا ہم بعد میں ثابت کریں گے۔

۹۴

قرآن کی غیب گوئی

قرآن کریم نے متدد آیات میں بعض ایسے اہم ترین امور کی خبردی ہے جن کا تعلق آیندہ سے تھا۔ ان تمام پیشگوئیوں میں قرآن کریم صادق ثابت ہوا اور کوئی بھی خبر خلاف واقع ثابت نہیں ہوئی، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ غیب کی خبریں جن کا ذریعہ وحی و نبوّت کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

ان آیات میں غیب کی خبریں دی گئی ہیں:

( وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّـهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ ) ۸:۷

''اور (یہ وہ وقت تھا) جب خدا تم سے وعدہ کررہا تھا کہ (کفار مکّہ کی) دو جماعتوں میں سے ایک تمہارے لیے ضروری ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ کمزور جمعات تمہارے ہاتھ لگے (تاکہ بغیر لڑے بھڑے مال غنیمت ہاتھ آجائے) اور خدا یہ چاہتا تھا کہ اپنی باتوں سے حق کو ثابت (قائم) کرے اور کافروں کی جڑ کاٹ ڈالے۔،،

یہ آیت کریمہ جنگ بدر کے موقع پر نازل ہوئی تھی۔ اس میں مومنین کی فتح اور کفّار کی بیخ کنی کا وعدہ کیا گیا ہے جب کہ مومنین تعداد اور وسائل جنگ دونوں لحاظ سے کم تھے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں میں سوار صرف جناب مقداد تھے یا آپ کے ساتھ جناب زبیر بن عوام تھے۔ مسلمانوں کے مقابلے میں کفار ہر لحاظ سے طاقتور تھے اور خود قرآن کریم نے ان کی طاقت کو لفظ ''شوکۃ،، سے تعبیر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مسلمان ان سے خوفزدہ تھے۔ مگر خدا نے چاہا کہ حق باطل پر غالب آجائے خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا، کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کی نصرت فرمائی اور کفار کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔

۹۵

( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ) ۱۵:۹۴

''پس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کرکے سنا دو اور مشرکین کی طرف سے منہ پھیرلو۔،،

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ) :۹۵

جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کے لئے کافی ہیں۔،،

( الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ ) ۹۶

''جو لوگ خدا کے ساتھ دوسرے پروردگار کوشریک ٹھہراتے ہیں تو عنقریب ہی انہیں معلوم ہوجائیگا۔،،

یہ آیات دعوتِ اسلام کے آغاز میں مکّہ میں نازل ہوئیں۔ بزاز اور طبرانی نے ان کی شانِ نزول کے بارے میں انس بن مالک سے یہ روایت نقل کی ہے:

''یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب نبی کریم مکّہ میں کچھ لوگوں کے قریب سے گزرے۔ آپ کے گزرنے کے بعد ان لوگوں نے آپ کی طرف اشارے کئے اورکہا:هذا الذی یزعم انه نبی و معه جبرئیل ''یعنی یہ وہی آدمی ہے جو یہ خیال کرتا ہے کہ میں نبی ہوں اور میرے ساتھ جبرئیل ہے؟،،(۱)

چنانچہ ان آیات کریمہ میں نبی کی دعوت کی کامیابی، نصرتِ الہٰی اور ان لوگوں کی رسوائی کی خبر دی گئی ہے جنہوں نے آپ کی مخالفت کی تھی، آپ کی نبوّت کا مذاق اڑایا تھا اور جو اس دعوت کی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

یہ خبر اس وقت دی گئی تھی جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قریش کی یہ طاقت ختم ہو جائے گی، اس کی حکومت کو زوال آجائے گا اور پیغمبر اسلام اس پر غالب آجائیں گے۔

___________________

(۱) جلال الدین سیوطی، ص ۱۳۳، باب نقول۔

۹۶

اس قسم کی ایک دوسری آیہ میں ارشاد ہوتا ہے:

( هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ) ۶۱:۹

''وہ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے دوسرے تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرکی برا ہی (کیوں نہ) مانیں۔،،

انہی غیب کی خبروں میں سے ایک ارشاد الہٰی یہ ہے:

( غُلِبَتِ الرُّومُ ) ۳۰:۲

''(یہاں سے) بہت قریب کے ملک میں (نصاریٰ اہل فارس آتش پرستوں سے) ہار گئے۔،،

( فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّن بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ )

''مگر یہ عنقریب ہی اپنے ہار جانے کے بعد چند سالوں میں پھر (اہل فارس پر) غالب آجائیں گے۔،،

ان آیات میں جو خبر دی گئی ہے وہ دس سال سے کم عرصے میں واقع ہو کر رہی۔ شاہ روم نے شاہ ایران پر غلبہ پالیا اور رومی لشکر سرزمین فارس میں داخل ہوگیا۔

انہی میں سے ایک آیت یہ بھی ہے:

( أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ مُّنتَصِرٌ ) ۵۴:۴۴

''کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بہت قوی جماعت ہیں۔،،

( سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ ) :۴۵

''عنقریب ہی یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔،،

۹۷

اس آیت میں کفار کی شکست، ان کے تتر بتر ہونے اور ان کا رعب و ہیبت ختم ہو جانے کی خبر دی گئی ہے۔ یہ واقعہ بھی جنگ بدر کا ہے۔ جب ابوجہل نے اپنے گھِوڑے کو ایڑ لگا کر پہلی صف کی طرف بڑھتے ہوئے کہا تھا:

''ہم آج محمد اور آپ کے اصحاب پر فتح حاصل کریں گے۔،،

چنانچہ خدا نے اس کو اور اس کے لشکر کو ہلاک و برباد کردیا، حق کو ثابت اور روشن کیا، مینارہئ حق بلند ہوا اور اس کا بول بالا ہوا، کفار شکست کھا گئے اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا۔

یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کوئی یہ تصوّر بھی نہیں کرسکتا تھا کہ صرف تین سو تیرہ افراد اس طاقتور فوج کو شکست دے دیں گے جو سامانِِ جنگ اور تعداد کے لحاظ سے ان سے کئی گنا زیادہ تھی۔ جبکہ ن تین سو تیرہ افراد کے پاس صرف ایک یا دو گھوڑے اور ستّر اونٹ تھے جن پر یہ باری باری سوار ہوتے تھے، ان کے پاس کوئی جنگی قوّت نہیں تھی۔ اس کے باوجود ان کا پلّہ بھاری رہا اور باطل قوّت کا سارا رعب و ہیبت خاک میں مل گیا۔

اگر امر خدا، احکامِ نبوّت، استحکام اور نیّت صادق نہ ہوتی یہ کامیابی ممکن نہ تھی۔ اسی طرح کی ایک اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ )( سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ) :۱۱۱: ۱ و ۳

''ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ خود ستیاناس ہوجائے۔ وہ بہت بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا اور اس کی جو رو بھی جو سر پرایندھن اٹھائے پھرتی ہے۔،،

اس آیت کریمہ میں ابو لہب اور اس کی بیوی کی جہنمی ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی قرآن کریم یہ پیشگوئی کررہا ہے کہ یہ دونوں زندگی بھر ایمان نہیں لائیں گے اور ہوا بھی اسی طرح کہ یہ دونوں ایمان لائے بغیر ہلاک ہوگئے۔

۹۸

قرآن اور اسرار خلقت

قرآن کریم نے بہت سی آیات میں طبیعی قوانین اور افلاک وغیرہ کے مسائل بیان کئے ہیں۔ یہ مسائل ایسے ہیں جن کو سمجھنے کا آغاز اسلام سے ہوا اور سوائے وحی الہٰی کے انہیں سمجھنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں تھا۔ اگرچہ ان میں سے بعض قوانین کے بارے میں اس دور کے یونانی یا علوم سے آشنا دیگر افراد کچھ معلومات رکھتے تھے۔ لیکن جزیرۃ العرب اس طرح کے علمی ماحول سے بالکل کٹا ہوا تھا۔

قرآن کریم نے جن مسائل کی خبر دی ہے ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جو علوم و انکشافات عام ہونے کے بعد ہی حل کئے جاسکے ہیں۔

قرآن کریم میں ایسی خبریں کم نہیں ہیں۔ان مسائل سے متعلق آیات کی تفسیر کے دوران ہم ان مسائل کاذکر کریں گے۔

قرآن کریم نے مسائل کی خبر انتہائی دور اندیشی اور احتیاط کے ساتھ دی ہے اور ان میں سے بعض کی تصریح کی ہے اور جہاں مصلحت صرف اشارہ کرنے میں تھی وہاں اشارہ کرنے پر اکتفا کیا ہے کیونکہ ان میں سے بعض مسائل ایسے تھے جن کو اس زمانے کے لوگوں کی عقلیں ماننے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ اس لیے مصلحت اسی میں تھی کہ ان مسائل کی طرف ایسا اشارہ کردیا جائے کہ جب آئندہ دور میں علم ترقی کرے تو یہ واضح ہو کر سامنے آجائیںٍ۔

وہ مسئلہ، جس کا انکشاف آسمانی وحی کے ذریعے ہوا اور جس کی جانب متاءخرین بعد میں متوجّہ ہوئے، اس کی طرف یہ آیہ کریمہ اشارہ کررہی ہے:

( وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ ) ۱۵:۱۹

''اور ہم نے اس میں ہر قسم کی مناسب چیز اُگائی۔،،

۹۹

موجودہ دور میں جدید تحقیق کے نتیجے میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ نبات کی تمام اقسام مخصوص اجزاء کا مرکّب ہوتی ہیں۔ ان اجزاء میں اتنا باریک اور نازک توازن ہے کہ جسے مشہور اور دقیق انسانی معیاروں پر بھی پرکھا نہیں جاسکتا۔

جن حیرت انگیز اسرار کی طرف وحی الہٰی میں اشارہ کیا گیا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بعض درخت اور نباتات ایسے ہیں جو ہواؤں کے ذریعے بار آور ہو کر پھل دیتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:

( وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ ) ۱۵:۲۲

''اور ہم ہی نے وہ ہواھیں بھیجیں جو بادلوں کو پانی سے بھرے ہوئے ہیں۔،،

گذشتہ مفسرین نے آیہ کریمہ میں سے ''لقاح،، کا ترجمہ ''اٹھانا،، کیا ہے، کیونکہ ''لقاح،، کے معانی میں سے ایک معنی ''اٹھانا،، ہے اور اس آیہ کریمہ کی تفسیر یہ کی ہے کہ ہوائیں بادلوں کو اٹھاتی ہیں یا بادل بارشوں کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ لیکن ان معانی کی کوئی اہمیت نہیں ہے خصوصاً یہ نکتہ مدِّ نظر رکھتے ہوئے کہ ہوائیں بادلوں کو اٹھاتی نہیں ہیں بلکہ انہیں دھکیل کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا دیتی ہےں۔ ماہرین نباتات کے انکشافات کے مطالعہ اور صحیح فکر و نظر سے اس سربستہ اور دقیق راز کا انکشاف ہوتا ہے جسے گذشتہ علماء کے افکار حاصل نہ کرسکے اس آیت میں اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ درخت اور نباتات کو ''لقاح،، (بارآوری کا عمل) کی ضرورت ہے اوریہ لقاح خوبانی، صنوبر، انار، مالٹا، روئی اور دیگر دانہ دار نباتات میں ہواؤں کے طریقے انجام پاتا ہے۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ جب شگوفوں کے اندر دانے پک جاتے ہیں تو شگوفوں کے اندر موجود کلیاں کھل جاتی ہیں اور ان کے اندر سے زیرہ ہواؤں کے ذریعے اڑ کر مادہ پودے کے پھولوں پر جاگرتا ہے۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟

٭ روایات کے کمزور پہلو

٭ روایات میں تضاد

٭ سات حروف کی تاویل و توجیہ

٭ قریب المعنی الفاظ

٭ سات ابواب

٭ سات ابواب کا ایک اور معنی

٭ فصیح لغات

٭ قبیلہ ئ مضر کی لغت

٭ قراءتوں میں اختلاف

٭ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

٭ اکائیوں کی کثرت

٭ سات قراءتیں

٭ مختلف لہجے

۲۲۱

اہل سنت کی روایات بتاتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ پہلے ان روایات کو بیان کیا جائے اور پھر ان کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی جائے۔

۱۔ طبری نے یونس اور ابی کریب سے انہوں نے ابی شہاب سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قال:''أقرأنی جبرئیل علی حرف فراجعته، فلم أزل أستزیده فیزیدنی حتی انتهی الی سبعة أحرف،،

''مجھے جبرئیل نے ایک حرف میں پڑھایا۔ میں نے دوبارہ جبرئیل کی طرف رجوع کیا اور یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔،،

اس روایت کومسلم نے حرملہ سے، حرملہ نے ابن وھب سے اور اس نے یونس سے نقل کیا ہے۔(۱) بخاری نے دوسری سند سے یہ روایت بیان کی ہے اور اس کا مضمون ابن برقی اور ابن عباس کے ذریعے نقل کیا ہے۔(۲)

۲۔ ابی کریب نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کی سند سے اس نے اپنے جد کی سند سے اور اس نے ابی ابن کعب کی سند سے روایت کی ہے۔ ابیّ کہتا ہے:

''کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراءة أنکرتها علیه، ثم دخل رجل آخر فقرأ قراء ة غیر قراء ة صاحبه، فدخلنا جمیعاً علی رسول الله قال: فقلت یا رسول الله ان هذا قرأ قراء ة أنکرتها علیه، ثم دخل هذا فقرأ قراءة غیر قراءة صاحبه، فامرهما رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقرأا ، فحسن رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) شأهما، فوقع فی نفسی من التکذیب، ولا اذ کنت فی الجاهلیة فلما رأی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ما غشینی ضرب صدری، ففضت عرقا کأنما أنظر الی الله فرقا فقال لی: یاأبی أرسل الی ان اقرأ القرآن علی حرف، فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثانیة أن اقرأ القرآن علی حرف فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثالثة أن اقرأه علی سبعة أحرف، و لک بکل ردة رددتها مسألة تسألنبها، فقلت: اللهم اغفر لأمتی اللهم اغفر لأمتی، و اخرت الثالثه لیوم یرغب فیه الی الخلق کلهم حتی ابراهیم علیه السلام،،

____________________

(۱)صحیح مسلم باب ان القرآن انزل علی سبعة أحرف ، ج ۲، ص ۲۰۲، طبع محمد علی صبیح، مصر۔

(۲)صحیح البخاری باب انزل القرآن علی سبعة أحرف ،ج ۲، ص ۱۰۰، مطبع عامرہ۔

۲۲۲

''میں مسجد رسول میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھنی شروع کی۔ اس نے ایک ایسی قراءت پڑھی جسے میں نہ جانتا تھا۔ اس اثنا میں دوسرا آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ایک اور قراءت سے نماز شروع کی۔ پھر جب ہم سب نماز پڑھ چکے تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قراءت سے نمام پڑھی کہ مجھے تعجب ہوا اور دوسرا آیا تو اس نے اس کے علاوہ ایک اور قراءت پڑھی۔ آپ نے ان دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ ان دونوں نے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، آپ نے دونوں کی نماز کو سراہا، اس سے میرے دل میں تکذیب آئی لیکن ایسی تکذیب نہیں جیسی زمانہ جاہلیت میں تھی۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے میری یہ کیفیت دیکھی تو میرے سینے پر ہاتھ مارا جس سے میں شرم کے مارے پسینہ سے شرابور ہوگیا اور یوں لگا جیسے میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: اے اُبیّ! مجھے یہ حکم دیا گیا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے خالق کے دربار میں درخواست کی کہ میری امت پر اس فریضہ کو آسان فرما مجھے دوبارہ یہی حکم ملا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے پھر وہی درخواست دہرائی۔ اس دفعہ مجھے حکم دیا گیا کہ میری ہر دعا، جو قبول نہیں ہوئی، کے عوض ایک دعا قبول کی جائے گی۔ اس پر میں نے یہ دعا مانگی: پالنے والے! میری امت کو بخش دے۔ پالنے والے! میری اُمّت کو بخش دے اور تیسری دعا کو اس دن کے لیے محفوظ رکھا ہے جس دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک میری دعا کے محتاج ہوں گے۔،،

اس روایت کو مُسلم نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۱) طبری نے بھی ایک اور سند سے معمولی اختلاف کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے اور تقریباً اسی مضمون کی یونس بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ صنعانی کے ذریعے اُبیّ بن کعب سے روایت کی گئی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۳۔

۲۲۳

۳۔ ابی کریب نے سلیمان بن صرد کی سند سے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے۔ اُبیّ بن کعب کہتا ہے:

قال: ''رحت الی المسجد فسمعت رجلاً یقرأ فقلت: من أقرأک؟ فقال: رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فانطلقت به الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقلت: استقریئ هذاں، فقرأ فقال: أحسنت قال: فقلت انک أقرأتنی کذا و کذا فقال: وأنت قد أحسنت قال: فقلت قد أحسنت قد أحسنت قال: فضرب بیده علی صدری، ثم قال: اللهم أذهب عن أبیّ الشک قال: ففضت عرقاً و امتلأ جو فی فرقاً ثم قال: ان اللکین أتیانی فقال أحدهما: اقرأ القرآن علی حرف، و قال الآخر: زده قال: فقلت زدنی قال: اقرأه علی حرفین حتی بلغ سبعة أحرف فقال: اقرأ علی سبعة أحرف،،

''میں مسجد میں داخل ہوا تو ایک آدمی کی قراءت سُنی، میں نے اس سے دریافت کیا تمہیں یہ قراءت کس نے پڑھائی ہے، اس نے جواب دیا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے پڑھائی ہے چنانچہ میں اسے لے کر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی قراءت سنیئے۔ اس شخص نے قراءت پڑھی اور سول اللہؐ نے سننے کے بعد فرمایا: عمدہ ہے۔ میں نے کہا: آپ نے تو مجھے اس طرح اور اس طرح قراءت پڑھائی تھی۔ آپ نے فرمایا: یقیناً تمہاری قراءت بہت اچھی ہے میں نے آپ کی نقل اتارتے ہوئے کہا: تمہاری قراءت بھی بہت اچھی ہے۔ آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا: پالنے والے! اُبیّ کے دل شک دور فرما۔ میں (اُبیّ) خجالت کے مارے پسینے سے شرابور ہو گیا اور میری پورا وجود خوف سے لرزنے لگا۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے پاس دو فرشتے نازل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ دوسرے فرشتے نے پہلے سے کہا: اس ایک حرف میں اضافہ کریں۔ میںؐ نے بھی فرشتے سے یہی کہا۔ فرشتے نے کہا: قرآن کو دو حرفوں میں پڑھیئے۔ فرشتہ حروف کی تعداد بڑھاتا گیا یہاں تک کہ فرشتے نے کہا قرآن کو سات حروف میں پڑھیئے۔،،

۲۲۴

۴۔ ابو کریب نے عبد الرحمن بن ابی بکرہ کی سند سے اور اس نے اپنے باپ کی سند سے روایت کی ہے۔ ابو کریب کہتا ہے:

قال: ''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): قال جبرئیل: اقرأ القرآن علی حرف فقال میکائیل استزده فقال: علی حرفین، حتی بلغ ستة أو سبعة أحرف و الشک من أبی کریب فقال: کهها شاف کاف ما لم تختم آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب کقولک: هلم و تعال،،

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جبرئیل نے کہا قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ میکائیل نے کہا کہ جبرئیل سے درخواست کریں کہ اسے بڑھا دے، میریؐ درخواست پر جبرئیل نے کہا دو حروف میں پڑھیئے۔ اس طرح حروف کو بڑھاتے گئے یہاں تک کہ چھ یا ست تک پہنچ گئے (چھ اور سات میں تردد ابی کریب کی طرف سے ہے) پھر آپ نے فرمایا: ان میں سے جس حرف میں بھی پڑھیں کافی ہے اور سب کا مطلب ایک ہے، جس طرح ''ھلم،، اور ''تعال،، دونوں کا معنی ہے ''آجاؤ،، بشرطیکہ رحمت کی آیہ عذاب میں اور عذاب کی آیہ رحمت میں تبدیل نہ ہو۔،،

۵۔ طبری نے احمد بن منصور کی سند سے اس نے عبد اللہ بن ابی طلحہ سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے:

قال: ''قرأ رجل عند عمر بن الخطاب فغیر علیه فقال: لقد قرأت علی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فلم یغیر علی قال: فاختصما عند النبی فقال: یا رسول الله ألم تقرئنی آیة کذا و کذا؟ قال: بلی، فوقع فی صدر عمر شیئ فعرف النبی ذلک فی وجهه قال: فضرب صدره وقال: أبعد شیطاناً، قالها ثلاثاً ثم قال: یا عمر ان القرآن کله سوائ، ما لم تجعل رحمةً عذاباً و عذاباً رحمة،،

''ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب کے سامنے قرآن پڑھا حضرت عمر بن خطاب نے اس پر اعتراض کیا اور اس کی اصلاح کی کوشش کی۔ اس شحص نے کہا: میں نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے سامنے بھی اسی طرح قراءت پڑھی تھی۔ لیکن آپ نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں فیصلے کے لیے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

۲۲۵

اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! کیا آپ نے مجھے اس آیہ کی قراءت اس طرح نہیں پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی۔ حضرت عمر کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے چہرے پر نمایاں محسوس فرمایا۔ راوی کہتا ہے: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے سینے پر ہاتھ مارا اور تین مرتبہ فرمایا: شیطان کو اپنے آپ سے دور رکھو۔ اس کے بعد فرمایا: یہ سب قرآن ایک جیسے ہیں جب تک کسی رحمت کو عذاب میں اور عذاب کو رحمت میں تبدیل نہ کرو۔،،

طبری نے یونس بن عبد الاعلیٰ سے حضرت عمر اور ہشام بن حکیم کا اسی قسم کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کی سند خود حضرت عمر تک پہنچتی ہے۔

بخاری، مسلم اور ترمذی نے بھی حضرت عمر کا ہشام کے ساتھ ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کی سند اور حدیث کے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔(۱)

۶۔ طبری نے محمد بن مثنی سے اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے:

قال: ''فأتاه جبرئیل فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمّتک القرآن علی حرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک قال: ثم أتاه الثانیة فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمتک القرآن علی حرفین فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک، ثم جاء الثالثة فقال: ان الله یأمرک أن تقری، امّتک القرآن علی ثلاثة أحرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لاتطبق ذلک، ثم جاء الرابعة فقال: ان الله یأمرک أن قری، أمّتک القرآن علی سبعة أحرف، فأنما حرف قرأوا علیه فقد أصابوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قبیلہ بنی غفار کے ہاں تھے، اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اُمّت کو ایک حرف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امّت اس کی قدرت نہیں رکھتی

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۲۔ صحیح بخاری، ج ۳، ص ۹۰ اور ج ۶، ص ۱۰۰،۱۱۱، ج ۸، ص ۵۳۔۲۱۵۔صحیح ترمذی، بشرح ابن العربی باب ما جاء انزل القرآن علی سبعة احرف ، ج ۱۱، ص ۶۰۔

۲۲۶

اُبیّ کہتا ہے: جبرئیل دوسری مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی اُمّت کو دو حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخوات ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ تیسری مرتبہ جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو تین حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ جبرئیل پھر چوتھی مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو سات حروف میں قرآن پڑھایئے، ان میں سے جس حرف پر بھی وہ قرآن پڑھے صحیح ہے۔،، اس روایت کو مسلم نے اپنی صحیح(۱) میں بیان کیا ہے۔ نیز طبری نے اس روایت کے کچھ حصے احمد بن محمد طوقی سے، اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے معمولی اختلاف سے بیان کئے ہیں۔ اس کے علاوہ طبری نے محمد بن مثنیٰ سے اور اس نے ابیّ بن ابی کعب سے روایت کی ہے۔

۷۔ طبری نے ابی کریب سے اس نے زر سے اور اس نے اُبیّ سے نقل کیا ہے:

قال: ''لقی رسول الله صلی الله علیه وآله جبرئیل عند أحجار المرائ ۔فقال: انی بعثت الی أمّة أمیین منهم الغلام و الخادم، و فیهم الشیخ الفانی و العجوز فقال جبرئیل: فلیقرأوا القرآن علی سبعة أحرف،، (۲)

''مقام''مراء احجار،، پر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جبرئیل کو دیکھا آپ نے فرمایا میں ایسی ان پڑھ قوم کی طرف بھیجا گیاہوں جس میں غلام، بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں۔ جبرئیل نے فرمایا: آپ کی امّت سات حروف میں قرآن پڑھے۔،،

۸۔ طبری نے عمرو بن عثمان عثمانی سے، اس نے مقبری سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): ان هذا القران انزل علی سبعة أحرف، فاقرأوا و لاحرج، و لکن لا تختموا طذکر رحمة بعذاب، ولا ذکر عذاب برحمة،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ جس حرف میں چاہو اسے پڑھو، کوئی حرف نہیں۔ لیکن یہ خیال رکھو کہ رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ میں بدل نہ دینا۔،،

___________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲، ص ۲۰۳۔

(۲) اس روایت کو ترمذی نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ج ۱۱، ص ۶۲۔

۲۲۷

۹۔ طبری نے عبید بن اسباط سے، اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قرآن چار حرفوں میں نازل کیا گیا ہے علیم، حکیم، غفور اور رحیم،،۔

اسی قسم کی روایت طبری نے ابی کریب سے اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کی ہے۔

۱۰۔ طبری سعید بن یحییٰ سے، اس نے عاصم کی سند سے، اس نے زر سے اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، عبد اللہ ابن مسعود کہتا ہے:

قال: ''تمارینا فی سورة من القرآن، فقلنا: خمس و ثلاثون، أوست و ثلاثون آیة، قال: فانطلقنا الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فوجدنا علیاً یناجیه قال: فقلنا انما اختلفنا فی القراء ة قال: فاحمر وجه رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و قال: انما هلک من کان قبلکم باختلافهم بینهم قال: ثم أسرَّ الی علی شیأا فقال لنا علی: ان رسول الله یأمرکم ان تقرأوا کما علّمتم،،

''قرآن کے کسی سورۃ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا اس کی آیئتیں پینتیس ہیں اور بعض نے کہا چھتیس ہیں۔ چنانچہ ہم رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ حضرت علی(علیہ السلام) سے راز و نیاز میں مشغول ہیں۔ ابن مسعود کہتا ہے کہ ہم نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! قراءت کے بارے میں ہمارا آپس میں اختلاف ہو رہا ہے۔ ہماری بات سن کر آپ کا چہرہ مبارک غصّے سے سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا ہوگئے

پھر آپ نے آہستہ سے امیر المومنین (علیہ السلام) سے کچھ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) نے ہم سے کہا: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ جس طرح تمہیں قرآن پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔،،(۱)

____________________

(۱) یہ سب روایتیں تفسیر طبری، ج ۱، ص ۹۔۱۵ میں مذکور ہیں۔

۲۲۸

۱۱۔ قرطبی نے اُبی داؤد سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:''یا اُبیّ انی قرأت القرآن ۔فقیل لی: علی حرف أوحرفین ۔فقال الملک الذی معی: قل علی حرفین ۔فقیل لی: علی حرفین أو ثلاثة ۔فقال الملک الذی معی: قل علی ثلاثة، حتی بلغ سبعة أحرف، ثم قال: لیس منها الا شاف کاف، ان قلت سمیعاً، علیماً، عزیزاً، حکیماً، مالم تخلط آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب،،

''اے اُبی! میں نے قرآن کی تلاوت کی تو مجھ سے پوچھا گیا: آپ ایک حرف میں قرآن پڑھیں گے یا دو حرف میں؟ میرے ساتھ موجود فرشتے نے کہا: کہیئے دو حرف میں۔ فرشتے نے کہا: کہیئے تین حروف میں۔ اس طرح سات حروف تک سلسلہ جا پہنچا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ ان سات حروف میں سے جس میں چاہیں پڑھیں، کافی ہے۔ چاہیں تو سمیعاً پڑھیں یا علیماً یا عزیزاً یا حکیماً پڑھیں البتہ عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ سے اور رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ سے خلط ملط نہ کردیں۔،،(۱)

i ۔ ان روایات کے کمزور پہلو

یہ تھیں اس مضمون کی اہم روایات جو اہل سُنّت کے سلسلہئ سند سے منقول ہیں اور یہ سب روایتیں صحیحہ زرارہ کی مخالف ہیں جو حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں:

''ان القرآن واحد نزل من عند واحد، و لکن الاختلاف یحیئ من قبل الرواة،،

''قرآن ایک ہی ہے اور ایک ہی ذات کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اختلاف راویوں کے پیدا کردہ ہیں۔،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۳۔

(۲) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوادر روایت ۱۲۔

۲۲۹

فضیل بن یسار نے حضرت ابا عبد اللہ(ع) سے پوچھا: یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔ امام(ع) نے فرمایا:

''أبو عبد الله علیه السلام: کذبوا أعداء الله ولکنه نزل علی حرف واحدمن عند الواحد،،

''یہ دشمنان خدا جھوٹ بولتے ہیں۔ قرآن کو صرف ایک حرف میں اور ایک ذات کی طرف سے نازل کیا گیا۔،،(۱)

اسسے پہے بطور اختصار بیان کیا جاچکا ہے کہ دینی معاملات میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد واحد مرجع و مرکز کتابِ خدا اور اہل بیت پیغمبرؐ ہیں جن سے خدا نے ہر قسم کے رجس و ناپاکی کو دور رکھا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس کی مزید وضاحت بعد میں آئے گی۔

ان روایات کی کوئی وقعت نہیں ہے جو اہل بیتؑ کی صحیح روایات کی مخالف ہیں۔ اس لئے دوسری روایات کی سند کے بارے میں کسی بحث کی نوبت نہیں آئی اور روایات اہل بیتؑ کی مخالفت کی وجہ سے ہی وہ روایات ناقابل اعتبار قرار پاتی ہیں اس کے علاوہ بھی ان روایات میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بعض روایات ایسی ہیں جن کے سوال و جواب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

ii ۔ روایات میں تضاد

تضاد کا ایک نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق جبرئیل نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو ایک حرف میں قرآن پڑھایا اور آپ نے مزید حروف کی درخواست کی یہاں تک کہ یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔

____________________

(۱) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوارد روایت ۱۳۔

۲۳۰

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف میں اضافہ تدریجاً ہوا ہے بعض روایات کے مطابق یہ اضافہ ایک ہی نشست میں ہوا اور آپ نے ان میں اضافے کا مطالبہ میکائیل کی ہدایت پر کیا اور جبرئیل نے سات حرف تک اضافہ کردیا اور بعض روایات کے مطابق میکائیل کی رہنمائی اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی درخواست کے بغیر ہی جبرئیل آسمان پر جاتے اور نازل ہوتے تھے حتیٰ کہ سات حروف مکمل ہوئے۔

تضاد کا تیسرا نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کہتی ہیں کہ اُبیّ بن کعب مسجد میں داخل ہوا اور کسی کو اپنی قراءت کے خلاف قرآن پڑھتے سنا اور بعض روایات یہ کہتی ہےں کہ اُبیّ بن کعب پہلے سے مسجد میں موجود تھا اور بعد میں دو آدمیوں نے مسجد میں داخل ہو کر اس کی قراءت کے خلاف قرآن پڑھا۔ اس کے علاوہ ان روایات میں وہ کلام بھی مختلف طریقے سے مذکور ہے جو

آنحضرت(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اُبیّ سے فرمایا۔

سوال و جواب میں مناسبت نہ ہونے کا نمونہ ابن مسعود کی روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) کا یہ فرمانا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جس طرح تمہیں پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔ یہ جواب سائل کے سوال سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ابن مسعود نے آیتوں کی تعدادکے بارے میں پوچھاتھا آیہ کی کیفیت اور قراءت کے بارے میں نہیں۔

ان تمام اشکالات کے علاوہ بھی قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کا کوئی معنی نہیں بنتا اور کوئی صاحب فکر و نظر کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔

۲۳۱

سات حروف کی تاویل و توجیہ

سات حروف کی تاویل و توجیہ میں چند اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ہم ان میں سے اہم اقوال اور ان میں موجود سقم اور اشکال بیان کریں گے:

۱۔ قریب المعنی الفاظ

سات حروف کی پہلی توجیہ اور تاویل یہ کی گئی ہے کہ الفاظ مختلف ہیں اور ان کے معانی قریب قریب ہیں، جس طرح عجل اسرع اور اسع ہیں۔ ان تینوں الفاظ کا معنی ہے۔ ''جلدی کرو،، یہ حروف حضرت عثمان کے زمانے تک موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے ان حروف کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی چھ حروف پر مشتمل قرآنوں کو نذر آتش کرنے کا حکم دے دیا۔

اس تاویل کو طبری اور علماء کی ایک جماعت نے بھی اختیار کیا ہے(۱) قرطبی کا کہنا ہے کہ اکثر اہل علم کا یہی نظریہ ہے(۲) اور ابو عمرو بن عبد البر کی رائے بھی یہی ہے(۳) ۔

اس تاویل پر ابن ابی بکرہ اور ابی داؤد کی روایت کے علاوہ یونس کی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو ابن شہاب سے منقول ہے، اس میں انہوں نے کہا ہے:

سعید بن المسیب نے مجھے خبر دی ے کہ جس شخص کی طرف خدا نے آیہ کریمہ( إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ) ۱۶:۱۰۳

یعنی اس (رسول) کو تو ایک بشر قرآن سکھاتا ہے،، میں نے جس کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ ایک کاتب وحی تھا جو اس لیے شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا کہ آپ اس سے آیتوں کے آحر میں سمیع علیم یا عزیز حکیم لکھواتے تھے پھر آپ سے پوچھتا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! عزیز حکیم لکھوں یا سمیع علیم یا عزیز علیم؟ آپ فرماتے: ان

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۱۵۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

(۳) التبیان، ص ۳۹۔

۲۳۲

میں سے جو بھی لکھو صحیح ہے۔ اس بات سے یہ شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ محمدؐ نے قرآن میرے سپرد کرد یا ہے، میں جو چہے لکھوں۔،،

نیز یونس کی اس قراءت سے بھی استدلال کیا گیا ہے:''ان ناشئة اللیل هی اشد وطا و اصوب قیلا ۔،، (۱) کچھ لوگوں نے یونس پر اعتراض کیا: اے ابو حمزہ قرآن میں تو ''اقوم،، ہے۔ یونس نے جواب دیا: اقوم اصوب اور اھدی کا معنی ایک ہی ہے۔

اسی طرح ابن مسعود کی قراءت ''ان کانت الا زقیۃ واحدۃ،، سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس نے ''ان کانت صیحۃ واحدۃ،، کی بجائے ''ان کانت الا ذقیۃ واحدۃ،، پڑھا ہے۔ اس لیے کہ''صیحة،، اور''زقیة،، کا معنی ایک ہے۔(۱)

اس کے علاوہ طبری کی یہ روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔ طبری نے محمد بن بشار اور ابی السائب اور انہوں نے ہمام سے روایت کی ہے:

''ابو الدرداء ایک شخص کو آیہ کریمہ،( إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ﴿﴾ طَعَامُ الْأَثِيمِ ) (۴۴:_۴۴_۴۳) پڑھ رہا تھا اس سے یہ آیہ نہیں پڑھی جارہی تھی اور وہ بار بار بتانے کے باوجوداس شخص سے ''طعام الاثیم،، نہیں پڑھا گیا تو ابو الدرداء نے اس سے کہا کہ اس کی جگہ پڑھو''ان شجرة الزقوم طعام الفاجر،، اس لیے کہ ''اثیم،، اور ''فاجر،، کا معنی ایک ہے۔،،(۲)

اس کے علاوہ اس تاویل کی دلیل میں ان روایات کو پیش کیا جاتا ہے جن میں یہ کہہ کر قراءت میں کافی گنجائش رکھی ہے:

ما لم تختم اٰیة رحمة بعذاب او اٰیة عذاب برحمة (یعنی) قرآن میں اتنی تبدیلی کرسکتے ہو کہ رحمت کی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل نہ ہوجائے۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج۱،ص ۱۸۔

(۲) ایضاً، ج ۲۵، ص ۷۸۔ آیہ مبارکہ کی تفسیر کے ذیل میں۔

۲۳۳

اس حد بندی کی یہی معنی ہوسکتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات کلمات میں سے بعض کو بعض کی جگہ استعمال کرنا ہے۔ البتہ اس سے صرف اس صورت کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جس سے رحمت کی کوئی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل ہوجائے۔ بنابرایں ان روایات میں سے مجمل(۱) روایات کی مبین(۲) روایات پر محمول کرنے کے بعد ان سے وہی معنی مراد لیے جائیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔

مؤلف: سات حروف کے بارے میں جتنی بھی تاویلیں کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی روایت سے سازگار نہیں، چانچہ اس کے بارے میں آئندہ بیان کیا جائے گا۔ بنابرایں یہ تمام روایات ناقابل قبول ہیں کیونکہ ان کے مفہوم کو اپنانا اور ان پر عمل کرنا ناممکن ہے، اس لیے کہ:

اولا: یہ تاویل، قرآن کے بعض معانی پر منطبق ہوسکتی ہے جس کی سات حروف سے تعبیر ہوسکتی ہو۔ اور یہ بدیہی امر ہے کہ قرآن میں اکثریت ان معانی کی ہے جنہیں مختلف الفاظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن ان سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

ثانیاً: اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے بعض الفاظ جن کے معنی ملتے جلتے ہوں، میں تبدیل کرنے کی اجازت دی ے اور گذشتہ روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے تو یہ احتمال، اس قرآن کی بنیاد کو منہدم کرنے کا باعث بنے گا جو ایک ابدی معجزہ اور پوری انسانیت پر خدا کی طرف سے حجّت ہے، اور کسی بھی عاقل کو اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ یہ احتمال حقیقی قرآن کے متروک اور اس کے بے وقعت ہوے کا متقاضی ہے۔

____________________

(۱) ایسا کلام جس کا معنی واضح نہ ہو۔ (مترجم)

(۲) ایسا کلام جس کا معنی واضح ہو۔ (مترجم)

۲۳۴

کوئی عاقل یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سورہ یٰس میں موجود آیات کی جگہ ان الفاظ کی تلاوت کی اجازت دی ہو:''یٰس والذکر العظیم، انک لمن الانبیآئ، علی طریق سویّ، انزال الحمید الکریم، التخوف قوماً خوف اسلافهم فهم ساهون ۔

ہم تو کہیں گے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں جو اسے جائز سمجھتے ہیںاللهمّ ان هٰذا الا بهتان عظیم ، پالنے والے! تو جانتا ہے کہ یہ تیرے رسول پر بہتان عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:

( قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ) ۱۰:۱۵

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔،،

جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو قرآن میں اپنی طرف سے کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہیں ہے تو آپ دوسروں کو کیسے اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔

رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے براء بن عازب کو ایک دعا کی تعلیم فرمائی تھی جس میں یہ جملہ بھی شامل تھا: ''و نبیک الذی ارسلت،، اس کو براء نے ''و رسولک الذی ارسلت،، پڑھا تو آپ نے براء کو ٹوکا اور فرمایا ''نبی،، کی جگہ ''رسول،، مت پڑھو۔(۱)

____________________

(۱) التبیان، ص ۵۸۔

۲۳۵

جب دعا کی یہ شان اور اہمیت ہے تو قرآن کی اہمیت کتنی زیادہ ہوگی۔

اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف کے مطابق قرآن پڑھا ہے اور ان روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے توپھر مدعی کو ان سات حروف کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرنی چاہیے جن کے مطابق رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے قرآن پڑھا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے:

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۱۵:۹

''بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،

ثالثاً: گذشتہ روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ قرآن کو سات حروف میں نازل کرنے کی حکمت، اُمّت کی سہولت اور آسانی ہے، اس لیے کہ اُمّت ایک حرف میں قراءت کی استطاعت نہیں رکھتی اور اسی غرض سے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف تک اضافہ کرنے کی درخواست کی تھی۔

لیکن آپ نے دیکھا کہ قراءتوں میں اختلاف باعث بنا کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گردانیں، حتیٰ کہ حضرت عثمان نے قراءت کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی قرآنوں کو نذر آتش کردیا۔

اس سے ہم درج ذیل نتائج تک پہنچتے ہیں:

۱۔ قراءتوں میں اختلاف اُمّت کے لیے ایک عذاب تھا حضرت عثمان کے دور میں ظاہر ہوا۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا سے ایسی چیز کا مطالبہ کس طرح کرسکتے تھے۔ جس میں اُمّت کا فساد و نقصان ہو اور کیایہ صحیح ہے کہ خدا ایسی درخواست منطور فرمالے؟ جبکہ بہت سی روایات میں اختلاف سے روکا گیا ہے اور اختلاف کو امّت کی ہلاکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ بعض روایات تو یہاں تک کہتی ہیںکہ جب آپ نے قراءتوں میں اختلاف کی بات سنی تو غصے سے آپ کا چہرہ مبارک سُرخ ہوگیا۔ ان میں س کچھ روایات کا ذکر ہو چکا ہے اور کچھ روایات کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔

۲۳۶

۲۔ گذشتہ روایات کا مفہوم یہ تھا کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: میری اُمّت ایک حرف میں قرآن پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ عقل اس کو نبی کریمؐ کی طرف نسبت دینے کی اجازت نہیں دیتی۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عثمان کے بعد اُمّت پیغمبر، جس میں مختلف عناصر قبیلے اور مختلف زبانوں والے شامل تھے، قرآن کو ایک حرف میں پڑھنے پر قادر تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں ایک قراءت پر اتفاق کرنا کوئی مشکل تھا جبکہ اس وقت امّت پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فصیح عربوں پر مشتمل تھی۔

۳۔ قراءتوں میں اختلاف، جس کی بنیاد پر حضرت عثمان نے قراءتوں کو ایک حرف میں منحصر کیا، خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی تھا۔ آپ نے ہر قاری کی تائید بھی فرمائی تھی اور مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان تمام قراءتوں کو تسلیم کرلیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ قراءتوں میں اختلاف خدا کی طرف سے رحمت ہے۔

اب حضرت عثمان اور ان کے تابعین کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ رحمت کے دروازے بند کردیں؟ جبکہ رسول اعظمؐ نے قراءت قرآن روکنے سے ممانعت فرمائی تھی۔

مسلمانوں کے پاس کیا جواز تھا کہ وہ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے قول کو تو ٹھکرا دیں اور حضرت عثمان کی بات مان کر اس پر عمل کریں؟

کیا مسلمانوں کی نظر میں حضرت عثمان، رحمۃ العالمین سے زیادہ مہربان اور ہمدرد تھے؟

معاذ اللہ کیا حضرت عثمان کے پیش نظر ایسی حکمت اور مصلحت تھی جس سے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خبر تھی؟ یا حاشا وکلا حضرت عثمان پر ان حروف کے منسوخ ہونے کی وحی نازل ہوئی تھی؟!

۲۳۷

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سات حروف سے متعلق روایات کی یہ بدنما تاویل اس قابل نہیں ہے کہ اسے ردّ بھی کیا جائے۔ اسی وجہ سے علمائے اہل سُنّت میں سے متاخرین نے اس تاویل کو ٹھکرا دیا ہے اور ابو جعفر محمد بن سعد ان النحوی اور حافظ جلال الدین سیوطی ان روایات کو مشکل اور متشابہ قرار دینے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان روایات کا کوئی مفہوم واضح نہیں ہے۔(۱) حالانکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان روایات کا مفہوم واضح ہے اور جو بھی ان روایات کا بنظر غائر مطالعہ کرے، اس کے لیے کوئی شک و تردد باقی نہیں رہتا۔

۲۔ سات ابواب

سات حروف کی تفسیر و تاویل کے سلسلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد سات ابواب ہیں اور قرآن ان سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ان کے عنوان یہ ہیں:

i ۔ آیات زجر (نہی)۔

ii ۔ آیات امر۔

iii ۔ آیات حلال۔

iv ۔ آیات حرام۔

v ۔ آیات محکم۔

vi ۔ آیات متشابہ۔

vii ۔ آیات امثال۔

اس نظریہ پر یونس کی روایت سے استدلال کیا گیا ہے، جسے اس نے ابن مسعود کی سند سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

____________________ _

(۱) التبیان، ص ۶۱۔

۲۳۸

انه قال: ''کان الکتاب الأول نزل من باب واحد علی حرف واحد، و نزل القرآن من سبعة أبواب، و علی سبعة أحرف: زجر، و أمر، و حلال، و حرام، و محکم، و متشابه، و أمثال ۔فأحلّوا حلاله، و حرّموا واعتبروا بأمثاله، و اعملوا بمحکمه، و آمنوا بمتشابهه، و قولوا آمنا به کل من عند ربنا،،

''پہلی آسمانی کتاب کا ایک ہی باب تھا اور وہ ایک ہی حرف پر نازل کی گئی تھی۔ قرآن مجید سات ابواب اور سات حروف میں نازل کیا گیاہے۔ زجر، امر، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔ حلال خدا کو حلا ل اور حرام خدا کو حرام سجھو، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جائے اسے انجام دو اور جس چیز سے تمہیں منع کیا جائے اس سے باز آجاؤ، قرآن کی مثالوں سے عبرت حاصل کرو، محکم آیات پر عمل کرو اور متشابہ آیات پر ایمان لے آؤ اور کہو ہم اس پر ایمان لے آئے یہ سب کچھ ہمارے ربّ کی طرف سے ہے۔،،(۱)

اس نظریہ پر بھی چند اعتراضات ہیں:

۱۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سات حروف، جن میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہیں، اور سات ابواب، جن میں قرآن تقسیم ہوا ہے اور ہیں، لہذا اس روایت کو ان مجمل روایات کی تفسیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

۲۔ یہ روایت ابو کریب کی روایت سے متصادم ہے، جو اس نے ابن مسعود سے نقل کی ہے اور جس میں کہا گیا ہے:

ان الله انزل القرآن علی خمسة احرفٍ ۔حلال و حرام و محکم و متشابه و امثال ۔(۲) (یعنی) اللہ نے قرآن کو پانچ حروف ، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال میں نازل فرمایا ہے

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۳۲۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۳۹

۳۔ اس روایت کا مفہوم مضطرب و متزلزل ہے۔ کیونکہ ''زجر،، اور ''حرام،، ایک چیز ہے، اس طرح چھ ابواب ہو جائیں گے نہ کہ سات۔ اس کے علاوہ قرآن میں اور بہت سے موضوعات کا بھی ذکر ہے جو ان سات ابواب میں شامل نہیں ہیں۔جیسے: مبدائ، معاد، قصّے، احتجاجات ، دلائل اور علوم و معارف ہیں اور اگر اس تاویل کے قائل کا مقصد یہ ہے کہ باقی ماندہ موضوعات بھی محکم و متشابہ می داخل ہیں تو باقی پانچ ابواب، حلال، حرام، امر، زجر اور امثال کو بھی دوسرے موضوعات کی طرح محکم و متشابہ میں داخل ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح قرآن دو حروف محکم و متشابہ میں منحصر ہو جاتا۔ اس لیے کہ قرآن میں جو کچھ ہے و محکم یا متشابہ ہے۔

۴۔ سات حروف کی تفسیر، سات ابواب کرنا گذشتہ روایات سے سازگار نہیں کیونکہ گذشتہ روایات میں قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کی وجہ امّت کی سہولت بیان کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اُمّت ایک حرف پر قرآن پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔

۵۔ بعض گذشتہ روایات اس بات کی تصریح کرتی ہیں کہ سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں، جن میں قاریوں کا اختلاف ہے۔

فرض کیا اگر اس روایت کا معنی سات ابواب ہیں تب بھی اس ایک روایت کی وجہ سے ان متعدد روایات کے ظاہری معنی سے دستبردار نہیں ہوا جاسکتا اور نہ ہی یہ ایک روایت گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف کسی معنی کے لیے قرینہ اور علامت بن سکتی ہے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689