تفسير راہنما جلد ۶

 تفسير راہنما 8%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 736

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 736 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 194660 / ڈاؤنلوڈ: 5166
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۶

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیتے هوئے بتوں کو اعلانیہ طور پر باطل قرارديتے تھے تو کفار قریش اس کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے ۔ اورجب کوئی اسلام قبول کر تا تھا اس پر ظلم وتشدد کیا کرتے تھے ۔چنانچہ بلال، عمار، ياسر و سميه () جیسے پاک دل اور ایمان سے سرشار افراد کو مختلف مواقع پر جان لیوا اذیت اور آزار پہنچا تے تھے اور ان کو دوبارہ کفر کی طرف بلاتے تھے ۔چنانچہ عمار اور ان کے ماں باپ کو پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی اور نازیبا الفاظ زبان پر لانے پر مجبور کیا گيا؛ تو جناب یاسر اور ان کی زوجہ ، یعنی حضرت عمار کے والدین نے یہ گوارا نہیں کیا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں گستاخی کی جائے ۔ اسی جرم میں وہ دونوں اپنے بیٹے کے سامنے شہید کئے گئے ، لیکن عمار کی جب باری آئی تو اپنی جان بچانے کی خاطر کفار قریش کے ارادے کے مطابق پیغمبر کی شان میں گستاخی کی ۔ جس پر کفار نے انہیں آزاد کیا ۔جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں یہ شکایت پہنچی کہ عمار نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ تو فرمایا : ایسا ممکن نہیں کہ عمار نے دوبار ہ کفر اختیار کیا ہو بلکہ وہ سر سے لیکر پاؤں تک ایمان سے لبریز اور اس کے گوشت و خون اور سراسر وجود میں ایمان کا نور رواں دواں ہے ۔اتنے میں عمار روتے ہوئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دست مبارک سے ان کے چهرے

۲۱

سے آنسو صاف کئے اور فرمایا : جو کام تو نے انجام ديا هے ، قابل مذمت اور جرم نہیں ہے اگر دوبارہ کبھی ایسا موقع آجائے اور مشرکوں کے ہاتھوں گرفتار ہوجاؤ تو کوئی بات نہیں کہ تم ان کی مرضی کے مطابق انجام دو ۔پھر یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی ۔

جس سے معلوم ہوتا کہ دینی مقدسات کی شان میں گستاخی کرنے پر مجبور ہوجائیں تو کوئی بات نہیں ۔ آپ کو اختیار ہے کہ یا آپ تقیہ کرکے اپنی جان بچائیں یا جرٲت دکھاتے ہوئے جام شہادت نوش کریں ۔

ایک روايت منقول ہے کہ دو مسلمانوں کو مسیلمہ کے پاس لایا گیا جو نبوت کا دعوی ٰ کررہا تھا ۔مسیلمہ نے ایک سے پوچھا: محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟

اس نے کہا : آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔

مسیلمہ : میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟

مسلمان: آپ بھی اسی طرح ہیں ۔

پھردوسرے شخص کو لایا گیا ، اور اس سے بھی یہی سوال پوچھا گیا ، لیکن اس نے کچھ بھی

۲۲

نہیں کہا ۔تو اسے قتل کرنے کا حکم دیا گیا ۔

یہ خبر رسول خدا تک پہنچی ، فرمایا: پہلے شخص نے تقیہ پر عمل کیا اور دوسرے شخص نے حق کو آشکار اور بلند و بالا کیا ۔اورپہلے کے حق میں دعا کی اور دوسرے کے لئے فرمایا :اس کیلئے شہادت مبارک ہو ۔(۱)

يوسف بن عمران روايت کرتا ہے کہ ميثم تمارسے سنا ہے: امير المؤمنينعليه‌السلام نے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا : اے میثم جب عبيد الله ابن زياد تمھیں میرے بارے میں گستاخی کرنے اور مجھ سے برائت کرنے کا حکم دے گا تو تم کیا کرو گے؟

میں نے کہا :يا امير المؤمنينعليه‌السلام خدا کی قسم! کبھی اظہار برائت نہیں کروں گا ۔

فرمایا:پھر تو تم مارےجاؤ گے ۔

میں نے کہا : میں صبر کروں گا ؛ کیونکہ راہ خدا میں جان دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔

فرمایا:اے میثم! تم اس عمل کی وجہ سے قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگے ۔

____________________

۱: تقيه در اسلام ، ص۱۰۔

۲۳

پس یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اگر کسی نے تقیہ کے موارد میں تقیہ نہیں کیا تو اس نے خودکشی کرلی هو ، بلکہ ایسے موارد میں انسان کو اختیار ہے کہ وہ شہادت کو اختیار کرے یا تقیہ کرکے اپنی جان بچائے تاکہ آئندہ آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اور اسلام کي زیادہ خدمت کرسکے ۔

۳ ۔تقيه كتمانيه

ضعف اور ناتوانی کے مواقع پر اپنا مذہب اور مذہب والوں کی حفاظت کرنا اور ان کی طاقت اور پاور کو محفوظ کرنا تاکہ بلند و بالا اہداف حاصل کرسکے ۔

اور یہاں تقيه كتمانيه سے مراد ہے دین مقدس اسلام اور مکتب اہل بیتعليهم‌السلام کی نشر واشاعت کی خاطر اپنی فعالیتوں کو مخفی اور پوشیدہ رکھنا ، تاکہ دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند ہو ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ہمارے دینی اور مذہبی رہنما حضرات اس طرح تقیہ

۲۴

کرنے کا حکم دیتے ہیں ؟

اس کا جواب یہی ہے کہ کیونکہ مکتب تشیع ایک ایسا مکتب ہے کہ حقيقي اسلام کو صرف اور صرف ان میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔شیعہ ابتدا ہی سے مظلوم واقع ہوئے ہیں کہ جب آئمہ طاہرینعليهم‌السلام تقیہ کرنے کا حکم دے رہے تھے اس وقت شیعہ انتہائی اقلیت میں تھے اور ظالم وجابر اور سفاک بادشاہوں اور سلاطین کی زد میں تھے ۔اگر شیعہ اپنے آداب و رسوم کو آشکار کرتے تو ہر قسم کی مشکلات ان کے سروں پر آجاتیں اور جان بھی چلی جاتی ۔اور کوئی شیعہ باقی نہ رہتا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ حقیقی اسلام باقی نہ رہتا ۔ یہی وجہ تھی کہ آئمہ اطهارعليهم‌السلام نے تقیہ کا حکم دیا ۔

تقيه كتمانيه پر دلیل :

۱ ـ:كِتَابُ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلَالِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيّاً ع يَقُولُ يَوْمَ قُتِلَ عُثْمَانُ قَالَ رَسُولُ اللهِ ص قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ التَّقِيَّةَ مِنْ دِينِ اللهِ وَ لَا دِينَ لِمَنْ لَا تَقِيَّةَ لَهُ وَ اللهِ لَوْ لَا التَّقِيَّةُ مَا عُبِدَ اللهُ فِي الْأَرْضِ فِي دَوْلَةِ إِبْلِيسَ فَقَالَ رَجُلٌ وَ مَا دَوْلَةُ إِبْلِيسَ فَقَالَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ هُدًى فَهِيَ فِي دَوْلَةِ الْحَقِّ عَلَى إِبْلِيسَ وَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ ضَلَالَةٍ فَهِيَ

۲۵

دَوْلَةُ إِبْلِيسَ ۔(۱)

راوی کہتا ہے :هم نے امير المؤمنينعليه‌السلام سےقتل عثمان کے دن فرماتے هوئےسنا :هم نے رسول خداسے تاکید کے ساتھ فرماتے هوئےسنا: تقیہ میرا دین ہے اور جو بھی تقیہ کا قائل نہیں ، اس کا کوئی دین نہیں ۔ اور اگر تقیہ کے قوانین پر عمل نہ ہوتا تو شیطان کی سلطنت میں روئے زمین پر خدا کی کوئی عبادت نہ ہوتی ۔ اس وقت کسی نے سوال کیا ، ابلیس کی سلطنت سے کیا مراد ہے ؟

فرمایا : اگر کوئی خدا کا ولی یا عادل امام لوگوں پر حکومت کرے تو وہ خدائی حکومت ہے ، اور اگرکوئی گمراہ اور فاسق شخص حکومت کرے تو وہ شیطان کی حکومت ہے ۔

اس روایت سے جو مطلب ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طاغوتی حکومت کے دوران صرف اپنے مذہب کو مخفی رکھنا اور خاموش رہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس میں بھی خدا تعالی کی عبادت و بندگی ہوتی رہے۔

اصحاب كهف کا عمل بھی اسی طرح کا تقیہ تھا ، اور حضرت ابوطالب کا تقیہ

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج ۱۲، ص۲۵۲ باب وجوب التقية مع الخوف ۔

۲۶

بھی اسی قسم کا تقیہ شمار ہوتا ہے ۔جسے ابتدائے اسلام میں انہوں نے اختیار کیا تھا ۔کہ اپنے دین کو کفار قریش سے مخفی رکھا ۔ اورخود کو کفار کا ہم مسلک ظاہر کرتے رہے تاکہ رسول گرامي اسلام کی حمايت اور حفاظت آسانی سے کرسکیں ۔اور مخفی طور پر دین مبین اسلام کی نشر واشاعت کرتے رہے ۔ چنانچہ آپ ہی کی روش اور تکنیک کی وجہ سے پیغمبر اسلامسے بہت سارے خطرات دور ہوتے رہے ۔

۴ ۔تقيه مداراتي يا تحبيبي

اهل سنت کےساتھ حسن معاشرت اور صلح آميز زندگي کرنے کی خاطر ان کی عبادي ا ور اجتماعي محفلوں اور مجلسوں میں جانا تاکہ وحدت پیدا ہو اور اسلام دشمن عناصر کے مقابلے میں اسلام اور مسلمین قدرت مند ہوں ۔

تقيه مداراتي

۱ ۔ مطلوبيت ذاتي رکھتا ہے = وجوب نفسي

۲ ۔ مطلوبيت غيري رکھتا ہے = وجوب غيري

۲۷

تقيه مداراتي کے شرعی جواز پر دلیلیں:

o امام سجاد نے صحيفه سجاديه میں مسلمانوں کیلئے دعائے خیر اور کفار کیلئے بددعا کرتے ہوئے فرمایا:خدايا اسلام اور مسلمين کودشمن اورآفات و بليات سے محفوظ فرما ، اور ان کے اموال کو با ثمر و منفعت اورپر بركت فرما۔ اور انہیں دشمن کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند اور شان وشوکت اور نعمت عطا فرما ۔اور میدان جنگ میں انہیں کافروں پر فتح و نصرت عطا فرما ۔ اور اپنی عبادت اور بندگی کرنے کی مہلت اور فرصت عطا فرما تاکہ وہ تجھ سےتوبہ اور استغفار اور راز و نیاز کر سکیں خدایا ! مسلمانوں کو ہر طرف سے مشرکوں کے مقابلے میں عزت اور قدرت عطا فرما اور مشرکوں اور کافروں کوآپس میں جنگوں میں مشغول فرما ! تاکہ وہ مسلمانوں کے حدود اور دیار کی طرف دست درازی نہ کرسکیں ۔(۱)

____________________

۱: مستدرك‏الوسائل، ج ۱۲، باب وجوب التقية مع الخوف ، ص ۱۰۰۔

۲۸

o معاويه بن وهب کہتا ہے کہ میں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال کیا : کہ دوسرے مسلمانوں اور مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے ساتھ زندگی گزارنے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے ؟

امامعليه‌السلام نے فرمایا: ان کی امانتوں کو پلٹاؤ اور جب آپس میں کوئی نزاع پیدا ہو جائے اور حاکم شرع کے پاس پہنچ جائے تو حق دار کے حق میں گواہی دو اور ان کے بیماروں کی عیادت کیلئے جاؤ اور ان کے مرنے والوں کی تشییع جنازے میں شرکت کرو۔(۱)

امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا:

كونوا لمن انقطعتم ﺇليه زيناً ولا تكونوا علينا شيناً صلّوا في عشائرهم عودوا مرضاهم و اشهدوا جنائزهم ولا يسبقونكم الي شيئٍ من الخير فا نتم أولي به منهم والله ما عبدالله بشيئٍ أحبُّ اليه من الخباء قلت: و ما الخباء؟ قال: التقيه ۔(۲)

ایسے کاموں کے مرتکب ہونے سے پرہیز کرو جو ہمارے مخالفین کے سامنے سرزنش کا باعث بنے ، کیوں کہ لوگ باپ کو اس کے بیٹوں کے برے اعمال کی وجہ سے ملامت کرتے

____________________

۱: وسائل الشيعه،ج۱ ، كتاب حج،احكام عشرت۔

۲: وسائل الشيعه ،ج ۱۱،ص ۴۷۱۔

۲۹

ہیں ۔کوشش کرو کہ ہمارے لئے باعث زینت بنو نہ کہ باعث ذلت۔ اہل سنت کے مراکز میں نماز پڑھا کرو اور بیماروں کی عیادت کیا کرواور ان کے مردوں کے جنازے میں شرکت کیا کرو اور تمام اچھے کاموں میں ان پر سبقت لے جاؤ ، ان صورتوں میں اگر ضرورت پڑي تو محبت بڑھانے اور اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کیلئے اپنے عقائد کو چھپاؤ ۔ خدا کی قسم ایسے مواقع میں کتمان کرنا بہترین عبادت ہے ۔ راوی نے سوال کیا : یابن رسول اللہ ! کتمان سے کیا مراد ہے ؟ ! تو فرمایا: تقیہ ۔

یہ تقیہ مداراتی اور تحبیبی کے جواز پر کچھ دلائل تھے ۔ لیکن ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ سارے مسلمان عقیدتی ، فکری اور سلیقائی اختلافات مکمل طور پر ختم کرکے صرف ایک ہی عقیدہ اور سلیقہ کے پابندہوجائیں ؟ !

اس سوال کا جواب بالکل منفی میں ملے گا۔ یہ ناممکن ہے ۔کیونکہ کوئی بھی قوم یا قبیلہ نہیں ملے گا جس میں سینکڑوں اختلافات اور نظریات نہ پائے جاتے ہوں۔ حتی خود دین اسلام میں کہ سارے اصول اور فروع دین توحید کی بنیاد پر قائم ہیں ، پھر بھی زمانے کے

۳۰

گزرنے کے ساتھ ساتھ اصلی راستے اور قاعدے سے منحرف ہوجاتے ہیں اور اختلافات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ پس ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟! اور راہ حل کیا ہے ؟! ایک طرف سے بغیر وحدت اور اتحاد کے کوئی کام معاشرے کے حوالے سے نہیں کرپاتے، دوسری طرف سے اس وحدت اور اتحاد کے حصول کیلئے سارے اختلافی عوامل کو پس پشت ڈالنا پڑتا ہے ۔

کیا ایسی صورت میں ہم بیٹھے رہیں اور اختلافات کے کیڑے مکوڑے معاشرے کے سعادت مند ستون کو اندر سے خالی کرتے کرتےسرنگوں کریں؟!یا کوئی راہ حل موجود ہے جس کے ذریعے سے ايک حد تک وحدت برقرار کرلیں ؟!

یہ وہ مقام ہے جہاں دور حاضر کے مفکرین اور دانشمندوں نے کئي فارمولے تیار کئے ہیں جن کے ذریعے ممکن ہے کہ یہ ہدف حاصل ہوجائے ، اور وہ فامولے درج ذیل ہیں:

۱ ۔ ہر معاشرے میں موجود تمام ادارے قوم پرستی، رنگ و زبان اور موقعیت ، مذہب میں فرق کئے بغیر اجتماعی حقوق کو بعنوان ”حقوق بشر“ رسمی مان لیں اور خود غرضی سے پرہیز کریں ۔

۳۱

۲ ۔ تمام ممالک کو چاہئے کہ معاشرے میں موجود تمام گروہوں کو اس طرح تعلیم دیں کہ اتحاد و اتفاق کی حفاظت کی خاطر اجتماعی منافع کو شخصی منافع پر مقدم رکھیں ۔ اور انہیں یہ سمجھائیں کہ اجتماع کی بقا میں افراد کی بقا ہے ۔

۳ ۔ ہر ایک شخص کو تعلیم دیں کہ دوسروں کے عقائد کا احترام کریں تاکہ معاشرے کیلئے کوئی مشکل ایجاد نہ ہو ۔اور ملک اور معاشرے کے بنیادی اصولوں اور قواعد و ضوابط کو ضرر نہ پہنچائيں ۔ اور ایک دوسرے کے احساسات اور عواطف کا احترا م کریں ۔

۴ ۔ ان کو سمجھائیں کہ دوسرے مکاتب فکر کے مختلف اور معقول آداب و رسوم میں شرکت کریں ۔ اس طرح ایک دوسرے کے درمیان محبت پیدا کریں۔

پس اگر ايك جامعه یامعاشرے میں ان قوانین اور اصولوں پر عمل درآمدهوجائے تو سارے اسلامی ممالک ایک پليٹ فارم پر جمع ہونگے اور ایک دوسرے کے درمیان محبت اور جذبہ ایثار پیدا هوگا۔ یہی وجہ تھی کہ آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اپنے گوہر بار كلمات میں اس بات کی طرف تشویق کرتے هوئے نظر آتے هيں۔

۳۲

مداراتی تقیہ کی ایک زندہ مثال یہ ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کیلئے مسجد الحرام اور مسجد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں دوسروں کے ساتھ بغیر سجدہ گاہ کے قالین پر سجدہ کر سکتے ہیں ، یہ نماز صحیح ہے اگرچہ جانی یا مالی نقصان کا خدشہ بھی نہیں ہے۔(۱)

تقيه اور توريه میں موازنه

لغت میں توريه ؛وراء یا پيٹھ سے نکلا ہے جس کا مد مقابل امام یعنی (آگے ) سے لیا گیا ہے ۔اور اصطلاح میں کسی چیز کو چھپانے کو کہا جاتا ہے ۔

 تقيه اور توريه کے درمیان نسبت تباين پایاجا تا ہے ۔ کیونکہ توریہ لغت میں ستر(چھپانا) اور تقیہ صیانت اور حفاظت کو کہا جاتا ہے ۔

 توریہ میں شخص واقعیت کا ارادہ کرتا ہے لیکن تقیہ میں نہیں ۔

____________________

۱: مکارم شیرازی؛ شیعہ پاسخ می گوید،ص۴۵۔

۳۳

 توریہ میں مصلحت کو ملحوظ نظر نہیں رکھا جاتا لیکن تقیہ میں کئی مصلحتوں کو ملحوظ نظر رکھا جاتا ہے ۔

 لیکن مصداق کے لحاظ سے ان دونوں میں عموم و خصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے ۔ کہ ان دونوں کا مورد اجتماع یہ ہے کہ تقیہ کرنے والا تقیہ کے موارد میں اوراظہار کے موقع پر حق کے برخلاف ، توریہ سے استفادہ کرتا ہے کیونکہ خلاف کا اظہار کرنا ؛ حق کا ارادہ کرنے یا خلاف حق کا ارادہ کرنے سے ممکن ہے۔

 تقيه اور توريه میں افتراق کا ایک مورد ، تقيه كتماني ہے كه یہاں کوئی چیز بیان نہیں ہوئی ہے جو توریہ کا باعث بنے ۔

 ان دونوں میں افتراق کا ایک اور مورد یہ ہے کہ توریہ میں کوئی مصلحت لحاظ نہیں ہوئی ہے اور اگر کوئی مصلحت ملحوظ ہوئی ہے تو بھی ذاتی منافع ہے ۔

تقيه ، اكراه اور اضطرارکے درمیان تقابل

تقيه کے بعض موارد کو اكراه و اضطرار کے موارد میں منحصر سمجھاجاتاہے۔شيخ انصاري(ره) مكاسب میں اكراه کے بارےمیں یوں فرماتے ہیں :

۳۴

ثم ان حقيقة الاكراه لغة و عرفا حمل الغير علي ما يكرهه في وقوع الفعل من ذالك الحمل اقترانه بوعيد منه مظنون الترتب الغير علي ترك ذالك الفعل مضر بحال الفاعل او متعلقه نفسا او عرضا او مالا ۔(۱)

اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اکراہ کے وجود میں آنے کی تین شرائط ہیں:

۱. یہ مخالف کی طرف سے واقع ہوتا ہے ۔ پس جہاں اگر خود انسان جلب منفعت یا دفع ضرر کیلئے کوئي قدم اٹھائے تو وہ توریہ میں شامل نہیں ہے ۔

۲. اكراه یہ ہے کہ مستقيماکسی کام پر انسان کو مجبور کیا جائے نه بطور غير مستقيم۔

۳. تهديد اور وعيد کے ساتھ ہو کہ اگر انجام نہ دے تو اس کی جان ، مال، عزت آبرو خطرے میں پڑ جائے ۔

ان تین شرائط اور اولین آیہ شریفہ جو مشروعیت تقیہ کے بارے میں نازل ہوئی جس میں

عمار ابن یاسر ؒ کا قصہ بیان ہوا ہے ، سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض موارد میں تقیہ اور اکراہ میں مطابقت پائی جاتی ہے ۔ اور ان تین شرائط کے ذریعے حضرت عمارؒ کے تقیہ کرنے پر استدلال کیا جا سکتا ہے ۔اور تقیہ کی تعریف بھی اس پر منطبق ہوسکتی ہے ۔لیکن جہاں یہ تین شرائط صدق آئیں اور تقیہ صدق نہ کرے تو وہ اکراہ اور تقیہ کے افتراق کے موارد ہونگے ۔

____________________

۱: شيخ انصاري(ره) ،المكاسب،شروط متعا قد ين،ص۱۱۹۔

۳۵

تقيه کے آثارا ور فوائد

شہیدوں کے خون کی حفاظت

تقیہ کا بہترین فائدہ شہیدوں کے خون کی حفاظت ہے ۔یعنی پوری تاریخ میں شیعیان علیعليه‌السلام مظلوم واقع ہوتے رہے ہیں۔ جب بھی ظالموں کے مظالم کا نشانہ بنتےتھے تقیہ کرکے اپني جان بچاتےتھے۔

چنانچہ امام صادقعليه‌السلام فرماتے هيں: اے ہمارے شیعو! تم، لوگوں کے درمیان ایسے ہو جیسے پرندوں کے درمیان شہد کی مکھی ہے ۔ اگر پرندوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ شہد کی مکھی کے پیٹ میں شہد موجود ہے ، تو ساری شهد کي مکھیوں کو کھاجائیں اور ایک بھی زندہ نہیں چھوڑیں ؛ اسي طرح اگر لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ تمہارے دلوں میں ہم اہل بیتعليهم‌السلام کی محبت موجود ہے تو تمھیں زخم زبان کے ذریعے کھا جائيں گے اور ہر وقت تمہاری غیبت اور بدگمانی میں مصروف رہيں گے ۔ خدا ان لوگوں پر اپنی رحمت نازل کرے جو ہماری ولایت کو

۳۶

مانتے ہيں۔(۱)

اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور تقویت

یہ تقیہ کا دوسرا فائدہ ہے کہ اہل بیتعليهم‌السلام ، اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت اور تقویت کیلئے زیادہ کوشش کرتے تھے ، تاکہ اسلامی معاشرہ ایک واحد اور قدرت مند معاشرہ بنے ، اور اسلام دشمن عناصر کبھی بھی اس معاشرے پر آنکھ اٹھانے کی جرأت نہ کرسکيں ۔

اس عظیم مقصد کے حصول کی خاطر آئمہ طاهرينعليهم‌السلام اپنے چاہنے والوں کو سخت تاکید فرماتے تھے ۔جيسا که حديث ميں آيا هے:

قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مِهْرَانَ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع وَ عِنْدَهُ نَفَرٌ مِنَ الشِّيعَةِ فَسَمِعْتُهُ وَ هُوَ يَقُولُ مَعَاشِرَ الشِّيعَةِ كُونُوا لَنَا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْنَا شَيْناً قُولُوا لِلنَّاسِ حُسْناً احْفَظُوا أَلْسِنَتَكُمْ وَ كُفُّوهَا عَنِ الْفُضُولِ وَ

____________________

۱: علامه كليني ؛ اصول كافي،ج۲،ص۲۱۸۔

۳۷

قَبِيحِ الْقَوْل ۔(۱)

چنانچه امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہیں : اے ہمارے شیعو! خبردار! کوئی ایسا کام انجام نہ دو ، جوہماری مذمت کا سبب بنے ۔ لوگوں کے ساتھ اچھی گفتگو کیا کرو ، اپنی زبانوں کی حفاظت کرواور فضول اور نازیبا باتیں کرنے سے باز آؤ ۔

عَنْ هِشَامٍ الْكِنْدِيِّ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللهِ ع يَقُولُ إِيَّاكُمْ أَنْ تَعْمَلُوا عَمَلًا نُعَيَّرُ بِهِ فَإِنَّ وَلَدَ السَّوْءِ يُعَيَّرُ وَالِدُهُ بِعَمَلِهِ كُونُوا لِمَنِ انْقَطَعْتُمْ إِلَيْهِ زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا عَلَيْهِ شَيْناً صَلُّوا فِي عَشَائِرِهِمْ وَ عُودُوا مَرْضَاهُمْ وَ اشْهَدُوا جَنَائِزَهُمْ وَ لَا يَسْبِقُونَكُمْ إِلَى شَيْ‏ءٍ مِنَ الْخَيْرِ فَأَنْتُمْ أَوْلَى بِهِ مِنْهُمْ وَ اللهِ مَا عُبِدَ اللهُ بِشَيْ‏ءٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الْخَبْ‏ءِ قُلْتُ وَ مَا الْخَبْ‏ءُ قَالَ التَّقِيَّة ۔(۲)

راوی کہتا ہے کہ امام صادقعليه‌السلام نے فرمایا: خبردار ! تم لوگ کوئی ایسا کام کر نہ بیٹھو جس کی وجہ سے هميں ذلت اٹھانی پڑے کیونکہ جب بھی کوئی اولاد برا کام کرتی ہے تو لوگ اس کے والدین کی مذمت کرنے لگتے ہیں۔جب کسی سے دوستی کرنے لگو اور

____________________

۱:۔ أمالي الصدوق، ص ۴۰۰، جلسہ۶۲‏۔

۲: وسائل الشيعة ‏، باب وجوب عشرة العامة بالتقية ،ج۱۶،ص۲۱۹ ۔

۳۸

اس کی خاطر دوسروں سے دوری اختیار کرو تو اس کیلئے زینت کاباعث بنو نہ کہ مذمت اور بدنامی کا ۔ برادران اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کرو ، ان کے مرنے والوں کے جنازے میں شریک ہو جاؤ ، ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ تم سے کار خیر میں آگے ہو ں ، کیوں کہ اچھے کاموں میں تم لوگ ان سے زیادہ سزاوار ہو ۔ خدا کی قسم ! خبأسے بڑھ کر کوئی عبادت نہیں ہے ۔ کسی نے سوال کیا : اے فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خبأ سے کیا مراد ہے ؟! تو امام ؑ نے جواب دیا : اس سے مرادتقیہ هے ۔

عَنْ أَبِي أُسَامَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللهِ وَ الْوَرَعِ وَ الِاجْتِهَادِ وَ صِدْقِ الْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ الْأَمَانَةِ وَ حُسْنِ الْخُلُقِ وَ حُسْنِ الْجِوَارِ وَ كُونُوا دُعَاةً إِلَى أَنْفُسِكُمْ بِغَيْرِ أَلْسِنَتِكُمْ وَ كُونُوا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا شَيْناً وَ عَلَيْكُمْ بِطُولِ الرُّكُوعِ وَ السُّجُودِ فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا أَطَالَ الرُّكُوعَ وَ السُّجُودَ هَتَفَ إِبْلِيسُ مِنْ خَلْفِهِ وَ قَالَ يَا وَيْلَهُ أَطَاعَ وَ عَصَيْتُ وَ سَجَدَ وَ أَبَيْتُ ۔(۱)

راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادقعليه‌السلام سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے : تم پر لازم

____________________

۱:۔ كافي ،باب الورع، ج‏۲ ، ص ۷۶۔

۳۹

ہے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری اختیار کرو ،کوشش کرو کہ سچ بات کہو،امانت میں دیانت داری دکھاؤ ،اچھے اخلاق کے مالک بنو، اور اچھے پڑوسی بنو،اور لوگوں کو زبانی نہیں بلکہ اپنے کردار کے ذریعے اچھائی کی طرف بلاؤ ۔اور ہمارے لئے باعث افتخار بنو نہ کہ باعث ذلت اور رسوائی۔اور تم پر لازم ہے کہ طولانی رکوع اور سجدے کیا کرو ؛ جب تم میں سے کوئی رکوع اور سجود کو طول دیتا ہے تو اس وقت شیطان اس کے پیچھے سے چیخ وپکار کرنےلگتا هے ، اور کهتا هے : واویلا ! اس نے خدا کی اطاعت اوربندگی کی، ليکن میں نے نافرمانی کی ، اس نے خدا کیلئے سجدہ کیا اور میں نے انکار کیا ۔

اگر ان دستورات کو آپ ملاحظہ فرمائیں تو معلوم ہو جائےگا کہ آئمہ طاہرین کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان الفت و محبت پیداهو اور سب مسلمان صلح و صفائی کے ساتھ زندگي بسر کريں ۔

تقيه کے شرائط

تقیہ ہر صورت اور ہر موقع اور ہر جگہ پر صحیح نہیں ہے بلکہ خاص شرائط اور زمان و

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

آیت ۸۶

( وَلاَ تَقْعُدُواْ بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجاً وَاذْكُرُواْ إِذْ كُنتُمْ قَلِيلاً فَكَثَّرَكُمْ وَانظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ )

اور خبردار ہر راستہ پر بيٹھ كر ايمان والوں كو ڈرانے دھمكانے اور راہ خدا سے روكنے كا كام چھوڑ دو كہ تم اس ميں بھى كجى تلاش كر رہے ہو اور يہ ياد كرو كہ تم بہت كم تھے خدا نے كثرت عطا كى اور يہ ديكھو كہ فساد كرنے والوں كا انجام كيا ہوتا ہے(۸۶)

۱_ قوم شعيبعليه‌السلام كے لوگوں كا ايك گروہ توحيد پر ايمان لايا اور راہ خدا كے سالكين ميں سے ہوگيا_

و لا تقعدوا بكل صراط توعدون و تصدون عن سبيل الله من ء امن به الله

۲_ قوم شعيبعليه‌السلام كے كافر لوگ كوچہ و بازار ميں خدا پر ايمان لانے والوں كو دھمكياں ديتے پھرتے اور انہيں راہ خدا سے روكتے تھے_و لا تقعدوا بكل صراط توعدون و تصدون عن سبيل الله من ء امن به

''توعدون'' كا مصدر ''ايعاد'' دھمكى دينا اور اذيت پہنچاتے ہوئے ڈرانا كے معنى ميں آتاہے_ ''من ءامن'' فعل ''توعدون'' اور ''تصدون'' كے ساتھ مربوط ہے اور اہل ادب كي

اصطلاح كے مطابق ايك ''متنازع فيہ'' مفعول ہے، يہ بھى قابل ذكر ہے كہ فوق الذكر مفہوم ميں ''بہ'' كى ضمير كلمہ ''الله '' كى طرف پلٹائی گئي ہے_

۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے لوگوں سے كہا كہ وہ اہل ايمان كو دھمكياں نہ ديں اور انہيں راہ خدا سے نہ روكيں _

و لا تقعدوا بكل صراط توعدون و تصدون عن سبيل الله من ء امن به

۴_ قوم شعيبعليه‌السلام كے كفار راہ خدا كى برائی ظاہر كرنے كيلئے مسلسل كوشش كرتے تھے_

و تصدون عن سبيل الله من ء امن به و تبغونها عوجاً

۱۲۱

۵_ اہل ايمان كو دھمكياں دينا اور راہ خدا كى غير پسنديدہ عكاسى كرنا، انبياء الہى اور اديان الہى كے خلاف مبارزہ كرنے كيلئے دشمنان دين كى چالوں ميں سے ايك ہے_و تصدون عن سبيل الله من ء امن به و تبغونها عوجاً

۶_ خداوند متعال نے اپنى عنايت خاص سے مختصر مدت ميں اہل مدين كى تعداد ميں اضافہ كيا اور انہيں ايك عظيم ملت بناديا_و اذكروا إذ كنتم قليلاً فكثركم

''فاء'' كے ذريعے ''كثركم'' كا گزشتہ جملہ پر عطف يہ معنى فراہم كرتا ہے كہ خدا نے كم مدت ميں اہل مدين كى آبادى ميں اضافہ كيا اور يہى معنى اہل مدين پر خدا كى عنايت خاص كو بھى بيان كرتاہے_

۷_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اہل مدين كو راہ خدا كى طرف مائل كرنے كيلئے ان كى آبادى ميں اضافہ كرنے كے سلسلہ ميں انہيں خدا كى عنايت ياد دلائی _و اذكروا إذ كنتم قليلاً فكثركم

۸_ آبادى كى كثرت ہر ملت كيلئے ايك نعمت الہى ہے_و اذكروا إذ كنتم قليلاً فكثركم

۹_ خدا كى نعمات اس قابل ہيں كہ انہيں ضرور ياد ركھا جائیے_و اذكروا إذ كنتم قليلاً فكثركم

۱۰_ قدرتى عوامل كى كاركردگى ،خدا كے ارادے كے تابع اور اسى كے اختيار ميں ہے_فكثركم

۱۱_ نعمات خدا كو بھلا دينا، پيغمبروں اور راہ خدا پر چلنے والوں كے ساتھ كينہ توزى كا باعث بنتاہے_

و لا تقعدوا ...و اذكروا اذ كنتم قليلاً فكثركم

۱۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم كو تاريخ بشر كے مفسدين كے برے انجام پر غور كرنے كى دعوت دي_

و انظروا كيف كان عقبة المفسدين

۱۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم كے كافروں كو گزشتہ دور كے مفسدين كى طرح كے انجام ميں گرفتار ہونے سے متنبہ كيا_و انظروا كيف كان عقبة المفسدين

۱۴_ راہ خدا سے روكنے والے اور دين كا چہرہ بگاڑنے والے لوگ مفسد ہيں اور ان كيلئے برے انجام سے دوچار ہونے كا خطرہ موجود ہے_تصدون عن سبيل الله من ء امن به و تبغونها عوجاً ...و انظر كيف كان عقبة المفسدين

۱۵_ تاريخ كے مفسدين كے عبرت انگيز انجام كے مطالعہ اور تحقيق كى ضرورت_

۱۲۲

و انظروا كيف كان عقبة المفسدين

۱۶_ لوگوں كو مفسدين كے انجام سے عبرت حاصل كرنے كى ترغيب دلانا ،مبلغين دين كے وظاءف ميں سے ہے_

آبادي:كثرت آبادى كى نعمت ۷، ۸

اديان:اديان كے خلاف مبارزہ ۵

انبياء:انبياء كے ساتھ كينہ ۱۱;انبياء كے ساتھ مبارزہ ۵

تاريخ:تاريخ سے عبرت پانا ۱۲، ۱۳، ۱۵، ۱۶;مطالعہء تاريخ كى اہميت ۱۲، ۱۵، ۱۶

تبليغ:روش تبليغ ۱۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا ارادہ ۱۰; اللہ تعالى كى نعمات ۸; اللہ تعالى كى نعمات كو فراموش كرنے كے نتائج ۱۱;اللہ تعالى كے اختيارات ۱۰; اللہ تعالى كے عطايا ۷، ۶

دين:دشمنان دين كے مبارزہ كرنے كا انداز ۵;دين كو بد ظاہر كرنا ۴، ۵، ۱۴

ذكر:نعمات خدا كے ذكر كى اہميت ۹

سالكين:سالكين كے ساتھ كينہ توزى ۱۱

سبيل الله :سبيل الله سے روكنا ۲، ۳، ۴، ۵، ۱۴

شعيبعليه‌السلام :شعيبعليه‌السلام كا قصّہ ۳، ۷، ۱۲، ۱۳;شعيبعليه‌السلام كى تبليغ ۷; شعيبعليه‌السلام كى دعوت ۳، ۱۲;شعيبعليه‌السلام كى دھمكياں ۱۳

عبرت:عبرت پانے كى ترغيب ۱۶

فساد پھيلانا:فساد پھيلانے كے موارد ۱۴

قدرتى عوامل:قدرتى عوامل كى كاركردگى ۱۰

قوم شعيبعليه‌السلام :قوم شعيبعليه‌السلام كى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۷، ۱۲

كينہ:كينہ كے اسباب ۱۱

۱۲۳

مبلغين:مبلغين كى ذمہ دارى ۱۶

مدين:مدين كى كثرت آبادى ۶، ۷;مدين كے كافروں كو دھمكى ۱۳;مدين كے كافروں كى دھمكياں ۲;مدين كے كافروں كى سازش ۴;مدين كے كافر لوگ اور مؤمنين ۲ ;مدين كے مؤمنين كو دھمكى ۲، ۳

مدين كے موحدين ۱;مدين كے مؤمنين ۱

مفسدين: ۱۴مفسدين كا انجام ۱۴;مفسدين كے انجام سے عبرت پانا ۱۲، ۱۳، ۱۵، ۱۶

مؤمنين:مؤمنين كو دھمكى دينا ۵

آیت ۸۷

( وَإِن كَانَ طَآئِفَةٌ مِّنكُمْ آمَنُواْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَآئِفَةٌ لَّمْ يْؤْمِنُواْ فَاصْبِرُواْ حَتَّى يَحْكُمَ اللّهُ بَيْنَنَا وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ )

اور اگرتم ميں سے ايك جماعت ميرے لائے ہوئے پيغام پر ايمان لے ائی اور ايك ايمان نہيں لائی تو ٹھرو يہاں تك كہ خدا ہمارے درميان اپنا فيصلہ صادر كردے كہ وہ بہترين فيصلہ كرنے والا ہے(۸۷)

۱_ اہل مدين كا ايك گروہ ،حضرت شعيبعليه‌السلام كى رسالت پر ايمان لايا اور دوسرے گروہ نے انكاركيا_

و إن كان طائفة منكم ء امنوا بالذى ا رسلات به و طائفة لم يؤمنوا فاصبروا

گزشتہ آيت كى روشنى ميں''إن كان طائفة ...'' ان موارد ميں سے ہے كہ جن ميں ''إن'' شرطيہ تحقق شرط كے موارد ميں استعمال ہوتا ہے مثلاً''إن كنت إبْنى فلا تفعل كذا'' _ بنابراين''إن كان طائفة منكم فاصبروا '' يعنى اگر تم ميں سے كوئي گروہ ايمان لايا ہے تو پس وہ صبر كرے_

۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم كے مؤمنين كو كافروں كے مقابلے ميں صبر كرنے كى دعوت دي_

إن كان طائفة منكم ء امنوا بالذى ا رسلات به ...فاصبروا

اس سلسلہ ميں كہ ''فاصبروا '' كے مخاطب كون لوگ ہيں تين احتمالات پائے جاتے ہيں : صرف مؤمنين، صرف كافرين، يا دونوں گروہ، فوق الذكر مفہوم پہلے احتمال كى بناپر اخذ كيا گيا ہے، اس صورت ميں صبر كا متعلق كافروں كى اذيتيں اور آزار ہيں يعني:''فاصبروا على ما يصيبكم

۱۲۴

من الكفار '' (اے اہل ايمان كافروں كى اذيت رسانى كے مقابلے ميں صبر كرو اور اپنى ديندارى پر قائم رہو)

۳_ رسالت انبياء پر ايمان لانے والے اہل كفر كى طرف سے ايجاد كى جانے والي مشكلات كا سامنا كرتے ہيں لہذا صبر و استقامت كے پابند ہيں _إن كان طائفة منكم ء امنوا بالذى ا رسلات ...فاصبروا

۴_ راہ ايمان ميں صبر سے كام لينا، خدا كى جانب سے آسودگى حاصل ہونے اور كاميابى پانے كا باعث ہے_

و اصبروا حتى يحكم الله بيننا

۵_ خداوند متعال، برترين حاكم اور بہترين قاضى ہے_و هو خير الحكمين

۶_ انبياء كے پيروكاروں اور ان كے مخالفين كے درميان پائے جانے والے اختلافات ،خدا كے فيصلے سے خاتمہ پائیں گے_حتى يحكم الله بيننا

۷_ خدا كے برتر حاكم ہونے كے بارے ميں اعتقاد، مخالف حق كفار كے كفر كے مقابلے ميں مومنين كيلئے صبر كا باعث ہے_فاصبروا حتى يحكم الله بيننا و هو خير الحكمين

قضاوت الہى كا وقت پہنچنے تك مومنين كو صبر كى دعوت كے بعد خدا كى برتر قضاوت كو بيان كرنے سے حضرت شعيبعليه‌السلام كا مقصد مومنين كيلئے صبر كے اسباب فراہم كرناہے_

۸_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم كے كافروں كو قضاوت خدا اور دنيا ميں خدا كى سزاؤوں ميں گرفتار ہونے سے ڈرايا_

و طائفة لم يؤمنوا فاصبروا حتى يحكم الله بيننا

آيت ۸۹ (ربنا افتح ...) كى روشنى ميں يہ مطلب سمجھا جاتاہے كہ خدا كى قضاوت سے حضرت شعيبعليه‌السلام كى مراد ايسے امر كا تحقق پاناہے كہ جس كے بعد دنيا ميں كافروں كيلئے نابودى اور اہل ايمان كيلئے كاميابى ہے، چنانچہ اگر ''فاصبروا'' كے مخاطب صرف كافر لوگ ہى ہوں تو يہ مطلب مزيد واضح ہوجاتاہے_

۹_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى رسالت پر ايمان لانے والوں كو قضاوت خدا اور كافروں پر ان كى فتح كى نويد سنائی _

فاصبروا حتى يحكم الله بيننا

۱۰_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى قوم كے مومنوں اور كافروں سے كہا كہ اپنا فيصلہ خدا پر چھوڑتے ہوئے ايك دوسرے سے لڑائی جھگڑا نہ كريں _

۱۲۵

إن كان طائفة منكم ء امنوا ...و طائفة لم يؤمنوا فاصبروا حتى يحكم الله بيننا

فوق الذكر مفہوم اس صورت ميں صحيح ہوگا كہ جب ''فاصبروا'' كے مخاطب مؤمن اور كافر دونوں ہوں كہ اس صورت ميں ''فاصبروا'' ميں صبر سے مراد ايك دوسرے سے جھگڑا نہ كرناہوگا_

۱۱_ قوم شعيبعليه‌السلام كے كفار ،خدا ، اسكى قضاوت اور حق طلب لوگوں تك اس كى مدد پہنچنے كے معتقد تھے_

فاصبروا حتى يحكم الله بيننا و هو خير الحكمين

اگر ''فاصبروا'' ميں خطاب كافروں كى طرف بھى متوجہ ہورہا ہو تو حضرت شعيبعليه‌السلام كا ان كو خدا كى قضاوت تك صبر كرنے كى دعوت دينا اس نكتہ كو بيان كرتاہے كہ شعيبعليه‌السلام كى رسالت كے منكر لوگ بھى خدا كے معتقد تھے، چنانچہ ''ء امنوا'' كے بعد ''بالذى ا رسلت بہ'' كے ذريعے تصريح نيز اسى مطلب كى تائی د كرتى ہے_

آسودگى :آسودگى كے اسباب ۴

اختلاف:اختلاف سے اجتناب ۱۰;دينى اختلاف كا حل ۶;حل اختلاف كے اسباب ۶

الله تعالى :الله تعالى سے مختص امور ۵;الله تعالى كى امداد، ۱۱; الله تعالى كى قضاوت ۵، ۶، ۸، ۹،۱۰ ;اللہ تعالى كى سزائیں ۸

انبياء كے پيروكار:انبياء كے پيروكار كا اختلاف ۶; انبياء كے پيروكاروں كا فريضہ ۳

انبياء كے مخالفين:انبياء كے مخالفين كا اختلاف ۶

اہل مدين:اہل مدين كا اختلاف ۱۰

ايمان:خدا پر ايمان ،۱۱;قضاوت خدا پر ايمان ، ۷،۱۱ ; نبوت شعيبعليه‌السلام پر ايمان

حق طلب لوگ:حق طلب لوگوں كى مدد كرنا ،۱۱

شعيبعليه‌السلام :شعيبعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۸، ۹، ۱۰;شعيبعليه‌السلام كى بشارتيں ۹;شعيبعليه‌السلام كى دعوت ۲، ۱۰ ; شعيبعليه‌السلام كى دھمكياں ۸

صبر:صبر پر ايمان ۴;صبر كے اثرات ۴;صبر كى اہميت ۲

قاضي:بہترين قاضى ۵

قوم شعيبعليه‌السلام :قوم شعيبعليه‌السلام كى تاريخ ۸، ۹، ۱۰

۱۲۶

كافر لوگ:كافروں پر كاميابى ۹;كافر لوگ اور مؤمنين ۳; كافروں كے ساتھ مبارزہ ۲

كاميابي:كاميابى كى بشارت ۹;كاميابى كے اسباب ۴

مدين:مدين كے كافر لوگ۱ ;مدين كے كافروں كا عقيدہ ۱۱; مدين كے كافروں كو تہديد دينا ۸;مدين كے مومنين، ۱،۲;مدين كے مومنين كو بشارت ۹

مشكلات:مشكلات ميں صبر ۳

مؤمنين:مؤمنين كى مسؤوليت ۳;مؤمنين كى مشكلات ۳; مؤمنين كے صبر كے عوامل ۷

آیت ۸۸

( قَالَ الْمَلأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُواْ مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مَعَكَ مِن قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِينَ )

ان كى قوم كے مستكبرين نے كہا كہ اے شعيب ہم تم كو اور تمھارے ساتھ ايمان لانے والوں كو اپنى بستى سے نكال باہر كريں گے يا تم بھى پلٹ كر ہمارے مذہب پر آجاؤ _ انھوں نھے جواب ديا كہ چاہے ہم تمھارے مذہب سے بيراز ہى كيوں نہ ہوں (۸۸)

۱_ قوم شعيبعليه‌السلام كے اشراف كا ايك گروہ تكبر اور احساس برترى كى وجہ سے شعيبعليه‌السلام كى رسالت كا منكر ہوگيا_

قال الملا الذين استكبروا من قومه

مندرجہ بالا مفہوم اس بنا پر ليا گيا ہے كہ ''الذين استكبروا'' ايك احترازى قيد شمار كى جائیے_ اس مبنا كے مطابق قوم شعيبعليه‌السلام كے برجستہ افراد دو گروہوں (يعني: مستكبرين اور غير مستكبرين) ميں تقسيم ہوتے ہيں _ يہ نكتہ بھى قابل ذكر ہے كہ استكبار سے مراد كفر و انكار ہے اور علت كفر كو بيان كرنے كيلئے ''كفروا'' كى جگہ ''استكبروا'' استعمال ميں لايا گيا ہے_

۲_ مدين كے كفر پيشہ لوگوں نے حضرت شعيبعليه‌السلام اور ان كى رسالت پر ايمان لانے والوں كو ايك ساتھ نكال باہر كرنے كى دھمكى دي_لنخرجنك ى شعيب والذين ء امنوا معك من قريتنا

كلمہ ''معك'' فعل ''لنخرجنك'' كا متعلق ہوسكتاہے بنابراين فعل ''لنخرجنك'' سب كو ايك ساتھ باہر نكالنے سے حكايت كرتاہے_

۱۲۷

۳_ قوم مدين كے اشراف، حضرت شعيبعليه‌السلام اور ان كى رسالت كے ساتھ مبارزہ ميں پيش پيش تھے_

قال الملاء الذين استكبروا من قومه لنخرجنك

۴_ حضرت شعيبعليه‌السلام اور ان كى رسالت كے ساتھ مدين كے كفر پيشہ سرداروں كے مبارزہ كا اصلى سبب ،ان كا تكبر اور احساس برترى تھا_قال الملا ء الذين استكبروا من قومه لنخرجنك

۵_ قوم مدين كے كافر لوگ ،مؤمنين سے زيادہ قوت كے مالك تھے_

لنخرجنك ى شعيب والذين ء امنوا معك من قريتنا

حضرت شعيبعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كے ساتھيوں كو بستى سے نكال باہر كرنے كے بارے ميں قوم مدين كے كافروں كا فيصلہ اور پھر قسم اور تاكيد كے ساتھ اس كا اظہار ،مندرجہ بالا مفہوم كى تائی د كرتاہے_

۶_ ہر قوم كے بزرگ اور برجستہ افراد كيلئے حق قبول نہ كرنے اور استكبار كا خطرہ موجود ہوتاہے_

قال الملا الذين استكبروا من قومه

۷_ انبياء اور ان كے لائحہ عمل كے ساتھ كى جانے والى اكثر مخالفتيں ہر قوم كے بزرگ اور اشراف ہى كى طرف سے ہوتى ہيں _قال الملا ء الذين استكبروا من قومه

قرآن كريم نے ان آيات ميں پيغمبروں كى داستانيں بيان فرماتے ہوئے ہميشہ دولت مند اور بڑے طبقے كے لوگوں كى انبياء كے پروگراموں كے ساتھ مخالفت كو بيان كيا ہے يہ اس مطلب كو بيان كرتا ہے كہ اكثر مخالفتيں برجستہ افراد ہى كى طرف سے ظاہر ہوئي ہيں _

۸_ مدين كے كفر پيشہ افراد نے قومى مذہب ميں لوٹ آنے كو حضرت شعيبعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كے ساتھيوں كى جلاوطنى سے نجات كيلئے شرط قرار ديا_لنخرجنك ا و لتعودن فى ملتنا

۹_ مدين كے كفر پيشہ لوگوں كى حضرت شعيبعليه‌السلام اور ان كے ساتھيوں پر اپنا ائین مسلط كرنے كى كوشش تھي_

ا و لتعودن فى ملتنا

جملہ ''ا و لتعودن'' سے يہ مفہوم حاصل ہوتاہے كہ حضرت شعيبعليه‌السلام اور آپ كے ساتھيوں كو جلا وطن كرنے كے بارے ميں قوم مدين كا فيصلہ انہيں اپنے ائین كى طرف پلٹانے كيلئے تھا_ بنابريں ان كى تمام دھمكياں اسى عقيدہ كو مسلط كرنے كيلئے تھيں _

۱۲۸

۱۰_ حضرت شعيبعليه‌السلام كے زمانے ميں اہل مدين ايك غير الہى مذہب كے پيرو تھے_ا و لتعودن فى ملتنا

۱۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام پر ايمان لانے والے اپنے اس ايمان سے پہلے غير الہى ائین كى پيروى كرنے ميں اہل مدين كے ہم مسلك تھے_ا و لتعودن فى ملتنا

''لتعودنّ '' كا مصدر عود ''لوٹنا'' كے معنى ميں آتاہے، بنابراين فعل''لتعودنّ'' اس مطلب پر دلالت كرتاہے كہ شعيبعليه‌السلام پر ايمان لانے والے اس سے پہلے اہل مدين كے ساتھ ہم مسلك تھے_ يہ نكتہ بھى قابل ذكر ہے كہ اس معنى كا حضرت شعيبعليه‌السلام پر اطلاق ، باب تغليب سے ہے_

۱۲_ اہل مدين كا مذہب حضرت شعيبعليه‌السلام اور آپ كے ساتھيوں كى نظر ميں ايك منفور اور مكروہ مذہب تھا_

ا و لو كنا كرهين

۱۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى اور اپنے ساتھيوں كى طرف سے اہل مدين كے ائین كے بارے ميں اظہار تنفر كرتے ہوئے ان كے ائین كو قبول كرنے كى توقع كو بے جا قرار ديا_قال ا و لو كنا كرهين

استكبار:استكبار كا خطرہ ۶;استكبار كے آثار ۴

اہل مدين:اہل مدين كا دين ۱۰، ۱۱;اہل مدين كے دين كى منفوريت ۱۲، ۱۳

برجستہ افراد:اقوام كے برجستہ افراد ۶،۷;برجستہ افراد اور انبياء ۷

توقعات:بے جا توقعات ۱۳

جلا وطني:جلا وطنى كى دھمكي

حق قبول نہ كرنا:حق قبول نہ كرنے كا خطرہ ۶

رسوم:غير پسنديدہ رسوم ۱۲، ۱۳

شعيبعليه‌السلام :شعيبعليه‌السلام اور اہل مدين كا دين ۱۲، ۱۳;شعيبعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۸، ۹، ۱۳ ;شعيبعليه‌السلام كى جلا وطنى ۸; شعيبعليه‌السلام كے زمانے كى تاريخ ۹;شعيبعليه‌السلام كے ساتھ مبارزہ ۳، ۴

شعيبعليه‌السلام كے پيروكار:شعيب كے پيروكاروں كا عقيدہ ۱۲، ۱۳

۱۲۹

عقيدہ:عقيدہ مسلط كرنا ۹

قوم شعيبعليه‌السلام :قوم شعيب كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۸، ۱۰، ۱۱

مخالفين انبياء: ۷

مدين:مدين كے برجستہ افراد اور شعيبعليه‌السلام ۸;مدين كے برجستہ افراد اور مومنين ۹;مدين كے برجستہ افراد كا استكبار، ۱; مدين كے برجستہ افراد كا مبارزہ ۳، ۴; مدين كے برجستہ افراد كى دھمكياں ۲;مدين كے برجستہ افراد كى قوم پرستى ۸;مدين كے كافر، ۱; مدين كے كافر اور شعيبعليه‌السلام ۹;مدين كے كافر لوگ، ۳، ۴، ۸، ۹ ;مدين كے كافروں كى قوت ۵;مدين كے كافروں كے مبارزہ كا منشاء ۴;مدين كے مومنين ۵;مدين كے مومنين كا سابقہ ۱۱;مدين كے مومنين كودھمكى ۲

آیت ۸۹

( قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللّهِ كَذِباً إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللّهُ مِنْهَا وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلاَّ أَن يَشَاءَ اللّهُ رَبُّنَا وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً عَلَى اللّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ )

يہ اللہ پر بڑا بہتان ہوگا اگر ہم تمھارے مذہب پر آجائیں جب كہ اس نے ہم كو اس مذہب سے نجات دے دى ہے اور ہميں حق نہيں ہے كہ ہم تمھارے مذہب پر آجائیں جب تك خدا خود نہ چاہے ہمرے پروردگار كا علم ہو شے پر حاوى ہے اور ہمارا اعتماد اسى كے اوپر ہے_ خدا يا ہمارے اور ہمارى قوم كے درميان حق سے فيصلے فرمادے كہ و بہترين فيصلہ كرنے والا ہے(۸۹)

۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے مدين كے كفر پيشہ لوگوں كے جواب ميں ائین شرك كى طرف مائل ہونے كو خدا پر افتراء قرار ديا_قد افترينا على الله كذباً إن عدنا فى ملتكم

۲_ شرك، خدا پر افتراء ہے_قد افترينا على الله كذباً إن عدنا فى ملتكم

۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام اور ان كے مؤمن ساتھى ائین شرك كى طرف رغبت پيدا كرنے اور خدا پر افتراء باندھنے سے بيزار تھے_

۱۳۰

قال ا و لو كنا كرهين_ قد افترينا على الله كذباًً إن عدنا فى ملتكم

۴_ خداوند متعال، حضرت شعيبعليه‌السلام اور ان كے ساتھيوں كو شرك كى طرف راغب ہونے سے نجات بخشنے والا ہے_

بعد إذ نجى نا الله منها

۵_ مشركين، شرك آلود توہمات كے اسير جبكہ موحدين اس سے آزاد ہيں _بعد إذ نجى نا الله منها

ايك ائین سے روگردان ہوتے ہوئے دوسرے ائین كا رخ كرنے كيلئے كلمہ ''نجات'' (نجنا الله ) كا استعمال اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ پہلا ائین اسارت اور دوسرا ائین آزادى كا باعث ہے_

۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے كفّار مدين كے تقاضے كے آخرى جواب ميں ائین شرك كى طرف لوٹ جانے كو ايك امر محال قرار ديا_و ما يكون لنا ان نعود فيها الا ان يشاء الله ربنا

جملہ ''ما يكون لنا ...'' كہ جو ائین شرك كى طرف پلٹنے كے عدم امكان پر دلالت كرتاہے اس سے مراد عدم امكان تكوينى بھى ہوسكتا ہے اور عدم امكان تشريعى (جائز نہ ہونا) بھي_ فوق الذكر مفہوم احتمال اول ہى كى بناپر اخذ كيا گيا ہے: يہ نكتہ بھى قابل ذكر ہے كہ پہلے مبنا كے مطابق مشيّت الہى (إلا ان يشاء الله ) مشّيت تكوينى ہے اور دوسرے احتمال كى بناپر مشيّت الہي، مشيّت تشريعى ہے _

۷_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے ائین شرك كى طرف بازگشت كو صرف، مشيّت الہى كى صورت ميں ممكن جانا_

ما يكون لنا ا ن نعود فيها إلا ا ن يشاء الله ربنا

۸_ لوگوں كى ہدايت اور ضلالت ،خدا كے اختيار اور اسكى مشيّت سے خارج نہيں ہے_

إلا ا ن يشاء الله ربنا

۹_ توحيد تك رسائی اور شرك سے پرہيز ،صرف خدا كى مرضى اور اسكى عطا كردہ توفيقات كى موجودگى ميں ہى ممكن ہے_

و ما يكون لنا ان نعود فيها إلا ان يشاء الله ربنا

۱۰_ اہل ايمان كا اپنے ايمان پر پائی دار رہنے كے بارے ميں اطمينان ، خدا كى مشيّت مطلقہ پر يقين كے ساتھ سازگار نہيں _و ما يكون لنا ان نعود فيها إلا ان يشاء الله ربنا

۱۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنے اور اپنے ساتھيوں كيلئے كفر و شرك كا اظہار ناجائزاور ناروا قرار ديا_

و ما يكون لنا ان نعود فيها إلا ان يشاء الله

۱۳۱

ربنا

فوق الذكر مفہوم اس اساس پر ليا گيا ہے كہ جملہ ''ما يكون لنا '' سے سمجھے جانے والے عدم امكان سے مراد ،عدم امكان تشريعى ہو_

۱۲_ حضرت شعيبعليه‌السلام اور آپ پر ايمان لانے والے، مشيت خدا كے سامنے تسليم ہونے والے انسان تھے_

و ما يكون لنا ان نعود فيها إلا ان يشاء الله ربنا

۱۳_ مشيت خدا كے سامنے تسليم ہونے كى ضرورت_إلا ان يشاء الله ربنا

۱۴_ خداوند متعال، انسانوں كا مالك اور مدبر ہے_ربنا

۱۵_ انسانوں كے بارے ميں خدا كى مشيت، ان كے امور كى تدبير كے سلسلہ ميں ہى ہے_إلا ان يشاء الله ربنا

۱۶_ خدا كا علم، تمام عالم ہستى كو احاطہ كيئے ہوئے ہے_وسع ربنا كل شيء علماً

۱۷_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے خدا كے علم مطلق كو اس كى ربوبيت كے قبول كرنے اور مشيت كے سامنے تسليم ہونے كى دليل جانا_قال إلا ان يشاء الله ربنا وسع ربنا كل شيء علماً

۱۸_ صرف خداوند متعال ہى مؤمنين كے توحيد پر قائم رہنے يا كفر و شرك كى طرف پلٹ جانے كے بارے ميں آگاہى ركھتاہے_و ما يكون لنا ان نعود فيها إلا ان يشاء الله ربنا وسع ربنا كل شيء علماً

۱۹_ خداوند متعال كا جہا ن ہستى كے بارے ميں وسيع علم اس كى مشيت كے سامنے تسليم ہونے كا معيار ہے_

إلا ان يشاء الله ربنا وسع ربنا كل شيء علماً

۲۰_ حضرت شعيبعليه‌السلام اور ان كے ساتھى خدا پر بھروسہ كرنے والے اور توكل سے بہرہ مند انسان تھے_

على الله توكلنا

۲۱_ انبيائے الہي، خدا پر بھروسہ كرنے والے متوكل انسان ہوتے ہيں _على الله توكلنا

۲۲_ صرف خدا ہى عالم ہستى كے بارے ميں كامل آگاہى كى وجہ سے توكل اور بھروسہ كيئے جانے كے لائق ہے_

وسع ربنا كل شيء علماً على الله توكلنا

۲۳_ خدا كى ربوبيت اور اس كے وسيع علم كى طرف متوجہ

۱۳۲

ہونا انسان كيلئے خدا كى ذات پر توكل كرنے اور دشمنوں كى دھمكيوں كے مقابلے ميں ڈٹے رہنے كا باعث ہے_

وسع ربنا كل شيء علماً على الله توكلنا

۲۴_ انسان خدا پر توكل كيئےغير اپنے ايمان پر قائم رہنے سے عاجز ہے_إلا ان يشاء الله ...على الله توكلنا

۲۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے كفر پيشہ لوگوں كے ايمان لانے سے مايوس ہونے كے بعد ،بارگاہ خدا ميں دعا كى كہ خدا اہل كفر اور ان كے درميان فيصلہ كرے_ربنا افتح بيننا و بين قومنا بالحق و ا نت خير الفتحين

كلمہ ''فتح'' كے معانى ميں سے ايك معنى ''فيصلہ كرنا'' ہے_

۲۶_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے اپنى دعاؤوں ميں خدا سے غيبى امداد كى درخواست كي_ربنا افتح بيننا و بين قومنا بالحق

۲۷_ انسانوں كے درميان،خدا كى قضاوت ان كے متعلق اس كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_ربنا افتح

۲۸_ حق و باطل كے طرفداروں كے جھگڑے ميں فيصلہ دينے كيلئے آخرى قضاوت ،خدا كے سپرد كرنا اس پر توكل كرنے كے مصاديق ميں سے ہے_على الله توكلنا ربنا افتح بيننا و بين قومنا بالحق

۲۹_ خدا پر توكل كرنا، انسان كيلئے بارگاہ خدا ميں دعا كرنے اور اسى سے اپنى حاجات طلب كرنے كا باعث بنتاہے_

على الله توكلنا ربنا افتح بيننا و بين قومنا بالحق

۳۰_ مؤمنوں اور كافروں كے درميان آخرى فيصلہ، عالم ہستى سے آگاہ خدا ہى كے لائق ہے_

وسع ربنا كل شيء علماً ...ربنا افتح بيننا و بين قومنا بالحق

۳۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام كى دعا كا مقصد حق كو ثابت كرنا تھا_ربنا افتح ...بالحق

حضرت شعيبعليه‌السلام نے باوجود اس كے كہ اپنى حقانيت پر يقين ركھتے تھے_ يہ نہيں كہا :كہ خدايا ہمارے حق ميں فيصلہ كر بلكہ كہا خدايا حق كى حمايت كر، اور يہ اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ پيغمبروں كا ہدف ،تثبيت حق كے سوا كچھ نہيں ہوتا_

۳۲_ خداوند متعال، حق و باطل كے طرفداروں كے جھگڑوں ميں برترين حاكم اور بہترين قاضى ہے_

و انت خير الفاتحين

۱۳۳

اختلاف:حل اختلاف كا منشاء ۳۲

افتراء:افتراء سے بيزارى ۳

الله تعالى :الله تعالى پر افتراء باندھنا ۱، ۲، ۳ ;الله تعالى سے مختص امور ۱۸، ۲۲، ۳۰; اللہ تعالى كا علم ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۲، ۲۳، ۳۰; اللہ تعالى كى امداد ۲۶;اللہ تعالى كى تدبير ۱۴، ۱۵; اللہ تعالى كى توفيقات ۹; اللہ تعالى كى ربوبيت ۱۷، ۲۳، ۲۷; اللہ تعالى كى قضاوت ۲۷، ۲۸، ۳۰، ۳۳ ; اللہ تعالى كى قضاوت كى درخواست ۲۵;اللہ تعالى كى مالكيت ۱۴; اللہ تعالى كى مشيت ۷، ۸، ۹، ۱۵;اللہ تعالى كے اختيارات كا داءرہ ۸; اللہ تعالى كے علم كا داءرہ ۱۶

انبياء:انبياء كا توكل ۲۱

انسان:امور انسان كى تدبير ۱۴، ۱۵;انسان كا ضعف ۲۴;انسان كا مالك ۱۴

اہل مدين:اہل مدين كا كفر ۲۵

ايمان:ايمان پر استقامت ۲۴;تداوم ايمان كے بارے ميں اطمينان ۱۰;مشيت خدا كے متعلق ايمان ۱۰

ترغيب:ترغيب كے عوامل ۲۹

تسليم:تسليم كا معيار ۱۹;مشيت خدا كے سامنے تسليم ۱۷، ۱۹، ۲۱، ۳۱

توحيد:توحيد پر استقامت ۱۸

توكل:توكل كے آثار ۲۹;خدا پر توكل كى اہميت ۲۴;خدا پر توكل ۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۳، ۲۸، ۲۹

جہان بيني:جہان بينى اور ائی ڈيا لوجى ۲۳

حاجت:طلب حاجت كا منشاء ۲۹

حق:تثبيت حق ۳۱;حق و باطل كى دشمنى ۲۸

دشمن:دشمنوں كى دھمكى ۲۳

دعا:دعا كے اسباب ۲۹

شرك:اظہار شرك كا غير پسنديدہ ہونا ۱۱;شرك سے اجتناب ۹; شرك سے بيزارى ۳;شرك سے نجات ۴، ۵; شرك كا رجحان ۱۰،۷;شرك كى حقيقت ۲

۱۳۴

شعيبعليه‌السلام :شعيبعليه‌السلام اور مدين كے بزرگان ۱;شعيبعليه‌السلام اور مدين كے كافر ۶، ۲۵ ;شعيبعليه‌السلام پر ايمان لانے والے ۱۲;شعيبعليه‌السلام كا انقياد ۱۷، ۱۲;شعيبعليه‌السلام كا توكل ۲۰;شعيب كا عقيدہ ۷، ۱۱، ۱۷;شعيب كا قصّہ ۱، ۳، ۴، ۶، ۱۱، ۱۲، ۲۰، ۲۵;شعيبعليه‌السلام كى بيزارى ۳;شعيبعليه‌السلام كى توحيد ۶;شعيبعليه‌السلام كى درخواستيں ۲۵، ۲۶;شعيبعليه‌السلام كى دعا ۲۶;شعيبعليه‌السلام كى دعا كا مقصد ۳۱;شعيبعليه‌السلام كى نجات ۴;شعيبعليه‌السلام كى مايوسى ۲۵;شعيبعليه‌السلام كے فضائل ۲۰

شعيبعليه‌السلام كے پيروكار: ۷پيروان شعيبعليه‌السلام كا توكل ۲۰;پيروان شعيبعليه‌السلام كا عقيدہ ۳، ۱۱، ۱۲;پيروان شعيبعليه‌السلام كى اطاعت ۱۲;پيروان شعيبعليه‌السلام كى نجات ۴;پيروان شعيبعليه‌السلام كے فضائل ۲۰

عقيدہ:عقيدہ توحيد كا منشاء ۹

علم:علم اور عمل ۲۳;علم كے آثار ۲۳

غيبى امداد:غيبى امداد كى درخواست ۲۶

قاضي:بہترين قاضى ۳۲

قضاوت:مؤمنوں اور كافروں كے درميان قضاوت ۳۰

قوم شعيبعليه‌السلام :قوم شعيبعليه‌السلام كى تاريخ ۶، ۱۲، ۲۵

كفر:اظہار كفر كا غير پسنديدہ ہونا ۱۱

گمراہي:گمراہى كا منشاء ۸

متوكلين: ۲۰، ۲۱

مدين:مدين كے كفار كى خواہشات ۶

مشركين:مشركين كے توہمّات۵

موحدين:موحدين كى آزادى ۵

مؤمنين:مؤمنين كى استقامت ۱۸;مؤمنين كى سرنوشت ۱۸

ہدايت:ہدايت كا منشاء ۸

۱۳۵

آیت ۹۰

( وَقَالَ الْمَلأُ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَوْمِهِ لَئِنِ اتَّبَعْتُمْ شُعَيْباً إِنَّكُمْ إِذاً لَّخَاسِرُونَ )

تو ان كى قوم كے كفار نے كہا كہ اگر تم لوگ شعيب كا اتباع كر لوگے تو تمھارا شمار خسارہ والوں ميں ہوجائیے گا(۹۰)

۱_ لوگوں كو حضرت شعيبعليه‌السلام كى رسالت پر ايمان لانے اور ان كے فرامين كى پيروى كرنے سے روكنے كيلئے قوم مدين كے كفر پيشہ سرداروں كى سر توڑ كوشش_و قال الملا ء الذين كفروا من قومه لئن اتبعتم شعيبا إنكم إذاً لخسرون

''اتبعتم'' ميں متابعت سے مراد ،حضرت شعيبعليه‌السلام كے فرامين كى پيروى ہوسكتى ہے كہ اس صورت ميں ''اتبعتم'' كے مخاطبين عام لوگ ہوں گے، چنانچہ اس سے مراد شہر مدين سے خارج ہونے ميں حضرت شعيبعليه‌السلام كى پيروى كرنا بھى ہوسكتى ہے كہ اس صورت ميں ''اتبعتم'' كے مخاطبين صرف حضرت شعيبعليه‌السلام پر ايمان لانے والے ہى ہوں گے فوق الذكر مفہوم احتمال اول كى اساس پر اخذ كيا گيا ہے_

۲_ مدين كے اشراف كا ايك گروہ ،رسالت شعيبعليه‌السلام پر ايمان لايا جبكہ دوسرے گروہ نے انكار كيا_

و قال الملا الذين كفروا من قومه

فوق الذكر مفہوم ميں ''الذين ...'' كو قيد احترازى كے عنوان سے ليا گيا ہے ''ملا'' يعنى دو گروہ تھے (مؤمن و كافر)

۳_ قوم مدين كے كفر پيشہ لوگوں نے قسم كھاتے ہوئے حضرت شعيبعليه‌السلام كى رسالت كو قبول كرنے اور ان كے فرامين كى پيروى كرنے كو نقصان دہ متعارف كرايا_لئن اتبعتم شعيباً إنكم إذاً لخسرون

۴_ توحيد كى طرف مائل ہونا اور اقتصادى امور ميں عدل و انصاف پر كار بند ہونا قوم مدين كے كفر پيشہ سرداروں كى نظر ميں خسارے كا باعث تھا_لئن اتبعتم شعيباً إنكم إذاً لخسرون

فوق الذكر مفہوم آيت ۸۶ كہ جو شعيبعليه‌السلام كے پيغامات كو بيان كرتى ہے كہ روشنى ميں اخذ كيا گيا ہے_

۵_ حضرت شعيبعليه‌السلام نے توحيد پر اپنى استقامت كے اعلان اور كفر پيشہ لوگوں كى تجويز (ائین شرك كى طرف بازگشت) كو مسترد كرنے كے بعد شہر مدين سے خارج ہونے كو انتخاب كيا_لئن اتبعتم شعيباً

فوق الذكر مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''اتبعتم شعيباً'' سے مراد شہر مدين سے خارج ہونے كے معاملہ ميں شعيبعليه‌السلام كى پيروى ہو_

۱۳۶

۶_ رسالت شعيبعليه‌السلام پر ايمان لانے والے ائین توحيد اور شہر مدين سے خارج ہونے ميں ، شعيبعليه‌السلام كى پيروى پر مصمّم تھے_لئن اتبعتم شعيباً

۷_ مدين كے كفر پيشہ سرداروں نے حضرت شعيبعليه‌السلام كى ہمراہى كے مضر ہونے پر تاكيد كرتے ہوئے مومنين كو ان كى متابعت كرنے اور شہر مدين سے خارج ہونے سے روكنے كى سرتوڑ كوشش كي_

و قال الملا ء لئن اتبعتم شعيباً إنكم إذاً لخسرون

ايمان:شعيبعليه‌السلام پر ايمان ۲;شعيبعليه‌السلام پر ايمان سے روكنا ۱

توحيد:توحيد كى طرف رجحان كے اثرات ۴

شعيبعليه‌السلام :رسالت شعيبعليه‌السلام كو قبول كرنا ۳;رسالت شعيبعليه‌السلام كى تكذيب ۲;شعيبعليه‌السلام اور بزرگان مدين ۵;شعيبعليه‌السلام كا قصہ ۱،۵;شعيبعليه‌السلام كى استقامت ۵;شعيبعليه‌السلام كى اطاعت ۳، ۶;شعيبعليه‌السلام كى توحيد ۵;شعيبعليه‌السلام كى ہجرت ۵

شعيبعليه‌السلام كے پيروكار:شعيب كے پيروكاروں كى ہجرت ۶، ۷

عدالت:عدالت كے آثار ۴;معاشى عدالت ۴

قدر و قيمت معين كرنا:غلط طور پر قدر و قيمت معين كرنا ۳

قوم شعيبعليه‌السلام :قوم شعيبعليه‌السلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۶، ۷

لين دين:لين دين ميں عدالت ۴

مدين:مدين كے سردار اور شعيبعليه‌السلام ۳;مدين كے سردار اور مومنين ۷;مدين كے سرداروں كا عقيدہ ۳، ۴، ۷ ;مدين كے سرداروں كا كفر ۲;مدين كے سرداروں كى قسم ۳;مدين كے كافر سردار ۱، ۴، ۵،۷; مدين كے كفار كى قسم ۳;مدين كے مومنين كا عقيدہ ۶; مدين كے مومنين كى استقامت ۶

نقصان:نقصان كے عوامل ۳، ۴، ۷

۱۳۷

آیت ۹۱

( فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُواْ فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ )

نتيجہ يہ ہوا كہ انھيں زلزلہ نے اپنى گرفت ميں لے ليا اور اپنے گھر ميں سربہ زانو ہوگئے(۹۱)

۱_ قوم شعيبعليه‌السلام كے كفر پيشہ لوگ شديد لرزش كى لپيٹ ميں آكر ہلاك ہوگئے_فا خذتهم الرجفة فا صبحوا فى دارهم جثمين

كلمہ ''رجفة'' اضطراب اور لرزش كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور ''فا صبحوا'' كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ وہ لرزش بہت شديد تھي_ يہ مطلب بھى قابل ذكر ہے كہ ''فا خذتھم الرجفة'' (لرزش نے انہيں اپنى لپيٹ ميں لے ليا) كا يہ معنى بھى ہوسكتاہے كہ شديد لرزش ان كے اجسام پر طارى ہوگئي اور يہ معنى بھى ہوسكتاہے كہ زمين كے لرزہ (زلزلہ) نے انہيں آليا_

۲_ قوم شعيبعليه‌السلام كے كفر پيشہ لوگ، اتمام حجت كے بعد حضرت شعيبعليه‌السلام اور ان كے ساتھيوں كى مخالفت اور كفر پر مصر رہنے كى وجہ سے ہلاك كيئےئے_قال الملا ...فاخذتهم الرجفة

''فا خذتھم'' ميں ''فا'' نزول عذاب كو گزشتہ آيات ميں مذكور مسائل كے ساتھ مرتبط كرتى ہےوہ مسائل يہ ہيں ،اہل مدين كا كفر ، حضرت شعيب(ع)كے ساتھ ان كى مخالفت اور آخر ميں حضرت شعيبعليه‌السلام كى وہ دعا كہ جس ميں انہوں نے قضاوت خدا كى درخواست كى _

۳_ قوم شعيبعليه‌السلام كے كفر پيشہ لوگ، رات كے وقت عذاب ميں مبتلا ہوئے اور صبح كے وقت ہلاك ہوئے*_

فاصبحوا فى دارهم جثمين

مندرجہ بالا مفہوم اس بات پر مبتنى ہے كہ''ا صبحوا'' ،''دخلوا فى الصباح'' (صبح كے وقت ميں داخل ہوئے) كے معنى ميں ہو نہ كہ ''صارو'' كے معنى ميں ہو_ اس مبنا كے مطابق جملہ''فا صبحو ...'' يہ مطلب فراہم كرتاہے كہ وہ لوگ صبح كے وقت ہلاك ہوئے اور عذاب لرزش صبح سے پہلے يعنى رات كے وقت كافروں پر عارض ہوا_

۴_ قوم شعيبعليه‌السلام كے كفر پيشہ لوگ عذاب الہى كے اثر كى وجہ سے زمين پر گر پڑے اور وہيں ہلاك ہوگئے_

۱۳۸

فاصبحوا فى دارهم جثمين

كلمہ ''جثوم'' زمين كے ساتھ چمٹنے اور حركت نہ كرنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے البتہ بعض كا كہنا ہے كہ يہ كلمہ كسى شخص كے سينہ كے بل گرنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے_

۵_ شديد لرزش كے عذاب كى وجہ سے لوگ گھروں سے باہر نہ نكل سكے اور ان سے حركت كى توانائی سلب ہوگئي_

فا صبحوا فى دارهم جثمين ''فى دارهم'' ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ پايا جاسكتاہے كہ نزول عذاب كے وقت سب يا اكثر لوگ گھروں ميں استراحت كررہے تھے چنانچہ اس كے علاوہ اس مطلب كى طرف بھى اشارہ پايا جاسكتاہے كہ لرزش زمين كے احساس كے ساتھ ہى قوم شعيب كے لوگوں نے گھروں سے باہر نكلنا چاہا ليكن عذاب نے انہيں مہلت نہ دى اور وہيں ہلاك ہوگئے اس لحاظ سے كہ ''فى دارھم'' كلمہ ''جثمين'' كے متعلق ہے اس مطلب كى مزيد وضاحت ہوجاتى ہے_

۶_ قوم شعيبعليه‌السلام كے كافروں كى ہلاكت اور مؤمنوں كى نجات، خدا كا ان كے درميان حق كا فيصلہ تھا_

ربنا افتح بيننا و بين قومنا بالحق فا خذتهم الرجفة

۷_ قوم شعيبعليه‌السلام كے كفر پيشہ افراد پر عذاب ،شعيبعليه‌السلام كى مومنين اور كفار كے درميان فيصلے كى درخواست پر خدا كا جواب تھا_

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا عذاب ۴; اللہ تعالى كى طرف سے اتمام حجت ۲ ;اللہ تعالى كى قضاوت ۶، ۷

اہل مدين:اہل مدين كا انجام ۱، ۴، ۵، ۶;اہل مدين كا دنيوى عذاب ۳، ۴، ۵، ۷

شعيبعليه‌السلام :رات كا عذاب ۳;رعشہ كا عذاب ۵;شعيبعليه‌السلام كا قصّہ ۳، ۵;شعيبعليه‌السلام كى دعا كى قبوليت ۷;شعيبعليه‌السلام كے ساتھ مبارزہ ۲;عمومى عذاب ۴

شعيبعليه‌السلام كے پيروكار:پيروان شعيبعليه‌السلام كے ساتھ مبارزہ ۲

عذاب:رات كا عذاب ۳;رعشہ كا عذاب ۵;عمومى عذاب ۴;نزول عذاب ۷

قضاوت:صحيح قضاوت ۶;مؤمنوں اور كافروں كے درميان قضاوت ۷

قوم شعيبعليه‌السلام :قوم شعيبعليه‌السلام كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵، ۶

كافر لوگ:

۱۳۹

كافروں كا دنيوى عذاب ۳، ۴، ۷

كفر:كفر پر اصرار ۲

مدين:مدين كے كافر اور شعيبعليه‌السلام ۲;مدين كے كافروں كا

عذاب ۷;مدين كے كافروں كى ہلاكت ۱، ۲، ۳، ۴، ۶;مدين كے مومنوں كى نجات ۶

ہلاكت:رعشہ كے ذريعے ہلاكت ۱

آیت ۹۲

( الَّذِينَ كَذَّبُواْ شُعَيْباً كَأَن لَّمْ يَغْنَوْاْ فِيهَا الَّذِينَ كَذَّبُواْ شُعَيْباً كَانُواْ هُمُ الْخَاسِرِينَ )

جن لوگوں نے شعيب كى تكذيب كى وہ ايسے برباد ہوئے گويا اس بستى ميں بسے ہى نہيں تھے_ جن لوگوں نے شعيب كو جھٹلايا وہى خسارہ والے قرار پائے(۹۲)

۱_ حضرت شعيبعليه‌السلام كو جھٹلانے والوں اور مدين كے كفار پر نازل ہونے والا عذاب، ان كى نابودى اور شہر كى ويرانى كا باعث ثابت ہوا_الذين كذبوا شعيباً كا ن لم يغنوا فيها

''فيہا'' كى ضمير گزشتہ آيت ميں مذكور كلمہ ''دار'' كى طرف پلٹتى ہے، فعل ''لم يغنوا'' كا مصدر ''غني'' كسى جگہ ٹھہرنا اور سكونت اختيار كرنا كے معنى ميں استعمال ہوتاہے، بنابراين ''كا ن لم يغنوا'' يعني: گويا قوم شعيب نے اس بستى ميں سكونت اختيار ہى نہيں كى تھى اور يہ اس بستى كى ويرانى سے كنايہ ہے_

۲_ انبيائے الہى اور ان كى رسالت كو جھٹلانے والوں كيلئے سخت عذاب كے ذريعے تباہى كا خطرہ_

الذين كذبوا شعيباً كا ن لم يغنوا فيها

۳_ حضرت شعيبعليه‌السلام كو جھٹلانے والے، مومنين كيلئے جس برے انجام كى پيش گوئي كرتے تھے خود اسى سے دوچار ہوئے_لئن اتبعتم شعيباً إنكم إذا لخسرون ...الذين كذبوا شعيباً كانوا هم الخسرين

ضمير فصل سے استفادہ كيا جانے والا حصر، حصر قلب ہے يعنى يہ بيان كرتا ہے كہ كافروں كا گمان (مومنين كا خسارے ميں ہونا) باطل ہے اور وہ خود خسارے ميں ہيں _

۴_ عذاب الہى كے ذريعے ہلاكت، انسان كے خسارے ميں ہونے كا باعث ہے_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736