تفسير راہنما جلد ۶

 تفسير راہنما 8%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 736

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 736 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 195097 / ڈاؤنلوڈ: 5180
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۶

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

انجام كوبيان كرتے ہوئے پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى ديتاہے_نقص عليك

گزشتہ اقوام كى سرگزشت بيان كرنے كے سلسلہ ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو(عليك) كے ذريعہ مخاطب قرار دينے ميں مندرجہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ پايا جا سكتاہے_

۳_ قرآن مجيد ميں ، نوحعليه‌السلام ، ہودعليه‌السلام ، صالحعليه‌السلام ، لوطعليه‌السلام اور شعيبعليه‌السلام كى امتوں كى داستانيں بيان كى گئي ہے_

تلك القرى نقص عليك من انبائها

''من ا نباءھا'' ميں حرف ''من'' تبعيض كيلئے ہے اور يہ مطلب فراہم كرتاہے كہ خداوند متعال نے گزشتہ اقوام كى داستانوں كا كچھ حصّہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كيلئے بيان كيا ہے اور يہ نكتہ بھى قابل ذكر ہے كہ گزشتہ آيات كے قرينے سے ''تلك القري'' كے مشار اليہ كيلئے مورد نظر مصاديق ميں سے، نوحعليه‌السلام و غيرہ كى امتيں ہيں _

۴_ ائندہ نسلوں كو خبردار كرنے كيلئے انبياء كو جھٹلانے والوں كے بُرے انجام كو بيان كرنا، قرآن كى ہدايت، واضح كرنے كيلئے قرآن كا ايك طريقہ ہے_تلك القرى نقص عليك من ا نبائها

۵_ گزشتہ اقوام، ہدايت كرنے والے پيغمبروں كے وجود سے بہرہ مند تھيں _و لقد جاء تهم رسلهم بالبينت

۶_ گزشتہ اقوام كے انبياء، لوگوں كى ہدايت كيلئے واضح دلائل اور معجزات ركھتے تھے_و لقد جاء تهم رسلهم بالبينت

۷_ انبيائے الہى اپنى امتوں كى طرف سے معارف دين كى تكذيب كا مشاہدہ كرنے پر ان كى ہدايت كيلئے معجزات ظاہر كرتے تھے_و لقد جاء تهم رسلهم بالبينت فما كانوا ليؤمنوا بما كذبوا من قبل

مندرجہ بالا مفہوم اس پر مبتنى ہے كہ ''بما كذبوا'' ميں كلمہ ''ما'' موصول اسمى ہو، اور كلمہ ''قبل'' كا مضاف اليہ ''مجيء البينات '' ، ہو البتہ اس صورت ميں فعل ''كذبوا'' كے بعد ايك ضمير مقدر ہوگي_ بنابراين جملے كى صورت يوں بنے گي:فما كانوا ليؤمنوابالذى كذبوا به من قبل مجيء البينات

۸_ انبياء كے معجزات، معارف الہى كو جھٹلانے والے كفاركيلئے ان كے معارف پر ايمان لانے كے سلسلہ ميں غير مؤثر تھے_و لقد جاء تهم رسلهم بالبينت فما كانوا ليؤمنوا بما كذبوا من قبل

۹_ گزشتہ دور كى انبياء كو جھٹلانے والى كافراقوام، اہل ايمان اور معارف دين كى طرف راغب نہ تھيں _

فما كانوا ليؤمنوا بما كذبوا من قبل

''ما كانوا'' ميں كلمہ ''ما'' نفى كيلئے اور

۱۶۱

''ليؤمنوا'' ميں حرف ''لام'' لام جحد اور نفى كى تقويت كيلئے ہے_ لہذا جملہ ''فما كانوا'' بہت زيادہ تاكيد كے ساتھ گزشتہ اقوام كے ايمان كى طرف راغب ہونے كى نفى كرتاہے اور انہيں دين پر اعتقاد ركھنے والى اقوام نہيں جانتا_

۱۰_ خداوند متعال، انبياء كو جھٹلانے والے كفار، كے قلوب كو حقائق دين اور معارف الہى كے ادراك سے محروم ركھتاہے_كذلك يطبع الله على قلوب الكفرين

۱۱_ دلوں پر معجزات اور واضح دلائل كا اثر نہ كرنا، ان پر مہر لگنے كى علامت ہے_

فما كانوا ليؤمنو ...كذلك يطبع الله على قلوب الكفرين

ائندہ كى نسليں :ائندہ كى نسلوں كو انتباہ ۴

اقوام:گزشتہ اقوام كے انبياء ۵، ۶;گزشتہ كافر اقوام كا عقيدہ ۹

انبياء:انبياء كا معجزہ ۶، ۷، ۸;انبياء كو جھٹلانے والوں كا انجام ۲;انبياء كو جھٹلانے والوں كا عقيدہ ۹;انبياء كو جھٹلانے والوں كے دلوں پر مہر ۱۰;انبياء كى تعليمات كى تكذيب ۷;انبياء كى راہنمائی ۵، ۶، ۷; انبياء كى واضح ہدايت ۷

ايمان:ايمان كے عوامل ۸;ايمان كے موانع ۹

تاريخ:تاريخ سے عبرت حاصل كرنا ۲

دين:تعليمات دين كو قبول كرنا ۹;فہم دين سے محروميت ۱۰

شناخت:شناخت كے موانع ۱۰

قرآن:قرآن كے قصے ۳

قلب:قلب پر مہر لگنے كے اثرات ۱۰;قلب پر مہر لگنے كى علامات ،۱۱

قوم ثمود:قوم ثمود كا قصّہ ۳

قوم عاد:قوم عاد كا قصّہ ۳

قوم لوط:

۱۶۲

قوم لوط كا قصّہ ۳

قوم نوح:قوم نوح كا قصّہ ۳

كافر:كافروں كا انجام ۲;كافروں كے قلب پر مہر ۱۰

گزشتہ لوگ:گزشتہ لوگوں كا قصّہ ۱

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تسلى ۲

معجزہ:دين كو جھٹلانے والوں پر معجزے كا غير مؤثر ہونا ۸; كافروں پر معجزے كا غير مؤثر ہونا ۸; معجزہ كا مؤثر نہ ہونا ۱۱

ہدايت:روش ہدايت ۴

آیت ۱۰۲

( وَمَا وَجَدْنَا لأَكْثَرِهِم مِّنْ عَهْدٍ وَإِن وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِينَ )

ہم نے ان كى اكثريت ميں عہد و پيمان كى پاسدارى نہيں پائی اور ان كى اكثريت كو فاسق اور حدود اطاعت سے خارج ہى پايا(۱۰۲)

۱_ اكثر گذشتہ اقوام كافر تھيں اور خدا اور اس كے پيغمبروں سے كئے گئے وعدوں پر قائم نہ تھيں _

و ما وجدنا لا كثر هم من عهد

۲_ بعض گذشتہ اقوام ،انبياء كے معجزات ديكھ كر ايمان لائیں اور اپنے عہد (معجزہ ظاہر ہونے كى صورت ميں انبياء كى تصديق) كو پورا كيا_و ما وجدنا لا كثر هم من عهد

۳_ گذشتہ امتوں نے اپنے پيغمبروں كے ساتھ يہ عہد كيا

تھا كہ معجزہ ديكھنے كى صورت ميں ان كى تصديق كرتے ہوئے حقائق اور معارف الہى پر ايمان لائیں گي_

و ما وجدنا لا كثر هم من عهد

گزشتہ آيت ميں كلمہ ''قبل'' كے مضاف اليہ كے بارے ميں جو كچھ كہا گيا تھا، اس كى طرف توجہ ركھتے ہوئے يہ كہا جا سكتاہے كہ ''عہد'' سے مراد ايمان اور تصديق كا وعدہ ہے يعنى گزشتہ اقوام كے لوگ عہد كرتے تھے كہ معجزہ ديكھنے كى صورت ميں ايمان لائیں گے، ليكن ان ميں سے اكثر نے اپنا وعدہ وفا نہ كيا_

۱۶۳

۴_ اكثر گذشتہ امتيں ،فاسق اور اطاعت خدا كے داءرے سے خارج تھيں _و إن وجدنا ا كثرهم لفسقين

۵_ الہى عہد و پيمان كو وفا نہ كرنا، معصيت كا باعث ہے_و ما وجدنا لا كثرهم من عهد و إن وجدنا اكثرهم لفسقين

جملہ ''ما وجدنا'' اور جملہ ''ان وجدنا'' كے درميان، رتبى تقدم و تا خر كے اعتبار سے ارتباط كى كيفيت كے متعلق دو آراء سامنے ائی ہيں ايك يہ كہ الہى عہد كو پورا نہ كرنا فسق كا باعث بنتاہے، دوسرا يہ كہ پہلے سے موجود فسق، الہى عہد پر پورا نہ اترنے كا موجب ہے_ مندرجہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بنياد پر اخذ كيا گيا ہے_

۶_ خدا كے ساتھ باندھے گئے عہد و پيمان پر گزشتہ اقوام كے قائم نہ رہنے كا اصلى سبب، ان كا فسق و فجور تھا_

و ما وجدنا لا كثرهم من عهد و إن وجدنا ا كثرهم لفسقين

مندرجہ بالا مفہوم اس احتمال كى بنياد پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب جملہ ''إن وجدنا ...'' گزشتہ اقوام كى طرف سے انبياء كے ساتھ ان كے عہد و پيمان كى خلاف ورزى كے سبب كو بيان كرتاہو_

۷_ كفّار، الہى عہد و پيمان سے لاپرواہى برتنے والے فاسق لوگ تھے_و ما وجدنا لا كثرهم من عهد و إن وجدنا ا كثرهم لفسقين

۸_عن العبد الصالح عليه‌السلام إنه كتب إذا جاء اليقين لم يجز الشك و كتب: إن الله عزوجل يقول: ''و ما وجدنا لا كثرهم من عهد و إن وجدنا ا كثرهم لفاسقين''، قال: نزلت فى الشاك _(۱)

امام موسى كاظمعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے (ايك سوال كے جواب ميں ) لكھا: جب يقين آجائیے تو پھر شك جائز نہيں اور لكھا: كہ خدائے عزوجل فرماتاہے كہ ''ہم نے تو ان ميں سے اكثر كو عہد پر نہيں پايا اور ان ميں سے اكثر كو بدكار پايا'' چنانچہ فرمايا كہ يہ آيت (شاك) شك كرنے والے كے بارے ميں نازل ہوئي ہے_ (۱) ظاہراً امامعليه‌السلام كى مراد يہ ہے كہ اگر كسى نے حق كو يقين كے ساتھ پہچان ليا اور پھر خواہشات نفس كى وجہ سے اس ميں شك كيا تو اس صورت ميں مندرجہ بالا آيت كا مصداق قرار پائے گا اور عہد شكن اور فاسق شمار كيا جائیے گا_

اقوام:گزشتہ اقوام كا عہد ۳;گزشتہ اقوام كى اقليت ۲; گزشتہ اقوام كى اكثريت ;گزشتہ اقوام كى بدكارى ۶;گزشتہ اقوام كى نافرمانى ۶;گزشتہ اقوام كى عہد شكنى ۶;گزشتہ اقوام كے بدكار لوگ ۴

____________________

۱)كافى ج/۲ ص ۳۹۹ ح ۱، نور الثقلين ج/۲ ص ۵۳ ح ۲۰۷_

۱۶۴

الله تعالى :اللہ تعالى كى نافرمانى ۴;اللہ تعالى كے ساتھ عہدشكنى ۱، ۵، ۶، ۷

انبياء:انبياء كے ساتھ عہد ۳;انبياء كے ساتھ عہد شكنى ۱

ايمان:انبياء پر ايمان ۲، ۳;ايمان كے عوامل ۲، ۳

دين:تعليمات دين كو قبول كرنا ۳

عہد:عہد كو پورا كرنا ۲عہد شكن: ۱، ۷

عہد شكني:عہد شكنى كے اثرات ۵;عہد شكنى كے عوامل ۶

فاسقين: ۷

فسق:فسق كے نتائج ۶;فسق كے اسباب ۵

كافر:كافروں كى عہد شكنى ۷;كافروں كى بدكارى ۷

گناہ:گناہ كے موارد ۵

معجزہ:معجزے كا كردار ۲، ۳

نافرماني:نافرمانى كے اثرات ۶

آیت ۱۰۳

( ثُمَّ بَعَثْنَا مِن بَعْدِهِم مُّوسَى بِآيَاتِنَا إِلَى فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَظَلَمُواْ بِهَا فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ )

پھر ان سب كے بعد ہم نے موسى كو اپنى نشانياں دے كر فرعوں اور اس كى قوم كى طرف بھيجا تو ان لوگوں نے بھى ظم كيا تو اب ديكھو كہ فساد كرنے والوں كا انجام كيا ہوتا ہے(۱۰۳)

۱_ خداوند متعال نے نوحعليه‌السلام ، ہودعليه‌السلام ، صالحعليه‌السلام ، لوطعليه‌السلام اور شعيبعليه‌السلام كے بعد موسيعليه‌السلام كو نبوت عطا كر كے مبعوث كيا_ثم بعثنا من بعد هم موسى

''من بعدھم'' كى ضمير سے مراد وہ انبياء ہيں كہ جن كى داستانيں گزشتہ آيات ميں بيان كى جا چكى ہے_

۲_ حضرت موسيعليه‌السلام اور ان سے پہلے كے انبياء (نوحعليه‌السلام وغيرہ) كى بعثت كے درميان ايك طولانى مدت كا فاصلہ تھا_

ثم بعثنا من بعدهم موسى

۱۶۵

كلمہ ''ثم'' اس مطلب پر دلالت كرتاہے كہ پہلے انبياء كى بعثت كى نسبت موسيعليه‌السلام كى بعثت ايك طويل مدت كے بعد متحقق ہوئي_

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام اپنى رسالت كى حقانيت پر بہت زيادہ دلائل سے بہرہ مند تھے_

ثم بعثنا من بعدهم موسى بايا تناكلمہ ''آيات'' علامات اور نشانيوں كے معنى ميں استعمال ہوتاہے، چنانچہ فعل ''بعثنا'' كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ موسى عليه‌السلام كى بعثت كى سچى نشانياں اس كلمہ (آيات) كے مصاديق ميں سے شمار ہوں گي _

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام كے واضح دلائل اور معجزات ان كيلئے خدا كى جانب سے ايك عطيہ تھے_

ثم بعثنا من بعدهم موسى بأياتنا

كلمہ ''آياتنا'' ميں ضمير ''نا'' اس مطلب كو بيان كرتى ہے كہ نبوت كى نشانياں ، موسىعليه‌السلام كو خدا كى جانب سے عطا ہوئي تھيں يعني: آيات منّا_

۵_ حضرت موسىعليه‌السلام اپنے زمانے كے فرعون اور اس كے درباريوں كى ہدايت اور راہنمائی كيلئے خدا كى طرف سے مبعوث ہونے والے پيغمبر تھے_إلى فرعون و ملايه

كلمہ ''فرعون'' گزشتہ دور ميں مصر كے بادشاہوں اور حاكموں كا لقب ہوا كرتا تھا_

۶_ فرعونى نظام كے اصلى اركان (فرعون اور اس كے كارندوں ) كى ہدايت اور راہنمائی ، حضرت موسىعليه‌السلام كى پہلى اور اہم ذمہ دارى تھي_إلى فرعون و ملإيه

۷_ غير الہى نظاموں كے اہم لوگوں تك رسالت الہى كا ابلاغ، مبلغين دين كى ايك ذمہ دارى ہے_إلى فرعون و ملإيه

۸_ فرعون اور اس كے دربار كے نماياں افراد نے حضرت موسىعليه‌السلام كى طرف سے پيش كى گئي آيات (معجزات) كو جھٹلا ديا_بايا تنا إلى فرعون و ملإيه فظلموا بها

''بھا'' كى ضمير كلمہ ''آياتنا'' كى طرف پلٹتى ہے اور چونكہ كلمہ ''ظلم'' حرف ''باء'' كے ذريعے متعدى ہوا ہے (ظلموا بھا) لہذا تكذيب كے معنى كو متضمن ہے_

۹_ آيات الہى سے بے اعتنائی اور ان كى تكذيب، ظلم ہے_فظلموا بها

۱۶۶

۱۰_ فرعون اور اس كے درباركے سركردہ افراد، ايك برے انجام سے دوچار ہوئے_فانظر كيف كان عقبة المفسدين

۱۱_ فرعون اور اس كے درباركے سركردہ افراد، فسادى لوگ تھے_إلى فرعون و ملإيه ...فانظر كيف كان عقبة المفسدين

۱۲_ فساد كرنے والے لوگ ايك بُرے انجام ميں مبتلا ہونے كے خطرے سے دوچار ہوتے ہيں _

فانظر كيف كان عقبة المفسدين

۱۳_ رسالت انبياء اور آيات الہى كو جھٹلانے والوں اور فساد كرنے والوں كے برے انجام كے گہرے مطالعہ كى ضرورت ہے_فظلمو بها فانظر كيف كان عقبة المفسدين

۱۴_ آيات الہى كو جھٹلانے والے اور رسالت انبياء كا انكار كرنے والے لوگ ،فسادى ہيں اور ايك برا انجام ان كے انتظار ميں ہے_فظلمو بها فانظر كيف كان عقبة المفسدين

فرعون اور اس كے دربار كے سركردہ افراد كيلئے ''مفسدين'' جيسے عنوان كا استعمال اس لحاظ سے ہوسكتاہے كہ انہوں نے آيات الہى كى تكذيب كى اور حضرت موسيعليه‌السلام كى رسالت كو قبول نہ كيا چنانچہ اس عنوان كا استعمال ان كى طرف سے كى جانےوالى آيات الہى اور رسالت كى تكذيب كے اصلى سبب كو بيان كرنے كيلئے بھى ہوسكتاہے، مندرجہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بنياد پر ليا گيا ہے_

۱۵_ فرعون اور اس كے درباريوں كا جرائم و فسادسے آلودہ ہونے كے نتيجے ميں رسالت موسىعليه‌السلام كو قبول كرنے سے انكار كرنا_فظلموا بها فانظر كيف كان عقبة المفسدين

فوق الذكر مفہوم اس بنياد پر حاصل ہوا ہے كہ جب فرعونيوں كيلئے عنوان ''مفسدين'' كا استعمال،تكذيب كے سبب كى طرف اشارہ ہو، يعني: چونكہ وہ لوگ مفسد تھے لہذا انہوں نے رسالت موسى كا انكار كيا اور آيات الہى كو جھٹلايا_

۱۶_ فساد كرنے والوں كيلئے آيات الہى كى تكذيب اور رسالت انبياء كے انكار كا راستہ ہميشہ ہموار رہتاہے_

فظلموا بها فانظر كيف كان عقبة المفسدين

۱۷_ مختلف امور كا انجام ہى ان كى قدر و قيمت كو معين كرتاہے _فانظر كيف كان عقبة المفسدين

آيات خدا:آيات خدا كو جھٹلانے والوں كا انجام ۱۳، ۱۴; آيات خدا كو جھٹلانے والوں كا فساد ۱۴;آيات خدا كو جھٹلانے والے ۱۶;آيات خدا كى تكذيب ۸، ۹

۱۶۷

امور:امور كا انجام ۱۷

انبياء:انبياء كو جھٹلانے والوں كا انجام ۱۳، ۱۴;انبياء كو جھٹلانے والوں كا فساد ۱۴;انبياء كو جھٹلانے والے ۱۶

انجام:برا انجام ۱۳، ۱۴

جانچ پڑتال:جانچ پڑتال كا معيار ۱۷

حاكم:گمراہ حاكموں كى ہدايت ۷

دين:مبلغين دين كى مسؤوليت ۷

شعيبعليه‌السلام :شعيبعليه‌السلام كى نبوت ۱

صالحعليه‌السلام :صالحعليه‌السلام كى نبوت ۱

فرعون:فرعون اور آيات خدا ۸;فرعون اور موسىعليه‌السلام ۸; فرعون اور موسىعليه‌السلام كا معجزہ ۸;فرعون كا انجام ۱۰; فرعون كا فساد ،۱۱;فرعون كا قصّہ ۵، ۸، ۱۰، ۱۱; فرعون كى آلودگى ۱۵;فرعون كى سرپيچى ۱۵; فرعون كى ہدايت ۵، ۶

فرعوني:فرعونى اور موسى ۸; فرعونيوں كا انجام ۱۰; فرعونيوں كى ہدايت ۵، ۶

فساد:فساد كے آثار ۱۵

فساد پھيلانا:فساد پھيلانے كے اثرات ۱۶

قدر و قيمت:قدر و قيمت كا معيار ۱۷

لوطعليه‌السلام :لوطعليه‌السلام كى نبوت

مفسدين: ۱۱، ۱۴مفسدين كا انجام ۱۲; مفسدين كا باطن ۱۶; مفسدين كو انتباہ ۱۲

موسيعليه‌السلام :رسالت موسىعليه‌السلام كے اہداف ۵، ۶;موسىعليه‌السلام اور آل فرعون ۵، ۶;موسىعليه‌السلام اور فرعون ۵، ۶;موسيعليه‌السلام سے سرپيچى ۱۵; موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۸; موسى كا معجزہ ۴;موسىعليه‌السلام كو جھٹلانے كے عوامل ۱۵;موسىعليه‌السلام كى اہم ذمہ داري۶; موسىعليه‌السلام كى حقانيت كے دلائل ۳;موسىعليه‌السلام كى راہنمائی ۵، ۶;موسىعليه‌السلام كى نبوت ۵;موسىعليه‌السلام كى نبوت كا زمانہ ،۱;موسىعليه‌السلام كے معجزے كى تكذيب ۸

۱۶۸

نوحعليه‌السلام :نوحعليه‌السلام سے موسىعليه‌السلام تك كا زمانہ ۲;نوحعليه‌السلام كى نبوت ،۱

ہودعليه‌السلام :ہودعليه‌السلام كى نبوت ۱

آیت ۱۰۴

( وَقَالَ مُوسَى يَا فِرْعَوْنُ إِنِّي رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ )

اور موسى نے فرعون سے كہا كہ ميں رب العالمين كى طرف سے فرستادہ پيغمبر ہوں (۱۰۴)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے نبوت پر مبعوث ہونے كے بعد فرعون كے سامنے گفتگو كرتے ہوئے اپنى الہى رسالت كا اعلان كيا_و قال موسى يا فرعون إنى رسول من رب العلمين

جملہ ''و قال ...'' كے شروع ميں موجود كلمہ ''واو'' اس مطلب كو ظاہر كرتاہے كہ رسالت كے اعلان سے پہلے حضرت موسىعليه‌السلام اور فرعون كے درميان كچھ گفتگو ہوئي كہ جسے موضوع بحث كے ساتھ مربوط نہ ہونے كى وجہ سے ذكر نہيں كيا گيا_

۲_ انبياء كى رسالت، كائنات پر خدا كى ربوبيت اور اس كى تدبير كے سلسلے ہى كى ايك كڑى ہے_

إنى رسول من رب العلمين

حضرت موسىعليه‌السلام كا خداوند متعال كى اپنى رسالت كے منشاء كے عنوان سے وصف ''رب العلمين'' كے ساتھ توصيف كرنا، اس نكتے كى طرف اشارہ كرتاہے كہ ان كى رسالت جہان ہستى پر خدا كى ربوبيت كے ساتھ ہى مربوط ہے يعنى رسالت انبياء ،تدبير عالم كے ساتھ وابستہ ہے_

۳_ نظام ہستي، متعدد عوالم سے تشكيل پاياہے_رب العلمين

۴_ خداوند متعال، پورى كائنات كا مالك اور مدبّر ہے_رب العلمين

آفرينش:تدبير آفرينش ۲;عوالم آفرينش ۳، ۴ ; مالك آفرينش ۴

الله تعالى :اللہ تعالى كى ربوبيت ،۲،۴

۱۶۹

انبياء:رسالت انبياء ۲

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور فرعون ،۱;موسىعليه‌السلام كا قصّہ۱;موسىعليه‌السلام كى نبوت ،۱

آیت ۱۰۵

( حَقِيقٌ عَلَى أَن لاَّ أَقُولَ عَلَى اللّهِ إِلاَّ الْحَقَّ قَدْ جِئْتُكُم بِبَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَائِيلَ )

ميرے لئے لازم ہے كہ ميں خدا كے بارے ميں حق كے علاوہ كچھ نہ كہوں ں ميں تيرے پاس تيرے رب كى طرف سے معجزہ لے كر آيا ہوں لہذا بنى اسرائیل كو ميرے ساتھ بھيج دے(۱۰۵)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے فرعون كے سامنے اپنے آپ كو خدا پر ہر طرح كا افتراء باندھنے سے مبّرا قرار ديا_

حقيق على ا ن لا ا قول على الله إلا الحق

۲_ انبيائے الہي، خدا كے بارے ميں راست گوئي كے مشتاق تھے_حقيق على ا ن لا ا قول على الله إلا الحق

اعلان رسالت كے بعد اس حقيقت كو بيان كرنا كہ موسىعليه‌السلام حق كے علاوہ خدا كى طرف كسى بات كى نسبت نہيں ديتے، اس مطلب كى وضاحت كرتاہے كہ خدا كے بارے ميں حق گوئي، رسالت كا تقاضا ہے، لہذا تمام انبيائے الہى اس خصوصيت كے حامل تھے، يہ نكتہ بھى قابل ذكر ہے كہ كلمہ ''حقيق'' سزاوار كے معنى ميں ہے اور چونكہ ''علي'' كے ذريعے متعدى ہوا ہے لہذا ''حريص'' كے معنى كو متضمن ہے، يعني: إنى حريص على كذا حقيقاً بہ_

۳_ خدا كے بارے ميں انبيائے الہى كى باتيں اور جو كچھ اس كى طرف نسبت ديتے ہيں ، سراسر حق و حقيقت ہے_

حقيق على ا ن لا ا قول على الله إلا الحق

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام اور دوسرے تمام انبيائے الہى ، رسالت الہى كو ابلاغ كرنے كے سلسلہ ميں عصمت سے بہرہ مند ہوتے ہيں _حقيق على ا ن لا ا قول على الله إلا الحق

۵_ حضرت موسىعليه‌السلام اپنى الہى رسالت كے اثبات كيلئے ايك واضح دليل سے بہرہ مند تھے_قد جئتكم ببينة من ربكم

كلمہ ''ببينة'' ميں حرف ''باء'' مصاحبت كے معنى ميں ہے بنابراين جملہ ''قد جئتكم ببينة'' يعنى ميں ايك واضح دليل كے ساتھ تمھارے پاس آيا ہوں _

۱۷۰

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كے دلائل اور معجزات، خدا كے مقام ربوبى كے ساتھ مربوط اور فرعونيوں كے مقابلے ميں ايك نعمت الہى تھے_قد جئتكم ببينة من ربكم

۷_ فرعون اور اس كے درباري، موسىعليه‌السلام كے دعوى كى حقانيت پر ان كى طرف سے كوئي معجزہ پيش كئے جانے كى توقع ركھتے تھے_قد جئتكم ببينة من ربكم

فوق الذكر مفہوم اس بنياد پر ليا گيا ہے كہ جملہ ''قد جئتكم'' ميں كلمہ ''قد'' توقع كيلئے ہو_

۸_ فرعون كے ساتھ گفتگو كے دوران، پورى كائنات نيز فرعون اور اس كے درباريوں پر خدا كى ربوبيت كے بارے ميں حضرت موسيعليه‌السلام كى تاكيد_إنى رسول من رب العلمين ...قد جئتكم ببينة من ربكم

۹_ حضرت موسىعليه‌السلام نے بنى اسرائیل كى نجات كے سلسلہ ميں فرعون سے كہا كہ وہ انہيں آپ كے ساتھ ہجرت كرنے سے نہ روكے_فا رسل معى بنى اسرائيل

۱۰_ بنى اسرائیل كو فاسد فرعونى نظام سے نجات دلانا، حضرت موسىعليه‌السلام كے الہى فرائض ميں سے تھا_

فا رسل معى بنى اسرائيل

۱۱_ حضرت موسىعليه‌السلام رسالت كے علاوہ خدا كى طرف سے بنى اسرائیل كى قيادت پر بھى مامور تھے_

إنى رسول من رب العلمين ...فا رسل معى بنى اسرائيل

۱۲_ حضرت موسى كے زمانے كے بنى اسرائی ل، ايك فاسد فرعونى نظام كے زير تسلط تھے_فا رسل معى بنى اسرائيل

۱۳_ غير توحيدى اور فاسد نظاموں كے چنگل سے لوگوں كو نجات دلانے كا عمل، الہى اقدار ميں شمار ہوتاہے_

فارسل معى بنى اسرائيل

ابلاغ رسالت:ابلاغ رسالت ميں عصمت ۴

اقدار: ۱۳

الله تعالى :اللہ تعالى پر افتراء باندھنا،۱ ; اللہ تعالى كا منزّا ہونا،۱ ; اللہ تعالى كى ربوبيت ۶، ۸;اللہ تعالى كے عطايا ۶

انبياء:

۱۷۱

انبياء كى باتوں كى سچائی ۳;انبياء كى حق گوئي ۲; انبياء كى صداقت ۲;انبياء كى عصمت ۴;انبياء كے فضائل ۲

انسان:انسانوں كى نجات كى قدر و منزلت ۱۳

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى نجات، ۹، ۱۰ ;بنى اسرائیل كى ہجرت ۹;بنى اسرائیل كے قائد، ۱۱;موسى كے زمانے كے بنى اسرائیل ۱۲

حكومت:فاسد حكومت سے نجات ۱۳

فرعون:فرعون اور موسى ۲ ۷;فرعون كى توقعات ۷;فرعون

كى حكومت كا فساد ۱۰، ۱۲

فرعوني:فرعونيوں اور موسىعليه‌السلام ۷; فرعونيوں كى توقعات ۷

مفسدين:مفسدين سے نجات ۱۳

موسىعليه‌السلام :رسالت موسىعليه‌السلام ۱۱;فرعون سے موسىعليه‌السلام كے تقاضے ۹; موسىعليه‌السلام اور آل فرعون ۶;موسىعليه‌السلام اور فرعون ۱، ۸، ۹; موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۹، ۱۰; موسىعليه‌السلام كا معجزہ ۶، ۷; موسىعليه‌السلام كا منزّا ہونا ،۱; موسىعليه‌السلام كى حقانيت كے دلائل ۵; موسىعليه‌السلام كى عصمت ۴;موسىعليه‌السلام كى قيادت ۱۱;موسىعليه‌السلام كى مسؤوليت ۱۰; موسىعليه‌السلام كى مسؤوليت كا داءرہ ۱۱; نبوت موسىعليه‌السلام كے دلائل ۵

آیت ۱۰۶

( قَالَ إِن كُنتَ جِئْتَ بِآيَةٍ فَأْتِ بِهَا إِن كُنتَ مِنَ الصَّادِقِينَ )

اس نے كہا كہ اگر تم معجزہ لائے ہو اور اپنى بات ميں سچّے ہو تو وہ معجزہ پيش كرو(۱۰۶)

۱_ فرعون كو رسالت كے دعوى ميں موسىعليه‌السلام كى صداقت اور خدا كى طرف سے ان كے پاس كسى معجزہ اور آيت كے وجود كے بارے ميں يقين نہ تھا_قال إن كنت جئت باية فا ت بها إن كنت من الصدقين

كلمہ ''الصدقين'' كا متعلق اصل رسالت اور ''بينة'' كا موجود ہونا ہے يعني: إن كنت من

۱۷۲

الصادقين فى دعوى الرسالة و دعوى البينة _

۲_ فرعون نے حضرت موسىعليه‌السلام سے كہا كہ اگر معجزہ پيش كرنے پر قادر ہو تو پيش كرو_

قال إن كنت جئت باية فا ت بها

واضح ہے كہ شرطيہ جملات ميں شرط اور جزاء كو مفہوم كے اعتبار سے ايك جيسا نہيں ہونا چاہيے لہذا نہيں كہا جا سكتاكہ: اگر لائے ہو تو لاؤ: بنابراين جملہ ''إن كنت جئت بايہ'' (اگر معجزہ لائے ہو) كا معنى يوں صحيح ہوگا كہ كہا جائیے: اگر معجزہ پيش كرنے پر قادر ہو_

۳_ معجزہ، رسالت كے دعوى ميں انبياء كى صداقت كى دليل ہے_إن كنت جئت باية فا ت بها إن كنت منالصدقين

انبياء:انبياء كا معجزہ ۳;انبياء كى حقانيت كے دلائل ۳

فرعون:فرعون اور موسىعليه‌السلام ۲;فرعون كا عقيدہ ،۱;فرعون كے تقاضے۲

معجزہ:معجزہ كے آثار ۳

موسىعليه‌السلام :موسيعليه‌السلام اور فرعون ۱;موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۲;موسىعليه‌السلام كا معجزہ ۱، ۲;موسىعليه‌السلام كى صداقت ،۱

آیت ۱۰۷

( فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ )

موسى نے اپنا عصا پھينك ديا اور وہ اچھا خاصا سانپ بن گيا (۱۰۷)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے فرعون كى طرف سے (معجزے كا مطالبہ كرنے پر جواب ميں ) اپنا عصا زمين پر ڈال ديا_

فا لقى عصاه

۲_ حضرت موسىعليه‌السلام كا عصافرعون كے سامنے ايك بہت بڑا ادہا بن گيا_فالقى عصاه فَإذا هى ثعبان مبين

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام كے عصا كا ايك بڑے ادہا ميں

۱۷۳

تبديل ہوجانا، فرعونيوں كى توقع كے خلاف تھا_فا لقى عصاه فَإذاهى ثعبان مبين

جملہ ''فَإذاهي ...'' ميں كلمہ ''إذا'' مفاجات كيلئے ہے اور دو معنوں كو بيان كرتاہے، ايك يہ كہ قبل اور بعد والے جملے كے مفہوم ميں اقتران زمانى پايا جاتاہے، دوسرا يہ كہ اس كے بعد والے جملہ كا مفہوم ايك غير متوقع حالت ميں انجام پايا ہے_

۴_ عصائے موسى كے زمين پر ڈالے جانے اور اس كے ايك ادہا ميں تبديل ہونے كے درميان وقت كا فاصلہ نہ تھا_

فا لقى عصاه فإذاهى ثعبان مبين

۵_ عصائے موسى سے تبديل ہونے والا ادہا، ايك حقيقى ادہا تھا_فَإذاهى ثعبان مبين

كلمہ ''ثعبان'' كا كلمہ ''مبين'' (واضح اور آشكار) كے ذريعے وصف بيان كرنے ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ وہ ادہا ،وہمى اور خيالى نہ تھا بلكہ حقيقى تھا اور اس كى حركات و سكنات كچھ اس طرح كى تھيں كہ اس كے ادہا ہونے ميں كسى شخص كيلئے شك باقى نہ رہا_

۶_عن ابى الحسن الرضا عليه‌السلام : إن الله تبارك و تعالى لما بعث موسي عليه‌السلام كان الا غلب على ا هل عصره السحر فا تهم من عند الله عزوجل بما لم يكن عند القوم و فى وسعهم مثله و بما ا بطل سحرهم و ا ثبت به الحجة عليهم (۱)

حضرت امام رضاعليه‌السلام سے مروى ہے كہ: جب خدائے تبارك و تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كو مبعوث كيا اس وقت كے لوگوں ميں سحر و جادو كا بہت رواج تھا موسىعليه‌السلام نے خدا كى طرف سے ايسا معجزہ پيش كيا كہ جو لوگوں كے پاس نہ تھا اور وہ اس كو انجام دينے پر قادر نہ تھے يوں اس معجزہ كے ذريعے ان كے سحر كو باطل كيا اور ان پر حجت كو تمام كيا_

عصا:عصا كا ادہا ميں تبديل ہوجانا ۲، ۳، ۴، ۵

فرعون:فرعون كے تقاضے ،۱

فرعوني:فرعونى اور عصائے موسىعليه‌السلام ۳

معجزہ:معجزہ كى درخواست ،۱

موسىعليه‌السلام :عصائے موسىعليه‌السلام ۱، ۲، ۴، ۵;موسىعليه‌السلام اور فرعون ۲، ۱;موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۴ ;موسىعليه‌السلام كا معجزہ ۱، ۲، ۳، ۵;موسىعليه‌السلام كے معجزے كى خصوصيت ۴

۱)عيون اخبار الرضا ج/۲ ص ۸۰ ح ۱۲ ب ۳۲، نور الثقلين ج/۲ ص ۵۵ ح ۲۱۲ ۳_

۱۷۴

آیت ۱۰۸

( وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاء لِلنَّاظِرِينَ )

اورپھر اپنے ہاتھ كو نكالا تو وہ ديكھنے والوں كے لئے انتہائی روشن اور چمكدار تھا(۱۰۸)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے فرعون كے مطالبے (معجزہ لانے) كے سلسلہ ميں اپنى رسالت كى دوسرى نشانى ظاہر كي_

إن كنت جئت باية فات بها ...نزع يده فإذا هى بيضاء للنظرين

۲_ حضرت موسىعليه‌السلام كے ہاتھ كا باہر نكالنے پر روشن اور چمكدار ہوجانا انعليه‌السلام كى رسالت كى حقانيت كيلئے دوسرا معجزہ تھا_و نزع يده فإذاهى بيضاء للنظرين

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام كے ہاتھ كا سفيد ہوجانا ،تمام ناظرين كيلئے قابل رؤيت مگر غير متوقع اور غير عادى منظر تھا_

فإذا هى بيضاء للنظرين

غير عادى امور: ۳

فرعون:فرعون كے تقاضے،۱

معجزہ:معجزہ كا تقاضا، ۱

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور فرعون ۱;موسىعليه‌السلام كا قصہ ۱، ۳;موسىعليه‌السلام كا معجزہ ۱، ۲; موسى كا يد بيضا ۲، ۳;موسىعليه‌السلام كى حقانيت كے دلائل ۲; موسى كے معجزے كى خصوصيت ۳

۱۷۵

آیت ۱۰۹

( قَالَ الْمَلأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ إِنَّ هَـذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ )

فرعوں كى قوم كے رؤسا نے كہا كہ يہ تو سمجھدار جادوگر ہے(۱۰۹)

۱_ فرعون كى قوم كے سرداروں نے موسىعليه‌السلام كے معجزات ديكھنے كے بعد ان كا مقابلہ كرنے كيلئے آپس ميں صلاح و مشورہ كيا_قال الملا من قوم فرعون

گزشتہ آيات ميں فرعون كے ساتھ حضرت موسىعليه‌السلام كى گفتگو كا تذكرہ تھا جبكہ اس آيت كريمہ ميں فرعون كے درباريوں كا ردّ عمل بيان ہوا ہے_ سياق كى اس تبديلى اور بعد والى آيت كے جملے ''فماذا تا مرون'' (تم لوگ كيا صلاح ديتے ہو) كو مد نظر ركھنے سے، يہ مطلب حاصل ہوتاہے كہ انہوں نے حضرت موسىعليه‌السلام كے مقابلے كيلئے باہم صلاح و مشورہ كيا_

۲_ فرعون كے درباركے سركردہ افراد نے حضرت موسىعليه‌السلام كے ساحر اور ان كے معجزات كے سحر ہونے كے مبنا پر اپنے مشاورتى اجلاس كا آغاز كيا_قال الملاُمن قوم فرعون ان هذا لسحر عليم

ممكن ہے كہ جملہ ''إن ھذا ...'' درباريوں كي آپس ميں بحث و گفتگو كے نتائج ميں سے ہو، يعنى سب سے پہلے يہ مسئلہ زير بحث لايا گيا كہ حضرت موسىعليه‌السلام كے معجزات كس قسم كے ہيں ، چنانچہ اس مطلب كو بيان كرنے كيلئے بھى ہوسكتاہے كہ انہوں نے حضرت موسىعليه‌السلام كو ايك جادوگر فرض كرتے ہوئے ان كے ساتھ مقابلہ كے طريقہ كار كے بارے ميں بحث كي، مندرجہ بالا مفہوم اسى دوسرے احتمال كى بنياد پر اخذ كيا گيا ہے_

۳_ فرعون كى قوم كے سردار مشاورتى اجلاس ميں تبادلہ خيالات كے بعد ،اس نتيجہ تك پہنچے كہ بلا شك موسىعليه‌السلام ايك ماہر جادوگر اور ان كے معجزات جادو ہيں _قال الملا من قوم فرعون إن هذا لسحر عليم

فوق الذكر مفہوم جملہ ''إن ھذا ...'' كے بارے ميں گزشتہ مطلب كى توضيح كے ذيل ميں بيان كيے گئے پہلے احتمال كى بنياد پر اخذ كيا گيا ہے_

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام كے معجزات، فرعون كى قوم كے

۱۷۶

سرداروں كى نظر ميں باعظمت، غير عادى اور حيرت انگيز امور تھے_إن هذا لَسَاحرٌ عليم

حضرت موسىعليه‌السلام كا كلمہ ''عليم'' (بہت دانا) كے ذريعے وصف بيان كيا جانا اور جملہ ''إنَّ ھذا ...'' كو بہت زيادہ تاكيد كے ساتھ لانا (يعنى جملہ اسميہ كا استعمال دو حروف تاكيد ''إنَّ'' اور ''لام''كے ساتھ اس مطلب كو روشن كرتاہے كہ سب لوگ حضرت موسىعليه‌السلام كے كام كى عظمت كو سمجھتے ہوئے اس كے معترف تھے_

۵_ فرعون كى قوم كے سردار، فرعونى نظام كو برقرار ركھنے كى كوشش ميں تھے_قال الملا ئ ...إن هذا لسحر عليم

غير عادى امور: ۴

فرعون:فرعون كے كارندوں كا باہمى صلاح و مشورہ ۳

فرعوني:فرعونى اور حكومت كى حفاظت،۵; فرعونى اور موسى كا معجزہ،۲; فرعونيوں كى شورا،۱،۲; فرعونيوں كى كوشش،۵

قوم فرعون:قوم فرعون كے سردار، ۱، ۲، ۴، ۵

معجزہ:معجزہ اور جادو ۲، ۳

موسى ۴:موسىعليه‌السلام پر جادوگرى كى تہمت ۲، ۳ ;موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴;موسىعليه‌السلام كے ساتھ مبارزہ ۱;موسىعليه‌السلام كے معجزے كى عظمت ۴

آیت ۱۱۰

( يُرِيدُ أَن يُخْرِجَكُم مِّنْ أَرْضِكُمْ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ )

جو تم لوگوں كو تمھارى سرزمين سے نكالنا چاہتا ہے اب تم لوگوں كا كيا خيال ہے(۱۱۰)

۱_ (بنى اسرائیل كى رہائی ) كيلئے حضرت موسىعليه‌السلام كى تجويز كے بارے ميں فرعونيوں كا تجزيہ ، يہ تھا كہ موسىعليه‌السلام فرعونى نظام كو نابود كرنے لئے بنى اسرائیل كو طاقتور بناناچاہتے ہيں _فا رسل معى بنى إسرائيل ...يريد ا ن يخرجكم من ا رضكم

۲_ فرعون اور اس كے دربارى ان كے حكومتى نظام كو ختم

۱۷۷

كرنے كے بارے ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى قوت سے آگاہ تھے_يريد ا ن يخرجكم من ا رضكم

مصر كى حكومت كے سربراہوں كا حضرت موسىعليه‌السلام (كہ جو ان كى حكومت كا تختہ الٹنے كے درپے تھے) كا مقابلہ كرنے كے طريقہ كار كے بارے ميں تحقيق كرنے كيلئے مشاورتى اجلاس تشكيل دينا، اس مطلب كو ظاہر كرتاہے كہ وہ لوگ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوت سے آگاہ اور سخت خوفزدہ تھے_

۳_ فرعون اور اس كے درباري، حضرت موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائیل كے قوت پكڑنے اور اپنى حكومت اور سرزمين كے ہاتھ سے جانے سے بہت خوفزدہ تھے_يريد ا ن يخرجكم من ا رضكم

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام كى تكذيب اور ان كے خلاف محاذ قائم كرنے كا ايك سبب، حكومت اور وطن سے فرعونيوں كا شديد لگاؤ تھا_يريد ا ن يخرجكم من ا رضكم

۵_ حضرت موسىعليه‌السلام كو جادوگر قرار دينے اور ان كے مقاصد (فرعونى حكومت كا خاتمہ) كا تجزيہ كرنے كے بعد ان كے ساتھ مقابلے كے طريقہ كار كا انتخاب، فرعون كے درباريوں كے مشاورتى اجلاس ميں زير بحث لائے جانے والے مسائل ميں سے تھا_فماذا تامرون

۶_ فرعون، امور مملكت كا نظام چلانے كے بارے ميں دوسروں كے ساتھ صلاح و مشورہ سے گريز نہيں كرتا تھا_

يريد ا ن يخرجكم من ا رضكم فماذا تا مرون

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى قوت ۳;بنى اسرائیل كى نجات ۱

حكومت:حكومت كے ساتھ لگاؤ كے آثار ۴فرعون:فرعون اور موسىعليه‌السلام ۲;فرعون كا سياسى نظام ۶;فرعون كى حكومت ميں مشورت ۶;فرعون كے كارندوں كى شورى ۵

فرعوني:آل فرعون اور موسىعليه‌السلام ۲;آل فرعون كا تجزيہ ۵; آل فرعون كا خوف ۳;آل فرعون كا لگاؤ ۴; آل فرعون كى تہمتيں ۵; آل فرعون كے مبارزے كا طريقہ كار ۵;موسىعليه‌السلام پر جادوگرى كى تہمت ۵;موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۳، ۵; موسىعليه‌السلام كى تكذيب كے اسباب ۴; موسىعليه‌السلام كى قوت ۲، ۳;موسىعليه‌السلام كے ساتھ مبارزہ ۵; موسىعليه‌السلام كے ساتھ مبارزہ كے اسباب ۴

وطن پرستي:وطن پرستى كے اثرات ۴

۱۷۸

آیت ۱۱۱

( قَالُواْ أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَأَرْسِلْ فِي الْمَدَآئِنِ حَاشِرِينَ )

لوگوں نے كہا كہ ان كو اور ان كے بھائی كو روك ليجئے اور مختلف شہروں ميں جمع كرنے والوں كو بھيجئے(۱۱۱)

۱_ فرعونى حكومت كے سربراہوں كے مشاورتى اجلاس ميں پيش كى جانے والى تجاويز ميں سے ايك يہ تھى كہ حضرت موسىعليه‌السلام اور ان كے بھائی ہارونعليه‌السلام كو سزا دى جائیے_قالو ا رجه و ا خاه

حضرت موسىعليه‌السلام اور ہارونعليه‌السلام كو سزا دينے ميں تاخير كى تجويز اس مطلب كو ظاہر كرتى ہے كہ فرعون يا اس كے بعض درباريوں نے موسىعليه‌السلام اور ہارونعليه‌السلام كو سزا دينے كى تجويز پيش كى تھي_

۲_ حضرت موسىعليه‌السلام اور ان كے بھائی ہارونعليه‌السلام كى سزا ميں تاخير فرعون كے درباريوں كے مشاورتى اجلاس ميں طے پائی تھي_قالو ا رجه و ا خاه

''ا رجہ'' كى ضمير ''ہ'' بصورت ساكن قرات كى گئي ہے اور فعل ''ا رج'' كا مفعول ہے ''ا رج'' فعل امر ہے اور مصدر ''ارجاء'' (تاخير ميں ڈالنا) سے ليا گيا ہے كلمہ ''ارجاء'' كے مشتقات

كبھى تو ہمزہ كے ساتھ استعمال ہوتے اور كبھى ان كا ہمزہ''الف'' ميں تبديل ہو جاتاہے، چنانچہ كہا جاتاہے: ''اَرْجا يُرجي ُ اور اَرْجى يُرْجي''_ يہ نكتہ بھى قابل ذكر ہے كہ آيت كريمہ ميں تاخير سے مرادسزا ميں تاخير ہے_

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام كے بھائی حضرت ہارونعليه‌السلام ، تبليغ رسالت اور فرعونيوں كى ہدايت اور راہنمائی كے سلسلہ ميں اپنے بھائی كے قدم بہ قدم ہمراہ تھے_ا رجه و ا خاه

۴_ فرعونيوں كے اجلاس ميں پاس كى گئي آراء ميں سے ايك رائے يہ بھى تھى كہ حضرت موسىعليه‌السلام كے معجزے كو ماہر جادوگروں كى مدد سے ناكام بنايا جائیے_و ا رسل فى المدائن حشرين

۵_ فرعون كے دربار كے سركردہ افرادنے فرعون سے كہا

۱۷۹

كہ موسىعليه‌السلام اور ہارونعليه‌السلام كى سزا ميں تاخير كرتے ہوئے ، اطراف و اكناف سے ماہر جادوگروں كو طلب كرے_

و ا رسل فى المدائن حشرين

كلمہ ''حشرين'' سے مراد ''اكٹھا كرنے والے'' اور ''روانہ كرنے والے'' ہيں ، اور قبل اور بعد كى آيت كى روشنى ميں اس كا مفعول ''ساحرين'' ہے اور خود كلمہ ''حشرين'' فعل ''ا رسل'' كيلئے مفعول ہے_ بنابراين جملہ ''ا رسل ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ ''جادوگروں كو اكٹھا كرنے اور روانہ كرنے كيلئے اپنے اہلكاروں كو آمادہ كرو_

۶_ ماہر جادوگروں كو اكٹھا اور حاضر كرنے كيلئے دربارى كارندوں كى تجويز يہ تھى كہ فرعون كے زير اثر شہروں كى طرف ،حكومتى اہلكاروں كو روانہ كيا جائیے_و ا رسل فى المدائن حشرين

كلمہ ''المدائن'' كا ''ال'' عہد ذہنى ہے كہ اس ميں فرعون كے زير اثر شہروں كى طرف اشارہ پايا جاتاہے اس لئے كہ فرعون اور اس كے درباريوں كے درميان معہود ، ان كے اپنے ہى ملك كے شہر ہيں _

جادوگر:جادوگروں سے مدد حاصل كرنا ۴،۵;جادوگروں كو حاضر كرنا ۵، ۶

فرعون:فرعون كے كارندے ۶;فرعون كے كارندوں كى خواہشات ۵;فرعون كے كارندوں كى شورى ۱، ۲، ۴

فرعوني:فرعونيوں كا عزم ۶

قوم فرعون:قوم فرعون كے سردار، ۱، ۲، ۴;

موسى (ع)موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵;موسىعليه‌السلام كا مقابلہ ۶; موسىعليه‌السلام كى رسالت كا شريك ۳; موسىعليه‌السلام كى سزا، ۱ ; موسىعليه‌السلام كى سزا ميں تاخير ۲، ۵; موسىعليه‌السلام كے بھائی ۳; موسىعليه‌السلام كے معجزے كا مقابلہ ۴

ہارونعليه‌السلام :ہارونعليه‌السلام كا كردار ۳;ہارونعليه‌السلام كى تبليغ ۳; ہارونعليه‌السلام كى راہنمائی ۳; ہارونعليه‌السلام كى سزا، ۱; ہارونعليه‌السلام كى سزا ميں تاخير ۵، ۲

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :فضائل محمد،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱، ۵ ;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا صالحين ميں سے ہونا ۵;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حمايت ۱، ۳، ۵

مشركين:مشركين كى سازش ۱، ۳، ۶;مشركين سے مبارزہ ۶

ولايت خدا كے مشمولين: ۱، ۴، ۶

آیت ۱۹۷

( وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لاَ يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلا أَنفُسَهُمْ يَنْصُرُونَ )

اور اسے چھوڑ كر تم جنھيں پكار تے ہو وہ نہ تمھارى مدد كر سكتے ہيں اور نہ اپنے ہى كام آسكتے ہيں (۱۹۷)

۱_ بتوں كى پرستش كرنے سے مشركين كا مقصد، ان سے مدد طلب كرنا ہے_

والذين تدعون من دونه لا يستطيعون نصركم

۲_ مشركين كے معبود (بت) ہرگز ان كى مدد كرنے كى طاقت نہيں ركھتے_والذين تدعون من دونه لا يستطيعون نصركم

۳_ مشركين كے معبود (بت) حوادث كے مقابلے ميں اپنا دفاع كرنے كى قدرت نہيں ركھتے_و لا أنفسهم ينصرون

۴_ سچے اور حقيقى معبود كا معيار يہ ہے كہ وہ بندوں كى مددكرنے كى قدرت ركھتاہو_والذين تدعون من دونه لا يستطيعون نصركم

۵_ سچے اور حقيقى معبود كو ناقابل شكست اور حوادث كے ضرر و نقصان سے محفوظ ہونا چاہيئے_

والذين تدعون من دونه ...و لا ا نفسهم ينصرون

۶_ مشركين كے معبودوں (بتوں ) كا اپنے اور دوسروں كے دفاع سے عاجز اور ناتوان ہونا ہى شرك كے بطلان كى دليل ہے_و لا يستطيعون نصركم و لا أنفسهم ينصرون

۷_ فقط خداوند ہے كہ جو بندوں كى مدد كرنے اور اپنا

۴۲۱

دفاع كرنے كى قدرت ركھتاہے_والذين تدعون من دونه لا يستطيعون نصركم و لا أنفسهم ينصرون

۸_ فقط خداوند عبادت كى اہليت ركھتاہے اور پرستش كے معيار پر پورا اترتاہے_والذين تدعون من دونه لا يستطيعون

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے مختص امور ۷،۸; اللہ تعالى كى امداد ۷; اللہ تعالى كى قدرت۷

انسان:انسان كى امداد ۷

باطل معبود:باطل معبودوں سے استمداد، ۱;باطل معبودوں كي ناتوانى ۲، ۳، ۶

بت:بتوں سے مدد طلب كرنا ۱

شرك:شرك كے بطلان كے دلائل ۶

عبادت:عبادت خدا ،۸

مشركين:مشركين كى بت پرستى كا فلسفہ۱;مشركين كے معبود ۲، ۳، ۶

معبود:سچے معبود كا معيار ۴، ۸;سچے معبود كا ناقابل شكست ہونا ۵;سچے معبود كى شرائط، ۵;سچے معبود كى قدرت ۴

آیت ۱۹۸

( وَإِن تَدْعُوهُمْ إِلَى الْهُدَى لاَ يَسْمَعُواْ وَتَرَاهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لاَ يُبْصِرُونَ )

اگر تم ان كو ہدايت كى دعوت دوگے تو سن بھى نہ سكيں گے اور ديكھو گے تو ايسا لگے گا جيسے تمھارى ہى طرف ديكھ رہے ہيں حالانكہ ديكھنے كے لائے بھى نہيں ہيں (۱۹۸)

۱_ مشركين كے معبود، اپنى پرستش كرنے والوں كى ہدايت كرنے سے ناتوان اور عاجز ہيں _

و إن تدعوهم إلى الهدى لا يسمعوا

''تدعوا'' ''يدعو'' سے جمع مخاطب كا صيغہ

۴۲۲

ہے اور اس ميں مشركين كو خطاب كيا گيا ہے_ ''ھدى '' مصدر ہے اور اس كا فاعل وہ ضمير ہے كہ جو گذشتہ آيت ميں''الذين تدعون'' كى طرف پلٹ رہى ہے_ اور اس كا مفعول مشركين ہيں _ بنابراين''إلى الهدى '' يعنى''إلى أن يهدوكم''

۲_ مشركين كے معبود (بت) اپنى عبادت كرنے والوں كا كلام سننے سے ناتوان اور عاجز ہيں _و إن تدعوهم ...لا يسمعوا

۳_ مشركين اپنے معبودوں (بتوں ) كيلئے، خيرہ كن (شوخ و بے حيا) آنكھيں بناتے تھے_و ترهم ينظرون إليك

''ترھم'' اور ''ينظرون'' كى غائب ضميريں ،''الذين تدعون'' كى طرف پلٹ رہى ہيں كہ جو ان (مشركين) كے معبود ہيں _

۴_ بتوں كے اندر بنائی گئي آنكھيں ، اشياء كو ديكھنے سے ناتوان ہوتى ہيں _و هم لا يبصرون جملہ''هم لا يبصرون'' كى ضمير كا مرجع''الذين تدعون'' ہے_

۵_ بتوں كے اندر آنكھيں اس طرح بنى ہوتى تھيں كہ گويا وہ اپنے مد مقابل شخص كو ديكھ رہى ہيں _

و ترهم ينظرون إاليك

''ترھم'' اور ''إليك'' كا مخاطب ہر وہ انسان ہے كہ جو بتوں كے مد مقابل ہوتا ہے '' يعنى''ترهم ايها الانسان'' ...( اے انسان جب تو انكى طرف ديكھتا ہے) اور جملہ'' و هم لا يبصرون'' ( وہ نہيں ديكھتے) اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ '' ترہم ينظرون'' سے مراد ''ترہم كأنہم ينظرون إليك '' ہے ( يعنى تم اس طرح گمان كرتے ہو كہ وہ بت تمہيں ديكھ رہے ہيں حالانكہ در حقيقت وہ تمہيں نہيں ديكھ رہے ہوتے _

۶_ بندوں كى راہنمائی اور ہدايت كرنا، معبود كے سچا ہونے كا معيار ہے_و إن تدعوهم إلى الهدى لا يسمعوا

خداوند، مشركين كے معبودوں كو اس لئے پرستش كے لائق نہيں جانتا چونكہ وہ انسانوں كى راہنمائی اور ہدايت نہيں كرسكتے_ بنابرايں ، انسانوں كى ہدايت كرنا بھى حقيقى ، سچا اور برحق معبود ہونے كے معيار ميں سے ہے_

۷_ سچے اور برحق معبود كو چاہيئے كہ وہ ديكھ بھى سكے اور سن بھى سكے_إن تدعوهم ...لا يسمعوا ...و هم لا يبصرون

۸_ مشركين كے معبودوں (بتوں ) كا حاجات پورى كرنے، كلام سننے اور اشياء كو ديكھنے سے ناتوان اور عاجز ہونا ہى غير خدا كى پرستش كے ناروا ہونے اور شرك كے بطلان كى دليل ہے_

۴۲۳

و إن تدعوهم الى الهدى لا يسمعوا ...و هم لا يبصرون

باطل معبود:باطل معبودوں كا عجز، ۱، ۲، ۴، ۸;باطل معبودوں كا مجسمہ ۳، ۴، ۵

بت:بتوں كى آنكھيں ۳، ۴، ۵;بتوں كے اعضاء ۳، ۴، ۵

شرك:بطلان شرك كے دلائل ۸;شرك عبادى كا ناپسنديدہ ہونا ۸

مشركين:مشركين كى بت پرستى ۳;مشركين كے معبود، ۱، ۲، ۳، ۸

معبود:سچے معبود كا بينا ہونا ۷;سچے معبود كا سننے كے قابل ہونا ۷ ;سچے معبود كا معيار ۶، ۷ ;سچے معبود كا ہدايت كرنا ۶

آیت ۱۹۹

( خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ )

آپ عفو كا راستہ اختيار كريں نيكى كا حكم ديں اور جاہلوں سے كنارہ كشى كريں (۱۹۹)

۱_ خداوند نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديا ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عفو كو اختيار كريں اور خطا كاروں سے درگذر كرتے رہيں _

خذ العفو

''أخذ'' ( خذكا مصدر ہے) جس كا معنى لينا اور ہاتھ سے نہ چھوڑنا ہے كہ بحث كى مناسبت سے ملتزم ہونے سے كنايہ ہے_ بنابراين ''خذ العفو'' يعنى عفو اور درگذر كرو اور اسے ہاتھ سے جانے نہ دو اور اس كے ملتزم رہو_

۲_ لوگوں كو پسنديدہ كاموں كى دعوت دينا، پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرائض ميں سے ہے_و امر بالعرف

''عرف'' كا معنى معروف (پہچانا ہوا) ہے اور اس سے مراد وہ كام ہيں كہ جو شرع اور عقل كے نزديك پسنديدہ سمجھے جاتے ہيں _

۳_ خداوند نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جاہل افراد سے مدارا كريں اور ان كى جاہلانہ باتوں كو نظر انداز كرديں _و أعرض عن الجهلين

''إعراض'' كا معنى منہ موڑناہے اور يہ منہ موڑنا اور روگرداني، كبھى تو مدارا اور نظر انداز كرنے سے كنايہ ہے_ اور كبھى بے اعتنائی اور دورى اختيار كرنے كے معنى ميں ہے_ صدر آيت كے مطابق اعراض سے مراد پہلا معنى ہے يعنى مدارا كرنا اور نظر انداز كرنا_

۴۲۴

۴_ خطاؤں اور لغزشوں سے درگذر كرنا، لوگوں كو نيك كاموں كى دعوت دينا اور جاہلوں سے مدارا كرنا دينى مبلغين كے بنيادى فرائض ميں سے ہيں _خذ العفو و امر بالعرف و أعرض عن الجهلين

۵_ بت پرست اور مشركين، بے عقل اور نادان لوگ ہيں _و أعرض عن الجهلين

گذشتہ آيات كے قرينے سے ''الجاھلين'' كے مطلوبہ مصاديق ميں سے ايك مشركين اور بت پرست ہيں _

۶_عن أبى عبدالله عليه‌السلام : ...إن اللّه ادّب رسوله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : فقال: يا محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : خذ العفو ...'' قال: خذ منهم ما ظهر و ما تيسر والعفو الوسط (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ خداوند نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو ادب سكھانے كے ليئے يہ حكم ديا كہ ''اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عفو كو اختيار كرو ...'' يعنى صدقات ميں سے جو كچھ ظاہر ہے اور لوگ آسانى سے دے سكتے ہيں وہ لے لو اور عفو سے مراد ميانہ روى ہے_

۷_عن الحسن عليه‌السلام قال: إن الله عزوجل ادّب نبيه أحسن الأدب فقال خذ العفو ...'' ...فقال صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لجبرئيل عليه‌السلام و ما العفو؟ قال عليه‌السلام أن تصل من قطعك و تعطى من حرمك و تعفو عمن ظلمك (۲)

امام حسن مجتبيعليه‌السلام سے منقول ہے كہ بے شك خداوند عزوجل نے اپنے نبيصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بہترين ادب سكھايا اور فرمايا: ''عفو اختيار كرو ...'' پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرائیلعليه‌السلام سے پوچھا عفو كيا ہے؟ اس نے جواب ديا: عفو يہ ہے كہ جو تم سے قطع تعلق كرے تم اس سے دوستى كرو اور جو تمہيں محروم كرے تم اس پر بخشش كرو اور جو كوئي تم پر ظلم كرے تو اس سے درگذر كرو_

اجتماعى نظم:اجتماعى نظم كى اہميت ۲، ۴

اللہ تعالى :اللہ تعالى كے اوامر ۱، ۳

امر بالمعروف:امر بالمعروف كى اہميت ۲، ۴

____________________

۱)تفسير عياشى ج/۲ ص ۴۳ ح ۱۲۶; نورالثقلين ج/۲ ص ۱۱۱ ح ۴۰۷_

۲)بحار الانوار ج/۷۵ ص ۱۱۴ ح ۱۰; مجمع البيان ج/۴ ص ۷۸۷_

۴۲۵

بت پرست:بت پرستوں كى بے عقلى ۵

تعقل:تعقل سے خالى افراد ۵

جہلاء:جاہلوں كے ساتھ مدارا كرنا ۳، ۴;جہلاء سے عفو و درگذر كرنا ۳

خطاكار:خطاكاروں سے عفور كرنا ۱

لغزش:لغزش سے عفو ۴

مبلغين:مبلغين كى ذمہ دارى ۴

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سيرت ۳;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مسؤليت ۱، ۲، ۳

مشركين:مشركين كى بے عقلى ۵

آیت ۲۰۰

( وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ )

اور اگر شيطان كى طرف سے كوئي غلط خيال پيدا كيا جائیے تو خدا كى پناہ مانگيں كہ وہ ہر شے كا سننے والا اور جاننے والا ہے(۲۰۰)

۱_ شيطان ہميشہ اپنے وسوسوں كے ذريعے انسانوں كو خداوند كے فرامين سے سرپيچى كرنے پر ابھارتاہے_

و إما ينزغنّك من الشيطن نزغ

''نزغہ'' يعنى اسے تھوڑا سا تحريك كيا يا ابھارا''نزغ'' اس كلام كو كہتے ہيں جو تحريك كرنے اور ابھارنے كا باعث بنے (لسان العرب) ''من الشيطان'' ''نزغ'' كيلئے حال ہے اور ''نزغ شيطان'' سے مراد اس كا وسوسہ ہے_ بنابراين ''إما ينزغنّك'' يعنى اگر شيطان كى طرف سے كسى وسوسے نے تمہيں ابھارا ...قابل ذكر ہے كہ گذشتہ آيت كى مناسبت سے يہاں تحريك اور ابھارنے سے مراد، خداوند كے احكام و فرامين كى مخالفت كرنے كى ترغيب دلانا ہے_

۲_ شيطان كا عظيم انبياء كرامعليه‌السلام كو بھى فرامين خداوند سے

۴۲۶

تخلف كرنے پر ابھارنے كيلئے اپنا نشانہ بنانا_و إما ينزغنّك من الشيطن نزغ

''إما'' ''إن'' شرطيہ اور ''ما'' زائدہ سے مركب ہے ''ما'' زائدہ اور نون تاكيد ثقيلہ كے ذريعے جملے كى تاكيد يہ معنى بيان كرنے كيلئے ہے كہ شرط پورى ہوگي_ بنابراين ''إما ينزغنك'' يعنى اگر شيطان تمہيں ابھارنے پر آگيا اور وہ حتماً يہ كوشش كرے گا _

۳_ خداند كا رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ہے كہ جب تم شيطان كے وسواس كے روبرو ہوتو خدا كے حضور پناہ مانگ ليا كرو_

إما ينزغنّك ...فاستعذ بالله

۴_ خداوند ہر كلام كو سنتاہے اور ہر حاجت سے آگاہ ہے_انه سميع عليم

۵_ جب بندے خداوند كى بارگاہ ميں پناہ ليتے ہيں تو خداوند شيطان كے وسواس كو بے اثر كرديتاہے_

فاستعذ بالله انه سميع عليم

جملہ''إنه سميع عليم'' ''فاستعذ بالله '' (خدا كى پناہ مانگو) كيلئے ايك تعليل كى حيثيت ركھتاہے چونكہ فقط سننا اور دانا ہونا ہى استعاذہ كے لازمى ہونے كى دليل نہيں بن سكتا_ لہذا كہہ سكتے ہيں كہ خداوند كا سننا اور دانا ہونا پناہ طلب كرنے كى اجابت سے كنايہ ہے_

۶_ خداوند كے سميع و عليم ہونے كا عقيدہ باعث بنتاہے كہ (انسان) شيطانى وسوسوس كے مقابلے ميں خدا سے التجاء كرے_فاستعذ بالله إنه سميع عليم

استعاذہ:استعاذہ كا پيش خيمہ ۶;استعاذہ كے اثرات ۵ خداوند كے حضور استعاذہ ۳، ۵، ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا سميع ہونا ۴،۶; اللہ تعالى كا علم ۴،۶; اللہ تعالى كى نافرمانى ۱; اللہ تعالى كے اوامر۳

ايمان:ايمان كے اثرات ۶

شيطان:اضلال شيطان ۱، ۲ ; شيطان اور انبياء ۲; شيطان سے استعاذہ ۳، ۵ ;شيطان كا كردار، ۱، ۲ ; شيطان كا وسوسہ ۱، ۳، ۶; شيطانى وسواس كو بے اثربنانا ۵

گمراہي:گمراہى كے علل و اسباب ۱

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :مسؤليت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳

۴۲۷

آیت ۲۰۱

( إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ )

جو لوگ صاحبان تقوى ہيں جب شيطان كى طرف سے كوئي خيال چھونا بھى چاہتے ہے تو خردا كو ياد كرتے ہيں اور حقائق كو ديكھنے لگتے ہيں (۲۰۱)

۱_ شيطان ، انسان كے اردگرد چكر لگاتارہتاہے تا كہ اس كے افكار اور خيالات ميں اپنے وسوسوں كے ذريعے نفوذ كرسكے_

إذا مسهم طئف من الشيطن

''طاءف'' اس شخص يا چيز كو كہا جاتاہے كہ جو كسى محور كے گرد گھوم رہى ہو ''من الشيطان'' ميں ''من'' بيانيہ بھى ہوسكتاہے اس بناء پر ''طاءف'' خود شيطان ہے يعنى شيطان دلوں كے اردگرد چكر لگاتاہے_ ہوسكتاہے ''من'' نشويہ ہو_ تو اس صورت ميں ''طاءف'' سے مراد شيطانى وسوسے ہيں كہ جو دلوں كے اردگرد گھومتے ہيں تاكہ ان ميں نفوذ كرسكيں _

۲_ جو لوگ پرہيزگار اور باتقوى ہيں وہ جب شيطان اور اس كے وسوسوں كے روبرو ہوتے ہيں تو وہ احكام خدا كو ياد كرليا كرتے ہيں اور اس طرح وہ راہ تقوى سے واقف ہوجاتے ہيں _

إن الذين اتقوا إذا مسهم طئف من الشيطان تذكروا فإذاهم مبصرون

يہاں ''تذكر'' سے مراد توجہ كرنا اور اپنے جانے پہچانے علوم كو ياد ميں لاناہے اور ان علوم اور دانستہ احكام سے مراد آيت ۱۹۹ كے قرينے كے مطابق، اوامر الہى و احكام خدا ہيں ''أبصار'' (جوكہ مبصرون كا مصدر ہے) كا معنى بينا ہونا اور آگاہ ہونا ہے اور ''الذين اتقوا'' كے مطابق اس سے مراد تقوى كى راہ پر چلنا اور آخر كار شيطان كے جال سے رہائی پاناہے_

۳_باتقوى افراد، شيطانى وسوسوں كے حملے كا احساس كرتے ہى فرمان خدا (استعاذہ) كو ياد كرتے ہوئے اس كے حضور پناہ ليتے ہيں اور بصيرت و آگاہى كے ساتھ شيطان كے جال سے بچ جاتے ہيں _ إذا مس هم طئف من الشيطن تذكروا فإذا هم مبصرون

۴۲۸

مندرجہ بالا مفہوم ميں گذشتہ آيت ميں ''فاستعذ بالله '' كے قرينے سے ''تذكروا'' كا متعلق ''استعاذہ'' كا لزوم قرار ديا گيا ہے_

تذكروا فإذا هم مبصرون

يہ مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب گذشتہ جملے (إنہ سميع عليم) كے قرينے سے ''تذكروا'' كا متعلق خداوند كى شنوائی اور آگاہى ہو_

۵_ اہل تقوى جب شيطانى وسوسوں كے روبرو ہوتے ہيں تو ان وسواس كى تشخيص كرليتے ہيں (كہ يہى شيطانى وسوسوں ہيں )_إن الذين اتقوا إذا مسهم طئف من الشيطن تذكروا

۶_ تقوى ، وہ واحد عامل ہے كہ جو شيطانى وسوسوں كے روبرو ہونے پر انسان كى توجہ احكام خداوند كى طرف لے جاتاہے_

إن الذين اتقوا إذا مسهم طئف من الشيطن تذكروا

۷_عن على بن حمزة عن أبى عبدالله عليه‌السلام قال: سألته عن قول الله : ''إن الذين اتقوا إذا مسهم طائف من الشيطان تذكروا فإذا هم مبصرون'' ما ذلك الطائف؟ فقال: هو السيّيء يهمّ به العبد ثم يذكر الله فيبصر و يقصر (۱)

على بن حمزہ كہتے ہيں ميں نے حضرت امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا كہ آيہء مجيدہ ''إن الذين اتقوا '' ميں ''طاءف'' سے كيا مراد ہے؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا: اس سے گناہ كا وسوسہ مراد ہے، بندہ اس كا ارادہ كرتاہے اور پھر اسے خدا كى ياد آجاتى ہے اور وہ بيدار ہوجاتاہے اور اسے انجام نہيں ديتا_

استعاذہ:استعاذہ كے عوامل ۶;خدا كے حضور استعاذہ ۳، ۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا سميع ہونا ۴;اللہ تعالى كا عليم ہونا ۴

ايمان:ايمان كے اثرات ۴

تقوى :تقوى كے اثرات ۶

شيطان:شيطان اور متقين ۳;شيطان سے استعاذہ ۳; شيطان سے نجات كے عوامل ۲، ۳، ۴، ۶; شيطان كا كردار،۱ ; نفوذ شيطان كا طريقہ۱ ; وسوسہء شيطان ۱، ۲، ۳، ۴، ۶; وسوسہء شيطان كى پہچان ۵

متقين:متقين اور شيطان ۲;متقين كا ادراك ۵;متقين كا استعاذہ ۳ ;متقين كى آگاہى ۲

____________________

۱) تفسير عياشي، ج۲، ص ۴۴، ح۱۲۹; نور الثقلين، ج۲، ص ۱۱۲، ح ۴۱۶_

۴۲۹

آیت ۲۰۲

( وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لاَ يُقْصِرُونَ )

اور مشركين كے برادران شياطين انھيں گمراہى ميں كھينچ رہے ہيں اور اس ميں كوئي كوتاہى نہيں كرتے ہيں (۲۰۲)

۱_ بے تقوى لوگ، شيطان كے بھائی ہيں _و إخوانهم

مندرجہ بالا مفہوم اس بناء پر ہے كہ''إخوانھم'' كى ضمير كا مرجع، گذشتہ آيت ميں موجود''الشيطان'' ہو_ قرينہ مقابلہ كے مطابق ''إخوان''سے مراد بے تقوى افراد ہيں يہ بھى ياد رہے كہ ''الشيطان'' ميں ''ال'' جنس كيلئے ہے_ ضمير جمع اس كى طرف پلٹائی جاسكتى ہے_

۲_ شياطين، بے تقوى افراد كو گمراہى كى جانب لے جاتے ہيں _ اور انھيں ضلالت (كى گہرائی وں ) ميں غرق كرديتے ہيں _

و إخوانهم يمدونهم فى الغي

''يمدونهم'' ميں ضمير فاعلى كا مرجع شياطين ہيں اور ضمير مفعولى كا مرجع ''إخوان'' ہے يعنى''إخوان الشياطين يمدهم الشياطين فى الغي'' _ ''مد'' ( ''يمدون''كا مصدر ہے) جس كا معنى كھينچنا ہے اور ''الي'' كى جگہ ''في'' كولانا يہ معنى ديتاہے كہ شيطان بے تقوى افراد كو گمراہى كى گہرائی وں ميں لے جاتاہے_

۳_ شيطان، بے تقوى افراد كو گمراہ كرنے كے بعد كھلا نہيں چھوڑتا بلكہ انھيں اسى طرح گمراہى كى دلدل ميں روكے ركھتاہے_ثم لا يعصرون يہ مفہوم اس بناء پر ہے كہ جب''لا يقصرون'' كى ضمير كا مرجع شيطان ہو''اقتصار'' (يقصرون كا مصدر ہے) جس كا معنى ''ہاتھ اٹھانا'' ہے

۴_ بے تقوى افراد كا روشن ترين مصداق، مشركين ہيں _و إخوانهم

جيسا كہ گذرچكاہے كہ ''إخوان'' سے مراد بے تقوى افراد ہيں اور چونكہ گذشتہ آيات مشركين كے بارے ميں تھيں لہذا كہہ سكتے ہيں كہ بے تقوى افراد كا مطلوبہ مصداق، مشركين ہيں _

۵_ شيطان، بے تقوى اور مشرك انسانوں كا بھائی

۴۳۰

ہے_و إخوانهم يمدونهم فى الغي

''إخوانهم'' كى ضمير كا مرجع مشركين اوربے تقوى افراد بھى ہوسكتے ہیں _ اس بناء پر ''إخوان'' سے مراد گذشتہ آيت كے قرينے سے، شيطان ہے_ قابل ذكر ہے كہ اس صورت ميں ضمير فاعلى ''يمدونھم'' كا مرجع ''إخوان'' اور ضمير مفعولى كا مرجع مشركين و بے تقوى لوگ ہيں _

۶_ شيطان كے پيروكار مشركين اور بے تقوى افراد كا اپنى گمراہى پر اصرار كرنا_ثم لا يقصرون

يہ مفہوم اس بناء پر ہے كہ جب''لا يقصرون'' كى ضمير، مشركين اور بے تقوى افراد كى جانب لوٹائی جائیے_

بے تقوى افراد،۱،۴،۵:بے تقوى لوگوں كى گمراہى ۲، ۳، ۶

شيطان:اضلال شيطان ۲، ۳; شيطان اور بے تقوى افراد ۱، ۲، ۳، ۵; شيطان اور مشركين ۵; شيطان كا كردار ۲، ۳; شيطان كے بھائی ۱، ۵ شيطان كے پيروكار ۶

گمراہي:گمراہى پر اصرار ۶;گمراہى كا تسلسل ۳; گمراہى كے عوامل ۲، ۳

مشركين:۵بے تقوى مشركين ۴;مشركين كى گمراہى ۶

آیت ۲۰۳

( وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يِوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي هَـذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ )

اور اگر آپ ان كے پاس كوئي نشانى نہ لائیں تو كہتے ہيں كہ خود آپ كيوں نہيں منتخب كر ليتے تو كہہ ديجئے كہ ميں تو صرف وحى پروردگار كا اتباع كرتا ہوں _ يہ قرآن تمھارے پروردگار كى طرف سے دلائل ہدايت اور صاحبان ايمان كے لئے رحمت كى حيثيت ركھتا ہے (۲۰۳)

۱_ آيات قرآن، رسالت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت كا ايك معجزہ اور علامت ہيں _

۴۳۱

و إذا لم تأتهم بأية

كلمہ ''آية'' كا معنى نشانى اور دليل ہے اور اس سے مراد آيات قرآن ہيں _

۲_ آيات قرآن كبھى كبھي، تاخير كے ساتھ اور كچھ وقت كے بعد نازل ہوتى تھيں _و إذا لم تأتهم بأية

۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين نزول آيات ميں تاخير كو بہانہ بناكر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كو جھٹلانے لگتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شماتت كرنے لگتے_و إذا لم تأتهم باية قالوا لو لا اجتبيتها

۴_ قرآن، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر جزء جزء اور جدا جدا حصوں كى صورت ميں نازل ہوا ہے_و إذا لم تأتهم بأية

۵_ مشركين كے نزديك آيات قرآن ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہاتھوں بنايا ہوا اور انتخاب شدہ (چنا ہوا) ايك مجموعہ تھا_

لو لا اجتبيتها

''اجتباء'' (مصدر اجتبيت) كا معنى ''چن چن كر اور انتخاب كركے جمع كرنا''ہے_ (مفردات راغب) مشركين پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب ''اجتباء'' كى نسبت ديتے ہوئے يہ وسوسہ ڈالتے تھے كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرآن كے مطالب كو ادھر ادھر سے جمع كركے اور انتخاب كركے لوگوں كے سامنے پيش كرتے ہيں _

۶_ پورا قرآن، وحى ہے اور خداوند كى جانب سے نازل شدہ ہے نہ كہ كسى بشر كا بنايا ہوا_قل إنما أتبع ما يوحى إليَّ من ربي

جملہ ''إنما أتبع ...'' ميں حصر مشركين كے اتہام اور ان كے خيال كى طرف اشارہ ہے_ يعنى ميں آيات قرآن پيش كرنے ميں وحى كے تابع ہوں نہ يہ كہ اپنے آپ سے بناكر يا ادھر ادھر سے جمع كركے پيش كرتاہوں _

۷_ پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہميشہ وحى كے تابع رہے ہيں اور احكام خداوند كى پيروى كرتے رہے ہيں _قل إنما أتبع ما يوحى إليَّ من ربي

۸_ قرآن كا سرچشمہ ،خداوند كا مقام ربوبيت ہے_إنما أتبع ما يوحى إليَّ من ربي

۹_ قرآن، روشنى بخش اور بصيرت افروز كتاب ہے_هذا بصائر من ربكم

''بصيرة'' (مفرد بصاءر) بمعنى حجت، برہان اور وہ چيزہے كہ جو بصيرت و بينش كا باعث بنے_

۱۰_ قرآن اور اس كى روشنى بخش (تعليمات)، انسانوں كى تدبير كيلئے ،ربوبيت خداوند كا جلوہ ہيں _

هذا بصائر من ربكم

۱۱_ خداوند، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مربى اور تمام انسانوں كے امور كى تدبير كرنے والا ہے_

۴۳۲

من ربيّ ...من ربّكم

۱۲_ قرآن، كتاب ھدايت اور باعث رحمت ہے_هذا ...هديً و رحمة

۱۳_ فقط اہل ايمان ہى قرآن كى ہدايت سے اور اس كى رحمت كے سائے سے بہرہ مند ہوتے ہيں _

هذا ...هديً و رحمة لقوم يؤمنون

۱۴_ قرآنى ہدايت، كسى قسم كى ضلالت و گمراہى سے آلودہ نہيں ہوتى اور نہ ہى اس سے كوئي بے قاعدگى و كجى پيدا ہوتى ہے_هذا ...هديً و رحمة

اسم فاعل ''ھاد'' كى جگہ مصدر ''ھديً'' كا استعمال، مندرجہ بالا مفہوم كو ظاہر كررہاہے_

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى ربوبيت ۸،۱۰; اللہ تعالى كے افعال

انسان:انسانى امور كى تدبير ۱۰، ۱۱

قرآن:اعجاز قرآن ۱; تعليمات قرآن كى خصوصيت ۱۴; رحمت قرآن ۱۲، ۱۳; قرآن سے استفادے كا پيش خيمہ ۱۳; قرآن كا تدريجى نزول ۲، ۳ ; قرآن كا روشنى بخش ہونا ۹، ۱۰;قرآن كا كردار ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۳; قرآن كا وحى ہونا ۶;قرآن كا ہدايت كرنا ۱۲، ۱۳، ۱۴;نزول قرآن كى كيفيت ۴; نزول قرآن كا منشاء ۶، ۸

مؤمنين:مؤمنين اور قرآن ۱۳

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :تكذيب محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے علل و اسباب ۳; حقانيت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دلائل ۱; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر افتراء ۵; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا وحى كى اتباع كرنا ۷;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى مخالفت ۳; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين ۳; معجزات محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ۱; مربى محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،۱۱

مشركين:مشركين اور قرآن ۵

ہدايت:ہدايت كے عوامل ۹، ۱۲

۴۳۳

آیت ۲۰۴

( وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ )

اور جب قرآن كى تلاوت كى جائیے تو خاموش ہوكر غور سے سنو كہ شايد تم پر رحمت نازل ہوجائیے (۲۰۴)

۱_ قرآن كى تلاوت كے وقت اسے غور سے سننے اور خاموشى و سكوت اختيار كرنے كا واجب ہونا_

و إاذا قرى القرآن فاستمعوا له و أنصتوا

''استماع'' (مصدر استمعوا) كا معنى سننا اور كان دھرنا ہے اور ''انصات'' (مصدر انصتوا) كا معنى خاموشى و سكوت اختيار كرنا ہے_

۲_ قرآن كو سننا اور سنتے وقت خاموش رہنا، رحمت خداوند كے حصول كا مقدمہ ہے_

فاستمعوا له و أنصتوا لعلكم ترحمون

۳_ تلاوت قرآن كرنے والا كوئي بھى ہو، اس كى قراءت كے دوران خاموش رہ كر قرآن كو سننا چاہيئے_

و إذا قرى القرآن فاستمعوا له و أنصتوا لعلكم ترحمون

يہ مفہوم فعل ''قري'' كے مجہول ہونے سے اخذ كيا گيا ہے_

۴_ خداوند نے كفار كو قرآن كى صدا (و تلاوت) سننے كي دعوت دي_

هذا بصائر من ربكم ...إذا قرى القرآن فاستمعوا له

مندرجہ بالا مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''فاستمعوا'' كا خطاب كفار كو بھى شامل ہو_

۵_ كفار كا قرآن كى صدا اور تلاوت كو سننا، ان ميں ہدايت اور رحمت الہى تك پہنچنے كى آمادگى پيدا كردے گا_

و إذا قرى القرآن فاستمعوا له و أنصتوا لعلكم ترحمون

اگر آيت كا خطاب، كفار كو بھى شامل ہو تو ''ترحمون'' ميں رحمت كا مطلوبہ مصداق، ہدايت ہوگا_

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى رحمت كے اسباب ۲، ۵;اللہ تعالى كے اوامر،۴

۴۳۴

قرآن:استماع قرآن ۱، ۳، ۴; استماع قرآن كے اثرات ۲، ۵; تلاوت قرآن كے آداب ۳; تلاوت قرآن كے احكام ۱; تلاوت قرآن كے وقت سكوت ۱; ۲، ۳ ;قرآن كا ہدايت كرنا ۵

كفار:كفار اور قرآن ۴، ۵; مسؤليت كفار ۴

واجبات:۱

ہدايت:ہدايت كا پيش خيمہ ۵

آیت ۲۰۵

( وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ وَلاَ تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ )

اور خدا كو اپنے دل ہى دل ميں تضرع اور خوف كے ساتھ ياد كرو اور قول كے اعتبار سے بھى اسے كم بلند آواز سے صبح و شام ياد كرو اور خبردار غافلوں ميں نہ جاؤ(۲۰۵)

۱_ خداوند نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداوند كے مقام ربوبى كى طرف متوجہ رہيں اور اسے اپنے دل و جان سے ياد كرتے رہيں _و اذكر ربك فى نفسك

۲_ خداوند كے سامنے خشوع اور اس كے مقام ربوبى سے خوف و ہراس ،خداوند كى طرف توجہ كرنے اور اسے ياد كرنے كے آداب ميں سے ہيں _و اذكر ربك فى نفسك تضرعا و خيفة

''تضرع'' كا معنى خشوع اور اظہار تذلل كرنا ہے_ اور ''خيفة'' كا مطلب ڈرنا اور خوف زدہ ہونا ہے_

''تضرعاً'' اور ''خيفة'' مصدر ہیں اور آيت ميں اسم فاعل (متضرعاً) اور (خاءفاً) كے معنى ميں آياہے_ يعنى اپنے پروردگار كو خشوع و خوف كے ساتھ ياد كرو_

۳_ خداوند نے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو حكم ديا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زير لب اس كا ذكر كريں اور اپنى زبان كو اس كے ذكر سے معطر كرتے رہيں _و اذكر ربك ...دون الجهر من القول

مندرجہ بالا مفہوم اس بناء پر ہے كہ جب ''دون الجھر ...'' كا ''فى نفسك'' پر عطف ہو اس بناء پر آيہء شريفہ دو طرح كے اذكار كى طرف

۴۳۵

اشارہ كررہى ہے قلبى ذكر كہ جو ''فى نفسك''سے ظاہر ہوتاہے اور زبانى ذكر كہ جو''دون الجهر من القول'' سے آشكار ہے_

۴_ زبانى ذكر ميں بلند آواز سے پرہيز كرنا، زير لب ذكر خدا كرنے كے آداب ميں سے ہے_

و اذكر ربك ...دون الجهر من القول

''دون'' كا معنى نيچا اور آہستہ ہے جبكہ ''جھر'' كا معنى آشكار كرنا اور اعلان كرنا ہے اور ''من القول'' ''الجھر'' كا بيان ہے_ بنابراين ''الجھر من القول'' يعنى صدا و آواز كو بلند كرنا، اور ''دون الجھر من القول'' يعنى كلام اور لفظ كو جہر كے بغير اور نيچى آواز سے ادا كرنا ہے_

۵_ انسانوں كو چاہيئے دل و جان سے خداوند كى ياد ميں رہيں اور صبح و شام اس كا ذكر كرتے رہيں _

و اذكر ربك ...بالغد و الأصال

''غدوة'' (غدو كامفرد) بمعنى صبح ہے(يعنى طلوع فجر سے ليكر طلوع خورشيد تك) ''آصال'' اصيل كى جمع يا جمع الجمع ہے_ اور'' اصيل '' عصر سے مغرب تك كے درميانى وقت كو كہتے ہيں _

قابل ذكر ہے ''الغدو'' ميں اور ''الأصال'' ميں ''ال'' استغراق كيلئے ہے اور عموم كا فائدہ دے رہاہے يعنى ہر صبح و عصر

۶_ خداوند كا پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غافلين كے زمرے ميں داخل ہونے سے روكنا_و لا تكن من الغفلين

۷_ ياد خدا سے غفلت ايك ناپسنديدہ اور ناروا، امر ہے_و لا تكن من الغفلين

۸_ خداوند كو صبح و شام ياد كرنا، انسان كو غافلين كے زمرے سے نكال ديتاہے_

و اذكر ربك ...بالغدو و الأصال و لا تكن من الغفلين

۹_عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال: و اذكر ربك فى نفسك'' يعنى مستكيناً ''و خيفة'' يعنى خوفاً من عذابه ''و دون الجهر من القول'' يعنى دون الجهر من القرائة ''بالغدو و الاصال'' يعنى بالغداوة والعشى (۱)

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا '' و اذكرربك فى نفسك (تضرعا) يعنى خداوند كو اپنے دل ميں خضوع و خشوع كے ساتھ ياد كرو_ اور ''خيفة'' يعنى اس كے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور ''دون الجھر من القول'' يعنى بلند آواز كے بغير اور''بالغدو والاصال'' يعنى صبح و شام_

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۲ ص ۴۴ ح ۱۳۵_ نورالثقلين ج/۲ ص ۱۱۲ ح ۴۲۴_

۴۳۶

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے ڈرنا۲; اللہ تعالى كا خبردار كرنا ۶; اللہ تعالى كى ربوبيت ۲; اللہ تعالى كے اوامر ۱،۳

انسان:مسؤليت انسان،۵

ذكر:آداب ذكر ۲;ذكر خدا، ۱، ۵; ذكر خدا كى اہميت ۳; ذكر كے آثار ۸; ذكر ميں خشوع كرنا ۲; صبح كے وقت ذكر ۵، ۸; عصر كے وقت ذكر ۵، ۸

عمل:ناپسنديدہ عمل ۷

غفلت:خدا سے غفلت كرنا ۷; غفلت پر سرزنش ۷; غفلت سے بچنا ۶;موانع غفلت ۸

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خبردار كيا جانا ۶;مسؤليت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، ۱; ۳

ورد:آواز كے ساتھ ورد كرنا ۴; ورد كا وقت۵; ورد كى اہميت ۳، ۴; ورد كے آداب ۴

آیت ۲۰۶

( إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ )

جو لوگ اللہ كى بارگاہ ميں مقرب ہيں وہ اس كى عبادت سے تكبر نہيں كرتے ہيں اور اسى كى بارگاہ ميں سجدہ ريز رہتے ہيں (۲۰۶)

۱_ بارگاہ خداوند كے مقرب بندے كبھى بھى خداوند كے مقابلے اپنے آپ كو بڑا نہيں سمجھتے اور اس كى عبادت سے روگردانى نہيں كرتے_إن الذين عند ربك لا يستكبرون عن عبادته

''استكبار'' كا معنى اپنے آپ كو بڑا جانناہے، چونكہ حرف ''عن'' سے متعدى ہوا ہے تو اعراض اور روگردانى كا معنى دے رہاہے يعنى''لايعرضون يعرضون عن عبادته مستكبرين''

۲_ بارگاہ خداوند كے مقربين ہميشہ اسكى تسبيح كرتے ہيں اور اسے ہر نقص و عيب سے منزہ شمار كرتے ہيں _

إن الذين عند ربك ...يسبحونه

خداوند كے نزديك ہونا، اسكى بارگاہ ميں تقرب حاصل كرناہے_ بنابرايں''الذين عند

۴۳۷

ربك'' يعنى بارگاہ خدا كے مقربين_

۳_ خداوند كو دل و جان سے ياد كرنا اور زير لب اس كا ذكر كرنا ،اس كى عبادت و پرستش ہے_

و اذكر ربك ...إن الذين عند ربك لا يستكبرون عن عبادته

ذكر خدا كا حكم (اذكر ربك) اور پھر اس حقيقت كا بيان كہ بارگاہ خدا كے مقربين اسكے ذكر سے روگردانى نہيں كرتے ظاہر كرتاہے ذكر خدا، خداوند كى عبادت و پرستش كا روشن ترين مصداق ہے_

۴_ ياد خدا سے غفلت اور اسكى عبادت سے روگرداني، تكبر اور اپنى بڑائی كے اظہار كا نتيجہ ہے_

و لا تكن من الغفلين_ إن الذين عند ربك لا يستكبرون عن عبادته

غفلت سے نہى اور پھر يہ بيان كرنا كہ مقربين بارگاہ الہي، اس كے مقابلے ميں تكبر نہيں كرتے، ظاہر كرتاہے ياد خدا سے غفلت كرنا در حقيقت اسكے مقابلے ميں تكبر كرنا ہے اور اپنے آپ كو بڑا جانناہے_

۵_ بارگاہ خداوند كے مقربين ہميشہ خالصانہ طور پر اس كے حضور سجدہ كرتے ہيں _إن الذين عند ربك ...له يسجدون

''يسجدون'' پر ''لہ'' كا مقدم كرنا، حصر اور خلوص پر دلالت كرتاہے_

۶_ خداوند كى ياد اور ذكر كے مصاديق ميں سے ايك، خدا كى عبادت كرنا، اسكے ان اسماء و صفات كو زبان پر لانا كہ جو تنزيہ الہى كى حكايت كرتے ہيں اور اسكے حضور سجدہ ريز ہونا ہے_و اذكر ربك ...إن الذين عند ربك ...و له يسجدون

۷_ خداوند كو ہر عيب و نقص سے منزہ جاننے اور اسكى مخلصانہ عبادت كرنے ميں مقربين الہى كو اپنا نمونہء عمل بنانا اور انكى اقتداء كرنا لازمى ہے _اذكر ربك ...إن الذين عند ربك لا يستكبرون عن عبادته

۸_ خداوند كا تقرب، اسكى پرستش كرنے، اسے ہر عيب و نقص سے منزہ جاننے اور اسكى بارگاہ ميں مخلصانہ سجدہ كرنے سے مربوط ہے_و لا تكن من الغفلين_ إن الذين عند ربك ...و له يسجدون

۹_ ملاءكہ ہميشہ خداوند كے سامنے تواضع كرتے ہيں اسكى عبادت كرتے ہيں اور اسے منزہ جانتے ہوئے فقط اسى كى بارگاہ ميں سجدہ انجام ديتے ہيں _ان الذين عند ربك ...و له يسجدون

بہت سے مفسرين كا نظريہ ہے كہ ''الذين عند ربك'' سے مراد ملاءكہ ہيں _

۴۳۸

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۲، ۶، ۷، ۹; اللہ تعالى كے منزہ ہونے كے آثار ۸

تقرب:تقرب كے علل و اسباب ۸

تكبر:تكبر كے آثار ۴

ذكر:ذكر خدا كى اہميت ۳; موارد ذكر ۶

سجدہ:سجدہ كى اہميت ۶; سجدے كے آثار ۸

عبادت:ترك عبادت كے اسباب ۴; عبادت خدا، ۳، ۶ عبادت كے آثار ۸; موارد عبادت ۳

غفلت:خدا سے غفلت كے اسباب ۴

مقربين:مقربين كا اخلاص ۵، ۷; مقربين كا سجدہ ۵; مقربين كونمونہ بنانا ۷; مقربين كى تسبيح ۲، ۷; مقربين كى تقليد ۷; مقربين كى تواضع ۱; مقربين كى عبادت ۷;مقربين كے فضائل ۱، ۵

ملاءكہ:ملاءكہ كا سجدہ ۹; ملاءكہ كى تواضع ۹;ملاءكہ كى عبادت ۹

ورد:ورد كى اہميت ۳، ۶

۴۳۹

۸. سورة الأنفال

آیت ۱

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِِ )

( يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنفَالِ قُلِ الأَنفَالُ لِلّهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُواْ اللّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بِيْنِكُمْ وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ )

پيغمبر يہ لوگ آپ سے انفال كے بارے ميں سوال كرتے ہيں تو آپ كہہ ديجئے كہ انفال سب اللہ اوررسول كے لئے ہيں لہذا تم لوگ اللہ سے ڈرو اور آپس ميں اصلاح كرو اور اللہ و رسول كى اطاعت كرو اگر تم اس پر ايمان ركھنے والے ہو(۱)

۱_ مسلمانوں كا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے انفال كے مالك كى تعيين اور اسے تقسيم كرنے كى كيفيت كے بارے ميں بار بار پوچھنا_يسئلونك عن الأنفال

جملہ''قل الأنفال لله و الرسول'' كہ جو مالك انفال كو تعيين كررہاہے، اور يہ جملہ مسلمانوں كے سوال كے جواب ميں كہا گيا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ مسلمانوں كا سوال انفال كے مالك كے علاوہ اسى كے ضمن ميں اس انفال كى تقسيم كے بارے ميں بھى تھا_

۲_ جنگى غنائم كے مالك كو تعيين كرنے اور اسے تقسيم كرنے كى كيفيت كے بارے ميں صدر اسلام كے مسلمانوں كا اختلاف كرنا_يسئلونك عن الأنفال قل الأنفال للّه و الرسول ...و اصلحوا ذات بينكم

بعد والى آيات كے مطابق كہ جن ميں دشمن كے خلاف جنگ كى بحث ہورہى ہے اور اسى طرح آيت كے بارے ميں نقل شدہ شان نزول سے بھى معلوم ہوتاہے كہ جملہ''يسئلونك عن الأنفال'' سے مراد وہ مال تھا كہ جو معركہء جنگ ميں دشمن سے رہ گيا تھا اور مسلمانوں كے قبضے ميں آگيا تھا_ انفال كا حكم بيان كرنے كے بعد خداوند كى طرف سے مشاجرہ اور اختلاف ترك كرنے كا حكم و نصيحت ظاہر كررہاہے كہ وہ باقى ماندہ اموال مسلمانوں ميں باعث اختلاف تھا_

۳_ دشمن سے رہ جانے والا مال اور جنگى غنائم، انفال ميں سے ہیں _

يسئلونك عن الأنفال قل الأنفال للّه والرسول

''يسئلونك عن الأنفال'' ميں انفال سے مراد جنگى غنائم ہيں جواب ميں اس كلمہ كا تكرار ظاہر كرتاہے كہ ''قل الأنفال'' ميں

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736