تفسير راہنما جلد ۶

 تفسير راہنما 5%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 736

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 736 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 194520 / ڈاؤنلوڈ: 5162
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۶

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

۴ كلمہ ''ء ىا ت'' كو جمع لانے ميں اس بات كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ مذكورہ عذابوں ميں سے ہر ايك حقانيت موسىعليه‌السلام كى علامت تھا_

_ آل فرعون پر نازل ہونے والے عذاب (طوفان و غيرہ)، يكے بعد ديگرے اور فاصلے كے ساتھ متحقق ہوئے_

فا رسلنا عليهم ...أيات مفصلت

كلمہ ''مفصلت'' ہوسكتاہے كہ ذكر شدہ عذابوں كيلئے حال ہو يا پھر يہ كہ آيات كيلئے صفت ہو، كلمہ ''فصل'' جدا كرنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے جبكہ ''مفصلت ''،كا مصدر ''تفصيل'' جدا كرنے كے عمل كى شدت پر دلالت كرتاہے، بنابرايں كلمہ ''مفصلت'' سے مراد يہ ہے كہ وہ عذاب اور نشانياں ايك دوسرے سے جدا طور پر اور طولانى مدت كے فاصلے كے ساتھ واقع ہوئيں _

۵_ قدرتى عوامل اور دوسرے سب موجودات ،خدا كے اختيار ميں ہيں اور ان كے افعال اس كے ارادے سے وابستہ ہيں _فا رسلنا عليهم الطوفان والجراد و القمل و الضفادع والدم

۶_ فرعونى رسالت موسىعليه‌السلام كى حقانيت پر قائم متعدد آيات كا مشاہدہ كرنے كے باوجود ، اسے قبول كرنے سے كتراتے رہے_فا رسلنا عليهم ...فاستكبروا

۷_ فرعونيوں كا تكبر اور گھمنڈ، آيات الہى اور رسالت موسيعليه‌السلام سے ان كے انكار كا باعث تھا،فا رسلنا عليهم ...فاستكبروا

استكبار يعنى اپنے آپ كو بڑا سمجھنا اور چونكہ فعل ''استكبروا'' حرف ''فاء'' كے ذريعہ ارسال آيات پر تفريع ہوا ہے لہذا اس معنى كا لازمہ (يعنى انكار كرنا اور قبول نہ كرنا) مراد ليا گيا ہے اور انكار كرنے اور قبول نہ كرنے كے بجائیے كلمہ استكبار كو استعمال كرنے كا مقصد انكار كرناہے، يعني: آل فرعون كے انكار كا سبب ان كا تكبر تھا_

۸_ تكبراور گھمنڈ، آيات الہى سے انكار كا باعث بنتاہے_أيات مفصلّت فاستكبروا

۹_ فرعونى مجرم اور مفسد لوگ تھے_و كانوا قوما مجرمين

۱۰_ فرعونيوں كاگناہ اور فساد، آيات الہى كے سامنے ان

۲۲۱

كے استكبار كا باعث تھاأيات مفصلت فاستكبروا و كانوا مجرمين

جملہ ''كانوا ...'' آيات الہى كے مقابلے ميں فرعونيوں كے تكبر كے سبب كو بيان كرتاہے_

۱۱_ گناہ اور فساد، مستكبرانہ احساسات كى پيداءش كى راہ فراہم كرتے ہيں اور آيات الہى سے انكار كا باعث بنتے ہيں _

فاستكبروا و كانوا قوما مجرمين

آفرينش:موجودات آفرينش ۵

آيات خدا: ۳آيات خدا كو جھٹلانے كے عوامل ۸، ۱۱;آيات خدا كے بارے ميں استكبار ۱۰;

الله تعالى :اللہ تعالى كاارادہ۵;اللہ تعالى كے عذاب ،۱، ۲

تكبر:تكبر كے آثار ۷، ۸;تكبر كے اسباب ۱۱

عذاب:ٹڈيوں كے ذريعے عذاب ۲; جوؤں كے ذريعے عذاب ۲; خون كے ذريعے عذاب ۲;طوفان كے

ذريعے عذاب ۲;مينڈكوں كے ذريعے عذاب ۲;

فرعوني:آل فرعون اور موسىعليه‌السلام ۶;آل فرعون پر عذاب كے اسباب; آل فرعون كا استكبار ۷;آل فرعون كا افساد ۶; آل فرعون كا كفر ،۱;آل فرعون كى ماہٹ دھرمى ۶; آل فرعون كے استكبار كے عوامل ۱۰; آل فرعون كے كفر كے عوامل ۷; آل فرعون كے عذاب كى كيفيت ۴;آل فرعون كے عذاب كا متعدد ہونا ۱، ۲، ۳، ۴ ; آل فرعون كے فساد كے اثرات ۱۰;آل فرعون كے گناہ كے اثرات ۱۰

فساد:فساد كے اثرات ،۱۱

قدرتى عوامل :قدرتى عوامل كا عمل ۵

كفر:آيات خدا كا كفر ۷;كفر كى دنيوى سزا ،۱;موسىعليه‌السلام كے بارے ميں كفر ،۱، ۶، ۷

گناہ:گناہ كے اثرات ،۱۱

مجرمين: ۹

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام كو جھٹلانے والوں پر عذاب ۲;موسىعليه‌السلام كى حقانيت كى نشانياں ۳، ۶موسىعليه‌السلام كى داستان ۶

۲۲۲

آیت ۱۳۴

( وَلَمَّا وَقَعَ عَلَيْهِمُ الرِّجْزُ قَالُواْ يَا مُوسَى ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ لَئِن كَشَفْتَ عَنَّا الرِّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لَكَ وَلَنُرْسِلَنَّ مَعَكَ بَنِي إِسْرَائِيلَ )

اور جب ان پر عذاب نازل ہوگيا تو كہنے لگے كہ موسى اپنے رب سے دعا كرو جس بات كا اس نے وعہ كيا ہے اگر تم نے اس عذاب كو دور كراديا تو ہم تم پرايمان بھى لائیں گے اوربنى اسرائیل كوتمھارے حوالے بھى كرديں گے(۱۳۴)

۱_ فرعوني، پنجگانہ آيات (طوفان و غيرہ) كا مشاہدہ كرنے كے بعد، رسالت موسىعليه‌السلام سے انكار پر مصرّ رہنے كى وجہ سے پہلے سے زيادہ سخت عذاب ميں مبتلا ہوئے_و لما وقع عليهم الرجز قالوا ى موسى ادع لنا ربك

كلمہ '' رجز'' كامعنى عذاب ہے اور اس ميں ''ال'' عہد ذكرى بھى ہوسكتا ہے كہ اس صورت ميں گزشتہ آيات ميں مذكور پانچ عذابوں كى طرف اشارہ ہوگا چنانچہ اس ميں ''ال'' عہد ذہنى بھى ہوسكتاہے كہ اس صورت ميں گزشتہ ذكر شدہ عذابوں كے علاوہ كسى اور عذاب كى طرف اشارہ ہوگا كہ جو اس لحاظ سے پہلے عذابوں سے زيادہ سخت ہے_ كہ انہوں نے حضرت موسىعليه‌السلام سے اسكے رفع ہونے كى درخواست كى مندرجہ بالا مفہوم اسى دوسرے احتمال كى بنياد پر اخذ كيا گيا ہے_

۲_ فرعونيوں نے شديد عذاب ميں گرفتار ہونے كے بعد، حضرت موسىعليه‌السلام سے درخواست كى كہ خدا سے دعا مانگو كہ وہ ہم سے عذاب ٹال دے_و لما وقع عليهم الرجز قالوا يموسى ادع لنا ربك

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام درگاہ خدا ميں عالى منزلت پر فائز ايك مستجاب الدّ عوہ پيغمبر تھے_ادع لنا ربك بما عهد عندك

حضرت موسىعليه‌السلام سے دعا كے بارے ميں آل فرعون كى درخواست كى مناسبت سے معلوم ہوتاہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كو خدا كى طرف سے ديئے گئے عہد سے مراد، درگاہ خدا ميں آپعليه‌السلام كى دعا كا قبول ہونا ہے_

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام كو ديئے گئے خدا كے وعدوں ميں سے ايك، آل فرعون سے عذاب كے رفع ہونے كے بارے ميں آپعليه‌السلام كى دعا كا قبول ہوناہے_ادع لنا ربك بما عهد عندك

فوق الذكر مفہوم اس اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ ''موسيعليه‌السلام كے ساتھ خدا كے عہد'' سے مراد صرف آل فرعون سے عذاب كے برطرف ہونے كے بارے ميں موسىعليه‌السلام كى دعا كا قبول ہوناہے نہ كہ سارى دعائیں _ آل فرعون اپنے گزشتہ تجربات يا خود موسىعليه‌السلام كے قول كے ذريعے اس بات سے آگاہ تھے كہ خداوند متعال نے آپعليه‌السلام كو وعدہ ديا ہے كہ اگر وہ آل فرعون سے عذاب ٹلنے كے بارے ميں دعا كريں تو ان كى دعا قبول ہوگي_

۲۲۳

۵_ آل فرعون، عذاب ٹلنے كے بارے ميں حضرت موسىعليه‌السلام كو خدا كے ديئے گئے وعدے سے آگاہ تھے_

ادع لنا ربك بما عهد عندك

۶_ آل فرعون نے حضرت موسىعليه‌السلام كو خدا كے نزديك ان كے(مستجاب الدعوہ ہونے) كى قسم دى كہ عذاب كے رفع ہونے كے بارے ميں خدا سے دعا مانگيں _ادع لنا ربك بما عهد عندك

فوق الذكر مفہوم ميں ''بما عہد'' ميں مذكور حرف ''باء'' قسم كيلئے ليا گيا ہے_

۷_ ، موسىعليه‌السلام كے خدا كے بارے ميں آل فرعون كا اعتقاد كہ وہ انسان كى زندگى اور جہان آفرينش ميں مؤثر ہے_

ادع لنا ربك بما عهد عندك

۸_ آل فرعون، عذاب كے رفع ہونے كے بارے ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى دعا كى تاثير سے آگاہ تھے_

ادع لنا ربك بما عهد عندك

۹_ استجابت دعا، خدا كى ربوبيت كا جلوہ ہے_ادع لنا ربك

۱۰_ آل فرعون نے حضرت موسىعليه‌السلام كو وعدہ ديا اور قسم كھائی كہ ان سے شديد عذاب برطرف كرنے كى صورت ميں آپعليه‌السلام پر ايمان لے ائیں گے اور بنى اسرائیل كو آزاد كرديں گے_

لئن كشفت عنا الرجز لنؤ مننّ لك و لنرسلنَّ معك بنى إسرائيل

۱۱_ آل فرعون نے پانچ عذابوں (طوفان و غيرہ) ميں سے ہر ايك كے نازل ہونے كے بعد ،حضرت موسىعليه‌السلام سے وعدہ كيا كہ اس عذاب كو برطرف كرنے كى صورت ميں ان پر ايمان لے ائیں گے اور بنى اسرائیل كو آزاد چھوڑديں گے_

فوق الذكر مفہوم كا اخذ ہونا اس بنياد پر ہے كہ كلمہ ''الرّجز'' كا ''ال'' عہد ذكرى ہو_ بنابراين كلمہ

۲۲۴

'الرّجز'' كے ذريعہ گذشتہ آيت ميں مذكور، پنجگانہ عذابوں كى طرف اشارہ پايا جاتاہے_

۱۲_ رسالت موسىعليه‌السلام پر ايمان اور بنى اسرائیل كى آزادي، آل فرعون سے حضرت موسىعليه‌السلام كا ايك اہم تقاضا تھا_

لنؤمنن لك و لنرسلن معك بنى إسرائيل

۱۳_''و لما وقع عليهم الرجز'' ...روى عن ا بى عبدالله عليه‌السلام : ا نه ا صابهم ثلج ا حمر و لم يروه قبل ذلك فماتوا فيه (۱)

آيت''و لما وقع عليهم الرجز'' كے بارے ميں حضرت امام صادقعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ان پر سرخ برف برسى كہ جسے انہوں نے اس سے پہلے نہ ديكھا تھا چنانچہ وہ اسى عذاب ميں مرگئے

الله تعالى :اللہ تعالى كا وعدہ ،۴;اللہ تعالى كى ربوبيت ،۹

ايمان:موسىعليه‌السلام پر ايمان ۱۲

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى تاريخ، ۱۱، ۱۰;بنى اسرائیل كى نجات ۱۰، ۱۱، ۱۲

دعا:اجابت دعا ۹

عذاب:رفع عذاب كى درخواست ۲، ۴، ۵، ۶، ۱۰;عذاب كے مراتب، ۱;طوفان كے ذريعے عذاب ۱۱

فرعوني:آل فرعون اور موسىعليه‌السلام ۶، ۵، ۲ ; آل فرعون پر عذاب ۱، ۲، ۴ ; آل فرعون پر متعدد قسم كے عذاب ۱۱;آل فرعون سے رفع عذاب ۸، ۱۰ ; آل فرعون كا عقيدہ ۷; آل فرعون كا موسىعليه‌السلام سے عھد ۱۰، ۱۱ آل فرعون كى آگاہى ۸; آل فرعون كى خواہشات۲، ۶، ۱۰; آل فرعون كى قسم ۱۰; آل فرعون كى ہٹ دھرمى آل فرعون كے ايمان كى شرائط ۱۱، ۱۰

كفر:كفر پر اصرار كى سزا ،۱

مستجاب الدعوہ: ۳،۶

مقربين: ۳

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور آل فرعون ۱۲;موسىعليه‌السلام كو قسم دينا ۶; موسىعليه‌السلام كى تكذيب ;موسىعليه‌السلام كى داستان ۲، ۱۰، ۱۱ ; موسى كى دعا كا قبول ہونا ۳، ۴، ۵، ۶، ۸; موسىعليه‌السلام كے مطالبات ۱۲;موسىعليه‌السلام كے مقامات ۳

____________________

۱)مجمع البيان ج/۴ ص ۷۲۳; نورالثقلين ج/۲ ص ۶۰ ح ۲۲۹

۲۲۵

آیت ۱۳۵

( فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَى أَجَلٍ هُم بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ )

اس كے بعد جب ہم نے ايك مدت كے لئے عذاب كو بر طرف كرديا تو پھر اپنے عہد كو توڑ نے والوں ميں شامل ہوگئے(۱۳۵)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے (رفع عذاب كيلئے دعا كے بارے ميں ) آل فرعون كى درخواست قبول كرتے ہوئے عذاب كے برطرف ہونے كيلئے خدا سے دعا مانگي_فلما كشفنا عنهم الرجز

آيت كريمہ كا سياق يہ ظاہر كرتاہے كہ ''فدعا موسى فكشفنا عنہم الرجز'' كى طرح كا كوئي جملہ مقدر ہے جسے واضح ہونے كى وجہ سے كلام ميں نہيں لايا گيا_

۲_ خداوند متعال نے حضرت موسىعليه‌السلام كى دعا قبول كرتے ہوئے آل فرعون سے عذاب ٹال ديا_فلما كشفنا عنهم الرجز

۳_ خدا كى طرف سے نازل كئےگئے عذابوں كو برطرف كرنا، صرف اسى ذات جل جلالہ كے دست قدرت ميں ہے_

فلما كشفنا عنهم الرجز

آل فرعون (كہ جنہوں نے موسىعليه‌السلام سے رفع عذاب كى درخواست كي) كے كلام (لئن كشفت) كے مقابلے ميں اس آيت كريمہ ميں عذاب كے برطرف كرنے كى نسبت خدا كى طرف دى گئي ہے، اس سے يہ مطلب ہاتھ آتاہے كہ نازل كئے گئے عذابوں كو برطرف كرنے كا اختيار خدا ہى كے ہاتھ ميں ہے_

۴_ بارگاہ خدا ميں دعا كرنا، رحمت كے حصول اور رفع مشكلات كيلئے مؤثر ہے_فلما كشفنا عنهم الرجز

۵_ خداوند متعال نے حضرت موسىعليه‌السلام كى دعا قبول كرتے ہوئے آل فرعون سے عذاب ٹالنے كے بعد انہيں آگاہ كيا كہ وہ ايك محدود مدت تك عذاب ميں مبتلا نہيں ہوں گے_فلما كشفنا عنهم الرجز إلى ا جل هم بلغوه

۲۲۶

''إلى ا جل'' سے يہ مطلب حاصل ہوتاہے كہ خدا نے آل فرعون سے ہميشہ كيلئے عذاب برطرف نہيں كيا بلكہ اسكے لئے مدت معين كى لہذا اگر خدا كى طرف سے يہ مطلب ان تك ابلاغ نہ كيا جاتا تو مدت معيّن كرنے كا مطلوبہ اثر حاصل نہ ہوتا_

۶_ خداوند متعال نے آل فرعون سے عذاب برطرف كرتے ہوئے ان كى طرف سے اپنے وعدے وفا كرنے كيلئے مہلت معين كي_فلما كشفنا عنهم الرجز إلى ا جل

''إلى ا جل'' فعل ''كشفنا'' كے متعلق ہے، يعنى ہم نے ہميشہ كيلئے نہيں بلكہ ايك محدود مدت كيلئے عذاب برطرف كيا ہے، يہ نكتہ بھى قابل ذكر ہے كہ ''إلى ا جل'' كا فعل ''كشفنا'' كے متعلق ہونا استمرار كشف كے لحاظ سے ہے تحقق كشف كے اعتبار سے نہيں ، اس ليئےہ كشف عذاب كے متحقق ہونے كيلئے مہلت كى بات نہ تھي_

۷_ آل فرعون كيلئے مقرر كى گئي مہلت، ايك محدود مہلت تھى كہ جس كے اختتام تك عام لوگ زندہ رہتے_

فلما كشفنا عنهم الرجز إلى ا جل هم بلغوه

جملہ ''ھم بلغوہ'' (يعنى اس مہلت كے اختتام تك وہ لوگ ضرور پہنچتے) كلمہ ''ا جل'' كيلئے وصف كے طور پر لايا گيا ہے اور اس مطلب پر دلالت كرتاہے كہ معيّن كى گئي مہلت اس قدر تھى كہ آل فرعون (سب كے سب يا عام طور پر) اس مہلت كے خاتمے تك زندہ رہتے، يعنى اس قدر طولانى نہ تھى كہ موجودہ نسل كے لوگ عادى موت كے ذريعے مرجائیں _

۸_ آل فرعون، حضرت موسىعليه‌السلام كے ساتھ (تصديق رسالت اور بنى اسرائیل كى آزادى كے بارے ميں ) پكا عہد كرنے كے باوجود آپعليه‌السلام پر ايك لحظہ كيلئے بھى ايمان نہ لائے اور بنى اسرائیل كو بھى آزاد نہ كيا_

لما كشفنا عنهم الرجز ...إذا هم ينكثون

۹_ آل فرعون كا حضرت موسيعليه‌السلام كے ساتھ كئے گئے وعدوں كا پابند نہ ہونا اور عہدشكنى كرنا_إذا هم ينكثون

۱۰_ وعدہ وفا كرنے سے آل فرعون كا انكار ،تعجب آور اور غير متوقع تھا_فلما كشفنا إذا هم ينكثون

''إذا'' فجائی ہ ہے اور اس مطلب پر دلالت كرتاہے كہ آل فرعون كى طرف سے عہد شكنى ،غير متوقع تھى البتہ يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ اس كا غير متوقع ہونا ان لوگوں كے لحاظ سے ہے كہ جو آل فرعون كے عہد دينے پر شاہد تھے يا كسى اور ذريعے سے اس سے آگاہ تھے_

۲۲۷

الله تعالى :اللہ تعالى سے مختص امور ۳;اللہ تعالى كى مہلت ۶; اللہ تعالى كى رحمت كے اسباب ۴; اللہ تعالى كيقدرت۳

ايمان:موسىعليه‌السلام پر ايمان ۸

بلاء:رفع بلاء كے اسباب ۴

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى تاريخ ۵;بنى اسرائیل كى نجات ۸

دعا:دعا كے اثرات ۴;رفع عذاب كى دعا ،۱، ۲

عذاب:رفع عذاب ۳

عہد:عہد پورا كرنے كى اہميت ۶

فرعونى :آل فرعون سے رفع عذاب ۲، ۵، ۶، ۸ ; آل فرعون كا كفر ۸; آل فرعون كو مہلت دينا ۶، ۷ ; آل فرعون كى خواہشات ،۱;آل فرعون كى عہد شكنى ۸، ۹، ۱۰ ;موسىعليه‌السلام كے ساتھ آل فرعون كا عہد ۸، ۹

مستجاب الدعوات: ۲، ۵

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور آل فرعون ۱;موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۵ ;موسىعليه‌السلام كى دعا ،۱ ; موسىعليه‌السلام كى دعا قبول ہونا ۲، ۵

آیت ۱۳۶

( فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَكَانُواْ عَنْهَا غَافِلِينَ )

پھر ہم نے ان سے انتقام ليا اور انھيں دريا ميں غرق كرديا كہ انھوں نے ہمارى آيات كو جھٹلايا تھا اور ان كى طرف سے غفلت برتنے والے تھے(۱۳۶)

۱_ خداوند متعال نے متعدد معجزات دكھانے اور اتمام حجت كرنے كے بعد ،آل فرعون كو سمندر ميں غرق كرديا_

فانتقمنا منهم فا غرقنهم فى اليمّ

كلمہ ''اليمّ'' لغت ميں ، سمندر اور بڑے دريا كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور اس ميں ''ال''

عہد كيلئے ہے چنانچہ بہت سے مفسرين كى رائے يہ ہے كہ اس سے مراد بحيرہ احمر ہے اور بعض كا كہنا يہ ہے كہ اس سے دريائے نيل كى طرف اشارہ ہے_

۲۲۸

۲_ خداوند متعال نے فرعونيوں كو سمندر ميں غرق كركے ان سے انتقام ليا_فانتقمنا منهم فا غرقنهم فى اليمّ

كلمہ''فا غرقنا'' ميں ''فاء'' تفسيريہ ہے، يعنى''ا غرقنا'' كلمہ''انتقمنا'' كا بيان اور اس كى تفسير ہے_

۳_ آل فرعون، حضرت موسىعليه‌السلام كے ساتھ (اُن پر ايمان لانے اور بنى اسرائیل كو آزاد كرنے كے بارے ميں ) كئے گئے عہد كو توڑنے كى وجہ سے انتقام الہى كے اہل ٹھہرے_إذا هم ينكثون فانتقمنا منهم

جملہ''إذا هم ينكثون'' پر جملہ''فانتقمنا'' كى حرف ''فاء'' كے ذريعے تفريع ميں اس بات كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ آل فرعون كى عہد شكنى ان سے انتقام الہى لينے كا سبب بنى تھے_

۴_ آل فرعون، آيات الہى كو جھٹلاتے ہوئے ان كى پرواہ نہيں كرتے تھے _با نهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

فوق الذكر مفہوم ميں ''عنھا'' كى ضمير كلمہ ''اى تنا'' كى طرف پلٹائی گئي ہے كہ اس صورت ميں ''غفلت'' لاپرواہى كے معنى ميں ہوگى نہ كہ بے خبرى كے معنى ميں ، اسلئے كہ اس سے پہلے كا جملہ ''كذبوا ...'' اس مطلب پر دلالت كرتا ہے كہ آل فرعون آيات الہى سے بے خبر نہ تھے_

۵_ آيات خدا سے بے اعتنائی ہى ان كے جھٹلائے جانے كا باعث بنتى ہے_با نهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

جملہ ''و كانوا ...'' جملہ ''كذبوا ...'' كيلئے تعليل ہوسكتاہے_

۶_ آل فرعون نے انتقام الہى سے غافل ہوتے ہوئے آيات خدا كو جھٹلايا_با نهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

فوق الذكر مفہوم اس بنياد پر ليا گيا ہے كہ ''عنھا'' كى ضمير كلمہ ''نقمت'' (''انتقمنا'' سے اخذ شدہ) كى طرف پلٹائی جائیے اور جملہ ''و كانوا ...'' فعل ''كذبوا'' كيلئے حال ہو كہ اس صورت ميں كلمہ ''غفلت'' اپنے حقيقى معنى (بے خبر ہونا) ميں استعمال ہوگا_

۷_ آيات الہى كى تكذيب اور ان سے بے اعتنائی ، آل فرعون كيلئے سمندر ميں غرق ہونے كا باعث بني_

فا غرقنهم فى اليمّ با نهم كذبوا بايا تنا و كانواعنها غفلين

''با نھم كذبوا'' ميں حرف ''باء'' سببيہ ہے اور يہ مفہوم فراہم كرتاہے كہ انتقام الہى كا سبب ، آيات الہى كى تكذيب اور ان سے بے اعتنائی ہے_

۲۲۹

۸_ آيات الہى سے بے اعتنائی كرنے والے اور انہيں جھٹلانے والے لوگ، انتقام الہى ميں گرفتار ہونے كے خطرے سے دوچار ہوتے ہيں _فانتقمنا منهم با نهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

آيات خدا:آيات خدا سے روگردانى كے آثار۵;آيات خدا كى تكذيب ۴،۶;آيات خدا كى تكذيب كے اسباب ۵;آيات خدا كى تكذيب كى سزا ، ۷; آيات خدا كى تكذيب كرنے والے ۴، ۶، ۸

الله تعالى :اللہ تعالى كا انتقام ۲، ۳، ۶;اللہ تعالى كے انتقام كے عوامل ۸;اللہ تعالى كے عذاب

ايمان:موسىعليه‌السلام پر ايمان ۳

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۷;بنى اسرائیل كى نجات ۳

عذاب:عذاب كے اسباب۷

غفلت:انتقام خدا سے غفلت ۶

فرعوني:آل فرعون اور آيات خدا ۴;آل فرعون پر اتمام حجت ،۱; آل فرعون سمندر ميں ۱، ۲، ۳، ۷ ; آل فرعون سے انتقام ۲، ۳ ; آل فرعون كا دنيوى عذاب ۱، ۲، ۳، ۷ ; آل فرعون كا غرق ہونا ۱، ۲، ۳ ; آل فرعون كا كفر۳;آل فرعون كى عہد شكنى ۳;آل فرعون كى غفلت ۶;آل فرعون كى ہلاكت كے اسباب ۷; آل فرعون كے غرق ہونے كے اسباب ۷;موسىعليه‌السلام كے ساتھ آل فرعون كا عہد ۳

۲۳۰

آیت ۱۳۷

( وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُواْ يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُواْ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُواْ يَعْرِشُونَ )

اور ہم نے مستضعفين كو شرق و غرب زمين كا وارث بناديا اوراس ميں بركت عطا كردى اور اس طرح بنى اسرائیل پر اللہ كى بہترين بات تمام ہوگئي كہ انھوں نے صبر كيا تھا اور جوكچھ فرعون اور اس كى قوم والے بنا رہے تھے ہم نے سب كو برباد كرديا اور ان كى اونچى اونچى عمارتوں كو مسمار كرديا(۱۳۷)

۱_ بنى اسرائیل ،ايك طويل عرصہ سے آل فرعون كے زير تسلط رہتے ہوئے، ناتوان و كمزور ہوچكے تھے_

و ا ورثنا القوم الذين كانوا يستضعفون

''كان'' اور اس جيسے دوسرے حروف كے ہمراہ فعل مضارع كا استعمال، زمانہ ماضى ميں اس فعل كے استمرار پر دلالت كرتاہے، بنابرايں جملہ ''كانوا يستضعفون'' يہ مفہوم فراہم كرتاہے كہ آل فرعون كے ہاتھوں بنى اسرائیل كى زبوں حالى ايك طولانى سابقہ ركھتى ہے_

۲_ خداوند متعال نے آل فرعون كو نابود كرتے ہوئے مشرق سے مغرب تك ان كى تمام زمين بنى اسرائیل كے اختيار ميں دے دي_و ا ورثنا القوم الذين كانوا يستضعفون مشرق الا رض و مغربها

۳_ جو زمين خداوند متعال نے آل فرعون كى ہلاكت كے بعد بنى اسرائیل كے اختيار ميں دى وہ بہت ہى بابركت اور زرخيز تھي_و مشرق الارض و مغربها التى باركنا فيها

۴_ زمينوں كا بابركت اور زرخيز ہونا، خدا كے اختيار ميں ہے_مشارق الار ض و مغاربها التى باركنا فيها

۵_ آل فرعون كى ہلاكت اور ان كى زمين پر بنى اسرائیل كى حكومت كے بارے ميں قوم موسىعليه‌السلام كو دى گئي خدا كى بشارت كسى كمى و كاستى كے بغير متحقق ہوگئي_

و تمت كلمت ربك الحسنى على بنى اسرائيل

''كلمہ'' كا معنى ''بات'' ہے اور صدر آيت نيز آيات ۱۲۸، ۱۲۹ كى روشنى ميں اس سے مراد آل فرعون كى ہلاكت اور بنى اسرائیل كى جانشينى كے بارے ميں خوشخبرى ہے، ''تمت'' يعنى بطور كامل محقق ہوئي_

۲۳۱

۶_ آل فرعون كى ہلاكت اور ان كى زمين پر بنى اسرائیل كى حاكميت، قوم موسيعليه‌السلام كو ديئے گئے خدا كے نيك وعدوں ميں سے ہے_و تمت كلمت ربك الحسنى على بنى إسرائيل

كلمہ ''الحسني'' يعنى خوبصورت ترين اور يہ كلمہ ''كلمت'' كيلئے صفت ہے_

۷_ ظالمين كى نابودى اور مستضعفين كى حاكميت، سنن الہى ميں سے ہے_و ا ورثنا القوم الذين كانوا يستضعفون ...و تمت كلمت ربك الحسنى

خداوند متعال نے فعل ''اورثنا'' كے بعد ايك مختصر كلمہ ''بنى اسرائی ل'' كے بجائیے ان كى صفت يعنى ''القوم الذين ...'' كو ذكر كيا تا كہ اس نكتہ كى طرف اشارہ ہوپائے كہ خدا كى حمايت ، صرف بنى اسرائیل ہى كے ساتھ مخصوص نہ تھى بلكہ سنت خدا يہ ہے كہ وہ مستضعفين كو مستكبرين پر فتح عطا كرتاہے_

۸_ مستبكرين كى ہلاكت اور مستضعفين كى حاكميت كى خوشخبرى بشريت كيلئے خدا كے خوبصورت كلمات ميں سے ہے_

و ا ورثنا القوم ...و تمت كلمت ربك الحسنى

۹_ خداوند متعال، مستضعفين كا حامى ہے_و ا ورثنا القوم الذين كانوا يستضعفون

۱۰_ عصر بعثت كے كافروں كى شكست اور ان كى سرزمين پر اسلام كى حاكميت كے بارے ميں پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو خدا كى بشارت_و تمت كلمت ربك

بنى اسرائیل كے مستضعفين كى فتح اور مستكبرين كى ہلاكت كے بارے ميں كلام كے دوران پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كوكلمہ(ربك كے ذريعے) مخاطب قرار دينے (ربك) كا مقصد، اسلام اور مسلمين كى فتح اور كفر اور مستكبر كفّار كى شكست كے بارے ميں خوشخبرى دينا ہے_

۱۱_ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائیل فرعون كى حكومت كے دوران دشمنان دين كے مقابلے ميں صبر اور حوصلے والے لوگ تھے_و تمت كلمت ربك الحسنى على بنى إسرائيل بما صبروا

۱۲_ فرعون كے ظلم و ستم كے سامنے موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائیل كا صبر و حوصلہ، ان كى فتح اور ان كے

۲۳۲

دشمن كى ہلاكت كے بارے ميں وعدہ الہى كے متحقق ہونے كا باعث بنا_

و تمت كلمت ربك الحسنى على بنى إسرائيل بما صبروا

''بما صبروا'' ميں حرف ''باء'' سببيہ اور ''ما'' مصدريہ ہے يعني: ''تمت ...بسبب صبرھم''

۱۳_ مستضعفين كا صبر و حوصلہ، ان كى فتح كيلئے خدا كى امداد حاصل ہونے كى شرط ہے_تمت كلمت ربك ...بما صبروا

۱۴_ خدا كے ذريعے انسان كى تقدير معين ہونے ميں اس كى اپنى كاركردگى كو بھى عمل دخل حاصل ہے_

و تمت كلمت ربك الحسنى على بنى إسرائيل بما صبروا

فوق الذكر مفہوم ،مدد خدا كے سبب يعنى ''بما صبروا'' كو مد نظر ركھتے ہوئے اخذ كيا گيا ہے_

۱۵_ فرعون اور اس كے ساتھى اپنى حكومت كے دوران، ہميشہ اونچى عمارتيں اور محلات بنانے كے درپے رہتے تھے_

و دمرنا ما كان يصنع فرعون و قومه و ما كانوا يعرشون

''ما كانوا'' ميں ''ما'' موصولہ ہے اور ''يعرشون'' كو دليل بناتے ہوئے اس سے مراد عرش و عريش (سائبان) ہے ''كان'' اور ''كانوا'' كے ہمراہ لائے گئے افعال ''يصنع'' اور ''يعرشون'' اس مطلب پر دلالت كرتے ہيں كہ آل فرعون ہميشہ محلات اور سائبان بنانے ميں لگے رہتے، يعنى ان كے بہت محلات تھے_

۱۶_ خداوند متعال نے آل فرعون كى ہلاكت كے بعد ان كے محلات كو بھى بالكل ويران كرديا_

و دمرنا ما كان يصنع فرعون و قومه و ماكانوا يعرشون

فعل ''دمرنا'' كا مصدر ''تدمير'' نابود كرنے كے معنى ميں آتاہے_

۱۷_ تاريخ بشر كى تبديلياں ،خداوند كے ارادے اور تدبير كے تحت ہى رونما ہوتى ہيں _

و ا ورثنا ...كلمت ربك ...و دمرنا

اسلام:اسلام كى حاكميت ۱۰

الله تعالى :اللہ تعالى كا ارادہ ۷; اللہ تعالى كا وعدہ ۶; اللہ تعالى كى امداد كى شرائط ۱۳; اللہ تعالى كى بشارت ۵، ۸، ۱۰ ; اللہ تعالى كى تدبير ۱۷; اللہ تعالى كى سنتيں ۷; اللہ تعالى كے افعال ۲، ۱۶; اللہ تعالى كے وعدے كاپورا ہونا ۱۲

انسان:

۲۳۳

انسان كى تقدير ۱۴

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل پر ظلم ۱;بنى اسرائیل كا صبر ۱۱; بنى اسرائیل كو بشارت ۵; بنى اسرائیل كو وعدہ۶; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۱۱، ۱۲ ; بنى اسرائیل كى جانشينى ۲، ۳، ۵; بنى اسرائیل كى حاكميت ۶، ۵ ;بنى اسرائیل كى زبوں حالي،۱ ; بنى اسرائیل كى فتح ۱۲;موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائیل ۱۱، ۱۲ ;

تاريخ:تاريخى تبديليوں كا سبب ۱۷

زمين:زمين كى بركت كا منشاء ۴

سرزمين:بابركت زمين ۳

صابرين: ۱۱صبر:صبر كے آثار ۱۲، ۱۳

ظالمين:ظالمين كى ہلاكت ۷

ظلم:ظلم پر صبر ۱۲

فتح :فتح كے عوامل ۱۲

فرعون:فرعون كا ظلم ۱۲;فرعون كا محلات بنانا ۱۵;فرعون كى آساءش طلبى ۱۵

فرعوني:آل فرعون اور بنى اسرائی ل،۱; آل فرعون كا علاقہ ۲، ۳، ۵، ۶ ; آل فرعون كا ظلم،۱ ; آل فرعون كا محلات بنانا ۱۵; آل فرعون كى آساءش طلبى ۱۵; آل فرعون كى ہلاكت ۲، ۳، ۶، ۱۶; آل فرعون كى ہلاكت كے اسباب ۱۲; آل فرعون كے محلات كى ويرانى ۱۶

كافر:كافروں كى شكست ۱۰

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو بشارت ۱۰

مستضعفين:مستضعفين كا حامى ۹; مستضعفين كا صبر ۱۳; مستضعفين كى حاكميت ۷، ۸;مستضعفين كى فتح كى شرائط ۱۳

مستكبرين:مستكبرين كى ہلاكت ۸

۲۳۴

آیت ۱۳۸

( وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْاْ عَلَيا قوم يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَّهُمْ قَالُواْ يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَـهاً كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ )

اور ہم نے بنى اسرائیل كو دريا پار پہنچا ديا تو وہ ايك ايسى قوم كے پاس پہنچے جو اپنے بتوں كے گرد مجمع لگائے بيٹھى تھى _ ان لوگوں نے موسى سے كہا كہ موسى ہمارے لئے بھى ايسا ہى خدا بنا دو جيسا كہ ان كا خدا ہے انھوں نے كہا كہ تم لوگ بالكل جاہل ہو(۱۳۸)

۱_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو سمندر عبور كرايا_و جوزنا ببنى إسرائيل البحر

۲_ بنى اسرائیل نے وہى سمندر پار كيا جس ميں آل فرعون غرق ہوئے تھے_و جوزنا ببنى اسرائيل البحر

كلمہ ''البحر'' ميں ''ال'' عہد ذكرى ہے اور آيت ۱۳۶ ميں مذكور ''اليمّ'' كى طرف اشارہ ہے، يعنى ہم نے بنى اسرائیل كو وہى سمندر (كہ جس ميں آل فرعون كو غرق كيا) عبور كرايا_

۳_ قوم موسيعليه‌السلام كے سمندر عبور كرنے كا وقت، اسى سمندرميں آل فرعون كے غرق ہونے كے ساتھ متصل تھا_

فاغرقنهم فى اليم ...و جوزنا ببنى اسرائيل البحر

كلمہ ''و جوزنا ...'' آيت ۱۳۶(فانتقمنا منهم ...) پر عطف ہے_

۴_ سمندر عبور كرنے كے بعد بت پرست لوگوں كے ساتھ بنى اسرائیل كى ملاقات_فا تو عليا قوم يعكفون على ا صنام لهم

فعل ''اتوا'' چونكہ حرف ''علي'' كے ذريعے متعدى ہوا ہے لہذا ''گزرنے'' كے معنى كو متضمن ہے_

۲۳۵

۵_ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں بت پرستى كا وجود_يعكفون على ا صنام لهم

۶_ قوم موسيعليه‌السلام جن بت پرست لوگوں كے پاس سے گزري، ان كے پاس كئي بت تھے_على ا صنام لهم

''ا صنام'' صنم كى جمع ہے اور صنم كا معنى ''بت'' ہے

۷_ قوم موسيعليه‌السلام كے راستے ميں موجود ،بت پرست لوگ ايسے معبودوں كى پرستش كرتے تھے كہ جن كے وہ خود مالك تھے_ا صنام لهم

۸_ قوم موسى كے راستے ميں موجود، بت پرست لوگ اپنے بتوں كى پرستش پر جمے بيٹھے تھے اور ہميشہ انہى كى عبادت ميں مشغول رہتے تھے_يعكفون على اصنام لهم

''يعكفون'' كا مصدر ''عكوف'' ہے اور يہ كسى چيز كى طرف رخ كرنے اور ہميشہ اسى كے ساتھ چمٹے رہنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور يہاں آيت ميں موجود قرائن كى روشنى ميں اس سے مراد پرستش كے ساتھ چمٹے رہناہے، چنانچہ فعل مضارع (يعكفون) بھى استمرار پر دلالت كرتا ہے، بنابراين جملہ ''يعكفون علي ...'' يہ مفہوم فراہم كرتاہے كہ وہاں كے بت كدے پرستش كرنے والوں سے كبھى بھى خالى نہيں ہوتے تھے يا تو قوم كى طرف سے كچھ لوگ بتوں كى پوجا كرنے پر مامور ہوتے تھے يا پھر وہ خود ،بارى بارى ان كى پرستش كرنے آتے تھے_

۹_ بنى اسرائیل نے موسىعليه‌السلام سے كہا كہ جيسے ان لوگوں كے معبود (بت) ہيں ويسے ہى ہمارے لئے بھى ايك معبود بناؤ_

اجعل لنا إلهاً كما لهم ء الهة

۱۰_ بنى اسرائیل نے بت پرستوں اور محسوس معبودوں كے سامنے ان كى فروتنى كا مشاہدہ كرنے پر اپنے لئے بھى ويسے ہى ايك محسوس و ملموس معبود كا تقاضا كيا_فا توا عليا قوم يعكفون على ا صنام لهم قالوا ى موسى اجعل لنا إلهاً كما لهم ء الهة

۱۱_ خراب ماحول اور برى تہذيب و ثقافت سے انسان كا اثر قبول كرنا_

فا توا عليا قوم ...قالوا ى موسى اجعل لنا إلهاً كما لهم ء الهة

۱۲_ بنى اسرائی ل، نعمات خدا كے مقابل ناشكرے لوگ تھے_

و جوزنا ببنى اسرائيل البحر ...قالوا ى موسى اجعل لنا الهاً

غير خدا كى پرستش كى طرف بنى اسرائیل كے مائل

۲۳۶

ہونے اور بحيرہ احمر كو معجزانہ انداز ميں عبور كرتے ہوئے آل فرعون سے ان كے نجات پانے كے درميان زيادہ وقت كا فاصلہ نہ تھا، اس سے يہ حقيقت معلوم ہوتى ہے كہ بنى اسرائیل ناشكرے تھے_

۱۳_ محسوس و ملموس معبود پر اعتقاد، انسان كى جہالت كى علامت ہے_كما لهم ء الهة قال إنكم قوم تجهلون

موسىعليه‌السلام نے بنى اسرائیل كو محسوس و ملموس معبود كے بارے ميں ان كى درخواست (كہ جو جملہ ''كما لھم ء الھة'' سے سمجھى جاتى ہے) پر جاہل كہہ كر پكارا_

۱۴_ قوم موسيعليه‌السلام حقيقى اور قابل پرستش معبود كى خصوصيات سے جاہل تھي_

قالوا ى موسى اجعل لنا إلهاً كما لهم ء الهة قال إنكم قوم تجهلون

۱۵_ نعمات خدا سے قوم موسيعليه‌السلام كى بے اعتنائی اور غير خدا كى پرستش كى طرف ان كى رغبت كا اصلى سبب، ان كى وسيع جہالت تھي_و جوزنا ببنى إسرائيل البحر ...قالوا ى موسي ...قال إنكم قوم تجهلون

جيسا كہ آيت كريمہ سے استفادہ ہوتاہے كہ غير خدا كى پرستش كى طرف بنى اسرائیل كا مائل ہونا، سمندر سے ان كے عبور كرنے كى نعمت كے متحقق ہونے كے بعد تھا، بنابراين كہا جاسكتاہے كہ موسىعليه‌السلام نے انہيں جاہل كہنے ميں اس جہت كو بھى مد نظر ركھا تھا يعنى يہ نادانى ہے كہ انسان نعمات الہى كا مشاہدہ كرتے ہوئے بھى اس كے غير كى طرف رغبت پيدا كرے_ فعل مضارع ''تجھلون'' اس جہالت كى وسعت پر دلالت كرتاہے_

۱۶_ ايسى چيز كى پرستش كرنا كہ جس كا انسان خود مالك ہو، اسكى جہالت كى علامت ہے_

يعكفون على ا صنام لهم ...قال إنكم قوم تجهلون

موسىعليه‌السلام نے جن نكات كے پيش نظر انہيں جاہل كہا وہى ہيں كہ جو ''ا صنام لھم'' سے ہاتھ آتے ہيں يعنى يہ ايك جاہلانہ بات ہے كہ تم لوگ بت پرستوں كو ديكھتے ہو كہ وہ ايسى چيز كى پرستش ميں مشغول ہيں كہ جس كے وہ خود مالك ہيں ، اس كے باوجود تمہارا تقاضا يہ ہے كہ ان كے معبود كے مانند تمہارے پاس بھى ايك معبود ہونا چاہيئے_

۱۷_ معبود بنانے پر بندوں ميں سے كسى بندے (موسىعليه‌السلام ) كے قادر ہونے كا اعتقاد، بنى اسرائیل كى جہالت كى علامت ہے_اجعل لنا إلهاً ...قال إنكم قوم تجهلون جملہ ''اجعل لنا إلھا'' اس مطلب پر دلالت كرتاہے كہ بنى اسرائیل نے موسىعليه‌السلام (كہ جو خود ايك بشر ہيں ) سے تقاضا كيا كہ ان كيلئے ايك معبود مہيا كريں ، چنانچہ موسىعليه‌السلام نے بھى انہيں اسى جہت سے جاہل شمار كيا يعنى يہ ايك جاہلانہ بات ہے كہ تم يہ گمان كرو كہ بندگان خدا ميں سے كوئي

۲۳۷

بندہ، پرستش كے لائق معبود بنا سكتا ہے_

۱۸_ جھوٹے معبودوں كى طرف رجحان كے ذريعے نعمات خدا پر ناشكرا ہونا، انسان كى جہالت كى علامت ہے_

و جوزنا ببنى إسرائيل البحر ...قال إنكم قوم تجهلون

آل فرعون :آل فرعون سمندر ميں ۲،۳;آل فرعون كا غرق ہونا ۳، ۲

الله تعالى :اللہ تعالى كے افعال ۱

انسان:انسان كى طبيعت كا لچكدار ہونا ،۱۱;انسان كے ابعاد، ۱۱

باطل معبود:باطل معبودوں كا مملوك ہونا ۷; باطل معبودوں كى طرف رغبت ۱۸

بت پرست:زمانہ موسىعليه‌السلام كے بت پرست ۵، ۶

بت پرستي:زمانہ موسىعليه‌السلام ميں بت پرستى ۵، ۶

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل اور باطل معبود ۱۵;بنى اسرائیل اور بت پرست ۴، ۶، ۹، ۱۰; بنى اسرائیل اور سچے معبود ۱۴;بنى اسرائیل اور موسىعليه‌السلام ۹; بنى اسرائیل پر نعمات ۱۲، ۱۵; بنى اسرائیل كا عقيدہ ۱۷; بنى اسرائیل كا محسوسات كى طرف رجحان ۱۰; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴ ; بنى اسرائیل كى جہالت ۱۴، ۱۵، ۱۷; بنى اسرائیل كى خواہشات ۱۰، ۹ ; سمندر سے بنى اسرائیل كا عبور ۱، ۲، ۳، ۴ ;بنى اسرائیل كے رجحانات ۱۵; بنى اسرائیل كى ناشكرى ۱۲، ۱۵

جہالت:جہالت كے اثرات ۱۵;جہالت كى علامات ۱۳، ۱۶، ۱۷، ۱۸

جہلاء: ۱۴

عبادت:غير خدا كى عبادت ۱۶

عقيدہ:محسوس معبود پر عقيدہ ۱۳

كردار:كردار پر ماحول كے اثرات ۱۱

كفران:كفران نعمت كے آثار ۱۸

۲۳۸

معبود:محسوس معبود پر عقيدہ ۱۳

نقصان دہ چيز كى پہچان:ثقافتى لحاظ سے نقصانات كى پہچان ۱۱

آیت ۱۳۹

( إِنَّ هَـؤُلاء مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيهِ وَبَاطِلٌ مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

ان لوگوں كا نظام برباد ہونے والا اور ان كے اعمال باطل ہيں (۱۳۹)

۱_ بت پرستى ايك فاسد ائین ہے اور بت پرست بے ہودہ كردار كے مالك ہوتے ہيں _

إن هؤلاء متبرّ ما هم فيه و بطل ما كانوا يعملون

گزشتہ آيت كے قرينہ كى روشنى ميں ''ما ھم فيہ'' سے مراد بت پرستى ہے اور ''ما كانوا يعملون'' سے بتوں كى پرستش اور بت كدوں ميں اعتكاف بيٹھنا مراد ہے، كلمہ ''متبر'' مصدر ''تتبير'' سے اسم مفعول ہے اور ''ہلاك شدہ'' كے معنى ميں ہے اور كسى ائین كى ہلاكت سے مراد اس كا فاسد ہونا ہے_

۲_ فاسد ائین كى پيروى كرنے والوں اور بے نتيجہ اعمال انجام دينے والوں كى تقليد، جہالت و نادانى كى علامت ہوتى ہے_

إنكم قوم تجهلون ان هؤلاء متبّر ما هم فيه

جملہ''ان هؤلائ'' جملہ ''إنكم قوم تجھلون'' كيلئے تعليل ہے يعنى تم لوگ اس وجہ سے نادان ہو كہ ايك فاسد ائین كى پيروى كرنا چاہتے ہو_

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام نے ائین بت پرستى كے فاسد ہونے كى وضاحت كرتے ہوئے بنى اسرائیل (كہ جو اس ائین كے آرزومند تھے) كو ان كى جہالت سے آگاہ كيا_قال إنكم قوم تجهلون إن هؤلاء متبرّ ما هم فيه و بطل ما كانوا يعملون

۴_ بت پرستوں كے اعمال، بارگاہ خدا ميں باطل اور بے ثمر ہيں _و بطل ما كانوا يعملون

۲۳۹

باطل عقيدہ:باطل عقيدہ كى پيروى كرنے والوں كى تقليد ۲

بت پرست:بت پرستوں كے اعمال ۴

بت پرستي:بت پرستى كا بے ثمر ہونا،۱ ;بت پرستى كا فاسد ہونا ،۱ ، ۳

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى تاريخ ۳;بنى اسرائیل كى جہالت ۳

تقليد:مذموم تقليد ۲

جہالت:جہالت كى علامات ۲

عمل:باطل عمل ۴;ناروا عمل ۴

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائیل ۳;موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۳;موسىعليه‌السلام كى داستان ۳

آیت ۱۴۰

( قَالَ أَغَيْرَ اللّهِ أَبْغِيكُمْ إِلَـهاً وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ )

كيا ميں خدا كے علاوہ تمھارے لئے دوسرا خدا تلاش كروں جب كہ اس نے تمھيں عالمين پر فضيلت دى ہے(۱۴۰)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے غير خدا كے لائق عبادت ہونے سے انكار كرتے ہوئے بت پرستى كى طرف اپنى قوم كے رجحان پر حيرت كا اظہار كيا_قال ا غير الله ا بغيكم إلهاً

''ا غير الله '' ميں ہمزہ، انكار اور تعجب كيلئے ہے اور ''كم'' كے ساتھ لام مقدر ہے، كلمہ ''إلھا'' فعل ''ا بغي'' كيلئے مفعول ہے جبكہ''غير الله ''

كلمہ ''إلھا'' كيلئے صفت يا حال ہے يعني:''ا ا بغى لكم إلها غير الله ''

۲_ غير از خدا كوئي شخص اور كوئي چيز بھى پرستش اور الوہيت كے لائق نہيں _قال ا غير الله ا بغيكم إلهاً

۲۴۰

۳_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائیل كو اس وقت كى تمام قوموں اور ملتوں پر فضيلت عطا كي_

و هو فضلكم على العلمين

كلمہ ''العالمين '' كا ''ال'' عہد ہے اور عصر موسيعليه‌السلام كے عالمين كى طرف اشارہ ہے_

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام نے بنى اسرائیل پر خدا كے خصوصى احسان اور فضل و كرم كو بيان كرتے ہوئے صرف اسى كو ان كيلئے لائق عبادت متعارف كرايا_قال ا غير الله ا بغيكم إلها و هو فضلكم على العلمين

جملہ''و هو فضلكم'' حاليہ ہے اور جملہ ''اغير الله ...'' كيلئے تعليل ہے يعني: كيسے ممكن ہے كے غير خدا كو تمھارے لئے پرستش كے واسطے تلاش كروں حالانكہ دوسرى اقوام پر تمھارى برترى جيسى تمام نعمات اسى كى عطا كى ہوئي ہيں _

۵_ حضرت موسىعليه‌السلام نے بت پرستى كى طرف اپنى قوم كے رجحان كو نعمات خدا كى ناشكرى قرار ديا_

ا غير الله ا بغيكم إلها و هو فضلكم على العلمين

۶_ شرك كى طرف رجحان، نعمات خدا كى ناشكرى ہے_ا غير الله ا بغيكم إلها و هو فضلكم على العلمين

۷_ خدا كى پرستش كے ذريعے اس كى نعمات كا شكر بجا لانے كى ضرورت_ا غير الله ا بغيكم إلها و هو فضلكم على العلمين

الله تعالى :اللہ تعالى سے مختص امور ۲;اللہ تعالى كا فضل ۴;اللہ تعالى كى عبادت ۷;اللہ تعالى كى نعمات ۶،۷

بت پرستي:بت پرستى كے اثرات ۵

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى بت پرستى ،۱;بنى اسرائیل كى برترى ۳، ۴ ;بنى اسرائیل كى تاريخ،۱ ;بنى اسرائیل كے رجحانات ۱، ۵; بنى اسرائیل كے فضائل ۴;عصر موسى كے بنى اسرائیل ۳

توحيد:توحيد عبادى ۲،۴

شرك:شرك كا رجحان ۶

شكر:شكر نعمت كى اہميت ۷

عبادت:عبادت خدا ۷ كفران:كفران نعمت ۵، ۶

۲۴۱

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائیل ۵;موسىعليه‌السلام اور توحيد عبادى ۴;موسىعليه‌السلام اور شرك عبادى ;موسىعليه‌السلام كا تعجب،۱ ;موسىعليه‌السلام كا قصّہ، ۱،۵ ;موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۴

آیت۱۴۱

( وَإِذْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَونَ يَسُومُونَكُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ يُقَتِّلُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ )

اور جب ہم نے تم كو فرعون والوں سے نجات دى جو تمھيں بدترين عذاب ميں مبتدلا كر رہے تھے تمھارے لڑكوں كوقتل كر رہے تھے اور لڑكيوں كوخدمت كے لئے باقى ركھ رہے تھے اور اس ميں تمھارے لئے پروردگار كى طرف سے سخت ترين امتحان تھا (۱۴۱)

۱_ بنى اسرائی ل، آل فرعون كے زير تسلط ہميشہ سخت عقوبتوں ميں گرفتار رہے تھے_

و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون يسومونكم سوء العذاب

''يسومون'' كا مصدر ''سوم'' مسلط كرنا كے معنى ميں آتاہے كلمہ''سَوئ'' كى كلمہ ''العذاب'' كى طرف اضافت ايك صفت كى موصوف كى طرف اضافت ہے، يعني: العذاب السوئ_

۲_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو بعثت موسيعليه‌السلام كے ذريعے آل فرعون كے تسلط اور ان كے جان ليوا شكنجوں سے نجات دلائی _و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون يسومونكم سوء العذاب

جملہ''هو فضلكم'' (اس نے تمہيں فضيلت بخشي) ميں فضيلت بخشنے كى نسبت صرف خدا كى طرف دى گئي ہے ليكن دوسرے جملے''ا نجيناكم'' (ہم نے تمہيں نجات دي) ميں نجات بخشنے كى نسبت ضمير ''نا'' (يعنى ہم) كى طرف دى گئي ہے اس موازنے سے سمجھا جا سكتاہے كہ خدا نجات بخشنے كے عمل ميں اسباب كى طرف بھى نظر ركھتاہے كہ مذكورہ بحث كى مناسبت سے اس كا سبب بعثت موسىعليه‌السلام ہے، بنابراين''ا نجيناكم'' كا معنى يہ ہوگا كہ ہم نے بعثت موسيعليه‌السلام كے ذريعے تمہيں نجات دي_۳

_ آل فرعون كے تسلط اور ان كے عذابوں سے نجات بنى اسرائیل كيلئے ہميشہ ياد ركھنے كے قابل ايك يادگار واقعہ ہے_

و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون يسومونكم سوء العذابكلمہ ''إذ'' فعل مقّدر ''اذكروا'' كيلئے مفعول بہ ہے_

۲۴۲

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام نے آل فرعون كے رنج و آزار سے نجات بخشنے كے سلسلہ ميں بنى اسرائیل پر لطف خدا كا سہارا ليتے ہوئے انہيں خدائے يكتا كى پرستش اور شرك سے اجتناب كى ضرورت سے آگاہ كيا_

قال ا غير الله ا بغيكم الهاً ...و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون

مندرجہ بالا مفہوم اس اساس پر ليا گيا ہے كہ مورد بحث آيت ميں مذكور مفاہيم حضرت موسىعليه‌السلام كے كلام سے لئے گئے ہوں اور ان كے اصلى مخاطبين وہى لوگ ہوں كہ جو سمندر عبور كرنے كے بعد بت پرستى كى طرف مائل ہوئے_

۵_ نعمات الہى كى طرف توجہ، انسان كيلئے توحيد پر قائم رہنے اور شرك و بت پرستى كے رجحان سے اجتناب كرنے كا باعث بنتى ہے_قال ا غير الله ا بغيكم الهاً ...و إذ ا نجينكم

۶_ آل فرعون، بنى اسرائیل كے بيٹوں كو قتل كر ڈالتے اور ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑ ديتے تھے_

يقتلون ا بناء كم و يستحيون نساء كم

فعل ''يقتلون'' كا مصدر ''تقتيل'' (كثرت سے قتل كرنا) كے معنى ميں ہے، اور ''استحياء'' (زندہ چھوڑ دينا) كے معنى ميں ہے _

۷_ بيٹوں كا وسيع پيمانے پر قتل عام اور عورتوں كوزندہ چھوڑ دينا، بنى اسرائیل كيلئے آل فرعون كى طرف سے سخت ترين سزا تھي_يسومونكم سوء العذاب يقتلون ا بناء كم و يستحيون نساء كم

جملہ''يقتلون ابناء كم و يستحيون نساء كم'' گزشتہ جملہ كيلئے تفسير ہوسكتاہے_ يعنى''سوء العذاب'' سے مراد وہى بيٹوں كا قتل عام اور عورتوں كو زندہ چھوڑناہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ اس كے ايك مصداق كو بيان كرنے كيلئے ہو يعنى آل فرعون نے تم پر جو عذاب مسلط كيے ان ميں سے ايك بيٹوں كا قتل عام اور عورتوں كو زندہ چھوڑنا ہے اس بنياد پر صرف دو عذابوں كو ذكر كرنا ان كے شديدتر ہونے كى وجہ سے ہے_

۸_ آل فرعون كے ہاتھوں اپنے بيٹوں كے قتل عام كى وجہ سے، بنى اسرائیل كى عورتيں زندگى كى خوشيوں سے محروم ہوچكى تھيں _يسومونكم سوء العذاب يقتلون ا بناء كم و يستحيون نساء كم

''عورتوں كو زندہ چھوڑنا، قوم بنى اسرائیل كيلئے ايك عذاب كے طور پر تھا جبكہ خود عورتيں بھى اس قوم كا حصّہ تھيں اور چونكہ صرف زندہ چھوڑ دينا عذاب شمار نہيں كيا جاسكتا لہذا كلمہ ''يستحيون'' كہ جو كلمہ ''يقتلون'' كے بعد ذكر ہوا ہے كو مد نظر ركھتے ہوئے كہا جاسكتاہے كہ

۲۴۳

بيٹوں كو كچھ اس طرح قتل كيا جاتا كہ عورتيں يعنى قوم كى مائیں اپنے زندہ رہنے اور فرزندوں كو قتل ہوتا ديكھنے كى وجہ سے سخت رنج و عذاب ميں تھيں چنانچہ كلمہ ''ا بناء'' كے مقابلے ميں كلمہ ''نساء'' كا استعمال اس احتمال كى تائی د كرتاہے_

۹_ بنى اسرائیل كى عورتوں كو زندہ چھوڑنے سے آل فرعون كا مقصد ،ان كا استثمار تھا _*

يسومونكم سوء العذاب ...يستحيون نساء كم

عورتوں كے زندہ چھوڑنے كو عذاب كے عنوان سے بيان كرنا ان كے استثمار كى ايك اور توجيہ ہے_

۱۰_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو فرعون كے جان ليوا عذابوں ميں گرفتار كرنے كے ذريعے ايك بڑيآزماءش ميں ڈالا_

يسومونكم سوء العذاب ...و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

كلمہ ''بلاء'' آزماءش كے معنى ميں بھى ہوسكتاہے اور نعمت كے معنى ميں بھى ''ذلكم'' كا مشار اليہ يا تو عذاب ہے يا اس سے نجات، مندرجہ بالا مفہوم ميں كلمہ ''بلاء'' كو آزماءش كے معنى ميں ليا گيا ہے اور ''ذلكم'' كا مشاراليہ خود عذاب جانا گيا ہے_

۱۱_ خداوند متعال نے عصر موسىعليه‌السلام كے بنى اسرائیل كو فرعون كے شديد عذاب اور شكنجوں سے نجات دلاتے ہوئے ايك بھارى آزماءش سے دوچار كيا_و إذ انجينكم ...و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

فوق الذكر مفہوم كى اساس يہ ہے كہ كلمہ ''بلاء'' آزماءش كے معنى ميں ہو اور ''ذلكم'' كے ذريعے عذاب سے نجات كى طرف اشارہ مقصود ہو_

۱۲_ آل فرعون كى عقوبتوں سے نجات، بنى اسرائیل كيلئے خدا كى ايك عظيم نعمت تھي_

و إذ ا نجينكم ...و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

مندرجہ بالا مفہوم ميں كلمہ ''بلاء'' كو نعمت كے معنى ميں ليا گيا ہے اور ''ذلكم'' كا مشار اليہ عذاب سے نجات (كہ جسے ''ا نجيناكم'' سے استفادہ كيا گيا ہے) كونظر ميں ركھا گيا ہے_و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۳_ خداوند متعال مشكلات، نعمات اور انعامات كے ذريعے انسان كا امتحان ليتاہے_

و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۴_ انسان كى سختيوں كے ذريعے آزماءش، خدا كے مقام ربوبى كے ساتھ مربوط ہے اور يہ اس كے رشد و تربيت كيلئے ہوتى ہے_و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۲۴۴

۱۵_ تاريخ اور اس كے واقعات پر ارادہ خدا كى حاكميت قائم ہے_و إذا ا نجينكم ...و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

آل فرعون :آل فرعون اور بنى اسرائیل ۱; آل فرعون كا استعمارى رويہ ۹; آل فرعون كا ظلم ۶;آل فرعون كى آدم كشى ۶، ۸;آل فرعون كى حاكميت ۱، ۳; آل فرعون كى عقوبتيں ۱، ۲، ۳، ۴، ۷;

الله تعالى :اللہ تعالى كا امتحان ۱۰، ۱۱، ۱۳ ;اللہ تعالى كا لطف ۶; اللہ تعالى كى ربوبيت كے مظاہر ۱۴; اللہ تعالى كى مشيّت ۱۵; اللہ تعالى كى نعمات ۱۲;اللہ تعالى كے ا فعال ۲، ۱۰، ۱۱

امتحان:امتحان كے وسائل ۱۳، ۱۴;رنج و آزار كے ذريعے امتحان ۱۱;مشكلات كے ذريعے امتحان ۱۳، ۱۴ ; نعمت كے ذريعے امتحان ۱۳

بت پرستي:بت پرستى سے اجتناب كے عوامل ۵

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل پر نعمتيں ۱۲;بنى اسرائیل كا امتحان ۱۰، ۱۱;بنى اسرائیل كى آزماءش ۱۰; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲ ; بنى اسرائیل كى عقوبت ۱، ۲، ۳، ۴، ۷، ۱۰، ۱۱ ;بنى اسرائیل كى عورتوں پر عذاب ۸;بنى اسرائیل كى عورتوں كا استثمار ۹;بنى اسرائیل كى عورتوں كو زندہ چھوڑنا ۶، ۷، ۹ ; بنى اسرائیل كى نجات ۳، ۴، ۱۱، ۱۲ ;بنى اسرائیل كى نجات كا منشاء ۲;بنى اسرائیل كے بيٹوں كا قتل ۶،۷،۸

تاريخ:تاريخ سے عبرت پانا ۳;تاريخ كا محرك ۱۵; تاريخى تبديليوں كا منشاء ۱۵

تربيت:تربيت كے اسباب ۱۴

توحيد:توحيد پر قائم رہنے كے اسباب ۵;توحيد عبادى كے اسباب ۴

ذكر:ذكر تاريخ ۳;ذكر نعمت كے اثرات ۵;نعمات خدا كا ذكر ۵

رشد:رشد كے اسباب ۱۴

شرك:شرك سے اجتناب كے عوامل ۴، ۵

فرعون:فرعون كى عقوبتيں ۱۰، ۱۱

موسىعليه‌السلام :

۲۴۵

بعثت موسىعليه‌السلام ۲;موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائیل ۴;موسىعليه‌السلام كاقصّہ ۲;موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۴

آیت ۱۴۲

( وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلاَثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً وَقَالَ مُوسَى لأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ )

اور ہمنے موسى سے تيس رتوں كا وعدہ ليا اور اسے دس مزيد راتوں سے مكمل كرديا كہ اس طرح ان كے رب كا وعدہ چالى راتوں كا وعدہ ہوگيا اورانھوں نے اپنے بھائی ہارون سے كہا كہ تم قوم ميں ميرى نيابت كرو اور اصلاح كرتے رہو اور خبردار مفسدوں كے راستہ كا اتباع نہ كرنا (۱۴۲)

۱_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو سمندر عبور كرانے كے بعد، موسىعليه‌السلام كو ايك خاص عبادت اور مناجات كيلئے بلايا_

و وعدنا موسى ثلثين ليلة

كلمہ ''ليلة'' كو استعمال كرنے ميں ، با وجود اس كے كہ دن اور رات كيلئے عام طور پر كلمہ ''يوم'' سے استفادہ كيا جاتاہے، اس بات كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ خدا نے موسىعليه‌السلام كو عبادت كيلئے بلايا تھا اور چونكہ موسىعليه‌السلام اپنى قوم ميں رہتے ہوئے بھى عبادت اور مناجات ميں مشغول رہتے تھے اس سے يہ معلوم ہوتاہے كہ وہ عبادت اور مناجات خاص تھي_

۲_ پہلے مرحلہ ميں موسىعليه‌السلام كى خاص عبادت اور مناجات كى مدت تيس راتيں متعين كى گئي_و وعدنا موسى ثلثين ليلة

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام عبادت و مناجات كيلئے تيس راتيں گزارنے كے علاوہ مزيد دس راتيں مكمل كرنے كے بھى پابند ہوئے_و ا تممنها بعشر فتم ميقات ربه ا ربعين ليلة

''ميقات'' يعنى كسى كام كے انجام دينے كيلئے متعيّن كيا گيا وقت، ''ميقات ربہ'' يعنى وہ وقت كہ جسے خدا نے عبادت و مناجات كے انجام دينے كيلئے موسيعليه‌السلام كيلئے متعين كيا_

۴_ خداوند متعال كے ساتھ موسىعليه‌السلام كى خاص مناجات كل چاليس راتوں ميں مكمل ہوئيں اور مطلوبہ حد تك پہنچيں _

فتم ميقت ربه ا ربعين ليلة

فعل ''تمّ'' كلمہ ''بلغ'' كے معنى كو متضمن ہے، اس لحاظ سے كلمہ ''اربعين'' اسكے لئے مفعول بہ ہے، يعنى''فتمّ ميقات ربه بالغاً اربعين ليلة''

۲۴۶

۵_ چاليس راتوں كى عبادت اور مناجات، كامل اور ايك خاص اثر كى حامل عبادت و مناجات ہيں _

و ا تممنها بعشر فتم ميقت ربه ا ربعين ليلة

جملہ''ا تممنها'' ميں كلمہ ''اتمام'' كا استعمال نيز جملہ''فتم ميقت ربه'' ميں (مثلاً ''صار'' كى بجائیے) كلمہ ''تمّ'' سے استفادہ، اس مطلب كو بيان كرتاہے كہ تيس راتوں كى عبادت ايك كامل اور تام عبادت نہ تھى اور چاليس راتوں كے گزرجانے كے بعد كامل اور تام ہوئي_ اس مطلب كى وضاحت كہ تيس ميں دس كے اضافہ سے چاليس راتيں ہوگئيں ''فتم ...اربعين'' ميں مندرجہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ پايا جاسكتاہے_

۶_ خدا كى عبادت اور اس كے ساتھ مناجات كيلئے انبياء كى خلوت نشيني_و وعدنا موسى ثلثين ليلة

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى عبادت و مناجات كے واسطے معين كيے گئے وقت كى مقدار ميں خدا كيلئے ''بداء'' كا ظہور_

و ا تممنها بعشر

۸_ حضرت ہاورنعليه‌السلام ، حضرت موسىعليه‌السلام كے بھائی اور ان كے پيروكار تھے_و قال موسى لا خيه هرون

۹_ حضرت موسىعليه‌السلام نے ا پنے بھائی ہارونعليه‌السلام كو خدا كے ساتھ اپنى مناجات كے خاتمے تك بنى اسرائیل كى رہبرى كيلئے منصوب كيا_و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى امت كو حتى كہ مختصر مدت (مناجات كيلئے جدائی كے وقت) كيلئے بھى رہبر كے بغير نہيں چھوڑا_و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي

۱۱_ انبيائے الہى معاشرے كيلئے رہبر كے انتخاب كا حق ركھتے ہيں _و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي

۱۲_ حضرت موسىعليه‌السلام ، مقام نبوت كے علاوہ بنى اسرائیل كى سياسى قيادت اور امامت كا منصب بھى ركھتے تھے_

و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي

۱۳_ امتوں كى امامت اور قيادت ،نبوت و رسالت سے جدا منصب ہے_و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي جملہ''اخلفنى فى قومي'' يہ مطلب فراہم كرتاہے كہ موسىعليه‌السلام نے ہارونعليه‌السلام كو بنى اسرائیل كى امامت و رہبرى كيلئے باقاعدہ منصوب كيا اگر امامت و رہبرى اور پيغمبرى ميں كوئي تفاوت نہ ہوتا تو كيا ضرورت تھى كہ موسيعليه‌السلام اپنے بھائی ہارونعليه‌السلام (كہ جو خود بھى نبى تھے) كو امامت كيلئے منصوب كريں _

۲۴۷

۱۴_ خدا نے موسىعليه‌السلام كو حكم ديا كہ ان كى خاص عبادت و مناجات كى جگہ بنى اسرائیل سے دور ہونى چاہيے_

و وعدنا موسى ...اخلفنى فى قومي

موسىعليه‌السلام نے ميقات كى طرف جانے كى وجہ سے ہارونعليه‌السلام كو اپنا جانشين مقرر كيا، اس سے يہ مطلب سمجھ ميں آتاہےكہ وہ مدت ميقات كے دوران بنى اسرائیل كے درميان موجود نہ تھے بلكہ ان سے دور تھے_

۱۵_ بنى اسرائیل كے معاشرتى امور كى اصلاح، موسىعليه‌السلام كى طرف سے اپنے بھائی اور خليفہ ہارونعليه‌السلام كو ديئے گئے دستور العمل كا حصّہ تھي_و ا صلح

چونكہ اصلاح كے بارے ميں حكم بنى اسرائیل كى سرپرستى كيلئے ہارونعليه‌السلام كے انتخاب كے بعد آياہے لہذا اس سے معلوم ہوتاہے كہ اس سے بنى اسرائیل كے اجتماعي، ثقافتى اور دوسرے امور كى اصلاح مراد ہے نہ يہ كہ ہارونعليه‌السلام كے اپنے ذاتى امور كى اصلاح_

۱۶_ انسانى معاشروں اور امتوں كيلئے ايك مصلح رہبر كى ضرورت ہوتى ہے_اخلفنى فى قومى و ا صلح

۱۷_ مفسدين كى راہ و روش كى پيروى سے اجتناب كرنا، موسىعليه‌السلام كى طرف سے اپنے خليفہ ہارونعليه‌السلام كيلئے ايك معين شدہ فريضہ تھا_و لا تتبع سبيل المفسدين

۱۸_ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كا بنى اسرائی لى معاشرہ ايك مفسد گروہ اور اس كے غلط نظريات اور طرز عمل سے محفوظ نہ تھا_و لا تتبع سبيل المفسدين

۱۹_ حضرت موسىعليه‌السلام اپنى غيبت ميں بنى اسرائیل كے مفسدين كى سازش كے بارے ميں فكرمند تھے_

و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۰_ لوگوں كے معاشرتى امور كى اصلاح اور مفسدين كے افكار كى پيروى سے اجتناب، انبياء اور رہبران الہى كے اہم فرائض ميں سے ہے_و ا صلح و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۱_ برائی كے خلاف مبارزہ كرنا اور مفسدين كو ناكام بنانا، انبيائے الہى كے بنيادى فرائض ميں سے ہے_

و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۴۸

۲۲_ مفسدين، لوگوں پر حكومت كرنے كے اہل نہيں ہيں _و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۳_ مفسدين كے راہ و رسم اور ان كے افكار كى پيروى كرنا، اصلاح معاشرہ سے مانع ہے_و اصلح و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۴_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله: ''و وعدنا موسى ثلثين ليلة و اتممناها بعشر'' قال: بعشر ذى الحجة ...(۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے آيت ''و وعدنا موسى ...'' ميں مذكور كلمہ ''بعشر'' كے بارے ميں مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: اس سے مراد ذى الحجہ كى دس راتيں ہيں

۲۵_عن ابى جعفر عليه‌السلام : ...''و وعدنا موسى ثلثين ليلة'' إلى ''ا ربعين ليلة'' اما ان موسى لم يكن يعلم بتلك العشر و لا بنو اسرائيل .(۲)

حضرت امام باقرعليه‌السلام سے آيت ''و ا تممناھا بعشر'' ميں مذكور كلمہ ''عشر'' كے بارے ميں مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائیل نہيں جانتے تھے كہ ميقات الہى كے وقت دس راتيں اضافہ كى جائیں گي

اعداد:تيس كا عدد ۲، ۳، ۴;چاليس كا عدد ۴، ۵;دس كا عدد ۳، ۴

الله تعالى :اللہ تعالى ميں بداء ۷;اللہ تعالى كى دعوت، ۱

امامت:مقام امامت ۱۳امتيں :امتوں كى ضروريات ۱۶

انبياء:انبياء كى تعليمات ۲۱; انبياء كى خلوت نشيني۶;انبياء كى عبادت۶ ;انبياء كى مسؤوليت ۱۲، ۲۰ ;انبياء كى مناجات ۶;انبياء كے اختيارات ۱۱

برائی :برائی كے خلاف مبارزہ ۲۱

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۱۵، ۱۸ ; بنى اسرائیل كے رہبر ۱۲; بنى اسرائیل كے مفسدين كى سازش ۱۹; سمندر سے بنى اسرائیل كا عبور ،۱ ;عصر موسىعليه‌السلام كے بنى اسرائیل ۱۸

چاليس:

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۲ ص ۲۵ ح ۶۷، نور الثقلين ج/۲ ص ۶۱ ح ۲۳۵_

۲)تفسير عياشى ج/۲ ص ۲۶ ح ۷۰ تفسير برھان ج/۲ ص ۳۳ ح ۴_

۲۴۹

چاليس كے عدد كے آثار ۵

رہبري:اہميت رہبرى ۱۰، ۱۶;دينى رہبرى كى مسؤوليت ۲۰;رہبر بنانا ،۱۱;مسؤوليت رہبرى ۱۵، ۱۷

عبادت:رات كى عبادت كے اثرات ۵;كامل عبادت ۵

فلسفہ سياسي: ۲۲

معاشرہ:اصلاح معاشرہ ۱۵;اصلاح معاشرہ كى اہميت ۲۰ ; اصلاح معاشرہ كے موانع ۲۳;معاشرہ كى ضروريات ۱۶

مفسدين:عصر موسيعليه‌السلام كے مفسدين ۱۸;مفسدين اور حكومت ۲۲;مفسدين سے روگردانى ۲۰، ۱۷;مفسدين كى اطاعت كے اثرات ۲۳; مفسدين كى نااہلى ۲۲; مفسدين كے ساتھ مبارزہ ۲۱

مناجات:رات كے وقت مناجات كے اثرات ۵;كامل مناجات ۵

موسىعليه‌السلام :امامت موسىعليه‌السلام ۱۲;اوامر موسيعليه‌السلام ۱۵;برادر موسىعليه‌السلام ۸; رات كے وقت موسىعليه‌السلام كى مناجات ۴; موسىعليه‌السلام اور ہارون ۹، ۱۵، ۱۷ ; موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۳، ۷، ۹، ۱۰، ۱۴، ۱۵ ، ۱۷، ۱۹ ; موسىعليه‌السلام كى پريشانى ۱۹; موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۱۷; موسىعليه‌السلام كى چلہ نشينى ۳، ۴ ; موسىعليه‌السلام كى چلہ نشينى كى جگہ ۱۴; موسىعليه‌السلام كى ذمہ داري،۳; موسى كى سياسى رہبرى ۱۲; موسىعليه‌السلام كى عبادت ۱۴ ; موسىعليه‌السلام كى مناجات ،۱;موسىعليه‌السلام كے تقاضے ۱۴; موسىعليه‌السلام كے مقامات ۱۲; ميقات موسىعليه‌السلام ،۱ ۱۴ ; ميقات موسىعليه‌السلام كى مدت ۲، ۳ ; ميقات موسىعليه‌السلام كے مراحل ۴; ميقات ميں موسى كى عبادت ۲، ۳، ۷ ;ميقات ميں موسىعليه‌السلام كى مناجات ۲، ۳، ۴، ۷، ۹ ;نبوت موسى ۱۲

موسىعليه‌السلام كے پيروكار: ۸

نبوت:مقام نبوت ۱۳

ہارونعليه‌السلام :ہارونعليه‌السلام اور موسىعليه‌السلام كا بھائی چارہ ۸;ہارون كا انتصاب ۹;ہارون كى داستان ۸، ۹، ۱۵، ۱۷; ہارون كى ذمہ دارى ۱۵، ۱۷;ہارون كى قيادت ۹، ۱۰

۲۵۰

آیت ۱۴۳

( وَلَمَّا جَاء مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَـكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكّاً وَخَرَّ موسَى صَعِقاً فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ )

تو اس كے بعد جب موسى ہمارا وعدہ پورا كرنے كے لئے ائے اور ان كے رب نے ان سے كلام كيا تو انھوں نے كہا كہ پروردگار مجھے اپنے جلوہ دكھا دے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہيں ديكھ سكتے ہو البتہ پہاڑ كى طرف ديكھو اگر يہ اپنى جگہ پر قائم رہ گيا تو پعر مجھے ديكھ سكتے ہو_ اس كے بعد جب پہاڑ پر پروردگار كى تجلى ہوئي تو پہاڑ چور چوڑ ہوگيا اور موسى بيہوش ہوكر گرپڑے پھر جب انھيں ہوش آيا تو كہنے لگے كہ پروردگار تو پاك و پاكيزہ ہے ميں تيرى بارگاہ ميں توبہ كرتا ہوں اور ميں سب سے پہلا ايمان وانے والا ہوں (۱۴۳)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام خدا كے ساتھ مناجات كى جگہ تشريف لے گئے اور يوں دعوت خدا كو بلا تاخير قبول كيا_

و لما جاء موسى لميقتنا

''لميقتنا '' كا لام ''عند'' كے معنى ميں ہے، بنابراين''جاء موسى لميقتنا'' كا معنى يہ ہوگا كہ موسيعليه‌السلام كيلئے جو وقت معين كيا گيا وہ اسى وقت كسى تاخير كے بغير حاضر ہو گئے_

۲_ خداوند متعال نے مناجات كيلئے معيّن كى گئي جگہ ميں موسىعليه‌السلام كى موجودگى كے وقت، ان كے ساتھ كلام كيا_

و لما جاء موسى لميقتنا و كلّمه ربّه

۳_ مناجات كى دعوت كے وقت خدا كا موسيعليه‌السلام كے ساتھ ہم كلام ہونا ان كو ديئے گئے الہى وعدوں ميں سے تھا_

۲۵۱

و لما جاء موسى لميقتنا و كلّمه ربّه

۴_ خدا كا موسىعليه‌السلام كے ساتھ ہم كلام ہونا، اُن كى رشد و تربيت كيلئے تھا_و كلّمه ربّه

۵_ مناجات كى جگہ خدا كے ساتھ كلام كرنے كے وقت موسىعليه‌السلام نے رؤيت خدا كے بارے ميں درخواست كي_

قال ربّ ا رنى ا نظر اليك

۶_ خدا كا موسىعليه‌السلام كے ساتھ ہم كلام ہونا، آپعليه‌السلام كيلئے رؤيت خدا كى درخواست كرنے كا باعث بنا_

و كلّمه ربّه قال ربّ ا رنى ا نظر اليك

چونكہ موسىعليه‌السلام كى طرف سے رؤيت كى درخواست كى بات آپ كے ساتھ خدا كے ہم كلام ہونے كے بعد بيان كى گئي(و لما ...كلّمه ربّه قال ...) لہذا كہا جاسكتاہے كہ حضرت موسى خدا كا كلام سننے كى وجہ سے جمال حق كے ديدار كے مشتاق ہوگئے_

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى درخواست كا خدا كى طرف سے يہ جواب آيا كہ رؤيت خدا، ناممكن ہے_قال لن تراني

۸_ خداوند متعال، آنكھوں كے ذريعے ديكھے جانے سے منزا ہے_قال لن تراني

۹_ انسان، حتى كہ انبياء بھى خداوند متعال كو اپنى آنكھوں كے ذريعے ديكھنے سے ناتوان ہيں _قال لن تراني

۱۰_ علم انبياء كى محدوديت_قال رب ا رني ...قال لن تراني

چونكہ موسىعليه‌السلام رؤيت خدا (ہر معنى كہ جو اُن كى نظر ميں تھا) كے ناممكن ہونے سے آگاہ نہ تھے چنانچہ انہوں نے خدا سے اس بارے ميں درخواست بھى كي، اس سے انبياء كے علم كى محدوديت كا پتہ چلتاہے_

۱۱_ خداوند متعال نے رؤيت كے بارے ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى درخواست كے جواب ميں ان سے كہا: اپنے سامنے كے پہاڑ كى طرف ديكھو اور اس پر تجلى خدا كے اثر كا مشاہدہ كرو_قال لن ترانى و لكن انظر إلى الجبل

كلمہ''الجبل'' ميں ''ال'' عہد حضورى ہے، يعني:انظر إلى هذا الجبل

۱۲_ خدا نے حضرت موسىعليه‌السلام سے كہا كہ اگر پہاڑ ہمارے جلوے كے اثر ميں اپنى جگہ پر قائم رہے تو تم بھى مجھے ديكھ لوگے_و لكن انظر إلى الجبل فان استقر مكانه فسوف تراني

۱۳_ كوہ طور، خداوند كى تجلى كے اثر كى وجہ سے چكنا چور ہوگيا_فلما تجلى ربه للجبل جعله دكاً

۲۵۲

''جعلہ'' كى ضمير فاعل كلمہ ''رب'' كى طرف بھى پلٹائی جاسكتى ہے يعني:جعل الرب بتجليله الجبل دكا'' اور جملہ ''تجلى ربہ'' سے اخذ ہونے والے مصدر كى طرف بھى پلٹ سكتى ہے يعني:''جعل تجليه الجبل دكا'' ''دك'' مصدر ہے اور چكنا چور ہونے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور آيت شريفہ ميں اسم مفعول (مدكوك يعنى پسا ہوا) كے معنى ميں ہے_

۱۴_ مادى موجودات پر تجلى خدا ممكن ہے_فلما تجلى ربه الجبل

۱۵_ تجلى خدا، اگر موسىعليه‌السلام كے جسم پر بھى پڑتى تو وہ بھى پاش پاش ہوجاتا_و لكن انظر إلى الجبل ...و لما تجلى ربه للجبل جعله دكاً

۱۶_ حضرت موسىعليه‌السلام ، تجلى خدا كے اثر كى وجہ سے پہاڑ كے منہدم ہونے كو ديكھ كر بے ہوش ہوكر زمين پر گر پڑے_

فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا و خرّ موسى صعقا

''خرّ'' كا مصدر ''خرور'' گرنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور كلمہ ''صَعْق'' بے ہوش ہونے كے معنى ميں آتاہے دو جملوں يعنى ''تجلى ربہ'' اور ''جعلہ دكاً'' كے بعد جملہ ''خرّ موسى صعقا'' كو لانے ميں اس بات كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ موسىعليه‌السلام كے بے ہوش ہونے ميں پہاڑ پر تجلى خدا كے پڑنے اور اس كے منہدم ہونے كو عمل دخل حاصل تھا_

۱۷_ حضرت موسىعليه‌السلام ، پہاڑ كے منہدم ہونے كى گڑ گڑاھٹ سننے كى وجہ سے بے ہوش ہوكر زمين پر گر پڑے_

جعله دكاً و خرّ موسى صعقا

''صَعق'' ايسے شخص كو كہا جاتاہے كہ جو ڈراونى آواز سن كر بے ہوش ہوجائیے (لسان العرب)

۱۸_ انبياء پر بھى بے ہوشى طارى ہونے كا امكان ہے_و خرّ موسى صعقا

۱۹_ موسىعليه‌السلام نے ہوش ميں آنے كے بعد تسبيح خدا ميں مشغول ہوكر ذات حق كو ديكھنے دكھانے سے منزہ جانا_

فلما ا فاق قال سبحنك

كلمہ ''سبحان'' نقص و عيب سے پاك و منزہ سمجھنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور آيت كے مورد كى مناسبت سے موسىعليه‌السلام نے خدا كو جس عيب و نقص سے منزہ جانا وہ امكان رؤيت ہے_

۲۰_ ذات خدا كے بارے ميں كسى غلط توہّم كے ذہن ميں آنے پر اس كى تقديس اور تنزيہ ضرورى ہے_

قال رب ا رني ...قال سبحنك

۲۱_ رؤيت خدا سے موسيعليه‌السلام كى محروميت اس كے محال ہونے كى دليل ہے ، نہ يہ كہ وہ ديدار خدا كى اہليت نہ ركھتے

۲۵۳

ہوں _قال سبحنك چونكہ موسىعليه‌السلام نے رؤيت كى درخواست كرنے اور پہاڑ پر تجلى خدا كے ڈالے جانے اور اس كے منہدم ہونے كے بعد خدا كى تسبيح كى اس سے يہ بات معلوم ہوتى ہے كہ ان كى محروميت كى وجہ رؤيت خدا كا محال ہوناہے نہ يہ كہ وہ اس مقام كے اہل نہ تھے_

۲۲_ موسىعليه‌السلام نے تجلى خدا كے اثر (پہاڑ كے چكنا چور ہونے) كو ديكھ كر رؤيت خدا كے بارے ميں درخواست كو ناروا سمجھا اور بارگاہ الہى ميں توبہ كي_فلما ا فاق قال سبحنك تبت اليك

۲۳_ كسى ناروا عمل كى انجام دہى سے آگاہ ہونے كے فوراً بعد خدا كے حضور توبہ كرنا ضرورى ہے

قال رب ا رنى ...قال سبحانك تبت اليك

۲۴_ موسىعليه‌السلام نے حقيقت جاننے كے بعد، اسے فوراً قبول كرتے ہوئے اس كا اعتراف كيا_قال ...و ا نا ا ول المؤمنين آيت كے پہلے حصہ كى روشنى ميں كلمہ ''المؤمنين'' كا متعلق جملہ (با نك لا تري) ہے جملہ''ا نا ا ول المؤمنين'' ميں كلمہ ''ا ول'' مقدم ہونے كے معنى كے علاوہ تاخير نہ كرنے كا معنى بھى فراہم كرتاہے، اس لئے كہ كسى شخص كے اول مؤمن ہونے كا دعوى اسى صورت ميں صحيح ہوگا كہ وہ ظاہر ہونے والى حقيقت كو فوراً قبول كرتے ہوئے اس پر ايمان لائے و گرنہ اس بات كا احتمال موجود ہوتاہے كہ كوئي دوسرا شخص اس دوران ايمان لے ائے اور يوں وہ اول مؤمن نہ ہوپائے_

۲۵_ رؤيت خدا كے ناممكن ہونے پر موسىعليه‌السلام اپنى قوم ميں سے سب سے پہلے ايمان لانے والے شخص تھے_

و ا نا ا ول المؤمنين

۲۶_ انبيائے الہي، حقائق پر ايمان لانے اور ان كا اقرار كرنے كے سلسلہ ميں پہل كرتے ہيں _و ا نا ا ول المؤمنين

۲۷_عن الصادق عليه‌السلام : ...''فلما تجلى ربه للجبل'' ...و إنما طلع من نوره على الجبل كضوء يخرج من سم الخياط ...و ''خر موسى صعقا'' اى ميّتا ''فلما ا فاق'' و ردّ عليه روحه (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے آيت''فلما تجلى ربه للجبل'' كے بارے ميں مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: سوئي كے سوراخ سے نكلنے والى روشنى كى مانند جلوہ خدا كا ايك قليل پرتو پہاڑ پر متجلى ہوا ...اور موسىعليه‌السلام سكتہ كى حالت ميں گر پڑے، يعنى مرگئے ...اور پھر ہوش ميں ائے، يعنى خدا نے ان كى طرف روح پلٹا دي_

____________________

۱) تفسير برہان ج۲، ص ۳۴، ج۳; بحار الانوار ج۴ ص ۵۵، ح ۳۴_

۲۵۴

۲۸_حفص بن غياث قال: سا لت ابا عبدالله عليه‌السلام عن قول الله عزوجل: ''فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا'' قال: ساخ الجبل فى البحر (۱)

حفص بن غياث كہتے ہيں كہ امام صادقعليه‌السلام سے آيت''فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا'' كے بارے ميں پوچھا، توآپعليه‌السلام نے فرمايا: وہ پہاڑ (تجلى خدا كے بعد) سمندر ميں گر پڑا

آنكھ:نگاہ كى محدوديت ۹

الله تعالي:اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۱۸، ۱۹، ۲۰; اللہ تعالى كاموسىعليه‌السلام سے تكلم ۲، ۳، ۴، ۵، ۶;اللہ تعالى كا وعدہ ۳; اللہ تعالى كيتجلى كے آثار ۱۳، ۱۵، ۱۶، ۲۲;اللہ تعالى كى دعوتيں ۱، ۳ ;اللہ تعالى كى رؤيت كا محال ہونا ۷، ۹، ۱۹، ۲۱، ۲۴، ۲۵;اللہ تعالى كى رؤيت كى درخواست ۵، ۶، ۱۱ ;اللہ تعالى كى رؤيت كى شرائط ۱۲;اللہ تعالى كى كوہ طور پر تجلى ۱۱، ۱۲، ۱۳،۱۶، ۱۷،۲۲ ; اللہ تعالى كى موجودات پر تجلى ۱۴; اللہ تعالى كے اوامر، ۱۱

انبياء:انبياء اور بے ہوشى ۱۸;انبياء اور خطا ۲۲، ۲۴ ;انبياء اور رؤيت خدا، ۹;انبياء كا ايمان ۲۶;علم انبياء كى محدوديت ۱۰

ايمان:ايمان لانے ميں پہل كرنے والے ۲۶

توبہ:توبہ كى اہميت ۲۳;توبہ كے موارد ۲۳;ناپسنديدہ عمل سے توبہ ۲۳

حق:حق كا اقرار ۲۶

كوہ طور:كوہ طور كا منہدم ہونا ۱۳، ۱۶، ۱۷، ۲۲;كوہ طور كى گڑ گڑاہٹ ۱۷

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور تجلى خدا ۱۵، ۲۲ ;موسىعليه‌السلام اور رؤيت خدا ۲۱، ۲۲; موسىعليه‌السلام كا ايمان ۲۴، ۲۵; موسى كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۱۱، ۱۲، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۲، ۲۴ ; موسىعليه‌السلام كى بے ہوشى ۱۶، ۱۷، ۱۹; موسىعليه‌السلام كى تسبيح ۱۹;موسىعليه‌السلام كى توبہ ۲۲;موسىعليه‌السلام كى خواہشات ۵، ۶، ۷، ۱۱ ; موسىعليه‌السلام كى طرف سے حق قبول كرنا ۲;موسىعليه‌السلام كے رشد كے عوامل ۴;موسىعليه‌السلام ميقات ميں ۱، ۲، ۵

____________________

۱)توحيد صدوق، ص ۱۲۰، ح ۲۳، ب ۸: تفسير برھان ج/۲ ص ۳۴ ح ۲_

۲۵۵

آیت ۱۴۴

( قَالَ يَا مُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالاَتِي وَبِكَلاَمِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ )

ارشاد ہوا كہ موسى ہم نے تمام انسانوں ميں اپنى رسالت اور اپنے كلام كے لئے تمھارا انتخاب كيا ہے لہذا ب اس كتاب كو لے لو اور اللہ كے شكر گذار بندوں ميں ہوجاؤ(۱۴۴)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام ، اپنے زمانے كے تمام لوگوں سے برتر اور خدا كے برگزيدہ تھے_قال ى موسى إنى اصطفيتك على الناس

''اصطفا'' كسى چيز كے خالص حصّہ كو لينا'' كے معنى ميں استعمال ہوتاہے (مفردات راغب) اور چونكہ ''اصطفيتك'' حرف ''علي'' كے ذريعے متعدى ہوا ہے لہذا اس ميں برترى كا معنى بھى پايا جاتاہے_

۲_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام كو ان كے خلوص كى وجہ سے تمام لوگوں پر برترى دى اور چنا_

قال ى موسى إنّى اصطفيتك على الناس

چونكہ ''اصطفا'' كسى چيز كے خالص حصّہ كو لينے كے معنى ميں آتاہے لہذا جملہ ''اصطفيتك'' يہ مفہوم فراہم كرتاہے كہ موسىعليه‌السلام ايك خالص انسان تھے اور ان كا يہى خلوص ان كو انتخاب كرنے كا باعث بناہے_

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام كے انتخاب اور دوسروں پر ان كو برترى دينے كا اظہار، مناجات كى جگہ پر موسىعليه‌السلام كے ساتھ خدا كے كلام كا حصّہ ہے_قال ى موسى إنى اصطفيتك على الناس

۴_ رؤيت كے بارے ميں موسىعليه‌السلام كى درخواست كا منفى جواب دينے كى وجہ سے خداوند متعال نے ان كى دل جوئي كي_

قال لن ترني ...قال ى موسى إنى اصطفيتك على الناس

ايسے معلوم ہوتاہے كہ موسىعليه‌السلام كى درخواست رد كرنے كے بعد خدا كى طرف سے خصوصى نعمات كا ذكر آپعليه‌السلام كى دل جوئي كے واسطے ہے يعني: اگرچہ تمھارے لئے رؤيت خدا ممكن نہيں ، ليكن خدا نے تمہيں ايسى نعمات عطا كى ہيں كہ جن سے دوسرے محروم ہيں _

۵_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام كو، اپنى رسالت عطا كركے اور ان كے ساتھ ہم كلام ہوكر، اس زمانے كے تمام لوگوں پر برترى بخشي_اصطفيتك على الناس برسلتى و بكلامي

۲۵۶

''برسالتي'' اور ''بكلامي'' ميں حرف ''باء'' استعانت كيلئے ہے_

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام ، لوگوں كيلئے خدا كى طرف سے متعدد پيغامات ليكر ائے تھے_برسلتي

كلمہ ''رسالات'' كو جمع لانے ميں ہى مندرجہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ پايا جاتاہے_

۷_ بعض انسانوں كى لياقت اور صلاحيت، خدا كى طرف سے پيغمبرى اور رسالت كيلئے ان كے منتخب ہونے كا باعث بنتى ہے_قال ى موسى إنى اصطفيتك على الناس برسلتي

۸_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام سے كہا: ميرے پيغامات حاصل كرو اور انہيں سيكھو اور اپنے اعمال و كردار كو ان كى اساس پر استوار كرو_فخذ ما ء اتيتك

فعل ''خذ'' كا مصدر ''ا خذ'' لينے كے معنى ميں آتاہے اور خدا كے پيغامات لينے سے مراد ،انہيں سيكھنا اور ان پر عمل كرنا ہے_

۹_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام سے كہا كہ رسالت كى نعمت حاصل ہونے اور ميرا كلام سننے كے اہل ہونے پر ميرے شكر گزار رہو_اصطفيتك على الناس برسلتى و بكلامي ...و كن من الشكرين

۱۰_ خدا كے پيغامات وصول كرنے اور ان پر عمل كرنے اور اس كى نعمات پر شكر گزار رہنے كے بارے ميں حكم، مناجات كے وقت موسىعليه‌السلام كے ساتھ خدا كے كلام كا حصّہ ہے_قال ...فخذ ما ء اتيتك و كن من الشكرين

۱۱_ چاليس راتوں كى مناجات كے ذريعے موسىعليه‌السلام كى تطہير، تورات حاصل كرنے كيلئے مقدمہ تھي_

ى موسى إنى اصطفيتك ...فخذ ماء اتيتك

چونكہ خدا نے موسىعليه‌السلام كے ساتھ اپنے وعدے كى داستان اور اُن كى چاليس راتوں كى مناجات كے آخر ميں اپنے پيغامات (تورات) عطا كرنے كى بات كى اس سے معلوم ہوتاہے كہ وہ وعدہ اور وہ مناجات تورات عطا كرنے كى وجہ سے تھيں _

۱۲_ حضرت موسىعليه‌السلام كے ساتھ خدا كى ہم كلامى اور پيغمبرى كيلئے ان كا انتخاب، اُن كيلئے خدا كى عظيم نعمات ہيں _

على الناس برسلتى و بكلمي ...و كن من الشكرين

۱۳_خدا كے پيغامات ياد كرنا اور اعمال و كردار ميں انہيں بروئے كار لانا، نعمت دين پر خدا كى شكر گزارى ہے_

فخذ ماء اتيتك و كن من الشكرين

۲۵۷

الہى پيغامات عطا كرنے كے بعد سپاس گزارى كى بات اس حقيقت كو ظاہر كرتى ہے كہ وہ پيغامات نعمت تھے لہذا انہيں عطا كرنے پر خدا كا شكر بجا لانا ضرورى ہے چنانچہ ان پيغامات كو ياد كرنے كے بارے ميں حكم يہ مطلب فراہم كرتاہے كہ اس نعمت كا شكر انہيں ياد كرنے اور اپنانے كے ذريعے ادا ہوتاہے_

۱۴_ دين اورالہى تعليمات، بشر كيلئے خدا كى نعمت ہيں _برسلتي ...و كن من الشكرين

۱۵_ نعمات خدا كے ملنے پر شكر گزارى ضرورى ہے_و كن من الشكرين

۱۶_ نعمات خدا كا شكر بجا لانے والے، بارگاہ خدا ميں ايك عظيم مقام پر فائز ہوتے ہيں _و كن من الشكرين

حضرت موسىعليه‌السلام جيسے ايك عظيم پيغمبر كو شكر گزارى كے بارے ميں خدا كا حكم اس حقيقت كى نشاندہى كرتاہے كہ شاكرين كا مقام بہت بلندہے_

۱۷_عن ابى عبدالله عليه‌السلام : ا وحى الله عزوجل إلى موسى : يا موسى ا تدرى لم اصطفيتك بكلامى دون خلقي؟ قال: يا رب و لم ذاك؟ قال: فا وحى الله تبارك و تعالى إليه ا ن يا موسى : إنى قلبت عبادى ظهرا لبطن فلم اجد فيهم ا حدا ا ذل لى نفساً منك (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے مروى ہے: كہ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام كى طرف وحى بھيجى اے موسىعليه‌السلام كيا تم جانتے ہو كہ ميں نے اپنے بندوں ميں سے اپنے ساتھ ہم كلام ہونے كيلئے تمہارا انتخاب كيوں كيا؟ موسىعليه‌السلام نے جواب ديا: پروردگارا اس كى وجہ كيا تھي؟ خداوند متعال نے فرمايا: اے موسىعليه‌السلام ميں نے تمام بندوں كى چھان بين كى اپنے سامنے تجھ سے زيادہ كسى كو خاضع و تابع نہيں پايا

اخلاص:اخلاص كے آثار ۲

اعداد:چاليس كا عدد ،۱۱

الله تعالى :اللہ تعالى كى رؤيت كا محال ہونا ۴;اللہ تعالى كا موسىعليه‌السلام سے تكلم ۳، ۸، ۹، ۱۰ ; اللہ تعالى كى نعمات ۱۲، ۱۴،۱۵،۱۶;اللہ تعالى كے اوامر ۸، ۹، ۱۰

انبياء:انبياء كے انتخاب كے اسباب ۷

انتخاب:انتخاب كے اسباب ۲،۷

____________________

۱) علل الشرايع ، ص ۵۶، ح۲ ، ب ۵۰،نورالثقلين ج۲ ص ۶۷ح ۲۵۵_

۲۵۸

تورات:نزول تورات كے اسباب ۱۱

دين:تعليمات دين پر عمل ۸، ۱۰، ۱۳;تعليمات دين كو سيكھنا ۸، ۱۰، ۱۳;نعمت دين ۱۳، ۱۴

رسالت:نعمت رسالت ۹

شكر:شكر نعمت ۹، ۱۰;شكر نعمت كى اہميت ۱۵;شكر نعمت كے موارد ۱۳

شاكرين:۹شاكرين كے مقامات ۱۶

كردار:كردار كى اساس ۸

لياقت:لياقت كے اثرات ۷

مناجات:رات كے وقت مناجات ۱۱

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام پر نعمات ۱۲; موسىعليه‌السلام كا اخلاص ۲;موسىعليه‌السلام كا تزكيہ ۱۱; موسىعليه‌السلام كا چناؤ ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۲ ;موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۳، ۴، ۵، ۱۰، ۱۱، ۱۲ ; موسيعليه‌السلام كى بعثت ۱۲; موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۶;موسيعليه‌السلام كى چلہ نشينى ۱۱; موسىعليه‌السلام كى دل جوئي ۴;موسىعليه‌السلام كى لياقت ۹; موسىعليه‌السلام كى مسؤوليت ۸، ۹ ; موسىعليه‌السلام كے مقامات ۱،۲،۳،۵;موسىعليه‌السلام ميقات ميں ۳، ۱۰;ميقات ميں موسىعليه‌السلام كى مناجات ۱۱

موسىعليه‌السلام كا چناؤ :۱، ۲

آیت ۱۴۵

( وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَا سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ )

اور ہم نے توريت كى تختيوں ميں ہر شے ميں سے نصيحت كا حصّہ اور ہر چير كى تفصيل لكھ دى ہے لہذا سے مضبوطى كے ساتھ پكڑ لو اور اپنى قوم كو حكم دو كہ اس كى اچھى اچھى باتوں كو لے ليں _ ميں عنقريب تمھيں فاسقين كے گھر دكھلادوں گا(۱۴۵)

۱_ خداوند متعال نے مناجات كے مقام پر موسى عليه‌السلام كو مكتوب الواح عطا كيں _ و كتبنا له فى الا لواح ...فخذها

''الا لواح'' ميں ''ال'' عہد ذكرى ہے اور گزشتہ آيت ميں مذكور ''ما اتيتك'' كى طرف اشارہ ہے_

۲۵۹

۲_ موسىعليه‌السلام كو عطا كى گئيں الواح ميں مندرج تحريروں كا كاتب ،خود خداوند متعال تھا_و كتبنا له فى الا لواح

۳_ موسىعليه‌السلام كو ملنے والى الواح ميں ہر طرح كى نصيحت كا ذكر موجود تھا_و كتبنا له فى الا لواح من كل شيء موعظة

كلمہ ''موعظة'' فعل ''كتبنا'' كيلئے مفعول ہے اور ''من كل شيئ'' كلمہ ''موعظة'' كيلئے صفت ہے، مورد كى مناسبت سے ''كل شيئ'' سے مراد ہر نصيحت آموز چيز ہے، بنابراين جملہ''كتبنا له ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ ہم نے موسيعليه‌السلام كو عطا كى گئيں الواح ميں ہر نصيحت آموز چيز كى نصيحت لكھ دى ہے_

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام كو عطا كى جانے والى الواح (تورات) عصر موسىعليه‌السلام كے لوگوں كى ہدايت كے متعلق تمام ضروريات كو پورا كرتى تھيں _و كتبنا ...تفصيلا لكل شيئ

۵_ تورات كا نزول ،مكتوب الواح كى شكل ميں تھا_و كتبنا له فى الا لواح

۶_ پند و نصيحت، تورات كى بنيادى تعليمات ميں سے ہے_و كتبنا ...موعظة و تفصيلاً

كلمہ ''تفصيلاً'' پر كلمہ ''موعظة'' كے مقدم ہونے ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ تورات كے مواعظ كو اس كى دوسرى تعليمات كى نسبت ايك خاص مقام حاصل ہے_

۷_ خداوند متعال كى طرف سے حضرت موسىعليه‌السلام كو، الواح كو سيكھنے سمجھنے اور ان پر عمل كرنے كے سلسلہ ميں سنجيدگى كى دعوت_فخذها بقوة

۸_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام سے كہا كہ اپنى قوم كو الواح پر تحرير شدہ معارف اور احكام كو سيكھنے كا حكم دو_

و ا مر قومك يا خذوا با حسنها

۹_ قوم موسيعليه‌السلام ، الواح ميں تحرير شدہ معارف اور احكام كو اچھى طرح ياد كرنے اور ان پر بطريق احسن عمل كرنے كى ذمہ دار تھي_و ا مر قومك يا خذوا با حسنها

مندرجہ بالا مفہوم اس بنياد پر اخذ كيا گيا ہے كہ''احسنها'' كى ضمير كلمہ ''قوة'' كى طرف پلٹائی جائیے، اس بنياد پر فعل ''يا خذوا'' كا مفعول ايك محذوف ضمير ہے كہ جو كلمہ ''ا لواح'' كى طرف پلٹتى ہے يعني:''يا خذوا الا لواح باحسن القوة'' _

۱۰_ معارف الہى كو اچھى طرح سيكھنے اور احكام دين پر بطريق احسن عمل كرنے ميں سنجيدگى سے كام لينا، لوگوں كے ذمہ ايك اہم فرض ہے_و ا مر قومك يا خذوا با حسنها

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736