تفسير راہنما جلد ۶

 تفسير راہنما 5%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 736

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 736 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 195884 / ڈاؤنلوڈ: 5203
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۶

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۳_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائیل كو اس وقت كى تمام قوموں اور ملتوں پر فضيلت عطا كي_

و هو فضلكم على العلمين

كلمہ ''العالمين '' كا ''ال'' عہد ہے اور عصر موسيعليه‌السلام كے عالمين كى طرف اشارہ ہے_

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام نے بنى اسرائیل پر خدا كے خصوصى احسان اور فضل و كرم كو بيان كرتے ہوئے صرف اسى كو ان كيلئے لائق عبادت متعارف كرايا_قال ا غير الله ا بغيكم إلها و هو فضلكم على العلمين

جملہ''و هو فضلكم'' حاليہ ہے اور جملہ ''اغير الله ...'' كيلئے تعليل ہے يعني: كيسے ممكن ہے كے غير خدا كو تمھارے لئے پرستش كے واسطے تلاش كروں حالانكہ دوسرى اقوام پر تمھارى برترى جيسى تمام نعمات اسى كى عطا كى ہوئي ہيں _

۵_ حضرت موسىعليه‌السلام نے بت پرستى كى طرف اپنى قوم كے رجحان كو نعمات خدا كى ناشكرى قرار ديا_

ا غير الله ا بغيكم إلها و هو فضلكم على العلمين

۶_ شرك كى طرف رجحان، نعمات خدا كى ناشكرى ہے_ا غير الله ا بغيكم إلها و هو فضلكم على العلمين

۷_ خدا كى پرستش كے ذريعے اس كى نعمات كا شكر بجا لانے كى ضرورت_ا غير الله ا بغيكم إلها و هو فضلكم على العلمين

الله تعالى :اللہ تعالى سے مختص امور ۲;اللہ تعالى كا فضل ۴;اللہ تعالى كى عبادت ۷;اللہ تعالى كى نعمات ۶،۷

بت پرستي:بت پرستى كے اثرات ۵

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى بت پرستى ،۱;بنى اسرائیل كى برترى ۳، ۴ ;بنى اسرائیل كى تاريخ،۱ ;بنى اسرائیل كے رجحانات ۱، ۵; بنى اسرائیل كے فضائل ۴;عصر موسى كے بنى اسرائیل ۳

توحيد:توحيد عبادى ۲،۴

شرك:شرك كا رجحان ۶

شكر:شكر نعمت كى اہميت ۷

عبادت:عبادت خدا ۷ كفران:كفران نعمت ۵، ۶

۲۴۱

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائیل ۵;موسىعليه‌السلام اور توحيد عبادى ۴;موسىعليه‌السلام اور شرك عبادى ;موسىعليه‌السلام كا تعجب،۱ ;موسىعليه‌السلام كا قصّہ، ۱،۵ ;موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۴

آیت۱۴۱

( وَإِذْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَونَ يَسُومُونَكُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ يُقَتِّلُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ )

اور جب ہم نے تم كو فرعون والوں سے نجات دى جو تمھيں بدترين عذاب ميں مبتدلا كر رہے تھے تمھارے لڑكوں كوقتل كر رہے تھے اور لڑكيوں كوخدمت كے لئے باقى ركھ رہے تھے اور اس ميں تمھارے لئے پروردگار كى طرف سے سخت ترين امتحان تھا (۱۴۱)

۱_ بنى اسرائی ل، آل فرعون كے زير تسلط ہميشہ سخت عقوبتوں ميں گرفتار رہے تھے_

و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون يسومونكم سوء العذاب

''يسومون'' كا مصدر ''سوم'' مسلط كرنا كے معنى ميں آتاہے كلمہ''سَوئ'' كى كلمہ ''العذاب'' كى طرف اضافت ايك صفت كى موصوف كى طرف اضافت ہے، يعني: العذاب السوئ_

۲_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو بعثت موسيعليه‌السلام كے ذريعے آل فرعون كے تسلط اور ان كے جان ليوا شكنجوں سے نجات دلائی _و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون يسومونكم سوء العذاب

جملہ''هو فضلكم'' (اس نے تمہيں فضيلت بخشي) ميں فضيلت بخشنے كى نسبت صرف خدا كى طرف دى گئي ہے ليكن دوسرے جملے''ا نجيناكم'' (ہم نے تمہيں نجات دي) ميں نجات بخشنے كى نسبت ضمير ''نا'' (يعنى ہم) كى طرف دى گئي ہے اس موازنے سے سمجھا جا سكتاہے كہ خدا نجات بخشنے كے عمل ميں اسباب كى طرف بھى نظر ركھتاہے كہ مذكورہ بحث كى مناسبت سے اس كا سبب بعثت موسىعليه‌السلام ہے، بنابراين''ا نجيناكم'' كا معنى يہ ہوگا كہ ہم نے بعثت موسيعليه‌السلام كے ذريعے تمہيں نجات دي_۳

_ آل فرعون كے تسلط اور ان كے عذابوں سے نجات بنى اسرائیل كيلئے ہميشہ ياد ركھنے كے قابل ايك يادگار واقعہ ہے_

و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون يسومونكم سوء العذابكلمہ ''إذ'' فعل مقّدر ''اذكروا'' كيلئے مفعول بہ ہے_

۲۴۲

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام نے آل فرعون كے رنج و آزار سے نجات بخشنے كے سلسلہ ميں بنى اسرائیل پر لطف خدا كا سہارا ليتے ہوئے انہيں خدائے يكتا كى پرستش اور شرك سے اجتناب كى ضرورت سے آگاہ كيا_

قال ا غير الله ا بغيكم الهاً ...و إذ ا نجينكم من ء ال فرعون

مندرجہ بالا مفہوم اس اساس پر ليا گيا ہے كہ مورد بحث آيت ميں مذكور مفاہيم حضرت موسىعليه‌السلام كے كلام سے لئے گئے ہوں اور ان كے اصلى مخاطبين وہى لوگ ہوں كہ جو سمندر عبور كرنے كے بعد بت پرستى كى طرف مائل ہوئے_

۵_ نعمات الہى كى طرف توجہ، انسان كيلئے توحيد پر قائم رہنے اور شرك و بت پرستى كے رجحان سے اجتناب كرنے كا باعث بنتى ہے_قال ا غير الله ا بغيكم الهاً ...و إذ ا نجينكم

۶_ آل فرعون، بنى اسرائیل كے بيٹوں كو قتل كر ڈالتے اور ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑ ديتے تھے_

يقتلون ا بناء كم و يستحيون نساء كم

فعل ''يقتلون'' كا مصدر ''تقتيل'' (كثرت سے قتل كرنا) كے معنى ميں ہے، اور ''استحياء'' (زندہ چھوڑ دينا) كے معنى ميں ہے _

۷_ بيٹوں كا وسيع پيمانے پر قتل عام اور عورتوں كوزندہ چھوڑ دينا، بنى اسرائیل كيلئے آل فرعون كى طرف سے سخت ترين سزا تھي_يسومونكم سوء العذاب يقتلون ا بناء كم و يستحيون نساء كم

جملہ''يقتلون ابناء كم و يستحيون نساء كم'' گزشتہ جملہ كيلئے تفسير ہوسكتاہے_ يعنى''سوء العذاب'' سے مراد وہى بيٹوں كا قتل عام اور عورتوں كو زندہ چھوڑناہے اور يہ بھى ممكن ہے كہ اس كے ايك مصداق كو بيان كرنے كيلئے ہو يعنى آل فرعون نے تم پر جو عذاب مسلط كيے ان ميں سے ايك بيٹوں كا قتل عام اور عورتوں كو زندہ چھوڑنا ہے اس بنياد پر صرف دو عذابوں كو ذكر كرنا ان كے شديدتر ہونے كى وجہ سے ہے_

۸_ آل فرعون كے ہاتھوں اپنے بيٹوں كے قتل عام كى وجہ سے، بنى اسرائیل كى عورتيں زندگى كى خوشيوں سے محروم ہوچكى تھيں _يسومونكم سوء العذاب يقتلون ا بناء كم و يستحيون نساء كم

''عورتوں كو زندہ چھوڑنا، قوم بنى اسرائیل كيلئے ايك عذاب كے طور پر تھا جبكہ خود عورتيں بھى اس قوم كا حصّہ تھيں اور چونكہ صرف زندہ چھوڑ دينا عذاب شمار نہيں كيا جاسكتا لہذا كلمہ ''يستحيون'' كہ جو كلمہ ''يقتلون'' كے بعد ذكر ہوا ہے كو مد نظر ركھتے ہوئے كہا جاسكتاہے كہ

۲۴۳

بيٹوں كو كچھ اس طرح قتل كيا جاتا كہ عورتيں يعنى قوم كى مائیں اپنے زندہ رہنے اور فرزندوں كو قتل ہوتا ديكھنے كى وجہ سے سخت رنج و عذاب ميں تھيں چنانچہ كلمہ ''ا بناء'' كے مقابلے ميں كلمہ ''نساء'' كا استعمال اس احتمال كى تائی د كرتاہے_

۹_ بنى اسرائیل كى عورتوں كو زندہ چھوڑنے سے آل فرعون كا مقصد ،ان كا استثمار تھا _*

يسومونكم سوء العذاب ...يستحيون نساء كم

عورتوں كے زندہ چھوڑنے كو عذاب كے عنوان سے بيان كرنا ان كے استثمار كى ايك اور توجيہ ہے_

۱۰_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو فرعون كے جان ليوا عذابوں ميں گرفتار كرنے كے ذريعے ايك بڑيآزماءش ميں ڈالا_

يسومونكم سوء العذاب ...و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

كلمہ ''بلاء'' آزماءش كے معنى ميں بھى ہوسكتاہے اور نعمت كے معنى ميں بھى ''ذلكم'' كا مشار اليہ يا تو عذاب ہے يا اس سے نجات، مندرجہ بالا مفہوم ميں كلمہ ''بلاء'' كو آزماءش كے معنى ميں ليا گيا ہے اور ''ذلكم'' كا مشاراليہ خود عذاب جانا گيا ہے_

۱۱_ خداوند متعال نے عصر موسىعليه‌السلام كے بنى اسرائیل كو فرعون كے شديد عذاب اور شكنجوں سے نجات دلاتے ہوئے ايك بھارى آزماءش سے دوچار كيا_و إذ انجينكم ...و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

فوق الذكر مفہوم كى اساس يہ ہے كہ كلمہ ''بلاء'' آزماءش كے معنى ميں ہو اور ''ذلكم'' كے ذريعے عذاب سے نجات كى طرف اشارہ مقصود ہو_

۱۲_ آل فرعون كى عقوبتوں سے نجات، بنى اسرائیل كيلئے خدا كى ايك عظيم نعمت تھي_

و إذ ا نجينكم ...و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

مندرجہ بالا مفہوم ميں كلمہ ''بلاء'' كو نعمت كے معنى ميں ليا گيا ہے اور ''ذلكم'' كا مشار اليہ عذاب سے نجات (كہ جسے ''ا نجيناكم'' سے استفادہ كيا گيا ہے) كونظر ميں ركھا گيا ہے_و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۳_ خداوند متعال مشكلات، نعمات اور انعامات كے ذريعے انسان كا امتحان ليتاہے_

و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۴_ انسان كى سختيوں كے ذريعے آزماءش، خدا كے مقام ربوبى كے ساتھ مربوط ہے اور يہ اس كے رشد و تربيت كيلئے ہوتى ہے_و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۲۴۴

۱۵_ تاريخ اور اس كے واقعات پر ارادہ خدا كى حاكميت قائم ہے_و إذا ا نجينكم ...و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

آل فرعون :آل فرعون اور بنى اسرائیل ۱; آل فرعون كا استعمارى رويہ ۹; آل فرعون كا ظلم ۶;آل فرعون كى آدم كشى ۶، ۸;آل فرعون كى حاكميت ۱، ۳; آل فرعون كى عقوبتيں ۱، ۲، ۳، ۴، ۷;

الله تعالى :اللہ تعالى كا امتحان ۱۰، ۱۱، ۱۳ ;اللہ تعالى كا لطف ۶; اللہ تعالى كى ربوبيت كے مظاہر ۱۴; اللہ تعالى كى مشيّت ۱۵; اللہ تعالى كى نعمات ۱۲;اللہ تعالى كے ا فعال ۲، ۱۰، ۱۱

امتحان:امتحان كے وسائل ۱۳، ۱۴;رنج و آزار كے ذريعے امتحان ۱۱;مشكلات كے ذريعے امتحان ۱۳، ۱۴ ; نعمت كے ذريعے امتحان ۱۳

بت پرستي:بت پرستى سے اجتناب كے عوامل ۵

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل پر نعمتيں ۱۲;بنى اسرائیل كا امتحان ۱۰، ۱۱;بنى اسرائیل كى آزماءش ۱۰; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲ ; بنى اسرائیل كى عقوبت ۱، ۲، ۳، ۴، ۷، ۱۰، ۱۱ ;بنى اسرائیل كى عورتوں پر عذاب ۸;بنى اسرائیل كى عورتوں كا استثمار ۹;بنى اسرائیل كى عورتوں كو زندہ چھوڑنا ۶، ۷، ۹ ; بنى اسرائیل كى نجات ۳، ۴، ۱۱، ۱۲ ;بنى اسرائیل كى نجات كا منشاء ۲;بنى اسرائیل كے بيٹوں كا قتل ۶،۷،۸

تاريخ:تاريخ سے عبرت پانا ۳;تاريخ كا محرك ۱۵; تاريخى تبديليوں كا منشاء ۱۵

تربيت:تربيت كے اسباب ۱۴

توحيد:توحيد پر قائم رہنے كے اسباب ۵;توحيد عبادى كے اسباب ۴

ذكر:ذكر تاريخ ۳;ذكر نعمت كے اثرات ۵;نعمات خدا كا ذكر ۵

رشد:رشد كے اسباب ۱۴

شرك:شرك سے اجتناب كے عوامل ۴، ۵

فرعون:فرعون كى عقوبتيں ۱۰، ۱۱

موسىعليه‌السلام :

۲۴۵

بعثت موسىعليه‌السلام ۲;موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائیل ۴;موسىعليه‌السلام كاقصّہ ۲;موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۴

آیت ۱۴۲

( وَوَاعَدْنَا مُوسَى ثَلاَثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً وَقَالَ مُوسَى لأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ )

اور ہمنے موسى سے تيس رتوں كا وعدہ ليا اور اسے دس مزيد راتوں سے مكمل كرديا كہ اس طرح ان كے رب كا وعدہ چالى راتوں كا وعدہ ہوگيا اورانھوں نے اپنے بھائی ہارون سے كہا كہ تم قوم ميں ميرى نيابت كرو اور اصلاح كرتے رہو اور خبردار مفسدوں كے راستہ كا اتباع نہ كرنا (۱۴۲)

۱_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو سمندر عبور كرانے كے بعد، موسىعليه‌السلام كو ايك خاص عبادت اور مناجات كيلئے بلايا_

و وعدنا موسى ثلثين ليلة

كلمہ ''ليلة'' كو استعمال كرنے ميں ، با وجود اس كے كہ دن اور رات كيلئے عام طور پر كلمہ ''يوم'' سے استفادہ كيا جاتاہے، اس بات كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ خدا نے موسىعليه‌السلام كو عبادت كيلئے بلايا تھا اور چونكہ موسىعليه‌السلام اپنى قوم ميں رہتے ہوئے بھى عبادت اور مناجات ميں مشغول رہتے تھے اس سے يہ معلوم ہوتاہے كہ وہ عبادت اور مناجات خاص تھي_

۲_ پہلے مرحلہ ميں موسىعليه‌السلام كى خاص عبادت اور مناجات كى مدت تيس راتيں متعين كى گئي_و وعدنا موسى ثلثين ليلة

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام عبادت و مناجات كيلئے تيس راتيں گزارنے كے علاوہ مزيد دس راتيں مكمل كرنے كے بھى پابند ہوئے_و ا تممنها بعشر فتم ميقات ربه ا ربعين ليلة

''ميقات'' يعنى كسى كام كے انجام دينے كيلئے متعيّن كيا گيا وقت، ''ميقات ربہ'' يعنى وہ وقت كہ جسے خدا نے عبادت و مناجات كے انجام دينے كيلئے موسيعليه‌السلام كيلئے متعين كيا_

۴_ خداوند متعال كے ساتھ موسىعليه‌السلام كى خاص مناجات كل چاليس راتوں ميں مكمل ہوئيں اور مطلوبہ حد تك پہنچيں _

فتم ميقت ربه ا ربعين ليلة

فعل ''تمّ'' كلمہ ''بلغ'' كے معنى كو متضمن ہے، اس لحاظ سے كلمہ ''اربعين'' اسكے لئے مفعول بہ ہے، يعنى''فتمّ ميقات ربه بالغاً اربعين ليلة''

۲۴۶

۵_ چاليس راتوں كى عبادت اور مناجات، كامل اور ايك خاص اثر كى حامل عبادت و مناجات ہيں _

و ا تممنها بعشر فتم ميقت ربه ا ربعين ليلة

جملہ''ا تممنها'' ميں كلمہ ''اتمام'' كا استعمال نيز جملہ''فتم ميقت ربه'' ميں (مثلاً ''صار'' كى بجائیے) كلمہ ''تمّ'' سے استفادہ، اس مطلب كو بيان كرتاہے كہ تيس راتوں كى عبادت ايك كامل اور تام عبادت نہ تھى اور چاليس راتوں كے گزرجانے كے بعد كامل اور تام ہوئي_ اس مطلب كى وضاحت كہ تيس ميں دس كے اضافہ سے چاليس راتيں ہوگئيں ''فتم ...اربعين'' ميں مندرجہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ پايا جاسكتاہے_

۶_ خدا كى عبادت اور اس كے ساتھ مناجات كيلئے انبياء كى خلوت نشيني_و وعدنا موسى ثلثين ليلة

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى عبادت و مناجات كے واسطے معين كيے گئے وقت كى مقدار ميں خدا كيلئے ''بداء'' كا ظہور_

و ا تممنها بعشر

۸_ حضرت ہاورنعليه‌السلام ، حضرت موسىعليه‌السلام كے بھائی اور ان كے پيروكار تھے_و قال موسى لا خيه هرون

۹_ حضرت موسىعليه‌السلام نے ا پنے بھائی ہارونعليه‌السلام كو خدا كے ساتھ اپنى مناجات كے خاتمے تك بنى اسرائیل كى رہبرى كيلئے منصوب كيا_و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى امت كو حتى كہ مختصر مدت (مناجات كيلئے جدائی كے وقت) كيلئے بھى رہبر كے بغير نہيں چھوڑا_و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي

۱۱_ انبيائے الہى معاشرے كيلئے رہبر كے انتخاب كا حق ركھتے ہيں _و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي

۱۲_ حضرت موسىعليه‌السلام ، مقام نبوت كے علاوہ بنى اسرائیل كى سياسى قيادت اور امامت كا منصب بھى ركھتے تھے_

و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي

۱۳_ امتوں كى امامت اور قيادت ،نبوت و رسالت سے جدا منصب ہے_و قال موسى لا خيه هرون اخلفنى فى قومي جملہ''اخلفنى فى قومي'' يہ مطلب فراہم كرتاہے كہ موسىعليه‌السلام نے ہارونعليه‌السلام كو بنى اسرائیل كى امامت و رہبرى كيلئے باقاعدہ منصوب كيا اگر امامت و رہبرى اور پيغمبرى ميں كوئي تفاوت نہ ہوتا تو كيا ضرورت تھى كہ موسيعليه‌السلام اپنے بھائی ہارونعليه‌السلام (كہ جو خود بھى نبى تھے) كو امامت كيلئے منصوب كريں _

۲۴۷

۱۴_ خدا نے موسىعليه‌السلام كو حكم ديا كہ ان كى خاص عبادت و مناجات كى جگہ بنى اسرائیل سے دور ہونى چاہيے_

و وعدنا موسى ...اخلفنى فى قومي

موسىعليه‌السلام نے ميقات كى طرف جانے كى وجہ سے ہارونعليه‌السلام كو اپنا جانشين مقرر كيا، اس سے يہ مطلب سمجھ ميں آتاہےكہ وہ مدت ميقات كے دوران بنى اسرائیل كے درميان موجود نہ تھے بلكہ ان سے دور تھے_

۱۵_ بنى اسرائیل كے معاشرتى امور كى اصلاح، موسىعليه‌السلام كى طرف سے اپنے بھائی اور خليفہ ہارونعليه‌السلام كو ديئے گئے دستور العمل كا حصّہ تھي_و ا صلح

چونكہ اصلاح كے بارے ميں حكم بنى اسرائیل كى سرپرستى كيلئے ہارونعليه‌السلام كے انتخاب كے بعد آياہے لہذا اس سے معلوم ہوتاہے كہ اس سے بنى اسرائیل كے اجتماعي، ثقافتى اور دوسرے امور كى اصلاح مراد ہے نہ يہ كہ ہارونعليه‌السلام كے اپنے ذاتى امور كى اصلاح_

۱۶_ انسانى معاشروں اور امتوں كيلئے ايك مصلح رہبر كى ضرورت ہوتى ہے_اخلفنى فى قومى و ا صلح

۱۷_ مفسدين كى راہ و روش كى پيروى سے اجتناب كرنا، موسىعليه‌السلام كى طرف سے اپنے خليفہ ہارونعليه‌السلام كيلئے ايك معين شدہ فريضہ تھا_و لا تتبع سبيل المفسدين

۱۸_ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كا بنى اسرائی لى معاشرہ ايك مفسد گروہ اور اس كے غلط نظريات اور طرز عمل سے محفوظ نہ تھا_و لا تتبع سبيل المفسدين

۱۹_ حضرت موسىعليه‌السلام اپنى غيبت ميں بنى اسرائیل كے مفسدين كى سازش كے بارے ميں فكرمند تھے_

و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۰_ لوگوں كے معاشرتى امور كى اصلاح اور مفسدين كے افكار كى پيروى سے اجتناب، انبياء اور رہبران الہى كے اہم فرائض ميں سے ہے_و ا صلح و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۱_ برائی كے خلاف مبارزہ كرنا اور مفسدين كو ناكام بنانا، انبيائے الہى كے بنيادى فرائض ميں سے ہے_

و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۴۸

۲۲_ مفسدين، لوگوں پر حكومت كرنے كے اہل نہيں ہيں _و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۳_ مفسدين كے راہ و رسم اور ان كے افكار كى پيروى كرنا، اصلاح معاشرہ سے مانع ہے_و اصلح و لا تتبع سبيل المفسدين

۲۴_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله: ''و وعدنا موسى ثلثين ليلة و اتممناها بعشر'' قال: بعشر ذى الحجة ...(۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے آيت ''و وعدنا موسى ...'' ميں مذكور كلمہ ''بعشر'' كے بارے ميں مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: اس سے مراد ذى الحجہ كى دس راتيں ہيں

۲۵_عن ابى جعفر عليه‌السلام : ...''و وعدنا موسى ثلثين ليلة'' إلى ''ا ربعين ليلة'' اما ان موسى لم يكن يعلم بتلك العشر و لا بنو اسرائيل .(۲)

حضرت امام باقرعليه‌السلام سے آيت ''و ا تممناھا بعشر'' ميں مذكور كلمہ ''عشر'' كے بارے ميں مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائیل نہيں جانتے تھے كہ ميقات الہى كے وقت دس راتيں اضافہ كى جائیں گي

اعداد:تيس كا عدد ۲، ۳، ۴;چاليس كا عدد ۴، ۵;دس كا عدد ۳، ۴

الله تعالى :اللہ تعالى ميں بداء ۷;اللہ تعالى كى دعوت، ۱

امامت:مقام امامت ۱۳امتيں :امتوں كى ضروريات ۱۶

انبياء:انبياء كى تعليمات ۲۱; انبياء كى خلوت نشيني۶;انبياء كى عبادت۶ ;انبياء كى مسؤوليت ۱۲، ۲۰ ;انبياء كى مناجات ۶;انبياء كے اختيارات ۱۱

برائی :برائی كے خلاف مبارزہ ۲۱

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۱۵، ۱۸ ; بنى اسرائیل كے رہبر ۱۲; بنى اسرائیل كے مفسدين كى سازش ۱۹; سمندر سے بنى اسرائیل كا عبور ،۱ ;عصر موسىعليه‌السلام كے بنى اسرائیل ۱۸

چاليس:

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۲ ص ۲۵ ح ۶۷، نور الثقلين ج/۲ ص ۶۱ ح ۲۳۵_

۲)تفسير عياشى ج/۲ ص ۲۶ ح ۷۰ تفسير برھان ج/۲ ص ۳۳ ح ۴_

۲۴۹

چاليس كے عدد كے آثار ۵

رہبري:اہميت رہبرى ۱۰، ۱۶;دينى رہبرى كى مسؤوليت ۲۰;رہبر بنانا ،۱۱;مسؤوليت رہبرى ۱۵، ۱۷

عبادت:رات كى عبادت كے اثرات ۵;كامل عبادت ۵

فلسفہ سياسي: ۲۲

معاشرہ:اصلاح معاشرہ ۱۵;اصلاح معاشرہ كى اہميت ۲۰ ; اصلاح معاشرہ كے موانع ۲۳;معاشرہ كى ضروريات ۱۶

مفسدين:عصر موسيعليه‌السلام كے مفسدين ۱۸;مفسدين اور حكومت ۲۲;مفسدين سے روگردانى ۲۰، ۱۷;مفسدين كى اطاعت كے اثرات ۲۳; مفسدين كى نااہلى ۲۲; مفسدين كے ساتھ مبارزہ ۲۱

مناجات:رات كے وقت مناجات كے اثرات ۵;كامل مناجات ۵

موسىعليه‌السلام :امامت موسىعليه‌السلام ۱۲;اوامر موسيعليه‌السلام ۱۵;برادر موسىعليه‌السلام ۸; رات كے وقت موسىعليه‌السلام كى مناجات ۴; موسىعليه‌السلام اور ہارون ۹، ۱۵، ۱۷ ; موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۳، ۷، ۹، ۱۰، ۱۴، ۱۵ ، ۱۷، ۱۹ ; موسىعليه‌السلام كى پريشانى ۱۹; موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۱۷; موسىعليه‌السلام كى چلہ نشينى ۳، ۴ ; موسىعليه‌السلام كى چلہ نشينى كى جگہ ۱۴; موسىعليه‌السلام كى ذمہ داري،۳; موسى كى سياسى رہبرى ۱۲; موسىعليه‌السلام كى عبادت ۱۴ ; موسىعليه‌السلام كى مناجات ،۱;موسىعليه‌السلام كے تقاضے ۱۴; موسىعليه‌السلام كے مقامات ۱۲; ميقات موسىعليه‌السلام ،۱ ۱۴ ; ميقات موسىعليه‌السلام كى مدت ۲، ۳ ; ميقات موسىعليه‌السلام كے مراحل ۴; ميقات ميں موسى كى عبادت ۲، ۳، ۷ ;ميقات ميں موسىعليه‌السلام كى مناجات ۲، ۳، ۴، ۷، ۹ ;نبوت موسى ۱۲

موسىعليه‌السلام كے پيروكار: ۸

نبوت:مقام نبوت ۱۳

ہارونعليه‌السلام :ہارونعليه‌السلام اور موسىعليه‌السلام كا بھائی چارہ ۸;ہارون كا انتصاب ۹;ہارون كى داستان ۸، ۹، ۱۵، ۱۷; ہارون كى ذمہ دارى ۱۵، ۱۷;ہارون كى قيادت ۹، ۱۰

۲۵۰

آیت ۱۴۳

( وَلَمَّا جَاء مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَـكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكّاً وَخَرَّ موسَى صَعِقاً فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ )

تو اس كے بعد جب موسى ہمارا وعدہ پورا كرنے كے لئے ائے اور ان كے رب نے ان سے كلام كيا تو انھوں نے كہا كہ پروردگار مجھے اپنے جلوہ دكھا دے ارشاد ہوا تم ہرگز مجھے نہيں ديكھ سكتے ہو البتہ پہاڑ كى طرف ديكھو اگر يہ اپنى جگہ پر قائم رہ گيا تو پعر مجھے ديكھ سكتے ہو_ اس كے بعد جب پہاڑ پر پروردگار كى تجلى ہوئي تو پہاڑ چور چوڑ ہوگيا اور موسى بيہوش ہوكر گرپڑے پھر جب انھيں ہوش آيا تو كہنے لگے كہ پروردگار تو پاك و پاكيزہ ہے ميں تيرى بارگاہ ميں توبہ كرتا ہوں اور ميں سب سے پہلا ايمان وانے والا ہوں (۱۴۳)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام خدا كے ساتھ مناجات كى جگہ تشريف لے گئے اور يوں دعوت خدا كو بلا تاخير قبول كيا_

و لما جاء موسى لميقتنا

''لميقتنا '' كا لام ''عند'' كے معنى ميں ہے، بنابراين''جاء موسى لميقتنا'' كا معنى يہ ہوگا كہ موسيعليه‌السلام كيلئے جو وقت معين كيا گيا وہ اسى وقت كسى تاخير كے بغير حاضر ہو گئے_

۲_ خداوند متعال نے مناجات كيلئے معيّن كى گئي جگہ ميں موسىعليه‌السلام كى موجودگى كے وقت، ان كے ساتھ كلام كيا_

و لما جاء موسى لميقتنا و كلّمه ربّه

۳_ مناجات كى دعوت كے وقت خدا كا موسيعليه‌السلام كے ساتھ ہم كلام ہونا ان كو ديئے گئے الہى وعدوں ميں سے تھا_

۲۵۱

و لما جاء موسى لميقتنا و كلّمه ربّه

۴_ خدا كا موسىعليه‌السلام كے ساتھ ہم كلام ہونا، اُن كى رشد و تربيت كيلئے تھا_و كلّمه ربّه

۵_ مناجات كى جگہ خدا كے ساتھ كلام كرنے كے وقت موسىعليه‌السلام نے رؤيت خدا كے بارے ميں درخواست كي_

قال ربّ ا رنى ا نظر اليك

۶_ خدا كا موسىعليه‌السلام كے ساتھ ہم كلام ہونا، آپعليه‌السلام كيلئے رؤيت خدا كى درخواست كرنے كا باعث بنا_

و كلّمه ربّه قال ربّ ا رنى ا نظر اليك

چونكہ موسىعليه‌السلام كى طرف سے رؤيت كى درخواست كى بات آپ كے ساتھ خدا كے ہم كلام ہونے كے بعد بيان كى گئي(و لما ...كلّمه ربّه قال ...) لہذا كہا جاسكتاہے كہ حضرت موسى خدا كا كلام سننے كى وجہ سے جمال حق كے ديدار كے مشتاق ہوگئے_

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى درخواست كا خدا كى طرف سے يہ جواب آيا كہ رؤيت خدا، ناممكن ہے_قال لن تراني

۸_ خداوند متعال، آنكھوں كے ذريعے ديكھے جانے سے منزا ہے_قال لن تراني

۹_ انسان، حتى كہ انبياء بھى خداوند متعال كو اپنى آنكھوں كے ذريعے ديكھنے سے ناتوان ہيں _قال لن تراني

۱۰_ علم انبياء كى محدوديت_قال رب ا رني ...قال لن تراني

چونكہ موسىعليه‌السلام رؤيت خدا (ہر معنى كہ جو اُن كى نظر ميں تھا) كے ناممكن ہونے سے آگاہ نہ تھے چنانچہ انہوں نے خدا سے اس بارے ميں درخواست بھى كي، اس سے انبياء كے علم كى محدوديت كا پتہ چلتاہے_

۱۱_ خداوند متعال نے رؤيت كے بارے ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى درخواست كے جواب ميں ان سے كہا: اپنے سامنے كے پہاڑ كى طرف ديكھو اور اس پر تجلى خدا كے اثر كا مشاہدہ كرو_قال لن ترانى و لكن انظر إلى الجبل

كلمہ''الجبل'' ميں ''ال'' عہد حضورى ہے، يعني:انظر إلى هذا الجبل

۱۲_ خدا نے حضرت موسىعليه‌السلام سے كہا كہ اگر پہاڑ ہمارے جلوے كے اثر ميں اپنى جگہ پر قائم رہے تو تم بھى مجھے ديكھ لوگے_و لكن انظر إلى الجبل فان استقر مكانه فسوف تراني

۱۳_ كوہ طور، خداوند كى تجلى كے اثر كى وجہ سے چكنا چور ہوگيا_فلما تجلى ربه للجبل جعله دكاً

۲۵۲

''جعلہ'' كى ضمير فاعل كلمہ ''رب'' كى طرف بھى پلٹائی جاسكتى ہے يعني:جعل الرب بتجليله الجبل دكا'' اور جملہ ''تجلى ربہ'' سے اخذ ہونے والے مصدر كى طرف بھى پلٹ سكتى ہے يعني:''جعل تجليه الجبل دكا'' ''دك'' مصدر ہے اور چكنا چور ہونے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور آيت شريفہ ميں اسم مفعول (مدكوك يعنى پسا ہوا) كے معنى ميں ہے_

۱۴_ مادى موجودات پر تجلى خدا ممكن ہے_فلما تجلى ربه الجبل

۱۵_ تجلى خدا، اگر موسىعليه‌السلام كے جسم پر بھى پڑتى تو وہ بھى پاش پاش ہوجاتا_و لكن انظر إلى الجبل ...و لما تجلى ربه للجبل جعله دكاً

۱۶_ حضرت موسىعليه‌السلام ، تجلى خدا كے اثر كى وجہ سے پہاڑ كے منہدم ہونے كو ديكھ كر بے ہوش ہوكر زمين پر گر پڑے_

فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا و خرّ موسى صعقا

''خرّ'' كا مصدر ''خرور'' گرنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور كلمہ ''صَعْق'' بے ہوش ہونے كے معنى ميں آتاہے دو جملوں يعنى ''تجلى ربہ'' اور ''جعلہ دكاً'' كے بعد جملہ ''خرّ موسى صعقا'' كو لانے ميں اس بات كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ موسىعليه‌السلام كے بے ہوش ہونے ميں پہاڑ پر تجلى خدا كے پڑنے اور اس كے منہدم ہونے كو عمل دخل حاصل تھا_

۱۷_ حضرت موسىعليه‌السلام ، پہاڑ كے منہدم ہونے كى گڑ گڑاھٹ سننے كى وجہ سے بے ہوش ہوكر زمين پر گر پڑے_

جعله دكاً و خرّ موسى صعقا

''صَعق'' ايسے شخص كو كہا جاتاہے كہ جو ڈراونى آواز سن كر بے ہوش ہوجائیے (لسان العرب)

۱۸_ انبياء پر بھى بے ہوشى طارى ہونے كا امكان ہے_و خرّ موسى صعقا

۱۹_ موسىعليه‌السلام نے ہوش ميں آنے كے بعد تسبيح خدا ميں مشغول ہوكر ذات حق كو ديكھنے دكھانے سے منزہ جانا_

فلما ا فاق قال سبحنك

كلمہ ''سبحان'' نقص و عيب سے پاك و منزہ سمجھنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور آيت كے مورد كى مناسبت سے موسىعليه‌السلام نے خدا كو جس عيب و نقص سے منزہ جانا وہ امكان رؤيت ہے_

۲۰_ ذات خدا كے بارے ميں كسى غلط توہّم كے ذہن ميں آنے پر اس كى تقديس اور تنزيہ ضرورى ہے_

قال رب ا رني ...قال سبحنك

۲۱_ رؤيت خدا سے موسيعليه‌السلام كى محروميت اس كے محال ہونے كى دليل ہے ، نہ يہ كہ وہ ديدار خدا كى اہليت نہ ركھتے

۲۵۳

ہوں _قال سبحنك چونكہ موسىعليه‌السلام نے رؤيت كى درخواست كرنے اور پہاڑ پر تجلى خدا كے ڈالے جانے اور اس كے منہدم ہونے كے بعد خدا كى تسبيح كى اس سے يہ بات معلوم ہوتى ہے كہ ان كى محروميت كى وجہ رؤيت خدا كا محال ہوناہے نہ يہ كہ وہ اس مقام كے اہل نہ تھے_

۲۲_ موسىعليه‌السلام نے تجلى خدا كے اثر (پہاڑ كے چكنا چور ہونے) كو ديكھ كر رؤيت خدا كے بارے ميں درخواست كو ناروا سمجھا اور بارگاہ الہى ميں توبہ كي_فلما ا فاق قال سبحنك تبت اليك

۲۳_ كسى ناروا عمل كى انجام دہى سے آگاہ ہونے كے فوراً بعد خدا كے حضور توبہ كرنا ضرورى ہے

قال رب ا رنى ...قال سبحانك تبت اليك

۲۴_ موسىعليه‌السلام نے حقيقت جاننے كے بعد، اسے فوراً قبول كرتے ہوئے اس كا اعتراف كيا_قال ...و ا نا ا ول المؤمنين آيت كے پہلے حصہ كى روشنى ميں كلمہ ''المؤمنين'' كا متعلق جملہ (با نك لا تري) ہے جملہ''ا نا ا ول المؤمنين'' ميں كلمہ ''ا ول'' مقدم ہونے كے معنى كے علاوہ تاخير نہ كرنے كا معنى بھى فراہم كرتاہے، اس لئے كہ كسى شخص كے اول مؤمن ہونے كا دعوى اسى صورت ميں صحيح ہوگا كہ وہ ظاہر ہونے والى حقيقت كو فوراً قبول كرتے ہوئے اس پر ايمان لائے و گرنہ اس بات كا احتمال موجود ہوتاہے كہ كوئي دوسرا شخص اس دوران ايمان لے ائے اور يوں وہ اول مؤمن نہ ہوپائے_

۲۵_ رؤيت خدا كے ناممكن ہونے پر موسىعليه‌السلام اپنى قوم ميں سے سب سے پہلے ايمان لانے والے شخص تھے_

و ا نا ا ول المؤمنين

۲۶_ انبيائے الہي، حقائق پر ايمان لانے اور ان كا اقرار كرنے كے سلسلہ ميں پہل كرتے ہيں _و ا نا ا ول المؤمنين

۲۷_عن الصادق عليه‌السلام : ...''فلما تجلى ربه للجبل'' ...و إنما طلع من نوره على الجبل كضوء يخرج من سم الخياط ...و ''خر موسى صعقا'' اى ميّتا ''فلما ا فاق'' و ردّ عليه روحه (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے آيت''فلما تجلى ربه للجبل'' كے بارے ميں مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: سوئي كے سوراخ سے نكلنے والى روشنى كى مانند جلوہ خدا كا ايك قليل پرتو پہاڑ پر متجلى ہوا ...اور موسىعليه‌السلام سكتہ كى حالت ميں گر پڑے، يعنى مرگئے ...اور پھر ہوش ميں ائے، يعنى خدا نے ان كى طرف روح پلٹا دي_

____________________

۱) تفسير برہان ج۲، ص ۳۴، ج۳; بحار الانوار ج۴ ص ۵۵، ح ۳۴_

۲۵۴

۲۸_حفص بن غياث قال: سا لت ابا عبدالله عليه‌السلام عن قول الله عزوجل: ''فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا'' قال: ساخ الجبل فى البحر (۱)

حفص بن غياث كہتے ہيں كہ امام صادقعليه‌السلام سے آيت''فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا'' كے بارے ميں پوچھا، توآپعليه‌السلام نے فرمايا: وہ پہاڑ (تجلى خدا كے بعد) سمندر ميں گر پڑا

آنكھ:نگاہ كى محدوديت ۹

الله تعالي:اللہ تعالى كا منزہ ہونا ۱۸، ۱۹، ۲۰; اللہ تعالى كاموسىعليه‌السلام سے تكلم ۲، ۳، ۴، ۵، ۶;اللہ تعالى كا وعدہ ۳; اللہ تعالى كيتجلى كے آثار ۱۳، ۱۵، ۱۶، ۲۲;اللہ تعالى كى دعوتيں ۱، ۳ ;اللہ تعالى كى رؤيت كا محال ہونا ۷، ۹، ۱۹، ۲۱، ۲۴، ۲۵;اللہ تعالى كى رؤيت كى درخواست ۵، ۶، ۱۱ ;اللہ تعالى كى رؤيت كى شرائط ۱۲;اللہ تعالى كى كوہ طور پر تجلى ۱۱، ۱۲، ۱۳،۱۶، ۱۷،۲۲ ; اللہ تعالى كى موجودات پر تجلى ۱۴; اللہ تعالى كے اوامر، ۱۱

انبياء:انبياء اور بے ہوشى ۱۸;انبياء اور خطا ۲۲، ۲۴ ;انبياء اور رؤيت خدا، ۹;انبياء كا ايمان ۲۶;علم انبياء كى محدوديت ۱۰

ايمان:ايمان لانے ميں پہل كرنے والے ۲۶

توبہ:توبہ كى اہميت ۲۳;توبہ كے موارد ۲۳;ناپسنديدہ عمل سے توبہ ۲۳

حق:حق كا اقرار ۲۶

كوہ طور:كوہ طور كا منہدم ہونا ۱۳، ۱۶، ۱۷، ۲۲;كوہ طور كى گڑ گڑاہٹ ۱۷

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام اور تجلى خدا ۱۵، ۲۲ ;موسىعليه‌السلام اور رؤيت خدا ۲۱، ۲۲; موسىعليه‌السلام كا ايمان ۲۴، ۲۵; موسى كا قصّہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۶، ۷، ۱۱، ۱۲، ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۲، ۲۴ ; موسىعليه‌السلام كى بے ہوشى ۱۶، ۱۷، ۱۹; موسىعليه‌السلام كى تسبيح ۱۹;موسىعليه‌السلام كى توبہ ۲۲;موسىعليه‌السلام كى خواہشات ۵، ۶، ۷، ۱۱ ; موسىعليه‌السلام كى طرف سے حق قبول كرنا ۲;موسىعليه‌السلام كے رشد كے عوامل ۴;موسىعليه‌السلام ميقات ميں ۱، ۲، ۵

____________________

۱)توحيد صدوق، ص ۱۲۰، ح ۲۳، ب ۸: تفسير برھان ج/۲ ص ۳۴ ح ۲_

۲۵۵

آیت ۱۴۴

( قَالَ يَا مُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالاَتِي وَبِكَلاَمِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ )

ارشاد ہوا كہ موسى ہم نے تمام انسانوں ميں اپنى رسالت اور اپنے كلام كے لئے تمھارا انتخاب كيا ہے لہذا ب اس كتاب كو لے لو اور اللہ كے شكر گذار بندوں ميں ہوجاؤ(۱۴۴)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام ، اپنے زمانے كے تمام لوگوں سے برتر اور خدا كے برگزيدہ تھے_قال ى موسى إنى اصطفيتك على الناس

''اصطفا'' كسى چيز كے خالص حصّہ كو لينا'' كے معنى ميں استعمال ہوتاہے (مفردات راغب) اور چونكہ ''اصطفيتك'' حرف ''علي'' كے ذريعے متعدى ہوا ہے لہذا اس ميں برترى كا معنى بھى پايا جاتاہے_

۲_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام كو ان كے خلوص كى وجہ سے تمام لوگوں پر برترى دى اور چنا_

قال ى موسى إنّى اصطفيتك على الناس

چونكہ ''اصطفا'' كسى چيز كے خالص حصّہ كو لينے كے معنى ميں آتاہے لہذا جملہ ''اصطفيتك'' يہ مفہوم فراہم كرتاہے كہ موسىعليه‌السلام ايك خالص انسان تھے اور ان كا يہى خلوص ان كو انتخاب كرنے كا باعث بناہے_

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام كے انتخاب اور دوسروں پر ان كو برترى دينے كا اظہار، مناجات كى جگہ پر موسىعليه‌السلام كے ساتھ خدا كے كلام كا حصّہ ہے_قال ى موسى إنى اصطفيتك على الناس

۴_ رؤيت كے بارے ميں موسىعليه‌السلام كى درخواست كا منفى جواب دينے كى وجہ سے خداوند متعال نے ان كى دل جوئي كي_

قال لن ترني ...قال ى موسى إنى اصطفيتك على الناس

ايسے معلوم ہوتاہے كہ موسىعليه‌السلام كى درخواست رد كرنے كے بعد خدا كى طرف سے خصوصى نعمات كا ذكر آپعليه‌السلام كى دل جوئي كے واسطے ہے يعني: اگرچہ تمھارے لئے رؤيت خدا ممكن نہيں ، ليكن خدا نے تمہيں ايسى نعمات عطا كى ہيں كہ جن سے دوسرے محروم ہيں _

۵_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام كو، اپنى رسالت عطا كركے اور ان كے ساتھ ہم كلام ہوكر، اس زمانے كے تمام لوگوں پر برترى بخشي_اصطفيتك على الناس برسلتى و بكلامي

۲۵۶

''برسالتي'' اور ''بكلامي'' ميں حرف ''باء'' استعانت كيلئے ہے_

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام ، لوگوں كيلئے خدا كى طرف سے متعدد پيغامات ليكر ائے تھے_برسلتي

كلمہ ''رسالات'' كو جمع لانے ميں ہى مندرجہ بالا مفہوم كى طرف اشارہ پايا جاتاہے_

۷_ بعض انسانوں كى لياقت اور صلاحيت، خدا كى طرف سے پيغمبرى اور رسالت كيلئے ان كے منتخب ہونے كا باعث بنتى ہے_قال ى موسى إنى اصطفيتك على الناس برسلتي

۸_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام سے كہا: ميرے پيغامات حاصل كرو اور انہيں سيكھو اور اپنے اعمال و كردار كو ان كى اساس پر استوار كرو_فخذ ما ء اتيتك

فعل ''خذ'' كا مصدر ''ا خذ'' لينے كے معنى ميں آتاہے اور خدا كے پيغامات لينے سے مراد ،انہيں سيكھنا اور ان پر عمل كرنا ہے_

۹_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام سے كہا كہ رسالت كى نعمت حاصل ہونے اور ميرا كلام سننے كے اہل ہونے پر ميرے شكر گزار رہو_اصطفيتك على الناس برسلتى و بكلامي ...و كن من الشكرين

۱۰_ خدا كے پيغامات وصول كرنے اور ان پر عمل كرنے اور اس كى نعمات پر شكر گزار رہنے كے بارے ميں حكم، مناجات كے وقت موسىعليه‌السلام كے ساتھ خدا كے كلام كا حصّہ ہے_قال ...فخذ ما ء اتيتك و كن من الشكرين

۱۱_ چاليس راتوں كى مناجات كے ذريعے موسىعليه‌السلام كى تطہير، تورات حاصل كرنے كيلئے مقدمہ تھي_

ى موسى إنى اصطفيتك ...فخذ ماء اتيتك

چونكہ خدا نے موسىعليه‌السلام كے ساتھ اپنے وعدے كى داستان اور اُن كى چاليس راتوں كى مناجات كے آخر ميں اپنے پيغامات (تورات) عطا كرنے كى بات كى اس سے معلوم ہوتاہے كہ وہ وعدہ اور وہ مناجات تورات عطا كرنے كى وجہ سے تھيں _

۱۲_ حضرت موسىعليه‌السلام كے ساتھ خدا كى ہم كلامى اور پيغمبرى كيلئے ان كا انتخاب، اُن كيلئے خدا كى عظيم نعمات ہيں _

على الناس برسلتى و بكلمي ...و كن من الشكرين

۱۳_خدا كے پيغامات ياد كرنا اور اعمال و كردار ميں انہيں بروئے كار لانا، نعمت دين پر خدا كى شكر گزارى ہے_

فخذ ماء اتيتك و كن من الشكرين

۲۵۷

الہى پيغامات عطا كرنے كے بعد سپاس گزارى كى بات اس حقيقت كو ظاہر كرتى ہے كہ وہ پيغامات نعمت تھے لہذا انہيں عطا كرنے پر خدا كا شكر بجا لانا ضرورى ہے چنانچہ ان پيغامات كو ياد كرنے كے بارے ميں حكم يہ مطلب فراہم كرتاہے كہ اس نعمت كا شكر انہيں ياد كرنے اور اپنانے كے ذريعے ادا ہوتاہے_

۱۴_ دين اورالہى تعليمات، بشر كيلئے خدا كى نعمت ہيں _برسلتي ...و كن من الشكرين

۱۵_ نعمات خدا كے ملنے پر شكر گزارى ضرورى ہے_و كن من الشكرين

۱۶_ نعمات خدا كا شكر بجا لانے والے، بارگاہ خدا ميں ايك عظيم مقام پر فائز ہوتے ہيں _و كن من الشكرين

حضرت موسىعليه‌السلام جيسے ايك عظيم پيغمبر كو شكر گزارى كے بارے ميں خدا كا حكم اس حقيقت كى نشاندہى كرتاہے كہ شاكرين كا مقام بہت بلندہے_

۱۷_عن ابى عبدالله عليه‌السلام : ا وحى الله عزوجل إلى موسى : يا موسى ا تدرى لم اصطفيتك بكلامى دون خلقي؟ قال: يا رب و لم ذاك؟ قال: فا وحى الله تبارك و تعالى إليه ا ن يا موسى : إنى قلبت عبادى ظهرا لبطن فلم اجد فيهم ا حدا ا ذل لى نفساً منك (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے مروى ہے: كہ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام كى طرف وحى بھيجى اے موسىعليه‌السلام كيا تم جانتے ہو كہ ميں نے اپنے بندوں ميں سے اپنے ساتھ ہم كلام ہونے كيلئے تمہارا انتخاب كيوں كيا؟ موسىعليه‌السلام نے جواب ديا: پروردگارا اس كى وجہ كيا تھي؟ خداوند متعال نے فرمايا: اے موسىعليه‌السلام ميں نے تمام بندوں كى چھان بين كى اپنے سامنے تجھ سے زيادہ كسى كو خاضع و تابع نہيں پايا

اخلاص:اخلاص كے آثار ۲

اعداد:چاليس كا عدد ،۱۱

الله تعالى :اللہ تعالى كى رؤيت كا محال ہونا ۴;اللہ تعالى كا موسىعليه‌السلام سے تكلم ۳، ۸، ۹، ۱۰ ; اللہ تعالى كى نعمات ۱۲، ۱۴،۱۵،۱۶;اللہ تعالى كے اوامر ۸، ۹، ۱۰

انبياء:انبياء كے انتخاب كے اسباب ۷

انتخاب:انتخاب كے اسباب ۲،۷

____________________

۱) علل الشرايع ، ص ۵۶، ح۲ ، ب ۵۰،نورالثقلين ج۲ ص ۶۷ح ۲۵۵_

۲۵۸

تورات:نزول تورات كے اسباب ۱۱

دين:تعليمات دين پر عمل ۸، ۱۰، ۱۳;تعليمات دين كو سيكھنا ۸، ۱۰، ۱۳;نعمت دين ۱۳، ۱۴

رسالت:نعمت رسالت ۹

شكر:شكر نعمت ۹، ۱۰;شكر نعمت كى اہميت ۱۵;شكر نعمت كے موارد ۱۳

شاكرين:۹شاكرين كے مقامات ۱۶

كردار:كردار كى اساس ۸

لياقت:لياقت كے اثرات ۷

مناجات:رات كے وقت مناجات ۱۱

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام پر نعمات ۱۲; موسىعليه‌السلام كا اخلاص ۲;موسىعليه‌السلام كا تزكيہ ۱۱; موسىعليه‌السلام كا چناؤ ۱، ۲، ۳، ۵، ۱۲ ;موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۳، ۴، ۵، ۱۰، ۱۱، ۱۲ ; موسيعليه‌السلام كى بعثت ۱۲; موسىعليه‌السلام كى تعليمات ۶;موسيعليه‌السلام كى چلہ نشينى ۱۱; موسىعليه‌السلام كى دل جوئي ۴;موسىعليه‌السلام كى لياقت ۹; موسىعليه‌السلام كى مسؤوليت ۸، ۹ ; موسىعليه‌السلام كے مقامات ۱،۲،۳،۵;موسىعليه‌السلام ميقات ميں ۳، ۱۰;ميقات ميں موسىعليه‌السلام كى مناجات ۱۱

موسىعليه‌السلام كا چناؤ :۱، ۲

آیت ۱۴۵

( وَكَتَبْنَا لَهُ فِي الأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَيْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَا سَأُرِيكُمْ دَارَ الْفَاسِقِينَ )

اور ہم نے توريت كى تختيوں ميں ہر شے ميں سے نصيحت كا حصّہ اور ہر چير كى تفصيل لكھ دى ہے لہذا سے مضبوطى كے ساتھ پكڑ لو اور اپنى قوم كو حكم دو كہ اس كى اچھى اچھى باتوں كو لے ليں _ ميں عنقريب تمھيں فاسقين كے گھر دكھلادوں گا(۱۴۵)

۱_ خداوند متعال نے مناجات كے مقام پر موسى عليه‌السلام كو مكتوب الواح عطا كيں _ و كتبنا له فى الا لواح ...فخذها

''الا لواح'' ميں ''ال'' عہد ذكرى ہے اور گزشتہ آيت ميں مذكور ''ما اتيتك'' كى طرف اشارہ ہے_

۲۵۹

۲_ موسىعليه‌السلام كو عطا كى گئيں الواح ميں مندرج تحريروں كا كاتب ،خود خداوند متعال تھا_و كتبنا له فى الا لواح

۳_ موسىعليه‌السلام كو ملنے والى الواح ميں ہر طرح كى نصيحت كا ذكر موجود تھا_و كتبنا له فى الا لواح من كل شيء موعظة

كلمہ ''موعظة'' فعل ''كتبنا'' كيلئے مفعول ہے اور ''من كل شيئ'' كلمہ ''موعظة'' كيلئے صفت ہے، مورد كى مناسبت سے ''كل شيئ'' سے مراد ہر نصيحت آموز چيز ہے، بنابراين جملہ''كتبنا له ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ ہم نے موسيعليه‌السلام كو عطا كى گئيں الواح ميں ہر نصيحت آموز چيز كى نصيحت لكھ دى ہے_

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام كو عطا كى جانے والى الواح (تورات) عصر موسىعليه‌السلام كے لوگوں كى ہدايت كے متعلق تمام ضروريات كو پورا كرتى تھيں _و كتبنا ...تفصيلا لكل شيئ

۵_ تورات كا نزول ،مكتوب الواح كى شكل ميں تھا_و كتبنا له فى الا لواح

۶_ پند و نصيحت، تورات كى بنيادى تعليمات ميں سے ہے_و كتبنا ...موعظة و تفصيلاً

كلمہ ''تفصيلاً'' پر كلمہ ''موعظة'' كے مقدم ہونے ميں اس نكتہ كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ تورات كے مواعظ كو اس كى دوسرى تعليمات كى نسبت ايك خاص مقام حاصل ہے_

۷_ خداوند متعال كى طرف سے حضرت موسىعليه‌السلام كو، الواح كو سيكھنے سمجھنے اور ان پر عمل كرنے كے سلسلہ ميں سنجيدگى كى دعوت_فخذها بقوة

۸_ خداوند متعال نے موسىعليه‌السلام سے كہا كہ اپنى قوم كو الواح پر تحرير شدہ معارف اور احكام كو سيكھنے كا حكم دو_

و ا مر قومك يا خذوا با حسنها

۹_ قوم موسيعليه‌السلام ، الواح ميں تحرير شدہ معارف اور احكام كو اچھى طرح ياد كرنے اور ان پر بطريق احسن عمل كرنے كى ذمہ دار تھي_و ا مر قومك يا خذوا با حسنها

مندرجہ بالا مفہوم اس بنياد پر اخذ كيا گيا ہے كہ''احسنها'' كى ضمير كلمہ ''قوة'' كى طرف پلٹائی جائیے، اس بنياد پر فعل ''يا خذوا'' كا مفعول ايك محذوف ضمير ہے كہ جو كلمہ ''ا لواح'' كى طرف پلٹتى ہے يعني:''يا خذوا الا لواح باحسن القوة'' _

۱۰_ معارف الہى كو اچھى طرح سيكھنے اور احكام دين پر بطريق احسن عمل كرنے ميں سنجيدگى سے كام لينا، لوگوں كے ذمہ ايك اہم فرض ہے_و ا مر قومك يا خذوا با حسنها

۲۶۰

۱۱_ حضرت موسىعليه‌السلام ، اپنى قوم ميں كافى اثر و رسوخ ركھتے تھے_و ا مر قومك يا خذوا

چونكہ فعل ''يا خذوا'' امر كے جواب ميں واقع ہوا ہے لہذا ايك مقدّ ر ''إن'' شرطيہ كے ذريعے مجزوم ہے، جملے كى تقدير يوں ہے:''و امر قومك إن تا مرهم ياخذوا '' يعنى اپنى قوم كو الواح كے سيكھنے كے بارے ميں حكم دو، اگر تو نے ايسا حكم ديا تو وہ انجام ديں گے يہ مطلب (يعنى اگر تو نے حكم ديا تو وہ انجام ديں گے) ظاہر كرتاہے كہ موسيعليه‌السلام اپنى قوم ميں كافى اثر و رسوخ ركھتے تھے_

۱۲_ رہبروں كو اپنى تعليمات پر عمل كرنے كے سلسلہ ميں دوسروں پر سبقت حاصل ہونا چاہيئے_

فخذها بقوة و ا مر قومك يا خذوا

۱۳_ فاسقين كى سرزمين پر تسلط اور اس كے مناظر كا نظارہ، قوم موسىعليه‌السلام سے خدا كا ايك وعدہ تھا_سا وريكم دار الفسقين

كلمہ ''ا لفسقين'' كے متعلق تين احتمال پائے جاتے ہيں پہلا يہ كہ اس سے مراد آل فرعون ہيں دوسرا يہ كہ اس سے مراد سرزمين قدس كے وہ ساكنين ہيں كہ جو قوم موسىعليه‌السلام كے وارد ہونے سے پہلے وہاں آباد تھے، تيسرايہ كہ اس سے مراد قوم موسيعليه‌السلام كے خلاف ورزى كرنے والے افراد ہيں ، فوق الذكر مفہوم پہلے اور دوسرے احتمال كى طرف ناظر ہے_

۱۴_ معارف دين كو سيكھنا سمجھنا نيز احكام الہى پر عمل كرنا، فاسقين پر قوم موسى كو فتح حاصل ہونے اور ان كى سرزمين كو آزاد كرانے كى شرط تھي_فخذوها يا خذوا با حسنها سا وريكم دار الفسقين

فوق الذكر مفہوم اس احتمال كى اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ ''سا وريكم'' فعل امر ''فخذھا بقوة و ا مر قومك ياخذوا'' كا جواب ہو، يعني:''إن تاخذها و يا خذوا سا وريكم دار الفسقين'' يہ نكتہ بھى قابل ذكر ہے كہ فعل''ا وريكم'' ''سين'' كى وجہ سے مجزوم نہيں ہوا باوجود اس كے كہ امر كے جواب ميں واقع ہوا ہے_

۱۵_ خداوند متعال نے قوم موسيعليه‌السلام كو اپنى رسالت كى مخالفت سے خبردار كيا اور خلاف ورزى كرنے والوں كو فاسق كہہ كر پكارا_سا وريكم دار الفسقين

مندرجہ بالا مفہوم كى اساس يہ ہے كہ كلمہ ''الفاسقين'' سے مراد خود بنى اسرائیل ميں سے خلاف ورزى كرنے والے لوگ ہوں اس مبنا كے مطابق جملہ ''سا وريكم'' كہ جو تورات كو سيكھنے اور اس كى تعليمات پر عمل كرنے كے بارے ميں حكم كے بعد واقع ہوا ہے، اس ميں اس مطلب كى

۲۶۱

طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ اگر بعض لوگوں نے اس حكم كى اطاعت نہ كى تو وہ فاسق ہوں گے، اوريہ نكتہ بھى قابل ذكر ہے كہ اس صورت ميں ''دار'' سے مراد ان لوگوں (فاسقين) كا شوم اور نامبارك مقام ہوگا_

۱۶_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كے فاسقوں كو برے انجام سے دوچار ہونے كى دھمكى دي_

سا وريكم دار الفسقين

۱۷_عن ا بى جعفر عليه‌السلام : إنَّ الله تبارك و تعالى قال لموسي: ''و كتبنا له فى الا لواح من كل شيئ'' فا علمنا ا نه لم يبين له الا مر كله ..(۱)

حضرت امام باقرعليه‌السلام سے مروى ہے: كہ خداوند تبارك و تعالى نے موسىعليه‌السلام كے بارے ميں فرمايا: ''اور ہم نے اسكے لئے الواح ميں ہر چيز سے كچھ لكھا'' خدا نے اس آيت ميں ہميں آگاہ كيا ہے كہ اس نے موسىعليه‌السلام كيلئے تمام امور بيان نہيں كئے ہيں

الله تعالى :اللہ تعالى كا وعدہ ۱۳;اللہ تعالى كى دعوت ۷; اللہ تعالى كى نواہي۱۵; اللہ تعالى كے افعال ۲;اللہ تعالى كے انتباہات ۱۶; اللہ تعالى كے اوامر ۸;اللہ تعالى كے عطايا ،۱، ۲، ۳

انجام:نامبارك انجام ۱۶

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كو دعوت ۸;بنى اسرائیل كو وعدہ ۱۳; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱۳; بنى اسرائیل كى ذمہ دارى ۹; بنى اسرائیل كى فتح كى شرائط ۱۴; بنى اسرائیل كے فاسقوں پر فتح ۱۴; بنى اسرائیل كے فاسقوں كا انجام ۱۶;بنى اسرائیل كے فاسقوں كو دھمكى ۱۵، ۱۶;بنى اسرائیل كے فاسقوں كى سرزمين ۱۳، ۱۴

تورات:تورات اور اس دور كے تقاضے ۴;تورات پر عمل ۷، ۹ ; تورات كا ہدايت كرنا ۴; تورات كى الواح ۱، ۲، ۴، ۵;تورات كى الواح كى خصوصيت ۳; تورات كى تعليمات ۳، ۶ ;تورات كى تعليمات كا حصول ۷، ۸، ۹ ; تورات كى خصوصيت ۴;تورات كے مواعظ ۳،۶ ;نزول تورات كى خصوصيت ۵

دين:تعليمات دين پر عمل ۱۲;تعليمات دين كا حصول ۱۰، ۱۴;دين پر عمل كى اہميت ۱۰; دين پر عمل كے آثار ۱۴

رہبري:رہبرى كى ذمہ دارى ۱۲

لوگ:لوگوں كى ذمہ دارى ۱۰موسىعليه‌السلام :

____________________

۱) بصاءر الدرجات،ص ۲۲۸، ح۳، ب۵; نورالثقلين ج۲، ص۶۷، ح۲۵۷_

۲۶۲

موسىعليه‌السلام بنى اسرائیل كے درميان ۱۱; موسىعليه‌السلام كا قصّہ ۱، ۷، ۸; موسى كى ذمہ دارى ۷ ;موسىعليه‌السلام كے ساتھ

مخالفت ۱۵; موسى كے كلام كى تا ثير ۱۱; موسىعليه‌السلام ميقات ميں ،۱

آیت ۱۴۶

( سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَإِن يَرَوْاْ كُلَّ آيَةٍ لاَّ يُؤْمِنُواْ بِهَا وَإِن يَرَوْاْ سَبِيلَ الرُّشْدِ لاَ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلاً وَإِن يَرَوْاْ سَبِيلَ الْغَيِّ يَتَّخِذُوهُ سَبِيلاً ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَكَانُواْ عَنْهَا غَافِلِينَ )

ميں عنقريب اپنى آيتوں كى طرف سے ان لوگوں كو پھيردوں گا جو روئے زمين ميں ناحق اكڑتے پھرتے ہيں اور يہ كسى بھى نشانى كو ديكھ ليں ايمان لانے والے نہيں ہيں _ ان كا حال يہ ہے كہ ہدايت كا راستہ ديكھيں گے تواسے اپنا راستہ نہ بنائیں گے اور گمراہى كا راستہ ديكھيں گے تو اسے فوراً اختيار كرليں گے يہ سب اس لئے ہے كہ انھوں نے ہمارى نشانيوں كو جھٹلايا ہے اور ان كى طرف سے غافل تھے(۱۴۶)

۱_ خداوند متعال، متكبرين كو اپنے معارف اور آيات كى معرفت سے محروم ركھتاہے_

سا صرف عن ء اى تى الذين يتكبرون فى الا رض

كلمہ ''صرف'' جب حرف ''عن'' كے ذريعے متعدى ہو تو اس وقت روكنے اور مانع ہونے كے معنى ميں آتاہے چنانچہ آيات الہى سے روكنا يا تو ان كے فہم سے مانع ہونے كے معنى ميں ہے يا پھر آيات پر ايمان سے روكنے يا يہ كہ ان كو باطل كرنے اور مٹانے سے روكنے كے معنى ميں ہے، البتہ صرف پہلا معنى ہى پورى آيت كے تمام حصّوں كے ساتھ متناسب ہے_

۲_ تكبّر، آيات اور معارف الہى كو درك كرنے كى صلاحيت كے سلب ہونے كا باعث بنتاہے_

سا صرف عن ء ايتى الذين يتكبرون فى الا رض

۳_ تكبر، غير حقيقى اور موہوم امور سے وجود ميں آنے والى خصلت ہے_يتكبرون فى الا رض بغير الحق

''بغير الحق'' توضيح كيلئے ہے اور اس ميں ''باء'' سببيہ ہے بنابراين''بغير الحق'' كى قيد اس مطلب پر دلالت كرتى ہے كہ تكبر كا سرچشمہ

۲۶۳

غير حقيقى اور باطل امور ہيں _

۴_ بعض لوگ حقانيت دين كو ثابت كرنے كيلئے پيش كى جانے والى كسى نشانى كى بھى تصديق نہيں كرتے اور نہ ہى اس پر ايمان لاتے ہيں _و إن يرو كل ء اية لا يؤمنوا بها

۵_ خداوند متعال، آيات الہى كے بارے ميں بے يقينى كى كيفيت كے حامل افراد كو اپنے معارف اور آيات كو درك كرنے سے محروم ركھتاہے_سا صرف عن اى تى الذين يتكبرون ...و إن يروا كل ء اية لا يؤمنوا بها

جملہ ''إن يروا ...'' جملہ ''يتكبرون ...'' پر عطف ہے اور ''الذين'' كيلئے صلہ ہے_ يعنى ''سا صرف عن ء اى تى الذين ء ان يروا'' ...بنابراين ''إن يروا'' ميں ايك اور گروہ كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ جسے خداوند متعال آيات و معارف كو سمجھنے سے محروم ركھتاہے_

۶_ بعض لوگ رشد و ہدايت كى راہ اپنے سامنے پاكر بھى اسے اپنى زندگى كيلئے نہيں اپناتے_

و إن يروا سبيل الرشد لا يتخذوه سبيلاً

۷_ خداوند متعال، رشد و ہدايت كى راہ سے روگردانى كرنے والوں كو اپنى آيات اور معارف دين كى معرفت سے محروم ركھتاہے_سا صرف عن اى تى الذين إن يروا سبيل الرشد لا يتخذوه سبيلاً

جملہ ''و إن يروا سبيل الرشد'' جملہ ''يتكبرون'' پر عطف ہے اور در حقيقت يہ ''الذين'' كيلئے دوسرا صلہ ہے، يعنى''سا صرف عن ء ايتى الذين إن يروا سبيل الرشد ...'' بنابراين جملہ''و إن يروا سبيل الرشد'' ميں ايك تيسرے گروہ كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ جسے خدا معارف دين كو سمجھنے سے محروم ركھتاہے _

۸_ دين اور معارف الہي، رشد و ہدايت كى راہ دكھاتے ہيں اور انسان كيلئے سعادت فراہم كرتے ہيں _

سا صرف عن ء اى تى الذين ...إن يروا سبيل الرشد لا يتخذوه سبيلاً

''سبيل الرشد'' (راہ سعادت) سے مراد وہى آيات خدا يعنى دين اور معارف الہى ہيں _

۹_ بعض لوگ ضلالت و گمراہى كا راستہ ديكھتے ہى اس پر چل پڑتے ہيں _و إن يروا سبيل الغى يتخذوه سبيلاً

مندرجہ بالا مفہوم اس اساس پر ليا گيا ہے كہ جملہ ''و إن يروا سبيل الغي ...'' جملہ ''يتكبرون'' پر عطف ہو اور ''الذين'' كيلئے چوتھے صلہ كے طور پر ہو كہ اس صورت ميں اس جملہ ميں ايك اور گروہ كى طرف اشارہ پايا جائیے گا كہ جسے خدا اپنى آيات كى معرفت سے محروم ركھتاہے_

۲۶۴

۱۰_ خداوند متعال ايسے لوگوں كو كہ جو راہ ضلالت كو ديكھتے ہى اسے اپنى زندگى كى روش قرار ديتے ہيں ان كو اپنے معارف اور آيات كى معرفت سے محروم ركھتاہے_سا صرف عن ء ايتى الذين إن يروا سبيل الغنى يتخذوه سبيلاً

۱۱_ آيات الہى كى تكذيب اور ان سے بے اعتنائی ، آيات اور معارف الہى كى معرفت سے محروم رہنے كا باعث ہے_

سا صرف عن ء اى تي ...ذلك با نهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

مندرجہ بالا مفہوم اس بنياد پر اخذ ہوا ہے كہ ''ذلك'' كے ذريعے ''سا صرف'' سے استفادہ ہونے والے كلمہ ''صرف'' كى طرف اشارہ مقصود ہو، يعنى متكبرين كو آيات كى معرفت سے محروم ركھنے كى وجہ يہ ہے كہ انہوں نے ان كى تكذيب كى اور ان سے بے اعتنائی برتي_

۱۲_ آيات الہى كى تكذيب اور ان سے بے اعتنائی ، تكبر جيسى خصلت كے وجود ميں آنے كا باعث ہے_

الذين يتكبرون فى الا رض ...ذلك با نهم كذبوابايا تنا و كانوا عنها غفلين

فوق الذكر مفہوم كى اساس يہ ہے كہ ''ذلك'' كا مشاراليہ ''زمين پر تكبرہو ''كہ جو جملہ ''يتكبرون فى الا رض'' سے مستفاد ہے، جملہ ''كانوا عنھا غفلين'' ميں غفلت سے مراد، آيات سے بے اعتنائی ہے نہ يہ كہ ان كے وجود سے بے خبرى مراد ہو، اسلئے كہ آيات خدا كى تكذيب ان كے وجود سے آگاہى پر متوقف ہے_

۱۳_ آيات الہى كو جھٹلانا اور ان سے بے اعتنائی ، حقائق دين كے بارے ميں بے يقينى كى كيفيت كے وجود ميں آنے كا باعث ہے_إن يروا كل ء اية لا يؤمنوا بها ...ذلك با نهم كذبوابايا تنا و كانواعنها غفلين

۱۴_ آيات الہى كى تكذيب اور ان سے غفلت، رشد و ہدايت كى راہ كو قبول نہ كرنے اور ضلالت و گمراہى كى راہ كو اپنانے كا باعث ہے_و إن يروا سبيل الرشد لا يتخذوه ...ذلك بانهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

۱۵_ تكبّر، ايمان كى طرف مائل ہونے اور راہ كمال كو اپنانے سے مانع ہے جبكہ گمراہى كى طرف راغب ہونے كا باعث ہے_الذين يتكبرون ...و إن يروا كل ء اية ...و إن يروا سبيل الغى يتخذوه سبيلاً

فوق الذكر مفہوم اس احتمال كى بنياد پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب جملہ ''و إن يروا كل ء اية ...'' اور جملہ''إن يروا سبيل الرشد ...'' اور جملہ''إن يروا سبيل الغي ...'' زمين ميں تكبر كرنے والوں كے حالات اور صفات بيان كرنے كيلئے ہو، نہ يہ كہ انہيں (جيسا كہ گزشتہ مفاہيم ميں گزر چكاہے) متكبرين كے قسيم كے طور پر ليا جائیے_

۲۶۵

۱۶_ عصر موسيعليه‌السلام كے بعض لوگ، آيات خدا كو جھوٹا خيال كرتے ہوئے ان كى پرواہ نہيں كرتے تھے_

با نهم كذبوا بايا تنا و كانوا عنها غفلين

۱۷_ خداوند متعال نے قوم موسى كو متنبہ كيا كہ وہ ان ميں سے متكبرين اور منكرين كو تورات اور اس كے معارف كو سمجھنے سے محروم ركھے گا_و ا مر قومك يا خذوا با حسنها سا صرف عن ء اى تى الذين يتكبرون فى الا رض

گزشتہ آيات كى روشنى ميں مورد بحث آيت كا مورد نظر مصداق، قوم موسيعليه‌السلام كے متكبر اور ہٹ دھرم افرادہيں _

۱۸_ خداوند متعال نے قوم موسى كو متنبہ كيا كہ وہ رشد و كمال كى راہ كے ساتھ ان كى مخالفت جارى رہنے اور راہ ضلالت پر ان كے قائم رہنے كى صورت ميں انہيں تورات كے معارف كو سمجھنے سے محروم ركھے گا_

و ا مر قومك يا خذوا با حسنها ...إن يروا كل ء اية لا يؤمنوا بها ...سبيلاً

آيات خدا:آيات خدا سے اعراض كے اثرات ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴; آيات خدا سے اعراض كرنے والے ۱۶ ; آيات خدا كو جھٹلانے كے اثرات ۱۱، ۱۲، ۱۳، ۱۴; آيات خدا كو جھٹلانے والے ۴، ۵، ۱۶ ;آيات خدا كو سمجھنے كى راہ ميں حائل ركاوٹيں ۲، ۱; آيات خدا كے فہم سے محروم لوگ ۵،۷،۱۰ ; آيات خدا كے فہم سے محروميت ۵، ۱۱

الله تعالى :اللہ تعالى كے افعال ۵،۷،۱۰ ;اللہ تعالى كے انتباہات ۱۷،۱۸

ايمان:ايمان كے موانع ۱۵

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كو انتباہ ۱۸ ;بنى اسرائیل كے كافر ۱۶; بنى اسرائیل كے منكرين كو انتباہ ۱۷

تكبر:تكبر كا سرچشمہ ۳; تكبر كے اثرات ،۱،۲،۱۵;تكبر كے اسباب ۱۲

تورات:فہم تورات سے محروميت ۱۷;فہم تورات كے موانع ۱۸

دين:دين سے اعراض كرنے والے ۴،۶،۷; دين كو قبول كرنے كے موانع ۱۳; دين كا كردار ۸; فہم دين سے محروم لوگ ۷،۱۰;فہم دين سے محروميت ۱۱، ۱۷;فہم دين كے موانع ۱،۲

رشد و تكامل:رشد كے ساتھ مخالفت ۱۸;رشد كے موانع ۱۴، ۱۵; عوامل رشد ۸

سعادت:

۲۶۶

سعادت كے عوامل ۸سماجى گروہ: ۴،۶،۹

گمراہ لوگ: ۹گمراہوں كى محروميت ۱۰

گمراہي:گمراہى كے اثرات ۱۸;گمراہى كے اسباب ۱۵;

گمراہى كے عوامل ۱۴

متكبرين:متكبرين كى محروميت ۱،۷ ۱

ہدايت:ہدايت سے روگردانى كرنے والے ۶،۹ ،۱۰ ; ہدايت كے عوامل ۸

آیت ۱۴۷

( وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا وَلِقَاء الآخِرَةِ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلاَّ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ )

اورجنلوگوں نے ہمارى نشانيوں اور آخرت كى ملاقات كو جھٹلايا ہے ان كے اعمال برباد ہيں اورظاہر ہے كہ انھيں ويسا بدلہ تو ديا جائیے گا جيسے اعمال كر رہے ہيں (۱۴۷)

۱_ آيات الہى كى تكذيب اور قيامت كا انكار، انسان كے تمام نيك اعمال كے تباہ ہونے كا باعث ہے_

والذين كذبوا بايا تنا و لقاء الا خرة حبطت ا عملهم

كلمہ ''حبط'' تباہ و برباد ہونے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے، اور ''ا عمال'' سے مراد انسان كا نيك كردار ہے اسيلئے كہ ناپسنديدہ اعمال كا بربادہوناتو دنيا اور آخرت ميں انسان كے فائدے ميں ہے، كلمہ ''ا عمال'' چونكہ بصورت جمع لايا گيا ہے اور بعد والے كلمہ كى طرف اضافت كے ساتھ ہے لہذا مفيد استغراق و شمول ہے،بنابراين ''ا عمالھم'' يعنى ان كے تمام نيك كام_

۲_ آيات الہى كى تصديق اور روز قيامت پر ايمان، بارگاہ خدا ميں نيك اعمال كى قدر و قيمت كى شرائط ميں سے ہيں _

والذين كذبوا بايا تنا و لقا ء الا خرة حبطت ا عملهم

۳_ بنى اسرائیل كے نيك اعمال، تورات كو جھٹلانے اور قيامت پر يقين نہ ركھنے كى صورت ميں ، ان كيلئے ثمر بخش نہ ہوں گے_والذين كذبوا بايا تنا ...حبطت ا عملهم

۲۶۷

گزشتہ آيات كى روشنى ميں''الذين كذبوا ...'' كيلئے مورد نظر مصداق بنى اسرائیل ہے_

۴_ ميدان قيامت ميں حاضر ہونا اور دنيوى اعمال كى سزا ديكھنا، تمام انسانوں كا انجام ہے_لقاء الا خرة

كلمہ ''لقاء'' (پہنچنا اور ملاقات كرنا) مصدر ہے اور اپنے مفعول كى طرف مضاف ہے جبكہ اس كا فاعل محذوف ہے، يعني:''و لقائهم الا خرة''

۵_ قيامت كے دن انسان كى سزا و جزاء خود اس كے اپنے اعمال كا نتيجہ ہے_هل يجزون إلا ما كانوا يعملون

۶_ الہى سزائیں انسان كے اعمال و كردار كے ہم پلہ ہوتى ہيں _هل يجزون الا ما كانوا يعملون

۷_ آيات الہى اور روز قيامت كى تكذيب كى مناسب سزا نيك اعمال كا تباہ ہوناہے_

حبطت ا عملهم هل يجزون إلا ما كانوا يعملون

۸_ خداوند متعال، انسان كو صرف اس كے مسلسل كئے جانے والے گناہوں پر سزا ديتاہے_

هل يجزون إلا ما كانوا يعملون

فعل مضارع ''يعملون'' اور ''كانوا'' كے ساتھ ساتھ آنے سے استمرار كا استفادہ ہوا ہے_

۹_ انسان كے نيك اعمال كا تباہ ہونا، خدا كى سزاؤں ميں سے ہے_حبطت ا عملهم هل يجزون إلا ما كانوا يعملون

تكذيب آيات كے ذريعے اعمال كى تباہى كے بيان كے بعد اس مطلب كا بيان كيا جانا كہ انسان كى سزا خود اس كے اپنے اعمال كا نتيجہ ہے، اور يہ اس حقيقت كوظاہر كرتاہے كہ نيك اعمال كا تباہ ہونا بھى بجائیے خود ايك سزا ہے كہ جو تكذيب آيات اور انكار قيامت پر مترتب ہوتى ہے_

آيات خدا:آيات خدا كو جھٹلانے كى سزا ،۷;آيات خدا كو جھٹلانے كے اثرات ،۱

الله تعالى :اللہ تعالى كى سزائیں ۷، ۸، ۹;اللہ تعالى كى سزاؤں كى خصوصيت ۶

انسان:انسان كا انجام ۹

ايمان:آيات خدا پر ايمان ۲;ايمان كے اثرات ۲; قيامت پر ايمان ۲

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كے نيك اعمال ۳

تورات:تكذيب تورات كے اثرات ۳

۲۶۸

سزا:سزا كا عمل كے متناسب ہونا ۶

عمل:حبط كے اسباب ۳،۷;۱عمل كى اخروى جزا، ۴;عمل كى اخروى سزا ،۴، ۵ ;عمل كى قدر و قيمت كا معيار ۲; عمل كى نابودى كے اسباب ۱، ۳، ۷

عمل صالح:عمل صالح كا تباہ و برباد ہونا ۹

قيامت:تكذيب قيامت كى سزا ،۷;تكذيب قيامت كے اثرات ۱، ۳;قيامت كے دن سب افراد كو اكھٹا كرنا ۴

گناہ:گناہ كا استمرار ۸;گناہ كى سزا ،۸

نظام سزا: ۵، ۶، ۷، ۸، ۹

آیت ۱۴۸

( وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلاً جَسَداً لَّهُ خُوَارٌ أَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّهُ لاَ يُكَلِّمُهُمْ وَلاَ يَهْدِيهِمْ سَبِيلاً اتَّخَذُوهُ وَكَانُواْ ظَالِمِينَ )

اور موسى كى قوم نے ان كے بعد اپنے زيورات سے گوسالہ كا مجسمہ بنايا جس ميں آواز بھى تھى كيا ان لوگوں نے نہيں ديكھا كہ وہ نہ بات كرنے كے لائق ہے اور نہ كوئي راستہ دكھا سكتا ہے انھوں نے اسے خدا بناليا اور وہ لوگ واقعا ظلم كرنے والے تھے(۱۴۸)

۱_ قوم موسى نے اُن كى عدم موجودگى ميں (كہ جب آپ مناجات كيلئے تشريف لے گئے) ايك بچھڑے كى مورتى كى پوجا شروع كردي_و اتخذ قوم موسى من بعده من حليهم عجلاً جسداً

۲_ قوم موسى نے اپنے زيورات ڈھال كر پوجا كيلئے ايك بچھڑے كا مجسمہ بنايا_اتخذ ...من حليهم عجلاً جسداً

''اتخذ'' كا مصدر ''اتخاذ'' يہاں بنانے كے معنى ميں ہے اور كلمہ ''عجل'' كا معنى بچھڑا ہے اور كلمہ ''حُلّي'' (حَلى كى جمع) زيورات كے معنى ميں ہے_

۳_ بنى اسرائیل كے ہاتھوں بنے ہوئے بچھڑے كے مجسمے ميں سے گائے كى سى آواز نكلتى تھي_له خوار

گائے كى آواز كو ''خوار'' كہا جاتاہے اور بصورت استعارہ اونٹ كى آواز كيلئے بھى يہى كلمہ استعمال كيا جاتاہے_

۲۶۹

۴_ بنى اسرائیل كے ليئےچھڑے كا مجسمہ تيار كرنے والا شخص، مجسمہ سازى كے فن ميں ماہر، ايك مشّاق فنكار تھا_

عجلاً جسداً له خوار

اس مجسمے پر كلمہ ''عجل'' (بچھڑا) كا اطلاق اس نكتہ كو بيان كرتا كہ وہ مجسمہ مكمل طور پر بچھڑے كے مشابہ تھا چنانچہ اس كو اس طرح تيار كرنا كہ اس سے گائے كى آواز نكلے، اس حقيقت كو بيان كرتاہے كہ وہ مجسمہ ساز ايك ہنرمند تھا اور مجسمہ سازى كى صنعت ميں مكمل مہارت ركھتا تھا_

۵_ بچھڑے كے مجسمہ سے گائے كى سى آواز خارج ہونا، قوم موسى كيلئے اس مجسمہ كى پرستش كرنے كا باعث بنا_

له خوار

عام طور پر كسى شيء كى خصوصيات بيان كرنے ميں اسى شيء پر مترتب ہونے والے احكام كے سبب كى طرف اشارہ پايا جاتاہے، بنابراين كہا جاسكتاہے كہ خدا نے مجسمہ كى اس خصوصيت (گائے كى سى آواز نكلنا) كو بيان كركے مجسمہ كى پرستش كى طرف قوم موسى كى رغبت كے ايك سبب كى طرف اشارہ كيا ہے_

۶_ بنى اسرائیل كا اپنے ہاتھوں سے بنايا ہوا معبود (بچھڑے كا مجسمہ) نہ ہى تو ان كے ساتھ كلام كرتا اور نہ ہى انہيں كسى راہ كى طرف ہدايت كرتا تھا_ا لم يروا ا نه لا يكلمهم و لا يهديهم سبيلاً

۷_ بات كرنے سے ناتوان اور ہدايت كرنے سے عاجز مجسمے كى پرستش كى طرف قوم موسى كا رجحان ايك غير عاقلانہ فعل اور تعجب آور بات تھي_ا لم يروا ا نه لا يكلمهم و لا يهديهم سبيلاً

''ا لم يروا'' ميں استفہام انكار اور تعجب كيلئے ہے، يعنى بچھڑے كى پوجا كرنے والے يہ ديكھتے ہوئے كہ يہ ان كے ہاتھوں كا بنايا ہوا معبود نہ توان كے ساتھ كلام كرنے پر قادر ہے اور نہ ہى انہيں كوئي راہ دكھاتاہے، اس كے باوجود وہ اس كو ''الہ'' خيال كرتے تھے، يہ ايك ايسى غير معقول بات ہے كہ جو ہر عقلمند كيلئے باعث حيرت ہے_

۸_ انسان كى ہدايت كرنا اور اس كے ساتھ كلام كرنے پر قادر ہونا، ايك سچے معبود كى روشن ترين نشانى ہے_

ا لم يروا ا نه لا يكلمهم و لا يهديهم سبيلاً

۹_ بنى اسرائیل ميں شرك آلود رجحانات كے وجود اور ايك محسوس معبود كے ساتھ ان كے لگاؤ نے ان

۲۷۰

كيلئے بچھڑے كى پرستش كا رخ كرنے كى راہ ہموار كي_و اتخذ قوم موسى من بعده من حليهم عجلاً جسداً

قرآن كى اس مطلب پر تاكيد كہ قوم موسيعليه‌السلام نے آپعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں معبود بنانا شروع كرديا، اس حقيقت كو بيان كرتى ہے كہ آيت ۱۳۸، ۱۳۹ ميں موسىعليه‌السلام كى طرف سے پيش كيے جانے والے حقائق نے محسوس معبود كے چاہنے والوں پر كچھ اثر نہ كيا بلكہ وہ اسى طرح ايك محسوس و ملموس خدا كى فكر ميں رہے يہاں تك كہ فرصت ملتے ہى (موسيعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں ) اپنى خواہش كو عملى جامہ پہنا ديا_

۱۰_ بنى اسرائیل كے پاس بچھڑے كى پوجا كى طرف مائل ہونے كيلئے كوئي بہانہ اور عذر نہ تھا_اتخذوه و كانوا ظلمين

جملہ حاليہ ''و كانوا ظلمين'' ميں ان دو معانى ميں سے كسى ايك كى طرف اشارہ پايا جاتاہے ايك يہ كہ شرك ظلم ہے اور قوم موسى بچھڑے كى پرستش كى طرف مائل ہوكر ظالمين كے زمرے ميں آگئي دوسرا يہ كہ بنى اسرائیل كا بچھڑے كى پوجا كرنا ظلم تھا نہ يہ كہ اس حقيقت كو بيان كرنے كيلئے ہو كہ شرك خود ظلم ہے، يعنى ان كا يہ كردار ظلم تھا كہ جس كيلئے ان كے پاس كوئي توجيہ نہ تھى كہ اپنے ناروا كام كو صحيح ظاہر كر پاتے، فوق الذكر مفہوم اسى دوسرے معنى كى طرف ناظر ہے_

۱۱_ عصر موسى كے بنى اسرائیل بچھڑے كى پوجا كى طرف رغبت پيدا كرنے كى وجہ سے ظالمين كے زمرے ميں شمار ہوئے_اتخذوه و كانوا ظلمين

۱۲_ غير خدا كى پرستش اور مشركانہ رجحانات ظلم ہيں _اتخذوه و كانوا ظلمين

۱۳_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله تعالي: ''و اتخذ قوم موسى من بعده من حليهم عجلا جسدا له خوار'' فقال موسى يا رب و من ا خار الصنم؟ فقال الله : ا نا يا موسى ا خرته (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے آيت'' ...عجلا جسدا له خوار'' كے بارے ميں روايت منقول ہے كہ موسىعليه‌السلام نے خدا سے عرض كى كہ اے ميرے پروردگار سامرى كے بت كو كس نے آواز بخشي؟ خدا نے فرمايا اے موسى ، ميں نے اسے آواز عطا كى ہے_

انحراف:انحراف كے عوامل ۹

بچھڑا :۲بچھڑے كى پو جا :بچھڑے كى پوجا كا ظلم ۱۱

__________________

۱) تفسير عياشى ص/۲۹ ،ج۲_ح ۷۹، نورالثقلين ج/۲ ص ۷۰ ح ۲۶۳_

۲۷۱

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كا ارتداد ،۱۱;بنى اسرائیل كا بچھڑا، ۶، ۷ ; بنى اسرائیل كا ظلم ۱۱;بنى اسرائیل كا محسوسات كى طرف رجحان ۹; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۵، ۹ ;بنى اسرائیل كى مجسمہ سازى ۱، ۲، ۴ ;بنى اسرائیل كے باطل معبود ۶;بنى اسرائیل كے بچھڑے كى آواز ۳، ۵; بنى اسرائیل كے ناپسنديدہ رجحانات ۹; بنى اسرائیل ميں بچھڑے كى پوجا ۱، ۲، ۱۱ ;بنى اسرائیل ميں بچھڑے كى پوجا كا غير منطقى ہونا ۷، ۱۰ ; بنى اسرائیل ميں بچھڑے كى پوجا كے اسباب ۵، ۹

سامري:سامرى كى مہارت ۴

شرك:شرك عبادى كا ظلم ۱۲;شرك كے اسباب ۵

ظالمين: ۱۱

ظلم:ظلم كے موارد ۱۲

محسوسات كى طرف رجحان ;

محسوسات رجحان كے اثرات ۹

معبود:سچے معبود كا تكلم ۸;سچے معبود كى نشانياں ۸;معبود كا ہدايت كرنا ۸

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام كا قصّہ،۱ ;موسىعليه‌السلام ميقات ميں ،۱

آیت ۱۴۹

( وَلَمَّا سُقِطَ فَي أَيْدِيهِمْ وَرَأَوْاْ أَنَّهُمْ قَدْ ضَلُّواْ قَالُواْ لَئِن لَّمْ يَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَيَغْفِرْ لَنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ )

اور حب وہ پچھتا ئے اور انھوں نے ديكھ ليا كہ وہ بہك گئے ہيں تو كہنے لگے كہ اگر ہمارا پروردگار ہمارے اوپر رحم نہ كرے گا اور ہميں معاف نہ كرے گا تو ہم خسارہ والوں ميں شامل ہوجائیں گے(۱۴۹)

۱_ بنى اسرائیل كچھ عرصہ بعد پرستش كيلئے بچھڑے كى نااہليت كى طرف متوجہ ہوگئے اور اپنى گمراہى سے آگاہ ہوتے ہوئے اپنے كيئےر پشيمان ہوگئے_و لما سقط فى ا يديهم و را وا ا نهم قد ضلوا

جملہ ''سقط فى ا يديھم'' پشيمانى سے كنايہ ہے اس لئے كہ انسان پشيمانى كے وقت اپنى ٹھوڑى

۲۷۲

ہاتھوں پر ركھ ديتاہے گويا اپنے ہاتھوں گرا ہے_

۲_ بنى اسرائیل نے اپنى گمراہى سے آگاہ ہونے كے بعد بچھڑے كى پوجا سے توبہ كرلى اور اپنے گناہ كا اعتراف كرليا_

قالوا لئن يرحمنا ربنا و يغفر لنا لنكونن من الخسرين

۳_ بنى اسرائی ل، اپنى گمراہى كے بارے ميں يقين حاصل كرنے كے بعد اس حقيقت تك پہنچے كہ مجسمہ پرستى كے برے انجام سے ان كى نجات خدا كى رحمت اور مغفرت كے شامل ہونے ہى كى صورت ميں ممكن ہے_

قالوا لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا لنكونن من الخسرين

۴_ خدا كى مغفرت، اس كى رحمت كا ايك جلوہ ہے_لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا

۵_ بندوں پر خدا كى رحمت اور ان كے گناہوں كى معافي، ان پر خدا كى ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_

لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا

۶_ بنى اسرائیل كے مرتد لوگ مجسمہ پرستى كى وجہ سے اپنے مستقبل كے بارے ميں پريشان تھے_

لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا لنكونن من الخسرين

۷_ مشركين اور مرتدين كا يقينى انجام، ان كا خسارے ميں ہوناہے_لنكونن من الخسرين

۸_ قوم موسىعليه‌السلام ، مجسمہ پرستى كا سابقہ ركھنے كے باوجود خدا كى رحمت اور مغفرت سے لو لگائے ہوئے تھي_

لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا

۹_ شرك اور ارتداد جيسے گناہ كا سابقہ ركھنے كے باوجود بھى خدا كى رحمت اور مغفرت كى اميد ركھنا ضرورى ہے_

لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا لنكونن من الخسرين

۱۰_ گناہ اور شرك آلود رجحانات كے خسارے سے نجات حاصل كرنے كى واحد راہ ،خدا كى رحمت و مغفرت كا شامل حال ہوناہے_لئن لم يرحمنا ربنا و يغفر لنا لنكونن من الخسرين

الله تعالى :اللہ تعالى كى ربوبيت ۵; اللہ تعالى كى رحمت ۵; اللہ تعالى كى رحمت كى اميد ۸،۹; اللہ تعالى كى رحمت كے اثرات ۳،۱۰;اللہ تعالى كى رحمت كے مظاہر ۴;اللہ تعالى كى مغفرت ۴;اللہ تعالى كى

۲۷۳

مغفرت كى اميد۸;اللہ تعالى كى مغفرت كے اثرات۳

اميد ركھنا:اميد ركھنے كى اہميت ۹

انجام:برے انجام سے نجات ۳

بچھڑے كى پوجا :بچھڑے كى پوجاسے پشيمان ہونا،۱ ;بچھڑے كى پوجا كا انجام ۳

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كا اقرار ۳، ۲; بنى اسرائیل كى آگاہى ۱، ۲، ۳; بنى اسرائیل كى اميد ۸; بنى اسرائیل كى پشيماني،۱ ;بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۶، ۸ ; بنى اسرائیل كى توبہ ۲;بنى اسرائیل كى گمراہى ۲; بنى اسرائیل كى مجسمہ پرستى ۱، ۲، ۸ ;بنى اسرائیل كے

مرتدوں كى پريشانى ۶

شرك:شرك كے خسارے سے نجات ۱۰

گمراہي:گمراہى كا اقرار ۳

گناہ:گناہ كا اقرار ۲;گناہ كى معافى ۵;گناہ كے خسارے سے نجات ۱۰

مرتدين:مرتدين كا انجام ۷;مرتدين كا خسارے ميں ہونا ۷

مشركين:مشركين كا انجام ۷;مشركين كا خسارے ميں ہونا ۷

مغفرت:مغفرت كى اميد ۹;مغفرت كے اثرات ۱۰

۲۷۴

آیت ۱۵۰

( وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفاً قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِن بَعْدِيَ أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ وَأَلْقَى الألْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُواْ يَقْتُلُونَنِي فَلاَ تُشْمِتْ بِيَ الأعْدَاء وَلاَ تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ) .

اور جب موسى اپنى قوم كى طرف واپس ائے تو غيظ و غضب كے عالم ميں كہنے لگے كہ تم نے ميرے بعد بہت برى حركت كى ہے_ تم نے حكم خدا كے آنے ميں كس قدر عجلت سے كام ليا ہے اور پھر انھوں نے توريت كى تختيوں كو ڈال ديا اور اپنے بھائی كا سر پكڑكر كھينچنے لگے_ ہارون نے كہا بھائی قوم نے مجھے كمزور بنا ديا تھا اور قريب تھا كہ مجھے قتل كر ديتے تو ميں كيا كرتا_ آپ دشمنوں كو طعنہ كا موقع نہ ديجئے اور ميرا شمار ظالمين كے ساتھ نہ كيجئے(۱۵۰)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام خدا كے ساتھ چاليس راتوں كى مناجات كے بعد اپنى قوم كى طرف واپس ائے_

و لما جاء موسى لميقتنا ...و لما رجع موسى إلى قومه

۲_ حضرت موسىعليه‌السلام جب بنى اسرائیل كى طرف واپس ائے تو اپنى قوم كے گمراہ ہوجانے پر سخت غضب ناك اور غمگين ہوئے_و لما رجع موسى الى قومه غضبن اسفاً

كلمہ ''اسف'' ايسے شخص كيلئے بولا جاتاہے كہ جو بہت غمگين ہو (لسان العرب)

۳_ حضرت موسىعليه‌السلام ، بنى اسرائیل كے پاس پہنچنے سے پہلے خدا كے ساتھ مناجات كے دوران ہى ان كے مرتد ہونے سے آگاہ ہوچكے تھے_و لما رجع موسى الى قومه غضبن اسفاً

۴_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى منحرف قوم كے پاس پہنچنے كے بعد ان كے طرز عمل كو غلط قرار ديتے ہوئے ان كى مذمت كي_قال بئسما خلفتمونى من بعدى ا عجلتم ا مر ربكم

۵_ قوم موسى ، آپعليه‌السلام كے ساتھ خدا كے وعدے كى مدت كو چاليس راتوں سے كم خيال كرتى تھي_ا عجلتم امر ربكم

عجلت كرنا يعنى كسى چيز كو اس كا وقت پہنچنے سے پہلے طلب كرنا، ''ا مر ربكم'' سے مراد موسيعليه‌السلام كے ساتھ خدا كا وقت ملاقات ہے اور كلمہ ''ا عجلتم'' ميں استفہام توبيخى ہے، بنابرايں مذكورہ جملے كا معنى يہ ہوگا: آيا تم لوگ وعدے كا وقت تمام ہونے سے پہلے اس كے خواہاں تھے؟

۲۷۵

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كے ساتھ خدا كے وعدے كى مدت كے اختتام اور آپعليه‌السلام كى واپسى ميں تاخير كے بارے ميں توہم نے قوم موسى كيلئے بچھڑے كى پرستش كى راہ ہموار كي_بئسما خلفتمونى من بعدى ا عجلتم ا مر ربكم

جملہ ''ا عجلتم'' ميں اس سبب كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ جس كى بناپر بنى اسرائیل نے بچھڑے كى پوجا كا رخ كيا_

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كى مجسمہ پرستى پر شدت غضب كے اثر كى وجہ سے تورات كى تختيوں كو زمين پر ڈال ديا_لما رجع موسى إلى قومه غضبن ا سفاً ...و ا لقى الا لواح

۸_ بنى اسرائیل كا شرك اور بچھڑے كى پرستش ميں آلودہ ہونا، تورات اور اس كے مواعظ اور پيغامات كو ابلاغ كرنے كيلئے سازگار نہ تھا_ا لقى الا لواح

داستان كے اس حصّہ (يعنى گوسالہ پرستى كو ديكھ كر موسىعليه‌السلام نے تورات كو زمين پر ڈال ديا) كو بيان كرنے كا مقصد گويا يہ نكتہ ہے كہ موسىعليه‌السلام نے اپنے جاہل معاشرے كو تورات كے اہل نہ جانا اور اس كى تعليمات كيلئے ميدان موجود نہ پاكر اسے زمين پر ركھ ديا_

۹_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنے بھائی ہارونعليه‌السلام كو بنى اسرائیل كے انحراف كے معاملہ ميں قصور وار ٹھہرايا_

و ا خذ برا س ا خيه يجره إليه

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام نے بنى اسرائیل كے انحراف ميں ہارونعليه‌السلام كو قصور وار سمجھنے كى وجہ سے ان كا مواخذہ كرنے كيلئے سر كے بالوں سے پكڑ كر اپنى طرف كھينچا_

ا خذ برا س ا خيه يجره إليه

جملہ ''ا خذ براس ا خيہ'' كے تفسير ميں مفسرين كا كہنا يہ ہے كہ موسىعليه‌السلام نے ہارونعليه‌السلام كے بالوں كو پكڑا كلمہ ''را س'' كى تفسير ميں سر كے بال مراد لينا، گويا بعد والے جملے ''يجرہ اليہ'' (يعنى اسے اپنى طرف كھينچ رہے تھے) كى وجہ سے ہے اسليئےہ اگر موسىعليه‌السلام نے ہارونعليه‌السلام كا سر پكڑا ہوتا تو اس صورت ميں ان كے درميان فاصلہ نہ ہوتا كہ انہيں اپنى طرف كھينچيں _

۱۱_ بنى اسرائیل كو بچھڑے كى پوجا اور شرك سے روكنا، موسىعليه‌السلام كى نظر ميں ہارونعليه‌السلام كى ذمہ دارى تھي_

و ا خذ برا س ا خيه يجره إليه

۲۷۶

۱۲_ دينى راہنماؤں كو قرابت دارى كى بناپر ذمہ دار افراد كے قصور سے چشم پوشى نہيں كرنا چاہيے_

و ا خذ برا س ا خيه يجره إليه

۱۳_ معاشرتى امور ميں قصور وار ذمہ دار افراد جس قدر اونچے رتبے پر ہوں ان كا مواخذہ ضرورى ہے_

و ا خذ برا س ا خيه يجره إليه

۱۴_ ہارونعليه‌السلام نے موسىعليه‌السلام كے احساسات كو ابھارتے ہوئے ان كے غصے كو ٹھنڈا كرنے اور اس بات پر مطمئن كرنے كى كوشش كى كہ انہوں نے بنى اسرائیل كے منحرفين كے مقابلے ميں اپنے فرائض كى انجام دہى ميں كوئي كوتاہى نہيں كي_قال ابن ا م إن القوم استضعفونى و كادوا يقتلونني

ايسا معلوم ہوتاہے كہ ہارونعليه‌السلام نے موسى كو ''ماں جايا'' كہہ كر مخاطب قرار ديتے ہوئے ان كے احساسات كو اپنے حق ميں ابھارنے كى كوشش كي_

۱۵_ احساسات كو ابھارنا، غضب ٹھنڈا كرنے ميں مؤثر ہے _*رجع موسى إلى قومه غضبن ...قال ابن ا م

۱۶_ انبياء كے روّيے ميں احساسات كى تاثير_قال ابن ا م

۱۷_ ہارونعليه‌السلام ، موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائیل كے درميان شرك اور بچھڑے كى پوجا كے خلاف جد و جہد ميں مشغول رہے_قال ابن ا م ا ن القوم استضعفونى و كادو يقتلوني

۱۸_ ہارونعليه‌السلام ،بنى اسرائیل كے بچھڑے كے پجاريوں كے سامنے مغلوب اور انہيں اس فعل سے باز ركھنے سے ناتوان تھے_إن القوم استضعفوني

كلمہ ''استضعاف'' غلبہ كرنے اور مغلوب بنانے كے معنى ميں آتاہے_

۱۹_ بچھڑے كے پجاري، ہارونعليه‌السلام كو شرك كے خلاف ان كے مسلسل مبارزہ كى وجہ سے، قتل كرنے پر آمادہ تھے_إن القوم استضعفونى و كادوا يقتلونني

۲۰_ ہارونعليه‌السلام نے بچھڑے كى پوجا كرنے والوں كے خلاف جنگ كرنے اور انہيں اس عمل سے روكنے ميں ناكام رہنے كا حال بيان كرتے ہوئے موسىعليه‌السلام كے سامنے اپنى بے گناہى ثابت كرنے كى كوشش كي_

إن القوم استضعفونى و كادوا يقتلونني

۲۱_ دينى معاشروں كے ذمہ دار افراد كو لوگوں كے عقائد كے معاملے ميں حساس ہونا چاہيے نيز انہيں چاہيے كہ منحرفين اور

۲۷۷

انحراف كے اسباب كے خلاف مبارزہ كرنے كے سلسلہ ميں كوتاہى نہ كريں _قال ابن ا م إن القوم استضعفونى و كادوا يقتلونني

۲۲_ ہارونعليه‌السلام نے بنى اسرائیل كے منحرفين كے سامنے اپنى حالت كى وضاحت كرتے ہوئے موسيعليه‌السلام سے درخواست كى كہ ميرا مؤاخذہ كركے دشمنان دين كو خوش نہ كريں _و كادوا يقتلوننى فلا تشمت بى الا عدائ

كلمہ ''الا عداء'' كا ''ال'' جنس كيلئے ہے اور''القوم الظالمين'' كے قرينہ كے مطابق اس سے مراد دشمنان دين يعنى وہى بچھڑے كى پوجا كرنے والے ہيں _ فعل ''لا تشمت'' كا مصدر ''اشمات'' خشنود كرنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے اور كلمہ ''بي'' ميں حرف ''باء'' سببيہ ہے بنابراين'' لا تشمت بى الا عدائ'' يعنى ميرا مؤاخذہ كرتے ہوئے دشمنان دين كو خوش نہ كرو_

۲۳_ غير خدا كى پرستش، دين اور انبيائے الہى كے ساتھ دشمنى ہے_فلا تشمت بى الا عدائ

كلمہ ''الاعداء'' سے مراد غير خدا كى پرستش كرنے والے ہيں اور ہارونعليه‌السلام كى نظر ميں وہ لوگ دشمنان دين تھے_

۲۴_ دشمنان دين كے سامنے فرض شناس مؤمنين كى تحقير سے اجتناب ضرورى ہے_لا تشمت بى الا عدائ

ہارونعليه‌السلام نے بُرائی كے اسباب كے خلاف مبارزہ كرنے ميں اپنى طرف سے كوتاہى نہ كرنے كے بارے ميں وضاحت كے ليئےملہ ''فلا تشمت ...'' كو ''فاء'' كے ذريعے تفريع كرتے ہوئے اس نكتے كا اظہار كيا كہ انہوں نے اپنا فرض ادا كيا ہے لہذا سزاوار نہيں كہ دشمنان دين كے سامنے ان كى تحقير كى جائیے _

۲۵_ قصور وار عہدے داروں كے مؤاخذہ پر دشمنان دين كا خوش ہونا، ان كے مؤاخذے سے چشم پوشى كرنے كيلئے عذر شمار نہيں ہونا چاہيے_إن القوم استضعفونى و كادوا يقتلوننى فلا تشمت بى الاعدائ

واضح ہے كہ موسىعليه‌السلام جانتے تھے كہ ہارونعليه‌السلام كا مؤاخذہ كرنے سے دشمنان دين خوش ہوں گے ليكن چونكہ انہيں قصور وار خيال كرتے تھے لہذا ان كا مواخذہ كرنے كا فيصلہ كيا چنانچہ ہارونعليه‌السلام نے بھى كوتاہى نہ كرنے كے بارے ميں وضاحت كرنے كے بعد موسىعليه‌السلام كو دشمنان دين كو خوش كرنے سے روكا_

۲۶_ ہارونعليه‌السلام نے بنى اسرائیل كے شرك كے خلاف اپنے مبارزے كا ذكر كرتے ہوئے موسيعليه‌السلام سے درخواست كى كہ انہيں شرك پيشہ ظالمين كے ساتھ قرار نہ ديں _

۲۷۸

إن القوم استضعفونى و كادوا يقتلونني ...و لا تجعلنى مع القوم الظلمين

واضح ہے كہ موسىعليه‌السلام ہرگز يہ گمان نہ كرتے تھے كہ ہارونعليه‌السلام ظالمين ميں سے ہيں ، بنابريں جملہ ''لا تجعلنى مع'' ميں ''مع'' معيت حكمى كو ظاہر كرتاہے يعنى مجھے ظالمين كے مساوى نہ جانو_

۲۷_ دينى معاشروں كے ذمہ دار افراد، اپنے معاشرے ميں انحراف اور گمراہى كے پھيلنے كے سلسلہ ميں بے پرواہ ہونے كى صورت ميں منحرفين كے مساوى ہوجاتے ہيں _و لا تجعلنى مع القوم الظلمين

جملہ ''و لا تجعلني ...'' يہ مفہوم فراہم كرتاہے كہ موسىعليه‌السلام نے اس سے قبل كہ يہ ثابت ہوجائیے كہ ہارونعليه‌السلام نے برائی كے اسباب كے خلاف مبارزہ كرنے ميں كسى قسم كى كوتاہى نہيں كي، انہيں منحرفين كے ساتھ قرار ديا_

۲۸_ شرك ظلم ہے اور مشركين ظالم ہيں _و لا تجعلنى مع القوم الظلمين

كلمہ ''الظلمين'' سے وہى مشركين اور بچھڑے كے پجارى مراد ہيں ، بنابراين كلمہ ''المشركين'' كى بجائیے كلمہ ''الظلمين'' استعمال كرنے كا مقصد مشركين كو ظالم قرار دينا ہے_

۲۹_عن امير المؤمنين عليه‌السلام (فى خطبة) ...كان هارون ا خا موسى لا بيه و ا مه (۱)

حضرت امير المؤمنينعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے ايك خطبے كے ضمن ميں فرمايا كہ ہارونعليه‌السلام ، باپ اور ماں دونوں كى طرف سے موسىعليه‌السلام كے بھائی تھے

۳۰_على بن سالم عن ا بيه قال: قلت لابى عبدالله عليه‌السلام : ...فلم ا خذ (موسي) برا سه (هارون) يجره إليه و بلحيته و لم يكن له فى اتخاذهم العجل و عبادتهم له ذنب؟ فقال: انما فعل ذلك به لانه لم يفارقهم لما فعلوا ذلك و لم يلحق بموسي ..(۲)

على بن سالم اپنے والد سے نقل كرتے ہيں كہ اس نے امام صادقعليه‌السلام سے پوچھا ...موسيعليه‌السلام نے اپنے بھائی ہارونعليه‌السلام كو سر اور ريش سے پكڑ كر اپنى طرف كيوں كھينچا باوجود اس كے كہ بنى اسرائیل كى طرف سے بچھڑے كو معبود قرار دينے اور اس كي

____________________

۱) كافي، ج۸، ص۲۷، ح۴; نورالثقلين، ج۲، ص ۷۲، ح۲۷۲_۲) علل الشرايع، ص۶۸، ح۱، ب۵۸; نورالثقلين، ج۲، ص۷۲، ح۲۷۰_

۲۷۹

عبادت كرنے ميں ہارون كا كوئي گناہ نہ تھا؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا: موسىعليه‌السلام نے ہارونعليه‌السلام كے ساتھ ايسا سلوك اس لئے كيا كہ وہ بنى اسرائیل كے عمل (بچھڑے كى پوجا) كو ديكھ كر ان سے جدا ہوتے ہوئے موسىعليه‌السلام كے ساتھ ملحق نہ ہوئے

احساسات :احساسات كو ابھارنا ۱۴;احساسات كو ابھارنے كے اثرات ۱۵;كردار ميں احساسات كى تاخير ۱۶

اعداد:چاليس كا عدد ۵

انبياء:انبياء كا متاثر ہونا ۱۶;انبياء كے ساتھ دشمنى ۲۳

انحراف:عوامل انحراف كے خلاف مبارزہ ۲۱

بچھڑے كى پوجا:بچھڑے كى پوجا كے ساتھ مبارزہ ۶

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل اور ميقات موسى ۵، ۶ ;بنى اسرائیل كا آلودہ ہونا ۸;بنى اسرائیل كا بچھڑے كى پوجا كرنا ہونا ۷، ۸، ۹، ۱۱;بنى اسرائیل كا شرك ۱، ۸، ۲۶ ; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹; بنى اسرائیل كى سرزنش ۴;بنى اسرائیل كے بچھڑے كے پجارى اور ہارونعليه‌السلام ۱۸;بنى اسرائیل كے بچھڑے كے پجاريوں كى سازش ۱۹; بنى اسرائیل كے بچھڑے كے پجاريوں كے خلاف مبارزہ ۲۰;بنى اسرائیل كے مشركين اور ہارونعليه‌السلام ۱۸; بنى اسرائیل ميں بچھڑے كى پوجا كے اسباب ۶

تورات:ابلاغ تورات كے موانع ۸

ثقافتى يلغار:ثقافتى يلغار كا مقابلہ ۲۱;ثقافتى يلغار كے مقابلے ميں بے پرواہى كا اظہار ۲۷

دشمن:دشمنوں كو خوش كرنا ۲۵;دشمنوں كو خوش كرنے سے اجتناب ۲۲

دين:دين كے ساتھ دشمنى ۲۳

دينى رہبري:دينى رہبرى كى مسؤوليت ۱۲، ۲۱، ۲۷

شرك:شرك عبادى ۲۳;شرك كا ظلم ۲۸;شرك كے آثار ۸

ظالمين: ۲۸

ظلم:ظلم كے موارد ۲۸

عقيدہ:

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736