تفسير راہنما جلد ۶

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 736

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 736 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 194523 / ڈاؤنلوڈ: 5163
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۶

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

جن میں سے آٹھہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ اونٹ کو سوئی کے سوراخ سے گذارا نہیں جائیگا.مقصد یہ کہ ناممکنات میں سے ہے:«فی اصحابی اثناعشر منافقاً، فیهم ثمانیة لا یدخلون الجنة حتی یلج الجمل فی سمِّ الخیاط .(1)

عثمان کے قاتل بھی صحابہ تھے

سؤال:کیا یہ درست ہے کہ عثمان کے قاتل اصحاب رسول اکرم (ص)میں سے تھے؟

۱.فروة بن عمرو انصاری اصحاب بیعت عقبہ میں سے تھا(2)

۲.محمد بن عمرو بن حزم انصاری پیغمبر اکرم(ص) نے نام رکھا تھا.ولد قبل وفاة رسول اللّه بسنتین. فکتب الیه ـ ای الی والده ـ رسول الله سمّه محمد ا. و کان اشدَّ الناس علی عثمان: المحمدون: محمدبن ابی بکر، محمدبن حذیفة، و محمد بن عمرو بن حزم. (3)

۳.جبلہ بن عمرو ساعدی انصاری بدری کہ جس نے عثمان کے جنازے کو بقیع میں دفن کرنے سےروکا :هو اوّل من اجترا علی عثمان. لمّا رادوا دفن عثمان، فانتهوا الی البقیع، فمنعهم من دفنه جبلة بن عمرو فانطلقوا الی حش کوکب فدفنوه فیه. (4)

 ۴.عبداللہ بن بدیل بن ورقاء خزاعی کہ جس نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا تھا، امام بخاری کے کہنے کے مطابق اس نے عثمان کو ذبح کیااسلم مع ابیه قبل الفتح، و شهد الفتح و ما بعدها انه ممن دخل علی عثمان فطعن عثمان فی ودجه. (5)

---------------

(1):- صحیح مسلم 8: 122 ـ کتاب صفات المنافقین ـ مسند احمد 4: 320 البدایة والنہایة 5: 20.

(2):- الاستیعاب 3: 325 ـ اسد الغابة 4: 357.

(3):- الاستیعاب3:432.

(4):- الانساب 6: 160 ـ تاریخ المدینة ۱۱۲.

(5):- تاریخ الاسلام (الخلفاء) 567

۴۱

۵. محمد بن ابی بکر جو حجة الوداع کے سال میں پیدا ہوا، ولدتہ اسماء بنت عمیس فی حجة الوداع و کان احد الرؤوس الذین ساروا الی حصار. امام ذہبی کے کہنے کے مطابق عثمان کےگھر کا محاصرہ کرنے والوں میں سے تھا.(1) .عثمان کی داڑھی کھینچتے ہوئے کہا: اے یہودی!اللہ تمہیں رسوا کرے.

۶.عمرو بن الحمق جو اصحاب رسول میں سے تھا  راوی کے کہنے کے مطابق حجة الوداع کے موقع پر رسول خدا کی بیعت کی ہے.قال الذهبی:وثب علیه عمرو بن الحمق و به ـ عثمان ـ رَمَق و طعنه تسع طعنات، و قال: ثلاث للّه و ستّ لما فی نفسی علیه.  راوی کہتا ہے:بایع النبی فی حجة الوداع و صحبه. کان احد من الَّب علی عثمان بن عفان .(2) و قال الذهبی: انّ المصریین اقبلوا یریدون عثمان. و کان رؤساؤهم اربعة. و عمرو بن الحمق الخزاعی .(3)

امام ذہبی کے کہنے کے مطابق نو دفعہ خنجر کا ضربہ وارد کیا اور کہا تین ضربہ اللہ کی خاطر اور چھ اپنی خاطر تجھ پر لگاؤں گا.

قرطبی: عبدالرحمن بن عُدیس، مصری شهد الحدیبیة و کان ممن بایع تحت الشجرة رسول الله و کان الامیر علی الجیش القادمین من مصر الی المدینة الذین حصروا عثمان و قتلوه (4) عبدالرحمن بن عدیس جو اصحاب بیت الشجرہ میں سے تھا ،قرطبی کے کہنے کے مطابق مصری شورش برپاکرنے والے افراد کا لیڈر اور رہبرتھا کہ آخر کار انہی لوگوں نے عثمان کو قتل کیا.

اب یہ بتائیں کہ یہ اصحاب کیسے ہمارے لئے نمونہ عمل بن سکتے ہیں؟

--------------

(1):- تاریخ الاسلام(الخلفاء) 601

(2):- صحیح بخاری 8: 26 ـ کتاب المحاربین، باب رجم الحبلی.

(3):- تہذیب الکمال14: 204 ـ تہذیب التہذیب 8: تاریخ الاسلام (الخلفاء) 601

(4):- فتح الباری 2: 189 ـ الثقات لابن حبان 2: 265 ـ الطبقات الکبری3: 71.

۴۲

بعض اصحاب پرا ہل سنت بھی لعن کرتے ہیں

سوال: کیا یہ صحیح ہے کہ ہم اہل سنت بھی بعض صحابہ کرام  پر لعن کرتے ہیں. عثمان کے قاتلوں پر لعن کرتے ہیں جبکہ وہ لوگ اصحاب رسول میں سے ہیں.اس کے علاوہ وہ لوگ اصحاب شجرہ  اور بیعت عقبہ میں سے ہیں ، اس کے علاوہ رسول خدا (ص)کے رکاب میں جنگ بدر ، احد اور حنین اور فتح مکہ میں بھی شریک تھے !

جواب: امام ذہبی ان پر نفرین کرتے ہوئے کہتاہے:«کل هولاء نبرا منهم و نبغضهم فی الله.نرجوله النار» یعنی ہم ان سے اظہار برائت کرتےہں  اور اللہ کی رضایت کی خاطر ان سے دشمنی کرتے ہںخ اور ان کےلئے عذاب جہنم کا طلب گار ہںں .

امام بن حزم کہتا ہے«لعن اللّه من قتله و الراضین بقتله .(1) بل هم فساق حاربون سافکون دماً حراماً عمداً بلا تاویل علی سبیل الظلم و العدوان فهم فسّاق ملعونون». اور سارےامام جمعہ بھی عثمان کے قاتلوں پر لعن کرتے ہوئے کہتے ہیں:مصر اور کوفہ کے باغی لوگوں نے حضرت عثمان پر ہجوم لائے اور شورش برپا کئے اور یہ باغی، فاجر،ظالم، بے دین ، بے مروت اور جہنمی لوگوں نے تلوار کے ذریعے عثمان کی انگلیاں کاٹ دیں.

بعض صحابہ پر حد جاری کرنا

بعض صحابہ پر رسول خدا کے زمانے میں حد جاری کی گئی. جن میں سے ایک دو مورد کو بطور مثال بیان کریں گے:

ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ برادران اہل سنت کی معتبر ترین کتب میں نقل کئے گئے ہیں کہ بعض اصحاب گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے اور ان پر رسول خدا نے حد جاری کی تو کیا ہم ان اصحاب کو بھی عادل اورمعیار حق مانیں ؟! جیسا کہ اہل سنت کہتے ہیں کہ  سارے اصحاب رسول ستاروں کی مانند ہیں جو بھی ان میں سے کسی ایک کی بھی پیروی کرے نجات پائے گا. جبکہ یہ لوگ خود گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں.

--------------

(1):-  ہمان

۴۳

عقبہ بن الحرث کہتا ہے کہ«جی‏ء بالنعیمان او بابن النعیمان شارباً فامر النبی من کان بالبیت ان یضربوه. قال: فضربوه فکنت انا فیمن ضربه بالنعال» (1) ابن نعیمان کو شراب کے نشے کی حالت میں رسول اللہ کے سامنے لایا گیا تو آپ نے گھر میں موجود افراد کو حکم دیا کہ اس کی پٹائی کریں ، تو سب نے جوتوں سے اس کی مرمت کی ،جن میں سے ایک میں بھی تھا.

عن جابر انّ رجلًا من اسلم جاء النبیفاعترف بالزنا، فاعرض عنه النبی حتی شهد علی نفسه اربع مرات، فقال له النبی«ابک جنون؟ قال: لا، قال: احصنت؟ قال: نعم، فامر به فرجم بالمسجد». جابر سے روایت ہےکہ ایک مسلمان پیغمبر اکرمکی خدمت میں آیا اور زنا کے مرتکب ہونے کا اعتراف کیا ، آپ  نے اس کی باتوں پر توجہ نہیں دی ، یہاں تک کہ اس نے چار مرتبہ اقرار کیا تو اس وقت آپ نے اس سے کہا : کیا تو پاگل ہوگیا ہے؟اس نے کہا نہیں. فرمایاکیا تو شادی شدہ ہے ؟ اس نے کہا : ہاں اس وقت آپ نے سنگسار کرنے کا حکم دیا اور لوگوں نے بھی سنگسار کیا

قصة الولید بن عقبة المعروفة «الذی صلّی صلاة الصبح وهو سکران اربع رکعات، حیث تم احضاره الی المدینة واقیم علیه حدّ شارب الخمر» (2) ولید بن عقبہ کا قصہ توبہت مشہور ہے کہ جس نے نشے کی حالت میں نماز صبح، چار رکعت پڑھائی درحالیکہ وہ مست تھا ، تو اسے مدینہ میں بلایا گیا تاکہ  شراب خوری کی حد جاری کرے ان کے علاوہ اور بھی موارد ہیں لیکن ہم انہیں بیان نہیں کرتے تاکہ بحث طولانی نہ ہو.اور ان موارد کا ذکر کرنے کا مقصد یہی تھا کہ ہم کیسے آنکھ اور کان بند کرکے ان اصحاب کو عادل،معیار حق اور اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں گے؟(3)

--------------

(1):- صحیح البخاری، ج 8، ص 13، ح 6775 کتاب الحدّ.

 (2):- صحیح بخاری،ج۸، ص 22، ح 6820.

(3):- الشیعة شبہات و ردود        ۶۳. 

۴۴

 رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا وَ لِإِخْوانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونا بِالْإِیمانِ وَ لا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِیمٌ (1)

اور (یہ فئے ان لوگوں کے لیے بھی ہے) جو ان کے بعد آئے ہیں، کہتے ہیں: ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی عداوت نہ رکھ، ہمارے رب! تو یقینا بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔

عدالت صحابہ‏

اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اسلام (ص)کے صحابی عظیم المرتبہ  تھے ، وحی الٰہی کو رسول خدا (ص)کی زبانی سنتے تھے ، آپ کے معجزوں کو دیکھتے  تھے، گوہر بار باتوں سے عملی نمونہ تلاش کرتے تھے اور اسوہ حسنہ سے خوب استفادہ کرتے تھے.یہی وجہ تھی  کہ ان کے درمیان بہت ساری ممتاز شخصیات  کی پرورش ہوئی، کہ جن پر عالم اسلام افتخار کرتے ہیں. لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ سارے صحابی بغیر کسی استثناء کے قابل تقلید ، قابل احترام ،مؤمن ،فداکار اور عادل تھے یا ان کے درمیان فاسق اور فاجر  بھی موجود تھے ؟!اس سلسلے میں دو متضاد عقیدے مسلمانوں کے درمیان موجود ہیں:

پہلا نظریہ: سارے صحابی باتقویٰ اور عادل تھے

اہل سنت کے اکثر لوگ اس نظریے کے قائل ہیں اس لئے جو بھی صحابہ کہیں اسے قبول کرتے ہیں.اور اگر کوئی برا کام ان سے سرزد ہوجائے تو ان کی توجیہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں. تند رو وہابی اور اکثر اہل سنت  کا یہ نظریہ ہے اسی لئے صحابہ کے بارے  میں تنقید کاایک لفظ بھی نہیں سن سکتے اگر کوئی تنقید کرے تو اسے وہ زندیق ،ملحد اور ان کا خون مباح قرار دیتے ہیں.(2)

--------------

(1):-  سورہ حشر ،۱۰.

(2):- ابوزرعہ رازی؛ کتاب الاصابة.

۴۵

عبداللہ موصلی اپنی  کتاب«حتّی لا ننخدع» میں صحابہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ فضیلت عطا کی ہے کہ رسول اللہ(ص) کی ہم نشینی ان کو نصیب ہوئی ان کا ہر کلام ہمارے لئے قابل عمل ہے اور ان کو اللہ تعالیٰ نے رسول کا وزیر بنایا ، ان کی محبت کو دین اور ایمان قرار دیا اور ان کے ساتھ دشمنی اور عداوت کو کفر و نفاق قرار دیا، لیکن جب ان کے درمیان اختلاف اور جنگ کا ذکر آتا ہے تو یہ لوگ بالکل خاموش ہوجاتے ہیں(1) اور یہ کتاب اور سنت کے منافی ہں .

دوسرا نظریہ:اصحاب میں منافق اور ناصالح افراد بھی تھے

یعنی جس طرح ان میں پاک و تقویٰ  اور عادل افراد موجود تھے ، اسی طرح ناصالح اور منافق افراد بھی موجود تھے .جیسا کہ پہلے بیان کر چکا، شیعہ اور بعض اہل سنت دانشور اس عقیدے کےقائل ہیں.

دلیل

قرآن اور رسول نے ان سے بیزاری کا اظہا ر کیا ہے:

 یا نِساءَ النَّبِيِّ مَنْ يَأْتِ مِنْكُنَّ بِفاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَ کانَ ذلِكَ عَلَی الل ه يَسِیراً. (2)

خداوندنے قرآن مجید میں ہمسران پیغمبر (ص) کے بارے میں فرمایا:اے ہمسران پیغمبر (ص)!تم میں سے جو بھی آشکار طور پر گناہ کا مرتکب ہواتو اس کی سزا دوگنی ہوگی. اوریہ اللہ تعالیٰ کے لئے بہت آسان ہے

جبکہ ہمسران پیغمبر (ص) آشکارترین مصداق صحابی ہیں، قرآن تو ان کو دوگنی سزا  سنا رہا ہے لیکن آپ کہہ رہے ہیں کہ صحابہ کی باتوں کو بغیر کسی قید و شرط کے قبول کرنا چاہئے!

--------------

(1):-  حتّی لا ننخدع، صفحہ 2.

(2):- سورہ احزاب، آیہ 30.

۴۶

قرآن فرزند نوح شیخ الانبیاء ؑکے بارے میں ان کی خطا ءکی وجہ سے خطاب کر رہا ہے :

إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صالِحٍ؛ وہ ناصالح عمل ہے  اور حضرت نوحؑ کو انتباہ کیا کہ اس کے بارے میں شفاعت نہ کرے

سوال یہ ہے کہ کیافرزند پیغمبر زیادہ قریب ہے  یا اصحاب؟

اسی طرح  ہمسر نوح و لوط (دو پیغمبر بزرگ الہی)  کے بارے میں فرمایا :

فَخانَتاهُما فَلَمْ يُغْنِیا عَنْهُما مِنَ الل ه شَيْئاً وَ قِیلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِینَ ضَرَبَ الل ه مَثَلًا لِّلَّذِینَ كَفَرُواْ امْرَأَتَ نُوحٍ وَ امْرَأَتَ لُوطٍ  كَانَتَا تَحتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَلِحَینْ‏ِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنهْمَا مِنَ الل ه شَیئًا وَ قِیلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِین (1)

اللہ نے کفار کے لےَ نوح کی بوای اور لوط کی بولی کی مثال پش  کی ہے، یہ دونوں ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت مںا تھں مگر ان دونوں نے اپنے شوہروں سے خاَنت کی تو وہ اللہ کے مقابلے مںے ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور انہں  حکم دیا گا : تم دونوں داخل ہونے والوں کے ساتھ جہنم مںچ داخل ہو جاؤ قرآن مجید کہہ رہا ہے :

وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرابِ مُنافِقُونَ وَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفاقِ لا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ (2)

اور تمہارے گرد و پش  کے بدوؤں مں  اور خود اہل مدینہ مںن بھی ایسے منافقنے ہںث جو منافقت پر اڑے ہوئے ہںَ، آپ انہں  نہں  جانتے (لکنے) ہم انہںّ جانتے ہںق، عنقریب ہم انہںم دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائںا گے۔ اس آیة شریفہ میں تو وضاحت کےساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اہل مدینہ میں بھی آپ کے ارد گرد منافقین  بیٹھے ہوئے ہیں جن کے بارے آپ کو اطلاع دی جارہی ہے.

--------------

(1):-  سورہ تحریم، آیہ 10.

(2):- سورہ توبہ، آیہ 101.

۴۷

طلحہ اورزبیر شروع میں لشکر اسلام کے افسر تھے اور ان کو سیف الاسلام کا لقب بھی ملا تھا لیکن بعد حکومت کے ہوا و ہوس نے علی (ع)کے ساتھ بیعت اور عہد وپیمان توڑنے پر مجبور کردیا اور ہمسر پیغمبر (عایشہ) کو اپنے ساتھ ملا کر جنگ جمل کی آگ بھڑکا دی اورتقریبا 17  ہزار مسلمان اس آگ میں جل گئے. یہ لوگ قیامت کے دن جواب دہ  ہونگے .

 یا خود معاویہ کو دیکھ لیں جس نے صفین کی جنگ شروع کرکے ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا خون بہایا. ان کے بارے میں کیا اس  سے سوال نہیں ہوگا؟!!

ان تمام حقائق کے باوجود کیسے آنکھ بند کرکے سارے صحابی کو معیار حق تسلیم کریں گے ؟

سارےصحابیوں کو عادل ماننے کی دلیل

اور یہ بھی یاد رہے کہ پہلےتو یہ عقیدہ نہ تھا بعد میں  قائم ہوا، اس کی کئی وجوہات  ہیں ، جن کو معلوم کرنا ضروری ہے ،وہ یہ ہیں :

الف:کیونکہ یہ لوگ  پیغمبر (ص) اورہمارے درمیان  حلقہ اتّصال ہیں  اور قرآن و سنت  پیغمبر (ص)انہی کے  وساطت سے ہم تک پہنچے ہیں اگر یہ لوگ ان صفات کے مالک نہ ہوں تو ہم کیسے ان پر اعتقاد کر سکتےہیں ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ سارے اصحاب ایک جیسے نہیں تھے ،بلکہ ان میں ثقہ اور مورد اعتماد افراد بھی موجود تھے جو ہمارے اور رسول کے درمیان حلقہ اتصال بن سکتے ہیں جیسا کہ اہلبیتؑ کے بارے میں ہمارا یہی عقیدہ ہے .

مزے کی بات تو یہ ہے کہ کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس دور کے سارے صحابی ثقہ تھے اگر ایسا ہو تو ہمارا دین مکمل مٹ جاتا، بلکہ سب نے کہا کہ راویوں کے بارے میں تیق ا کرنی چاہئے کہ عادل ،موثق  اورمورد اطمنان ہیں یا نہیں اور اسی بنا پر علم الرجال، علم الحدیث اور علم الدرایہ  وجود میں آیا.

۴۸

ب:بعض اصحاب پر اشکال کرنے سے مقام پیغمبر اسلام(ص) میں نقص پیدا ہوتا ہے لہذا جائز نہیں ہے .

ان کیلئے جواب یہ ہے کہ کیا قرآن کریم نے منافقین کے اوپر سخت تنقید نہیں کی ؟تو کیا اس سے رسول اسلام (ص) کی شان اور عظمت میں کمی آئی ؟!(1)

ج:اگر صحابہ کے اعمال کو مورد نقد قرار دیں گے تو پہلا دوسرا اور تیسرا خلیفہ کا منصب اور مقام مورد نقداور اشکال قرار پاتا ہے.

د:بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اگر صحابہ کو مورد اشکال اور نقد قرار دیں گے تو  گویا قرآن کے خلاف عمل کیا ہے کیونکہ قرآن کریم  اور احادیث نبی میں اصحاب کی شان و منزلت بیان ہوئی ہے

جواب : یہ توجیہ ٹھیک ہے لیکن قرآن نے بطور مطلق ان کے بارے میں تمجید نہیں کی ہے

بلکہ خاص صحابی تھے  جن کی مدح سرائی ہوئی ہے:وَ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُ ه اجِرِینَ وَ الْأَنْصارِ وَ الَّذِینَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسانٍ رَضِيَ الل ه عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ وَ أَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَهَا الْأَنْ ه ارُ خالِدِینَ فِی ه ا أَبَداً ذلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ .(2)

اس آیہ کی ذیل میں  بہت سے اہل اسنت  کےمفسّرین نے ایک حدیث صحابیوں کے ذریعے یوں نقل کی ہیں:جمیع اصحاب رسول الله فی الجنّة محسنهم و مسیئهم .(3) سارے صحابی بہشتی ہیں خواہ وہ نیک کردار کے مالک ہوں یا بد کردار کے.مزے کی بات یہ ہے کہ درج بالا آیت بتاتی ہے تابعین اگر اصحاب کے اچھے کاموں میں اتباع یا پیروی کریں تو قیامت کے دن نجات پائیں گے اس کا مفہوم یہ ہے کہ اصحاب  گناہوں سے پاک  نہیں ہیں بلکہ ممکن ہے وہ بھی گناہ کا مرتکب ہوں. اس کے علاوہ روایت میں تو صراحت کے ساتھ اس مطلب کو  بیان کیا گیا ہے.

--------------

(1):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: 58.

(2):- سورہ احزاب، آیہ 30.

(3):- تفسیر کبیر فخر رازی و تفسیر المنار، ذیل آیہ فوق.

۴۹

ان سے سوال یہ ہے کہ کیا وہ  نبی جو امّت کی اصلاح کیلئے مبعوث کیا گیا ہو ، اپنے اصحاب کے گناہوں  کو  استثناء کر سکتے ہیں، جبکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ  آپ(ص) کے نزدیک ترین افراد  یعنی امّہات المؤمنین کو بھی اگر گناہ کا مرتکب ہوجائیں  تو دو برابر سزا دی جائےگی؟(1)

اس کے برعکس دوسری جگہ حقیقی مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

محَُّمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ  وَ الَّذِینَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلىَ الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنهَُمْ  تَرَئهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَ رِضْوَانًا سِیمَاهُمْ فىِ وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ  ذَالِكَ مَثَلُهُمْ فىِ التَّوْرَئةِ وَ مَثَلُهُمْ فىِ الْانجِیلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطَْهُ فََازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَی‏ عَلىَ‏ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِیظَ بهِِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِینَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ مِنهُْم مَّغْفِرَةً وَ أَجْرًا عَظِیمَا. (2)

" محمد (ص) اللہ کے رسول ہںِ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہں  وہ کفار پر سخت گر  اور آپس مں  مہربان ہںل، آپ انہںف رکوع، سجود مںل دیکھتے ہںگ، وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہںں سجدوں کے اثرات سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہںہ، ان کے یی  اوصاف توریت مں  بیپ ہں  اور انجلا مںھ بھی ان کے ییق اوصاف ہںم، جسےر ایک کھیبی جس نے (زمنر سے) اپنی سوئی نکالی پھر اسے مضبوط کای اور وہ موٹی ہو گئی پھر اپنے تنے پر سد ھی کھڑی ہو گئی اور کسانوں کو خوش کرنے لگی تاکہ اس طرح کفار کا جی جلائے، ان میںسے جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظم  کا وعدہ کا  ہے"۔

--------------

(1):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: 63

(2):- سورہ فتح،29

۵۰

کیا جنہوں نے جنگ صفین اور جنگ جمل کی آگ کو بھڑکاکرلاکھوں مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلادیا ، ایک دوسرے کے ساتھ مہربان تھے؟!! اور ان کی جنگ کافروں کے ساتھ تھی یا مسلمانوں کے ساتھ؟!!

بنابراین مغفرت و اجر عظیم کا وعدہ  صرف ان افراد کیلئے ہے جو ایمان اور عمل صالح کے حامل ہوں.لیکن کیا جنگ جمل کے ذمہ دار افراد عمل صالح والے تھے؟!

اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کو تو ایک ترک اولی کی وجہ سے بہشت سے نکال دیتا ہے ، حضرت یونس (ع)تو ایک ترک اولی کی وجہ سے ایک مدت تک مچھلی کے پیٹ میں رہا تھا ، حضرت نوح(ع) کو اپنے گناہگار بچے کی شفاعت کرنے پر مواخذہ کرتا ہے تو کیا یہ ماننے والی بات ہے کہ ہمارے نبی کے صحابی اس قانون سے مستثنی کئے گئے ہیں؟.(1)

براداران اہل سنت اس کے قائل ہیں کہ سارے صحابی عادل ہیں لیکن یہ کون سی عدالت ہے جس کی قرآن نفی کرتا ہے:

إِنَّ الَّذِینَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطانُ بِبَعْضِ ما كَسَبُوا وَ لَقَدْ عَفَا الل ه عَنْهُمْ إِنَّ الل ه غَفُورٌ حَلِیمٌ (2)

دونوں فریقوں کے مقابلے کے روز تم مںم سے جو لوگ پیٹھ پھرک گئے تھے بلاشبہ ان کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے شطاکن نے انہںّ پھسلا دیا تھا، تاہم اللہ نے انہںا معاف کردیا، یقینا اللہ بڑا درگزر کرنے والا، بردبار ہے۔

آیۃ شریفہ ان لوگوں کی طرف اشارہ کررہی ہےجو لوگ جنگ احد میں فرار ہوگئے تھے اور پیغمبر اکرم کو دشمنوں کے نرغے میں اکیلا چھوڑگئے.

 قرآن کہہ رہا ہے کہ جنگ احد کے موقع پر فرار ہونے والوں کو اپنے بعض گناہوں کی وجہ سے شیطان نے انہیں دھوکہ دیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں رسول اکرم کے وجود مبارک کے طفیل میں بخش دیا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا حلیم رب ہے

--------------

(1):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: 62

(2):- سورہ آل عمران،155

۵۱

اس آیة سے نتیجہ لے سکتے ہیں کہ بعض صحابہ نے جنگ سے فرار ہوتے ہوئے رسول اکرم کو دشمن کے درمیان چھوڑ کے بہت بڑا گناہ کیا ،شیطان ان پر غالب آگیا،اس کی وجہ بھی ان کے گناہ بتاتے ہیں. یہ کون سی عدالت ہے کہ جس کے بارے میں بعض اصحاب کو قرآن نے فاسق کہا ہے :

یا أَيُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جاءَكُمْ فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْماً بِجَ ه الَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلی‏ ما فَعَلْتُمْ نادِمِینَ. (1)

اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحققی کر لا  کرو، کہںا(ایسا نہ ہو کہ) نادانی مںئ تم کسی قوم کو نقصان پہنچا دو پھر تمہںہ اپنے کےی پر نادم ہونا پڑے ۔

اور یہ مفسّرین کے درمیان مشہور ہے کہ یہ آیۃ ولید بن عُقبة کی مذمت میں نازل ہوئی.کہ پیغمبر اکرم نے انہیں بنی المصطلق میں زکات جمع کرنے بھیجا تھا واپس آیا اور کہا یہ لوگ اسلام کے خلاف جنگ کرنے والے ہیں ، بعض مسلمانوں نے اس کی باتوں پر یقین کیااور اس طائفہ کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے نکلے اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ اس کی باتوں پر یقین نہ کریں ورنہ پچھتاؤگے. اتفاقاً جب اس کی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ طایفہ بنی المصطلق ایک با ایمان طایفہ ہے ولید کو ان سے ذاتی دشمنی تھی اس لئے ان پر یہ تہمت لگائی تھی سوال یہ ہے کہ کیا ولید صحابی نہیں تھا؟!

یہ کیسی عدالت ہے کہ اگر انہیں کچھ دیں تو رسول پر راضی ہوجاتے ہیں اور اگر نہ دیں تو رسول اکرم(ص)  پر اعتراض کرنے لگتے ہیں:

وَ مِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِی الصَّدَقاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْ ه ا رَضُوا وَ إِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْ ه ا إِذا هُمْ يَسْخَطُونَ. (2)

--------------

(1):-  ۔    حجرات،۶.

(2):- توبہ ۵۸.12 و 13 سورہ احزاب

۵۲

اور ان مں  کچھ لوگ ایسے بھی ہںن جو صدقات(کی تقسمو)مںخ آپ کو طعنہ دیتے ہں  پھر اگر اس مں  سے انہں  کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہں  اور اگر اس مںا سے کچھ نہ دیا جائے تو بگڑ جاتے ہں ۔

یہ کیسی عدالت ہے کہ جنگ احزاب میں شریک تھے اور رسول خدا پر فریبکاری کی تہمت لگاتے ہیں:

وَ إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَ الَّذِینَ فىِ قُلُوبهِِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا (1)

اور جب منافقنَ اور دلوں مںہ بماَری رکھنے والے کہ رہے تھے: اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کام تھا وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔

خدا اور اس کے  پیغمبر نے ہمارے لئے جھوٹے وعدوں کے علاوہ کچھ نہیں دیا. ان میں سے کچھ لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ پیغمبر اس جنگ میں شہید ہوجائیں گے اور اسلام پر فاتحہ پڑھا جائے گا.

 اسی طرح شیعہ سنی دونوں طرف سے روایت نقل ہوئی ہے کہ جب جنگ خندق میں خندق کھودا جا رہا تھا  اور پتھر توڑا جارہا تھا اور جنگ میں کامیابی اور جیت کی بشارت دی جا رہی تھی تو ایک گروہ ان باتوں کا مزاق اڑا رہا تا ؛ سوال یہ ہے کہ کیا یہ لوگ صحابہ میں سے نہیں تھے ؟!!(2)

 اس سے بڑھ کر پیغمبر اکرم (ص)پر خیانت کی تہمت لگانے والے بھی صحابی رسول تھے :وَ ما کانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ وَ مَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِما غَلَّ يَوْمَ الْقِیامَةِ ثُمَّ تُوَفَّی كُلُّ نَفْسٍ ما كَسَبَتْ وَ هُمْ لا يُظْلَمُونَ. (3)

--------------

(1):-  ۔  احزاب ۱۲

(2):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: ۶۵.

(3):- سورہ آل عمران،161.

۵۳

اور کسی نبی سے یہ نہںا ہو سکتا کہ وہ خاھنت کرے اور جو کوئی خاونت کرتا ہے وہ قاتمت کے دن اپنی خاینت (اللہ کے سامنے)حاضر کرے گا، پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہںّ کاں جائے گا۔

 یعنی اگر ان کو کوئی  سزا دے تو یہ انہی کے اعمال کا نتیجہ ہے. کیا  رسول اللہ (ص) پران تمام نا روا تہمتوں کے لگانے والے عادل اور پاکیزہ  ہو سکتے ہیں؟!!     معروف دانشور بلاذری اپنی کتاب انساب الاشراف میں نقل کرتا ہے کہ مدینہ کےبیت المال میں جواہرات اور دیگر زیورات تھے، عثمان نے ان میں سے کچھ اپنے خاندان والوں کو دیا یہ دیکھ کر لوگ ان پر سخت تپ گئے اور شدید احتجاج کرنےلگے جس سےعثمان سخت خشمگین ہوا اور منبر پر جاکر ایک خطبہ میں کہا: ہم مال غنیمت میں سے اپنی ضروریات کے مطابق لے سکتے ہیں اگرچہ بعض لوگوں کو ناگوار گذرے.

علی(ع) نے ان سے فرمایا: مسلمان تمھارا راستہ روکیں گے

عمّار یاسر نے کہا: میں  وہ پہلا شخص ہوں گا کہ عثمان کو ناک رگڑاؤں گا اور ہمیشہ اس پر اعتراض کرتا رہوں گا.

عثمان غضبناک ہوا اور کہا: تم میرے سامنے جسارت کرتے ہو؟!اسے پکڑ کر اپنے گھر لے گیا اور اس قدر اس پر ظلم کیا کہ وہ بیہوش ہوگئے. اور اسی بیہوشی کی حالت میں ام سلمہ (ہمسر پیغمبر) کے گھر لائے گئے نماز ظہر و عصر و مغرب بھی نہ پڑھ سکے جب آخر وقت ہوش آیا تو وضو کرکے نمازیں پڑھ لی اور فرمایا : یہ اللہ کی خاطر ہم پر پہلی بار ظلم نہیں ہورہا.(1)

یعنی آپ کی مراد دوران جاہلیت کے مظالم تھے .سوال یہ ہے کہ ان تمام تاریخی شواہد کےباوجود کیا ہم آنکھیں بند کرکے سارے صحابہ کا دفاع کریں اور سپاہ صحابہ تشکیل دیں تاکہ صحابہ کی ہر بات ، ہر فعل اور ہرکردار  کو بغیر کسی قید و شرط کے قبول کریں اور ان کا دفاع کریں ؟!!! کہ یہ عاقلانہ کام نہیں ہے.(2)

--------------

(1):-  انساب الاشراف، جلد 6، صفحہ 161

(2):- شیعہ پاسخ می گوید، ص: 76

۵۴

علی (ع) کی مظلومیت

جو بھی تاریخ اسلام کا مطالعہ کرے نہایت افسوس کے ساتھ اس مطلب تک پہنچ جائے گا کہ امیر المؤمنین(ع) جو علم و تقویٰ کا پیکر اور پیغمبر اکرم کا سب سے قریبی دوست ، جانشین، وصی اور اسلام کا سب سے بڑا مدافع ہوتے ہوئے بھی  ان کی شان میں گستاخی اور لعنت  کرنے لگے اور آپ کے دوستوں  اور چاہنے والوں کو نام نہاد صحابویں نے ستانا شروع کیا .ان ظلم ستانی کی داستان کا کچھ  نمونہ درج ذیل ہیں:

الف: علی بن جہم خراسانی اپنے والد پر لعن طعن کرتا تھا جب ان سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا: کیونکہ اس نے میرا نام علی رکھا ہے(1)

ب:معاویہ نے سارے ملازمین کو حکم دیا کہ جو بھی فضائل ابوتراب علی (ع)اور ان کے اہلبیت کے فضائل بیان کرے اس کی جان  مال تم پر مباح ہو.اس کے بعد سارے منبروں سے علی پر لعن اور ان سے اظہار برائت کرنے لگے(2)

 ج: سلمة بن شبیب ابوعبدالرحمان عقری سے نقل کرتا ہے :بنی امیّہ والوں کو جب بھی پتہ چلتا کہ کسی بچہ کا نام علی رکھا ہے تو اسے فوراً قتل کرتے تھے.(3)

د: زمخشری و سیوطی نقل کرتے ہیں کہ بنیامیّہ  کے دور میں ۷۰ ہزار منبر سے علی پر سب و شتم ہوتا تھا اور یہ سنت، معاویہ نے جاری کی تھی(4)

--------------

(1):-  لسان المیزان، جلد 4، صفحہ 210

(2):- النصایح الکافیہ، صفحہ 72.

(3):- تہذیب الکمال، ج 20، ص 429 و سیر اعلام النبلاء، ج 5، ص 102.

(4):- ربیع الابرار، ج 2، ص 186 و النصایح الکافیہ، ص 79 عن السیوطی.

۵۵

جب عمربن عبدالعزیز نے دستور دیا کہ علی پر لعن کرنے والی اس بدعت کو ترک کردے تو مسجد میں موجود سب لوگ چیخ اٹھے:ترکتَ السنّة ترکتَ السنّة؛ تو نے سنت کو ترک کیا تو نے سنت کو ترک کیا ،یعنی تو نےکیوں اس سنت کو ترک کیا ؟(1) جب کہ صحیح روایت ہےکہ پیغمبر اکرم  (ص)نے فرمایا تھا :مَن سبّ علیّاً فقد سبّنی و من سبّنی فقد سبَّ اللهَ ؛ جو بھی علی پر لعن کرے  گویا اس نے مجھ پر لعن کیا اور دشنام دیا  اور جو مجھ پر لعن کرے گا اس نے خدا پر لعن کیا ہے !!(2)

صحابہ تین قسم کے ہیں

نتیجہ یہ نکلا کہ شیعہ عقیدے کے مطابق صحابہ تین قسم کے ہیں:

الف: جو شروع سے ہی پاک ، صالح اور صادق تھے  اور  کبھی بھی پیغمبر کے فرامین کی مخالفت نہیں کی .ان کیلئے کہاگیا: عاشوا سعداء و ماتوا السعداء.یعنی انہوں نے سعادتمند زندگی کی اور سعادتمندی کے ساتھ اس دنیا سے تشریف لے گئے.

ب: جو شروع میں تو اچھے اور صالح تھے لیکن بعد میں کسی بھی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) کے فرامین کی مخالفت کرنے لگے  اور عاقبت بخیر نہ ہوئے جیسے وہ لوگ جنہوں نے جنگ نہروان ، جنگ جمل اور جنگ صفین شروع کیں.اس گروہ میں طلحہ اور زبیر وغیرہ آتا ہے جن کو رسول کے زمانے میں سیف الاسلام کا لقب ملا تھا لیکن بعد میں امام وقت  یعنی علی ابن ابیطالب کے مقابلے میں جنگ کرنے آئے اور مارے گئے.

ج: جو شروع سے ہی پیغمبر اکرم(ص) کے ساتھ مخلص نہیں تھے ، بلکہ کسی بھی مجبوری کی وجہ سے مسلمانوں کے صف میں موجود تھے یعنی منافقین.جیسے ابوسفیان و غیرہ.

--------------

(1):- النصایح الکافیہ، ص 116 و تہنئة الصدیق المحبوب، نوشتہ سقاف، ص 59.

(2):-  اخرجہ الحاکم و صحّحہ و اقرّہ الذہبی( مستدرک الصحیحین، ج 3، ص 121

۵۶

شیعہ پہلاگروہ کے بارے میں یوں دعا کرتے ہیں اور اظہار مودّت  اور محبت کرتے ہیں: رَبَّنَا اغْفِرْ لَنا وَ لِإِخْوانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونا بِالْإِیمانِ وَ لا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنا غِلًّا لِلَّذِینَ آمَنُوا رَبَّنا إِنَّكَ رَؤُفٌ رَحِیمٌ. (1)

یعنی اے ہمارے پروردگار! ہمیں معاف فرما اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جنہوں نے ہم سے پہلے تجھ پر ایمان لائے ہیں ، اور ہمارے دلوں میں ان مؤمنوں کیلئے نفرت اور بغض پیدا نہ کرنا. اے ہمارے پروردگار ! تو بڑا رؤوف و مہربان اور رحم والا ہے.

باقی دو گروہ پر ہم لعن کرتے ہیں اب ان میں کوئی بھی آئے وہ مورد لعن  ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان دو گروہوں پر لعن کیا ہے

زہرا کی مظلومیت

فاطمہ زہرا(س) کے گھر پر صحابہ کا حملہ منابع اہل سنت میں

کیا ایسا واقعہ ممکن ہے کہ رسول کا صحابی ہو اور اس کی اکلوتی بیٹی پر گھر کا دروازہ گرایا ہو اور اسے شہید کردیا ہو؟!!

اس کا جواب آپ کو مثبت میں ملے گا. چنانچہ اہل سنت کی حدیث، تاریخ اور رجال کی کتابوںمیں اس واقعہ کو کسی نے شرمندگی کے ساتھ تو کسی نے احتیاط کے ساتھ تقطیع کرتے ہوئے  تو کسی نے خلیفہ ثانی کے توسط سے آگ لے کر آنے کو  تو کسی نے مسلمانوں کا   مسلحانہ محاصرہ اور حملہ آور ہونے کو بیان کیاہے:"و معه قبس من نار" (2)

«ثم قام عمر، فمشی و معه جماعة حتی اتوا باب فاطمة و بقی عمر و معه قوم فاخرجوا علیاً » (3)

--------------

(1):-  سورہ حشر، آیہ ۱۰.

(2):- معارف ابن قتیبہ میں  یہ عبارت حذف کیا گیا ہے:ان محسناً فسد من زخم قنفذ العدوی.

(3):-  تحریف در مروج الذہب، در چاپ میمنیة ج 3، ص 86

۵۷

بعض نے لکھا ہے«ان عمر رفَسَ ‏فاطمة حتی اسقطت محسناً» (1)

 کہ حضرت فاطمہ  پر عمر نے ٹھوکر مارا جس کی وجہ سےآپ نے محسن کو سقط کیا

«و قد دخل الذل بیتها و انتهکت حرمتها و غصب حقها و منعت ارثها، و کسر جنبها، و اسقطت جنینها» (2)

بعض تاریخ دانوں نے لکھا ہے :یہ لوگ فاطمؑ کے گھر میں داخل ہوگئے  انہو ں نے حضرت فاطمہ کی حرمت کا لحاظ نہ کیا ،ان کا  حق   غصب کیا اور ان  کو ارث سے محروم کر دیا اور ان کی  پسلیاں توڑی اور پہلو  شہیدکیا اور جنین کو گرادیا.

بعض نے لکھا ہے  کہ  عمر نے ابوبکر سے کہا: ہم نے فاطمہ کو ناراض کیا ہے  ، آؤ چلیں فاطمؑ کے پاس ، ان سے عذر خواہی کریں .عمر اور ابوبکر دونوں علی کے گھرپر  آئے اور  فاطمہ ؑسے عذر خواہی کرنے لگے لیکن فاطمؑ نے ان  کی طرف سے چہرہ موڑ لیا  ان دونوں نے آپ کو سلام کیا  لیکن آپ نے اس کا جواب نہیں دیا.

«فقال عمر لابی بکر انطلق بنا الی فاطمة، فانا قد اغضبناها، فانطلقا جمیعاً، فاستاذنا علی فاطمة، فلم تاذن لهما، فاتیا علیاً فکلمّاه، فادخلهما علیها فلما قعدا عندها، حولت وجهها الی الحائط فسلَّما علیها فلم اجابت .

ذہبی کہتا ہے :«اتی ابوبکر فاستاذن، فقال علی: یا فاطمة، هذا ابوبکر، یستاذن علیک، فقالت: اتحب ان اذن له؟ قال: نعم، فاذنت له، فدخل علیها یترّضاها.»

 ابوبکر جب علی کی خدمت میں آئے اور حضرت فاطمہ کی زیارت اور ان  سے عذر خواہی کیلئے اجازت مانگی تو علی نے فاطمہ زہرا سے کہا : کیا آپ راضی ہیں کہ میں ان کو اجازت دوں؟ آپ نے اجازت دے دی اور وہ عذر خواہی کرنے لگا ذہبی نے یہاں تک تو ذکر کیا لیکن اجازت ملی اور معاف کیا یا نہیں کیا ، یہ حصہ چھپا کر وغیرہ وغیرہ لکھ دیا.

--------------

(1):- تحریف در مروج الذہب، در چاپ میمنیة ج 3، ص 86

(2):- جوینی شافعی، متوفی سال 722، جو شمس الدین ذہبی کا استاد ہے.

۵۸

«وددت انی لم اکشف بیت فاطمة و ترکته و ان اغلق علی الحرب.» (1) بعض نے لکھا ہے کہ خلیفہ ثانی نے اپنی وفات کے وقت بیت وحی پر حملہ آور ہونے پر پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اے کاش! میں فاطمہ کے گھر پر حملہ نہ کرتااور دروازے کو نہ کھولتا اگرچہ  اس کے بند رکھنے کو اپنے ساتھ اعلان جنگ تصور کرتا.

سوال: کیا یہ واقعہ بغیر کسی تحریف کے  بھی تاریخ میں بیان ہوا ہے ؟

جواب: اکثر مؤرخین نے  تحریف کیا ہے لیکن بعض نے  صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، جن میں سے ایک ابن عبد الرب اندلسی ہے ، وہ لکھتاہے:

«بعث الیهم ابوبکر عمر بن الخطاب لیخرجهم من بیت فاطمة و قال له: ان ابوا، فقاتلهم فاقبل بقبس من نار علی ان یضرم علیهم الدار، فلقیته فاطمة، فقالت: یابن الخطاب، اجئت لتحرق دارنا؟ قال: نعم او تدخلوا فیما دخلت فیه الامة.» (2)

ابوبکر نے عمر کو فاطمہ زہرا کے گھر کی طرف بھیجا تاکہ علی کو اپنی بیعت کیلئے مسجد میں بلایا جاسکے اور وہ بھی اپنے ہاتھوں میں آگ لے کر وہاں پہنچے لیکن فاطمہ نے دروازہ نہیں کھولا اور فرمایا: اے خطاب کے بیٹے !کیا میرے گھرکو آگ لگانے کیلئے آگئے ہو؟! اس نے کہا: ہاں ، لیکن اگر آپ بھی دوسرےلوگوں کی طرح ابوبکر کی بیعت کریں تو  چھوڑ دیے جائیں گے. اس سلسلے میں مزید منابع درج ذیل ہیں:

اثبات الوصیة ص 143- الوافی بالوفیات، ج 6، ص 17، الملل و النحل، ج 1، ص 57؛ الشافی، ج 4، ص 120؛ شرح ابن ابی الحدید، ج 14، ص 193 و ج 2، ص 60؛؛ تقریب المعارف، ص 23؛ الطرائف، ص 274- و ماساة الزہراء وغیرہ .

--------------

(1):- المعجم الکبیر، ج 1، ص 62؛ شمارہ حدیث 43، کتاب الاموال بن سلام ص 174 متوفی 224 ہ۔

(2):- العقد الفرید، ج ۴، ص ۲۶۰

۵۹

چوتھی فصل: مٹی پر سجدہ

شیعوں کے ہاں مہر یا سجدہ گاہ کا استعمال کرنے کی فقہی دلیل کیا ہے؟

جواب: فقہی لحاظ سے شیعہ اور دوسرے مکاتب کے درمیان اختلاف ہے وہ یہ ہے کہ کیا سجدہ ہر چیز پر ممکن ہے یا کچھ خاص چیزوں پر ؟

 سنی کہتےہیں ہر چیز پر ممکن ہے لیکن شیعہ کہتے ہیں صرف زمین اور  اس سےنکلنے  والی چیزوں پر جائز ہے سوائے کھانے پینے ،بہنے اور پہننے والی چیزوں پر. پیغمبر اکرم کے زمانے میں مسلمانوں کی یہی سیرت رہی ہے  کہ گرمیوں میں اپنی مٹھی میں کچھ ریت اٹھاتے تھے تاکہ سجدہ کرتے ہوئے پیشانی نہ جلے.

 جابر بن عبد اللہ انصاریؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول خدا (ص)کے ساتھ نماز ظہر پڑھنے میں مصروف تھا کہ ریت کو اپنی مٹھی میں اٹھایا اور اس پر سجدہ کیا .(1)

ایک صحابی  کوسجدہ کرتے وقت اپنی پیشانی  زمین پر رکھنے سے  اجتناب کرتے ہوئے دیکھا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اپنی پیشانی کو مٹی پر رکھا کرو.دوسرے صحابی کو دیکھا کہ اس کا عمامہ پیشانی او ر سجدہ گاہ کے درمیاں حائل ہور ہا تھا تو آپ نے اسے ہٹادئے. آپ حصیر اور ٹھیکری پر سجدہ کیا کرتے تھے.(2)

مکالمہ

سنی: تم لوگ خاک  کربلا سے کیوںشفا طلب کرتے ہو؟ اور کیوں بیماروں کو کھلاتے ہو؟

شیعہ: کیا قدرت خدا پر شک کرتے ہو؟

--------------

(1):-  مسند احمد، ج 3، ص 327 حدیث جابر و سنن بیہقی، ج 1، ص 439

(2):- کنزالعمال، ج 7، ص 465 ح 19810 سنن بیہقی، ج 2، ص 105 مسند احمد، ج 6، ص 179، 377، و ج 2 ص 192، 198.

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

اخروى سعادت ۲; اخروى سعادت كى راہ فراہم ہونا ۴، ۶;اخروى سعادت كى شرائط ۱۵; اخروى سعادت كے عوامل ۲۱; دنيوى سعادت كى راہ فراہم ہونا ۵، ۶ ; دنيوى سعادت كى شرائط ۱۵; دنيوى سعادت كے عوامل ۲۱

شرك:شرك سے اجتناب كرنے والے ۱۳

عذاب:عذاب كے مشمولين ۷;عذاب سے نجات كے اسباب ۱۷

گناہ:مغفرت گناہ كے اثرات ۶

متقين:متقين كے فضائل ۱۳

مشركين:مشركين كى سزا ۱۸

مشمولين رحمت:خدا كى رحمت خاص كے مشمولين ۱۳

موحدين:موحدين كا محفوظ ہونا ۱۷

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام كو بشارت ۱۵;موسىعليه‌السلام كى توبہ ۳، ۴ ;موسىعليه‌السلام كى خواہشات ،۱;موسىعليه‌السلام كى داستان ۸، ۹;موسىعليه‌السلام كى دعا كى اجابت ۱۵; موسىعليه‌السلام كى دلجوئي ۹;ميقات ميں موسىعليه‌السلام كى دعا،۱

موسىعليه‌السلام كے منتخبين :موسىعليه‌السلام كے منتخبين كى توبہ ۳،۴;موسىعليه‌السلام كے منتخبين كى مغفرت كى شرائط ۱۹

واجبات: ۲۰

يہوديت:دين يہوديت كى تعليمات ۲۰، ۲۱;دين يہوديت ميں واجبات ۲۰;يہوديت ميں زكات ۲۰

۳۰۱

آیت ۱۵۷

( الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوباً عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالأَغْلاَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُواْ بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُواْ النُّورَ الَّذِيَ أُنزِلَ مَعَهُ أُوْلَـئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ )

جولوگ كہ رسورل نبى امّى كا اتباع كرتے ہيں جس كا ذكر اپنے پاس توريت اور انجيل ميں لكھا ہوا پاتے ہيں كہ وہ نيكيوں كا حكم ديتا ہے اور برائی وں سے روكتا ہے اور پاكيزہ چيزوں كو حلال قرار ديتا ہے اور خبيث چيزوں كو حرام قرار ديتا ہے اور ان پر سے احكام كے سنگين بوجھ اور قيد و بند كو اٹھا ديتا ہے پس جو لوگ اس پر ايمان لائے اس كا احترام كيا اس كى امداد كى اور اس نور كا اتباع كيا جو اس كے ساتھ نازل ہوا ہے وہى در حقيقت فلاح يافتہ اور كامياب ہيں (۱۵۷)

۱_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى كرنے والے ، خدا كى رحمت خاص سے بہرہ مند ہيں _

فسا كتبها ...والذين هم بايا تنا يؤمنون _ الذين يتبعون الرسول

''الذين يتبعون'' گزشتہ آيت ميں مذكور ''الذين ھم ...'' كيلئے عطف بيان يا بدل ہے،بنابراين جملہ ''سا كتبھا'' كے ذريعے دى گئي رحمت كى بشارت ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت كے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى كرنے والوں كيلئے ہوگي_

۲_ قيامت كے دن خدا كى رحمت خاص، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى كرنے والوں كيلئے ہوگي_

فسا كتبها للذين ...الذين يتبعون الرسول

فوق الذكر مفہوم اس اساس پر اخذ كيا گيا ہے كہ

۳۰۲

جب جملہ ''فسا كتبھا'' جہان آخرت ميں رحمت الہى كے متحقق ہونے كو بيان كرنے كيلئے لايا گيا ہو_

۳_ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى ،آيات الہى پر ايمان لانے كا اظہار ہے_الذين هم بايا تنا يؤمنون الذين يتبعون الرسول

۴_ صرف پرہيزگار اور زكات ادا كرنے والے ہى پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حقيقى پيروكار ہيں _

للذين يتقون و يؤتون الزكوة ...الذين يتبعون الرسول

۵_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا انكار كرنے والے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرامين سے سرپيچى كرنے والے عذاب الہى ميں گرفتار ہونے كے خطرے سے دوچار ہيں _عذابى ا صيب به من ا شاء ...فسا كتبها للذين يتقون ...الذين يتبعون الرسول

جملہ ''الذين يتبعون ...'' گزشتہ آيت ميں مذكور''الذين يتقون ...'' كيلئے ايك واضح مصداق ہے، بنابراين جس طرح ''يتقون و ...'' كا مفہوم مخالف ''من ا شاء'' كے بعض مصاديق كو بيان كرتا تھا اسى طرح ''يتبعون ...'' كا مفہوم بھى ''من ا شاء'' كا ايك واضح مصداق ہوگا_

۶_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،خدا كے ايك ايسے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے كہ جنہوں نے كبھى بھى لكھنے كى تعليم حاصل نہيں كي_

الرسول النبى الاُميّ

''امي'' ايسے شخص كو كہتے ہيں كہ جس نے لكھنا نہ سيكھا ہو، بعض اہل لغت كتاب نہ پڑھنے كو بھى امى كا معنى شمار كرتے ہيں _

۷_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت، تورات اور انجيل كى بشارتوں اور غيبى خبروں ميں سے ہے_

الرسول النبى الا ميّ الذين يجدونه مكتوبا عندهم فى التورة والانجيل

۸_ تورات اور انجيل ميں رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں نشانيوں كا موجود ہونا_

الذين يجدونه مكتوبا عندهم فى التورة والانجيل

۹_ پيغمبر موعودصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو مقام نبوت كے علاوہ مقام رسالت حاصل ہونے كے بارے ميں تورات اور انجيل ميں صراحت موجود تھي_الرسول النبى الامى الذى يجدونه مكتوبا عندهم فى التورة والانجيل

۱۱_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا امّى ہونا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى حقانيت پر دليل اور اہل كتاب كيلئے آپعليه‌السلام كى نبوت و رسالت كو پہچاننے كى (پہلے سے بيان كى گئي ) ايك علامت تھي_الرسول النبى الا مّى الذين يجدونه مكتوبا عندهم

۳۰۳

جملہ ''يجدونہ ...'' يہ معنى فراہم كرتاہے كہ آيت كريمہ ميں ذكر شدہ صفات، ايسى علامات ہيں كہ جنہيں خداوند متعال نے اہل كتاب كيلئے ذكر كيا تا كہ ان كے ذريعہ پيغمبر موعودصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو پہچان سكيں _

۱۲_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر تورات و انجيل ميں موجود پيغمبر موعودصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى علامات كے پورا اترنے ميں يہود و نصارى كيلئے كسى شك و شبہہ كى گنجاءش نہ تھي_الذى يجدونه مكتوبا عندهم تورات و انجيل ميں تو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى علامات كا تذكرہ تھا ليكن خداوند متعال نے جملہ ''يجدونہ ...'' كے ذريعے يہ بيان كيا كہ اہل كتاب خود پيغمبر اسلام كو تورات و انجيل ميں موجود پاتے ہيں اس تعبير ميں يہ نكتہ مضمر ہے كہ تورات و انجيل ميں موجود علامات كى تطبيق ،پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اس طرح واضح تھى كہ جس كے بعد بنى اسرائیل كيلئے كسى قسم كے شك و شبہہ كى گنجاءش باقى نہ تھي_

۱۳_ انجيل كا نزول، خدا كى طرف سے موسىعليه‌السلام كو دى جانے والى غيبى خبروں اور بشارتوں ميں سے تھا_

يجدونه مكتوبا عندهم فى التورة والانجيل

ظاہر يہ ہے كہ بظاہر مذكورہ آيت ايسے حقائق پر مشتمل ہے كہ جنہيں خدا نے موسىعليه‌السلام كيلئے بيان كيا، بنابراين انجيل كا تذكرہ ايك غيبى خبر ہے كہ جس كے بارے ميں خدا نے موسىعليه‌السلام كو بشارت دى تھي_

۱۴_ شاءستہ كاموں كا حكم اور ناروا كاموں كى ممانعت (امر بالمعروف و نھى عن المنكر) پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بنيادى فرائض اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے مقاصد ميں سے ہيں _يا مرهم بالمعروف و ينههم عن المنكر

۱۵_ شاءستہ كاموں كو انجام دينا اور ناشاءستہ كاموں سے اجتناب كرنا ضرورى ہے_يا مرهم بالمعروف و ينههم عن المنكر

۱۶_ تمام پاكيزہ چيزوں كى حليّت اور تمام ناپاك چيزوں كى حرمت كا حكم دينا پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرائض اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے مقاصد ميں سے ہے_و يحل لهم الطيبت و يحرم عليهم الخبئث

۱۷_ ہر پاك و طيب چيز حلال اور ہر خبيث و ناپاك چيز حرام ہے_و يحل لهم الطيبت و يحرم عليهم الخبئث

۱۸_ امر بالمعروف و نھى عن المنكر، نيز پاكيزہ چيزوں كو حلال جاننا اور ناپاك چيزوں كو حرام شمار كرنا ، تورات و انجيل ميں موجود پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شناختى علامات ميں سے ہيں _

الذين يجدونه يا مرهم بالمعروف ...و يحل لهم الطيبت و يحرم عليهم الخبئث

''يا مرهم و '' فعل ''يجدونه '' كى مفعولى ضمير كيلئے حال ہے، لہذا يہ مطلب فراہم كرتاہے كہ ان جملات كا مفاد پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صفات

۳۰۴

كے عنوان سے تورات و انجيل ميں بيان ہوا ہے اس بناپر كہا جاسكتاہے كہ ان خصوصيات كو تورات و انجيل ميں بيان كرنے كا مقصد اہل كتاب كى ان امور كى طرف راہنمائی ہے كہ جو پيغمبر موعودصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پہچان حاصل كرنے ميں مدنظر ركھے جانے چاہيئے_

۱۹_ اسلام سے پہلے يہود و نصارى ناپاك چيزوں سے استفادہ اور بعض پاكيزہ چيزوں سے اجتناب كرنے ميں مبتلا تھے_

يحل لهم الطيبت و يحرم عليهم الخبئث

''التورى ة والانجيل'' كے قرينے كى روشنى ميں ''لھم'' اور ''عليھم'' كى ضمير ''ھم'' سے مراد يہود و نصارى ہيں _

۲۰_ سخت احكام كو اٹھانا نيز جہالت اور خرافات كى زنجيروں كو توڑنا اور دينى بدعتوں كو ختم كرنا، پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے فرائض ميں سے تھا_و يضع عنهم إصرهم و الا غلل التى كانت عليهم

كلمہ ''إصر'' مشكل عہد و پيمان كے معنى ميں ہے اور ہر دشوار اورطاقت فرسا چيز كو بھى كہا جاتاہے، اس لحاظ سے كہ آيت كريمہ تشريع احكام كو بيان كررہى ہے لہذا اس ميں اصر سے مراد وہ سخت احكام ہيں كہ جن كى گزشتہ اقوام پابند تھيں _ ''غُلّ'' (اغلال كا مفرد) طوق و زنجير كے معنى ميں ہے كہ جو گردن يا ہاتھوں ميں ڈالے جاتے ہيں يہاں اس سے مراد جہالت خرافات اور بدعت وغيرہ ہيں _ اور ہر دشوار اورطاقت فرسا چيز كو بھى كہا جاتاہے، اس لحاظ سے كہ آيت كريمہ تشريع احكام كو بيان كررہى ہے لہذا اس ميں اصر سے مراد وہ سخت احكام ہيں كہ جن كى گزشتہ اقوام پابند تھيں _ ''غُلّ'' (اغلال كا مفرد) طوق و زنجير كے معنى ميں ہے كہ جو گردن يا ہاتھوں ميں ڈالے جاتے ہيں يہاں اس سے مراد جہالت خرافات اور بدعت وغيرہ ہيں _

۲۱_ لوگوں (يعنى يہود و نصارى و غيرہ) كو سخت احكام كے بوجھ اور خرافات سے نجات دلانا، تورات و انجيل ميں موجود پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى شناختى علامات ميں سے ہے_الذى يجدونه ...يضع عنهم إصرهم و الا غلل التى كانت عليهم

۲۲_ اسلام سے قبل يہود و نصارى دشوار احكام ميں مبتلا اور بہت سى دينى بدعتوں اور خرافات كا شكار تھے_

و يضع عنهم إصرهم و الا غلل التى كانت عليهم

كلمہ ''اغلال'' كو بصورت جمع لانے ميں ان بدعتوں اور خرافات كى وسعت اور زيادہ ہونے كى طرف اشارہ پايا جاتاہے_

۲۳_ اسلام اقدار كو زندہ كرنے والا، پاكيزگيوں كى نشاندہى كرنے والا نيز دشوار احكام اور خرافات سے منزہ دين ہے_

يحلّ لهم الطيبت و يحرم ...و يضع عنهم إصرهم و الا غلل التى كانت عليهم

۳۰۵

۲۴_ سب لوگوں (حتى كہ يہود و نصارى )كى فلاح پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانے ، دشمنوں كے مقابلے ان كا دفاع كرنے اور ان كى رسالت كى تقويت كے سائے ميں ميسر ہے_فالذين ء امنوا به و عزروه و نصروه ا ولئك هم المفلحون كلمہ ''تعزيز'' سے مراد ، تلوار كے ذريعے مدد كرنا ہے، بنابراين ''الذين ...عزّ روہ'' سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جو دشمنوں كے مقابلے ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كرتے ہيں ، كلمہ ''نصر'' مطلق مدد كرنے كے معنى ميں آتاہے ليكن چونكہ كلمہ ''نصر'' كلمہ ''عزروہ'' كے مقابلے ميں استعمال ہوا ہے لہذا اس سے مراد غير دفاعى مسائل ميں مدد كرنا ہے_

۲۵_ قرآن سراسر نور ہے اور فلاح كى راہ كو روشن كرتاہے_فالذين ...اتبعوا النور الذى ا نزل معه ا ولئك هم المفلحون

۲۶_ قرآن ہميشہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كے دوران آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ہمراہ رہا ہے_و اتبعوا النور الذى ا نزل معه

كلمہ ''معہ'' فعل ''انزل'' كے نائب فاعل كيلئے حال ہے بنابراين ''الذى انزل معہ'' كا معنى يہ ہوگا كہ نازل ہونے والا قرآن ،ہميشہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ رہا_

۲۷_ انسان كى فلاح، قرآن كى پيروى كرے ميں ہى ہے_فالذين ...اتبعوا النور الذى ا نزل معه ا ولئك هم المفلحون

۲۸_عن ابى عبدالله عليه‌السلام : كان مما منّ الله عزوجل به على نبيه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إنه كان ا مّيا لا يكتب و يقرء الكتاب (۱)

حضرت امام صادقعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا خدا نے جو نعمات اپنے پيغمبر كو عطا كيں ان ميں سے ايك يہ تھى كہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم امى تھے، خود نہيں لكھتے تھے ليكن لكھے ہوئے كو پڑھتے تھے_

۲۹_عن ابى جعفر عليه‌السلام : ...''يجدونه'' يعنى اليهود والنصارى ''مكتوبا'' يعنى صفة محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و اسمه ''عندهم فى التوراة والإنجيل'' ...(۲)

حضرت امام باقرعليه‌السلام سے آيت ''الذى يجدونہ مكتوبا ...'' كے بارے ميں منقول ہے كہ جس ميں آپعليه‌السلام نے فرمايا: يہود و نصارى ، حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا نام اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اوصاف تورات و انجيل ميں پاتے تھے

____________________

۱)علل الشرايع ، ص ۱۲۶، ح۷ ب ۱۰۵ نورالثقلين ج۲ ص ۷۹ ح ۳۹۳_

۲)كمال الدين صدوق ص ۲۱۷ ح ۲ ب ۲۲ ، بحارالانوار ج۱۱ ص ۴۸ ح ۴۹_

۳۰۶

احكام:تشريع احكام ۱۶

اسلام:اسلام اور حقداروں كا احياء ۲۳;اسلام اور خرافات ۲۳ ;اسلام اور طيبات ۲۳;اسلام كا سہل ہونا ۲۰، ۲۱، ۲۳

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى بشارتيں ۱۳; اللہ تعالى كى غيبى خبريں ۱۳; اللہ تعالى كے عذاب ۵

امر بالمعروف:امر بالمعروف كى اہميت ۱۴، ۱۸

انجيل:نزول انجيل كى بشارت ۱۳;انجيل كى بشارتيں ۷، ۱۲

اہل كتاب:اہل كتاب اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،۱۱

ايمان:آيات خدا پر ايمان ۳;ايمان كى علامت ۳; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۱۰; حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان كے آثار ۲۴

بدعت:بدعت كے ساتھ مبارزہ ۲۰

تورات:تورات كى بشارتيں ۷، ۱۲

جہالت:جہالت كے خلاف مبارزہ ۲۰

حلال اشياء: ۱۷

خباءث:خباءث كى تحريم ۱۶، ۱۸;خباءث كى حرمت ۱۷

خدا كے رسول: ۶

خرافات:خرافات كے ساتھ مبارزہ ۲۰، ۲۱

زكات:زكات ادا كرنے والوں كے فضائل ۴

طيبات:طيبات كا حلال ہونا ۱۶ ،۱۷،۱۸

عذاب:عذاب كے اسباب ۵

عمل:پسنديدہ عمل كى اہميت ۱۵;ناپسنديدہ عمل سے اجتناب ۱۵

فريضہ:

۳۰۷

دشوار فرائض كو اٹھانا ۲۰،۲۱

فلاح:فلا ح كے عوامل ۲۴،۲۵،۲۷

قرآن:قرآن كا حقائق روشن كرنا ۲۵;قرآن كى اطاعت كے آثار ۲۷; قرآن كى نورانيت ۲۵

معاشرتى نظم و ضبط: ۱۴

متقين:متقين كے فضائل ۴

محرمات: ۱۶

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :انجيل ميں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۲، ۱۸، ۲۱ ;تورات ميں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقامات ۹;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا امى ہونا ۶، ۱۱ ;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انكار كرنے والوں كا عذاب ۵;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا دفاع كرنے كى اہميت ۲۴;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا كردار ۲۰;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت ۳، ۱۰; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى بعثت ۷;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت كى علامات ۱۱;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا فلسفہ ۱۴، ۱۶ ; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت ۹;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نافرماني۵;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نبوت ۶، ۹ ;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صفات ۱۸

مسلمين:قيامت كے دن مسلمين ۲;مسلمين كے فضائل ۱، ۲

مسيحي:اسلام سے قبل كے مسيحى ۲۲; خباءث سے مسيحيوں كا استفادہ ۱۶;طيبات سے مسيحيوں كا اجتناب ۱۹; مسيحى اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۰;مسيحيوں كى فلاح كى شرائط ۲۴;مسيحيوں كى مسؤوليت ۱۰;مسيحيوں ميں بدعت ۲۲;مسيحيوں ميں خرافات ۲۱، ۲۲ ; مسيحيوں كے دشوار احكام ۲۲

مشمولين رحمت:خدا كى رحمت خاص كے مشمولين ۱، ۲

موسىعليه‌السلام :موسىعليه‌السلام كو بشارت ۱۳

نافرمان:نافرمانوں كا عذاب ۵

نھى عن المنكر:نھى عن المنكركى اہميت ۱۴، ۱۸

يہود:اسلام سے قبل كے يہود ۲۲;خباءث سے يہود كا استفادہ ۱۹;طيبات سے يہود كا اجتناب ۱۹; يہود اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۰;يہود كى فلاح كى شرائط ۲۴; يہود كى مسؤوليت ۱۰; يہود ميں بدعت ۲۲; يہود ميں خرافات ۲۱، ۲۲;يہود كے دشوار احكام ۲۲

۳۰۸

آیت ۱۵۸

( قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعاً الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ يُحْيِـي وَيُمِيتُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ )

پيغمبر كہہ دو كہ ميں تم سب كى طرف اس اللہ كا رسول اور نمائندہ ہوں جس كے لئے زمين و آسمان كى مملكت ہے ں اس كے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے_ وہى حيات ديتا ہے اور وہى موت ديتا ہے لہذا اللہ اور اس كے پيغمبر امّى پر ايمان لے آؤ جو اللہ اور اس كے كلمات پر ايمان ركھتا ہے اور اسى كا اتباع كرو كہ شايد اسى طرح ہدايت يافتہ ہوجاؤ(۱۵۸)

۱_ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، تمام انسانوں كيلئے خدا كى جانب سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے_قل يا ايها الناس إنى رسول الله إليكم جميعا

۲_ اسلام، تمام انسانوں كيلئے ائین حيات ہے_إنى رسول الله إليكم جميعا

۳_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، تمام اہل جہاں تك اپنا پيغام ابلاغ كرنے اور سب لوگوں پر اپنى رسالت كے شمول كو بيان كرنے كے ذمہ دار تھے_قل يا ا يها الناس إنى رسول الله إليكم جميعا

۴_ آسمانوں اور زمين كى حاكميت، خدا كيلئے مختص ہے_الذى له ملك السموات والا رض

۵_ تشريع دين اور ارسال رسل، جہان ہستى پر خدا كى حاكميت كے ساتھ مربوط ہے_

إنى رسول الله إليكم جميعا الذى له ملك السموات والا رض

۶_ كائنات پر خدا كى حاكميت كا اعتقاد، بعثت انبياء كے متعلق ہر قسم كى بے يقينى كے خاتمے كا باعث ہے_إنى رسول الله ...الذى له ملك السموات والا رض

۷_ جہان ہستى پر خدا كى على الاطلاق حاكميت كى طرف توجہ، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى عالمگير رسالت كے متعلق ہر قسم كے شك و شبہہ كے خاتمے كا باعث بنتى ہے_إنى رسول الله إليكم جميعا الذى له ملك السموات والا رض

رسالت پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اس كے عالمگير ہونے كے بيان كے بعد كائنات پر خدا كى حاكميت كو بيان كرنے ميں در حقيقت ايسى رسالت كے امكان پر ايك استدلال كرنا مراد ہے_

۸_ عالم خلقت، متعدد آسمانوں پر مشتمل ہے_له ملك السموات

۹_ خدائے يكتا كے سوا كوئي موجود، پرستش كے لائق نہيں _لا إله إلا هو

۳۰۹

۱۰_ صرف كائنات كا فرمانروا ہى پرستش و عبادت كے لائق ہے_الذى له ملك السموت والا رض لا إله إلا هو

خداكے ساتھ حاكميت ہستى كے مختص ہونے كو بيان كرنے كے بعد اس حقيقت كو بيان كرنا كہ صرف وہى لائق پرستش ہے، مندرجہ بالا مفہوم فراہم كرتاہے_

۱۱_ كائنات پر صرف خدا كى حاكميت كے بارے ميں يقين، اس كے سوا كسى اور قابل پرستش معبود كے نہ ہونے پر ايمان كاباعث ہے_الذى له ملك السموات والا رض لا إله إلا هو

۱۲_ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت نيز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا تمام اہل جہاں كو شامل ہونا، كائنات پر خدا كى فرمانروائی اور اس كے سوا ہر معبود كى نفى ہى كا ايك جلوہ ہے_إنى رسول الله ...الذى له ملك السموات والارض لا إله إلا هو

پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله ہونے كى وضاحت اور پھر اس كے بعد جہان ہستى كى حاكميت كے ذريعے خدا كى توصيف ميں يہ مطلب پايا جاتاہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت آيت كريمہ ميں مذكور خدا كے اوصاف كى متقاضى ہے_

۱۳_ ہر شخص كى زندگى اور موت فقط خداوند كے اختيار ميں ہے _يحيى و يميت

۱۴_ جہان ہستى پر خدا كى على الاطلاق حاكميت موجودات كو زندہ كرنے اور انہيں مار نے پر اس كے اقتدار كى دليل ہے_

الذى له ملك السموات والا رض ...يحيى و يميت

جہان ہستى پر خدا كى حاكميت مطلق كو بيان كرنے اور پھر زندگى اور موت كے اسى كے ہاتھ ميں ہونے كو ذكر كرنے ميں اس مطلب كى طرف اشارہ پايا جاسكتاہے كہ امور عالم چونكہ اسى كے اختيار ميں ہيں لہذا موجودات كى موت و حيات بھى اسى كے اختيار ميں ہوگي_ بنابراين ''لہ ملك ...'' ميں ''يحيى و يميت'' پر استدلال پايا جاسكتاہے_

۱۵_ تمام انسانوں (حتى كہ يہود و نصارى ) كو چاہيے كہ خدا اور اس كے پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لائیں _

قل ى ا يها الناس ...فا منوا بالله و رسوله

گزشتہ آيات (كہ جن ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے اوصاف، تورات و انجيل ميں ثبت ہونے كى وضاحت كى گئي ہے) كى روشنى ميں كلمہ ''الناس'' كا مطلوبہ مصداق، يہود و نصارى ہيں ، بنابراين يہود و نصارى ''فا منوا ...'' كے مخاطبين ميں سے ہيں _

۳۱۰

۱۶_ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بغير پڑھے لكھے، خداوند كى جانب سے مقام رسالت كے حامل پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے_

فا منوا بالله و رسوله النبى الا ميّ

۱۷_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا اُمّى ہونا، ادعائے رسالت ميں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صداقت كى علامت ہے_

فامنوا بالله و رسوله النبى الامي

يہ اس احتمال كى بنياد پر كہ جب پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى امّى ہونے كے ساتھ توصيف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت پر استدلال كيلئے كى گئي ہو__

۱۸_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، اپنى زندگى ميں خدا اور اس كے تمام كلمات پر ايمان ركھتے تھے_رسوله ...الذى يؤمن بالله و كلمته

۱۹_ انبيائے الہى كا خدا اور اپنى رسالت كے پيغام پر اعتقاد اور ايمان، ادعائے نبوت ميں ان كى صداقت كى علامت ہے_رسوله ...الذى يؤمن بالله و كلمته

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا يہ وصف بيان كيا جانا كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى رسالت كى حقيقت پر ايمان ركھتے تھے ہوسكتاہے كہ يہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كى سچائی پر دليل كے طور پر ہو_

۲۰_ سب كو (حتى كہ يہود و نصارى كو بھي) چاہيے كہ پيغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى كريں _و اتبعوه

۲۱_ ہدايت تك رسائی ، خدا پر ايمان لانے اور رسالت پيغمبر كو قبول كرنے اور اس كى پيروى كرنے كى صورت ميں ہى ممكن ہے_فا منوا بالله و رسله ...و اتبعوه لعلكم تهتدون

۲۲_ راہ فلاح كى شناخت اور اس كا حصول، پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان لانے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى پيروى كرنے ميں ہى منحصر ہے_فا منوا بالله و رسوله ...و اتبعوه لعلكم تهتدون

گزشتہ آيت ميں مذكور جملہ ''ا ولئك هم المفلحون'' كى روشنى ميں فعل ''تھتدون'' كا متعلق، فلاح ہے_

۲۳_ خدا اور پيغمبراكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرامين كى پيروى كئے بغير ،ہدايت اور فلاح كا باعث نہيں بن سكتا_

فا منو بالله و رسوله ...و اتبعوه لعلكم تهتدون

۳۱۱

آسمان:آسمانوں كا حاكم ۴;آسمانوں كا متعدد ہونا ۸

آفرينش:حاكم آفرينش ۵، ۶، ۷، ۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۴

اسلام:اسلام كا عالمگير ہونا ۲

انبياء:انبياء پر ايمان ۱۶;انبياء كى تعليمات ۱۶;حقانيت انبياء كى علامات ۱۹;رسالت انبياء كا منشاء ۵

انسان:انسان كى مسؤوليت ۱۵

ايمان:ايمان كے آثار ۶، ۱۱، ۲۱، ۲۲، ۲۳;حاكميت خدا پر ايمان ۶;خدا پر ايمان ۱۱، ۱۵، ۱۸، ۱۹، ۲۱، ۲۲، ۲۳

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۱۵، ۲۱، ۲۲، ۲۳

توحيد:توحيد عبادى ۹، ۱۰; توحيد عبادى كے اسباب ۱۱;توحيد كے دلائل ۱۲

حيات:حيات كا منشاء ۱۳

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے مختص امور ۴، ۹، ۱۴;اللہ تعالى كى حاكميت ۴، ۵، ۷، ۱۱، ۱۲;اللہ تعالى كى حاكميت كے مظاہر ۱۲;اللہ تعالى كى قدرت ۱۳، ۱۴

خدا كے رسول: ۱،۶ ۱

دين:تشريع دين كا منشاء ۵

ذكر:ذكر كے اثرات ۷

زمين:زمين كا حاكم۴

شك:شك كے موانع ۷

فلاح :فلاح كے اسباب ۲۲;فلاح كے عوامل ۲۳

كفر:انبياء كے بارے ميں كفر كے موانع ۶

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم : رسالت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا عالمگير ہونا ۱، ۳، ۷، ۱۲ ;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ايمان ۱۸; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا امّى ہونا ۱۶، ۱۷ ;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت ۲۰;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كى اہميت ۲۳;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كے آثار ۲۱، ۲۲; محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حقانيت كى علامات ۱۷;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رسالت كا داءرہ ۳، ۷ ;محمد كى مسؤوليت ۳;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مقامات ۱۶

۳۱۲

موت:موت كا سبب ۱۳

مسيحي:مسيحيوں كى مسؤوليت ۱۵، ۲۰

موجودات:موجودات كى حيات كا سرچشمہ۱۴;موجودات كى موت كا سبب ۱۴

ہدايت:ہدايت كے اسباب ۲۱، ۲۳

يہود:يہود كى مسؤوليت ۱۵، ۲۰

آیت ۱۵۹

( وَمِن قَوْمِ مُوسَى أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ يَعْدِلُونَ )

اور موسى كى قوم ميں سے ايك ايسى جماعت بھى ہے جو حق كے ساتھ ہدايت كرتى ہے اور معاملات ميں حق و انصاف كے ساتھ كام كرتى ہے(۱۵۹)

۱_ قوم موسىعليه‌السلام كے كچھ لوگ ہدايت كرنے والے اور عدالت پيشہ تھے_

و من قوم موسى امة يهدون بالحق و به يعدلون

۲_ قوم موسىعليه‌السلام كے ہدايت كرنے والے لوگ خود بھى ہميشہ حق و حقيقت كے ہمراہ رہتے تھے_يهدون بالحق

فوق الذكر مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''بالحق'' كى ''باء'' مصاحبت كيلئے ہو كہ اس صورت ميں ''بالحق'' فعل''يهدون'' كیفاعل كيلئے حال ہوگا، يعني: ''يھدون مصاحبين الحق''

۳_ قوم موسىعليه‌السلام كے ہدايت كرنے والے باطل اسباب كے ذريعے نہيں بلكہ موازين حق كا سہارہ ليتے ہوئے لوگوں كى ہدايت كرتے تھے_يهدون بالحق

فوق الذكر مفہوم كى اساس يہ ہے كہ ''بالحق'' كى ''باء'' استعانت كيلئے ہو_

۴_ ہدايت كرنے والوں كو خود بھى حق كے ساتھ ہونا چاہيئے اور حق كى ہى پيروى كرنى چاہيئے _يهدون بالحق

۵_ قوم موسىعليه‌السلام كے عدالت پيشہ لوگ ،اپنے فيصلوں كا معيار ہميشہ حق كو قرار ديتے ہوئے اسى كى بنياد پر قضاوت كرتے تھے_و به يعدلون كلمہ ''بہ'' فعل''يعدلون'' كے متعلق ہے اور اس ميں حرف ''باء'' استعانت كيلئے ہے_

۶_ ہدايت كرنا اور عدالت كو اپنانا، سب پر فرض ہے_يهدون بالحق و به يعدلون

۳۱۳

۷_ انسانى معاشروں اور اقوام كے طرز عمل كى تصوير كشى كيلئے قرآن كى ايك روش يہ ہے كہ وہ ہر قوم كے ناپسنديدہ كرداروں پر تنقيد كرنے كے ساتھ ساتھ اس كے اچھے كرداروں كو بھى بيان كرتاہے_

و من قوم موسى ا مة يهدون

۸_ اقوام كے چہروں كو نماياں كرنے كيلئے انصاف كى مراعات كرنا ،ايك پسنديدہ امر ہے_*

و من قوم موسى اُمة يهدون بالحق

قوم موسى كى برائی اور اس كے بُرے افراد كا حال بيان كرنے كے بعد اس قوم كے عدالت پيشہ اور ہدايت كرنے والے گروہ كا تذكرہ كرنے كا ايك مقصد ہوسكتاہے يہ ہو كہ اس روش كى تعليم دى جائیے كہ كسى معاشرے كے بارے ميں تحليل كرنے اور اس كى خبر دينے ميں اس معاشرے كى خوبيوں سے صرف نظر كرتے ہوئے انہيں بھول نہيں جانا چاہيے_

۹_عن امير المؤمنين عليه‌السلام : ...لقد افترقت (بنو اسرائيل بعد موسي) على احدى و سبعين فرقة كلها فى النار الا واحدة فان الله يقول ''و من قوم موسى امة يهدون بالحق و به يعدلون'' فهذه التى تنجو (۱)

حضرت امير المؤمنينعليه‌السلام سے مروى ہے كہ: حضرت موسىعليه‌السلام كے بعد بنى اسرائیل ۷۱ فرقوں ميں بٹ گئے كہ ان ميں سے ايك كے سوا سب كے سب جہنمى ہيں ، خدا نے فرمايا ''قوم موسى كا ايك گروہ لوگوں كى حق كے ساتھ راہنمائی كرتاہے اور حق كے ساتھ قضاوت كرتاہے'' صرف يہى لوگ اہل نجات ہيں _

اچھے لوگ:اچھے لوگوں كا تعارف ۷

اقوام:اقوام كے تعارف ميں انصاف كى رعايت ۸

برے لوگ:برے لوگوں پر تنقيد ۷

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل كى اقليت۱ ;بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۵ ;بنى اسرائیل كے عادل لوگ ۱;بنى اسرائیل كے عادلوں كى قضاوت ۵;بنى اسرائیل كے ہدايت كرنے والے ۱، ۲، ۳

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۲ ص ۳۲ ح ۹۱ نورالثقلين ج/۲ ص ۸۵ ح ۳۰۷_

۳۱۴

عدالت:عدالت كى اہميت ۶

ذمہ داري:سب كى ذمہ دارى ۶

نمونہ :پسنديدہ نمونے ۷;ناپسنديدہ نمونے ۷

ہدايت:ہدايت كى اہميت ۶;روش ہدايت ۳، ۷

ہدايت كرنے والے:ہدايت كرنے والوں كى ذمہ دارى ۴;ہدايت كرنے والے اور حق ۴

آیت ۱۶۰

( وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطاً أُمَماً وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْناً قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ وَظَلَّلْنَا عَلَيْهِمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْهِمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَـكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ )

اور ہم نے بنى اسرائیل كو يعقوب كى بارہ اولاد كے بارہ حصول پر تقسيم كرديا اور موسى كى طرف وحى كى جب ان كى قوم نے انى كا مطالبہ كيا كہ زمين پر عصا ماردو_ انھوں نے عصا مارا تو بارہ چشمے جارى ہوگئے اس طرح كہ ہر گروہ نے اپنے گھاٹكو پہچان ليا اور ہم نے ان كے سروں پر ابر كا سايہ كيا اور ان پر من و سلوى جيسى نعمت نازل كى كہ ہمارے ديئے ہوئے پاكيزہ رزق كو كھاؤ اور ان لوگوں نے مخالفت كر كے ہمارے اوپر ظلم نہيں كيا بلكہ يہ اپنے ہى نفس پر ظلم كر رہے تھے(۱۶۰)

۱_ خداوند متعال نے بنى اسرائیل كو بارہ قبيلوں ميں تقسيم كيا_و قطّعنهم اثنتى عشرة أسباطا أمما

''اثنتى عشرة'' كى تمييز كلمہ''فرقة'' كى طرح

۳۱۵

كا كوئي مفرد مؤنث كلمہ ہے كہ جو واضح ہونے كى وجہ سے كلام ميں نہيں لايا گيا ''اسباط، سبط'' (قبيلہ طاءفہ) كى جمع ہے اور ''اثنتى عشرة'' كيلئے بدل ہے_

۲_ بنى اسرائیل كے بارہ طاءفوں ميں سے ہر ايك دوسرے كے مقابلے ميں ايك مستقل گروہ تھا_

و قطّعنهم اثنتى عشرة أسباطا أمما

امت كى جمع ''أمما'' كلمہ ''أسباطا'' كيلئے حال ہے، يعنى ايسے قبائل كہ جن ميں ہر كوئي ايك امت تھا_

۳_ حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بيٹوں ميں سے ہر ايك كى طرف بنى اسرائیل كا انتساب ہى ان كى گروہ بندى كى اساس تھا_

و قطّعنهم اثنتى عشرة أسباطا أمما

''أسباط'' لغت ميں اولاد كى اولاد كے معنى ميں استعمال ہوتاہے چنانچہ بنى اسرائیل كے بارہ طاءفوں كيلئے اسى كلمہ كے استعمال ميں اس مطلب كى طرف اشارہ پايا جاتاہے كہ ان قبائل كى اساس (كہ سب حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اولاد كى اولاد ہيں ) حضرت يعقوبعليه‌السلام كے بارہ فرزند ہيں _

۴_ بنى اسرائیل كى بارہ گرہوں ميں تقسيم ان كيلئے ايك نعمت الہى تھى اور يہ تقسيم ان كے اجتماعى امور كى تنظيم كے سلسلہ ميں تھي_قطّعنهم اثنتى عشرة أسباطا أمما ...قد علم كل أناس مشربهم

چونكہ آيت كے بعد كے حصوں ميں بنى اسرائیل كو عطا كى جانے والى نعمات كا تذكرہ ہے لھذا اس سے معلوم ہوتاہے كہ ان كى بارہ گروہوں ميں تقسيم بھى نعمات الہى ميں سے ہے چنانچہ جملہ ''قد علم ...'' كہ جو اس تقسيم كے فائدہ كو بيان كرتاہے بھى اس تقسيم كے نعمت ہونے كى تائی د كرتاہے_

۵_ عصر موسى ميں بنى اسرائیل كى زندگى ايك قبائلى زندگى تھي_و قطّعنهم اثنتى عشرة أسباطا أمما

۶_ سمندر عبور كرنے كے بعد قوم موسى آب و غذا كى كمى سے دوچار ہوگئي_إذا ستسقه قومه ...و أنزلنا عليهم المن والسلوي

۷_ بنى اسرائیل نے حضرت موسىعليه‌السلام كى طرف رجوع كرتے ہوئے اُن سے پانى كى قلت كو برطرف كرنے كا مطالبہ كيا_

إذ استسقه قومه

۸_ مشكلات سے نجات حاصل كرنے كيلئے انبياءعليه‌السلام سے متوسل ہونے كا جواز_إذ استسقه قومه

۹_ حضرت موسىعليه‌السلام كو خدا كى طرف سے حكم ملا كہ پانى

۳۱۶

حاصل كرنے كيلئے اپنا عصا پتھر پر مارو_و أوحينا الى موسى ...ا ن اضرب بعصاك الحجر

كلمہ ''الحجر'' كا ''ال'' جنس كيلئے بھى ہوسكتاہے كہ اس صورت ميں ''الحجر'' سے مراد دوسرى اشياء كے مقابلے ميں كوئي بھى پتھر ہوسكتاہے چنانچہ ''ال'' عہد حضورى يا ذہنى كيلئے بھى ہوسكتاہے كہ اس صورت ميں ''الحجر'' سے مراد ايك خاص پتھر ہوگا_

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام نے خدا كا حكم ملنے پر كسى تاخير كے بغير اپنا عصا(پانى حاصل كرنے كيلئے) پتھر پر مار ديا_

أن اضرب بعصاك الحجر فانبجست منه اثنتا عشرة عينا

''فانبجست'' ميں حرف ''فاء'' فائے فصيحہ ہے، يعنى ايك مقدر معطوف عليہ كو بيان كرنے كيلئے ہے اور وہ مقدر معطوف عليہ آيت كے پہلے حصّے كى روشنى ميں ''فضرب بعصاہ الحجر'' ہے گويا اس جملے كے محذوف ہونے ميں يہ معنى پايا جاتاہے كہ فرمان الہى (اضرب) ملتے ہى موسىعليه‌السلام نے اپنا عصا پتھر پر دے مارا_

۱۱_ پتھر پر عصامارنے كے بارے ميں خدا كا حكم موسىعليه‌السلام كو وحى كے ذريعے موصول ہوا_

و أوحينا إلى موسى ...أن اضرب بعصاك الحجر

۱۲_ پتھر پر عصائے موسى كے لگتے ہى اس سے پانى كے بارہ چشمے پھوٹ پڑے_

أن اضرب بعصاك الحجر فانبجست منه اثنتا عشرة عينا

فعل ''انبجست'' كا مصدر ''انبجاس'' جوش مارنے اور پھوٹنے كے معنى ميں استعمال ہوتاہے_

۱۳_ پتھر سے پھوٹنے والے بارہ چشموں ميں سے ہر ايك بنى اسرائیل كے بارہ قبيلوں ميں سے ايك قبيلے كے ساتھ مخصوص تھا_قد علم كل أناس مشربهم

''أناس'' كلمہ ''انس'' (لوگ) كى جمع ہے اور يہاں اس سے مراد بنى اسرائیل كے بارہ قبيلے ہيں _ ''مشرب'' پينے كے پانى يا اس جگہ كو كہتے ہيں كہ جہاں سے پانى ليا جاتاہے (گھاٹ) اور يہاں اس سے مراد وہى پتھر سے پھوٹنے والے چشمے ہيں _

۱۴_ پتھر سے پھوٹنے والے بارہ چشموں ميں سے ہر ايك چشمہ بنى اسرائیل كے ايك قبيلے كے ساتھ مخصوص ہونے كى علامت ركھتا تھا_قد علم كل أناس مشربهم

۱۵_ بنى اسرائیل كے قبيلوں ميں سے ہر قبيلہ اپنے مخصوص چشمے سے آگاہ تھا_قد علم كل أناس مشربهم

۳۱۷

۱۶_ قوم موسى كو سمندر عبور كرنے كے بعد سورج كى سخت گرمى كا سامنا كرنا پڑا_و ظلّلنا عليهم الغمم

۱۷_ خداوند متعال نے قوم موسىعليه‌السلام پر ابر كا سايہ كركے انہيں سورج كى جھلسا دينے والى گرمى سے نجات عطا كي_

و ظلّلنا عليهم الغمم

''غمامہ'' يعنى بادل اور اس كى جمع غمام ہے (لسان العرب) بعض اہل لغت كا كہنا ہے كہ غمام يعنى سفيد بادل''ظلّلنا'' كا مصدر ''تظليل'' سايہ قرار دينے كے معنى ميں آتاہے_

۱۸_ خداوند متعال نے قوم موسى پر گرم صحرا كو عبور كرنے كے دوران ، مَنّ و سلوى نازل كيا_

و أنزلنا عليهم المن والسلوي لغت ميں كلمہ ''مَنّ'' كا معنى ترنجبين اور شہد كى طرح كا ميٹھا شربت ذكر كيا گيا ہے اور ''سلوى '' كے معنى كے بارے ميں كہا گيا ہے كہ اس سے مراد بٹير كى طرح كا ايك سفيد رنگ كا پرندہ ہے اور بعض كا كہنا ہے كہ ''سلوى '' وہى بيٹر ہے_

۱۹_ ''منّ'' و ''سلوى '' بنى اسرائیل كو عطا كيا جانے والا رزق ايك پاك و پاكيزہ خوراك تھي_

و أنزلنا عليهم المن و السلوى كلوا من طيبت ما رزقنكم

۲۰_ قوم موسى كے اوپر ابر كا نمودار ہونا باعث بنا كہ ان پر من و سلوى نازل ہو *

و ظلّلنا عليهم ألغمم و أنزلنا عليهم المن و السلوي

جملہ ''ظلّلنا ...'' پر جملہ ''انزلنا ...'' كے معطوف ہونے ميں ابر كے چھانے اور من و سلوى كے نازل ہونے كے درميان ارتباط كا سراغ مل سكتاہے_

۲۱_ سمندر عبور كرنے كے بعد قوم موسى كو حلال اور حرام غذاؤں تك رسائی حاصل ہوگئي تھي_

كلوا من طيبت ما رزقنكم

۲۲_ َمنّ و سلوى اور پاك و پاكيزہ رزق سے استفادہ كرنے كے بارے ميں بنى اسرائیل كو خدا كى ہدايتكلوا من طيبت ما رزقنكم فوق الذكر مفہوم فعل امر ''كلوا'' كو مد نظر ركھتے ہوئے اخذ كيا گيا ہے_

۲۳_ خداوند متعال ،اپنے بندوں كو رزق عطا كرتاہے_ما رزقنكم

۲۴_ پاك و پاكيزہ نعمات سے استفادہ كرنے كے بارے ميں بندوں كو خدا كى ہدايت_كلوا من طيبت ما رزقنكم

۲۵_ جہان ہستى خدا كے اختيار ميں ہے اور اس ميں رونما

۳۱۸

ہونے والى تبديلياں بھى اسى كے دست قدرت ميں ہيں _فانبجست منه ...ظلّلنا عليهم الغمم و ا نزلنا عليهم المن و السلوى

۲۶_ سمندر كو عبور كرنے كے بعد قوم موسى كيلئے متعدد معجزات (پاني، سايہ اور منّ و سوى كا نزول) ظاہر ہوئے_

فانبجست ...و ظلّلنا عليهم الغمم و أنزلنا عليهم المنّ و السلوي

۲۷_ قوم موسى نے ناپاك خوراكوں سے استفادہ كرتے ہوئے خدا كى نافرمانى كي_كلوا من طيبت ما رزقنكم و ما ظلمونا و لكن كانوا ا نفسهم يظلمون اگر قوم موسى پر ظالم ہونے كا اطلاق (كانوا ا نفسهم يظلمون ) جملہ ''كلوا من طيبت ...'' كے ساتھ مربوط ہو تو اس صورت ميں ان كے ظلم سے مراد حرام اور ناپاك غذاؤں سے ان كا استفادہ ہے ليكن اگر جملہ ''و ما ظلمونا و لكن ...'' آيت ميں مذكور متعدد نعمات كے ساتھ مرتبط ہو تو اس صورت ميں ان كے ظلم سے مراد نعمات كے مقابلے ميں ناسپاسى ہے مندرجہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناء پر اخذ كيا گيا ہے_

۲۸_ قوم موسى ، عطا كى جانے والى نعمات (پانى كے چشموں و غيرہ) كے مقابلے ميں شكر گزارنہ تھي_

و ما ظلمونا و لكن كانوا ا نفسهم يظلمون

فوق الذكر مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كے جب جملہ ''و ما ظلمونا و لكن ...'' آيت كہ ان تمام حصوں كے ساتھ مرتبط ہو كہ جن ميں نعمات الہى كا تذكرہ ہے_

۲۹_ قوم موسى نے خدا كى ناشكرى اور نافرمانى كركے ذات حق كو كچھ نقصان نہيں پہنچايا_و ما ظلمونا

۳۰_ قوم موسى كى ناشكرى اور خدا كے حكم سے ان كى نافرماني، ايسا ستم تھا كہ جو انہوں نے خود اپنے اوپر ڈھايا_

و قطّعنهم ...و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۳۱_ حكم خدا كى نافرمانى اور نعمات الہى كے مقابلے ميں ناشكرى ايسے ظلم ہيں كہ جو انسان كى طرف سے خود انسان ہى كوپہنچتے ہيں _و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۳۲_ گناہ كا نقصان خودگناہ كار كو پہنچتاہے نہ كہ خدا كو_و ما ظلمونا و لكن انفسهم يظلمون

آفرينش:آفرينش ميں تبديليوں كا سبب ۲۵;حاكم آفرينش ۲۵

۳۱۹

اعداد:بارہ كا عدد، ۱، ۲، ۴، ۱۲، ۱۳، ۱۴

اجتماعى امور:اجتماعى امور كى تنظيم ۴

انبياء:رسالت انبياء كا داءرہ ۹

بادل:بادل كا كردار ۱۷، ۲۰

بنى اسرائی ل:بنى اسرائیل اور موسىعليه‌السلام ۷; بنى اسرائیل پر ابر كا سايہ ۱۷، ۲۰، ۲۶ ; بنى اسرائیل كا طعام ۲۱; بنى اسرائیل كا ظلم ۳۰; بنى اسرائیل كا عصيان ۲۷، ۲۹، ۳۰ ; بنى اسرائیل كا كفران ۳۰، ۲۹، ۲۵ ; بنى اسرائیل كا گرمى كى مشكل ميں مبتلا ہونا ۱۶، ۱۷ ; بنى اسرائیل كى اجتماعى زندگى ۵; بنى اسرائیل كى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۶، ۷، ۱۲، ۱۳، ۱۵، ۱۶، ۱۷، ۱۸، ۱۹، ۲۱، ۲۶، ۲۷، ۲۸ ; بنى اسرائیل كى حرامخورى ۲۷; بنى اسرائیل كى خواہشات ۷; بنى اسرائیل كى خوراك ۱۸; بنى اسرائیل كى روزى ۱۹; بنى اسرائیل كى مشكل ۶; بنى اسرائیل كى مشكلات ۱۶، ۷، ۶ ; بنى اسرائیل كى نسل ۳; بنى اسرائیل كى نعمات ۴، ۱۸، ۱۹، ۲۰، ۲۱، ۲۶، ۲۸ ; بنى اسرائیل كے اسباط ۱، ۲، ۴ ; بنى اسرائیل كے اسباط كے چشمے ۱۳، ۱۴، ۱۵ ; بنى اسرائیل كے بارہ چشمے ۱۲، ۱۳، ۱۴ ; بنى اسرائیل كے گروہ ۳;بنى اسرائیل ميں پانى كى كمى ۶، ۷، ۹ ; بنى اسرائیل ميں غذا كى كمى ۶; بنى اسرائیل ميں قحط ۶; سمندر سے بنى اسرائیل كا عبور ۱۶، ۲۱، ۲۶ ; عصر موسى ميں بنى اسرائیل كى زندگى ۵;گرمى سے بنى اسرائیل كى نجات ۱۷

پانى :پانى كے چشمے ۲۸

توسل:انبياء سے توسل ۸;توسل كا جواز ۸;توسل كے احكام ۸

چشمہ:پتھر ميں چشمہ ۱۲، ۱۳، ۱۴

اللہ تعالى :اللہ تعالى كو نقصان پہنچانا ۲۹، ۳۲; اللہ تعالى كى رزاقيت ۲۳; اللہ تعالى كى قدرت ۲۵; اللہ تعالى كى نافرمانى ۲۷،۲۹، ۳۰،۳۱;اللہ تعالى كى نعمات ۴; اللہ تعالى كى ہدايت ۲۲،۲۴; اللہ تعالى كے عطايا ۱۹

خود:خود پر ظلم ۳۰، ۳۱

روزي:طيّب روزى ۲۲

سلوي:سلوى كى نعمات سے استفادہ ۲۲;سلوى كى نعمت ۱۸، ۱۹، ۲۶;سلوى كى نعمت كا باعث ۲۰

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736