تفسير راہنما جلد ۶

 تفسير راہنما 8%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 736

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 736 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 197851 / ڈاؤنلوڈ: 5258
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۶

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

شرکت  کی تھی اور مہاجرین میں سے جو دراصل مکے کے رہنے والے تھے اور رسول اللہ ص کے ساتھ ہجرت کرکے آئے تھے صرف تین یا چار اشخاص ہی شریک تھے جو قریش کی نمائندگی کررہے  تھے ۔اس کے ثبوت کے لیے یہ کافی ہے کہ ہم یہ اندازہ لگائیں کہ سقیفہ  کتنا بڑا ہوگا ۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ سقیفہ کیا ہوتا ہے ۔یہ مکان کے بیرونی دروازے  سے ملحق ایک کمرہ ہوتا ہے جس میں لوگ بیٹھک جماتے ہیں ۔ یہ مکان کے بیرونی دروازے  سے ملحق ایک کمرہ ہوتاہے جس میں لوگ بیٹھک جماتے ہیں ۔ یہ کوئی آڈیٹوریم یا  کانفرنس ہال نہیں تھا ۔اس لیے جب ہم یہ کہتے  ہیں کہ" سقیفہ  بنی ساعدہ " میں سوآدمی موجود ہوں گے تو درحقیقت ہم مبالغے  سے کام لیتے ہیں ۔ہمارا مقصد یہ ہے کہ تحقیق کرنے والے  کو یہ معلوم جائے  کہ وہاں وہ ایک لاکھ آدمی نہیں تھے جو "غدیر خم"کے موقع پرموجود تھے ،بلکہ انھیں تو یہ معلوم بھی کافی عرصہ کے بعد ہوا ہوگا کہ سقیفہ  میں کیا کاروائی ہوئی ۔ کیونکہ ان دنوں نہ فضائی رابطہ تھا نہ ٹیلفون تھے اور نہ ہی مصنوعی سیارے تھے ۔ جب وہاں موجود زعماء کا ابوبکر کے تقرر پر انصار کے سردار سعدبن عبادہ اور ان کے بیٹے قیس کی مخالفت کے باوجود ، اتفاق ہوگیا اور غالب اکثریت سے معاملہ طے پاگیا اس وقت مسلمانوں کی بڑی تعداد سقیفہ میں موجود نہیں تھی ۔ کچھ لوگ رسول اللہ ص کی تجہیز وتکفین میں مصروف تھے ،کچھ رسول اللہ ص کی وفات کی خبر سے حواس باختہ تھے ۔ عمر نے انھیں یہ کہہ کر اور بھی خوف زدہ کردیا تھا کہ خبر دار کوئی یہ بات زبان سے نہ نکالے  کہ رسول اللہ ص وفات پاگئے  ہیں ۔(1) اس کے علاوہ صحابہ کی ایک بڑی تعداد کو رسول اللہ ص نے سپاہ اسامہ میں بھرتی کرلیا تھا اوریہ لوگ زیادہ تر جرف میں مقیم تھے ۔ لہذا یہ لوگ رسول اللہ ص  کی وفات کے وقت نہ تو مدینے میں موجود تھے اور نہ ہی سقیفہ کی کانفرنس میں شریک ہوئے ۔ اس کے بعد بھی کیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی قبیلے کے افراد اپنے سردار کی مخالفت کرتے اور اس سے جو فیصلہ کردیا تھا اسے نہ مانتے ۔خصوصا جب کہ یہ فیصلہ  ان کے لیے ایک بڑا اعزاز تھا جس کو حاصل کرنے کی ہر قبیلہ کوشش کرتا تھا ۔

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 195

۱۰۱

کون جانتا ہے کہ کسی دن ان کے ہی قبیلہ یا خاندان کو تمام خلافت حاصل ہوجائے جب کہ اس کا شرعی حق دار تو راستے سے ہٹاہی دیاگیا تھا اور معاملہ شوری پر منحصر ہوگیا تھا ۔اس صورت میں باری باری سب  کے لیے  موقع تھا ۔ ایسی حالت میں وہ اس فیصلے سے کیوں نہ خوش ہوتے اور کیسے نہ اس کی تائید کرتے ؟

دوسری بات یہ ہے کہ  جب مدینے کے رہنے والے اہل حل وعقد نے ایک بات طے کردی تھی  تو جزیرہ نمائے عرب کے دور افتادہ باشندوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اس کی مزاحمت کریں گے کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی عدم موجودگی میں کیا ہورہاہے جب کہ اس دور میں وسائل رسل ورسائل  بالکل ابتدائی  حالت میں تھے ۔

اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچتے تھے کہ اہل مدینہ رسول اللہ کےپڑوسی ہیں وہ احکام ربانی اور وحی سے جو کسی وقت کسی دن بھی نازل ہوسکتی تھی  زیادہ واقف ہیں ۔ پھر یہ کہ صدر مقام سے دور رہنے والے قبیلے کے سردار کو خلافت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ اسے  اس سے کیا کہ ابو بکر خلیفہ ہوں یا علی ع یا کوئی اور ۔گھر کا حال گھر والے جانیں ۔اس کے لیے تو اہم بات صرف یہ تھی کہ اس کی  سرداری برقراررہے ۔ اسے کوئی چھیننے کی کوشش نہ کرے ۔کون جانتا ہے ۔شاید کسی نے معاملے کے متعلق کچھ پوچھ گچھ کی بھی ہو ۔ اور حقیقت حال جاننے کی کوشش کی ہوں ۔ لیکن حکومت کے کارندوں نے خواہ ڈرا دھمکا کر یالالچ دے کر اسے خاموش کردیا ہو ۔ شاید مالک بن نویرہ کے قصے کے متعلق ۔جس نے ابو بکر کو زکات دینے سے انکار کردیا تھا ۔ شیعوں ہی کی بات صحیح ہو ۔ حقیقت تو اللہ ہی کو معلوم ہے ۔لیکن جو شخص مانعین زکاۃ  کے ساتھ جنگ کے دوران میں پیش آنے والے واقعات کا بغور مطالعہ کرےگا اس ےبہت سے ایسے تضادات ملیں گے جن کے متعلق بعض مورخین کی پیش کی ہوئی صفائی سے اطمینان نہیں ہوگا ۔

تیسری بات یہ ہےاس واقعہ کے اچانک پیش آجانے کا بھی اس کو بطور امر  واقعی FAIT ACCOMPLI تسلیم کرلیے جانے میں بڑا دخل رہا ہے سقیفہ کانفرنس اس وقت اچانک منعقد ہوئی تھی جب بہت سے صحابہ رسول اللہ ص کی تجہیز

۱۰۲

وتکفین میں مشغول تھے ان میں امام علی ع عباس ،دوسرے بنی ہاشم ،مقداد ،سلمان ابوذر ، عمار اور دوسرے بہت سے اصحاب شامل تھے ۔ جب تک سقیفہ کے شرکاء ابو بکر کو مسجد میں لے کرگئے  اور انھوں نے عام بیعت کی دعوت دی جس پر لوگ بادل خواستہ ناخواستہ بیعت کے لیے امنڈ پڑے ، اس وقت تک علی ع اور ان کے پیروکار اپنے شرعی اور اخلاقی فریضہ سے فارغ نہیں ہوئے تھے اور ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ  رسول اللہ ص کو بغیر غسل اور بغیر کفن دفن کے چھوڑ کر سقیفہ میں خلافت کے واسطے دوڑ پڑتے اور جب تک وہ اس فریضہ سے فارغ ہوئے ۔ اس وقت تک معاملہ ابو بکر کے حق میں فیصلہ بھی ہوچکا تھا ۔ اب جو کوئی ابوبکر کی بیعت سے پیچھے ہٹتا  اس کا شمار مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے والے ان فتنہ پردازوں میں ہوتا جن سے نمٹنا اور ضروری ہوتو انھیں قتل کردینا مسلمانوں پر واجب ہوگیا تھا ۔اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جب سعد بن عبادہ نے حضرت ابو بکر کی بیعت میں تامل کیا تو  عمربن خطاب نے انھیں قتل کی دھمکی دی تھی ۔(1)

اس کےبعد بیعت سے انکار کرنے والے ان صحابہ کو جو علی ع کے گھر میں جمع تھے ، زندہ جلادینے   کی اور علی ع کے گھر کو آگ  لگانے دینے کی دھمکی دی گئی تھی ۔ اگر ہمیں بیعت سے متعلق عمر کی صحیح رائے معلوم ہوجائے تو بہت سے حیران کن معمّوں کا  حل نکل آئے ۔ معلوم ہوتاہے کہ عمر کا خیال یہ تھا کہ بیعت کے درست ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ کوئی ایک مسلمان بیعت میں سبقت کرلے۔ پھر باقی پر اس کی پیروی واجب ہوجاتی ہے ۔ اس پر بھی اگر کوئی مخالفت کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج  اور واجب القتل ہے ۔ آئیے دیکھیں خود عمر بیعت کےبارے میں کیا کہتے ہیں !صحیح بخاری  کی روایت  ہے ۔(2) عمر کہتے ہیں :

اس پر بڑی گڑبڑ ہوئی اورخوب شور مچا ۔ میں ڈرا کہ کہیں آپس میں

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 8صفحہ 26 ۔طبری ،تاریخ الامم والملوک ۔ابن قتیبہ ، الامامۃ والسیاسۃ ۔

(2):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 29 ۔"باب رجم الحبلی عن الزنا اذا احصنت "

۱۰۳

تفرقہ پڑجائے ۔میں نے ابو بکر سے کہا:ہاتھ بڑھاؤ ۔انھوں نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے بیعت کرلی ۔ مہاجرین(1) اور انصار نے بھی بیعت کرلی ۔ ہم سعد بن عبادہ پر کود پڑے ۔انصار میں سے کسی نے کہا : تم نے سعد بن عبادہ کو مارڈالا ! میں نے کہا سعد بن عبادہ پر اللہ کی مار !

عمر کہتے ہیں کہ " جو مسئلہ ہمارے سامنے تھا ، اس کا اس سے مضبوط کوئی حل نہیں تھا کہ ابو بکر کی بیعت کر لی جائے ۔ہمیں ڈرتھا کہ اگر وہاں موجود لوگوں کوچھوڑ کرچلے گئے اور بیعت نہ ہوئی تو کہیں وہ ہمارے جانے کے بعد اپنے ہی لوگوں سے بیعت نہ کرلیں ۔ پھر یا تو ہمیں اپنی مرضی کے خلاف بیعت کرنی پڑیگی  اور اگر ہم نے مخالفت کی تو فساد برپا ہوگا ۔ اگر کوئی کسی سے مسلمانوں کے مشورے کے بغیر بیعت کرے تو ان دونوں میں سے کسی کا ساتھ نہیں دیاجائیگا ۔

معلوم ہوا کہ عمر کے نزدیک سوال انتخاب ، اختیار اور شوری کا نہیں تھا ۔ صرف انتا کافی تھا کہ کوئی مسلمان بڑھ کر کسی سے بیعت کرلے تاکہ باقی لوگوں پر حجت  قائم ہوجائے ۔ اسی لیے عمر نے ابو بکر سے کہا کہ ہاتھ بڑھاؤ ۔ابوبکر نے ہاتھ بڑھایا تو عمر نے بلاجھجک اور بلا کسی سے مشورہ کیے فورا اس خوف سے بیعت کرلی  کہ کہیں کوئی دوسرا ان سے بازی نہ لے جائے ۔ اس بات کو عمر نے اس طرح بیان کیا :

ہم ڈرتے تھے کہ اگر ہم ان لوگوں کے پاس چلے گئے اور بیعت نہ ہوئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ہمارے جانے کے بعد اپنے ہی لوگوں میں سےکسی سے بیعت کرلیں ۔(عمر کوڈرتھا کہ کہیں انصار پہل کرکے

--------------------

(1):- سب مورخین کہتے ہیں کہ سقیفہ میں صرف چار مہاجر موجود تھے ۔ یہ کہنا کہ "میں نے بیعت کی اور مہاجرین نے بیعت کرلی " یہ اس قول سے متصادم ہے جو اسی خطبے میں آگے ہے کہ علی ع ،زبیر اور ان دونوں کے ساتھیوں نے مخالفت کی ۔ صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 26

۱۰۴

اپنے میں کسی کی بیعت نہ کرلیں)۔

مزید وضاحت اگلے فقرے سے ہوجاتی ہے :

پھر یا تو ہمیں اپنی مرضی کے خلاف ان سے بیعت کرنی ہوگی یا اگر ہم نے مخالفت کی  تو فساد برپا ہوجائے گا ۔(1)

احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ہم یہاں یہ اعتراف کرلیں کہ عمر بن خطاب نے بیعت کے بارے میں اپنی رائے اپنی زندگی  کے آخری ایام میں بدل  لی تھی ۔ ہوا یوں  کہ انھوں نے جو آخری  حج کیا تھا اس کے دوران  ایک شخص نے عبدالرحمان  بن عوف کی موجودگی میں ان سے آکر کہا تھا : آپ کو معلوم ہے کہ فلاں شخص  کہتا ہے کہ اگر عمر مرجائیں تو میں فلاں سے بیعت کرلوں گا ۔ ابو بکر کی بیعت تو اچانک ہوگئی تھی جو اتفاق سے کامیاب ہوگئی ۔ یہ سن کر عمر بہت ناراض ہوئے  اور مدینے واپسی  کےفورا بعد ایک خطبہ دیا جس میں اور باتوں کے علاوہ کہا :

میں نے سنا ہے کہ تم میں سے کوئی کہہ رہاتھا کہ اگر عمر مرگئے تو میں فلاں شخص کی بیعت کرلوںگا  ۔ کسی شخص کو اس  دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے کہ ابوبکر کی بیعت  اچانک ہوئی تھی لیکن کامیاب رہی ۔ یہ بات صحیح ہے اللہ نے اس کے برے نتائج سے محفوظ رکھا ۔(2)

پھر کہا کہ

"جو شخص مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر کسی سےبیعت کرے گا تو نہ بیعت کرنے والے کی بیعت صحیح ہوگی اور نہ بیعت لینے والے کی بیعت ،بلکہ وہ دونوں قتل کردیے جائیں(3) ۔

کاش ! سقیفہ کے موقع پر بھی عمر کی یہی رائے ہوتی !

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 28

(2):- صحیح بخاری جلد8صفحہ 26

(3):- طبری ،تاریخ الامم والملوک ،استخلاف عمر۔ ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ ۔

۱۰۵

اب یہ بات باقی رہ جاتی ہے کہ عمر نے زندگی کے آخری ایام میں اپنی رائے تبدیل کیوں کرلی ۔کیونکہ انھیں دوسروں سے بہتر طورپر معلوم تھا کہ وہ اپنی رائے کی وجہ سے ابوبکر کی بیعت  کی بنیادیں ڈھارہے ہیں  ، اس لیے کہ انھوں نے بھی ابو بکر  کی بیعت  مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر اچانک کی تھی ۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے اس بیان سے

خود ان کی اپنی بیعت کی بنیادیں ہل گئی اس لیے ابوبکر نے اپنی وفات  کے قریب مسلمانوں  سے مشورہ کیے بغیر ان کے لیے بیعت لی تھی ،یہاں تک کہ بعض صحابہ انے ابو بکر  کی چٹھی سنانے کے لیے عمر باہر نکلے تو کسی نے ان سے پوچھا : ابو حفص ! اس چٹھی میں کیا ہے ؟ عمر نے جواب دیا  مجھے معلوم نہیں ۔ لیکن پہلا میں شخص  ہوں گا جو ابوبکر کے حکم کو سن کر اسے قبول کرےگا ۔ اس شخص نے  اس پر کہا : مگر مجھے معلوم ہے کہ اس میں  کیا ہے ؟ اگلی بار آپ نے انھیں حکمراں بنایا تھا ، اس بار وہ آپ کو حکمران بنارہے ہیں(1) ۔یہ ویسی ہی بات ہے جیسی امام علی ع نے اس وقت کہی تھی جب وہ لوگوں کو ابوبکر کی بیعت کی دعوت دے رہے تھے ، علی ع نے کہاتھا :دودھ دوہ لو ، تمھیں تمھارا حصہ مل جائے گا ۔ آج تم ان کی خلافت پکی کرو  ، کل وہ خلافت تمھیں لوٹا دیں گے(2) ۔

اہم بات یہ ہے کہ ہمیں  یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بیعت کےبارے میں عمر نے اپنی رائے کیوں بدلی ؟ میرا خیال یہ ہے کہ انھوں نے سناتھا کہ بعض صحابہ ان کے مرنے کے بعد علی ابن ابی طالب ع سے بیعت کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر یہ بات انھیں قطعا پسند نہیں تھی ۔ عمر کو یہ گوارا نہیں تھا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اگر عمر مرگئے تو میں فلاں  شخص سے بیعت کرلوںگا ۔خصوصا ایسی حالت میں جب کہ وہ خود عمر کے اپنے فعل سے استدلال کررہا ہے ۔ اس کہنے والے کا نام تو معلوم نہیں مگر اس میں شک نہیں کہ

--------------------

(1):- ابن قتیبہ ،الامامۃ والسیاسۃ جلد 1صفحہ 18

(2):- صحیح مسلم جلد 5 صفحہ 75 ۔صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 9

۱۰۶

یہ کبار صحابہ میں سے کوئی صاحب ہوں گے ۔ یہ صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر ابوبکر کی بیعت اچانک ہوئی تھی مگر مکمل ہوگئی یعنی اگرچہ یہ بیعت مشورے کےبغیر اور دفعتا ہوگئی تھی مگر یہ مکمل ہو کر ایک حقیقت بن گئی ۔ اگر عمر اس طرح ابوبکر سے بیعت کرسکتے تھے تو وہ خود کیوں فلاں  سے اس طرح بیعت نہیں کرسکتے "۔

یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ابن عبّاس ، عبدالرحمن بن عوف اور عمر بن خطاب  اس شخص کا نام نہیں لیتے جس نےیہ بات کہی تھی اور نہ اس شخص کا نام لیتے ہیں ۔جن کی یہ بیعت کرنا چاہتا تھا ۔ لیکن چونکہ یہ دونوں اشخاص مسلمانوں میں بڑی اہمیت رکھتے تھے ، اس لیے عمر یہ بات سن کر بگڑے اور پہلے ہی جمعہ کو جو خطبہ دیا اس  میں خلافت کاذکر چھیڑ کر اپنی نئی رائے کا اظہار کیا ، تاکہ جو صاحب  پھر ایک بار اچانک بیعت کا ارادہ کررہے تھے ان کا راستہ روکا جاسکے  ۔کیونکہ اس بیعت کی صورت میں خلافت فریق مخالف کے ہاتھ میں جانے کا امکان تھا ۔ اس کے علاوہ اس بحث کے بین السطور سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی شخص کی انفرادی رائے نہیں تھی ، یہ رائے بہت سے صحابہ کی تھی ، اس لیے بخاری کہتے ہیں  " اس پر عمر نے بگڑ کر کہا : میں انشااللہ شام کو  تقریر کرکے لوگوں کو ان سے خبر دار کردوں گا جو ان کے معاملات  پر ناجائز قبضہ کرنا چاہتے ہیں(1) ۔

اس سے معلوم ہوا کہ عمر کی رائے میں تبدیلی کی اصل وجہ  ان لوگوں  کی مخالفت تھی جو بقول ان کے لوگوں کے معاملات  پر ناجائز قبضہ کرنااور علی ع کی بیعت کرنا چاہتے تھے اور یہ بات عمر کے لیے ناقابل قبول تھی ۔ کیونکہ انھیں یقین تھا کہ خلافت  لوگوں کے طے کرنے کا مسئلہ ہے ۔یہ علی بن ابی طالب ع کا حق نہیں ۔لیکن اگر عمر کا یہ خیال صحیح تھا تو رسول اللہ ص کی وفات کے بعد انھوں نے خود لوگوں کا حق غصب کیوں کیا تھا اور مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر ابوبکر سے بیعت کرنے میں جلدی کیوں کی تھی ؟

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 25

۱۰۷

ابو حفص عمر کا رویہ ابو الحسن علی ع کے بارے میں سب کو معلوم ہے ۔عمر کی کوشش یہ تھی کہ جہاں تک ممکن ہو علی ع کو حکومت سے دور رکھا جائے ۔یہ نتیجہ ہم نے صرف مذکورہ بالا خطبے ہی سے اخذ نہیں کیا ہے بلکہ تاریخ کا متتبع کرنے والا ہر آدمی جانتا ہے کہ ابو بکر کے دور خلافت میں بھی عملا عمربن خطاب ہی حکمراں تھے ۔اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ابوبکر نے اسامہ سے اجازت مانگی تھی کہ عمر کو ان کے پاس چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ امور خلافت میں ان سے مدد لیتے رہیں(1) ۔

ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ابو بکر ، عمر اور عثمان کے پورے دورمیں علی بن ابی طالب کو ذمہ داری کے عہدوں سے دوررکھا گیا ۔ نہ ان کو کوئی منصب دیاگیا ۔نہ کسی صوبے کا گورنر بنایا گیا ، نہ کسی لشکر کا سالار مقررکیا گیا اورنہ خزانہ ان کی تحویل  میں دیا گیا ۔حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ علی بن ابی طالب ع کون تھے ۔

تاریخ کی کتابوں میں اس سے زیادہ عجیب بات یہ لکھی ہے کہ عمر کو مرنے کے قریب اس بات کا افسوس تھا کہ ابو عبیدہ بن جرّاح یا حذیفہ بن یمان کے آزاد کردہ غلام یاسر ، ان دونوں میں سے کوئی اس وقت زندہ نہیں ورنہ وہ ان ہی میں سے کسی کو اپنے بعد خلافت نامزد کردیتے ۔لیکن اس میں شک نہیں کہ بعد میں انھیں خیال آیا کہ اس طرح کی  بیعت کے بارے میں تو وہ اپنی راۓ پہلے ہی بدل چکے ، اس لیے ضروری ہوا کہ بیعت کا کوئی نیا طریقہ ایجاد کیا جائے جس کو درمیانی حل قرار دیا جاسکے ،جس میں نہ تو کوئی فر دواحد اس کی بیعت کرلے جس کو وہ اپنی ذاتی رائے میں مناسب سمجھتا ہو اور پھر دوسروں کو آمادہ کرے کہ وہ بھی اس کی پیروی کریں جیسا کہ خود عمر نے ابو بکر کی بیعت کے وقت کیا تھا ۔ یا جس طرح ابوبکر نے اپنے بعد خلافت کے لیے عمر کو نامزد کردیا تھا۔ یا جیسا کہ ان صاحب  کا ارادہ تھا جو حضرت عمر کی موت کا انتظار  کررہے تھے ۔تاکہ اپنے پسندیدہ شخص کی بیعت کرسکیں  ، لیکن عمر پیش  بندی کرکے ان کے

--------------------

(1):-ابن سعد نے طبقات  میں اس کی تصریح  کی ہے ۔ دوسرے مورخین نے بھی جنھوں نے سریہ اسامہ بن زید  کا ذکر کیا ہے ، ان بات کو بیان کیا ہے ۔

۱۰۸

منصوبے کو ناکام بنادیا تھا ۔ نہ ہی عمر کے لیے  یہ ممکن تھا کہ وہ خلافت  کے معاملے کا تصفیہ مسلمانوں کے شوری پر چھوڑ دیتے کیونکہ وہ اپنی  آنکھوں سے چکے تھے کہ رسول اللہ ص کی وفات کے بعد سقیفہ میں کیسے کیسے اختلاف پیدا ہوگئے تھے اور کس طرح کشت وخون کی نوبت آتے آتے وہ گئی تھی ۔

چنانچہ حضرت عمر نے بالآخر اصحاب شوری کا اصول وضع کیا اور اس اصول کے تحت  ایک چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کے خلیفہ کے انتخاب کا مکمل اختیار تھا اور اس کمیٹی کے ارکان  کے علاوہ مسلمانوں میں سے کسی کو اس معاملے میں دخل دینے کا حق نہیں تھا ۔ حضرت عمر کو معلوم تھا کہ ان چھ ارکان میں بھی اختلاف  پیدا ہونا ناگریز ہے اس لیے انھوں  ہدایت جاری کی کہ اختلاف کی صورت میں اس فریق کا ساتھ دیا جائے جس میں عبدالرحمان بن عوف ہوں ، خواہ  یہ ارکان  تین تین کے دو مساوی  گروہوں میں تقسیم ہوجائیں اور اس گروہ کو قتل ہی کردینا پڑے  جو عبدالرحمان بن عوف کے خلاف ہو۔لیکن عمر کو یہ بھی معلوم تھا  کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ کیونکہ سعد بن ابی وقاص عبدالرحمان  بن عوف کے چچازاد بھائی تھے اور ان دونوں کا تعلق قبیلہ بنی زہرہ تھا ۔ ۔۔۔۔عمر کو یہ بھی معلوم تھا کہ سعد بن ابی وقاص علی ع سے خوش نہیں ،ان کی دل ہیں علی ع کی طرفسے بعض ہے کیونکہ علی ع نے ان کی ننھیال عبد شمس  کے بعض افراد کو غزوات میں قتل کیا تھا ۔

عمر کو یہ بھی معلوم تھا کہ عبدالرحمان بن عوف عثمان کے بہنوئی کیونکہ ان کی بیوی  ام کلثوم عثمان کی بہن ہیں ۔

۔۔۔۔یہ بھی جانتے تھے کہ طلحہ کا بھی جھکاؤ عثمان کی طرف ہے بعض راویوں نے ان دونوں کے درمیان  تعلقات کا  ذکر کیا ہے ۔ عثمان کی طرف طلحہ  کے جھکاؤ کا ایک سبب یہ تھا کہ طلحہ علی ع کوپسند نہیں کرتے تھے ۔وجہ یہ تھی کہ طلحہ تیمی تھے اور حضرت ابو بکر کے منصب خلافت پر خلافت فائزہوجانے کے بعد سے بنی ہاشم اور بنی تیم کے تعلقات ناخوشگوار ہوگئے تھے(1) ۔

--------------------

(1):- شیخ محمد عبدہ ، شرح نہج البلاغہ جلد 1صفحہ 88

۱۰۹

حضرت عمر کو یہ سب معلوم تھا اور انھی باتوں کے پیش نظر انھوں نے خاص طور پر ان چھ افراد کا انتخاب کیا تھا ، جو سب کے سب مہاجر اور قریشی تھے ، کوئی بھی انصار میں سے نہیں تھا ۔ ان میں سے ہر ایک کسی ایسے قبیلے  کی نمائندگی  کرتا تھا جس کی اپنی  اہمیت تھی اور اپنا اثر ورسوخ تھا ۔

1:- علی بن ابی طالب ۔ بنی ہاشم کے بزرگ ۔2:- عثمان بن عفان ۔ بنی امیہ کے بزرگ ۔

3:- عبدالرحمن بن عوف ۔ بنی زہرہ کے بزرگ ۔4:- طلحہ بن عبیداللہ ۔بنی تیم کے بزرگ ۔

5:-سعد بن ابی وقاص ان کا تعلق بھی بنی زہرہ سے تھا ۔ ننھیال بنی امیہ تھی ۔

6:- زبیر بن العوام ۔رسول اللہ ص کی پھوپھی  صفیہ کے صاحبزادے  اور اسماء  بنت ابی بکر کے شوہر ۔

یہ تھے وہ زعماء اور ارباب حل وعقد جن کا فیصلہ سب مسلمانوں کے لیے واجب العمل تھا ۔ خواہ وہ مسلمان مدینے کے باشندے ہوں یا دنیائے اسلام  میں کسی اور جگہ کے ۔مسلمانوں  کا کام چون وچرا کے بغیر حکم کی تعمیل تھا ۔ اگر کوئی تعمیل حکم نہ کرتا تو پھر اس کا خون معاف تھا ۔ یہ تھے وہ حالات جو ہم قاری  کےذہن نشین کرانا چاہتے تھے ، بالخصوص اس مقصد سے کہ یہ معلوم ہوجائے  کہ نص غدیر کے سلسلے میں خاموشی کیوں اختیار کی گئی تھی ۔اگر یہ مان لیا جائے کہ حضرت عمر کو ان چھ افراد کے خیالات اور ان کے طبعی رجحانات کا علم تھا تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی طرف سے عثمان بن عفان کوخلافت  کےلیے نامزد کردیا تھا ، یا یوں کہاجاسکتا کہے کہ انھیں پہلے سے  علم تھا کہ یہ چھ رکنی کمیٹی علی بن ابی طالب ع کے حق میں فیصلہ نہیں دے گی ۔

یہاں میں ذرا رک کر اہل سنت اور ان سب لوگوں سے شوری اور آزادی  خیال کے اصول پر فخر کرتے ہیں یہ پوچھنا چاہتاہوں کہ وہ شوری کے اصول میں اور اس نظریے میں جو عمرنے ایجاد کیا تھا کیسے ہم آہنگی پیدا کریں گے کیونکہ اس چھ رکنی کمیٹی کو مسلمانوں نے نہیں بلکہ حضرت عمر نے اپنی رائے سے منتخب اور مقرر

۱۱۰

کیا تھا ۔ اس صورت میں ہمیں کم از کم یہ اعتراف کرلینا چاہیے کہ اس نظریے کے مطابق اسلام میں حکومت کا نظام جمہوری نہیں ہے جیسا کہ شوری اور انتخاب کے حامی فخریہ دعوی کرتے ہیں ۔

اس بنیاد پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ شاید عمر شوری کے قائل نہیں تھے  وہ خلافت کو صرف مہاجرین کا حق سمجھتے تھے ۔بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حضرت ابو بکر  کی طرح ان کا خیال یہ تھا خلافت  صرف قریش سے مخصوص ہے کیونکہ مہاجرین میں تو بہت سے غیر قریشی بھی تھے بلکہ غیر  عرب بھی تھے ۔ اس لیے سلمان فارسی  ، عمار ، بلال حبشی ، صہیب رومی ، ابو ذرغفاری اور ہزاروں دوسرے صحابہ جو قریشی نہیں تھے ، انھیں کوئی حق نہیں تھا کہ  وہ خلافت کے معاملےمیں کچھ بولیں ۔ یہ محض  دعوی نہیں ۔ حاشا وکلا ! یہ ان کا عقیدہ تھا جو انہ ہی کی زبانی تاریخ اور حدیث میں محفوظ ہے ۔ آئیے ، اس خطبے کو دوبارہ دیکھیں جو بخاری اور مسلم نے اپنی صحیحین میں قلمبند کیا ہے :

عمربن خطاب کہتے ہیں کہ :میرا ارادہ بولنے کا تھا ۔ میں نے ایک تقریر جو مجھے اچھی لگی تیار کرلی تھی۔ یہ تقریر میں  نے ابوبکر سے پہلے کرنا چاہتا تھا ۔ میں کسی حدتک ہوشیار ی سے کام لے رہا تھا ۔ جب میں نے بولنا چاہا ، ابو بکر نےکہا : ٹھہرو ! میں خاموش ہوگیا کیونکہ میں ابوبکر کو ناراض کرنا نہیں چاہتا تھا ۔ اس کے بعد ابو بکر نے خود تقریر کی ۔وہ میری نسبت زیادہ متانت اور وقار سے بولے ۔ میری تیار کی ہوئی تقریر میں کوئی ایسا لفظ نہیں تھا جو مجھے اچھا لگتا ہو ، اور ابو بکر نے فی البدیہ وہی لفظ  یا اس سے بہتر  لفظ استعمال نہ کیا ہو ۔ ابو بکر نے انصار کو مخاطب کرکے کہا : تم نے جو اپنے فضائل ومحاسن بیان کیے ہیں واقعی تم ان کے مستحق ہو ، لیکن جہاں تک اس معاملہ

۱۱۱

کا تعلق ہے یہ قریش کا حق ہے(1)

اس سے معلوم ہوا کہ ابوبکر اور عمر شوری اور آزادی اظہار کے اصول کے قائل نہیں تھے ۔ بعض مورخین کہتے ہیں کہ ابوبکر نے اپنی تائید میں انصار کے سامنے یہ حدیث نبوی پیش کی کہ"الخلافة فی قريش " اس میں شک نہیں کہ یہ صحیح حدیث ہے ،لیکن اس کی اصل وہ حدیث ہے جو بخاری ،مسلم اور سنی اور شیعہ تمام حدیث کی مستند کتابوں کی متفقہ روایت ہےکہ  رسول اللہ ص نے فرمایا :

"الخلفاء من بعدي اثنا عشركلّهم من قريش"

میرے بعد بارہ خلفاء ہوں گے جو سب  قریش میں سے ہونگے ۔ اس سے بھی زیادہ واضح یہ حدیث ہے :

"لا يزال هذا الأمر في قريشٍ ما بقي من النّاس اثنان."

یہ چیزیں قریش ہی میں رہے گی جب تک دوآدمی بھی باقی ہیں ۔(2) ایک اور حدیث ہے کہ

"النّاس تبع لقريشٍ في الخير والشّر."(3)

سب لوگ قریش کے تابع ہیں بھلائی میں بھی ، برائی میں بھی ،برائی میں بھی ۔ جب سب مسلمان ان احادیث پر یقین رکھتے ہیں تو کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ نے خلافت کا معاملہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ باہمی مشورے سے جسے چاہیں خلیفہ منتخب کرلیں ، آپ ہی انصاف سے بتائیں کیا یہ تضاد نہیں ؟

اس تضاد سے چھٹکارا صرف اسی صورت میں ممکن ہےجب ہم ائمہ اہل بیت ع

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 27 ۔صحیح باب الوصیہ ۔

(2):- صحیح بخاری کتاب الاحکام باب الامراء من قریش ۔

(3)صحیح مسلم جلد 6 کتاب الامارہ۔

۱۱۲

ان کے شیعہ اور بعض علمائے اہل سنت کا یہ قول تسلیم کرلیں کہ جناب رسول اللہ ص نے خود خلفاء کے ناموں اور ان کی تعداد کی تصریح کردی تھی ۔ اس طرح ہم عمر کا موقف بھی بہتر طور پر سمجھ سکیں گے جو ان کے اپنے اجتہاد پر مبنی تھا ۔وہ نص کو علی کے حق میں جو قریش میں سب سے چھوٹے تھے ، قبول کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے بلکہ مذکورہ بالا حدیث کا اطلاق عمومی طورسب قریش پر کرتے تھے ۔

اسی وجہ انھوں نے اپنے مرنے قبل چھ ممتاز قریشیوں کی ایک کمیٹی قائم کی تھی تاکہ احادیث نبوی کے درمیان  کہ خلافت پر صرف قریش کا حق ہے ،ہم آہنگی  پیدا کرسکیں ۔

اس کے باوجود کہ یہ پہلے  سے معلوم تھا کہ اس کمیٹی کے ارکان  علی ع کا انتخاب  نہیں کریں گے ، پھر بھی علی ع کو اس کمیٹی میں شامل کرنا شاید اس کی ایک تدبیر تھی  کہ علی ع کو مجبور کیا جائے کہ وہ بھی آجکل کی اصطلاح  کے مطابق سیاست کے کھیل میں شامل ہوجائیں تاکہ ان کے شیعوں اور حامیوں کے پاس جو ان کی اولیت کے قائل ہیں کوئی دلیل باقی نہ رہے ۔ لیکن امام علی ع نے اپنے ایک خطبہ میں عوام کے سامنے اس پر گفتگو کی ۔ آپ نے کہا :

میں نے بہت دن صبر کیا اور بہت تکلیف اٹھائی ۔آخر جب وہ (خلیفہ)دنیا سے جانے لگا تو معاملہ ایک جماعت کے ہاتھ میں سونپ گیا اور مجھے بھی اس جماعت کی ایک فردخیال کیا ، جبکہ واللہ مجھے اس  شوری سے کوئی لگاؤ نہیں تھا ۔ ان میں کے پہلے صاحب (ابوبکر)کی نسبت میری فضلیت میں شک ہی کب تھا جو اب ان لوگوں نے مجھے اپنے جیسا سمجھ لیا ہے؟ (لیکن میں جی کڑا کرکے شوری میں حاضر ہوگیا ) اور نشیب وفراز میں ان کے ساتھ ساتھ چلامگر ان میں سے ایک نے بغض وحسد کے مارے میرا ساتھ نہ دیا اور دوسرا دامادی اور ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا ۔(1)

--------------------

(1):- شیخ محمد عبدہ ، شرح نہج البلاغہ جلد 1 صفحہ 87۔

۱۱۳

چھوتھی بات یہ ہے امام علی ع نے ہردلیل پیش کی گئیں بے سود ۔کیا امام علی ع ان لوگوں سے بیعت کی بھیک مانگتے جنھوں نے ان سے منہ پھیر لیا تھا ، اور جن کے دل دوسرے کی طرف جھک گئے تھے ۔ اور جو امام علی ع سے اس لیے حسد کرتے تھے  کہ ان پر اللہ کا فضل تھا یا اس لیے بغض رکھتے تھے کہ امام علی ع نے ان کے سرداروں کو قتل کیا تھا ، ان کےبہادروں کو کچل دیا تھا ، ان کی عزت خاک میں ملادی تھی ، ان کو نیچا دکھایا تھا ، ان کا غرور اپنی بہادری سے توڑدیا تھا ،یہاں تک  کہ وہ اسلام لانے اور اطاعت کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ اس پر بھی علی ع سربلند تھے اور اپنے ابن عم کا دفاع کرتے تھے ۔انھیں اللہ کے راستے میں کسی کی ملامت کی پروا نہیں تھی ۔دنیا کی کوئی شے ان کے عزم کو متزلزل نہیں کرسکتی تھی ۔ رسول اللہ ص کو اس کا بخوبی علم تھا اور ہو ہر موقع پر اپنے چچا زاد بھائی کے فضائل ومحاسن بیان کیاکرتے تھے کبھی فرماتے :

"حبّ عليّ ٍ إيمان وّبغضه نفاق"(1)

علی کی محبّت ایمان اور علی سے بغض نفاق ہے ۔

کبھی کہہتے :

"عليٌّ مّنّي وأنامن عليّ "ٍ (2) علی ع مجھ سے ہے اور میں علی ع سے ہوں ۔

"عليّ وّليّ كلّ مؤمن ٍ بعدي "(3) علی ع میرے بعد ہر مومن کے سرپرست ہیں ۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا:

"عليٌّ باب مدينة علمي وأبوولدي"(4)

--------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 411 ۔ مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 126

(2):- صحیح بخاری جلد 3 صفحہ 168۔

(3):- مسند احمد جلد5 صفحہ 25 ۔مستدرک حاکم جلد3 صفحہ 124 ۔

(4):- مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 126۔

۱۱۴

علی ع میرے شہر علی کا دروازہ اور میرے بچوں کے باپ ہیں ۔ آپ نے فرمایا :

"عليٌّ سيّدالمسلمين وإمام المتقّين وقائدالغرّالمحجلين ."(1)

علی ع مسلمانوں کے سردار ،متقیوں کے پیشوا اور ان لوگوں کے سالار ہیں جو روزقیامت سرخرو ہوں گے ۔

لیکن افسوس کہ اس سب  کے باوجود ان لوگوں کا حسد اوربغض بڑھتا ہی  گیا اس لیے اپنی وفات سے چند روز قبل رسول اللہ ص نے علی ع کو بلا کر گلے سے لگایا اور روتے ہوئے کہا :

علی ! میں جانتا ہوں کہ لوگوں کے سینوں میں تمھاری طرف سے جو بغض ہے وہ میرے بعد کھل کر سامنے آجائے گا ۔ لہذا اگر تم سے بیعت کریں تو قبول کرلینا ورنہ صبر کرنا ، یہاں تک کہ تم مظلوم ہی میرے پاس آجاؤ ۔(2)

پس اگر ابو الحسن ع نے ابو بکر کی جبری بیعت کے بعد صبر کیا ، تو اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ نے انھیں وصیت کی تھی ۔اس کی مصلحت صاف ظاہر ہے ۔

پانچویں بات یہ کہ پچھلی  باتوں کے ساتھ ایک اور بات کا اضافہ کرلیجیے ۔مسلمان جب قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس کی آیات پر غور کرتا ہے ، تو اسے ان قرآنی قصّوں سے جن میں پہلی امّتوں کا ذکر ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے یہاں ہم سے بھی زیادہ ناخوشگوار واقعات پیش آئے ۔

یہ دیکھئے !

<>قابیل نے اپنے بھائی  کا سفاکی سے قتل کردیا ۔

<>جدّالانبیاء حضرت نوح ع کی ہزار سالہ کوشش کے بعد بھی بہت کم لوگ ان پر

--------------------

(1):- شیخ متقی ہندی ۔ متنخب کنزالعمال جلد 5 صفحہ 34

(2):- محبّ طبری ، الریاض النضرہ ، باب فضائل علی بن ابی طالب

۱۱۵

ایمان لائے ۔ان کا اپنا بیٹا اور بیوی کافر تھے ۔

<>حضرت لوط کے گاؤں میں صرف ایک ہی گھر مومنین کا تھا ۔

<>فراعنہ  جنھوں نے دنیا  میں کبریائی کا دعوی کیا اور لوگوں کو اپنا غلام بنایا  ان کے یہاں صرف ایک فرد مومن تھا ، وہ بھی تقیہ کیے ہوئے تھا یعنی اپنے ایمان  کو چھپائے ہوئے تھا ۔

<>حضرت یوسف ع کے بھائیوں کو لیجیے ، انھوں نے حسد کی وجہ سے اپنے بے قصور بھائی  کے قتل کی سازش کی اور اسے محض اس لیے قتل کرنا چاہا کہ وہ ان کے باپ حضرت یعقوب کو زیادہ محبوب تھا ۔

<>اور یہ بنی اسرائیل ہیں ، انھیں اللہ نے حضرت موسی ع کے ذریعے نجات دلائی ، ان کے لیے سمندر کے پانی کو پھاڑدیا ۔ انھیں جہاد کی تکلیف بھی نہیں اٹھانی پڑی اور اللہ نے ان کے دشمنوں ، فرعون اور اس کے لشکریوں کو ڈبودیا ۔مگر ہوا کیا؟ ابھی سمندر سے باہر نکل کر ان کے پاؤں سوکھے بھی نہیں تھے کہ یہ ایک ایسی قوم کے پاس پہنچے جو بتوں کی پوجا کرتی تھی تو کہنے لگے :" موسی! جیسے ان کے دیوتا ہیں  ، ویسا ہی ایک دیوتا ہمارے لیے بھی بنادو ۔ موسی نے کہا : تم تو جاہل لوگ ہو ۔ اورجب  موسی اپنے پروردگار سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے  اور اپنی عدم موجودگی میں اپنے بھائی ہارون  کو اپنا قائم مقام کرگئے تو لوگوں نے ان کے خلاف سازش کی اور قریب تھا کہ انھیں مارڈالتے ۔یہی نہیں انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر ایک بچھڑے کی پوجا شروع کردی ۔ اس قوم کے لوگوں نے بہت سے انبیاء کو قتل کیا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

"أَفَكُلَّمَا جَاءكُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَهْوَى أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقاً كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقاً تَقْتُلُونَ"

کیاایسا نہیں ہوا کہ جب کبھی کوئی رسول تمھارے پاس وہ کچھ لایا جو تمھیں پسند نہیں تھا تو تم نے سرکشی اختیارکی اور کچھ کو جھٹلایا اور کچھ کو قتل کردیا ؟(سورہ بقرہ ۔ آیت 87)

۱۱۶

<>حضرت  یحیی کو دیکھیے ! وہ نبی تھے ، پاک دامن تھے اور نیک تھے انھیں قتل کیا گیا اور ان کا سرتحفہ کے طور پر بنی اسرائیل کی ایک رنڈی کو بھیج دیا ۔

<>یہود ونصاری نے حضرت عیسی کو قتل کرنے  اور صلیب پرچڑھانے کی سازش کی ۔ خود اس امت محمدیہ نے تیس ہزار کا لشکر رسول اللہ ص کے لخت جگر اور اہل جنّت کے سردار امام حسین ع کو قتل کرنے کے لیے تیار کیا ۔ حالانکہ ان کے ساتھ فقط ستر بہتر اصحاب تھے ۔ لیکن ان لوگوں نے امام حسین ع اور ان کے سب اصحاب کو قتل کردیا ۔ حدیہ ہے کہ امام ع کے دودھ پیتے بچے تک کو نہ چھوڑا ۔

اس کے بعد حیرت کی کون سی بات باقی رہ جاتی ہے ؟ رسول اللہ ص نے خود اپنے اصحاب سے فرمایا تھا :

تم جلد اپنے سے پہلوں کے طور،طریقوں پر چلو گے ۔تم وجب بہ وجب اور ذراح ذراع  یعنی ہو بہو ان کا اتباع کروگے ۔اگر وہ گوہ کے بھٹ میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس جاؤ  صحابہ  نے پوچھا  : کیا آپ کی مراد یہود ونصاری سے ہے ؟ آپ نے فرمایا : تو اور کس سے ؟(1)

حیرت کیسی ! ہم خود بخاری و مسلم میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا یہ قول پڑھتے ہیں :

"قیامت  کے دن میرے اصحاب کو بائیں طرف لایا جائے گا تو میں پوچھوں گا : انھیں کدھر لے جارہے ہو؟ کہا جائے گا : جہنّم  کی طرف ۔میں کہوں گا : اے میرے پروردگار ! یہ تو میرے  اصحاب ہیں ۔ کہا جائے گا : آپ کو معلوم نہیں ، انھوں نے آپ کےبعد دین میں بدعت پیدا کی ۔ میں کہوں گا : دور ہو وہ جس نے

--------------------

(1):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 144 وجلد 8 صفحہ 151

۱۱۷

میرے بعد  دین میں تبدیلی کی میں دیکھتا ہوں کہ ان میں سے بہت ہی کم نجات پائیں گے ۔(1)

ایک اور حدیث ہے کہ

میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے "(2)

سچ کہا ربّ العزّت نےجو دلوں کےبھید جاننے والا ہے وہ فرماتا ہے :

" وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِي "

گو آپ کا کیسا ہی جی چاہے ، اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں (سورہ یوسف ۔آیت 103)

" بَلْ جَاءهُم بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ "

بلکہ یہ رسول  ان کے پاس حق لے کر آئے لیکن ان میں سے بیشتر حق کو ناپسند کرتے ہیں ۔(سورہ  مومنون ۔آیت 70)

" لَقَدْ جِئْنَاكُم بِالْحَقِّ وَلَكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ "

ہم نے حق تم تک پہچادیا لیکن تم میں اکثر حق سے بیزار ہیں ۔(سورہ زخرف ۔آیت 78)

" أَلاَ إِنَّ وَعْدَ اللّهِ حَقٌّ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ "

یاد رکھو! اللہ کا وعدہ سچا ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ۔(سورہ یونس ۔ آیت 55)

" يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ "

تمھیں باتوں سے خوش کرتے ہیں اور دل ان کے انکاری ہیں اور زیادہ تر ان میں بد عمل ہیں ۔(سورۃ توبہ ،آیت 8)

---------------------

(1):-صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 209 ۔صحیح مسلم ، باب الحوض ۔

(2):- سنن ابن ماجہ ،کتاب الفتن ،مسند احمد جلد3 صفحہ 120 ۔ جامع ترمذی کتاب الایمان ۔

۱۱۸

" إِنَّ اللّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لاَ يَشْكُرُونَ "

بے شک اللہ لوگوں پر بڑاافضل کرنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر ناشکر ہیں ۔(سورہ یونس ۔آیت 50)

" يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللّهِ ثُمَّ يُنكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ "

یہ لوگ اللہ کی نعمت کو پہچانتے ہیں پھر اس اس کا انکار کرتے ہیں اور اکثر ان میں سے کافر ہیں ۔(سورہ نحل ۔آیت 83)

" وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً "

ہم اس (پانی) گو ان کے درمیان تقیسم کردیتے ہیں تاکہ وہ  غور کریں ۔ تاہم اکثر لوگ ناشکرے ہوئے بغیر نہیں رہتے ۔(سورہ فرقان ۔آیت 50)

" وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَ "

ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں پھر بھی شرک کیے جاتے ہیں۔(سورہ یوسف ۔آیت 106)

" بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُم مُّعْرِضُونَ "

لیکن اکثر لوگ حق سے ناواقف ہیں اس لیے اس سے روگردانی کرتے ہیں ۔(انبیاء۔آیت 24)

" أَفَمِنْ هَذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ (٥٩) وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ (٦٠) وَأَنتُمْ سَامِدُونَ (٦١) "

کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ، تم غفلت میں پڑے ہوتے ہو ۔(سورہ نجم ۔آیات 59-61)

۱۱۹

حسرت وافسوس

یہ واقعات پڑھ کر نہ صرف مجھے بلکہ ہر مسلمان کو افسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے امام علی ع کو خلافت سے دوررکھ کر اپنا کتنا بڑا نقصان کردیا ۔ امّت نہ صرف ان کی حکیمانہ قیادت سے محروم ہوگئی بلکہ ان کے علوم  کے بحر ذخار سے بھی صحیح معنی میں استفادہ نہ کرسکی ۔

اگر مسلمان تعصب اور جذباتیت  سے بالا ہوکر دیکھیں تو انھیں تو انھیں صاف نظر آئیگا  رسول اعظم  کےبعد علی ع ہی اعلم الناس ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ علمائے صحابہ جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو حضرت علی ع ہی کی طرف رجوع کرتے تھے اور آپ فتوی دے کر ان کی مشکل کشائی فرماتے تھے ۔ عمربن خطاب تو اکثر کہا کرتے تھے ۔

"لولا عليٌّ لّهلك عمر".

اگر علی ع نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا ۔(1)

یہ بھی یادرہے کہ خود امام علی علیہ السلام نے کبھی کسی  صحابی ے کچھ بھی نہیں پوچھا ۔

تاریخ معترف ہے کہ علی ابن ابی طالب ع صحابہ میں سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ طاقتور تھے ۔ کئی موقعوں پر ایسا ہوا کہ دشمن نے پیش قدمی کی  تو بہادر صحابہ بھی بھاگ کھڑے ہوئے لیکن امام علی ع ہر موقع پر ثابت قدم رہے ۔اس کی دلیل کے لیے وہ امتیازی سند کافی ہے جو رسول اللہ ص نے اس

--------------------

(1):- 1:-صحیح بخاری کتاب المحاربین ،باب لایرجم المجنون ۔2:- سنن ابی داؤد باب مجنون یسرق  صفحہ 147۔3:- مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 140 ، 154۔ 4:- موطاء امام مالک بن انس کتاب الاشربہ صفحہ 186۔ 5:- مسند شافعی کتاب الاشربہ صفحہ 166۔ 6:- کنزالعمال  ملا علاء الدین متقی جلد 3 صفحہ 95۔7:- مستدرک حاکم جلد 4 صفحہ 375 ۔8:- سنن دراقطنی کتاب ۔۔۔۔۔9:- شرح المعانی آلاثار طحاوی کاب القضاء صفحہ 294۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

۵_ شرك اور كفر جرم ہے اور مشركين و كفار مجرم ہيں _و لو كره المجرمون

''المجرمون'' كے مطلوبہ مصاديق ميں سے ايك، مشركين مكہ ہيں كہ جنكو گذشتہ آيت ميں كفار كہا گيا ہے_ بنابراين كافر و مشرك ہر دو پر مجرم كا اطلاق كيا گيا ہے_

۶_عن جابر قال: ...قال أبوجعفر عليه‌السلام ...و أما قوله: ''ليحق الحق'' فإنه يعنى ليحق حق آل محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حين يقوم القائم عليه‌السلام و اما قوله: ''و يبطل الباطل'' يعنى القائم فاذا قام يبطل باطل بنى امية .(۱)

جابر نے امام باقرعليه‌السلام سے روايت كى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: اور يہ كلام خدا كہ ''ليحق الحق'' اس سے مراد يہ ہے كہ خداوند قيام قائمعليه‌السلام كے زمانے ميں احقاق حق آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرمائے گا، اور ''يبطل الباطل'' كا معنى يہ ہے كہ خداوند حضرت قائمعليه‌السلام كے وسيلے سے كہ جب وہ قيام كريں گے، بنى اميہ كے باطل كے آثار و طريقے ختم كرڈالے گا_

اسلام:اسلام كى اشاعت ۴;صدر اسلام كى تاريخ ۲

اللہ تعالى :اللہ تعالى كاارادہ ۴

باطل:باطل كى شكست كے عوامل ۳; باطل كى نابودى ۱; باطل كى نابودى كے عوامل ۳

توحيد:توحيد كى اشاعت ۲، ۴

جہاد:فلسفہ جہاد ۱

حق:حق كو برپا كرنا ۱، ۳; حق كى فتح كے علل و اسباب ۳

شرك:شرك كا خاتمہ ۲;شرك كا گناہ ۵

غزوہ بدر:غزوہ بدر ميں فتح كى اہميت ۲

كفار:كفار كا جرم ۵; كفار كى ہلاكت ۳

كفر:

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۲ ص ۵۰ ح ۲۴ نورالثقلين ج۲ ص ۱۳۶ ح ۲۸_

۴۶۱

كفر كا خاتمہ ۴;كفر كا گناہ ۵

گناہ:گناہ كے مواقع ۵

مجرمين: ۵

مسلمان:مسلمانوں كى فتح ۲

مشركين:مشركين كاجرم ۵; مشركين كى كراہت ۴

آیت ۹

( إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلآئِكَةِ مُرْدِفِينَ )

جب تم پروردگار سے فرياد كر رہے تھے تو اس نے تمھارى فرياد سن لى كى ميں ايك ہزار ملاءكہ سے تمھارى مدد كر رہا ہوں جو برابر ايك كے پيچھے ايك آرہے ہيں (۹)

۱_ جنگ بدر ميں مشركين كى بھارى فوج كو ديكھ كر مسلمانوں كا پريشان ہونا اور ان كى طرف سے مركز اسلام كيلئے خطرے كا ا حساس كرنا_إذ تستغيثون ربكم

''استغاثہ'' كا كلمہ عام طور پر اس جگہ استعمال كيا جاتاہے كہ جب استغاثہ كرنے والا شديد مشكل سے نجات طلب كرے_

۲_ مجاہدين بدر نے جنگ سے پہلے بارگاہ خداوند ميں دعا و نياءش كے ذريعے اس سے مدد طلب كي_إذ تستغيثون ربكم

''غوث'' كا مطلب، مدد كرنا ہے، اور استغاثہ مدد اور امداد طلب كرنے كو كہتے ہيں _

۳_ خداوند متعال نے مجاہدين بدر كے استغاثے كو ہزاروں ملاءكہ بھيج كر قبول كيا_

فاستجاب لكم إنى ممدّكم بألف من الملئكة مردفين

''مردف'' اس كو كہتے ہيں كہ جس كے پيچھے لگاتار سلسلہ جارى رہے، بنابراين''ألف من الملائكة مردفين'' يعنى ہزار فرشتے كہ جن ميں سے ہر فرشتے يا فرشتوں كے بعد بھى اور فرشتوں كا اضافہ ہورہا تھا_ قابل ذكر ہے كہ مذكورہ معنى اس بات پر مبنى ہے كہ جب ''مردفين'' كا مفعول محذوف''طائفة أخرى من الملائكة'' ہو_

۴_ بارگاہ ربوبيت ميں مجاہدين بدر كى دعا اور غيبى امداد كے ذريعے ان كے استغاثے كا قبول ہونا، ايك ياد ركھى جانے والى نعمت ہے_إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم

۴۶۲

۵_ راہ خدا كے مجاہدوں كيلئے آنے والى الہى امداد كو ياد ركھنا، دشمنان دين كا مقابلہ كرنے سے نہ ڈرنے كا باعث بنتاہے_

إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم

مجاہدين كى غيبى امداد كى ياد دلانے كا مقصد، مؤمنين كو دين كے دشمنوں كا مقابلہ كرنے كى ترغيب دلانا اور ان سے خوف و ہراس كو ختم كرنا ہے_

۶_ الہى امداد سے انسان كے بہرہ مند ہونے كے اسباب ميں سے ايك، بارگاہ خداوند ى ميں اس كا دعا و استغاثہ كرنا ہے_

إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم

۷_ خداوند كى جانب سے انسانوں كو ہدايت و راہنمائی كى جاتى ہے كہ وہ مشكلات اور سختيوں سے نجات پانے كيلئے ،بارگاہ الہى ميں استغاثہ اور دعا كريں _إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم

مجاہدين بدر كے استغاثے كى ياد دہانى اور اس كے قبول ہونے كى صراحت ہوسكتا ہے اس نكتہ كى طرف توجہ دلانے كيلئے ہو كہ اے انسانوں مشكلات اور سختيوں ميں خداوند كى جانب رجوع كرو اور اس سے مدد طلب كرو تا كہ نجات پاؤ_

۸_ جنگ بدر ميں ہزار فرشتوں كا حاضر ہونا كہ جن ميں سے ہر فرشتہ يا فرشتے اپنے پيچھے (مزيد فرشتوں كا) سلسلہ جارى ركھے ہوئے تھے_بألف من الملائكة مردفين

۹_ فرشتے، خداوند كى امداد اور اس كے ارادے كى تكميل پانے كا سبب اور وسيلہ بنتے ہيں _

يريد الله أن يحق الحق بكلمته ...إنى ممدّكم بألف من الملئكة مردفين

۱۰_ ميدان جنگ اور جنگى كاروائی وں ميں نظم وضبط كا تعميرى اور واضح كردار_إنى ممدكم بألف من الملئكة مردفين

۱۱_عن رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إنه قال لأصحابه: ألستم أصحابى يوم بدر إذ أنزل الله فيكم ''إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم إنى ممدّكم بألف من الملائكة مردفين (۱)

حضرت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے كہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمايا كيا تم لوگ يوم بدر والے ميرے اصحاب نہيں ہو كہ جن كے بارے ميں خداوند نے آيت ''إذ تستغيثون ...'' نازل فرمائی ہے_

استغاثہ:استغاثے كى اہميت ۷;استغاثے كے آثار ۶

____________________

۱) تفسير قمى ج ۲ ص ۳۱۲، بحارالانوار ج ۱۹ ص ۳۰۷ ح ۵۱_

۴۶۳

استمداد:استمداد (مدد طلب كرنے) كا قبول ہونا ۳، ۴

اسلام:تاريخ صدر اسلام ۱، ۲، ۳، ۴، ۸

اعداد:ہزار كا عدد ۸

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے استمداد۲; اللہ تعالى كى امداد كا زمينہ ۶; اللہ تعالى كى امداد كے وسائل۹; اللہ تعالى كى ہدايات ۷; اللہ تعالى كے ارادہ كا پورا ہونا ۹

جہاد:جہاد اور نظم و انضباط ۱۰;جہاد كے دوران استغاثہ ۲; جہاد ميں دعا ۲; دشمنوں سے جہاد ۵

حوصلہ بلند ہونا:حوصلے بلند ہونے كے اسباب ۵

دعا:دعا كے آثار ۶

ذكر:امداد خدا كا ذكر ۵; خدا كى نعمات كا ذكر ۴;ذكر كے آثار ۵

سختي:استغاثے ميں سختى ۷; استغاثے ميں سہولت كے اساب ۷

شجاعت:شجاعت كے عوامل ۵

غزوہ بدر:غزوہ بدر اور مشركين، ۱; غزوہ بدر اور ملاءكہ ۲; ۸; غزوہ بدر كا قصہ ۸; غزوہ بدر كے مجاہدين كا استغاثہ ۲، ۳، ۴; غزوہ بدر ميں مسلمان ۱; مجاہدين غزوہ بدر كى دعا ۲، ۴

غيبى امداد: ۳، ۴، ۸

مجاہدين:مجاہدين كى امداد ۵

مسلمان:مسلمانوں كى پريشانى ۱

ملاءكہ:ملاءكہ كى امداد ۳، ۹

نظم:نظم و ضبط كى اہميت ۱۰

۴۶۴

آیت ۱۰

( وَمَا جَعَلَهُ اللّهُ إِلاَّ بُشْرَى وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلاَّ مِنْ عِندِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ )

اور اسے ہم نے صرف ايك بشارت قرار ديتا كہ تمھارے دل مطمئن ہوجائیں اور مدد تو صرف اللہ ہى كى طرف سے ہے _ اللہ ہى صاحب عزّت اور صاحب حكمت ہے (۱۰)

۱_ جنگ بدر ميں ملاءكہ كا كردار فقط مؤمنين كو فتح و كاميابى كى بشارت دينا اور اطمينان دلانا تھا نہ كہ مشركين كے قتل كيلئے عملى اقدام كرنا_و ما جعله الله الا بشرى و لتطمئن به قلوبكم

''جعلہ'' اور ''بہ'' كى ضمير ''امداد'' كى طرف پلٹتى ہے كہ جو ''أنّى ممدكم'' سے ماخوذ ہے اور كلمہ ''بشرى '' ''جعل'' كيلئے ''مفعول لہ'' ہے_

۲_ فتح و كاميابى كى بشارت سے پہلے مجاہدين بدر كے دل، اضطراب اور پريشانى سے پُر تھے_لتطمئن به قلوبكم

كلمہ اطمينان كا معني، اضطراب اور پريشانى كے بعد، قلبى آرام و سكون ہے (مفردات راغب)

۳_ فتح اور كامرانى حاصل كرنے ميں ، مجاہدين كے حوصلوں كو بلند كرنا اور انھيں تقويت پہچانا گہرى تاثير ركھتاہے_

بألف من الملئكة ...و ما جعله الله إلا بشرى و لتطمئن به قلوبكم

۴_ ہر قسم كى امداد اور كاميابى و فتح كا سرچشمہ ،خداوند ہے نہ كہ ملاءكہ اور دوسرے علل و اسباب_

ما جعله الله إلا بشري ...و ما النصر إلا من عند الله

۵_ فقط خداوند كى ذات اس قابل ہے كہ جس سے دشمنان دين كے مقابلے ميں فتح و كاميابى اور امداد

۴۶۵

كى درخواست اور دعا كى جاسكتى ہے_إذ تستغيثون ...و ما النصر إلا من عند الله

۶_ جنگ بدر ميں مسلمانوں كى فتح، اس جنگ ميں مجاہدين (اسلام) كى امداد كيلئے ہزاروں فرشتوں كو بھيجا جانا اور ان كے ذريعے (مسلمان مجاہدين كو) اطمينان دلانا، خداوند كى عزت و كارسازى كا ايك جلوہ ہے_

و ما النصر إلا من عند الله إن الله عزيز حكيم

جملہ (إن الله عزيز حكيم ) ان تمام مسائل كى تعليل ہے كہ جو اس آيت اور اس سے پہلے والى آيت ميں گذرے ہيں يعنى جو كچھ بيان كيا گيا ہے اس كا سرچشمہ خداوند كى عزت و حكمت ہے_

۷_ خداوند عزيز (ناقابل شكست فاتح) اور حكيم (كارساز) ہے_إن الله عزيز حكيم

۸_ خداوند ہر كام ميں غالب و فتح مند ہے اور اس كے تمام كام حكمت كى بنياد پر استوار ہوتے ہيں _

إن الله عزيز حكيم

استغاثہ:خداوند سے استغاثہ۵

اسما ء و صفات:

حكيم ۷; عزيز ۷

اطمينان:اطمينان كا سرچشمہ ۶;اطمينان كے عوامل ۱

اُبھارنا:ابھارنے كے علل و اسباب ۳

اللہ تعالى :اللہ تعالى كا محيط ہونا ۸; اللہ تعالى كى حكمت ۶،۸; اللہ تعالى كى عزت ۶; اللہ تعالى كے اختصاصات ۵; اللہ تعالى كے افعال كا فلسفہ ۸

توحيد:توحيد افعالى ۴

حوصلے بلند كرنا:حوصلے بلند كرنے كے آثار ۳; حوصلے بلند كرنے كے عوامل۱

دين:دشمنان دين پر فتح ۵

غزوہ بدر:غزوہ بدر كا قصہ ۱; غزوہ بدر كے مجاہدين كا قلب ۲; غزوہ بدر كے مجاہدين كى امداد ۶;غزوہ بدر كے مسلمان ۶; غزوہ بدر ميں فتح ۶; غزوہ بدر ميں ملاءكہ ۱

غيبى امداد: ۱

۴۶۶

فتح :فتح كا سرچشمہ و منشاء ۴، ۶;فتح كى بشارت ۱، ۲; فتح كى درخواست ۵; فتح كے علل و اسباب ۳

مجاہدين:مجاہدين كے حوصلے بلند كرنا ۳;مجاہدين ميں اضطراب ۲، ۶

ملاءكہ:ملاءكہ كى امداد ۶; ملاءكہ كى امداد كا كردار ۴

آیت ۱۱

( إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُم مِّن السَّمَاء مَاء لِّيُطَهِّرَكُم بِهِ وَيُذْهِبَ عَنكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الأَقْدَامَ )

جس وقت خدا تم پر نيند غالب كر رہا تھا جو تمھارے لئے باعث سكون تھى اورآسمان سے پانى نازل كر رہا تھا تا كہ تمھيں پاكيزہ بنا دے اور تم سے شيطان كى كثافت كو دور كردے اور تمھارے دولوں كو مطمئن بنادے اور تمھارے قدموں كو ثبات عطا كردے(۱۱)

۱_ جنگ بدر سے پہلے مجاہدين كو سكون قلب حاصل ہوگيا جس كى وجہ سے ان سب پر ہلكى سى نيند طارى ہوگئي_

إذ تستغيثون ...إذ يغشيكم النعاس أمنة منه

''غشاوہ'' كا معنى احاطہ ہے اور باب تفعيل سے فعل ''يغشيكم'' كثرت احاطہ پر دلالت كررہاہے_ يہ بھى كہہ سكتے ہيں كہ اس كثرت (احاطہ يعنى غلبے) كى علامت ان تمام افراد پر نيند كا طارى ہونا ہے_ كلمہ ''أَمنة'' كہ جس كا مطلب

ڈر اور خوف كا نہ ہونا ہے_ ''يغشيكم'' كيلئے مفعول لہ حصولى ہے_ يعنى تمہيں سكون قلب حاصل ہوا جسكى وجہ سے تم پر نيند غالب آگئي_

۲_ خداوند نے جنگ بدر كے موقع پر مجاہدين سے اضطراب و پريشانى دور كركے انھيں مكمل سكون و قرار عطا كيا_

إذ يغشيكم النعاس أمنة منه

۳_ ميدان جنگ ميں وارد ہونے سے پہلے فوجى اور رزمى قوتوں كى تجديد قوا اور سكون قلب كا وسيلہ فراہم كرنے كى ضرورت_إذ يغشيكم النعاس أمنه منه

۴_ ميدان جنگ ميں خواہ استراحت كا وقت ہى كيوں نہ ہو ہميشہ دشمن سے ہوشيار رہنے اور غفلت نہ كرنے كا ضرورى ہونا_إذ يغشيكم النعاس أمنة منه

۴۶۷

جنگ كے موقع پر مجاہدين كى نيند كے ہلكے اور سبك ہونے كى تصريح اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ مجاہدين اگر چہ استراحت كى حالت ميں ہوں ليكن انھيں دشمن كى حركات سے غافل نہيں رہنا چاہيئے_

۵_ جنگ بدر كے موقع پر مجاہدين كا سكون قلب اور استراحت (كے وقت) نيند كا غلبہ ايك ايسى الہى نعمت تھى كہ جو ہميشہ ياد رہنى چاہيئے_إذ يغشيكم النعاس أمنة منه

۶_ خداوند نے جنگ بدر كے موقع پر مسلمانوں كو بارش كى نعمت سے بہرہ مند كيا_و ينزل عليكم من السماء مائ

۷_ مجاہدين بدر پر نزول باران كے مقاصد ميں سے ايك، گندگى اور نجاست سے انكى تطہير غسل اور وضو كيلئے پانى فراہم كرنا تھا_و ينزل عليكم من السماء ماء ليطهركم به

''يطھركم'' كے متعلق كا ذكر نہ ہونا، اس كى عموميت كو طاہر كررہاہے_ (يعنى ظاہر و باطنى نجاسات كو پاك كرنا) جس كا مطلب ہے كہ خداوند نے بارش برسائی تا كہ ظاہرى نجاستيں اس كے ذريعے دور كى جائیں اور جو لوگ جنگ ميں ہيں وہ غسل كريں اور دوسرے وضو كريں _

۸_ بعض مجاہدين بدر، شيطان كى طرف سے پليدى اور پريشانى ميں گرفتار تھے_و يذهب عنكم رجز الشيطن

۹_ نجاست دور كرنے اور طہارت حاصل كرنے كيلئے پانى كا نہ ہونا، جنگ بدر كے مجاہدين كى پريشانى اور شيطانى وسوسے كے پيدا ہونے كا باعث بنا_ليطهّركم به و يذهب عنكم رجز الشيطن

''يذھب'' پر ''لام'' كا نہ آنا ظاہر كرتاہے كہ ''يذھب ...''، ''ليطهركم '' پر مترتب ہے_ رجز شيطان كے دور ہونے كے ساتھ تطہير كے تناسب كا تقاضا ہے كہ رجز شيطان سے مراد وہ وسوسے ہيں كہ جو طہارت كيلئے پانى نہ ہونے كى وجہ سے شيطان نے مجاہدين بدر ميں ايجاد كيے تھے_

۱۰_ جنگ بدر كے موقع پر مجاہدين كى تطہير و پاكيزگى كيلئے بارش كا نزول، شيطان كى طرف سے ايجاد كردہ وسوسوں اور پريشانيوں كے خاتمے كا باعث بنا_و ينزل عليكم ...و يذهب عنكم رجز الشيطن

۴۶۸

۱۱_ جسمانى اور روحانى طہارت كا الہى اقدار ميں سے ہونا_ليطهّركم به و يذهب عنكم رجز الشيطن

۱۲_ شيطان، پليدى و ناپاكى كا باعث ہے_ليطهّركم به و يذهب عنكم رجز الشيطن

۱۳_ جنگ بدر كے وقت، نزول باران كے مقاصد ميں سے ايك حسى و ظاہرى امداد كا مشاہدہ كراكے، مجاہدين كے دلوں كو تقويت بخشنا تھا_و ينزل عليكم ...ليربط على قلوبكم

''ربط على قلبہ'' يعنى ان كے دلوں كو استحكام بخشنا، اور يہ شہامت و شجاعت پيدا كرنے سے كنايہ ہے، قابل ذكر ہے كہ نزول باران اور جنگ كيلئے دلوں كے استحكام ميں تناسب يہ ہے كہ جب مجاہدين كو پانى كى شديد ضرورت ہے تو بارش كے نزول سے وہ امداد الہى كو محسوس كرتے ہيں اور اس پر يقين كرليتے ہيں _

۱۴_ جنگ بدر كے وقت بارش برسنا، اس جنگ ميں مسلمانوں كى فتح كے اہم ترين اسباب ميں سے تھا_

و ينزل عليكم ...و يثبت به الأقدام

۱۵_ مجاہدين كے حوصلے بلند كرنا، ايك ضرورى امر ہے_و ليربط على قلوبكم و يثبت به الأقدام

۱۶_ جنگ كرنے والى فوجوں ميں سے سستى اور كاہلى كے عناصر و عوامل كو پہچاننے اور انھيں برطرف كرنے كى ضرورت_و إذ يغشيكم النعاس أمنة منه و ينزل عليكم ...و يثبت به الاقدام

۱۷_ بدر كے مجاہدين پر خداوند كى خاص توجہ اور عنايت تھي_و لتطمئن به قلوبكم ...يغشيكم ...ينزل عليكم ...ليطهّركم

۱۸_ جنگ بدر كے موقع پر نزول باران كے اہداف اور مقاصد ميں سے ايك ،مسلمانوں كے لشكر كو استحكام بخشنااور ان كى قيام گاہ كى رتيلى زمين پر ان كے قدموں كو ثبات عطا كرنا تھا_ينزل عليكم من السماء ماء ليطهركم ...و يثبت به الاقدام

مندرجہ بالا مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''الأقدام'' سے مراد مجاہدين كے قدم ہوں بنابراين ''و يثبت بہ الأقدام'' يعنى نزول باران كا مقصد يہ تھا كہ خداوند آپ كے قدموں كو استوار و مستحكم ركھنے اور لغزش اور ريت ميں دھنسنے سے محفوظ ركھے_

۱۹_ خداوند نے مجاہدين بدر كے دلوں كو تقويت عطا كركے، انھيں مشركين كا مقابلہ كرنے كيلئے ثابت قدم بناديا_

ليربط على قلوبكم و يثبت به الأقدام

۴۶۹

''يثبت بہ الاقدام'' نزول باران كے مقاصدميں سے ايك مقصد بيان كرنے كے باوجود اس ميں ''لام''كا نہ ہونا ظاہر كرتاہے كہ يہ مقصد ''ليربط على قلوبكم'' كے بعد حاصل ہوتاہے_ بنابراين كہہ سكتے ہيں ''بہ'' كى ضمير ''استحكام قلوب'' كى طرف پلٹتى ہے كہ جو ''ليربط على قلوبكم'' سے ماخوذ ہے_ يہ بھى قابل ذكر ہے كہ اس مفہوم ميں ثبات قدم (يثبت به الأقدام ) اپنے كنائی معانى (پائی دارى اور عزم راسخ) ميں ليا گيا ہے_

۲۰_عن أبى عبدالله عليه‌السلام قال: قال أمير المؤمنين عليه‌السلام : اشربوا ماء السماء فإنه يطهر البدن و يدفع الأسقام قال الله عزوجل: ''و ينزل عليكم من السماء ماء ليطهركم به و يذهب عنكم رجز الشيطان ...'' (۱)

امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے كہ حضرت عليعليه‌السلام نے فرمايا: بارش كا پانى پيو اس كا پاني، بدن كى پاكيزگى اور بيماريوں كے ختم ہونے كا موجب بنتاہے، خداوند عزوجل كا ارشاد ہے، پانى كو آسمان سے اتارا ہے تا كہ وہ تمہيں پاك كرے اور شيطان كى پليدى تم سے دور كرے

۲۱_عن علي عليه‌السلام : ...و أصابهم تلك الليلة (ليلة بدر) مطر شديد فذلك قوله: و ''يثبت به الأقدام'' _(۲)

حضرت عليعليه‌السلام سے منقول ہے كہ ...بدر كى رات، مسلمانوں پر شديد بارش برسي، اور اسى بارے ميں خداوند نے فرمايا: (بارش كو نازل كيا) تا كہ اس كے ذريعے ثابت قدم ركھا جائیے _

آرام و سكون:آرام و سكون كے آثار ۱

اقدار: ۱۱

اضطراب:اضطراب برطرف كرنے كے عوامل ۲

اللہ تعالى :اللہ تعالى كى امداد ۱۳; اللہ تعالى كى عنايات ۱۷; اللہ تعالى كى نعمات ۶; اللہ تعالى كے افعال ۲،۱۹

بارش:بارش ۷، ۱۰، ۱۳، ۱۸; بارش كى نعمت ۶

پاكي:پاكى كى قدر و قيمت ۱۱

پريشانى :پريشانى برطرف كرنے كے اسباب۱۰;پريشانى كے علل و اسباب ۸، ۹

پليدي:

____________________

۱) كافى ج/۶ ص ۳۸۷، ح/۲ نورالثقلين ج/۲ ص ۱۳۷ ح/۳۰ _

۲) الدرالمنثور ج/۴ ص ۳۲_

۴۷۰

پليدى كے علل و اسباب ۱۲

تطہير:تطہير كى اہميت ،۷

جہاد:آداب جہاد ۳، ۴، ۱۵; جہاد كى آمادگى ۴; جہاد كى شرائط ۴، ۱۶;مشركين سے جہاد ۱۹

حوصلہ پست كرنا:حوصلے پست كرنے والے عوامل كو بر طرف كرنا ۱۶

ذكر:نعمات خدا كا ذكر ۵

شيطان:شيطان كا كردار ۸، ۱۰، ۱۲;شيطانى وسوسوں كے علل و اسباب ۹; وسوسہ شيطان ۱۰

طہارت:طہارت كى اہميت ۱۱

غزوہ بدر:غزوہ بدر كا قصہ ۱، ۲، ۵، ۶، ۷، ۸، ۹، ۱۰، ۱۳، ۱۴، ۱۸، ۱۹; غزوہ بدر كى فتح كے اسباب ۱۴; غزوہ بدر كے مجاہدين ۲، ۶، ۷، ۱۹;غزوہ بدر كے مجاہدين كے فضائل ۱۷; غزوہ بدر كے مجاہدين ميں پليدى ۸; غزوہ بدر ميں بارش ۶; ۷، ۱۰، ۱۳، ۱۴، ۱۸; غزوہ بدر ميں شيطان ۸;غزوہ بدر ميں غيبى امداد ۲;

مجاہدين بدر كى پريشانى ۸، ۹;مجاہدين بدر كى نيند ۱، ۵

غسل:غسل كى اہميت ۷

غفلت:غفلت سے اجتناب ۴

قدرتى عوامل:جنگ اور قدرتى عوامل ۱۴، ۱۸

مجاہدين:مجاہدين كا آرام و سكون ۱، ۲، ۳، ۵; مجاہدين كى استراحت ۴، ۵;مجاہدين كى تطہير ۱۰; مجاہدين كى ثابت قدمى ۱۸، ۱۹; مجاہدين كى قوتوں كى تجديد۳; مجاہدين كے حوصلے بلند كرنا ۱۳، ۱۵، ۱۸، ۱۹

نظامى آمادگي: ۳، ۱۶

نظامى آمادگى كى اہميت ۴

نيند:نيند كى نعمت ۵

نجاست:نجاست كى تطہير ۷، ۹; نجاست كے اسباب ۱۲

دضو:وضو كى اہميت ۷

۴۷۱

آیت ۱۲

( إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلآئِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُواْ الرَّعْبَ فَاضْرِبُواْ فَوْقَ الأَعْنَاقِ وَاضْرِبُواْ مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ )

جب تمھارا پروردگار ملاءكہ كو وحى كر رہا تھا كہ ميں تمھارے ساتھ ہوں لہذا صاحبان ايمان كو ثبات قدم عطا كرو ميں عنقريب كفارذ كے دلوں ميں رعب پيدا كردوں گا لہذا تم كفارہ كى گردن كو ماردو اور ان كى تمام انگليوں كو پور پوركاٹ دو(۱۲)

۱_ خداوند نے معركہ بدر ميں موجود ملاءكہ كو وحى كے ذريعے آگاہ كيا كہ وہ مجاہدين (بدر) كو ثابت قدمى اور استحكام بخشيں اور اس سلسلے ميں ، ميں تمہارا پشت پنا ہ ہوں _إذ يوحى ربك إلى الملئكة انى معكم فثبتوا الذين

۲_ خداوند نے جنگ بدر كى جانب بھيجے جانے والے فرشتوں كو مجاہدين (بدر) ميں پائی دارى و استقامت پيدا كرنے كا فرمان ديا_إذ يوحى ربك إلى الملئكة أنى معكم فثبتوا الذين

۳_ مجاہدين بدر كى پشت پناہى پر مبنى مأموريت كے

بارے ميں وحى الہى كے واحد شاہد، (خود) پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تھے_إذ يوحى ربك إلى الملئكة

اگر ''إذ''، ''اذكر'' كے متعلق ہوتو گزشتہ آيات كے برعكس، مذكورہ آيت ميں مخاطب خود پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى ذات ہے_ لہذا كہہ سكتے ہيں فقط آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہى ملاءكہ كى طرف وحى الہى كے شاہد ہيں _

۴_ ملاءكہ كو اپنى ماموريت كى انجام دہى ميں خداوند كى جانب سے پشت پناہى اور تقويت كى ضروت تھي_

إذ يوحى ربك إلى الملائكة أنى معكم فثبتوا الذين ا منوا

۵_ جنگ بدر كے معركہ ميں حاضر ہونے والے ملاءكہ سے خداوند كا وعدہ تھا كہ وہ كفار كے دلوں ميں رعب و وحشت پيدا كردے گا_سألقى فى قلوب الذين كفروا الرعب

۶_ جنگ بدر ميں كفار كى شكست كے علل و اسباب ميں سے ايك ان پر رعب و وحشت كا طارى ہونا تھا_

سألقى فى قلوب الذين كفروا الرعب

۷_ دشمنان دين ميں خوف و ہراس پيدا كرنے اور ان كے حوصلے پست كرنے كى ضرورت_

سألقى فى قلوب الذين كفروا الرعب

۴۷۲

۸_ ملاءكہ، بدر كے كفار كے سروں كو باہم ٹكرانے اور ان كے ہاتھوں كے پنجوں كو بے كار كرنے پر مأمور تھے_

فاضربوا فوق الاعناق و اضربوا منهم كل بنان

''الأعناق'' ميں ''ال''مضاف اليہ (الكافرين) كا جانشين ہے_ اور فوق''الأعناق'' سے مراد كفار كے سر ہيں _ بنابرايں جملہ ''فاضربوا ...'' يعنى كفار كے سروں كو اپنى ضربوں (حملوں ) كا نشانہ بناؤ، قابل ذكر ہے كہ اس جملہ ميں مخاطب، فرشتے ہيں جيسا كہ آيت كے سياق سے ظاہر ہے_

۹_ خداوند نے مجاہدين بدر كو كفار كے سروں كو باہم ٹكرانے اور ان كے ہاتھوں كى انگليوں كو ناكارہ كرنے پر ابھارا_

فاضربوا فوق الاعناق واضربوا منهم كل بنان

مندرجہ بالا مفہوم اس بناء پر ہے كہ جب جملہ ''فاضربوا ...'' ميں خطاب، مجاہدين كى طرف ہو، اور آيت نمبر دس ميں جملہ ''ما جعله الله إلا بشرى '' بھى اس مفہوم كى تائی د كرسكتاہے كہ جس ميں فرشتوں كى ذمہ دارى فقط بشارت دينا ہى بيان ہوتى ہے_

۱۰_سئل ابوجعفر عليه‌السلام عن قول الله ''إذ يوحى ربك إلى الملائكة أنى معكم، قال: إلهام (۱)

امام باقرعليه‌السلام سے منقول ہے كہ آپعليه‌السلام نے آيہ مجيدہ''إذا يوحى ربك إلى الملائكة'' كے بارے ميں سوال كے جواب ميں فرمايا: اس سے مراد الہام ہے_

اللہ تعالى :اللہ تعالى كاوعدہ، ۵;اللہ تعالى كے اوامر ۲

امداد غيبي: ۱

خوف:خوف كے آثار ۶

جہاد:آداب جہاد ۷; جہاد ميں تحريك كرناابھارنا ۹

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۲ ص ۵۰، ح/۲۶ بحار الانوار ج/۱۹، ص ۲۸۷ ح ۳۱_

۴۷۳

دشمن:دشمنوں كے حوصلے پست كرنا ۷;دشمنوں ميں خوف ڈالنا ۷

سرد جنگ: ۵، ۷

غزوہ بدر:غزوہ بدر اور مشركين قريش ۸;غزوہ بدر كا قصہ ۱، ۲، ۳، ۶، ۸، ۹; غزوہ بدر كے مجاہدين ۹; غزوہ بدر ميں محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۳; غزوہ بدر ميں ملاءكہ ۱، ۲، ۳، ۵، ۸

قريش:مشركين قريش كى شكست ۶

كفار:كفار كا دل ۵; كفار كى انگلياں توڑنا ۸، ۹; كفار كى شكست كے اسباب ۶; كفار كے سر توڑنا ۸، ۹; كفار ميں خوف پيدا كرنا ۵

مجاہدين:مجاہدين كى امداد، ۱، ۳; مجاہدين كى ثابت قدمى ۱، ۲; مجاہدين كى ذمہ دارى ۹

ملاءكہ:امداد كرنے والے ملاءكہ ۳، ۸;امداد كرنے والے ملاءكہ كا كردار ۱; ملاءكہ كا كردار۴; ملاءكہ كى امداد ۴; ملاءكہ كى ضرورت ۴;ملاءكہ كى طرف وحى ۱، ۳

آیت ۱۳

( ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ شَآقُّواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَمَن يُشَاقِقِ اللّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ )

يہ اس لئے ہے كہ ان لوگوں نے خدا و رسول كى مخالفت كى ہے اور جو خدا و رسول كى مخالفت كرے گا تو خدا اس كے لئے سخت عذاب كرنے والا ہے(۱۳)

۱_ مشركين مكہ، معركہ بدر ميں شريك ہونے كى وجہ سے، خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے مخالفين اور دشمنوں ميں سے تھے_

ذلك بأنهم شاقوا الله و رسوله

۲_ مشركين مكہ كى نابودى اور سركوبى كے بارے ميں فرمان الہى جارى ہونے كا باعث ،خود ان كى خدا و رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ مخالفت اور دشمنى تھي_ذلك بأنهم شاقوا الله و رسوله

۳_ خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے دشمنوں كے خلاف مبارزہ اور ان كى سركوبى كرنا، مسلمانوں كى ذمہ دارى ہے_

۴۷۴

ذلك بأنهم شاقوا الله و رسوله

۴_ شديد الہى عذاب، خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كرنے والوں كى سزا ہے_

و من يشاقق الله و رسوله فإن الله شديد العقاب

۵_ جنگ بدر ميں مشركين كى شكست اور ناكامي، ان كيلئے شديد الہى عذاب تھا_

فاضربوا فوق الأعناق ...فإن الله شديد العقاب

۶_ خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جنگ كرنے والوں كو (ہر وقت) شديد دنيوى سزا اور عذاب كا خطرہ در پيش ہوتاہے_

ذلك ...و من يشاقق الله و رسوله فإن الله شديد العقاب

۷_ الہى عذاب اور عقوبت كا ہميشہ شديد اور سہمگين ہونا_فإن الله شديد العقاب

اللہ تعالى :اللہ تعالى سے دشمنى كے آثار۶; اللہ تعالى كا عذاب ۴،۵،۷; اللہ تعالى كے اوامر ۲; اللہ تعالى كے دشمن ۱،۲،۳،۶; اللہ تعالى كے دشمنوں كى سزا۴

دشمنان:دشمنوں كى سركوبى ۳; دشمنوں كے خلاف مبارزہ ۳;

عذاب:دنيوى عذاب كے اسباب ۶; شديد عذاب ۴، ۷

غزوہ بدر:مشركين مكہ غزوہ بدر ميں ۱، ۵

كفار:كفار كى دنيوى سزا ،۲;كفار كى سركوبى ۲

محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :دشمنان محمد،صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱، ۲، ۳، ۶; دشمنان محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى سزا ،۴;محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دشمنى كے آثار ۶

مسلمان:مسلمانوں كى ذمہ دارى ۳

مشركين:مشركين كى سركوبى ۵; مشركين كى شكست ۵

مشركين مكہ:مشركين مكہ كى دشمنى ۲; مشركين مكہ كى سزا ،۵

۴۷۵

آیت ۱۴

( ذَلِكُمْ فَذُوقُوهُ وَأَنَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابَ النَّارِ )

يه تو نيا کي سزاهے جسے يهاں اوراس کے بع کافروں کے لئے جهنم کاعاب بهي ہے _ (۱۴)

۱_ جنگ بدر ميں مشركين كى شكست اور انكا كچلا جانا، انكى دنيوى سزا اور عقوبت تھي_

ذلكم فذوقوه و أن للكفرين عذاب النار

''ذلكم'' ميں ''كم'' مشركين سے خطاب ہے اور ''ذا'' انكى شكست و سركوبى كى جانب اشارہ ہے_ اور ''ذلكم'' مبتدا ہے، اور بعد والے جملے ''و ان للكافرين ...'' كے قرينے سے''عقابكم فى الدنيا'' اسكى خبر ہے_

۲_ جہنم كى آگ ،تمام كفار كى سزا ہے_و أن للكفرين عذا ب النار

''الكافرين'' ميں ''ال'' استغراق اور شموليت كيلئے ہے، قابل توجہ ہے كہ''أن للكفرين'' كى تركيبى تفسير ميں مختلف نظريات پيش كيئے گئے ہيں ان ميں سے بہترين تفسير ''اعلموا'' جيسے فعل كا مقدر كرنا ہے، يعنى''واعلموا ان للكفرين عذاب النّار''

۳_ معركہ بدر ميں موجود مشركين، كفر پيشہ اور آتش جہنم كے مستحق لوگ تھے_و أن للكفرين عذاب النّار

''للكفرين'' كے مطلوبہ مصاديق ميں سے ايك، معركہ بدر ميں موجود مشركين تھے_

۴_ دوزخ كى آگ، دنيا ميں دى جانے والى الہى عقوبتوں اور سزاؤں سے كہيں زيادہ خوفناك ہے_

ذلك فذوقوه و أن للكفرين عذاب النّار

عذاب دوزخ كے مقابلے ميں ، عذاب دنيا كے بارے ميں كلمہ'' ذوق'' (چكھنا) كا استعمال ظاہر كرتاہے كہ دنيوى عقوبتيں اور سزائیں فقط سزا و عقوبت كا ذائقہ ہيں اور اصلى و كامل عذاب كا مقدمہ ہیں كہ جو عذاب دوزخ ہے_

جہنم:جہنم كى آگ ۲، ۳، ۴

۴۷۶

عذاب:اہل عذاب ۳; موجبات عذاب۳

غزوہ بدر:غزوہ بدر ميں مشركين ۱، ۳

كفار:۳، كفار كى سزا، ۲

كيفر (سزا):اخروى كيفر (سزا) ۴; دنيوى كيفر ۴; دنيوى كيفر كے اسباب ۱;كيفر و سزا كے مراتب ۴

مشركين:مشركين كى شكست ۱

مشركين مكہ:مشركين مكہ كى دنيو ى سزا ،۱; مشركين مكہ كى سركوبى ۱; مشركين مكہ كى سزا ،۳

۴۷۷

آیت ۱۵

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ زَحْفاً فَلاَ تُوَلُّوهُمُ الأَدْبَارَ )

اے ايمان والوجب كفار سے ميدان جنگ ميں ملاقات كروتو خردار انھيں پيٹھ نہ دكھانا(۱۵)

۱_ اہل ايمان كى ذمہ دارى اور فريضہ ہے كہ جب بھى دشمنان دين لشكر كشى اور حملہ كريں تو وہ پائی دارى و استقامت دكھائیں (دفاعى جہاد)يا أيها الذين ء امنوا إذا لقيتم الذين كفروا زحفا فلا تولّوهم الأدبار

ہوسكتاہے كلمہ ''زحفا'' (كہ جس كا معنى لشكر كشى ہے)''الذين كفروا'' كيلئے حال ہو يعنى جب بھى كفار تمہارى طرف لشكر كشى كريں ، اسى طرح يہ بھى ہوسكتاہے كہ فاعل ''لقيتم' ' كيلئے حال ہو_

يعنى جب تم جہاد كيلئے كفار كى طرف حركت كرتے ہو، مندرجہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناء پر اخذ كيا گيا ہے_

۲_ اہل ايمان كو چاہيئے كہ وہ دشمن كى طرف حركت كرتے وقت اور ان كا مقابلہ كرتے وقت (يعنى ابتدائی جہاد كے وقت) ميدان جنگ كو خالى نہ چھوڑيں _إذا لقيتم الذين كفروا زحفا فلا تولّوهم الأدبار

۴۷۸

يہ مفہوم اس بناء پر اخذ كيا گيا ہے كہ جب ''زحفا'' فاعل ''لقيتم'' كيلئے حال ہو_

۳_ اہل ايمان ہميشہ ايمان وعقيدے كى بنياد پر جہاد اور جنگ كرتے ہيں _ى أيها الذين ء امنوا ء اذا لقيتم الذين كفروا

مثلاً ''عدوكم'' كى جگہ''الذين كفروا'' كى قيد سے يہ نكتہ سامنے آتاہے كہ اہل ايمان، كشور كشائی و غيرہ كى خاطر جنگ نہيں كرتے بلكہ ان كے عقائد ان كے جہاد كا باعث بنتے ہيں يا دشمنوں كا حملہ آور ہونا، انھيں جنگ پر ابھارتاہے_

۴_ دشمن كو پيٹھ دكھانے اور ميدان جنگ سے فرار كرنے كى حرمت_فلا تولّوهم الأدبار

۵_عن أبى الحسن الرضا عليه‌السلام : ...و حرّم الله تعالى الفرار من الزحف لما فيه من الوهن فى الدين و الا ستخفاف بالرسل و الائمة العادلة و ترك نصرتهم على الأعداء ..(۱)

امام رضاعليه‌السلام سے منقول ہے كہ: خداوند نے جنگ سے فرار كو حرام قرار ديا ہے كيونكہ يہ بات، دين كوسبك و ہلكا سمجھنے اور انبياء اور عادل ائیمہ كو كمزور كرنے اور دشمنوں كے خلاف ان كى نصرت و مدد كو ترك كرنے كا باعث بنتى ہے_

ايمان:ايمان كے آثار ۳

جہاد:ابتدائی جہاد ۲; احكام جہاد ،۱، ۲، ۴;اقسام جہاد ۱، ۲; ترك جہاد ۲; دفاعى جہاد،۱ ;جہادسے فرار كى حرمت ۴; جہاد ميں استقامت ۱

دشمن:دشمنوں كا حملہ آور ہونا ۱

مجاہدين:مجاہدين كى ذمہ دارى ۲

محرمات: ۴

مؤمنين:مؤمنين كا جہاد ۳; مؤمنين كى ذمہ دارى ۱

____________________

۱) عيون اخبار الرضا ج/۲ ص ۹۲ ح/۱_ ب ۳۳، نورالثقلين ج/۲ ص ۱۳۸ ح/۳۶_

۴۷۹

آیت ۱۶

( وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلاَّ مُتَحَرِّفاً لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزاً إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاء بِغَضَبٍ مِّنَ اللّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ )

اور جو آج كے دن پيٹھ دكھائے گا وہ غضب اليہ كا حق دار ہوگا اور اس كا ٹھكانا جہنم ہوگا جو بدترين انجام ہے علاوہ ان لوگوں كے جو جنگى حكمت عملى كى بنا پر پيچھے ہٹ جائیں يا كسى دوسرے گروہ كى پاہ لينے كے لئے اپنى جگہ چھوڑ ديں (۱۶)

۱_ دشمن كے خلاف جديد تدبير اختيار كرنے يا اپنے ہم رزم ساتھيوں كے ساتھ ملنے كى خاطر محاذ جنگ سے پيٹھ پھيرنے كا جوازو من يولهم يومئذ دبره إلا متحرفا لقتال أو متحيزا إلى فئة

''تحرف'' كسى جگہ سے اسكے اطراف كى طرف منہ موڑنے كو كہتے ہيں ، بنابراين ''تحرف للقتال'' يعنى جنگ كيلئے دوسرا محاذ منتخب كرنے كيلئے دشمن سے منہ موڑلينا، اور ''تحيز'' كا معنى جگہ گھيرنا ہے چونكہ ''الي'' كے ذريعے متعدى ہوا ہے لہذا اس ميں ''جاملنے'' كا معنى بھى پايا جاتاہے، يہ بھى قابل توجہ ہے كہ ''فئة'' سے مراد وہ گروہ ہے كہ جو ميدان جنگ ميں مصروف جہاد ہے_

۲_ تدبير جنگ كے علاوہ محاذ سے منہ موڑنا، غضب الہى اور استحقاق جہنم كا باعث بنتاہے_

و من يولهم ...فقد باء بغضب من الله و ماوه جهنم و بئس المصير

اگر كلمہ ''بوئ'' حرف ''باء'' كے ساتھ متعدى ہو تو ''متحمل ہونے'' كامعنى دے سكتاہے بنابراين ''باء بغضب من الله '' يعنى اس نے غصب خدا كو اپنى طرف دعوت دي_

۳_ جہنم، ايك بُرا ٹھكانا اور دردناك انجام ہے_و بئس المصير

يہاں مذمت، كلمہ جہنم سے مختص ہے كہ جو گذشتہ جملے كے قرينے كى وجہ سے حذف ہوگيا ہے، يعنى ''بئس المصير جھنم''

۴_ جہنم، محاذ جنگ سے بھاگنے والوں كا ٹھكانا ہے_و من يولهم ...مأوه جهنم

۵_ جہنم، بارگاہ الہى كے مغضوبين كا ٹھكانا ہے_فقد باء بغضب من اله و مأو ه جهنم

انجام :برا انجام ۳

جنگ:جنگى تدابير، ۱، ۲

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736