شعبان و رمضان کے روزوں کا ثواب
شعبان کے روزے کا ثواب
( ۱) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں جو شخص شعبان کا روزہ رکھے گا تو یہ روزہ اسے ہر عیب ، عار اور غصّے سے پاک کردے گا۔ ابو حمزہ کہتے ہیں میں نے آنحضرت سے پوچھا عیب اور عار سے کیا مراد ہے؟ فرمایا خدا کی نافرمانی کی قسم اور نذر ، میں نے پوچھا غصے سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا غضب اور غصے میں قسم کھا نا اور پھر تو بہ کرکے پشیمان ہونا ۔
( ۲) راوی کہتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کے پاس ماہ شعبان کے روزے کے متعلق گفتگو چل نکلی آپ نے فرمایا اس روزے کی یہ اور وہ فضیلت ہے اور اس میں یہ ، یہ ثواب ہے یہاں تک کہ اگر کوئی محترم شخص کا خون کر بیٹھتا ہے تواگر ( توبہ کے طور پر ) شعبان کا روزہ رکھے گا تویہ اسکے لئے مفید ہو گا اور اسے معاف کر دیا جائے گا۔
( ۳) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں جو شخص ماہ شعبان اور رمضان کے پے در پے روزے رکھے تو خدا کی قسم بارگاہ خداوندی میں یہ روزے اسکی تو بہ (شمار) ہوگی۔
( ۴) راوی کہتاہے میں نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلا م کو فرما تے ہوئے سنا۔کہ جوشخص شعبان کے پہلے دن روزہ رکھے گاتو حتماًا س پر جنت واجب ہو جائے گی۔اور جو شخص دو روزے رکھے گا توالله تعالیٰ دنیا میں ہرروز و شب اس پر نظر (کرم) کرے گا اورجنت میں بھی اس پر نظر (کرم) رکھے گا جو تین دن روزے رکھے گا تو اسے جنت کے عرش پر ہر روز(دل کی آنکھوں سے) الله کی زیارت نصیب ہو گی۔
( ۵) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا نے فرمایا شعبان میرا اور رمضان الله کا مہینہ ہے اور یہ غرباء کی بہار ہے الله تعالیٰ نے عید الاضحی (قربان) مساکین کے گوشت کھانے کے لئے بنائی ہے ، لہذا تم قربانی کر کے انہیں گوشت دو ۔
( ۶) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ خدا کی قسم۔ شعبان اور رمضان کے روزے بارگاہ خداوندی میں توبہ ہیں۔
( ۷) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ میرے والد کی عادت تھی کہ ما ہ شعبان اور رمضان کے درمیان ایک دن (روزہ نہ رکھکر ) فاصلہ ڈالتے تھے لیکن حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) دونوں مہینے متواتر روزہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے ان دونوں مہینوں میں متواتر روزے رکھنا بارگاہ خداوندی میں توبہ ہے اور فرماتے یہ دونوں خدا کے مہینے اِس اور یہ دونوں پہلے اور بعد والے دو دو مہینوں کے گناہوں کا کفارہ ہیں
( ۸) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ حضرت رسول خدا ماہ شعبان اور رمضان میں متواتر روزے رکھتے لیکن لوگوں کو متصل روزہ رکھنے سے منع فرماتے یہ دونوں خدا کے مہینے ہیں اوراس کے لئے اس مہینوں کے بعد اور پہلے والے مہینوں کا کفارہ ہیں۔
( ۹) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ ازواج رسول الله کی گردن پر اگر کوئی واجب روزہ ہوتا تو وہ اسے شعبان تک اس چیز سے ڈرتے ہوئے مؤخر کر چھوڑ تیں کہیں حضرت کی ضروریات سے مانع نہ ہوجائیں جو نہی شعبان ہوتا تو یہ روزے رکھتیں اور حضرت بھی روزے رکھتے نیز حضرت فرماتے شعبان میرا مہینہ ہے ۔
( ۱۰) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام)سے پوچھا کیا آپ کے آباو اجداد میں کوئی ماہ شعبان کے روزے رکھتا تھا ؟ فرمایا جی ہاں ہمارے بہترین جدّ حضرت رسول خدا شعبان کے روزے رکھتے تھے۔
( ۱۱) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے ماہ شعبان کے متعلق پوچھا کیا آپ کے آباو اجداد نے کبھی یہ روزے رکھے ہیں فرمایا ہمارے بہترین جد حضرت رسول خدا شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے۔
( ۱۲) حضرت رسول خدا سے رجب کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا تمھیں ما ہ شعبان کے روزوں کی فکر کیوں نہیں ہے ؟ ۔
( ۱۳) اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ حضرت رسول خدا اتنے روزے رکھتے کہ لوگ کہتے کہ آپ ہمیشہ روزے سے ہوتے ہیں اور کبھی روزہ نہ رکھتے تو لوگ کہتے اب آپ روزے نہ رکھیں گے۔ راوی کہتا ہے میں نے پوچھا کہ کوئی ایسا مہینہ ہے جس میں حضرت بہت روزے رکھتے ہوں لیکن کسی اور مہینے میں اتنے روزے نہ رکھتے ہوں۔ فرمایا جی ہاں ، پوچھا کس مہینے میں ؟ کہا شعبان میں۔ شعبان جو کہ رجب اور رمضان کا درمیانی مہینہ ہے لوگ اس سے غافل ہیں حالانکہ اس مہینے میں تمام اعمال پروردگار عالم کی بارگاہ میں جاتے ہیں میری خواہش ہے کہ جب میرے اعمال اوپر جائیں تو میں روزے سے ہوں۔
( ۱۴) حضرت رسول خدا سے پوچھا گیا کہ کونسے روزے افضل ہیں ؟ فرما یا ما ہ رمضان کی تعظیم میں شعبان کے روزے افضل ہیں ۔
( ۱۵) راوی کہتا ہے کہ حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) شعبان کے علاوہ کسی مہینے میں پورے روزے نہ رکھتے فقط اسے رمضان کیساتھ متصل فرماتے ۔
( ۱۶) ابن عباس کہتے ہیں حضرت رسول خدا کے اصحاب آپ کی بارگاہ میں ماہ شعبان کے فضائل کے متعلق گفتگو فرما رہے تھے۔ حضرت نے فرمایا۔ یہ شریف مہینہ ہے۔ اور میرا مہینہ ہے حاملان عرش اسے بزرگ سمجھتے ہیں اور اسکی قدر جانتے ہیں ۔ اس مہنیے میں ما ہ رمضان کیلئے مؤمنین کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے اور بہشتوں کو سجایا جاتا ہے۔ اسے شعبان بھی اسی لیئے ہی کہا جاتا ہے کہ اسمیں مؤمنین کا رزق زیادہ ہوتا ہے۔ اس مہینے کے اعمال ستر مرتبہ دوگنے ہوتے ہیں۔ بدیاں ختم ہو جاتی ہیں ، گناہ مٹ جاتے ہیں ، حسنات قبول ہوتی ہیں ، الله اپنے بندوں پر فخر و مباھات کرتا ہے۔ اور اپنے عرش سے روزہ داروں اور عبادت گزاروں کو دیکھتا ہے اور ان کی وجہ سے اپنے عرش کے حاملین پر فخرو مباھات کرتا ہے اسوقت حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کھڑے ہو کر عرض کرتے ہیں یا رسول الله میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں۔ ماہ شعبان کے روزے کے کچھ فضائل بیان فرمائیں تا کہ ہم اس ماہ کے روزے اور عبادت کی طرف زیادہ راغب ہوں اور خدا تعالیٰ کیلئے شب بیداری کریں ۔
حضرت نے فرمایا۔
جو شخص شعبان میں ایک روزہ رکھے گا تو خداوند متعال اسکے لئے ستر نیکیاں لکھے گا اور ہر نیکی ایک سال کی عبادت کے برابر ہوگی۔
جو شعبان میں دو روزے رکھے گا اسکے ہلاکت میں ڈالنے والے گناہ معاف ہو جائیں گے ۔
جو شعبان کے تین روزے رکھے گا تو بہشتوں میں اس کے در اور یاقوت سے ستر درجات بلند ہونگے ،
جو شعبان کے چار روزے رکھے تو اسکا رزق وسیع ہو گا ۔
جو شعبان کے پانچ روزے رکھے وہ لوگوں میں محبوب ہوگا ۔
جو شعبان کے چھ روزے رکھے تو الله اس سے ستر قسم کی بلائیں دور کرے گا۔
جو شعبان کے سات روزے رکھے تو وہ شیطان اور اسکے لشکر کے وسوسوں اور چکروں سے محفوظ ہوگا ۔
جو شعبان میں آٹھ روزے رکھے گا تو وہ دنیا سے پیاسا نہیں جائے گا اور اسے پاک حوض سے سیراب کیا جائے گا ۔
جو شعبان کے نو روزے رکھے تو سوال وجواب کے وقت منکر اور نکیر اس پر مہربان ہونگے ۔
جو شعبان کے دس روزے رکھے تو اس کی قبر ستر ضرب (ستر ہاتھ) وسیع ہو جائے گی۔
جو شعبان کے گیارہ روزے رکھے تو اس کی قبر کو گیارہ منارہ نور منور کریں گے۔
جو شعبان کے بارہ روزے رکھے تو صور پھونکنے کے دن تک ہر روز ستر ہزار فرشتے قبر میں اسکی زیارت کریں گے۔
جو شعبان کے تیرہ روزے رکھے ساتوں آسمانوں کے فرشتے اسکے لئے استغفار کریں گے ۔
جو شعبان کے چودہ روزے رکھے تمام درندے ، چوپا ہے ، حتی دریا میں مچھلیوں تک کو الھام ہو گا کہ اسکے لئے استغفار کریں۔
جو شعبان کے پندرہ روزے رکھے رَبّ العزّت ندادیتا ہے کہ مجھے اپنی عزت کی قسم تجھے جہنم میں نہیں جلاؤں گا ۔
جو شعبان کے سولہ روزے رکھے توآگ کے ستر دریا اس پر بجھا دیئے جائیں گے ۔
جو شعبان کے سترہ روزے رکھے جہنم کے تمام دروازے اس پر بند کر دیئے جائیں گے۔
جو شعبان کے اٹھاراں روزے رکھے جنت کے تمام دروازے اس پر کھول دیئے جائیں گے۔
جو شعبان کے انیس روزے رکھے تو بہشت میں اسے در اور یاقوت کے بنے ہوئے ستر ہزار محل عطا کیے جائیں گے۔
جو شعبان کے بیس روزے رکھے تو ستر ہزار حور العین کے ساتھ اسکی تزویج ہو گی۔
جو شعبان کے اکیس روزے رکھے فرشتے اسے خوش آمدید کہیں گے اور اپنے پر اسکے جسم پر ملیں گے۔
جو شعبان کے بائیس روزے رکھے تو اسے سندس اور استبرق کے ستر ہزار لباس پہنائے جائیں گے۔
جو شعبان کے تیئس روزے رکھے قبر سے نکلتے وقت اسے نورانی چوپا ہے پر سوار کراکے جنت کی سیر کرائے جائے گی۔
جو شعبان کے چوبیس روزے رکھے وہ ستر ہزار اہل توحید کی شفاعت کرے گا۔
جو شعبان کے پچیس روزے رکھے اسے نفاق سے بیزاری عطا کی جائے گی۔
جو شعبان کے چھبیس روزے رکھے الله اسے پل صراط سے گزر نے کا پر مٹ عطا کرے گا۔
جو شعبان کے ستائیس روزے رکھے الله اس کے لئے جہنم سے رہائی کا حکم لکھے گا۔
جو شعبان کے اٹھائیس روزے رکھے اسکا چہرہ درخشان ہوگا اور اس کے چہرے سے نور بر سے گا۔
جو شعبان کے انتیس روزے رکھے اسے الله تعالیٰ رضوان نصیب کرے گا۔
جو شعبان کے تیس روزے رکھے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) عرش کے سامنے کھڑے ہو کر ندا دیں گے اے شخص نئے سرے سے اعمال شروع کر تیرے گذشتہ گناہ معاف کردئیے گئے ہیں۔ الله جل شانہ فرمائے گا اگر تیرے گناہوں کی تعداد آسمان کے ستاروں ، بارش کے قطروں ، درختوں کے پتوں ، ریت کے ذرّوں ، شبنم کے قطروں اور دنیا کے دنوں کے برابر بھی ہوں تو تب بھی تجھے معاف کردوں گا۔ ماہ شعبان کے روزے رکھنے کے عوض اتنی مغفرت اور ثواب الله کی بارگاہ میں کوئی زیادہ نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس کہتے ہیں یہ سب ماہ شعبان ہی کا ثواب ہے۔
ماہ رمضان کی فضیلت اور روزے کا ثواب
( ۱) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں اے جابر جسے ماہ رمضان نصیب ہو اور وہ دن میں روزہ اور رات کے ایک حصّے میں الله کی عبارت کرے ، اپنی زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کرے ، آنکھوں کو حرام سے بچائے اور کسی کو آزار نہ پہنچائے تو وہ ماں سے متولد ہونے والے دن کی طرح گناہوں سے پاک ہو گا جناب جابر کہتے ہیں میں قربان جاؤں۔ کتنی عمدہ حدیث ہے۔ حضرت نے فرمایا ( یہ بھی دیکھوکہ ) اسکی شرائط کتنی سخت ہیں۔
( ۲) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ حضرت رسول خدا جب ماہ رمضان کا چاند دیکھتے تو قبلہ رخ ہو کر یہ دعا مانگتےاَللَّهُمّ أَهِلَّهُ عَلَینَا بالاَمنِ وَالایمَانِ وَالسَّلاَمَةِ وَ الاسلاَمِ وَ العَافِیَةَ المُجَلَّلَةِ وَ الرِّزْقِ الوَاسِعِ وَدَفعِ الأسقَامِ وَ تِلاَ وَةِ القُرآنِ والعَونِ عَلَی الصَّلَوةِ وَالقِیَا مِ اَللَّهُمَّ سَلِّمنَا لِشَهرِ رَمَضَانَ و وَسَلَّمه‘ لَنَا و تَسَلَّمْهُ مِنَّا حَتّٰی یَنقَضِیَ شَهرُ رَمَضَانَ وَقَدغَفَرتَ لَنَا
پھر لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا اے مسلمانو! جب رمضان کا چاند نظر آئے تو مردود شیطان کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے آسمان ،جنت اور ر حمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں ، دعائیں مستجاب ہوتی ہیں۔ الله کے پاس کچھ آزاد کرنے والے لوگ ہیں جنھیں ہر افطاری کے وقت آزاد کیا جاتا ہے ہر رات منادی ندا دیتا ہے کوئی سائل اور بخشش چاہنے والا ہے ؟ پروردگارا ہر خرچ کرنے والے کو عوض عطا فرما اور ہر بخیل کے مال کو تلف فرمایہاں تک کہ ماہ شوال کا چاند ظاہر ہوتا ہے تو مؤمنین کو ندا دی جاتی ہے ۔ صبح خیزی کرنے والو ، اپنے انعام۔ لینے کیلئے نکلو، آج یوم انعام ہے پھر حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم جسکے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ انعام درہم و دینار نہ ہونگے۔
( ۳) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں جب حضرت رسول خدا عرفات سے لوٹے اور منٰی کی طرف روانہ ہوئے تومسجد میں تشریف لے گئے۔ لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہو کر شب قدر کے متعلق سوال کرنے لگے۔ حضرت نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور حمد وثنا کے بعد فرمایا۔ تم میں سے جو بھی مجھ سے شب قدر کے متعلق سوال کرے گا تو میں اسے جواب دونگا اور اس سے کچھ بھی پنھان نہیں کرونگا۔ اے لوگو جان لو جِسے صحت و سلامتی کیساتھ ماہ رمضان نصیب ہو وہ دن میں روزے رکھے اور رات کا ایک حصّہ عبادت میں گزارے۔ اپنی نماز کی حفاظت کرے۔ نماز جمعہ او رعید بجالائے تو اس نے یقینا شب قدر درک کرلی ہے اور اپنے پروردگار کے انعام کا مستحق ٹھہرا ہے۔ راوی کہتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا انہوں نے ایسے انعامات حاصل کئے ہیں جو انسانوں کے انعامات کی مثل نہیں ہیں ۔
( ۴) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ رمضان نزدیک تھا اور شعبان کے تین دن باقی تھے ، حضرت رسول خدا نے جناب بلال سے فرمایا لوگوں کو بلاؤ جب لوگ آگئے تو حضرت منبر پر تشریف لے گئے حمد وثنا الہی کے بعد فرمایا تم پر آنے والا مہینہ ، تمام مہینوں کا سردارہے اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس میں جہنم کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جو اس مہینے کو پا کر بھی نہ بخشا جائے تو الله اسے دور کر دیتا ہے اسی طرح جِسے ماں باپ نصیب ہوں اوروہ بخشش نہ کر اسکے تو اسے بھی الله دور کردیتا ہے جس کے سامنے میرا تذکرہ ہو اور وہ مجھ پر صلوات نہ بھیجے تو اس کی بخشش ممکن نہیں اور الله اسے بھی خود سے دور کردیتا ہے۔
( ۵) حضرت امیر المؤمنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں جب ماہ رمضان آیاحضرت رسول خدا (خطبہ دینے کیلئے ) کھڑے ہوئے حمد و ثنا الہی کے بعد ارشاد فرمایا اے لوگو الله نے تمہاری دشمنوں (جنات میں سے) سے حفاظت فرمائی ہے اور الله کا فرمان ہے مجهے پکارو میں تمهیں جواب دونگا دعا کی قبولیت کا تمھیں وعدہ دیا ہے جان لو ہر راندہ شیطان پر سات فرشتوں کو مقرر کیا گیا ہے تا کہ اس ما ہ کے اختتام تک کوئی شیطان تم پر مسلط نہ ہو سکے جان لو ، رمضان کی پہلی رات سے ہی آسمان کے دروزاے کھول دیئے جاتے ہیں جان لو اس میں کی گئی دعا مقبول ہے۔
( ۶) راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے فرماتے ہوئے سنا۔ یقینا ماہ رمضان کی ہر رات بارگاہ خداوندی میں جہنم کی آگ سے رہائی حاصل کرنے والے بہت لوگ ہیں البتہ جو نشے والی چیز سے افطا ر کریگا وہ آزادنہ ہوگا ماہ رمضان کی آخری رات گذشتہ تمام راتوں میں آزاد کیے گئے لوگوں کی تعداد میں آزاد ہونگے۔
( ۷) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ حضرت رسول خدا نے شعبان کے آخری جمعہ لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے حمد و ثنا ء الہی کے بعد فرمایا اے لوگو عنقریب ایک مہینہ آنے والا ہے جسکی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے وہ ماہ رمضان ہے اس میں الله نے تم پر روزے فرض کیئے ہیں اس مہینے میں ایک رات مستحبی نمازوں کیساتھ الله کی گئی عبادت باقی مہینوں کی ستر راتوں کی مستحبی نماز کے برابر ہے اس مہینے میں ادا کئے گئے مستحبی اعمال اور نیک کا م باقی مہینوں کے واجبات انجام دینے کی مانند ہیں اس ماہ میں الله کا ایک فرض بجالا نے والا دوسرے مہینوں کے ستر واجبات بجالانے والے کے برابر ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے اور یہ مواسات (مدد کرنے) کا مہینہ ہے ، یہ وہ مہینہ ہے جس میں الله مؤمنین کا رزق بڑھاتا ہے جو اس مہینے میں روزہ دار مؤمن کو افطاری دے گا تو الله اسے ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا کرے گا اور اسکے گذشتہ گناہ معاف کرے گا۔ کہا گیا یا رسول الله ہم سب میں روزہ افطار کرانے کی طاقت نہیں ہے۔ حضرت نے فرمایا الله کریم ہے وہ یہ ثواب اسے بھی عطا کرتا ہے جو روزہ دار کو افطار کرنے کیلئے تھوڑا دودھ یا ایک گلاس شربت یا چند کجھور کے دانے سے زیادہ دینے پر قادر نہیں ہے جو اس مہینے غلاموں کیساتھ نرمی کرے گا تو الله تعالیٰ اسکے حساب و کتاب میں نرمی کرے گا یہ ایسا مہینہ ہے جسکی ابتداء رحمت ، و سط مغفرت اور آخر دعاؤوں کی قبولیت اور جہنم سے آزادی ہے چار خصلتیں ایسی ہیں جن سے تم بے نیاز نہیں ہوسکتے دو چیزوں سے تم خدا کو راضی کروگے اور دوسری دونوں سے بھی تم کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتے جن دوچیزوں سے تم خدا کو راضی کروگے وہ اس بات کی گواہی ہے کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں رسول خداہوں اور وہ دوچیزیں جن سے تم کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتے وہ یہ ہیں کہ تم اپنی حاجتوں اور بہشت کو خدا سے چاہو اور الله سے عافیت اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔
( ۸) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں رمضان نزدیک تھا ، شعبان کے تین دن باقی تھے ، حضرت رسول خدا نے جناب بلال سے فرمایا لوگوں کو بلاؤ جب لوگ اکھٹے ہو گئے تو حضرت منبر پر تشریف لے گئے حمد وثنا الہی کے بعد فرمایا تم پر آنے والا مہینہ ، (تمام ) مہینوں کا سردارہے اس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ، اس میں جہنم کے دروازے بند اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جو اس مہینے کو پا کر بھی نہ بخشا جائے تو الله اسے دور کر دیتا ہے اسی طرح جسے ماں باپ نصیب ہوں اوروہ بخشش نہ کر اسکے تو اسے بھی الله دور کردیتا ہے جس کے سامنے میرا تذکرہ ہو اور وہ مجھ پر صلوات نہ بھیجے تو اس کی بخشش ممکن نہیں اور الله اسے بھی خود سے دور کردیتا ہے۔
( ۹) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) ایک طویل حدیث کے آخر میں فرماتے ہیں کہ رمضان میں آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں ،شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں ، مؤمنین کے اعمال قبول ہوتے ہیں رمضان عمدہ مہینہ ہے حضرت رسول خدا کے زمانے میں اسے ماہ مرزوق (روزی دیئے جانے والا مہینہ) کہتے تھے۔
( ۱۰) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں ماہ رمضان کی راتوں میں جہنم کی آگ سے آزادی الله کے ذمہ ہے مگر یہ کہ جو نشے والی چیز سے افطار کرے ، کینہ رکھے یا صاحب شاہین ہو راوی کہتا ہے میں نے پوچھا کونسی چیز صاحب شاہین ہے فرمایا شطرنج ۔
( ۱۱) راوی کہتا ہے میں نے حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے پوچھا کہ الله نے فرمایا ہے میں نے اسے (قرآن) مبارک رات میں نازل کیا هے تو مبارک رات کونسی ہے ؟ حضرت نے فرمایا وہ شب قدر ہے جو ہر سال فقط ما ہ رمضان کی آخری دس راتوں میں آتی ہے شب قدر میں ہی قرآن نازل ہوا الله کا فرمان ہے اس رات تمام چیزیں حکمت الهی سے معین و مشخص هوں گی اسی ایک رات میں ہر خیر و شر اطاعت و معصیت ، تولد و مرگ اور رزق و غیرہ ایک سال تک کیلئے معین ہو جاتا ہے جو کچھ ملنا ہے اسی رات ہی طے ہوگا اور اس میں الله کی مشیت ہے میں نے عرض کی شب قدر هزار مهینوں سے بهتر هے اس سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا اس مہینے کے اعمال صالح جیسے نماز ، زکات اور دوسری نیکیاں ان ہزار مہینوں کے عمل سے بہتر ہیں جن میں شب قدر نہ ہو اگر الله تعالیٰ مؤمنین کے ثواب کو دگنا نہ کرتا تو انہیں یہ ثواب حاصل نہ ہوتا لیکن الله تعالی نے ان کیلئے نیکیاں دگنی کردی ہیں ۔
( ۱۲) سعید بن جبیر کہتا ہے میں نے ابن عباس سے پوچھا کہ اس شخص کا کیا اجر وثواب ہے جو رمضان میں روزے رکھے اور ماہ رمضان کے حق کو پہچانے ؟ فرمایا ابن جبیر آمادہ ہو جا تا کہ میں تجھے ایسی حدیث سناؤں جو تیرے کانوں نے نہیں سنی اور نہ تیرے دل سے گزری ہے پوچھے گئے سوال کے متعلق اپنے ذہن کو خالی کر لو جو تم نے سوال کیا ہے یہ اولین و آخرین کا علم ہے۔ سعید بن جبیر کہتا ہے میں وہاں سے چلا گیا اور اگلی صبح آمادہ ہو کر طلو ع فجر کے وقت ابن عباس کے پاس پہنچ گیا میں نے نماز فجر ادا کرنے کے بعد اسے حدیث والی بات یاد دلائی اس نے میری طرف رخ کرکے کہا جو میں کہنا چاہتا ہوں اسے غور سے سنو میں نے حضرت رسول خدا کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تمھیں علم ہوتا کہ ماہ رمضان میں تمھارے لئے کتنا ثواب ہے تو تم الله کا مزید شکر کرتے۔ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو الله تعالیٰ میری امت کے تمام ظاہر اور پوشیدہ گناہ معاف کردیتا ہے اور دو لاکھ درجات بلند کرتا ہے اور بہشت میں پچاس شہر تعمیر کرتا ہے۔ دوسرے دن الله تمھارے اٹھائے گئے ہر قدم کے بدلے میں ایک سال کی عبادت ، ایک پیغمبر کا ثواب اور ایک سال کے روزے لکھتا ہے۔
تیسرے دن تمہارے جسم کے ہر بال کے بدلے میں بہشت کے اندر سفید درّوں سے مزیّن گنبد بناتا ہے کہ جسکے اوپر اور نیچے بارہ ہزار نورانی گھر ہوں گے اور ہر گھر میں بارہ ہزار تخت ہونگے اور ہر تخت پر حور بیٹھی ہوگی ہر روز ہزار فرشتے ہاتھوں میں ھدیہ لیے تمھارے پاس آئیں گے۔
چوتھے دن الله بہشت جاوید میں ستر ہزار محل تمھیں عطا کرے گا کہ ہر محل میں ستر ہزار گھر ، ہر گھر میں پچاس ہزار تخت اور ہر تخت پر حور بیٹھی ہوگی اور ہر حور کے سامنے ہزار چھوٹی کنیزیں کھڑی ہونگیں اور ان کے لباس دنیا اور اس کی ہر چیز سے بہتر ہونگے۔
پانچویں دن الله جنت مأوی میں تمھیں ایک ہزار شہر عطا کرے گا ، ہر شہر میں ستر ہزار گھر ، ہر گھر میں ستر ہزار دسترخوان اور ہر دسترخوان پر ستر ہزار کا سے اور ہر کاسے میں ساٹھ ہزار قسم کی غذا ہوگی اور ہر غذ ایک دوسرے سے مختلف ہوگی ۔
چھٹے دن الله تمھیں دارالسلام میں ایک لاکھ شہر عطا کرے گا ، ہر شہر میں ایک لاکھ گھر ، ہر گھر میں ایک لاکھ سونے کے تخت ہونگے جنکا طول ستر ہزار ہاتھ ہوگا ہر تخت پر حور العین تمھاری بیوی کے طور پر بیٹھی ہوگی جس کے پیشانی پر در اور یاقوت سے مزیّن تیس ہزار دلفیں ہونگیں اور ہر دلف کو ایک سو کنیزوں نے اٹھا رکھا ہوگا۔
ساتویں دن الله تعالی جنت نعیم میں تمھیں چالیس ہزار شہید اور چالیس ہزار صدیق کا اجروثواب عطا کرے گا۔
آٹھویں دن الله تمھیں ساٹھ ہزار عابد اور ساٹھ ہزار زاہد کے عمل کے مثل اجر وثواب عطا کرے گا ۔
نویں دن الله جو اجر و ثواب ایک ہزار عالم ایک ہزار اعتکاف میں بیٹھنے والے اور ایک ہزار جنگجو کو دیتا ہے ، تمھیں نصیب کرے گا ۔
دسویں دن الله تمھاری ستر ہزار حاجتیں بر لائے گا سورج ، چاند، ستارے ،چوپائے ، پرندے ، تمام پتھر ، پھول ، ہر خشک و تر ، مچھلیاں ، دریا اور درختوں کے پتے تمھارے لئے استغفار کریں گے۔
گیارہواں دن تمھارے لئے چار حج اور چار عمروں کا ثواب لکھے گا اور حج ایسا ہوگا جو پیغمبر کیساتھ اور عمرہ ایسا ہوگا جو کسی شہید یا صدیق کیساتھ ادا کیا گیا ہو۔
بارہواں دن تمھارے گناہوں کو حسنات میں بدل دے گا ور تمھاری نیکیوں کو دو برابر کردیگا اور ہر نیکی کے بدلے ایک لاکھ نیکیاں لکھے گا ۔
اور تیر ہویں دن الله اہل مکہ اور مدینہ کی عبادت کی مثل ثواب دے گا اور تمھیں مکہ اور مدینہ کے درمیان ہر پتھر اور مٹی کی تعداد میں شفاعت نصیب کریگا ۔
اور چودہویں دن گویا تمھیں حضرت آدم اور نوح اور انکے بعد حضرت ابراہیم اور موسیٰ اور انکے بعد حضرت داود اور سلمان کی ملاقات کا شرف ہوا ہو اور تم نے ہر پیغمبرکیساتھ دو سو سال تک خدا کی عبادت کی ہو۔
پندرہویں دن تمھاری دنیا و آخرت کی ہر حاجت پور ی کریگا جو کچھ حضرت ایوب کو دیا تھا، تمھیں بھی عطا کرے گا ، تمھاری دعائیں مستجاب کریگا ، حاملین عرش تمھارے لیے استغفار کریں گے اور قیامت والے دن چالیس نور عطا کرے گا جو دس دس ہوکر تمھارے دائیں ، بائیں ، آگے پیچھے ، رہیں گے ۔
سولہویں دن جب تم قبر سے نکلو گے تو تمھیں ساٹھ لباس عطا کرے گا تا کہ تم انہیں پہنو۔ تمھیں سواری کیلئے ناقہ ملے گا اور الله تمھارے لئے ابر رحمت بھیجے گا جو اس دن کی گرمی میں تجھ پر سایہ کئے رکھے گا۔
اور جب ستر ہواں دن آئے گا الله فرمائے گا یقینا میں نے انہیں اور ان کے والدین کو معاف کر دیا ہے اور الله ان سے قیامت کی سختیاں اٹھالے گا۔
جب اٹھارواں دن آئے گا تو الله تعالیٰ حضرت جبرائیل ، مکائیل ، اسرافیل ، حاملین عرش، کرسی اور کروبین کو حکم دیگا کہ اگلے سال تک امت محمد کیلئے استغفار کریں اور الله تمھیں قیامت والے دن اہل بدر کا ثواب عطا کرے گا۔
جب انیس واں دن ہوگا تو زمین وآسمان کے تمام ملائکہ ہر روز تمھاری قبروں کی زیارت کیلئے الله سے اجازت لیکر آئیں گے اور ہر فرشتے کے پاس ہدیہ اور شربت بھی ہوگا۔
جب بیسواں دن ہوگا تو خدا تمھارے لئے ستر ہزار فرشتے بھیجے گا کہ تمھیں را ندے ہوئے شیطان کے شر سے بچائیں اور وہ ہر دن کے روزے کو سوسال کے روزے کے برابر لکھیں گے الله تمھارے اور جہنم کے درمیان خندق بنادے گا تمھارے لئے تورات ، زبور ، انجیل اور فرقان کی تلاوت کرنے والوں کا ثواب لکھے گا تمھارے لئے حضرت جبرائیل کے ہر پر کی تعداد کے برابر ایک سال کی عبادت لکھے گا عرش اور کرسی کی تسبیح کا ثواب بھی تمھیں عطا کرے گاقرآن کی ہر آیت کی تعداد کے برابر حور العین عطا کرے گا اکیسویں دن الله تعالیٰ تمھاری قبروں میں ایک ہزار فرسخ تک وسعت عطا کرے گا اور تم سے قبر کی تاریکی اور وحشت کو دور کریگا تمھاری قبور کو شہدا ء کی قبریں بنائے گا اور تمھارے چہروں کو حضرت یوسف بن یعقوب کے چہرے جیسا بنائے گا ۔ بائیسویں دن خدا تمھارے پاس ملک الموت کو اس طرح بیھجے گا جس طرح انبیاء کے پاس بھیجتا ہے اور تم سے منکر و نکیر کا خوف اٹھا لے گا دنیا کے غم اور عذاب قبر کو تم سے دور کریگا ۔ تیئسویں دن تم پل صراط سے انبیاء ، صدقاء ، شہداء اور صالحین کیساتھ گزرو گے (تمھیں اس چیز کا ثواب ملے گا گویا) تم نے میری امت کے ہریتیم کو کھانا اور ہر عریان کو لباس عطا کیا ہے چوبیسویں دن تم میں سے ہر شخص دنیا سے اس وقت تک نہیں جائے گا جبتک جنت میں اپنا مکان نہ دیکھ لے تم میں سے ہر شخص کو ایک ہزار مریض اور اس بے وطن کا ثواب عطا کیا جائے گا جو الله کی اطاعت کرتے ہوئے وطن سے نکلا ہو اور تمھیں حضرت اسماعیل کی اولاد سے ایک ہزار غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا ۔ پچیسویں دن خدا تمھارے لئے عرش کے نیچے ایک ہزار سبز گنبد تعمیر کرے گا اور ہر گنبد کے سِرے پر ایک نور کا خیمہ ہو گا الله تعالیٰ کہے گا اے امتِ محمد میں تمھارا پرودگار ہوں اور تم میرے غلام اور کنیزیں ہو میرے عرش کے سایہ میں بنائے گئے گنبدوں میں بیٹھو۔ کھاؤ پیو۔ تمھیں مبارک ہو۔ تمھارے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ کوئی حزن و ملال اے امت محمد مجھے اپنی عزت و جلالت کی قسم میں تمھیں جنت میں ضرور بھیجو نگا تم پر اولین و آخرین (امتیں) تعجب کریں گی تم میں سے ہر ایک کو ایک ہزار نورانی تاج عطا کرونگا تم میں سے ہر شخص کو نور سے خلق کئے گئے ناقہ پر سوار کرونگا جس کی لگا میں نور کی ہونگیں جس پر سونے کے ایک ہزار حلقے ہونگے ہر حلقے پر ایک فرشتہ کھڑا ہوگا جسکے ہاتھ میں نور کا ستون ہوگا یہاں تک کہ تمھیں بغیر حساب وکتاب جنت میں داخل کروں گا جب چھبیسواں کا دن ہوگا الله تم پر نظر رحمت کریگا قتل اور اموال کے علاوہ تمھارے سب گناہ معاف کریگا اور ہر روز ستر مرتبہ تمھارے گھر کو غیبت جھوٹ اور تہمت سے پاک کریگا جب ستائیسویں کا دن ہوگا تو تمھیں تمام مؤمنین و مؤمنات کی نصرت ومدد اور ستر ہزار عریان لوگوں کو لباس پہنانے میدان جنگ میں ایک ہزار جنگجو کی خدمت ، اور انبیاء پر خداکی نازل کردہ ہر کتاب کا تلاوت کا ثواب عطا کریگا آٹھائیسویں دن الله تعالیٰ اسکے لئے بہشت جاوید میں نور کے ایک لاکھ گھر بنائے گا اور الله تمھیں جنت مأوی میں چاندی کے ایک لاکھ گھر عطا کرئے گا اور جنت نعیم میں خالص عنبر کے ایک لاکھ گھر عطا کریگا اور جنت فردوس میں ایک لاکھ شہر عطا کرے گا اور ہر شہر میں ایک ہزار حجرے ہونگے اور الله جنت خلدمیں مشک کے ایک لاکھ منبر عطا کریگا ہر منبر کے وسط میں ایک ہزار زعفران کے گھر ہونگے اور ہر گھر میں ایک ہزار دُر اور یاقوت کے تخت ہونگے اور ہرتخت پرحور العین زوجہ بنکر بیٹھی ہوگی اور جب انتیسویں کا دن آئے گا ایک لاکھ محلے عطا کرے گا ہر محلے کے وسط میں درخشان قبہ ہوگا ہر قبہ میں سفید کا فور کا تخت ہوگا ہر تخت پر ایک ہزار سبز سندس کے فرش ہونگے ہر فرش پر حوریں بیٹھی ہونگیں ان کے پاس ستر ہزار عمدہ لباس ہونگے انکی پیشانی پر اسی ہزار در اور یاقوت سے مزین زلفیں ہونگیں۔
جب تیس دن مکمل ہونگے تو الله تعالیٰ ہر گزرے ہوئے دن کے مقابلہ میں ایک ہزار شہید اور ایک ہزار صدیق کا اور پچاس سالہ عبادت کا ثواب لکھے گا ہر روزے کے لئے دو ہزار کے روزوں کا ثواب لکھے گا دریائے نیل جو کچھ اگاتا ہے اسکی تعداد میں درجات بلند کرے گا جہنم سے نجات ، پل صراط سے گزرنے کا پر مٹ ، اور عذاب سے امن عطا کریگا جنت کا ریان نامی دروازہ (کہ جو قیامت تک نہیں کھلے گا لیکن اسے) حضرت محمد کی امت کی روزہ دار خواتین و حضرات کیلئے کھول دیا جائے گا پھر جنت کا خازن فرشتہ ندادے گا جس کی اس ماہ رمضان میں مغفرت نہ ہوسکی تو پھر کس مہینے میں اسکی مغفرت ہوگی!؟ اور بزرگ و بر تر خدا کے علاوہ کسی کے پاس کوئی طاقت وقوت نہیں ہے ۔
( ۱۳) حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول خدا کا طریقہ کا ریہ رہا ہے کہ جو نہی رمضان کا مہینہ آتا تو آپ ہر قیدی کو آزاد اور ہر سائل کو (مال) عطا فرماتے۔
ذی الحجہ کے اعمال کا ثواب
ذی الحجہ کے پہلے عشرے کی دعا کا ثواب
( ۱) راوی کہتا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں ہرروز یہ با برکت دعا پڑھا کرتے تھے خلیل راوی کہتا ہے کہ میں نے اس سے سنا کہ امیر المؤمنین فرمایا کرتے تھے۔ جو شخص اس عشرے میں ہر روز اس دعا ؛لا اِلهَ اِلا اللّهُ عَدَدَ اللَّیَالِی وَالدُّهُورِ،لا اِلهَ اِلا اللّهُ عَدَدَ اَموَاجِ البُحُورِ،لا اِلهَ اِلا اللّهُ و رَحمَتُه خَیرمِمّا یَجمَعُونَ،لا اِلهَ اِلا اللّهُ عَدَدَ الشَّوکِ وَ الشَّجَرِ،لا اِلهَ اِلا اللّهُ عَدَدَ الشَّعرِ وَ الوَبَر،لا اِلهَ اِلا اللّهُ عَدَدَ الحَجَرِ وَالمَدَرِ،لا اِلهَ اِلا اللّهُ عَدَدَ لَمحِ العُیُونِ،لا اِلهَ اِلا اللّهُ فِی اللَّیلِ اِذاعَسعَسَ وَ فِی الصُّبحِ اِذاتَنَفّسَ،لا اِلهَ اِلا اللّهُ عَدَدَ الرِّیاحِ فَی البَرَارِی وَالصُّخُورِ،لا اِلهَ اِلا اللّهُ مِنَ الیَومِ اِلی یَومٍ یُنفَخُ فِی الصُّورِ
۔کی دس مرتبہ تلاوت کرے گا تو الله تعالیٰ ہر تہلیل (لاالہ الاالله) کے مقابلہ میں بہشت کے اندر در اور یاقوت کا ایک درجہ عطا کریگا ہر درجہ کے درمیان سریع اور تیز سواری کیساتھ ایک سو سال کی مسافت کا فاصلہ ہے ہر درجے پر ایک شہر ہے جسمیں ایک جوہر کا قصر ہے ان شہروں میں سے ہر شہر دوسرے سے جدا نہیں ہے ان تمام میں چار دیواریاں ، قلعے، بالاخانے ، گھر ، فرش ، بیویاں، تخت ، حور العین، دستر خوان: خدمتگار ، نہریں ، درخت ، زیورات اور لباس موجود ہیں کوئی وصف کرنے والا اس کی توصیف نہیں کرسکتا جب قبر سے نکلے گا تو اسکا ہر بال نور افشانی کریگا اور ستر ہزار فرشتے اسکے ارد گرد جمع ہو جائیں گے کچھ آگے ، کچھ دائیں ، کچھ بائیں اس کیساتھ چلتے ہو ئے باب جنت پہنچیں گے جب یہ جنت میں داخل ہوگا تو یہ سب فرشتے پیچھے کھڑے ہونگے اور یہ آگے ہوگا یہاں تک کہ اس شہر تک پہنچیں گے جسکا ظاہر سرخ یاقوت کا اور باطن سبز زبر جد کا ہوگا الله کی پیدا کردہ مختلف انواع و اقسام کی بہشتی چیزیں اس میں موجود ہونگی جب یہاں پہنچیں گے تو کہا جائے گا اے حبیب خدا جانتے ہو کہ یہ کونسا شہر ہے اور اسمیں کیا کیا ہے ؟ کہے گا ہم نہیں جانتے اور آپ کون ہیں ؟ وہ کہیں گے ہم فرشتے ہیں جب تم نے دنیا میں لا الہ الا الله کہا تھا تو ہم نے تمھیں دیکھاتھا یہ شہر تمام لوازمات کیساتھ تمھارا ہے تجھے الله تعالیٰ کی طرف سے اس سے بڑھکر ثواب ملے گا یہاں تک کہ تو دارالسلام میں ، جوار خدا میں ملاحظہ کرے گا کہ الله نے تجھے کیا عطا کیا ہے تم دیکھنا یہ عطا کبھی منقطع نہ ہوگی خلیل کہتا ہے کثرت سے اس ذکر کی تلاوت کرو تا کہ تمھیں زیادہ ثواب مل سکے۔
ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں روزے کا ثواب
( ۱) راوی کہتا ہے کہ ایک شخص اہل غنا سے تھا جب اس نے ذی الحجہ کی پہلی کے رات کا چاند دیکھا اور صبح روزہ رکھ لیا یہ خبر حضرت رسول خدا تک پہنچی ، آپ نے کسی کو بھیجا کہ اسے بلا لاؤ جب وہ آیا تو حضرت نے فرمایا اس دن تم نے روزہ کیوں رکھا ہے ؟ کہنے لگا یا رسول الله میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آجکل ایام مشعر اور حج ہیں ۔شاید خدا مجھے بھی ان کی دعاؤں میں شریک کرلے حضرت نے فرمایا جس جس دن تم نے روزہ رکھا ہے تجھے ہر روزے کے بدلے میں ، ایک سو غلام کو آزاد کرنے ، ایک سو اونٹیوں کی قربانی اور ایک سو گھوڑوں پر الله کی راہ میں بار اٹھانے کا ثواب ملے گا جب یوم ترویہ (آٹھ ذی الحجہ ) آئے گا تو پھر تجھے ایک روزے کے بدلے ہزار غلام آزاد کرنے ، ہزار اونٹوں کی قربانی اور ہزار گھوڑوں پر الله کی راہ میں باراٹھانے کا ثواب ملے گا اور عرفہ والے دن ایک روزے کے بدلے میں دو ہزار غلام آزاد کرنے ، دو ہزار اونٹوں کی قربانی اور دو ہزار گھوڑوں پر الله کی راہ میں بار اٹھانے کا ثواب عطا ہوگا نیز یہ تمھاری زندگی کی ابتدائی ساٹھ سال اور آخری ساٹھ سالہ گناہوں کا کفارہ بھی ہوگا۔
( ۲) حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں جو شخص ذی الحجہ کے پہلے عشرے میں پہلے دن روزہ رکھے گا تو الله تعالیٰ اسکے لئے اَسی( ۸۰) مہینے کے روزے لکھے گا اگر نو دن روزے رکھے گا تو الله اسکے لئے ایک زمانے کے روزوں کا ثواب لکھے گا۔
( ۳) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں روز ترویہ کا روزہ ایک سالہ گناہوں کا کفارہ ہے اور روز عرفہ کا روزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہوگا۔
عید غدیر کے روزے کا ثواب
( ۱) حسن بن راشد کہتا ہے میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کی میں آپ پر قربان جاؤں۔ آیا مسلمانوں کی دو عیدوں (فطر اور قربان) کے علاوہ بھی کوئی عید ہے ؟ فرمایا ، ہاں اے حسن وہ عید ان دونوں سے عظیم اور شرف والی ہے راوی کہتا ہے میں نے پوچھا وہ کس دن ہے ؟ فرمایا جس دن حضرت علی (علیہ السلام) کو لوگوں کا پیشوا بنایا گیا میں نے کہا میں آپ پر قربان جاؤں ، یہ کس دن ہے ؟ فرمایا دن گزرتے رہتے ہیں اور وہ اٹھارہ ذی الحجہ کا دن تھا میں نے کہا آپ پر قربان جاؤں اس دن ہماری کیا ذمہ داری ہے ؟ فرمایا اے حسن اس دن روزہ رکھو اور حضرت محمد اور انکی اہلبیت علیہم السلام پر کثرت سے درود بھیجو اور جن لوگوں نے ان پر ظلم کیا اور انکے حق کے منکر بنے، ان سے بیزاری اختیار کرو انبیاء اپنے و صیوں کو حکم دیا کرتے تھے ، جس دن وصی بنائے گئے ہو اس دن عید مناؤ میں نے عرض کی کہ ہم میں سے جو اس دن روزہ رکھے گا اسے کتنا ثواب ہوگا فرمایا اسے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب ملے گا اسی طرح ستائیس رجب کا روزہ بھی ترک نہ کرو اسی دن حضرت رسول خدا پیغمبری کیلئے مبعوث ہوئے اس دن کے روزے کا ثواب بھی ساٹھ ماہ کے روزوں کی مانند ہے ۔
( ۲) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کی کہ کیا مسلمانوں کی دو عیدوں اور جمعہ کے علاوہ بھی کوئی عید ہے ؟ فرمایا جی ہاں ان سے بڑی عید بھی ہے جس دن امیر المؤمنین (علیہ السلام) خلافت کیلئے معین ہوئے اور حضرت رسول خدا نے غدیر خم میں انکی ولایت کو خواتین و حضرات کی گردن پر رکھا اس دن بجالا یا جانے والا عمل اسی مہینوں کے عمل کے مساوی ہے اس دن (مسلمانوں کو ) چاہئے کہ کثرت سے ذکر خدا کریں اور حضرت رسول خدا پر بہت زیادہ درود و سلام بھیجیں اور اس دن انسان اپنے اہل و عیال کو زیادہ خرچہ دے۔
( ۳) حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ عید غدیر خم کا روزہ ساٹھ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
شوال و ذی قعدہ کے اعمال کا ثواب
شب عید مستحبی عبادت کا ثواب
(۱) راوی کہتا ہے کہ حضرت رسول خدا حضرت جبرائیل (علیہ السلام) سے اور وہ حضرت اسرافیل سے نقل کرتے ہیں کہ خداوند متعال نے فرمایا جو عید فطر کی رات دس رکعت نماز دو دو رکعت کرکے پڑھے اور ہر رکعت میں سورہ فاتحہ اور دس مرتبہ توحید کی تلاوت کرے اور سجدہ اور رکوع میں کہے
سُبحَانَ اللهِ وَالحَمدُللهِ ِ وَلاَاِلَهٰ اِلاَّ الله وَ الله اَکبَرپھر ہر دو رکعت کے بعد سلام پڑھے نماز کے بعد ہزار مرتبہ
اَستَغفِرُ الله َ وَ اَتُوبُ اِلَیهِکہے پھر سجدے میں جاکر کہے
یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ یَا ذَالجَلاَلِ وَ الاِکرَامِ یاَ رَحمٰنَ الدُّنیَا وَ الاَخِرَةِ وَرَحِیمَهُمَا یَا اَکرَمَ الاَکرَمِینَ یَا اَرحَمَ الرَّاحِمِین یَا اِلَهَ الَاوَّلِینَ والاخِرِینَ اِغفِرلِی ذُنُوبِی وَتَقَبَّل صَومِی وَصَلَاتِی وَقِیَامِی
مجھے اس ذات کی قسم جس نے مجھے بر حق نبی بنایاہے وہ سجدہ سے سر اٹھانے سے پہلے ہی معاف کر دیا جائے گا اسکا ماہ رمضان قبول ہوگا اسکے سب گناہ ختم ہوجائیں گے اگر چہ وہ ایسے ستر گناہوں کا مرتکب ہوا ہو جو تمام لوگوں کے گناہوں سے بڑھکر ہوں میں نے کہا اے جبرائیل کیا صرف اسی ایک شخص کا ماہ رمضان قبول ہوگا یا دنیا کے تمام لوگوں کا۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا اے محمد مجھے اس ذات کی قسم جس نے تجھے بر حق نبی مبعوث کیا اس شخص کی کرامت اور الله کے نزدیک عظیم منزلت کا تقاضا یہ ہے کہ اسکا اور دوسرے لوگوں کا ماہ رمضان قبول ہو نیز مشرق و مغرب کے درمیان رہنے والے توحید پرستوں کی نمازیں اور روزے قبول ہونگے انکے گناہ معاف ہونگے ، دعائیں مستجاب ہونگیں پھر کہا مجھے اس ذات کی قسم جس نے تجھے برحق نبی مبعوث کیا جو شخص بھی نماز پڑھے گا اور یہ استغفار کرے گا تو اسکی نماز ، روزہ اور قیام قبول کرے گا اسے معاف اور اسکی دعائیں مستجاب کرے گا کیونکہ الله تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے
اپنے پروردگار سے مغفرت چاہو اور گناہ سے توبہ کرو مزید فرمایا جو شخص نا مناسب کام کرتے ہیں یا خود پر ستم کرتے ہیں الله کو یاد کرو اپنے گناہوں سے مغفرت طلب کرو گناہ معاف کرنے والی ذات فقط پروردگار دو عالم ہے مزید فرمایا الله سے مغفرت چاہو بیشک الله بخشنے اور رحم کرنے والے ہے ایک اور جگہ فرمایا اس سے مغفرت چاہو
کیونکہ وہی توبہ قبول کرنے والا ہے یہ خاص طور پر میرے اور میری امت کے خواتین و حضرات کیلئے ہدیہ ہے یہ ہدیہ مجھ سے پہلے والے انبیاء اور غیر انبیاء میں سے کسی کو نہیں ملا ۔
( ۲) حضرت رسول خدا فرماتے ہیں جو شخص بھی عید کی رات چھ رکعت نماز ادا کریگا تو وہ اپنے تمام گھر والوں کی شفاعت کرسکے گا خواہ وہ لوگ پکے جہنمی ہی کیوں نہ ہوں میں نے عرض کی یا رسول الله گناہگاروں کی شفاعت کیوں قبول ہوگی ؟ فرمایا نیک لوگوں کو تو شفاعت کی ضرورت ہی نہیں ہے ، شفاعت تو ہرگناہگار کیلئے ہے۔
محمد بن حسین (شیخ صدوق مؤلف کتاب ) فرماتے ہیں ہر رکعت میں پانچ مرتبہ سورہ توحید کی تلاوت کی جائے ۔
عید فطر کی رات شب بیداری کا ثواب
( ۱) حضرت رسول خدا فرماتے ہیں
جو عید رات شب بیداری کریگا تو دلوں کے مرنے والے دن اسکا دل زندہ رہے گا ۔
( ۲) حضرت رسول خدا فرماتے ہیں
جو عید رات اور پندرہ شعبان کی رات جاگتا رہے گا تو دلوں کے مرنے والے دن اسکا دل نہیں مرے گا ۔
ماہ رمضان کے روزے کوصدقے کے ساتھ ختم کرنے اور باغسل مصلّے پر جانے کاثواب
( ۱) حضرت رسول خدا فرماتے ہیں ۔جو ماہ رمضان میں روزہ رکھے صدقہ دینے کیساتھ روزے کا اختتام کرے اور باغسل مصلّے پر جائے تو جب مصلّے سے اٹھے گا تو اسے معاف کردیا گیا ہوگا۔
عید فطر کو باجماعت نماز کے بعد چار رکعت نماز پڑھنے کا ثواب
( ۱) حضرت رسول خدا فرماتے ہیں۔
جو شخص عید کی با جماعت نماز پڑھنے کے بعد چار رکعت نماز پڑھے جسکی پہلی رکعت میں سورہ اعلیٰ پڑھے تو گویا اس نے الله کی نازل کی گئی تمام کتابوں کی تلاوت کی ہے اگر دوسری رکعت میں سورہ شمس پڑھے تو جس جس چیز پر سورج چمکتا ہے اسکی تعداد کے برابر اسے ثواب ملے گا اگر تیسری رکعت میں سورہ ضُحیٰ پڑھے تو اسے تمام مساکین کو کھانے کھلانے، انہیں خوشولگانے اور صاف ستھرا کرنے کا ثواب ملے گا اگر چوتھی رکعت میں دس مرتبہ سورہ توحید پڑھے تو خدا اسکے گذشتہ اور آنے والے پچاس سالوں کے گناہ معاف کردے گا ۔
جناب ابو جعفر محمد بن علی مؤلف کتاب کہتے ہیں یہ ثواب اس شخص کیلئے ہے جس نے تقیّہ کرتے ہوئے دوسرے مذہب کے پیش امام کی اقتداء میں نماز پڑھی ہو پھر ان چار رکعتوں کو عید کے عنوان سے پڑھے اور اس نماز کو شمار نہ کرے۔ اور اگر امام الله کی طرف سے نصب کردہ ہو جسکی اطاعت انسانوں پر واجب ہے یہ انکی اقتداء میں نما زعید پڑھے تو زوال تک کوئی اور نماز نہیں پڑھ سکتا اور اگر موافق مذہب پیش امام کے پیچھے نماز عید پڑھے (جسکی اطاعت واجب نہیں) تو اس صورت میں بھی زوال تک کسی نماز کے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اسے یہ معلوم ہونا چاہیئے نماز عیدین امام کی اقتداء میں ہی ادا ہو سکتی ہیں اگر کوئی تنہا (بغیر جماعت کے) عید نماز پڑھنا چاہتا ہے تو پڑھ سکتا ہے مندرجہ ذیل روایات اسکی تصدیق کرتی ہیں ۔
( ۱) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں جوشخص نماز عید (باجماعت) ادا نہیں کرسکا تو اس پر کوئی نماز اور قضا نہیں ہے ۔
( ۲) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں عید فطر اور قربان کی نماز فقط امام کی اقتداء میں ہے اگر کوئی تنہا پڑھنا چاہتا ہے تو کوئی حرج نہیں ۔
( ۳) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔
عید فطر اور قربان کی نماز فقط امام کی اقتداء میں ہے ۔
( ۴) راوی کہتاہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا کہ عید فطر اور قربان سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز ہے فرمایا۔
نہ پہلے ہے نہ بعد میں ۔
( ۵) راوی کہتاہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے عید فطر اور عید قربان کی نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب میں فرمایا۔ ان دونوں کیلئے اذان و اقامت نہیں ہے اور ان دو رکعتوں کے علاوہ پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں ۔
( ۶) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔
نماز عید فطرو قربان دو رکعت ہے اس سے پہلے اور بعد میں کوئی نماز نہیں ۔
( ۷) حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں۔
عید فطر اور قربان کی نماز کیلئے اذان و اقامت نہیں ہے ، ان کی اذان سورج کا طلوع ہونا ہے جونہی سورج طلوع کرے لوگ نماز کیلئے گھر سے نکلیں ان دونوں سے پہلے اور بعد کوئی نماز نہیں جو شخص امام کی اقتداء میں نماز نہ پڑھے اس پر کوئی اور نماز نہیں اور قضاء بھی واجب نہیں ہے ۔
پچیس ذیقعد کے روزے کا ثواب
( ۱) راوی کہتا ہے کہ جوانی کے عالم میں میں نے اپنے والد کیساتھ پچیس ذیقعد کی رات حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے پاس کھانا کھایا تو وھاں حضرت نے فرمایا۔
حضرت ابراہیم اور حضرت عیسیٰ بن مریم پچیس ذیقعد کی شب متولد ہوئے اور اسی رات کعبہ کے نیچے زمین بچھائی گئی اسکی ایک اورخصوصیت یہ بھی ہے کہ جسکا کسی نے تذکرہ نہیں کیا کہ جو اس دن روزہ رکھے گا گویا اس نے ساٹھ سال روزے رکھے ہیں۔
پانی سے روزہ افطار کرنے کا ثواب
( ۱) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں ۔
پانی سے روزہ افطار کرنا ، دل کے گناہ دھو ڈالتاہے ۔
ہر ماہ پہلی جمعرات ، درمیانی بدھ اور آخری جمعرات روزہ رکھنے کا ثواب
( ۱) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے سنا۔ حضرت رسول خدا کا طریقہ کار یہ تھا جب روزے رکھتے تو اتنے (زیادہ) رکھتے کہ لوگ کہتے آپ کبھی روزے ترک نہیں کرتے بعض اوقات کافی دیر روزے نہ رکھتے کہ لوگ کہتے آپ روزے ہی نہیں رکھتے ایک مدت بعد آپ اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لائے ایک دن چھوڑ کر روزے رکھتے پھر کچھ مدت بعد آپ ہر اتوار اور جمعرات کو روزہ رکھتے کچھ مدت بعد پھر طریقہ کا ر میں تبدیلی لائے ہر مہینے ، پہلی جمعرات ، درمیانی بدھ اور آخری جمعرات (تین دن) روزہ رکھتے اور فرماتے یہ ایک دھر اور زمانے کے برابر روزے ہیں حضرت فرماتے ہیں کہ میرے والد فرمایا کرتے تھے میرے نزدیک اس شخص سے بڑھکر کسی پر زیادہ غضب نہ ہوگا جو کہے کہ حضرت رسول خدا تو اس طرح اور اُس طرح کیا کرتے تھے لیکن خدا مجھے میری نماز میں سعی اور کوشش کی وجہ سے عذاب نہ دے گا گویا وہ کہناچاہتا ہے کہ نا توانی اور عاجزی کی وجہ سے حضرت کوئی فضیلت ترک کر بیٹھے ہیں (تبھی نماز کے علاوہ اور نیک کام بھی کرتے ہیں )۔
( ۲) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ حضرت امیر المؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا ماہ صبر (رمضان) اور ہر مہینے کے تین روزے سینے میں پیدا ہونے والے وسوسے دور کرتے ہیں ہر مہینے کے تین روزے تو پورے زمانے کے روزے ہیں الله اپنی کتاب میں فرماتا ہے جو ایک نیکی انجام دے گا اسے دس برابر ثواب ملے گا
( ۳) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) سے پوچھا کس طرح ایک ماہ کے روزوں کا ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے فرمایا ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کیساتھ۔ کیونکہ الله تعالیٰ کا فرمان ہے جو ایک نیکی انجام دے گا اسے دس برابر ثواب ملے گا مہینے میں تین روزے ایک دھر اور زمانے کے روزے ہیں ۔
( ۴) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول خداسے دو جمعراتوں اور انکے درمیانی بدھ کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا جہاں تک جمعرات کا تعلق ہے اس دن اعمال پیش ہوتے ہیں اور بدھ اس لحاظ سے کہ اس دن جہنم خلق کی گئی اس دن کا روزہ جہنم کی ڈھا ل ہے ۔
( ۵) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے بدھ کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا آپ نے فرمایا حضرت علی(علیہ السلام) فرمایا کرتے تھے الله تعالیٰ نے جہنم بدھ والے دن خلق کی ۔وہ اس دن کے روزے کو محبوب جانتا ہے تاکہ لوگ جہنم کی آگ سے پناہ مانگیں ۔
( ۶) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے یہ روایت سنی ہے کہ حضرت رسول خدا اتنے روزے رکھتے کہ لوگ کہتے آپ کبھی روزہ ترک نہیں کرتے ، اور کبھی اِتنی مدت نہ رکھتے کہ لوگ
کہتے آپ روزے نہیں رکھتے پھر آپ حضرت داود (علیہ السلام) کی طرح ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہ رکھتے جب آپ کی وفات ہوئی تو ( ہر ماہ میں رکھے جانیوالے تین روزوں میں سے ایک ) روزے میں تھے فرمایا یہ زمانے کے برابر ہیں اس سے سینے میں پیدا ہونے والا وسوسہ جاتا رہتا ہے راوی کہتا ہے میں نے کہا میں آپ پر قربان جاؤں یہ کونسے دن ہیں ؟ فرمایا ہر مہینے کی پہلی جمعرات پہلے عشرے کے بعدو الا بدھ ، اور آخری جمعرات میں نے کہا ان ایام میں کیوں ہیں ؟ فرمایا ہم سے پہلے والی امتوں پر ان ایام میں عذاب نازل ہوتا تھا۔لہذا حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان ایام میں روزہ رکھتے بہر حال یہ ایام خوف ہیں ۔
( ۷) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا بدھ کا روزہ کیوں ہے ؟ فرمایا کیونکہ جہنم بدھ والے دن خلق کی گئی تھی ۔
( ۸) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا روزے میں سنت کیا ہے ؟ فرمایا ہر ماہ تین دن (پہلے عشرے کی جمعرات ، دوسرے عشرے کا بدھ اور تیسرے عشرے کی جمعرات) راوی کہتاہے میں نے عرض کی کیا یہ سنت روزے کے متعلق ہے ؟ فرمایا جی ہاں۔
( ۹) راوی کہتا ہے کہ میں حضرت امام باقر (علیہ السلام) یا حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں عرض گزار ہوا ! کیا ہر مہینے کے تین روزوں کو میں گرمیوں کے بجائے سردیوں تک مؤخر کر سکتا ہوں کیونکہ ، اسمیں مجھے آسانی دیکھائی دیتی ہے فرمایا جی ہاں لیکن اسکی تعداد فراموش نہ کرنا۔
( ۱۰) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق کی خدمت عرض کی ، مولا گرمیوں میں روزہ رکھنا ، میرے لئے مشکل ہے کیونکہ مجھے سردرد کی شکایت ہونے لگتی ہے فرمایا جو میں کرتا ہوں تم بھی کرو میں جب مسافرت پر جاتا ہوں تو ایک مُد(تین کلو) غذا اپنے گھر والوں کو صدقہ کیلئے دیکر جاتا ہوں۔
روزے کے بدلے ایک درہم صدقے کا ثواب
( ۱) راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے پوچھا کہ ہر مہینے تین روزے رکھنا میرے لئے مشکل ہیں اگر میں ہر روزے کے بدلے ایک درہم صدقہ دے دوں تو کیا یہ کافی ہے؟ فرمایا ایک درہم صدقہ ایک دن کے روزے سے بہتر ہے ۔
کسی مؤمن بھائی کے گھر روزہ افطار کرنے کا ثواب
( ۱) راوی کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے فرماتے ہوئے سنا کہ
مؤمن بھائی کے گھر روزہ افطار کرنا تیرے روزے کے مقابلے میں ستر یا نوے گنا (زیادہ ثواب رکھتا) ہے۔
( ۲) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) جو روزے کی حالت میں کسی مومن بھائی کے گھر جائے اور اس کے پاس افطاری کرے اور ا پنے روزے کے متعلق نہ بتائے تاکہ اس پر احسان ہو۔ اور خدا اسکے لئے ایک سال کے روزے کا ثواب لکھے گا۔