الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 417
مشاہدے: 201360
ڈاؤنلوڈ: 5817

تبصرے:

جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201360 / ڈاؤنلوڈ: 5817
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بارے میں اور اقوال بھی ہیں_ اس وفد کی قیادت حضرت جعفر بن ابوطالبعليه‌السلام کر رہے تھے_(۱)

ان لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد الحرام میں پایا_ انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتگو کی اور سوالات کئے _اس وقت قریش کے کچھ حضرات کعبہ کے گرد محفل جمائے بیٹھے تھے_ پھر جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ان کو اسلام کی دعوت دی تو وہ ایمان لے آئے_ اس کے بعد جب یہ لوگ کھڑے ہوگئے تو ابوجہل نے انہیں روکا اور اپنا دین چھوڑنے پر انہیں خوب برا بھلا کہا لیکن انہوں نے جواباً کہا سلام علیکم ،ہم تمہاری نادانی کا جواب نادانی سے نہیں دیں گے_ ہمارے لئے ہمارا راستہ مبارک ہو اور تمہارے لئے تمہارا، ہم کسی امر کو اپنے لئے سودمند پائیں تو اس میں کوتاہی نہیں کرتے ،اس وقت آیت نازل ہوئی_( الذین آتیناهم الکتاب من قبله هم به یؤمنون واذا سمعو اللغو اعرضوا عنه وقالوا لنا اعمالنا ولکم اعمالکم سلام علیکم لانبتغی الجاهلین ) (۲) یعنی جن لوگوں کو ہم نے اس سے قبل کتاب دی وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جب وہ فضول گوئی سنتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے اپنے اعمال_ پس تم پر ہمارا سلام کہ ہم جاہلوں کی صحبت پسند نہیں کرتے_

یہ واقعہ واضح طور پر قریش کی ہٹ دھرمی، ان کے اہداف اور منصوبوں پر ایک کاری ضرب تھا خاص کر اس وجہ سے کہ وہ وفد حبشہ سے آیا تھا اور وہ بھی حضرت جعفرعليه‌السلام کی قیادت میں _اس کا مطلب یہ تھا کہ قریش کی دسترس سے خارج سرزمینوں میں بھی اسلام نے لوگوں کے دلوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا تھا_

نیز یہ واقعہ قریش کیلئے خطرے کی گھنٹی تھا تاکہ وہ پانی کے سر سے گزر جانے سے پہلے اٹھ کھڑے ہوں لیکن کیسے اور کیونکر؟ جبکہ حضرت ابوطالب کی سرکردگی میں بنی ہاشم اور بنی مطلب حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت و حمایت پر کمربستہ تھے _بنابریں ان کے پاس ایک ہی راستہ تھا اور وہ تھا مناسب وقت کا انتظار_

___________________

۱_ فقہ السیرة ص ۱۲۶میں بوطی نے یہی کہا ہے نیز مجمع البیان ج ۷ ص ۲۸۵ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت جعفرعليه‌السلام فتح خیبر کے سال آخری بار وہاں سے لوٹے تو یہ لوگ بھی انکے ساتھ آئے_

۲_ سورہ قصص، آیت ۵۲ تا ۵۵، حدیث کیلئے سیرہ ابن ہشام ج ۲ص ۳۲اور ان آیات کی تفسیر میں ابن کثیر، قرطبی اور نیشاپوری کی تفاسیر کی طرف رجوع کریں_ نیز البدایة و النہایة ج ۳ص ۸۲_

۱۶۱

جناب ابوطالبعليه‌السلام کی پالیسیاں

شیخ الابطح ابوطالب کی ذات وہ ذات تھی جس نے اپنی زبان اور ہاتھ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی حمایت و نصرت اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بچپن سے لیکر اب تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگرانی کی تھی_ حضرت ابوطالبعليه‌السلام نے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت و نصرت اور تبلیغ دین کے دائرے کو وسعت دینے کیلئے زبردست مصائب اور عظیم مشکلات کا مقابلہ کیا_

یہی حضرت ابوطالب تھے جو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی تمام اولاد پر ترجیح دیتے تھے_ جب بُصری (شام) میں ایک یہودی بحیرا نے انہیں خبر دی کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہودیوں سے خطرہ ہے تو وہ انہیں بنفس نفیس مکہ واپس لے آئے _یہ حضرت ابوطالب ہی تھے جو قریش کی عداوت مول لینے، بھوک اور فقر کو جھیلنے ،نیز معاشرتی بائیکاٹ کا مقابلہ کرنے کیلئے آمادہ ہوئے_ انہوں نے شعب ابوطالب میں بچوں کو بھوک سے بلبلاتے دیکھا ،بلکہ درختوں کے پتے کھانے پر بھی مجبورہوئے _انہوں نے صاف صاف بتادیا تھا کہ وہ(ہر خشک و تر کو برباد کردینے والی) ایک تباہ کن جنگ کیلئے تو تیار ہیں لیکن حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کفار کے حوالے کرنے یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تبلیغ دین سے روکنے یا کم ازکم تبلیغ چھوڑنے کا مطالبہ تک کرنے کیلئے آمادہ نہیں _یہ حضرت ابوطالبعليه‌السلام ہی تھے جنہوں نے قریش کے فرعون اور ظالم سرداروں سے ٹکرلی_

جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے سر پرقریش نے اونٹ کی اوجھڑی ڈالی تھی تو انہوں نے تلوار سونت لی اور حضرت حمزہ کو حکم دیا کہ اسے ہٹائیں پھر قریش کی طرف بڑھے انہوں نے جناب ابوطالبعليه‌السلام کے چہرے پرخطرے کی علامات دیکھیں_ پھر انہوں نے حمزہ کو حکم دیا کہ وہ اس گندگی کو ان کے چہروں اور داڑھیوں پر ایک ایک کر کے مل دیں چنانچہ حضرت حمزہ نے ایسا ہی کیا_(۱)

ایک اور روایت کے مطابق حضرت ابوطالب نے اپنے افراد کو بلایا اور ان کو مسلح ہونے کا حکم دیا جب مشرکین نے انہیں دیکھا تو وہاں سے کھسکنے کا ارادہ کیا_ انہوں نے ان سے کہا کعبہ کی قسم تم میں سے جو بھی اٹھے گا تلوار سے اس کی خبر لوں گا _اس کے بعد نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بے ادبی کرنے والے کی ناک پر مار کر اسے

___________________

۱_ الکافی مطبوعہ مکتبة الصدوق ج۱ ص ۴۴۹ ، منیة الراغب ص ۷۵ ، السیرة الحلبیة ج۱ ص ۲۹۱ و ۲۹۲ والسیرة النبویہ (دحلان، مطبوع حاشیہ سیرہ حلبیہ ) ج۱ ص ۲۰۲ و ۲۰۸ و ۲۳۱ اور بحار الانوار ج ۱۸ ص ۲۰۹_

۱۶۲

خون آلود کردیا _(یہ شخص ابن زبعری تھا )_نیز اوجھڑی کی گندگی اور خون کو ان سب کی داڑھیوں پر مل دیا_(۱)

ادھر شعب ابوطالب میں بھی وہی تھے جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی بنفس نفیس حفاظت کرتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے تھے اور اپنے نور چشم علیعليه‌السلام کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی جگہ سلاتے تھے تاکہ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم محفوظ رہیں،چاہے علیعليه‌السلام کو گزند پہنچے(۲) _وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا دفاع کرنے کیلئے قریش کے ساتھ کبھی نرمی اور کبھی سختی برتتے تھے نیز جذبات کو زندہ کرنے مصائب کو دور کرنے خداکے نام کو سربلند کرنے اس کے دین کو پھیلانے اور مسلمانوں کی حمایت کرنے کیلئے سیاسی اشعار بھی کہتے تھے_

ایک دفعہ انہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو کہیں نہ پایا تو بنی ہاشم کو جمع کر کے مسلح کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ ان میں سے ہر ایک کو قریش کے ایک ایک سرغنہ کے پاس بھیجیں تاکہ اگر یہ ثابت ہو کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کچھ ہوا ہے تو یہ افراد ان کا کام تمام کردیں_(۳) انہوں نے یہ سب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت، اسلام کی حمایت اور دین کی سربلندی کیلئے کیا_

واضح ہے کہ حضرت ابوطالبعليه‌السلام کے جملہ کارناموں اور آپ کی عظیم قربانیوں کو بیان کرنے کیلئے طویل وقت اور مستقل کام کی ضرورت ہے _یہاں تو ہم اجمالی اشارے پرہی اکتفا کرتے ہیں لیکن یہ اعتراف کرتے ہیں، کہ ہم ان کا حق ادا نہیں کرسکے_ اس اختصار کی غرض یہ ہے کہ سیرت نبویہ کے دیگر پہلوؤں پر بھی بحث کا موقع مل سکے_

___________________

۱_ ملاحظہ ہو: الغدیر ج۷ ص ۳۸۸ و ۳۵۹ و ج ۸ ص ۳ تا ۴ اور ابوطالب مؤمن قریش ص ۷۳ (دونوں کتابوں میں کئی منابع سے ماخوذ ہے) ثمرات الاوراق ص ۲۸۵ و ۲۸۶ ، نزھة المجالس ج ۲ ص ۱۲۲ ، الجامع لاحکام القرآن ج۶ ص ۴۰۵ و ۴۰۶ اور تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۲۴ و ۲۵_

۲ _ المناقب ابن شہر آشوب ج ۱ ص ۶۴و ۶۵ ،ا سنی المطالب ص ۲۱ ( اس نے علیعليه‌السلام کا نام ذکر نہیں کیا ) اسی طرح سیرہ حلبیہ ج۱ ص ۳۴۲ اور ملاحظہ ہو: البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۸۴، السیرة النبویہ ( ابن کثیر ) ج ۲ ص ۴۴ ، دلائل النبوة ( بیہقی) مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ج۲ ص ۳۱۲ ، تاریخ الاسلام ج ۲ ص ۱۴۰ و ۱۴۱ ، الغدیر ج۷ ص ۳۶۳ و ۳۵۷ و ج۸ ص ۳ و ۴ اور ابوطالب مؤمن قریش ص ۱۹۴_

۳ _ تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۲۶ ، ابوطالب مؤمن قریش ص ۱۷۱ ، منیة الراغب ص ۷۵ و ۷۶ اور الغدیر ج ۲ ص ۴۹ و ۳۵۰ و ۳۵۱_

۱۶۳

ابوطالبعليه‌السلام کی قربانیاں

مذکورہ بالا معروضات سے معلوم ہوا کہ شیخ الابطح حضرت ابوطالبعليه‌السلام آمادہ تھے کہ:

۱) اپنی قوم کے درمیان حاصل مقام و مرتبے کو خیرباد کہہ کر اہل مکہ بلکہ پوری دنیا کی دشمنی مول لیں، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے حامیوں کے ہمراہ معاشرتی بائیکاٹ کو برداشت کیا لیکن کسی قسم کے دباؤ میں نہ آئے_

۲) نہ صرف فقر وفاقے اور معاشی بائیکاٹ برداشت کرنے پر راضی ہوں بلکہ اپنے پاس موجود دولت اور ہر چیز راہ خدا میں پیش کردیں_

۳)بوقت ضرورت ایک تباہ کن جنگ میں کود پڑیں جو بنی ہاشم اور ان کے دشمنوں کی بربادی پر منتج ہوسکتی تھی

۴) انہوں نے سب سے چھوٹے نور چشم حضرت علیعليه‌السلام کو راہ خدا میں قربانی کیلئے پیش کیا، اور دوسرے بیٹے حضرت جعفرعليه‌السلام جنہوں نے حبشہ کو ہجرت کی تھی کی جدائی کا صدمہ برداشت کرلیا_

۵) حضرت ابوطالبعليه‌السلام اپنی زبان اور ہاتھ دونوں سے مصروف جہاد رہے اور ہر قسم کے مادی ومعنوی وسائل کو استعمال کرنے سے دریغ نہ کیا _ہر قسم کی تکالیف و مشکلات سے بے پروا ہوکر حتی المقدور دین محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت و حمایت میں مصروف رہے_ یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوطالب نے جو کچھ کیا وہ ممکن ہے جذبات یا نسلی و خاندانی تعصب کا نتیجہ ہو یا بالفاظ دیگر آپ کی فطری محبت کا تقاضا ہو؟_(۱)

لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کیونکہ ایک طرف حضرت ابوطالبعليه‌السلام کے ایمان پر قطعی دلائل خاص کر ان کے اشعار و غیرہ اور حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم اور دیگر ائمہ کی ان کے متعلق احادیث موجود ہیں اور دوسری طرف جس طرح حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے بھتیجے تھے اس طرح حضرت علیعليه‌السلام ان کے بیٹے تھے اگر رشتہ داری کا جذبہ کارفرما ہوتا تو وہ کیونکر بیٹے کو بھتیجے پر قربان کرتے؟ وہ بھی اپنی مرضی سے نیز اس کے انجام کے بارے میں غوروفکر اور تا مل و تدبر کے بعد؟ انہیں بھتیجے کی بجائے بیٹے کا قتل ہوجانا کیونکر منظور ہوا؟ کیا یہ معقول ہے

___________________

۱_ تفسیر ابن کثیر ج ۳ص ۳۹۴ _

۱۶۴

کہ اپنے بیٹے اور جگر گوشے کے مقابلے میں بھتیجے کی محبت فطری طور پر بیشتر ہو؟

اسی طرح اگر قومی یا خاندانی تعصب کارفرما ہوتا تو پھر ابولہب لعنة اللہ علیہ نے اس جذبے کے تحت وہ موقف کیوں اختیارنہیں کیا جو حضرت ابوطالب نے اختیار کیا اور حضرت ابوطالب کی طرح رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی حمایت کیوں نہیں کی؟ نیز اپنے بیٹے، اپنی حیثیت اور دیگر چیزوں کی قربانی کیوں نہیں پیش کی؟ بلکہ ہم نے تو اس کے برعکس دیکھا کہ ابولہب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سخت ترین دشمن، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت میں پیش پیش اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت دینے میں سب سے آگے تھا_

رہے بنی ہاشم کے دیگر افراد تو اگرچہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ساتھ شعب ابوطالب میں داخل ہوئے لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیلئے انکی قربانیاں ابوطالب کی قربانیوں کا دسواں حصہ بھی نہ تھیں_ نیز ان کا یہ اقدام بھی حضرت ابوطالب کے اثر و نفوذ اور اصرار کا مرہون منت تھا_

یوں واضح ہوا کہ مرد مسلمان کا دینی جذبہ قومی یا خاندانی جذبات کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوتا ہے_ اسی لئے ہم تاریخ میں بعض مسلمانوں کو واضح طور پر یہ کہتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ وہ راہ خدا میں اپنے آباء اور اولاد کو قتل کرنے کیلئے بھی تیار ہیں_ چنانچہ عبداللہ بن عبداللہ بن ابی نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے اپنے باپ (عبداللہ بن ابی) کو قتل کرنے کی اجازت مانگی(۱) _ نیز جنگ صفین میں بھائی نے بھائی کو نہ چھوڑا جب تک کہ امیرالمؤمنینعليه‌السلام نے چھوڑنے کی اجازت نہ دی(۲) _ان کے علاوہ بھی تاریخ اسلام میں متعدد مثالیں ملتی ہیں_

ان باتوں سے قطع نظر اس بات کی طرف اشارہ بھی ضروری ہے کہ اگر حضرت ابوطالب کا موقف دنیوی اغراض پر مبنی ہوتا تو اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی بجائے بھتیجے کو قربان کرتے _نیز بھتیجے کو اپنے خاندان پر قربان کرتے _نہ کہ خاندان کو ایک بھتیجے پر _کیونکہ دنیا کا معقول طریقہ یہی ہوتاہے جیساکہ خلیفہ مامون نے اپنے بھائی امین کو قتل کیا اور ام ہادی نے اپنے بیٹے کو زہر دیا _لیکن حضرت ابوطالب نے تو ہر چیز کو بھتیجے پر قربان کردیا اور یہ دنیوی مفادات کے حصول کا منطقی اور معقول طریقہ ہرگز نہیں ہوسکتا_

___________________

۱_ تفسیر صافی ج۵ ص ۱۸۰ ، السیرة الحلبیہ ج۲ ص ۶۴ ، الدرالمنثور ج۶ ،ص ۲۴ از عبد بن حمید و ابن منذر اور الاصابہ ج۲ ص ۳۳۶_

۲_ صفین (المنقری) ص ۲۷۱ و ۲۷۲_

۱۶۵

اسی طرح اگر بات قبائلی تعصب کی ہوتی تو اس تعصب کا اثر قبیلے کے مفادات کے دائرے میں ہوتا_ لیکن اگر یہی تعصب اس قبیلے کی بربادی نیز اس کے مفادات یا مستقبل کو خطرات میں جھونکنے اور تباہ کرنے کا باعث بنتا تو پھر اس تعصب کی کوئی گنجائشے نہ ہوتی اور نہ عقلاء کے نزدیک اس کا کوئی نتیجہ ہوتا_

مختصر یہ کہ ہم حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی مذکورہ پالیسیوں اور حکمت عملی کے بارے میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ پالیسیاں عقیدے اور ایمان راسخ کی بنیادوں پر استوار تھیں جن کے باعث انسان کے اندر قربانی اور فداکاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے_

خدا کا سلام ہو آپپر اے ابوطالبعليه‌السلام اے عظیم انسانوں کے باپ اے حق اور دین کی راہ میں قربانی پیش کرنے والے کاروان کے سالار خدا کی رحمتیں اور برکتیں آپ پر نازل ہوں_

عام الحزن

بعثت کے دسویں سال بطل جلیل حضرت ابوطالب علیہ الصلاة والسلام کی رحلت ہوئی_ آپ کی وفات سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اپنے اس مضبوط، وفادار اور باعظمت حامی سے محروم ہوگئے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دین کا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشن کا ناصر و محافظ تھا (جیساکہ پہلے عرض کرچکے ہیں)_

اس حادثے کے مختصر عرصے بعد بقولے تین دن بعد اور ایک قول کے مطابق ایک ماہ(۱) بعدام المؤمنین حضرت خدیجہ (صلوات اللہ وسلامہ علیہا) نے بھی جنت کی راہ لی_ وہ مرتبے کے لحاظ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی ازواج میں سب سے افضل ہیں_

نیز آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ اخلاقی برتاؤ اور سیرت کے حوالے سے سب سے زیادہ باکمال تھیں_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی ایک بیوی( حضرت عائشےہ) ان سے بہت حسد کرتی تھیں حالانکہ اس نے حضرت خدیجہعليه‌السلام کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھر میں زندگی نہیں گزاری تھی کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت خدیجہ کی رحلت کے بہت عرصہ بعد

___________________

۱_ السیرة الحلبیہ ج۱ ص ۳۴۶ ، السیرة النبویہ ( ابن کثیر) ج ۲ ص ۱۳۲ ، البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۱۲۷ اورا لتنبیہ و الاشراف ص ۲۰۰_

۱۶۶

اس سے شادی کی تھی_(۱)

دین اسلام کی راہ میں حضرت ابوطالبعليه‌السلام اور حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی عظیم خدمات کا اندازہ اس حقیقت سے ہوسکتا ہے کہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان دونوں کی وفات کے سال کو عام الحزن کا نام دیا(۲) یعنی غم واندوہ کا سال_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان دونوں سے جدائی کو پوری امت کیلئے مصیبت اور سانحہ قرار دیا_

چنانچہ فرمایا:'' اس امت پر دو مصیبتیں باہم ٹوٹ پڑیں اور میں فیصلہ نہیں کرسکتا ان میں سے کونسی مصیبت میرے لئے دوسری مصیبت کے مقابلے میں زیادہ سخت تھی''(۳) _ یہ بات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان دونوں کی جدائی کے غم سے متا ثر ہوکر فرمائی_

محبت وعداوت، دونوں خداکی رضاکیلئے

واضح ہے کہ ان دونوں ہستیوں سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت اور ان دونوں کی جدائی میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حزن وغم نہ ذاتی مفادات ومصالح کے پیش نظر تھا اور نہ ہی خاندانی محبت وجذبے کی بنا پر بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت فقط اور فقط رضائے الہی کیلئے تھی_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی بھی شخص کو اتنی ہی اہمیت دیتے ،اس کی جدائی میں اتنے ہی غمگین ہوتے اور اس سے اسی قدر روحانی و جذباتی لگاؤ رکھتے جس قدر اس شخص کا رابطہ خدا سے ہوتا ،جس قدر وہ اللہ سے نزدیک اور اس کی راہ میں فداکاری کے جذبے کا حامل ہوتا_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت ابوطالبعليه‌السلام اور حضرت خدیجہعليه‌السلام کیلئے اس وجہ سے غمگین نہ ہوئے تھے کہ خدیجہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ تھیں یا ابوطالب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا تھے وگرنہ ابولہب بھی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چچا تھا _بلکہ وجہ یہ تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان

___________________

۱_ البدایہ والنہایہ (ابن کثیر) ج ۳ ص ۱۲۷ و ۱۲۸ ، السیرة النبویہ(ابن کثیر) ج ۲ ص ۱۳۳ تا ۱۳۵ ، صحیح بخاری ج ۲ ص ۲۰۲ ، عائشہ (عسکری) ص ۴۶ اور اس کے بعد اور اس کے بعض منابع ہم نے آنے والی فصل '' بیعت عقبہ تک '' میں عائشہ کے حسن و جمال کے ذکر میں بیان کیا ہے_

۲_ سیرت مغلطای ص ۲۶، تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۰۱ ، المواہب اللدنیہ ج ۱ ص ۵۶ ، السیرة النبویہ (دحلان ) ج ۱ ص ۱۳۹ ص ۲۱ مطبوعہ دار المعرفہ اور اسنی المطالب ص ۲۱_

۳_تاریخ یعقوبی ج ۲ص ۳۵ _

۱۶۷

دونوں کی قوت ایمانی، دین میں پائیداری اور اسلام کی راہ میں فداکاری کو محسوس کرلیا تھا_ اور یہی تو اسلام کا بنیادی اصول ہے جس کی خدانے یوں نشاندہی کی ہے( لاتجد قوماً یومنون بالله و الیوم الآخر یوادون من حاد الله و رسوله و لو کانوا آبائهم او ابنائهم او اخوانهم او عشیرتهم ) (۱) یعنی جولوگ اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مخالفین سے محبت کرتے ہوئے نہیں پائیں گے خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں_ کیا شرک سے زیادہ کوئی دشمنی اللہ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ہوسکتی ہے؟ وہی شرک جس کے بارے میں خدانے فرمایا ہے:( ان الشرک لظلم عظیم ) یعنی شرک سب سے بڑا ظلم ہے_

نیز فرمایا ہے:( ان الله لایغفر ان یشرک به و یغفر ما دون ذلک ) یعنی یہ کہ خدا شرک کے علاوہ دیگر گناہوں کو معاف کردیتا ہے_

خداکی رضا کیلئے محبت کرنے اور اس کی رضا کیلئے بغض رکھنے کے بارے میں آیات و احادیث حد سے زیادہ ہیں اور ان کے ذکر کی گنجائشے نہیں_ اسی معیار کے پیش نظر خداوند تعالی نے حضرت نوحعليه‌السلام سے انکے بیٹے کے متعلق فرمایا:( انه لیس من اهلک انه عمل غیرصالح ) (۲) یعنی اس کا تیرے گھرانے سے کوئی تعلق نہیں ہے اسکا تو غیرصالح عمل ہے_ اسی طرح حضرت ابراہیمعليه‌السلام کا قول قرآن مجید میں ہے کہ( من تبعنی فانه منی ) (۳) جو میری پیروی کرے گا وہ میرے خاندان سے ہوگا_

نیز اسی بنا پر سلمان فارسی کا شمار اہلبیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ہوا_

ابوفراس کہتا ہے:

کانت مودة سلمان لهم رحما

ولم تکن بین نوح و ابنه رحم

یعنی اہلبیت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے باعث سلمان ان کے گھرانے کا ایک فرد بن گیا جبکہ اس کے برعکس نوحعليه‌السلام اور ان کے بیٹے کے درمیان قرابت نہیں رہی_

___________________

۱_ سورہ مجادلہ، آیت ۲۲ _ ۲_ سورہ ہود آیت ۴۶_ ۳_ سورہ ابراہیم آیت ۳۶_

۱۶۸

پانچویں فصل

ابوطالبعليه‌السلام مؤمن قریش

۱۶۹

ایمان ابوطالبعليه‌السلام

آخر میں ایک ایسے موضوع پر اختصار کے ساتھ گفتگو کرنا ضروری خیال کرتا ہوں جس پر مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ اختلاف رہا ہے_

اہلبیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے شیعہ حضرت ابوطالبعليه‌السلام کے مومن ہونے پر متفق الخیال ہیں_(۱) یہ بھی مروی ہے کہ وہ اوصیاء میں سے تھے(۲) اور ان کا نور قیامت کے دن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آئمہعليه‌السلام اور حضرت فاطمہعليه‌السلام زہرا کے نورکے سوا ہر نور پر غالب ہوگا(۳) _

اگرچہ ہمیں ان احادیث کی صحت پر اطمینان حاصل نہیں لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی رسالت پر حضرت ابوطالبعليه‌السلام کا ایمان نیز خدا کے اوامر ونواہی کے آگے ان کا سر تسلیم خم رہنا روز روشن کی طرح واضح ہے_

اہلبیت معصومینعليه‌السلام سے منقول بہت ساری احادیث آپ کے ایمان پر دلالت کرتی ہیں_ علماء نے ان احادیث کو الگ کتابوں کی شکل میں جمع کیا ہے_ تازہ ترین کتابوں میں سے ایک جناب شیخ طبسی کی کتاب ''منیة الراغب فی ایمان ابیطالب'' ہے_ واضح ہے گھر والے دوسروں کے مقابلے میں گھر کے اسرار کو زیادہ جانتے ہیںاورابن اثیر کہتے ہیں کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچاؤں میں حضرت حمزہ، حضرت عباس اور (اہل بیتعليه‌السلام کے بقول)حضر ت ابوطالبعليه‌السلام کے سوا کسی نے اسلام قبول نہ کیا تھا_(۴)

___________________

۱_ روضة الواعظین ص ۱۳۸، اوائل المقالات ص ۱۳، الطرائف از ابن طاؤس ص ۲۹۸، شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۴ص ۱۶۵، بحارالانوار ج ۳۵ص ۱۳۸، الغدیر ج ۷ص ۳۸۴کتب مذکورہ سے، التبیان ج ۲ص ۳۹۸، الحجة از ابن معد ص ۱۳اور مجمع البیان ج ۲ص ۲۸۷ _

۲_ الغدیر ج ۷ ص ۳۸۹_

۳_ الغدیر ج۷ ص ۳۸۷ کئی ایک منابع سے_

۴_ بحارالانوار ج ۳ص ۱۳۹اور الغدیر ج ۷ ص ۳۶۹_

۱۷۰

ان باتوں کے علاوہ بھی ان کے مومن ہونے پر بہت سارے دلائل موجود ہیں _ان کے ایمان کے اثبات میں شیعوں اور سنیوں دونوں کی طرف سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں _کچھ حضرات نے ان کتابوں کی تعداد تیس تک بتائی ہے_ان کتابوں میں سے ایک استاد عبداللہ الخنیزی کی کتاب (ابوطالب مومن قریش) ہے_ اس کتاب کو لکھنے کے جرم میں قریب تھا کہ وہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے _کیونکہ سعودی عرب کے وہابی، اس کتاب کی تالیف کے جرم میں ان کے پروانہ قتل کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری میں تھے لیکن خدانے اپنی رحمت سے انہیں نوازا _یوں وہ ان کے شرسے نجات پاگئے_

یہ ان متعددابحاث کے علاوہ ہیں جو مختلف چھوٹی بڑی کتابوں میں بکھری ہوئی ہیں_ یہاں ہم علامہ امینی کی کتاب الغدیر کی جلد ۷ اور ۸میں مذکور بیان کے تذکرے پر اکتفا کریں گے_

علامہ امینی رحمة اللہ علیہ نے اہل سنت کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے کہ وہ بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور ان میں سے کئی حضرات نے اس بات کے اثبات میں کتابیں لکھی اور بحثیں کی ہیں_ مثال کے طور پر برزنجی نے اسنی المطالب (ص ۶_ ۱۰) میں، الاجھوری، اسکافی، ابوالقاسم بلخی اور ابن وحشی نے شہاب الاخبار کی شرح میں، تلمسانی نے حاشیہ شفاء میں، شعرانی، سبط ابن جوزی، قرطبی، سبکی، ابوطاہر اور سیوطی وغیرہ نے اس مسئلے پر بحث کی ہے_ بلکہ ابن وحشی، الاجہوری اور تلمسانی وغیرہ نے تو یہ فیصلہ دیا ہے کہ جو حضرت ابوطالب سے کینہ رکھے وہ کافر ہے اور جو ان کا ذکر برائی کے ساتھ کرے وہ بھی کافر ہے_(۱)

ایمان ابوطالبعليه‌السلام پر دلائل

حضرت ابوطالب کو مومن ماننے والوں نے کئی ایک امور سے استدلال کیا ہے مثلا:

۱) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور آئمہ معصومینعليه‌السلام سے منقول وہ احادیث جو ایمان ابوطالبعليه‌السلام پر دلالت کرتی ہیں اور واضح ہے کہ اس قسم کے امور میں یہی ہستیاں تمام دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ باخبر ہیں _

___________________

۱_ رجوع کریں: الغدیر ج ۷ص ۳۸۲اور ۳۸۳اور دوسری کتب_

۱۷۱

۲)جیساکہ گذر چکا ہے کہ ان کی جانب سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی حمایت و نصرت اور عظیم مشکلات و مصائب میں ان کی استقامت، اپنی معاشرتی حیثیت و مقام کی قربانی یہاں تک کہ اپنے بیٹے کو بھی قربانی کیلئے پیش کرنا اور ایک ایسی جنگ کیلئے ان کی آمادگی جو ہر خشک و تر کو نابود کردے_ یہ سب باتیں دلالت کرتی ہیں کہ اگر وہ نعوذ باللہ کافر ہوتے تو کیونکر ان سب باتوں کو برداشت کرتے؟ کیا وجہ ہے کہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت میں حضرت ابوطالبعليه‌السلام کو جن مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ان کے بارے میں ہم حضرت ابوطالب سے ملامت و توبیخ کا ایک لفظ بھی نہیں سن پاتے_

رہا یہ احتمال کہ حضرت ابوطالب مزید جاہ ومقام کی لالچ میں حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کرتے تھے تو یہ احتمال ہی غلط ہے کیونکہ وہ نہایت عمر رسیدہ ہوچکے تھے چنانچہ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کی عمر اسی سال سے کہیں زیادہ تھی_ ادھر حضرت ابوطالبعليه‌السلام قوم کے نزدیک اپنی اور حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیثیت سے بھی باخبر تھے انہیں یہ امید نہیں تھی کہ اس مقام کے حصول تک وہ زندہ رہیں گے جیساکہ گردوپیش کے حالات و قرائن سے وہ اس امر کا بخوبی اندازہ لگا سکتے تھے_

۳) سبط ابن جوزی نے حضرت ابوطالب کے ایمان پر یوں استدلال کیا ہے، (جیساکہ نقل ہوا ہے) اگر حضرت علیعليه‌السلام کے باپ کافر ہوتے تو معاویہ اور اس کے حامی نیز زبیری خاندان اور ان کے طرفدار اور علیعليه‌السلام کے باقی دشمن اس بات پر ان کی شماتت کرتے، حالانکہ علیعليه‌السلام ان لوگوں کو ان کے آباء اور ماؤں کے کافر ہونے نیز نسب کی پستی کا طعنہ دیتے تھے_(۱)

۴) خود حضرت ابوطالب کے بہت سارے صریح کلمات اور بیانات ان کے ایمان کو ثابت کرتے ہیں_ یہاں ہم بطور نمونہ ان کے چند اشعار نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جن کے بارے میں ابن ابی الحدید معتزلی نے یوں کہا ہے کہ مجموعی طور پریہ سارے اشعار تو اترکے ساتھ ثابت ہیں_(۲)

___________________

۱_ رجوع کریں: ابوطالب مومن قریش ص ۲۷۲_۲۷۳ مطبوعہ سنہ ۱۳۹۸ ھ از تذکرة الخواص_

۲_ شرح نہج البلاغہ ج ۱۴ص ۷۸اور بحار الانوار ج ۳۵ص ۱۶۵_

۱۷۲

یہاں ہم ان کی صلب سے پیدا ہونے والے بارہ اماموں کی تعداد کے عین مطابق ان کے بارہ اشعار تبرکاً پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں:

۱_ألم تعلموا انا وجدنا محمداً ---- نبیاً کموسی خط فی اول الکتب

کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ ہم نے موسیعليه‌السلام کی طرح محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھی خدا کا نبی پایا ہے؟ یہ امر تمام کتابوں کی ابتداء میں مذکورہے_

۲_نبی اتاه الوحی من عند ربه---- ومن قال لا یقرع بها سن نادم

وہ ایسے نبی ہیں جن کے پاس اللہ کی طرف سے وحی آئی ہے جو اس کا منکر ہو وہ ندامت کے دانت پیستارہ جائے گا_

۳_یا شاهد الله عل فاشهد

إنی علی دین النب احمد

من ضل فی الحق فانی مهتد

اے شاہد خدا میرے بارے میں گواہ رہ کہ میں احمد مرسل کے دین پر ہوں،

اگر کوئی حق کے بارے میں گمراہی کا شکار ہوا تو مجھے کیا میں تو ہدایت یافتہ ہوں_

۴_انت الرسول رسول الله نعلمه---- علیک نزل من ذی العزة الکتب

ہم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اللہ کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سمجھتے ہیں صاحب عزت ہستی کی طرف سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوپر کتابیں نازل ہوئی ہیں_

۵_انت النبی محمد---- قرم اغر مسود

آپ اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں جو نورانی سید اور سردار ہیں_

۶_او تومنوا بکتاب منزل عجب---- علی نبی کموسی او کذی النون

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل ہونے والی اس عجیب کتاب پر ایمان لے آؤ ،کہ یہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم موسیعليه‌السلام اور یونسعليه‌السلام کی مانند ہیں_

۷_وظْلم نبی جاء یدعوا الی الهدی---- وا مر ا تی من عند ذی العرش قیم

۱۷۳

جو نبی ہدایت کی طرف بلانے آیا تھا اس پر ظلم ہوا ، وہ صاحب عرش کی طرف سے آنے والی گراں بہا چیز کی طرف لوگوں کو بلانے آیا تھا_

۸_

لقد اکرم الله النبی محمدا---- فاکرم خلق الله فی الناس احمد

اللہ نے اپنے نبی محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تعظیم سے نوازا لہذا سب سے زیادہ با عزت ہستی احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں_

۹_

وخیر بنی هاشم احمد---- رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الاله علی فترة

بنی ہاشم میں سب سے افضل، احمد ہیں وہ زمانہ فترت (جاہلیت)(۱) میں اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں_

۱۰_

والله لااخذل النبی ولا---- یخذله من بنی ذوحسب

اللہ کی قسم نہ میں نبی کو بے یار ومدد گار چھوڑوں گا اور نہ ہی میرے شریف ونجیب بیٹے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تنہا چھوڑ سکتے ہیں_

۱۱_

أتعلم ملک الحبش ان محمدا---- نبیا کموسی والمسیح ابن مریم

اتی بالهدی مثل الذی اتیا به---- فکل بامر الله یهدی ویعصم

وانکم تتلونه فی کتابکم---- بصدق حدیث لاحدیث الترجم

فلا تجعلوا الله نداً فا سلموا---- فان طریق الحق لیس بمظلم

(نجاشی کو دعوت اسلام دیتے ہوئے :)اے بادشاہ حبشہ کیا تجھے معلوم ہے کہ محمد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی مثال حضرت موسیعليه‌السلام ور حضرت عیسیعليه‌السلام کی طرح ہے_ ان دونوں کی طرح وہ بھی ہدایت کا پیغام لیکر آئے _ وہ سب بحکم خدا ہدایت کرتے ہیں اور (ہمیں شر سے) بچاتے ہیں_ تم لوگ اپنی کتاب میں اس کے بارے میں پڑھتے ہو شک وابہام کے ساتھ نہیں بلکہ صدق دل کے ساتھ_ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دو اور مسلمان ہوجاؤ کیونکہ حق کا راستہ تاریک نہیں_

___________________

۱_ دو نبیوں کی بعثت کے درمیانی زمانے کو فترت کہتے ہیں یہاں مراد عیسیعليه‌السلام کے بعد کا زمانہ ہے جسے زمانہ جاہلیت بھی کہا جاتا ہے_

۱۷۴

۱۲_

فصبراً ابایعلی علی دین احمد---- وکن مظهراً للدین وفقت صابرا

وحط من اتی بالحق من عند ربه----- بصدق وعزم ولا تکن حمز کافرا

فقد سرنی ان قلت انک مومن---- فکن لرسول الله فی الله ناصرا

وباد قریشا فی الذی قد اتیته---- جهارا وقل ما کان احمد ساحرا

(اپنے بیٹے حمزہ سے مخاطب ہوکر :)اے ابویعلی (حمزہ) دین احمد پر ثابت قدم رہ اور اس کا اظہار کر خدا تجھے توفیق صبر عطا کرے گا_

اے حمزہ جو شخص اپنے رب کی جانب سے حق کے ساتھ آیا ہے اسکی حفاظت صدق دل اور عزم راسخ کے ساتھ کرو، کہیں کافر نہ ہوجانا_

اگر تم اپنے ایمان کا اقرار کرو تو یہ میرے لئے باعث مسرت ہوگا پس رضائے الہی کیلئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی مدد کر _

قریش کے سامنے اپنے عقیدے کا کھل کر اظہار کرو اور کہو کہ احمد جادو گر نہیں_

حضرت ابوطالب کے وہ اشعار جو ان کے ایمان پر دلالت کرتے ہیں زیادہ ہیں لیکن ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں تاکہ ان کے علاوہ دیگر باتوں کے تذکرے کا بھی موقع فراہم ہو جو اس موضوع کے حوالے سے کہی گئی ہیں یا کہی جاسکتی ہیں_

۵)ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھی علی ابن یحیی بطریق رحمة اللہ علیہ کہا کرتے تھے اگر نبوت کی طاقت اور پوشیدہ حقیقت کارفرما نہ ہوتی تو حضرت ابوطالب جیسے قریش کے صاحب عزت بزرگ اور سردار شخصیت اپنے اس بھتیجے کی تعریف وتمجید نہ کرتے جو نوجوان تھا، ان کی گودمیں پلا تھا ،ایک یتیم تھا جس کی انہوں نے پرورش کی تھی اوران کے بیٹے کی حیثیت رکھتا تھا اورا ن کی تعریف میں یوں رطب اللسان نہ ہوتے_

وتلقوا ربیع الابطحین محمدا

علی ربوة فی را س عنقاء عیطل

وتا وی الیه هاشم ان هاشما

عرانین کعب آخر بعد ا ول

۱۷۵

اور تم لوگ دیکھو گے کہ سرزمین حجاز کی بہار (حضرت) محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بلند و بالا اونچی گردن والے اونٹ پر نہایت نمایاں طور سے بیٹھے ہوں گے اور ان کے ارد گردہر طرف ہاشمی جوان ہوں گے کیونکہ اول سے آخر تک بنی ہاشمعليه‌السلام کے تمام افراد نہایت عالی وقار سید و سردار ہیں_

اور یہ اشعار نہ کہتے:

وابیض یستسقی الغمام بوجهه---- ثمال الیتامی عصمة للارامل

یطیف به الهلاک من آل هاشم---- فهم عنده فی نعمة و فواضل

درخشندہ چہرے والا جس کے رخ زیبا کا واسطہ دے کر بارش کی دعا کی جاتی ہے جو یتیموں کی پناہگاہ اور بیواؤں کا والی و وارث ہے_ بنی ہاشم کے ستم رسیدہ افراد اسی کی پناہ چاہتے ہیں کیونکہ وہ ان کے لئے (درحقیقت اللہ کی ) ایک بڑی نعمت اور بہت بڑا احسان ہے_

کسی ما تحت اور تابع شخص کی تعریف میں اس قسم کے اشعار نہیں کہے جاسکتے _اس طرح کی مدح سرائی تو بادشاہوں اور عظیم شخصیات کی ہوتی ہے _جب آپ اس حقیقت کا تصور کریں کہ یہ اشعار حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان میں ایک صاحب عزت اور عظیم شخصیت یعنی ابوطالبعليه‌السلام نے کہے ہیں جبکہ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جوان تھے اور قریش کے شرسے بچنے کیلئے حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی پناہ میں تھے، حضرت ابوطالب نے ہی بچپن سے آپ کی پرورش کی تھی لڑکپن کا دور آیا تو اپنے کاندھوں پراٹھاتے تھے اور جب جوان ہوئے تو اپنے ہمراہ رکھا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت ابوطالب کے مال سے کھاتے پیتے تھے اوران کے گھر میں رہتے تھے ، تب آپ کو نبوت کی حیثیت اورعظیم مقام ومرتبے کا ضروراندازہ ہوگا_(۱)

اس طرح کا مذکورہ بالا قصیدہ لامیہ(۲) جس میں انہوںنے یہ کہا تھاوابیض یستسقی الغمام بوجهه (جو بہت طویل ہے) بنی ہاشم اپنے بچوں کو یہ قصیدہ یاد کراتے تھے(۳) اس میں بہت سے ایسے

___________________

۱_ شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۴ص ۶۳و ماذا فی التاریخ ج ۳ ص ۱۹۶_۱۹۷ (از اول الذکر) _

۲_ یعنی وہ قصیدہ جس کے آخر میں لام کا تکرار ہوتا ہے_ (مترجم) _

۳_ مقاتل الطالبیین ص ۳۹۶ _

۱۷۶

نکات نہاں ہیں جن سے ان کے ایمان کی صداقت کا اندازہ ہوتا ہے_ابن ہشام ،ابن کثیر اور دیگر حضرات نے اس کا تذکرہ کیا ہے_

۶)ہم نے مشاہدہ کیا کہ جوحضرت ابوطالبعليه‌السلام بادشاہ حبشہ کو دعوت اسلام دے رہے ہیں_ وہی اپنے بیٹے حضرت جعفر کو بلاکر حکم دیتے ہیں کہ اپنے چچازاد بھائی کے ساتھ نماز کی صف میں شامل ہوجائے_(۱) انہوں نے اپنی زوجہ فاطمہ بنت اسد کو اسلام کی دعوت دی(۲) اور حضرت حمزہ کو دین اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تلقین کی اور ان کے مسلمان ہونے پر خوشی کا اظہار کیا_ یہی حال اپنے نور چشم امیرالمؤمنین علیعليه‌السلام کے بارے میں بھی تھا اور مختلف موقعوں پر ان کے کلام اور ان کے طرزعمل کی تحقیق سے مزید نکات ہاتھ آتے ہیں_

۷) حضرت ابوطابعليه‌السلام نے اپنی وصیت میں یہ تصریح کردی تھی کہ '' میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے معاملہ میں دشمنیوں کے ڈ رسے تقیہ اختیار کئے ہوئے تھا اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیمات کو میرا دل تو قبول کرتا تھا لیکن زبان سے انکار جاری ہوتا ''(۳) _ اور انہوں نے قریش کو رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت اسلام پر لبیک کہنے اور فرمانبرداری کرنے کی بھی وصیت کی تھی کہ اسی میں ہی ان کی کامیابی اور سعادت ہے(۴)

۸)نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بار بار خدا سے حضرت ابوطالبعليه‌السلام کیلئے طلب رحمت ومغفرت فرماتے تھے اوران کی وفات سے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بے تاب ہوئے_(۵)

واضح ہے کہ کسی غیرمسلم کیلئے طلب رحمت نہیں ہوسکتی_ اسی لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سفانہ بنت حاتم طائی سے فرمایا: ''اگر تمہارا باپ مسلمان ہوتا تو ہم اس کیلئے خدا سے طلب مغفرت کرتے''_(۶)

___________________

۱_ رجوع کریں: الاوائل از ابی ہلال عسکری ج ۱ ص ۱۵۴، روضة الواعظین ص ۱۴۰اور شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۳ص ۲۶۹ ، السیرة الحلبیہ ج۱ ص ۲۶۹ ، اسنی المطالب ص ۱۷ ، الاصابہ ج۴ ص ۱۱۶ ، اسد الغابہ ج۱ ص ۲۸۷ اور الغدیر ج۷ ص ۳۵۷_ ۲_ شرح نہج البلاغہ معتزلی ج۱۳ص ۲۷۲_

۳_ قابل تعجب بات تو یہ ہے کہ کچھ لوگ حضرت عمر کے کرتو توں پر پردہ ڈالنے کے لئے کہتے ہیں کہ ان کا دل برا نہیں تھا صرف زبان کے برے تھے اور اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے جبکہ حضرت ابوطالب کے معاملے میں ان کے تقیہ کے پیش نظر کئے ہوئے زبانی انکار کو بہانہ بناتے ہوئے انہیں کافر سمجھتے ہیں (از مترجم) ۴_ الروض الانف ج ۲ ص ۱۷۱ ، ثمرات الاوراق ص ۹۴ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۰۰تا ۳۰۱، سیرہ حلبیہ ج ۱ ص ۳۵۲، بحار ج ۳۵ص ۱۰۷ اور الغدیر ج ۷ ص ۳۶۶ مختلف منابع سے_ ۵_ تذکرة الخواص ص ۸_ ۶_ السیرة الحلبیة ج ۳ص ۲۰۵ _

۱۷۷

یہ لوگ زید بن عمرو ابن نفیل (عمر بن خطاب کے چچازاد بھائی) اس کے بیٹے سعید ابن زید، ورقہ بن نوفل، قس بن ساعدہ نیز ابوسفیان (جو ہمیشہ منافقین کیلئے جائے پناہ تھا، اور جنگ احد کے حالات میں ہم اس کے کچھ صریح بیانات اور اقدامات کا تذکرہ کریں گے) وغیرہ کے بارے میں کیونکرمسلمان ہونے کا فتوی دیتے ہیں؟ یہاں تک کہ یہ لوگ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے روایت کرتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امیہ ابن صلت کے بارے میں فرمایا: ''قریب تھا کہ وہ اپنے اشعار کے ذریعے مسلمان ہوجاتا''_(۱)

شافعی ،صفوان بن امیہ کے بارے میں کہتے ہیںکہ اس کے مسلمان ہونے میں گویا شک کی گنجائشے نہیں ہے کیونکہ جب اس نے جنگ حنین کے دن کسی کوکہتے سنا کہ قبیلہ ھوازن کو فتح حاصل ہوئی اور محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قتل ہوگئے تو اس نے کہا تھا :''تیری زبان جل جائے واللہ قریش کا خدا میرے نزدیک ھوازن کے خدا سے زیادہ محبوب ہے''_

ملاحظہ کریں یہ لوگ ان سارے افراد کو کیونکر مسلمان مانتے ہیں جبکہ انہوں نے اسلام کو سمجھا ہی نہیں اور اگر سمجھابھی تو قبول نہیں کیا یا یہ کہ ظاہراً مسلمان ہوئے لیکن دل کے اندر کفر کو چھپائے رکھا؟ اس کے بر عکس وہ اس ابوطالب کو کافر قرار دیتے ہیں جو کئی بار اپنے اقوال واعمال کے ذریعے خدا کی وحدانیت اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نبوت و رسالت کا صریحاً اعلان کرتے رہے امویوں اور ان کے چیلوں کا کہناہے کہ اس شخص کے متعلق دلیلیں جتنی بھی زیادہ ہوجائیں پھر بھی اس شخص کو ہم مؤمن نہیں مانیں گے چاہے خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کیوں نہ کہیں _ پس زمانہ جاہلیت کے طاغوتوں اور سرکشوں کے نقش قدم پر چلنے والے اموی اور ان کے چیلے کتنے برے لوگ ہیں_

واضح ہے کہ کسی شخص کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا علم چار چیزوں سے ہوتا ہے_

(الف) اس کی عملی پالیسیوں سے اور یہ بھی واضح ہے کہ حضرت ابوطالب کی عملی پالیسیاں دین اسلام کے بارے میں ان کے اخلاص اور جذبہ فداکاری کی اس قدر واضح دلیل ہے کہ اس سے زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں_

(ب) شہادتین کے زبانی اقرار سے، اس حوالے سے حضرت ابوطالبعليه‌السلام کے ان متعدد اشعار کی طرف اشارہ کافی ہے جو انہوں نے متعدد موقعوں پر کہے_

___________________

۱_ صحیح مسلم ج ۷ص ۴۸_۴۹ نیز الاغانی مطبوعہ ساسی ج ۳ص ۱۹۰ اور التراتیب الاداریہ ج۱ ص ۲۱۳ _

۱۷۸

(ج) اس شخص کے بارے میں نمونہ اسلام اور کارواں سالار حق یعنی نبی اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے موقف سے، چنانچہ حضرت ابوطالب کے بارے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا محبت آمیز اور پسندیدہ موقف بھی مکمل طور پر ثابت ہے_

(د) اس کے قریبی ذرائع سے ، مثال کے طور پر اس کے گھر والوں اور اس کے ساتھ رہنے والوں کے توسط سے، اس سلسلے میں ہم پہلے عرض کرچکے کہ وہ (اہلبیت) حضرت ابوطالب کے مومن ہونے پر متفق الخیال ہیں_

بلکہ وہ لوگ جو حضرت ابوطالب علیہ السلام کو کافر قرار دیتے ہیں جب وہ ان کی عملی پالیسیوں کا انکار نہ کرسکے، اور نہ ان کے صریح بیانات کو رد کرسکے تو انہوں نے ایک مبہم جملے کے ذریعے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ دل سے مطیع اور فرمانبردار نہ تھے_(۱)

یہ سب اوٹ پٹانگ اور خیالی باتیں ہیں جو حق وحقیقت پر بہتان باندھنے کہ سوا کچھ نہیں تاکہ یوں ان روایات کو صحیح قرار دے سکیں جو انہوں نے مغیرة بن شعبہ اور اس جیسے دوسرے دشمنان آل ابوطالب سے نقل کی ہیں_ آئندہ صفحات میں ان کی بے بنیاد دلیلوں کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کریں گے انشاء اللہ تعالی_

حضرت ابوطالب علیہ السلام کے احسانات کا معمولی سا حق ادا کرنے کی غرض سے یہاں ہم ان کے ایمان کی بعض دلیلیں جو زیادہ تر غیر شیعہ مآخذ سے لی گئی ہیں بیان کرتے ہیں اور دیگر متعدد دلائل کا تذکرہ نہیں کرتے کیونکہ چند مثالوں سے زیادہ بیان کرنے کی گنجائشے نہیں_

پہلی دلیل: عباس نے کہا:'' اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوطالب کیلئے کس چیز کی آرزو کرتے ہیں؟'' فرمایا:'' میں ان کیلئے خدا سے تمام اچھی چیزوں کی آرزو کرتا ہوں''_(۲)

___________________

۱_ سیرت دحلان ج ۱ص ۴۴_۴۷ اور الاصابة ج ۴ص ۱۱۶_۱۹۹ کی طرف رجوع کریں _

۲_ الاذکیاء ص ۱۲۸، شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۴ص ۶۸، طبقات ابن سعد ج ۱حصہ اول ص ۷۹اور بحار الانوار ج ۳۵ص ۱۵۱اور ۱۵۹_

۱۷۹

دوسری دلیل: حضرت ابوبکر اپنے باپ ابوقحافہ (جو بوڑھا اور نابینا تھا) کو لے کر فتح مکہ کے دن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی خدمت میں آئے تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے فرمایا:'' اس بوڑھے کو اپنے گھر چھوڑ آتے تاکہ ہم اس کے پاس جاتے'' _حضرت ابوبکر نے کہا:'' میں نے چاہا کہ اللہ اسے اجر دے مجھے اپنے باپ کے مسلمان ہونے کی بہ نسبت ابوطالب کے مسلمان ہونے پر زیادہ خوشی ہوئی تھی ،خدا کرے کہ اس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے''_(۱)

اگرچہ علامہ امینی نے الغدیر میں اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت ابوبکر سے مذکورہ جملے کہے ہوں_ انہوں نے اس موضوع پر نہایت عمدہ بحث کی ہے اور ہم بھی اس مسئلے میں ان کے ہم خیال ہیں_

تیسری دلیل: ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں کہ متعدد سندوں کے ساتھ( جن میں سے بعض عباس بن عبدالمطلب کے ذریعے اور بعض حضرت ابوبکر ابن ابوقحافہ سے منقول ہیں) مروی ہے کہ حضرت ابوطالب نے اپنی موت سے پہلے لا الہ الا اللہ محمد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا اقرار کیا_(۲)

چوتھی دلیل: نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوطالب علیہ السلام کیلئے طلب رحمت واستغفار اور دعا کی یہاں تک کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مدینہ والوں کیلئے بارش کی دعا کی اور بارش ہوئی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوطالب کو یاد کیا اور منبر پر بیٹھ کر ان کیلئے مغفرت طلب کی(۳) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے جنازے میں شرکت کی حالانکہ ان لوگوں کی روایت کے مطابق مشرکین کے جنازے میں شرکت حرام ہے_ نیز یہی لوگ روایت کرتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ

___________________

۱_ مجمع الزوائد ج ۶ص ۱۷۴الطبرانی اور بزار سے نقل کیا ہے حیاة الصحابہ ج ۲ص ۳۴۴المجمع سے، الاصابة ج ۴ص ۱۱۶اور شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۱۴ص ۶۹_

۲_ شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۱۴ ص ۷۱، الغدیر ج ۷ ص ۳۲۹ البدایة و النہایة ج ۳ ص ۱۲۳ سے نقل کیا ہے، سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۸۷، الاصابة ج ۴ ص ۱۱۶، عیون الاثر ج ۱ ص ۱۳۱، المواہب اللدنیة ج ۱ ص ۷۱، السیرة الحلبیة ج ۱ ص ۳۷۲ و السیرة النبویة (از دحلان حاشیہ کے ساتھ) ج ۱ ص ۸۹، اسنی المطالب ص ۲۰، دلائل النبوة (بیہقی)، تاریخ ابوالفداء ج ۱ص ۱۲۰ اور کشف الغمة ( شعرانی) ج ۲ ص ۱۴۴_

۳_ مراجعہ ہو : عیون الانباء ص ۷۰۵_

۱۸۰