الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 417
مشاہدے: 201349
ڈاؤنلوڈ: 5817

تبصرے:

جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201349 / ڈاؤنلوڈ: 5817
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

نے حضرت علیعليه‌السلام کو حکم دیا کہ وہ ابوطالب کو غسل و کفن دیں اور دفن کریں_(۱) ہاں ان کو نماز جنازہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا کیونکہ نماز جنازہ اس وقت تک فرض نہیں ہوئی تھی_ اسلئے کہتے ہیں کہ جب حضرت خدیجہ(س) کی وفات ہوئی تو حضرت نے ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی حالانکہ آپ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں_

پانچویں دلیل: جب حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی وفات ہوئی تو ان کے فرزند حضرت علیعليه‌السلام نے یہ مرثیہ کہا:

اباطالب عصمة المستجیر

وغیث المحول ونور الظلم

لقد هد فقدک اهل الحفاظ

فصلی علیک ولی النعم

ولقاک ربک رضوانه

فقدکنت للطهر من خیرعم(۲)

اے ابوطالب اے پناہ ڈھونڈنے والوں کی جائے پناہ اے خشک زمینوں کیلئے باران رحمت اور تاریکیوں کو روشن کرنے والے نور تیری جدائی نے (اسلام کی) حمایت کرنے والوں کو نڈھال کر کے رکھ دیا_ نعمتوں کے مالک (خدا) کی رحمتیں آپعليه‌السلام پر نازل ہوں خدانے آپ کو اپنی خوشنودی سے ہمکنار کردیا_ آپعليه‌السلام نبی پاکصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہترین چچا تھے_

چھٹی دلیل: امیرالمومنین علیعليه‌السلام نے معاویہ کوایک طویل خط لکھا جس میں مذکور ہے کہ نہ امیہ، ہاشم کی مانند ہے، نہ حرب عبدالمطلب کے مساوی اور نہ ابوسفیان ابوطالب کے برابر، نہ آزاد شدہ غلام ہجرت کرنے

___________________

۱_ رجوع کریں (ان تمام باتوں کے بارے میں) تذکرة الخواص ص ۸، شرح نہح البلاغة معتزلی ج ۱۴ ص ۸۱، سیرت حلبی ج ۱ ص ۱۴۷، المصنف ج ۶ ص ۳۸ السیرة النبویة ( دحلان) ج۱ ص ۸۷، تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۳۵و طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۷۸، تاریخ بغداد ( خطیب) ج۳ ص ۱۲۶ اور ج ۱۳ ص ۱۹۶، تاریخ ابن کثیر ج ۳ ص ۱۲۵ و الطرائف (ابن طاؤس) ص ۳۰۵ از حنبلی در نہایة الطلب نیز البحار ج ۳۵ ص ۱۵۱ و التعظیم و المنة ص ۷ و لسان المیزان ج ۱ ص ۴۱، الاصابة ج ۴ ص ۱۱۶، الغدیر ج ۷ ص ۳۷۲ و ۳۷۴ و ۳۷۵از مذکورہ کتب اور شرح شواہد مغنی (سیوطی) ص ۱۳۶اعلام النبوة (ماوردی) ص ۷۷ و بدائع الصنائع ج۱ ص ۲۸۳ و عمدة القاری ج ۳ ص ۴۳۵ و اسنی الطالب ص ۱۵ و ۲۱ و ۳۵ و طلبة الطالب ص ۴۳، دلائل النبوة ( بیہقی) ا ور برزنجی، ابن خزیمہ، ابوداؤد اور ابن عساکر_ ۲_ تذکرة الخواص ص ۹_

۱۸۱

والے کا ہم پلہ ہے اور نہ ہی خودساختہ نسب والا صحیح النسب انسان کے برابر_(۱)

اگر حضرت ابوطالب کافر ہوتے اور ابوسفیان مسلمان تو حضرت علیعليه‌السلام کسی کافر کو ایک مسلمان پر کیسے ترجیح دے سکتے تھے؟ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ ابوسفیان وہ ہے جس نے کہا تھا کہ اسے معلوم نہیں جنت کیا ہے اور جہنم کیا ہے (اس کا ذکر جنگ احد کے حالات کے آخر میں ہوگا)_ یہاں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امیرالمؤمنینعليه‌السلام معاویہ کے مجہول النسب ہونے کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں_ بہرحال اس بحث کا مقام الگ ہے_

ساتویں دلیل: پیغمبر خدا سے منقول ہے کہ آپ نےصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرمایا:''اذا کان یوم القیامة شفعت لابی وامی وعمی ابیطالب واخ لی کان فی الجاهلیة'' (۲) یعنی قیامت کے دن میں اپنے والدین، اپنے چچا ابوطالب اور اپنے اس بھائی کی شفاعت کروں گا جو ایام جاہلیت میں زندہ تھا_

آٹھویں دلیل: نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جبرئیل کی زبانی بتایا''حرمت النار علی صلب انزلک و بطن حملک وحجر کفلک اما الصلب فعبد الله و اما البطن فآمنه و اما الحجر فعمه یعنی اباطالب و فاطمه بنت اسد'' یعنی خدانے آتش کو حرام کیا ہے اس صلب پر جس نے تجھے اتارا اور اس بطن پر جس میں تو رہا اور اس دامن پر جس میں تونے پرورش پائی،(۳) یہاں صلب سے مراد حضرت عبداللہ ہیں بطن سے مراد حضرت آمنہ ہیں اور دامن یا گود سے مراد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا حضرت ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد ہیں_ یہی مضمون مختصر فرق کے ساتھ دیگر روایات میں بھی موجود ہے_

___________________

۱_ وقعة صفین نصر بن مزاحم ص ۴۷۱ ، الفتوح ابن اعثم ج ۳ ص ۲۶۰ ، نہج البلاغہ شرح محمد عبدہ ج ۳ ص ۱۸، خط ۱۷ ، شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۵ ص ۱۱۷ ، الامامة و السیاسة ج ۱ ص ۱۱۸، الغدیر ج ۳ ص ۲۵۴ ، مذکورہ کتب سے و از ربیع الابرار زمخشری باب ۶۶ و مروج الذہب ج ۲ ص ۶۲ اور ملاحظہ ہو الفتوح ابن اعثم ج ۳ ص ۲۶۰ و مناقب خوارزمی حنفی ص ۱۸۰_

۲_ ذخائر العقبی ص ۷ مکمل طور پر الفوائد رازی سے ، الدرج المنیفہ سیوطی ص ۸ ، مسالک الحنفاء ص ۱۴ از ابن النعیم و غیرہ اور مذکور ہے کہ حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے ، تفسیر قمی ج ۱ ص ۳۸۰ ، تفسیر برہان ج ۲ ص ۳۵۸ ، تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۳۵ اور تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۲۳۲_

۳_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۷۱ ، بحار ج ۳۵ ص ۱۰۹ ، التعظیم و المنة سیوطی ص ۲۷ اور ملاحظہ ہو ، روضة الواعظین ص ۱۳۹ ، شرح نہج البلاغہ معتزلی ج ۱۴ ص ۶۷، الغدیر ج ۷ ص ۳۷۸ مذکورہ کتب سے و از کتاب الحجة (ابن معد) ص ۸و تفسیر ابوالفتوح ج ۴ ص ۲۱۰

۱۸۲

نویں دلیل: حضرت امام سجاد علیہ السلام سے ایمان ابوطالبعليه‌السلام کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا:'' تعجب کی بات ہے خدا نے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر نازل کیا کہ کوئی مسلمان عورت کسی کافر کے حبالہ عقد میں باقی نہ رہے اور فاطمہ بنت اسد اسلام کی اولین عورتوں میں سے ہیں وہ حضرت ابوطالب کی موت تک ان کے عقد میں رہیں؟''_(۱)

البتہ کافر عورتوں کے ساتھ ازدواجی رابطہ باقی رکھنے سے منع کرنے والی آیت کے مدینہ میں نزول سے مذکورہ روایت کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچتی اور نہ وہ اس روایت کے بطلان کا باعث ہے کیونکہ ممکن ہے کہ قرآنی آیت کے نزول سے قبل ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبانی مذکورہ امر سے ممانعت ہوئی ہو_ رہا بعض مسلمانوں کا اس حکم پر (اس زمانے میں) عمل نہ کرنا تو ممکن ہے کہ بعض مخصوص حالات کے تحت وہ اس امر پر مجبور ہوئے ہوں_

دسویں دلیل: بعض لوگوں نے حضرت ابوطالبعليه‌السلام کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں خط کے ذریعے امام علی ابن موسی الرضاعليه‌السلام سے سوال کیا تو انہوں نے جواب میں لکھا( و من یشاقق الرسول من بعد ما تبین له الهدی ویتبع غیر سبل المومنین ) (سورہ نساء آیت ۱۱۵) یعنی جو شخص راہ ہدایت کے واضح ہونے کے بعد بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مخالفت کرے اور مومنین کے راستے سے ہٹ کر کسی اور راہ پر چلے ..._ اس کے بعد فرمایا: ''اگر تم حضرت ابوطالب کے ایمان کا اعتراف نہ کرو تو تمہارا ٹھکانہ جہنم ہوگا''_(۲)

گیارہویںدلیل: جنگ جمل کے موقع پر جب جناب محمد بن حنیفہ نے اہل بصرہ کے ایک آدمی پر قابو پایا تو اسی کا کہناہے کہ جب میں نے اس پر قابو پالیا تو اس نے کہا : '' میں ابوطالب کے دین پر ہوں '' پس جب میں نے اس کی مراد سمجھ لی تو اسے چھوڑ دیا(۳)

بارہویںدلیل: غزوہ بدر کے ذکر میں عنقریب آئے گا کہ حضرت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شہید بدر عبیدہ بن حارث سے اپنے چچا ابوطالب کے متعلق چھوٹے سے طعنے کو بھی برداشت نہیں کیا _ حتی کہ اس کا یہ کہنا بھی برداشت نہیں ہوا کہ ابوطالب نے جو یہ کہا ہے:

___________________

۱،۲_ شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۱۴ ص ۶۸، الغدیر ج ۷ ص ۳۸۱ اور ۳۹۴ نے کراجکی ص ۸۵ سے اور کتاب الحجة (ابن معد) ص ۲۴،۱۶ سے و الدرجات الرفیعہ و البحار اور ضیاء العالمین سے نقل کیا ہے اور امام سجادعليه‌السلام کی حدیث کے تواتر کا دعوی بھی کیا گیا ہے_ ۳_ طبقات ابن سعد ج۵ ص ۶۸ مطبوعہ لیدن_

۱۸۳

کذبتم و بیت الله بیدی محمد---- و لما نطاعن دونه ونناضل

و نسلمه حتی نصرع دونه ---- و نذهل عن ابنائنا و الحلائل

خدا کی قسم کبھی نہیں ہوسکتا کہ ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ساتھ چھوڑ دیں ( بلکہ ہم تو ان کی حمایت میں ) تم سے نیزوں اور تلواروں کے ذریعہ سے مقابلہ کریں گے _

تو ہم لوگ ا س سے کہیں بہتر ہیں _ پس جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس جیسے طعنے پر بھی غضبناک ہوسکتے ہیں تو کیا آپ کے خیال میں اپنے چچا کے متعلق مشرک کا حکم لگاکر خوش ہوں گے ؟ اور انہیں دوزخ کے ایک کنارے پر ٹھہرائیں گے جس کی آگ سے ان کا بھیجہ ابل رہا ہوگا؟ یہ بے انصافی کہاں تک رہے گی؟

یہاں ہم انہی مثالوں پر اکتفا کرتے ہیں جو حضرت ابوطالب کے ایمان کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں مزید تحقیق کے متلاشی متعلقہ کتب کی طرف رجوع کریں_

بے بنیاد دلائل

حضرت ابوطالب علیہ السلام کو نعوذ باللہ کافر سمجھنے والوں نے بے بنیاد دلائل اور روایات کا سہارا لیا ہے_ یہاں ہم ان میں سے چند ایک کی طرف جو زیادہ اہمیت کی حامل ہیں اشارہ کرتے ہیں_

۱_ حدیث ضحضاح

ابوسعید خدری سے منقول ہے کہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا ابوطالبعليه‌السلام کا ذکر ہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: شاید ان کو میری شفاعت روز قیامت فائدہ دے اور آگ کے ایک ضحضاح ( کنارے) میں رکھا جائے جہاں ان کے ٹخنوں تک آگ پہنچے جس سے ان کا دماغ کھولنے لگے_ ایک اور روایت کے مطابق حضرت عباس نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچا سے بے نیاز نہ تھے واللہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کرتے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خاطر غضبناک ہوتے تھے فرمایا:'' وہ آگ کے ایک حوض میں ہیں اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے

۱۸۴

سب سے نچلے حصے میں ہوتے''_(۱)

اس حوالے سے ہم درج ذیل عرائض پیش کرتے ہیں_

(الف) علامہ امینی نے الغدیر (ج ۸ ص ۲۳_۲۴) میں اور خنیزی نے ''ابوطالب مومن قریش'' نامی کتاب میں اس روایت کی اسناد سے بحث کی ہے_ ان دونوں حضرات نے اس روایت کے کمزور اور بے بنیاد ہونے، نیز اس کے الفاظ وعبارات کے درمیان تضاد کو واضح طور پر ثابت کیا ہے_

(ب) جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوطالبعليه‌السلام کو فائدہ پہنچاتے ہوئے جہنم کے آخری حصے سے انہیں نکال کر گوشہ آتش تک لے آسکتے ہیں تو پھر تھوڑی سی مہربانی اور کرتے ہوئے ان کو اس کنارے سے ہی باہر کیوں نہیں نکال لاتے؟ اس کے علاوہ چونکہ اس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ زندہ تھے اور قیامت برپانہیں ہوئی تھی اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں شفاعت ہوسکتی ہے؟

(ج) یہی لوگ روایت کرتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ابوطالبعليه‌السلام کو موت کے وقت کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ، جاری کرنے کیلئے کہا تاکہ اس طرح بروز قیامت انہیں آپ کی شفاعت نصیب ہو لیکن ابوطالب نے ایسا نہیں کیا _یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کلمہ کے بغیر کسی قسم کی شفاعت نہیں ہوسکتی،(۲) پھر کیونکر ابوطالبعليه‌السلام کی شفاعت ممکن ہوئی (اگرچہ ایک حد تک ہی سہی) حالانکہ ان لوگوں کے بقول انہوں نے کلمہ شہادت زبان پر جاری نہیں کیا جس کی وجہ سے شفاعت ممکن ہوسکتی_

نیز کیایہی لوگ روایت نہیں کرتے کہ مشرک کی شفاعت نہیں ہوسکتی؟ پھر کیونکر اس مشرک کی شفاعت

___________________

۱_ صحیح بخاری مطبوعہ سن ۱۳۰۹ ج ۲ ص ۲۰۹ اور ج ۴ ص ۵۴، المصنف ج ۶ ص ۴۱، النسب الاشرف (بہ تحقیق محمودی) ج ۲ ص ۲۹_۳۰، صحیح مسلم کتاب الایمان، طبقات ابن سعد ج ۱حصہ اول ص ۷۹مسند احمد ج ۱ ص ۲۰۶ و ۲۰۷ البدایة و النہایة ج ۳ ص ۱۲۵، الغدیر ج ۸ص ۲۳ کہ بعض مذکورہ کتب اور عیون الاثر ج ۱ص ۱۳۲ سے نقل کیا ہے اور شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۱۴ ص ۶۶_

۲_ الترغیب و الترھیب ج ۴ ص ۴۳۳ از احمد (دو صحیح سندوں کے ساتھ) از بزاز اور طبری (مختلف اسانید کے ساتھ جن میں سے ایک اچھی ہے) اور ابن حبان (اپنی صحیح میں) نیز رجوع ہو الغدیر ج ۲ ص ۲۵ _

۱۸۵

ہوئی اور وہ اس کے سبب جہنم کے آخری طبقے سے نکال کر آتش کے کنارے میں منتقل کئے گئے_(۱)

(د) ابن ابی الحدید معتزلی نے مذہب امامیہ اور مذہب زیدیہ سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا کہنا ہے حدیث ضحضاح ( کنارہ آتش والی حدیث) کو تمام لوگ صرف ایک ہی فرد سے نقل کرتے ہیں اور وہ ہے مغیرہ بن شعبہ حالانکہ بنی ہاشم خصوصاً حضرت علیعليه‌السلام سے اس کا بغض و عناد ہر خاص و عام کو معلوم ہے_ نیز اس کی داستان اور اس کا فاسق ہونا کسی سے مخفی نہیں_(۲)

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ (غیرشیعہ حضرات) اس روایت کو مغیرہ کے علاوہ دیگر افراد سے بھی نقل کرتے ہیں جیساکہ بخاری وغیرہ نے نقل کیا ہے_ پس ممکن ہے کہ مغیرہ کے علاوہ دیگر افراد سے نقل کرنے کا عمل بعد کی پیداوار ہو کیونکہ یہ معقول نہیں کہ شیعہ حضرات ان پر بے جا طور پر مذکورہ اعتراض کریں جبکہ معتزلی نے شیعوں کے اعتراض کے آگے خاموشی اختیار کرلی ہے گویا اس نے بھی یہی احتمال دیا تھا جو ہم نے دیا ہے ، وگرنہ وہ اس اعتراض کا جواب دے سکتے تو ضرور دیتے_

(ہ) امام باقرعلیہ السلام سے لوگوں کے اس قول (کہ ابوطالبعليه‌السلام آگ کے گوشے میں ہیں) کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا:'' اگر ابوطالبعليه‌السلام کا ایمان ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالاجائے اور لوگوں کاایمان دوسرے پلڑے میں تو بے شک ابوطالبعليه‌السلام کے ایمان کا پلڑا بھاری ہوگا''_ پھر فرمایا:'' کیا تمہیں نہیں معلوم کہ امیرالمومنین علیعليه‌السلام اپنی زندگی میں حضرت عبداللہ ، ان کے بیٹے اور حضرت ابوطالب کی نیابت میں حج بجالانے کا حکم دیا کرتے تھے اور انہوں نے ان کی طرف سے حج بجالانے کی وصیت کی''_(۳)

___________________

۱_ مستدرک الحاکم ج ۲ ص ۳۳۶اور تلخیص مستدرک (ذہبی) (ان دونوں نے اسے صحیح قرار دیا ہے) المواہب اللدنیة ج ۱ ص ۷۱، الغدیر ج ۸ ص ۲۴ از مستدرک مواھب لدنیہ اور از کنز العمال ج ۷ ص ۱۲۸ سے نقل کیا ہے شرح المواہب (زرقانی) ج ۱ ص ۲۹۱ کشف الغمة (شعرانی) ج ۲ ص ۱۲۴ اور تاریخ ابوالفداء ج ۱ ص ۱۲۰_

۲_شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۱۴ص ۷۰و بحار الانوار ج ۳۵ص ۱۱۲ _

۳_ شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۱۴ص ۶۸، الدرجات الرفیعة ص ۴۹، بحار ج ۳۵ص ۱۱۲، الغدیر ج ۸ص ۳۸۰_۳۹۰ (ان دونوں اور السید کی کتاب الحجة کے ص ۱۸سے) از طریق شیخ الطائفة ازصدوق اور ضیاء العالمین (مصنف فتونی) _

۱۸۶

(و) کوفہ کے مضافات (رحبہ) میں جب علیعليه‌السلام سے پوچھا گیا کہ کیا آپعليه‌السلام کے والد عذاب جہنم میں مبتلا ہوں گے یا نہیں ؟ تو آپعليه‌السلام نے اس آدمی سے فرمایا:'' خاموش تیری زبان جلے_ حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بر حق نبی بناکر بھیجنے والی ذات کی قسم اگر میرے والد روئے زمین کے تمام گناہگاروں کی بھی شفاعت کریں تو خدا ان سب کو معاف کردے_ واہ باپ تو جہنم کے عذاب میں مبتلا ہو اور بیٹا ہوقسیم النار والجنة'' ؟ (جنت و دوزخ تقسیم کرنے والے بیٹے کی موجودگی میں باپ دوزخ میں جلے؟ معاذ اللہ )(۱)

(ز) روایات ضحضاح میں اختلاف و تناقض ملاحظہ فرمایئے ایک روایت تو یہ کہتی ہے کہ شاید میری شفاعت کام کرجائے اور قیامت کے دن دوزخ کے کنارے پر ٹھہرائے جائیں _ جبکہ دوسری روایت یقین کے ساتھ کہتی ہے کہ وہ ابھی دوزخ کے کنارے پر موجود ہیں _ ملاحظہ فرمائیں_

۲_ عقیل اور ارث ابوطالبعليه‌السلام

کہتے ہیں کہ حضرت ابوطالب کی وراثت عقیل نے پائی نہ کہ علیعليه‌السلام اور جعفرعليه‌السلام نے اور اسکی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ابوطالبعليه‌السلام مشرک تھے اور یہ دونوں مسلمان تھے پس ان دونوں فریقوں کے دین مختلف ٹھہرے اور دو مختلف ادیان کے پیروکار ایک دوسرے سے وراثت نہیں پاتے_(۲) ان کی یہ دلیل بھی صحیح نہیں ہے اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں_

(الف) یہ کہاں سے ثابت ہوا کہ جعفرعليه‌السلام اور علیعليه‌السلام نے وراثت نہیں پائی_

(ب) ان کا یہ کہنا کہ دو مختلف ادیان کو ماننے والے ایک دوسرے سے وراثت نہیں پاسکتے درست ہے اور ہم بھی اس کی تائید کرتے ہیں کیونکہ لفظ توارث باب تفاعل سے ہے _باب تفاعل کام کیلئے دو طرف کے ہونے پر دلالت کرتا ہے اور ہم بھی مسلمانوں اور کافروں کے درمیان توارث (دونوں طرف سے ایک دوسرے سے وراثت پانے) کے قائل نہیں_

___________________

۱_ بحار الانوار ج ۵ ۳ ص ۱۱۰ اور کنز الفوائد ص۸۰ مطبوعہ حجریہ_

۲_ المصنف ج ۶ص ۱۵اور ج ۱۰ ص ۳۴۴ اور اس کی جلد ششم کے حاشیے میں بخاری (ج ۴ ص ۲۹۳) سے مروی ہے نیز طبقات ابن سعد ج ۱حصہ اول ص ۷۹ _

۱۸۷

لفظ توارث کا تقاضا یہ ہے کہ یہ عمل دو طرفہ ہو جس طرح تضارب (ایک دوسرے سے کو مارنا) جو بغیر طرفین کے نہیں ہوسکتا_ بنابریں مکتب اہلبیت کا نظریہ ہی درست ہے یعنی یہ کہ مسلمان کافر سے وراثت پاسکتا ہے لیکن کافر مسلمان سے نہیں_(۱)

(ج) حضرت عمر سے منقول ہے کہ ہم مشرکین سے وراثت پاتے ہیں لیکن وہ ہم سے نہیں_(۲) نیز بہت سے فقہاء نے فتوی دیا ہے کہ مرتد کی میراث مسلمانوں کو ملتی ہے اور ہم ان سے وراثت پاتے ہیں لیکن وہ ہم سے نہیں_(۳)

(د) وہ لوگ خود ہی کہتے ہیں کہ حضرت ابوطالب کے وقت و فات تک میراث ابھی فرض ہی نہیں ہوئی تھی اور معاملہ وصیت کے ساتھ چلتا تھا_ تو اس بناپر ہوسکتاہے کہ جناب ابوطالبعليه‌السلام نے عقیل کے ساتھ محبت کی وجہ سے اس کے نام وصیت کی ہو(۴) _

۳_ وھم ینہون عنہ، ویناون عنہ

ابوطالب پر اعتراض کرنے والوں نے ذکر کیا ہے کہ آیت( وهم ینهون عنه و یناون عنه ) ابوطالبعليه‌السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے حضرت ابوطالب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ستانے سے لوگوں کو منع کرتے تھے لیکن خود دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے دوری اختیار کئے ہوئے تھے_(۵) جبکہ ہم کہتے ہیں کہ :

۱_ خنیزی نے اس روایت کی سند پر جو اعتراضات کئے ہیں وہ کافی ہیں لہذا اس کی سند پر ہم بحث نہیں کرنا چاہتے(۶)

___________________

۱_ شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۱۴ ص ۶۹ کی طرف رجوع کریں _ ۲_ المصنف (حافظ عبدالرزاق) ج ۱۰ ص ۳۳۹ اور ج ۶ ص ۱۰۶ _

۳_ المصنف ج ۶ ص ۱۰۴_۱۰۷ اور ۱۰۵ اور ج ۱۰ ص ۳۳۸_۳۴۱_ ۴_ مراجعہ ہو: اسنی المطالب ص ۶۲_

۵_ الاصابة ج ۴ ص ۱۱۵، تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۱۲۷، طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۷۸ حصہ اول بھجة المحافل ج ۱ ص ۱۱۶ انساب الاشراف بہ تحقیق محمودی ج ۲ ص ۲۶، الغدیر ج۸ ص۳ میں مذکورہ افراد اور تفسیر خازن ج۲ ص۱۱ سے نیز تفسیر ابن جزی ج۲ ص۶، نیز طبری اور کشاف سے نقل کیا گیا ہے اور دلائل النبویة (بیہقی) مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ج۲ ص ۳۴۰ و ۳۴۱_

۶_ کتاب ابوطالب مومن قریش ص ۳۰۵_۳۰۶_

۱۸۸

۲_ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ یہ آیت کسی لحاظ سے ابوطالبعليه‌السلام پر منطبق نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ تعالی نے اس سے قبل ارشاد فرمایا ہے:( و ان یروا کل آیة لا یومنوا بها حتی اذا جائوک یجادلونک یقول الذین کفروا ان هذا الا اساطیر الاولین و هم ینهون عنه ) (۱) یعنی اور اگر وہ تمام تر معجزے دیکھ لیں تو بھی وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے یہاںتک کہ جب وہ تمہارے پاس آئیں گے تو تم سے بھی جھگڑا کریں گے اور وہ لوگ جو کافر ہوگئے کہیں گے، یہ نہیں مگر پہلوں کی کہانیاں اور وہ اس سے روکتے ہیں

اس آیت میں جمع کی ضمائر مثلاً'' هم'' اور''ینهون و ینأون '' کے فاعل کی ضمیر جمع انکی طرف لوٹ رہی ہے جن کا ذکر اللہ تعالی نے اس آیت میں کیا ہے اور وہ ایسے مشرک ہیں جو ہر آیت اور معجزے کو دیکھنے کے باوجود اس پر ایمان نہیں لاتے اور ان معجزات کے بارے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جھگڑا کرتے ہیں اور اپنے عناد کی وجہ سے اس معجزے کو گذشتہ لوگوں کا افسانہ قرار دیتے ہیں_ ان کی ہٹ دہرمی کی حد اتنی ہی نہیں بلکہ وہ اس سے بھی آگے قدم بڑھاتے ہوئے لوگوں کو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتیں سننے سے روکتے ہیں جس طرح کہ وہ خود بھی ان سے دور رہتے ہیں

ان میں سے کوئی بات بھی حضرت ابوطالبعليه‌السلام پر پوری نہیں اترتی، وہ ابوطالبعليه‌السلام جوہمیشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت پر حوصلہ افزائی کرتے تھے اور اپنے ہاتھ اور زبان کے ساتھ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تائید کرتے بلکہ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ وہ دوسرے لوگوں کو بھی اس دین کے دائرے میں آنے کی دعوت دیتے اور خود بھی اس دین پر ڈٹے رہے اور اس سلسلے میں ہر مشکل کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا ،جس طرح کہ ان کی بیوی، حمزہعليه‌السلام ، جعفرعليه‌السلام ، حضرت علیعليه‌السلام اور بادشاہ حبشہ کی بھی یہی صورت حال تھی_

مفسرین نے بھی اس آیت سے عموم ہی سمجھا ہے اور اس سے سب کفار مراد لئے ہیں اور اس کا یہ معنی کیا ہے کہ وہ لوگ کفار کو روکتے تھے اور اتباع رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منع کرتے تھے اور خود بھی اس سے دور رہتے تھے ...ابن عباس، حسن، قتادہ، ابی معاذ، ضحاک، ابن الحنفیہ، السدی، مجاہد الجبائی اور ابن جبیر سے بھی

___________________

۱_ سورہ انعام، آیت ۲۵_۲۶_

۱۸۹

یہی تفسیرتفسیر مروی ہے_(۱)

۳_علامہ امینی فرماتے ہیں مذکورہ روایت کہتی ہے کہ سورہ انعام کی آیت( وهم ینهون عنه و یناون عنه ) حضرت ابوطالب کی وفات کے وقت نازل ہوئی_ دوسری روایت کہتی ہے کہ آیت( انک لا تهدی من اجبت ) بھی ان کی وفات کے وقت نازل ہوئی جبکہ قرآن کی یہ آیت سورہ قصص کی ہے، جس کی تمام آیات ایک ساتھ نازل ہوئیں اور سورہ قصص پانچ سورتوں کے فاصلے کے ساتھ سورہ انعام سے قبل نازل ہوئی_(۲) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ آیت حضرت ابوطالب کی وفات کے کافی عرصے بعد نازل ہوئی_

بنابر ایں ان لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ آیت وفات ابوطالبعليه‌السلام کے وقت نازل ہوئی کیونکر معقول ہو سکتا ہے؟

۴_ مشرک کیلئے طلب مغفرت سے منع کرنے والی آیت

بخاری، مسلم اور دیگر محدثین نے ابن مسیب سے اور اس نے اپنے باپ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے وفات ابوطالبعليه‌السلام کے وقت ان سے لا الہ الا اللہ کہنے کی خواہش کی تاکہ اس کے ذریعے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے نزدیک ان کی مغفرت کیلئے دلیل قائم کرسکیں اس وقت ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے ابوطالبعليه‌السلام سے کہا:'' کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے منہ موڑنا چاہتے ہیں؟ ''رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ابوطالبعليه‌السلام کو کلمہ توحید کی دعوت دیتے رہے اور وہ دونوں مذکورہ بات دہراتے رہے یہاں تک کہ ابوطالبعليه‌السلام نے آخری جملہ یہ کہا (عبدالمطلب کے دین پر ہوں) اور لا الہ الا اللہ کہنے سے احتراز کیا_

یہ دیکھ کر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے فرمایا : ''خدا کی قسم جب تک خدا کی طرف سے ممانعت نہ ہو آپ کیلئے طلب

___________________

۱_ رجوع کریں: مجمع البیان ج ۷ ص ۳۵، ۳۶، تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۱۲۷، الغدیر ج ۸ ص ۳ درالمنثور ج ۳ ص ۸_۹، ان سب نے تمام یا بعض مطالب کو قرطبی، طبری، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن ابی شیبہ ، عبد بن حمید اور ابن مردویہ سے نقل کیا ہے_ قرطبی ج ۶ ص ۴۰۶ _

۲_ الدر المنثور ج ۲ص ۳ ،تفسیر شوکانی ج ۳، ص ۹۱_۹۲، تفسیر ابن کثیر ج ۲ص ۱۲۲اور الغدیر ج۸ ص ۵ نے نقل کیا ہے از افراد مذکور و از تفسیر قرطبی ج ۶ص ۳۸۶ و۳۸۳ ،ان سب نے نقل کیا ہے از ابی عبید و ابن منذر و طبرانی و ابن مردویہ و نحاس

۱۹۰

مغفرت کرتا رہوں گا''_ اس مناسبت سے یہ آیت اتری( ما کان للنبی والذین آمنوا ان یستغفروا للمشرکین ولو کانوا اولی قربی من بعد ما تبین لهم انهم اصحاب الجحیم ) (۱) یعنی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنین کیلئے روا نہیں کہ وہ مشرکین کیلئے مغفرت طلب کریں اگرچہ وہ ان کے قرابت دارہوں بعد اس کے کہ ان کا جہنمی ہونا واضح ہوجائے، نیز خدا نے ابوطالبعليه‌السلام کے بارے میں یہ آیت اتاری( انک لاتهدی من احببت ولکن الله یهدی من یشائ ) (۲) یعنی اے رسول آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر اس شخص کی ہدایت نہیں کرسکتے جسے آپ چاہیں بلکہ خدا جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے_

ہم نہ تو اس مقطوعہ روایت کی سندوں پر بحث کرنا چاہتے ہیں(۳) اور نہ ابن مسیب جیسے لوگوں پر جن کی حضرت علیعليه‌السلام سے دشمنی واضح ہے اور بعض لوگوں نے تواس کی تصریح کی ہے_(۴) البتہ درج ذیل امور کی طرف اشارہ کریں گے_

۱) وہ آیت جو (مشرکین کیلئے) طلب استغفار سے منع کرتی ہے سورہ توبہ کی ہے اور اس بات میں شک کی گنجائشے نہیں کہ یہ سورت مدینہ میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اترنے والی آخری سورتوں میں سے ایک ہے بلکہ بعض حضرات نے یہ دعوی کیا ہے کہ آخری سورہ یہی ہے_(۵) یہ بات غیرمعقول ہے کہ یہ آیت دس سال سے زیادہ عرصے تک تنہا پڑی رہی ہو پھر جب سورت توبہ نازل ہوئی تو اس میں شامل کر دی گئی ہو کیونکہ قرآنی آیات کسی سورہ کے ساتھ اس صورت میں ملحق ہوتی ہیں جبکہ وہ سورت اس سے قبل نازل ہوچکی ہو_اور یہ بات قرآن کی لمبی سورتوں سے متعلق ہے نہ کہ دیگر سورتوں سے جس کی تمام آیات ایک ساتھ اترتی تھیں_

___________________

۱_ سورہ توبہ، آیت ۱۱۳_

۲_ سورہ قصص آیت ۵۶روایت بخاری مطبوعہ ۱۳۰۹کی ج ۳ص ۱۱۱وغیرہ میں

۳_ رجوع کریں: ابوطالب مومن قریش ص ۳۱۳_۳۴۰اور انساب الاشراف بہ تحقیق محمودی ج ۲ص ۲۵اور ۲۶ نیز دلائل النبوة (بیہقی) مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ج۲ ص ۳۴۲ و ۳۴۳_

۴_ الغارات (ثقفی) ج ۲ص ۵۶۹

۵_ الغدیر ج ۸ص ۱۰، ابوطالب مومن قریش ص ۳۴۱از بخاری، کشاف، بیضاوی، تفسیر ابن کثیر، الاتقان، ابن ابی شیبہ، نسائی، ابن الضریس، ابن منذر، نحاس، ابوالشیخ اور ابن مردویہ_

۱۹۱

بنابریں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اس قدر طویل عرصے تک ابوطالبعليه‌السلام کیلئے طلب مغفرت و رحمت کرتے رہے حالانکہ یہ عمل کافر سے محبت کا واضح ترین نمونہ ہے اور خدا نے سورہ توبہ کے نزول سے قبل ہی متعدد آیات میں کفار کی محبت سے منع کیا تھا جیساکہ اس آیت میں فرماتا ہے:( لا تجد قوماً یومنون بالله والیوم الآخر یوادون من حاد الله ورسوله ولو کانوا آبائهم اَو ابنا هم اواخوانهم اوعشیرتهم ) (۱) یعنی اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو اللہ اور اس کے مخالفین سے محبت کرتے ہوئے نہیں پائیں گے اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں_

نیز فرمایا ہے:( یایها الذین آمنوا لا تتخذوا الکافرین اولیاء من دون المؤمنین ) (۲) یعنی اے مومنوا مومنین کے بجائے کافروں کو اپنا دوست اور حامی نہ سمجھو_

یا یہ فرمایا ہے:( الذین یتخذون الکافرین اولیاء من دون المؤمنین ایبتغون عندهم العزة ) (۳) یعنی جو لوگ مومنین کو چھوڑ کر کافروں سے دوستی کرتے ہیں کیا وہ عزت ان کے ہاں ڈھونڈتے ہیں؟

نیز فرمایا:( لایتخذ المؤمنون الکافرین اولیاء من دون المؤمنین ) (۴) یعنی مومنین کو چاہیئے کہ وہ مومنوں کے بجائے کافروں کو اپنا دوست اور ہمدرد نہ بنائیں_

انکے علاوہ اور بھی آیات موجود ہیں جن کے بارے میں تحقیق کی یہاں گنجائشے نہیں_

۲)خدانے سورہ منافقین میں جو بنابر مشہور ہجرت کے چھٹے سال میں سورہ توبہ سے پہلے، نیز غزوہ بنی مصطلق سے قبل نازل ہوئی فرمایا ہے:( سواء علیهم استغفرت لهم ام لم تستغفرلهم لن یغفر الله لهم ) یعنی کہ آپ ان کیلئے خواہ طلب مغفرت کریں یا نہ کریں(ایک ہی بات ہے) خدا ان کو کبھی نہیں

___________________

۱_ سورہ مجادلہ ۲۲نیز یہ سورہ توبہ سے سات سورتوں کے فاصلے پر پہلے نازل ہوئی (جیساکہ الاتقان ج ۱ص ۱۱تفسیر ابن کثیر ج۴ص ۳۲۹فتح القدیر ج ۵ص ۱۸۶اور الغدیر ج ۸ص ۱۰میں ان سے اور تفسیر آلوسی ج ۲۸و ۳۷سے منقول ہے) ابن ابی حاتم، طبرانی، حاکم، بیہقی، ابونعیم وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ سورہ بدر یا احد میں نازل ہوئی_

۲_ سورہ نساء آیت ۱۴۴ _ ۳_ سورہ نساء آیت ۱۳۹_ ۴_ سورہ آل عمران، آیت ۲۸_

۱۹۲

بخشے گا_

پس جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ علم تھا کہ خدا کافروں کو ہرگز نہ بخشے گا خواہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کیلئے استغفارکریں یا نہ کریں ، تو پھرآپ خواہ مخواہ کی زحمت کیوں کرتے؟ حالانکہ واضح سی بات ہے کہ یہ امر عقلاء کے نزدیک معقول نہیں_

۳)ہم دیکھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے صاف صاف فرمایا:''اللهم لاتجعل لفاجر او لفاسق عندی نعمة'' (۱) یعنی اے خدا کسی فاسق یا فاجر کیلئے میرے پاس کوئی نعمت اور احسان قرار نہ دے_

نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکیم بن حزام کا تحفہ اس کے کافر ہونے کی بنا پر واپس کردیا تھا_ عبیداللہ کہتا ہے میرا خیال ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تھا: ''ہم مشرکین سے کوئی چیز قبول نہیں کرتے لیکن اگر تم چاہو توقیمت کی ادائیگی کے ساتھ قبول کریں گے''_(۲)

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عامر بن طفیل کا تحفہ بھی قبول نہیں فرمایا تھا کیونکہ وہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوا تھا_اس کے علاوہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ملاعب الاسنہ ( بوڑھوں کا مذاق اڑانے والوں )کا ہدیہ بھی رد کردیا تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا میں کسی مشرک کا تحفہ قبول نہیں کرتا_(۳)

عیاض مجاشعی سے منقول ہے کہ اس نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس کوئی تحفہ بھیجا لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے لینے سے

___________________

۱_ رجوع کریں ابوطالب مومن قریش (خنیزی)

۲_ مستدرک الحاکم ج ۳ص ۴۸۴اور تلخیص مستدرک (ذہبی) اس صفحے کے حاشیہ پر_ ان دونوں نے اس روایت کو صحیح گردانا ہے_ نیز کنز العمال ج۶ص ۵۷و ۵۹از احمد، طبرانی الحاکم اور سعید بن منصور ، حیات صحابہ ج۲ ص ۲۵۸ و ۲۵۹ ، ۲۶۰ از کنزالعمال و از مجمع الزوائد ج۸ ص ۲۷۸ اور التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۸۶_ یہاں پر ملاحظہ ہو کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وقت ہجرت جناب ابوبکر سے بھی صرف قیمت دے کر اونٹ لئے تھے_

۳_ کنز العمال ج ۳ص ۱۷۰طبع اول از ابن عساکر طبع ثانی ج ۶ص ۵۷از طبرانی، المصنف (عبدالرزاق) ج ۱ص ۴۴۶و ۴۴۷ اورحاشیہ میں مغازی اور ابن عقبہ سے منقول ہے اور مجمع البیان ج۱ ص ۳۵۳_

۱۹۳

انکار کیا اور فرمایا مجھے کافروں کے عطیات سے منع کیا گیا ہے_(۱)

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عمل کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ کفار کے تحائف کا قبول کرنا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل میں ان کیلئے محبت واحترام کا گوشہ پیدا کرنے کا باعث نہ ہو_

۴)صحیح سند کے ساتھ حضرت علیعليه‌السلام سے مروی ہے (جیساکہ علامہ امینی نے ذکر کیا ہے )کہ انہو ں نے سنا ایک شخص اپنے والدین کیلئے طلب مغفرت کررہا ہے جبکہ وہ دونوں مشرک تھے، حضرت علیعليه‌السلام نے یہ بات پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کو سنائی تو مذکورہ آیت اتری_(۲)

ایک روایت کی رو سے مسلمانوں نے کہا کیا ہم اپنے آباء کیلئے طلب مغفرت نہ کریں؟ اس کے جواب میں مذکورہ آیت نازل ہوئی_(۳)

ایک اور روایت کے مطابق جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے اللہ سے اپنی والدہ کیلئے طلب مغفرت کی اجازت چاہی تو خدانے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اجازت نہ دی اور یہ آیت اتری پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی قبر پر جانے کی اجازت مانگی تو اس کی اجازت مل گئی_(۴)

___________________

۱_ کنز العمال ج ۶ص ۵۷و ۵۹ابوداؤد اور ترمذی سے، احمد او ر طیالسی اور بیہقی نے اسے صحیح قرار دیا ہے_ نیز رجوع کریں کنزالعمال ج ۶ص ۵۷ و ۵۹میں عمران بن حصین سے مروی روایت کی طرف نیز المنصف (عبد الرزاق) ج ۱۰ص ۴۴۷اور اس کے حاشیے میں ج ۲ص ۳۸۹اس نے ابوداؤد احمد اور ترمذی سے روایت کی ہے او ر ملاحظہ ہو الوسائل ج۱۲ ص ۲۱۶ از کافی اور المعجم الصغیر ج۱ ص ۹_

۲_ الغدیر ج ۸ص ۱۲نیز دیگر مآخذ از طیالسی، ابن ابی شیبہ، احمد، ترمذی، نسائی، ابویعلی، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابوشیخ، ابن مردویہ، حاکم (جس نے اسے صحیح قرار دیا ہے)، بیہقی (در شعب الایمان)، ضیاء (المختارة میں)، الاتقان، اسباب النزول، تفسیر ابن کثیر، کشاف، اعیان الشیعة، اسنی المطالب ص ۱۸ (دحلان)، ابوطالب مومن قریش، شیخ الابطح اور مسند احمد ج ۱ص ۱۳۰_۱۳۱_

۳_ مجمع البیان ج ۵ ص ۷۶ از حسن، تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۳۹۳، ابوطالب مومن قریش ص ۳۴۸ از مجمع البیان اور تفسیرابن کثیر سے اور الاعیان ج ۳۹ ص ۱۵۸ و ۱۵۹میں ابن عباس اور حسن سے، کشاف، ج ۲ ص ۲۴۶_

۴_ تفسیر طبری ج ۱۱ص ۳۱و الدر المنثور ج ۳ ص ۲۸۳ و ارشاد الساری ج ۷ ص ۲۸۲ اور ۱۵۸ از صحیح مسلم، تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۳۹۴، مسند احمد، سنن ابوداؤد، ابن ماجہ، حاکم، بیہقی، ابن ابی حاتم، طبرانی، ابن مردویہ، کشاف ج ۲ ص ۴۹ اور ابوطالب مومن قریش ص ۳۴۹ _

۱۹۴

یہاں اگرچہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ اس آخری روایت کا صحیح ہونا بہت بعید ہے کیونکہ ہمارے عقیدے کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی والدہ مومنہ تھیں جیساکہ ہم حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آباء کے ایمان کے بارے میں ذکر کرچکے ہیں لیکن اس سے قطع نظر یہ روایت گزشتہ روایات کے منافی ہے_ شاید راویوں نے اپنی صوابدید کے مطابق عمداً یا سہواً اس آیت کو حضرت آمنہ پر منطبق کیا ہے لیکن صحیح روایت امیرالمؤمنین علیعليه‌السلام سے مروی مذکورہ بالا روایت ہی ہے وگرنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک اپنی والدہ کیلئے استغفار کرنا بھول جاتے؟ یہ ان باتوں کے علاوہ ہے جن کا ذکر گزرچکا ہے_

۵)(انک لا تہدی من اجبت) والی آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ احد کے دن اتری جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا دندان مبارک شہید ہوا اور چہرہ مبارک پر زخم آیا_ اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا تھا خدایا میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ وہ نادان ہیں پس خدانے یہ آیت نازل کی (انک لا تہدی من احببت ...)(۱)

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت حارث بن عثمان بن نوفل کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی خواہش تھی کہ وہ مسلمان ہوجائے کہا گیا ہے کہ یہ مسئلہ اجماعی ہے_(۲)

۶)جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ چاہتے تھے کہ حضرت ابوطالب ایمان لے آئیں تو یقیناً یہی بات خدا بھی چاہتا تھا کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی ایسے امر کو پسند نہیں فرماتے جو خدا کو ناپسند ہو_ رہا ان لوگوں کا یہ کہنا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک وحشی کا قبول اسلام پسند نہ تھا لیکن وہ ایمان لے آیا تو یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ امر خدا اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے درمیان اختلاف اور تضاد کی علامت ہے یعنی یہ کہ ان دونوں میں توافق نہ ہو_ لیکن اگر توافق موجود ہو تو پھر یہ کیسے

___________________

۱_ ابوطالب مومن قریش ۳۶۸ از اعیان الشیعة ج ۳۹ ص ۲۵۹، الحجة ص ۳۹ اس روایت کے بعض مآخذ کا ذکر جنگ احد کے بیان میں ہوگا نیز ملاحظہ ہو: التراتیب الاداریہ ج۱ ص ۱۹۸ از استیعاب_

۲_ ابوطالب مؤمن قریش ص ۳۶۹از شیخ الابطح ص ۶۹_

۱۹۵

ممکن ہے کہ اللہ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ایک شخص کے ایمان کو ناپسند کریں؟(۱)

۷) '' انک لا تھدی من احبیت ...'' والی آیت جناب ابوطالبعليه‌السلام کے ایمان سے مانع نہیں ہے کیونکہ جس طرح روایات دلالت کرتی ہیں خدا نے جناب ابوطالبعليه‌السلام کا مؤمن ہوناپسند کیا ہے اور یہ آیت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کویہ بتانا چاہتی ہے کہ صرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی محبت ہی کسی شخص کے ہدایت یافتہ ہونے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ خدا کی مرضی بھی ساتھ ہونی چاہیئے_

آخر میں یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ گذشتہ معروضات کی رو سے جناب عبدالمطلب نہ کافر تھے نہ مشرک بلکہ وہ مؤمن اور دین حنیف کے پیروکار تھے بلکہ مسعودی نے تو اپنی ایک کتاب میں صاف کہہ دیا ہے کہ وہ اسلام پر مرے_(۲) پس حضرت ابوطالب کا یہ کہنا کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں ان کے کفر پر دلالت نہیں کرتا_ اگر بالفرض انہوں نے ایسا کہا بھی ہو تو پھر اس کی وجہ لازماً یہی ہوسکتی ہے کہ وہ قریش کو اس وقت کی بعض مصلحتوں کی بناپر بے خبر رکھنا چاہتے تھے_

باقیماندہ دلائل

یہ تھے ابوطالبعليه‌السلام کو نعوذ باللہ کافر سمجھنے والوں کے اہم دلائل لیکن ہم نے دیکھا کہ یہ دلائل صحیح اور عالمانہ تحقیق کے آگے نہیں ٹھہرسکتے _ان دلائل کے علاوہ بعض روایات باقی ہیں جن سے ممکن ہے کہ مذکورہ مطلب (کفر ابوطالب) پر استدلال کیا جائے حالانکہ ان روایات میں کوئی ایسا نکتہ نہیں جو اس بات کو ثابت کرسکے_ ہم نہایت اختصار کے ساتھ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں کہ ان لوگوں کی روایت کے مطابق:

___________________

۱_ رجوع کریں حاشیہ کتاب انساب الاشراف جلد ۲ کے صفحہ ۲۸پر_

۲_ الروض الانف ج ۲ص ۱۷۰_۱۷۱_

۱۹۶

۱) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے وسوسے سے رہائی کے بارے میں ابوبکر سے فرمایا ہے کہ تمہیں چاہ یے کہ وسوسے سے نجات کیلئے وہ جملہ پڑھو جس کے پڑھنے کا میں نے اپنے چچا کو حکم دیا تو انہوں نے نہیں پڑھا یعنی: لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کی شہادت(۱) _ عمر سے مروی ہے کہ وہ کلمہ تقوی جس کی تاکید رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے حضرت ابوطالب کو ان کی موت کے وقت کی کلمہ شہادت ہے(۲)

لیکن واضح رہے کہ بعض لوگ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے اس بارے میں سوال کرتے تھے ا ور اسے اپنی زبان پر جاری بھی کرتے تھے لیکن اس کے باوجود وسوسے کا شکار تھے_ مگر یہ کہ اس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مراد شہادتین کا تکرار اور کثرت تلفظ لیا جائے_ جیساکہ یہ روایت ایک معتبر سندکے ساتھ بھی مروی ہے اور اس میں آیا ہے کہ سعد اور عثمان کے درمیان اختلاف ہوا_ حضرت عمرنے ان دونوں کے درمیان فیصلہ کیا اور کہا کہ حضرت یونسعليه‌السلام کی دعا یہ تھی (لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین) لیکن اس نے ابوطالبعليه‌السلام کا ذکر نہیں کیا_(۳)

۲)جب ابوقحافہ نے مسلمان ہونے کیلئے بیعت کا ہاتھ بڑھایا تو حضرت ابوبکر روئے، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے پوچھا :''کیوں روتے ہو؟'' بولے:'' اس خیال سے روتا ہوں کہ کاش اس کے بدلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا کا ہاتھ ہوتا جو بیعت کر کے مسلمان ہوتا اور یوں اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی''_(۴) لیکن یہی روایت قبل ازیں مختلف مآخذ سے ایک اور انداز سے بیان ہوچکی ہے جس سے ابوطالبعليه‌السلام کے

___________________

۱_ حیاة الصحابة ج ۲ ص ۵۴۰ و ۵۴۱ و کنز العمال ج ۱ ص ۲۵۹_۲۶۱ از ابی یعلی و البوصیری (زواید میں) اور طبقات ابن سعد ج ۲ ص ۳۱۲ سے _

۲_ مجمع الزواید ج ۱ ص ۱۵ و کنز العمال ج ۱ ص ۲۶۲ و ۶۳ از ابی یعلی و ابن خزیمہ و ابن حبان و بیہقی وغیرہ جن کی تعداد زیادہ ہے_

۳_ مجمع الزوائد ج ۷ ص ۶۸ از احمد (اس سند کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں سوائے ابراہیم بن محمد بن سعد کے جو ثقہ ہے) اور حیاة الصحابة میں احمد، ترمذی اور الکنز ج ۱ ص ۲۹۸ میں ابی یعلی اور طبرانی سے_ طبرانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے_

۴_ الاصابة ج ۴ص ۱۱۶اور الحاکم (جس نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، بخاری و مسلم کے معیار کے مطابق) از عمر بن شبہ، ابویعلی، ابوبشر سمویہ (در فوائد) و نصب الرایة ج ۶ ص ۲۸۱ و ۲۸۲ (بعض مآخذ سے جن کا ذکر حاشیہ میں ہوا ہے) المصنف ج ۶ ص ۳۹ اور اس کے حاشیہ میں نقل ہوا ہے از ابن ابی شیبہ ج ۴ ص ۱۴۲ اور ۹۵، ابوداؤد ص ۴۵۸ اور مسند احمد ج ۱ ص ۱۳۱ _

۱۹۷

ایمان کی تائید ہوتی ہے_ لہذا اس کا اعادہ نہیں کرتے_ بلکہ یہ بھی منقول ہے کہ جب ابوقحافہ مسلمان ہوا تو حضرت ابوبکر کو اس کے قبول اسلام کا پتہ ہی نہ چلا یہاں تک کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ان کو خوشخبری دی_(۱)

بنابر این حضرت ابوبکر نے مذکورہ بات اس وقت جب ان کے باپ نے بیعت کیلئے ہاتھ بڑھایاکیسے کہی؟

۳)ایک روایت میں مذکور ہے جب حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی وفات ہوئی تو حضرت علیعليه‌السلام رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا بوڑھا اور گمراہ چچا چل بسا_

ایک اور روایت کے مطابق حضرت علیعليه‌السلام نے ابوطالبعليه‌السلام کے غسل و کفن کے بارے میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا حکم ماننے سے انکار کردیا چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے آپ کو حکم دیا یہ کام کسی اور کے ذمے ڈال دیں_(۲)

جبکہ امام احمد نے بھی اپنی مسند میں اس روایت کو نقل کیا ہے لیکن اس میں لکھا ہے آپ کا بوڑھا چچا وفات پاچکا ہے اس میں گمراہ کا لفظ نہیں آیا_(۳) یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے (نعوذ باللہ) ایک مشرک کو غسل دینے کا حکم کیسے دیا ؟ اوریہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے عقیل اور طالب کو جو مشرک تھے غسل دینے کا حکم دینے کی بجائے علیعليه‌السلام کو کیوں حکم دیا؟ پھر یہ بات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے غمگین ہونے، ابوطالبعليه‌السلام کیلئے طلب مغفرت و رحمت کرنے، ان کے جنازے کو کندھا دینے اور جنازے کے ساتھ چلنے سے کیسے ہماہنگ ہوسکتی ہے؟ جبکہ یہی لوگ روایت کرتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مشرک کے جنازے کے ساتھ چلنے کو جائز نہیں سمجھتے؟(۴)

___________________

۱_ المحاسن والمساوی جلد ۱ صفحہ ۵۷_

۲_ المصنف ج ۶ص ۳۹ نیز ملاحظہ ہو: کنز العمال ج۱۷ ص ۳۲ و ۳۳ ، نصب الرایہ ج۲ ص ۲۸۱ و ۲۸۲ اور اسی کے حاشیہ میں مختلف منابع سے مذکور احادیث_

۳_ مسند الامام احمد ج۱ ص ۱۲۹ اور ۳۵ ۱و انساب الاشراف بہ تحقیق المحمودی ج ۲ ص ۲۴ اس میں مذکور ہے کہ آپ نے انکو بذات خود حکم دیا تو انہوں نے انہیں دفن کردیا_

۴_ اس بحث کی ابتدا میں بعض مآخذ کا ذکر ہوچکا اور یہ بھی کہ مشرک کے جنازے میں شرکت جائز نہیں ہے_ رجوع کریں سنن بیہقی وغیرہ جیسی کتب احادیث کی طرف_

۱۹۸

اس کے علاوہ کیا یہ درست ہوسکتاہے کہ حضرت علیعليه‌السلام نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حکم ماننے سے انکار کیا ہو یہاں تک کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ان سے یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ یہ کام کسی اور کے ذمے لگادو؟ کیا حضرت علیعليه‌السلام اس قسم کی باغیانہ ذہنیت رکھتے تھے؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا_

اس کے علاوہ یہ لوگ متعدد مآخذ سے منقول اس حقیقت کے بارے میں کیا جواب دیں گے جن کے مطابق حضرت علیعليه‌السلام نے خود بہ نفس نفیس ابوطالبعليه‌السلام کو غسل دیا، دفن کیا اور ان کو غسل دینے کے بعد غسل مس میت کیا جو کسی بھی مسلمان میت کو چھونے پر واجب ہوتا ہے؟(۱)

پس جب یہ واضح ہوگیا کہ ابوطالب سچے مسلمان تھے تو پھر مدینی جیسے افراد کی یا وہ گوئی پرجو نہ عقل کے مطابق ہے نہ شرع کے، کان دھرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ لوگ چاپلوسی اور نیکی کے دکھا وے کے ذریعے کوئی نتیجہ حاصل نہیں کرسکتے جیسا کہ مدینی کہتا ہے کہ میری آرزو تھی کہ ابوطالبعليه‌السلام مسلمان ہوتے یوں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو خوشی حاصل ہوتی اگرچہ اس کے بدلے مجھے کافر ہونا پڑتا_(۲)

ابوطالبعليه‌السلام نے اپنا ایمان کیوں چھپایا؟

اگر ہم دعوت اسلامی کے تدریجی سفر اورابوطالبعليه‌السلام کے طرز عمل کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ پہلے پہل ہوبہو مومن آل فرعون کی طرح اپنا ایمان چھپاتے تھے_ ان کی روش یہ رہی کہ کبھی اس کو ظاہر کرتے اور کبھی مخفی رکھتے یہاں تک کہ بنی ہاشم شعب ابوطالب میں محصور ہوئے اس کے بعد انہوں نے اسے زیادہ ظاہر کرنا شروع کیا_

امام صادقعليه‌السلام سے منقول ہے کہ حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی مثال اصحاب کہف کی سی ہے جنہوں نے اپنا ایمان چھپایا اور شرک کا دکھاوا کیا پس خدانے ان کو دگنا اجر عنایت کیا_(۳)

___________________

۱_ تاریخ الخمیس ج ۱ ۳۰ ۲_ عیون الاخبار ج ۱ص ۲۶۳ (ابن قتیبہ) _

۳_ امالی صدوق ص ۵۵۱، شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۱۴ ص ۷۰، اصول کافی ج ۱ ص ۳۷۳، روضة الواعظین ص ۱۳۹، بحار الانوار ج ۳۵ ص ۱۱۱، الغدیر ج ۷ ص ۳۸۵_۳۹۰ از مآخذ مذکور، الحجة (ابن معد) ص ۱۷اور ۱۱۵، تفسیر ابی الفتوح ج ۴ ص ۲۱۲، الدرجات الرفیعة اور ضیاء العالمین_

۱۹۹

شعبی نے ذکر سندکے بغیر امیرالمؤمنین حضرت علیعليه‌السلام سے نقل کیا ہے کہ واللہ ابوطالب بن عبدالمطلب بن عبد مناف مسلمان اور مومن تھے اور اس خوف سے اپنا ایمان چھپاتے تھے کہ قریش بنی ہاشم کے خلاف اعلان جنگ نہ کریں_ ابن عباس سے بھی اسی طرح کی بات مروی ہے_(۱) اسکی تائید میں اور بھی متعدد احادیث موجود ہیںجنکے ذکر کی یہاں گنجائشے نہیں_(۲)

لیکن ایک اور روایت کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے جو شاید حقیقت سے قریب تر ہو_ اسے شریف نسابہ علوی (معروف بہ موضح) نے اپنی اسناد کے ساتھ یوں بیان کیا ہے جب ابوطالبعليه‌السلام کی وفات ہوئی تو اس وقت مردوں پر نماز نہیں پڑھی جاتی تھی پس نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی اور حضرت خدیجہ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی _بس اتنا ہوا کہ حضرت ابوطالب کا جنازہ گزرا جبکہ حضرت علیعليه‌السلام ، جعفرعليه‌السلام اور حمزہعليه‌السلام بیٹھے ہوئے تھے_(۳) تب وہ کھڑے ہوگئے اور جنازے کی مشایعت کی پھر ان کیلئے مغفرت کی دعا کی_

پس بعض لوگوں نے کہا ہم اپنے مشرک مردوں اور رشتہ داروں کیلئے دعا کرتے ہیں_ (لوگوں نے یہ خیال کیا کہ حضرت ابوطالب کی حالت شرک میں وفات ہوئی اسلئے کہ وہ ایمان کو چھپاتے تھے) چنانچہ خدا نے اس آیت میں حضرت ابوطالب کو شرک سے منزہ ،نیز اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مذکورہ تین ہستیوں کو خطاسے بری قرار دیا ہے( ما کان للنبی والذین آمنوا ان یستغفروا للمشرکین و لوکانوا اولی قربی ) یعنی نبی اور مومنین کیلئے روانہیں کہ وہ مشرکین کیلئے طلب مغفرت کریں اگرچہ وہ ان کے قریبی رشتہ دارہی کیوں نہ ہوں_

پس جو بھی حضرت ابوطالب کو نعوذ باللہ کافر سمجھے تو گویا اس نے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خطا کار ٹھہرایا حالانکہ خدانے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اقوال و افعال کو خطاسے منزہ قرار دیا ہے_(۴)

___________________

۱_ امالی صدوق ص ۵۵۰، الغدیر ج ۸ ص ۳۸۸ از کتاب الحجة ص ۲۴، ۹۴، ۱۱۵ _

۲_ رجوع کریں الغدیر ج ۷ ص ۳۸۸_۳۹۰ از الفصول و المختارة ص ۸۰، اکمال الدین ص ۱۰۳ اور کتاب الحجة (ابن معد) از ابوالفرج اصفہانی_

۳_ حضرت جعفر حبشہ گئے ہوئے تھے پس یا تو وہ مختصر مدت کیلئے وہاں سے لوٹنے کے بعد پھر واپس ہوئے تھے یا راوی نے اپنی طرف سے عمداً یا سہواً ایسی بات لکھ دی ہے_

۴_ الغدیر ج ۷ص ۳۹۹ از کتاب الحجة (ابن معد) ص ۱۶۸_

۲۰۰