الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 417
مشاہدے: 201324
ڈاؤنلوڈ: 5817

تبصرے:

جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201324 / ڈاؤنلوڈ: 5817
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ایمان ابوطالبعليه‌السلام کو چھپانے کی ضرورت کیا تھی؟

ہم جرا ت کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابوطالبعليه‌السلام کا اپنے ایمان کو مخفی رکھنا اسلام کی ایک شدید ضرورت تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ دعوت اسلامی کو ایک ایسے بااثر فرد کی ضرورت تھی جو اس دعوت کیپشت پناہی اور اس کے علمبردار کی محافظت کرتا بشرطیکہ وہخود غیر جانبدار ہوتا تاکہ اس کی بات میں وزن ہو _یوں اسلامی دعوت اپنی حرکت و کارکردگی کو غیر مؤثر بنانے والے ایک بہت بڑے دباؤ کا سامنا کئے بغیر اپنی راہ پر چل نکلتی_

ابن کثیر وغیرہ نے کہا ہے اگر ابوطالبعليه‌السلام مسلمان ہوجاتے (ہم تو یہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان تھے لیکن اس حقیقت کو چھپاتے تھے) تو مشرکین قریش کے پاس ان کی کوئی حیثیت نہ رہتی اور نہ ان کی بات میں وزن ہوتا _نیز نہ ان پر آپ کی ہیبت باقی رہتی اور نہ وہ ان کا احترام ملحوظ رکھتے بلکہ ان کے خلاف ان میں جسارت پیدا ہوتی اور اپنے دست و زبان سے ان کی مخالفت کرتے_(۱)

ابوطالبعليه‌السلام پر تہمت کیوں؟

شاید حضرت ابوطالب کا واحد جرم یہ ہو کہ وہ امیرالمومنین حضرت علیعليه‌السلام کے والد تھے_ درحقیقت اس قسم کی ناروا تہمتوں کا اصلی ہدف حضرت ابوطالبعليه‌السلام نہیں بلکہ ان کے بیٹے حضرت علیعليه‌السلام ہیں جوامویوں، زبیریوں اور دشمنان اسلام کی آنکھوں کا کانٹا تھے _ان لوگوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام سے مربوط ہر کام میں عیب نکالیں یہاں تک کہ نوبت ان کے بھائی جعفر اور ان کے والد ابوطالبعليه‌السلام تک بھی جا پہنچی _بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ ان کے حق میں مختلف فرقوں کے نزدیک صحیح سند کے ساتھ ثابت کوئی فضیلت ایسی نہیں جس کی نظیر خلفاء ثلاثہ کیلئے بھی بیان نہ کی گئی ہو (البتہ ضعیف اسناد کے ساتھ) تمام تعریفیں اس خدا کیلئے ہیں اور برہان کامل بھی اس کی ہی ہے_

ہم یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر ابوسفیان یا حضرت علیعليه‌السلام کے دیگر دشمنوں کے آباء و اجداد میں سے کسی

___________________

۱_ البدایة و النہایة ج ۳ ص ۴۱ نیز رجوع کریں السیرة النبویة (دحلان) ج ۱ ص ۴۶_

۲۰۱

ایک نے بھی ابوطالبعليه‌السلام جیسی خدمات کا دسواں حصہ انجام دیا ہوتا تو اس کی خوب تعریفیں ہوتیں اور اسے زبردست خراج تحسین پیش کیاجاتا _اس کی شان میں احادیث کے ڈھیر لگ جاتے_ نیز دنیوی و اخروی لحاظ سے اس کی کرامتوں اور شفاعتوں کا زبردست چرچاہوتا بلکہ ہر زمانے اور ہر مقام پر ان چیزوں میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہتا_

عجیب بات تو یہ ہے کہ معاویہ کا باپ ابوسفیان جس نے حضرت عثمان (کے خلیفہ بننے کے بعد ان )کی محفل میں یہ کہا: '' یہ حکومت تیم اور عدی سے ہوتے ہوئے اب تم تک آئی ہے اسے اپنے درمیان گیند کی طرح لڑھکا تے رہو اور بنی امیہ کو اس حکومت کے ستون بناؤ ، کیونکہ یہ تو صرف حکومت کا کھیل ہے_ قسم ہے اس کی جس کی ابوسفیان قسم کھاتا ہے نہ جنت کی کوئی حقیقت ہے نہ جہنم کی''(۱) وہ تو ان کی نظر میں مؤمن متقی عادل اور معصوم ٹھہرا لیکن حضرت ابوطالب (بہ الفاظ دیگر حضرت علیعليه‌السلام کے والد) کافر و مشرک ٹھہرے اور جہنم کے ایک حوض میں ان کا ٹھکانہ ہو جس کی آگ ان کے ٹخنوں تک پہنچے اور جس کی حرارت سے ان کا دماغ کھولنے لگے_ (نعوذ باللہ من ذلک) آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

ابولہب اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نصرت؟

مذکورہ بالا معروضات کے بعداس بات کی طرف اشارہ ضروری ہے جس کا بعض لوگ اس مقام پر ذکر کرتے ہیں اور وہ یہ کہ ابوطالبعليه‌السلام کی وفات کے بعد ابولہب نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کرنے کیلئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا _ قریش نے از راہ حیلہ ابولہب سے کہا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کہتا ہے کہ تمہارا باپ عبدالمطلب جہنمی ہے_ ابولہب نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے جو جواب دیا وہ ان لوگوں کے قول کے مطابق تھا پس ابولہب نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا پھر زندگی بھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دشمنی اختیار کی_(۲)

___________________

۱_ النزاع و التخاصم ص ۲۰ عجیب بات یہ بھی ہے کہ معاویہ جس کے باپ کے نظریات او پر مذکور ہوچکے ہیں اور بیٹا یزید جو یہ کہتا ہو کہ ''لعبت ہاشم بالملک فلا خبر جاء و لا وحی نزل'' بنی ہاشم نے حکومت کا کھیل کھیلا وگرنہ حقیقت میں نہ تو کوئی خبر آئی ہے نبوت کی اور نہ ہی کوئی وحی اتری ہے _ یہ سب کے سب اور ان کے ماننے والے تو پکے مسلمان لیکن ابوطالب اورانہیں مسلمان ماننے والے ؟ از مترجم _

۲_ بطور مثال رجوع کریں : البدایة والنہایة ج۳ ص ۴۳ از ابن جوزی اور تاریخ الخمیس ج۱ ص ۳۰۲_

۲۰۲

ہمیں یقین ہے کہ یہ واقعہ جھوٹا ہے اور اس کی وجوہات درج ذیل ہیں_

پہلی وجہ: یہ ہے کہ ابولہب کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ دس سالہ دشمنی کے دوران کیونکر علم نہ ہوا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اسلام کا نقطہ نظر حالت شرک میں مرنے والے ہر شخص کے بارے میں یہی ہے کہ وہ جہنمی ہوتا ہے؟ پھر وہ اتنی مد ت تک کس بنا پر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقابلہ کرتا رہا؟

نیز اس نے حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی زندگی میں حضوراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کیوں دشمنی کی اور ان کی وفات کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت اور نصرت پر کیوں اتر آیا؟ وہ بتائیں کہ ابوطالبعليه‌السلام نے ابولہب کی روش کیوں نہیں اپنائی اورابولہب نے حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی روش کیوں اختیار نہیں کی؟

دوسری وجہ: ہم پہلے ہی بیان کرچکے کہ عبدالمطلب مشرک نہیں تھے بلکہ سچے مؤمن تھے_

یہ روایت کیوں گھڑی گئی؟

اس روایت کو جعل کرنے کی وجہ شاید یہ تاثر دینا ہو کہ حضرت ابوطالب کی حمایت خاندانی جذبے، نسلی تعصب یا بھتیجے کے ساتھ فطری محبت کی بنا پر تھی_ لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس سے قبل ابولہب کا خاندانی تعصب اور جذبہ کہاں تھا؟ یا بھتیجے کے ساتھ اس کی فطری محبت کہاں گئی ہوئی تھی؟ خاص کر اس وقت جب قریش نے بنی ہاشم کا شعب ابوطالب میں محاصرہ کررکھا تھا اور وہ بھوک کی وجہ سے قریب المرگ ہوگئے تھے؟

نیز اس کے بعد بھی اس کا قومی اور خاندانی جذبہ کہاں چلاگیا؟ ابولہب ہی تھا جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ستانے اور لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے دور رکھنے کیلئے جگہ جگہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا تعاقب کرتا تھا _حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی قربانیوں کے ذکر میں ہم نے اس بارے میں بعض عرائض پیش کئے تھے، لہذا ان کا اعادہ مناسب نہیں_

۲۰۳

چوتھا باب

ہجرت طائف تک

پہلی فصل : ہجرت طائف

دوسری فصل : بیعت عقبہ تک کے حالات

تیسری فصل : بیعت عقبہ

۲۰۴

پہلی فصل

ہجرت طائف

۲۰۵

نئی جد وجہد کی ضرورت

حضرت ابوطالبعليه‌السلام کی وفات کے باعث پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک ایسے طاقتور مددگار سے محروم ہوگئے جس نے اپنے ہاتھ، اپنی زبان، اپنے اشعار، اپنی اولاد، اپنے رشتہ داروں اور تمام وسائل کے ساتھ آنحضرتعليه‌السلام کی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آسمانی مشن کی حمایت کی_ اس مقصد کے حصول کیلئے انہوں نے اپنی حیثیت، دولت اور معاشرتی روابط کو بھی داؤ پر لگا دیا (جیساکہ بیان کیا چکا ہے)_

قریش کا یہ خیال تھا کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا عزم و عمل اپنے حامی وناصر کی موت کے بعد کمزور پڑجائے گا _چنانچہ ابوطالبعليه‌السلام کی وفات کے بعد قریش نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مختلف قسم کی اذیتیں پہنچائیں_ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس عظیم المرتبت چچا کی زندگی میں اس قسم کی اذیتیں پہنچانے سے عاجز تھے_ لیکن اب ان کو موقع ملاکہ وہ اپنے اندرونی کینے کا اظہار کریں اور دل کی بھڑاس نکالیں، اس شخص کے خلاف جسے وہ اپنے لئے مشکلات اور مسائل کی بنیاد سمجھتے تھے_

حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی یہی محسوس کیا کہ اسلام کو زبردست دباؤکا سامنا ہے جو اس دین کی ترویج اور لوگوں کے قبول اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے_ کیونکہ مسلمان دیکھتے تھے کہ قبول اسلام کا نتیجہ ایذا رسانی وتعذیب یا اہانت وتحقیر کے سوا کچھ نہیں نکل رہا_ بلکہ اب تک جو کچھ ہاتھ آچکا تھا اور جس امر کے حصول کیلئے خطرات ومشکلات کامقابلہ کرتے ہوئے زبردست جدوجہد کی گئی تھی وہ بھی ایسے خطرات کی نذر ہوسکتا تھا جن کا کامیاب مقابلہ شاید آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بس کی بات نہ ہوتی_

ان حالات کے پیش نظر ایک نئی جدوجہد کی ضرورت تھی جو دعوت اسلامی کیلئے مہمیز ثابت ہوتی نیز اس کو مزید جاندار کرنے اور متوقع خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ طاقتور بناتی_

۲۰۶

پس جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کامکہ میں بیٹھے رہنا دعوت اسلامی کیلئے جمود کا باعث ٹھہرا اگرچہ اس دعوت کے وجودکیلئے باعث خطر نہ بھی ہوتا تو واضح ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فطری طور پر ایک ایسی جگہ تلاش کرتے جہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قریش کی ایذا رسانیوں اور سازشوں سے دوررہتے ہوئے آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیوں اور دعوت الی اللہ کا سلسلہ جاری رکھ سکتے اور وہ مسلمان جو قریش کے ہاتھوں قسم قسم کی اذیتوں اور تکالیف میں مبتلا تھے سکون کاسانس لے سکتے، قبل اس کے کہ وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے یا پے درپے مشکلات اور دباؤکے باعث ہتھیار ڈال دیتے_ ان وجوہات اوران کے علاوہ دیگر اسباب کی بنا پر آنحضرتعليه‌السلام نے طائف کی طرف ہجرت فرمائی_

ہجرت طائف

جب خدانے اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مکہ سے نکلنے کی اجازت دی (کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حامی ومددگار ابوطالبعليه‌السلام اس دنیا سے جاچکا تھا) تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم طائف کی طرف نکل پڑے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ (مختلف اقوال کی رو سے) حضرت امام علیعليه‌السلام (۱) یا زید بن حارثہ یا دونوں تھے(۲) یہ واقعہ بعثت کے دسویں سال کا ہے جبکہ ماہ شوال کے چند دن ابھی باقی تھے_

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم طائف میں دس دن رہے_ ایک قول کی بناپر ایک ماہ رہے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہاں کے سرکردہ لوگوں میں سے ہر ایک کے ساتھ ملاقات کر کے گفتگو فرمائی لیکن کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مثبت جواب نہ دیا_ انہیں اپنی نوجوان نسل کے بارے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے خطرہ محسوس ہوا _چنانچہ انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وہاں سے نکل جانے کیلئے کہا_ ادھر اوباشوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف اکسایا جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے راستے میں دوقطاریں بناکر بیٹھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پتھربرسانے لگے_ حضرت علیعليه‌السلام آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دفاع کررہے تھے یہاں تک کہ حضرت علیعليه‌السلام یازید بن حارثہ کا سر زخمی ہوگیا_

___________________

۱_ سیرة المصطفی ص ۲۲۱_۲۲۲اور شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۱۴ص ۹۷از شیعہ_

۲_ شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۴ص ۱۲۷از مدائنی اور سیرت مصطفی ص ۲۲۱_۲۲۲_

۲۰۷

کہتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ربیعہ کے بیٹوں(عتبہ، اور شیبہ) کے باغ میں پناہ لی اور اس باغ کے ایک کونے میں بیٹھ گئے_ ربیعہ کے بیٹوں نے جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تکلیف میں مبتلا دیکھا تو ان کے جذبات بیدار ہوئے_ انہوں نے اپنے غلام ''عداس'' کو جو نینوا کا باشندہ اور نصرانی تھا، انگوروں کے ساتھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں بھیجا_ اس نے انگور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے رکھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' کہا_ عداس کویہ دیکھ کر (کہ اس علاقے میں کوئی خدا کا نام لیوا بھی موجود ہے) تعجب ہوا پھر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور اس کے درمیان گفتگو ہوئی جس میں عداس مسلمان ہوا_ ربیعہ کے ایک بیٹے نے دوسرے سے کہا تیرے غلام کو اس نے تیرا مخالف بنادیا_

اس کے بعد پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام مکہ لوٹے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دشمن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نت نئی اذیتیں دینے کے درپے ہوگئے لیکن آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر قسم کی متوقع مشکلات کا مقابلہ کرنے کےلئے عزم صمیم کے ساتھ آمادہ تھے _چنانچہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ساتھی حضرت علیعليه‌السلام یا حضرت زید سے فرمایا بتحقیق اللہ ان (مشکلات) سے نکلنے اور نجات حاصل کرنے کی کوئی سبیل نکالے گا_ بے شک وہ اپنے دین کا ناصر اور اپنے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فتح عطاکرنے والا ہے_

اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اخنس بن شریق سے کہا کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مکہ میں داخل ہونے کیلئے اپنی امان میں لے، لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ قریش کاحلیف ہے اور کوئی حلیف (اپنے دوسرے حلیف کے مخالفین کو) پناہ نہیں دے سکتا_(۱)

اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سہیل بن عمرو سے امان مانگی لیکن اس نے بھی اس بہانے انکار کیا کہ اس کا تعلق بنی عامر سے ہے اور وہ بنی کعب کے مخالفین کو پناہ نہیں دے سکتا_ آخر کار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مطعم بن عدی کی پناہ میں داخل مکہ ہوئے_ مطعم اور اس کے افراد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت کیلئے مسلح ہوگئے_ ادھر قریش نے اس کی امان قبول کرلی_

___________________

۱_ ہجرت ابوبکر اور ابن دغنہ کی پناہ میں ان کی مکہ میں واپسی کا واقعہ ذکر کرتے وقت اس کے حوالہ جات گزر چکے ہیں_

۲۰۸

کہتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ پہنچنے کے پہلے ہی دن اس کی امان سے نکلنے کا فیصلہ کیا لیکن کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی امان میں کچھ مدت تک باقی رہے_

یہ ہے مختصر طور پر وہ واقعہ جسے مورخین نے ہجرت طائف اور وہاں سے واپسی کے متعلق بیان کیا ہے_

مزید ہجرتیں

یہ بھی کہتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچا حضرت ابوطالب کی رحلت کے بعد حضرت علیعليه‌السلام کو لیکر بنی صعصعہ کے ہاں چلے گئے لیکن انہوں نے مثبت جواب نہ دیا_ یوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دس دن مکہ سے باہر رہے_ اس کے علاوہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیعليه‌السلام اور حضرت ابوبکر کے ساتھ بنی شیبان کے ہاں بھی ہجرت اختیار کی_ اس دفعہ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تیرہ دن مکہ سے باہر رہے لیکن وہاں سے بھی کسی قسم کی مدد حاصل نہ کرسکے_(۱)

یہاں ہم توقف کرتے ہیں تاکہ مذکورہ بالا باتوں سے مربوط بعض ایسے نکات کی وضاحت کریں جو ہماری دانست میں ایک حدتک اہمیت کے حامل ہیں_ یہ نکات درج ذیل ہیں:

۱_ عداس کا قصہ

رہا عداس کا مذکورہ کردار اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس کے لائے ہوئے انگور کو تناول فرمانا تو یہ بات ہمارے نزدیک مشکوک ہے جس کی درج ذیل وجوہات ہیں:

(الف) پہلے بیان ہوچکا ہے کہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی مشرک کے تحفے کو قبول نہیں کرتے تھے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو منظور نہ تھا کہ مشرک کا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوپر کوئی احسان ہو جس کے بدلے میں وہ آپ کے احسان کا مستحق بنے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کیونکر ربیعہ کے مشرک بیٹوں کا ہدیہ قبول فرمایا؟ اور کیسے راضی ہوئے کہ ان کا احسان اٹھائیں؟صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے عداس کا ہدیہ قبول فرمایا تھا اور یہ نہیں جانتے تھے کہ اسے ان لوگوں نے بھیجا ہے _

___________________

۱_ شرح نہج البلاغة معتزلی ج ۴ص ۱۲۶ _

۲۰۹

(ب) مذکورہ روایت صاف کہتی ہے کہ عداس مسلمان ہوا حالانکہ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم طائف سے غمگین ومحزون واپس آئے اور کسی مرد یا عورت نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت قبول نہ کی(۲) مگر یہ کہا جائے کہ ان لوگوں کی مراد یہ ہے کہ کسی آزاد شخص نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز پر لبیک نہیں کہا یا یہ کہ طائف والوں میں سے کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات نہیں مانی_ رہا عداس، تو وہ نینوا کا با شندہ تھا_

(ج) رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے تقریبا دس سال گزرگئے تھے_ اس دعوت کی شہرت مکہ سے نکل کر دیگر شہروں اور سرزمینوں میں بھی پہنچ چکی تھی_ یوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پیغام زبان زد خاص وعام ہوچکے تھے_ پھر عداس کو طائف میں خدا کا نام سن کر تعجب کیسے ہوا جبکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو طائف آئے ہوئے دس دن یا ایک ماہ کا عرصہ بھی گزرچکا تھا؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کو بغیر کسی سستی یاتھکاوٹ کے مسلسل اسلام کی دعوت دیتے رہے تھے_ کیا یہ معقول ہے کہ اس پورے عرصے میں عداس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کا تذکرہ ہی نہ سنا ہو، نہ طائف میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی موجودگی کے دوران اور نہ ہی اس پورے علاقے میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تبلیغ شروع ہونے کے بعد سے اب تک؟

وحی کی ابتداء سے مربوط روایت کی بحث کے دوران ہم نے عداس کے بارے میں تھوڑی گفتگو کی تھی، لہذا دوبارہ بحث کرنے سے گریز کرتے ہیں_

۲_کسی کی پناہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا داخل مکہ ہونا:

کہتے ہیں کہ اخنس بن شریق اور سہیل بن عمرو نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو دخول مکہ کیلئے پناہ دینے سے انکار کیا_ اخنس نے یہ بہانہ کیا کہ وہ قریش کا حلیف ہے اور حلیف اپنے ہم عہد کے کسی مخالف کو پناہ نہیں دے سکتے(۲) پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مطعم بن عدی کی پناہ میں داخل مکہ ہوئے_ ہمارے نزدیک یہ بات بھی مشکوک ہے کیونکہ:

___________________

۱_ رجوع کریں: طبقات ابن سعد ج ۱قسم اول ص ۱۴۲_

۲_ حبشہ کی طرف حضرت ابوبکر کی ہجرت کے باب میں اس کے حوالہ جات ملاحظہ کریں_

۲۱۰

(الف) ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو یہ بات گوارا نہ تھی کہ کسی مشرک کا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کوئی حق ہو جس کیلئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کا شکر گزار ہونا پڑے_

(ب) وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جواپنی زندگی کے پچاس سال عربوں کے درمیان گزار چکے تھے اس پوری مدت میں یہ کیسے نہ جان سکے کہ کوئی حلیف (دوسرے حلیف کے مخالف) کسی کو پناہ نہیں دے سکتا اور یہ کہ بنی عامر بنی کعب کے کسی مخالف کو پناہ نہیں دے سکتے تھے_

(ج) کیا یہ عمل یعنی مشرکین کی پناہ لینا ظالموں اور کافروں کی طرف میلان نہیں؟ جبکہ خدا فرماتا ہے:(ولا تؤمنوا الا لمن تبع دینکم ) یعنی اپنے دین کے پیروکاروں کے علاوہ کسی کو نہ مانو_

نیز فرماتا ہے:( ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار ) (۱) یعنی ظالموں کی طرف میلان نہ رکھو وگرنہ آگ کا مزہ چکھنا پڑے گا_

(د) ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ عثمان بن مظعون ولید بن مغیرہ کی امان سے نکل گیا تاکہ اپنے دیگر بھائیوں کی دلجوئی کرسکے توکیا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اس لحاظ سے عثمان بن مظعون کے برابر بھی نہ تھے؟ اور کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں ان اذیتوں اور سختیوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ نہ تھا جو قریش آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو پہنچانے والے تھے؟ یہ تو سچ مچ ایک عجیب بات ہے_

نیز جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی امان کو رد کردیا تو قریش کی ایذا رسانیوں کا خوف کہاں گیا؟خاص کر اس صورت میں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو پہلے ہی دن ان کی پناہ سے نکل گئے تھے_

اگر کوئی یہ کہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل ہوجانے کا خطرہ تھا اسلئے ان لوگوں سے پناہ طلب کی تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو معلوم تھا کہ قریش ایسا نہیں کرسکتے اور ایسا کرنا ان حالات میں خود ان کے مفادات کے برخلاف تھا خصوصاًاس صورت میں کہ یہ کام اعلانیہ طور پر انجام پاتا_

ان ساری باتوں کے علاوہ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر بنی ہاشم اس وقت کہاں گئے تھے؟ وہ اپنے سید

___________________

۱_ سورہ ہود، آیت ۱۱۳_

۲۱۱

وسردار کی حمایت کیلئے کیوں کھڑے نہ ہوئے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کو دوسروں سے مدد لینی پڑی؟ آخر خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شیر (حضرت حمزہ) کہاں تھے_ جس نے ابوجہل کی خبر لی تھی (جیساکہ ذکر ہوچکا ہے)؟

۳_ جنوں کے ایک گروہ کا قبول اسلام

مورخین کہتے ہیں کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم طائف سے مکہ واپس آرہے تھے تو بعض جنوں سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ملاقات ہوئی_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کو قرآن پڑھ کر سنایا تو وہ ایمان لے آئے پھر وہ اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے اور انہیں اسلام کی بشارت دی اور عذاب الہی سے ڈرایا_ پس خدا نے اس واقعے کا ذکر قرآن میں یوں کیا: (قل اوحی الی انہ استمع نفر من الجن فقالوا انا سمعنا قرآنا عجبا یہدی الی الرشد ...)_

لیکن بظاہر جنوںکے قبول اسلام کا واقعہ بعثت کے ابتدائی دنوں کا ہے کیونکہ روایت کہتی ہے کہ جب نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت ہوئی تو جنوں کیلئے آسمانوں سے خبریں چرانے کا راستہ بند ہوگیاکیونکہ اب ان کو آسمانی شہابوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا_ تب انہوں نے سوچا کہ اس کی وجہ زمین میں واقع ہونے والا کوئی غیر معمولی واقعہ ہوگا_ پس وہ زمین کی طرف لوٹے اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت ہوچکی ہے_ تب انہوں نے قرآن کو سنا اور ایمان لے آئے پس یہ آیت اتری_(۱)

ایک اور روایت میں ہے کہ ابلیس نے اپنے لشکر کو بغرض تحقیق بھیجا جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت کی خبر لیکر اس کی طرف پلٹے_(۲)

___________________

۱_ رجوع کریں: در المنثور ج ۶ ص ۲۷۰_۲۷۵ بخاری، مسلم، عبد بن حمید، احمد، ترمذی، نسائی، حاکم، ابن منذر، طبرانی، ابن مردویہ، ابونعیم، بیہقی اور دیگران سے اور تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۰۳_۳۰۴ اور کہا گیا ہے کہ سورہ احقاف کی آیات طائف سے واپس آتے ہوئے اسی مناسبت سے نازل ہوئیں لیکن درالمنثور ج ۶ ص ۴۵ مسلم، احمد، ترمذی اور عبد بن حمید و دیگران کے حوالے سے اسے رد کیا گیا ہے _

۲_ تاریخ الخمیس ج ۱ص ۳۰۴ _

۲۱۲

ابن کثیر کا عقیدہ بھی ہمارے اس قول کے مطابق ہے کہ یہ واقعہ بعثت کے ابتدائی دنوں کا ہے_(۱) اس بات کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ بعض روایات کے مطابق جس رات جنوں نے اسلام قبول کیا ابن مسعود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ تھے(۲) جبکہ ابن مسعود مہاجرین حبشہ میں سے ایک ہیں، بنابریں یہ واقعہ لازمی طور پر ہجرت حبشہ سے قبل کا ہونا چاہی ے یعنی بعثت کے پانچویں سال سے پہلے کا_

۴_ طائف اور آس پاس والوں سے روابط

طائف والوں کا اہل مکہ اور آس پاس والوں سے اقتصادی رابطہ تھا کیونکہ اہل طائف مکہ اور دیگر علاقوں کو پھل برآمد کرتے تھے_

بنابر این وہ اپنے مستقبل کو اقتصادی اور معاشرتی طور پر دوسروں کے ساتھ منسلک دیکھتے تھے_ اس بات کے پیش نظر طائف والوں کو ان لوگوں کے ساتھ نزدیکی تعلقات اور روابط استوار رکھنے اور ان کی خوشنودی و رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت تھی تاکہ ان کو آس پاس والوں خاص کراہل مکہ (جو ان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی تھا) کی طرف سے معاشرتی دباؤ یااقتصای بائیکاٹ کاسامنا نہ کرنا پڑے (جیساکہ بنی ہاشم کو سامنا کرنا پڑا)_

محقق روحانی نے اس نکتے کا اضافہ کیا ہے کہ مکہ والوں کے ہاں ایک بُت تھا جسے عزی کہتے تھے_ اس بت کے مخصوص خادم تھے_ اہل عرب اس بت کی زیارت کرتے تھے،(۳) بنابریں اہل مکہ کو عربوں کے درمیان ایک قسم کی دینی مرکزیت حاصل تھی، جس کی وہ سختی سے حفاظت کرتے تھے_

یہاں سے ہم ملاحظہ کرتے ہیں کہ اہل طائف نے نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ سختی کیوں برتی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو جلد سے جلد نکال دینے کے در پے کیوں ہوئے؟

___________________

۱_ تاریخ الخمیس ج ۱ص ۳۰۳مواھب اللدنیة سے _

۲_ تاریخ الخمیس ج ۱ص ۳۰۴ _

۳_ الاصنام (کلبی)ص۱۶ ، حاشیہ سیرہ حلبیہ پر السیرة النبویہ و حلان ج ۳ ص ۱۱ اور تاریخ الخمیس ج ۲ ص ۱۳۵_

۲۱۳

۵_ اسلام دین فطرت

ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ طائف والوں کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت سے اپنی نوجوان نسل کیلئے خطرہ محسوس ہوا_ باوجود اس کے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ان کے درمیان نہایت مختصر وقت کیلئے ٹھہرے تھے_ یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اسلام صاف ستھرے اذہان کو آسانی اور سہولت کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے_ نیز یہ کہ اسلام فطرت سلیم (جو منحرف نظریات و عقائد سے آلودہ نہ ہوئی ہو نیز ذاتی مفادات اور نسلی تعصبات وغیرہ سے متا ثر نہ ہوئی ہو) کے ساتھ سازگار اور ہم آہنگ ہے_

اسلام صاف اذہان کو آسانی سے متا ثر کیوں نہ کرے جبکہ اس کی بنیادیں واضح عقلی دلائل وبراہین پر استوار ہیں_وہ فطرت کے ساتھ سازگار ہے_ نیززندہ ضمیروں کا ترجمان ہے_ یہی وجہ تھی کہ طائف والے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتوں کو رد کرنے یا ان پر بحث کرنے سے عاجز تھے_ اس کے بدلے انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وہاں سے نکل جانے کیلئے کہا_ انہوں نے کوشش کی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حقیقت ان لوگوں کے سامنے مسخ کی جائے، جنہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بات سنی تھی_ اس مقصد کیلئے انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف غیر منطقی ہتھکنڈے استعمال کئے جن کی پہلی امتیازی علامت توہین اور ایذا رسانی تھی اور دوسری علامت توہین آمیز تمسخر یا استہزاء تھا_

۶_ کیا یہ ایک ناکام سفر تھا؟

کبھی یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ اس بے ثمر ہجرت کا فوری اور وقتی فائدہ کیا تھا؟ اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ لازمی بات ہے کہ اس حادثے نے ان لوگوں کے اذہان پر (جن سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ملاقات اور بات کی) کسی نہ کسی قسم کے مثبت اثرات چھوڑے اور بعد میں ان کے مطلوبہ نتائج سامنے آئے_ اس ہجرت نے واضح طور پر مستقبل میں جب اسلام کابول بالاہوا اور اہل طائف کو اپنے ہمسایوں بالخصوص قریش سے معاشرتی و اقتصادی دباؤ کا خطرہ نہ رہا تو بنی ثقیف کے قبول اسلام کی راہ ہموار کی_

۲۱۴

اس کی وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ قریش نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں افواہیں پھیلاتے تھے کہ (نعوذ بااللہ ) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجنون، ساحر، کاہن، اور شاعر وغیرہ ہیں لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں سے براہ راست ملتے اور لوگ بچشم خود حقیقت حال کا مشاہدہ کرتے، نیز آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شخصیت اور صفات کا نزدیک سے مشاہدہ کرتے تو ہر قسم کے پروپیگنڈوں اور جھوٹی افواہوں کا اثر ختم ہوجاتا تھا_ یوں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپکے مشن پر ایمان لے آنانہایت آسان اور سہل ہوجاتا تھا نیز اس میں مزید قوت، گہرائی اور مضبوطی پیدا ہوتی تھی_

۲۱۵

دوسری فصل

بیعت عقبہ تک کے حالات

۲۱۶

قحط

پھر بھوک کا سخت بحران آیا_ یہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بد دعا کا اثر تھا_ بات یہاں تک پہنچی کہ لوگ علھز (خشک خون)(۱) اور حیوانوں کی کھالیں کھانے پر مجبورہوئے نیز ہڈیوں کو جلاکر کھانے لگے_ مرے ہوئے کتے، مردار اور قبروں سے مردوں کو نکال کر کھا گئے_ عورتوں نے اپنے بچے کھائے_ لوگوں کی حالت یہ تھی کہ انہیں اپنے اور آسمان کے درمیان دھوئیں کی طرح کی دھند لاہٹ نظر آتی تھی چنانچہ لوگ اپنی ہی مشکلات میں پھنس کر رہ گئے_ یوں نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو فرصت ملی (اگرچہ مختصر مدت کیلئے ہی سہی) کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے دین اور مشن کی راہ میں لوگوں کو دعوت دینے اور اللہ کی خوشنودی کی خاطر جدوجہد کرنے کیلئے اٹھ کھڑے ہوں_

بعثت کا گیارہواں سال آیا تو ابوسفیان نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آکر عرض کیا:'' اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم خود صلہ رحمی کا پیغام لیکر آئے تھے_ ادھر تمہاری قوم بھوک سے مر رہی ہے پس اللہ سے ان کیلئے دعا کرو''_ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کیلئے دعا کی اور خدا نے انہیں قحط سے نجات دی چنانچہ فرمایا_( انا کاشفوا العذاب قلیلا انکم عائدون ) (۲) یعنی ہم تھوڑی دیر کیلئے عذاب کو ہٹالیتے ہیں لیکن تم پھر اپنی سابقہ روش پر لوٹ جاؤگے_

یہاں اس بات کی طرف اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ابوسفیان کا پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رجوع کرنا اس بات کو واضح کرتا ہے کہ مشرکین آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیغام کی حقانیت و صداقت سے آگاہ تھے لیکن ہٹ دھرمی، تکبر،

___________________

۱_ علھز: خشک خون جسے اونٹ کے بالوں کے ساتھ کوٹ کر قحط کے ایام میں کھا لیتے تھے_

۲_ سورہ دخان آیت ۱۵رجوع کریں: البدء و التاریخ ج ۴ص ۱۵۷، تفسیر البرہان نے مناقب ابن شھر آشوب ج ۴ص ۱۶۰ سے _

۲۱۷

جاہ طلبی اور اپنی خودساختہ، و ظالمانہ امتیازی حیثیت کو بچانے کی خاطر اس کا انکار کرتے تھے_

دوسری طرف ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابوسفیان کی درخواست کو قبول کرتے ہیں لیکن اس کی وجہ ابوسفیان کی بیان کردہ صلہ رحمی نہ تھی کیونکہ درحقیقت اسلام ہی تمام انسانوں کے درمیان باہمی رشتے اور صلے کی بنیاد ہے اور اسی بنا پر ان کے درمیان بھائی چارہ قائم ہوتا ہے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابوسفیان کی درخواست اس لئے قبول کی تاکہ اس کو اپنے مشن کی حقانیت کی ایک اور دلیل دکھادیں_ نیز اس پر اور اس کے دیگر ہم خیال افراد پر اتمام حجت کریں تاکہ ہلاک ہونے والے دلیل کے ساتھ ہلاک ہوں اور زندہ رہنے والے بھی دلیل کے ساتھ زندہ رہیں_

اس کے ساتھ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان لوگوں کو جو (علم وحقیقت کی کوئی) روشنی سے دور زندگی گزار رہے تھے اور بڑے بڑے دنیوی مفادات کے چکر میں پھنسے ہوئے نہ تھے ایک اورموقع دینا چاہتے تھے تاکہ وہ دشمنوں کی پیدا کردہ فضا سے آزاد ہو کر یکسوئی کے ساتھ غوروفکر کریں_

نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے قبائل کو دعوت اسلام

نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حج کے ایام میں فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے مختلف قبیلوں کو ایک ایک کر کے اسلام قبول کرنے نیز اس کی تبلیغ و ترویج اور حفاظت و حمایت کرنے کی دعوت دیتے تھے بلکہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کسی بھی مشہور یا صاحب شرف آدمی کی آمدکی خبر ملتی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس سے ملتے اور اسے اسلام کی دعوت دیتے لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چچا ابولہب ہر جگہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا پیچھا کرتا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتوں کو ٹوکتا اور لوگوں سے کہتا کہ وہ آپ کی بات قبول کریں نہ اطاعت کریں_ علاوہ ازیں وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرمجنون، ساحر، کاہن، اور شاعر وغیرہ ہونے کی تہمت بھی لگاتا تھا_

لوگ غالباً قریش کے اثر ونفوذ اور طاقت کے خوف سے یا مکہ میں اپنے اقتصادی مفادات کی حفاظت کے پیش نظر( خصوصاً حج کے ایام اور بازار عکاظ میں )قریش کی باتوں پر کان دھرتے تھے_

۲۱۸

ادھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ناکام بنانے کیلئے ابولہب کی ذاتی کوششوں نے بھی انتہائی منفی اثرات دکھائے کیونکہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چچا تھا اور دوسروں سے زیادہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں با خبر تھا_

آخر کار پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوششیں رنگ لائیں کیونکہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کے ظہور اور پھیلاؤ نیز قریش کے مقابلے میں آپ کی پے درپے کامیابیوں بالخصوص فتح مکہ کے نتیجے میں قریش کی شان وشوکت ختم ہوگئی_ ان کا کمال زوال میں بدلنے لگا اور ان کے اثر ونفوذ کو زبردست دھچکا لگا تو مختلف علاقوں سے عرب وفود یکے بعد دیگرے مدینہ پہنچنے لگے تاکہ وہ اپنی دوستی اور حمایت کا اعلان کریں_ ہاں یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ قریش کی دشمنی کے خطرے سے آسودہ خاطر ہوچکے تھے نیز قریش کے بے جادعووں اور بے بنیاد پروپیگنڈوں کا اثرزائل ہوچکا تھا_اس کی وجہ یہ تھی کہ جب انہوں نے ایام حج میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی تھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے سامنے اپنا دین پیش کیا تھا تو انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نزدیک سے پہچانا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اندر عقل کی برتری دیکھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روش کو معقول اور درست پایا_

ایک اور نکتہ جس کی طرف اشارہ ضروری ہے یہ ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی جدوجہد اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قبائل کے سامنے اسلام کو پیش کرنا نیز اس کی راہ میں متعدد بار ہجرت فرمانا اس طرزفکر کے منافی ہے کہ دین کی دعوت دینے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے اور کسی قسم کی جدوجہد نہ کرے_ بلکہ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اس کے پاس جائیں اور اپنی ضروریات و احتیاجات کے بارے میں اس سے سوال کریں_

بنی عامر بن صعصعہ اور نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

یہاں ہم ایک اہم قصے کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں_ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ مختلف قبائل کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے_

واقعہ کچھ یوں ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ بنی عامر کے پاس آئے اور ان کواللہ کی طرف بلایا اور اپنی نبوت کا مسئلہ ان کے سامنے پیش کیا_ بنی عامر کے ایک شخص نے( جس کا نام بیحرہ بن فراس تھا )ان لوگوں سے کہا:'' اللہ

۲۱۹

کی قسم اگر قریش اس جوان کو میرے حوالے کرتے تو میں اس کے ذریعے پورے عرب کو ہڑپ کرجاتا''_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا:'' اگر ہم تمہاری بیعت کریں پھر خدا تمہیںاپنے دشمنوں پر غالب کردے تو کیا تمہارے بعد حکومت ہماری ہوگی؟''

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''حکومت خدا کی ہے جسے وہ چاہے عطا کرتا ہے''_

بیحرہ نے کہا:'' تو کیا ہم تمہارے واسطے ویسے ہی اپنی گردنوں کو عربوں (کے حملوں) کانشانہ قرار دیں؟ پھر جب خدا تم کو غالب کردے تو حکومت دوسروں کو مل جائے؟ ہمیں تمہارے دین کی کوئی ضرورت نہیں''_

یوں انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی دعوت کو ماننے سے انکار کیا_ جب لوگ واپس چلے گئے تو بنی عامر اپنے ایک بزرگ کے پاس آئے _اس نے ان سے پوچھا کہ ایام حج میں ان کے ساتھ کیا پیش آیا؟ وہ بولے: ''ہمارے پاس قریش کا ایک جوان آیا یعنی بنی عبدالمطلب کا ایک فرد جو اپنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نبی سمجھتا ہے آیا اور ہمیں دعوت دی کہ ہم اس کی حمایت کریں اس کا ساتھ دیں اور اسے مکہ سے نکال کر اپنے علاقے میں لے آئیں''_

یہ سن کر اس بزرگ نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھام لیا اور کہا:'' اے عامر کے بیٹوکیا اس کی تلافی ہوسکتی ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں فلاں کی جان ہے اسماعیل کی اولاد میں سے کسی نے نبوت کا جھوٹادعوی نہیں کیا، اس کا دعوی سچا ہے_ بتاؤ اس وقت تمہاری عقل کہاں چلی گئی تھی؟''(۱)

اس قسم کا واقعہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اور بنی کندہ کے درمیان بھی پیش آیا جیساکہ ابونعیم نے دلائل النبوہ میں ذکر کیا ہے_(۲)

یہاں ہم درج ذیل امور کی طرف اشارہ کرتے چلیں:

___________________

۱_ رجوع کریں: سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۶۶، الثقات ابن حبان ج ۱ ص ۸۹_۹۱، بہجة المحافل ج ۱ ص ۱۲۸، حیاة محمد از ہیکل ص ۱۵۲، سیرة النبویة (دحلان) ج ۱ ص ۱۴۷، السیرة الحلبیة ہ ج ۲ ص ۳، الروض الانف ج ۱ ص ۱۸۰، البدایة و النہایة ج ۳ ص ۱۳۹_۱۴۰ اور دلائل النبوة ابونعیم سے ص ۱۰۰ نیز حیاة الصحابہ ج۱ ص ۷۸ ، ۷۹_

۲_ البدایة و النہایة ج ۳ ص ۱۴۰ _

۲۲۰