الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۲

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)          مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 417

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 417
مشاہدے: 201398
ڈاؤنلوڈ: 5817

تبصرے:

جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 417 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201398 / ڈاؤنلوڈ: 5817
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 2

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

میں بھی یہی کہا گیا ہے_ علاوہ برایں ان اشعار کو پڑھنے والیوں میں کسی ایسے فرد کے موجود ہونے کا بھی کوئی ثبوت نہیں جس کی آواز کا سننا حرام تھا_

اگر ہم ان کی ساری باتیں تسلیم کرلیں پھر بھی اس بات کا احتمال ہے کہ ان حالات میں ان لوگوں کو منع کرنا یا ان کو حکم شرعی سے آگاہ کرنا ممکن نہ تھا_ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا سکوت کسی مصلحت کے پیش نظر تھا بنابریں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سکوت سے ان کے عمل کی تائید پر استدلال نہیں کیا جاسکتا_

(ج): رہا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا (نعوذ باللہ ) اپنی آستینوں کو نچانا تو یہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان کے منافی ہے جیساکہ فضل بن روزبہان نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے_(۱)

شیخ مظفر کہتے ہیں ''یہ عمل واضح بے وقوفی اور بے حیائی ہے اور ایک رہبر کیلئے بہت بڑا عیب ہے_ نیز ان حالات میں حیا و مروت کے تقاضوں کی زبردست خلاف ورزی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے سخت منافی ہے (کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مقصد لوگوں کی ہدایت، ان کو نقائص اور احمقانہ اعمال سے نجات دلانا اور آخرت کی یاد دلانا تھا)''_(۲)

ان سب باتوں کے علاوہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے واضح طور پر ہر قسم کے لہو ولعب، گانے بجانے اور رقص سے منع فرمایا ہے جیساکہ ہم اس کا جلد تذکرہ کریں گے_

مذکورہ باتوں کی روشنی میں ایک اور روایت (جو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے استقبال کے وقت بنی ساعدہ کی عورتوں کے گانے اور دف بجانے سے متعلق ہے) کے ذریعے ان کے استدلال کی کمزوری بھی معلوم ہوجاتی ہے_

یہاں ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ غنا اور رقص کے جواز پر ان کے سارے دلائل کو پیش کرنے کے بعد ان پر بحث کی جائے اور پھر اس مسئلے میں قول حق کو بعض دلائل کے ساتھ بیان کیا جائے_

___________________

۱_ رجوع کریں دلائل الصدق ج ۱ ص ۳۹۳_۳۹۰(ترتیب کے ساتھ) _

۲_ رجوع کریں دلائل الصدق ج ۱ ص ۳۹۳_۳۹۰(ترتیب کے ساتھ) _

۳۸۱

حلّیت غنا کے دلائل

گانے بجانے اور رقص کرنے کی حلیت پر مذکورہ باتوں کے علاوہ درج ذیل امور سے استدلال کیا گیا ہے:

۱_حلبی نے ابوبشیر سے نقل کیا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور حضرت ابوبکر حبشیوں کے پاس سے گزرے جبکہ کھیل اور رقص میں مصروف تھے اور کہہ رہے تھے: ''یا ایہا الضیف المعرج طارقاً'' (اے رات کے وقت آنے والے مہمان)_

(حلبی) کہتا ہے: ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں منع نہیں کیا اور ہمارے فقہاء نے رقص کے جواز پر اسی سے استدلال کیا ہے جو اشکال سے خالی ہے کیونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے سامنے دف کے ساتھ یا اس کے بغیر خوبصورت آوازوں کے ساتھ اشعار گائے جانے کے بارے میں صحیح اور متواتر اخبار موجود ہیں_ انہی روایات کی رو سے ہمارے فقیہوں نے دف بجانے کی حلیت پر استدلال کیا ہے اگرچہ گھونگھرؤوں کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوں''_(۱)

۲_ برید ہ سے مروی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کسی جنگ کیلئے شہر سے خارج ہوئے_ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم واپس تشریف لائے تو سیاہ رنگ کی ایک لونڈی آئی اور بولی:'' میں نے نذرکی ہے کہ اگر اللہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو صحیح وسالم واپس لوٹائے تو میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے دف بجاؤں گی اور گاؤں گی'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' اگر تونے نذر کی تھی تو پھر دف بجاؤ وگرنہ نہیں''_ چنانچہ وہ دف بجانے لگی اس دوران حضرت ابوبکر آئے اس کے بعد حضرت علیعليه‌السلام آئے جبکہ وہ دف بجا رہی تھی پھر حضرت عثمان آئے جبکہ ابھی وہ کنیز دف بجانے میں مشغول تھی اس کے بعد حضرت عمر داخل ہوئے پس اس کنیز نے دف کو اپنے سرین کے نیچے رکھا اور خود اس کے اوپر بیٹھ گئی_ چنانچہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے فرمایا:'' اے عمر شیطان تجھ سے ڈرتا ہے وہ گارہی تھی حالانکہ میں بیٹھا ہوا تھا پھر ابوبکر آیا

___________________

۱_ سیرت حلبی ج۲ ص۶۲_

۳۸۲

جبکہ وہ بدستور گاتی رہی تھی ...''_(۱)

۳_حضرت جابر سے منقول ہے حضرت ابوبکر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی خدمت میں پہنچے اس وقت آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس دف بجایا جارہا تھا وہ بیٹھ گئے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا عمل دیکھ کر کچھ نہ کہا_ پھر حضرت عمر آئے جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے عمر کی آواز سنی تو اس کام سے روکا جب وہ دونوں چلے گئے تو حضرت عائشہ بولیں :''اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا عمر کے آنے سے حلال چیز حرام بن گئی؟ ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' اے عائشہ ہر کسی کے ساتھ آزادانہ روش نہیں اپنائی جاسکتی''_(۲)

۴_بخاری ومسلم وغیرہ نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا میرے پاس تشریف لائے اس وقت میرے پاس دو کنیزیں ایک طرب انگیز گیت گارہی تھیں_ (مسلم کے بقول وہ دونوں گا بھی رہی تھیں اور دف بھی بجا رہی تھیں) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بستر پر لیٹ گئے اور اپنا رخ پھیر لیا_ اتنے میں حضرت ابوبکر آئے اور مجھے ڈانٹ کر کہا:'' شیطان کی بانسری اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے ہاں؟''

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے ان کی طرف رخ کیا اور فرمایا:'' ان دونوں کو چھوڑ دو''_ مسلم کی ایک روایت کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''اے ابوبکر ان کو کچھ نہ کہو کیونکہ یہ عید کے ایام ہیں''_(۳)

بعض روایات میں مزید (جیساکہ بخاری میں ہے) مذکور ہے کہ وہ دونوں صرف گانے والیاں نہیں تھیں_

___________________

۱_ اسدالغابة ج۴ ص ۶۴ ، نوادرالاصول ( از حکیم ترمذی) ص ۵۸ و مسند احمد ج۵ ص ۳۵۳ _ ۳۵۴ ( کچھ اختلاف کے ساتھ) نیز دلائل الصدق ج۱ ص ۲۹۱ _ ۳۹۰ از ترمذی ج۲ ص ۲۹۳ جس نے اسے صحیح قرار دیا ہے _ نیز بغوی نے بھی المصابیح میں اسے صحیح گرداناہے _ نیز رجوع کریں الغدیر ج۸ ص ۶۴ _۶۵ سیرت حلبی ج ۲ ص ۶۲ سنن بیہقی ج۱۰ ص ۷۷ اور التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۱۳۱_

۲_ نیل الاوطار ج ۸ ص۲۷۱ و نوادر الاصول ( حکیم الترمذی) ص ۱۳۸ ، و الغدیر ج ۸ ص ۶۴ _۶۵ از مشکاة المصابیح ص ۵۵ اور گذشتہ بعض منابع سے_

۳_ صحیح البخاری ج ۱ ص ۱۱۱ ط المیمنیہ،و صحیح مسلم ج ۳ ص ۲۲ ط مشکول، و السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۶۱_۶۲ وحاشیہ ارشاد الساری ج ۴ ص ۱۹۵_۱۹۷ و لائل الصدق ج ۱ ص ۳۸۹ و سنن البیہقی ج ۱۰ ص ۲۲۴، و اللمع لابی نصرص ۲۷۴_ و البدایة و النہایة ج ۱ ص۲۷۶ و المدخل لابن الحاج ج ۳ ص ۱۰۹ و المصنف ج ۱۱ ص ۴ نیز تہذیب تاریخ دمشق ج۲ ص ۴۱۲_

۳۸۳

۵_ایک روایت کے مطابق ایک دفعہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے حضرت عائشہ کو ایک حبشی عورت کا ناچ دیکھنے کی دعوت دی_ چنانچہ حضرت عائشہ آئیں اور اپنی ٹھوڑی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے کندھے پر رکھ کر دیکھنے لگیں_ حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم نے اسے فرمایا:'' کیا ابھی جی نہیں بھرا؟ ابھی سیر نہیں ہوئی؟ اب بھی جی نہیں بھرا ؟''وہ کہتی تھیں:'' نہیں ''تاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک اپنے مقام کا اندازہ لگالے_ اتنے میں حضرت عمر آنکلے پس لوگ وہاں سے متفرق ہوگئے اس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے فرمایا: ''میں شیاطین جن وانس کو عمر کے خوف سے بھاگتے ہوئے دیکھتا ہوں''_(۱)

۶_ ابن عباس سے مروی ہےکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کےاصحاب خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور ایک کنیز سارنگی کے ساتھ یہ گارہی تھی_هل علی ویحکم

ان لهوت من حرج

وائے ہو تم پر اگر میں دل بہلانے والا کام کروں تو کیااس میں کیا حرج ہے؟ یہ سن کر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا مسکرائے اور بولے:'' انشاء اللہ کوئی حرج نہیں''_(۲)

۷_ ربیع بنت معوذ سے مروی ہے کہ جب اسے دلہن بناکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس بھیجا گیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے پاس آئے اور بیٹھ گئے_ اس وقت چھوٹی لڑکیاں دف بجاتی ہوئی بدر میں قتل ہونے والے اپنے آباء پربین کر رہی تھیں_ یہاں تک کہ ان میں سے ایک نے کہا ''ہمارے درمیان وہ نبی بیٹھا ہوا ہے جو آئندہ کے حالات سے با خبر ہے'' آپ نے فرمایا:'' یوں نہ کہو بلکہ پہلے جو کچھ کہہ رہی تھیں وہی کہو''_(۳)

۸_ ایک اور روایت میں مذکور ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے پاس چند کنیزیں گانے اور کھیلنے میں مشغول تھیں اتنے میں عمر آئے اور اذن چاہا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان عورتوں کو خاموش کرایا اور عمر کی حاجت پوری کردی، پس وہ چلے گئے_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس شخص کے بارے میں سوال ہوا جس کی آمد پر

___________________

۱_ دلائل الصدق ج ۱ ص ۳۹۰، التاج الجامع (للاصول) ج ۳ ص ۳۱۴ و الغدیر ج ۸ ص ۶۵ از صحیح ترمذی ج ۲ ص ۲۹۴ (ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے) واز مصابیح السنة ج ۲ ص ۲۷۱ از مشکاة المصابیح ص ۵۵۰ اور ریاض النضرة ج ۲ ص ۲۰۸ سے حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۷۶۰_۷۶۱ اور منتخب کنز العمال ج ۴ ص ۳۹۳ از ابن عساکر و ابن عدی اور مشکات ص ۲۷۲ از شیخین_ ۲_ السیرة الحلبیة ہ ج ۲ ص ۶۱ ، التراتیب الاداریہ ج۲ ص ۱۳۱ _۱۳۲ از عقد الفرید و غیرہ اور تہذیب تاریخ دمشق ج۴ ص ۱۳۶_ ۳_البخاری فتح الباری کے حاشیہ کے ساتھ ج۷ ص ۲۴۴_

۳۸۴

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان (کنیزوں) کو خاموش رہنے کا حکم دیاتھا اور اس کے چلے جانے کے بعد دوبارہ گانا شروع کرنے کیلئے کہا تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواباً فرمایا:'' یہ وہ شخص ہے جو فضولیات سننے کو ترجیح نہیں دیتا''_(۱)

۹_ ایک روایت یہ کہتی ہے کہ ایک عورت عائشہ کے پاس آئی_ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے فرمایا:'' اے عائشہ اسے پہچانتی ہو؟'' وہ بولیں :''نہیں اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا''_ فرمایا :''یہ فلان قبیلے کی گلو کارہ ہے_ کیا تم اس سے گانا سننا چاہتی ہو؟''وہ بولیں:'' ہاں''_ پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کو ایک گول طشتری تھمادی، چنانچہ اس نے عائشہ کیلئے ایک گیت گایا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' شیطان نے اس کی ناک کی دونوں سوراخوں میں پھونک ماری ہے''_(۲) ابن ابی اوفی سے مروی ہے کہ نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس حضرت ابوبکر آئے تب بھی ایک لڑکی دف بجاتی رہی پھر حضرت عمر آئے تب بھی وہ بجاتی رہی لیکن جب حضرت عثمان آئے تو تب وہ چپ ہورہی(۳) شاعر نیل (محمد حافظ ابراہیم) اپنے دیوان میں خلیفہ ثانی کے فضائل گنتے ہوئے کہتا ہے:

ا خاف حتی الذراری فی ملاعبها ---- وراع حتی الغوانی فی ملاهیها

اریت تلک التی لله قد نذرت ---- انشوده لرسول الله تهدیها

ققالت : نذرت لئن عاد النبی لنا ---- من غزوة لعلی دفی اغنیها

ویممت حضره الهادی و قد ملات ---- نوار طلعته ارجاء و ادیها

و استاذنت ومشت بالدف واندفعت ---- تشجی بالحانها ماشاء مشجیها

و المصطفی و ابوبکر بجانبه ---- لا ینکران علیها ما اغانیها

حتی اذا لاح عن بعد لها عمر ---- خارت قواها وکاد الخوف یردیها

و خبات دفها فی ثوبها فرقا ---- منه ووّدت لون الارض تطوّیها

قد کان علم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله یؤنسها---- فجاء بطش ابی حفص یخشیها

فقال مهبط وحی الله مبتسما ---- و فی ابتسامته معنی یواسیها

قد فر شیطانها لما رای عمرا ---- ان الشیاطین تخشی باس مخزیها

___________________

۱_ نہج الحق (دلائل الصدق کے ضمن میں) ج۱ ص ۴۰۲ از غزالی_

۲_ مسند احمد ج۳ ص ۴۴۹_

۳_ مسند احمد ج۴ ص ۳۵۳ _ ۳۵۴ اس سے حضرت عمر کی ہیبت کی نفی لیکن حضرت عثمان کا رعب ثابت ہوتاہے _ مترجم

۳۸۵

اس نے اپنے بچوں تک کو کھیلوں کے مقامات پر ڈرایا_ اور گانے والیوں پر اور لہو و لعب کی جگہوں پر دہشت طاری کرادی_

کیا تونے اس عورت کا ذکر سنا ہے جس نے خدا کی خوشنودی کیلئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک گیت سنانے کی نذر کی تھی_

اس عورت نے کہا میں نے نذر کی تھی کہ اگر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ سے واپس آئے تو میں دف بجا کر گاؤں گی_

وہ کنیز رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس گئی جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نور نے پوری وادی کو منور کر رکھا تھا_

اس نے اجازت لی اور دف لےکرچلی پھر اپنی طربناک آواز کا جادو جگانا شروع کیا_

مصطفی اور ابوبکر اسکے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے اس کو گانے سے منع نہ کیا_

یہاں تک کہ جب اسے دور سے عمر نظر آیا تو اس کی قوت ماند پڑنے لگی اور قریب تھا کہ خوف سے ہلاک ہوجاتی_

اس نے ڈر کے مارے اپنی ڈفلی کپڑے کے اندر چھپالی اور یہ تمنا کی کہ کاش زمین اس کو اپنے اندر چھپا لیتی_

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدااپنی دانش کی بنا پر اس کے مونس تھے لیکن ابوحفضہ (عمر) کی سخت گیری نے اسے وحشت زدہ کردیا_

وحی کے جائے نزول (رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا) نے مسکرا کر فرمایا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسکراہٹ میں اس کیلئے تسلی کا سامان تھا_

اس کنیز پر مسلط شیطان نے جب عمر کو دیکھا تو بھاگ گیا_ شیاطین اپنے کو ذلیل کرنے والی طاقت سے ڈرتے ہیں_

یہ وہ قابل ذکر دلائل تھے جن کے ذریعے ان لوگوں نے گانے بجانے کی حلیت پر استدلال کیا ہے

۳۸۶

ہمارے خیال میں یہ ساری باتیں ان کے مدعا کو ثابت کرنے کیلئے کسی کام بھی نہیں آسکتیں_

حلیت غنا کے دلائل کا جواب

اگر ہم مذکورہ احادیث کے ضعف کو بیان کرنا چاہیں تو ضروری ہے کہ ان کے اسناد سے چشم پوشی کریں وگرنہ بات لمبی ہوجائیگی اور ممکن ہے کچھ لوگ یہ سوچتے ہوں کہ صحاح ستہ میں موجود اسناد پر تنقید کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں، خاص کر بخاری اور مسلم میں جبکہ گذشتہ احادیث میں سے بعض ان کتب میں موجود ہیں_

ہمارے نزدیک اگرچہ یہ خیال باطل ہے_ اس موضوع پر علماء خاص کر شیخ محمود ابوریہ نے اپنی کتاب ''اضواء علی السنة المحمدیہ'' میں اور اسی طرح دیگر افراد نے بھی گفتگو کی ہے(۱) لیکن اس کے باوجود ہم ان احادیث کی اسناد سے بحث نہیں کرتے (تا کہ ان لوگوں کی دلجوئی ہو اور ان کے جذبات کا احترام عمل میں آئے) بلکہ ان احادیث کے متن سے بحث کرتے ہوئے درج ذیل عرائض پیش کرتے ہیں:

(الف): مذکورہ روایات میں سے بعض کے متون میں زبردست اختلاف ہے خاص کر روایت نمبر۲ اور روایت نمبر۴ جو صحیح بخاری وصحیح مسلم اور دیگر کتب سے مروی ہیں_

(ب): یہ روایات غنا کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں نہ کہ اس کی حلیت پر، بطور مثال: _

۱_روایت نمبر۲ میں حضور کا فرمان ''ان الشیطان لیخاف او لیفرق منک یا عمر'' (اے عمر شیطان تجھ سے ڈرتا ہے) گانے بجانے کی حرمت پر دلالت کرتا ہے_ کیونکہ اگر غنا (گانا بجانا) حلال ہوتا (خاص کر نذر کی صورت میں) تو یہ بات درست نہ ہوتی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ اس عمل کی مذمت کرتے اور اسے شیطانی عمل قرار دیتے_

۲_ روایت نمبر ۳ بھی عائشہ کی طرف سے اعتراض اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی جانب سے جواب کے پیش نظر حرمت پر دلالت کر رہی ہے_

___________________

۱_ ملاحظہ ہو: اضواء علی السنتہ المحمدیہ ، العتب الجمیل اور الغدیر و غیرہ_

۳۸۷

۳_چوتھی روایت میں اسے شیطانی بانسری قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمل حرام اور ناپسندیدہ تھا بنابریں یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کیونکر ایسے امر کے مرتکب ہوئے؟

روزبہان نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم خدا سمجھانے کیلئے ایسا کیا_

لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زبانی طور پر حکم خدا بتادیتے تو کافی بھی ہوتا اور آسان بھی_ علاوہ اس کے اگر مذکورہ بات درست ہوتی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عام لوگوں کے سامنے یہ کام انجام دیتے نہ کہ اپنے گھر میں بیٹھ کر اکیلے ہی سنتے_ پھر جو عمل عقلاء کے نزدیک شیطانی بانسری قرار پائے وہ کیسے حلال ہوسکتا ہے؟

۴_ پانچویں روایت کی رو سے حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' میں شیاطین جن وانس کو عمر کے خوف سے بھاگتے دیکھ رہا ہوں''_ پس جب یہ کام شیطانوں کے جمع ہونے کا باعث ہو تو پھر اسے حرام ہونا چاہی ے نہ کہ حلال_

۵_ آٹھویں روایت میں مذکور ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے فرمایا: ''یہ شخص فضولیات سننے کو ترجیح نہیں دیتا''یاد رہے کہ جو کام حلال یا مکروہ ہو وہ باطل و فضول نہیں کہلایا جاسکتا_

۶_ آخری روایت میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ نے مغنیہ کے بارے میں فرمایا:''شیطان نے اس کی ناک کے دونوں سوراخوں میں پھونکا ہے''_ یہ بات بھی حرمت پر دلالت کرتی ہے_

(ج): ہم یہ سوال کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ کیسا شیطان تھا جو عمر سے خوف کھاتا تھا لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے نہیں؟ نیز جس کام کے بارے میں شیطان عمر سے ڈرے اس عمل کی نذر کیسے درست ہوسکتی ہے؟ جبکہ نذر میں یہ شرط ہے کہ جس چیز کی نذر کی جارہی ہے وہ خدا کی اطاعت اور پسندیدہ عمل محسوب ہو یا کم از کم نا پسندیدہ چیز نہ ہو جیساکہ بیہقی اور ترمذی جیسی حدیث کی کتابوں میں نذرسے متعلقہ ابواب کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے_

یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداتو فضول اور باطل باتیں سننے کو ترجیح دیں لیکن حضرت عمر فضولیات سے پرہیز کریں؟ یہاں پر حضرت عمر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ سے بھی زیادہ با اصول کیسے بن گئے_؟

نیز یہ کیونکر ممکن ہے کہ شیطان تو اس مغنیہ کی ناک میں پھونکے لیکن دوسری طرف سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ عائشہ کو

۳۸۸

اس کے گیت سننے کی دعوت دیں؟ کیا کوئی بھی صاحب عقل شخص اس قسم کے متضاد اعمال بجالا سکتا ہے؟ چہ جائیکہ معصوم پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف اس کی نسبت دی جائے_ علاوہ برآن یہ کیسے معقول ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنے بعض اعمال کو بعض لوگوں (عمر) سے چھپائیں اور اس عمل سے اس شخص کے باخبر ہونے کو اپنے لئے باعث ہتک حرمت سمجھیں لیکن کچھ لوگوں سے اس کو نہ چھپائیں؟ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ عمل، قبیح یا کم از کم غیر پسندیدہ اور نا مناسب تھا؟

ایک روایت میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر گانے بجانے سے منع کرتے ہیں لیکن دوسری روایت میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ عمر اس امر سے منع کرتے ہیں_

(د): آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عائشہ کو حبشیوں کا رقص دیکھنے کی دعوت کیسے دے سکتے ہیں جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا چہرہ ان کے چہرے سے ملاہواہو؟ اور ساتھ ہی ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کیلئے یہ بھی کہہ رہے ہوں:'' اے بنی ارفدہ اپنا خیال رکھنا ''_(۱) کیا یہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیا (جو معروف ہے )کے منافی نہیں ؟ یہاں تک کہ روایات کے مطابق آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پردہ نشین دوشیزاؤں سے بھی زیادہ باحیا تھے_ کیا مذکورہ عمل اس شخص کو زیب دیتا ہے جو حیا کو ایمان کا حصہ سمجھتا ہو اور جس کی مسکراہٹ ہی اس کا خندہ تھی؟ کیا یہ عمل اس بات کے ساتھ ہم آہنگ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی زوجات کو اندھے کی طرف دیکھنے سے منع فرماتے تھے؟ چنانچہ آپ نے اپنی دو بیویوں سے فرمایاتھا:'' کیا تم دونوں بھی اندھی ہو اور اس کو نہیں دیکھ رہی ہو؟''(۲)

(ھ): دف بجانے اور بدر کے مقتولین پر رونے کے درمیان کونسی مناسبت ہے؟ نیز کیا نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سکوت (اگر فی الواقع آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ساکت رہے ہوں) آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رضا مندی پر دلالت کرتا ہے؟ خاص کر ان حالات میں کہ ان کاموں سے منع کرنے کیلئے تدریجی طریقہ کار کی ضرورت ہو_

اگر کوئی یہ کہے کہ مذکورہ افعال کے مرتکب افراد آپ کے احکام کی اطاعت کرتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کا تو مسلمان ہونا بھی ثابت نہیں ہے_

___________________

۱_ بخاری مطبوعہ میمنیہ ج ۱ ص ۱۱۱ _

۲_ رجوع ہو بطرف مسند احمد ج ۶ ص ۲۹۶ و طبقات ابن سعد و مصابیح بغوی مطبوعہ دار المعرفہ ج۲ ص ۴۰۸ ، الجامع الصحیح ج۵ ص ۱۰۲ اور سنن ابوداؤد ج۴ ص ۶۳ ، ۶۴_

۳۸۹

(و): چھٹی اور آخری عرض یہ کہ گانے بجانے کی حرمت پر بہت ساری روایات صریح انداز میں دلالت کرتی ہیں_ یہ روایات یقینی طور پر متواتر ہیں_یہاں ہم ان روایات میں سے درج ذیل روایتوں کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں_

۱_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے ''میری امت میں ضرور ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو شراب، ریشم اور معازف (بینڈباجوں) کو حلال سمجھیں گے''_(۱)

۲_ حضرت انس سے مروی مرفوع حدیث (وہ حدیث جس کے راویوں کا ذکرنہ ہو) میں مذکور ہے ''دو آوازیں لعنت اور گناہ کا باعث ہیں ان دونوں سے منع کرتا ہوں ایک بانسری کی آواز اور دوسری طرب انگیز نغمے یا مصیبت کے وقت شیطانی آواز''_

عبدالرحمان بن عوف سے مروی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' میں نے دو احمقانہ اور گناہ آلود آوازوں سے منع کیا ہے ایک لہو ولعب والے نغمے اور شیطانی بانسریوں کی آواز سے اوردوسری مصیبت کے وقت نکالی جانے والی آواز سے'' حسن سے بھی اسی قسم کے الفاظ نقل ہوئے ہیں_(۲)

۳_عمر بن خطاب سے مروی ہے'' گانے والی کنیز کی مزدوری حرام ہے اس کا گانا حرام ہے اس کی طرف دیکھنا بھی حرام ہے اس کی قیمت کتے کی قیمت جیسی ہے اورکتے کی قیمت حرام ہے''_(۳)

۴_ ابن عباس سے منقول ہے'' دف بجانا حرام ہے، باجے حرام ہیں، ڈگڈگی (یا ڈھولکی) حرام ہے اور بانسری بھی حرام ہے''_(۴)

___________________

۱_ سنن بیہقی ج ۱۰ ص ۲۲۱ اور صحیح بخاری و الغدیر ج ۱۸ ص ۷۰ از بخاری از تفسیر آلوسی ج ۲۱ ص ۷۶ مولف کا کہنا ہے کہ اسے احمد، ابن ماجہ و ابونعیم اور ابوداؤد نے اپنی صحیح سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے کسی نے اس پر اشکال نہیں کیا بعض لوگوں نے تو اس کو صحیح قرار دیا ہے_

۲_ المصنف ج ۱۱ ص ۶ و نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۶۸ و تفسیر شوکانی ج ۴ ص ۲۳۶ و الدر المنثور ج ۵ ص ۱۶۰ والغدیر ج ۸ ص ۶۹ جس نے مذکورہ مآخذ سے سوائے پہلے ماخذ کے نقل کیا_ نیز از کنز العمال ج ۷ ص ۳۳۳ نقد العلم و العلماء (ابن جوزی) ص ۲۴۸ و تفسیر قرطبی ج ۱۴ ص ۵۳۰ _

۳_ نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۶۴ و ارشاد الساری ج ۹ ص ۱۶۳ اور الغدیر ج ۸ ص ۶۹_۷۰ از طبرانی و ارشاد الساری_

۴_ سنن بیہقی ج ۱۰ ص ۲۲۲ _

۳۹۰

۵_ ابن عباس، انس اور ابوامامہ سے ایک حدیث مرفوع نقل ہوئی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' اس امت کے اوپر زمین میں دھنسنے ،پتھر برسنے اور مسخ ہونے کی بلائیں نازل ہوں گی_ یہ اس وقت ہوگا جب لوگ شراب پئیں گے، گانے والیوں سے استفادہ کریں گے اور باجے بجائیں گے''_(۱)

۶_ انس اور ابوامامہ سے مروی حدیث مرفوع کہتی ہے ''اللہ نے مجھے کائنات کیلئے باعث رحمت بناکر، نیز باجوں بانسریوں اور ایام جاہلیت کے آثار کو مٹانے کیلئے بھیجا ہے''_(۲)

۷_ابوہریرہ سے مروی حدیث مرفوع میں مذکور ہے ''آخری زمانے میں کچھ لوگ بندروں اور سوروں کی شکل میں مسخ ہوجائیں گے''_ لوگوں نے اس کی علت پوچھی تو فرمایا:'' وہ باجوں، ڈھولکیوں اور گانے والیوں سے سروکار رکھیں گے''_

اس قسم کی بات عبدالرحمان بن سابط، غازی بن ربیعہ، صالح بن خالد، انس بن ابی امامہ اور عمران بن حصین سے بھی مروی ہے_(۳)

۸_ ترمذی نے حضرت علیعليه‌السلام سے (بطریق مرفوع)حدیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نقل کیا ہے کہ جب میری امت پندرہ چیزوں میں مبتلا ہوگی تو اس پر بلائیں نازل ہوں گی (ان کے ذکر میں فرمایا) جب وہ گانے والیوں اور باجوں سے بھی سروکار رکھیں گے_

یہی بات ابوہریرہ سے بھی مروی ہے_(۴)

۹_ صفوان بن امیہ سے منقول ہے کہ ہم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے پاس تھے اتنے میں عمر بن قرہ آیا اور عرض کیا:

___________________

۱_ الدر المنثور ج ۲ ص ۳۲۴ وا لغدیر ج ۸ ص ۷۰ از در منثور و از تفسیر آلوسی ج ۲۱ ص ۷۶ اسے طبرانی، احمد اورابن ابی الدنیانے نقل کیا ہے_

۲_ جامع بیان العلم ج ۱ ص ۱۵۳ و نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۶۲ و در منثور ج ۲ ص ۳۲۴ و الغدیر ج ۸ ص ۷۰_۷۱ مذکورہ مآخذ سے _

۳_ الدر المنثور ج ۲ ص ۳۲۴ اسے ابن ابی دنیا، ابن ابی شیبہ، ابن عدی، حاکم، بیہقی، داود اور ابن ماجہ نے بھی نقل کیا ہے نیز رجوع ہو المدخل ج ۳ ص ۱۰۵ و الغدیر ج ۸ ص ۷۱ _

۴_ نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۶۳ و المدخل ج ۳ ص ۱۰۵ و الغدیر ج ۸ ص ۷۱ از المدخل ونقد العلم و العلماء (ابن جوزی) ص ۲۴۹ و تفسیر قرطبی ج ۱۴ ص ۵۳ _

۳۹۱

''اے اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے میری قسمت میں شقاوت لکھ دی ہے اسی لئے میں روزی کما نہیں سکتا مگر اپنے ہاتھوں سے ڈھولکی بجاکر_ بنابریں مجھے اجازت دیجئے کہ میں بے حیائی والے کا موں سے ہٹ کر گانے بجانے کا کام کروں''_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''میں تجھے اجازت نہیں دیتا_ اس کام میں نہ عزت ہے نہ شرافت_ اے دشمن خدا تم جھوٹ بولتے ہو_ اللہ نے تجھے پاکیزہ روزی عطا کی ہے لیکن تونے رزق حلال کاراستہ چھوڑ کرحرام روزی کی راہ اپنائی ہے_ خبر دار جو دوبارہ یہ بات کہی تو میں تجھے المناک سزا دوںگا''_(۱)

حلبی نے اس روایت پر یوں تبصرہ کیا ہے:'' مگر یہ کہاجائے کہ یہ نہی (بشرطیکہ صحیح ہو) اس شخص کیلئے ہے جو ڈھولکی بجانے کو پیشہ بنالے_ اس صورت میں یہ عمل مکروہ ہے_ رہا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ فرمانا کہ''تم نے راہ حرام کو اختیار کیا'' تو یہ جملہ اس کام کی قباحت کو بیان کرنے میں مبالغہ آرائی کیلئے ہے''_(۲)

لیکن حلبی یہ بھول گئے کہ اگر اس کام کو پیشہ بنانا فقط مکروہ ہوتا تو پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کو المناک سزا دینے کی دھمکی کیوں دیتے؟ اور اسے دشمن خدا کیوں قرار دیتے؟

اس کے علاوہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حرام کو ''طیب'' (پاکیزہ وحلال) کے مقابلے میں ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ حرام سے مراد وہی ''خبیث'' ہے جو قرآن کی اس صریح آیت کے مطابق حرام قرار دی گئی ہے( ویحل لهم الطیبات ویحرم علیهم الخبائث ) (۳) یعنی وہ پاکیزہ چیزوں کو ان کیلئے حلال اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام قرار دیتا ہے_

۱۰_ابوامامہ سے مروی ہے گانے والیوں کو نہ بیچو اور نہ ہی خریدو، اور نہ ان کو تعلیم دو، ان کی تجارت میں کوئی خوبی نہیں_ ان کی قیمت حرام ہے اس قسم کے امور کے بارے میںیہ آیت نازل کی گئی ہے( ومن الناس من یشتری ) (۴)

___________________

۱_ السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۶۳ از ابن ابی شیبہ_

۲_ السیرة الحلبیة ج ۲ ص ۶۲ _

۳_ سورہ اعراف آیت ۱۵۷_

۴_سورہ لقمان، آیت ۶_

۳۹۲

ایک اور عبارت میںآیا ہے ''گانے والیوں کو تعلیم دینا جائز نہیں اور نہ ہی ان کو بیچنا_ ان کی قیمتیں حرام ہیں_ قرآن کی یہ(مذکورہ) آیت اسی قسم کی چیزوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ...''_(۱)

۱۱_ عائشہ سے مروی ایک حدیث مرفوع کہتی ہے'' خدائے تعالی نے گانے والی کنیزوں، ان کی خریدوفروخت اور قیمت کو حرام قرار دیا ہے _نیز ان کو تعلیم دینا اور ان کو سننا بھی حرام ہے''_ پھرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ آیت پڑھی (ومن الناس من یشتری لھوالحدیث)(۲)

۱۲_ابن مسعود سے خدا کے اس قول (ومن الناس من یشتری لہوالحدیث) کے بارے میں سوال ہوا تو جواب دیا:'' اللہ کی قسم، اس سے مراد غنا (گانا بجانا) ہے''_ ایک اور عبارت یوں کہتی ہے ''واللہ اس سے مراد غنا ہے قسم ہے اس اللہ کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں'' _ اور اس کو تین بار دہرایا_

جابر سے اس آیت کے بارے میں مروی ہے کہ اس سے مراد غنا اور اس کا سننا ہے_

علاوہ ان کے ابن عباس ابن عمر، عکرمہ، سعید بن جبیر، مجاہد، مکحول، عمرو بن شعیب، میمون بن مہران، قتادہ، نخعی، عطائ، علی ابن بذیمہ، اور حسن نے بھی اس آیت کا مقصود غنا ہی کو قرار دیا ہے_(۳)

___________________

۱_ نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۶۳ و تفسیر شوکانی ج ص ۲۳۴ و در منثور ج ۵ ص ۱۵۹ و تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۴۴۲ و ارشاد الساری ج ۹ ص ۱۶۳ و المدخل (ابن حاج) ج ۳ ص ۱۰۴ و تفسیر طبری ج ۲۱ ص ۳۹ و الغدیر ج ۸ ص ۶۷ (مذکورہ مآخذ) اور تفسیر قرطبی ج ۱۴ ص ۵۱ و نقد العلم و العلماء ص ۲۴۷ و تفسیر الخازن ج ۳ ص ۳۶ و تفسیر آلوسی ج ۲۱ ص ۶۸ و ترمذی کتاب ۱۲ باب ۵۱ سے ماخوذ _انہوں نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ درج ذیل محدثین نے بھی اس کو نقل کیا ہے_ سعید بن منصور، احمد، ابن ماجة، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن ابی شیبة ، ابن مردویہ ،طبرانی و ابن ابی دنیا_

۲_ الدرالمنثور ج ۴ ص ۲۲۸ و الغدیر ج ۸ ص ۶۷ از در منثور از تفسیر آلوسی ج ۲۱ ص ۶۸ _

۳_ سنن بیہقی ج ۱۰ ص ۱۲۲ و ۲۲۳ و ۲۲۵ و مستدرک الحاکم ج ۲ ص ۴۱۱ و تفسیر طبری ج ۲۱ ص ۳۹_۴۰ و المدخل (ابن حاج) ج ۳ ص ۱۰۴ و تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۴۴۱ و ارشاد الساری ج ۹ ص ۱۶۳ و در منثور ج ۵ ص ۱۵۹_۱۶۰ و فتح القدیر ج ۴ ص ۳۴ و نیل الاوطار ج ۸ ص ۱۶۳ و الغدیر ج ۸ ص ۶۸ مذکورہ مآخذ سے نیز تفسیر قرطبی ج۱۴ ص ۵۱_۵۳ و نقد العلم و العلماء ص ۲۴۶ و تفسیر الخازن ج ۳ ص ۴۶ نیز اس کے حاشیے پر تفسیر نسفی ج ۳ ص ۴۶۰ و تفسیر آلوسی ج ۲۱ ص ۶۷ وغیرہ سے نیز اسے نقل کیا ہے ابن ابی دنیا، ابن ابی شیبہ، ابن المنذر، بیہقی (شعب ایمان میں) ابن ابی حاتم، ابن مردویہ و فاریابی اور ابن عساکر نے _

۳۹۳

۱۳_ابلیس سے خدا کے خطاب (واستفززمن استطعت منہم بصوتک)(۱) (یعنی تو جس جس کو اپنی آواز سے پھسلاسکتا ہے پھسلا لے) کے متعلق_ ابن عباس اورمجاہد کہتے ہیں کہ اس سے مراد غنا، بانسری اور لہو ہے_(۲)

۱۴_حسن بصری نے یزید کی برائیاں گنتے ہوئے کہا ہے ''وہ اکثر اوقات نشے اور شراب نوشی میں مبتلا رہتا تھا، ریشم پہنتا تھا اور طنبورے (ستار) بجاتا تھا''_(۳)

اہل مدینہ یزید کی جن باتوں کی مذمت کرتے تھے ان میں یہ باتیں بھی شامل تھیں کہ وہ شراب پیتا ہے، طنبور بجاتا ہے، گانے والے اس کے پاس سازبجاتے رہتے ہیں_(۴)

۱۵_ابن عباس نے قول خدا ''و انتم سامدون'' کے بارے میں کہا ہے کہ سامدون سے مراد حمیریوں کے لہجے میں گانا ہے_(۵)

۱۶_ جابر نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے نقل کیا ہے کہ ابلیس ہی سب سے پہلے رویا دھویا اور سب سے پہلے غنا کا مرتکب ہوا_(۶)

۱۷_حضرت علیعليه‌السلام نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا سے نقل کیا ہے کہ گانے بجانے والے مرد اور عورت کی کمائی حرام ہے_ زنا کرنے والی عورت کی آمدنی حرام ہے اور خدا کا حق ہے کہ وہ حرام سے اگنے والے گوشت کو جنت میں داخل نہ کرے_(۷)

___________________

۱_ سورہ اسراء آیت ۶۴ _

۲_ فتح القدیر ج ۳ ص ۲۴۱ و تفسیر طبری ج ۱۵ ص ۸۱ تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۴۹، الغدیر ج ۸ ص ۸۹ ان سے اور تفسیر قرطبی ج ۱۰ ص ۲۸۸ سے و نقد العلم و العلماء ص ۲۴۷ و تفسیرالخازن ج ۳ ص ۱۷۸ اور اس کے حاشیے میں تفسیر نسفی ج ۳ ص ۱۷۸ و تفسیر ابن جزی کلبی ج ۲ ص ۱۷۵ و تفسیر آلوسی ج ۱۵ ص ۱۱۱ _

۳_ الغدیر ج ۱۰ ص ۲۲۵ از تاریخ ابن عساکر ج ۵ ص ۴۱۲ و تاریخ طبری ج ۶ ص ۱۵۷ و تاریخ ابن اثیر ج ۴ ص ۲۰۹ و البدایة و النہایة ج ۸ ص ۱۳۰ و محاضرات الراغب ج ۲ ص ۲۱۴ و النجوم الزہرة ج ۱ ص ۱۴۱ _

۴_ الغدیر ج ۱۰ ص ۲۵۵ از تاریخ طبری ج ۷ ص ۴ و الکامل ابن اثیر ج ۴ ص ۴۵ و البدایة و النہایة ج ۸ ص ۲۱۶ و فتح الباری ج ۱۳ ص ۵۹ _

۵،۶،۷_ المدخل (ابن حاج) ج ۳ ص ۱۰۴_۱۰۷ _

۳۹۴

۱۸_حضرت علیعليه‌السلام نے روایت کی ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دف بجانے، طبل بجانے اور بانسری بجانے سے منع فرمایا ہے_(۱)

یہاں ہم نے جتنا عرض کیا کافی معلوم ہوتا ہے جو حضرات مزید تحقیق کے خواہشمند ہوں وہ ان مآخذ کی طرف رجوع کریں جن کا ہم نے حاشیے میں ذکر کیا ہے_(۲)

غنا کے بارے میں علماء کے نظریات

الغدیر میں مذکور ہے کہ حنفیوں کے امام نے غنا کو حرام قرار دیا ہے_ یہی حکم کوفہ کے علماء (یعنی سفیان، حماد، ابراہیم، شعبی اور عکرمہ) کا بھی ہے_

مالک نے بھی غنا سے منع کیا ہے اور اسے ان عیوب میں شمار کیا ہے جس سے عیب کی حامل کنیز کا سودا فسخ ہوسکتا ہے_ یہی نظریہ سارے اہل مدینہ کا ہے سوائے ابراہیم بن سعد کے_

حنبلیوں کی ایک جماعت سے بھی حرمت کا قول نقل ہوا ہے_ عبداللہ بن احمد بن حنبل سے مروی ہے کہ اس نے اپنے باپ سے غنا کے بارے میں سوال کیا تو جواب ملا''غنا دلوں میں نفاق پیدا کرتا ہے مجھے یہ

___________________

۱_ المدخل (ابن حاج) ج ۳ ص ۱۰۴_۱۰۷

۲_ ابن الحاج کی کتاب المدخل ج ۳ ص ۹۶ سے ۱۱۵ تک و تفسیر طبری ج ۲۸ ص ۴۸ و نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۶۴ و ۲۶۳ و سنن بیہقی ج ۱۰ ص ۲۲۲ و فتح القدیر ج ۴ ص ۲۲۸ و ج ۵ ص ۱۱۵ و تفسیر ابن کثیر ج ۲ ص ۹۶ و ج ۶ ص ۲۶۰ و الفائق زمخشری ج ۱ ص ۳۰۵ و الدر المنثور ج ۲ ص ۳۱۷_۳۲۴ و ج ۵ ص ۱۵۹ و الغدیر ۸ ص ۶۴ اور اس سے آگے (مذکورہ مآخذ سے) نیز قرطبی ج ۷ ص ۱۲۲ و ج ۱۴ ص ۵۳_۵۴ و الکشاف ج ۲ ص ۲۱۱ و تفسیر آلوسی ج ۷ ص ۷۲ و ج ۲۱ ص ۶۸ و ارشاد الساری ج ۹ ص ۱۶۴ و بہجة النفوس (ابن ابی حجرہ) ج ۲ ص ۷۴ و تاریخ البخاری ج ۴ حصہ اول ص ۲۳۴ و نقد العلم و العلماء ص ۲۴۶ و ۲۴۸ و نہایة ابن اثیر ج ۲ ص ۹۵ و تفسیر خازن ج ۳ ص ۴۶۰ و ج ۴ ص ۲۱۲ و نسفی (اس کتاب کے حاشیے پر) ج ۳ ص ۴۶۰ سے نیز اسے نقل کیا ہے سعید بن منصور، عبد بن حمید، عبدالرزاق، فریابی، ابوعبید، ابن ابی الدنیا، ابن مردویہ، ابوالشیخ، بزار، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے_ رہا ابن زبیر کا یہ قول کہ میں نے مہاجرینتمام کو ترنم کے ساتھ گاتے سنا ہے اس کے متعلق ملاحظہ ہو: المصنف ج۱ ص ۵ ، ۶ نیز سنن بیہقی ج۱۰ ص ۲۲۵_ تو اس سے مراد غنا نہیں بلکہ ترنم کے ساتھ شعر پڑھنا ہے جیساکہ ابن الحاج نے ج ۳ ص ۹۸ و ۱۰۸ میں ذکر کیا ہے_

۳۹۵

ناپسندہے'' پھر مالک کا یہ قول نقل کیا کہ اسے فقط فاسق لوگ انجام دیتے ہیں_

مزنی جیسے مذہب شافعی سے آگاہ شافعیوں کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ وہ حرمت کے قائل تھے_ ان لوگوں نے حلیت کے قائل افراد پر اعتراض کیا ہے مثلاً قاضی ابوطیب نے غنا کی مذمت اور ممانعت کے موضوع پر ایک کتاب تصنیف کی ہے_ ابوبکر طرطوشی نے بھی غناپر ایک کتاب لکھی ہے_ طبری کے علاوہ شیخ ابواسحاق نے'' التنبیہ'' نامی کتاب میں اسے حرام قرار دیا ہے_ محاسبی، نحاس اور قفال نے اسے صریحاً حرام قرار دیا ہے_ نیز قاسم بن محمد، ضحاک، ولید بن یزید، عمر بن عبدالعزیز اور دیگر بے شمار علماء نے اس سے منع کیا ہے_

ابن صلاح نے نقل کیا ہے کہ مسلمانوں کے اہل حل وعقد کا اس کی حرمت پر اتفاق ہے_

طبری نے کہا ہے کہ مختلف شہروں کے رہنے والے اس کی کراہت اور ممنوعیت پر متفق الخیال ہیں سوائے ابراہیم ابن سعد اور عبداللہ عنبری کے، مذکورہ باتوں کیلئے رجوع ہو الغدیر ج ۸ ص ۷۲_۷۴ اور المدخل (از ابن الحاج) ج ۳ صفحہ ۹۶ تا ۱۱۵ کے طرف_ اس میں مزید باتیں بھی درج ہیں جن کا ہم نے اختصار کی وجہ سے ذکر نہیں کیا_ جو مزید جستجو کا طالب ہو وہ اس کی طرف رجوع کرے_

غنا اہل کتاب کے نزدیک

چونکہ غنا کا اسلامی تعلیمات سے کوئی رابطہ نہیں اس لئے یہ سوال ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ کہاں سے بعض مسلمانوں کے ذہنوں میں داخل ہوا یہاں تک کہ وہ اس کی حلیت اور اس پر مداومت کی تاکید کرنے لگ گئے؟ بلکہ بات یہاں تک پہنچی کہ یہ مسئلہ صوفیوں کی امتیازی علامت بن گیا جیساکہ سب کو معلوم ہے_ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس کو اہل کتاب سے اخذکیا ہے_

چنانچہ ابن کثیرعمران کی بہن مریم ( حضرت موسیعليه‌السلام کے دور میں زندگی بسر کرتی تھی) کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے:''مریم کا اس دن جو کہ ان کے نزدیک سب سے بڑی عید کا دن تھا دف بجانا اس

۳۹۶

بات کی دلیل ہے کہ عید کے دن دف بجانا ہمارے دین سے پہلے جائز تھا''_(۱)

اس کے بعد ابن کثیر نے مریم والی اس روایت سے استنباط کرتے ہوئے عیدوں اور مسافروں کی واپسی کے مواقع پر جواز کا فتوی دیا ہے_

جعل سازی کا راز

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام اور اسلام کی طرف مذکورہ باتوں کی نسبت دینے کی وجہ درج ذیل امور ہوسکتے ہیں_

۱_ حضرت عائشہ اور حضرت عمر غنا اور موسیقی کو پسند کرتے اور سنتے تھے_

حضرت عائشہ کے بارے میں تو بخاری وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ وہ اس کام کی حوصلہ افزائی کرتی اور کہتی تھیں''فاقدروا قدر الجاریة الحدیثة السن، الحریصة علی اللهو'' (۲) یعنی اس نوجوان لونڈی کی قدر کرو جو گانے کی شوقین ہو_

نیز انہوں نے ایک گویے (مرد) کو اجازت دی کہ وہ بعض کمسن لونڈیوں کیلئے گائے البتہ بعد میں انہوں نے اس کو نکال دینے کا حکم دیا تھا_(۳) ادھر خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کے بارے میں ابن منظور نے کہا ہے ''بتحقیق عمرنے بادیہ نشینوں کے غنا کی اجازت دی تھی''_(۴) خواّت بن جبیر نے حضرت عمرسے گانے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے اجازت دی_ چنانچہ خواّت نے گانا شروع کیا اور حضرت عمر نے کہا:'' آفرین اے خوات، آفرین اے خوات''_(۵)

___________________

۱_ البدایة و النہایة ج ۱ ص ۲۷۶_

۲_ عبد الرزاق کی کتاب المصنف ج ۱۰ ص ۴۶۵ صحیح بخاری مطبوعہ مشکول ج ۹ ص ۲۲۳ و ۲۷۰ و حیات الصحابة ج ۲ ص ۷۶۱ از مشکاہ ص ۳۷۲ از شیخین (بخاری و مسلم) و دلائل الصدق ج ۱ ص ۳۹۳ _

۳_ سنن بیہقی ج ۱۰ ص ۲۲۴ _

۴_ لسان العرب ج ۱۵ ص ۱۳۷ لفظ غنا کی بحث میں _

۵_ الغدیر ج ۸ ص ۷۹ از کنز العمال ج ۷ ص ۳۳۵ _

۳۹۷

نیز انہوں نے یہ بات سنی کہ رباح بن مغترف گاتا ہے چنانچہ انہوں نے اس کی تحقیق کی تو لوگوں نے اس کے بارے میں اطلاع دی، حضرت عمر بولے :''اگر تم یہ کام کرنا چاہتے ہو تو تمہیں چاہیئے کہ ضرار بن خطاب کے اشعار پر توجہ دو''_ قریب قریب یہی بات خوات کے ساتھ بھی کہی_(۱)

علاء بن زیاد سے مروی ہے کہ عمر اپنے راستے پر جا رہے تھے اس دوران انہوں نے کچھ گایا پھر کہا کہ''جب میں نے گایا تو تم لوگوں نے مجھے کیوں نہیں ٹوکا؟''_(۲)

شوکانی اور عینی نے عمر اور عثمان کو ان لوگوں میں سے قرار دیا ہے جنہوں نے غنا کو جائز قرار دیا ہے_(۳)

نیز حضرت عمرنے زید بن سلم اور عاصم عمر سے دوبارہ گانے کیلئے کہا اور اظہار نظر بھی فرمایا جیساکہ ابن قتیبہ نے ذکر کیا ہے_(۴)

بنابریں گذشتہ روایات میں سے اکثر میں حضرت عمر کے ساتھ اس بات کی جعلی نسبت (کہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے گھر میں گانے والیوں کو منع کرتا تھا) دینے کی وجہ شاید یہ ہو کہ ان (عمر) کے بارے میں معروف بات کو مشکوک بنا دیا جائے یا یہ کہ غنا سے ان کو جو واسطہ رہا تھا اس کی قباحت میں کمی کی جاسکے کیونکہ جب لوگ یہ دیکھ لیں کہ رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم توخود غنا سنتے تھے، اپنے گھر میں شیطانی آلات (بانسری وغیرہ) رکھتے اور لہویات سننے سے شغف رکھتے تھے تو اس کے بعد کوئی اور شخص ان اعمال کا مرتکب ہوجائے تو اس میں کوئی قباحت محسوس نہ ہو_

۲_ مذکورہ روایات (جو غنا کی حلیت کو ثابت کرنا چاہتی ہیں) کی اکثریت کا مقصد حضرت عائشہ کے کردار کو بیان کرنا ہے یہاں تک کہ ان روایات کی رو سے جب وہ حبشیوں کا رقص دیکھ رہی تھیں تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ

___________________

۱_ نسب قریش (مصعب) ص ۴۴۸ و سنن بیہقی ج ۱۰ ص ۲۲۴ و الغدیر ج ۸ ص ۷۹ از سنن بیہقی واز استیعاب ج ۱ ص ۸۶ و ۱۷۰ و از الاصابة ج ۱ ص ۵۰۲ و ۴۵۷ و ج ۸ ص ۲۰۹ از کنز العمال ج ۷ ص ۳۳۵ و تاریخ ابن عساکر ج ۷ ص ۳۵ نیز الاصابہ ج۲ ص ۲۰۹_

۲_ الغدیر ج ۸ ص ۸۰ از کنز العمال ج ۷ ص ۳۳۵ _

۳_ نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۶۶ و الغدیر ج ۷ ص ۷۸ از نیل الاوطار و از عمدة القاری در شرح صحیح بخاری ج ۵ ص ۱۶۰ _

۴_ عیون الاخبار ج ۱ ص ۳۲۲ _

۳۹۸

ان سے فرما رہے تھے کہ کیاابھی تم سیر نہیں ہوئی؟ اور وہ کہتی تھیں ''نہیں''_ تاکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے نزدیک اپنا مقام دیکھ لیں_ یہ امر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ایک (خفیہ) ہاتھ اس کوشش میں مصروف تھاکہ حضرت عائشہ کیلئے فضائل تراشے اور یہ ثابت کرے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ان کی پسند کا خیال رکھتے اور ان سے محبت کرتے تھے_ علاوہ بر این ان روایات میں اس بات کے واضح اشارے ملتے ہیں کہ ان میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کیلئے فضائل ثابت کرنے نیز اسلام سے ان کے تمسک اور ان کی جانب سے اسلام کی حمایت کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اگرچہ اس مقصد کے حصول کیلئے نبی کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عزت وشرف اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عفت وپاکیزگی کو داغدار بنانے کی ضرورت کیوں نہ پڑے_

۳_ ہم امویوں اور عباسیوں کو بھی نبی اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جھوٹی احادیث وضع کرنے کے عمل سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے_ کیونکہ ان کے درمیان ایسے لوگ موجود تھے جو ان کے ہر فعل کو شریعت اور قداست کا لباس پہنانے کی کوشش میں رہتے تھے_چنانچہ غیاث ابن ابراہیم اور ابوالبختری کے ساتھ مہدی عباسی کا قصہ ہمارے سامنے ہے جب وہ مہدی کے پاس پہنچا تو اسے کبوتربازی میں مشغول پایا_ اس نے یہ حدیث بیان کی ''لاسبق الا فی خف او نصل او حافر'' یعنی شرط لگانا جائز نہیں مگر ٹاپوں والے حیوانات (مثلا اونٹ) کی دوڑ یا تیر اندازی یا کھروں والے حیوانات (مثلا گھوڑے وغیرہ) کی دوڑ میں پھر اپنی طرف سے اضافہ کرتے ہوئے کہا ''اوجناح'' (یعنی اڑنے والے پرندوں میں بھی جائز ہے) تاکہ یوں مہدی کے شوق کی تسکین ہو_ چنانچہ مہدی نے اسے پیسوں کی ایک تھیلی دیئے جانے کا حکم دیا_ جب وہ نکل گیا تو مہدی نے کہا :''میں گواہی دیتا ہوں کہ تیری پشت ایک کذاب کی پشت ہے''_(۱)

ہم تاریخ وادب کی کتابوں میں گانے بجانے اور لہو ولعب پر اموی اور عباسی خلفاء کی توجہ کے بارے میں عجیب وغریب باتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں_وہ گانے والوں کو دسیوں سینکڑوںبلکہ ہزاروں گنابڑے انعامات

___________________

۱_ الاسرار المرفوعة فی الاخبار الموضوعة (مصنفہ قاری) ص ۴۶۹ و اللئالی المصنوعة ج۲ ص۴۷۰ و الموضوعات (ابن جوزی) ج ۱ ص ۴۲ و لسان المیزان ج ۴ ص ۴۲۲ و میزان الاعتدال ج ۳ ص ۳۳۸ والمجروحون ج۱ ص ۶۶ ، تاریخ الخلفاء ص ۲۷۵ نیز المنار المنیف ص ۱۰۷_

۳۹۹

دیتے تھے_(۱) یہاں تک کہ اسحاق موصلی (جو موسیقی دانوں کا استاد تھا) نے کہا:'' اگرہادی زندہ رہتا تو ہم اپنےگھروں کی دیواریں سونے اور چاندی سے بناتے''_(۲)

رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کا قبا میں نزول

کہتے ہیں کہ اس پرشکوہ استقبال کے بعد رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ، قبا کی جانب چلے اور قبیلہ عمرو بن طوف میں کلثوم بن ہدم کے ہاں ٹھہرے_

اس دن حضرت ابوبکر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شہر میں داخل ہونے پر بہت اصرار کیا لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انکار فرمایا اور بتایا کہ جب تک آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چچا کا بیٹا، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا برادر دینی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھرانے میں آپ کے نزدیک، سب سے عزیز ہستی (جس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بقول اپنی جان کے بدلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان بچائی تھی) نہ پہنچے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہاں سے کوچ نہیں کریں گے_ یہ سن کر حضرت ابوبکر کی طبیعت ہی مکدر ہوگئی اور پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جدا ہو کراس رات شہر مدینہ میں داخل ہوئے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا وہیں امیرالمومنین علیعليه‌السلام کے منتظر رہے یہاں تک کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فواطم (فاطمہ کی جمع _ یعنی فاطمہ زہراعليه‌السلام ، فاطمہ بنت اسد اور فاطمہ بنت زبیر بن عبدالمطلب )اور ام ایمن(۳) کے ساتھ نیمہ ربیع الاول کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کی خدمت میں پہنچ گئے(۴) اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ کلثوم بن ہدم کے ہاں ٹھہرے_(۵)

___________________

۱_ ربیع الابرار ج ۱ ص ۶۷۵ جس میں مذکور ہے کہ اس نے ابراہیم موصل کو بہترین موسیقی کے انعام میں ایک لاکھ،درہم دیئے اس سلسلے میں ابوالفرج نے اپنی کتاب الاغانی میں جن موارد کا ذکر کیا ہے اس کا مطالعہ کافی ثابت ہوگا_

۲_ حیاة الامام الرضا السیاسیة (از مولف کتاب ہذا) ص ۱۱۸ از الاغانی مطبوعہ دار الکتب قاھرہ ج ۵ ص ۱۶۳_

۳_ البحار ج ۱۹ ص ۱۰۶ و ۱۱۵،۱۱۶ و ۷۵،۷۶ و ۶۴ از روضة الکافی ص ۳۴۰ و اعلام الوری ص ۶۶ و الخرائج و الجرائح نیز رجوع ہو الفصول المھمة (ابن صباغ مالکی )ص ۳۵ و امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۸۳_

۴_ امتاع الاسماع ص ۴۸ _

۵_ البحار ج ۱۹ و البدایة و النہایة ج ۳ ص ۱۹۷ _

۴۰۰