الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 460
مشاہدے: 229036
ڈاؤنلوڈ: 6071

جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 229036 / ڈاؤنلوڈ: 6071
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

امام علی بن الحسینعليه‌السلام سے روایت کی ہے کہ آپعليه‌السلام ہمیشہ اذان میں '' حی علی الفلاح'' کہنے کے بعد'' حی علی خیر العمل'' کہتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہی پہلی اذان ہے(۱) _

اور ان کے ''یہی پہلی اذان ہے ''فرمانے کا مطلب صرف یہی ہوسکتا ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اذان یہی تھی(۲) _

۱۰_حلبی اور ابن حزم وغیرہ نے حضرت امام علی ابن الحسینعليه‌السلام سے بالکل ایسی ہی روایت بیان کی ہے _ اسکا ذکر آئندہ آئے گا_

سہل بن حنیف سے روایات:

۱۱_ بیہقی کا بیان ہے کہ اذان میں '' حی علی خیر العمل'' کے ذکر کوسہل بن حنیف نے ابو امامہ سے روایت کی ہے(۳) _

۱۲ _ ابن وزیرنے محبّ طبری الشافعی کی کتاب احکام الاحکام سے یوں نقل کیا ہے کہ '' سہل بن حنیف نے اذان میں حی علی خیر العمل کے ذکر کوصدقہ بن یسار کے ذریعے سے ابی امامہ سے روایت کیا ہے _ وہ جب بھی اذان دیتے تو'' حی علی خیر العمل '' ضرورکہتے تھے_ سعید بن منصور نے بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے(۴) _

حضرت بلال سے روایات:

۱۳ _ عبداللہ بن محمد بن عمار نے عمار اور عمر فرزندان حفص بن عمر سے اور انہوں نے اپنے آباء و اجداد سے

____________________

۱) سنن بیہقی ج/ ۱ ص۴۲۵، دلائل الصدق ج/۳ جزء دوم ص ۱۰۰ از مبادی الفقہ الاسلامی ص ۳۸ از مصنف ابن ابی شیبہ ، جواھر الاخبار والآثار ج/۲ ص۱۹۲، الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۹ ، ۳۰۸ ، ۳۱۰ ، نیل الاوطار ج۲ ص ۱۹ نیز کتاب العلوم ج۱ ص ۹۲_

۲) دلائل الصدق ج/۳ جزء دوم ص ۱۰۰ از مبادی الفقہ الاسلامی ص ۳۸ _

۳)سنن بیہقی ج/۱ ص ۴۲۵_

۴)دلائل الصدق ج / ۳ جزء دوم ص ۱۰۰ از مبادی الفقہ الاسلامی ص ۳۸ نیز ملاحظہ ہو الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۹ و ۳۱۱ _

۱۴۱

اور انہوں نے حضرت بلال سے نقل کیا ہے کہ حضرت بلال صبح کی اذان میں ''حی علی خیر العمل''کہتے تھے تو آنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''حی علی خیر العمل'' کو چھوڑ کر اس کی جگہ ''الصلاة خیر من النوم'' کہو_ تو اس نے حی علی خیر العمل کہنا ترک کردیا(۱) _ لگتا یہی ہے کہ اس روایت کا آخری حصہ راویوں کی ستم ظریفی کے باعث اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ ''الصلاة خیر من النوم ''کو پیامبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خود جناب عمر بن خطاب کی جانب سے اضافہ کیا گیا اور بہت ساری روایات میں اس بات کی صراحت و وضاحت بھی موجود ہے(۲) شاید کسی اورفرصت میںہم اس پربحث کرسکیںگے_

۱۴ _ حضرت بلال جب بھی صبح کی اذان دیتے تو ''حی علی خیر العمل'' ضرور کہتے تھے(۳) _

۱۵_ قوشجی و غیرہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمر نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے کہا : ''لوگو تین چیزیں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں تھیں _میں ان سے منع کرتاہوں اور انہیںحرام قرار دیتاہوںاور ان کے ارتکاب پر سزابھی دونگا_ وہ تین چیزیں یہ ہیں :

۱_ متعة النسائ_

۲ _ متعة الحج _

۳ _ حی علی خیر العمل ''(۴) _

مذہب اشاعرہ کے متکلم اور مناظر قوشجی نے جناب عمر کے مذکورہ حکم کے متعلق یہ عذر پیش کیا ہے کہ

____________________

۱)مجمع الزوائد ج/ ۱ ص ۳۳۰ از الطبرانی در الکبیر ،مصنف عبدالرزاق ج/۱ ص ۴۶۰ ، سنن بیہقی ج / ۱ ص ۴۲۵ ، کنز العمال ج /۴ حدیث نمبر ۵۵۰۴، منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند ج / ۳ ص ۲۷۶ ، از ابو الشیخ درکتاب الاذان ، دلائل الصدق ج/ ۳ جزء دوم ص ۹۹_

۲)مؤطا امام مالک ج/۱ ص۹۳،سنن دار قطنی، مصنف عبدالرزاق ج/ ۱ احادیث نمبر ۱۸۲۷ ، ۱۸۲۹، ۱۸۳۲ ص ۴۷۴ ، ۴۷۵ ، کنزالعمال ج/ ۴ احادیث نمبر ۵۵۶۷ ، ۵۵۶۸ ، منتخب کنز العمال برحاشیہ مسند ج/ ۳ ص ۲۷۸ اس میں '' الصلاة خیرمن النوم'' کو بدعت قرار دیا گیا ہے نیز ملاحظہ ہو_ الترمذی ، ابوداؤود اور دیگر کتب_ (۳)منتخب کنز العمال بر حاشیہ مسند ج / ۳ ص۲۷۶ ، دلائل الصدق ج/۳ جزء دوم ص ۹۹ ، از کنزالعمال ج/۳ ص ۲۶۶ _

۴) شرح تجرید قوشجی مبحث الامامة ص۴۸۴ ، کنز العرفان ج/۲ ص۱۵۸ از الطبری در المستنیر، صاحب الغدیر ج / ۶ ص ۲۱۳ میںکہتے ہیں کہ طبری نے المستبین میں حضرت عمر سے اسکی نسبت دی جبکہ شیخ علی البیاضی نے اپنی کتاب الصراط المستقیم میں طبری سے اس روایت کی حکایت کی ہے: و جواھر الاخبار والآثار ج/۲ص ۱۹۲ از تفتازانی در حاشیہ شرح العضد _

۱۴۲

''اجتہادی مسائل میں کسی مجتہد کی دوسرے مجتہد سے مخالفت بدعت اور کوئی نئی بات نہیں ہے''(۱) _

قوشجی کا یہ عذر ناقابل قبول اور بے ہودہ ہے کیونکہ ہم ثابت کرچکے ہیں نبی اکرم صلی للہ علیہ و آلہ و سلم کبھی بھی خواہشات نفسانی سے گفتگو نہیں فرماتے _ اس سلسلے میں قرآن حکیم کی یہ آیت( ما ینطق عن الهوی _ ان هو الا وحی یوحی ) اور اسی طرح کی دیگر آیات بھی دلیل ہیں لیکن حضرت عمر کے پیروکاروں نے اس کی بات کو صحیح قرار دینے کے لئے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے رتبے کو نیچے لے آنے کی کوشش کی ہے_

اس اجتہاد کی صحیح توجیہ وہی ہے جسے حضرت عمر نے خود بیان کی ہے_ ان کا خیال تھاکہ لوگ جب یہ سنیں گے کہ '' نماز بہترین عمل ہے'' تو لوگ آہستہ آہستہ نماز پر ہی اکتفا اور بھروسہ کرلیں گے اور جہاد کو ترک کردیں گے_ خود حضرت عمر نے ہی اس مطلب کی وضاحت کی ہے_ اس کاذکر بعد میں آئے گا_

اس مذکورہ توجیہ کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی نہی وقتی مصلحت کے پیش نظر تھی، شرعی طور پر حرمت کا حکم لاگو کرنے والی نہیں تھی _ کیونکہ یہ بات تو اسے بھی معلوم تھی کہ اسے شریعت میں دخل اندازی کا کوئی حق حاصل نہیں ہے_

۱۶_ حلبی کہتے ہیں: '' ابن عمر اور علیعليه‌السلام ابن الحسینعليه‌السلام رضی اللہ تعالی عنھما سے منقول ہے کہ دونوں شخصیات جب اذان دیتیں توحی علی الفلاح کے بعدحی علی خیرالعمل کہتی تھیں''(۲)

۱۷_ علاء الدین حنفی اپنی کتاب التلویح فی شرح الجامع الصحیح میں کہتے ہیں:'' بہر حال ''حی علی خیر العمل'' کے متعلق تو ابن حزم نے ذکر کیاہے کہ عبداللہ بن عمر اور سہل بن حنیف کے بیٹے ابوامامہ(۳) سے صحیح احادیث کی روسے نقل ہوا ہے کہ دونوںاذان میں ''حی علی خیر العمل'' کہا کرتے تھے(۴) اورصاحب '' التلویح '' اس کے متعلق مزید کہتے ہیں کہ حضرت علی ابن الحسینعليه‌السلام کی بھی سیرت یہی تھی(۵) _

____________________

۱) شرح تجرید للقوشجی ص ۴۸۴_ (۲) السیرةالحلبیہ مطبوعہ سہ۱۳۸۲ ، باب الاذان ج/۲ ص۹۸ _ (۳)اصل عبارت میں اسی طرح مذکور ہے وگرنہ صحیح یہ ہے کہ ابوامامہ اور سہل بن حنیف کہا جائے _ مولف (۴) دلائل الصدق ج/۳ جزء دوم ص ۱۰۰از مبادی الفقہ الاسلامی للعرفی ص۳۸ ، المحلی ج/ ۳ ص ۱۶۰و الاعتصام بحبل اللہ المتین ج ۱ ص ۳۱۱_ (۵) دلائل الصدق ج ۳ جزء دوم ص ۱۰۰از مبادی الفقہ الاسلامی للعرفی ص ۳۸ و الاعتصام بحبل اللہ المتین ج ۱ ص ۳۱۱_

۱۴۳

۱۸_ سید مرتضی کہتے ہیں '' اہل سنت یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ (حی علی خیر العمل) پیامبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام ہی کے زمانے کے بعض امور میں سے ہے لیکن اس کے بارے میں یہ بھی کہا اور دعوی کیا جاتاہے کہ یہ امور نسخ ہوگئے اور ان کے احکام اٹھ گئے تھے تا ہم جس نے نسخ کا دعوی کیا ہے اسے اپنے دعوی کے لئے دلیل لانے کی ضرورت ہے لیکن اس کے پاس اسکے اس دعوی کی کوئی دلیل نہیں ہے ...''(۱) _

۱۹_ عبدالرزاق نے معمر سے ،انہوں نے ابن حماد سے ،انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے اپنے جد سے اور انہوں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حدیث معراج میں فرمایا: ''پھر جبرائیلعليه‌السلام کھڑے ہوئے، اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کان میں رکھی پھر اذان دی اور اسکے جملوں کو دو دو مرتبہ ادا کیا اور اس کے آخر میںحی علی خیر العمل کو بھی دو مرتبہ ادا کیا ''(۲) _

۲۰ _ ابن النباح اذان میں ''حی علی خیر العمل'' کہا کرتے تھے(۳) _

قاسم بن محمد کا کہنا ہے کہ کتاب السنام میںیہ عبارت درج ہے:'' صحیح بات تو یہ ہے کہ اذان کی تشریع حی علی خیر العمل کے ساتھ ہی ہوئی ہے _ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ انہی جملوں کے ساتھ اذان دینے پر اتفاق رائے جنگ خندق کے موقع پر ہوا تھا اور دوسری یہ کہ اس سے نماز کے لئے پکارا جاتا ہے _ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے کہ تمہارا سب سے بہترین عمل نماز ہے _ اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ عبداللہ بن عمر ، حضرت امام حسن علیہ السلام ، حضرت امام حسین علیہ السلام ، بلال اور بزرگ صحابہ کی ایک جماعت بھی حی علی خیر العمل کے ساتھ اذان دیتے تھے_ یہ بات موطا امام مالک کی شرح اور ان کی دیگر کتب میں بھی ذکر ہوئی ہے _ صوفی مذہب کے بزرگ ، صاحب فتوح مکہ ( شاید فتوحات مکیہ ) کا کہنا ہے کہ تمام مذاہب نے تعصب کی بنا پر اذان سے حی علی خیر العمل کے ترک کرنے پر اجماع اور ایکا کر لیا ہے _ پھر کہتا ہے کہ علامہ بزرگوار عزالدین ابو ابراہیم ، محمد بن ابراہیم کے یہ الفاظ ہیں : '' میں نے حی علی خیر العمل سے متعلق

____________________

۱)الانتصار ص ۳۹_

۲) سعد السعود ص ۱۰۰،البحار ج/۴ ص ۱۰۷،جامع احادیث الشیعہ ج/۲ص ۲۲۱_

۳) الوسائل، جامع احادیث الشیعہ، قاموس الرجال_

۱۴۴

دو روایتوں کی اسناد کے متعلق تحقیق کی تو ابن عمر اور حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام تک ان کے سارے سلسلے کو صحیح پایا''(۱) _اور امام سروجی نے شرح الہدایة للحنفیہ میں حی علی خیر العمل کی احادیث کو کثیر منابع اور اسناد سے نقل کیا ہے(۲) _

۲۱ _ حضرت امام علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپعليه‌السلام نے فرمایا : ''میں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کویہ فرماتے سنا کہ جان لو یقیناً تمہارا سب سے بہترین عمل نماز ہے_ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بلال کو حکم فرمایا کہ اذان میں ''حی علی خیر العمل'' کہے ''_اس حدیث کو ''الشفائ'' میں روایت کیا گیا ہے(۳) _

۲۲_ محمد بن منصور نے اپنی کتاب'' الجامع'' میں بعض پسندیدہ شخصیات کی سند کے ساتھ اورا نہوں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ایک موذن ابو محذورة سے روایت کی ہے _وہ کہتے ہیں کہ مجھے خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے امر فرمایا تھاکہ میں اذان میں '' حی علی خیر العمل'' کہوں(۴) _

۲۳_ محمد بن منصورسے روایت ہے کہ ابو القاسمعليه‌السلام نے انہیں حکم دیا کہ اذان میں ''حی علی خیر العمل'' کا ذکر کرو اور فرمایا کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی ایسے ہی حکم فرمایا تھا _'' الشفائ'' میں بھی اسی طرح مذکورہے(۵) _

۲۴_ ابوبکر احمد بن محمد السری کی روایت ہے کہ اس نے موسی بن ہارون سے ،انہوں نے الحمانی سے،انہوں نے ابوبکر بن عیاش سے ،انہوں نے عبدالعزیز بن رفیع سے اور انہوں نے ابو محذورہ سے روایت کی ہے _

ابو محذورہ کہتے ہیں کہ میں اسوقت نوجوان تھا جب مجھے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ اذان کے آخر میں '' حی

____________________

۱)الاعتصام بحبل اللہ المتین ج ۱ ص ۳۱۰ نیز ص ۳۱۲_ (۲)ایضاً ص ۳۱۱_

۳)جواھر الاخبار و الآثار المستخرجہ من لجة البحر الزخار ج/۲ ص ۱۹۱ ، الامام الصادقعليه‌السلام والمذاہب الاربعة ج/ ۵ ص ۲۸۴_نیز الاعتصام بحبل اللہ المتین ج ۱ ص ۳۰۹_

۴) البحر الزخار ج/۲ ص ۱۹۲ ،نیز اسی صفحے کے حاشیہ پر جواھر الاخبار والآثار نیز کتاب العلوم ج ۱ ص ۹۲_

۵)جواھر الاخبار والآثار ج/ ۲ ص ۱۹۱_

۱۴۵

علی خیر العمل'' کہا کرو(۱) _

۲۵ _ الشفاء میں ھذیل بن بلال مدائنی کی روایت ہے_ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی محذورہ کو ''حی علی الفلاح'' کے بعد ''حی علی خیر العمل '' کہتے ہوئے سنا(۲) _

۲۶_ زید بن ارقم نے اذان میں ''حی علی خیر العمل'' کہا(۳) _

۲۷_ شوکانی نے کتاب الاحکام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے نزدیک پوری طرح سے ثابت ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اذان میں ''حی علی خیر العمل'' کہا جاتا تھا اور یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ حضرت عمر کے زمانے میں ترک کردیا گیا _(۴) _

۲۸_ حسن بن یحیی نے بھی اسی طرح کہا ہے اور اس کا یہ قول کتاب '' جامع آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم '' سے مروی ہے(۵) _

اسی کے متعلق محمد کہتا ہے کہ میں نے احمد بن عیسی سے پوچھا کہ کیا تم اذان دیتے وقت دو مرتبہ حی علی خیر العمل بھی کہتے ہو؟ اس نے کہا کہ بالکل کہتاہوں _میں نے پوچھا کہ اذان اور اقامت دونوں میں کہتے ہو؟ اس نے کہا ہاں البتہ میں دھیمی آواز سے پڑھتا ہوں _ اسی کے متعلق کہتے ہیں کہ مجھے محمد بن جمیل نے نصر بن مزاحم سے ، انہوں نے ابوجارود اور حضرت اما م محمد باقر علیہ السلام سے حدیث بیان کی ہے کہ حضرت امام باقرعليه‌السلام اپنی اذان اور اقامت میں حی علی خیر العمل کہا کرتے تھے(۶) _

۲۹_حضرت امام علی ابن الحسینعليه‌السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت تھی کہ موذن کے ساتھ اذان کے الفاظ دہراتے تھے اور جب کوئی موذن یہ کہتا: ''حی علی الصلاة، حی علی الفلاح،حی علی خیرالعمل'' آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فرماتے '' لا حول و لا قوة الا باللہ ...''(۷) _

____________________

۱) میزان الاعتدال للذھبی ج/۱ص ۱۳۹، لسان المیزان للعسقلانی ج/ ۱ ص ۲۶۸_ (۲) سابقہ حوالہ ص ۱۹۲، جواھر الاخبار والبحر الزخار_

۳) الامام الصادقعليه‌السلام والمذاھب الاربعة ج/ ۵ ص ۲۸۳_نیز ملاحظہ ہو نیل الاوطار ج ۲ ص۱۹ از محب طبری در الاحکام_

۴) نیل الاوطار ج/۲ ص ۱۹_ (۵) نیل الاوطار ج/۲ ص۱۹ _ (۶) کتاب العلوم معروف بہ امالی احمد بن عیسی ج ۱ ص ۹۲_

۷)دعائم الاسلام ج/ ۱ ص ۱۴۵ ، البحار ج/۸۴ ص ۱۷۹_

۱۴۶

۳۰_ حضرت امام محمد باقرعليه‌السلام اپنے والد گرامی امام علی ابن الحسینعليه‌السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپعليه‌السلام جب بھی حی علی الفلاح کہتے تو اس کے بعد ''حی علی خیر العمل'' کہتے تھے(۱) _

۳۱_ زرکشی بحر المحیط میں تحریر کرتے ہیں : ''بعض مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق دوسرے شہروں کے علاوہ خود مدینہ کے اندر ہی اختلاف پایا جاتا تھا خود مدینہ والوں کے پیشوا جناب ابن عمر اذان کی فصلوں کو ایک ایک کرکے پڑھتے تھے اور اس میں '' حی علی خیر العمل '' بھی کہتے تھے''(۲) _

۳۲_ کتاب ''السنام'' کے الفاظ یہ ہیں : ''صحیح یہی ہے کہ اذان کا حکم ''حی علی خیر العمل''کے ساتھ ہی آیا ''(۳) _

۳۳_ حضرت امام علیعليه‌السلام سے مروی ہے کہ آپعليه‌السلام اذان میں '' حی علی خیر العمل '' کہا کرتے تھے اور اسی عادت کو شیعوں نے اپنا لیا ہے(۴) _

۳۴_ الروض النضیر میں ہے کہ مالکی علماء کی ایک کثیر تعداد اسی طرح حنفی اور شافعی علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ''حی علی خیر العمل'' کا جملہ اذان کا حصہ ہے(۵) _

بے جا اعتراضات :

۱_ یہ دعوی کہ کتب صحیحین ( بخاری و مسلم ) میں اس قسم کی کسی حدیث کا ذکر نہ ہونا اس بات پر دلات کرتا ہے کہ اذان میں یہ جملہ معتبر اور صحیح نہیں ہے _ اور اگر یہ جملہ پہلی اذان میں شامل تھا بھی تو مذکورہ کتب میں ان کا ذکر نہ ہونے کی وجہ سے یہ جملہ بعد میں منسوخ ہوگیا(۶) یہ دعوی صحیح نہیں ہے _ کیونکہ :

ایک : کتب صحیحین میں احکام پر مشتمل تمام احادیث ذکر نہیں کی گئیں _

____________________

۱)جواھر الاخبار والآثار للصعدی ج/۲ ص۱۹۲_

۲)الروض النضیر ج/۱ ص۵۴۲_و الاعتصام بحبل اللہ المتین ج ۱ ص ۳۰۷_

۳ ) ایضاً_ (۴) الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۳۰۸_ (۵) الروض النضیر ج۱ ص ۵۴۲_ (۶)ملاحظہ ہو: نیل الاوطار ج۲ ص ۱۹_

۱۴۷

دو : اگر یہ جملہ منسوخ ہوگیا ہوتا تو اس کا علم عبداللّہ بن عمر ، حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام اور زید بن ارقم و غیرہ جیسی شخصیات کو ضرور ہوتا _ تو ( اگر ایسا تھا تو ) ان شخصیات نے کس بنا پر اس اذان کو حتی کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی رحلت کے بعد بھی جاری رکھا ؟

تین : اس بحث میں مذکور بعض روایتوں میں صراحت کے ساتھ آیا ہے کہ اذان سے مذکورہ جملے کو حذف کرنے والا پہلا شخص خلیفہ ثانی عمر بن خطاب تھا _ اور اس کی وجہ بھی اس کے خیال میں ایک وقتی مصلحت تھی _ اگر اس کی یہ بات صحیح بھی تسلیم کرلی جائے تو پھر بھی اس وقتی مصلحت کے ٹل جانے کی صورت میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے حکم کے متروک رکھنے کی کیا ضرورت رہتی ہے ؟ اور شاید کئی صحابیوں ، تابعیوں اور دوسرے لوگوں کے علاوہ اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیروکاروں کا اذان میں اس جملے کی ادائیگی پر کاربند رہنے کا مطلب یہ ہو کہ ان بزرگواروں نے خلیفہ ثانی کے اجتہادی فتوے کو قبول نہیں کیا تھا اور وہ اس کے موافق نہیں تھے _

۲_ ان تمام تصریحات کے بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ بعض افراد کا یہ دعوی کہ '' اذان میں مذکورہ جملہ کہنا مکروہ ہے کیونکہ یہ جملہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے ثابت نہیں ہے '' _(۱) بھی صحیح نہیں ہے _ اس لئے کہ مذکورہ شخصیات کے ذریعہ سے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی صحیح احادیث بیان ہوچکی ہیں _ یہ تمام بزرگ شخصیات بھی ''حی علی خیر العمل '' کہنے کی قائل اور پابند تھیں اور یہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت ، رسالت کی کان اور ثقلین کے ایک جزء کا نظریہ بھی تھا _ اور '' حی علی خیر العمل '' کا جملہ کئی عرصے تک اہل بیتعليه‌السلام ، علویوں اور ان کے پیروکاروں کا شعار ، نعرہ اور پہچان رہا _ حتی کہ تحریک فخ کے بانی جناب حسین بن علی کی انقلابی تحریک کی ابتداء بھی اسی نعرے کی بنیاد پر ہوئی تھی _ اس بارے میں مندرجہ ذیل بیانات ملاحظہ فرمائیں :

'' حی علی خیر العمل '' ، نعرہ بھی اور موقف بھی

الف : مسجد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے سرہانے مقام جنائز کے ساتھ بنے گلدستہ اذان پر عبداللّہ بن حسن

____________________

۱) البحر الرائق ج ۱ ص ۲۷۵ از شرح المہذب نیز سنن بیہقی ج ۱ ص ۴۲۵_

۱۴۸

افطس نے چڑھ کر مؤذن کو تلوار دکھاتے ہوئے کہا کہ '' حی علی خیر العمل '' کے ساتھ اذان دو_ مؤذن نے اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر خوف کے مارے مذکورہ جملے کے ساتھ اذان دے دی _ العمری (منصور کی طرف سے مدینہ کے گورنر) نے جب یہ اذان سنی اور اسے گڑبڑ کا احساس ہوا تو دہشت زدہ ہو کر چیخ پڑا : '' جلدی سے دروازے بندکر دو اور مجھے پانی پلاؤ''(۱) _

ب: تنوخی نے کہا ہے کہ اسے ابوالفرج نے بتایا ہے کہ میں نے خود اپنے کانوں سے قطعی طور پر سنا ہے کہ منصور کے زمانے میں علوی حی علی خیر العمل کے ساتھ اذان دیتے تھے(۲) _

ج: ابن کثیر نے ۴۴۸ھ کے واقعات میں رافضیوں کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ حی علی خیر العمل کے ساتھ اذان دیا کرتے تھے(۳) _

د: حلبی کہتا ہے : '' بعض مؤرخین کے بقولعليه‌السلام آل بویہ کے دور حکومت میں رافضی''حی علی الصلوة '' اور '' حی علی الفلاح '' کے بعد '' حی علی خیر العمل '' کہا کرتے تھے _ پھر جب سلجوقیوں کا دور حکومت آیا تو انہوں نے مؤذنوں کو مذکورہ جملے کہنے سے منع کردیا اور اس کے بدلے میں انہیں صبح کی اذان میں'' الصلواة خیر من النوم '' کہنے کا حکم دیا _ اور یہ ۴۴۸ ہجری کی بات ہے ''(۴) _

ہ: ابن فرحون کہتا ہے کہ حضور بنیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے حجرہ سے ملحق ایک ہال سا بنایا گیا تھا تا کہ ڈوبتے سورج کی تمازت سے بچاجاسکے _ وہ کہتا ہے : '' یہ ہال نماکمرہ ایک بدعت اور گمراہی تھی جس میں شیعہ نماز پڑھا کرتے تھے '' _ پھر کہتا ہے : '' میں خود بعض افراد سے سنا کرتا تھا کہ وہ اس کے دروازے پر کھڑے ہوکربلند آواز سے حی علی خیر العمل کہتے تھے _ وہ کمرہ ان کی درس گاہ اور ان کے علماء کاخلوت کدہ تھا _یہاں تک کہ خدا نے اسے ان کے اوپر گرادیا اور ایک شب اس کے دروازے تک بھی اکھڑ گئے ''(۵) _

____________________

۱) مقابل الطالبین ص ۴۴۶_ (۲) نشوار المحاضرات ج ۲ ص ۱۳۳_ (۳) ملاحظہ ہو : البدایة و النہایہ ج ۲ ص ۶۳_ (۴) سیرہ حلبیہ مطبوعہ ۱۳۸۲ھ باب الاذان ج ۲ ص ۱۰۵، البدایہ والنہایہ ج ۱۲ ص۶۸ واقعات ۴۴۸ ھ_

۵) وفاء الوفاء ج ۲ ص ۶۱۲_

۱۴۹

ابن قاسم نویری اسکندرانی کہتا ہے : '' معز جب مصر پہنچا تو اس نے عمرو بن عاص اور ابن طولون کی جامع مسجدوں میں حی علی خیر العمل کے ساتھ اذان دینے کا حکم دیا _ اور یہ سلسلہ ۷ ۵۶ ہجری میں عبیدیوں کی حکومت کے خاتمے تک جاری رہا اور ان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی حی علی خیر العمل کا ذکر بھی ختم ہوگیا _ ان کی حکومت کا خاتمہ سلطان صلاح الدین یوسف بن نجم الدین ایوب ( صلاح الدین ایوبی ) نے کیا تھا ''(۱) _

و: ۰ ۳۵ ہجری میں دمشق میں سلطان معز کے نائب جعفر بن فلاح کے حکم سے مؤذنوں نے ''حی علی خیر العمل '' کے ساتھ اذان دی(۲) _ اسی سال میں بساسیری نے بغداد پہنچ کر اذان میں '' حی علی خیر العمل '' کا اضافہ کیا(۳) _

ز: نو یری کہتا ہے : '' اپنے آپ کو فاطمی سمجھنے والے عبیدی شیعہ تھے _ وہ اپنی اذانوں میں '' حی علی الصلاة'' اور '' حی علی الفلاح '' کے بعد '' حی علی خیر العمل '' بھی کہتے تھے_ جس طرح مکہ اور مدینہ میں زیدی ایام حج کے علاوہ عام دنوں میں بھی اپنی اذانوں میں دو مرتبہ '' حی علی خیر العمل '' کہتے تھے ، وہ بھی اسی طرح کرتے تھے _ اسی طرح یمن کے صعدہ اور دیگر علاقوں میں بھی ایسا ہی ہوتا تھا ''(۴) _

ح : صلاح الدین ایوبی کے خلاف حلب کے گور نر کی حمایت کے لئے شیعوں کی شرائط کا ذکر کرتے ہوئے ابن کثیر کہتا ہے : '' رافضیوں نے حلب کے گورنرکی حمایت کے لئے اس پر یہ شرطیں عائد کیں کہ ایک تو اذان میں دوبارہ حی علی خیر العمل کو ذکر کیا جائے ، نیز یہ اذان تمام جامع مسجدوں اور گلیوں اور بازاروں میں دی جائے _ ہمارے لئے ایک جامع مسجد مخصوص کی جائے ، بارہ اماموں کانام سر عام لینے کی اجازت

____________________

۱) الالمام با لا علام فیما جرت بہ الاحکام ج ۴ ص ۲۴ نیز ملاحظہ ہو : تاریخ الاسلام ذہبی واقعات ۳۸۱ ھ ص ۳۲ و تاریخ الخلفاء ص ۴۰۲ _

۲) تاریخ الاسلام واقعات ۳۵۰ ھ ص ۴۸ ، البدایة و النہایہ ج ۱۱ ص ۲۷۰ نیز ملاحظہ ہو : تاریخ ابن الوردی ج ۱ ص ۴۰۸ و مآثر الانافہ ج ۱ ص۳۰۷_

۳) تاریخ الخلفاء ص ۴۱۸_

۴) الالمام ج ۴ ص ۳۲ نیز ملاحظہ ہو ص ۴۰ و ص ۴۱_

۱۵۰

دی جائے ، نماز جنازہ میں پانچ تکبیریں پڑھی جائیں اور ہمارے نکاح اور جنازے ( جیسے دینی امور ) کو حلب کے شیعہ رہنما شریف طاہر ابو المکارم حمزہ بن زہرہ حسینی کے سپرد کیا جائے اور حلب کے گور نر نے یہ تمام شرائط منظور کرلیں ''(۱) _

اس عبارت کے حذف ہونے کا سبب :

یہ عبارت اذان سے کیوں حذف ہوئی ؟ حضرت عمر نے خود اس راز سے پردہ اٹھایاہے جیسا کہ پہلے بھی گذرچکاہے_

۳۵_ ابن شاذان نے اہل سنت و الجماعت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: '' تم لوگوںنے ہی قاضی ابویوسف سے ایسی روایت ذکر کی ہے جسے محمد بن الحسن اور انکے اصحاب نے بیان کیاہے نیز امام ابوحنیفہ سے بھی روایت کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور حضرت ابوبکر کے عہد میں اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دور تک اذان میں''حی علی خیر العمل'' کہا جاتا تھا _اس کے بعد حضرت عمر نے کہا کہ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ جب تک ''حی علی خیر العمل'' کہا جاتا رہے گالوگ صرف نماز پر اعتماد اور اکتفا کرتے رہیںگے اور جہاد کو ترک کردیں گے، پس اس نے اذان سے ''حی علی خیر العمل'' حذف کرنے کا حکم دیا''(۲) _

۳۶ ،۳۷،۳۸ _ اسی طرح کی روایات حضرت امام صادقعليه‌السلام ، حضرت اما م باقرعليه‌السلام اور ابن عباس سے بھی منقول ہیں(۳) _

____________________

۱) الکنی و الالقاب ص ۱۸۹ و البدایہ و النہایہ ج ۱۲ ص ۲۸۹ _

۲)الایضاح لابن شاذان ص ۲۰۱ و ۲۰۲_نیز ملاحظہ ہو : الاعتصام بحبل اللہ المتین ج۱ ص ۲۹۶، ص۲۹۹ ، ۳۰۴،۳۰۵ ،۳۰۶ ، ۳۰۷ و کتاب العلوم ج۱ ص ۹۲_

۳)دعائم الاسلام ج/۱ ص ۱۴۲، البحار ج/ ۸۴ ص ۱۵۶ و ۱۳۰، علل الشرائع ج/۲ص ۵۶ ، البحر الزخار ، جواھر الاخبار والآثار ان دو کتابوں کے حاشیہ پر ج/۲ ص ۱۹۲ ، دلائل الصدق ج / ۳ جزء دوم ص۱۰۰ عن مبادی الفقہ الاسلامی لمحمد سعید العرفی ص ۳۸ عن سعد الدین تفتازانی شرح العضد کے حاشیہ پر جو ابن حاجب کی مختصر الاصول پر ہے، سیرت المصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم للسید ھاشم معروف الحسنی ص ۲۷۴ الروض النضیر ج/ ۲ ص ۴۲سے نیز الاعتصام بحبل اللہ المتین ج ۱ ص ۳۱۰_

۱۵۱

اس رائے پہ تبصرہ:

ہمیں اس بات پر باو رہے کہ خلیفہء ثانی کی نسبت رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں جہاد یقیناً زیادہ اہمیت رکھتا تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں لوگوں کو اس کی زیادہ ضرورت تھی لیکن اس کے باوجود آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اذان سے اس جملے کو نہیں نکالا _ جس سے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیںکہ حضرت عمر قوت اور لیاقت کے لحاظ سے قابل قبول حد تک بھی اجتہاد کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے _ کیونکہ وہ اس مسئلے کے تمام تر پہلوؤں اور نتائج و عواقب کا خیال نہیں رکھ سکتے تھے( جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کرسکتے تھے)_

البتہ اس زمانے کے حالات کے مطابق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی یہ توجیہہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی نظر میں وقتی اسباب تھے جن کا اس کے خیال میں یہ تقاضا تھا کہ اس جملے کو نکال دیا جائے، تا ہم انہوں نے یہ کبھی نہ سوچا ہوگا کہ تا ابد اس جملے کو اذان سے نکال دیا جائے گا_بہر حال یہ تو معلوم ہے کہ انہوں نے ایسا کیا تو صرف ایک محدود زمانے کے لئے تھا_

جو ہوا سو ہوالیکن اب ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس جملے کو اذان سے آج تک کیوں حذف رکھا گیا ہے حالانکہ اب تو وہ حالات بھی نہیں رہے جن کی وجہ سے ''حی علی خیر العمل'' کو اذان سے نکال دیاگیاتھا؟_

ہم سب مل کر رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اورا ن کے اہل بیتعليه‌السلام کی سنت و سیرت کی طرف دوبارہ لوٹ کیوں نہیں جاتے؟

نماز میں اضافہ:

بعض معتبر اور صحیح روایات میں ذکر ہوا ہے(۱) کہ شروع شروع میں نماز دو، دو رکعت تھی جنہیں خوداللہ تعالی نے ابتدائی طور پر اپنے بندوں پر فرض فرمایا تھا _ لیکن اللہ رب العزت نے اپنے حبیبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ اختیار بھی دیاکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی جدید وحی کی ضرورت محسوس کئے بغیر مناسب اوقات کے لئے ان کی رکعتوں میں

____________________

۱)الوسائل ج / ۳ ،ابواب اعداد الفرائض و نوافلہا ، باب عدد الفرائض الیومیہ و جملة من احکامھا_

۱۵۲

اضافہ فرمادیں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مغرب کی نمازمیں ایک رکعت نیز ظہرعصر اور عشاء کی نمازوں میں دو دو رکعتوں کا اضافہ فرمایا_

ان اضافی رکعتوں کے بارے میںایک قول یہ ہے کہ ان کا اضافہ ہجرت کے پہلے سال ہوا _ جبکہ ایک دوسرے قول کے مطابق حسنین شریفین علیھما السلام کی ولادت کے بعد ایسا ہوا _ غالباً پہلی رائے صحیح ہے کیونکہ اس بات کا ذکر قبلہ کی تبدیلی والی حدیث میں ہوا ہے جو آپ حضراتعليه‌السلام کی ولادت سے پہلے کا واقعہ ہے_

بہر حال نماز میں یہ اضافہ غیر معقول نہ تھا کیونکہ شرعی احکام تدریجی طور پر نازل ہوئے، خاص طور پر وہ احکام جن کی پابندی عربوں کے لئے مشکل ہو سکتی تھی کیونکہ جن امور کے وہ عادی ہوچکے تھے اور ان کا تعلق انکی بود و باش اور رہن سہن سے تھا ان کی مخالفت انکے لئے مشکل تھی_

نماز کے فرض ہونے میں ایک اور نظریہ:

گذشتہ بحث کے علاوہ یہاں بعض ایسی روایات ملتی ہیں جن میں آیا ہے کہ نماز شروع میں ہی کامل فرض ہوئی تھی یا پھر یہ کہ کم از کم مکہ میں نماز کامل تھی_ ان میں سے بعض روایات مندرجہ ذیل ہیں_

۱_ سب سے پہلی نماز جسے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ادا فرمایا وہ نماز ظہر تھی_ جبرائیلعليه‌السلام تشریف لائے اور فرمایا ''انا لنحن الصافون'' ''و انا لنحن المسبحون''(۱) بے شک ہم بارگاہ ایزدی میں صف بستہ ہیں، اور بے شک ہم ہی اسکی تسبیح بجالانے والے ہیں _ اسکے بعد جبرائیلعليه‌السلام آنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے کھڑے ہوگئے ،اس کے پیچھے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کھڑے ہوئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیچھے سب مرداور پھر ان کے پیچھے خواتین کھڑی ہوگئیں پس سب نے چار رکعت نماز ظہر ادا کی پھر جب نماز عصر کا وقت آیا تو جبرائیلعليه‌السلام کھڑے ہوئے اور پہلے کی طرح یہ عمل انجام دیا_ اسکے بعد روایت نماز مغرب کی تین رکعت اور عشاء کی چار رکعت کا ذکر کرتی ہے(۲)

____________________

۱) صافات /۱۶۵_ (۲) المصنف حافظ عبدالرزاق ج / ۱ ص ۴۵۳ ، سنن بیہقی ج/۱ ص ۲۶۲ ،از ابی داؤد فی مراسیلہ ، درمنثور ج/ ۵ ص ۲۹۳_

۱۵۳

البتہ یہ بات واضح ہے کہ سورة الصافات مکی ہے پس روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نمازمکہ میں ہی کامل طورپر فرض ہوئی تھی_

۲ _ نافع بن جبیر و غیرہ سے روایت ہے کہ شب معراج ، صبح تک جبرائیلعليه‌السلام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس رہے حتی کہ زوال کا وقت بھی ہو گیا پھر روایت ذکر کرتی ہے کہ جبرائیلعليه‌السلام نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور دیگر افراد کے ہمراہ نماز ظہر چار رکعت ادا کی اور پھر اسی طرح نماز عصر بھی ادا کی(۱) _

۳ _ حسن بصری روایت کرتے ہیں نماز حضر ( غیر سفر کی نماز) شروع سے ہی چار رکعت فرض ہوئی(۲) _

لیکن شیعوں اور سنیوںکے ہاں ایسی بہت ساری صحیح اور قطعی روایات کی موجودگی میں (جو اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ غیر سفر کی نماز شروع میں دو رکعت فرض ہوئیں اور بعد میں ان میں اضافہ ہوا)ہم ان مذکورہ روایات کو قبول نہیں کر سکتے_

البتہ یہ ممکن ہے کہ ان روایات کا مطلب یہ ہو کہ نماز تو شروع میں ہی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کامل آئی لیکن مصلحتاً پہلے دو رکعت فرض کی گئی پھر ساری فرض کی گئی اور مذکورہ امر آنحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سپرد کردیا گیا کہ مناسب وقت پر اس کی تبلیغ فرمادیں_ اسی لئے پہلی دو رکعتوں کو فریضہ کہا جاتا ہے یعنی یہ فریضہ اللہ کی جانب سے بندے پر براہ راست تھا اور باقی رکعتوں کو سنت کہا جاتا ہے یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذمے تھا کہ موزوں موقع پر اس حکم کو پہنچادیں _اور اسے ہی مصلحت اقتضائی کہتے ہیں_

زکوة کا فریضہ:

کہتے ہیں کہ اموال کی زکاة جنگ بدر کے بعد دوسری ہجری میں فرض ہوئی اور یہ حکم زکوة فطرہ کے

____________________

۱)مصنف الحافظ عبدالرزاق ج/ ۱ ص ۴۵۵ اور اس کے ذیل میں ابی داؤد کا حاشیہ _

۲)البدایة والنہایة ج/ ۳ ص ۳۳۱ ، تفسیر طبری سورة النساء آیت ۱۰۱_

۱۵۴

وجوب کے بعد آیا _ ایک اور رائے کے مطابق زکوة تیسری ہجری میں فرض ہوئی اور ایک قول چوتھی ہجری کابھی ہے(۱) _

لیکن یہ درست نہیں _صحیح قول یہ ہے کہ زکوة مکہ میں فرض ہوئی_ بعض اسی کے قائل بھی ہیں(۲) اسکے دلائل مندرجہ ذیل ہیں_

۱_ قرآن حکیم کی کئی مکی آیات میں زکوة کی ادائیگی کا حکم آیاہے جن میں سے بعض آیات مندرجہ ذیل ہیں_

( فساکتبها للذین یتقون و یؤتون الزکاة )

(اعراف ۱۵۶)

پس میں عنقریب جنت ان لوگوں کے لئے لکھ دوں گا جو صاحبان تقوی اور زکوة ادا کرنے والے ہیں_ ( یہ سورہ مکی ہے)

( والذین هم للزکاة فاعلون ) ( المؤمنون ۴)

اور( کامیاب مومن وہی ہیں) جو زکوة ادا کرنے والے ہیں_ ( یہ سورہ مکی ہے)

( الذین یقیمون الصلوة و یؤتون الزکاة )

(النحل ۳، لقمان ۴)

وہ لوگ جو نماز قائم کرتے اور زکوة دیتے ہیں_(یہ دونوں سورتیں مکی میں)

( الذین لا یؤتون الزکاة و هم بالآخرة هم کافرون )

(فصلت ۷)

وہ لوگ جو زکوة ادا نہیں کرتے اور آخرت کے بھی منکر ہیں_ (یہ سورہ مکی ہے)

____________________

۱) تاریخ الخمیس ج/ ۱ ص ۴۰۷، سیرہ حلبیہ ج ۱ ص ۳۳۹ و دیگر کتب_

۲)وفاء الوفاء ج/ ۱ ص ۲۷۷_

۱۵۵

اسی طرح سورہ الروم _ ۳۹ بھی ملاحظہ فرمائیں جو مکی ہے_

خداوند عالم جناب اسحاقعليه‌السلام ، یعقوبعليه‌السلام ، لوطعليه‌السلام اور حضرت ابراہیم علیہم السلام کے متعلق فرماتا ہے:

( و اوحینا الیهم فعل الخیرات و اقام الصلاة و ایتاء الزکاة )

(انبیاء ۷۳)

اور ہم نے ان پر وحی نازل کی کہ اچھے کام کرو، نماز قائم کرو اور زکوة ادا کرو _

اسی طرح خدا حضرت عیسی علیہ السلام کی زبانی فرماتا ہے:

( ' و اوصانی بالصلاة و الزکاة مادمت حيّاً ) (مریم ۳۱)

اور مجھے مرتے دم تک نماز اور زکات کی ادائیگی کا حکم ملا ہے _

نیز حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے:

( ' و کان یامر اهله بالصلاة و الزکاة ) (مریم ۵۵)

وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکات کی ادائیگی کا حکم دیا کرتے تھے _

یہ تمام مذکورہ آیات مکی سورتوں کی ہیں _ اور ان آخری آیتوں میں تو سابقہ امتوں میں زکات کے فرض ہونے کی بات ہوئی ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ زکات کا حکم منسوخ نہیں ہوا ( جس کا مطلب یہ ہے کہ زکات نہ صرف مدینہ کی بجائے مکہ میں فرض ہوئی بلکہ پہلے سے ہی فرض تھی)_

۲_ حضرت ابوطالبعليه‌السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق فرمایا : '' اسے اللہ نے صلہ رحمی ، نماز قائم کرنے اور ادائیگی زکوة کے حکم کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے''(۱) _

۳_ جریر بن عبداللہ بجلی روایت کرتے ہیں کہ جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مبعوث ہوئے _ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں قبول اسلام اور بیعت کرنے کے لئے پہنچا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے استفسار فرمایا: '' جریر تم یہاں کس لئے آئے ہو؟''_ میں نے عرض کیا :

____________________

۱) الاصابہ ج /۴ ص ۱۱۹ ، البحار ج/ ۳۵ ص ۱۵۱،الطرائف ص ۳۰۴ ، الغدیرج/۷ ص ۳۶۸ از نہایة الطلب شیخ ابراھیم الخلیلی_

۱۵۶

''میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں پر اسلام قبول کرنے آیا ہوں ''_پس آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے حکم دیا کہ لا الہ الا اللہ اور میری رسالت کی گواہی دو،واجب نماز قائم کرو، اسی طرح فرض زکوة بھی ادا کرو(۱) _

۴_ جناب ثقة الاسلام کلینی نے علی بن ابراھیم سے ،انہوں اپنے والد سے، انہوں حماد سے، انہوں حریز سے، انہوں محمد بن مسلم اور ابوبصیر، بریداور فضیل سے ،ان سب نے حضرت امام باقر اورحضرت امام صادق علیہما السلام سے روایت کی ہے _امامعليه‌السلام نے فرمایا : ''اللہ تعالی نے زکاة بھی نماز کے ساتھ فرض کی ہے ''(۲) اور جیسا کہ ملاحظہ فرمارہے ہیں اس روایت کی سندبھی بہت عمدہ ہے _

۵_ اس نظریئےی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت جعفر بن ابی طالب نے حبشہ کے بادشاہ کے سامنے زکوة کا ذکر بھی ان چیزوں میں فرمایاجن کے متعلق انہیں اللہ نے حکم دیا ہے(۳) _

ماسبق سے متعارض روایت

گذشتہ مطالب سے بظاہر اختلاف اور تضاد رکھنے والی ایک صحیح السند روایت بھی ہے جو یہ کہتی ہے کہ جب سورہ توبہ میں مذکور زکاة کی آیت نازل ہوئی (جبکہ یہ سورت مدنی اور نازل ہونے والی آخری سورتوں میں سے ہے ) تو اس کے نزول کے بعد آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے ایک منادی کو فرمایا تو اس نے لوگوں میں یہ اعلان کیا'' اللہ نے تم پر زکاة فرض فرمائی ہے''_اسکے ایک سال بعد دوبارہ ڈھنڈ ھورچی سے فرمایا تو اس نے مسلمانوں میں اعلان کیا '' اے مسلمانواپنے اموال کی زکاة دو تا کہ تمہاری نمازیں قبول ہوں '' راوی کہتا ہے کہ اس اعلان کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف علاقوں میں زکات اور صدقہ اکٹھا کرنے والے عامل (ایجنٹ ) بھیجے(۴) _

____________________

۱)تدریب الراوی ج/۲ ص ۲۱۲ از الطبرانی درالاوسط، الاصابہ ج/ ۱ ص ۲۳۲میں حدیث کے پہلے حصے کا ذکر کیا گیا ہے_

۲)الوسائل ج/۴ ص ۵ ، فروع الکافی ج/ ۳ ص ۴۹۸_ (۳)الثقات لابن حبان ج / ۱ ص ۶۵ ، حلیة الاولیاء ج / ۱ ص۴ ۱۱ ، ۱۱۶ از ابن اسحاق ، البدایة والنہایة ج/ ۳ ص ۶۹ ، ۷۰ ، ۷۴ ، تاریخ الخمیس ج/ ۱ ص ۲۹۰ ، سنن بیہقی ج/ ۹ ص ۱۴۴ ، سیرة ابن ہشام ج/ ۱ ص ۳۶۰ ، مجمع الزوائد ج/۶ ص ۲۷ و ۲۴از طبرانی اور احمد اس کی سند کے تمام افراد صحیح بخاری کے افراد ہیں حیاة الصحابة ج/۱ ص ۳۵۴ و ۳۵۷ از گذشتہ بعض منابع و فتح الباری ج/۷ ص ۳۰ اور اس نے اس کی سندکو حسن قرار دیا ہے _ (۴)الکافی ج/۳ ص ۴۹۷، تفسیر البرھان ج/۲ ص ۱۵۶_

۱۵۷

لیکن یہ روایت ان دسیوں آیات سے متضادہے جو زکاة کے فرض ہونے کے بارے میں سورہ توبہ سے قبل نازل ہوئیں ان کی تعداد تقریباً تیس تک جاپہنچتی ہے اور وہ سب کی سب زکات کے فرض ہونے پر دلالت کرتی ہیں_ ان سب سے استحباب کا معنی لینا یا زکوة فطرہ مراد لینا واقعاًبعید ہے_

بنابرایں اس روایت کو اس مفہوم پر محمول کریں گے کہ اگر چہ زکوة اس آیت کے نزول سے پہلے فرض ہوئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آیت کے نزول کے بعد اس کی ادائیگی اور حصول کے متعلق سخت گیری کی _ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ زکات کے وجوب کا حکم تو مکہ میں آیا لیکن اس کے حصول کے فریضہ اور ادائیگی کے لزوم کا حکم مدینہ میں اس آیت کے نزول سے آیا _

زکات فطرہ کا فرض ہونا

چونکہ زکات فطرہ ، زکوة اموال سے پہلے فرض ہوئی پس یہ بھی مکہ میں فرض ہوئی _ اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:

۱ _ گذشتہ روایت

۲_ '' سفر السعادة'' کی روایت، جس میں آیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک منادی کو مکہ کے گلی، کوچے، محلے اور بازاروں میں اس اعلان کے لئے بھیجا کرتے تھے کہ صدقہ فطرہ ( زکوة فطرہ) ہر مسلمان مرد و خاتون پر واجب ہے(۱) البتہ ہم اس وقت کے حالات اور مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان بہت زیادہ کشیدگی کے سبب اس عمل کو بعید سمجھتے ہیں_

روزے کا فرض ہونا:

کہتے ہیں کہ ماہ مبارک رمضان کے روزے مدینہ میں دوسری ہجری میںاس وقت فرض ہوئے(۲) جب یہ آیات مبارکہ نازل ہوئیں_

____________________

۱)السیرة الحلبیہ ج/۲ ص ۱۳۶_

۲) البدایة والنہایة ج/ ۳ ص ۲۵۴_

۱۵۸

( کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم شهر رمضان الذی انزل فیه القرآن هدی للناس و بینات من الهدی و الفرقان فمن شهد منکم الشهر فلیصمه ) (بقرة ۱۸۳ تا ۱۸۵)

جناب قمی نے تحریر فرمایاہے کہ ماہ مبارک رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے بھی لوگ کچھ ایام روزے رکھتے تھے(۱) حلبی کہتا ہے کہ ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے سے پہلے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابہ ہر مہینے میں ایام البیض (۱۳، ۱۴، ۱۵ تاریخ ) کے تینوں دن کے روزے رکھا کرتے تھے(۲) _

روزوں کے مکہ میں فرض ہو نے کی دلیل حضرت جعفر بن ابی طالب کی وہ گفتگو ہے جو انہوں نے حبشہ کے بادشاہ کے ساتھ کی _ اس میں انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں نماز، زکوة اور روزوں کا حکم دیا ہے_

ایک اعتراض اور اس کا جواب

بعض افراد نے اس حدیث پر ایک نوٹ لکھا ہے کہ میرے گمان میں حضرت جعفر بن ابی طالبعليه‌السلام اور بادشاہ حبشہ کا قصہ گھڑا گیاہے کیونکہ اس میں روزوں کا ذکر ہے جو ہجرت حبشہ کے بعد فرض ہوئے(۳) _ لیکن ان کی یہ بات قابل قبول نہیں کیونکہ حضرت جعفر بن ابی طالب کا کلام ہی اس بات کی دلیل ہے کہ روزے مکہ میں فرض ہوئے _ یہاں ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ خود جناب جعفر کا کلام اس بات کی دلیل کیوں نہیں بن سکتا کہ روزے مکہ میں واجب ہوئے؟ جبکہ جناب قمی اور حلبی کا قول بھی ذکر ہوچکا ہے_البتہ ہوسکتاہے یہاںان کی مراد ماہ مبارک رمضان کے روزے ہوںتو اس صورت میں قمی اور حلبی کے مذکورہ قول سے ان کا جواب نہیں دیا جا سکتا_

____________________

۱)تفسیر القمی ج/ ۱ ص ۶۵_

۲)فجر الاسلام ص ۷۶_

۳)السیرة الحلبیہ ج/ ۲ ص ۱۳۲ و ۱۳۶تفسیر ابن کثیر ج/۱ ص ۲۱۳ و ۲۱۴_

۱۵۹

لیکن مکہ میں ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے کی ہمارے پاس دلیل یہ ہے کہ جب عمرو بن مرة الجھنی نے اسلام قبول کیا تو حضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے تبلیغ کے لئے اس کی قوم کی طرف بھیجا _ اس نے اپنی قوم سے کہا : '' میں اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جانب سے تمہاری طرف نمائندہ بناکر بھیجا گیاہوں، میں تمہیں جنت کی طرف دعوت دیتاہوں، جہنم کی آگ سے تمہیں ڈراتا ہوں، تمہیں خون کی حفاظت ، صلہ رحمی، اللہ کی عبادت، بتوں کو چھوڑنے ، بیت اللہ کے حج اور ماہ رمضان المبارک جو بارہ مہینوں میں سے ایک ماہ ہے، اس کے روزوں کا حکم دیتاہوں پس جواسے قبول کرے گا اس کے لئے جنت ہے'' _ اور یہ واقعہ بعثت کے ابتدائی ایام کا ہے(۱) _

یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ سابقہ امتوں میں بھی روزے فرض تھے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے_

( کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم ایاماً معدودات ...)

یہاں ایاماً معدودات سے مراد ماہ رمضان کے روزے ہیں جیسا کہ آیت خودہی بیان فرمارہی ہے_

روز عاشور کا روزہ :

یہاں مؤرخین یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب مدینے میںتشریف لائے توماہ مبارک رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مشاہدہ کیا کہ مدینے کے یہودی روز عاشور کا روزہ رکھتے ہیں یعنی ماہ محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھتے تھے(۲) _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے اس کی بابت پوچھا تو انہوں نے (صحیحین اور دیگر کتابوں کے مطابق )جواب دیا: '' یہ

____________________

۱)البدایةوالنہایةج/۲ص۲۵۲از ابو نعیم، مجمع الزوائدج/۸ص۲۴۴ از طبرانی ، حیاة الصحابہ ج/۱ ص۱۹۱،کنزالعمال ج/ ۷ ص۶۴از رویانی اور ابن عساکر _

۲)اسدالغابہ ج/ ۵ ص۵۰۷ _

۱۶۰