الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 460
مشاہدے: 228313
ڈاؤنلوڈ: 5999

جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 228313 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

بٹھادی تھی _ حتی کہ یہ بھی منقول ہے کہ قریشی جب بھی حضرت علی علیہ السلام کو کسی لشکر یا گروہ میں دیکھ لیتے تو ایک دوسرے کو وصیتیں کرنے لگ جاتے تھے_

ایک مرتبہ جب آپعليه‌السلام نے دشمن کی فوج کو تتر بتر کردیا تو ایک شخص نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دیکھ کر کہا:''مجھے ایسے لگا کہ ملک الموت(موت کا فرشتہ) بھی اسی طرف جاتا ہے جس طرف علیعليه‌السلام جاتا ہے''(۱) _

مشرکین کے مقتولین ، کنوئیں میں:

جنگ ختم ہونے پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہاں موجود ایک کنوئیں کو مٹی سے بند کراکے مشرکین کی لاشوں کو اس میں ڈالنے کا حکم دیا تو سب لاشیں اس میں ڈال دی گئیں، پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک ایک مقتول کا نام لے کر پکارتے ہوئے پوچھا _''کیا تم لوگوں نے اپنے خداؤں کے وعدہ کی حقیقت دیکھ لی ہے ؟ میں نے تو اپنے پروردگار کے وعدے کو سچا پایا ہے _ تم اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بدترین قوم تھے _ تم نے مجھے جھٹلایا لیکن دوسرے لوگوں نے میری تصدیق کی ، تم نے مجھے در بدر کیا لیکن دوسرے لوگوں نے مجھے ٹھکانہ دیا اور تم نے مجھ سے جنگ کی جبکہ دوسروں نے میری مدد کی '' یہاں عمر نے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مرنے والوں سے باتیں کر رہے ہیں؟''_ تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' وہ میری باتیں تم لوگوں سے زیادہ سن اور اچھی طرح سمجھ رہے ہیں لیکن وہ میری باتوں کا جواب نہیں دے سکتے''(۲) _ لیکن بی بی عائشہ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس بات ''انہوں نے میری باتیں سن لی ہیں''کاانکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''وہ میری باتیں پہلے سے ہی جان چکے تھے''_ اور اپنی مذکورہ بات کی دلیل کے طور پر یہ آیتیں پیش کی ہیں (انک لا تسمع الموتی)ترجمہ : '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مردوں کو کوئی بات نہیں سنا سکتے'' _ اور (و ما انت بمسمع من فی القبور )(۳) ترجمہ : '' اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبر میں لیٹے مردوں کو کوئی بات نہیں

____________________

۱) محاضرات الادبا راغب اصفہانی ج ۲ ص ۱۳۸_ (۲) ملاحظہ ہو : فتح الباری ج ۷ ص ۲۳۴ و ص ۲۳۴ نیز اسی مقام پر حاشیے میں صحیح بخاری ، الکامل ابن اثیر ، ج ۲ ص ۲۹ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۸۶ ، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۲ و حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۳۳۳ و ص ۳۳۴_

۳) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۲ ، نیز ملاحظہ ہو : مسند احمد ج ۲ ص ۳۱ و ص ۳۸ و دیگر کتب _

۲۸۱

سنا سکتے''_ لیکن بخاری میں قتادہ سے مروی ہے کہ خدا نے ان کی روحوں کو ان کے جسم میں واپس لوٹا دیا جس کی وجہ سے انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتیں سن لیں_ اور بیہقی نے بھی یہی جواب دیا(۱) _

لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر قتادہ کی بات صحیح ثابت ہوجائے تو یہ سردار انبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک معجزہ ہوگا_

البتہ حلبی نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ مردوں کا حقیقت میں سننے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیونکہ جب ان کی روحوں کا ان کے جسموں سے مضبوط تعلق پیدا ہوجائے تو ان کے کانوں سے سننے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے _ اس لئے کہ سننے کی یہ حس ان کے اندر باقی رہتی ہے _ اور مذکورہ دو آیتوں میں جس سماع کی نفی کی گئی ہے وہ مشرکوں کو نفع پہنچانے والا سماع ہے _ اس کی طرف سیوطی نے بھی اپنے اشعار میں یوں اشارہ کیا ہے:

سماع موتی کلام الله قاطبة

جاء ت به عندنا الاثار فی الکتب

و آیة النفی معناها سماع هدی

لا یقبلون و لا یصغون للادب

تمام مردوں کے خدا کے کلام کو سننے کے متعلق ہماری کتابوں میں کئی روایتیں منقول ہیں _ اس لئے وہ قابل قبول ہے البتہ آیت میں جس سماع کی نفی کی گئی ہے اس سے مراد ہدایت قبول کرنے والا سماع ہے کیونکہ وہ اپنی بے ادبی کی وجہ سے ہدایت کی ان باتوں پر کان نہیں دھرتے_

اس لئے کہ خدا نے زندہ کافروں کو قبر میں پڑے مردوں سے اس وجہ سے تشبیہ دی ہے کہ وہ نفع بخش اسلام سے کوئی نفع حاصل ہی نہیں کرنا چاہتے(۲) _

____________________

۱) ملاحظہ ہو : بخاری باب غزوہ بدر نیز ملاحظہ ہو شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ۱۴ ص ۲۷۹ میں معتزلی کا بیان _

۲) ملاحظہ ہو : سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۸۲_

۲۸۲

کیا '' مہجع'' سید الشہداء ہے؟

مؤرخین کہتے ہیں کہ جب جنگ بدر میں دونوں فوجوں کی صفیں منظم ہوگئیں تو سب سے پہلے ''مھجع'' ( عمر کا غلام ) جنگ کرنے نکلا اور مارا گیا _ بعض مشائخ کے بقول '' امت محمدیہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اسے سب سے پہلا شہید کہا گیا'' _ اور اس کے متعلق رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فرمایا کہ مھجع تمام شہیدوں کا سردار ہے(۱) _ لیکن یہ تمام باتیں مشکوک ہیں ، کیونکہ :

۱_ یہاں یہ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ اس امت کا سب سے پہلا شہید مھجع کیوں کہلائے گا اور عمار کے والد جناب یا سریا ان کی والدہ جناب سمیہ اسلام کے پہلے شہید کیوں نہیں کہلائے جاسکتے ؟ حالانکہ یہ دونوں شخصیات جنگ بدر سے کئی برس پہلے شہید ہوئے_ نیز اسی جنگ بدر میں مھجع سے پہلے شہید ہونے والے عبیدہ بن حارث کو ہی اسلام کا سب سے پہلا شہید کیوں نہیں کہا جائے گا؟

۲_ ان کا یہ کہنا کہ صفوں کے منظم ہونے کے بعد وہ سب سے پہلے جنگ کرنے نکلا، ناقابل قبول ہے _ کیونکہ مسلمانوں سے سب سے پہلے حضرت علیعليه‌السلام ، جناب حمزہ اور جناب عبیدہ بن حارث جنگ کے لئے نکلے تھے_

۳_ ''مھجع'' کے سید الشہداء ہونے والی بات کے ساتھ یہ روایت کیسے جڑے گی کہ '' حضرت حمزہ '' سیدالشہداء ہیں ؟(۲) _ اس بات کا ذکر انشاء اللہ غزوہ احد کی گفتگو میں ہوگا_ وہ حضرت علیعليه‌السلام کا یہ شعر بھی خو دہی نقل کرتے ہیں کہ :

محمّد النبی اخی و صهری

و حمزة سیدالشهداء عمی(۳)

____________________

۱) سیرہ حلبیہ ۲ ص ۶۱ نیز ملاحظہ ہو : المصنف ج ۵ ص ۳۵۱_

۲) سیر اعلام النبلاء ج ۱ ص ۱۷۲ ، مستدرک حاکم ج ۳ ص ۱۹۵و ص ۱۹۹ ، تلخیص ذہبی ( مطبوعہ بر حاشیہ مستدرک ) ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۲۶۸ ، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۵۷۱ و تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۱۶۴ و ص ۱۶۵_

۳) روضة الواعظین ص ۸۷ ، الصراط المستقیم بیاضی ج ۱ ص ۲۷۷ ، کنز الفوائد کراجکی مطبوعہ دار الاضواء ج ۱ ص ۲۶۶ و الغدیر ج ۶ ص ۲۵ تا ۳۳ از نہایت کثیر منابع _

۲۸۳

نبی کریم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے ( چچا زاد ) بھائی اور میرے سسر ہیں اور سیدالشہدا جناب حمزہ میرے چچا ہیں _

اسی طرح خود حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اور سیدالشہداء حمزہ بھی ہم میں سے ہی ہیں''(۱) _

۴_ ان کی یہ بات کہ'' مھجع مسلمانوں کاپہلا شہید ہے'' اس بات کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں ''کے سب سے پہلے شہید عمیر بن حمام ہیں''(۲) ؟_

حلبی نے اس کی یہ راہ نکالنے کی کوشش کی ہے کہ عمیر انصاری مقتول تھا جبکہ اول الذکر مہاجر تھا _ لیکن پھر اس کا جواب یہ دیا ہے کہ سب سے پہلا انصاری شہید تو حارثہ بن قیس تھا _ لیکن اس جواب کو پھر خود اس نے ہی یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ حارثہ کسی نا معلوم تیر سے مارا گیا تھا اور اس کا قاتل نا معلوم تھا(۳) _

لیکن یہ واضح سی بات ہے کہ یہ صرف لفظوں کا کھیل ہے _ کیونکہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں اسلام کا سب سے پہلا شہید ہے یا بدر میں مسلمانوں کی طرف سے سب سے پہلا شہید ہے تو نہ ہی اس کے آلہ قتل کی کوئی بات ہوتی ہے نہ اس کے شہر یا علاقے کی اور نہ ہی اس کے قوم و قبیلہ کی _ و گرنہ بطور مثال یہ کہا جانا چاہئے تھا کہ فلاں مہاجرین کا سب سے پہلا شہید ہے اور فلاں انصار کا اولین شہید ہے_ یا فلاں سب سے پہلے تیر سے شہید ہوا یا نیزے سے شہید ہو ا یا اس طرح کی دیگر باتیں ہوتیں تو یہ اس کے مطلوب اور مقصود سے زیادہ سازگار ہوتا_ پھر بھی اگر حلبی کی بات صحیح مان لی جائے تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیدالشہداء کا لقب عمیر بن حمام ، عبیدہ یا حارثہ بن قیس کو چھوڑ کر صرف مھجع کو کیوں دیا گیا ؟ اور اسے ایسا لقب کس وجہ سے دیا گیا ؟ کیا اس وجہ سے کہ اس نے اسلام کی ایسی مدد اور حمایت کی تھی کہ دوسرے نہیں کر سکے تھے؟ یا یہ باقی دوسروں سے ذاتی اور اخلاقی فضائل کے لحاظ سے ممتاز حیثیت رکھتا تھا؟ یا صرف اس وجہ سے اسے سید الشہداء کا لقب ملا

____________________

۱) الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۱ ص ۲۷۳ و الاصابہ ج ۱ ص ۳۵۴ ، نیز ملاحظہ ہو : بحار الانوار ج ۴۴ ص ۱۴۰ و المسترشد ص ۵۷_

۲) الاصابہ ج ۳ ص ۳۱ و سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۶۱_

۳) سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۶۱_

۲۸۴

کہ وہ عمر بن خطاب کا غلام تھا؟ پس اس وجہ سے اس کے پاس ایسی فضیلت ہونی چاہئے جو سیدا لشہداء حضرت حمزہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی ؟ ہمیں تو نہیں معلوم شاید سمجھدار قاریوں کو اس کا علم ہو_

ذوالشمالین:

بدر میں ذوالشمالین بھی رتبہ شہادت پر فائز ہوا ( اسے ذوالشمالین اس لئے کہتے تھے کہ وہ ہر کام اپنے دونوں ہاتھوں سے کیا کرتا تھا ) _ اس کا اصل نام عمیر بن عبد عمر و بن نضلہ بن عمر و بن غبشان تھا(۱) _ البتہ یہاں ( نعوذ باللہ ) آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھول چو ک اور ذوالشمالین کے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر اعتراض کا ایک لمبا واقعہ مذکور ہے، لیکن چونکہ اسے '' سیرت سے متعلق چند ابحاث '' میں ذکر کریں گے اس لئے یہاں اس کے ذکر سے چشم پوشی کرتے ہیں _پس وہاں مراجعہ فرمائیں_

البتہ جنگ بدرسے متعلق دیگر حالات و واقعات کے بیان سے قبل درج ذیل نکات بیان کرتے چلیں:

الف : جنگ بدر میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی خطیر مہم

امیر المؤمنین حضرت علیعليه‌السلام فرماتے ہیں:'' جنگ بدر کے موقع پر میں کچھ دیر جنگ کرتا اور کچھ دیر جنگ کرنے کے بعد میں یہ دیکھنے کے لئے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آتا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا حال ہے اور کیا کر رہے ہیں_ میں ایک مرتبہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سجدے کی حالت میں '' یا حی یا قیوم ''کا ورد کر رہے ہیں اور اس سے آگے کچھ نہیں فرما رہے ،میں پھر واپس لڑنے کے لئے چلا گیا _ پھر کچھ دیر لڑنے کے بعد واپس آیا تو دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ابھی تک اسی ورد میں مصروف ہیں اسی لئے میں پھر واپس جنگ کرنے چلاگیا اور اسی طرح بار بار وقفے وقفے سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خبرگیری کرتا رہا ، یہاں تک کہ خدا نے ہمیں فتح سے ہمکنار کیا''(۲)

____________________

۱) ملاحظہ ہو : سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۳۳۷ ، طبری اس کی تاریخ کے ذیل میں ص ۱۵۷، الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۱ ص ۴۹۱، نسب قریش مصعب زبیری ص ۳۹۴ ، الاصابہ ج ۱ ص ۴۸۶ و طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۱۹_

۲) البدایة و النہایہ ج ۳ ص ۲۷۵ و ص ۲۷۶ از بیہقی و نسائی در الیوم واللیلة ، حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۵۰۲ از مذکورہ و از کنز العمال ج ۵ ص ۲۶۷ از حاکم، بزار ، ابو یعلی و فریابی_

۲۸۵

البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سرے سے جنگ بدر میں شریک ہی نہیں ہوئے _ ہوسکتا ہے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کے شروع میں مسلمانوں کا دل بڑھانے کے لئے شریک ہوئے ہوں اور جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ مقصد حاصل ہوگیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میدان جنگ سے علیحدہ ہوکر دعاؤں اور راز و نیاز میں مصروف ہوگئے ہوں(۱) _

چند نکات:

۱_ حضرت علی علیہ السلام ان سخت حالات میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مسلسل خبرگیری کرتے رہے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ان جان لیوا گھڑیوں میں بھی ایک لحظہ اور ایک پل کے لئے بھی غافل نہیں ہوئے _ اسی طرح یہ بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام دیگر مقامات اور حالات میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خبرگیری کرتے تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت اور حمایت کو حضرتعليه‌السلام نے اپنے ذمہ لے لیا تھا _ کیونکہ یحیی سے مروی ہے کہ ہمیں موسی بن سلمہ نے یہ بتایا ہے کہ میں نے جعفر بن عبداللہ بن حسین سے حضرت علیعليه‌السلام ابن ابی طالب علیہما السلام کے (مسجد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں) ستون کی بابت پوچھا تو اس نے کہا :'' باب رسول اللہ کی طرف یہاں ایک حفاظتی چوکی تھی اور حضرت علی علیہ السلام اس میں تربت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف رخ کرکے بیٹھتے تھے اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کیا کرتے تھے''(۲) _ سمہودی نے بھی اپنی کتاب میں اس ستون کا ذکر '' اسطوان المحرس '' ( حفاظتی چوکی والا ستون) کے نام سے کیا ہے(۳) _

۲_ ان سخت اور کٹھن گھڑیوں میں بھی آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دعا اور مبداء اعلی یعنی پروردگا ریکتا سے رابطے کا اہتمام قابل ملاحظہ ہے _ کیونکہ وہی اصل طاقت اور کامیابی کا سرچشمہ ہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلمانوں کو یقین اور صبر

____________________

۱) گذشتہ بات معقول اور مسلم نظر آتی ہے البتہ لگتا یہی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار کے منہ میں خاک ڈال کر تھوڑی دیر جنگ میں مصروف رہے ہوں گے تا کہ مسلمانوں کی جنگ کے لئے حوصلہ افزائی ہو اور جب وہ جنگ میں مصروف ہوگئے ہوں گے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم رن سے نکل کر مصلی میں مصروف دعا ہوگئے ہوں گے_ و اللہ العالم _ از مترجم _

۲) وفاء الوفاء ج ۲ ص ۴۴۸_

۳) ایضاً_

۲۸۶

عطا کرنے اور انہیں خدا کے لطف و عنایات کے شامل حال کرنے کے لئے خدا سے براہ راست رابطہ کئے ہوئے تھے کیونکہ خدا کے لطف و کرم کے بغیر نہ ہی فتح اور کامیابی امکان ہے اور نہ ہی کامیابی ملنے کی صورت میں اس کی کوئی قدر و قیمت ہے_

۳_ اسی طرح اس جنگ میں سب سے زیادہ تکلیف اٹھانے والے حضرت علیعليه‌السلام کا خضوع و خشوع بھی لائق دید ہے_ انہوں نے پینتیس ۳۵ سے زیادہ آدمیوں کو بذات خود فی النار کیا تھا اور باقی پینتیس ۳۵ کے قتل میں بھی شریک ہوئے تھے ، لیکن ہم انہیں یہ کہتا ہوا دیکھتے ہیں کہ '' خدا نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ سے ہمیں فتح عنایت کی '' یعنی حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کامیابی کو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف منسوب کرتے ہوئے اسے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مرہون منت جانتے ہیں اور اس کامیابی میںاپنے سمیت کسی کا بھی کوئی قابل ذکر کردار نہیں سمجھتے تھے_

ب : جنگ فیصلہ کن تھی

یہ بات واضح ہے کہ اس جنگ کو فریقین اپنے لئے فیصلہ کن سمجھتے تھے _ مسلمان خاص کر حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم یہ سوچ رہے تھے کہ اگر وہ خدا نخواستہ شکست کھا گئے تو پھر روئے زمین پر کبھی بھی خدا کی عبادت نہیں ہوگی _ جبکہ مشرکین بھی یہ چاہتے تھے کہ مہاجرین کو اچھی طرح کس کر انہیں اپنی گمراہی کا مزاچکھائیں اور انصاریوں کو بھی نیست و نابود کرکے رکھ دیں تا کہ بعد میں کوئی بھی ان کے دشمن کے ساتھ کبھی اتحاد نہ کر سکے اور نہ ہی کوئی کبھی ان کے تجارتی راستے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ ڈال سکے اور اس کے نتیجے میں پورے خطہ عرب پر ان کی دھاک بیٹھ جائے_ ہاں مال ، دنیا اور جاہ و حشم پر مرمٹنے والے لوگوں کے نزدیک یہ چیزیں نہایت اہم تھیں اور بالکل اسی لئے انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھیوں کو بہت تنگ کیا ، گھروں سے نکال باہر کیا اور ان سے جنگ کیا حالانکہ وہ ان کے اپنے فرزند ، بھائی ، بزرگ اور رشتہ دار تھے_ ان کے لئے سب کچھ دنیا ہی تھی اور نہ اس سے پہلے کوئی چیز تھی اور نہ بعد میں کچھ ہے_ اسی چیز نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی اور انہیں اپنے رشتہ داروں پر جرم و جنایت کے مرتکب ہونے پر اکسا یا جس کی وجہ سے انہوں

۲۸۷

نے اپنوں کو مختلف قسم کے شکنجوں کا نشانہ بنایا، ان کا مذاق اڑایا ، پھر ان کا مال و اسباب لوٹا، انہیں اپنے گھروں سے نکال باہر کیا اور آخر کار انہیں جڑ سے اکھاڑنے اور نیست و نابود کرنے کے لئے ان کے خلاف سخت ترین جنگ لڑی_

ج: شکت ، طاقت کا عدم توازن اور فرشتوں کی امداد

کبھی ایسا بھی ہوجاتا ہے کہ کوئی چھوٹا لشکر کسی بڑی فوج کو شکست دے دیتا ہے _ لیکن یہ اس صورت میں ہوتا ہے کہ اس چھوٹی فوج میں ایسے امتیازات اور ایڈ و انٹیج پائے جاتے ہیں جو بڑے لشکر میں نہیں ہوتے_ مثال کے طور پر اسلحہ با رود کی کثرت ، زیادہ نظم و ضبط ، زیادہ معلومات اور منصوبہ بندی اور کسی خاص معین جنگی علاقے یعنی جغرافیائی لحاظ سے اسٹرٹیجک جگہ پر قبضہ بھی انہی امتیازات میں سے ہیں_

لیکن مسلمانوں اور مشرکوں کا اس جنگ میں معاملہ بالکل ہی الٹ تھا _ کیونکہ جنگی تجربہ ، کثرت تعداد ، اسلحہ کی بھر مار اور جنگی تیاری اورسازو سامان و غیرہ سب کچھ مشرکین کے پاس تھا جبکہ مسلمانوں کے پاس کسی خاص حدود اربعہ میں معین کوئی خاص جنگی علاقہ بھی نہیں تھا_ بلکہ انہیں تو اس جنگ کا سامنا تھا جسے مشرکین نے اپنی مرضی کی جگہ اور وقت پر ان پر مسلط کر دیاتھا_ بلکہ اکثر مشرکین کو اس علاقے میں بھی امتیاز اور برتری حاصل تھی _ جنگی تکنیک اور اسلوب بھی و ہی پرانا تھا، یعنی فریقین کو وہی معروف اور رائج طریقہء کار اپنانا تھا_ اور اس میں بھی قریش کو برتری اس لحاظ سے حاصل تھی کہ اس کے پاس عرب کے ایسے مشہور شہسوار موجود تھے جو اپنے تجربے اور بڑی شہرت کے باعث ان تقلیدی جنگوں میں برتری کے حامل تھے _ پس جنگ کے متوقع نتائج مشرکین کے حق میں تھے_

لیکن جنگ کے حقیقی نتائج ان متوقع نتائج کے الٹ نکلے اور وہ اتنی بڑی تیاری اور کثیر تعداد والے ہر لحاظ سے برتری کے حامل فریق کے بالکل برخلاف تھے_ کیونکہ مشرکوں کو مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ خسارہ اٹھانا پڑا _ اس لئے کہ مسلمانوں کے آٹھ سے چودہ شہیدوں اور مشرکین کے ستر مقتولوں اور ستر قیدیوں کے

۲۸۸

درمیان کونسی نسبت ہے؟ حالانکہ ہر لحاظ سے مشرکوں کاپلڑا مسلمانوں سے بہت بھاری تھا_ کیا آپ لوگ بتاسکتے ہیں کہ اس غیر متوقع نتیجہ کا کیا راز اور سبب ہے؟

اس کا جواب خود خدا نے قرآن مجید میں یوں دیا ہے

( اذ یریکهم الله فی منامک قلیلاً و لو اراکهم کثیراً لفشلتم و لتنازعتم فی الامر ، ولکن الله سلم انه علیم بذات الصدور و اذ یریکموهم اذ التقیتم فی اعینکم قلیلاً و یقللکم فی اعینهم لیقضی الله امراً کان مفعولاً )

'' ( اس وقت کو ) یاد کر و جب خدا نے خواب میں تمہیں ان کی کثیر تعداد کو کم جلوہ گر کیا اور اگر خدا ان کی تعداد زیادہ دکھاتا تو تم تو دل ہار بیٹھتے اور خود جنگ کے معاملے میں ہی آپس میں جھگڑنے لگتے لیکن خدا نے تمہیں اس سے محفوظ رکھا کیونکہ وہ دلوں کے راز بخوبی جانتا ہے_ اور جنگ کے وقت بھی خدا نے تمہاری آنکھوں میں ان کی تعداد گھٹا کر دکھائی نیز انہیں بھی تمہاری تعداد گھٹا کر دکھائی تا کہ خدا کا ہونے والا کام ہو کر رہے''(۱)

نیز ارشاد خداوندی ہے :

( و اذ زین لهم الشیطان اعمالهم لا غالب لکم الیوم من الناس و انی جار لکم ) (۲)

'' اور یاد کرو جب شیطان نے کافروں کے اس برے کام کو اچھا کردکھایا ...لیکن آج وہ لوگ تم پر غلبہ نہیں پا سکتے کیونکہ آج تم میری پناہ میں ہو''

____________________

۱) انفال /۴۳، ۴۴_

۲) انفال /۴۸_

۲۸۹

اسی طرح یہ بھی فرماتا ہے :

( کما اخرجک ربک من بیتک بالحق و ان فریقاً من المؤمنین لکارهون ) (۱)

'' جس طرح خدا نے تمہیں اپنے گھر سے بر حق نکالا ہے لیکن مؤمنوں کے ایک گروہ کو یہ بات ناپسند تھی''

اسی طرح رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھی فرمایا ہے :'' رعب اور دبدبے سے میری مدد اور حمایت کی گئی ہے اور زمین کو بھی میرے لئے سجدہ گاہ اور باعث طہارت بنا یا گیا ہے''(۲)

اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمانوں اور مشرکوں کو آپس میں لڑانے کے لئے خدا ئی عنایت ، لطف بلکہ طاقت کار فرماتھی تا کہ بہت سے مسلمانوں کے دل سے مشرکوں کی ہیبت اور دہشت نکل جائے _ کیونکہ جب مسلمان قریش سے لڑلیں گے تو دوسروں سے لڑنے کیلئے وہ اور زیادہ جری اور طاقتور ہوں گے_ اور یہ خدائی مشن درجہ ذیل چیزوں میں خلاصہ ہوتا ہے:

۱_ آیتوں میں مذکور گھٹا نے بڑھا نے والے طریقے سے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی_

۲_ ملائکہ کے ساتھ مسلمانوں کی مدد_

۳_ اسلام دشمنوں کے دل میں رعب اور دہشت بٹھانا_

تشریح : فریقین کے جنگی اہداف ہی مادی اور انسانی خسارے بلکہ تاریخ کے دھارے کو کسی بھی طرف موڑنے کے لحاظ سے جنگ کے نتائج کی تعیین اور اس کا فیصلہ کرتے ہیں اور ہم پہلے بھی کئی بار یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ اس جنگ سے مشرکین کا مقصد مطلوبہ زندگی اور ان امتیازات اور خصوصیات کا حصول تھا جن

____________________

۱) انفال /۵_

۲) سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۳۳ ، بخاری ج ۱ ص ۴۶و ص ۵۷، ج ۲ ص ۱۰۷ و ج ۴ ص ۱۳۵ و ص ۱۶۳، سنن دارمی ج ۲ ص ۲۲۴ ، صحیح مسلم ج ۲ ص ۶۳ تا ص ۶۵ ، الجامع الصحیح ج ۴ ص ۱۲۳ ، کشف الاستار ج ۱ ص ۴۴ و ج ۳ ،ص ۱۴۷ ، سنن نسائی ج ۱ ص ۲۰۹و ص ۲۱۰و ج ۶ ص ۳ ، مسند احمد ج ۱ ص ۹۸ و ص ۳۰۱ و ج ۲ ص ۲۲۲ و ص ۲۶۴ ، ص ۲۶۸ ، ص ۳۱۴، ص ۳۶۶ ، ص ۴۱۲ ، ص ۴۵۵ و ص ۵۰۱ ، ج ۳ ص ۳۰۴ ، ج ۴ ص ۴۱۶و ج ۵ ص ۱۴۵ و ص ۱۴۸ و ص ۱۶۲ و ص ۲۴۸ و ص ۲۵۶ ، مجمع الزوائد ج ۶ ص ۶۵ و امالی طوسی ص ۵۶_

۲۹۰

سے وہ اپنی آسودگی ، فرمانروائی اور سرداری کی لمبی لمبی آرزوؤں کی تکمیل کی توقع کر رہے تھے_ پس جب وہ لڑہی اس دنیاوی زندگی کے لئے رہے تھے تو اس مقصد کے لئے ان کا قربانی دنیا کیسے ممکن ہے؟ اس کا مطلب تو پھر ہدف کو کھونا اور مقصد کی مخالفت کرنا ہے_ مؤرخین کی مندرجہ ذیل روایت بھی ہمارے بیانات کی تصدیق کرتی ہے _ وہ کہتے ہیں کہ جب طلیحہ بن خویلد نے اپنے بہت سے ساتھیوں کو رن سے فرار کرتے ہوئے دیکھا تو پکارا'' منحوسو کیوں بھاگ رہے ہو؟''_ تو ان میں سے کسی نے کہا :'' میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہم کیوں بھاگ رہے ہیں ہم اس لئے بھاگ رہے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص کی یہی خواہش ہے کہ اس سے پہلے اس کا ساتھی مرے ( یعنی وہ سب سے آخرمیں مرے) حالانکہ ایسے ایسے افراد سے ہمارا سامنا ہے جو اپنے ساتھیوں سے پہلے مرنا چاہتے ہیں''(۱) _ اسی طرح جب جنگ جمل میں زبیر کے پیٹھ دکھا کر بھاگنے کی خبر حضرت علی علیہ السلام تک پہنچی تو آپعليه‌السلام نے فرمایا : '' اگر صفیہ کے بیٹے کو معلوم ہوتا کہ وہ حق پر ہے تو وہ جنگ سے کبھی پیٹھ دکھا کر نہ بھاگتا ...''(۲) _ اور مامون کی فوج کا ایک بہت بڑا جرنیل حمید طوسی کہتا ہے : '' ہم آخرت سے تو مایوس ہوچکے ہیں اب صرف یہی ایک دنیاہی رہتی ہے ، اس لئے خدا کی قسم ہم کسی کو اپنی زندگی مکدّر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے''(۳) _

لیکن تمام مسلمانوں کابلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ قریش کی جڑیں کاٹنے والے حضرت علیعليه‌السلام اور حمزہ جیسے ان بعض مسلمانوں کا مقصد اخروی کامیابی تھا جنہوں نے دشمنوں کو تہہ تیغ کرکے مسلمانوں کی کامیابی میں نہایت اہم کردار ادا کیا تھا_ وہ یہ جانتے تھے کہ انہیں دوبھلائیوں میں سے کوئی ایک ضرور ملے گی_ یا تو وہ جیت جائیں گے اور اس صورت میں انہیں دنیاوی اور اخروی کامیابی نصیب ہوگی یا پھر شہید ہوجائیں گے اور اس صورت میں بھی انہیں حتی کہ دنیاوی کامیابی بھی نصیب ہوگی اور آخرت تو ہے ہی _ اور ایسے لوگ جب موت

____________________

۱) سنن بیہقی ج ۸ ص ۱۷۶و حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۷۷۰ از سنن بیہقی_

۲) المصنف عبدالرزاق ج ۱۱ ص ۲۴۱ اور اس روایت سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ وہ پیٹھ دکھا کر بھاگتے ہوئے قتل ہوا _ جیسا کہ بعض نے صراحتاً کہا بھی ہے_

۳) نشوار المحاضرات ج ۳ ص ۱۰۰_

۲۹۱

کو فوجی اور ظاہری کامیابی کی طرح ایک کامیابی سمجھتے ہیں اور اپنی جان بچا کر فرار ہونے کو ( چاہے اس فرار سے ان کی جانیں بچ بھی جائیں اور وہ بڑی پرآسائشےں اور پر سکون زندگی اور دنیاوی نعمتوں سے بہرہ مند ہو بھی جائیں پھر بھی اسے) اپنے لئے ذلت ، رسوائی ، تباہی اور مرجانے کا باعث بلکہ مرجانے سے بھی بدتر سمجھتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد انہیں اخروی تباہی اور دردناک عذاب کا سامنا کرنا ہوگا_ (جب صورتحال یہ ہو ) تو یہ زندگی ان لوگوں کے لئے ناقابل قبول اور ناپسندیدہ بلکہ مکروہ ہوگی اور اس زندگی سے وہ ایسے بھاگیں گے جیسے مشرکین موت کے ڈر سے بھاگ رہے تھے_ اور طلیحہ بن خویلد کا جواب دینے والے شخص نے بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا جسے ہم بیان کرچکے ہیں_

جب عمیر بن حمام کو پتہ چلا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا شہید ہونے والوں کو جنت کی خوشخبری دے رہے ہیں ( اس وقت عمیر کے ہاتھ میں چند کھجور تھے جنہیں وہ آہستہ آہستہ کھا رہا تھا) تو اس نے کہا :'' واہ بھئی واہ میرے اور جنت میں داخلے میں صرف ان کے قتل کرنے کا ہی فاصلہ ہے''_ یا یہ کہا :'' اگر زندہ رہا تو یہ کھجور آکر کھاؤں گا _ واہ وہ تو ایک لمبی زندگی ہے'' _ پھر وہ ہاتھ میں پکڑی ہوئی کھجوریں پھینک کر لڑنے چلا گیا اور لڑتے لڑتے شہید ہوگیا(۱) _

(یہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے جانثاروں کے لئے موت کیوں شہد سے بھی زیادہ میٹھی تھی )_بلکہ جب ماؤں کو پتہ چل جاتا کہ ان کے فرزند جنت میں ہیں تو انہیں اپنے فرزند کے بچھڑنے کا کوئی بھی دکھ نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ بسا اوقات خوش بھی ہوتی تھیں_ جب حارثہ بن سراقہ کسی نامعلوم تیر سے ماراگیا تو اس کی ماں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :'' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ مجھے حارثہ کے متعلق بتائیں ، اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کرلوں گی وگرنہ اتنی آہ و زاری کروں گی کہ ساری خدائی دیکھے گی ''_ ( جبکہ ایک اور روایت کے مطابق اس نے یوں کہا:'' وگرنہ میں حد سے زیادہ گریہ کروں گی'' نیز دیگر روایت میں آیا

____________________

۱) ملاحظہ ہو : الکامل ابن اثیر ج ۲ ص ۱۲۶ ، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۸۰ ، سیرہ ابن ہشام ج ۲ ص ۲۷۹ ، البدایہ والنہایہ ج ۳ ص ۲۷۷ از مسلم و احمد ، سنن بیہقی ج ۹ ص ۹۹ ، مستدرک حاکم ( با اختصار ) ج ۳ ص ۴۲۶ و حیاة الصحابہ ج ۱ ص ۴۲۴ از گذشتہ بعض منابع_

۲۹۲

ہے'' تو روؤں گی پیٹوں گی نہیں لیکن اگر وہ دوزخ میں گیا ہے تو میں مرتے دم تک روتی رہوں گی '')_ اور ایک روایت میں ہے کہ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے بتایا کہ اس کا بیٹا جنت میں ہے تو وہ ہنستے ہوئے واپس پلٹی اور کہنے لگی :'' مبارک ہو حارث مبارک ہو''(۱) _اسی طرح جنگ بدر میں شہید ہونے والے عمیر بن ابی وقاص کو جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے مدینہ میں ٹھہرانا چاہا تو وہ ( فرط جذبات اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد سے محرومی کے احساس سے ) روپڑا(۲) جس پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے ساتھ چلنے کی اجازت دے دی _ اور اس طرح کی مثالیں بہت زیادہ ہیں_جنہیں یہاں بیان کرنے گی گنجائشے نہیں ہے_

گذشتہ تمام باتوں سے واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کو کتنی شدت سے مرجانے یا پھر کامیاب ہونے کا شوق تھا _ اور کافروں کو صحت و سلامتی کے ساتھ زندہ رہنے کی تمنا تھی _ کیونکہ مسلمان تو موت کو ایک پل اور شہادت کو عطیہ اور سعادت سمجھتے تھے لیکن وہ لوگ موت کو خسارہ ، فنا اور تباہی سمجھتے تھے_ ان کی مثال بھی بنی اسرائیل کی طرح تھی_

اور بنی اسرائیل دنیا اور دنیا داری کے لئے بہت زیادہ اہمیت کے قائل تھے اور ان کی سوچوں بلکہ عقیدے میں بھی آخرت کی کوئی جگہ نہیں تھی_ ان کی متعلق خدایوں فرماتا ہے:

( قل ان کانت لکم الدار الاخرة عند الله خالصة من دون الناس فتمنو الموت ان کنتم صادقین و لن یتمنوه ابداً بما قدمت ایدیهم و الله علیم بالظالمین و لتجدنهم احرص الناس علی حیاة و من الذین اشرکوا یود احدهم لو یعمر الف سنة و ما هو بمزحزحه من العذاب ان یعمر و الله بصیر بما یعملون ) (۳)

____________________

۱) ملاحظہ ہو : مستدرک حاکم ج ۳ ص ۲۰۸ ، البدایہ و النہایہ ج ۳ ص ۲۷۴ از شیخین ، سنن بیہقی ج ۹ ص ۱۶۷ ، حیاة الصحابہ ج ۲ ص ۶۵۲ تا ص ۶۵۳ از مذکورہ منابع و از کنز العمال ج ۵ ص ۲۷۳ و ۲۷۵ و ج ۷ ص ۷۶ و از ابن سعد ج ۳ ص ۶۸ _

۲) نسب قریش مصعب زبیری ص ۲۶۳ ، الاصابہ ج ۳ ص ۵ ۳،از حاکم ، بغوی ، ابن سعد و واقدی_

۳) بقرہ / ۹۴ تا ۹۶_

۲۹۳

''( اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) ان سے کہہ دیجئے کہ اگر آخرت کا مقام بھی خدا کے نزدیک صرف تمہارا ہی ہے تو ذرا مرنے کی خواہش تو کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو _ لیکن وہ اپنے کر تو توں کی وجہ سے ہرگزموت کی تمنا نہیں کرسکتے اور خدا ہی ظالموں کو سب سے بہتر جانتا ہے _ انہیں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم زندہ رہنے کا سب سے زیادہ خواہشمند پائیں گے حتی کہ مشرکوں سے بھی _ان کا ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ کاش اسے ہزار سالہ زندگی مل جائے _ وہ جتنی بھی زندگی کرلیں وہ اسے عذاب سے چھٹکار انہیں دلا سکتی _ اور خدا ان کے کردار کو بخوبی جانتا ہے''_

اسی بنا پر جنگ بدر میں ضرورت اس بات کی تھی کہ ابتداء میں خدا مسلمانوں کو ان کی نظر میں گھٹا کر دکھاتا تا کہ وہ اپنی سلامتی اور بقاء کے زیادہ احتمال کی وجہ سے آسانی اور آسودہ خیالی سے اس جنگ میں کود پڑتے _ کم از کم وہ جنگ میں جم کر لڑتے اور فرار کا تصور بھی نہ کرسکتے تا کہ حضرت علی علیہ السلام قریش اور شرک کے بڑے بڑے فرعونوں ، سرپھروں، گروگنڈالوں اور سپاہیوں کو قتل اور قیدی کرلیں_ حضرت بی بی فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی ایک روایت بھی اسی کے مطابق ہے کہ '' جب جنگ کا شعلہ بھڑکا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی اسے بجھایا ، گمراہی بڑھنے لگی یا مشرکوں کا جمگھٹا ہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بھائی کو اس میں جھونک دیا اور وہ اسے اچھی طرح روند کر اور تلوار سے اس کے شعلے بجھا کر ہی وہاں سے واپس لوٹا _ وہ خدا کی ذات میں جذب ( فنا فی اللہ ) ہوچکا تھا ...''(۱) _

لیکن پھر جنگ چھڑنے کے بعد ضروری تھا کہ مشرکین مسلمانوں کی تعداد کی کثرت دیکھیں تا کہ وہ رعب اور دہشت کے مارے نہ لڑسکیں_یہاں خدا نے مسلمانوں کی فرشتوں کے ذریعہ مدد کی _اور ان کے ذریعہ سے ان کی تعداد بڑھائی اور فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ وہ لڑیں اور مشرکین کا سر قلم کریں نیز ان کے دلوں میں رعب ، دہشت اور دھاک بٹھادیں _خدا نے بھی جنگ کے شروع ہونے کے بعد پیش آنے والے اس آخری مرحلہ کا ذکر اس آیت میں یوں کیا ہے:

( اذ یوحی ربک الی الملا ئکة انی معکم فثبتواالذین

____________________

۱) بلاغات النساء ص ۲۵ مطبوعہ النہضة الحدیثہ و اعلام النساء ج ۴ ص ۱۱۷_

۲۹۴

آمنو سالقی فی قلوب الذین کفروا الرعب فاضربوا فوق الا عناق و اضربوا منهم کل بنان ) (۱)

''(وہ وقت یادکرو )جب تمہارے پروردگارنے فرشتوں سے کہا کہ میں تمہارا پشت پناہ ہوں (تم جاکر ) مؤمنوں کا دل بڑھا ؤ،میں بھی کافروں کے دل میں دہشت پیدا کردوں گا پھر تم انہیں ہر طرف سے مارکر ان کی گردن ہی ماردو''_

اور یہ بات واضح ہے کہ ڈرپوک اور بزدل دشمن پر چڑھائی چاہے وہ کتنا ہی طاقتور ہو اس کمزور دشمن پر حملہ سے زیادہ آسان ہے جو موت سے بے پروا ہو کر خود ہی حملہ آور ہو_پس یہ معرکہ جنگجوؤںکا سامنا کرنے سے کترانے والے مشرکوں کے حق میں نہیں بلکہ مسلمانوں کے حق میں تھا_ اس بنا پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ خود مشرکین بھی مشرکین کے خلاف لٹررہے تھے اور یہ بات حضرت علیعليه‌السلام کے اس فرمان کی تشریح اور تفسیر ہے کہ ''میرا سامنا جس سے بھی ہوا اس نے اپنے خلاف میری مددکی (اپنے آپ کو میرے حوالہ کردیا)''(۲) اور فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کا ایک اور پہلو بھی تھا جس کا ملاحظہ بھی نہایت ضروری ہے _اور وہ یہ ہے کہ چونکہ یہ ممکن تھا کہ بعض مسلمانوں کے ایمان اور یقین کا درجہ بلند نہ ہوتا اور اس جنگ میں ان کا یقین اورمان ٹوٹ جاتا یا کم از کم ان کا ایمان کمزورہو جاتا اس لئے خدا نے مسلمانوں پر لطف و کرم کرتے ہوئے ان کی فرشتوں سے مدد کی تا کہ وہ انہیں جیت کی خوشخبری دیں ،ان کا دل بڑھائیں اور جنگ کے آغاز میں ان کی آنکھوں میں مشرکوںکو گھٹا کرد کھائیںجس سے وہ جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں _اس کے علاوہ خدا کے فضل سے فرشتوں کی مدد کے اور طریقے بھی تھے _ان باتوں سے اس بات کی وجہ بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ کیوں مشرکین کے مقتولین کی تعداد شہداء اسلام سے کئی گنا زیادہ تھی اور ان کے ستر افراد بھی قید کر لئے گئے حالانکہ مسلمانوں کا کوئی بھی فردگرفتار نہیں ہوا_اور اس مدد کے نتائج صرف جنگ بدرتک ہی محدودنہیں تھے بلکہ ایمان اور کفر کے درمیان ہر جنگ میں ایسے نتائج ظاہر ہوئے اور واقعہ کربلا بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے _

____________________

۱)انفال/۱۲_

۲)نہج البلا غہ حکمت ۳۱۸_

۲۹۵

د: انصار کے خلاف قریش کا کینہ

۱_ ابوجہل کی گذشتہ باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ قریش انصار کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانا چاہتے تھے حتی کہ ابو جہل نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا تھا کہ انصار کو گا جر مولی کی طرح کاٹ کررکھ دو لیکن قریشیوں کی بہ نسبت ان کا موقف مختلف تھا _کیونکہ ابو جہل نے ان کے متعلق کہا تھاکہ ان کی مشکیں اچھی طرح کس کر انہیں مکہ لے جاؤتا کہ وہاںانہیں ان کی گمراہی کا مزہ چکھا یا جائے _شاید مشرکوں نے قریشیوں سے اپنے پرانے تعلقات بحال رکھنے کے لئے ان کے خلاف یہ موقف اپنا یا ہو کیونکہ ہر قریشی مسلمان کا مکہ میں کوئی نہ کوئی رشتہ دار موجود تھا _اور وہ اپنے رشتہ دار کے قتل پر راضی نہیں ہو سکتے تھے چاہے وہ ان کے عقیدے اور مذہب کے مخالف ہی کیوں نہ ہو _اور یہی قبائلی طرز فکرہی تو تھا جواتنے سخت اور مشکل حالات میں بھی مشرکین کی سوچوں پر حاوی اور ان کے تعلقات اور موقف پر حاکم تھا _

۲_ہم یہ تو جان چکے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اور مسلمانوں کو پناہ اور مدد دینے والے انصار کے خلاف قریش کا کینہ نہایت عروج پر تھا اور ان کے کینے کی دیگ بری طرح ابل رہی تھی _اس بات کا تذکرہ ابو جہل نے سعد بن معاذ سے کسی زمانے میں (شاید بیعت عقبہ یا سعد کے حج کرنے کے موقع پر_مترجم)کیا بھی تھا اور اب وہ یثرب والوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے آیاتھا _لیکن ہم یہ بھی ملاحظہ کرتے ہیں کہ ان کے دل میں یہ کینہ کئی دہائیوں تک رہا بلکہ سقیفہ کے غم ناک حادثے میں انصار کی خلافت کے معاملے میں قریش کی مخالفت اوردوسروں کی بہ نسبت حضرت علی علیہ السلام کی طرف انصار کے رجحان نے اس جلتی پر تیل کا کام کیا _اور یہ کینہ مزیدجڑپکڑگیا کیونکہ انہوں نے ہراس جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کا ساتھ دیا جس میں قریشی آپ کے مد مقابل تھے(۱) حتی کہ جنگ صفین میں معاویہ کو نعمان بن بشیر اور مسلمہ بن مخلدسے کہنا پڑا:''اوس اور خزرج کی طرف سے پہنچنے والی زک سے مجھے بہت دکھ اور نقصان اٹھانا پڑاہے _وہ اپنی تلواریں گردن میں حمائل کرکے جنگ کا مطالبہ کرنے آکھڑے ہوتے ہیں _حتی کہ انہوں نے میرے شیر

____________________

۱)ملاحظہ ہو :المصنف ج۵ص۴۵۶وص۴۵۸ودیگر کتب_

۲۹۶

کی طرح بہادر ساتھیوں کو بھی چو ہے کی طرح ڈرپوک بنا کرر کھ دیا ہے _حتی کہ خدا کی قسم میں اپنے جس شامی جنگجو کے متعلق بھی پوچھتا ہوں تو مجھے یہ کہا جاتا ہے اسے انصار نے قتل کردیا ہے_اب خدا کی قسم میں ان سے بھر پور جنگ کروں گا ''(۱) اسی طرح نعمان بن بشیر نے انصار کے ساتھ اپنی ایک گفتگو میں کہا ،''جب بھی (حضرت علیعليه‌السلام پر)کوئی مشکل آن پڑی تم لوگوں نے ہی ان کی یہ مشکل آسان کی ہے''(۲) اسی طرح بنی امیہ کے بزرگ عثمان بن عفان کے خلاف انصار کے موقف اور اس کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں ان کے فعال اور مؤثر کردار نے قریش کے ان کے خلاف کینے کو مزید ہوادی _حتی کہ معاویہ نے اس کے غم میں مندرجہ ذیل شعر کہا :(گرچہ یہ واضح ہے کہ عثمان پراس کا رونا دھونا اس کے سیاسی مقاصد کے تحت تھا و گرنہ عثمان سے اسے کوئی بھی ہمدردی نہیں تھی ) _

لاتحسبوا اننی انسی مصیبته

و فی البلاد من الا نصار من احد(۳)

یہ کبھی مت سوچنا کہ روئے زمین پر کسی ایک انصار ی کے ہوتے ہوئے میں عثمان کا غم بھول جاؤ ں گا_

بہر حال معاویہ سے جتنا بھی ہو سکتا تھا اس نے انصار کے خلاف اپنے د ل کی بھڑ اس نکالی لیکن پھر اس کے بعداس نا بکار کے ناخلف یزید نے کربلا میں اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شہید کرنے کے بعد ''واقعہ حرہ'' میںانصار سے نہایت برا اور شرمناک انتقام لیا تھا(۴)

احمد بن حنبل نے بھی ابن عمر کی ایک بات نقل کی ہے جس کے مطابق وہ اہل بدر کے مہاجرین کو ہر موقع پر اہل بدر کے انصار پر ترجیح دیا کرتاتھا البتہ اس بارے میں ''جنگ بدر سے پہلے کی لڑائیاں ''کی فصل میں

____________________

۱) شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج۸ ص ۸۴و ص۸۵نیز ملاحظہ ہو ص ۴۴و ص۸۷)_

۲)شرح نہج البلاغہ ابن ابی ا لحدیدج ۸ص۸۸_

۳)شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج ۸ ص ۴۴_

۴)ملاحظہ ہو تاریخ الامم و الملوک ، الکامل فی التاریخ اور دیگر کتابوں میں واقعہ حرہ _

۲۹۷

''جنگ میں مہاجرین کو پہلے بھیجنے کی وجوہات ''میں یہ بحث ہو چکی ہے _اس موضوع کے سیر حاصل مطالعہ کے لئے وہاں مراجعہ فرمائیں_

۳_ایک اور پہلو سے اگر دیکھا جائے تو قریش اس جنگ میں انصار کو ایسا یادگار سابق سکھا نا چاہتے تھے کہ وہ پھر کبھی ان کے دشمنوں سے گٹھ جوڑکرنے کا ارادہ بھی نہ کر سکیںقریش کی نظر میں انصار کا یہی جرم ہی کافی تھا کہ انہوں نے مسلمانوں کو اتنی طاقت اور قوت فراہم کردی تھی کہ وہ ان کے مقابلہ میں آنے کی جرات کربیٹھے_اسی لئے ابو جہل (جسے پہلے اپنی کامیابی کا پورا یقین تھا )نے اپنے سپاہیوں کو انتہائی سخت حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ مکیوں کے ہا تھ سے کوئی بھی (یثربی )انصاری نہ چھوٹنے پائے (اور سب کا قلع قمع کردیا جائے )_آخر میں یہ اضافہ بھی کرتے چلیں کہ مدینہ والے قحطانی نسل کے تھے جبکہ مکہ والے عدنانی نسل کے تھے (اور دیگر تعصبات کے علاوہ اس میں نسلی تعصب بھی شامل تھا )_

پہلے اہل بیتعليه‌السلام کیوں ؟

اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ دیگر تمام لوگوں سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اپنے اہل بیتعليه‌السلام کو جنگ میں بھیجنے کا راز ہماری گذشتہ تمام معروضات ہوسکتی ہیںتا کہ سب سے پہلے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی اور اپنے اہل بیتعليه‌السلام کی قربانی پیش کریں _ اسی لئے تاریخ ،حضرت علیعليه‌السلام ،حضرت حمزہعليه‌السلام ،حضرت جعفرعليه‌السلام اور اس دین سے نہایت مخلص آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر بہترین صحابیوںکے کرداراور بہادر یوںکو ہرگز فراموش نہیں کر سکتی بلکہ یہ تا ابد یادگار رہیں گی_پس حضرت علیعليه‌السلام اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا گھرانہ اسلام کی مضبوط ڈھال تھے اور خدا نے ان کے ذریعہ دین کو بھی بچایا اورانصار کے خلاف قریش (جن کی اکثریت اسلام دشمن تھی )کے کینے کی شدت کو بھی کم کیا _یہ سب کچھ انصار کا مستقبل محفوظ کرنے کے لئے تھا ،کیونکہ انصار اور اسلام کے خلاف قریش کے کینے نے مستقبل میں ان دونوں پر سخت ، گہرے اور برے اثرات مرتب کئے _

۲۹۸

ھ:حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے گھرانے پر جنگ بدر کے اثرات :

ہم پہلے یہ بتا چکے ہیں کہ اکثر مشرکین ،مہاجرین خاص کر امیر المؤمنین حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے چچا حمزہ کے ہا تھوں واصل جہنم ہوئے _اور یہ بھی بتاچکے ہیں کہ حضرت علیعليه‌السلام نے بذات خود پینتیس سے زیادہ مشرکوں کوفی النار کیا تھا اور باقیوںکو قتل کرنے میں بھی دوسروں کا ہا تھ بٹا یا تھا_

اس بات سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ قریش چاہے جتنا بھی اسلام کا مظاہرہ کرتے رہیں ،اسلام کے ذریعہ جتنا بھی مال و مقام حاصل کرتے رہیں اور چاہے حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے گھرانے سے محبت اور مودت کی جتنی بھی آیات اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم سے مروی روایات دیکھتے رہیںپھر بھی وہ حضرت علیعليه‌السلام اور ان کے گھرانے سے کبھی بھی محبت نہیں کر سکتے تھے _

حاکم نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ ایک مرتبہ عباس غضبناک چہرے کے ساتھ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میںآیا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سے پوچھا :''کیا بات ہے ؟''اس سوال پر اس نے کہا :''ہمارا قریش سے کوئی جھگڑاہے کیا؟''_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''تمہارا قریش سے جھگڑا؟''اس نے کہا :''ہاں جب وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بڑے تپاک سے ملتے ہیں لیکن ہمیں بے دلی سے ملتے ہیں ''_یہ سن کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اتنے سخت غضبناک ہوئے کہ غصہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھوں کے در میان والی رگ ابھر آئی _پھر جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا غصہ ٹھنڈاہوا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں (حضرت)محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جان ہے، جب تک کوئی شخص خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خاطر تم لوگوں سے محبت نہیں کرے گا تب تک اس کے دل میں ایمان داخل ہوہی نہیں سکتا''(۱) اسی طرح حضرت علیعليه‌السلام نے بھی قریش کا شکوہ کرتے ہوئے فرمایا تھا :''انہوں نے ہم سے قطع تعلق اور ہمارے دشمنوں سے گٹھ جوڑ کر لیا ہے ''(۲) انشاء اللہ جنگ احد کی گفتگو میں اس کی طرف بھی اشارہ کریں گے _

____________________

۱)مستدرک حاکم ج ۳ ص ۳۳۳ نیز تلخیص مستدرک ذہبی اسی صفحہ کے حاشیہ پر،مجمع الزوائد ج ۹ص ۲۶۹و حیاة الصحابہ ج ۲ص ۴۸۷و ص ۴۸۸ ازگذشتہ منابع _

۲)البتہ اگر یہ صدمے کسی معصوم رہنما کو سہنے پڑیں تو وہ اپنی تدبیر ،فراست اور خداداد علم ،عقل اور صبرسے انہیں برداشت کر لیتا ہے اور پائیداری دکھاتا ہے _دوسرے لوگ یہ تکلیفیں نہیں جھیل سکتے اور ان کے لئے انہیں جھیلنے اور ان سے سرخرو ہو کر باہر آنے کے لئے کوئی مناسب راہ حل نہیں ہوتا _اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر موقع پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا صرف حضرت علیعليه‌السلام کوہی آگے کرتے اور انہیں قریش کا سامنا کرنے کی پر زور تاکید کرتے تھے_

۲۹۹

ابن عباس سے مروی ہے کہ عثمان نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا :''اگر قریشی تمہیں نا پسند کرتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟تمہی نے تو ان کے ستر جنگجو افراد کو تہہ تیغ کیا ہے جس کی وجہ سے اب ان کے چہرے (غصہ کی وجہ سے )دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح ہو گئے ہیں ''(۱) اس کے علاوہ ،صاحبان احلاف (ابو سفیان پارٹی )بدر اور احد و غیرہ کے اپنے مقتولین کا بدلہ لینے کے لئے ہر وقت موقع اور فرصت کی تلاش میں رہتے تھے _وہ جنگ جمل اور صفین میں تو ناکام ہو گئے لیکن انہیں اپنے زعم باطل میں واقعہ کربلا میں اس کا اچھا موقع مل گیا تھا _پھر تو انہوں نے اہل بیتعليه‌السلام اور ان کے شیعوں پر ظلم و ستم کی انتہا ہی کردی _وہاں ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس موقع پر یزید نابکار اپنے کفر اور مذکورہ جذبات کو نہ چھپا سکا _کیونکہ اس نے یہ جنگ ،بدر کے اپنے بزرگ مقتولین کا بدلہ لینے کے لئے لڑی تھی اور اس میں وہ اپنی خام خیالی میں کامیاب ہوگیا تھا_ وہ اس کے بعد ابن زبعری کے کفریہ اشعار بھی پڑھتا تھا اور اس میں وحی و نبوت کے انکار پر مشتمل اپنے اشعار کا اضافہ بھی کرتا تھا _ وہ نا بکار ،جوانان جنت کے سردار اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نوا سے حضرت امام حسین علیہ السلام کے دندان مبارک پر چھڑی سے وار کرتے ہوئے یہ اشعار کہتا تھا :

لیت اشیاخی ببدر شهدوا

جزع الخزرج من وقع الا سل

لا هلو و استهلوا فرحاً

ثم قالوا یا یزید لا تشل

قد قتلنا القرم من اشیاخهم

و عدلنا ه ببدر فاعتدل

لعبت هاشم بالملک فلا

____________________

۱)معرفة الصحابہ ابو نعیم ورقہ ،۲۲مخطوط در کتابخانہ طوپ قپو سرای کتاب نمبر ۱/۴۹۷و شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج ۹ ص ۲۲_

۳۰۰