الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 460
مشاہدے: 228299
ڈاؤنلوڈ: 5999

جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 228299 / ڈاؤنلوڈ: 5999
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

خبر جاء و لا وحی تزل

لست من خندف ان لم انتقم

من نبی احمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ما کان فعل(۱)

کاش بدر میں مارے جانے والے میرے بزرگ آج زندہ ہوتے اور تلوار کی زد میں آنے والے خزرجیوں (انصاریوں )کی گھبرا ہٹ اور چیخ و پکار کا نظارہ کرتے تو فرط مسرت سے ان کے چہرے دمک اٹھتے اور وہ ہلّڑ بازی کرنے لگتے پھر مجھے مبارک باد دیتے ہوئے کہتے کہ یزید تمہارا بہت بہت شکریہ_ ہم نے ان لوگوں کے بڑے بڑوں کو آج قتل کرکے بدر کا بدلہ چکا دیا ہے _اب ہمارا حساب برابر ہوگیا ہے _بنی ہاشم نے حکومت کا کھیل کھیلاتھا و گرنہ نہ نبوت کی کوئی خبر آئی ہے اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوئی ہے_ اگر میں نے ( نعوذ باللہ ، حضرت) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گھرانے سے ان کے کئے کا بدلہ نہ لیا تو میں خندف کا بیٹا ہی نہیں ہوں _

اسی طرح بدر کے متعلق خالد قسری کے ساتھ قتادہ کی گفتگو بھی ملاحظہ ہو(۲) حالانکہ قتادہ ایک مشہور و معروف شخصیت اور اہل بصرہ کا بزرگ محدث تھا_

شہدائے انصار

اگر چہ جنگ بدر میں مسلمانوں مہاجرین کی تعداد لشکر اسلام کا چو تھا یا پا نچواں حصہ تھی ، لیکن ان کے شہید مختلف اقوال کی بنا پر شہدائے انصار کے تیسرے بلکہ نصف حصہ سے بھی زیادہ تھے _ حالانکہ اگر تعداد اور کمیت کو مد نظر رکھا جائے تو اس تناسب کو اس سے کم بلکہ بالکل ہی کم ہونا چاہئے تھا _ یعنی مہاجرین کی تعداد کل کا چوتھا یا پانچواں حصہ تھی_جبکہ شہدائے مہاجرین کی تعداد کل شہیدوں کا تیسرا بلکہ آدھا حصہ تھی_بطور مثال

____________________

۱)مقتل امام حسینعليه‌السلام مقرم ص ۴۴۹و ص ۴۵۰و اللہوف ص ۷۵و ۷۶_

۲)بحار الانوار ج ۱۹ص ۲۹۸و ص ۳۰۰و روضہ کافی ص ۱۱۱تا ص ۱۱۳_

۳۰۱

اگر کل تعداد ۱۰۰فرض کرلیں تو مہاجرین کی تعداد بیس۲۰سے پچیس ۲۵ تک ہو گی _جبکہ ہر تین بلکہ دو انصاری کے شہید ہونے کے ساتھ ایک مہاجر بھی شہید ہوا جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بیس انصاری کے ساتھ ساتھ سات سے دس تک مہاجر بھی شہید ہوئے حالانکہ اس حساب سے ہر بیس انصاری کے مقابلے میں صرف چارسے پانچ مہاجرین کو جام شہادت نوش کرنا چاہئے تھا جبکہ لشکر اسلام ۳۱۳ مجاہدین پر مشتمل تھا، ان میںمہاجرین کی تعداد ۷۸ سے ۶۳ افراد بلکہ اس سے بھی کم تھی _ اور شہدائے اسلام کی کل تعداد زیادہ سے زیادہ چودہ بتائی گئی ہے _ جن میں کم از کم چھ مہاجر اور آٹھ انصاری تھے_ حالانکہ اپنی تعداد کے تناسب سے ان کے شہیدوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ تین سے چارتک ہونی چاہئے تھی بلکہ اگر انصار اور مہاجرین کے حالات کا موازنہ کیا جائے تو اس تعداد کو اس سے بھی کم ہونا چاہئے تھا_اس سے اس جنگ میں مہاجرین کے بھر پور کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مترجم_

آیت تخفیف کے متعلق علامہ طباطبائی کا نظریہ :

یہاں علامہ طبا طبا ئی کی ایک بات ہماری گفتگو سے متعلق بھی ہے اس لئے اس کے خلاصے کا ذکر یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے _وہ کہتے ہیں کہ:

ارشاد ربّانی ہے:

( یا ایها النبی حرض المؤمنین علی القتال ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مئتین و ا ن یکن منکم مئة یغلبوا الفاً من الذین کفروا بانهم قوم لا یفقهون _الآن خفف الله عنکم و علم ان فیکم ضعفاًفان یکن منکم مئة صابرة یغلبوا مئتین و ان یکن منکم الفاً یغلبوا الفین باذن الله و الله مع الصابرین _ ما کان لنبی

۳۰۲

ان یکون له اسری حتی یثخن فی الا رض تریدون عرض الدنیا و الله یرید الا خرة و الله عزیز حکیم )

'' اے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مؤمنوں کو جنگ کے لئے تیار کرو کہ تمہارے بیس بہادر افراد ان کے دوسو جنگجوؤں پر غلبہ پالیں گے ،اسی طرح تمہارے سو آدمی ان کے ایک ہزار جنگجوؤںپر بھی کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وہ نا سمجھ لوگ ہیں لیکن اب خدا نے یہ جان کر کہ تم کمزور ہو گئے ہو تمہیں چھوٹ دے دی ہے _ پس اب تمہارے سو بہادر جنگجوان کے دوسو آدمیوں پر غلبہ پالیں گے اور خدا کے حکم سے تمہارے ایک ہزار آدمی ان کے دو ہزار سپاہیوں پر غالب آجائیں گے _ اور خدا پائیداری دکھانے والے بہادروں کے ساتھ ہے _اور مشرکوں کا اچھی طرح قلع و قمع کئے بغیر نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہاتھ روک لینا مناسب نہیں ہے _ تم لوگ تو دنیا داری اور اس کے حصول کے لئے جنگ لڑنا چا ہتے ہو لیکن خدا تمہاری اخروی بھلائی چاہتا ہے اور خدا با عزت اور دانا ہے،،(۱)

پس خدانے یہاں بیس آدمیوں کے دو سو سپاہیوں پر غلبہ کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ دو سو نا سمجھ ہیں لیکن یہ بیس آدمی سمجھ دار اور چالاک ہیں _ اور یہ اس لئے ہے کہ اس وقت مومنین خدا پر ایمان کے بل بوتے پر جنگ لڑتے تھے اور یہ ایمان ایسی بھر پور طاقت ہے جس کا مقابلہ کوئی بھی طاقت نہیں کر سکتی ، اس لئے کہ وہ اس صحیح سو چ اور عقیدے پر مبنی ہے جو شجاعت ، جرات ، ذکاوت ، استقامت ، وقار ، اطمینان اور خدا پر بھروسہ جیسے صفات حسنہ کے زیور سے انہیں آراستہ کرتا ہے _ نیز ان میں یہ یقین بھی پیدا کرتا ہے کہ وہ یقینا دومیں سے کوئی ایک اچھائی حاصل کر ہی لیں گے یعنی یا تو وہ کامیاب ہو جائیں گے یا پھر رتبہ شہادت پر فائز ہو جائیں گے _ اور یہ کہ موت کا مطلب فنا نہیں ہے جس طرح کافروں کی غلط سوچ ہے بلکہ موت تو سعادت اور دار بقاء (جنت) کی طرف منتقلی کا نام ہے_پس کفار ،شیطان کی گمراہیوں اور نفسانی خواہشات کے بھروسے پر آئے تھے اور بہت کم ہی ایسا ہو تا ہے کہ نفسانی خواہشات موت تک بھی ثابت رہیں_ اور نہ بدلیں ، کیونکہ جب

____________________

۱)انفال /۶۵تا ۶۷_

۳۰۳

سب کچھ جان بچانے اور آسودہ رہنے کے لئے ہی ہے تو پھر جان کا نذرانہ کس لئے دیں؟

پس علم اور ایمان کے ساتھ ساتھ مومنوں کی سمجھ داری جنگ بدر میں ان کی کامیابی کی وجہ بنی جبکہ کافروں کے کفر اور نفسانی خواہشات کے علاوہ ان کی بے وقوفی اور جہالت ان کی شکست کا باعث بنی _لیکن اس کے بعد جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو ان کی روحانی اور معنوی طاقت آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی اور وہ کمزور ہوتے گئے کیونکہ گذشتہ پہلی آیت یعنی( ذلک بانهم قوم لا یفقهون ) میں مذکور ان کی سمجھ داری اور دوسری آیت یعنی( والله مع الصابرین ) میں مذکور ان کی پائیداری ، صبر اور دلیری کم ہوگئی _ اور اس کمزوری کی ایک عام وجہ یہ ہے کہ ہر گروہ ،قوم یا جماعت اپنی بقاء اور اہداف زندگی کے حصول کی جد و جہد کرتی ہے _ اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اہداف دنیاوی ہیں یا دینی ہیں _ بہر حال یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ وہ لوگ چونکہ پہلے پہل اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کی راہ میں کچھ رکاوٹیں پاتے ہیں اور بنیاد ہلا دینے والے خطرات کو محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنے اہداف کے حصول ، رکاوٹوں کے خاتمے اور خطرات سے نبٹنے کے لئے سخت جد و جہد کرتے ہیں اور ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں _ نیز اس راہ میں اپنی جان کا نذرانہ تک دینے سے نہیں ہچکچا تے _ اورہنسی خوشی سب کچھ لٹا دیتے ہیں لیکن جب وہ اپنے اغراض و مقاصد کی راہ میں کچھ قربانی دے دیتے ہیں ، ان کے لئے راستہ تھوڑا سا ہموار ہوجاتا ہے اور فضا کچھ سازگار ہوجاتی_

نیز تعدا د بھی زیادہ ہو جاتی ہے تو وہ اپنی قربانیوں کے نتائج سے بہرہ مند ہونا شروع کردیتے ہیں اور نعمتوں اور آسائشےوں میں رہنا شروع کردیتے ہیں _

جس کے نتیجے میں ان کا جوش و جذبہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے _ اور یہ واضح سی بات ہے کہ کسی جماعت یا معاشرے کے افراد اگر کم ہیں تو بلا تردید وہ عام طور پر اپنے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لحاظ سے یقین

۳۰۴

اپنی ذہنی اور فکری سطح ، صفات اور اخلاقیات کے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں اور جیسے جیسے ان کی تعداد بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے ان میں ضعیف الاعتقاد ، منافق اور بیمار ذہن افراد کی تعد اد میں بھی اضافہ ہو تا رہتا ہے_ جس کے نتیجے میں اگر عام افراد کو بھی ساتھ مد نظر رکھیں تو مجموعی طور پر ان کی روحانی ، معنوی اور جذباتی طاقت کی سطح نیچے آ جاتی ہے _ اور تجربہ سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ کسی گروہ کے افراد جتنا کم ہوں گے ، ان کے دشمن جتنا زیادہ طاقتور ہوں گے اور مختلف تکلیفوں ، مصیبتوں اور پریشانیوں نے انہیں جتنا زیادہ گھیرا ہو گا وہ اتنا ہی مصمم ، تیز ، چالاک ، بہادر ، جنگجو اور چست ہوں گے _ اور جوں جوں ان کی تعداد بڑھتی جائے گی ان کے جذبات اتنے ہی ٹھنڈے پڑتے جائیں گے ، ذہنی بیداری کم ہوتی جائے گی اور دماغ خراب ہو تا جائے گا(۱) _

ہماری مذکورہ باتوں کی بہترین دلیل آنحضرتعليه‌السلام کے غزوات ہیں_ قارئین جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد، تیاری ، حالات و واقعات اور نتائج کا احد، خندق ، خیبر اور حنین جیسی دیگر جنگوں میں مسلمانوں کی تعداد ، تیاری ، حالات و واقعات اور نتائج کا موازنہ اور تقابل کرکے دیکھ سکتے ہیں_ اور جنگ حنین کے نتائح تو اتنے ہولناک اور بھیانک تھے کہ خدا کو یہ فرمانا پڑا :

( و یوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلن تغن عنکم شیئاً وضاقت علکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین ) (توبہ۲۵)

''اور جنگ حنین میں جب تمہاری کثرت تعداد نے تمہیں غرور میں مبتلا کردیا تو تمہیں کسی چیز نے فائدہ نہیں پہنچایا اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ دکھا کر الٹے پاؤں بھاگے''

____________________

۱) اس ساری بات کو دسیوں برس پہلے علامہ اقبال نے دو لفظوں میں یوں بیان کیا ہے:

میں تم کو بتا تا ہوں تقدیر امم کیا ہے

شمشیر و سناں اول طاؤوس و رباب آخر

۳۰۵

ہماری ان باتوں سے اب مذکورہ آیتوں کا مفہوم واضح ہوجاتا ہے_ نیز ان باتوں پر وہ مذکورہ تیسری آیت بھی دلالت کرتی ہے جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ وہ لوگ دنیاوی مفاد کی خاطر جنگ سے ہاتھ روکنا چاہتے تھے_ اور چونکہ پہلی دو مذکورہ آیتیں دو مختلف زمانوں میں روحانی اور جذباتی طاقت کی طبیعت اور کیفیت بیان کر رہی ہیں اس لئے دو آیتوں کے بیک وقت نزول میں کوئی مانع نہیں ہے_ کیونکہ دو زمانوں میں دو مختلف احکام کی موجودگی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک حکم کو بیان کرنے والی ایک آیت ایک زمانے میں جبکہ دوسرے حکم کو بیان کرنے والی آیت دوسری موقع پر نازل ہو ، کیونکہ یہ آیتیں ایک طبیعی حکم کو بیان کررہی ہیں کسی شرعی حکم کو نہیں _علامہ طباطبائی پھر فرماتے ہیں کہ پہلی آیت میں فقہ (سمجھداری) اور دوسری آیت میں صبر کی تعلیل بظاہر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ صبر (پائیداری) ایک شخص کا پلڑا روحانی طاقت کے لحاظ سے اپنے جیسے دو آدمیوں پر بھاری کرتی ہے جبکہ فقہ ایک شخص کا پلڑا اس جیسے پانچ آدمیوں پر بھاری کردیتی ہے_ پس اگر یہ دونوں چیزیں کسی ایک شخص میں جمع ہو جائیں تو اس کی روحانی طاقت کا پلڑا دس آدمیوں پر بھی بھاری ہو جاتاہے(۱) البتہ فقہ سے صبر جدا نہیں ہے گرچہ صبر سے فقہ جدا ہوسکتی ہے(۲) _

____________________

۱)بسا اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہونا چاہئے کہ اگر یہ دو صفات کسی شخص میں جمع ہو جائیں تو اس شخص کو اپنے جیسے سات آدمیوں جتنا طاقتور بنا دیتی ہیں _ لیکن ہم کہتے ہیں کہ ان کے کہنے کا مقصد یہ ہے ، کہ فقہ سے پیدا ہونے والی پانچ گنا طاقت کو صبر آکر دوگنا کردیتا ہے اور یہی بات ہی دونوں آیتوں کے مفہو م کے زیادہ مناسب ہے _ کیونکہ فقہ سے صبر اور دوسری صفات حمیدہ بھی حاصل ہوجاتی ہیں پھر صبر آکر اس کی موجودہ طاقت کو دوگنا کردیتا ہے _

۲) ملاحظہ ہو: المیزان علامہ طباطبائی ج ۹ ص ۱۲۲ تا ص ۱۲۵_

۳۰۶

۳۱۹

تیسری فصل:

مال غنیمت اور جنگی قیدی

۳۰۷

مال غنیمت کی تقسیم :

اس جنگ میں ڈیڑ ھ سو ۱۵۰ اونٹ ، دس گھوڑے ( جبکہ ابن اثیر کے مطابق تیس گھوڑے) اور بہت سا سازو سامان ، اسلحہ اور چمڑے و غیرہ کے بچھونے اور چیزیں مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ لگے _ لیکن مسلمانوں میں اس بات پر بحث چھڑ گئی کہ کیا یہ مال غنیمت صرف لڑنے والے جنگجوؤں کو ملنا چاہئے یا پھر ان سب کو بھی ملنا چاہئے جو اس لشکر میں پیچھے رہ کر ان کے دوسرے کاموں میں مصروف ہیں ؟ اس اختلاف اور جھگڑے کی وجہ سے مال غنیمت کی تقسیم کا عمل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے سپرد کردیا گیا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تمام مال غنیمت اکٹھا کر اکے اسے عبداللہ بن کعب کے ذمہ لگا دیا اور باقی صحابہ کو بھی اس کے اٹھانے اور حفاظت میں اس کا ساتھ دینے کا حکم دیا _ بقولے مندرجہ ذیل آیت بھی اسی بارے میں نازل ہوئی :

( یسالونک عن الانفال قل الانفال لله و للرسول فاتقوا الله و اصلحوا ذات بینکم و اطیعو الله و رسوله ان کنتم مؤمنین ) (انفال/۱)

اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے انفال ( مال غنیمت) کے متعلق پوچھتے ہیں تو کہہ دیجی ے کہ انفال خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ہے اور اگر تم مؤمن ہو تو خدا سے ڈرو اور آپس میں صلح صفائی کرلو او ر خدا اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت کرو _

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ مال غنیمت وہاں نہیں بلکہ مدینہ واپس آتے ہوئے راستے میں تقسیم کیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اصحاب کے درمیان اختلاف کی شدت کو ختم کرکے انہیں طبیعی حالت میں واپس لے آنا

۳۰۸

چاہتے تھے تا کہ وہ اپنی دنیاوی خواہشات سے ہٹ کر اس بارے میں کچھ سوچیں_ تب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ سارامال ان کے درمیان تقسیم کردیا اور اس سے خمس بھی نہیں نکالا _

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خمس کیوں نہیں لیا ؟

بہر حال رہا یہ سوال کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے جنگ بدر کے مال غنیمت میں سے خمس کا حصہ کیوں نہیں لیا ؟ تو اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خداکے اذن سے اپنے اور ذوی القربی کے حقوق سے گذر تے ہوئے جنگجوؤں کا حوصلہ بڑ ھانے اور ان کا دل جیتنے کے لئے انہیں زیادہ حصہ دنیا چاہتے ہوں گے خاص کراس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ مشرکین کے خلاف ان لوگوں کی پہلی زبر دست لڑائی ہے اور دوسرا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس موقع پر یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ انہیں حصول مال کی کتنی شدید خواہش اور لالچ ہے _اس کی مزید وضاحت قیدیوں سے متعلق گفتگو میں ہوگی _

اس کی مثال اس روایت میں بھی ملتی ہے کہ حضرات حسنین (حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین ) علیہما السلام نے حضرت علی علیہ السلام کے ایام خلافت میں اپنے والد سے خمس سے اپنا حصہ مانگا تو انہوں نے فرمایا: '' وہ تو تمہارا حق ہے مجھ سے طلب کر سکتے ہو لیکن میں ابھی معاویہ سے جنگ میں مصروف ہوں(جس کے لئے مجھے اخراجات کی اشد ضرورت رہتی ہے )اس لئے اگر تم چاہو تو اپنے اس حق سے گذر سکتے ہو ''(۱)

البتہ یہ بات بھی ممکن ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس وجہ سے وہاں خمس نہ لیا ہو کہ اس وقت تک خمس والی آیت نازل نہ ہوئی ہو_ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ خمس کا حکم غزوہ بدر کے بعد آیاہوگا ،حتی کہ بعض اقوال یہ بھی ملتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلا خمس غزوہ بنی قینقاع کے موقع پر نکالاتھا(۲) لیکن ہمیں اس بات کے صحیح ہونے میں شک ہے کیونکہ بعض دستاویزات کے مطابق آپ نے جنگ بدر سے کچھ ما ہ پہلے سریہ عبداللہ بن حجش میں

____________________

۱)السنن الکبری ج۶ص ۳۶۳)_

۲)الثقات ابن حبان ج ۱ص ۲۱۱_

۳۰۹

سب سے پہلا خمس لیاتھا _بلکہ ہم یہاں تک بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ حضرت علیعليه‌السلام کی حدیث مناشدہ(۱) میں ابن عسا کرنے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے مشاورتی کو نسل کے افراد کو قسم دیتے ہوئے کہا تھا :''تمہیں خدا کی قسم کیا میرے اور حضرت فاطمہعليه‌السلام کے علاوہ تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کسی قریبی کے ایمان لانے سے بھی پہلے خمس لیا ہو ؟'' سب نے کہا :'' نہیں بخدا ''(۲) _ اس دستاویز کی روسے خمس ،مکہ میں بعثت کے ابتدائی ایام میں حتی کہ آپکے گھرانے کے کسی فرد کے اسلام لانے سے بھی پہلے فرض ہو اتھا _ البتہ اس دستاویز پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت سے بھی پہلے بعثت کے چوتھے یا پانچویں سال تک حضرت جعفر ،حضرت حمزہ اور جناب ابو طالب مسلمان ہو گئے تھے _ (پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ دعوی کیسا کہ کسی قریبی کے مسلمان ہونے سے پہلے میں اور فاطمہعليه‌السلام خمس لیتے تھے ؟) _جبکہ اس کا جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ: ( ایک ):_حضرت ابو طالبصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدااور حضرت خدیجہعليه‌السلام کو کسی مال کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ یہ شخصیات شعب ابی طالب جیسے کٹھن حالات میں بھی اپنا ہی مال خرچ کرتے تھے _ اور یہ بات پہلے ذکر ہو چکی ہے _ اور حضرت جعفرعليه‌السلام کے متعلق بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ خمس کے مستحق ہوں شاید وہ بھی مالدار آدمی تھے اسی طرح وہ اس وقت ملک حبشہ میں رہ رہے تھے اسی طرح حضرت حمزہ بھی شاید مالدار آدمی تھے _ ( دو):یہ بھی ممکن ہے کہ خمس کا حکم بعثت کے ابتدائی دنوں میں ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر رشتہ داروں کے مسلمان ہونے سے پہلے آیا ہو اور حضرت خدیجہعليه‌السلام نے خمس نکالا ہو اور اس سے حضرت علیعليه‌السلام کو اپنا حصہ ملاہو لیکن حضرت فاطمہ زہراعليه‌السلام ولادت کے بعد حضرت علیعليه‌السلام کی حصہ داربن گئی ہوں _ البتہ اس مذکورہ دستاویز کا مطلب یہ نہیں نکلتا کہ حضرت زہراعليه‌السلام بعثت کے اوائل میں پیدا ہوئیں _

____________________

۱) خلیفہ ثانی نے بوقت وفات گذشتہ رہنما ؤں کی مخالفت کرتے ہوئے نئے خلیفہ کی تعیین کے لئے ایک چھ رکنی کو نسل یا کمیٹی تشکیل دی تھی _تعیین خلیفہ کے وقت دھاندلی ہونے لگی تو حضرت علی علیہ السلام نے اس کمیٹی کے افراد کو قسمیں دے دے کران سے اپنے فضائل اور صفات منو ائے لیکن دھاند لی ہو کر رہی اور حضرت علیعليه‌السلام کا حق غصب ہو گیا _ اس حدیث کو حدیث منا شدہ کہتے ہیں _مترجم

۲)زندگانی امام علیعليه‌السلام از تاریخ ابن عسا کر با تحقیق محمودی ج ۳ص ۹۰وص ۹۵،المناقب خوازرمی ص۲۲۵،فرائد السمطین ج۱ ص۳۲۲نیز زندگانی امام علیعليه‌السلام ج۳ص ۸۸و ص ۸۹کے حاشیہ میں حدیث منا شدہ کے کثیر منابع و مآخذ بھی مذکور ہیں نیز ملاحظہ ہو: الضعفاء الکبیر ج ۱ ص ۲۱۱_(البتہ اس میں ''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دیگر رشتہ داروں کے ایمان لانے سے پہلے ''والا جملہ مذکور نہیں ہے ، ولئالی المصنوعہ ج ۱ص ۳۶۲)_

۳۱۰

رسول خدا ایک بار پھر خمس اپنے اصحاب میں بانٹ دیتے ہیں

جس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر میں خمس نہیں لیا ،اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بعض دیگر مقاما ت پر بھی خمس نہیں لیا_مروی ہے کہ جنگ حنین کے واقعہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے حق یعنی خمس کو اپنے صحابیوں میں تقسیم کر دیاتھا _ حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کچھ زمین اور ایک موٹا تازہ جوان اونٹ یا کوئی اور چیزملی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : ''مجھے پروردگار کی قسمخدا نے تمہیں جو بھی مال غنیمت یا جو رزق دیا ہے اس میں سے صرف خمس ہی میرا حق بنتا ہے اور وہ بھی میں تمہیں لوٹا ئے دیتا ہوں ''(۱)

یہ تو ان لوگو ں کے ساتھ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کا سلوک تھا لیکن دوسروں کا سلوک کیسا تھا ؟ انہوں نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاص حق ''فئے''پر بھی قبضہ کر لیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیتعليه‌السلام تک کو بھی اس سے محروم رکھا ،بلکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام وارثوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے تمام ترکہ سے ہی محروم کردیا اور یہ بات کسی بیان کی محتاج نہیں ہے_ البتہ ہم بھی '' سیرت سے متعلق چند باتیں'' کی فصل میں نفع اور تمام مال میں خمس کے فریضے پر گفتگو کریں کے_

حضرت علیعليه‌السلام کے دور حک۳مت میں غربت کا خاتمہ :

ابو عبیدہ و غیرہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام سال میں تین مرتبہ لوگوں میں مال تقسیم کیا کرتے تھے ایک مرتبہ تین دفعہ بانٹنے کے بعد اصفہان سے کچھ مال آیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حکم دیا کہ چو تھی مرتبہ تقسیم کا بھی جلدی جلدی بند و بست کرو ، میں تمہارا کوئی خزانچی نہیں ہوں _ تو آپعليه‌السلام نے وہ طبق لوگوں میں تقسیم کرادیئےسے بعض نے تو لے لیا لیکن بعض نے واپس کردیا لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اپنا حصہ لینے پر مجبور کردیا(۲) جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کے دور حکومت میں تمام لوگ اس حد تک خود کفیل اور بے نیاز ہو گئے تھے کہ حکومتی

____________________

۱)الموطاء ج ۲ص ۱۴مطبوعہ با تنویر الحوالک ،الا موال ابو عبید ص ۴۴۴و ۴۴۷،الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۱۲۲،مسند احمد ج۵ ص ۳۱۶ ص ۳۱۹ ، ۳۲۶ و الثقات ج ۲ ص ۴۸)_ ( ۲)الاموال ابو عبید ص ۳۸۴،کنز العمال ج ۴ص ۳۷۸وص۳۱۸،حیاة الصحابہ ج ۲ص ۲۳۶،زندگانی امام علیعليه‌السلام از تاریخ ابن عسا کر با تحقیق محمودی ج ۳ ص ۱۸۱و انساب الاشراف با تحقیق محمودی ج ۲ ص ۱۳۲_

۳۱۱

تقسیم کو بھی واپس کرنے لگے تھے _ اور ایسا کیوںنہ ہو جبکہ حضرت علیعليه‌السلام یہ فرمایا کرتے تھے کہ میں دنیا کو ہیچ سمجھتا ہوں(۱) اور بیت المال کے متعلق حضرت علیعليه‌السلام کی سیرت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے_(۲)

جبکہ دوسروں کے دور حکومت میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض افراد کے پاس تن کو ڈھانپنے کے لئے صرف دوہی ٹکڑے ہوتے تھے جس سے وہ صرف اپنا آگا اور پیچھا ہی چھپا سکتے تھے _ اور کچھ بھی نہیں تھا ، اس لئے انہیں '' ذو الرقعتین'' کہتے تھے(۳)

اہم نوٹ : خمس اور اقربا پروری؟

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا یہ صحیح ہے کہ اہل بیت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے خمس کا مخصوص حکم ایک خاندان کو برتری دینے کے مترادف اور باعث ہے ؟ اور کیا یہ ذات پات کے فرق پر مبنی ہے ، جیسا کہ بعض لوگوں کو ایسی باتیں کرنا اچھا بھی لگتا ہے _ اور اس کا جواب یہ ہے کہ:

۱_ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خمس اللہ ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور امامعليه‌السلام کی ملکیت ہے _ اور آیت خمس میں مذکور باقی افراد خمس کے استعمال اور خرچ کرنے کے موارد ہیں _ اور در حقیقت خدا نے عترت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے فقیروں کو امامعليه‌السلام کی زیر سرپرستی قرار دیا ہے _ اگر ان کا اپنا حصہ ان کے لئے کفایت نہ کرے اور ان کا فقر دور نہ کر سکے تو امامعليه‌السلام اپنے حصہ سے اس کی کمی پوری کرتا ہے_ اور اگر ان کے حصہ سے کچھ بچ جائے تو وہ باقی حصہ امامعليه‌السلام کا ہوگا_ ہوگا _ اور امامعليه‌السلام اپنے اس حصہ کو ان شرعی امور میں خرچ کرے گا جو دین کی سربلندی ، حفاظت اور مسلمانوں کے حالات سدھرنے کا باعث ہوں _ اور وہ مال جو ان شخصیتوں ( سادات کے فقیروں ، مسکینوں اور مسافروں) کو دیا جائے گا وہ صرف ان کی ضرورتوں کے پورے ہونے کی حد تک ہو گا_ کیونکہ زکات ان پر حرام ہوچکی ہے _ اسی طرح زکات غیر سادات کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے فرض ہوئی ہے _ البتہ غیر

____________________

۱)البدایہ و النہایہ ج ۸ص ۵از بغوی و حیاةالصحابہ ج ۲ ص ۳۱۰_

۲)اور قائم آل محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت امام مہدی علیہ السلام کے دور حکومت کے متعلق بھی ملتا ہے کہ وہ دور ایسا خوشحال ہوگا کہ صدقہ دینے والے صدقہ دینے کے لئے ہر طرف پھر رہے ہوں گے لیکن لینے والا کہیں نہیں ملے گا_

۳)المصنف عبدالرزاق ج ۶ ص ۲۶۷ نیز ص ۲۶۸ و سنن بیہقی ج ۷ ص ۲۰۹ _

۳۱۲

سادات میں سے کسی ایک کو دوسروں پر کوئی برتری اور امتیاز حاصل نہیں ہوگا _ جبکہ سادات کے فقیروں کو خمس دینا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی تعظیم اور لوگوں کے دلوں میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی شان اور منزلت کے اعتراف کے برابر ہے_ جبکہ اس سے کسی دوسرے کی حق تلفی یا کسرشان بھی نہیں ہوتی _ اور اس بات سے امت اسلامیہ عقیدے کے لحاظ سے بھی اور عملی طور پر بھی مضبوط اور با صلابت ہو جاتی ہے اور امت اسلامیہ کو اسی صلابت ہی کی اشد ضرورت ہے _

خداوند عالم نے قرآن مجید میں مذکورہ صورت کے علاوہ بھی نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے احترام اور تکریم کو بہت اہمیت دی ہے اور اس کے لئے بہت زیادہ اہتمام کیا ہے _ ارشاد خداوندی ہے

( یا ایها الذین آمنوا لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی و لا تجهروا له بالقول کجهر بعضکم بعضا ) (۱)

اے مؤمنواتم نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آواز سے اپنی آواز زیادہ اونچی نہ کیا کرو بلکہ تمہاری آواز ان سے نیچی اور دھیمی ہونی چاہئے اور ان کو اونچی آواز سے اس طرح بھی مت پکارو جس طرح تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو_

اسی طرح خدا نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا بھی حکم دیا ہے اور یہ سب صرف اس لئے ہے کہ خدا ان باتوںسے دین ، انسان اور انسانیت کی بھلائی چاہتا ہے _

اس کے ساتھ یہ بھی بتاتے چلیں کہ خمس کی یہ عطا اتنی بلا قید و شرط بھی نہیں ہے کہ سب مال کسی خاص قوم یا خاندان کے پاس جمع ہو جائے جبکہ دوسروں کو اس کی اشد ضرورت رہے _ بلکہ شرط یہ ہے کہ ہر سید کو اس کے سال بھر کے خرچہ کی مقدار جتنا دیا جائے گا جس سے اس کی ضروریات پوری ہوتی رہیں _ روایات اور مجتہدین کے فتو ے بھی اسی بات کی تائید کرتے ہیں _ اسی طرح سہم امام بلکہ بعض فتاوی کی بنا پر سہم سادات بھی امامعليه‌السلام یا پھر مجتہد کے اختیار میں ہوتا ہے _

____________________

۱)حجرات /۲۲

۳۱۳

لیکن زکات کے متعلق ایسا نہیں ہے بلکہ کوئی بھی کسی فقیر کو اتنی بہت زیادہ زکات بھی دے سکتا ہے کہ اس کی کا یا اچانک پلٹ جائے اور وہ فقیر سے امیر ہو جائے _

۲_ خمس نے تاریخ کے دورانیے میں دین کی حفاظت میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے _ اسی خمس نے مرجعیت کے ساتھ لوگوں کے تعلقات مضبوط رکھے اور دونوں کے اندر ایک دوسرے پر اعتماد پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا _ ظالم و جابر حکام کے ظلم و زیادتیوں نیز محرومیوں کے اثرات پر غلبہ پانے میں لوگوں کی مدد کی اور ان کی بہت سی ضروریات کو پورا کیا _ معاشر ے کی خدمت کرنے والے علمی اور رفاہی اداروں کی تشکیل میں بھی بہت زیادہ اور عظیم کردار ادا کیا اور معاشرے کی روحی ، مادی اور ذہنی سطح بلند کی _ اسی طرح خمس کے ساتھ ساتھ اس مذہبی موقف نے بھی مذہبی معاشرے کی روحی اور ذہنی سطح کے بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کیا کہ کسی ظالم و جابر حاکم کے ساتھ کسی قسم کے تعلق کے بغیر یا اس کے سامنے جھکے بغیر انسان کو اپنے عقیدے اور عمل میں آزاد ہونا چاہئے_ اور اس ظالم حاکم کو اپنے اوپر ایسے کسی قسم کے دباؤ ڈالنے کا موقع نہ دیں کہ جس سے وہ انہیں غیر دینی راستوں پرلے جائے اور وہ انہیں اپنے اغراض و مقاصد کے حصول اور اہداف تک رسائی کا ذریعہ بنائے _پس ان کی شان ، عظمت ، سر بلندی اور اعتبار اس ظالم حاکم کے مرہون منت نہیںہے کہ جس کی وجہ سے ان پر اس ظالم حاکم کے ساتھ دینی اور عقائدی حدود کے باہر کسی قسم کا تعلق اور واسطہ رکھنا ضرور ی ہو_ اسی بات سے ہمیں آیت اللہ سید روح اللہ موسوی خمینی کی دینی قیادت اور رہبری میں ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں دیگر عوامل کے علاوہ خمس کے عظیم کردار کا بھی علم ہوتا ہے

۳_ چونکہ بعض لوگوں میں دین سے دفاع اور اس کی حفاظت کا ذاتی احساس اجاگر کرنے کے لئے خمس بھی اپنا حصہ ادا کرتا ہے اس لئے دین کو ہمیشہ خمس کی ضرورت رہتی ہے _ اور یہ طبیعی بات ہے کہ اس خطیر ذمہ داری کا ذاتی احساس اور جذبہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیتعليه‌السلام میں یعنی سادات میں سب سے زیادہ ہے _ اور خمس کو ان کے اور ان کے اہل و عیال کے لئے بطور ضمانت اور ضروریات زندگی فراہم کرنے کا ذریعہ قرار دینے

۳۱۴

سے ان میں دین سے دفاع کا مذکورہ جذبہ مزید اجاگر ہوگا اور نکھرے گا نیز دین کی راہ میں جان دینے پر بھی زیادہ آمادہ کرے گا(۱)

یہیں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فاسد عقیدوں اور مشکوک فرقوں حتی کہ وہابیت جیسے باطل اور گمراہ فرقے نے کس طرح اس جیسے تعصب اور اقربا پروری سے کام لے کر اپنے آپ کو زندہ رکھا ہوا ہے _ چونکہ آل سعود جیسے کچھ لوگ اپنا وجود وہابیت کے مرہون منت جانتے ہیں اس لئے وہ اس کی حفاظت ، پابندی اور ترویج کو اپنی ذات ، حکومت اور سلطنت کی بقاء کے لئے ضروری جانتے ہیں _اور ان تمام باتوں سے یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ مذہب حقہ بھلائی اور حق کی حفاظت اور ترویج کے لئے اس عنصر سے استفادہ کرنے کاسب سے زیادہ حق دار ہے _

ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ حکام جس مذہب سے بھی ناراض ہو جاتے اور اس پر اپنا غصہ نکالنا چاہتے تو وہ مذہب تھوڑی سی کوشش کے ساتھ ہی نیست و نابود ہوجاتا تھا _ کیونکہ اس کے بقاء اور اس پر پابند رہنے والے شخص کی حفاظت کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہوتی تھی _ لیکن خالص خدائی تعلیمات پر مشتمل مذہب اہل بیتعليه‌السلام میں چونکہ بڑی بڑی کینہ پرور اور ظالم طاقتوں کے مقابلے میں بھی استمراراور بقاء کی بہت سی شرعی، عقلی اور عملی ضمانتیں موجود ہیں اور ان ضمانتوں کے سائے میں وہ کئی کئی صد یوں تک بھی اپنے اور اپنے پیروکاروں پر دباؤ نہ صرف برداشت کر سکتی ہے بلکہ کر بھی چکی ہے اور کربھی رہی ہے اس لئے وہ پائندہ اور تابندہ ہے _ البتہ یہ بات دین اسلام کی عظمت ، وسعت اور پاکیزگی کی صرف ایک دلیل ہے ، باقی بھی ہیں جو اپنے مقام پر ذکر ہو چکی ہیں اور ہوں گی _

____________________

۱) البتہ اسلام نے ان سادات کے لئے یہ شرط بھی رکھی ہے کہ وہ خمس و غیرہ کو گناہ کے کاموں میں خرچ نہ کرتا ہو_ بلکہ اس سید کو محتاج ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت نیک اور پرہیزگار ہونا چاہئے _ اور وہ جتنا نیک ہوگا اتنا ہی مستحق خمس ہوگا_

۳۱۵

جنگ بدر میں شرکت نہ کرنے ولے بعض افراد کا مال غنیمت سے حصہ :

الف : طلحہ اور سعید بن زید:

مورخین یہاں کہتے ہیں کہ طلحہ اور سعید بن زید نے جنگ بدر میں شرکت نہیں کی تھی _ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں تجارتی قافلے کی تازہ ترین صورتحال معلوم کرنے کے لئے بھیجا تھا تو وہ بدر کی طرف آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روانگی کے بعد مدینہ واپس لوٹے تھے _ وہ جنگ میں شرکت کے لئے گھر سے نکلے بھی لیکن راستے میں دیکھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ سے فارغ ہو کر واپس تشریف بھی لارہے ہیں _ یہ صورتحال دیکھ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ بدر کے مال غنیمت سے ان دونوں کو بھی ان کا حصہ دیا(۱) _

لیکن یہ بات مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر صحیح نہیں ہے :

۱_ ہمیں ایک اور دستاویز میں ملتا ہے کہ وہ شام تجارت کے لئے گئے ہوئے تھے اور وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی جنگ بدر سے واپسی کے بعد لوٹے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی آمد پر ان دونوں کا حصہ نکال کر انہیں دیا(۲) _

البتہ اس دستاویز کی آخری شق صحیح نہیں ہے_ کیونکہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیچھے رہ جانے والے دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر صرف ان دونوں کوہی مال غنیمت کا حصہ کیوں دیا ؟ اور کیاجنگ نہ کرنے والوں کا جنگ کرنے والوں کے مال غنیمت سے شرعی طور پر کوئی حق بنتا ہے ؟ پھر کسی مجبوری و غیرہ کے تحت جنگ سے پیچھے رہ جانے والے دیگر لوگوں کی بجائے صرف ان دونوں کو حصہ دینے پر وہ لوگ راضی کیسے ہو گئے؟ اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم اگر دیگر مسلمانوں کو مال عطا کرنا بھی چاہتے تھے تو انہیں اپنے حصہ سے عطا کرنا چاہئے تھا دوسروں کے مال سے نہیں ، جس طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جنگ میں شریک افراد کے ساتھ یہ کام کیا تھا_

____________________

۱)ملاحظہ ہو: سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۷ و ص ۱۸۵ و غیرہ_ (۲)سیرہ ابن ہشام ج۲ ص ۳۳۹ و ۳۴۰ ، التنبیہ و الاشراف ص ۲۰۵ لیکن اس میں لفظ '' قیل'' ( منقول ہے) کے ساتھ ذکر ہوا ہے ، الاصابہ ج۲ ص ۲۲۹ و الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۲ ص ۲۱۹_

۳۱۶

۲_ دیگر مورخین کی پیروی میں سیوطی نے بھی مذکورہ دونوں افراد کی اس فضیلت سے انکار کیا ہے بلکہ عثمان کے علاوہ اس نے ہر کسی کی اس فضیلت سے انکار کیا ہے _ وہ کہتا ہے : '' جنگ بدر کے موقع پر حضرت عثمان کا حصہ علیحدہ کر لیا گیا جبکہ اس کے علاوہ جنگ بدر سے غیر حاضر رہنے والے کسی شخص کے لئے بھی کوئی حصہ نہیں رکھا گیا_ اس روایت کو ابو داؤد نے ابن عمر سے نقل کیا ہے _ خطابی کہتا ہے کہ یہ فضیلت صرف حضرت عثمان کے ساتھ خاص ہے کیونکہ وہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی ( لے پالک) دختر کی تیمار داری میں مصروف تھا''(۱) البتہ ہم حضرت عثمان کے لئے بھی اس تخصیص کے قائل نہیں ہیں جسے انشاء اللہ آگے جا کر ثابت کریں گے _

۳_ شورا والوں سے ( جن میں طلحہ اور عثمان بھی شامل اور موجود تھے ) حضرت علی علیہ السلام کی حدیث مناشدہ میں آیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے پوچھا : '' کیا تم لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جسے جنگ میں شرکت کرنے پر بھی حصہ ملاہو اور شرکت نہ کرنے پر بھی حصہ ملا ہو؟'' تو سب نے نفی میں جواب دیا(۲) البتہ ہو سکتا ہے کہ جنگ میں شرکت نہ کرنے پر آپعليه‌السلام کو حصہ اس لئے دیا گیا ہو کہ آپعليه‌السلام بھی اس وقت کسی جنگی مہم میں مصروف ہوں یا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے حصہ سے جس طرح دیگر جنگجوؤں کو دیا تھا اسی طرح آپعليه‌السلام کو بھی دیا ہو _ البتہ یہ بات بھی واضح کرتے چلیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات طیبہ میں حضرت علیعليه‌السلام صرف جنگ تبوک سے ہی پیچھے رہے تھے اور شرکت نہ کر سکے تھے باقی تمام جنگوں میں آپعليه‌السلام آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شانہ بشانہ رہے _ زمخشری نے فضائل العشرہ میں کہا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسجد نبوی میں بیٹھے جنگ تبوک کا مال غنیمت تقسیم کررہے تھے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر کسی کو ایک ایک حصہ دیتے جارہے تھے لیکن حضرت علیعليه‌السلام کو دو حصے دیئے _ اس پر زائدہ بن اکوع نے اعتراض کیا تو نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے اسے یہ جواب دیا کہ (حضرت) علیعليه‌السلام کی جگہ جبرائیل جنگ تبوک میں جنگ کررہا تھا اور اسی نے (حضرت)علیعليه‌السلام کو دو حصے دینے کا حکم دیا ہے(۳)

نوٹ: حضرت علی علیہ السلام کی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھائی حضرت جعفرعليه‌السلام کو بھی شرکت کرنے پر ایک حصہ اور نہ

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۱۸۵_ (۲)زندگانی امام علیعليه‌السلام از تاریخ ابن عساکر با تحقیق محمودی ج ۳ ص ۹۳ ، اللئالی المصنوعہ ج۱ ص ۳۶۲ و الضعفاء الکبیر ج۱ ص ۲۱۱ و ص ۲۱۲_ (۳)ملاحظہ ہو:سیرہ حلبیہ ج ۳ ص ۱۴۲_

۳۱۷

کرنے پر بھی ایک حصہ ملاتھا _ کیونکہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مردی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: ''جنگ بدر کے موقع پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب جعفرعليه‌السلام کا بھی حصہ علیحدہ کیا تھا(۱) لیکن یہ بات حضرت علیعليه‌السلام کے مذکور ہ دعوے کے منافی نہیں ہے کیونکہ حضرت علیعليه‌السلام نے جن لوگوں کو قسمیں دی تھیں ان میں حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور اس خصوصیت کا حامل تھاہی نہیں _ اور یہ بات حضرت جعفرعليه‌السلام کے مذکورہ خصوصیت کے حامل ہونے سے مانع نہیں ہے کیونکہ وہ جنگ مؤتہ میں شہید ہو چکے تھے اور اس موقع پر موجودہی نہیں تھے_

ب:عثمان بن عفان

مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے جنگ بدر کے مال غنیمت سے عثمان بن عفان کا حصہ بھی علیحدہ کر لیا تھا کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی اسے اپنی زوجہ جناب رقیہ کی تیمار داری کے لئے وہیں رہنے کا حکم دیا تھا اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا حصہ علیحدہ کر لیاتھا _ اسی وجہ سے مؤرخین نے جناب عثمان کو بدری صحابیوں سے شمار کیا ہے(۲) لیکن ہم مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر اسے صحیح نہیںسمجھتے :

۱_ حدیث منا شدہ میں شورا والوں کے سامنے حضرت علی علیہ السلام کا دعوی ذکر ہو چکا ہے اور اس میں خود عثمان بھی موجود تھا اور اس نے بھی اعتراف کیا تھا _

۲_کچھ دیگر روایتیں کہتی ہیں کہ وہ خود چیچک کی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جنگ بدر میں شرکت نہ کر سکا تھا(۳)

تو پھر ہم کس روایت کی تصدیق کریں ؟ اس کی یا اُس کی ؟

۳_ کسی مجبوری کی وجہ سے جنگ سے پیچھے رہ جانے والے دوسرے افراد کی بجائے صرف جناب عثمان کا حصہ کیوں علیحدہ کیا گیا؟اور اس بات پر پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں نے اعتراض کرکے اپنے حق کا

____________________

۱)سیر اعلام النبلاء ج۱ ص ۲۱۶_ (۲)ملاحظہ ہو: سیرہ حلبیہ ج ۲ص ۱۴۶،ص۱۴۷و ۱۸۵اور تاریخ کی کوئی بھی دوسری کتاب _

۳)سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۱۴۶ و ص ۱۸۵_

۳۱۸

مطالبہ کیوں نہیں کیا؟ پھراس بات پر جنگجو مسلمانوں نے بھی اعتراض کیوں نہیں کیا ؟ اور کیا کسی بیماری کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والے شخص کو یہ حق حاصل ہو جاتاہے کہ وہ جس جنگ میں شریک نہیں ہوا اس جنگ سے حاصل ہونے والے مال غنیمت میں حصہ دار بن جائے ؟

۴_عثمان والی بعض روایات یہ کہتی ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب رقیہ کی تیمار داری کے لئے عثمان کے ساتھ اسامہ بن زید کو بھی ٹھہرایاتھا اور جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کی خبر پہنچے کے بعد اس بارے میں اس کا بھی یک گونہ کرداررہا تھا حالانکہ اس وقت اس کی عمر دس سال سے بھی کم تھی _لیکن اس کے با وجود عثمان کے حصہ کی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کا حصہ علیحدہ نہیں کیا ؟؟

۵_ تاریخ میں ملتا ہے کہ عبد الرحمن بن عوف ،عثمان کو جنگ بدر میں شرکت نہ کرنے کے طعنے دیا کرتا تھا ایک مرتبہ اس کی ملاقات ولید بن عقبہ سے ہوئی تو ولید نے اس سے کہا :''تم امیر المؤمنین عثمان کے حق میں جفا کیوں کرتے ہو ؟''_تو عبد الرحمن نے اس سے کہا :''اس سے کہہ دینا کہ میں نہ جنگ عینین (جبکہ بقول عاصم اس کی مراد جنگ احد ہے )سے بھا گاہوں اور نہ جنگ بدر سے پیچھے ہٹاہوں اور ہاں حضرت عمر کی سنت بھی میں نے نہیں چھوڑی ہے ''_ اور ولید نے جاکر عثمان کو عبد الرحمان کا یہ پیغام پہنچایا _یہاں مؤرخین کہتے ہیں کہ اس نے جنگ بدر میں شرکت نہ کرنے کی وجہ جناب رقیہ کی تیمار داری بتائی(۱) نیز بقول مؤرخین ابن عمر نے بھی جناب عثمان پر اعتراض کرنے والے ایک شخص کے جواب میں یہی عذر پیش کیا تھا(۲) _

لیکن ان کا یہ عذر صحیح نہیں ہے بلکہ صرف ایک بہانہ ہے _کیونکہ اس کی یہ مجبوری عبدالرحمن بن عوف جیسے بزرگ صحابی اور اس اعتراض کرنے والے شخص سے کیسے پوشیدہ تھی؟ حالانکہ اس وقت کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی تھی _ اور اگر جناب عثمان کا اس سے کوئی حصہ علیحدہ کیا گیا تھا تو یہ اس کے لئے بہت بڑی فضیلت

____________________

۱)مسنداحمد ج۱ ص ۶۸وص۷۵،الا وائل ج۱ص۳۰۵وص ۳۰۶،محاضرات الادباء راغب اصفہانی ج ۲ ص ۱۸۴،الدر المنثور ج۲ص ۸۹از احمد و ابن منذر ،البدایہ و النہایہ ج ۷ص۲۰۷،شرح نہج البلا غہ ابن ابی الحدید ج ۵ ص ۲۱تا ص۲۲،المغازی واقدی ج۱ص ۲۷۸،الغدیر ج ۹ ص ۳۲۷و ج ۱۰ص ۷۲از احمد و ابن کثیر و از ریاض النضرہ ج ۲ ص ۹۷_ (۲)مستدرک حاکم ج ۳ ص ۹۸،الجامع الصحیح ترمذی ج ۵ ص ۶۲۵،مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۱۰۱،البدایہ و النہایہ ج ۷ص ۲۰۷از بخاری و الغدیر ج ۱۰ص ۷۱از حاکم و ص۷۰از احمد و از صحیح بخاری ج ۶ص۱۲۲)_

۳۱۹

کی بات تھی اور یہ بات جنگ بدر اور احد میں شرکت کرنے والے ،مؤاخات کے دن عثمان کا بھائی بننے والے ،اس کے لئے خلافت کی سیج تیار کرنے والے اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے بعد کائنات کی سب سے بہتر اور افضل شخصیت امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام پر اسے ترجیح دینے والے عبدالرحمن بن عوف سے ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی تھی _تو پھر عبد الرحمن بن عوف اسے فضیلت کی بات پر کیوں طعنے دیتا تھا ؟ یا پھر ایسی بات نہیں تھی وہ لوگ عثمان پر جھوٹا الزام لگاتے ہوئے اس کی قابل تعریف باتوں پر تعریف کی بجائے اس کی برائی کرتے تھے ؟

۶_ جب بن مسعود کوفہ سے مدینہ آیا تو وہ مدینہ میں ایسے وقت داخل ہواجس وقت عثمان بن عفان رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے منبر پر بیٹھ کرتقریر کررہا تھا _ جب اس کی نظر اس نو وارد پر پڑی تو اس نے دوران تقریر ہی کہہ دیا :''لوگوا تمہارے پاس ابھی ایک ایسا حقیر اور برا جانور آیا ہے جس کا کام صرف کھانے ،اگلنے اور نکالنے میں مصروف رہناہے ''_ اس پر ابن مسعود نے کہا : ''میں ایسا نہیں ہوں بلکہ میں تو جنگ بدر اور بیعت رضوان کے موقع پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا ساتھی ہوں ''(۱) اور اس بات سے وہ دونوں مقامات پر عثمان کی عدم موجود گی کی وجہ سے اسے طعنہ دے رہا تھا _

۷_ اسی طرح سالم بن عبداللہ کے پاس بھی ایک آدمی نے آکر گذشتہ دوآمیوں کی طرح عثمان پر اعتراض کیا تھا(۲) پس یہ مزعومہ فضیلت ان سب لوگوں سے کیسے مخفی رہی ؟

۸_ آخر میں ہم جناب رقیہ کی تیمار داری کے لئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے عثمان کو مدینہ میں رہ جانے کی رخصت دینے کو بھی بعید سمجھتے ہیں _ کیونکہ عثمان کے کردار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے جناب رقیہ کی حالت کی کچھ پروا نہیں تھی اور نہ ہی اسے اس کی بیماری سے کوئی غرض تھی کیونکہ ہم انشاء اللہ جناب رقیہ کی وفات کے متعلق گفتگو میں تفصیل سے بتائیں گے کہ اس نے جناب رقیہ کی وفات کی رات بھی اپنی کسی بیوی سے ہم بستری

____________________

۱)انساب الا شرف ج ۵ ص ۳۶،الغدیر ج۹ص۳از انساب الاشرف و ص ۴ از واقدی _

۲) الغدیر ج۱۰ص ۷۰از ریاض النضرہ ج۲ص ۹۴_

۳۲۰