الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 460
مشاہدے: 229038
ڈاؤنلوڈ: 6071

جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 229038 / ڈاؤنلوڈ: 6071
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پس گذشتہ باتوں کے علاوہ ، عقل کا نقصان دہ اور فائدہ مند نیز اچھی اور بری چیزوں کا صحیح معنوں میں ادراک ، نیز خدا اور خدا کی عظمت ، جلالت ، احاطہ ، قدرت ، حکمت اور تدبیر کی کمال معرفت اور امر و نہی کے مقام صدور کی پہچان اور قیامت ، ثواب اور سزا پر اس کا پختہ ایمان ، یہ سب چیزیں مل کر اس شخص کے لئے برائیوں اور گناہوں کے ارتکاب کے تصور کو بھی ناممکن اور نا قابل قبول بنا دیتی ہیں کیونکہ عقل اور گناہ ایک دوسرے کے متضاد اور مخالف ہیں _ یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی شخص سے ملتے ہیں اور اس کے تمام حالات ، عادات ، خصوصیات ، ترجیحات اور افکار سے واقف ہوتے ہیں تو اس سے منسوب ایسی ساری باتیں جھٹلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو اس کی شخصیت کے مناسب نہیں ہوتیں _ اور جتنا جتنا ہمارے لئے ثابت ہوتا جائے گا کہ اس کی مذکورہ صلاحیتیں پختہ اور راسخ ہیں اتنا ہی ہمارے لئے اس سے منسوب باتوں کا قبول سخت اور دشوار ہوتا جائے گا _ اور گذشتہ باتوں کی روسے جو شخص برائیوں سے دور اور اچھائیوں پر پابند رہنے کی کوشش کرے گا تو توفیقات الہی بھی اس کے شامل حال ہوتی جائیں گی کیونکہ( ولینصرن الله من ینصره ) ،( و من یتق الله یجعل له فرقاناً ) اور( والذین اهتدوا زاد هم هدی و آتا هم تقوا هم )

پھر خدا نیک لوگوں کی اس جماعت میں سے اس شخص کو چن لیتا ہے جس کی عقل ان لوگوں میں سب سے کامل اور شخصیت سب سے افضل اور خیر اور کمال کی صفات کی جامع ہوتی ہے _ لیکن یہ واضح ہے کہ ان لوگوں کے متعلق خدا کے علم اور چناؤ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کسی قول یا فعل پر مجبور ہیں _ اسی بناپر عصمت سے کوئی جبر اور زبردستی لازم نہیں آتی کہ یہ کہا جائے کہ معصوم تکوینی ( پیدائشےی ) طور پر سرے سے گناہوں کے ارتکاب کی طاقت نہیں رکھتا _ بلکہ عصمت ان معنوں میں ہوتی ہے کہ ان سے یہ افعال سرزد نہیں ہوتے _ اور علمی الفاظ میں یوں کہا جائے گا کہ معصوم میں گناہوں کا مقتضی ہی موجود نہیں ہوتا (اس کے دل میں گناہ کی طرف رغبت ہی نہیں ہوتی) اور نہ ہی اس میں گناہوں کے ارتکاب کے لئے علّت مؤثرہ پائی جاتی ہے (اسے گناہوں کے ارتکاب پر کوئی چیز نہیں ابھار سکتی ) _ بلکہ اس کے دل میں ارتکاب گناہ کا تصور بھی نہیں ابھرتا _ پس ان معنوں میں کہاجاسکتا ہے کہ ان سے گناہوں کا سرزد ہونا محال ہے _ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح

۴۲۱

ہم یہ کہیں کہ بچے کا اپنے آپ کوآگ میں گرانا محال ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کام اس کے لئے مقدورہی نہیں ہے _ بدیہی اور واضح سی بات ہے کہ یہ کام اس کے لئے مقدور تو ہے لیکن ہمارے اس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ کام کرے گا ہی نہیں _ اس طرح جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کا ظلم کرنا محال ہے اور خدا کبھی ظلم نہیں کرسکتا تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ خدا ظلم کرنے پر قادر نہیں ہے _ کیونکہ بلاشک وہ اپنے سب سے زیادہ فرمانبردار بندے کو بھی عذاب میں مبتلا کرسکتا ہے _ لیکن ہمارے کہنے کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ خدا ایسا کام نہیں کرے گا کیونکہ یہ کام حکمت خداوندی کے منافی ہے اور خدا کی شان اور عظمت کے بھی خلاف ہے_

پس گذشتہ تمام باتوں کی روسے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ خدا کا اپنے بعض بندوں کو چن کر ان کے ہاتھ سے معجزہ دکھلانا اس بندے کے کامل اور معصوم ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ جس طرح پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں یہ معقول ہی نہیں ہے کہ خدا لوگوں کی ہدایت اور قیادت کے لئے اس شخص کا انتخاب کرے جو خود گناہگار اور نافرمان ہو _

حضرت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم افضل ترین مخلوق

گذشتہ باتوں کی رو سے اب ہمارے لئے سمجھنا آسان ہوگیا ہے کہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کیوں تمام مخلوقات حتی کہ دیگر تمام انبیاء ومرسلین سے بھی افضل ہیں _ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گرچہ تمام انبیاء معصوم ہیں اور سب کو گناہوں کے ا ثرات اور نتائج کابخوبی علم تھا اور وہ سب خدا کی عظمت اور جلالت اور ملکوت کی معرفت بھی رکھتے تھے بلکہ دوسرے لوگوں سے زیادہ معرفت رکھتے تھے، لیکن ہمارے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان اثرات اور ان کے پہلوؤں اور ہر نسل کے مختلف جوانب پر اس کے انعکاس کا اور اسی طرح خدا کے لامتناہی جلال اور بے اندازہ عظمت کا زیادہ گہرا اور حقیقی ادراک اور علم تھا _ کیونکہ عقل ، حکمت ، دانائی ، گہرے ادراک ، شجاعت ، کرم اور حلم میں بلکہ ، مثالی اور نمونہ عمل انسان کی تمام صفات حمیدہ اور اخلاق حسنہ

۴۲۲

میں بلکہ تمام چیزوں میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سب سے کامل ، افضل اور اولین شخصیت ہیں _ پس اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سب سے افضل ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عصمت سب سے زیادہ عمیق ، پائیدار ، زیادہ پر اثر اور وسیع تھی _ اسی بناپر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی عبادتوں میں خدا سے سب سے زیادہ راز و نیاز کرنے والے اور سب سے زیادہ ڈرنے والے تھے _

حدیث ''علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل '' کا صحیح مطلب

اسی طرح جب ہم اس حدیث کو مشاہدہ کرتے ہیں جس میں آیا ہے کہ '' علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل ''(۱) _(میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند ہیں ) تو اپنے آس پاس موجود ان علماء کو دیکھتے ہوئے اس حدیث کا صحیح مطلب نہیں سمجھ سکتے جن سے بعض لا یعنی باتوں اور صغیرہ گناہوں کے سرزد ہونے کا احتمال رہتا ہے _کیونکہ یہ معقول نہیں ہے کہ یہ شخص جس سے گناہوں کے ارتکاب کا اندیشہ رہتا ہے اس معصوم کی طرح ہوجائے جس کے متعلق نہ یہ اندیشہ رہا ہو ، نہ اس سے سرزد ہوا ہو اور نہ اس کے دل میں گناہ کا خیال تک آیا ہو _ اس لئے اس کی یہ توجیہ کی جاتی ہے کہ یہ علماء معرفت ، علم اور بصیرت کے لحاظ سے ان انبیاء کی مانند ہیں کیونکہ یہ علماء دینی ، تاریخی اور دیگر معارف میں ان حقائق سے مطلع ہوئے جن کا علم گذشتہ انبیاء کو نہیں تھا _ لیکن یہ توجیہ قرآنی منطق سے میل نہیں کھاتی_ کیونکہ قرآن مجید ، تقابل اور افضیلت کا معیار تقوی اور اعمال صالحہ کو قرار دیتا ہے _ ارشاد خداوندی ہے( ان اکرمکم عند الله اتقاکم ) ترجمہ: '' خدا کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ باعزت سب سے زیادہ متقی شخص ہے ''(۲)

اور حدیث قدسی میں بھی آیا ہے : '' میں جنت میں اس شخص کولے جاؤں گا جو میری اطاعت کرے گا چاہے وہ حبشی غلام ہی ہو اور دوزخ میں اسے لے جاؤں گا جو میری نافرمانی کرے گا چاہے وہ قریشی سردار ہی ہو '' _

____________________

۱)بحار الانوار ج ۲ ص ۲۲ از غوالی اللئالی _

۲)حجرات /۱۳_

۴۲۳

پس لازمی ہے کہ بنی اسرائیل کے انبیاء سے افضل علماء سے مراد نہ صرف ان انبیاء کی طرح معصوم شخصیات ہوں بلکہ انہیں ان انبیاء سے یہ امتیاز بھی حاصل ہو کہ ان کا ادراک ان سے زیادہ بھی ہو اور اس امت بلکہ نسلوں پر ہر فعل کے اثرات کاانہیںعین الیقین بھی ہو _ بلکہ گذشتہ عہد کے لوگوں کی تاریخ ، عقائد اور تبدیلیوں کا بھی مشاہدہ کرچکے ہوں اور ان سے مطلع ہوں اور خود بھی ان سے زیادہ زمانے اور صعوبتیں دیکھ چکے ہوں اور بنی اسرائیل کے انبیاء بھی انہیں پہچانتے ہوں _ مزید یہ کہ ان کے پاس ان تمام معلومات اور واقعات اور ان کے تمام جوانب اور مستقبل قریب یا بعید میں ان کے تمام پوشیدہ اور ظاہر اثرات کے ادراکات کے تحمل اور ان سے نتیجہ گیری کرنے کے لئے بہت زیادہ طاقت اور قدرت بھی ہونی چاہئے تا کہ جس طرح ہم نے پہلے بھی تفصیل سے بتایا ہے ان کی عصمت ان سے زیادہ دقیق ، عمیق ، پائیدار ، پر اثر اور وسیع ہو_ اور ہمیں تاریخ میں بارہ اماموں کے علاوہ ایسی خصوصیات کامالک کوئی اور شخص نہیں ملتا _ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے بھی انہیں ثقلین کا ایک حصہ اور کتاب خدا کا ہم پلّہ قرار دیا تھا اور امت پر ان سے تمسک ، ان سے ہدایت کے حصول اور ان کے اوامر اورنواہی کی پیروی کو واجب قرار دیا تھا جن میں سے پہلی شخصیت حضرت علیعليه‌السلام اور آخری حضرت مہدیعليه‌السلام ہیں _

۴۲۴

۴۴۵

چوتھا عنوان

خمس کا شرعی حکم اورسیاست

محترم قارئین سے ہم نے وعدہ کیا تھا کہ عہد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں لاگو ہونے والے خمس کے حکم کی مختصر وضاحت کریں گے _ اور چونکہ علّامہ علی احمدی نے اس موضوع پر نہایت مفید گفتگو کی ہے اس لئے ہم بھی کچھ اضافات کے ساتھ حتی الامکان انہی کی باتوں سے استفادہ کریں گے _

ارشاد خداوندی ہے :

( و اعلموا انّما غنمتم من شی فان لله خمسه و للرسول و لذی القربی و الیتامی و المساکین و ابن السبیل )

''او رجان لو کہ تمہیں جس چیز سے غنیمت ( نفع) حاصل ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ خدا ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں (ذوالقربی) ، یتیموں ، مسکینوںاور ( بے پناہ ) مسافروں کا ہے''(۱)

غنیمت کا معنی

بعض مسلمان فرقوں کے علماء کا نظریہ ہے کہ '' غنیمت وہ مال ہے جو میدان جنگ میں کفار سے حاصل

____________________

۱)انفال /۴۱_

۴۲۵

ہو''_ جبکہ شیعوں کا اپنے ائمہ کی پیروی میں ( لغویوں کی تشریح کے مطابق) یہ نظریہ ہے کہ '' غنیمت ہر وہ مال ہے جو کسی بدلے اور معاوضہ کے بغیر ( یعنی مفت ) حاصل ہو '' _ لغوی کہتے ہیں : '' غُنم : مشقت کے بغیر کسی چیز کو پانا ، مفت حاصل کرنا '' ، '' اغتنام : فرصت کو ( یا کسی چیز کو)غنیمت سمجھنا '' اور '' غنم الشیی غنما : کسی چیز کا بلا مشقت حصول اور بدلے کے بغیر ہاتھ لگنا '' _ راغب کہتا ہے : '' غنم کا اصل مطلب کسی چیز کو اچانک پانا اور اسے حاصل کرنا ہے لیکن پھر ہر اس چیز کو ''غنم '' کہا جانے لگا جسے غلبہ پاکر حاصل کیاجائے ''(۱) یہ تو ہوئی لغویوں کی بات _ پھر جب ہم احادیث اور خطبوں میں کلمہ '' غنم '' کے استعمال کو دیکھتے ہیں تووہاں بھی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ لفظ کا استعمال ہر چیز کے ہمہ قسم حصول پر ہوتا ہے یعنی ہر قسم کے نفع پر اس کا اطلاق ہوتا ہے _ ہمارے اس مدعا پر دلیل کے لئے حضرت علیعليه‌السلام کے یہ فرامین بھی کافی ہیں :

(من اخذ بها لحق و غنم )(۲)

'' جو دین کی شاخوں کو پکڑ لے گا وہ اس کی حقیقت تک پہنچ جائے گا اور فائدہ مند ر ہے گا ''

( ویری الغنم مغرماً و الغرم مغنماً )(۳)

'' وہ نفع کو نقصان سمجھتا ہے اور گھاٹے کو فائدہ ''

(و اغتنم من استقرضک )(۴)

'' ا ور تم اس شخص کو غنیمت سمجھو جو تم سے کوئی چیز ادھا رمانگے ''

(الطاعة غنیمة الاکیاس )(۵)

'' اطاعت عقلمندوں کے لئے فائدہ مند اور غنیمت ہے ''

____________________

۱)ملاحظہ ہو: لسان العرب ، اقرب الموارد ، مفردات راغب ، قاموس النہایہ ابن اثیر ، معجم مقایس اللغہ ، تفسیر رازی ، مصاحبہ اللغات و لغت کی دیگر کتب _

۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۸ ( بعض میں ۱۲۰ ہے ) _ ( ۳)نہج البلاغہ کلمات قصار حکمت ۱۵۰_ ( ۴) نہج البلاغہ خط نمبر ۳۱_

۵)نہج البلاغہ کلمات قصار حکمت نمبر ۳۳۱_

۴۲۶

اس کے علاوہ حدیث میں بھی ہے کہ :

(الرهن لمن رهنه له غنمه و علیه غرمه )(۱)

'' رہن کا مال گروی رکھنے والے شخص کی ملکیت ہے اس کا نفع بھی اسی کا ہوگا اور نقصان بھی ''

(الصوم فی الشتاء الغنیمة الباردة )(۲)

'' سردیوں کا روزہ بلا مشقت ( مفت ) کی کمائی ہے ''

اسی طرح ارشاد خداوندی ہے :

(عندالله مغانم کثیره )(۳)

'' خدا کے پاس تو بہت سارے خزانے ( اور فائدے ) ہیں ''

اسی طرح جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کوئی زکات دی جاتی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یہ دعا فرماتے:

(اللّهم اجعلها مغنماً ولا تجعلها مغرماً )(۴)

'' خدایا اسے فائدہ مند ( اور با برکت ) بنا گھاٹا ( اور تاوان ) مت بنا ''

نیز فرمایا:

(غنمیة مجالس الذکر الجنة )(۵)

'' وعظ و نصیحت کی محفلوں کا فائدہ جنت ہے ''

نیز روزے کی تعریف میں فرمایا :

(هو غنم المؤمن )(۶)

'' یہ مومن کے لئے غنیمت اور مفت کی کمائی ہے ''

____________________

۱)النہایة ابن اثیر مادہ '' غنم''_ (۲)النہایة ابن اثیر مادہ ' ' غنم '' _ (۳)نساء /۹۴_ (۴)سنن ابن ماجہ (کتاب الزکات ) حدیث نمبر ۱۷۹۷_

۵)مسند احمد ج ۲ ص ۱۷۷_ (۶) ملاحظہ ہو : مقدمہ مرآة العقول ج ۱ ص ۸۴و ص ۸۵_

۴۲۷

اس کے علاوہ بھی کثیر احادیث اور روایات ہیں _

پس اس بنا پر لغت میں '' غنم '' کا معنی ہے ''ہر وہ چیز جو کسی بھی طرح سے حاصل ہو '' _ لیکن بعض لوگوں کی طرف سے '' بلا مشقت '' کا اضافہ اس کے گذشتہ استعمال کے برخلاف ہے _ اور اس سے مجازی معنی مراد لینے کا مطلب یہ ہوگا کہ اکثر مقامات پر اس لفظ کا مجازی معنی میں استعمال ہونے کا عقیدہ رکھا جائے _ جبکہ قرآن مجید میں ہی خود آیت خمس کا اطلاق ہر اس مال پر ہوتا ہے جس سے فائدہ حاصل ہو _ اور ان میں وہ مال غنیمت بھی ہے جو جنگ میں بڑی مشقت کے بعد حاصل ہوتا ہے _ اور بعض شخصیات(۱) کا یہ کہنا بھی کہ '' اس لفظ کا اصل معنی پہلے ہر قسم کا نفع اور فائدہ تھا لیکن بعد میں صرف مال غنیمت کے ساتھ خاص ہوگیا '' صحیح نہیں ہے کیونکہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ حدیث شریف میں یہ الفاظ صرف ان معنوں میں ہی استعمال نہیں ہوئے بلکہ اصل معنوں میں اس سے زیادہ استعمال ہوئے ہیں _ پھر اگر یہ شک بھی پیدا ہوجائے کہ یہ لفظ اپنے اصلی معنی میں استعمال ہوا ہے یا نہیں تو اس صورت میں اس لفظ کا اصلی لغوی معنی مراد لیا جائے گا _ پس آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہر اس چیز پر خمس واجب ہے جو انسان کو حاصل ہو چاہے وہ کافروں سے جنگ کے میدان سے بھی نہ ہو _ اور اس چیز کا اعتراف قرطبی نے بھی کرتے ہوئے کہا ہے : '' لغت کے لحاظ سے تو آیت میں منافع کو جنگ کے مال غنیمت سے مخصوص نہیں کیا جاسکتا '' لیکن اس بارے میں وہ کہتا ہے : '' لیکن علماء نے اس تخصیص پر اتفاق کرلیاہے '' ( ۲)اور اس کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ علمائے اہل سنت نے آیت کے ظاہری مفہوم اورمتبا در معنی کے خلاف اتفاق کرلیا ہے _

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطوط میں خمس کا تذکرہ

اسی طرح آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خطوط بھی اس بات کی تاکید اور تائید کرتے ہیں کہ خمس جس طرح جنگ کے مال غنیمت پر واجب ہے اسی طرح جنگ کے علاوہ دیگر منافع میں بھی واجب ہے _ اور غنیمت سے اس کا

____________________

۱)اس سے مراد علّامہ بزرگوار جناب سید مرتضی عسکر ی صاحب ہیں جنہوں نے یہ بات مرآة العقول کے مقدمہ میں لکھی ہے _

۲) تفسیر قرطبی ج ۸ ص ۱ _

۴۲۸

عام معنی مراد ہے(۱) پس مندرجہ ذیل باتیں ملاحظہ ہوں _

۱_ قبیلہ بنی عبدالقیس نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا ، '' ہم پورے سال میں صرف حرام مہینوں میں ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آسکتے ہیں کیونکہ ہمارے رستے میں قبیلہ مضر کے کافروں کی ایک شاخ پڑتی ہے _ اس لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہمیں ایسے قطعی احکام بیان فرمادیں جنہیں ہم واپس جا کر قبیلہ والوں کو بھی بتائیں اور جن پر عملدار آمد سے ہم جنت بھی جاسکیں '' اور انہوں نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کھانے پینے کے مسائل بھی پوچھے _ اس پر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں چار چیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے روکا _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں خدائے واحد پر ایمان لانے کا حکم دیا _ پھر پوچھا : '' جانتے ہو خدائے واحد پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے ؟ '' انہوں نے کہا '' خدا اور اس کا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بہتر جانتے ہیں '' _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : '' اس کا مطلب یہ گواہی دینا ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ، ( حضرت ) محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہیں ، نماز قائم کرنا ہے ، زکات ادا کرنا ہے ، ماہ رمضان کے روزے رکھنا ہے اور ہر بچت اور نفع سے خمس ادا کرنا ہے ...''(۲) _ یہاں یہ بات واضح ہے کہ بنی عبدالقیس کا قبیلہ بہت کمزور قبیلہ تھا جو صرف حرام مہینوں میں ( جن میں جنگ حرام تھی اور کسی کو کسی سے کوئی سر و کار نہیں ہوتا تھا ) ہی اپنے گھروں سے باہر نکل سکتے تھے اور ان میں لڑنے جھگڑنے کی کوئی سکت ہی نہیں تھی ( لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر بھی انہیں خمس ادا کرنے کا حکم دیا) نیز ہمارے مدعا کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ جنگ کے مال غنیمت کا اختیار قائد اور سردار لشکر کے پاس ہوتا ہے اور وہی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے ، وہ اس سے خمس نکال کر باقی واپس کردیتا ہے جسے سپاہیوں میں آپس میں بانٹ دیا جاتا ہے اور اس میں قائد کو خود افراد سے کوئی غرض نہیں ہوتی جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اوامر سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں ایسے احکام کے بجالانے کا حکم دیا جن کا تعلق صرف افراد کے ساتھ تھا یعنی وہ انفرادی احکام تھے اور وہ ہر فرد کا فریضہ تھے جن کو اسے کیفیت یا کمیت میں اضافے کے ساتھے بجالاتے رہنا چاہئے

____________________

۱)مولانا محمد حسین نجفی صاحب کے لئے خاص طور پر قابل ملاحظہ ہے _ (۲)بخاری طبع مشکول ج ۱ ص ۲۲ و ص ۳۲ و ص ۱۳۹ ، ج ۲ ص ۱۳۱ و ج ۵ ص ۲۱۳، ج ۹ ص ۱۱۲ ، صحیح مسلم ج ۱ ص ۳۶، سنن نسائی ج ۲ ص ۳۳۳ و مسند احمد ج ۱ ص ۲۲۸ و ص ۳۶۱، ج ۳ ص ۳۱۸ و ج ۵ص ۳۶ ، الاموال ابو عبید ص ۲۰ ، ترمذی باب الایمان ، سنن ابو داؤد ج ۳ ص ۳۳۰ و،ج ۴ ص ۲۱۹ ، فتح الباری ج ۱ ص ۱۲۰ و کنز العمال ج ۱ ص ۲۰ و ص ۱۹ حدیث نمبر ۴_

۴۲۹

تھا جس طرح ایمان ، نماز اور زکات ہے _ اسی طرح خمس بھی زکات و غیرہ کی طرح ہے اور یہ ان سے کوئی مختلف نہیں ہے ۲_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمرو بن حزم کو یمن بھیجتے ہوئے اسے ایک لمبا دستور نامہ بھی ساتھ لکھ کردیا تھا جس میں آیا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اضافی اور بچت کے مال سے خدا کا حصہ خمس وصول کرنے کا حکم دیا تھا(۱) اور اس جملے کا معاملہ بھی گذشتہ جملے کی طرح ہے _

۳_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمینوں کے قبیلہ بنی عبد کلال کو شکریے کا ایک خط لکھا جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمروبن حزم کے ذریعہ بیان ہونے والے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے گذشتہ احکام کی تعمیل کرنے پر خود عمروبن حزم اور قبیلہ بنی عبدکلال کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا : '' تمہارا نمائندہ ملا اور میں تصدیق کرتا ہوں کہ تم نے اپنے اضافی مال سے خدا کا خمس ادا کردیا ہے ''(۲) _

یہاں یہ بھی وضاحت کردیں کہ ہم تاریخ میں بعد از اسلام اس قبیلے کی کسی سے کسی جنگ کا مشاہدہ نہیں کرتے کہ انہوں نے اس جنگ سے مال غنیمت لوٹا ہو اور اسے عمروبن حزم کے ہمراہ بھیجا ہو _

۴_ آنحضرت نے قبیلہ قضاعہ کی شاخ قبیلہ سعد ہذیم اور جذام کو ایک خط لکھا جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ خمس اور صدقات کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دو نمائندے ابّی اور عنبسہ کے یا جس کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھیجیں، اس کے حوالے کریں(۳) حالانکہ یہ قبیلے تازہ اسلام لائے تھے اور ان کی کسی سے جنگ بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس سے مراد مال غنیمت کا خمس لیا جاتا_

____________________

۱)تاریخ ابن خلدون ج ۲ ، تنویر الحوالک ج ۱ ص ۱۵۷ ، البدایہ و النہایہ ج ۵ ص ۷۶ ، سیرہ ابن ہشام ج ۴ ص ۲۴۲ ، کنز العمال ج ۳ ص ۱۸۶ ، الاستیعاب بر حاشیہ الاصابہ ج ۲ ص ۵۱۷، الخراج ابو یوسف ص ۷۷، مسند احمد بن حنبل ج ۲ ص ۱۴ و ص ۱۵ ، سنن ابن ماجہ ج ۱ ص ۵۷۳ص ۵۷۵و ص ۵۷۷ سنن دارمی ج ۱ ص ۲۸۱ و ص ۳۸۵ و ج ۲ ۱ص۱۶تا ص ۱۹۵ ، الاصابہ ج۲ ص ۵۳۲، سنن ابو داؤد ج ۲ ص ۹۸وص ۹۹ ، الدر المنثور ج ۲ ص ۲۵۳ ، التراتیب الاداریہ ج ۱ ص ۲۴۸ و ص ۲۴۹ و سنن ترمذی ج ۳ ص ۱۷ ، نیز از رسالات نبویہ ۲۰۴ ، طبری ج ۲ ص ۳۸۸ ، فتوح البلدان بلاذری ص ۸۰ ، اعلام السائلین ص ۴۵ ، مجموعة الوثائق السیاسیة ص ۱۷۵ ، فریدون ج ۱ص ۳۴ ، اھدلی ص ۶۸ و الامتاع مقریزی ص ۱۳۹_

۲)الاموال ابوعبید ص ۲۱ ، سنن بیہقی ج ۴ ص ۸۹ ، کنز العمال ج ۳ ص ۱۸۶ و ص ۲۵۲و ص ۲۵۳ از طبرانی و غیرہ ، مستدرک حاکم ج ۱ ص ۳۹۵ ، الدر المنثور ج ۱ص ۳۴۳، مجمع الزوائد ج ۳ نیز ازتہذیب ابن عساکر ج ۶ ص ۲۷۳ و ص ۲۷۴ ، جمہرة رسائل العرب ج ۱ ص ۸۹ ، مجموعة الوثائق السیاسیہ ص ۱۸۵ از اھدلی ص ۶۷ و ۶۸ از ابن حبان و المبعث ص ۱۴۱ _

۳)طبقات ابن سعد ج ۱ حصہ ۲ ص ۲۳ و ص ۲۴ ، مجموعة الوثائق السیاسیہ ص ۲۲۴ و مقدمہ مرآہ العقول ج ۱ ص ۱۰۲و ص ۱۰۳_

۴۳۰

۵_ اسی طرح مختلف قبیلوں اور ان کے سرداروں کو بھیجے گئے سولہ سے بھی زیادہ دیگر خطوط میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان پر خمس واجب قرار دیا تھا _ اور وہ قبائل اور شخصیات درج ذیل ہیں : قبیلہ بکائ، بنی زہیر ، حدس، لخم ، بنی جدیس،لاسبذیین ، بنی معاویہ ، بنی حرقہ، بنی قیل ، بنی قیس ، بنی جرمز، اجنادہ اور اس کا قوم و قبیلہ ، قیس اور اس کا قبیلہ ، مالک بن احمر، بنی ثعلبہ کے بزرگ صیفی بن عامر ، فجیع اور اس کے ساتھی ، قبیلہ بنی عامر کے سردار نہشل بن مالک اور جہینہ بن زید ، نیز یمنیوں ، بادشاہان حمیر اور بادشاہان عمان کو خطوط میں بھی اس بات کی تاکید کی تھی ان خطوط اور دستاویزات کو مندرجہ ذیل منابع میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے(۱)

ان خطوط پر ایک نظر

یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان خطوط میں ذکر ہونے والے الفاظ '' مغنم ،غنائم اور مغانم '' سے مراد صرف جنگ سے حاصل ہونے والا مال غنیمت ہے _ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہوگی ، کیونکہ : ۱_ اس موقع پر جنگوں کا اعلان ، ان کی قیادت اور ان کا نظم و انتظام خود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے قیادت کے لئے منصوب کسی شخص کے ذمہ ہوتا تھا _ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آنے والے خلفاء یا ان کی طرف سے منصوب افراد کی یہ ذمہ داری ہوتی تھی _ اور کسی قبیلے کو بھی اپنی طرف سے جنگ چھیڑنے یا جنگ کی ٹھاننے کا کوئی اختیار اور حق نہیں ہوتا تھا _ اور تاریخ میں بھی ہمیں کسی ایسی جنگ کا تذکرہ نہیں ملتا جس میں

____________________

۱)اسعد الغابہ ج ۴ ص ۱۷۵ و ص ۲۷۱ و ص ۳۲۸ و ج ۵ ص ۴۰ و ص ۳۸۹ و ج ۱ ص ۳۰۰ و الاصابہ ج ۳ ص ۳۳۸ و ص ۱۹۹ و ص ۵۷۳ ، ج ۱ ص ۵۳و ص ۲۴۷ و ص ۲۷۸ و ج ۲ ص ۱۹۷ ، طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۷۴ ، ص ۲۷۹ ، ص ۶۶ ، ص ۲۶۹ ص ۲۷۱، ص ۲۶۸ ، ص ۲۷۰ ، ص ۲۸۴، ج ۷ حصہ ۱ ص ۲۶ و ج ۵ ص ۳۸۵، رسالات نبویہ ص ۲۳۷ ، ص ۱۰۲، ص ۱۰۳، ص ۱۳۱، ص ۲۵۳، ص ۱۳۸، ص ۱۸۸ ، ص ۱۳۴ ، مجموعہ الوثائق السیاسیہ ص ۱۲۱ ، ص ۲۶۴ و ص ۲۷۳از اعلام السائلین ، ص ۹۸، ص ۹۹ و ص ۲۵۲، ص ۲۵۰، ص ۲۱۶، ص ۱۹۶، ص ۱۳۸، ص ۲۳۲، ص ۲۴۵، ص ۱۸۰ ، کنز العمال ج ۲ ص ۲۷۱ج ۵ ص ۳۲۰، ج ۷ ص ۶۴از رویانی ، ابن عساکر ، ابوداؤد ، کتاب الخراج و طبقات الشعراء جحمی ص ۳۸، سنن بیہقی ج ۶ ص ۳۰۳ ، ج ۷ ، ص ۵۸ و ج ۹ ص ۱۳، مسند احمد ج ۴ ص ۷۷، ص ۷۸ و ص ۳۶۳ ، سنن نسائی ج ۷ ص ۱۳۴، الاموال ابوعبید ص ۱۲، ص ۱۹، ص ۲۰ ، ص ۳۰ ، الاستیعاب تعارف عمر بن تولب و ج ۳ ص ۳۸۱،جمہرة رسائل العرب ج ۱ ص ۵۵ و ص ۶۸از شرح المواہب زرقانی ج ۳ ص ۳۸۲ ، صبح الاعشی ج ۱۳ ص ۳۲۹ نیز مجموعة الوثائق السیاسیہ از اعلام السائلین ، نصب الرایہ ، المغازی ابن اسحاق ، المصنف ابن ابی شیبہ ، معجم الصحابہ المنتقی ، میزان الاعتدال ، لسان المیزان ، تاریخ یعقوبی ، صبح الاعشی و الاموال ابن زنجویہ ، تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۶۴، البدایہ و النہایہ ج ۵ ص ۴۶ و ص ۷۵و ج ۲ ص ۳۵۱از ابونعیم ، تاریخ طبری ج ۲ ص ۳۸۴، فتوح البدان بلاذری ص ۸۲ ، سیرہ حلبیہ ج ۳ ص ۲۵۸ ، سیرہ ابن ہشام ج ۴ ص ۲۴۸ و ص ۲۶۰ ، سیرہ زینی دحلان ج ۳ ص ۳۰ ، المصنف ج ۴ ص ۳۰۰ ، طبقات الشعراء ابن سلام ص ۳۸ و مجمع الزوائد ج ۸ ص ۲۴۴_

۴۳۱

انہوں نے مستقل طور پر کوئی جنگ کی ہو _ اور اگر ایسا ہوتا بھی تو اس صورت میں مناسب یہ تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے قائدین اور جرنیلوں کو خط لکھتے کیونکہ مال غنیمت کا خمس نکال کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھیجنے اور باقی کو جنگجوؤں میں تقسیم کرنے کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی تھی _

۲_ یہ مذکورہ قبیلے حجاز، شام ، بحرین اور عمان میں بستے تھے اور اکثر قبیلے اتنے چھوٹے اور کمزور تھے کہ ان میں جنگ کرنے کی طاقت ہی نہیں تھی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سے جنگ کے مال غنیمت کا مطالبہ کرتے _

۳_ اگر ان الفاظ سے مراد صرف جنگ کا مال غنیمت ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ ہر کسی کو ہر جگہ اور ہر وقت دشمن پر چڑھائی کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جاتی جس سے انار کی پھیل جاتی اور اسلامی حکومت کے لئے بہت زیادہ اور مہلک ، خطرات کا باعث بنتی اور کسی عاقل ، سمجھدار اور با تدبیر شخصیت سے کوئی ایسا حکم جاری نہیں ہوسکتا _ نیز ہم نے تاریخ میں بھی کوئی ایسا حکم اور اس حکم پر عمل در آمد سے پھیلنے والی انار کی کی کوئی مثال نہیں دیکھی _

۴_پہلے بھی بتاچکے ہیں کہ ان خطوط میں خدا اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ایمان اور خمس اور زکات کی ادائیگی جیسے کچھ انفرادی احکام کا بیان تھا _ جو ہمیں اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ ماہیت کے لحاظ سے خمس بھی ان احکام سے کوئی مختلف نہیں ہے _ اور یہ کوئی نادر حکم نہیں تھا کہ ان کی عملی زندگی سے غیر متعلق ہوتا اور کئی دہائیوں بلکہ صدیوں تک انہیں اس پر عمل کرنے کا موقع نہ ملتا بلکہ یہ تو ان کی روزمرہ زندگی کا ایک عمومی حکم تھا _

وافر مال پر خمس واجب ہے

آنحضرت نے وائل بن حجر کو بھی ایک خط لکھا جس میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : '' سُیوب پر بھی خمس واجب ہے''(۱)

____________________

۱) اسد الغابہ ج ۳ ص ۳۸، الاصابہ ج ۲ ص ۲۰۸ و ج ۳ ص ۴۱۳ ، بحارا لانوار ج ۶ ۹ص ۸۳و ص ۱۹۰ ، الاستیعاب ( برحاشیہ الاصابہ ) ج ۳ ص ۶۴۳ ، جامع احادیث الشیعہ ج ۸ ص ۷۳ ، العقد الفرید ج ۱ باب الوفود ، البیان و التبیین ، وسائل الشیعہ کتاب الزکاة باب تقدیر نصاب الغنم ، معانی الاخبار ص ۲۷۵، شرح ا لشفاء قاری ج ۱ ص ۱۸، تاریخ ابن خلدون ج ۲ ، سیرہ نبویہ دحلان ( بر حاشیہ سیرہ حلبیہ ج ۳ ص ۴۹، الشفاء قاری ج۱ ص ۱۴ نیز از المعجم الصغیر ص ۲۴۳ ، رسالات نبویہ ص ۶۷ و ص ۲۹۷از المواہب اللدنیہ ، زرقانی نیز نہایہ ابن اثیر، لسان العرب ، تاج العروس ، نہایة الارب و غریب الحدیث ابوعبید میں ذیل لفظ ''سیب '' اور''قیل''و طبقات ابن سعد ج ۱ ص ۲۸۷_

۴۳۲

زیلعی کہتا ہے : '' سَیب یعنی عطاء کسی اور چیز کا یونہی مل جانا اور سُیوب یعنی زمین میں چھپا ہوا خزانہ ''(۱)

جبکہ لغت کی اکثر کتابوں میں '' سُیوب '' کی وضاحت بھی '' عطا '' یعنی و افر مال سے کی گئی ہے _ اس بناپر ہم یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے سُیوب کو صرف چھپے ہوئے خزانے سے کیوں مخصوص کیا ہے جبکہ چھپے ہوئے خزانے تو سُیوب کا ایک حصہ اور فرد ہیں اور سیوب کا لفظ عام اور مطلق ہے ( جس کا اطلاق ہر وافر مال پر ہوتا ہے ) کیا یہ خمس کے حکم کو ہر اضافی مال سے مستثنی کرنے کے لئے لغت میں ان کا اجتہاد اور جھوٹی اور باطل تاویل نہیں ہے؟

بلکہ انہوں نے تو اسے زمانہ جاہلیت میں مدفون خزانوں سے مخصوص کردیا ہے _

اور ہماری سمجھ میں تو اس کی وجہ بالکل بھی نہیں آئی کیونکہ لفظ '' سیوب '' ان شرطوں کے ساتھ بالکل بھی مخصوص نہیں ہے کیونکہ ہر اضافی مال اور ہرچھپے ہوئے خزانے کو سیوب کہا جاتا ہے _ نیز یہ لفظ تو زمانہ جاہلیت میں بھی استعمال ہوا کرتا تھا اور یہ معقول ہی نہیں ہے کہ خود زمانہ جاہلیت کے لوگ بھی سیوب کے متعلق یہ کہیں کہ اس سے مراد زمانہ جاہلیت میں مدفون خزانہ ہے

لگتا یہی ہے کہ اس بات سے ہمیں انہوں نے یہ سمجھا نے کی کوشش کی ہے کہ اس طرح وہ مال ان کافروں سے لوٹا ہوا مال غنیمت بن جائے گا جن سے جنگ واجب ہے _ تا کہ یہ بات ان کے مذہب کے موافق ہوجائے _ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ لغت کی کتابیں کہتی ہیں کہ سیب کا اصل معنی مہمل ، فاضل اور چھوڑی ہوئی چیز ہے اور '' سائبہ '' سے مراد ہر وہ جانور ہے جس کا کوئی مالک اور نگران نہ ہو اور زمانہ جاہلیت میں بھی جس اونٹنی کو آزاد اور بلا مالک اور نگران چھوڑ دیا جاتا اسے '' سائبہ'' کہا جاتا تھا _ اور حدیث میں بھی ہے کہ '' کل عتیق سائبة '' ( ہر پرانی چیز کسی کی چھوڑی ہوئی ہوتی ہے ) _ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ احادیث میںبھی '' سیوب'' سے مراد ہر متروک اور چھوڑی ہوئی اور ایسی فاضل چیز ہے جس کی انسان کو روزمرہ میں ضرورت نہ ہو اس لئے اس پر خمس واجب ہوجاتا ہے _

____________________

۱)تبیین الحقائق ج ۱ ص ۲۸۸_

۴۳۳

مزید دلائل

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عرب کے بعض قبیلوں کو لکھا کہ زمین کی وادیاں ، میدان ، ٹیلے ، اوپر اور نیچے سب تمہارے لئے ہے تا کہ تم اس کے نباتات اور سبزیوں سے استفادہ کرو اور پانی پئو اور اس کا خمس بھی ادا کرو(۱) اس کلام کا سیاق و سباق ہمیں واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ یہاں مراد جنگ کے مال غنیمت کا خمس نہیں ہے، کیونکہ جنگ کے مال غنیمت کا زمین کی وادیوں ، ٹیلوں ، میدانوں اور ان کے ظاہر اور باطن سے استفادہ کرنے اور اس کے- نباتات اور پانی سے استفادہ کرنے کا آپس میں اور پھر ان کا اور ( ان کے نظریئےے مطابق)خمس کا آپس میں کوئی تعلق ہی نہیں بنتا اور نہ ہی اس جملے کی کوئی تک بنتی ہے _ مگر اس صورت میں کہ زمین سے حاصل ہونے والی ہر چیز پر خمس کے وجوب کا بھی قائل ہوا جائے _ اس بات کی تاکید اور تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خمس کے ذکر کے بعد بھیڑ بکریوں کی زکات کا تذکرہ بھی کیا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر وہ کاشتکاری کریں گے تو ان سے بھیڑ بکریوں کی زکات معاف ہوگی _البتہ بظاہر یہ بات انہیں زراعت کی ترغیب دینے کے لئے کی گئی تھی _

معدنیات اور مدفون خزانوں پر بھی خمس ہے

اہل سنت کے نزدیک بھی معدنیات اور مدفون خزانوں پر خمس کا حکم ثابت ہے(۲)

____________________

۱) طبقات ابن سعد ج ۴ حصہ ۲ ص ۱۶۷ نیز از مجموعة الوثائق السیاسیہ ص ۲۱۹ ، رسالات نبویہ ص ۲۲۸ ، کنز العمال ج ۷ ص ۶۵و جمع الجوامع مسند عمروبن مرّہ اور اسے مرآة العقول ج ۱ میں النہایہ ابن اثیر اور لسان العرب لفظ '' صرم '' سے نقل کیا گیا ہے _

۲)الاموال ابوعبید ج ۳۳ ص ۳۳۷، ص ۴۷۳، ص ۴۷۷، ص ۴۷۶، ص ۴۶۸، ص ۴۶۷، نصب الرایہ ج ۲ ص ۳۸۲، ص ۳۸۱ و ص ۳۸۰، مسند احمد ج ۲ ص ۲۲۸ ، ص ۲۳۹، ص ۲۵۴، ص ۲۷۴، ص ۳۱۴، ص ۱۸۶، ص ۲۰۲، ص ۲۸۴، ص ۲۸۵، ص ۳۱۹، ص ۳۸۲ ، ص ۳۸۶، ص ۴۰۶، ص ۴۱۱، ص ۴۱۵، ص ۴۵۴،ص ۴۵۶،ص ۴۶۷، ص ۴۷۵، ص ۴۸۲، ص ۴۹۳، ص ۴۹۵، ص ۴۹۹، ص۱ ۵۰و ص ۵۰۷، ج ۳ ص ۳۵۴، ص ۳۵۳،ص ۳۳۶، ص ۳۵۶، ص۳۳۵، ص ۱۲۸و ج ۵ ص ۳۲۶، کنز العمال ج ۴ ص ۲۲۷و ص ۲۲۸، ج ۱۹ ص ۸و ص ۹و ج ۵ص ۳۱۱ ، مستدرک حاکم ج ۲ ص ۵۶، مجمع الزوائد ج ۳ ص ۷۷ و ص ۷۸و از طبرانی در الکبیر و الاوسط و از احمدو بزار ، المصنف عبدالزراق ج ۱۰ ص ۱۲۸ و ص ۶۶، ج ۴ ص ۱۱۷ ، ص ۶۴ص ۶۵، ص ۱۱۶ و ص ۳۰۰ و ج ۶ ص ۹۸ از خمس العنبر، مقدمہ مرآة العقول ج ۱ ص ۹۷ و ص ۹۶،المغازی واقدی ص ۶۸۲، سنن بیہقی ج ۴ ص ۱۵۷، ص ۱۵۶و ص ۱۵۵ و ج ۸ ص ۱۱۰ ، المعجم الصغیر ج۱ ص ۱۲۰، ص ۱۲۱و ص ۱۵۳ ، الطحاوی ج ۱ ص ۱۸۰، سنن نسائی ج ۵ ص ۴۴و ص ۴۵،بخاری طبع مشکول ج ۲ ص ۱۵۹ ، ص و ۱۶۰ در باب'' فی اکاز الخمس'' نیز درباب ( ...بقیہ اگلے صفحہ پر ...)

۴۳۴

اصطخری کہتا ہے : '' حکام معدنیات کا خمس بھی لیا کرتے تھے ''(۱) _

اور مالک اور مدینہ والوں کے علاوہ اہل سنت کے باقی مکاتب فکر نے زمین میں چھپی ہوئی چیزوں میں سے معدنیات پر خمس کو واجب قرار دیا ہے اور اسے مال غنیمت کی طرح جانا ہے(۲) _ لیکن ابوعبید کہتا ہے کہ یہ مدفون خزانے کے زیادہ مشابہ ہے(۳) _

اسی طرح عمر بن عبدالعزیز نے عروہ کو خط لکھ کر اس سے خمس کے متعلق بزرگان کا نظریہ پوچھا تو عروہ نے جواب میں لکھا کہ عنبر بھی مال غنیمت کی طرح ہے اس کا خمس لینا واجب ہے(۴) _ شیبانی کہتا ہے کہ معدنیات اور مدفون خزانوں پر بھی خمس واجب ہے اوریہ بھی اضافی چیزوں میں سے ہیں(۵) _ نیز حضرت علی علیہ السلام نے بھی یمن میں مدفون خزانے کا خمس نکالاتھا _ البتہ اس بارے میں بعد میں گفتگو کریںگے_ اسی طرح جابر سے بھی مروی ہے کہ '' جو بھی اضافی مال حاصل ہو اس پر خمس واجب ہے'' _ نیز اسی طرح کی ایک اور روایت ابن جریح سے بھی مروی ہے(۶) _ نیز روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ جو شخص بھی دشمن سے کوئی زمین لے اور اسے سونے یا چاندی و غیرہ کے بدلے میں بیچے تو اس کا خمس بھی نکالنا ضروری ہے(۷) _

____________________

'' من حفربئراً فی ملکہ '' نیز مطبوعہ ۱۳۰۹ ھ ج ۴ ص ۱۲۴ ، الہدایہ شرح البدایہ ج۱، ص ۱۰۸، خراج ابویوسف ص ۲۶سنن ابن ماجہ ج ۲ ص ۸۳۹ و ص ۸۰۳ ، سنن ابو داؤد ج ۳ ص ۱۸۱و ج ۴ ص ۱۹، شرح الموطا زرقانی ج ۲ ص ۳۲۱، کتاب الاصل شیبانی ج ۲ ص ۱۳۸، سنن دارمی ج ۱ ص۳۹۳ و ج ۲ ص ۱۹۶، نیل الاوطارج ۴ص ۲۱۰، موطا ج ۱ ص ۲۴۴ و ج ۳ ص ۷۱( مطبوعہ با تنویر الحوالک ) ، منحة المعبود ج ۱ص ۱۷۵، ترمذی ج ۱ ص ۲۱۹و ج ۳ ص ۱۳۸ ، صحیح مسلم ج ۵ ص ۱۲۷، ص ۱۱و ص ۲۲۵، العقد الغرید ، نہایة الارب، الاستیعاب ، تہذیب تاریخ دمشق ج ۶ ص ۲۰۷ ، تاریخ بغداد ج ۵ ص ۵۳ و ص ۵۴، مصابیح السنہ طبع دار المعرفہ ج ۲ ص ۱۷ ، المسند حمیدی ج ۲ ص ۴۶۲ و مسند ابویعلی ج ۱۰ ص ۴۳۷، ص ۴۶۱و ص ۴۵۹و ج ۱۱ص ۲۰۲نیز اس کے حاشیہ میں ملاحظہ ہوں کثیر منابع _

۱)مسالک الممالک ص ۱۵۸_ (۲) ملاحظہ ہو : الاموال ابوعبید ص ۴۷۲_ (۳)الاموال ص ۴۷۴_

۴)المصنف عبدالرزاق ج ۴ ص ۶۴و ص ۶۵_ (۵)کتاب الاصل شیبانی ج ۲ ص ۱۳۸_ (۶) المصنف عبدالرزاق ج ۴ ص ۱۱۶_

۷)المصنف عبدالرزاق ج ۵ ص ۱۷۹و ص ۱۸۰و ص ۱۸۱و ج ۹ ص ۶۷ و تحف العقول ص ۲۶۰_

۴۳۵

بہرحال یہ باتیں تو ہر کسی کے سمجھ میں آنے والی ہیں کہ گذشتہ تمام چیزوں کا شمار جنگ کے مال غنیمت سے نہیں ہوتا لیکن ان پر بھی خمس کا حکم لگایا گیا ہے تو پھر خمس والی آیت کو جنگ کے مال غنیمت سے مخصوص کرنے کا کیا معنی رہ جاتا ہے ؟ بہرحال اتنا ہی کافی ہے کیونکہ ہدایت کے متلاشیوں کے لئے اس میں کافی قانع کنندہ دلائل موجود ہیں _

لطیفہ

یہاں مزے کی ایک یہ بات بھی ذکر کی جاتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے بھی اپنے مال کا خمس نکالنے کی وصیت کرتے ہوئے کہا : '' میں اس چیز کی سفارش کر رہا ہوں جسے خدا نے اپنے لئے پسند فرمایا ہے '' پھر اس آیت کی تلاوت کی :( و اعلموا انما غنمتم من شیی فان للہ خمسہ و للرسول )(۱)

خمس لینے والے نمائندے

ایسا لگتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صدقات لینے والے نمائندوں کی طرح خمس لینے والے نمائندے بھی تھے کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عمرو بن حزم کو یمنی قبیلے بنی عبد کلال سے خمس لینے کا حکم دے کریمن بھیجا تھا اور اس کے خمس بھیجنے پر ان کا شکر یہ بھی ادا کیاتھا _ اور حضرت علی علیہ السلام کو خالدبن ولید سے مال غنیمت کا خمس وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا(۲) _

بلکہ ابن قیم کہتا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو خمس لینے اور قضاوت کے لئے یمن بھیجا(۳)

____________________

۱)المصنف عبدلرزاق ج ۹ ص ۶۶_

۲) نصب الرایہ ج ۲ ص ۳۸۲، المصنف عبدالرزاق ج ۴ ص۱۱۶ ، مجمع الزوائد ج ۳ ص ۷۸ نیز ملاحظہ ہو: بحارالانوار ج ۲۱ ص ۳۶۰ از اعلام الوری _

۳)-البدایہ و النہایہ _

۴۳۶

اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ یمنیوں نے بخوشی اسلام قبول کیا تھا اور مسلمانوں اور یمنیوں کے در میان کسی قسم کی کوئی لڑائی نہیں ہوئی تھی _ اور حضرت علیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یمن میں مدفون خزانے پر خمس نکالاتھا(۱)

نیز محمیہ بن جزء قبیلہ بنی زبید کا ایک فرد تھا ، آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے خمس وصول کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی(۲) _

اور حضرت علیعليه‌السلام کو خمس کی وصولی کیلئے بھیجنے والی بات کی یہ تاویل بھی نادرست ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں صدقات کی وصولی کے لئے بھیجا تھا _ کیونکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کسی ہاشمی کو صدقات کی وصولی کا کام نہیں سونپتے تھے اور اس بارے میں عبدالمطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس کا واقعہ بھی بہت مشہور ہے(۳)

بلکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے غلاموں کو بھی ایسا کام نہیں سونپتے تھے کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ابو رافع کو بھی اس کام سے منع کرتے ہوئے اس سے فرمایا تھا : '' کسی قوم اور گروہ کا غلام بھی انہی کی طرح ہوتا ہے اور ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ہے ''(۴)

کتاب اور سنت میں خمس کے استعمال کے مقامات

قرآن مجید میں خمس کی آیت اس بات پر تصریح کرتی ہے کہ خمس خدا ، اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں ، یتیموں، مسکینوں اور غریب مسافروں کے لئے ہے _ اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی رحلت تک اپنے قریبیوں کو خمس کا حصہ دیا کرتے تھے(۵)

____________________

۱)زاد المعاد ج ۱ ص ۳۲ نیز ملاحظہ ہو : سنن ابوداؤد ج ۳ ص ۱۲۷ باب کیف القضائ_

۲) الاموال ابوعبید ص ۴۶۱_

۳)مجمع الزوائد ج ۳ ص ۹۱ ، اسد الغابہ تعارف عبدالمطلب بن ربیعہ ، نوفل بن حارث و محمیہ ، صحیح مسلم ج ۳ ص ۱۱۸ باب تحریم الزکاة علی آل النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، سنن نسائی ج ۱ ص ۳۶۵، سنن ابو داؤد ، الاموال ابوعبید ص ۳۲۹، المغازی واقدی ص ۶۹۶، ص ۶۹۷، تفسیر عیاشی ج ۲ ص ۹۳_

۴)سنن ابوداؤد کتاب الزکاة ج ۲ ص ۲۱۲، ترمذی کتاب الزکاة ج ۳ ص ۱۵۹، نسائی کتاب الزکاة ج ۱ص ۳۶۶ ، مجمع الزوائد ج ۳ ص ۹۰و ص ۹۱، کنز العمال ج ۶ص ۲۵۲تا ص ۲۵۶، امالی شیخ طوسی ج ۲ ص ۱۷، بحار الانوار ج ۹۶ص ۵۷ ، سنن بیہقی ج ۷ ص ۳۲_

۵)ملاحظہ ہو : تفسیر طبری ج ۱۵ ص ۵۰۴و ص ۵۰۶نیز اس کے حاشیہ پر تفسیر نیشابوری ج ۱۵، احکام القرآن جصاص ج ۳ ص ۶۵و ص ۶۱و الاموال ابوعبید ص ۲۲و ص ۴۴۷، ص ۴۵۳و ص ۴۵۴_

۴۳۷

رہے یتیم اور مسکین ، تو اس بارے میں حضرت امام زین العابدینعليه‌السلام سے جب مذکورہ آیت میں (والیتامی و المساکین) کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : '' اس سے مراد ہمارے یتیم اور مسکین ہیں''(۱) _

اہل بیتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی روایات میں خمس

ائمہ اہل بیت کی روایتوں کے مطابق اللہ ، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ذوی القربی کا حصہ امامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ہے جبکہ یتیموں ، مسکینوں اور ابن السبیل ( مسافروں) کا حصہ سادات بنی ہاشم کے لئے ہے(۲) _

اور بنی ہاشم میں بھی خاندان بنی عبدالمطلب کے لئے ہے(۳) _

اور خمس میں مرد اور عورت مشترک ہیں پس خمس کا آدھا حصہ ان تینوں قسم کے افراد میں ان کے مستحق ہونے کی صورت میں(۴) ( ان کی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ قرابت داری اور غربت کی وجہ سے ) تقسیم کیا جائے گا _ اور جناب عبدالمطلب کے ساتھ ان کی مادری نسبت کافی نہیں لیکن اگر صرف پدری نسبت بھی ہو تب کفایت کرتی ہے_

اہل سنت کی روایتوں میں خمس

کتب صحاح میں ایک ایسی روایت مذکور ہے جو عہد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں خمس کے استعمال کو بیان کرتی ہے _ جبیر بن مطعم کہتا ہے کہ جنگ خیبر ( ا لبتہ ایک روایت میں جنگ حنین آیا ہے ) کے موقع پر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے ذوی القربی کے حصہ میں سے بنی ہاشم اور بنی مطلب کا حصہ نکالا جبکہ بنی نوفل اور بنی عبدشمس کا حصہ نہیں نکالا تو میں

____________________

۱)تفسیر نیشابوری بر حاشیہ تفسیر طبری و تفسیر طبری ج ۱۵ ص ۷_

۲)ملاحظہ ہو : وسائل الشیعہ ج ۹ ص ۳۵۶، ص ۳۵۸، ص ۳۵۹، ص ۳۶۱، ص ۳۶۲_

۳)وسائل الشیعہ ج ۹ ص ۳۵۸ ، ص ۳۵۹ و مقدمہ مرآة العقول مرتضی عسکری ج ۱ ص ۱۱۶و ص ۱۱۷_

۴)یعنی اگر سادات مستحق نہ ہوں تو خمس نہیں لے سکتے _ اور بڑی بڑی کوٹھیوں اور بنگلوں والے نیز نئی ماڈل کی گاڑیوں والے تو کسی صورت میں مستحق نہیں ہیں _ اور اگر ثروت مند ہونے کے باوجود خمس لیتے ہیںتو دوسرے مستحقین کا حق غصب کرتے ہیں جو سراسر ناجائز ہے_

۴۳۸

اور عثمان بن عفان آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس گئے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عرض کیا : '' یا رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ ہم بنی ہاشم کی فضیلت کے منکر نہیںہیں کیونکہ خدا نے ان کی مدد اور حمایت کی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو یہ مقام اور مرتبہ دیا ہے _ لیکن بنی مطلب میں ایسی کیا بات ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں حصہ عطا کیا لیکن ہمیں چھوڑ دیا حالانکہ ہماری رشتہ داری تو یکساں ہے ؟'' تو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدانے فرمایا :'' زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں میں ہم اوربنی مطلب ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے ( البتہ نسائی کی روایت میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے یہ الفاظ آئے ہیں کہ انہوں نے ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا) پس ہماری اور ان کی بات ایک ہی ہے'' اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے دونوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائیں(۱) گذشتہ معروضات کے بعد یہاں ہم بعض علماء(۲) کی فرمائشےات کے خلاصے کو کچھ کمی بیشی کے ساتھ نقل کرنا چاہتے ہیں اور وہ مندرجہ ذیل ہے:

عہد نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد خمس کا استعمال

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد خمس بہت سی تبدیلیوں کا شکار ہوا جس کا ذکر ذیل میں آئے گا _

خلیفہ اوّل کے دور میںاگر ہم جناب ابوبکر کے اور اس دور کے حالات کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اس وقت حکومت کی ساری توجہ اس نئی حکومت کے مخالف گروہوں اور ابوبکر کی بیعت نہ کرنے والوں کی

____________________

۱)صحیح بخاری باب غزوة خبیر ج ۳ ص ۳۶مطبوعہ ۱۳۱۱ ، ج ۴ ص ۱۱۱ و ج ۶ ص ۱۷۴، سنن ابو داؤد ج ۳ ص ۱۴۵و ص ۱۴۶، تفسیر طبری ج ۱۵ ص ۵، مسند احمد ج ۴ ص ۸۱، ص ۸۵و ص ۸۳، سنن نسائی ج ۷ص ۱۳۰و ص ۱۳۱، سنن ابن ماجہ ص ۹۶۱، المغازی واقدی ج ۲ ص ۶۹۶، الاموال ابوعبید ص ۴۶۱و ص ۴۶۲، سنن بیہقی ج ۶ ص ۳۴۰تا ص ۳۴۲، سیرہ حلبیہ ج ۲ ص ۲۰۹، المحلی ج ۷ ص ۳۲۸، البدایہ و النہایہ ج ۴ ص۰ ۲۰ ، شرح نہج البلاغہ ج ۱۵ص ۲۸۴، مجمع الزوائد ج ۵ص ۳۴۱و نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۲۸از برقانی و بخاری و غیرہ ، الاصابہ ج ۱ ص ۲۲۶و بدایة المجتہد ج ۱ ص ۴۰۲، الخراج ابو یوسف ص ۲۱و تشیید المطاعن ج ۲ ص ۸۱۸و ص ۸۱۹ از زاد المعاد، الدر المنثور ج ۳ ص ۱۸۶از ابن ابی شیبہ ، البحرالرائق ج ۵ ص ۹۸و تبیین الحقائق ج ۳ ص ۲۵۷و نصب الرایہ ج ۳ ص ۴۲۵و ص ۴۲۶ ، مصابیح السنہ ج۲ ص ۷۰، تفسیر القرآن العظیم ج ۲ ص۳۱۲ ، فتح القدیر ج ۲ س ۳۱۰، لباب التاویل ج ۲ ص ۱۸۵، مدارک التنزیل ( مطبوعہ بر حاشیہ خازن ) ج ۲ ص ۱۸۶و الکشاف ج ۲ ص ۲۲۱_نیز مذکورہ بات مندرجہ ذیل منابع سے بھی منقول ہے : الجامع لاحکام القرآن ج ۷ ص ۱۲، فتح الباری ج ۷ ص ۱۷۴ وج ۶ ص ۱۵۰ ، تفسیر المنار ج ۱۰ ص ۷ ، ترتیب مسند الشافعی ج ۲ ص ۱۲۵و ص ۱۲۶و ارشاد الساری ج ۵ ص ۲۰۲_ (۲) اس سے مراد علامہ بزرگوار جناب سید مرتضی عسکری صاحب ہیں_

۴۳۹

سرکوبی کے لئے لشکر کی فراہمی اور ترسیل پر تھی _ اس لئے اس وقت خمس اور خاص کر ذوالقربی کے حصہ کو اسلحہ اور سواریوں کے بندو بست میں خرچ کیا _ اسی بناپر مؤلفین نے ذکر کیا ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد صحابیوں میں خمس کے متعلق اختلاف پیدا ہوگیا _ ایک گروہ نے کہا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا حصہ ان کی رحلت کے بعد خلیفہ کے لئے ہے _ دوسرے گروہ نے کہا کہ ذوی القربی کا حصہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں کے لئے ہے ، جبکہ ایک اور گروہ نے کہا کہ ذوی القربی کا حصہ خلیفہ کے قرابت داروں کے لئے ہے _ جس پر آخر میں سب نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ذوی القربی کے حصول کو لشکر کی تجہیز اور تیاری میں خرچ کردیا جائے _

سنن نسائی اور الاموال ابوعبید میں آیا ہے کہ یہ صورتحال ابوبکر اور عمر دونوں کی خلافت کے دور میں رہی _ البتہ ایک روایت میں ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے بعد ابوبکر نے قریبیوں کے حصے کو مسلمانوں میں تقسیم کر کے اسے '' فی سبیل اللہ '' کا حصہ قرار دیا _ قریب قریب ایسی ہی ایک اور روایت ذکر ہوئی ہے جس میں ابوبکر کے ساتھ عمر کا ذکر بھی ہے _ اور اس کے علاوہ بھی کئی روایات ہیں(۱) _

ان تمام باتوں کی وضاحت جبیر بن مطعم کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا بنی ہاشم اور بنی مطلب کا حصہ تو خمس سے نکالتے تھے لیکن بنی عبد شمس اور بنی نوفل کا حصہ بالکل نہیں نکالتے تھے _ اور ابوبکر بھی جناب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی طرح خمس کو تقسیم کیا کرتا تھا لیکن جس طرح رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا اپنے قریبیوں کو حصہ دیا کرے تھے ابوبکر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قریبیوں کو وہ حصہ نہیں دیتا تھا(۲) _

خلیفہ ثانی کے دور میں

خلیفہ ثانی کے دور میں فتوحات زیادہ ہوگئیں اور مال زیادہ ہوگیا تو خمس کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا گیا _

____________________

۱) ان تمام باتوں اور اس سے متعلق دیگر باتوں کے لئے ملاحظہ ہو : سنن نسائی ج ۲ ص ۱۷۹، کتاب الخراج ص ۲۴و ص ۲۵، الاموال ابوعبید ص ۴۶۳ ، جامع البیان طبری ج ۱۵ ص ۶ ، احکام القرآن جصاص ج ۳ ص ۶۲ و ص ۶۰، سنن بیہقی ج ۶ ص ۳۴۲و ص ۳۴۳، سنن ابو داؤد بیان مواضع الخمس ، مسند احمد ج ۴ ص ۸۳ و مجمع الزوائد ج ۵ ص ۳۴۱_

۲)مسند احمد ج ۴ ص ۸۳_

۴۴۰