الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)0%

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 460

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
زمرہ جات: صفحے: 460
مشاہدے: 229040
ڈاؤنلوڈ: 6071

جلد 3
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 460 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 229040 / ڈاؤنلوڈ: 6071
سائز سائز سائز
الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد 3

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱_ ہجری تاریخ کی ابتداء کے متعلق تحقیق

کسی بھی ایسے تمدن کی حیات اور دوسرے گروہوں ، قبیلوں اور قوموں پر اس کے غلبے اور مطلوبہ اہداف تک پہنچنے کے لئے حالات، واقعات اور معاملات کو ضبط تحریر میں لانا ایک لازمی اور ناگزیر امر ہے جو مذکورہ کاموں کا ارادہ رکھتی ہو_ اور یہ مسئلہ اس مسلم امت کے لئے بہت ہی اہمیت کا حامل ہوجاتاہے جو الطاف خداوندی اور رضائے الہی کے سائے میں پھل پھول رہی ہو اور زمانوں بلکہ طویل دورانیے تک کے لئے تمام انسانوں کے تمام امور اور حالات کو دگرگوں کرنے کا ارادہ رکھتی ہو_ یہیں سے یہ بات بالکل واضح اور بدیہی ہوجاتی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نے فوری طور پر پہلا کام ہی تاریخ وضع کرنے کا کیا ہوگا _ بلکہ تعمیر مسجد کی طرح یہ بات بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اولین ترجیحات میں ہونی چاہئے تھی_ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ در پردہ ہاتھوں نے اس اہم ترین واقعہ کی بھی پردہ پوشی کرنی چاہی_ اس لئے اس واقعہ پرتاریخی لحاظ سے بحث کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہوگیا ہے_ جس کے نتیجے میں علمی دلائل کے ساتھ ہمارے لئے یہ قطعی طور پر ثابت ہوجائے گا کہ اس ہجری تاریخ کو رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم نے ہی وضع کی ہے _ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی کئی بار اور کئی موقعوں پر تاریخ گذاری کی ہے _ اس لئے ہم یہ سب سمجھنے کے لئے اس بحث کی ابتداء ہی اس سوال سے کرتے ہیں کہ :

کس شخص نے سب سے پہلے ہجرت نبویہ کے ساتھ تاریخ لکھی ؟

تمہید:

مؤرخین کہتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے ہجرت نبویہ کے ساتھ تاریخ لکھی وہ خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب ہے _اور اکثر مؤرخین کہتے ہیں کہ تاریخ کے لئے ہجرت کو مبدء اور بنیاد قرار دینا حضرت علی ابن ابی طالبعليه‌السلام کی رہنمائی سے تھا(۱) اور بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ مشورہ دینے والے فقط حضرت علیعليه‌السلام نہیں تھے

____________________

۱) تاریخ عمر بن الخطاب لابن الجوزی ص ۷۶ ، الکامل لابن الاثیر مطبوعہ صادر ج/۲ ص ۵۲۶، تاریخ الیعقوبی ط صادر ج/۲ ص ۱۴۵ ، التنبیہ والاشراف ص ۲۵۲ ، محاضرة الاوائل ص ۲۸ ، تہذیب تاریخ ابن عساکر ج/۱، ص ۲۳ ،فتح الباری ج / ۷ ، ص ۲۰۹ ، تاریخ الخلفاء ص ۱۳۲ ، ۱۳۶ ، ص ۲۳ و۱۳۸ از تاریخ بخاری ،بحارالانوار ج /۵۸ ص ۳۵۰ ، ۳۵۱ ، سفینةالبحار ج/۲ ص ۶۴۱ المناقب لابن شہر آشوب ج/۲ ص ۱۴۴، البحارج/۴۰ ص۲۱۸،ا حقاق الحق ج/۸ ص ۲۲۰ علی و الخلفاء ص ۱۳۹،۱۴۱ ، اعلان بالتوبیخ ص ۸۰ و ۸۱ والوسائل سیوطی ص ۱۲۹_

۴۱

بلکہ ان کے ہمراہ کچھ اور صحابہ بھی تھے(۱) اور تیسرے گروہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ کچھ صحابہ نے مشورہ دیا تھا لیکن مشورہ دینے والوں کا نام ذکر نہیں کیا(۲) _

اور چوتھا گروہ مشورہ کے ذکر سے خاموش ہے اور فقط اسی پر اکتفا کرتاہے کہ حضرت عمر سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے ہجری تاریخ لکھی(۳) _

تاریخ گذاری کی حکایت مؤرخین کی زبانی:

مؤرخین نے وضع تاریخ کے سبب کے متعلق مختلف حکایتیں نقل کی ہیں لیکن ہم نے ابن کثیر سے منقول واقعہ کا انتخاب کیا ہے البتہ در میان میں بعض وضاحتوں کو بریکٹ میں لکھاہے، اور ان کے منابع کی طرف اشارہ بھی کردیا ہے _

ابن کثیر کہتاہے کہ واقدی کا قول ہے کہ اسی سال (یعنی ۱۶ ویں ،۱۷ ویں یا ۱۸ ویں(۴) )سال کے ربیع الاول میں حضرت عمر بن الخطاب نے تاریخ لکھی اور یہ پہلی شخصیت ہے کہ جس نے تاریخ لکھی_ البتہ اس کی وجوہات کے متعلق میں کہتاہوں کہ ہم نے سیرت عمر میں اس کے سبب کو ذکر کیا ہے اور وہ یہ کہ حضرت عمر کے پاس ایک سند لائی گئی جس میں ایک شخص کے لئے دوسرے شخص کے ذمہ قرض لکھا ہوا تھا کہ جسے شعبان میں ادا کیا جانا تھا تو اس نے کہا کہ کون سا شعبان ؟ اس سال کا ، گذشتہ سال کایا آئندہ سال کا؟

پھر ( اصحاب النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ) کو جمع کیا اور کہا کہ لوگوں کے لئے کوئی ایسی تاریخ معین کریں کہ جس سے ان کو

____________________

۱) البدایة والنھایة ج/۷ ص ۷۴ ، الوراء والکتاب ص ۲۰ و مآثر الانافہ ج۳ ص ۳۳۶_

۲) صبح الاعشی ج/۶، ص ۲۴۱، مآثر الانافة ج۳ص۳۶ ، فتح الباری ج۷ص۲۰۹، کامل ابن ج ۱،ص۱۰_

۳) الاستیعاب (حواشی الاصابة) ج۲ ، ص ۴۶۰، المحاسن والمساوی ج۲ ص ۶۸ ، تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۳۸ ، اور ج/۲ ص ۲۴۱،تہذیب التھذیب ج/۷ ص ۴۴۰ ، ماثر الانافة ج۱،ص ۹۲ ، تحفة الناظرین شر قاوی ( حواشی فتوح الشام) ج/ ۲ ص ۶۲، صفة الصفوة ج/۱ ص ۲۷۶ ، طبقات ابن سعد ج ۳ ، حصہ اول ص ۲۰۲ تاریخ ابن الوردی ج/۱ ص ۱۴۵ الاوائل للعسکری ج/۱ ص ۲۲۳ تاریخ طبری ج/۳ ص ۲۷۷ ، محاضرات الراغب ج۱ ص ۱۰۵ ، الانس الجلیل ج ۱ص۱۸۸ الاعلاق النفیسہ ص ۱۹۹ بحارالانوار ج۵۸ ص ۳۴۹ و ۳۵۰ ، نیز ملاحظہ ہو: الاعلان بالتوبیخ ص ۷۹ و نفس الرحمان ص ۴۴_

۴)الوزراء والکتاب ص ۲۰ نیز البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۲۰۶ و ۲۰۷_

۴۲

اپنے قرض کی ادائیگی کا وقت معلوم ہو _ کہا جاتاہے کہ کچھ حضرات (یا ہرمزان)(۱) نے کہا کہ ایرانیوں کی طرح تاریخ لکھی جائے جیساکہ وہ اپنے بادشاہوں سے تایخ لکھتے ہیں ، جب ایک بادشاہ ہلاک ہوجاتاہے تو بعد میں آنے والے بادشاہ کی تاریخ حکومت سے تاریخ لکھتے ہیں لیکن اسے اصحاب نے ناپسند کیا ، کچھ لوگوں نے ( جو یہود یت سے مسلمان ہوئے تھے)(۲) کہا:''اسکندر کے زمانہ سے روم کی تاریخ لکھی جائے''_ اسے بھی طولانی ہونے کی وجہ سے ناپسند کیا گیا اور کچھ لوگوں نے کہا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت سے تاریخ لکھی جائے اور کچھ کہتے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بعثت سے لیکن حضرت علیعليه‌السلام ابن ابی طالب اور کچھ صحابہ نے مشورہ دیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدینہ کی طرف ہجرت سے تاریخ لکھی جائے کیونکہ یہ واقعہ ہر شخص کے لئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ولادت اور بعثت کی نسبت زیادہ واضح ہے _پس حضرت عمر اوردیگر صحابہ نے اس کو پسند کیا اور حضرت عمر نے حکم دیا کہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی ہجرت سے تاریخ لکھی جائے(۳) _ اور حاکم نے سعید بن مسیب سے روایت کی ہے ( اس روایت کو حاکم اور ذہبی نے صحیح قرار دیا ہے) کہ اس نے کہا ہے کہ '' حضرت عمر نے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے پوچھاکہ کس دن سے تاریخ لکھی جائے تو حضرت علیعليه‌السلام بن ابی طالب نے فرمایا کہ جس روز نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت فرمائی تھی اور شرک کی زمین کو چھوڑ ا تھا

____________________

۱) صبح الاعشی ج/۶ ص ۲۴۱ ، اس میں لکھاہے کہ حضرت عمرنے اسے خط لکھا اور مشورہ چاہاالبحار ج/۵۸ ص ۳۴۹ ، ۳۵۰ ، سفینة البحار ج/۲ ص ۶۴۱، تاریخ ابن الوردی ج /۱ ص ۱۴۵ ، الانس الجلیل فی اخبار القدس و الخلیل ج/۱، ص ۱۸۷ ، الخطط للمقریزی ج/۱ ص ۲۸۴ ، اور اس میں ہے کہ حضرت عمر نے اس سے استدعا ء کی تھی _ (۲) الاعلان با لتوبیخ ص ۸۱ ، البحار ج / ۵۸ ، ص ۳۵۰ ، اور نزھة الجلیلس ج/۱ ص ۲۲ میں تاریخ ابن عساکر سے نقل کیا گیا ہے کہ نصاری اسکندر کی تاریخ سے لکھتے تھے یہاں مؤلف کہتے ہیں کہ پھر تاریخ عیسوی کہاں تھی ، اور کب ظاہر ہوئی ؟ جواب: جیسا کہ کہتے ہیں کہ تقریباً چوتھی صدی ہجری میں ظاہر ہوئی ہے بلکہ ان آخری صدیوں میں ظاہر ہوئی ہے_

۳) البدایة و النہایة ج / ۷ ص ۷۳ ، ۷۴ نیز ج۳ ص ۳۰۶، تاریخ عمر بن الخطاب ابن جوزی ص ۷۵، ۷۶ تہذیب تاریخ ابن عساکر ج/۱ ص ۲۲ ، ۲۳ ، شرح نہج البلاغہ للمعتزلی ج/۱۲ ، ص ۷۴ ، علی و الخلفاء ص ۲۴۰ ، الاعلان بالتوبیخ ص۸۰ ، ۸۱، منتخب کنز العمال ، حواشی مسند احمد ج / ۴ ص ۶۷ ، الکامل لابن الاثیر ج/۱ ص ۱۰ البحار ۵۸ ص۳۴۹ نزھة الجلیس ج۱ص ۲۱ طبری ج۲ص ۳۸۸ ، الوزراء والکتاب ص ۲۰ ، فتح الباری ج۷ص۲۰۹ ، صبح الاعشی ج۶ص۲۴۱ ابن حاجب نعمان سے ذخیرہ الکتاب میں روایت ہے کہ ابوموسی نے حضرت عمر کو لکھا کہ آپ کی ہمارے پاس کچھ تحریری اسناد آئی ہیں جو شعبان کی ہیں ہم نہیں جانتے یہ کونسا شعبان ہے گذشتہ یا آنیوالا تو حضرت عمر نے اصحاب کو جمع لیا الاوائل ابوہلال عسکری ج۱ص۲۴۳ کنز العمال ج۱۰ ص ۱۹۵ از مستدرک و حصہ ادب صحیح بخاری و ص ۱۹۳ از ابن ابی خیثمہ ، نیز الاعلان بالتوبیخ ۷۹_

۴۳

اس روز سے _پس حضرت عمر نے ایسا ہی کیا_ یہ حدیث صحیح السند ہے لیکن شیخین نے اس کو درج نہیں کیا''(۱) _

اور یعقوبی نے ۶ ۱ ھ کے واقعات میں لکھا ہے : '' اور اسی سال خطوط پر تاریخ لکھی گئی _ جبکہ وہ یہ چاہتے تھے کہ مولد النبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے تاریخ لکھیں _اور پھر بعثت سے لکھنے کا ارادہ کیا لیکن حضرت علیعليه‌السلام بن ابی طالب نے مشورہ دیا کہ ہجرت سے تاریخ لکھی جائے ''(۲) _ ان کے علاوہ اور بھی نصوص پائی جاتی ہیں جو اس بات کی تاکید کرتی ہیں کہ حضرت عمر ہی وہ پہلی شخصیت ہے جس نے تاریخ ہجری اسلامی کو وضع کیا _

بہترین نظریہ

لیکن اس قول کے صحیح ہونے میں ہمیں شدید شک ہے ہماری رائے یہ ہے کہ ہجری تاریخ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے سے ہی وضع کی گئی ہے اور خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے متعددبار مختلف مناسبتوں سے یہ تاریخ لکھی ہے اور جو کچھ حضرت عمر کے زمانے میں ہوا ہے وہ فقط یہی ہے کہ ربیع الاول کے بجائے محرم کو سال کی ابتداء قرار دیا ہے جیسا کہ صاحب بن عباد نے بھی اس بات کی طرف اشار ہ کیا ہے(۳) _ اور اس سلسلے میں بھی مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے ، کچھ مؤرخین قائل ہیں کہ انہوں نے پہلے سال کے محرم کو ہجری سال کی ابتداء قرار دیا تھا اور یہ جمہور کا نظریہ ہے، اور کچھ مؤرخین کہتے ہیں کہ انہوں نے دوسرے سال کے محرم کو ہجری سال کی ابتداء قرار دیا تھا اور اس سے پہلے کے مہینوں کو شمار نہیں کیا اور ا س کی بیہقی نے حکایت کی ہے اور یعقوب بن سفیان الفسوی اسی کا قائل ہے(۴) _

____________________

۱) مستدرک الحاکم ج/۳ ص۱۴ ، تلخیض المستدرک للذھبی ( اس صفحہ کے حواشی میں ) الاعلان بالتوبیخ ص ۸۰ فتح الباری ج۷ ص ۲۰۹ ; تاریخ الطبری ط ا لمعارف ج/۲ ، ص ۳۹۱ اور ج/ ۳ ص ۱۴۴ ، تاریخ عمر بن الخطاب ص ۷۶ ، تہذیب تاریخ ابن عساکر ج/۱ ص ۲۳ ، منتخب کنزالعمال (حاشیہ مسند)ج/۴ ص ۶۷ ، علی و الخلفاء ص ۲۳۹ ، و ۲۴۰ ، احقاق الحق ج /۸ ص ۲۱۹ ، الخطط و الآثار ج/۱ ص ۲۸۴ ، الشماریخ للسیوطی ص ۴ مطبوعہ لیڈ ن و التاریخ الکبیر للبخاری ج/۱ ص ۹ اور الکامل ج/۱ ص ۱۰ ، ط صادر کنز العمال ج۱۰ ص ۱۹۳ و ۱۹۲_

۲) تاریخ الیعقوبی طبع صادر ج/ ۲ ص ۱۴۵_

۳) عنوان المعارف و ذکر الخلائف ص ۱۱_

۴) البدایة والنھایة ج/۳ ص ۹۴_

۴۴

محرم کا مشورہ کس نے دیا ؟

لیکن ربیع الاول کی بجائے محرم کو ابتدائے سال ہجری قرار دینے کا مشورہ کس شخص نے دیا؟ تو اس سلسلہ میںبھی روایات میں اختلاف پایا جاتاہے ، کہا گیا ہے کہ یہ حضرت عثمان بن عفان کے مشورہ سے تھا(۱) یہ بھی کہا گیا ہے کہ بلکہ یہ خود حضرت عمر کی رائے تھی(۲) اور کچھ کہتے ہیں کہ عبدالرحمن بن عوف نے رجب کا مشورہ دیا تو حضرت علیعليه‌السلام نے اس کے مقابلہ میں محرم کا مشورہ دیا تو اسے قبول کرلیا گیا(۳) _ اوردیار بکری و غیرہ قائل ہیں کہ حضرت عمر نے حضرت علیعليه‌السلام اور حضرت عثمان کے مشورہ دینے کے بعد محرم سے ابتداء کی(۴) _ سخاوی اور کچھ دوسرے حضرات قائل ہیں کہ '' تمام روایات و آثار سے استفادہ ہوتاہے کہ عمر حضرت عثمان اور حضرت علیعليه‌السلام نے محرم کا مشورہ دیا تھا(۵) اور کتاب اوائل ج/۱ ص ۲۲۳ میں کلام عسکری سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عمر ہی ہیں جنہوں نے سال کی ابتداء محرم قرار دینے کا مشورہ دیا تھا کہ امن والے مہینے ایک ہی سال میں جمع ہوجائیں_

لیکن ہمیں بہت بعید معلوم ہوتاہے کہ حضرت علیعليه‌السلام نے ربیع الاوّل کو چھوڑ دینے اور محرم کو ابتداء قرار دینے کا مشورہ اس لئے دیا ہو کہ محرم عربوں کے نزدیک سال کا پہلا مہینہ شمار ہوتاہے(۶) بلکہ ہم اس کے خلاف یقین رکھتے ہیں_ حضرت علیعليه‌السلام تو اپنی پوری زندگی میں ربیع الاول کو ابتداء سال قرار دینے پر مصرّ تھے اور یہ فقط آپ کی رائے نہیں تھی بلکہ بہت سے نیک و صالح مسلمانوں اور صحابہ کرام کی بھی یہی رائے تھی اور اس سلسلہ میں ہم مندرجہ ذیل امور کو دلیل سمجھتے ہیں کہ جن کو مجموعاً ملاحظہ کیا جانا چاہیے_

____________________

۱) نزھة الجلیس ج/۱ ص ۲۱ ، فتح الباری ج / ۷ ص ۲۰۹ ، الاعلان بالتوبیخ ص ۸۰ ، منتخب کنز العمال (حاشیہ مسند احمد) ج / ۴ ص ۶۷ ، الشماریخ ص ۱۰ ، ط ۱۹۷۱، کنز العمال ج۱۷ ص ۱۴۵ از ابن عساکر و ج۱۰ ص ۱۹۳ از ابوخیثمہ_

۲) الاعلان بالتوبیخ ص ۷۹ ، الوزراء والکتاب ص ۲۰ ، فتح الباری ج/۷ ص ۲۰۹ نیز مآثر الانافہ ج۳ ص ۳۳۷

۳) الاعلان بالتوبیخ ص ۸۱ ، ط القاھرہ اور ص ۸۲ ، میں لکھا ہے کہ الفردوس میں دیلمی اور اس کے بیٹے دونوں نے اس واقعہ کو علیعليه‌السلام سے روایت کی ہے، احقاق الحق ج/۸ ص ۲۲۰_ ( ۴) تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۳۸ ، وفاء الوفاء ج/۱ ص ۲۴۸_( ۵) الاعلان بالتوبیخ لمن یذم التاریخ ص ۸۰ ، ارشاد الساری ج/۶ ص ۲۳۴ ، فتح الباری ج/۷ ص ۲۰۹ و ص ۲۱۰_ ( ۶)البدایة والنہایة ج۳ ص ۲۰۷ ، بحارالانوار ج۵۸_

۴۵

۱_ پہلے گزر چکاہے کہ آپ نے مشورہ دیا تھا کہ یوم ہجرت یا جس دن نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شرک کی زمین کو چھوڑا اس دن سے تاریخ لکھی جائے جیسا کہ ابن مسیب کی روایت میں یہ صراحت موجود ہے اور یہ ہجرت سب کو معلوم ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں ہوئی_

۲_ اہل نجران کے ساتھ معاہدہ میں یہ عبارت امیر المؤمنینعليه‌السلام نے لکھی تھی _

عبداللہ(۱) بن ابی رافع نے ۱۰ جمادی الثانی ۳۷ ھ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ میں داخل ہونے کے دن سے سینتیس سال بعد تحریر کیا ہے(۲) _اور واضح ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا ربیع الاول کے مہینے میں مدینہ میں داخل ہوئے_ دوسرے صحابہ کی بہ نسبت ہم کہتے ہیں کہ:

۱_ سھیلی و غیرہ کی روایت کے مطابق مالک بن انس قائل ہے کہ ''اسلامی سال کی ابتداء ربیع الاول سے ہے چونکہ یہی وہ مہینہ ہے کہ جس میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت فرمائی تھی''(۳) _

۲_ سنحاوی نے اصمعی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے ربیع الاول یعنی ''ماہ ہجرت'' سے تاریخ لگائی(۴) اور اس طرح زھری سے بھی نقل کیا گیا ہے_

۳ _ جہشیاری کہتاہے کہ ایک شاذ روایت میں آیاہے کہ جب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا نبوت کے چودہویں سال پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو تاریخ گذاری کا حکم دیا(۵) _

۵_ ہجرت کے پانچویں سال کے وسط تک صحابہ ربیع الاول سے ہجری سال کے مہینوں کو شمار کرتے تھے (اور بعد میں آئے گا کہ مؤرخین نے بھی صحابہ کی پیروی کی ہے)_

ان تمام باتوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہم جان سکتے ہیں کہ حضرت علیعليه‌السلام نے کبھی بھی حضرت عمر کو مشورہ نہیں دیا کہ محرم کو ابتدائے سال ہجری قرار دیا جائے بلکہ آپ ان لوگوں میں سے تھے جو اصرار کرتے تھے کہ

____________________

۱)ظاہراً عبیداللہ ہے_ (۲)الخراج لابی یوسف ص ۸۱ ، جمھرة رسائل العرب ج/۱ ص ۸۲ ،شمارہ نمبر ۵۳_

۳) البدایة والنھایة ج/۳ ص ۲۰۷ ، اور اسی طرح اس کی طرف ج/۴ص۹۴ میں بھی اشارہ کیا ہے_ (۴) الاعلان بالتوبیخ لمن یذم التاریخ ص ۷۸_

۵)الوزراء والکتاب ص ۲۰_

۴۶

ابتدائے سال ربیع الاول ہی کو رہنے دیا جائے کہ جس میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے خارج ہوئے یا غار سے نکلے یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ میںداخل ہونے کے پہلے دن کو ابتدائے تاریخ رہنے دیا جائے جیسا کہ بہت سے مسلمان و صحابہ بھی اس تبدیلی پر راضی نہیں تھے لیکن دوسرے گروہ نے غلبہ حاصل کرلیا_

اس بات کی طرف بھی متوجہ کر تے چلیںکہ نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کے مدینہ میں داخل ہونے کے دن کو تاریخ کی ابتداء قرار دینے پر حضرت علیعليه‌السلام کے اصرار والی روایت اس شخص کے قول کی تائید کرتی ہے جو قائل ہے کہ نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ربیع الاول کی پہلی تاریخ کو مدینہ میں داخل ہوئے اوراس کے متعلق کچھ گفتگو آئندہ بھی آئے گی_ اگر چہ اس بحث میں ہمارا اصلی مقصد یہ نہیں بلکہ یہاں پر ہمارا اصل مقصد یہ بحث کر نا ہے کہ کس شخص نے سب سے پہلے ہجری سال کے ساتھ تاریخ لکھی اور ہم کہہ چکے ہیں کہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے ہجرت کے ساتھ تاریخ لکھی_

اس نظریہ کے حامی حضرات :

اگر چہ بہت سے حضرات اس نظریہ میں ہمارے ساتھ موافقت نہیں رکھتے اور بعض اس بارے میں کوئی قطعی حکم لگانے میں تردد کا شکار ہیں_ اور بعض کی باتوں سے پتہ چلتاہے کہ قول مشہور کی طرف رجحان رکھتے ہیں لیکن ان سب چیزوں کی بازگشت ایک ہی امر کی طرف ہے اور وہ یہ کہ اس سلسلہ میں قطعی نظریہ پیش کرنے کیلئے وہ حضرات ضروری مقدار میں نصوص کے وجود سے بے خبر ہیں اور مؤرخین اور راویوں کے زبانوں پر جو مشہور ہے اسی پر قناعت کے عادی ہوگئے ہیں بہر حال پھر بھی یہ حضرات ہمارے نظریہ کے موافق ہیں :سید عباس مکی نزھة الجلیس میں _( جیسا کہ بعد میں اس کی عبارت کا ذکر آئیگا)_ اور اسکوسیوطی نے ابن القماح سے ( اس نے) ابن الصلاح سے اور اس نے ابن مجمش الریادی سے نقل کیا ہے (اسکا ذکر بھی آئے گا) البتہ صاحب المواھب نے کہا ہے کہ '' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تاریخ لکھنے کا حکم دیا اور ہجرت کے وقت سے تاریخ لکھی'' _زرقانی کہتاہے کہ '' اسی کو حاکم نے الاکلیل میں زھری سے مفصلاً روایت کیاہے جبکہ قول

۴۷

مشہوراس کے برخلاف ہے کہ حضرت عمر کے زمانہ میں ایسا ہوا ہے جیسا کہ حافظ نے کہا ہے(۱) '' اس کو اصمعی و غیرہ سے بھی نقل کیا گیا ہے جیسا کہ بعد میں آئے گا_

صاحب بن عباد کہتاہے کہ '' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بروز سو مواربارہ ربیع الاوّل کو مدینہ میں داخل ہوئے اور تاریخ ہجری اسی دن سے شروع ہوئی لیکن پھر اسے محرم سے شمار کیا گیا(۲) _

ابن عساکر کہتاہے کہ ''یہی قول نہایت ہی مناسب ہے'' سیوطی نے بھی ان بعض امور کےساتھ اس کی بات تائید کی ہے جو بعد میں ذکر ہوں گے(۳) _

قسطلانی نے المواہب اللدنیہ ج۱ ص ۶۷ میں اورمغلطائی نے اپنی کتاب سیرت ص ۳۵ ، ۳۶ ، میں لکھا ہے '' نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تاریخ لکھنے کا حکم دیا اور یہ تاریخ ہجرت سے لکھی گئی_ اورابن الجزّار کہتاہے کہ یہ سال عام الاذن کے نام سے مشہور ہے جبکہ ایک قول یہ ہے کہ سب سے پہلے حضرت عمر نے تاریخ لکھی اور سال ہجری کو محرم سے شمارکیا '' علاوہ ازیں ان دس سالوں میں سے ہر ایک کو ایک خاص نام کے ساتھ موسوم کیا گیا ہے اور پہلے سال کو مسعودی کی التنبیہ والاشراف میں بھی عام الاذن کہا گیا ہے_(۴) علامہ مجلسی کا کہنا ہے کہ ہجرت کو مبدا تاریخ قرار دینا در اصل حدیث نبوی سے منسوب اور وحی الہی سے حاصل شدہ، کلام جبرائیل سے ماخوذ ہے(۵) _

سہیلی کی بات:

سہُیلی اس بات پر مصر ہے کہ قرآن مجید میں ہجری تاریخ کا حکم نازل ہوا ہے_ اس کی بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تاریخ کے لئے ہجرت کو مبدا قرار دینے پر صحابہ کا اتفاق اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس چیز کو

____________________

۱) التراتیب الاداریة ج/۱ ص ۱۸۱ ، المواھب اللدنیہ ج/۱ ص ۶۷_ (۲) عنوان المعارف و ذکر الخلائف ص۱۱_

۳) الشماریخ فی علم التاریخ للسیوطی ج۱۰ ط ۱۹۷۱_ (۴)نفس الرحمان ص ۴۴ نیز ملاحظہ ہو: الاعلان بالتوبیخ ص ۸۲_

۵)ملاحظہ ہو بحارالانوار مطبوعہ مؤسسہ الوفاء ج۵۵ ص ۳۵۱ نیز ملاحظہ ہو : المناقب ابن شہر آشوب ج ۲ ص ۱۴۴ ، بحارالانوار ج۴۰ ص ۲۱۸و علی الخلفاء ص ۲۴۱_

۴۸

قرآن سے اخذ کیا ہے تو یہ اچھا استفادہ ہے اور ان کے متعلق ہمارا گمان خیر بھی یہی ہے اور اگر ان کی اپنی ذاتی رائے اور اپنا اجتہاد تھا تو پھر بھی اچھی رائے اور اجتہاد ہے اور قرآن کریم نے ان کے ایسا کرنے سے پہلے اس کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے:

آیت مجیدہ ہے:

( لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِيهِ ) (توبہ /۱۰۸)

وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے وہ اس کی زیادہ حقدار ہے کہ تم اس میں (نماز کے لیے) قیام کرو _

اس آیت میں '' اول یوم ''سے مراد تمام دنوں میں سے پہلا دن قطعاً نہیں اور اس طرح اس آیت میں ظاہراً کوئی ایسا لفظ بھی موجود نہیں کہ جس کی طرف یوم مضاف ہو بس لفظ یوم کی اضافت ضمیر کی طرف متعین ہوجائے گی اور یہ معقول نہیں کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے پہلے دن انجام دیا مگر یہ کہ سال یا مہینہ یا کسی معلوم تاریخ و دن کی طرف اضافت دے_ (یعنی اسے یہ کہنا ہوگا کہ میں نے فلاں سال کے یا مہینے کے پہلے دن یہ کام انجام دیا ہے_مترجم)

اور یہاں پر کوئی حالیہ یا لفظی قرینہ بھی نہیں مگر یہ کہ اصل عبارت اس طرح ہو_''من اول یوم حلول النبی صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم المدینة '' (نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پہنچنے کے پہلے دن سے ہی ...) اور وہی تاریخ ہجری کا پہلا دن ہے _بعض نحویوں کا یہ کہنا کہ اصل عبارت ''من تاسیس اول یوم'' ہے ، کیونکہ ''من '' زمان پر داخل نہیں ہوتا، یہ صحیح نہیں اس لئے کہ اس تقدیر کی بناء پر بھی زمان کو مقدر ماننا ضروری ہے پس اس طرح کہا جائے گا '' من وقت تاسیس'' پس لفظ تاسیس کو مقدر ماننا کوئی فائدہ نہیں دیتا علاوہ ازیں لفظ ''من'' زمان و غیر زمان دونوں پر داخل ہوتاہے _ بطور مثال اللہ تعالی ہی کا ارشاد ہے ''من قبل و من بعد''(۱) یہاں تک سہیلی کی

____________________

۱) الروض الانف ج/۲ ص ۲۴۶ ط۱۹۷۲ء ، ارشادالساری ج/۶ ص ۲۳۴ ، فتح الباری ج/۷ ص۲۰۸ و ص ۲۰۹ ، وفاء الوفاء ج/۱ ص ۲۴۸_ نیز اس بات کا اشارہ البدایہ والنہایہ ج۳ ص ۲۰۷ میں بھی ہے_

۴۹

بات کا خلاصہ ختم ہوا_ الکتانی کہتاہے کہ حافظ نے فتح الباری میں سہیلی کے کلام کے بعد کہا ہے اور ''من اول یوم''سے مرادیہ ذہن میں آتاہے کہ جس دن نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اصحاب مدینہ میں داخل ہوئے(۱)

لیکن ابن منیر کی رائے یہ ہے کہ سھیلی کا کلام تو تکلف اور انحراف ہے اور متقدمین کی تقدیر سے خارج ہے چونکہ انہوں نے ''من تاسیس اول یوم'' کی تقدیر کو ذکر کیا ہے یعنی اس پہلے دن سے ہی جس دن مسجد کی تاسیس ہوئی ہے اور عربیت اسی کا اقتضاء کرتی ہے اور قواعد اس کی شہادت دیتے ہیں_

الکتانی کہتاہے کہ سہیلی کا کلام ظاہر ہے اور اگر اس پر انصاف سے غور کریں تو دیکھیں گے کہ حق بھی یہی ہے_ اسی لئے شہاب الدین الخفاجی نے اپنی کتب عنایت القاضی اور کفایة القاضی میں اسے پسندکرتے ہوئے اسی پر اکتفا کیا ہے(۲) _

اور یاقوت الحموی کہتاہے کہ '' من اول یوم ''سے مسجد قبا کی تعمیر والادن مراد ہے چونکہ دارالہجرة (مدینہ) میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے داخل ہونے کے پہلے دن ہی اس کی بنیاد رکھی گئی تھی اور وہی دن تاریخ ہجری کا پہلا دن ہے اور چونکہ خداوند متعال علم رکھتاتھا کہ یہی دن تاریخ (ہجری) کا پہلا دن قرار پائے گااس لئے اس دن کو '' اول یوم ارخ فیہ'' (یعنی جس میں تاریخ لکھی گئی ) کے نام سے موسوم کیا گیا یہ بعض فضلاء کا قول ہے_ اور بعض قائل ہیں کہ یہاں پر مضاف مقدر ہے اور اصل عبارت یوں ہے''تاسیس اول یوم''لیکن پہلی بات بہتر ہے''(۳) علاوہ ازیں مذکورہ آیت کی تفسیر میں ابن عباس سے وہی کچھ نقل کیا گیا ہے جو پہلے سہیلی سے نقل کیا جاچکاہے(۴) _

اگر ان کی بات صحیح ہے تو مناسب یہی لگتا ہے کہ خود نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے آیت کے مقصود پر عمل کرتے ہوئے سبقت فرمائی ہوگی _یہ اب تک کی بحث کا نتیجہ ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ جو کچھ سھیلی و غیرہ

____________________

۱) فتح الباری ج/۷ ص ۲۰۹_ (۲) التراتیب الاداریة المسمی ، بانظام الحکومة النبویة ج/۱ ص ۱۸۱ ، ۱۸۲ _

۳) معجم البلدان ج/۵ ص ۱۲۴_ (۴) تنویر المقباس ( حاشیہ در المنثور) ج۲ ص۲۲۴_

۵۰

نے ذکر کیا ہے و ہ بادی النظر میں بعید ہے تو ہم جواب دیں گے کہ کم سے کم آیت شریفہ کے معنی میں دیئے جانے والے احتمالات میں سے ایک احتمال یہ بھی ہے اگر چہ متعین نہ ہو اور ہم نے اسے بطور تائید ذکر کیا ہے نہ بطور استدلال _

ہمارا نظریہ یہ ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب سے پہلے ہجرت کے ساتھ تاریخ لکھی اسکے دلائل مندرجہ ذیل ہیں_

۱_ زہری سے روایت ہے کہ جب ہجرت کرکے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو تاریخ لکھنے کا حکم دیا پس ربیع الاول میں تاریخ لکھی گئی(۱) _

اور زہری سے ایک اور روایت میں ہے کہ تاریخ (ہجری) کی ابتداء نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہجرت کرکے آنے کے دن سے ہے(۲) _

قلقشندی کہتاہے کہ'' اس بناء پرتاریخ کی ابتداء عام الھجرة(ہجرت کے سال) سے ہوئی ہے''(۳) _ اور اس کے علاوہ دوسرے حضرات کا کلام پہلے گزر چکا ہے اور کچھ کے کلام کو بعد میں ذکر کریںگے_

لیکن الفتح و غیرہ میں عسقلانی و غیرہ نے اس حدیث کو خبرمعضل (پیچیدہ اور مشکل) قرار دیاہے اور کہا ہے کہ قول مشہور اس کے برخلاف ہے(۴) _

اورجہشیاری نے شاید اسی بناپر اسے خبر شاذ قرار دیا ہے(۵) _

____________________

۱) فتح الباری ج/۷ ص ۲۰۸،ارشادالساری ج/۶ص۲۳۳،التنبیہ والاشراف ص۲۵۲، تاریخ الطبری مطبوعہ دارالمعارف ج/۲ ص ۳۸۸ ، نزھة الجلیس ج/۱ ، ص ۲۱ ، مناقب آل ابی طالب ج/۲ ص ۱۴۲، البحار ج/۴۰ ص ۲۱۸ عنہ، علی والخلفاء ص ۲۴۱ ، عن البحار،صبح ا لاعشی ج/۶ص ۲۴۰، التراتیب الاداریة ج/۱ ص ۱۸۰ ، آخری دونوں نے اس کو نحاس سے صناعت الکتاب میں سے نقل کیا ہے تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۳۸ ، الشماریخ فی علم التاریخ ص ۱۰، ط ۱۹۷۱، عن ابن عساکر عن یعقوب بن سفیان وفاء الوفاء للسمھودی ج/۱ ، ص ۲۴۸ ، المواھب اور زرقانی وغیرہ نے حاکم کی کتاب (الاکلیل سے) مفصلاً نقل کیا ہے،الکامل ابن الاثیر ج/۱ ، ص ۱۰مطبوعہ صادر ،المواھب اللدنیہ ج/۱ ص ۶۷ میںاس کو ذکر کیا ہے لیکن زہری کی طرف نسبت نہیں دی نیز ملاحظہ ہو الاعلان بالتوبیخ ص ۷۸_

۲) الشماریخ فی علم التاریخ ص ۱۰_

۳) صبح الاعشی ج/ ۶ ص ۲۴۰_

۴) فتح الباری ج/۷ ، ۲۰۸، ارشادالساری ج/۶ص ۲۳۳ از فتح الباری،وفاء الوفاء ج/۱ص ۲۴۸_

۵) الوزراء والکتاب ص ۲۰_

۵۱

اور سخاوی اور الدیار بکری و غیرہ کا کلام بھی تقریباً ان جیساہے(۱) _ مسعودی نے اس روایت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس پر عمل نہیں کیا گیا چونکہ خبر واحد ہے اور جو شخص مراسیل پراعتماد نہیں کرتا وہ اس پر عمل نہیں کرسکتا چونکہ یہ مرسل ہے او ریہ جو پہلے بیان ہوا ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام کے مشورہ سے حضرت عمرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہجرت کے ساتھ تاریخ لکھی یہ متفق علیہ ہے چونکہ اس خبر میں کوئی معّین وقت ذکر نہیں کیا گیا کہ جس میں تاریخ لکھی گئی ہوا ور اس کی کیفیت کو بھی نقل نہیں کیا گیا(۲) _ لیکن مسعودی اور ووسرے حضرات کا اعتراض زہری کی روایت پر وارد نہیں چونکہ اس کا ارسال (اگر اسے مرسل مان بھی لیا جائے ) اور خبر واحد ہونا اس سے اجتناب کرنے کا جواز نہیں بن سکتے بلکہ اس کو اخذ کرنا ضروری ہے حتی کہ اس شخص کے لئے بھی جومرا سیل کو قبول نہیں کرتا چونکہ یہاں پر اور ادلہ و روایات بھی پائی جاتیں ہیں جو اس پر دلالت اور اس کی تائید کرتی ہیں ذیل میں ان تمام کو ذکر کرتے ہیں(۳) _

۲_ حاکم نے عبداللہ بن عباس سے روایت کی ہے (اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے )کہ اس نے کہا ہے کہ تاریخ اس سال میں تھی کہ جس میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ میں وارد ہوئے اور اسی سال عبداللہ بن زبیر پیدا ہوا(۴)

____________________

۱) الاعلان با لتوبیخ ص ۷۸ ، تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۳۸_ (۲) التنبیہ والاشراف ص ۲۵۲_ (۳)زھری سے ایک اور روایت ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تاریخ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانہ سے تھی، تہذیب تاریخ ابن عساکر ج/۱ ص ۲۱ میں ہے کہ زھری نے کہا ہے '' قریش ، فیل اور فجار کے درمیان چالیس سال کی مدّت شمار کرتے تھے اور فجار اور ھشام بن مغیرہ کی وفات کے درمیان چھ سال کی مدّت شمار کرتے تھے اور اس کی وفات اور کعبہ کی تعمیر کے در میان نو سال اور بناء کعبہ اور مدینہ کیطرف رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خارج ہونے کی درمیانی مدّت کو پندرہ برس گنتے تھے کہ جن میں سے پانچ سال آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف وحی نازل ہونے سے پہلے کے تھے پھر عدد تھا یعنی تاریخ کو گننا'' اس آخری عبارت سے ظاہر ہوتاہے کہ عربوں نے گذشتہ روش سے اعراض کرلیا تھا اور ہجرت کے ساتھ تاریخ معّین کرنا شروع کردی تھی لیکن اس روایت میں ایک یہ اعتراض باقی رہ جاتاہے کہ مشہور یہ ہے کہ فیل اور فجار کے درمیان بیس برس کا فاصلہ تھا نہ چالیس برس کا جیسا کہ طبری ج/۲ اور البدایة والنھایة ج/۲ ص ۲۶۱ اورتاریخ الخمیس ج/۱ ص ۱۹۶ اور ابن الاثیر اور مسعودی نے اس کی تصریح کی ہے لیکن زھری کا یہ قول کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عام الفیل کے تیس سال بعد میں پیدا ہوئے ہیں ( جیسا کہ البدایة والنھایة ج/۲ ص ۲۶۴ میں اس سے نقل کیا گیا ہے ) دلالت کرتاہے کہ زھری کا یہ قول منفرد ہے کہ فجار اور فیل کے در میان چالیس برس کا فاصلہ ہے جبکہ یہ بات مشہور قول کے مخالف ہے لیکن یہ تمام اعتراضات اور نقائص ہمارے مدعا پر اس کے کلام کی دلالت میں مضر نہیں ہیں_ (۴) مستدرک الحاکم ج/۳ ، ص ۱۳ ، ۱۴ اور اس روایت کو مسلم کے معیار پر صحیح قرار دیا ہے، تلخیص المستدرک للذھبی(اس صفحہ کے حاشیہ پر) مجمع الزوائد ج/۱ ص ۱۹۶، عن الطبرانی فی الکبیر، الاعلان بالتوبیخ ص ۸۰ ،۸۱، الطبری ج/۲ ص ۳۸۹ ، ۳۹۰ ، اور ج/۳ ص۱۴۴ ، التاریخ الکبیر للبخاری ج/۱ ص۹ ، الشماریخ ص ۱۰ ، عن البخاری فی التاریخ الصغیر والخطط للمقریزی ج/۱ ص ۲۸۴_

۵۲

۳_ سخاوی کہتاہے کہ '' کس نے سب سے پہلے تاریخ لکھی اس میں اختلاف ہے، ابن عسا کرنے تاریخ دمشق میں انس سے روایت کی ہے کہ تاریخ کی ابتداء رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ میں داخل ہونے سے ہوئی تھی'' _

اور اسی طرح اسمعی نے کہا ہے کہ انہوں نے ہجرت کے مہینہ ربیع الاول سے تاریخ لکھی(۱) پھر اس کے بعد زھری کی سابقہ روایت کو ذکر کیاہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ تاریخ کو وضع کرنے والے جناب عمر نہیں تھے، کیونکہ عمر نے محرم سے تاریخ گذاری کی تھی_

پھر اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ صحیح اور مشہور کے خلاف ہے (چونکہ مشہور یہ ہے) کہ یہ کام عہد عمر میں ہواتھا اور سال کی ابتداء ربیع الاّول سے نہیں بلکہ ماہ محرم سے ہوئی لیکن یہ اعتراض بھی مسعودی کے اعتراض کی طرح وارد نہیں ہے چونکہ صرف اس کا مشہور کے خلاف ہونا اس کے باطل و فاسدہونے کا موجب نہیں بنتا بلکہ جب قطعی دلیل مشہور کے خلاف قائم ہوجائے تو اس کو اخذ کرنا اور مشہور سے عدول کرنا ضروری ہے _

اور جلد ہی واضح ہوجائیگا کہ پہلے ذکر شدہ ادلہ کے علاوہ ہمارے پاس اور بھی ادلہ موجود ہیں جو ہر قسم کے شک و شبہہ کو زائل کردیتے ہیں_

۴_ مورخین کہتے ہیں کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ربیع الاول میں مدینہ کی طرف ہجرت کی _زھری و غیرہ کی رائے یہ ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ربیع الاول کی پہلی تاریخ کو مدینہ میں پہنچے ابن اسحاق اور کلبی کو یقین ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ربیع الاوّل کی پہلی تاریخ کو مکہ سے خارج ہوئے اور بعض کہتے ہیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ربیع الاوّل کی پہلی تاریخ کو غار سے خارج ہوئے(۲) _

ربیع الاول کی پہلی تاریخ کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ میں وارد ہونے والے قول کی تائید حضرت علیعليه‌السلام کی اس تحریر''منذ و لج رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم الله المدینة'' سے بھی ہوسکتی ہے مگر اس کے مقابلہ میں دوسرے قول کی تائیدبھی موجود ہے وہ یہ کہ آپعليه‌السلام نے مشورہ دیا تھا کہ تاریخ ہجری کی ابتداء رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شرک کی زمین کو چھوڑنے سے

____________________

۱) الاعلان با لتوبیخ لمن یذم التاریخ ص ۷۸_

۲) تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۲۴ اور ۳۲۵ الاستیعاب (حاشیہ الاصابة پر)ج/۱ ص۲۹ الروض الانف ج / ۲ ص ۲۴۵ ، اسی طرح دلائل النبوة ج/۲، ص ۲۲۶، المواہب ج/۱ ص ۶۷ _

۵۳

قرار دی جائے یا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کو قرار دیا جائے _مگر یہاں یہ دعوی کیا جائے کہ چونکہ وہ کلی طور پر اس سال کو معین کرنے کے درپے تھے کہ جس سے ابتداء کی جائے ، اس لئے اس فقرہ میں اجمال پایا جاتاہے (جس کی تفصیل گذشتہ تحریر میں ہے) تو اس صورت میں پہلا فقرہ ہماری بات کے مخالف نہیں رہے گا _یہاں پر اہم بات یہ ہے کہ ہجرت ربیع الاول کی ابتداء میں تھی اور جب ہم اس پر ان اقوال کا اضافہ کریں جوپہلے مالک اور اصمعی سے بیان ہوچکے ہیں ساتھ ہی زھری کی روایت اور حضرت علیعليه‌السلام کی تحریر سے ظاہر ہونے والی اس بات کوکہ اسلامی سال کی ابتداء ربیع الاول تھی ملاکر دیکھیں تو ہمیں یہ اطمینان حاصل ہوجائے گا کہ عہد عمر سے پہلے ہی تاریخ مقرر کی جاچکی تھی _حضرت عمر نے صرف ربیع الاول کی بجائے ماہ محرم کو سال کی ابتداء قرار دیا اور یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عمر ہجری تاریخ کو وضع کرنے والا پہلا شخص نہیں تھا _ اور یہ بات بھی اس مدعا کی تائید کرتی ہے کہ بعض صحابہ پانچویں سال کے وسط تک ہجرت والے مہینہ ( ربیع الاول) سے مہینوں کو شمار کرتے تھے_

ابوسعید خدری کہتاہے کہ '' رمضان ( کے روزوں ) کافریضہ ماہ شعبان میں قبلہ تبدیل ہونے کے بعد تھا کہ ابھی اٹھارہ (۱۸) مہینے مکمل ہونے سے ایک مہینہ باقی تھا''(۱) _

عبداللہ بن انیس سفیان بن خالد کی طرف اپنا فوجی دستہ لے جانے کے متعلق کہتاہے کہ میں پانچ محرم کوبروز سوموار مدینہ سے خارج ہوا جب کہ ٹھیک چوّن (۵۴) ماہ مکمل ہوچکے تھے(۲) _

اسی طرح محمد بن سلمہ جنگ قرطاء کے متعلق کہتاہے کہ '' میں محرم کی دس تاریخ کو خارج ہوا اور انیس دن غائب رہا اور محرم کی باقی ماندہ رات میں واپس آیا کہ پچپن (۵۵) مہینے پورے ہوچکے تھے_''(۳) _

اور اسی کے بعد سالوں کا حساب کتاب شروع ہوتاہے جیسا کہ سلمة بن الاکوع اور خالد بن ولید و غیرہ کے قول سے ظاہر ہوتاہے(۴) _

یہی صحابہ کا طریقہ تھامورخین نے بھی صحابہ کی پیروی کی ہے پس انہوں نے پانچویں سال کے وسط بلکہ

____________________

۱) تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۶۸ _ _ (۲) مغازی الواقدی ج/۲ ص ۵۳۱ ، ۵۳۴ علی الترتیب_

۴) مغازی الواقدی ج/۲ ص ۵۳۷ ، صفة الصفوة ج/۱ ص ۶۵۲_

۵۴

آخر تک مہینوں کے ساتھ تاریخ لکھی اور پانچویں سال سے سالوں کا ذکر کرنا شروع کیا(۱) اور یہ چیز اگر کسی چیز پر دلالت کرتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ہجرت کے ابتدائی برسوں سے یہی تاریخ مقرر کی جا چکی تھی وگرنہ یہ بات کوئی معنی نہیں رکھتی کہ کسی صحابی سے پانچویں سال میں پیش آنے والے واقعہ کے متعلق سوال کیا جائے لیکن وہ سال کا ذکرنہ کرے اور گننے کے عمل میں مصروف ہوجائے جو فکر و تامل کا باعث ہے اور کچھ دیر سوچنے کے بعد جو اب دے مگر اس صورت میںکہ یہ چیز مرسوم اور ذہنوں میں راسخ ہو _اس سے و اضح ہوجاتاہے کہ صحابہ کس قدر اس بات کی اہمیت کے قائل تھے کہ ربیع الاول ہی کو تاریخ ہجری کی ابتداء قراردیا جائے اگر چہ بعد میںبھی غالباً یہی سلسلہ رہا _

۵_ سلمان فارسی کے لئے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تحریر ہمار ے پاس ہے جس پر ہجرت کے نویں سال کی تاریخ لکھی ہوئی تھی_

ابونعیم کہتاہے کہ حسن بن ابراھیم بن اسحاق البرجی المستملی نے روایت کی ہے کہ مجھے محمد بن عبدالرحمن نے بتایاہے کہ میں نے ابوعلی حسین بن محمدبن عمرو و ثابی کوکہتے ہوئے سنا کہ میں نے یہ تحریر شیراز میں جناب سلمان کے بھائی ماہ بنداذ کی اولاد غسان بن زاذان بن شاذویہ کے نو اسے کے ہاتھ میں دیکھی _ یہ وصیت علیعليه‌السلام بن ابی طالب کی تحریر تھی اورنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہر اس پر لگی ہوئی تھی ہم یہاں پر اس تحریر کے متن کو درج کرتے ہیں_

بسم اللہ الرحمن الرحیم : یہ خط محمدرسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے سلمان کے بھائی ماہ بنداذ اور اس کے اہل و عیال اور نسل کے متعلق وصیت لکھنے کی سلمان کی درخواست پر لکھا جارہا ہے_( ابونعیم اس کو لکھنے کے بعد آخر میں کہتاہے): علیعليه‌السلام بن ابی طالب نے بحکم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہجرت کے نویں سال ماہ رجب میں یہ خط تحریر کیا اور ابوبکر، عمر، عثمان ، طلحہ، زبیر،عبدالرحمن ، سعد، سعید، سلمان، ابوذر، عمار،عیینہ ، صہیب، بلال، مقداد، اور مؤمنین کی ایک جماعت وہاں پر حاضر تھی _ اسی طرح ابومحمدبن حیان نے بعض مورد اعتماد اشخاص سے ذکر کیا ہے کہ

____________________

۱) طبقات ابن سعد ج /۲ حصہ اول فی غزواتہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خصوصاً غزوہ بواط میں اس کا صفحہ ۵۶ ، مغازی الواقدی ج۲ ص ۹،۱۱،۳۶۳ ، الوفاء باخبار المصطفی ج/۲ ص ۶۷۳،۶۷۴،۶۷۵،البدایة و النھایة ج/۴ ص۶۱ اور تاریخ الخمیس و غیرہ_

۵۵

شیراز میں سلمان کے بھائی کی نسل سے ایک قبیلہ ہے جن کے رئیس و سردار کو غسان بن زاذان کہتے ہیں اور ان کے پاس یہ خط موجود ہے یہ علیعليه‌السلام ابن ابی طالب کی تحریر ہے اور سفید رنگ کے چمڑے پر لکھا گیا ہے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مہر ابوبکر کی مہر اور علیعليه‌السلام کی مہر اس پر درج ہے یہ حرف بحر ف ابونعیم کی تحریر ہے لیکن اس نے جماعت میں عیینہ کا ذکر نہیں کیا(۱) _

۶_ بلاذری نے اس معاہدہ کے متن کو ذکر کیا ہے کہ جس کونبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مقنا کے یہودیوں اوربنی حبیبہ کے لئے لکھا تھا اس میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے ساتھ مچھلی شکار کرنے کی چھڑیوں، ان کی کاتی ہوئی روئی اور ان کی بھیڑ بکریوں ،مویشیوں اور پھلوں کے ایک چوتھائی حصہ پر مصالحت کی تھی_

بلاذری کہتاہے کہ مصر کے رہنے والے ایک شخص نے مجھے بتایاہے کہ اس نے خود اس تحریر کو ایک سرخ رنگ کے چمڑے میں دیکھا البتہ اس کے خطوط مٹے ہوئے تھے لہذا اس نے مجھے لکھوایا تو میں نے نسخہ برداری کی _

بسم الله الرحمن الرحیم: من محمد رسول الله صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ، الی بنی حبیبةواهل مقنا: سلم انتم فانه انزل علی، انکم راجعون الی قریتکم، فاذا جاء کم کتابی هذا، فانکم آمنون و لکم ذمة الله و ذمة رسوله ...( بلاذری نے پوری تحریر کو درج کیا ہے حتی کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آخر میں فرمایا) '' کہ تم پر امیر و حکمران صرف تم میں سے ہوگایا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اہل بیت میں سے_ علیعليه‌السلام بن ابو طالب نے اس تحریر کو ۹ ہجری میں لکھا ''(۲) _

فتوح البلدان پر حاشیہ لکھنے والے محمدبن احمد بن عساکر نے اس عہد نامہ پر دو اعتراض کئے ہیں _

____________________

۱) ذکر اخبار اصفہان لابی نعیم ج/۱ص۵۲ ، ۵۳، الدرجات الرفیعہ ص ۲۰۶ و ۲۰۷ ، طبقات المحدثین باصبہان ج۱ ص ۲۳۱ و ۲۳۴ نیز نفس الرحمان از تاریخ گزیدہ_

۲) فتوح البلدان للبلاذری ص ۶۷ ، ط ۱۳۱۸ ہجری نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ولایت و حکمرانی کو اپنے اہل بیتعليه‌السلام کے ساتھ مخصوص کرنے میں غور فرمائیں یہ ایک واضح دلیل ہے کہ اس شہرکاخراج (کہ جس کو بغیر لشکرکشی کے صرف مصالحت کےساتھ حاصل کیاگیا ہے اور اصطلاحاً فے کہا جاتاہے اور فَے ،اللہ اور اس کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ہے اور )نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسے اپنے اہل بیتعليه‌السلام کو عطا کیا ہے اور یہ دلالت کرتاہے کہ آل رسولعليه‌السلام جس طرح مسلمانوں کے لئے اولوا الامر ہیں اس طرح اہل ذمہ کے لئے بھی اولوا الامر ہیں_

۵۶

اول : کہ علیعليه‌السلام وہ شخصیت ہیں کہ جنہوں نے علم نحو کو اختراع کیا تا کہ عجمیوں کے کلام کے ساتھ مخلوط نہ ہو ایسے شخص سے اعرابی غلطی کا صادر ہونا ممکن نہیں اور یہاں پرعلیعليه‌السلام ابن ابوطالب درج ہے یعنی ابو کو رفع کے ساتھ لکھاگیا ہے( جبکہ نحوی قواعد کی بناء پر ابی لکھا جانا چاہیے) _

دوم: اہل مقنا کے ساتھ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی صلح غزوہ تبوک میں ہوئی (جیسا کہ بلاذری کی کتاب میں مذکور ہے ) اور واضح ہے کہ علیعليه‌السلام اس غزوہ میں شریک نہیں تھے پس یہ کیسے ہوسکتاہے کہ اس صلح نامہ کو لکھنے والے علیعليه‌السلام ہوں(۱) _

اور ہم یہاں پر ان اعتراضات کے جواب میں صرف علامہ محقق الشیخ علی احمدی کے کلام کو(البتہ موقع محل کی مناسبت اپنی طرف سے کچھ کمی بیشی کے ساتھ) ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ :

پہلے اعتراض کا جواب : یہ ہے کہ ملاعلی قاری ، قاضی عیاض کی کتاب '' شفائ'' کی شرح میں ابوزید اصمعی کی نوادر سے نقل کرتے ہیں کہ یحیی بن عمر سے روایت ہے کہ قریش کنیت میں لفظ'' ابّ'' میں کوئی تبدیلی نہیں کرتے تھے بلکہ اسے ہمیشہ مرفوع پڑھتے تھے ، چاہے رفعی حالت میں ہوتا یا نصبی یا جرّی حالت میں_

نہایة ابن الاثیر میں لفظ ''ابی''کے ذیل میں اور قاضی عیاض کی کتاب '' شفائ'' پر لکھی جانے والی ملا علی قاری کی شرح میں ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مہاجر بن امیہ (مہاجربن ابوامیہ) کو خط میں (المہاجر ابوامیة ) لکھا اس کے بعد دونوں نے کہا ہے کہ چونکہ ابوامیہ کنیت کے ساتھ مشہور تھا اور وہ صرف اسی نام سے ہی معروف تھااس لئے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اسے ا یسے ہی رہنے دیا اور ملاعلی قاری اس کے لئے مثال ذکر کرتے ہوئے کہتاہے :'' جیسا کہ کہا جاتاہے علیعليه‌السلام بن ابوطالب '' _ ہم یہاں زمخشری کے اس قول کا بھی اضافہ کرتے چلیں کہ ''وائل بن حجر نے لکھا ہے : اللہ کے رسول محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے مہاجربن ابوامیہ کے نام _بے شک وائل ...'' یہاں تک کہ زمخشری کہتاہے لفظ ابوامیہ کو جر والی حالت میں بھی رفعی حالت کے مطابق لکھا گیا ہے ، کیونکہ وہ اسی نام سے مشہور ہوگیا تھا اور ضرب المثل کی طرح ناقابل تبدیلی ہوگیا تھا یہ عربوں کے اس قول :

____________________

۱)حاشیہ فتوح البلدان بلاذری ص ۶۷_

۵۷

''علی بن ابوطالب اور معاویة بن ابوسفیان'' کی مانند ہے(۱) اسی طرح شیخ علی احمدی کا بیان ہے کہ مجموعة الوثائق السیاسیہ میں صفدی سے منقول ہے کہ بعض عرب لکھتے تو ''علیعليه‌السلام بن ابوطالب ''واو کے ساتھ ہیں لیکن پڑھتے یاء کے ساتھ ( ابی طالب) ہیں _ اورمجموعہ میں التراتیب الاداریة سے منقول گذشتہ کلام کونقل کرنے کے بعد کہتاہے کہ اس سے بڑھ کر یہ کہ میں جب ماہ محرم ۱۳۵۸ ھ میں مدینہ میں تھا توسلع کے جنوب میں ایک قدیمی تحریر میں ( انا علیعليه‌السلام بن ابوطالب ) لکھا ہوا دیکھا اور متوقع ہے کہ یہ تحریر خود علیعليه‌السلام کی ہو_ اسی طرح مجموعةالوثائق میں ہے کہ شیو خ (اپنے اساتذہ) سے پڑھی گئی کتابوں میں چار مقامات پر ( علیعليه‌السلام بن ابوطالب) واو کے ساتھ لکھا ہوا دیکھا ہے_ اور ہم اضافہ کرتے ہیں کہ عسقلانی کا کہناہے کہ حاکم کہتاہے : '' اکثر بزرگان اس بات کے قائل ہیں کہ ان (یعنی ابوطالب) کی کنیت ہی ان کا نام تھا''(۲) _ نیز مغلطائی نے کہاہے '' ایک قول (جسے حاکم نے ذکر کیا )ہے کہ اس کی کنیت ہی اس کا اسم ہے لیکن ہمیں اس پر اعتراض ہے ''(۳) مروج الذھب ج/۲ص ۱۰۹ طبع بیروت میں مذکور ہے کہ '' ابوطالب کے اسم میں اختلاف ہے کچھ لوگ قائل ہیں کہ ان کی کنیت ہی ان کااسم ہے اور نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اکرم کی املاء سے علیعليه‌السلام نے خیبر کے یہود کے لئے لکھا تھا ( و کتب علیعليه‌السلام بن ابی طالب) لفظ ابن سے الف کو گرا دینا اس بات پردلالت کرتاہے کہ یہ لفظ دونا موں کے درمیان میں واقع ہواہے نہ کہ نام او رکنیت کے درمیان '' _ بلاذری لکھتاہے کہ یحیی بن آدم نے کہا ہے کہ میں نے نجرانیوں کے پاس ایک تحریر دیکھی کہ جس کا نسخہ اس نسخہ کی طرح تھا اور اس کے آخر میں یہ عبارت درج تھی (-و کتب علیعليه‌السلام بن ابوطالب) لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کے متعلق کیا کہوں(۴) _ اور یہ مشہور روایت بھی ہے کہ ربیعہ اور یمن کے درمیان آپعليه‌السلام اپنی تحریر کے آخر میں لکھتے ہیں (کتب علیعليه‌السلام بن ابوطالب )(۵) _عمدة الطالب ص۲۰ ، ۲۱ طبع نجف میں محمدبن ابراہیم نسابہ سے منقول ہے کہ

____________________

۱) الفائق ج۱ ص ۱۴_ (۲) الاصابہ ج۴ ص ۱۱۵_ (۳)سیرہ مغلطائی ص۱۰_

۴)فتوح البلدان ص ۷۲_

۵)شرح نہج البلاغہ ابن میثم بحرانی ج۵ ص ۲۳۱_

۵۸

اس نے امیر المؤمنینعليه‌السلام کی تحریر کے آخر میں یہ عبارت( و کتب علیعليه‌السلام بن ابوطالب) لکھی ہوئی دیکھی اور کہتاہے کہ میرے دادا اور دیگر افراد کے بقول حرم امیر المؤمنینعليه‌السلام میں حضرت علیعليه‌السلام کے ہاتھوں کا لکھا ہوا قرآن کریم کا ایک نسخہ موجود تھا جو ۷۵۵ میں حرم میں آگ لگنے کی وجہ سے جل گیا کہا جاتاہے کہ اس کے آخر میں یہ عبارت درج تھی ( و کتب علیعليه‌السلام بن ابوطالب) پھر کہتاہے کہ واو یاء کے مشابہ ہے چونکہ خط کوفی میں یہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اگر چہ صحیح (علیعليه‌السلام ابن ابی طالب) ہے علاوہ ازیں دیگر شواھد بھی ہیں جنہیں یہاں پر ذکر کرنے کی گنجائشے نہیں_

پس ہم گذشتہ امور سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ لفظ ( ابو) کا ہونا ضرر رساں نہیں اور روایت پر اعتراض کا موجب نہیں بنتا خصوصاً اگر قریش کے لغت کو مدّ نظر رکھا جائے _ اس بناپر ہمیں عمدة الطالب و غیرہ کی تاویل کی بھی کوئی ضرورت نہیں_

دوسرے اعتراض کا جواب: علامہ احمدی میانجی کہتے ہیں کہ بلاذری کے کلام میں ایسی کوئی صراحت و دلالت نہیں پائی جاتی جس سے یہ معلوم ہوکہ یہ تحریر تبوک میںلکھی گئی ہے جیسا کہ خود تحریر میں بھی اس قسم کا کوئی اشارہ تک بھی موجود نہیں بلکہ تحریر کی عبارت سے معلوم ہوتاہے کہ اہل تبوک میں سے ایک گروہ بطور وفد نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا اور جلد ہی اپنے شہر واپس جانا چاہتا تھا شاید ان کا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس مدینہ آنا تجارتی غرض کی وجہ سے تھا یا صلح نامہ لینے کی غرض سے آئے تھے، یا اس کے علاوہ کسی اور غرض سے آئے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے لئے یہ صلح نامہ تحریر فرمادیا یہاں پر قابل ملاحظہ بات یہ ہے کہ کچھ منابع میں فقط اسی بات پر اکتفاء کیا گیا ہے کہ آپ نے ۹ ھ میں اہل مقنا کےلئے صلح نامہ لکھا(۱) _

____________________

۱) ملاحظہ فرمائیں،مکاتیب الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ج/۱ص ۲۸۸ ، ۲۸۹ ، ۲۹۰ اہل مقنا کے ساتھ معاہدہ کے سلسلہ میں ایک اور روایت بھی پائی جاتی ہے_ کہ یہ معاہدہ ہجرت کے پانچویں برس علیعليه‌السلام کے ہاتھوںسے لکھاگیا لیکن کچھ تاریخی اعتراضات سے خالی نہیں اگر چہ ان میں بعض یا تمام کاجواب دینا ممکن ہے، ملاحظہ فرمائیں، مکاتیب الرسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ج/۱ ص ۲۹۳ ، ۲۹۴_نیز نصرانیوں کے ساتھ ایک اور معاہدہ بھی موجود ہے جو علیعليه‌السلام کے خط مبارک سے ہجرت کے دوسرے سال میں لکھا گیا اور نصرانیوں کے ساتھ ایک اور معاہدہ بھی موجود ہے جس پرہجرت کے چوتھے سال کی تاریخ ہے جس پر معاویہ کی تحریر ہے_ لیکن یہ دونوں معاہدے قابل اعتراض ہیں خاص کر دوسرا معاہدہ کیونکہ معاویہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوا تھا ( جو ہجرت کے کئی سال بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے آخری دور میں فتح ہوا تھا) چنانچہ ملاحظہ فرمائیں: مکاتیب الرسول ج۲ ص ۶۳۷ و ۶۳۴ و غیرہ_

۵۹

ان تمام مذکورہ کلمات کو علامہ احمدی نے ذکر فرمایا ہے البتہ ہم نے بھی کچھ کمی، بیشی اور تلخیص کی ہے اور مذکورہ خط پر کئے گئے اعتراضات کے جواب کے لئے یہی بات ہی کافی ہے پس اس روایت پر اعتراض کرنے اور اس کے صحیح ہونے میں شک کرنے کی گنجائشے نہیں رہتی _

۷_اہل دمشق سے خالدبن ولید کا صلح نامہ_ ابن سلام کہتاہے کہ '' محمد بن کثیر نے ہمارے لئے اوزاعی سے اور اس نے ابن سراقة سے روایت کی ہے کہ خالدبن ولید نے اہل دمشق کو لکھا '' یہ خالد بن ولید کی طرف سے اہل دمشق کے لئے (صلح) نامہ ہے میں نے ان کے خون اور اموال اور عبادت گاہوںکے متعلق انہیں امان دی ''_''ابوعبید کہتاہے کہ اس میںاس نے کوئی ایسی بات ذکر کی تھی جو مجھے یاد نہیں رہی ہے اور اس کے آخر میں یہ عبارت ہے '' ابوعبیدہ جراح، شرحبیل بن حسنة اور قضاعی بن عامر گواہ ہیں اور یہ تحریر ۱۳ ھ میں لکھی گئی ...''(۱) _

جبکہ یہ بات واضح ہے کہ مورخین کے بقول حضرت عمرنے ۱۶ ھ یا ۱۷ ھ میں تاریخ وضع کی اور کوئی بھی شخص یہ دعوی نہیں کرتاکہ اس تاریخ سے پہلے عمر نے تاریخ وضع کی خصوصاً اس حقیقت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کہ دمشق کی فتح حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دنوں میں تھی بلکہ حضرت ابوبکر کی وفات اور عمر کی خلافت کی خبر شام میں مسلمانوں کے لشکر تک پہنچنے سے پہلے ہی دمشق فتح ہوچکا تھا_

صاحبان مغازی (کیفیت غزوات کو حیطہ تحریر میں لانے والے حضرات) کے اس اختلاف کے باوجود کہ فتح دمشق ۱۳ ھ کو ہوئی تھی یا ۴ ۱ ھ کو، مصالحت کرنے والے ابوعبیدہ جراح تھے یا خالد بن ولید اور ان میں سے کون اس لشکر کا امیر تھا؟ ہم مذکورہ بات کے قائل ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایسی تقریبا یقینی

____________________

۱) الاموال ص ۲۹۷ اور بلاذری نے اس کو فتوح البلدان ص ۱۲۸ میں تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ بغیر تاریخ کے ذکر کیا ہے اور اسی طرح فتوح البلدان ص ۱۳۰ میں واقدی سے منقول ہے کہ خالد نے اس پر تاریخ نہیں لکھی تھی لیکن جب مسلمانوں نے یرموک پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو خالد نے نصرانیوں کے لیے صلح نامہ کی تجدید کی اور اس میں ابو عبیدہ ، شرحبیل اور یزید بن سفیان کی گواہی ثبت کی اور اس پر ربیع الثانی ۱۵ ھ کی تاریخ درج کی اور ابن کثیر نے گواہوں میںعمرو بن عاص کا اضافہ کیا ہے_البتہ اس میں بھی کوئی مانع نہیں ہے کہ یہ تحریر ایک اور خط ہوجسے اس نے یرموک پر چڑھائی کے وقت نصرانیوں کو ان کے کلیساؤں کے تحفظ کے لئے لکھا ہو_ جیسا کہ ابن کثیر کی البدایہ والنہایہ ج ۷ ص ۲۱ کے الفاظ سے بھی یہی ظاہر ہوتاہے_

۶۰