رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر0%

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 311

  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: مرکزتحقیقات علوم اسلامی
زمرہ جات: صفحے: 311
مشاہدے: 194514
ڈاؤنلوڈ: 5161

تبصرے:

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 311 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 194514 / ڈاؤنلوڈ: 5161
سائز سائز سائز
  رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ پر ایک نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ساتواں سبق:

(صبرو استقامت)

صبر و استقامت کامیابی کا سرچشمہ اور مشکلات پر غلبہ کاراز ہیں _یہ خدا کے بے شمارو بے حساب اجر کے آب زلال کے چشمہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور ایسی طاقت ہے جس سے تنگ راستوں کو عبور کرنا سہل اور مصیبتوں کا مقابلہ کرنا آسان ہوجاتاہے_

لغت میں صبر کے معنی شکیبائی ، بردباری اور بلا و مصیبت پر شکایات کو ترک کرنے کے ہیں اسی طرح ٹھہرجانے اور ثابت قدم رہنے کا نام استقامت ہے(۱)

صبر کے اصطلاحی معنی :

''ضد الجذع الصبر''و هوثبات النفس و عدم اضطرابها فی الشداءد والمصاءب ،بان تقاوم معهابحیث لاتخرجها عن سعة الصدروماکانت

___________________

۱) (فرہنگ معین مادہ صبر واستقامت)_

۱۰۱

علیه قبل ذلک عن السرور و الطمانینة '' (۱)

صبرگبھراہت کی ضد ہے در اصل صبریعنی مصاءب و شداءد میں نفس کے مطمئن رہنے اور ان کے مقابلہ میں اسطرح ڈٹے رہناہے کہ پیشانی پرشکن تک نہ آنے پائے_

استقامت کے اصطلاحی معنی اس طرح بیان کئے گئے ہیں''و هی الوفاء بالعهود کلها و ملازمه الصراط المستقیم برعایة حدالتوسط فی کل الامور من الطعام والشراب واللباس و فی کل امر دینی و دنیوی'' (۲) تمام معاہدوں سے وفاداری اور ہمیشہ صراط مستقیم کو اس طرح سے اپنائے رہنا کہ کھانے، پینے لباس اور تمام دینی و دنیوی امور میں میانہ روی ہو اس کا نام صبر و استقامت ہے_

خداوند عالم نے صبر کے نتاءج اور اس کی قدر و قیمت بتادینے کے بعد اپنےپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اس بات کی خواہش کی ہے کہ وہ بھی دوسرے نبیوں کی طرح صبر اختیار کریں_ ارشاد ہے :

( فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل ) (۳)

آپ بھی اس طرح صبر کریں جس طرح اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا _

( فاصبر ان وعد الله حق ولا یستخفنک الذین لا یوقنون ) (۴)

آپ صبر کریں، بے شک خدا کا وعدہ حق ہے اور وہ لوگ جو یقین کرنے والے نہیں

___________________

۱) (جامع السعادت ج۳ص۲۸۰)_

۲) (تعریفات جرجانی منقول از لغت نامہ دہخدا مادہ صبر)_

۳) (احقاف ۳۵)_

۴) روم ۶۰_

۱۰۲

ہیں وہ آپ کو کمزور متزلزل نہیں کرسکتے_

( واصبر لحکم ربک فانک باعیننا ) (۱)

آپ خدا کے حکم کے مطابق صبر کریں، بے شک آپ ہمارے منظور نظر ہیں_

( فاصبر صبراجمیلاً ) (۲)

آپ صبر جمیل کریں_

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو دوسرے اولوالعزم پیغمبروں ہی کی طرح صبر کا حکم ہے اس لئے کہ نبوت کا دشوار گذار راستہ بغیر صبر کے طے کرنا ممکن نہیں ہے _ جیسا کہ دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ صبر نصرت خدا ہے اور دشمنوں کی طرف سے جو رسول خدا کو کمزور اور متزلزل قرار دیا جارہے ہے اسکا کوئی اثر نہیں لینا چاہیئے_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی تمام مصیبتوں، رسالت کی مشکلوں اور حادثات زندگی میں صبر سے کام لیا اور صراطمستقیم پر ثابت قدمی کے ساتھ آپ نے پیغام الہی کی تبلیغ کے راستہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو ہٹاکر اپنے لئے عبادت اور اطاعت کے پر مشقت راستوں کو ہموار کرکے بشریت کی ہدایت کا راستہ کھول دیا_

___________________

۱) طور ۴۸_

۲) معارج ۵_

۱۰۳

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صابر اور کامیاب

حادثات روزگار کی تیز ہوا ، جانکاہ مصاءب کے گرداب اور سیاہ دل مخالفوں کی تکذیب کے مقابل تمام پیغمبروں کا جو طریقہ تھا اسی کا نام صبر ہے _

( و لقد کذبت رسل من قبلک فصبروا علی ماکذبوا و اوذوا حتی آتاهم نصرنا ) (۱)

بیشک آپ سے پہلے(پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ) جو رسول بھیجے گئے ان کو جھٹلایا گیا ان لوگوں نے جھٹلائے جانے اور اذیت پہونچائے جانے کے بعد صبر کیا یہاں تک کہ ہماری نصرت ان تک پہونچی_

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی تمام پیغمبروںکی طرح اپنی رسالت کی تبلیغ کے لئے پروردگار کی طرف سے صبر پر مامور تھے_

( فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل ) (۲)

صبر کیجئے جیسا کہ اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا _

اس راستہ میں دوسرے تمام پیغمبروں سے زیادہ تکلیفیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اٹھانی پڑیں، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خود فرماتے ہیں:

( ما اوذی نبی مثل ما اوذیت فی الله ) (۳)

___________________

۱) انعام ۳۴_

۲) احقاف ۳۵_

۳) میزان الحکم ج۱ ص۸۸_

۱۰۴

راہ خدا میں کسی پیغمبر کو اتنی اذیت نہیں پہونچی جتنی اذیت مجھے پہونچنی _

آخر کار آیہ کریمہ( ان مع العسر یسرا ) (۱) (ہر سختی کے بعد آسانی ) کے مطابق رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے دن اپنے صبر کے نتاءج و آثار دیکھ لئے وہ دن جس کو قرآن اپنے لفظوں میں اس طرح یاد کرتاہے( اذا جاء نصر الله والفتح و رایت الناس یدخلون فی دین الله افواجا فسبح بحمد ربک و استغفره انه کان توابا ) (۲)

جس دن خدا کی مدد پہونچی اور کامیابی حاصل ہوئی اور آپ نے دیکھا کہ لوگ گروہ در گروہ دین خدامیںداخل ہوئے چلے جارہے ہیں پس آپ حمدکے ساتھ اپنے پروردگار کی تسبیح کیجئے اور اسکی درگاہ میں استغفار کیجئے، بیشک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے _

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صبر کے سایہ میں کامیابی کی منزل تک پہنچے' کعبہ بتوں کی نجاست سے پاک ہوگیا، بت پرستی ختم ہوئی اور پرچم توحید لہرایا، یہ کامیابیاں اس صبر کا نتیجہ تھیں جو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے راہ خدا میں اختیار کیا تھا_

___________________

۱) انشراح ۶_

۲) سورہ النصر_

۱۰۵

مختلف قسم کی بہت سی مخالفتیں اور اذیتیں

کفار و مشرکین نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو آزار پہنچانے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے، کبھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ساحرکاذب اور کاہن کہا گیا_زبان کے ذریعہ زخم پہونچاکر آپ کے دل کو تکلیف پہونچائی گئی، کبھی جنگ برپا کرنے، دہشت گردی کے ذریعہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ختم کردینے کیلئے میدان میں لوگ اتر آئے لیکن صابر پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی بنائی ہوئی سازش کو نقش بر آپ کردیا اور کامیابی کے ساتھ اپنے الہی فریضہ کو پورا کرتے رہے_

زبانوں کے زخم

پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تعلیمات کی روشنی مدہم کرنے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت پہچا نے کے لئے مشرکین نے جو شیطانی حربے اختیار کئے ان میں سے ایک حربہ زبان کے ذریعہ زخم لگانا بھی تھا_

قرآن کریم نے مخالفین رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آزار پہچانے والی بعض باتوں کو نقل کیا ہے ارشاد ہے:

( و قال الذین کفروا هل ندلکم علی رجل ینبءکم اذا مزقتم کل ممزق انکم لفی خلق جدید افتری علی الله کذبا ام به جنة ) (۱)

اور کافروں نے (مزاق اڑاتے ہوئے) کہا : کیا تم کو ہم ایسے شخص کا پتہ بنائیں جو یہ

___________________

۱) (سورہ صبا ۸،۷)

۱۰۶

کہتاہے کہ تمہارے مرنے اور جسم کے ذرات کے بکھرجانے کے بعد تم کو زندہ کیا جائیگا کیا یہ شخص جان بوجھ کر خدا پر جھوٹا الزام لگاتاہے یا جنون اسکو اس بات پر مجبور کرتاہے_

( و یقولون اءنا لتارکوا آلهتنا لشاعر مجنون ) (۱)

وہ لوگ کہتے ہیں کہ کیا ہم اپنے خداؤں کو ایک دیوانہ شاعر کے کہنے کی بنا پر چھوڑ دیں_

( فذکر فما انت بنعمت ربک بکاهن و لا مجنون ام یقولون شاعر نتربص به ریب المنون ) (۲)

بس تم یاد کرو کہ تم خدا کے فضل و نعمت سے نہ کاہن ہو اور نہ دیوانہ ہو _یا جیسا کہ لوگ کہتے ہیں کہ شاعر ہے تو ہم ان کی موت کے انتظار میں ہیں_

رسول اکرم کے پاس آکر چند مشرکین کے زبان سے ایذاء پہچا نے کے واقعہ کو امیرالمومنینعليه‌السلام نہج البلاغہ میں بیان فرماتے ہیں :

'' اس دن جس دن قریش کا ایک وفد حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس آیا تو میں آپ کے پاس موجود تھا میں نے ان کی گفتگو سنی انہوں نے کہا : اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ ایسی چیز کا دعوی کرتے ہیں جس کا دعوی نہ آپ کے آباء و اجداد نے کیا تھا اور نہ آپ کے خاندان نے اب جو ہم

___________________

۱) (صافات ۳۶)

۲) (طور ۲۹_۳۱)

۱۰۷

کہتے ہیں وہ آپ کر دکھایئےاگر آپ نے وہ کردیا اور ہم نے دیکھ لیا تو ہم سمجھ جائیں گے کہ آپ سچ مچ پیغمبر اور خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور اگر آپ اس کو نہ کرسکے تو ہم یہ سمجھ لیں گے کہ آپ جادوگر اور جھوٹے ہیں _

رسول خدا نے فرمایا : کہو کیا کرنا ہے ؟ انہوں نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس درخت کو آپ اپنے پاس بلالیں اور یہ درخت جڑ سے اگھڑ کر آپ کے پاس آجائے حضرت نے فرمایا : خدا ہر کام کی قدرت رکھتا ہے لیکن اگر میں تمہاری یہ خواہش پوری کردوں تو کیا تم ایمان لے آؤگے اور حق کی گواہی دوگے ؟ سب نے کہا ''ہاں'' آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : اب تم نے جو کہاہے وہ میں کردکھاتاہوں لیکن مجھ کو اس بات کا اطمینان ہے کہ تم اس کے باوجود اسلام اور سچے قانون کو نہیں قبول کروگے_

ان لوگوں نے جس چیز کی فرمائشے کی تھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وہ کردکھائی لیکن انہوں نے اپنے کئے ہوئے وعدہ کے خلاف کہا نہیں یہ جادوگر اور چھوٹا ہے ، جادوگری میں یہ کتنا ہوشیار اور تیز ہے (معاذ اللہ)_

ان تکلیف دہ باتوں سے اگر چہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قبلی طور پر رنج ہوا مگر حکم خدا پر عمل کرتے ہوئے صبر کیا اور مخالفین کی غلط باتوں کے جواب میں سوائے حق کے زبان پر کچھ نہ لائے_

___________________

۱) (نہج البلاغہ خطبہ ۲۳۴)_

۱۰۸

خلاصہ درس

۱) صبر اور استقامت کامیابی کا سرمایہ اور مشکلات پر غلبہ کا راز ہے _

۲) لغت میں صبر کے معنی شکیبائی ، بردباری ، بلا اور شداءد پر شکایت نہ کرنے کے ہیں_ ا ور استقامت کے معنی ثبات قدم کے ہیں _

۳ ) صبر کے اصطلاحی معنی ہیں ، مصیبتوں اور نامناسب حالات میں ثبات نفس، شجاعت اور انکے مقابل یوں ڈٹ جانا کہ سعہ صدر ختم نہ ہو اور سابقہ وقار و خوش حالی زاءل نہ ہو_

۴)پیغمبر اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دوسرے اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر پر مامور ہونا اس بات کا ظاہر کرتاہے کہ نبوت کا دشوار گذار راستہ بغیر صبر کے ناممکن ہے _

۵ ) دوسرے پیغمبروں کی طرح پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی تبلیغ رسالت میں خدا کی طرف سے صبر پر مامور تھے_ اور اس راستہ میں دوسرے تمام پیغمبروں سے زیادہحضورصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی بھی پیغمبر کو خدا کے راستہ میں میرے جتنی تکلیف نہیں دی گئی _

۶) مشکرین نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت پہونچانے اور ان کی تعلیمات کی اساس کو متزلزل کرنے کیلئے جو حربے استعمال کئے ان میں سے زبان کا زخم بھی تھا_ناروا گفتگواگر چہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دل کو تکلیف پہونچاتی تھی لیکن آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے حکم سے صبر کرتے اور مخالفین کی بدزبانی کے جواب میں سوائے حق کے اور کچھ نہیں کہتے تھے_

۱۰۹

سوالات

۱_ صبر کے لغوی اور اصطلاحی معنی تحریر کیجئے؟

۲_ صبر اور استقامت کا رابط بیان کیجئے؟

۳_ استقامت کے لغوی اور اصطلاحی معنی تحریر کیجئے؟

۴_ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو صبر کا حکم کیوں دیا گیا تھا؟

۵_ مشرکین کی بدزبانی کے سلسلہ کی ایک آیت کو بیان کرتے ہوئے ان کے ساتھ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے برتاؤ کو بیان کیجئے_

۱۱۰

آٹھواں سبق:

(جسمانی اذیت)

زبان کا زخم لگانے کے علاوہ کفار و مشرکین آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کو بہت سی جسمانی اذیتیں پہنچا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو راہ حق سے ہٹا دینا چاہتے تھے ، منقول ہے کہ مشرکین قریش نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت ستایا ان میں سب سے بڑا ظالم آپکا چچا ابولہب تھا ایک دن جب پیغمبر حجرے میں تشریف فرماتھے اسوقت مشرکین نے ایک گوسفند کے رحم کو ، جس سے بچہ نکالا جاچکا تھا، چند اوباشوں کے ذریعہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سرپر ڈلو دیا_(۱)

ابولہب نے پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اتنی اذیت پہنچا کہ خدا کی لعنت اور نفرین کا مستحق قرار دیا سورہ تبت اسکے اور اسکی بیوی (حمالة الحطب _ ام جمیلہ) کے بارے میں نازل ہوا :

( تبت یدا ابی لهب و تب ما اغنی عنه ماله و ما کسب سیصلی نارا ذات لهب و امراءته حمالة الحطب فی جیدها حبل من

___________________

۱) (زندگانی چہاردہ معصوم ترجمہ اعلام الوری ص ۶۴)_

۱۱۱

مسد ) (۱)

ابولہب ( جو ہمیشہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اذیت پہونچا تا تھا ) اسکا ستیاناس ہوا اس کے دونوں ہاتھ قطع ہوگئے اس نے جو مال و اسباب ( اسلام کو مٹانے کیلئے) جمع کیا تھا اس نے ابولہب کو ہلاکت سے نہیں بچایا، وہ جلد ہی جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں پہنچ جائیگا اور اسکی بیوی (ام جمیلہ) دوزخ کا ایندھن بنے گی اس حالت میں کہ (نہایت ذلت کے ساتھ) لیف خرما کی بٹی ہوئے رسیاں اس کی گردن میں ہوں گے _

ابولہب کی بیوی رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بہت اذیت پہنچا تی تھی قرآن نے اس کو'' حمالة الحطب'' کے نام سے یاد کیا ہے _

ابن عباس نے قرآن مجید کے بیان کئے ہوئے اس نام کی دلیل میں فرمایا '' وہ لوگوں کے درمیان چغلی کیا کرتی تھی اور دشمنی پیدا کردیتی تھی اس طرح آتش جنگ بھڑک اٹھتی تھی جیسے کہ ایندھن کی آگ بھڑکائی اور جلائی جاتی ہے لہذا اس نمامی ( چغلی) کی صفت کو ایندھن کا نام دے دیا گیا(۲) _

منقول ہے کہ وہ ملعونہ خس و خاشاک اور خاردار جھاڑیاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے راستہ میں ڈال دیتی تھی تا کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نماز کیلئے نکلیں تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیروں سے وہ الجھ جائیں اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پیر زخمی ہوجائیں(۳)

___________________

۱) (سورہ تبت)_

۲) ( مجمع البیان ج ۲۷)_

۳) (مجمع البیان ۲۷)_

۱۱۲

مشرکین کے ستانے اور اذیت پہچانے کے واقعات میں سے ایک واقعہ طاءف میں قبیلہ '' بنی ثقیف'' کا بھی ہے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی سے منقول ہے کہ میں نے عبدیالنیل ، حبیب اور مسعود بن عمران تینوں بھائیوں سے مقالات کی کہ جو قبیلہ بنی ثقیف کے بزرگان میں سے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دی ان میں سے ایک نے کہا کہ اگر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیغمبر ہیں تو میں نے گویا کعبہ کو چرایا ، دوسرے نے کہا کہ کیا خدا عاجز تھا کہ اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو بھیج دیا ، اس کو ایسے کو بھیجنا چاہئے تھا جس کے پاس طاقت اور قدرت ہو تیسرے نے کہاخدا کی قسم میں اس کے بعد اب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بات نہیں کروں گا اور پھر اس نے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا مذاق اڑایا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جو اسلام کی دعوت دی تھی اسے لوگوں میں پھیلا دیا_

۱۱۳

جب پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم طاءف سے نکلنے لگے تو وہاں کے ذلیل اور اوباش افراد ان تینوں کے بھڑکانے سے پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے راستے کے دونوں طرف کھڑے ہوگئے اور انہوںنے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر پتھر برسائے جسکی وجہ سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پائے مبارک مجروح ہوگئے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس حال میں وہاں سے نکلے کر آپ کے پاؤں سے خون جاری تھا_(۱)

مندرجہ ذیل واقعہ بھی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کمال صبر کا بہترین نمونہ ہے '' منیب ابن مدرک'' نے اپنے جد سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا '' جاہلیت کے زمانے میں '' میں نے رسول خدا کو دیکھا کہ آپ'' یا ایها الناس قولوا لا اله الا الله تفلحوا'' (اے لوگو تم یہ کہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تا کہ تم نجات پاجاؤ) کی تبلیغ کررہے تھے کہ ایک ملعون کافر نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ اقدس پر ایک طمانچہ مارا، کسی نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سر اور چہرہ پر خاک ڈالی، کسی نے آپ کو دشنام دیا میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹی بچی ایک پانی کا ظرف لیکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف بڑھی آپ نے اپنا ہاتھ اور چہرہ دھویا پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا : صبر کرو اور اگر کوئی تمہارے باپ رسول خدا کو رسوا کرے یاستائے تو تم غمگین نہ ہونا _(۲)

میدان جنگ میں صبر کا مظاہرہ

جن جگہوں پر صبر کا بڑا گہرا اثر پڑتاہے ان میں سے ایک میدان جنگ و کارزار بھی ہے _ صدر اسلام کی بہت سی جنگوں میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس لشکر اور اسلحہ کفار سے کم تھا لیکن خدا کی مدد اور رسول خدا کی فکر سلیم کی بناپر صبر و شکیبائی کے سایہ میں اکثر جنگیں فتح و کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئیں _ مسلسل پیش آنے والی جنگو ں میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شرکت کی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حوصلوں میں کبھی بھی شکست کے آثار نظر نہیں آئے_

جنگ احد ابتدائے اسلام کی صبر آزما اور سخت جنگ تھی جب یہ جنگ اپنے عروج پر تھی اسوقت اصحاب نے فرار کیا کچھ درجہ شہادت پر فائز ہوگئے_چنانچہ چند افراد کے علاوہ اور

___________________

۱) ( حلیة الابرار ج۱ ص ۱۷۷)_

۲) ( میزان الحکمہ ج۹ ص ۶۷۱)_

۱۱۴

کوئی دفاع کرنیوالا نہیں تھا لیکن پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صبر و استقامت اور علیعليه‌السلام کی شجاعت نے دشمن کو جنگ سے روک دیا اس جنگ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے چہرہ اور دہن مبارک سے خون جاری تھا، ابن قمیءہ نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ایک تیر مارا جو آپکے ہاتھ پر آکر لگا اور تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی ، عتبہ ابن ابی وقاص نے ایک ایسی ضربت لگائی جس سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے دہن اقدس سے خون بہنے لگا عبداللہ ابن ابی شہاب نے زمین سے ایک پتھراٹھاکر آپ کے فرق اطہر پر مارا(۱) حضرت امیر المؤمنینعليه‌السلام پیغمبر کی شجاعت اور صبر کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

جب جنگ اپنے شباب پر ہوتی تھی اوردونوں طرف سے گھمسان کارن پڑتا تھا تو ہم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پناہ ڈھونڈھتے ہوئے پہنچتے تھے دشمنوں سے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جتنا قریب ہوتے تھے اتنا قریب کوئی بھی نہیں ہوتا تھا _(۱)

میدان جنگ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صبر کی بناپر نصرت الہی سایہ فگن رہتی تھی_قرآن مجید میں ارشاد ہوتاہے:

'' ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا ماتین'' (۱)

اگر تم میں سے بیس افراد ایسے ہوں جو صبر کے زیور سے آراستہ ہوں تو دو سو افراد پر غالب آسکتے ہیں _

___________________

۱) ( زندگانی چہاردہ معصوم ص ۱۱۹)_

۲) ( میزان الحکم ج ۹ ص ۶۶۲)_

۳) (انفال۶۵) _

۱۱۵

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی استقامت

استقامت اور پائیداری پسندیدہ صفات ہیں پیغمبر ختمی مرتبت، میں یہ صفتیں بدرجہ اتم موجود تھیں اپنی سخت ذمہ داریوں کو پورا کرنے (شرک او ر کفر کا خاتمہ) اور معاشرہ میں آئین توحید کو راءج کرنے کے سلسلہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خدا کی طرف سے ثابت قدم رہنے کا حکم دیا گیا تھا_

آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ثابت قدم اور اس حکم کی پابندی کا یہ حال تھا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اندر بڑھاپے کے آثار بہت جلد نظر آنے لگے جب کسی نے آپ سے سوال کیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اتنی جلدی کیسے بوڑھے ہوگئے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

''شیبتنی هود والواقعه ...''

مجھے سورہ ہود اور واقعہ نے بوڑھا کردیا _

ابن عباس بیان فرماتے ہیں( فاستقم کما امرت ) (۱) سے زیادہ سخت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر کسی آیت کا نزول نہیں تھا _

جو سختیاں تبلیغ کی راہ میں انبیاء کرام برداشت کرتے رہے ہیں سورہ ہود کے کچھ مضامین میں ان سختیوں کو بیان کیا گیا ہے اور سورہ واقعہ میں مرنے کے بعد کی دشواریوں کا ذکر ہے اسی لیے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان دونوں سوروں کے مضامین پر بہت زیادہ غور فرمایا کرتے تھے_

___________________

۱) (المیزان ج ۱۱ ص ۶۶)_

۱۱۶

کفار و مشرکین کی سازش، دھمکی اور لالچ کے سامنے جس ثبات قدم کا آپ نے مظاہرہ فرمایا، مندرہ ذیل سطروں میں اس کو بیان کیا جارہاہے_

کفار و مشرکین سے عدم موافقت

مکہ کے کفار و مشرکین نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے موافقت کی بہت کوشش کی لیکن ان کی انتھک کوشش کے باوجود رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کوئی ایسا عمل نہیں انجام دیا جس سے آپ کی کمزوری ثابت ہو، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عقاءد کا برملا اظہار کیا اور بتوں یا بت پرستوں کے خلاف جنگ سے کبھی بھی منہ نہیں موڑا_قرآن کریم نے کفار و مشرکین کے نظریہ کو پیش کرتے ہوئے اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے کہا :

( فلا تطع المکذبین و ذوالوتدهن فیدهنون ) (۱)

آپ جھٹلانے والوں کا کہنا نہ مانیں وہ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر آپ نرم پڑجائیں تو یہ بھی نرم ہوجائیں_

مشرکین کی ساز باز اور موافقت کی کوشش کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعہ سے لگایا جاسکتاہے_

___________________

۱) (القلم ۸ _ ۹)_

۱۱۷

قبیلہ '' ثقیف'' کا ایک گروہ معاہدہ کرنے کیلئے مدینہ سے مکہ آیا ان لوگوں نے اسلام قبول کرنے کی جو شراءط رکھیں تو اس میں ایک بات یہ بھی تھی کہ ان سے نماز معاف کردی جائے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کی اس خواہش کو رد کردیا اور فرمایا'' جس دین میں نماز نہ ہو وہ بیکار ہے'' نیز انہوں نے یہ کہا کہ ان کا بتخانہ تین سال تک برقرار رکھا جائے اور انکے اس بڑے بت کی پرستش کی چھوٹ دی جائے جسکا نام (لات) ہے _ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ درخواست رد کردی ،آخر میںانہوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم کو خود ہمارے ہی ہاتھوں سے بتوں کے توڑنے کا حکم نہ دیا جائےپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ شرط منظور کرلی اور کچھ لوگوں کو حکم دیا کہ تم ان بتوں کو توڑ دو _(۱)

دھمکی اور لالچ

دھمکی اور لالچ یہ ایسے خوفناک اور ہوس انگیزہتھیار تھے جسے کفار نے انبیاء کرام خصوصاً پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو روکنے کیلئے استعمال کئے_مشرکین مکہ نے جب یہ دیکھ لیا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے عقاءد پر ثابت قدم رہیں گے اور اس کے برملا اظہار سے باز نہیں آئیں گے تو ان لوگوں نے آپ کو ڈرانے اور لالچ دینے کی پلاننگ تیار کی اس غرض سے وہ ایک وفد کی صورت میں جناب ابوطالبعليه‌السلام کی خدمت میں پہنچے اور کہا '' آپ کا بھتیجا،ہمارے

___________________

۱) ( فروغ ابدیت ج۲ ص ۷۹۷ ،۷۹۹)_

۱۱۸

خداؤں کو برا کہتاہے ہمارے قانون کی برائی کرتاہے ہمارے افکار و عقاءد کا مذاق اڑاتا اور ہمارے آباء اور اجداد کو گمراہ سمجھتاہے لہذا تو آپ ان کو اس کام سے روک دیجئے یا انھیں ہمارے سپرد کردیجئے اور ان کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لیجئے_(۱)

بعض تاریخوں میں یہ بھی لکھاہے کہ اگر ان کو مال چاہیئے تو ہم مال دینگے اگر کوئی خوبصورت عورت چاہئے تو ہم اس کے لئے حاضر ہیں_ جب ابوطالب نے یہ پیغام رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

'' والله لو وضعوا الشمس فی یمینی والقمر فی یساری علی ان اترک هذاالامر حتی یظهره الله او اهلک فیه ، ما ترکته'' (۲)

اگر وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکر رکھدیں اور کہیں کہ اس کام سے باز آجاوں تو خدا کی قسم میں اس سے باز نہیں آؤنگا، یہاں تک کہ خدا اس دین کو غالب کردے یا میں اس راہ میں قتل کردیا جاؤں_

ابوجہل کی دھمکی

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شدیدترین دشمنوں میں سے ایک ابوجہل بھی تھا اس نے ایک خط کے ذریعہ دھمکی دیتے ہوئے کہا '' تمہارے خیالات نے تمہارے لیے سرزمین مکہ کو تنگ

___________________

۱) (فروغ ابدیت ص ۷۹۷، ۷۹۹)_

۲) (سیرہ ابن ہشام ج۱ از ص ۲۸۳ تا ۲۸۵)_

۱۱۹

کردیا اور تم دربدر ہو کر مدینہ پہنچے جب تک تمہارے ذہن و دماغ میں ایسے خیالات پرورش پاتے رہیں گے اس وقت تک تم اسی طرح دربدر رہوگے اور یہ خیالات تمہیں غلط کاموں پر آمادہ کرتے رہیں گے یہاں تک کہ تم مدینہ والوں کو بھی فاسد کرڈالوگے اور اس آگ میں مدینہ والے بھی جل جائیں گے جس کے شعلے تم نے بھڑکارکھے ہیں ، میری آنکھوں کے سامنے تمہارا بس یہ نتیجہ ہے کہ قریش تمہارے برپا کئے ہوئے فتنوں کو دبانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے اس کے علاوہ یہ بھی ہوگا کہ کفار مدینہ اور وہ لوگ ان کی مدد کریں گے جن کے دل تمہاری دشمنی سے لبریز ہونگے اگر چہ آج وہ تم سے ڈرکر تمہاری مدد اور پشت پناہی کررہے ہیں لیکن جب وہ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیںگے کہ تمہارے ہلاک ہونے سے وہ بھی ہلا ک ہوجائیں گے اورا نکے بال بچے تمہارے فقر اور مجبوری سے لاچار اور فقیر ہوجائیں گے تو وہ تمہاری مدد سے ہاتھ اٹھالیں گے_ وہ لوگ یہ جانتے ہیں کہ دشمن تم پر فتحیاب ہونے کے بعد زبردستی ان کی سرزمین میں گھس آئیں گے اور پھر وہ دشمن ، تمہارے دوست اور دشمن میں کوئی امتیاز نہیں کریں گے اور ان سب کو تباہ و برباد کرڈالیں گے ان کی عورتوں اور بچوں کو اسیر بنالیںگے _ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس نے تم کو یہ دھمکی دی ہے وہ حملہ بھی کرسکتاہے اور جس نے بات بڑے واضح انداز میں کہی ہے اس نے پیغام پہچا نے میں کوتاہی نہیں کی (معاذاللہ)

یہ خط آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب پاس اس وقت پہونچا جب بنی اسرائیل کے یہودی مدینہ کے باہر جمع تھے، اس لئے کہ ابوجہل نے اپنے قاصد کو یہ حکم دیا تھا کہ یہ خط

۱۲۰